مرتے دم تک
تحریر: ماہر جی
دوسری قسط
اوراسے کچھ بھی نہ
بتایالیکن اس کے اندرمیجر کیلئے نفرت اور بھی بڑھ چکی تھی۔۔۔وہ تو اب اس کی شکل
بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔رات کو اپنے بیڈ روم میں آ کربستر پر لیٹے تواپنی
عادت کے مطابق اشرف نے صبا کو اپنی بانہوں میں کھینچا اوراسے کس کرنے لگا۔۔۔صبا کا
آج صبح کے واقعہ کی وجہ سےبالکل بھی موڈ نہیں بن رہا تھاکچھ بھی کرنے کالیکن پھر
بھی اس نے اپنے شوہر کی کسنگ کا جواب دیالیکن اشرف کی چھیڑ چھاڑاس کے جسم کے ساتھ
بڑھتی ہی جا رہی تھی۔۔۔صبا اسے روکناچاہتی تھی او ر اسی لیےتھوڑی تھوڑی مزاحمت کر
رہی تھی اوراسے کچھ نہ کرنے کو بول بھی رہی تھی۔۔۔لیکن اس سب کو وہ اپنی بیوی کی
ادائیں ہی سمجھ رہا تھا۔۔ صبا کے خوبصورت مموں کودباتے ہوئےاس نےاپنا ہاتھ صبا
کےنائٹ سوٹ کے پجامے میں ڈالااور اس کی پھدی کو سہلانے لگا۔۔۔جیسے ہی اشرف نےاپنی
وائف کی چوت کوچھواتوصبا کےجسم میں بھی جیسے بجلی دوڑنے لگی۔۔۔اس کا جسم بھی گرم
ہونے لگا۔۔۔صبا کی چوت ہی اس کا ویک پوائنٹ تھی اور یہ اشرف کو بھی پتا لگ چکا تھا
اسی لیے صبا کو گرم اورچدائی کیلئے کرنے کیلئے وہ ہمیشہ اس کی پھدی کو چھیڑتا
تھااور جیسے ہی اپنی انگلی اس کی چوت میں ڈالتا تھا۔
تو صباتو جیسے بالکل ہی
بے بس ہو جاتی تھی اور پھر اپنے تمام ہتھیار ڈال کر خود کواشرف کے سپرد کر دیتی
تھی اورآج بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا تھا۔۔۔جیسے ہی اشرف کی انگلی صبا کی چوت کے اندر
گئی اور اس نے اسے اندر سے چھیڑنا شروع کیاتو صبا کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور اس
کے منہ سے سسکاریاں نکلنے لگیں۔۔۔صبا ے اپنا جسم اشرف کے ساتھ چپکا لیااور اب خود
بھی اسےکس کرتے ہوئےاس کا ساتھ دینے لگی۔۔۔اشرف بھی صبا کی نائٹ شرٹ کے اوپر سے ہی
اس کےمموں کو سہلانے لگاجو کہ برا کے بغیر ہی تھے۔۔۔دھیرے دھیرے اشرف نے صبا کے
پجامے کو نیچے کو سرکایا اور اس کی چوت کوننگا کر لیاپھر اپنا لن اپنے پجامے سے
نکال کر تھوڑا آگے کوہو کر اپنا لن صبا کی چوت پر رگڑنے لگا۔۔۔صبا نے بھی بے چین
ہو کر اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر اشرف کے اوپر اکھی اور اپنی چوت کو اور بھی اشرف کےلن
پر چڑھا دیاجیسے وہ اسے اپنے اندر لینا چاہتی ہو۔۔۔نیچے کو ہاتھ لے جا کر صبا نے
اپنے شوہر کا لن پکڑا اورپھر اسے اپنی چوت کے گیلے سوراخ پررگڑنے لگی۔۔۔ذرا سا
جھٹکا لگایااشرف نے تو اس کا تھوڑا سا لن صبا کی چوت میں چلا گیا۔۔۔سس سس س۔۔۔کی
سسکیوں کی آوازکے ساتھ ہی صبا پوری طرح سے اشرف کے ساتھ چپک گئی۔۔۔اشرف نے ایک
جھٹکا دیااور صبا کو اپنے اوپر کھینچ لیااور جیسے ہی صبا اشرف کے اوپر آئی تو اس
نے اشرف کا لن اپنے ہاتھ میں لیااور خوداسے اپنی چوت پرٹِکا کرنیچے کو بیٹھتے
ہوئےاس کا لن اپنی چوت کے اندرلے لیااور جھک کر اپنے ہونٹ اپنے شوہر کے ہونٹوں پر
رکھ دیے۔۔۔اشرف نے اپنی بیوی کی خوبصورت گانڈ کواپنے ہاتھوں میں لیا
اور اسےآہستہ آہستہ
سہلاتے ہوئےاپنی کمر کواوپر کی طرف اچھالتے ہوئےاپنا لن صبا کی چوت کے اندر باہر
کرنے لگا۔۔۔صبا کا بھی مزے سے برا حال ہو رہا تھا۔۔۔چند گھسوں کے ساتھ ہی اس کی
پھدی نے پانی چھوڑ دیا لیکن وہ اپنے شوہر کا پانی نکلوانے کیلئے لگی رہی۔۔۔صبا زور
زور سے اوپر نیچے کو ہو ہی تھی تا کہ اس کے شوہرکے لن کا پانی بھی نکل آئے اور پھر
کچھ دیرمیں وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو گئی اور اس کےشوہر کے لن سے پانی نکل کر اس
کی پھدی کے اندر ہی گرنے لگا۔۔۔اشرف کے لن کے گرم گرم پانی نے اس کی چوت کےاندر
ایسا مزہ دیا کہ اس کی چوت نے ایک بار پھر پانی چھوڑ دیا۔۔۔اور وہ نڈھال ہو کراشرف
کے اوپر گر پڑی۔۔۔کچھ ہی دیر میں دونوں کو ہی نہیں پتہ چلاکہ کب ان کی آنکھ لگ
گئی۔۔۔
اس دن کے کچھ روز بعد
ہی وہ رات کا واقعہ ہوا جس میں صبا کو جا کرمیجر سے اس کی ٹیپ بند کروانی پڑی اور
