SS STORIES WORLD




















































 

" خود کو سنبھالو صنم ۔ کیا ھو گیا ھو تمھیں؟ ، اچھّا بابا ، جو ھو گیا سو ھو گیا۔ اب تم سوچ سوچ کر اور رو رو کر خود کو ھلکان تو نہ کرو یار ۔ دیکھو، اگر تم چپ نہ ھوئیں، تو مجھے بھی رونا آ جائے گا ۔ "

ننھی کی اس بات کے ردّ عمل کے طور پر صنم چپ ھو گئی ۔ اس کے چہرے اور آنکھوں میں موجود آنسو اب ننھی نے صاف کئے تھے ۔ اس کے ساتھ ھی صنم نے ننھی سے کہا ۔

"ننھی ، ابّے کی پابندی کی وجہ سے اب کھیتوں پر جا کر نومی سے ملنا ناممکن ھو گیا ھے ۔ مجھے تو نومی کی کوئی خیر خبر ھی نہیں ھے، کہ وہ کہاں ھے، کیسا ھے ۔ میری پیاری سہیلی ۔ تو تو جانتی ھو گی ، کہ وہ کیسا ھے ؟ "

اور ننھی اس کی بات سن کر منہ پھیر کر کھڑی ھو گئی ۔ اس نے صنم سے کہا، کہ اتنا کچھ ھو جانے کے بعد، اسے نومی کے لئے اتنا تڑپنا نہیں چاھئے ۔ لیکن صنم جواب میں بولی، کہ اب تو اسے نومی سے موت ھی جدا کر سکتی ھے ۔ کیونکہ پہلے وہ صرف روحانی طور پر خود کو نومی کی امانت سمجھتی تھی، لیکن اب تو وہ جسمانی طور پر بھی نومی کی ھو چکی ھے ۔

ننھی اس کی باتیں سن کر سکتے میں آ گئی ۔ اسے موھوم سی امّید تھی، کی نومی کے ھاتھوں عزّت گنوانے کے بعد، شائد صنم اس کے متعلّق سوچنا چھوڑ چکی ھو۔ لیکن یہاں تو الٹا ھی کام ھو گیا تھا ۔ اس دن والے واقعے کے بعد ، صنم اب پہلے سے بھی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ خود کو نومی کی امانت سمجھنے لگی تھی ۔

ننھی نے اس دن صنم کو بہت سمجھایا، لیکن صنم نہ مانی۔ کئی مرتبہ اس کا دل چاھا، کہ اب ھی بتا دے، کہ اس کا محبوب کس طرح ریحانہ کے گھر سے بر آمد ھوا تھا، لیکن اپنی سہیلی کی حالت دیکھ کر اس کا حوصلہ نہیں پڑرھا تھا، کہ وہ اس سے نومی کے بارے میں ایسی کوئی بات کرے ۔ صنم مسلسل نومی کی حمایت اور اس کی محبّت کا دفاع کر رھی تھی ۔ اور جب اس کا اصرار بڑھتا چلا گیا، تو ننھی ھار مان کر خاموش ھو گئی ۔

اب صنم نے دوبارہ سے نومی کے بارے میں دریافت کیا۔ ننھی جانتی تھی، کہ نومی اسی دن سے گاؤں سے غائب ھے ، لیکن وہ صنم کو یہ بات بتانے سے گریزاں تھی ۔ جب صنم نے نومی کے بارے میں دریافت کرنا جاری رکھّا، تو ننھی کو آخر کار بتانا ھی پڑا، کہ نومی گاؤں سے گیا ھوا ھے۔ اور اس کی واپسی کا کسی کو کچھ پتہ نہیں ۔

ننھی کی یہ بات سن کر صنم کے چہرے پر زلزلے کے سے آثار پیدا ھوئے ۔ وہ تو آج تک یہی سمجھ رہی تھی، کہ اس کا محبوب اس کی راہ دیکھتا ھو گا ۔ اتنے دن اس نے کیسے کاٹے ھوں گے ۔ وہ تو نومی سے ملنے کے لئے کھیتوں میں اکیلے جانے کے سو سو بہانے سوچتی رھتی تھی، اور اسے معلوم ھی نہیں تھا، کہ نومی گاؤں میں موجود ھی نہیں ھے ۔

اس دن ننھی کو صنم کا نیا روپ دیکھنے کو ملا ۔ صنم نے نومی سے ملنے، اس کو دیکھنے کا مطالبہ کر دیا، اور ننھی سے کہا، کہ وہ کسی بھی طرح سے نومی سے رابطہ کر کے اسے واپس بلائے۔ ورنہ وہ کچھ بھی کر لے گی ۔ ننھی اس کی باتیں سن کر خوفزدہ ھو رھی تھی ۔ وہ نومی کا پتہ تو جانتی تھی، لیکن اسے واپس بلانا اس کے لئے ممکن نہیں تھا ۔ صنم کی خراب ھوتی حالت دیکھ کر ننھی کو اس سے وعدہ کرنا پڑا، کہ وہ جلد سے جلد نومی کو واپس بلانے کا انتظام کرتی ھے ۔

کچھ دیر مزید وہاں موجود رکنے، اور صنم کو سمجھانے اور تسلّی دینے کے بعد، ننھی وہاں سے آ گئی۔ اب اسے ایک نیا مسئلہ در پیش تھا، کہ نومی کو کیسے واپس بلایا جائے ۔ آخر اس کے دماغ میں ایک ترکیب آ ھی گئی ۔ لیکن اس بات کو آگے کیسے پہنچایا جائے ۔ بہت سوچ بچار کے بعد، آخر اس نے اپنے ایک چاھنے والے کو پیغام بھجوایا۔ ننھی اور اس لڑکے کے درمیان ماضی میں محبّت اور جسمانی تعلّقات کا رشتہ قائم رہا تھا، جو کسی وجہ سے کب کا ختم ھو چکا تھا، بلکہ خود ننھی نے ھی وہ رشتہ ختم کر دیا تھا ۔ لیکن وہ لڑکا آج بھی ننھی سے محبّت کرتا تھا۔ ننھی نے اس کو چند باتیں سمجھائیں، جو کہ اس نے نومی کے باپ سے کہنا تھیں ۔ ( اس لڑکے سے بات کرتے وقت ننھی نے یہ احتیاط ضرور کر لی تھی، کہ اس کے سامنے اس نے صنم کا نام نہیں لیا تھا ۔)

اس کا چاھنے والا سیدھا نومی کے باپ کے پاس گیا، اور کچھ ایسا کہا، کہ اس کے باپ نے اسی دن نومی کو فون کر کے واپس گاؤں میں آنے کا کہ دیا ۔

دو دن بعد، نومی گاؤں میں پہنچ چکا تھا ۔

محبّت کی یہ طویل داستان اب ایک نیا موڑ لینے والی ھے ۔ نومی اور صنم کی محبّت اب کون سا نیا رخ اختیار کرتی ھے، یہ تو آپ کو اگلی قسط میں ھی پتہ چل سکے گا ۔ ۔

اگلی اپڈیٹ تک برائے مہربانی اپنے اپنی خیالات سے ضرور نوازئے گا،

نومی کراچی سے آیا تھا ۔ نومی کے گاؤں میں آنے کی خبر ننھی کو اسی روز مل گئی تھی، جس روز نومی گاؤں میں پہنچا تھا ۔ ننھی اپنی چال میں سو فیصد کامیاب رہی تھی ۔

(در اصل ننھی نے نومی کے باپ کے پاس اس لڑکے کے توسّط سے یہ خبر پہنچائی تھی ، کہ کراچی کے حالات آج کل اتنے خراب ھو گئے ھیں، کہ ھر وقت گولیاں ھی چلتی رہتی ھیں۔ کیا پتہ کب کون کہاں پر کسی اندھی گولی کا شکار بن کر لقمہٴ اجل بن جائے ۔ اس لڑکے نے مزید یہ بھی کہا تھا، کہ ابھی پرسوں ھی کراچی میں ایک ھی دن میں ڈیڑھ سو لاشیں گرا دی گئی تھیں ۔ ( ان دنوں 12 مئی 2007 والا واقعہ رونما ھوا تھا ۔ سب کو یاد ھی ھو گا ، کہ اس دن کراچی آگ اور خون میں نہلا دیا گیا تھا۔ اسی واقعے کو بنیاد بنا کر ننھی نے اس لڑکے کے ذریعے سے نومی کے پینڈو باپ کو خوفزدہ کر دیا تھا، تا کہ وہ جلدی سے اپنے بیٹے کو کراچی سے واپس بلا لے۔ )

نومی کے باپ کو جب یہ بات بتائی گئی، تو وہ ڈر گیا۔ اوپر سے اس کے سالے کی رہائش بھی کراچی کے ایسے علاقے میں تھی، جہاں آئے دن حالات خراب رہتے تھے۔ بس یہی وجہ تھی ، کہ اس نے اپنے بیٹے کو جلد سے جلد گاؤں واپسی کا حکم دے دیا تھا، اور نومی مجبوراْ گاؤں چلا آیا تھا ۔

ننھی نومی کی گاؤں واپسی پر ملی جلی کیفیّت کا شکار تھی ۔ ایک طرف اپنی سھیلی کی خوشی کے خیال سے وہ بھی خوش تھی، لیکن دوسری جانب اسے یہ فکر بھی ستا رھی تھی، کہ صنم کا نومی سے دوبارہ ملنا اس کے لئے خطرے سے خالی نہیں ھے ۔ صنم نومی سے اندھی محبّت کرتی تھی، اور نومی اس اندھی محبّت سے فائدہ اٹھا چکاتھا، جبکہ دوبارہ ملنے کی صورت میں نومی نہ جانے مزید کتنی دفعہ صنم کے جسم سے اپنی پیاس بجھاتا ۔ اسی وجہ سے وہ ابھی تک کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پائی تھی ۔

آخر اس نے انتہائی سوچ بچار کے بعد نومی کی آمد صنم پر ظاہر کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔

جب صنم نے نومی کی واپسی کا سنا، تو اس کے مردہ چہرے پر جیسے زندگی لوٹ آئی تھی ۔ وہ ایک دم سے کھل اٹھّی تھی ۔ تین دن سے چارپائی پر لیٹی رہنے والی صنم نے نہ صرف چارپائی چھوڑ دی تھی، بلکہ اب وہ پھر سے اپنے آپ پر توجّہ دے رہی تھی ۔ اسے اب نومی سے فوری ملنے کی طلب ھو رھی تھی ۔ اس نے ننھی سے اپنی اس خواھش کا اظہار بھی کر دیا تھا۔ ننھی نے اس سے وعدہ کیا، کہ جیسے ھی مکن ھوا، وہ نومی کی اور اس کی ملاقات کا بندو بست کروا دے گی ، لیکن فی الحال ایسا ممکن نہیں تھا۔ صنم نے جھٹ سے وجہ پوچھی ، تو اس نے اسے بتایا، کہ آج کل فصلوں کی بوائی چل رھی تھی، اور کھیتوں میں ھر طرف گاؤں کے آدمی پھر رھے ھوتے ھیں۔ جونہی فصلوں کی کاشت کا سیزن ختم ھوگا، وہ اس کی نومی سے ملاقات کروا دے گی ۔ صنم اداس ھو گئی ۔ لیکن ننھی کی بات میں وزن تھا۔ سو اسے اس کی بات ماننا پڑی۔ اس نے دعائیں کرنا شروع کر دیں، کہ جلد سے جلد سیزن ختم ھو جائے، اور وہ پھر سے نومی کی بانھوں میں پہنچ جائے ۔ ننھی اس کی طرف دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی ۔

************************************************** ***********

دوسری طرف نومی کی کیفیّت یہ تھی ، کہ وہ اپنے باپ کے کہنے پر بے دلی سے گاؤں میں واپس آیا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں ابھی تک چوھدری کے خوف کا بسیرا تھا۔ وہ سوچ رھا تھا، کہ شائد چوھدری کو کسی نہ کسی طرح سے صنم کی صحّت کی خرابی کی وجہ معلوم ھو گئی ھو گی، اور اب تک چوھدری اس کی تلاش کا حکم جاری کر چکا ھو گا۔ اس نے چوھدری سے بچنے کے لئے گاؤں چھوڑ کر سیدھا اپنے ماموں کے گھر کا رخ کیا تھا ۔ اس کے ماموں کا گھر کراچی میں تھا، اور نومی کے خیال میں وہ گھر ایسی کسی بھی صورت حال سے چھپنے کے لئے بہترین جائے پناہ تھی۔

گاؤں میں پہنچنےکے بعد بھی وہ باہر نکلنے سے گریزاں تھا، لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی، کہ صنم سے ملنے کی تڑپ اس کے اندر ھلکورے لے رھی تھی ۔ آخر اس نے سوچا ، کہ اگر ابھی تک چوھدری کی جانب سے کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا گیا، تو یہ اس بات کا ثبوت تھا، کہ اسے کسی قسم کی کوئی خبر نہیں تھی ۔ یقیناْ صنم اپنے باپ سے اور دوسرے گھر والوں سے اپنی چدائی کی کہانی چھپانے میں کامیاب رہی تھی ۔

دوسرے دن نومی حسب معمول اپنے باپ کے ساتھ کھیتوں میں کام کے لئے چلا گیا ۔ موسم بدل رھا تھا، اور نئی فصل کی کاشت کے لئے زمین میں ٹریکٹر چلوانا تھا ۔ نومیکے باپ نےنومی کو کام سمجھایا، اور خودنہر کی طرف نکل گیا ۔ اب نومی اکیلا ھی ٹریکٹر والے کو کام سمجھاتاجا رھا تھا، لیکن ساتھ ھی ساتھ اس کی نظریں گاؤں سے آنے والے راستے پر بھی ٹکی ھوئی تھیں ۔ اسے امّید تھی ، کہ شائد آج بھی صنم ، ننھی کے ھمراہ کھیتوں کی طرف آ نکلے، لیکن دو گھنٹے گزر جانے کے باوجود بھی اس کی آس پوری نہ ھو سکی۔ صنم کو نہیں آنا تھا، سو وہ نہ آئی ۔

اس دن کے بعد سے نومی پھر سے اپنی پرانی روٹین کے مطابق کام کرنے لگ گیا۔ لیکن اب اس کے اندر عورت کی شدید ترین طلب سر اٹھانے لگی تھی ۔ اس کا دل چاھتا تھا، کہ اسے دوبارہ سے صنم کی قربت نصیب ھو، وہ پھر سے اسی طرح صنم کو اور خود کو بے لباس کر کے کماد میں اس کی پھدّی مارے ، جس طرح سے اس نے پہلی دفعہ یہ کام کیا تھا ۔ اس کے ساتھ ھی اس کے دماغ میں اس دن کے تمام مناظر واضح ھونا شروع ھو گئے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک فلم سی چل پڑی تھی ۔ اس نے دیکھا، کہ اس نے کس طرح پہلےتو صنم کو اپنے ساتھ لٹایا تھا، اور پھر آھستہ آھستہ اس کو چوم چوم کر، اس کے ھونٹوں کو چوس چوس کر،اور اس کی چھاتی کو مسل مسل کر اسے اتنا گرم کر دیا تھا، کہ صنم مجبور ھو گئی تھی، اور نومی کے لئے اس کے جسم تک رسائی حاصل کرنا قطعی مشکل نہیں رہا تھا۔ اس کے بعد، صنم نے رسمی سے احتجاج کے بعد، اس کی منشاٴ پوری کر دی تھی ۔ اس کے ساتھ ھی اسے مزےکی وہ کیفیّت یاد آنے لگی، جو اسے صنم کو چودتے وقت حاصل ھوئی تھی ۔ جوں جوں نومی کو صنم سے ملنے والا مزہ یاد آ رھاتھا ، توں توں وہ صنم کی قربت کے لئے مچل رہا تھا۔ جب بے چینی حد سے بڑھنے لگی، تو اس نے ننھی سے ملنے کا فیصلہ کیا۔

وقت اپنی مخصوص رفتار سے رواں دواں تھا ۔ فصلوں کی کاشت مکمّل ھو چکی تھی ۔ اس دن، جبکہ وہ کھیتوں میں کام کر کے جا رھا تھا، اسے ننھی نظر آئی ۔ وہ ایک بچّے کے ساتھ کھیتوں کی طرف آ رھی تھی ۔ نومی کے چہرے پر مسکراھٹ در آئی ۔ اس کا کام آسان ھوتا نظر آ رھا تھا ۔ ننھی بھی اسی کی طرف چلی آئی ۔ بچّے کو اس نے دور ھی کھڑا کر دیا تھا۔

نومی کے پاس آ کر ننھی نے اس سے اس کی خیریّت دریافت کی۔ نومی نے صنم سے ملنے کی خواھش کا اظہار کیا۔ ننھی نے اسے بتایا، کہ و ہ خود بھی اس کے لئے صنم کی طرف سے ملاقات کا پیغام لے کر آئی تھی۔ اس کے بعد، ننھی نے اسے آج دوپہر کو ملنے کے لئے ایک جگہ اور ملنے کا وقت بتا دیا۔ ساتھ ھی یہ بھی کہ دیا، کہ اکیلا ھی آئے ۔ کسی کو بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ھے۔

نومی کھل اٹھّا تھا ۔

مقرّرہ وقت پر نومی اس جگہ پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے دیکھا، کہ صنم اور ننھی اس سے بھی پہلے وہاں موجود تھیں۔ یہ ایک کھیت تھا۔ اس طرف آنے میں یہ آسانی تھی، کہ اس طرف چوھدری کے کسی کارندے کے آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ خود چوھدری تو کسی کام سے شہر گیا ھوا تھا۔

نومی اور صنم نے ایک دوسرے کو دیکھا، او صنم ساکت رہ گئی ۔ صنم نومی سے پہلے بھی ملتی چلی آئی تھی، لیکن پہلے کی ملاقاتوں میں اور آج کے ملن میں ایک فرق تھا، جو صنم کے صبیح چہرے سے بھی عیاں تھا ۔ پہلے جب بھی صنم نومی سے ملتی تھی ، تو اس کے اندر ھر وقت ان چھوئی ھونے کا احساس جاگزیں رہتا تھا ۔ لیکن آج وہ خود کو چور محسوس کر رھی تھی ۔ پہلے کی ملاقاتوں میں اس وقت تک نومی کی صنم کے جسم کے نازک حصّوں تک رسائی نہیں ھوئی تھی ۔ اب ، جبکہ نومی سب کچھ دیکھ بھی چکا تھا، اور سب کچھ کر بھی چکا تھا، تو نومی کو سامنے دیکھ کر صنم کو اس سے شرم سی آنےلگی ۔ جب نومی نے پاس آ کر اس کا ھاتھ تھاما، تو اس کو ایسےلگا، کہ وہ وہیں گر جائے گی ۔ اس سے رہا نہیں گیا، اور وہ نومی کے سینے سے لگ گئی ۔ نومی نے اس کو اپنے بازوؤں کے حلقے میں لے لیا تھا ۔ صنم اس سے ایسے لگ کر کھڑی ھو گئی تھی، جیسے اس میں سما جائے گی ۔

نومی نے اس سے اس کا حال پوچھا۔ جواب میں صنم نے شکوہ کرتے ھوئے کہا، کہ اسے اس کی فکر ھوتی ، تو وہ اس دن کے بعد، اس کی خیریّت کسی نہ کسی زاویے سے ضرور معلوم کرتا ۔ جواب میں نومی نے چکنی چپڑی باتوں سے اسے رام کر لیا۔ صنم تو اس کی دیوانی تھی ھی ، سو اس کی ہر بات پر فوراْ یقین کرتی چلی گئی ۔

اب نومی نے اصل مقصد کی طرف آنا شروع کر دیا ۔ اس نے آھستہ آھستہ ھاتھ بڑھائے، اور صنم کے سینے پر رکھ دئے ۔ صنم ایک دم چونکی، اور پیچھے کو ھٹنا چاھا، لیکن جب نومی نے اسے اپنی طرف کھینچا، تو صنم نے اپنا وجود اس کے سپرد کر دیا۔ ویسے بھی اس نے سوچا تھا، کہ جو چیز جانا تھی، وہ تو چلی گئی۔ اب کم از کم محبوب کو تو راضی کرلے ۔

پچھلے چند مہینوں میں نومی کو اندازہ ھو چکا تھا، کہ صنم اس سے بہت زیادہ محبّت کرتی ھے ۔ یہی وجہ تھی ، کہ اس دفعہ اس نے اعتماد کے ساتھ پیش قدمی کی تھی ۔ اور صنم بھی اس کے ساتھ مکمّل تعاون کرنے پر آمادہ تھی ۔ نتیجتاْ اس کھیت میں وہی کہانی دہرائی جانے لگی ، جو نومی نے چند دن پہلے اپنے کماد میں صنم کو چود کر رقم کی تھی ۔

ننھی ان سے دور ایک مناسب جگہ پر چھپ کر بیٹھی ھوئی تھی ۔ اسے ڈر بھی لگ رھا تھا،کہ کہیں آج پھر صنم نومی سے چدوا نہ لے ۔ اور اس کا ڈر سچّ ثابت ھو رھا تھا۔ کیونکہ نومی اور صنم جب سے ملے تھے، ان کے درمیان چند باتوں کے بعد سے مزید کوئی بات نہیں ھوئی تھی۔ بس ان کے ھونٹ، نگاہیں، ھاتھ الغرض جسم کا انگ انگ آپس میں باتیں کر رھا تھا جس میں بتدریج تیزی آتی جا رہی تھی ۔ اس کے بعد، نومی نے اس کے کپڑے بھی اتار دئے، اور خود کو بھی ان بندشوں سے آزاد کر دیا۔ صنم نے آنکھیں بند کی ھوئی تھیں، اور اس کے سینے میں اپنا سر چھپائے بیٹھی تھی ۔ نومی نے اسے نیچے لٹا دیا، اور خود اس کی ٹانگوں کی طرف آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے صنم کےدل نشیں سراپا پر ایک نظر ڈالی، اور اندر ھی اندر مچل اٹھّا ۔ اس نے اپنا لن اس کی پھدّی پر سیٹ کیا، اور ایک دھکّا لگا کر آدھا لن اس کی پھدّی میں اتار دیا۔ صنم تڑپ گئی ۔ درد کے احساس سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ نومی نے

دھکّے لگانا روک دئے، اور اس کے ممّوں کو سہلانا شروع کر دیا ۔

جب صنم کو درد کچھ کم ھوا، تو نومی نے دوبارہ سے ھلکے ھلکے دھکّے لگانے شروع کر دئے ۔ وہ بتدریج اپنی سپیڈ بڑھاتا جا رہا تھا ۔ کچھ دیر کے بعد، صنم نے محسوس کیا کہ اسے بھی مزہ آرھا ھے ۔ ورنہ پہلی دفعہ تو اسے صرف درد ھی ھوا تھا۔ جب مزہ انتہا کی حدوں کو چھونے لگا، تو باوجود کوشش کے ، بھی صنم اپنی آواز پر قابو نہ رکھ سکی، اور اس کے منہ سے سیکسی آوازیں نکلنا شروع ھو گئیں۔ اس کا جسم بھی اس کے قابو سے باھر ھو کر ادھر ادھر مچل رھا تھا ۔ نومی نے اس کے منہ پر ھاتھ رکھّا ، اور صنم کے جھڑنے کے کچھ ھی لمحوں بعد، وہ بھی جھڑ گیا ۔ صنم کے چہرے پر آج ایک سکون نظر آ رھا تھا ۔ نومی نے مسکرا کر اسے دیکھا، تو صنم جھینپ گئی۔

کپڑے پہن کر صنم اور نومی اس جگہ سے ھٹ کر ایک جگہ پر بیٹھ گئے ۔ صنم اس سے چمٹ کر بیٹھی تھی ۔ نومی اس سے عام سی باتیں کر رھا تھا، لیکن صنم اس سے اپنی والہانہ کیفیّت کا کھل کر اظہار کر رھی تھی ۔ نومی اس کی تمام باتیں سن کر سوچ رھا تھا، کہ جب تک صنم کی یہی کیفیّت قائم ھے، تب تک وہ اس کے جسم سے کھل کر مزے لوٹ سکتا ھے ۔

اس دن صنم نومی سےبہت ساری باتیں کرنا چاھتی تھی، لیکن ننھی کو جلدی تھی ۔ چنانچہ سب باتیں ادھوری رہ گئیں۔ وہ اور ننھی نومی کے پاس سے چلی آئیں ۔

اس کے بعد سے تو یہ سلسلہ چل پڑا تھا ۔ ان دونوں کی ملاقات جب بھی ھوتی، نومی صنم کی پھدّی ضرور مارتا ۔ اب تو صنم بھی کوئی اعتراض نہیں کرتی تھی ۔ حقیقت یہ تھی ، کہ اب صنم اور نومی دونوں ھی ایک دوسرے کے جسم کے عادی ھو چکے تھے ۔ ھاں ، البتّہ صنم کبھی بھی نومی سے کھل کر باتیں نہ کر سکی تھی ۔ جب بھی نومی اس کی پھدّی مار لیتا، تو یا تو نومی جانے میں جلد بازی دکھا جاتا، اور یا پھر کسی دن ننھی کی عجلت کی وجہ سے وہ اس سے باتیں نہ کر پاتی ۔