اس نے اس رات بھی اسے خوب ذلیل کیا۔۔۔ویسے تو یہ اکثر ہی میجر کا معمول تھا کہ وہ
بہت ہی اونچی آواز میں اپنے کمرےمیں میوزک چلاتا اور دوسروں کو تنگ کرتا تھا۔۔ دو
تین بار دن کے وقت بھی صبا یا اشرف نے جا کراس کو کہا تھا میوزک کی آواز ہلکی کرنے
کیلئے جب ان سے برداشت نہ ہو پایاتھا تو۔۔۔۔
ایک روز صبا نے اشرف کے
جانے کے بعد واشنگ مشین لگا لی اور کپڑے دھونے لگی۔۔۔کچھ کپڑے دھونے کے بعد وہ
انہیں لے کر باہر بالکنی میں خشک ہونے کیلئے ڈالنے گئی۔۔۔
صبا اپنے کپڑے تار پر
لٹکا ہی رہی تھی کہ اسے میجر کے فلیٹ سے کچھ عجیب عجیب آوازیں سنائی دینے
لگیں۔۔۔جیسے ادھر ایک مرد اور ایک عورت موجود ہوں اورچدائی کر رہے ہوں۔۔۔ صبا پہلے
تو بہت حیران ہوئی اور پھر اسے تجسس بھی ہوا کہ میجر تو اکیلا ہی رہتا ہےتو پھر یہ
عورت کی آواز کہاں سے آ رہی ہے۔۔۔وہیں پر بالکنی میں پڑی ہوئی کرسی صبا نےدیوار کے
ساتھ لگائی اور اس کے اوپر چڑھ کر دیوار کی دوسری طرف میجرکے فلیٹ کے اندر جھانکنے
لگی۔۔ خوش قسمتی سےاس کی بالکنی کی کھڑکی بھی کھلی ہوئی تھی اور سامنے ہی اس کی
نظر میجر اور ایک عورت پر پڑی۔۔۔جیسے ہی ان پر نظر پڑی توایک بار تو صباجھٹکے سے
نیچے ہو گئی۔۔۔اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔۔دوبارہ سے صبا تھوڑا تھوڑا اوپر
کو ہوئی اور پھر اندر دیکھنے لگی تو اب اسے اندر کا منظر صاف نظر آنے لگا۔۔۔اُدھر
سیٹنگ روم میں ہی صوفے پر میجر ایک عورت کو چود رہا تھا۔۔۔صبا نے اس عورت کو دیکھا
تو اچھل پڑی وہ تو منصور صاحب کے گھر کام کرنے کیلئے آنے والی عورت تھی۔۔۔جو کہ
بلڈنگ کے کچھ اور فلیٹس پر بھی کام کرتی تھی۔۔۔
25-26 سال کی
سانولی رنگت لیکن سیکسی بدن والی جوان عورت بانوتھی اس کے چہرے کے نقش بھی اچھے
تھے اور اٹریکٹوتھے۔۔۔اگر اچھے کپڑے پہنے تو کبھی بھی کام کرنے والی ماسی نہ
لگے۔۔۔اس کا شوہر اسی بلدنگ میں چوکیدار کا کام کرتا تھا۔۔۔تقریباً سارا دن ہی اس
کی ڈیوٹی ہوتی تھی اور رات کو مین گیٹ لاک کر کے گیٹ کے پاس دیے ہوئے فلیٹ میں ہی
اپنی اسی
بیوی اور ایک چھے ماہ
کے بچے کے ساتھ رہتا تھا جو کہ اس وقت میجر صاحب سے چد رہی تھی۔ وہ صوفے پر جھکی
ہوئی تھی اور اس کے جسم پر کوئی بھی لباس نہیں تھااور اس کے پیچھے ننگا کھڑا
میجراس کی پھدی میں اپنا لن ڈال کر اسے چود رہا تھا۔۔۔
بانو کا شوہر دینو ایک
35 سال کاآدمی تھاجو کہ ایک مضبوط اور طاقتور جسم کا آدمی تھا۔۔۔رنگ اس کا بانو کے
مقابلےمیں کافی کالا تھا۔۔۔وہ ہمیشہ ادب کے ساتھ سب سے پیش آتا تھا اور اشرف کی
بھی کافی ریسپیکٹ کرتا تھا۔۔۔لیکن کبھی بھی صبا نے اس کے ساتھ بات نہیں کی تھی
کیونکہ وہ ہمیشہ اس کے سامنے برقعے اور نقاب میں آئی تھی اور جب بھی اشرف اس سے
کچھ بات چیت کیلئے روکتا تو وہ خاموشی سے آگے بڑھ جاتی تھی کیونکہ اسے بھی ایسے ہی
کسی پرائے مرد کےسامنے کھڑے ہونے اور بات چیت کرنے کوئی شوق نہیں تھا اور ویسے بھی
اشرف اس بات کو برا سمجھتا تھا اسی لیے اسے برقعہ پہنا کر نقاب بھی کرواتا تھا۔۔۔
صبا کی طرف میھر کی
پیٹھ تھی اس لیے اسے صرف اس کا پیچھے کا جسم کمر اور گانڈ ہی نظر آرہی تھی۔۔۔ننگے
جسم سے لگ رہا تھا کہ اس کا جسم ابھی بھی کافی طاقتور اور مضبوط ہے۔۔۔صبا کا دل
زورزور سے دھڑک رہا تھا اس کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ وہ کسی دوسرے مرد اور عورت
کو اس طرح اپنی آنکھوں کے سامنے سیکس کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔۔۔اسے ڈر بھی لگ رہا
تھا اور ان پر غصہ بھی آ رہا تھا۔۔۔اچانک سے اس کے دماغ میں ایک خیال آیا اور وہ
جلدی
سے اندر کمرے میں بھاگی
اوراپنا ڈیجیٹل موبائل لے کر آئی اور دوبارہ سے کرسی پر چڑھ کر اپنے موبائل کے
کیمرے سے ان کی مووی بنانے لگی۔۔۔تھوڑی سی ان کی مووی بنا کر وہ پیچھے ہٹ گئی اور
واپس اپنے کمرے میں بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی۔۔۔اس کی سانسیں بہت ہی بے ترتیب چل رہی
تھیں۔۔۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھاکہ وہ کیا کرے۔۔۔ٹھنڈے جوس کا گلاس پیتے ہوئے
اس کے دماغ میں ایک خیال آیاکہ کیوں نہ میجر کےاس راز کو اسے ہمیشہ کیلئے چپ
کروانے کیلئے استعمال کیا جائے تاکہ وہ آئندہ کوئی بھی بدتمیزی نہ کر سکےان کے
ساتھ اور وہ آرام سے اس فلیٹ میں رہ سکیں۔۔۔یہ خیال آتے ہی صبا کے چہرے پر ایک
مطمئن مسکراہٹ پھیل گئی اور کچھ ہی دیر کے بعد وہ اٹھی اور اپنے فلیٹ کا دروازہ
تھوڑا سا کھول کر باہر دیکھنے لگی کہ کب وہ دونوں باہر آتے ہیں۔۔۔تھوڑی دیر کے بعد
میجر کے فلیٹ کا دروازہ کھلااور اس نے باہر نکل کر جھانکا لیکن کسی کو بھی کوری
ڈور میں نہ پا کر وہ اندر گیااور پھر اس نے بانو کو اپنے فلیٹ سے باہر نکالا اور
جلدی سے دروازہ بند کر لیا۔۔۔جیسے ہی بانو باہر نکلی تو ساتھ ہی صبا نےبھی اپنے
فلیٹ کا دروازہ کھول دیا تاکہ وہ بانو کو رنگے ہاتھوں پکڑ سکے۔۔۔ہوا بھی یہی جیسے
ہی بانو نے صبا کو دیکھا تو وہ گھبرا گئی اور اس کے چہرے کا رنگ ہی اڑ گیاکہ وہ
کیسے باہر آگئی اور اس نے تو اسے اس کے گھرسے نکلتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔۔۔صبا نے اس
کی طرف دیکھااور معنی خیز نظروں سے مسکرانے لگی۔۔۔بانو خود ہی بول پڑی،
بانو؛ جی جی وہ کچھ کام
کیلئےبلایا تھا صاحب نے مجھے۔۔۔
صبا؛ ہممم ۔۔۔تو اچھے
سے کام کر آئی ہو نہ میجر صاحب کا۔۔۔؟؟
صبا مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔
بانو گھبرا کر اور شرمندگی سے سر جھکاتےہوئے۔۔۔
جی جی کر دیا ۔۔۔۔
صبا ؛ ارے بانو تم تو
ایسے گھبرا رہی ہو جیسے کوئی غلط کام کر کے آ رہی ہو۔۔۔۔گھبراؤ نہیں میں کسی کو
نہیں بتاؤں گی کہ تم ان کے گھر کام کرنے گئی تھی۔۔۔اور نہ ہی تمہارے شوہر کو بتاؤں
گی۔۔۔
صباء؛ ہنسنے لگی۔۔۔بانو
شرمندہ شرمندہ نیچے اتر گئی اور صباء واپس فلیٹ میں آکر دوبارہ کپڑے دھونے لگی اور
جلدی سے دھو کر باہر بالکنی میں ڈال دیے اور پھر کھانا بنانے لگی۔۔۔کھانا بنا کر
صباء نے فریش ہو کر کھانا کھایا اور پھر بیڈروم میں آکر سو گئی۔۔۔کیونکہ اشرف نے
تو ابھی کافی دیر سے آنا تھا۔۔۔صباء سو رہی تھی کہ فلیٹ کے دروازے پر نوک سے اس کی
آنکھ کھلی۔۔
اس نے اٹھ کر جلدی سے
گھڑی دیکھی تو ابھی 6ہی بجے ہوئے تھے۔۔۔اشرف کے آنے میں تو ابھی کافی وقت
تھا۔۔۔صباء جلدی سے اٹھی اور جا کر اپنا دروازہ کھولا تو سامنے میجر کھڑا تھا۔۔۔
صباء اسے دیکھتے ہی حکارت سے بولی،
کیا بات سے کیوں آئے ہو
یہاں پر۔۔۔؟؟
میجر زور زور سے ہنسنے
لگا اور پھر اپنا پیچھے کو کیا ہوا ہاتھ آگے لایا اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ایک
ریڈ کلرکی برا صباء کے سامنے لہراتے ہوئے بولا،
ایسے نہیں آیا یہ
تمہاری برامیری بالکنی میں گری پڑی تھی وہ دینے آیا ہوں۔۔۔
صباء کے چہرے کا رنگ
ایکدم شرمندگی سے بھر گیا۔۔۔
میجر ؛ اگر میں تمہارے
شوہر کے آنے پر دینے آتا یہ برا تو اس نے تو یہی سمجھنا تھا نہ کہ تم میرے فلیٹ پر
آکر خود اتار آئی ہو اور آتے ہوئے وہیں بھول آئی ہو۔۔۔کہو تو واپس لے جاؤں اور
تمہارے اس ہیجڑے شوہر کے سامنے لا دوں۔۔۔
صباء نے جلدی سے اس کے
ہاتھ سے اپنی برا چھیننے کی کوشش کی لیکن اس نے فوراً ہی اسے پیچھے کھینچ لیااور
گھناؤنی ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔۔۔
ارے اس کا نمبر تو
دیکھنے دو مجھے۔۔۔
پھر میجر نے صباء کی
برا پر لگا ہوا ٹیگ پڑھنا شروع کیا اور صباء کے مموں کی طرف دیکھتے ہوئے اونچی
آواز میں،
36 B ۔۔۔ ہممم ۔۔۔ تو یہ ہے تمہارے ان مموں کا
سائز۔۔۔؟؟ اچھا ہے۔۔۔
صباء گھبرا کر ادھر
ادھر دیکھنے لگی کہ کہیں کسی اور نے تو نہیں سنی اس کمینے کی بات لیکن خوش قسمتی
سے وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔پھر میجر نے وہ برا اپنی مٹھی میں لے کر اپنے چہرے