اس دوران کئی مرتبہ ایسا بھی ھوا، جب نومی اور صنم مل نہ پائے۔ ایسی صورت میں نومی ریحانہ کو گھیر لیتا ۔ ریحانہ بھی چند ٹکوں کی خاطر ھمہ وقت دستیاب رہتی تھی ۔ نومی اس کے جسم کی گرمی سے اپنے وجود کے اندر اٹھنے والے طوفان کو ٹھنڈا کرتا رہتا ۔ اسی دوران، ایک دن، جب کہ نومی ریحانہ کو جم کر چود رہا تھا، اس نے ریحانہ کے پوچھنے پر اس کے سامنے صنم کے ساتھ محبّت کا اعتراف کرھی لیا ۔ ریحانہ ایک چالاک لڑکی تھی ۔ اس نے نومی کے منہ سے اعتراف کروا ھی لیا تھا، کہ وہ اور صنم ایک دوسرے سے محبّت کرتے تھے۔ اور کافی آگے تک جا چکے تھے ۔

ریحانہ کے سامنے اعتراف نومی کو کتنا مہنگا پڑنا تھا، اس بات کا اسے قطعی اندازہ نہیں تھا ۔

نومی شروع دن سے ایسا نہیں تھا ۔ وہ ایک عام سا نوجوان تھا، جسے عورت کے جسم کا اس وقت تک پتہ نہیں تھا، جب تک کہ ریحانہ نے اسے اپنا جسم نہیں چکھا دیا تھا ۔ اور جب اس نے ریحانہ کو چود لیا، تو وہ ایک نئے مزے سے آشنا ھوا تھا ۔ اس کے بعد، جب اس نےصنم کو بھی چود ڈالا، تو اسے صنم کے جسم نےریحانہ سے کئی گنا زیادہ مزہ دیا تھا ۔ ظاھر سی بات ھے ، کہ ایک استعمال شدہ عورت، اور ایک کنواری لڑکی کے جسم کا مزہ کبھی بھی ایک سا نہیں ھو سکتا ۔ یہی وجہ تھی ، کہ صنم کو چودنے کے بعد تو نومی کے لئے نا ممکن تھا، کہ وہ دوبارہ صنم سے ملے، تو اسے سوکھا چھوڑ دے ۔

ایک دن نومی کو ننھی کی جانب سے صنم کا پیغام ملا۔ نومی کو بھی صنم سے ملے ھوئے کئی دن گزر چکے تھے۔ ریحانہ بھی گاؤں میں موجود نہیں تھی ۔ چنانچہ وہ صنم سے ملا، اور جم کر اس کی چدائی کی ۔ یہ کام اب ان کا معمول بن گیا تھا۔ ایسا ھو ھی نہیں سکتا تھا، کہ وہ ملیں اور نومی صنم کی چدائی نہ کرے ۔ اور آج بھی اس نے ایسا ھی کیا تھا۔

آج صنم سوچ کر آئی تھی، کہ وہ نومی سے خوب باتیں کرے گی ۔ اس نے ننھی سے بھی کہ دیا تھا، کہ آج وہ جلد بازی کا مظاھرہ ھر گز نہ کرے ۔ صنم نومی سے اچانک کراچی جانے کی وجہ پوچھنے لگی۔ نومی اس کے سوالات کا بد دلی سے جواب دے رھا تھا۔ اس کا دل چاہ رھا تھا، کہ اب وہاں سے چلا جائے ۔ اس نے ایک دو دفعہ صنم سے کہا بھی، کہ اب انہیں چلنا چاھئے ، لیکن صنم مان کر ھی نہیں دے رہی تھی ۔ اتنے دنوں کے بعد تو نومی سے باتیں کرنے کو وہ اتنا زیادہ مچلی تھی ۔ اور ویسے بھی آج وہ ایک مہینے کے بعد مل رھے تھے ۔ ابھی تو اس کی نظروں کی پیاس ھی نہیں بجھی تھی ۔ صنم اس سے چہک چہک کر باتیں کر رھی تھی، جبکہ نومی اس کی باتیں عدم دلچسپی سے سن رہا تھا ۔ صنم اس سے مختلف قسم کی باتیں کرتی رہی۔ کبھی وہ اسے اپنی ان دنوں کی حالت بتانے لگ جاتی، جو نومی کے جانے کے بعد ھوئی تھی ، تو کبھی وہ اس سے پوچھنے لگ جاتی، کہ کیا کراچی جا کر اسے صنم کی یاد کبھی بھی نہیں آئی تھی ۔

صنم نے جب دیکھا، کہ نومی اب اس کی باتوں میں دلچسپی نہیں لے رھا، تو اس کا دل بھر آیا ۔ اس نے نومی کا چہرہ اپنی ھتھیلیوں میں لیا، اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی ۔

" نومی ، لگتا ھے، کہ مطلب نکل جانے کے بعد، تم اب مجھ سے بیزار ھو رھے ھو ۔ اگر ایسا ھی ھے، تو ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ھے، جب تم مجھے چھوڑ بھی سکتے ھو ۔ پلیز، ایسا کبھی مت کرنا نومی ، ورنہ میں مر جاؤں گی ۔ تم چاھے مجھ سے محبّت نہیں کرو، لیکن پلیز، مجھے چھوڑ کر مت جانا ۔ دیکھو، میں نے تو اپنا سب کچھ اب تمھیں سونپ دیا ھے ۔ اب میں صرف تمھاری ھوں ۔ میں مر تو سکتی ھوں، لیکن تمھارے سوا کسی اور کی کبھی نہیں ھو سکتی ۔ میری جان، پلیز، مجھے کبھی بھی چھوڑ کر مت جانا ۔ ورنہ، میں اپنے ھاتھوں سے اپنی جان دے دوں گی نومی۔ ھاں نومی ، میں اپنے ھاتھوں سے اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کروں گی ۔ "

نومی اس کی آنکھوں میں دیکھ رھا تھا۔ اس کے لہجے میں ایسی کوئی بات تو تھی، کہ نومی اندر تک دہل گیا ۔ اس نے اپنے دل میں تصوّر کیا، جیسے صنم نے سچّ میں اپنی جان دے دی ھو، اور وہ قانون کی عدالت میں مجرم بن کر کھڑا ھوا ھو ۔ جج نے اسے صنم کی موت کا ذمّہ دار قرار دیتے ھوئے پھانسی کی سزا سنا دی ۔ جلّاد اسے کھینچتے ھوئے تختہٴ دار کی طرف لے کر جا رھا تھا ۔

اسے جھرجھری سی آ گئی۔ اس نے صنم کو اپنے ساتھ لگاتے ھوئے تسلّی دی، اور ایسی باتوں سے منع کر دیا ۔

لیکن اندر ھی اندر وہ کسی اور ھی رخ پر سوچ رھا تھا ۔

************************************************** ***********************************

اس رات نومی نے ساری رات آنکھوں میں ھی کاٹ دی تھی ۔ اسے صنم کی باتیں خوفزدہ کر رھی تھیں ۔ اسے پہلی دفعہ احساس ھو رہا تھا ، کہ جس بات کو وہ اتنے ھلکے پھلکے انداز میں ڈیل کرتا چلا آ رھا تھا ، در اصل وہ ایک خطر ناک حقیقت کا روپ دھار چکی تھی ۔ آج تک وہ صرف چوھدری سے ھی خوفزدہ رہا تھا ، لیکن آج پہلی دفعہ اسے چوھدری سے زیادہ اس کی بیٹی سے خوف محسوس ھو رھا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں صنم کا چہرہ آ رھا تھا ، جس پر کسی بھی طور ممکنہ جدائی کی صورت میں خطر ناک عزائم نظر آ رھے تھے ۔

وہ کانپ گیا ۔ اس نے سوچا ،کہ صنم سے مزید ملنا اس کے لئے کسی بڑے نقصان اوربدنامی کا موٴجب بن سکتا ھے ۔ اس ممکنہ صورت حال سے بچنے کا ایک ھی طریقہ تھا ، کہ وہ وقتی طور پر گاؤں سے پھر چلا جائے ۔ اور اب کی بار وہ جلد واپس بھی نہیں آئے گا ۔ اسے اب صنم کے جسم سے محرومی کا بھی کوئی دکھ محسوس نہیں ھو رہا تھا ۔ شہر میں جا کر وہ اپنے کزن کی مدد سے کئی ایک لڑکیوں سےاپنی پیاس بجھا سکتا تھا ۔ فی الحال تو اسے صنم کی دیوانگی سے دامن چھڑانا تھا ۔

جتنا وہ صنم کی حالت پر سوچ رھا تھا، اتنا ھی وہ گاؤں چھوڑنے کے قریب ھوتا جا رھا تھا ۔

صبح اس نے اپنے باپ سے اس سلسلے میں بات کی ۔ اس کے باپ نے وجہ پوچھی ، تو اس نے کہا، کہ کچھ کام بھی ھے ، اور ویسے بھی اس کا دل چاہ رھا تھا ، کچھ دن شہر میں رہنے کے لئے ۔ چند دنوں بعد واپس آ جاؤں گا ۔

اس کے باپ نے اجازت دے دی ۔ نومی اگلے ھی دن کراچی کے لئے نکل گیا۔

اس بار وہ جلد واپس آنے کے لئے نہیں گیا تھا ۔

************************************************** ****************

صنم اور ننھی ، ننھی کے گھر میں موجود تھیں ۔ صنم اس سے نومی کا پوچھ رہی تھی۔ ننھی مسلسل اسے ٹال رہی تھی، لیکن جب صنم کا اصرار مسلسل تکرار کی صورت اختیار کر گیا ، تو اسے مجبوراْ بتانا ھی پڑا، کہ نومی کل کا پھر سے کراچی جا چکا تھا۔

صنم پر یہ خبر بجلی بن کر گری تھی ۔ وہ تو سوچ رھی تھی ، کہ کچھ دن قبل جو باتیں اس نے نومی سے کی تھیں، ان کو سن کر تو نومی اسے بتائے بغیر کبھی گاؤں سے نہیں جائے گا ، لیکن یہاں تو اس کے بالکل الٹ ھو گیا تھا ۔

نومی اسے چھوڑ کر پھر کراچی چلا گیا تھا ۔

صنم کو ایسے لگا، کہ اگر اس نے دیوار کا سہارا نہ لیا، تو وہ گر جائے گی ۔ ننھی نے اس کی بگڑتی حالت دیکھ کر اسے سہارا دینا چاھا، لیکن صنم نے ھاتھ کے اشارے سے منع کر دیا ۔ اس کا چہرہ اچانک در آنے والی سختی کی وجہ سے بھنچتا چلا جا رہا تھا ۔ اس کے دماغ میں آندھیاں سی چل پڑی تھیں ۔ اس کی آنکھوں میں پانی جمع ھونا شروع ھوگیا تھا ۔ آخر اس نے ایک بلند چیخ ماری ، اور ننھی کے گلے سے لگ کر اونچی آواز میں رونے لگ گئی ۔

ننھی نے اسے دلاسہ دینے کی کوشش جاری رکھّی ۔ اس نے جب نومی کا نام لے کر بات کرنا چاھی ، تو صنم نے اس کے سامنے نومی کا نام لینے سے سختی سے منع کر دیا۔

ننھی سمجھ گئی ، کہ نومی کے یوں دوبارہ اچانک چلے جانے سے صنم کو اس پر شدید ترین غصّہ آ رھا تھا ۔ یہ موقع مناسب تھا، صنم کو نومی کے کالے کرتوت بتانے کا ۔ ننھی کو ریحانہ اور نومی کے ناجائز تعلّق کا مکمّل علم تھا ۔ اس نے چھان بین کر رکھّی تھی ، لیکن وہ نومی سے اپنی سہیلی کے جذباتی لگاؤ کی خاطر خاموش رہتی تھی ۔ اسے کچھ بھی نہیں بتاتی تھی، لیکن آج اسے موقع لگ گیا تھا ۔

ننھی شروع ھو گئی ۔ وہ اسے دلاسہ بھی دے رہی تھی، اور ساتھ ھی ساتھ نومی اور ریحانہ کے چکّر کا بھی بتاتی جا رہی تھی ۔ صنم اس کی باتیں سنتی جا رہی تھی ۔ بظاہر وہ خاموشی سے سن رھی تھی ، لیکن اندر ھی اندر جیسے اس کا دل کسی تیز دھار آلے سے کٹ رہا تھا۔ پھر معاملہ اس کی برداشت سے باھر ھو گیا۔ ابھی ننھی کی بات جاری تھی ، کہ صنم کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا، اور وہ بے ھوش ھو کر اس کی جھولی میں ڈھے گئی ۔

************************************************** ****************************************

نومی کراچی میں ماموں کے پاس ٹھہرا ھوا تھا ۔ یہاں اس نے چند دن تو خوب گھومنے پھرنے میں گزارے، لیکن اس کے بعد، اسے احساس ھوا ، کہ یوں آوارگی کرتے رہنا مناسب نہیں ھے ۔ چنانچہ اس نے کام ڈھونڈنا شروع کر دیا ۔ آخر اسے ایک جگہ بیکری میں کام مل گیا ۔ وہ بہت خوش ھوا، اور اپنے باپ کو بتایا، کہ اب وہ شہر میں کام پر لگ گیا ھے ۔ اس کے باپ نے اسے بہت سمجھایا، کہ اسے شہر جا کر کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ھے، لیکن نومی نے اپنے باپ کی ایک نہ مانی ۔ اس کے مطابق وہ اب کچھ عرصہ شہر میں بھی رہنا چاھتا تھا ۔

نومی جب سے کراچی آیا تھا، اسے صنم کی کوئی خیر خبر معلوم نہیں تھی ۔ کبھی کبھی وہ سوچتا ، کہ کسی طرح سے معلوم تو کروائے، کہ صنم کس حال میں ھے ۔ لیکن بعد میں وہ خود ھی اپنے اس خیال کو ردّ کر دیتا ۔

اسے کراچی میں کام کرتےھوئے دو ماہ ھو گئے تھے ۔ وہ اس دوران صنم کو تقریباْ بھول چکا تھا، جب ایک دن اسے اپنے باپ کی صحّت کی خرابی کی اطّلاع ملی ۔ اس کے باپ کو ٹھنڈ لگ گئی تھی ، اور وہ اچھّا خاصا بیمار تھا ۔

نومی ایک دم سے گھبرا گیا ۔ اس کے ماموں نے اسے تسلّی دی، اور اپنے ایک جواں سالہ بیٹے کے ساتھ اسے گاؤں کے لئے روانہ کر دیا ۔

گاؤں کے لئے روانہ ھوتے وقت اس کے دماغ میں ایک لمحے کے لئے بھی صنم کا نام نہیں گونجا تھا۔ لیکن اسے معلوم نہیں تھا ، کہ اب کی بار گاؤں میں کئی گرما گرم خبریں اس کا انتظار کر رہی ھیں ، جن کا تعلّق براہ راست صنم کے حوالے سے تھا ، اور عنقریب اس کی پر سکون زندگی میں ایک طوفانی موڑ آنے والا تھا ۔

نومی شام کے وقت گاؤں پہنچا تھا ۔

اس کے باپ کی صحّت کافی خراب تھی ۔ نومی آتے ھی اپنے باپ سے لپٹ گیا ۔ وہ دھاڑیں مار کر رو رھا تھا ۔ اس کے باپ نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا، اور تسلّیاں دینے لگا۔

نومی کی حالت سنبھلنے میں کچھ وقت لگا۔ آخر وہ ایک طرف بیٹھ گیا ۔ اسے احساس ھو رھا تھا ، کہ اس نے کراچی جاتے وقت اپنے باپ کی تنہائی کو بالکل ھی فراموش کر دیا تھا ۔ اس کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں تھا جو اس کے باپ کا خیال رکھتا ۔ یہی احساس شرمندگی بن کر اندر سے اس کے دل کو کچوکے لگا رھا تھا ۔ ، اور اس وقت اس کے گھر میں گاؤں کے جو چند افراد موجد تھے ، وہ ان سب سے ندامت محسوس کر رھا تھا ۔

اس دن کے بعد نومی نے کراچی جانے کا خیال بھی اپنے دل سے نکال دیا۔ اس کے باپ کو کھیتوں میں کام کرتے ھوئے سردی لگی تھی ۔ نومی بار بار یہی سوچتا رہتا تھا ، کہ اگر وہ گھر میں موجود ھوتا ، تو اس کے باپ کو رات کے وقت سردی میں کام نہ کرنا پڑتا، اور نہ ھی اس کی صحّت خراب ھوتی ۔ اس سوچ نے ھی اس کو کراچی جانے سے روکا تھا ۔ اب اس نے پھر سے گاؤں میں رھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

رات کو جب نومی سونے کے لئے بستر پر لیٹا، تو ایک دم سے اسے صنم کا خیال آیا۔ اس کے اندر ایک بے چینی شروع ھو گئی۔ اسے لگا، کہ گاؤں میں رہنے کا فیصلہ کر کے وہ پھر سے صنم کے چنگل میں پھنس جائے گا ۔ لیکن پھر اس نے سوچا، کہ چاھے کچھ بھی ھو جائے، لیکن آج کے بعد وہ صنم کے کسی بھی پیغام کا جواب تک نہیں دے گا ۔ صنم اس کی بے رخی کب تک برداشت کرتی ۔ آخر تھک ھار کر خود ھی پیچھے ھٹ جاتی ۔

اس فیصلے پر پہنچ کر وہ اطمینان سے سو گیا۔

دوسرے دن نومی اپنے باپ کو دوائی وغیرہ کھلا کر ، دوپہر کے وقت کھیتوں کا چکّر لگانے کے خیال سے گھر سے نکل آیا ۔

ابھی وہ گاؤں سے نکل کر بابے والی ٹاہلی تک بمشکل پہنچا ھو گا ، کہ اس کے پاس سے چوھدری کی گاڑی گزری ۔ گاڑی انتہائی تیزی سے گزری تھی، اور اس کا رخ قریبی شہر کی طرف تھا ۔ نومی ایک طرف کھڑا ھوا تھا ۔ ابھی وہ وہاں سے چل بھی نہیں پایا تھا ، کہ ایک طرف سے بلال آ گیا۔ اس نے نومی سے سلام دعا کی، اور باتوں ھی باتوں میں نومی پر یہ انکشاف ھوا ، کہ آج کل چوھدری کی بیٹی صنم بہت بیمار رھنے لگی ھے۔ بلال نے اسے بتایا، کہ سننے میں آ رھا ھے ، کہ نہ تو وہ کچھ کھاتی پیتی ھے، اور نہ ھی کسی سے سیدھے منہ زیادہ بات کرتی ھے ۔ حتّیٰ کہ کبھی کبھی تو وہ اپنے باپ، چوھدری سے بھی انتہائی بدتمیزی کر جاتی ھے ۔ اس کے باپ نے اسے کئی جگہوں پر دکھایا ھے، لیکن اسے کہیں سے بھی آرام نہیں آ رہا ۔ آج کل وہ ایک تعویذ گنڈے والے سے اس پر دم وغیرہ کروا رھے ھیں ، کیونکہ وہ سمجھتے ھیں ، کہ ان کی بیٹی پر کسی نے جادو وغیرہ کر دیا ھے ۔

نومی کے پوچھے بنا ھی بلال نے اسے بتا دیا، کہ ابھی ابھی چوھدری اپنی بیٹی صنم کو لے کر وھیں گیا ھے، جہاں سے وہ اس پر دم کروا رھے ھیں ۔

نومی کے قدم زمین میں پیوست ھو چکے تھے ۔ اس کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا تھا ۔ اس کے اندر سے بار بار ایک ھی آواز اٹھ رھی تھی، کہ صنم کی اس حالت کا ذمّہ دار وہی ھے ۔ اسی کی وجہ سے وہ لڑکی اس مقام تک پہنچ گئی ھے ۔

بلال کو تواس نے رخصت کر دیا تھا، لیکن اندر سے اس کی حالت بگڑ چکی تھی۔ کھیتوں میں جانےکا خیال کب کا اس کے دماغ سے نکل چکا تھا۔ وہ اسی جگہ ساکت کھڑا تھا ۔ آج پہلی بار اسے صنم سے ھمدردی محسوس ھو رہی تھی، ورنہ اس سے پہلے تو اس نے صنم کو صرف جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھا تھا۔ آج پہلی بار ایسا ھوا تھا، کہ وہ صنم کے حوالے سے اس انداز میں سوچ رھا تھا۔ اسے پہلی مرتبہ صنم خود سے بلند تر محسوس ھو رہی تھی۔ وہ صنم، جس نے نومی کی محبّت کی خاطر اپنی زندگی کی سب سے قیمتی چیز نومی پر نچھاور کر دی تھی، اور ایک وہ تھا، جسے صنم سے کبھی بھی سچّی محبّت نہیں ھوئی تھی ۔ جس نے اس کے جسم کا بے دریغ استعمال تو کیا تھا، لیکن جب اسے صنم سے ذرا سا بھی خطرہ محسوس ھوا، تو وہ اسی سے ڈر کر ، اسے بتائے بغیر، اچانک کراچی بھاگ گیا تھا ۔

اسے اپنا آپ بہت کم تر لگنے لگا تھا ۔ اسے پتا بھی نہیں چلا، اور وہ وہاں سے چلتا ھوا گاؤں سے باھر نکل آیا تھا۔ وہ سڑک کے عین درمیان میں چلتا جا رھا تھا۔ سامنے سے چوھدری کی گاڑی آ رہی تھی ۔ نومی کا دھیان کہیں اور ھی تھا، اسی لئے وہ سیدھا ھی چلا جا رھا تھا۔ اس نے ابھی تک گاڑی دیکھی ھی نہیں تھی، جو کہ اب اس کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر چوھدری خود براجمان تھا۔ اس نے نومی کے بالکل قریب پہنچ کر بریک لگائی تھی۔ نومی گاڑی سے بمشکل دس فٹ کے فاصلے پر رھا ھو گا، جب چوھدری نے غصّے سے ھارن بجایا۔ نومی چونک اٹھّا۔ اس نے سامنے چوھدری کی گاڑی اورچوھدری کو دیکھا، تو اس کے اوسان خطا ھو گئے۔ وہ سنبھل کر ایک طرف ھٹ گیا۔ چوھدری نے اسے پاس بلایا۔ وہ ڈرتے ڈرتے پاس گیا، تو چوھدری نے اسے گریبان سے کھینچا، اور برا بھلا کہنے لگ گیا۔ چوھدری نے ایک بار اس کا نام لے کر اسے پکارا بھی تھا۔

گاڑی کے اندر بیٹھی صنم نے اپنے باپ کے منہ سے نومی کا نام اور اس کی آواز سنی، تو وہ تڑپ کر رہ گئی ۔

آج کتنے دن کے بعد اسے نومی کا نام اور اس کی آواز سننے کو ملی تھی ۔ گو کہ وہ نومی کے نام سے بھی نفرت کرنا چاھتی تھی، لیکن یہ بھی سچّ تھا، کہ نومی کے معاملے میں آج بھی اسے اپنے دل پر اختیار نہیں تھا۔ نومی کی اتنی زیادہ بے وفائیوں کے باوجود بھی وہ اپنے دل میں نومی کے لئے نرم گوشہ محسوس کر رھی تھی۔ اس کا دل، جو اب بھی اندر ھی اندر نومی کے نام کی مالا جپتا رھتا تھا ۔

چوھدری نومی پر اس بات پر اچھّا خاصا برہم ھو رھا تھا، کہ نومی نے اس کا راستہ روکا، اور اسے بریک لگانے پڑے ۔ نومی جہاں سہما ھوا اس کی باتیں سن رھا تھا، وہیں اس کی نظریں گاڑی میں صنم کا وجود تلاش کر رھی تھیں۔ چوھدری نے اپنی طرف کا ایک شیشہ کھول رکھّا تھا، اس شیشے میں سے گاڑی کے اندر جھانکتے ھوئے اسے صنم کی بس ایک جھلک ھی نظر آ سکی تھی۔ لیکن اس ایک جھلک میں بھی اس نے صنم کی کیفیّت کا اندازہ لگا لیا تھا۔ صنم نے ایک نظر اسے دیکھا، اور نفرت سے چہرہ پھیر لیا۔ اس لمحے نومی کو یوں لگا، کہ شائد ساری کائنات ھی اسے دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر گئی تھی ۔

صنم کا یوں منہ پھیرنا نومی کے اندر ایک نئی تبدیلی پیدا کر گیا۔

اس وقت نومی کے دل میں پہلی مرتبہ صنم کے لئے سچّی محبّت کے جذبے نے سر ابھارا تھا۔

چوھدری نے جب اسے اپنی طرف سے لاتعلّق کہیں اور ھی متوجّہ دیکھا، تو اس نے نومی کو ایک دھکّا دیا، اور وہ دور جا گرا۔ جب تک وہ کپڑے جھاڑ کر کھڑا ھوا، چوھدری کی گاڑی گاؤں کے پاس پہنچ چکی تھی۔

نومی کی نظریں چوھدری کی گاڑی کی پشت پر جمی تھیں۔ وہ خیالی طور پر صنم کو دیکھ رھا تھا ۔ وہ صنم جو آج سے پہلے تک اس کے لئے اتنی اھم نہیں تھی، لیکن اب ایک دم سے ھی عزیز از جان لگنے لگی تھی ۔ اسے محسوس ھوا، کہ صنم چلی گئی تھی، اور جاتے جاتے اس کے سینے سے اس کا دل نکال کر لے گئی تھی۔