پر پھیرنا شروع کی اور پھر صباءکی برا اس کی طرف اچھالی اور پیچھے مڑ گیا اب صباء
سے بھی نہ رہا گیا اور وہ بھی غصے میں پیچھے سے پکاری،
صباء ؛ میں کہے دے رہی
ہوں کہ اپنی گندی حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ تمہارے کالے کرتوت سب کو دکھا دوں گی۔۔۔
صباء کی بات سن کر میجر
مڑا اور غصے سے بولا۔۔۔
میجر ؛ کیا بکواس کر
رہی ہو۔۔۔؟؟
صباء نفرت سے اس کی طرف
دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔
بکواس نہیں کر رہی سب
کچھ دیکھ لیا ہے میں نے جو تم اور بانو کر رہے تھے صبح کو۔۔۔
میجر کا رنگ اڑ گیا اب
تھوڑی آہستہ آواز میں بولا۔۔۔
ک ۔۔۔کی۔۔۔کیا۔۔۔ثبوت
ہے تمہارے پاس اپنی اس بات کا۔۔۔
صباء نے بھی محسوس کر
لیا کہ اس کا تیرٹھیک نشانے پر لگا ہے اور اس کی ترکیب کامیاب ہو رہی ہے،تو نفرت
سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔
سب کچھ ریکارڈ کر لیا
ہے میں نے اپنے موبائل میں۔۔۔
صباء نے یہ کہہ کر اپنا
موبائل کھولا اور اس میں ریکارڈ کلپ چلا دیا۔۔۔
جیسے ہی میجر نے وہ کلپ
دیکھا تو وہ پریشان ہو گیااور جلدی سے اس سے موبائل چھیننے کی کوشش کی لیکن صباء
نےپیچھے چھپا لیا اور بولی۔
خبردار جو میرے پاس آئے
تو۔۔۔اور آئندہ اپنی حدود میں رہنا ۔۔۔میرے ساتھ یا میرے شوہرکے ساتھ آئندہ کوئی
ایسی ویسی بات کی تو پھر دیکھنا میں تمہارا کیا حشر کرتی ہوں۔۔۔
اس سے پہلے کہ میجر کچھ
اور کہتا یا کرتاکہ سامنے کے فلیٹ سے منصور صاحب کی بیگم نکل آئی تو میجر نے تماشہ
نہ لگانے کا ٹھیک فیصلہ کرتے ہوئےنیچے کی سیڑھیوں کی طرف اپنے قدم بڑھا دیے۔۔۔صباء
بھی مسکراتی ہوئی اندر آگئی اور اپنی برا کو جا کر دوبارہ گندے کپڑوں کی باسکٹ میں
ڈال دیادھونے کیلئے۔۔۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ جس شخص سے وہ نفرت کرتی ہےاس کے ہاتھوں
سے چھوا ہوا کوئی بھی لباس اپنے جسم پر پہنےاور یہ تو پھراس کی برا تھی جسے اس کے
مموں کے اوپر لپٹنا تھا۔۔۔اسے اس بات پر بھی بہت غصہ آرہا تھا کہ کیوں اس کی
براہوا سے اڑ
کر اس کمینے کے فلیٹ
میں چلی گئی تھی۔۔۔اب صباء بے حد خوش تھی کیونکہ کافی دن سے میجرنے ان لوگوں کے
ساتھ کوئی بھی بد تمیزی نہیں کی تھی۔۔۔ایک روز ایسا ہوا کہ صبح اشرف کو سی آف کہنے
کیلئے صباء اپنے فلیٹ کے دروازے پرکھڑی تھی تو ساتھ ہی نیچے سے جوگنگ کر کے میجر
واپس آیا تو اس کی نظر جب صباء پر پڑی تو اس نے خاموشی سے چہرہ دوسری طرف کر
لیا۔۔۔اشرف نیچے کو نکل گیا اور ابھی صباءگیٹ پر ہی کھڑی تھی تو میجر اپنے فلیٹ کا
تالاکھولنے لگا۔۔۔صباء کی طرف اس نے دوبارہ دیکھا تو صباء نے بھی اس کی طرف ایک بے
حد حقارت آمیز مسکراہٹ سے دیکھا جیسے اسے اس کی حیثیت جتلا رہی ہو اور پھر اپنے
ہاتھ میں موجوداپنے موبائل فون اس کو دکھاتے ہوئے ہلایا اور پھر نیچے فرش پر تھوک
کر اندر چلی گئی۔ دل ہی دل میں وہ بہت خوش تھی کہ آخر اس کمینے شخص سے جان چھوٹ
گئی ہےان کی۔۔۔ دوسری طرف میجر صاحب بھی کچھ آرام میں نہیں تھے۔۔۔ان کو عورتوں سے
کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی وہ تو بس ایسے ہی ٹائم پاس کرنے کیلئے انہوں نے بانو کے
ساتھ تعلقات رکھے ہوئے تھےاور اب یہ تعلقات کی خبر بھی لیک ہونےکے قریب تھی تو وہ
چاہتے تھے کہ کسی بھی طرح وہ اس کلپ کو حاصل کر کے ضائع کر دے اور ایک بار پھر خود
کو محفوظ کر لے۔۔۔ اسی کیلئے وہ مسلسل پلانگ کر رہا تھا۔۔۔
ایک صبح اشرف کے جانے
کے بعد حسب معمول صباء گھر پر اکیلی تھی اور اپنا تھوڑا کام سمیٹ کر
اپنےلیے چائے بنائی اور
اپنے بیڈروم میں آگئی اور ٹی وی دیکھتے ہوئے چائے پینے لگی۔۔۔ تھوڑی ہی دیر گزری
کہ اسے باہرسیٹگ روم میں کچھ عجیب سی آواز سنائی دی۔۔۔ صبا نے ٹی وی چلتا ہوا
چھوڑا اور دبے قدموں سے باہر کو آئی اور بیڈروم کا دروازہ تھوڑا سا کھول کر باہر
جھانکا تو سب کچھ اسے بالکل ٹھیک ٹھاک لگا۔۔۔ صبا کی گھبراہٹ ختم ہوئی اور اپنے