نومی صنم کی بس ایک جھلک ھی دیکھ پایا تھا، لیکن وہ ایک جھلک پچھلی تمام ملاقاتوں پر بھاری ثابت ھوئی تھی ۔ صنم کو محض لذّت کا سامان سمجھنے والا اب پھر سے اس کے لئے بے چین ھو گیا تھا۔ لیکن یہ بے چینی جسمانی طلب کے نتیجے کے طور پر نہیں ، بلکہ صنم سے نومی کی سچّی محبّت کے آغاز کا پیش خیمہ تھی ۔ اب نومی صنم کی قربت اس لئے نہیں چاھتا تھا، کہ اس سے جسمانی تسکین حاصل کرے، بلکہ آج پہلی دفعہ ھی تو وہ اس سے مل کر اپنے سابقہ رویّے پر اظہار ندامت کرنا چاھتا تھا ۔ وہ اسے اپنی وفاؤں کا یقین دلانا چاھتا تھا۔ وہ اپنی وفا شعار محبوبہ سے اپنی پچھلی تمام غلطیوں کی سچّے دل سے معافی مانگنا چاھتا تھا۔ وہ اعتراف جرم کرنا چاھتا تھا، بدلے مین صنم چاھے اسے معاف کرتی، یا مجرم گردانتے ھوئے سخت سے سخت سزا کا حکم جاری کر دیتی۔ اسے اس بات کی پروا نہیں رھی تھی ۔ وہ تو بس صنم سے معافی مانگنا چاھتا تھا ، لیکن چوھدری نے اسے صنم سے معافی مانگنے کا موقع ھی نہیں دیا تھا۔

نومی کو بھی صنم سے عشق ھو چکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

************************************************** ************

حویلی پہنچ کر صنم کی حالت پھر سے بگڑ گئی ۔ اس نے آج نومی کو پھر سے دیکھ لیا تھا، اور یہ دیکھنا، اس کے لئے اچھّا ثابت نہیں ھوا تھا ۔ اس کی سانس کبھی بند ھو رھی تھی، اور کبھی کھل رھی تھی ۔ ایک اور حیرت انگیز بات، کہ صنم رو نہیں رھی تھی ، پھر بھی اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔ چوھدری سمیت سب پریشانی سے گھلتے جا رھے تھے ، لیکن کسی کی سمجھ میں نہیں آ رھا تھا ، کہ کیا کرے، اور کس طرح سے صنم کے درد کا مداوا کرے ۔

آخر صنم کو پانی پلایا گیا، جس میں نیند کی گولی گھول دی گئی تھی ۔ پانی پینے کے چند منٹ بعد، صنم گہری نیند سو گئی ۔

صنم شام کو اٹھ سکی تھی ۔ اس کا سر بوجھل تھا۔ اس نے چند منٹ بستر میں لیٹے رھنے کے بعد، بستر چھوڑ دیا۔ چادر اوڑھ کر وہ کمرے سے باھر نکل آئی ۔ گھر میں نہ اس کی ماں موجود تھی، اور نہ ھی اس کا باپ ۔ اس نے ایک طائرانہ سی نظر حویلی پر ڈالی، اور چھت پر چلی آئی ۔ اس کی ایک ملازمہ نے بھی اس کے ساتھ آنا چاھا، لیکن اس نے اسے سختی سے منع کر دیا،۔ اس وقت صنم تنہائی چاھتی تھی ۔ تنہائی، جو نومی کی طرح بے وفا نہیں تھی ۔ یہ تنہائی ھی تو تھی ، جو نومی کی جدائی کے سنگین ترین دنوں میں ھر وقت اس کے ساتھ ساتھ رہی تھی ۔ اس وقت اسے ننھی کی کمی بہت شدّت سے محسوس ھو رھی تھی ۔

چھت پر کھڑے ھو کر دور دور تک دیکھا جا سکتا تھا ۔ اس نے ایک کونہ پکڑا، اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ھو گئی ۔ اس کی نگاھیں کھیتوں کی طرف اور اس راستے پر بھٹک رھی تھیں، جس پر آج نومی سے اس کا سامنا ھوا تھا ۔ اس کے دل میں ٹیس سی اٹھی۔ لیکن اس نے ھمّت کرتے ھوئےخود پر قابو پا لیا۔ اب وہ نومی کے بارے میں ٹھنڈے دل سے آخری بار سوچنا چاھتی تھی ، جیسے اس کے حوالے سے وہ کوئی ایک فیصلہ کر لینا چاھتی ھو ۔

اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ایک کر کے تمام مناظر واضح ھوتے چلے گئے ۔ اسے اپنا اور نومی کا رویّہ یاد آنے لگا تھا ۔ اس نے غور کیا، تو اسے محسوس ھوا، کہ نومی کے جس رویّے کو وہ اس کی ادا سے تعبیر کرتی تھی، وہ در حقیقت اس کی بے وفائی تھی، لیکن صنم اسے سمجھ نہ سکی تھی ۔ جوں جوں وہ سوچ رھی تھی، اس پر مزید کئی حقیقتیں آشکارا ھو رھی تھیں۔ اب اسے رہ رہ کر نومی کا رویّہ یاد آ رھا تھا۔ جب بھی نومی اس سے ملتا تھا، تو بہت گرم جوشی دکھاتا تھا، لیکن جب وہ سیکس کر چکتا ، تو اس سے بیزار نظر آنے لگتا تھا۔ صنم اندر ھی اندر گھلنے لگتی ۔

اور آج صنم کو سمجھ آئی تھی ، کہ نومی کیوں اس وقت اس طرح کیا کرتا تھا ۔ در حقیقت اسے صنم سے کبھی بھی محبّت نہیں رھی تھی ، وہ تو بس اس کے حسین جسم کا پیاسا تھا۔ اسی لمحے اسے ننھی کا انکشاف یاد آیا۔ یہ بھی نومی کی ھوس اور اس کے غلط کردار کا ایک ثبوت تھا ۔ نومی صرف جسم کا پجاری تھا ۔ جب تک اسے صنم کے جسم کی طلب محسوس ھوتی رھی ، تب تک وہ اس سے محبّت کے نام پر ھوس کا کھیل کھیلتا رھا، اور جب اس کا دل اس سے بھر گیا، تو وہ اسے تنہا چھوڑ کر فرار ھو گیا تھا ۔ صنم جوں جوں سوچ رھی تھی ، توں توں وہ نومی کی محبّت کے حصار سے نکل رھی تھی ۔ اسے محسوس ھو رھا تھا ، کہ آج جو کچھ وہ سوچ رھی تھی ، وہ اسے کئی دن قبل ھی سوچ لینا چاھئے تھا ۔ لیکن دیر آئد، درست آئد ۔

گو کہ نومی کے اندر صنم کے حوالے سے ایک بہت بڑی تبدیلی آ چکی تھی، لیکن صنم اس سے یکسر بے خبر تھی ۔ اس کے دماغ میں نومی کی ایک شبیہ بن چکی تھی، اور وہ شبیہ کسی بھی طور مثبت نہیں تھی ۔ صنم نومی کے ھاتھوں برباد ھو چکی تھی، اور نومی کے بھاگ جانے نے اسے بہت کچھ سمجھا دیا تھا۔

گو کہ اسے اپنی عزّت کے چلے جانے کا بھی دکھ تھا، لیکن نومی کی بے وفائی کا دکھ بھرا احساس اس کے لئے اپنی عزّت کے دکھ سے بھی بڑا تھا ۔ لیکن، اس نے نومی کی بے وفائی کو اپنی ساری زندگی کا روگ نہیں بنانا تھا ، صنم نے سوچا ۔

وہ نومی کو یاد کر کر کے بہت رو چکی تھی ۔ اب یہ سلسلہ بند ھونا چاھئے ۔

آخر وہ ایک فیصلے پر پہنچ گئی ۔

اس نے دور آسمان پر موجود سورج کو دیکھا، جو کچھ ھی لمحوں میں افق کے اس پار ڈوبنے والا تھا ۔ سورج کے ڈوبنے سے دنیا میں اندھیرا چھا جاتا ھے، تو دوسری طرف صنم کا فیصلہ نومی کی دنیا اندھیر کرنے والا تھا ۔

ایک فیصلے پر پہنچ کر صنم اپنے آپ کو پر سکون محسوس کر رھی تھی ۔ اب وہ چھت پر سے نیچے اتر آئی ۔

************************************************** *

نومی قدرت کے کھیل پر حیران ھو رھا تھا ۔ رات کو ھی وہ کراچی سے گاؤں پہنچا تھا، اور آج صبح ھی تقدیر نے اسے صنم کے سامنے لا کھڑا کیا تھا ۔ نومی سوچ بھی نہیں سکتاتھا، کہ گاؤں واپسی کے بعد، اتنی جلدی اس کا سامنا صنم سے بھی ھو سکتا تھا۔

نومی بہت زیادہ بے چین ھو چکا تھا۔ کھیتوں میں جانے کی بجائے وہ گاؤں کی طرف واپس آ گیا۔ اس نے ایک دوست سے رابطہ کیا، اور اس سے کہا، کہ وہ فوراْ ننھی سے ملنا چاھتا ھے۔ اس کے دوست نے اسے بتایا، کہ ننھی کی تو ڈیڑھ ماہ پہلے شادی ھو چکی ھے، اور وہ اس وقت شہر میں اپنے سسرال کے گھر میں ھو گی۔

نومی ھکّا بکّا رہ گیا۔

اس کے سارے ارادوں پر پانی پڑ گیا تھا ۔ صنم سے ملنے کا واحد ذریعہ ننھی تھی، اور وہی گاؤں میں موجود نہیں تھی ۔ اب تو نومی کو صنم سے ملاقات ناممکن نظر آ رھی تھی ۔ اچانک اس کے دماغ میں ریحانہ کا نام گونجا ۔ شائد وہ اس سلسلے میں نومی کی کچھ مدد کر سکے ۔

نومی نے ریحانہ سے رابطہ کر کے اس کی مدد چاھی۔ ریحانہ پہلے تو کانپ گئی۔ لیکن جب نومی نے اس کی منّت سماجت کی، تو وہ خباثت سے مسکرائی، اور مشروط طور پر اس کی مدد کرنے پر راضی ھو گئی ۔ اس نے نومی سے ٹھیک ٹھاک پیسوں کے علاوہ اس کی قربت بھی طلب کی تھی ۔ نومی نے ایڈوانس کے طور پر اسے فوراْ کچھ پیسے دئے، اور باقی کے لئے بعد کا وعدہ کر لیا ۔ البتّہ اس نے تنہائی میں ملنے سے انکار کر دیا۔ ریحانہ بگڑ گئی، اور اس نے مدد کرنے سے انکار کیا، تو مجبوراْ نومی نے اس سے تنہائی میں ملنے کا وعدہ بھی کر لیا تھا۔ ایک بات جو نومی نے محسوس کی تھی، کہ اب ریحانہ کی پیش کش سن کر اسے ذرّہ برابر بھی خوشی محسوس نہیں ھوئی تھی، بلکہ اس نے طوعاْ وکرھاْ اسے ھاں کی تھی ۔ شائد یہ تبدیلی بھی صنم کی وجہ سے ھی آ رھی تھی ۔

دوسرے دن اسے ریحانہ ملی۔ اس نے اسے بتایا، کہ اس نے بڑی مشکل سے ایک رابطہ پیدا کیا ھے، لیکن امّید نہیں ، کہ صنم اس سے کھل کر بات بھی کرے گی، یا نہیں ۔ نومی نے اسے تسلّی دیتے ھوئے اپنا پیغام سمجھایا، اور جلد سے جلد جواب لانے کی تاکید کی ۔ ریحانہ نے اسے اپنا وعدہ بھی یاد دلایا۔ نومی اسے پھر کبھی پر ٹالتے ھوئے وہاں سے چلا گیا ۔

نومی کو ریحانہ کا شدّت سے انتظار تھا۔ اس کے لئے ایک ایک پل قیامت ثابت ھو رھا تھا۔ ریحانہ نے دو دن کا وقت مانگا تھا، اور آج اسے تین دن ھو چکے تھے ۔ ریحانہ کو نومی نے صنم سے کہنے کے لئے ایک ھی بات سمجھائی تھی، کہ صنم کو کسی بھی طرح ایک بار ملنے کے لئے راضی کرنا ھے ۔ اب اسے اس لمحے کا انتظار تھا، جب ریحانہ اس کے پیغام کے جواب کے ساتھ واپس آتی ۔

اور ریحانہ واپس آ گئی تھی ۔

لیکن وہ نومی کے لئے کوئی اچھّی خبر نہیں لائی تھی ۔

صنم نے نہ صرف ملنے سے انکار کر دیا تھا، بلکہ آئندہ کوئی بھی پیغام بھیجنے سے بھی منع کر دیا تھا ۔

نومی کے سینے میں جیسے کسی نے خنجر گھونپ دیا ۔ اسے لگا، کہ صنم نے ملنے سے نہیں ، بلکہ اسے زندہ رہنے کا حق دینے سے انکار کر دیا ھو۔

ایک دفعہ تو اس کا دل چاھا، کہ کسی بھی طرح سے اپنا خاتمہ کر لے ۔

لیکن فوراْ ھی اس نے اس خیال کو اپنے دماغ سے جھٹک دیا۔

نہیں،۔ یہ اس مسئلے کا حل نہیں تھا ۔ ابھی تو اسے صنم سے مل کر اپنی بے وفائی کی معافی مانگنی تھی ۔ ابھی تو اس نے صنم کو اپنی وفاؤں کا یقین دلانا تھا۔ نہیں نہیں، ابھی نہیں، ابھی اسے مرنا نہیں ھے۔

نومی اکیلا ھی بیٹھا سوچے جا رھا تھا۔ اسے پتہ بھی نہیں چلا، کہ اس کی آنکھیں پانی سے بھر چکی تھیں، اور ان میں سے پانی بس کسی بھی لمحے نکلنے ھی والا تھا ۔ باہر اس کی آنکھیں بھر رھی تھیں، تو اندر اس کا دل غم کی شدّت سے بھر چکا تھا۔

اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ تنہائی نے آج اسے اپنے دل کا غبار نکالنے کا موقع فراھم کر دیا تھا، اور وہ کھل کر رو رھا تھا۔

آج پہلی بار وہ حقیقی معنوں میں صنم کے لئے رویا تھا ۔

وہ کافی دیر تک وھاں بیٹھا یونہی روتا رھا۔ پھر وہاں سے اٹھ کر گھر چلا آیا۔

************************************************** *******

دن پہ دن گزر رھے تھے، اور نومی صنم کی ایک جھلک دیکھنے کو بھی ترس گیا تھا۔ وہ اس وقت کھیت میں موجود تھا، اور صنم کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ھو رھا تھا۔ اس کا باپ بھی دور کام میں مصروف تھا ۔ اچانک گاؤں میں ھونے والے اعلان نے اس کی توجّہ اپنی جانب مبذول کروا لی ۔ اعلان کرنے والا چوھدری کی جانب سے پورے گاؤں کے لئے کل دوپہر کے وقت دعوت عام کا اعلان کر رھا تھا ۔ نومی سوچنے لگا، کہ معاملہ کیا ھے ۔ اس نے اپنے باپ کے پاس جا کر دعوت پر حیرانی ظاھر کی، تو اس کے باپ نے اسے بتایا، کہ چوھدری جی کی بیٹی بیماری سے ٹھیک ھوئی ھے ۔ یہ دعوت اسی خوشی میں دی جا رھی تھی ۔

نومی کو ذرا سا سکون محسوس ھوا ۔ تو گویا صنم ٹھیک ھو گئی تھی ۔ اسی لمحے اس کے دل سے ایک دعا نکلی ، کہ کاش اب صنم کسی روز کھیتوں کی طرف بھی آئے۔ تا کہ نومی اسے دور سے ھی سہی، کم از کم دیکھ تو سکے ۔

نومی کا باپ کچھ دیر وہاں رکا رھا، پھر وہ گھر روانہ ھو گیا۔ نومی ابھی کام میں ھی مصروف تھا ۔ کچھ دیر بعد، نومی نے کام چھوڑا، اور سستانے کے لئے ایک طرف چل پڑا ۔

نومی چلتا ھوا اپنے کھیت کے ساتھ موجود ایک سڑک کے کنارے بیٹھ گیا۔ اچانک اسے ریحانہ دکھائی دی ۔ ریحانہ کو دیکھ کر نومی کے حلق میں کڑواھٹ سی گھل گئی ۔ وہ اسی طرف آ رھی تھی ۔ اس نے آتے ھی نومی سے اپنا ملاقات والا وعدہ پورا کرنے کی فرمائش کی ۔ نومی اس وقت صنم کی سوچوں میں ڈوبا ھوا تھا۔ نہ تو وہ آج کل صنم سے مل پا رھا تھا ، نہ ھی آج کل صنم کھیتوں کی طرف آ رھی تھی ۔ اس وقت ریحانہ کا یوں آ کر اسے تنگ کرنا نومی کو ناگوار گزر رھا تھا ۔ اس نے اسے ٹالنا چاھا، لیکن ریحانہ آج ھی اس کام کے کروانے پر مصر تھی ۔

نومی صنم کے رویّے پر سوچ رھا تھا ۔ وہ جان چکا تھا ، کہ صنم اس سے سخت ناراض ھے ۔ اسے اس کی وجہ بھی معلوم تھی ، لیکن مسئلہ یہ تھا، کہ صنم اب سامنے ھی نہیں آ رھی تھی ۔ اگر اس سے ملاقات ھو پاتی، تو ھی نومی اس سے معذرت کر کے اس کا من اپنی طرف سے صاف کر سکتا تھا ۔

دوسری طرف ریحانہ مسلسل اس کا دماغ کھا رھی تھی ۔ نومی کو غصّہ آ گیا، اور اس نے ریحانہ کو جھڑک دیا ۔ ریحانہ کا موڈ بدلا، تو نومی کو جیسے خیال آیا۔ ابھی ریحانہ سے بگاڑ سراسر نقصان تھا ۔ اس نے فوراْ لہجے میں مٹھاس پیدا کی، اور اس سے سوری کہ دی ۔ ساتھ ھی اس نے اس سے ایک بہانہ کر کےجان چھڑا لی۔ اس نے ریحانہ سے وعدہ کیا، کہ جیسے ھی اس کی صنم سے ملاقات ممکن ھو گئی، تو وہ ضرور ریحانہ کی خواھش پوری کر دے گا ۔ ریحانہ اس کی بات سے نیم مطمئن سی وہاں سے چلی گئی ۔

نومی کی طبیعت ریحانہ کی وجہ سے مزید خراب ھو چکی تھی ۔ اس نے اٹھ کر اپنے کھیت کا رخ کیا، اور کام میں جت گیا۔ آج کل گندم میں جڑی بوٹیاں بہت اگ رھی تھیں، جن کو صاف کرنا بہت ضروری تھا ۔

نومی کو کام کرتے ھوئے کافی دیر گزر چکی تھی ۔ وہ ارد گرد سے بے خبر تندہی سے اپنا کام کر نے میں مصروف تھا، جب اچانک، بالکل اچانک، اس کے کانوں میں ایک رس گھولتی ھوئی آواز پڑی، اور اسے لگا، کہ جیسے ساری کائنات ٹھہر گئی ھو ۔ اس نے فوراْ سر اٹھا کر دیکھا، اور دیکھتا ھی رہ گیا ۔

اس کے سامنے صنم کھڑی تھی ۔

نومی کی سمجھ میں نہیں آ رھا تھا، کہ کیا کہے، اور کیا کرے ۔ اس کی محبّت، اس کی جان ، اس کی محبوبہ ، اس کی کل کائنات صنم اس کے اتنے قریب موجود تھی، کہ اسے اپنی آنکھوں پر یقین ھی نہیں آ رھا تھا ۔

صنم اس وقت اپنی سہیلی ننھی کے ھمراہ کھڑی تھی ۔ ننھی پرسوں ھی گاؤں میں پہنچی تھی ۔ اسے صنم کی صحّت کا پتہ دیر سے چلا تھا۔ اور جونہی اسے پتا چلا، وہ گاؤں میں آ گئی تھی ۔

آج نومی کو اپنی قسمت پر یقین نہیں آ رھا تھا ۔ تھوڑی دیر پہلے اس کے دل سے نکلنے والی خواھش اتنی جلد پوری ھو جائے گئی ، یہ تو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ صنم اسے دیکھ کر ھولے ھولے مسکرا رھی تھی ۔ اور یہی مسکراھٹ دیکھ کر اس کے اندر اتنا حوصلہ پیدا ھوا تھا، کہ وہ آھستہ آھستہ قدم بڑھاتا ھوا صنم کی طرف چل پڑا تھا ۔ صنم اور ننھی اپنی اپنی جگہوں پر ھی کھڑی تھیں ۔

نومی جوں جوں صنم کے قریب ھو رھا تھا، اسے اپنا دل ڈولتا ھوا محسوس ھو رھا تھا ۔ آج اسے صنم پہلے سے بھی زیادہ حسین لگ رھی تھی ۔ اسے اس وقت صنم کی طرف چل کر جانے میں اتنا سرور محسوس ھو رھا تھا، کہ اس کا دل چاھا، کہ کاش، وقت اسی مقام پر تھم جائے، اور وہ ساری عمر یونہی صنم کی طرف چلتا ھی چلا جائے ۔ صنم کی طرف چل کر جانے کا مزہ، وصل کے مزے سے بھی بڑھ گیا تھا ۔

نومی صنم کے پاس پہنچا، تو اس نے سب سے پہلے، صنم کا حال پوچھا تھا ۔ صنم مسکرائی، اور اس سے گلے ملنے کو کہا۔ نومی حیران ھوا۔ صنم اس سے پہلے ننھی کے سامنے اتنی بے باک کبھی نہیں ھوئی تھی ۔ لیکن جب اس نے صنم کو اس معاملے میں سنجیدہ دیکھا ، تو وہ آگے بڑھا ۔

جب وہ صنم کے بالکل سامنے پہنچ گیا، اور اس نے اسے گلے لگانے کے لئے ھاتھ بڑھانا چاھے ، عین اسی لمحے صنم کا دایاں ھاتھ بجلی کی سی تیزی سے حرکت میں آیا، اور " تڑاخ " کی آواز کے ساتھ ایک زنّاٹے دار تھپّڑ نومی کے گال پر پڑا ۔

نومی اپنی جگہ پر ساکت کھڑا رہ گیا ۔

************************************************** *************

( صنم اور نومی کی داستان۔ محبّت ابھی جاری ھے ۔ بقیہ واقعات اگلے حصّے میں ملاحظہ فرمائیے ۔ )

Top of Form


نومی کی حالت ایسی ھو چکی تھی، کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ کافی دیر تک تو وہ صنم کے اس سلوک پر یقین ھی نہیں کر سکا تھا۔ اور جب وہ اس کیفیّت سے باھر آیا، تو اس نے صنم اور ننھی کی جانب دیکھا۔ ننھی کے چہرے پر بھی حیرت کے تاٴثّرات تھے ۔ یقیناْ صنم کا تھپّڑ اس کے لئے بھی اچنبھے کی بات تھی۔

نومی پھٹی پھٹی نگاھوں سے اس کو ایسے دیکھ رھا تھا، جیسے وہ کسی اور ھی سیّارے کی مخلوق ھو، اور نومی نے اسے پہلی بار دیکھا ھو ۔

صنم کی آنکھوں سے جیسے نفرت کے شعلے برس رھے تھے۔ اس نے گویا نومی کی سوالیہ نظروں کا جواب دیا ۔ جب وہ بولی، تو اس کے لہجے میں نفرت ھی نفرت تھی ۔

" میرا خیال ھے، کہ اس تھپّڑ کے بعد مجھے کچھ کہنے کی ضرورت تو نہیں ھے ۔ اس تھپّڑ سے تمھیں اندازہ تو ھو ھی گیا ھو گا، کہ اب میری نظروں میں تمھاری کیا اوقات رہ گئی ھے ۔ پھر بھی اگر تمھارے دل میں کوئی شک رھتا ھے، تو اسے میں دور کئے دیتی ھوں ۔ اور کوئی موھوم سی امّید اگر اب بھی قائم ھے ، تو اسے میں توڑ دیتی ھوں ۔ یاد رکھنا نومی ، آج کے بعد اگر تم نے کسی کو پیغام دے کر میری طرف بھیجنے کی کوشش کی، یا کبھی میرا راستہ روکنے کی کوشش کی، تو میں تمھارا وہ حشر کروں گی، جس کا تم نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ھو گا ۔ تم نے ابھی تک میرا پیار ھی دیکھا ھے نومی ، آج سے پہلے تم میری نفرت سے واقف نہیں تھے۔ لیکن اب میری نفرت دیکھو گے، تو تم میرے پیار کو یوں چٹکیوں میں بھول جاؤ گے یوں ۔ " صنم نے چٹکی بجاتے ھوئے کہا۔ نومی کا سر جھکا ھوا تھا، اور وہ صنم کی نفرت بھری باتیں سن رھا تھا ۔

ننھی اور کبھی صنم کو دیکھ رھی تھی، تو کبھی نومی کو ۔ احتیاطاْ وہ اپنے اطراف پر بھی نظریں دوڑا لیتی تھی، تا کہ کسی بھی ذی روح کے آنے پر وہ صنم کو لے کر وہاں سے دور ھو سکے ۔ اس وقت اگر ان کو یوں نومی کے ساتھ دیکھ لیا جاتا، اور صنم کے باپ تک بات پہنچ جاتی ، تو صنم اور نومی کے ساتھ ننھی بھی مصیبت میں پڑ جاتی ۔