کمرے سے باہر نکل آئی۔۔۔اس کی نظر بالکنی کے دروازے کی ظرف گئی جو کہ کھلا ہوا
تھا۔۔۔صبا حیران ہوئی کہ یہ کیسے کھلا رہ گیا۔۔۔لگتا ہے کہ کوئی بلی نہ آئی ہو
دوسری طرف سے کہیں۔۔۔ یہ دیکھنے کیلئے وہ بالکنی کے دروازے کی طرف بڑھی اور ابھی
باہر دیکھ ہی رہی تھی کہ کسی نے پیچھے کی طرف سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور واپس
سیٹنگ روم میں کھینچ لیا۔۔۔اس شخص نے پیچھے سے صبا کا منہ پکڑ کر پیچھے کھینچا اور
گھسیٹتا ہوا لا کر اسے نیچے کارپٹ پر پھینک دیا اور سیدھا کرکےاس کے پیٹ کے اوپر
چڑھ کر بیٹھ گیا۔۔۔اب سیدھی ہونے پرصبا نے اس کا چہرہ دیکھاتو اس کی آنکھیں پھٹی
کی پھٹی رہ گئی خوف کی وجہ سے کیونکہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ اس کے پڑوسی میجر صاحب
تھےجوکہ دونوں فلائٹس کے درمیان کی دیوار کود کر اس کے فلیٹ میں آگئے تھے۔ میجر نے
اپنے مضبوط ہاتھوں میں صبا کا گلا دبایا ہوا تھااور اس کے اوپر چڑھ کر بیٹھا ہوا
تھا۔۔۔ اس کا گلا دباتے ہوئے میجر غصے سے بولا،
میجر ؛ بہت بکواس کرتی
تھی نہ کہ میرا پول کھول دے گیسب کے سامنے بتا اب ایک ہی جھٹکے
میں تیرا گلا دبا کر
یہیں ماردوں تم کو۔۔۔
صبا کی تو خوف اور
گھبراہٹ سے سیٹی ہی گم ہو گئی تھی،
م م م م م م۔۔۔ی ی ی ی
ی۔۔۔ ج ج ج ج ج ج۔۔۔ پلیز ز ز ز ز ز۔۔۔ چھوڑ ڑ ڑ ڑ ڑ ۔۔ دو و و و و۔۔۔ مجھے ے ے ے
ے۔۔۔
میجر نے تھوڑا سا اس کا
گلا اور دبایا اور اس کے چہرے کے قریب ہو کر بولا،
چھوڑ دوں گا تجھے
حرامزادی لیکن پہلے بتا کہ وہ تصویریں کہاں ہیں۔۔۔
صبا ؛ دیتی ی ی ی ی
ی۔۔۔ ہوں ں ں ں ں۔۔۔ دیتی ی ی ی ی ی۔۔۔ ہوں ں ں ں ں۔ میرا ا ا ا ا ۔۔۔سانس س س س س
س س۔۔۔
صبا کا نازک سا جسم اس
میجر کے مظبوط اور بھاری بھرکم جسم کے نیچے دبا ہوا تھا۔۔۔اس نے کسی قسم کی بھی
کوئی غلط حرکت نہیں کی تھی اب تک صبا کے ساتھ۔۔۔ نہ کہیں سے اس کے جسم کو چھوا تھا
اور نہ کچھ اور کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔یہ بات صبا کیلئےعجیب لیکن خوشی کی تھی کہ
اس کی عزت محفوظ ہے۔۔۔میجر نے اس کا گلا چھوڑا اور بولا۔
چل جلدی سے اپنا موبائل
نکال کر دے ورنہ یہاں آج تیری لاش پڑی ہو گی تیرے گانڈو شوہر کے آنے تک۔۔۔
یہ کہ کر میجر اس کے
اوپر سے اٹھا تو صبا کا سانس بحال ہوا اور وہ لڑ کھڑاتی ہوئی آگے بڑھی اور بیڈ ورم
کی طرف بڑھی۔۔۔میجر بھی اس کے پیچھے پیچھے اندر کی طرف آیا۔۔۔اندر بیڈ کے اوپر پڑا
ہوا موبائل اس نے اٹھا یا ہی تھاکہ میجر نے اس کے ہاتھ سے اسے جھپٹ لیا اور اسے آن
کر کے اس میں سے اپناکلپ تلاش کرنے لگا۔۔۔صبا کو اس نے اب چھوڑ دیا تھا اور
صباسہمی ہوئی لیکن غصے سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔میجر اس کا موبائل لے کر اس کے
بیڈروم سے نکلااور باہر سیٹنگ روم میں آگیا۔۔۔صبا بھی غصے سے اس کے پیچھے آئی اور
بولی۔۔۔
صبا ؛ حرام زادے ،
کمینے ، کتے، تم نے ہم لوگوں کی زندگی عذاب کر کے رکھی ہوئی ہے تیری اسی خباثت سے
جان چھڑوانے کیلئے یہ سب کیا تھا میں نے۔۔۔ اب ڈلیٹ کر دے اسے لیکن میں پھر بھی
پوری بلڈنگ کو بتاؤں گی تیرے کرتوت کہ تو کیا کرتا ہے۔۔۔
میجر نے حقارت سے
مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔۔۔
میجر ؛ جا جا جو دل میں
آئے کر لے۔۔۔ اور کہ دینا اپنے اس ہیجڑے سے ہمت ہے تو آکر بات کر لے میرے سے۔۔۔ اس
گانڈو کے تو ٹٹوں میں ہی پانی نہیں ہے جو میرے سامنے کھڑا ہوگا آکر۔۔۔ میں چاہوں
تو ابھی کے ابھی تیری پھدی مار کے تیری عزت کو خاک میں ملا دوں لیکن مجھے تیرے
چہرے کی خوبصورتی سے اور تیرے جسم کےسیکس سے کچھ نہیں لینا دینا میں تو تھوکتا بھی
نہیں ہوں تیرے جیسی رنڈی پر جس کو آگے کر کے اس کا شوہر خود پیچھے چھپ جاتا
ہو۔۔۔
صبا ؛ کمینے مجھے تونے
رنڈی بولا ، رنڈی تو وہ ہے جو تیرے ساتھ تھی۔۔۔اس لیے تیری بیوی بھی تجھے چھوڑ کر
چلی گئی نہ کیونکہ تو ہے ہی رنڈیوں کے قابل۔۔۔تو نے مجھے رنڈی بولا ہے نہ دیکھنا