اس کے بعد صنم ایک ذرا سے توقّف سے بولی ۔

" کیا ھوا ھے تم کو؟ سانپ سونگھ گیا ھے کیا ؟ یا منہ میں گڑ آ گیا ھے ؟ بولتے کیوں نہیں ؟ "

نومی نے اپنا چہرہ اوپر کو اٹھایا۔ صنم سے اس کی نگاھیں ٹکرائیں۔ نومی کی آنکھوں میں اب بھی صنم کے لئے پیار ھی پیار نظر آ رھا تھا ۔ لیکن صنم کی آنکھوں پر نفرت کے گہرے بادلوں نے ڈیرے ڈال رکھّے تھے، اور اس کے لئے ممکن ھی نہیں رھا تھا، کہ وہ ان بادلوں کی دبیز تہوں میں سے نومی کی آنکھوں کے راستے اس کے دل کے اندر تک جھانک سکتی جہاں اب صرف اسی کا بسیرا ھو چکا تھا ۔

نومی کی آنکھوں میں آنسو جمع ھو رھے تھے ۔ وہ کچھ کہنا چاھتا تھا ۔اس کے لب تھرتھرائے، لیکن اس سے پہلے کہ نومی اس کے سوال کا جواب دے پاتا، صنم نے پھر سے بولنا شروع کر دیا۔

" تم کیا بولو گے نومی ۔ آج تم بولو گے نہیں، صرف سنو گے، اور میں بولوں گی ۔ یاد ھے میں نے تم سے کہا تھا، مجھے چھوڑ کر کبھی بھی کہیں بھی مت جانا، ورنہ میں مر جاؤں گی ۔ اس لئے کہ میں نے تمھیں سچّے دل سے چاھا ھے، اور تمھارے بغیر زندگی گزارنے کا اب میں تصوّر بھی نہیں کر سکتی ۔ ، ، ، ، ، لیکن تم نے کیا صلہ دیا میری ان باتوں کا؟ تم ایک دم سے ھی مجھے چھوڑ کر بھاگ گئے ؟؟؟ " صنم کے چہرے اور اس کی آواز میں بلاٴ کا کرب جھلک رھا تھا۔ اس نے سلسلہٴ کلام جوڑتے ھوئے مزید کہا۔

" لیکن میں ھی پاگل تمہیں پہچان نہ سکی نومی۔ میں یہ جان ھی نہیں پائی، کہ تم ایک لالچی انسان ھو، اور ایک لالچی انسان سے اسی طرح کی توقّع کی جا سکتی ھے۔ اور تم کر بھی کیا سکتے تھے ۔ ایک لالچی انسان اس طرح کی گھٹیا حرکتوں کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا ۔ تم گھٹیا تھے، اور تم نے اپنا گھٹیا پن دکھا دیا نومی۔ تمھارے گھٹیا پن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ھو گا، کہ تم محبّت کے نام پر مجھ سے کھیلتے رھے۔ مجھے نوچتے رھے ۔ اور جب مجھ سے دل بھر گیا، تو مجھ سے خاموشی کے ساتھ منہ پھیر لیا ۔ لیکن افسوس در افسوس کی بات تو یہ ھے، کہ تم نے مجھے تو لوٹا سو لوٹا، ساتھ ھی ساتھ تم نے ریحانہ جیسی بے ھودہ لڑکی کے ساتھ بھی گندا رشتہ قائم کر لیا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ "

نومی اس کے منہ سے ریحانہ کے اور اپنے جسمانی تعلّق کے بارے میں سن کر ایک دم سے چونکا ۔ لیکن صنم نے اس کے تاٴثّرات دیکھے بغیر اپنی بات جاری رکھّی ۔ نومی کا سر ایک بار پھر سے جھک چکا تھا ۔

" تم اتنے گرے ھوئے انسان ھو نومی، کہ اب مجھے تمھارے پاس کھڑے ھوتے ھوئے بھی گھن آ رھی ھے ۔ افسوس تو اس لمحے پر ھے مجھے، جب میں نے تمھیں چاھا۔ اور اسی چاھت کی وجہ سے میں بڑا تڑپی بھی ھوں ۔ ھاں، تمھیں چاھنے میں قصور جب میرا اپنا تھا، تو سزا بھی تو مجھے ھی ملنا چاھئے تھی۔ "

صنم بولتے بولتے چپ سی ھو گئی ۔ نومی نے سر اٹھّا کر اسے دیکھا۔ شائد وہ اپنی سانس درست کر رھی تھی ۔ مسلسل بولتے رھنے سے اس کے چہرے پر اذیّت صاف نظر آ رھی تھی ۔ صنم نے اپنی آنکھوں میں سے نکلنے والے آنسو صاف کئے، اور دوبارہ سے گویا ھوئی ۔

" لیکن تم کیا سمجھتے تھے، کہ میں تمھارے بغیر جی نہیں سکتی ۔ مر جاؤں گی تمھاری یادوں میں ؟ اگر تم ایسا سمجھتے ھو، تو آج میں تمھیں بتا دینا چاھتی ھوں نومی احمد ، کہ میں اس کرب سے نکل آئی ھوں جو تم نے مجھے دیا تھا ۔ تم کیا سمجھتے تھے، کہ میں تمھاری یادوں میں پاگل ھو جاؤں گی؟ نہیں بے وقوف انسان۔ آج کے بعد تم میرے لئے اور میں تمھارے لئے مر گئے ھیں۔ سنا تم نے؟ تم میرے لئے مر چکے ھو۔ اور آج کے بعد، میری طرف سے کوئی بھی توقّع مت رکھنا۔ مت رکھنا کوئی بھی توقّع۔ "

آخری الفاظ بولتے بولتے صنم کی بات چیخ کی صورت اختیار کر گئی تھی ، اور آواز رندھ گئی تھی ۔ صاف پتہ چل رھا تھا، کہ وہ اپنی مرضی سے نہیں، بلکہ انتہائی دکھ، اور کمال ضبط سے کام لیتے ھوئے بول رھی تھی ۔ اس کا چہرہ بھی اس بات کی چغلی کھا رھا تھا ، کہ وہ جو کچھ بھی بول رھی تھی، کم از کم اپنی مرضی سے نہیں بول رھی تھی ، بلکہ اس کے زھریلے الفاظ کسی شدید ترین اندرونی دکھ کا نتیجہ تھے ۔ اس کے چہرے پر اذیّت واضح نظر آ رھی تھی ۔ اور نومی جانتا تھا، کہ اس اذیّت کی اصل وجہ نومی کی بے وفائی تھی ۔ وہ بے وفائی، جو آج سے پہلے تک پھانس بن کر صنم کی زندگی میں اٹکی رھی تھی، اور اب اسی بے وفائی کے بدلے میں ملنے والی شدید ترین نفرت نومی کو نہ جانے کب تک جھیلنا تھی ۔

جب نومی نے محسوس کیا، کہ صنم اپنے دل کا غبار نکال چکی ھے، تو اس نے پھر سے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ اس کا خیال تھا، کہ اب صنم شائد اسے اپنی صفائی کا موقع دے دے ، لیکن صنم نے اسے اشارہ کر کے بولنے سے منع کر دیا۔ اس نے صنم کا نام لے کر اسے مخاطب کیا، تو صنم چلّائی ۔

" مت لو اپنی گندی زبان سے میرا نام ۔ میں تمھارے منہ سے اب اپنا نام سننا بھی برداشت نہیں کر سکتی ۔ سنا تم نے ؟ "

نومی اسے بس دیکھتا ھی رہ گیا۔ صنم اس سے اتنی نفرت بھی کر سکتی تھی، یہ تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔

صنم کے ساتھ کھڑی ننھی نے اب درمیان میں آنے کا فیصلہ کیا ۔ ویسے بھی صنم نومی کو بہت باتیں سنا چکی تھی ۔ اب وہاں سے نکلنے میں ھی عافیّت تھی ۔ پھر اس سے پہلے، کہ صنم نومی کو مزید کچھ کہ پاتی، ننھی نے صنم کو بازو سے پکڑا، اور کھینچتی ھوئی وہاں سے لے گئی ۔ صنم نے نومی کو کچھ کہنا چاھا، لیکن ننھی نے اس کے منہ پر اپنا ھاتھ رکھ دیا۔ حیرت انگیز طور پر ان کا رخ اب واپس گاؤں کی طرف تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا، کہ صنم نے گاؤں سے کھیتوں تک کا یہ سفر صرف اور صرف نومی پر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے ھی کیا تھا۔

نومی وھیں کھڑا ان کو واپس جاتے ھوئے دیکھتا رھا۔ حتّیٰ کہ وہ آنکھوں سے اوجھل ھو گئیں ۔ نومی نے ایک ٹھنڈی سانس بھری، اور وہیں بیٹھ گیا۔ اس کے ھونٹ کانپ رھے تھے۔ آنکھیں شائد پتھرا گئی تھیں، کیونکہ وہ پلکیں جھپکانا بھی بھول گیا تھا۔ البتّہ اس کی پتھرائی ھوئی آنکھیں اس کے آنسو نہیں روک سکی تھیں، جو اس کے دل پر پڑنے والی چوٹ کے نتیجے پر رواں ھو گئے تھے ۔

نومی آج صنم کے ھاتھوں اپنی توھین پر اتنا افسردہ نہیں تھا، کیونکہ اسے صنم سے تقریباْ اسی قسم کے ردّ عمل کی توقّع تھی ۔ اسے دکھ تو صرف اس بات پر تھا ، کہ صنم نے اسے بولنے کا موقع بھی نہیں دیا تھا ۔ وہ سوچ رھا تھا، کہ دنیا کی بڑی سے بڑی عدالت میں بھی مجرم کو سزا سنانے سے پہلے صفائی کا کم از کم ایک بھرپور موقع ضرور فراھم کیا جاتاھے ۔ لیکن صنم نے تو اس پر فرد جرم عائد کرنے کے ساتھ ھی سزا سنا دی تھی ۔ اسے صفائی کا موقع دئے بغیر ، ، ، ؟

فوراْ اس کے دماغ میں اس سوال کا جواب ابھرا۔ " تو کیا تم نے صنم کو جدائی کی سزا دیتے ھوئے اس سے کچھ پوچھا تھا ؟ اس کا خیال کیا تھا ؟ اگر تم نے اس سے پوچھے بغیر ھی اسے سزا دی تھی، تو صنم کو بھی حق حاصل تھا، کہ وہ بھی تمھارے ساتھ اسی طرح سے پیش آئے، اور تمھیں اسی طرح کی سزا دے ۔

اور اس نے محسوس کیا، کہ وہ جواب اسے لاجواب کرنے کے لئے کافی تھا ۔ نومی اندر ھی اندر شرمندہ ھو رھا تھا۔

اس دن نومی سارا دن کھیت میں موجود چارپائی پر پڑا رھا ۔ وہ کبھی رونے لگ جاتا، تو کبھی صنم سے ملنے کا کوئی حل سوچنے لگ جاتا، لیکن حل تھا، کہ اس کی سمجھ سے کوسوں دور تھا ۔ اسے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رھی تھی ۔ یہی سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔

شام کو اس کے باپ کے بھیجے ھوئے لڑکے اسے تلاش کرتے ھوئے کھیتوں میں آئے ، تو نومی وھیں پڑا ھوا تھا ۔ اسے شدید بخار ھو رھا تھا ۔ وہ لوگ اسے اٹھا کر گھر لے گئے۔

اسے سردی لگ گئی تھی۔ نہ جانے وہ وہاں بیٹھا بیٹھا کب سو گیا تھا، اور ٹھنڈ میں کتنی ھی دیر تک وھیں پڑا رھا تھا ۔

گاؤں کے ایک ڈاکٹر سے اس کی دوائی لی گئی۔

نومی کی حالت ساری رات خراب رھی۔ صبح تک وہ کچھ سنبھل سکا تھا ۔ صحّت ٹھیک ھونے پر بھی اس کے دماغ میں پہلا خیال صنم کا ھی آیا تھا ۔ صنم، جو پہلے اس کے لئے اھمیّت نہیں رکھتی تھی، تو ھمہ وقت اس کی دسترس میں تھی، مکمّل طور پر اس کے تصرّف میں تھی ، اور اب جبکہ وہ اس کی محبّت بن گئی تھی، اس کے لئے رگ جاں سے بھی زیادہ اھم ھو چکی تھی، تو اسے نومی کی شکل سے بھی نفرت ھو چکی تھی ۔

نومی بظاھر چپ چاپ پڑا تھا، لیکن اس کا دل اندر ھی اندر خون کےآنسو رو رھا تھا۔

***************************************

کھیتوں سے واپسی پر صنم بھی اندر سے ٹوٹ چکی تھی ۔ گو کہ اس نے نومی کے سامنے اپنی دلی کیفیّت اور شدّت غم کو چھپائے رکھنے کی انتہائی کوشش کی تھی ، لیکن اب وہ برداشت نہیں کر پا رھی تھی ۔ گاؤں پہنچ کر وہ سیدھی ننھی کے ھمراہ اس کے گھر گئی تھی ۔ وہاں اس وقت کوئی بھی موجود نہیں تھا، اور صنم ایسی ھی کسی جگہ پر ایک بار کھل کر رونا چاھتی تھی۔

صنم کافی دیر تک روتی رھی ۔ ننھی نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ اس نے صنم کو رونے دیا تھا ۔ ساتھ ساتھ وہ اس کی آنکھوں سے آنسو بھی صاف کر رھی تھی ۔ جب اس نے دیکھا، کہ صنم کے آنسو خشک ھو چلے ھیں، تو اس نے صنم کو سمجھانا شروع کیا۔ صنم بھی رو رو کر اپنا دل کافی حد تک ھلکا کر چکی تھی، سو کچھ ھی دیر میں اس کی باتوں کا جواب دینے لگی تھی ۔ ننھی نے صنم سے پوچھا، کہ آیا وہ اب بھی نومی سے محبّت کرتی ھے؟ تو صنم نے غصّے سے اسے دیکھا ۔ ننھی نے اپنا سوال دھرایا۔ صنم اکتا کر بولی ۔

" میں نے آج نومی کے ساتھ جو سلوک بھی کیا ھے، تمھارے سامنے ھی کیا ھے ۔ اس کے بعد تمھیں یہ سوال کرنا تو نہیں چاھئے۔ "

ننھی نے اسے غور سے دیکھا، اور بولی۔

" اگر تم یہ کہتی ھو، کہ تمھیں اس سے محبّت نہیں ھے، تو تمھیں اس طرح سے رونا بھی نہیں چاھئے صنم ۔ ورنہ میں یہی سمجھوں گی، کہ تم اب بھی اس کے لئے تڑپ رھی ھو۔ "

صنم نے ایک دم اسے دیکھا۔

ننھی کی بات واقعی ٹھیک تھی ۔ اگر اسے نومی سے محبّت نہیں تھی، تو اسے اب رونے کی کیا ضرورت تھی ۔ ، ،، ،، ،

صنم نے اپنی آنکھیں صاف کیں، اور پھیکے انداز میں مسکراتے ھوئے بولی ۔

" ٹھیک ھے ننھی ۔ آج کے بعد میں کبھی بھی اس کے لئے نہیں روؤں گی ۔ "

ننھی بھی مسکرا دی۔ لیکن اس کی مسکراھٹ صنم کی مسکراھٹ سے قطعی مختلف تھی ، بے ساختہ، اور اصلی۔ اس نے صنم کی آنکھوں میں جھانکتے ھوئے کہا۔

" ایک بات اور، اگر آج کے بعد، تم کبھی بھی کہیں بھی، بغیر کسی بات کے رو پڑیں ، تو سمجھ جانا، کہ تم اب بھی اس سے محبّت کرتی ھو ۔ "

صنم چڑ گئی ۔

" پلیز ننھی ، میرے سامنے اس کا نام مت لو۔ مجھے نفرت ھے اس سے نفرت۔ میں اب اس کا نام بھی نہیں سن سکتی ۔ خدا کے لئے ، اب اس کا نام مت لینا ۔"

ننھی نے پھر سے اسے ٹوکا۔

" دیکھا؟ اسی لئے میں کہ رھی ھوں، کہ تم شائد اب بھی اس نسے محبّت کرتی ھو ۔ اگر تم کو اس سے نفرت ھے، اور تم اس کا درد اپنے دل میں محسوس نہیں کرتیں، تو اس کا نام سن کر کچھ محسوس بھی مت کرو ۔ اگر تم یہ کر سکتی ھو، تو ھی تم اس کی محبّت کے گرداب سے مکمّل باھر آ سکو گی صنم ۔ ورنہ اگر تم اس کے ذکر پر، صرف اس کا نام سن کر بھی اسی طرح سے ری ایکٹ کرتی رھیں ، تو سمجھ لو ، کہ تم اس کو ابھی تک اپنے دل سے اپنی سوچوں سے نکال نہیں سکی ھو۔ "

صنم اسے دیکھ رھی تھی، اور ننھی کی پیش گوئی پر الجھن کا شکار نظر آ رھی تھی ۔ لیکن ننھی اپنی بات پر ڈٹی رھی ۔ آخر صنم کو ننھی کی بات ماننا پڑی ۔ اس نے دعویٰ کیا تھا، کہ وہ اب نومی کو دل سے نکال کر دکھائے گی ۔ اور ننھی نے کہا تھا، کہ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ھو جاتی ھے، تو یہ اس کی ھمّت، برداشت ، اور بہادری کا بہترین ثبوت ھو گا۔

اب صنم دل ھی دل میں نومی کو بھلا دینے کا تہیّہ کر رھی تھی۔ اور تقدیر اوپر کھڑی اس کی سوچ پر مسکرا رھی رھی، جیسے اس کی سوچ کا مذاق اڑا رھی ھو۔ صنم کو معلوم ھی نہیں تھا، کہ تقدیر نے اس کے اور نومی کے حوالے سے کچھ اور ھی سوچ رکھّا تھا۔

************************************************** *****************

وقت آگے کو بڑھتا رھا، اور گرمیوں کا موسم شروع ھو گیا۔

نومی اور صنم کے درمیان حائل نفرت کی خلیج کو چھے ماہ ھو چلے تھے۔ ان چھے ماہ میں نومی نے صنم کو چند ایک بار ھی دیکھا تھا ۔ وہ اسے اسی وقت نظر آئی تھی، جبکہ وہ اپنی ایک ملازمہ، اور ایک مسلّح گارڈ کے ساتھ چند ایک بار اپنے کھیتوں کی طرف گئی تھی ۔ نومی مسلّح ملازم کے سامنے صنم کو مخاطب کرنے ، یا اس کے سامنے آنے تک کا بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ کبھی کبھی وہ تنہائی میں اس بات پر سوچتا، تو بڑے بڑے منصوبے بناتا، کہ کل اگر صنم نظر آئی، تو گارڈ اور اس کے پاس اسلحے کی پروا کئے بغیر صنم سے دو ٹوک بات کروں گا۔ لیکن اگلے دن جب وہ گارڈ کو صنم کے ساتھ دیکھتا، تو اس کی ھوا نکل جاتی تھی ۔ اس طرح کے کاموں میں ھمیشہ ھی اس کی فطری بزدلی اس کے آڑے آ جایا کرتی تھی ۔

ننھی اپنے گھر واپس جا چکی تھی ۔ اور نومی اسے اپنی بد قسمتی سے تعبیر کیا کرتا تھا۔ گو کہ ننھی صنم کی سہیلی تھی، اور نومی کے لئے اس کے دل میں ھمدردی کا امکان کم ھی تھا، لیکن پھر بھی ایک راستہ تو تھا۔ کم از کم ننھی سے بات کرنے سے ایک امّید تو بندھ سکتی تھی ۔ امکان تو تھا، کہ شائد نومی ننھی کو منا لے، اور اس کی سفارش پر صنم ایک بار بات سننے پر راضی ھو ھی جائے۔ شائد اس کے دل میں نومی کی محبّت جاگ جائے، جو اس نے اپنے دل کے نہاں خانوں میں کب کی دفن کر دی تھی ۔ ننھی کے جانے کے بعد سے تو اس کی ھر آس ٹوٹ چکی تھی ۔

اب تو اسے صنم تک رسائی کا کوئی راستہ ھی نظر نہیں آتا تھا ۔

نومی سوکھ سوکھ کر کانٹا ھوتا جا رھا تھا ۔ اسے نہ تو اپنی صحّت کا خیال تھا، اور نہ ھی وہ کرنا چاھتا تھا ۔ وہ ھر وقت بس صنم کے بارے میں ھی سوچتا رھتا تھا ۔

ریحانہ نے اس عرصے کے دوران اس سے ملنے کی بڑی کوشش کی، لیکن نومی ھر دفعہ اسے دیکھ کر کہیں نہ کہیں سائیڈ پر نکل جاتا۔

ایک دن جبکہ نومی اپنے اور صنم کے بارے میں سوچ رھا تھا۔ اسی وقت اس کے دماغ میں ریحانہ کا خیال آیا ۔ اس وقت وہ اپنے اور صنم کے درمیان میں پیدا ھونے والی خلیج کے محرکات پر غور کر رھا تھا ۔ریحانہ کا چہرہ اس کے پردہٴ تصوّر پر اسی وجہ سے نمودار ھوا تھا۔

اس کا دل بار بار ایک ھی بات کی گواھی دے رھا تھا، کہ اس نے صنم کو داغدار کر دیا تھا ۔ اسی وجہ سے صنم اس کے جانے کے بعد اس سے بد گمان ھوئی تھی ۔ اگر اس نے صنم کی عزّت تار تار نہ کی ھوتی، تو اس کے جانے کے بعد بھی صنم اس سے کم از کم اتنی زیادہ بد گمان نہ ھو پاتی، جتنی عزّت گنوا کر ھوئی تھی ۔ اور صنم کے جسم سے کھیلنے کا خیال نومی کے دل میں اسی وقت پیدا ھوا تھا، جب ریحانہ نے نومی کو بلیک میل کر کے اپنی پھدّی سے اسے کھیلنے کا موقع فراھم کیا تھا، اور اسے عورت کے جسم کے نشے سے متعارف کروایا تھا ۔ یہی وہ لمحہ تھا، جو نومی کی گمراھی کی بنیاد بنا تھا۔ نہ ریحانہ نومی کو اپنے جسم سے کھیلنے کا موقع دیتی، اور نہ ھی نومی اس مزے سے آشنائی حاصل کر پاتا۔ کم از کم از طرح اس کے اور صنم کے درمیان چلنے والی محبّت پاک ھی رھتی۔

نومی اس نقطے پر جتنا سوچ رھا تھا۔ اتنی ھی اپنے اندر ریحانہ کے لئے نفرت محسوس کر رھا تھا۔ آخر اسے لگا، کہ سوچ سوچ کر غصّے سے اس کی نسیں پھٹ جائیں گی ۔ اس نے لمبے لمبے سانس لئے، اور چند ثانئے کے لئے اپنے دماغ کو آزاد چھوڑ دیا۔ جب وہ پر سکون ھو گیا، تو اس نے ریحانہ کا حل سوچنا شروع کیا۔ وہ ریحانہ کو کوئی سزا دینا چاھتا تھا۔ ایسی سزا، جس کے بارے میں ریحانہ کسی کو بھی آسانی سے بتا نہ سکے ۔

جلد ھی وہ ایک فیصلے پر پہچ گیا۔ اب اسے اس لمحے کا انتظار تھا، جب ریحانہ اسے تنہائی میں کہیں مل جاتی۔

*****************************************

اور ایک دن ریحانہ نے اسے اکیلے میں کام کرتے ھوئے پا ھی لیا۔ نومی اس وقت شلوار اور بنیان میں ملبوس، اپنے کھیتوں میں گوڈی کر رھا تھا۔ اس نے اپنی قمیض گرمی کی وجہ سے اتار کر ایک طرف رکھّی ھوئی تھی ۔

یہ صبح کے دس بجے کا وقت تھا، اور اکثر کاشتکار اپنے اپنے گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ نومی ریحانہ کو اپنے سامنے دیکھ کر اندر ھی اندر مسکرا دیا ۔ ریحانہ نے آتے ھی اسے آنکھ ماری، اور وہ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔

ریحانہ نے اسے اس کا نامکمّل وعدہ یاد دلایا۔ آج ریحانہ جیسے سوچ کر آئی تھی ۔ وہ اس کے سامنے بیٹھ گئی، اور اپنی شلوار اتار دی ۔ نومی کے لن میں مستی شروع ھو گئی ۔ ریحانہ نے بھی للچائی نظروں سے اس کی شلوار پر بنتے ابھار کو دیکھا ۔ نومی نے اسے کماد میں چلنے کو کہا۔ ریحانہ سمجھ چکی تھی، کہ آج نومی اس کی خواھش ضرور پوری کرے گا ۔

وہ کماد میں پہنچ گئی۔ اسے معلوم نہیں تھا، کہ آج اس کے ساتھ کیا ھونے والا ھے ۔

اس کے چند منٹ بعد ھی نومی بھی وہاں پہنچ چکا تھا ۔ وہ آج ایک نئی سوچ کے تحت اس کے پاس آیا تھا۔ وہاں آنے سے پہلے وہ موبائل سے فون کر کے گاؤں سے اپنے دو دوستوں کو بلانا نہیں بھولا تھا۔

آج نومی، ریحانہ کے بھرے بھرے جسم اور اس کی پھدّی اور گانڈ سے ان دونوں کی دعوت کرنے والا تھا۔ اس نے اس سلسلے میں اپنے دونوں دوستوں کو پہلے سے ھی آگاہ کر رکھّا تھا، کہ جب بھی میں فون کر کے اپنے کھیت میں بلاؤں ، تو تم فوراْ پہنچ جانا۔

اس نے آتے ھی ریحانہ کو اور خود کو مکمّل ننگا کیا، اسے گھوڑی بنا کر اس کی پھدّی پر اپنا لن رکھّا، اور ایک دم سے جاندار دھکّے لگانے شروع کر دئے ۔ ریحانہ اس اچانک افتاد نما چدائی پر جہاں پریشان تھی، وہیں وہ درد سے بھی تڑپ رھی تھی، لیکن نومی اس کی کسی آواز کا جواب نہیں دے رھا تھا۔ اس پر تو جیسے جنون سوار ھو چکا تھا۔

ریحانہ نے اسے آھستہ سے دھکّے لگانے کے لئے منتّیں شروع کر دیں، لیکن نومی اس کی بات سن ھی نہیں رھا تھا ۔

اچانک اس نے ریحانہ کی پھدّی سے اپنا لن نکال لیا۔ ریحانہ نے سکھ کا سانس لیا، لیکن اس کا یہ سکون عارضی ثابت ھوا۔ کیونکہ نومی نے اگلے ھی لمحے اپنا لن اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر ایک ھی دھکّے میں اندر کر دیا تھا۔

اب تو ریحانہ کی روح جیسے فنا ھو گئی تھی ۔ اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی تھی، جو کماد سے نکل کر اطراف میں پھیل گئی تھی۔ نومی نے اس کی چیخ کی آواز پر بھی کان نہیں دھرے تھے ۔ وہ شائد اس وقت پاگل ھو چکا تھا ۔ اس نے ریحانہ کی گانڈ پر ایک تھپّڑ مارتے ھوئے اس سے کہا۔

" بہت چاؤ تھا ناں تمھیں مجھ سے چدوانے کا ۔ آج میں تم کو ایسے چودوں گا، کہ آج کے بعد، تم کبھی بھی مجھ سے چدوانے کی فرمائش نہیں کر سکو گی ۔ سالی گشتی کتیا۔ تیری وجہ سے ھی میں اس گندے کام میں پڑا تھا ۔ یہ گندا چسکا مجھے لگانے والی تو ھی تھی رنڈی حرام خور ۔ اور تیرے لگائے ھوئے اس چسکے کی وجہ سے میں برباد ھو گیا ھوں ۔ نہ دن کو سکون ھے، اور نہ ھی رات کی نیند سو سکتا ھوں ۔ اور اس سب کی ذمّہ دار تو ھے رنڈی ۔ لیکن آج ، ، ، ، آج سب حساب برابر کر دوں گا ۔ مزہ لینا چاھتی تھی ناں میرے لن کا ؟ آج میں تمجھے ایسا مزہ دوں گا، کہ تو اپنی پھدّی کی آگ مجھ سے بجھوانے سے پہلے سو سو بار سوچے گی ۔ "

نومی دھکّے پہ دھکّا لگاتے ھوئے بولتا چلا جا رھا تھا۔ اس کی آواز میں درد کا عنصر بھی شامل تھا ۔ اس لمحے اسے اس بات کا ڈر بھی نہیں رھا تھا، کہ اگر کوئی اس کی آوازیں سن کر ان کے سر پر آن پہنچا ، تو اس کو گاؤں والوں کے سامنے جواب دہ ھونا پڑے گا۔ ریحانہ جیسی لڑکی کی پھدّی مارنا تو شائد جرم نہ تھا، کہ گاؤں کے کئی مرد حضرات اس کے جسم سے مستفید ھو چکے تھے، لیکن وہ کبھی پکڑے نہیں گئے تھے ۔

(ھمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ھے، کہ ھم زناٴ سے اس لئے بچتے ھیں، کہ ھم صرف پکڑے جانے سے ڈرتے ھیں ۔ اگر زناٴ جیسا جرم نہیں بھی کرتے، تو اس کی بڑی وجہ یہی ھوتی ھے، کہ کہیں پکڑے نہ جائیں ۔ جرم سے نفرت نہیں ھے ھمیں ۔ اگر پکڑے جانے کا خوف نہ ھو، تو ھمارے معاشرے میں زناٴ کی شرح انتہائی حدوں سے بھی آگے نکل جائے ۔ )

نومی کا رنگے ھاتھوں اس حالت میں رنگے ھاتھوں پکڑے جانا ایسا جرم ھوتا، جس کی اسے انتہائی بھیانک سزا مل سکتی تھی۔

وہ اس قسم کے خطرات سے بالکل بے نیاز اسے چود رھا تھا۔ اس کے ھر دھکّے کے ساتھ ریحانہ کی درد سے بھری آوازیں نکل رھی تھیں ۔

دوسری طرف ریحانہ کی حالت خراب سے خراب تر ھوتی چلی جا رھی تھی ۔ اس نے آج تک اپنی گانڈ کبھی نہیں مروائی تھی ۔ نومی کا لمبا اور مضبوط لن اس کی گانڈ کو جیسے چیرتا ھوا اندر باھر ھو رھا تھا۔ اوپر سے نومی کے الفاظ نے اس کے کان سن کر دئے تھے ۔ یعنی نومی جان بوجھ کر ایسے انداز میں اس کی گانڈ مار رھا تھا ۔

جب ریحانہ نے دیکھا، کہ اس ی کسی منّت کا بھی نومی پر کوئی اثر نہیں ھو رھا، تو اس نے خاموشی اختیار کر لی ۔

اس نے اندر ھی اندر نومی کو آج کی بھیانک چدائی کرنے پر مزہ چکھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

نومی نے جم کر اس کی گانڈ ماری تھی ۔ اور اس انداز سے ماری تھی، کہ اس کی گانڈ سے خون نکلنا شروع ھو گیا تھا ۔

فارغ ھونے کےبعد، اس نے کپڑے پہن لئے۔ جب ریحانہ نے بھی کپڑے پہننا چاھے، تو نومی نے اس کے کپڑے اٹھا لئے، اور اسے دھکّا دے کر نیچے گرا دیا۔

"سالی تو کدھر جاتی ھے ؟ ابھی تو تو نے میرے دوستوں کو بھی خوش کرنا ھے ۔ وہ بھی بس آنے ھی والے ھیں ۔ "

اور ریحانہ کانپ گئی۔ تو گویا آج نومی نے اس کے لئے حد سے زیادہ تکلیف دہ بندوبست کیا ھوا تھا۔ ریحانہ کو اپنی گانڈ پھٹتی ھوئی محسوس ھوئی ۔ وہ جان چکی تھی، کہ ابھی وہ مزید چدنے والی تھی۔ اس نے نومی کی منّتیں شروع کر دیں، لیکن نومی نے اس کی ایک نہ سنی ۔ آخر اس نے نومی کو دھمکی دے ڈالی ۔

" دیکھو نومی، اگر تم نے مجھے اپنے دوستوں کے حوالے ابھی کر دیا، تو میں تیرے باپ اور چوھدری کو تیرا اور صنم کا سارا چکّر بتا دوں گی ۔ "

نومی اس پر پہلے ھی جلا بھنا بیٹھا تھا ۔ اس بات پر مزید مشتعل ھو گیا، اور اس پر پل پڑا ۔ اس نے اس پر تھپّڑوں کی بارش کر دی۔ ریحانہ نیچے پڑی رو رھی تھی، اور اس سے معافیاں مانگ رھی تھی ۔ وہ آج حیران تھی، کہ نومی کو ھو کیا گیا تھا۔ وہ بزدل نومی نہ جانے کہاں چلا گیا تھا، جو ایک دن اس کی خالی خولی دھمکی پر ھی ڈر گیا تھا۔ لیکن آج جب اس نے واقعی دھمکایا تھا، تو نومی ذرا سا بھی خوفزدہ ھونے کی بجائے الٹا اسی پر ٹوٹ پڑا تھا۔

نومی اسے پیٹ رھا تھا، جب اس کے دوست پہنچ گئے تھے۔ ( قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے، کہ میں ان دنوں گاؤں میں موجود نہیں تھا، ورنہ نومی مجھے بھی ضرور دعوت دیتا ۔ ) انہوں نے نومی کو اس سے دور کیا۔ ننگی لڑکی سامنے پڑی ھوئی تھی، جسے دیکھ کر ان دونوں کے منہ میں پانی بھر آیا۔

نومی ایک لڑکے کے ساتھ باھر آ گیا تھا۔ ریحانہ نیچے زمین پر پڑی ھوئی تھی۔ اس کے منہ سے خون بھی رس رھا تھا۔

نومی کے دوستوں نے بھی ریحانہ کی پھدّی اور گانڈ دونوں ماری تھیں، اور خوب جم کر چدائی کی تھی ۔

جب وہ اس کام سے نمٹ چکے، تو انہوں نے ریحانہ کو پانی پلایا۔ ریحانہ کی حالت غیر ھو چکی تھی ۔ نومی اب ٹھنڈے دماغ سے سوچ رھا تھا، اور جیسے جیسے وہ ریحانہ کی حالت دیکھ رھا تھا، اسے اپنے پیروں کی نیچے سے زمین کھسکتی ھوئی محسوس ھو رھی تھی ۔ جوش میں آ کر اس سے حماقت سرزد ھو چکی تھی ۔ اس نے ریحانہ کی اچھّی خاصی درگت پہلے تو خوب بنائی تھی، اور بعد میں اس پر اپنے دو دو دوست بھی چھوڑ دئے تھے۔ اب نومی خیال کی آنکھ سے دیکھ رھا تھا، کہ گاؤں میں پنچائت ھو رھی ھے، جس میں ایک طرف ریحانہ کھڑی فریاد کر رھی ھے، اور دوسری طرف سارے گاؤں والے مل کرجوتوں سے اس کی اور اس کے دوستوں کی حجامت کر رھے تھے۔

وہ اس خیال سے ھی کانپ گیا۔ اسے معلوم ھی نہیں تھا، کہ ریحانہ اس کے ساتھ اس سے بھی زیادہ بھیانک سلوک کروانے والی تھی ۔

اس نے ریحانہ کو مخاطب کیا۔ ریحانہ نے نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھا ۔ نومی نے اس کو پچکارتے ھوئے پیسوں کا لالچ دے کر راز رکھنے کا وعدہ لینا چاھا، لیکن ریحانہ تو اس وقت اپنے آپ میں ھی نہیں تھی ۔ نومی اس کی حالت دیکھ کر خوف سے کانپنے لگا۔ انہون نے جیسے تیسے کر کے اسے اٹھایا، اور ھوش میں لانے لگے۔

آخر وہ لوگ اسے گاؤں میں پہنچانے میں کامیاب ھو ھی گئے۔ لیکن نومی کو معلوم نہیں تھا، کہ جوش میں آ کر اس نے جو غلطی کی تھی ، اس کی اسے کیا سزا ملنے والی تھی ۔

نومی اس دن گھر جانے کی بجائے کھیتوں میں ھی پڑا رھا۔ اس کے دوست بھی اب خوفزدہ سے نظر آنے لگے تھے ۔ ان میں سے ایک نے تو اسی شام گاؤں چھوڑ دیا، جبکہ دوسرا ذرا حوصلے والا تھا، چنانچہ وہ اسی طرح سے گاؤں میں پھرتا رھا۔ اسے معلوم تھا، کہ ریحانہ کے لئے چدائی جیسا کام ایک معمولی بات ھے، اور وہ اس طرح کی باتیں کسی کو نہیں بتاتی ۔ اوپر سے انہوں نے اسے پیسے بھی دے دئے تھے۔۔

نومی ان دونوں سے الگ ایک مختلف قسم کے خوف کا شکار تھا۔

اپنے دوستوں کے جانے کے بعد جب اس نے حالات پر ذیادہ تفصیل سے غور کیا، تو اس کے دماغ میں ایک نئے اندیشے نے سر اٹھا لیا تھا۔ یہ ایسا نقطہ تھا، جس پر نومی غصّے کی وجہ سے شروع میں سوچ ھی نہیں پایا تھا ۔

اور یہ نقطہ تھا، نومی اور صنم کا چکّر ریحانہ جیسی لڑکی کے علم میں ھونا ۔

وہ سوچتا۔

"اگر ریحانہ نے چوھدری کو بتا دیا تو ؟ "

اور نومی کی سانس اس کے سینے میں ھی کہیں اٹکنے لگتی ۔

آخر سورج ڈوبنے کے وقت وہ گاؤں کی جانب چل پڑا تھا۔

************************************************** ****

ریحانہ اپنے گھر پہنچتے ھی لیٹ گئی تھی ۔ اس کے انگ انگ میں شدید درد تھا، اور اس کی گانڈ تو درد سے جیسے پھٹی جا رھی تھی ۔ اسے جیسے کچھ یاد آیا۔ وہ اٹھّی، اور اس نے جیسے تیسے کر کے اپنی گانڈ پر تیل لگایا۔ گانڈ میں خون جما ھوا تھا۔ اسے اپنی گانڈ پر ھاتھ لگاتے ھوئے شدید اذیّت کا سامنا کرنا پڑا، اور نومی کے لئے ایک غلیظ ترین گالی خود بخود اس کے منہ سے نکل گئی ۔ اس وقت اس کے دل میں نومی کے لئے نفرت اپنی انتہا کو چھو رھی تھی ۔ اسے رہ رہ کر نومی پر غصّہ آ رھا تھا ۔

اس کی ماں اس وقت گھر میں نہیں تھی، اور یوں ریحانہ کسی بھی سوال و جواب سے بچ گئی تھی ۔ اس کی ماں اسے ایسی حالت میں دیکھ لیتی، تو یقیناْ معاملہ کسی حد تک اس کی سمجھ میں آ جاتا، کہ وہ بھی اپنی جوانی کے دنوں میں اسی کردار کی مالک رھی تھی، جو ریحانہ نے اپنا رکھّا تھا۔ ریحانہ بھی اس بات سے بخوبی واقف تھی ۔

ریحانہ نے اگلے دنوں میں کسی سے بھی اس بات کا ذکر تک نہیں کیا تھا ۔ اسے معلوم تھا، کہ اگر اس نے نومی اور اس کے دوستوں کے حوالے سے گاؤں والوں سے کوئی بات کی ، تو الٹا اسی پر بات الٹ سکتی ھے، کیونکہ گاؤں کے کئی معزّزین اس سے سخت نالاں رھتے تھے، اور کسی بات کو بہانہ بنا کر اسے گاؤں بدر کر دینا چاھتے تھے۔ ریحانہ ان کو کوئی بھی موقع فراھم نہیں کرنا چاھتی تھی ۔ غربت، اور وقت کے تھپیڑوں نے اسے انتہائی زیرک اور عقل مند بنا دیا تھا۔ وہ ٹھنڈے دماغ سے سوچ رھی تھی۔ کیونکہ اس نے کہیں سے سن رکھّا تھا، کہ اس طرح کی صورت حال میں جلد بازی میں کئے گئے فیصلے کچّے ثابت ھوتے ھیں، جو دیرپا اثر چھوڑنے میں ناکام رھتے ھیں، جبکہ ٹھنڈے دماغ سے کئے گئے فیصلے ھمیشہ موٴثّر اور دیرپا ھوتے ھیں ۔ وہ اس معاملے میں عجلت نہیں چاھتی تھی ۔

اس کے دماغ میں نومی سے متعلّق انتہائی خطرناک منصوبہ پل رھا تھا ۔

در اصل وہ نومی اور صنم کو رنگے ھاتھوں چوھدری اور اس کے کارندوں سے پکڑوانا چاھتی تھی ۔ اس کے لئے اس نےسوچنا شروع کر دیا۔ وہ جلد سے جلد نومی کو چوھدری کے شکنجے میں دیکھنا چاھتی تھی ۔ اور اس خواھش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ خاموشی سے کسی مناسب وقت کا انتظار کر رھی تھی ۔

************************************************** ******

نومی نے جب اگلے چند دنوں میں ریحانہ کی جانب سے کسی قسم کا ردّ عمل نہیں دیکھا، تو آھستہ آھستہ اسے اطمینان ھونے لگا۔ وہ سوچنے لگا تھا، کہ یقیناْ ریحانہ اب اس بات کو بھلا چکی ھے، ورنہ تو اس دن شام تک پنچائت اکٹھّی ھو جاتی، یا دوسرے دن تو ایسا ھونا لازمی تھا، جس میں اسے اس کے دونوں دوستوں سمیت طلب کیا جاتا، اور پھر اسے گاؤں کے ماحول کے مطابق پہلے گنجا کیا جاتا، اور پھر چھترول اور آخر میں پورے گاؤں کے سامنے اس کے چہرے پر توے کی سیاھی مل کر گدھے کی سواری کروائی جاتی ۔

اسے لگ رھا تھا، جیسے ریحانہ نے اس بات کو فراموش کر دیا ھو۔

اب اس نے دوبارہ سے صنم کے حوالے سے کوششیں شروع کر دیں ۔ وہ چاھتا تھا، کہ ایک بار ھی سہی، مگر صنم سے ملاقات تو ھو۔ اگرچہ صنم سے ھونے والی پچھلی آخری ملاقات کا خیال اس کے سارے ارادوں پر گھڑوں پانی ڈال دیتا تھا، لیکن نہ جانے پچھلے کچھ دنوں سے اس کے من میں پھر سے کچھ کچھ ھونے لگا تھا ۔ اسے لگتا تھا، کہ اب اگر صنم سے ایک بار اس کا سامنا ھو گیا، تو صنم اس کی بات ضرور سنے گی ۔ اور وہ اسی ایک موقع کی تلاش میں تھا۔

صنم کی محبّت نے اس کے اندر پھر سے ایک نیا عزم پیدا کر دیا تھا ۔ شائد ریحانہ کو سزا دینے کے بعد سے اس کا لاشعور قدرے مطمئن ھو گیا تھا۔ وہ لاشعور جو پہلے اس کو غیر محسوس طریقے سے یہ باور کرواتا رھتا تھا، کہ صنم کو کھونے میں قصور اس کا اپنا، اور ریحانہ کا ھے۔ اور اب، جبکہ اس نے ریحانہ کو اپنی مرضی کی سزا دے دی تھی، تو جیسے اس کے لاشعور کے اندر سکون ھی سکون اتر گیا ھو ۔

اور تبھی سے وہ دوبارہ صنم کے لئے حد سے زیادہ تڑپنے لگا تھا۔ صنم کے بغیر اس کے دل کی دھرتی ویران پڑی تھی، اور وہ اپنے من کی اداس زمین پر پھر سے صنم کے پیار کی برسات چاھتا تھا۔ ایسی برسات جو کھل کر برسے، اور اس کے من میں ھر طرف جل تھل کر دے ۔

انہی دنوں چوھدری کو کسی کام سے گاؤں چھوڑنا پڑا۔ وہ پورے ایک مہینے کے لئے گاؤں سے باھر گیا تھا، اور نومی کو بھی اس بات کا پتہ چل گیا تھا۔

وہ صدق دل سے دعا کر رھا تھا، کہ کسی طرح سے تنہائی میں صنم سے اس کا سامنا ھو جائے۔ اور آخر ایک دن اس کی سن لی گئی ۔

************************************************** ***

وہ اپنے کھیت میں کھڑا ٹیوب ویل پر نہا رھا تھا، کہ اسے ننھی اور صنم نظر آئیں ۔ وہ اس کے کھیت کے پاس پہنچنے والی تھیں ۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا ۔ اسے لگا، کہ وہ خواب دیکھ رھا تھا، لیکن نہیں، وہ سچّ میں صنم کو ایک بار پھر ننھی کے ھمراہ دیکھ رھا تھا۔ اب صنم سے بات کی جا سکتی تھی ۔

نومی نے جلدی جلدی کپڑے پہنے، اور نسبتاْ محفوظ جگہ پر کھڑا ھو گیا، جہاں سے وہ کسی کی نظروں میں آئے بغیر ننھی اور صنم سے بات کر سکے، صنم تک اپنی آواز پہنچا سکے ۔ اس کے ایک طرف کماد تھا، اور دوسری طرف درختوں کا ایک جھنڈ تھا۔ صنم اور ننھی نے اسی جھنڈ کے ساتھ سے گزر کر جانا تھا۔ ایک درخت پر نومی کی کلہاڑی لٹک رھی تھی ۔ آج اس نے کئی درختوں کے جھاڑ جھنکاڑ صاف کئے تھے۔

صنم اور ننھی اسے دیکھتے ھوئے چلتی آ رھی تھیں۔ ننھی کے چہرے پر غصّہ موجود تھا، اور اس نے ایک آدھ بار نومی کو راستے سے ھٹنے کا اشارہ بھی کیا، لیکن آج نومی ھٹنے کے لئے نہیں آیا تھا ۔ آج اس نے صنم سے حتمی بات کرنے کا سوچ لیا تھا، کیونکہ اسے معلوم تھا، کہ صنم اب روز روز اسے کھیتوں میں نظر نہیں آ سکتی ۔ آج کا موقع غنیمت تھا، جو کسی صورت بھی ضائع نہیں ھونا چاھئے تھا ۔

وہ اپنی جگہ پر کھڑا رھا ۔

صنم اور ننھی اب اس کے قریب پہنچ چکی تھیں ۔ وہ اس کے بالکل سامنے سے گزر رھی تھیں ۔ نومی نے محسوس کیا، کہ اس کی سانسیں بے ترتیب ھو رھی تھیں ۔ اس نے اپنا حوصلہ مجتمع کرتے ھوئے صنم کو آواز دی ۔ صنم ٹس سے مس نہ ھوئی ۔ اس نے دوسری بار اس کا نام لے کر اسے پکارا۔ صنم اپنی رو میں جیسے مست جا رھی تھی ۔ اس نے جیسے نومی کو دیکھا ھی نہ ھو۔

نومی نے جب صنم کو اپنے آپ سے یوں لا تعلّق بنے دیکھا، تو اس کے دل میں جیسے کسی نے خنجر گھونپ دیا۔ اس کا دل کٹ رھا تھا۔ گو کہ اسے صنم کی بے رخی کا پہلے سے ھی اندازہ تھا، اور وہ خود کو اس قسم کے سلوک کے لئے ذھنی طور پر تیّار کرنے کےبعد ھی یہاں کھڑا ھوا تھا، لیکن درد کے اندازے لگانے میں ، اور کسی دکھ، تکلیف اور درد کو اپنے اوپر جھیلنے میں بڑا فرق ھوتا ھے ۔ اس وقت اس کے ساتھ بھی یہی کچھ ھو رھا تھا۔ جس ازّیّت کے لئے وہ خود کو ذھنی طور پر پہلے سے تیّار کر کے صنم کے راستے میں کھڑا ھوا تھا، اب وھی درد اس کے لئے ناقابل برداشت ھو رھا تھا ۔ اس کے تن بدن میں آگ لگ رھی تھی ۔

اور وہ رہ نہ سکا۔

نومی، جو شروع دن سے ھی گاؤں کا بزدل نمبر ون تھا، اسی بزدل نمبر ون نے جرّاٴت کرتے ھوئے آگے بڑھ کر صنم کا راستہ روک لیا تھا ۔ نہ جانے کیسے اس میں آج اتنی ھمّت آ گئی تھی، کہ وہ ھر خطرے سے عاری ھو گیا تھا ۔ آج اس نے آخری بار صنم سے بات کرنا تھی، تو پھر بات بھی کھل کر ھی ھونا چاھئے تھی ۔

صنم اس کی اس ھمّت پر حیران رہ گئی ۔ اس نے قہر آلود نظروں سے نومی کو دیکھا، جو نم آنکھوں سے اسی کو دیکھ رھا تھا ۔ صنم نے لہجے میں سختی پیدا کرتے ھوئے اسے راستے سے ھٹنے کو کہا۔ لیکن نومی نے کہا، کہ وہ صرف ایک بار اس کی بات سن لے، وہ اس کا راستہ چھوڑ دے گا ۔ صنم نے اسے دھکّا دے کر ایک طرف ھٹانا چاھا، تو اس نے اس کا ھاتھ پکڑ لیا ۔

صنم اب تو سٹپٹا گئی۔ ننھی ایک طرف حیرانی سے کھڑی تھی ۔ اب اس نے مداخلت ضروری سمجھی، اور نومی سے بات کرتے ھوئے اسے دھمکی دی، کہ اگر وہ راستے سے نہ ھٹا، تو اس کے لئے اچھّا نہیں ھو گا۔ جواب میں نومی نے اپنی بات دھرائی، کہ صنم کو ایک بار اس کی بات سننی ھی پڑے گی ۔

صنم کے چہرے پر سختی ھی سختی نظر آ رھی تھی، اور اس کے ھونٹوں پر لرزہ طاری تھا۔ جیسے وہ بہت مشکل سے اس ساری کیفیّت کو برداشت کر رھی ھو ۔ آخر اس نے نومی کو اوپر نیچے دو تھپّڑ رسید کر دئے، لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی، کہ کل اس کا ایک ھی تھپّڑ کھا کر زمین میں گڑ جانے والا نومی آج دو تھپّڑوں کے باوجود بھی اس کے راستے سے ھٹنے کو تیّار نظر نہیں آ رھا تھا ۔ اس نے دیکھا، نومی کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، اور وہ اب بھی التجا آمیز لہجے میں ایک ھی بات دھرا رھا تھا ۔