میں اب تجھے اور تیری اس رنڈی کوکیسے سب کے سامنے کھولتی ہوں۔۔۔
یہ کہ کر صبا اپنے فلیٹ
کے مین گیٹ کی طرف بڑھی تاکہ باہر جا کر لوگوں کو اکٹھا کر سکے لیکن چالاک میجر
نےاس کے ارادوں کو بھانپ لیا اور تیزی سے آگے بڑھ کر اسے پیچھے سے پکڑا اور
گھسیٹتا ہوا لا کر نیچے فرش پر دوبارہ گرا دیا۔۔۔
میجر ؛ کمینی باہر
لوگوں کو بتائے گی تو اچھا بتا زرا جا کے اب۔۔۔تیری یہ گندی زبان بند کرنی ہی پڑے
گی۔۔۔پھر میں دیکھتا ہوں کہ کیسے تو باہر جا کر سب کو بتاتی ہے۔۔۔میں نے سوچا تھا
کہ تجھے کچھ نہیں کہوں گا لیکن تجھے اپنی عزت پیاری نہیں ہے۔۔۔اب تو تو چدے گی
کتیا مجھ سے۔ تو نےبولا ہے نہ کہ میں رنڈیوں کے ہی قابل ہوں تو اب میں تجھےبھی
رنڈی بناؤں گا چود کر اور پھر تم اپنا حشر دیکھنا۔۔۔
صبا بری طرح سے مزاحنت
کر رہی تھی اور خود کو اس سے چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ لیکن میجر کے طاقتور
ہاتھوں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اوپر لے جا کر پکڑ لیا اور نیچے سے اس کی ایلاسٹک
والی شلوار کو نیچے کھینچنے لگا۔۔۔صبا ٹانگیں چلاتی ہوئی اور بھر پور مزاحمت کرتی
ہوئی،
دفع ہو جاؤ ہٹ جاؤ میرے
اوپر سے کمینے دور ہو جاؤچھوڑ دو مجھے کیوں میری زندگی خراب کرنے لگے ہو تم۔۔۔
اب صبا کی کیفیت رونے
والی ہو رہی تھی لیکن وہ طاقتور میجر پوری طرح سے اس پر حاوی تھا۔
وہ صبا کو گھسیٹتا اور
کھینچتا ہوا سیٹنگ روم میں پڑے ہوئے بڑے صوفے پر لے آیا اور اس پر اسی طرح لیٹ کر
اس کا پجامہ نیچے کھینچنے لگا۔۔۔
چلا چلا جتنا چلا سکتی
ہے چلا کوئی نہیں آئے گا یہاں پر۔۔۔ آج تیری چوت مار کر ہی رہوں گا۔۔
ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔
یہ کہتے ہوئے اس نے صبا
کے پجامے کو پھاڑ دیا اوراس کی ٹانگوں سے نکال دیا۔۔۔
میجر ؛ آہ ہ ہ ہ ہ ہ
۔۔۔ ہاں ں ں ں ں ں ں۔۔۔ بڑی گوری ہے کتی، رنڈی تو تو و و و و و۔۔۔
یہ کہتے ہوئے میجر نے
زور لگاتے ہوئے صبا کی دونوں ٹانگوں کو کھولا اور اپنا ہاتھ سیدھا اس کی ملائم،
خوبصورت، گلابی ، بالوں سے پاک پھدی پر رکھ دیا اور اسے اپنی مٹھی میں لے کر دبانے
لگا۔۔۔صبا کی پھدی کواپنی مٹھی میں دباتے ہوئے ہی میجر نے اپنی ایک انگلی اس کی پھدی
کے اندر ڈال دی اور تیزی کے ساتھ اسے اس کی تنگ پھدی میں گھمانے لگا۔۔۔صبا اس حملے
سے تڑپ اٹھی اور خود کو صوفے سے نیچے گرانے کی کوشش کرتی ہوئی اس کا ہاتھ اپنی
پھدی پر
سے ہٹانے کی کوشش کرنے
لگی۔۔۔اوپر سے وہ اپنا ہاتھ میجر کے ہاتھوں سے چھڑوانا چاہ رہی تھی لیکن اس میجر
نے اپنے کمانڈو ایکشن کے ساتھ اسے بالکل بے بس کر کے رکھ دیا ہوا تھا۔۔ جیسے جیسے
میجر کی انگلی اس کی پھدی میں اندر ہی اندر جا رہی تھی تو اسےاپنی پھدی میں جلن
محسوس ہو رہی تھی۔۔۔پھر میجر نے اٹھ کر اس کی ٹانگوں کے درمیان میں اپنی پوزیشن
بنائی اور اپنا پجامہ نیچے کھینچنے لگا۔۔۔صبا کا خوف کے مارے برا حال تھا اس نے تو
کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی اس طرح اس کے ساتھ ذیادتی ہوجائے گی اور اس کا ریپ
کر دیا جائے گا اس نے اب اپنے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئےاس سے معافی مانگنا شروع کر
دی،
صبا ؛ چھوڑ دو پلیز
مجھے چھوڑ دو معاف کر دومیں کسی کو کچھ نہیں کہوں گی۔۔۔پلیز ز ز ز ز ز۔ میری عزت
برباد نہ کرو۔۔۔میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گی۔۔۔پلیز ز ز ز نہیں ں ں
ں ں۔۔۔
صبا کا جسم تھر تھر
کانپنا شروع ہو گیا تھا اور اس کی مزاحمت اب جیسے بے بسی میں ڈھل چکی تھی وہ آخری کوشش
کر رہی تھی کہ یہ درندہ اسے چھوڑ دے اور جس حد تک وہ زلیل ہو چکی ہے اس سے آگے بات
نہ بڑھے۔۔۔ آج تک کسی نے اس کے جسم کے کسی حصے کو اس کے شوہر کے سوا نہیں دیکھا
تھا اور اب یہ کمینہ اور بدمعاش شخص اس کا پجامہ اتارے اس کی ٹانگوں کے درمیان
بیٹھا اس کی پھدی میں انگلی ڈالے ہوئے تھا۔۔۔