" جتنے تھپّڑ چاھو مار لو صنم، لیکن خدا کے لئے، ایک بار ، صرف ایک بار، میری بات سن لو ۔ پلیز۔ "

اس کے لہجے میں بلاٴ کا درد شامل تھا۔ اب تو صنم اور ننھی، دونوں ھی تڑپ گئی تھیں ۔ نومی کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

صنم کے دل میں ایک طوفانی کش مکش چل رھی تھی ۔ اس کے لئے اپنے اندرونی اضطراب پر قابو پانا مشکل ھو رھا تھا ۔ آخر اس نے چہرہ دوسری جانب موڑ لیا، اور بولی ۔

" اچھّا، کہو، کیا کہنا چاھتے ھو ؟ " اس کے لہجے کی درشتی محسوس کر کے نومی پھیکے اندز میں مسکرایا۔ کبھی وہ بھی وقت تھا، کہ اس آواز میں نومی کے لئے صرف اور صرف مٹھاس ھوا کرتی تھی ۔ اور آج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟

لیکن اس کے لئے یہ بھی بڑی بات تھی، کہ صنم اس کی بات سننے کو نیم رضا مند نظر آ رھی تھی ۔

اس نے اپنی ھتھیلی کی پشت سے اپنے آنسو صاف کئے، اور صنم کے سامنے آنا چاھا، لیکن صنم نے اسے جھڑک کر کہا، کہ جو بھی کہنا ھے، وھیں سے کہو۔ سامنے آنے کی کوئی ضرورت نہیں ھے ۔ نومی سمجھ گیا، کہ صنم اس کے چہرے سے بھی نفرت کرنے لگی ھے۔ وہ پھر سے اس کی پشت کی طرف آ کر کھڑا ھو گیا ۔ اسے سمجھ نہیں آ رھی تھی، کہ کہاں سے بات شروع کرے ۔ بہت سی باتیں تھیں، جو آج تک اس کے گلے میں اٹک رھی تھیں، اور جب صنم سامنے کھڑی اس کی بات سننے کو تیّار نظر آ رھی تھی، تو اسے الفاظ ھی نہیں سوجھ رھے تھے ۔ آخر اس نے اپنے حوصلے جمع کرتے ھوئے اپنی بات کا آغاز کیا ۔

" میں مانتا ھوں صنم، کہ میں نے تم سے بے وفائی کی، اور ۔ ۔ ۔ ۔ " ابھی وہ اتنا ھی کہ پایا تھا، کہ صنم نے اس کی بات کاٹ دی ۔

" فلمی ڈائیلاگ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ھے ۔ میں یہ سب سننا نہیں چاھتی، اور ویسے بھی یہ باتیں اب میں بھلا چکی ھوں ۔ کوئی نئی بات کرنی ھے تو کرو ۔ "

نومی اپنا دل مسوس کر رہ گیا ۔ لیکن اس نے ھمّت نہیں ھاری۔ اور نئے سرے سے بات کا آغاز کیا ۔

" صنم ، میں جانتا ھوں ، کہ تم کو میری آواز سے بھی نفرت ھے، لیکن "

صنم نے پھر سے اس کی بات کاٹنی چاھی، لیکن اب نومی چیخ پڑا۔

" پلیز صنم ، مجھے بولنے دو، پلیز۔ "

اور صنم کے ساتھ ساتھ ننھی بھی کانپ گئی ۔ نومی نے اب لہجے کو دھیما کیا، اور دوبارہ سے بولا ۔

" میں جو کچھ کہنا چاھتا ھوں، مجھے کہنے دو ۔ خدا کے لئے مجھے کہنے دو ۔ بہت تڑپا ھوں میں آج تک اس آج کے دن کے لئے ۔ بہت درد برداشت کر لیا ھے میں نے ۔ اب اور نہیں سہ سکتا ۔ ناں ، اب اور نہیں ،۔ بہت سی باتیں ھیں میرے اندر جو نشتر کی طرح اندر ھی اندر مجھے چبھتی رھتی ھیں ۔ اب انہیں مزید اپنے اندر نہیں رکھ سکتا میں ۔ مجھے کہنے دو پلیز۔ "

صنم نے کہا، " بولو، اب میں تمھیں نہیں ٹوکوں گی، لیکن بات جلد ختم کرنا ۔ "

نومی نے اسے دیکھا، جیسے اس کا شکریہ ادا کرنا چاھتا ھو ۔ اس نے اپنا آنسوؤں سے تر چہرہ صاف کیا، اور بولا ۔

" صنم، میں آج صرف اس لئے سامنے آیا ھوں، کہ میں اپنے احساس جرم کے ساتھ اب زندہ نہیں رہ سکتا ۔ میں تم سے معافی مانگنا چاھتا ھوں صنم ، خدا کو حاضر ناظر جان کر میں تم سے معافی مانگنا چاھتا ھوں، اور یہ معافی میں اس دن بھی مانگنا چاھتا تھا، جب تم چھے مہینے پہلے اسی کھیت میں مجھے مل کر مجھے سنے بغیر ھی چلی گئی تھیں۔ تم نہیں جانتیں، ان دنوں میں، میں اپنے احساس جرم کی وجہ سے کتنا تڑپا ھوں ۔ میرے لئے ایک ایک دن گزارنا قیامت بن گیا ھے صنم ۔ ،میں تمھارا مجرم ھوں، میں تمھاری زندگی سے کھیلا، اس کے لئے میں نے تم سے معافی مانگنا تھی، خدا کے لئے مجھے معاف کر دو میری جان ۔ مجھے معاف کر دو ۔ "

آخری بات کہتے کہتے نومی رو پڑا۔ وہ بے خودی میں چل کر اس کے سامنے آ چکا تھا ۔وہ بے قابو ھو کر آگے کو جھک گیا تھا، اور اس نے اپنے دونوں ھاتھ اس کے سامنےجوڑ دئے تھے ۔ ننھی کبھی اس کی طرف دیکھ رھی تھی، تو کبھی صنم کی طرف ۔

ننھی نے اسے پیچھے ھٹنے کا اشارہ کیا، تو وہ چاروناچار پیچھے کو ھٹ گئی۔ ننھی نے نومی کو مخاچب کیا، اور نخوت سے بولی ۔

" اگر تمھارا ڈرامہ، اور لیکچر ختم ھو گئے ھوں، تو ھم جا سکتی ھیں؟ "

نومی کے دل پر آرا چل گیا۔ اس نے سر اٹھّا کر دیکھا، تو صنم کی بجائے اس کے سامنے ننھی کھڑی تھی، اور صنم ایک طرف ھٹ چکی تھی ۔ نومی کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا، اور اس کی حالت دیکھ کر اس کے اندر کی کیفیّت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ اس لمحے اسے ننھی کے لہجے پر بے پناہ غصّہ آیا، لیکن وہ ضبط سے کام لیتے ھوئے غصّہ پی گیا، اور نرمی سے بولا۔

" میں نہ تو کوئی ڈرامہ کر رھا ھوں، اور نہ ھی لیکچر دینا چاھتاھوں ۔

ننھی نے اس کی طرف طنزیہ نظروں سے دیکھا، اور بولی ، " اچھّا، یہ لیکچر نہیں ھے ۔ تو پھر اور کیا ھے یہ سب " ڈرامے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ھے ۔ سمجھے ؟ تم نے کہا تھا، کہ میری بات سننی پڑے گی ، سو ھم نے سن لی ۔ اب اور کوئی مطالبہ مت کرنا، کیونکہ اب ھم جا رھی ھیں ۔ چلو صنم ۔ "

اس کے ساتھ ھی ننھی نے صنم کو پکڑ کر کھینچا۔ صنم کے قدم زمین میں پیوست ھو گئے تھے ۔ ننھی حیرانی سے اسے دیکھ رھی تھی ۔ نومی بے بسی سے ننھی کو دیکھنے لگا۔ جب اس نے دیکھا، کہ صنم نے ابھی تک کوئی جواب بھی نہیں دیا ھے، تو وہ یکدم ننھی کے سامنے آ گیا ۔

" ایک منٹ ننھی بی بی ۔ میں صنم کا جواب سنے بغیر تم دونوں کو جانے نہیں دوں گا ۔ " پھر اس نے اپنا چہرہ صنم کی طرف موڑا ۔ صنم ، جو اس کی محبّت بن گئی تھی ، جسے اس نے دل سے چاھنا شروع کر دیا تھا، اور جو اب اس سے نفرت کرتی تھی ۔

نومی کو محسوس ھوا، کہ صنم کے چہرے پر اس کے لئے ھمدردی کے آثار پیدا ھو رھے ھیں، تو اس نے صنم کا ھاتھ پکڑ لیا، اور جذبات سے بھر پور آواز میں بولا ۔ " صنم ، مجھے زیادہ باتیں تو نہیں آتیں، لیکن اتنا ضرور جانتا ھوں، کہ آج سے پہلے میں نے تمھیں جتنے دھوکے بھی دئے ھیں، میں ان سب کا ازالہ کرنا چاھتا ھوں ۔ بولو، کیا تم مجھے ایک موقع بھی نہیں دو گی ۔ بولو صنم، بولو، جواب دو۔ کیا تم مجھے ایک بار بھی اپنے گناھوں کا کفّارہ ادا کرنے کا موقع نہیں دو گی ؟ "

" کیا کفّارہ ادا کرو گے تم ؟ صنم کی زندگی تو تم نے برباد کر دی۔ اب کس طرح سے کفّارہ ادا کرو گے تم ؟ بولو، جواب دو، صنم کی زندگی میں زہر گھول کر کفّارہ ادا کرنا چاھتے ھو ۔ جانتے بھی ھو، تمھارے پانچ منٹ کے چسکے نے صنم کو ھمیشہ کے لئے داغدار کر دیا ھے ۔ اب یہ جس کی بھی بیوی بنے گی، وہ پہلی ھی رات میں سمجھ جائے گا ۔ اب یہ بیچاری تو برباد ھو گئی ناں، اور تم کفّارہ ادا کرنے چلے ھو ؟ کیسے ادا کرو گے کفّارہ ؟ بولو، "

ننھی اس کے سامنے کھڑی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس سے پوچھ رھی تھی ۔ نومی نے اس کی بات سن کر چند لمحے اس کی طرف دیکھا، پھر عافہ کو دیکھتے ھوئے بولا ۔ "میں کروں گا اس سے شادی ۔ ھاں ، میں ۔ پھر تو اس کا ڈر ختم ھو جائے گا ناں ۔ "

صنم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ نومی آنسوؤں سے تر آنکھوں سے اسی کو دیکھ رھا تھا ۔ صنم نے ایک بار نومی کی نگاھوں میں دیکھا، تو اس کی نگاھیں واپسی کا راستہ ھی بھول گئیں ۔ وہ نومی کی نگاھوں میں جیسے کھو سی گئی ۔

نومی اور صنم کی نگاھیں باھم پیوست ھو چکی تھیں، نہ تو نومی پلکیں جھپکا رھا تھا، اور صنم، ، ، ، صنم تو جیسے پلکیں جھپکانا بھول ھی گئی تھی ۔ نومی کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو جیسے اثر کر رھے تھے۔ ننھی نے جب دیکھا، کہ صنم اپنا ضبط کھو رھی ھے، اور نومی کی میٹھی باتیں اسے گھیر چکی ھیں، تو اس نے نومی کو مخاطب کر کے نیا شوشہ چھوڑا ۔

" اور وہ ریحانہ ؟ اس کے بارے میں کیا کھو گے تم ؟ " اسے امیّد تھی ، کہ اس بات سے صنم کے بے قابو ھوتے دل اور دماغ فوراْ واپس آ جائیں گے ۔ لیکن نومی نے صنم کی قسم کھا کر کہا، کہ اب اس کا ریحانہ سے کوئی تعلّق باقی نہیں رھا ۔ یقین نہیں آتا، تو خود ریحانہ سے پوچھ لیا جائے ۔ "

نومی جب صنم کی قسم کھا رھا تھا ، تو صنم تڑپ گئی ۔ ننھی نے فوراْ صنم کو بازو سے پکڑ کر کھینچا، اور ایک طرف لے گئی ۔ صنم اب بھی اس کی پشت پر موجود نومی کی طرف ھی دیکھے جا رھی تھی ۔

نومی ان دونوں کو ایک طرف کھڑے دیکھتا رھا ۔ اس سے رھا نہیں جا رھا تھا، کہ وہ صنم کے قدموں میں گر کر بھی اس سے معافی مانگ لے ۔ آج وہ ھر قیمت پر صنم سے معافی کی سند لینا چاھتا تھا۔

دوسری طرف ننھی نہ جانے صنم کو کیا سبق پڑھا رھی تھی ، اور جب صنم واپس آئی، تو اس کا چہرہ تاٴثّرات سے یکسر عاری ھو چکا تھا ۔ نومی نے اس کو دیکھا، اور اس کی امّیدیں دم توڑ گئیں ۔ ننھی نے نومی کی ساری باتوں کا اثر ایک منٹ میں ختم کر دیا تھا ۔

صنم جب واپس آئی، تو اس نے نومی کی ساری باتوں کو جذباتی بلیک میلنگ قرار دے ڈالا ۔ نومی اس کی یہ بات سن کر تڑپ گیا ۔ آخر وہ رہ نہ سکا۔

وہ صنم کے قدموں میں گر گیا ۔ اس نے صنم کے پیروں پر اپنے ھاتھ رکھ دئے ، اور روتے ھوئے اس سے معافی مانگنے لگا۔ صنم ایک دم سے پیچھے ھٹ گئی ۔ اسے اپنی نگاھوں پر یقین نہیں آ رھا تھا ۔

ننھی بھی دم بخود کھڑی تھی ۔ جب اس نے دیکھا، کہ نومی کے اس انداز سے صنم پھر متزلزل ھو رھی تھی،تو اس نے صنم کو پکڑا ، اور واپس چل پڑی ۔ صنم کا بس نہیں چل رھا تھا، کہ وہ بھاگ کر جائے، اور نومی کو اٹھا کر سینے سے لگا لے ۔ نومی نے بھی آج دیکھ لیا تھا ، کہ صنم کے اندر آج بھی اس کی محبّت موجود ھے، اسے صرف ایک چنگاری دکھانے کی ضرورت تھی، اور وہ شعلہ بن کر بھڑک ٹھتی ۔ پھر ایک ننھی تو کیا، سارا زمانہ بھی مل کر نہیں بجھا سکتا تھا ۔

نومی اپنی جگہ پر بیٹھا رہ گیا ۔ جب اس نے محسوس کیا، کہ صنم اور ننھی واپس نہیں مڑ رھیں ، تو اس نے صنم کو آواز دی، اور کھڑا ھو گیا ۔

" صنم ، جاتے جاتے میری آخری بات سنتی جاؤ ۔ میں جانتا ھوں ،کہ تم بھی مجھ سے محبّت کرتی ھو ۔ لیکن میں یہ بات تمھاری بات سے سننا چاھتا ھوں صنم ۔ کل دوپہر دو بجے تک، اگر تم یہیں اسی جگہ پر آ کر مجھ سے نہ ملیں ، تو میں سمجھوں گا، کہ تم مجھ سے محبّت نہیں کرتیں، اور میں اسی درخت سے لٹک کر اپنی جان دے دوں گا۔" اور صنم نے ایک دم سے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ ننھی نے اسے اپنی طرف کھینچا ۔ وہ جیسے دو پاٹوں میں پس کر رہ گئی تھی ۔ آخر اس نے دور سے ھی آواز لگائی ۔

" تم نے جان دینی ھے ، تو کل کی ابھی دے دو ، لیکن میری طرف سے کوئی امّید مت رکھنا ، سمجھے ۔ میں تم سے نفرت کرتی ھوں، اورت نفرت ھی کرتی رھوں گی ۔ صرف نفرت۔ "

" نہیں صنم ، گھر جا کر تسلّی سے اس بات پر سوچنا ۔ کل دو بجے تک وقت تمھارے ھاتھ میں ھے ۔ اگر تو تم نے آ کر ھاں کر دی، تو میں زندہ رہوں گا ، لیکن اگر تم نہ آئیں، تو تین بجے تک گاؤں میں میری موت کا اعلان بے شک خود ھی کروا دینا ۔ یہ میرا وعدہ ھے تم سے ۔ " صنم نے اس کے آخری الفاظ سنے، اور چہرہ دوسری طرف پھیر لیا ۔ ننھی سمجھی، کہ صنم نے بد ظن ھو کر نومی کو انکار کر دیا ھے ۔ اسے کیا معلوم تھا، کہ اس وقت صنم کے دل پر کیا بیت رھی تھی ۔

ننھی اور صنم چلتی ھوئی کافی دور نکل آئی تھیں ۔ نومی اب دور کھڑا نظر آ رھا تھا ۔

ننھی نے اسے حوصلہ دیا، اور نومی کو انکار کرنے پر اس کا منہ چوم لیا ۔ صنم پھیکے انداز سے مسکرائی ۔ ننھی اس وقت اس کی کیفیّت کا اندازہ لگانے میں ناکام ھو گئی تھی ۔ بظاھر نومی کو آخری لمحات میں انکار کر کے صنم نومی کے ھاتھوں دل کی بازی ایک بار پھر سے ھار آئی تھی ۔ اسے رہ رہ کر نومی کی باتیں یاد آ رھی تھیں ۔ اس کا دل چاھتا تھا، کہ ابھی جا کر نومی کے سینے سے لگ جائے، اور اس سے اقرار محبّت کر لے، لیکن ننھی سے کیا ھوا وعدہ اس کے پاؤں کی زنجیر بن کر رہ گیا تھا ۔ کھیتوں میں کھڑے ھو کر بھی جب ننھی اسے ایک طرف لے کر گئی تھی، تو اس وقت بھی اس نے اس کو یہی بات یاد کروائی تھی ۔ اور اسی وعدے کی بنیاد پر اس نے نومی کو مجبوراْ انکار کر دیا تھا ۔

اس کا گھر نزدیک آ چکا تھا ۔ اس نے ننھی کو خدا حافظ کہا، اور اپنے گھر میں داخل ھو گئی ۔ ننھی نے بھی اب اپنے گھر کا رخ کیا ۔ جانے سے پہلے اس نے نومی کی باتوں پر سوچنے سے روکنا ضروری سمجھا تھا ۔ صنم نے بھی سر ھلا دیا، جیسے اس کی ھدائت پر عمل کرنے کا وعدہ کر رھی ھو ۔ اسے کیا معلوم تھا ، کہ صنم تو کب کی ان باتوں کے گھیرے میں آ چکی تھی ۔

************************************************** ******

شام کو ننھی پھر سے صنم کے گھر میں پہنچ گئی ۔ اس کی ماں نے اسے بتایا، کہ صنم دوپہر سے سو رھی ھے ۔ ننھی نے صنم کے کمرے پر ھلکا سا دباؤ ڈالا، تو پتہ چلا ، کہ دروازہ اندر سے بند ھے ۔ اس نے دستک دی ۔ تیسری دستک پر صنم کی آواز سنائی دی ۔ ننھی نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، لیکن صنم نے کہا، کہ فی الحال وہ آرام کر رھی ھے ۔ ننھی بعد میں آ جائے ۔ ننھی نے اصرار جاری رکھّا، آخر صنم نے کافی دیر کے بعد دروازہ کھول ھی دیا ۔

ننھی اندر آئی ، تو اس نے دیکھا، کہ رو رو کر صنم کی آنکھیں سرخ ھو چکی تھیں ۔ گو کہ اس کی آنکھیں صاف تھیں، لیکن صاف پتہ چلتا تھا، کہ ابھی ابھی صاف کی گئی تھیں، اور تھوڑی دیر قبل تک ان سے خوب بادل برسے تھے ۔

ننھی نے کنڈی لگائی، اور صنم کے پاس آ کر بیٹھ گئی ۔

صنم اس سے نظریں چرا رھی تھی ۔

ننھی نے اس کو مخاطب کیا ۔

" میں نے کہا تھا ناں صنم، کہ آج کے بعد تم اکیلے میں بیٹھ کر بلا وجہ کسی بات پر بھی نہیں روؤ گی ۔ کہا تھا ناں میں نے ، اور تم نے بھی وعدہ کیا تھا۔ لیکن آج تمہارا سامنا نومی سے ھوا ھے،اور تم پھر سے رو رھی ھو ۔ اس کا مطلب ھے، کہ تم آج بھی اس سے محبّت کرتی ھو ۔ ھے ناں ؟ "

صنم نے انکار میں سر ھلا دیا ۔ اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکلے، اور اس کے گالوں کی طرف بہ گئے ۔ ننھی نے بھی ان آنسوؤں کو دیکھ لیا تھا ۔

" جھوٹ مت بولو صنم ۔ اگر تم اس سے محبّت نہیں کرتی ھو، تو پھر رو کیوں رھی ھو ۔ چلو اٹھّو، شاباش ۔ منہ ھاتھ دھوؤ ۔ پھر ھم دونوں تمھارے رقبے پر چلتے ھیں ۔ آج کل ویسے بھی آم بہت میٹھے ھیں تمھارے کھیتوں میں ۔اٹھّو ناں ۔ "

اور ننھی نے اسے باقاعدہ کھڑا کرنے کی کوشش کی ۔ صنم نے اس کا ھاتھ ایک طرف کر دیا ۔ ننھی نے اسے کہا، کہ چلو وہ اٹھنا نہیں چاھتی ، نہ اٹھّے، لیکن ایک بار مسکرا تو دے ۔ جواب میں صنم نے منہ پھیر لیا ۔ آخر ننھی نے اسے گدگدی کرنی چاھی، تو صنم جیسے ایک دم پھٹ پڑی ۔

" ننھی ۔ خدا کے لئے ، وہاں نومی خود کشی کرنے جا رھا ھے ، اور تم کو ھنسنے کی پڑی ھے ۔ کتنی سنگدل ھو تم ۔ "

اور ننھی نے اسے دیکھا۔ " اس کا مطلب ھے کیہ محبّت کا جنّ ابھی بھی سوار ھے تمھارے سر پر ۔

"نہیں ۔ "

" اگر نہیں، تو پھر مرنے دو اسے ۔

"لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"

" لیکن کیا ؟ اگر اس سے محبّت نہیں ھے، تو اس کا درد کیوں محسوس کر رھی ھو ؟ مرنے دو ، ویسے بھی وہ تمھاری بربادی کا ذمّہ دار ھے، سزا تو ملنی ھی چاھئے ناں ۔ "

" لیکن ننھی ، "

نہیں صنم ، مرنے دو اسے ۔ ویسے میں جانتی ھوں ، کہ وہ نہیں مرے گا ۔ یہ اس نے خالی دھمکی دی ھے ۔ تمھیں ڈرانے کے لئے ۔ وہ اتنا بہادر نہیں ھے صنم۔ تم ٹینشن مت لو ۔ "

" وہ کتنا بہادر ھے، وہ میں نے کل دیکھ لیا ھے ننھی ۔ " کچھ بھی ھے، لیکن اس کے مرنے میں ھمیں کوئی نقصان نہیں ھے ۔ کم از کم مجھے تو نہیں ھے ۔ "

صنم کافی دیر سے ضبط کر رھی تھی ۔ اس نے یہی کوشش کی تھی ، کہہ ننھی سے اپنے دل ی بات حتّی الامکان حد تک چھپا کر رکھّے، لیکن ریحانہ مسلسل نومی کی موت کی باتیں کر کے جیسے اس کے دل پر آراٴ چلا رھی تھی ۔ آخر صنم سے رہا نہ گیا، اور وہ چلّا اٹھّی ۔

" تمھیں فرق نہیں پڑتا تو نہ پڑے ، لیکن مجھے تو فرق پڑتا ھے ننھی بی بی ۔ ھاں ، مجھے فرق پڑتا ھے ۔ "

ننھی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ، " اس کا مطلب ھے، کہ تم تسلیم کرتی ھو، کہ تمھیں آج بھی اس سے محبّت ھے ۔ "

ھاں، ھاں، میں مانتی ھوں ، کہ میں نومی سے محبّت کرتی ھوں ۔ ننھی میں جتنا صبر کر سکتی تھ، میں نے کر کے دیکھ لیا، لیکن میں آج کے دن تک بھی اس جگہ پر نہیں پہنچ پائی ھوں، جہاں سے میں نومی سے نفرت کے سفر کا آغاز کر سکوں ۔ تم ھی بتاؤ ننھی ، کہ اس میں میرا کیا قصور ھے ، میں نے ھر طرح سے کوشش کر کے دیکھ لیا، ھر دفعہ ھی میں نومی سے ، اس کی سوچوں سے ، اس کے خیالوں سے جان چھڑانے کا سوچ کر ایک نیا عزم باندھتی ھوں ، لیکن ھر دفعہ ھی میں ناکام ھو جاتی ھوں ۔ ان چھے مہینوں میں، کون سا دن ھے ننھی ، جب میں نے نومی کو یاد نہ کیا ھو ۔ تم ھی بتاؤ ننھی ،۔ کیا زبردستی بھی میں اس سے محبّت کر سکتی ھوں ۔ نہیں ننھی ، یہ دوھری کیفیّت کی اداکاری میں اب مزید نہیں کر سکتی ۔ خدا کے لئے ، مجھے نومی کے پاس لے چلو ، میں اس کو بتانا چاھتی ھوں، کہ اس کی صنم اس سے کتنا پیار کرتی ھے ۔ خدا کے لئے ننھی، خدا کے لئے ۔ کہیں ایسا نہ ھو ، کہ وہ اپنی جان دے دے ۔ یاد رکھنا ننھی ، اگر نومی کو کچھ ھوا، تو صنم بھی نہیں بچے گی ھاں ۔ یاد رکھنا ۔ "