میجر ؛ نہیں کمینی میں
تجھے اب ایسے نہیں چھوڑوں گاتیری پھدی مار کر تیرا منہ بند کر دوں گاہمیشہ کیلئے
پھر دیکھتا ہوں کہ تو کیسے کسی کو بتاتی ہے۔۔۔
میجر نے اپنا پجامہ
نیچے کر کے اپنا لن باہر نکال لیاجو کہ اب تک کھڑا ہو چکا تھا۔۔۔ اس نے صبا کی
دونوں ٹانگیں اوپر کو کیں اور اپنا موٹا لن جس پر صبا کی نظر بھی نہیں پڑی تھی
ابھی تک اسے اس کی پھدی کے سوراخ پر رکھا اور ایک ہی جھٹکے میں اندر ڈال دیا۔۔۔ نہ
چاہتے ہوئے بھی میجر کی انگلی سے صبا کی پھدی تھوڑی گیلی ہو چکی تھی۔۔۔ جیسے ہی
میجر کا لن صبا کی چوت میں داخل ہوا تو صبا کے منہ سےایک تیز چیخ نکلی۔۔۔
آہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔ نہیں ں
ں ں ں ں ں ۔۔۔
اور ساتھ ہی اس کی
آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔۔۔میجر کا لن اس کی پھدی کے اندر جاتے ہی جیسےصبا کی
ساری مزاحمت ختم ہو گئی تھی۔۔۔اس کا جسم ڈھیلا پڑ گیا تھا اب وہ صرف رو وہی تھی
اور سسک رہی تھی اسے پتا تھا کہ جو ہونا تھا ہو چکا ہے۔۔۔ وہ میجر کے نیچے پڑی کسی
زندہ لاش کی طرح تھی اور صرف سسک رہی تھی۔۔۔ میجر بنا رکے اپنا لن تیزی کے ساتھ صبا
کی پھدی میں آگےپیچھے کر رہا تھا۔۔۔ وہ بھلا اسے چین سے کہاں لیٹے رہنے دے سکتا
تھا۔۔۔اس نے اب صبا کے خوبصورت اور تنے ہوئے مموں کو اس کی شرٹ کے اوپر سے اپنے
دونوں ہاتھوں میں پکڑااور ان کو دبانے لگا۔۔۔ صبا کے مموں کو اپنے ہاتھوں میں
دباتے ہوئے ہی
میجرجھکا اور آگے کو ہو
کر اپنے ہونٹ صبا کے گالوں پر رکھ دیے۔۔۔
میجر ؛ کمینی تیری پھدی
ہے تو بہت ٹائٹ وہ ہیجڑا تو خوب مزے لے رہا ہے تیری اس پھدی کے۔۔۔ آج تو مزہ آئے
گا تجھے چودنے کا۔۔۔
صبا نے غصے سے منہ
دوسری طرف پھیر لیا۔۔۔میجر نے اب صبا کی قمیض کو اوپر کرنا شروع کر دیا اور اگلے
ہی لمحے صبا کےوائیٹ بریزر میں چھپے ہوئے ممے برا سمیت اس کی آنکھوں کے سامنے
تھے۔۔۔اس ٹائیٹ برا میں اس کے مموں کی درمیانی گہری لکیر بھی بہت خوبصورت لگ رہی
تھی۔۔۔صبا نے دوبارہ سے مزاحمت کرتے ہوئے اپنی شرٹ کو نیچے کھینچناچاہا تو اس کے
ہاتھوں کوجھٹکتے ہوئے میجر نے اس کی برا کو نیچےکھینچ لیا اور اس کے مموں کو ننگا
کر دیا۔۔۔ صبا کے خوبصورت گورے گورے ممے جن کے اوپر گلابی گلابی خوبصورت نپلز تھے
بے حد خوبصورت لگ رہے تھے۔۔۔انہیں دیکھ کر تو میجر کی آنکھیں اور بھی چمک اٹھیں
اور فوراً ہی اس نے جھک کر اس کے ایک نپل کو اپنے منہ میں لے لیااور اسے چوسنے
لگا۔۔۔صبا نے اس کے سر کے اوپر اپنے ہاتھ مارتے ہوئے اسے پیچھے کرنے کی کوشش کی
لیکن نیچے سے تو اس کا لن پوری طرح سے اس کی پھدی کے اندر اتر چکا تھا جسے وہ اندر
باہر کرتے ہوئے صبا کو چود رہا تھا۔۔۔میجر نے اپنی شرٹ اتار کر نیچے پھینکی اور
پھر اپنا لن صبا کی پھدی سے نکال کرصوفے سے نیچے اترا اور اپنا پجامہ اتارنے
لگا۔۔۔ صبا نے موقع غنیمت جانتے ہوئےجلدی سے اٹھ کر
بھاگنا چاہالیکن اتنے
میں میجر نے اپنا پجامہ اتار کر اسے اس حالت میں پکڑ لیا کہ وہ اپنے گھٹنوں اور
دونوں ہاتھوں کے بل کھڑی تھی۔۔۔میجر نے اس کی کمر سے اسے پکڑا اور ایک زوردار تھپڑ
اس کی گوری گوری گانڈ پر مار کر بولا۔۔۔
کتی کی بچی میں نے کہا
ہے نہ کہ تو اب مجھ سے بچ کر نہیں نکل سکتی،پھدی تو تیری چود چکا ہوں اب کیا کرے
گی مجھ سے بچ کر۔۔۔
اسی حالت میں میجر نے
پیچھے کھڑے ہو کر اپنا لن صبا کی پھدی میں ڈال دیا اور ایک ہی جھٹکے میں پورا لن
اندر ڈال کر اسےپھر سے چودنا شروع کر دیا۔۔۔ صبا نے پھسل کر نیچے کو ہوتے ہوئے
اپنی چوت سےاس کا لن نکالنے کی ناکام کوشش کی لیکن میجر نے اسے اس کی کمر سے پکڑ
لیااور دھنا دھن اس کی پھدی میں لوڑا اندر باہر کرنے لگا۔۔۔ میجر نے پیچھے سے اس
کی قمیض کو اوپر اٹھایا اور اس کی گوری گوری کمر ننگی کر دی۔۔۔میجر نے جھک کر اس
کی گوری گوری کمر کو چومااور پھر اس کی گردن کے پاس سے اس کی شرٹ کو پکڑ کر زور
دار جھٹکا دیا اور اس کی قمیض دو حصوں میں نیچے تک پھار دی اور اس کی کمر کو بالکل
ننگا کر دیا۔۔۔اب صبا کی کمر پر صرف اس کی سفید برا کی بیلٹ اور سٹرپس تھے۔۔۔میجر
نے فوراً ہی اس کی برا کے ہک کو بھی کھول دیااور ہاتھ آگے لے جا کر اس کی برا کے
کپس کو ہٹاتے ہوئےاس کے مموں کو پکڑ لیا۔۔ اب میجر نے اس کے مموں کو پکڑ کر دھنا
دھن پیچھے سے صبا کی پھدی کو چودنا شروع کر دیا۔۔
صبا جتنی بھی مزاحمت
کررہی تھی۔۔۔ رو رہی تھی۔۔۔ چلا رہی تھی۔۔۔ معافی مانگ رہی تھی۔۔۔ لیکن یہ میجر کو
بھی پتا لگ رہا تھا کہ پھدی اس کی ضرور گیلی ہونے لگی تھی۔۔۔ میجر نے اس کی پھدی
سے لن باہر نکالا اور اسے نیچے فرش پر گھسیٹ لیا اور اس کی کمر کو اپنے سینے سے
لگا کر اس کی دونوں ٹانگوں کو کھولا اور اس کی پھدی میں اپنی انگلی ڈالکر بولا۔۔۔
رنڈی کی اولاد اوپر سے
ناٹک کر رہی ہے اور نیچے سے تیری پھدی پانی چھوڑ رہی ہے ۔۔۔
یہ کہتے ہوئے میجر نے
تیزی کے ساتھ اس کی پھدی میں انگلی اندر باہر کرنی شروع کر دی اس کی پھدی کے اندر
ہی صبا کا ویک پوائنٹ تھا اور میجر کی موٹی انگلی بری طرح سے اس کی پھدی کو گرم کر
رہی تھی۔۔۔ صبا سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کی چوت اس طرح اس کے دماغ کا ساتھ
چھوڑ دے گی۔۔۔ صبا کی مزاحمت دم توڑ چکی تھی بس اب سیٹنگ روم میں ٹی وی کی تیز
آواز کے علاوہ اس کی سسکیاں اور رونے کی آوازیں ہی گونج رہی تھیں۔۔۔میجر نے صبا کی
پھدی کے پانی سے گیلی ہو رہی اپنی انگلی باہر نکالی اور اسے اس کے چہرے کے سامنے
کرتے ہوئے بولا۔۔۔
دیکھ تیری پھدی کیسے
پانی چھوڑ رہی ہے اور تو نخرے کر رہی ہے۔۔۔ دوسروں کو کہتی ہے لیکن تو خود پکی ایک
نمبر کی رنڈی ہے۔۔۔
صبا نے اپنی آنکھیں بند
کیں اور اپنے دونوں ہاتھ اپنےچہرے پر رکھ لیے اور اپنا چہرہ چھپا لیا۔۔۔
میجر نے نیچے ہی اسے
لٹایا اور دوبارہ سے اس کی ٹانگوں کے درمیان آیا اور اس کی دونوں ٹانگوں کو کھول
کرایک بار پھر اپنا لن اس کی پھدی میں ڈال دیا۔۔۔ صبا کی دونوں ٹانگیں اوپر کر
کےاپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑیں اور اس کی پھدی کو چودنے لگااپنا موٹا لن اس کی چوت
میں اندر باہر کرتے ہوئے۔۔۔صبا نے اپنے دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپایا ہوا تھا
اور رو رہی تھی۔۔۔ میجر نے اس کے چہرے پر سے دونوں ہاتھوں کو ہٹایا اور بولا۔۔۔
اپنا منہ نہ چھپا ابھی
سے یہ چہرہ تو اب تجھے ہمیشہ ہی چھپانا ہے سب سے۔۔۔لیکن ابھی تو میری آنکھوں میں
دیکھ نہ۔۔۔
لیکن صبا نےاپنی آنکھیں
نہ کھولیں۔۔۔ میجر نے دوبارہ سے اس کی دونوں رانوں کو پکڑ لیا اور اپنا لن اس کی
پھدی میں اندر باہر کرتے ہوئے ہانپنے لگا۔۔۔
آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔
ووووووئی ی ی ی ی ی ی۔۔۔ نکل ل ل ل ل ل ل ل۔۔۔ رہا ہے ابھی کے ۔۔۔ ابھی ی ی ی ی ی
ی ی۔۔۔ میرا پانی تیری پھدی میں۔۔۔ دیکھ کیسے تیری چوت میں پانی نکال کر تجھے ماں
بناتا ہوں اپنے بچے کی۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔
میجر کی بات سن کر جیسے
صبا دوبارہ سے ہوش میں آگئی۔۔۔فوراً ہی اپنے دونوں ہاتھوں کو میجر کے ننگے سینے پر
رکھتے ہوئے تڑپنے لگی۔۔۔
نہیں نہیں ۔۔۔ پلیز ز ز
ز نہیں ۔۔۔ اندر نہ کرنا۔۔۔ اندر نہیں ڈالنا ۔۔۔ پلیز ز ز ز ز نہیں۔۔ اندر نہیں
۔۔۔ میں مر جاؤں گی۔۔۔ میں ہاتھ جوڑتی ہوں ۔۔۔ پلیز نہیں ۔۔۔
میجر ؛ ہا ہا ہا ہا ہا
ہا ہا۔۔۔ جو میرے دل میں آئے گا وہی کروں گا میں۔۔۔ ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا
ہا۔۔۔
صبا ؛ میں ہاتھ جوڑتی
ہوں اندر نہیں کرنا پلیز ز ز ز۔۔۔ دیکھو تم نے اپنی مرضی کی ۔۔۔ جو چاہا کر لیا۔۔۔
میری عزت بھی خراب کر دی ۔۔۔ پر اب ایسے نہ کرو۔۔۔
صبا رونے لگی لیکن وہ
میجر تو وحشی جانور تھا۔۔۔ ایک نہ سنی اور اگلے ہی لمحے اپنے لن سے پانی اس کی
پھدی میں گرانے لگا۔۔۔ فک یو ۔۔۔
0 تبصرے
THANKS DEAR