اور ننھی اس کی بات سن کر دم بخود رہ گئی ۔ اس کے وھم و گمان میں بھی نہیں تھا، کہ صنم اس قدر جلد س کے سامنے اعتراف کر لے گی ۔ شک تو اسے پہلے سے ھو رھا تھا، لیکن صنم کی جانب سے اسے اتنی جلد بازی کی ھر گز توقّع نہیں تھی ۔

ننھی نے صنم کو سمجھانا چاھا، لیکن صنم نے اس کی کسی بھی بات کو سننے سے انکار کر دیا ۔ وہ صرف نومی کی حمایت میں بات سننا چاھتی تھی ۔

ننھی ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی ۔ صنم یقیناْ پرانی سٹیج پر پہنچ چکی تھی، جہاں اسے نومی کے علاوہ کوئی دوسرا نظر ھی نہیں آتا تھا ۔ جدائی نے اسے نومی سے بظاھر تو دور کیا تھا، لیکن اندرونی طور پر وہ کھنچ کر نومی کے قریب

چلی گئی تھی ۔

آخر ننھی نے ھار مان لی ۔ اسے صنم کی حالت کا اندازہ ھو گیا تھا ۔ وہ سمجھ گئی تھی ، کہ اب اس نے صنم سے ضد کی، تو وہ پھر بھی نومی سے ضرور ملے گی ۔ لیکن ننھی کی مدد کے بغیر وہ اکیلی ھی نومی کو ملنے چل پڑتی، تو اس صورت میں وہ کسی مصیبت میں بھی پھنس سکتی تھی ۔

ننھی نے ٹھنڈے دماغ سے سوچا ، کہ اگر وہ صنم کا ساتھ دیتی ھے ، تو کم از کم صنم کے حوالے سے اسے ایک اطمینان تو رھےگا ۔

ننھی کو رضا مند دیکھ کر صنم کے مرجھائے چہرے پر پھول سے کھل اٹھّے تھے ۔ وہ ایک دم سے کھلی کھلی سی نظر آنے لگی تھی ۔ اب اس نے اپنی آنکھیں بھی صاف کر لی تھیں ۔

ننھی نے وعدہ کیا، کہ وہ اسے کل ھی نومی سے ملوا کر لائے گی ۔ صنم ابھی نومی سے ملنے پر بضد تھی ، لیکن ننھی نے اسے شام کی سرخی دکھائی ، اور کل تک صبر کا مشورہ دیا ۔ اس کے بعد اس نے اسے ایک ایسی بات کہی ، جسے سن کر صنم کا چہرہ شرم سے سرخ ھو گیا ۔

صنم اس کے گلے لگ گئی ۔ اسے اب کل کا انتظار تھا ۔ وہ نہیں جانتی تھی ، کہ کل کا دن اسے کتنی بڑی آزمائش سے دوچار کرنے والا تھا ۔

**************************************************

ریحانہ اپنے گھر میں لیٹی ھوئی گہری سوچوں میں ڈوبی ھوئی تھی ۔ اس نے آج صنم اور ننھی کو ایک ساتھ کھیتوں کی طرف جاتے ھوئے دیکھا تھا، اور اس کا ماتھا ٹھنکا تھا ۔ پھر جب اس نے ان دونوں کا پیچھا کیا، تو اسے پتہ چل گیا ، کہ نومی سے ان دونوں کی کم از کم آدھا گھنٹہ بات چیت ھوئی تھی ۔ یہ سب مناظر اس نے انتہائی احتیاط کے ساتھ دیکھے تھے ۔ نومی، ننھی اور صنم کو احساس تک نہیں ھو سکا تھا ، کہ کوئی ان کو دور سے کھڑا دیکھ رھا تھا ۔

اب ریحانہ کو یقین ھو چکا تھا ، کہ نومی اور صنم کی صلح ھوچکی ھے ۔ اور اگر ان کی صلح ھو چکی تھی ، تو وہ لازماْ ملیں گے بھی ،۔ اور یہی تو ریحانہ بھی چاھتی تھی ۔ نومی سے انتقام لینے کا اس سے اچھّا موقع اور کوئی نہیں ھو سکتا تھا ۔

ریحانہ سوچتی جا رھی تھی ، اور اس کے چہرے پر موجود مسکراھٹ مزید گہری ھوتی جا رھی تھی ۔ اس نے نومی اور صنم کی نگرانی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جونہی وہ ان دونون کو ملتے ھوئے دیکھتی ، تو چوھدری کو کسی طرح سے خبر کر دیتی ۔ اس کے بعد کا کام چوھدری خود ھی کر لیتا ۔ اس طرح سانپ بھی مر جاتا ، اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی ۔ اس کے دل کی بھڑاس چوھدری کے ذریعے سے پوری ھو جاتی ، اور کسی کو پتہ بھی نہ چلتا ، کہ یہ ساری پلاننگ در اصل ریحانہ کی تھی ،

اور یہ کہ ریحانہ نے ایک تیر سے کتنے شکار کئے ھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

اس نے اٹھ کر موبائل فون پر ایک نمبر ملایا اور گاؤں کے ایک آدمی سے بات کی ۔ یہ آدمی اس کے جسم کا خواھش مند تھا ، اور ریحانہ اس کی خواھش پوری کرنے کے معاوضے کے طور پر اس کو نومی کے خلاف استعمال کرنے والی تھی ۔ اس آدمی نے بھی اس سے مکمّل تعاون پر آمادگی ظاھر کر دی تھی ۔

اسے تو ریحانہ کی پھدّی سے مطلب تھا ۔ اور وہ اسے جلد ھی ملنے والی تھی ۔ بس ایک بار اسے نومی کے بارے میں ایک خبر چوھدری تک پہنچانا تھی ۔ وہ خبر کیا تھی ، وہ تو اسے ابھی تک ریحانہ نے نہیں بتائی تھی ، لیکن اس نے جلد ھی بتانے کا وعدہ بھی کیا تھا ۔ ھو سکتا ھے، ایک دو دنوں میں ھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

************************************************** ******************

دوسرے دن ننھی اور صنم پھر سے کھیتوں کی طرف چل پڑیں ۔

ریحانہ بھی اپنے گھر سے باھر کھڑی ھوئی تھی ۔ اس نے دونوں کو پھر سے کھیتوں کی طرف جاتے دیکھا ، تو فوراْ گھر میں چلی گئی ۔ اندر جا کر اس نے ایک نمبر ڈائل کیا تھا ۔

************************************************** ***********

ننھی نے اس کی طرف طنزیہ نظروں سے دیکھا، اور بولی ، " اچھّا، یہ لیکچر نہیں ھے ۔ تو پھر اور کیا ھے یہ سب " ڈرامے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ھے ۔ سمجھے ؟ تم نے کہا تھا، کہ میری بات سننی پڑے گی ، سو ھم نے سن لی ۔ اب اور کوئی مطالبہ مت کرنا، کیونکہ اب ھم جا رھی ھیں ۔ چلو صنم ۔ "

اس کے ساتھ ھی ننھی نے صنم کو پکڑ کر کھینچا۔ صنم کے قدم زمین میں پیوست ھو گئے تھے ۔ ننھی حیرانی سے اسے دیکھ رھی تھی ۔ نومی بے بسی سے ننھی کو دیکھنے لگا۔ جب اس نے دیکھا، کہ صنم نے ابھی تک کوئی جواب بھی نہیں دیا ھے، تو وہ یکدم ننھی کے سامنے آ گیا ۔

" ایک منٹ ننھی بی بی ۔ میں صنم کا جواب سنے بغیر تم دونوں کو جانے نہیں دوں گا ۔ " پھر اس نے اپنا چہرہ صنم کی طرف موڑا ۔ صنم ، جو اس کی محبّت بن گئی تھی ، جسے اس نے دل سے چاھنا شروع کر دیا تھا، اور جو اب اس سے نفرت کرتی تھی ۔

نومی کو محسوس ھوا، کہ صنم کے چہرے پر اس کے لئے ھمدردی کے آثار پیدا ھو رھے ھیں، تو اس نے صنم کا ھاتھ پکڑ لیا، اور جذبات سے بھر پور آواز میں بولا ۔ " صنم ، مجھے زیادہ باتیں تو نہیں آتیں، لیکن اتنا ضرور جانتا ھوں، کہ آج سے پہلے میں نے تمھیں جتنے دھوکے بھی دئے ھیں، میں ان سب کا ازالہ کرنا چاھتا ھوں ۔ بولو، کیا تم مجھے ایک موقع بھی نہیں دو گی ۔ بولو صنم، بولو، جواب دو۔ کیا تم مجھے ایک بار بھی اپنے گناھوں کا کفّارہ ادا کرنے کا موقع نہیں دو گی ؟ "

" کیا کفّارہ ادا کرو گے تم ؟ صنم کی زندگی تو تم نے برباد کر دی۔ اب کس طرح سے کفّارہ ادا کرو گے تم ؟ بولو، جواب دو، صنم کی زندگی میں زہر گھول کر کفّارہ ادا کرنا چاھتے ھو ۔ جانتے بھی ھو، تمھارے پانچ منٹ کے چسکے نے صنم کو ھمیشہ کے لئے داغدار کر دیا ھے ۔ اب یہ جس کی بھی بیوی بنے گی، وہ پہلی ھی رات میں سمجھ جائے گا ۔ اب یہ بیچاری تو برباد ھو گئی ناں، اور تم کفّارہ ادا کرنے چلے ھو ؟ کیسے ادا کرو گے کفّارہ ؟ بولو، "

ننھی اس کے سامنے کھڑی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس سے پوچھ رھی تھی ۔ نومی نے اس کی بات سن کر چند لمحے اس کی طرف دیکھا، پھر عافہ کو دیکھتے ھوئے بولا ۔ "میں کروں گا اس سے شادی ۔ ھاں ، میں ۔ پھر تو اس کا ڈر ختم ھو جائے گا ناں ۔ "

صنم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ نومی آنسوؤں سے تر آنکھوں سے اسی کو دیکھ رھا تھا ۔ صنم نے ایک بار نومی کی نگاھوں میں دیکھا، تو اس کی نگاھیں واپسی کا راستہ ھی بھول گئیں ۔ وہ نومی کی نگاھوں میں جیسے کھو سی گئی ۔

نومی اور صنم کی نگاھیں باھم پیوست ھو چکی تھیں، نہ تو نومی پلکیں جھپکا رھا تھا، اور صنم، ، ، ، صنم تو جیسے پلکیں جھپکانا بھول ھی گئی تھی ۔ نومی کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو جیسے اثر کر رھے تھے۔ ننھی نے جب دیکھا، کہ صنم اپنا ضبط کھو رھی ھے، اور نومی کی میٹھی باتیں اسے گھیر چکی ھیں، تو اس نے نومی کو مخاطب کر کے نیا شوشہ چھوڑا ۔

" اور وہ ریحانہ ؟ اس کے بارے میں کیا کھو گے تم ؟ " اسے امیّد تھی ، کہ اس بات سے صنم کے بے قابو ھوتے دل اور دماغ فوراْ واپس آ جائیں گے ۔ لیکن نومی نے صنم کی قسم کھا کر کہا، کہ اب اس کا ریحانہ سے کوئی تعلّق باقی نہیں رھا ۔ یقین نہیں آتا، تو خود ریحانہ سے پوچھ لیا جائے ۔ "

نومی جب صنم کی قسم کھا رھا تھا ، تو صنم تڑپ گئی ۔ ننھی نے فوراْ صنم کو بازو سے پکڑ کر کھینچا، اور ایک طرف لے گئی ۔ صنم اب بھی اس کی پشت پر موجود نومی کی طرف ھی دیکھے جا رھی تھی ۔

نومی ان دونوں کو ایک طرف کھڑے دیکھتا رھا ۔ اس سے رھا نہیں جا رھا تھا، کہ وہ صنم کے قدموں میں گر کر بھی اس سے معافی مانگ لے ۔ آج وہ ھر قیمت پر صنم سے معافی کی سند لینا چاھتا تھا۔

دوسری طرف ننھی نہ جانے صنم کو کیا سبق پڑھا رھی تھی ، اور جب صنم واپس آئی، تو اس کا چہرہ تاٴثّرات سے یکسر عاری ھو چکا تھا ۔ نومی نے اس کو دیکھا، اور اس کی امّیدیں دم توڑ گئیں ۔ ننھی نے نومی کی ساری باتوں کا اثر ایک منٹ میں ختم کر دیا تھا ۔

صنم جب واپس آئی، تو اس نے نومی کی ساری باتوں کو جذباتی بلیک میلنگ قرار دے ڈالا ۔ نومی اس کی یہ بات سن کر تڑپ گیا ۔ آخر وہ رہ نہ سکا۔

وہ صنم کے قدموں میں گر گیا ۔ اس نے صنم کے پیروں پر اپنے ھاتھ رکھ دئے ، اور روتے ھوئے اس سے معافی مانگنے لگا۔ صنم ایک دم سے پیچھے ھٹ گئی ۔ اسے اپنی نگاھوں پر یقین نہیں آ رھا تھا ۔

ننھی بھی دم بخود کھڑی تھی ۔ جب اس نے دیکھا، کہ نومی کے اس انداز سے صنم پھر متزلزل ھو رھی تھی،تو اس نے صنم کو پکڑا ، اور واپس چل پڑی ۔ صنم کا بس نہیں چل رھا تھا، کہ وہ بھاگ کر جائے، اور نومی کو اٹھا کر سینے سے لگا لے ۔ نومی نے بھی آج دیکھ لیا تھا ، کہ صنم کے اندر آج بھی اس کی محبّت موجود ھے، اسے صرف ایک چنگاری دکھانے کی ضرورت تھی، اور وہ شعلہ بن کر بھڑک ٹھتی ۔ پھر ایک ننھی تو کیا، سارا زمانہ بھی مل کر نہیں بجھا سکتا تھا ۔

نومی اپنی جگہ پر بیٹھا رہ گیا ۔ جب اس نے محسوس کیا، کہ صنم اور ننھی واپس نہیں مڑ رھیں ، تو اس نے صنم کو آواز دی، اور کھڑا ھو گیا ۔

" صنم ، جاتے جاتے میری آخری بات سنتی جاؤ ۔ میں جانتا ھوں ،کہ تم بھی مجھ سے محبّت کرتی ھو ۔ لیکن میں یہ بات تمھاری بات سے سننا چاھتا ھوں صنم ۔ کل دوپہر دو بجے تک، اگر تم یہیں اسی جگہ پر آ کر مجھ سے نہ ملیں ، تو میں سمجھوں گا، کہ تم مجھ سے محبّت نہیں کرتیں، اور میں اسی درخت سے لٹک کر اپنی جان دے دوں گا۔" اور صنم نے ایک دم سے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ ننھی نے اسے اپنی طرف کھینچا ۔ وہ جیسے دو پاٹوں میں پس کر رہ گئی تھی ۔ آخر اس نے دور سے ھی آواز لگائی ۔

" تم نے جان دینی ھے ، تو کل کی ابھی دے دو ، لیکن میری طرف سے کوئی امّید مت رکھنا ، سمجھے ۔ میں تم سے نفرت کرتی ھوں، اورت نفرت ھی کرتی رھوں گی ۔ صرف نفرت۔ "

" نہیں صنم ، گھر جا کر تسلّی سے اس بات پر سوچنا ۔ کل دو بجے تک وقت تمھارے ھاتھ میں ھے ۔ اگر تو تم نے آ کر ھاں کر دی، تو میں زندہ رہوں گا ، لیکن اگر تم نہ آئیں، تو تین بجے تک گاؤں میں میری موت کا اعلان بے شک خود ھی کروا دینا ۔ یہ میرا وعدہ ھے تم سے ۔ " صنم نے اس کے آخری الفاظ سنے، اور چہرہ دوسری طرف پھیر لیا ۔ ننھی سمجھی، کہ صنم نے بد ظن ھو کر نومی کو انکار کر دیا ھے ۔ اسے کیا معلوم تھا، کہ اس وقت صنم کے دل پر کیا بیت رھی تھی ۔

ننھی اور صنم چلتی ھوئی کافی دور نکل آئی تھیں ۔ نومی اب دور کھڑا نظر آ رھا تھا ۔

ننھی نے اسے حوصلہ دیا، اور نومی کو انکار کرنے پر اس کا منہ چوم لیا ۔ صنم پھیکے انداز سے مسکرائی ۔ ننھی اس وقت اس کی کیفیّت کا اندازہ لگانے میں ناکام ھو گئی تھی ۔ بظاھر نومی کو آخری لمحات میں انکار کر کے صنم نومی کے ھاتھوں دل کی بازی ایک بار پھر سے ھار آئی تھی ۔ اسے رہ رہ کر نومی کی باتیں یاد آ رھی تھیں ۔ اس کا دل چاھتا تھا، کہ ابھی جا کر نومی کے سینے سے لگ جائے، اور اس سے اقرار محبّت کر لے، لیکن ننھی سے کیا ھوا وعدہ اس کے پاؤں کی زنجیر بن کر رہ گیا تھا ۔ کھیتوں میں کھڑے ھو کر بھی جب ننھی اسے ایک طرف لے کر گئی تھی، تو اس وقت بھی اس نے اس کو یہی بات یاد کروائی تھی ۔ اور اسی وعدے کی بنیاد پر اس نے نومی کو مجبوراْ انکار کر دیا تھا ۔

اس کا گھر نزدیک آ چکا تھا ۔ اس نے ننھی کو خدا حافظ کہا، اور اپنے گھر میں داخل ھو گئی ۔ ننھی نے بھی اب اپنے گھر کا رخ کیا ۔ جانے سے پہلے اس نے نومی کی باتوں پر سوچنے سے روکنا ضروری سمجھا تھا ۔ صنم نے بھی سر ھلا دیا، جیسے اس کی ھدائت پر عمل کرنے کا وعدہ کر رھی ھو ۔ اسے کیا معلوم تھا ، کہ صنم تو کب کی ان باتوں کے گھیرے میں آ چکی تھی ۔

************************************************** ******

شام کو ننھی پھر سے صنم کے گھر میں پہنچ گئی ۔ اس کی ماں نے اسے بتایا، کہ صنم دوپہر سے سو رھی ھے ۔ ننھی نے صنم کے کمرے پر ھلکا سا دباؤ ڈالا، تو پتہ چلا ، کہ دروازہ اندر سے بند ھے ۔ اس نے دستک دی ۔ تیسری دستک پر صنم کی آواز سنائی دی ۔ ننھی نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، لیکن صنم نے کہا، کہ فی الحال وہ آرام کر رھی ھے ۔ ننھی بعد میں آ جائے ۔ ننھی نے اصرار جاری رکھّا، آخر صنم نے کافی دیر کے بعد دروازہ کھول ھی دیا ۔

ننھی اندر آئی ، تو اس نے دیکھا، کہ رو رو کر صنم کی آنکھیں سرخ ھو چکی تھیں ۔ گو کہ اس کی آنکھیں صاف تھیں، لیکن صاف پتہ چلتا تھا، کہ ابھی ابھی صاف کی گئی تھیں، اور تھوڑی دیر قبل تک ان سے خوب بادل برسے تھے ۔

ننھی نے کنڈی لگائی، اور صنم کے پاس آ کر بیٹھ گئی ۔

صنم اس سے نظریں چرا رھی تھی ۔

ننھی نے اس کو مخاطب کیا ۔

" میں نے کہا تھا ناں صنم، کہ آج کے بعد تم اکیلے میں بیٹھ کر بلا وجہ کسی بات پر بھی نہیں روؤ گی ۔ کہا تھا ناں میں نے ، اور تم نے بھی وعدہ کیا تھا۔ لیکن آج تمہارا سامنا نومی سے ھوا ھے،اور تم پھر سے رو رھی ھو ۔ اس کا مطلب ھے، کہ تم آج بھی اس سے محبّت کرتی ھو ۔ ھے ناں ؟ "

صنم نے انکار میں سر ھلا دیا ۔ اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکلے، اور اس کے گالوں کی طرف بہ گئے ۔ ننھی نے بھی ان آنسوؤں کو دیکھ لیا تھا ۔

" جھوٹ مت بولو صنم ۔ اگر تم اس سے محبّت نہیں کرتی ھو، تو پھر رو کیوں رھی ھو ۔ چلو اٹھّو، شاباش ۔ منہ ھاتھ دھوؤ ۔ پھر ھم دونوں تمھارے رقبے پر چلتے ھیں ۔ آج کل ویسے بھی آم بہت میٹھے ھیں تمھارے کھیتوں میں ۔اٹھّو ناں ۔ "

اور ننھی نے اسے باقاعدہ کھڑا کرنے کی کوشش کی ۔ صنم نے اس کا ھاتھ ایک طرف کر دیا ۔ ننھی نے اسے کہا، کہ چلو وہ اٹھنا نہیں چاھتی ، نہ اٹھّے، لیکن ایک بار مسکرا تو دے ۔ جواب میں صنم نے منہ پھیر لیا ۔ آخر ننھی نے اسے گدگدی کرنی چاھی، تو صنم جیسے ایک دم پھٹ پڑی ۔

" ننھی ۔ خدا کے لئے ، وہاں نومی خود کشی کرنے جا رھا ھے ، اور تم کو ھنسنے کی پڑی ھے ۔ کتنی سنگدل ھو تم ۔ "

اور ننھی نے اسے دیکھا۔ " اس کا مطلب ھے کیہ محبّت کا جنّ ابھی بھی سوار ھے تمھارے سر پر ۔

"نہیں ۔ "

" اگر نہیں، تو پھر مرنے دو اسے ۔

"لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"

" لیکن کیا ؟ اگر اس سے محبّت نہیں ھے، تو اس کا درد کیوں محسوس کر رھی ھو ؟ مرنے دو ، ویسے بھی وہ تمھاری بربادی کا ذمّہ دار ھے، سزا تو ملنی ھی چاھئے ناں ۔ "

" لیکن ننھی ، "

نہیں صنم ، مرنے دو اسے ۔ ویسے میں جانتی ھوں ، کہ وہ نہیں مرے گا ۔ یہ اس نے خالی دھمکی دی ھے ۔ تمھیں ڈرانے کے لئے ۔ وہ اتنا بہادر نہیں ھے صنم۔ تم ٹینشن مت لو ۔ "

" وہ کتنا بہادر ھے، وہ میں نے کل دیکھ لیا ھے ننھی ۔ " کچھ بھی ھے، لیکن اس کے مرنے میں ھمیں کوئی نقصان نہیں ھے ۔ کم از کم مجھے تو نہیں ھے ۔ "

صنم کافی دیر سے ضبط کر رھی تھی ۔ اس نے یہی کوشش کی تھی ، کہہ ننھی سے اپنے دل ی بات حتّی الامکان حد تک چھپا کر رکھّے، لیکن ریحانہ مسلسل نومی کی موت کی باتیں کر کے جیسے اس کے دل پر آراٴ چلا رھی تھی ۔ آخر صنم سے رہا نہ گیا، اور وہ چلّا اٹھّی ۔

" تمھیں فرق نہیں پڑتا تو نہ پڑے ، لیکن مجھے تو فرق پڑتا ھے ننھی بی بی ۔ ھاں ، مجھے فرق پڑتا ھے ۔ "

ننھی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ، " اس کا مطلب ھے، کہ تم تسلیم کرتی ھو، کہ تمھیں آج بھی اس سے محبّت ھے ۔ "

ھاں، ھاں، میں مانتی ھوں ، کہ میں نومی سے محبّت کرتی ھوں ۔ ننھی میں جتنا صبر کر سکتی تھ، میں نے کر کے دیکھ لیا، لیکن میں آج کے دن تک بھی اس جگہ پر نہیں پہنچ پائی ھوں، جہاں سے میں نومی سے نفرت کے سفر کا آغاز کر سکوں ۔ تم ھی بتاؤ ننھی ، کہ اس میں میرا کیا قصور ھے ، میں نے ھر طرح سے کوشش کر کے دیکھ لیا، ھر دفعہ ھی میں نومی سے ، اس کی سوچوں سے ، اس کے خیالوں سے جان چھڑانے کا سوچ کر ایک نیا عزم باندھتی ھوں ، لیکن ھر دفعہ ھی میں ناکام ھو جاتی ھوں ۔ ان چھے مہینوں میں، کون سا دن ھے ننھی ، جب میں نے نومی کو یاد نہ کیا ھو ۔ تم ھی بتاؤ ننھی ،۔ کیا زبردستی بھی میں اس سے محبّت کر سکتی ھوں ۔ نہیں ننھی ، یہ دوھری کیفیّت کی اداکاری میں اب مزید نہیں کر سکتی ۔ خدا کے لئے ، مجھے نومی کے پاس لے چلو ، میں اس کو بتانا چاھتی ھوں، کہ اس کی صنم اس سے کتنا پیار کرتی ھے ۔ خدا کے لئے ننھی، خدا کے لئے ۔ کہیں ایسا نہ ھو ، کہ وہ اپنی جان دے دے ۔ یاد رکھنا ننھی ، اگر نومی کو کچھ ھوا، تو صنم بھی نہیں بچے گی ھاں ۔ یاد رکھنا ۔ "

اور ننھی اس کی بات سن کر دم بخود رہ گئی ۔ اس کے وھم و گمان میں بھی نہیں تھا، کہ صنم اس قدر جلد س کے سامنے اعتراف کر لے گی ۔ شک تو اسے پہلے سے ھو رھا تھا، لیکن صنم کی جانب سے اسے اتنی جلد بازی کی ھر گز توقّع نہیں تھی ۔

ننھی نے صنم کو سمجھانا چاھا، لیکن صنم نے اس کی کسی بھی بات کو سننے سے انکار کر دیا ۔ وہ صرف نومی کی حمایت میں بات سننا چاھتی تھی ۔

ننھی ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی ۔ صنم یقیناْ پرانی سٹیج پر پہنچ چکی تھی، جہاں اسے نومی کے علاوہ کوئی دوسرا نظر ھی نہیں آتا تھا ۔ جدائی نے اسے نومی سے بظاھر تو دور کیا تھا، لیکن اندرونی طور پر وہ کھنچ کر نومی کے قریب

چلی گئی تھی ۔

آخر ننھی نے ھار مان لی ۔ اسے صنم کی حالت کا اندازہ ھو گیا تھا ۔ وہ سمجھ گئی تھی ، کہ اب اس نے صنم سے ضد کی، تو وہ پھر بھی نومی سے ضرور ملے گی ۔ لیکن ننھی کی مدد کے بغیر وہ اکیلی ھی نومی کو ملنے چل پڑتی، تو اس صورت میں وہ کسی مصیبت میں بھی پھنس سکتی تھی ۔

ننھی نے ٹھنڈے دماغ سے سوچا ، کہ اگر وہ صنم کا ساتھ دیتی ھے ، تو کم از کم صنم کے حوالے سے اسے ایک اطمینان تو رھےگا ۔

ننھی کو رضا مند دیکھ کر صنم کے مرجھائے چہرے پر پھول سے کھل اٹھّے تھے ۔ وہ ایک دم سے کھلی کھلی سی نظر آنے لگی تھی ۔ اب اس نے اپنی آنکھیں بھی صاف کر لی تھیں ۔

ننھی نے وعدہ کیا، کہ وہ اسے کل ھی نومی سے ملوا کر لائے گی ۔ صنم ابھی نومی سے ملنے پر بضد تھی ، لیکن ننھی نے اسے شام کی سرخی دکھائی ، اور کل تک صبر کا مشورہ دیا ۔ اس کے بعد اس نے اسے ایک ایسی بات کہی ، جسے سن کر صنم کا چہرہ شرم سے سرخ ھو گیا ۔

صنم اس کے گلے لگ گئی ۔ اسے اب کل کا انتظار تھا ۔ وہ نہیں جانتی تھی ، کہ کل کا دن اسے کتنی بڑی آزمائش سے دوچار کرنے والا تھا ۔

**************************************************

ریحانہ اپنے گھر میں لیٹی ھوئی گہری سوچوں میں ڈوبی ھوئی تھی ۔ اس نے آج صنم اور ننھی کو ایک ساتھ کھیتوں کی طرف جاتے ھوئے دیکھا تھا، اور اس کا ماتھا ٹھنکا تھا ۔ پھر جب اس نے ان دونوں کا پیچھا کیا، تو اسے پتہ چل گیا ، کہ نومی سے ان دونوں کی کم از کم آدھا گھنٹہ بات چیت ھوئی تھی ۔ یہ سب مناظر اس نے انتہائی احتیاط کے ساتھ دیکھے تھے ۔ نومی، ننھی اور صنم کو احساس تک نہیں ھو سکا تھا ، کہ کوئی ان کو دور سے کھڑا دیکھ رھا تھا ۔

اب ریحانہ کو یقین ھو چکا تھا ، کہ نومی اور صنم کی صلح ھوچکی ھے ۔ اور اگر ان کی صلح ھو چکی تھی ، تو وہ لازماْ ملیں گے بھی ،۔ اور یہی تو ریحانہ بھی چاھتی تھی ۔ نومی سے انتقام لینے کا اس سے اچھّا موقع اور کوئی نہیں ھو سکتا تھا ۔

ریحانہ سوچتی جا رھی تھی ، اور اس کے چہرے پر موجود مسکراھٹ مزید گہری ھوتی جا رھی تھی ۔ اس نے نومی اور صنم کی نگرانی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جونہی وہ ان دونون کو ملتے ھوئے دیکھتی ، تو چوھدری کو کسی طرح سے خبر کر دیتی ۔ اس کے بعد کا کام چوھدری خود ھی کر لیتا ۔ اس طرح سانپ بھی مر جاتا ، اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی ۔ اس کے دل کی بھڑاس چوھدری کے ذریعے سے پوری ھو جاتی ، اور کسی کو پتہ بھی نہ چلتا ، کہ یہ ساری پلاننگ در اصل ریحانہ کی تھی ،

اور یہ کہ ریحانہ نے ایک تیر سے کتنے شکار کئے ھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

اس نے اٹھ کر موبائل فون پر ایک نمبر ملایا اور گاؤں کے ایک آدمی سے بات کی ۔ یہ آدمی اس کے جسم کا خواھش مند تھا ، اور ریحانہ اس کی خواھش پوری کرنے کے معاوضے کے طور پر اس کو نومی کے خلاف استعمال کرنے والی تھی ۔ اس آدمی نے بھی اس سے مکمّل تعاون پر آمادگی ظاھر کر دی تھی ۔

اسے تو ریحانہ کی پھدّی سے مطلب تھا ۔ اور وہ اسے جلد ھی ملنے والی تھی ۔ بس ایک بار اسے نومی کے بارے میں ایک خبر چوھدری تک پہنچانا تھی ۔ وہ خبر کیا تھی ، وہ تو اسے ابھی تک ریحانہ نے نہیں بتائی تھی ، لیکن اس نے جلد ھی بتانے کا وعدہ بھی کیا تھا ۔ ھو سکتا ھے، ایک دو دنوں میں ھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

************************************************** ******************

دوسرے دن ننھی اور صنم پھر سے کھیتوں کی طرف چل پڑیں ۔

ریحانہ بھی اپنے گھر سے باھر کھڑی ھوئی تھی ۔ اس نے دونوں کو پھر سے کھیتوں کی طرف جاتے دیکھا ، تو فوراْ گھر میں چلی گئی ۔ اندر جا کر اس نے ایک نمبر ڈائل کیا تھا ۔

************************************************** ***********

Bottom of Form

·          

Top of Form


ریحانہ نے اپنے طلبگار سے بات کر کے اسے چند ضروری ھدایات دیں جنہیں سن کر وہ آدمی گھبرا گیا، لیکن جب ریحانہ نے اسے اپنے جسم کے سہانے خواب دکھائے، اور بات کرنے کے لئے کچھ گر سمجھائے، تو وہ نیم رضا مند ھو ھی گیا ۔ ریحانہ نے اسے حوصلہ دیتے ھوئے مکمّل طور پر راضی کر ھی لیا تھا ۔ اس آدمی کا نام رفیق عرف فیکا تھا۔ گاؤں والوں کی نظروں میں وہ ایک سادہ آدمی تھا، لیکن در حقیقت وہ ایک مکمّل لچّا شخص تھا۔ عورتوں کا حد درجہ رسیا فیکا ھر کام چھپ کر کرنے کا عادی تھا۔ آج تک اسے کوئی بھی کسی واردات کے دوران پکڑ نہیں سکا تھا ۔

در اصل ریحانہ نے اس سے یہ کہا تھا ، کہ وہ چوھدری کے کانوں تک کسی بھی طرح سے یہ خبر پہنچا دے ، کہ اس وقت اس کی لاڈلی بیٹی کھیتوں میں نومی کے ھمراہ حالت۔ غیر میں موجود ھے ، اور نومی سے اس کا چکّر کئی ماہ سے چل رھا ھے ۔

اس آدمی نے حالت غیر کا لفظ ہٹا کر باقی کی بات چوھدری کے ایک ملازم سے کر دی ۔ اس ملازم نے پہے تو اس کو گریبان سے پکڑ لیا، اور دو تین تھپّڑ اس کے چہرے پر رسید کر دئے۔ وہ ملازم شائد اس کا گلہ ھی دبا دیتا، لیکن اس آدمی نے جب قسمیں کھائیں کہ وہ تو چوھدری کی عزّت کو بچانے کی نیّت سے یہاں تک آیا ھے ، تو اس ملازم نے کچھ سوچتے ھوئے اس کو چھوڑ دیا ۔

" تم نے یہ بات کسی کو بتائی تو نہیں ناں ؟ " ملازم نے قہر آلود نظروں سے اسے گھورتے ھوئے پوچھا تھا، جس پر اس نے نفی میں سر ھلا دیا ۔ ملازم اسے گہری نظروں سے دیکھ رھا تھا ۔ اس کی نظروں سے گھبرا کر اس کا دھیان بٹانے کے لئے فیکے نے چوھدری کا پوچھا، تو اس ملازم نے اسے بتایا، کہ چوھدری صاحب ایک لمبے کام سے شہر گئے تھے، لیکن اچانک واپس گاؤں میں آ گئے ھیں، ابھی ابھی پہنچے ھیں اور اس وقت وہ اپنے گھر میں ھی موجود ھیں ۔ اس آدمی نے جب وہاں سے جانا چاھا، تو اس ملازم نے اسے پکڑ کر اندر ایک مخصوص کمرے میں بند کر دیا ۔ اتنی حسّاس خبر دینے والے آدمی کو اتنی آسانی سے نہیں چھوڑا جا سکتا تھا ، تا آنکہ چوھدری خود اس بات کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر دے ۔ اس کے بعد وہ ملازم وہاں سے چلا گیا۔ یقیناْ وہ چوھدری کو معاملے کی حسّاسیّت سے آگاہ کرنے گیا ھو گا ۔

فیکا ڈر گیا۔ اسے اپنی موت یقینی نظر آنے لگی ۔

کچھ دیر بعد جب اپنے اسی وفادار ملازم کے ھمراہ چوھدری اس کمرے میں داخل ھو کر اس کے سامنے بیٹھ گیا، اور اسے بھی سامنے زمین پر بٹھا لیا، تو اس کی رہی سہی ھمّت بھی جواب دے گئی ۔ ملازم نے آتے ھی اس پر گن تان لی تھی ۔ خوف سے فیکے کا پیشاب خارج ھو گیا۔ چوھدری نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا۔

" ھاں تو مسٹر فیکے ، تم نے ابھی ابھی میرے ملازم سے کیا بات کہی ھے ؟ ذرا مجھے بھی بتاؤ۔ "

فیکے کے منہ سے آواز ھی نہ نکل سکی ۔ چوھدری سمجھ گیا، اور ملازم کو اشارہ کیا۔ وہ ملازم پانی لے کر آ گیا۔ فیکا حد درجہ دہشت زدہ دکھائی دے رھا تھا۔

اس کو پانی پلایا گیا، کیونکہ خوف سے اس کے ھونٹ خشک ھو چکے تھے، اور اس سے بولا بھی نہیں جا رھا تھا۔ اس کے بعد، چوھدری نے اپنا سوال دھرایا، اور اس کو سختی سے تاکید کی، کہ اب وہ فر فر ساری بات بتا دے ۔

فیکے کی زبانی ساری بات سن کر چوھدری کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔ اس نے فیکے کا چہرہ اوپر کو اٹھایا اور کہا ،

" یاد رکھنا فیکے ، اگر تیری زبان سے نکلا ھوا ایک لفظ بھی جھوٹ نکلا ناں ، تو میں تجھ پر دھی ڈلوا کر تجھے اپنے کتّوں کے آگے پھینکوا دوں گا ۔ "

فیکے کے اوسان خطا ھو گئے ۔ اس نے اس لمحے کو کوسنا شروع کر دیا، جب وہ ریحانہ جیسی کمینی عورت کے کہے میں آ کر، بناٴ دیکھے، بناٴ سمجھے، چوھدری کی بیٹی کے متعلّق ایسی بات کہنے کے لئے چوھدری کے گھر کی طرف چل پڑا تھا ۔ اور وہ بھی کس لالچ کی خاطر ؟ زیادہ سے زیادہ بالآخر پھدّی ھی تو تھی جو ریحانہ اسے دے سکتی تھی ۔ وہ تو اسے کسی اور لڑکی سے بھی مل سکتی تھی ، لیکن اگر یہ بات جھوٹ ثابت ھو گئی ، تو ۔۔۔۔۔۔۔ ؟ " اس سے آگے وہ سوچ کر ھی کانپ گیا ۔ اسے اپنی زندگی چند لمحوں کی مہمان لگنے لگی تھی ۔ چوھدری نے اپنے ملازم کی طرف دیکھا، اور اس کو لے کر ایک الگ کمرے میں آ گیا ۔ فیکے کو انہوں نے دوبارہ سے اسی کمرے میں بند کر دیا تھا۔

دوسرے کمرے میں آ کر چوھدری نے اس ملازم کو سب سے پہلے تو یہ ھدایت دی، کہ وہ اس معاملے میں اپنی زبان ھمیشہ کے لئے بند ھی رکھّے، ورنہ اس کی زبان ھمیشہ کے لئے بند کر دی جائے گی ۔ اس ملازم نےچوھدری کو اپنی وفاداری کا دوبارہ سے یقین دلایا، کہ ملازم ھمیشہ سے اپنے دنیاوی آقاؤں کے ساتھ مکمّل وفاداری، اور ان کے ھر راز میں رازداری کے پابند رھے ھیں ۔

اس کے بعد چوھدری نے اس کو کچھ سمجھایا، اور روانہ کر دیا۔ ملازم حکم پا کر فوراْ وہاں سے چلا گیا۔ اس کے بعد چوھدری ایک طرف رکھّی کرسی پر جیسے ڈھے سا گیا ۔ اسے حیرت اس بات پر تھی ، کہ اس کی بیٹی ، گاؤں کے چوھدری کی بیٹی کے ساتھ بھی گاؤں کا کوئی لڑکا، اور وہ بھی نومی جیسا لڑکا ، عشق لڑا سکتا ھے ۔ کیا گاؤں کے لڑکوں میں واقعی اتنی جرّٴات آ گئی تھی ؟ جوں جوں وہ سوچ رھا تھا ، توں توں اس کے اندر کا درندہ وحشت کی طرف بڑھ رھا تھا ۔ چوھدری کے اعصاب چٹخنا شروع ھو رھے تھے ۔ اور بات بھی تو ایسی ھی تھی ۔ اس کی اپنی بیٹی کے بارے میں ۔ ۔ ۔ ۔ !

فیکے کی بات سن کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا ۔ اس نے ملازم کو صرف گاڑی تیّار کرنے کے لئے بولا تھا ۔ اگلا کام کیا کرنا ھے، اور کب اور کیسے کرنا ھے ، اس کے متعلّق چوھدری نے خود ھی کارروائی کرنے کا سوچ لیا تھا ۔ وہ اپنی بیٹی کے معاملے میں ملازموں پر مکمّل انحصار نہیں کر سکتا تھا ۔

جب سوچ سوچ کر اس کے سر میں درد ھو گیا، تو وہ دوبارہ سے فیکے کے پاس چلا گیا ۔ اتنے میں اس کے ملازم نے اسے آ کر اطّلاع دی، کہ گاڑی تیّار ھے ۔ چوھدری نے فیکے کی طرف دیکھا، اور کمرے سے نکل گیا ۔ فیکا اسے رحم طلب نظروں سے دیکھتا ھی رہ گیا ۔

**************************************************

صنم اور ننھی دو بجے سے ایک گھنٹہ پہلے ھی نومی کے پاس پہنچ چکی تھیں ۔

صنم کی آنکھوں میں سہانے سپنے تھے۔ وہ خود کو ھواؤں میں اڑتا ھوا محسوس کر رھی تھی ۔ اس کی محبّت، نومی دوبارہ سے اسے مل گیا تھا ۔ اسے ایسا لگ رھا تھا، جیسے اس کے ھاتھوں میں ھفت اقلیم کا خزانہ آ گیا ھو ۔ ننھی بھی اس کی اس کیفیّت کو دیکھ رھی تھی ۔ وہ جانتی تھی، کہ صنم نومی کے معاملے میں ھمیشہ سے ھی ایسی رھی تھی ۔ اس نے اپنی سہیلی کو اس دیوانگی سے نکالنے کے لئے بہت کوشش کی تھی، لیکن ناکام رھی تھی ۔ ایک وقت آیا تھا، کہ جب صنم اس کے کہنے میں آ گئی تھی، اور نومی کے اور اس کے درمیان میں دوری آ گئی تھی، لیکن وہ دوری بھی ان کو ھمیشہ کے لئے دور نہ رکھ سکی، بلکہ فلم کے ھاف ٹائم میں آنے والا انٹرول ثابت ھوئی تھی، اور آج وہ انٹرول ختم ھو چکا تھا ۔ انٹرول، جو ان کی محبّت کی کہانی کو اور بھی شدید کر گیا تھا، اور جس کے بعد ان کی محبّت اور بھی زور شور سے شروع ھونے والی تھی ۔

نومی اپنے کھیتوں میں کھڑا ان کا انتظار ھی کر رھا تھا۔ وہ آج بھی اسی مخصوص جگہ پر موجود تھا، جہاں کل اسے صنم چھوڑ کر گئی تھی ۔ اس نے اور صنم نے ایک دوسرے کو دیکھا، تو صنم اندر تک تڑپ گئی ۔

نومی بولا ۔

" مجھے یقین تھا صنم، کہ تم ضرور آؤ گی ، لیکن اگر تم نہ آتیں ، تو تم ساری زندگی اپنے نومی کو دیکھنے کے لئے تڑپتی رھتیں ۔ " تو ننھی کو ایسے لگا، کہ جیسے صنم ابھی بھاگ کر نومی کے گلے سے لگ جائے گی ۔ اس نے مداخلت ضروری سمجھتے ھوئے ان دونوں کو کھیت کے مخصوص کونے میں جانے کا کہا ۔

صنم شرما گئی، اور نومی نے بھی مسکرا کر سر جھکا دیا ۔

کھیت کے اس کونے میں آ کر صنم نومی کے سینے سے لگ گئی۔ نومی نے بھی اسے ایسے لپٹا لیا، جیسے وہ صدیوں بعد ملے ھوں ۔ اور یہی حقیقت بھی تھی، کہ ان کو جدائی کے چند مہینے ھی صدیوں پر محیط لگ رھے تھے ۔

"آج، کتنے عرصے بعد ملے ھو ناں تم نومی ۔ "

یہ وہ جملہ تھا، جو صنم نے اس سے کہا تھا، اور نومی تڑپ کر رہ گیا تھا ۔ اس نے اور زور سے صنم کو اپنے ساتھ چمٹا لیا تھا۔ وہ اس سے معافی مانگے جا رھا تھا ۔ صنم نے اس سے خاموش ھو جانے کو کہا، نومی پھر بھی چپ نہ ھوا، تو صنم نے اس کے ھونٹوں پر اپنے ھونٹ رکھ دئے ۔ نومی کی آواز منہ میں ھی کہیں دب گئی ۔ اس کے بعد جذبات کا ایک طوفان سر اٹھانے لگا، لیکن نومی نے خود کو سنبھال لیا، او ر بولا،

" نہیں صنم ، میں اب یہ سب تمھارے ساتھ نہیں کروں گا ۔ "

صنم حیران رہ گئی ۔ اس نے نومی کی طرف دیکھا، جیسے اس کو اس کی بات سمجھ میں نہ آئی ھو ۔

نومی نے کہا، " صنم ، میں ان تمام دنوں پر بہت شرمندہ ھوں، جب جب میں نے تمھارے ساتھ یہاں کچھ بھی غلط کیا، لیکن اب میں اس کہانی کو دھرانا نہیں چاھتا ۔ میں نے اس لئے تم سے معافی نہیں مانگی، کہ میں دوبارہ سے تم کو اس جگہ پر لا کر حاصل کر سکوں ، بلکہ میں تو اب اس محبّت کو ایک پاکیزہ روپ دینا چاھتا ھوں ۔ ایک سچّے رشتے کا روپ ۔ ۔ ۔ ۔ "

اس کے بعد، اس نے صنم کا شرم سے گلنار ھوتا چہرہ اپنے دونوں ھاتھوں میں بھرتے ھوئے کہا۔

" مجھے معلوم ھے صنم، کہ میں تمھارے قابل نہیں ھوں ، میری اور تمھاری حیثیّت میں زمین آسمان کا فرق ھے ۔ لیکن پھر بھی میں اپنے باپ کو ایک بار تمھارے گھر ضرور بھیجوں گا، تا کہ وہ تمھارے باپ سے تمھارا ھاتھ مانگ سکے ۔ "

اس کی بات سن کر صنم خوش تو ھوئی، لیکن اس کی یہ خوشی لمحاتی تھی، جو اگلے ھی لمحے یاس، اور اس کے بعد خوف میں بدل گئی ۔ اس نے نومی کے منہ پر ھاتھ رکھتے ھوئے کہا۔،

" ایسا ظلم مت کرنا نومی، تم میرے باپ کو مکمّل طور پر نہیں جانتے ۔ وہ میرے سارے لاڈ اٹھا سکتا ھے ، لیکن میرا رشتہ تمھارے لئے وہ کبھی بھی نہیں دے گا نومی۔ بلکہ ایسا کرنے سے الٹا تم خود ھی مصیبت میں پڑ جاؤ گے ، اور ھو سکتا ھے تمھارے باپ کے ساتھ بھی کچھ اچھّا سلوک نہ ھو ھماری حویلی میں ۔ ۔ "

نومی اس کی باتیں سن رھا تھا ۔ اسے خود بھی اس ساری حقیقت کا علم تھا، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے اور صنم کے ملن کے سپنے بن رھا تھا ، امّیدیں باندھ رھا تھا ۔ سچّ کہتے ھیں ، محبّت کرنے والے دیوانے ھی ھوتے ھیں ۔ وہ بھی صنم کی محبّت میں دیوانہ ھو چکا تھا ۔ اسے چوھدری کی کرخت طبیعت کا علم بھی تھا، اور اپنی اور صنم کے درمیان موجود حیثیّت کے فرق کا اندازہ بھی تھا، لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ صنم کو خیالوں ھی خیالوں میں اپنی دلہن کے روپ میں دیکھ رھا تھا ۔

اس دن صنم اور وہ اسی طرح کی باتیں کر کے رخصت ھو گئے ۔ انہیں معلوم ھی نہیں ھو سکا تھا، کہ چوھدری کی گاڑی نہر کے کنارے والی سڑک پر چلتی ھوئی، دور، نومی کے کھیت کے برابر میں آ کر رک چکی تھی ۔ ننھی بھی اس گاڑی کو نہیں دیکھ سکی تھی ، کیونکہ وہ سڑک اطراف سے گھنے درختوں میں گھری ھوئی تھی ۔ دور سے بیٹھ کر اس سڑک پر ھونے والی نقل و حرکت کا صحیح اندازہ لگانا اتنا آسان نہیں تھا ۔

صنم آ گئی ، تو ننھی بھی کھڑی ھو گئی ۔ صنم نے اسے چلنے کا اشارہ کیا، تو وہ بھی اس کے ساتھ چل پڑی ۔ ان کا رخ گاؤں کی طرف تھا ۔

************************************************** ***

ننھی اور صنم کے جانے کے بعد، نومی بے حد خوش تھا ۔ وہ کچھ دیر تک اپنے کھیتوں میں ھی پھرتا رھا ۔ اسے ابھی بھی یقین نہیں آ رھا تھا ، کہ صنم ابھی ابھی اسے مل کر گئی ھے ۔ اتنا خوش تو وہ کسی عید پر بھی شائد ھی ھوا ھو، جتناخوش وہ آج ھو رھا تھا۔ اس کےانگ انگ سے خوشی چھلک رھی تھی ۔

کہتے ھیں ، کہ انسان کو ایک حد سے زیادہ خوش بھی نہیں ھونا چاھئے ، مبادا کسی کی نظر لگ جائے ۔ اور نومی کے ساتھ بھی یہی ھوا تھا ۔

اس کی خوشیوں کو شائد اس کی اپنی ھی نظر لگ گئی تھی ۔

تقدیر نے اس کو دکھوں اور تکلیفوں کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینکنے کا قطعی فیصلہ صادر کر دیا تھا ۔

نومی اپنی ھی مستی میں ڈوبا ھوا اپنی زمین میں موجود تھا ۔ اسے اندازہ ھی نہیں تھا، کہ آج اس کے ساتھ کیا ھونے والا تھا ۔ وہ خوش خوش اپنے کھیت میں پھر رھا تھا ، جب اسے دور سڑک پر چوھدری کی جیپ نظر آئی، جو دھیرے دھیرے اس کے کھیت کی طرف ھی بڑھ رھی تھی ۔ وہ دم بخود رہ گیا ۔

" کیا چوھدری گاؤں میں موجود ھے ؟ "

اس نے سوچا ۔

لیکن اس کی یاد داشت کے مطابق تو چوھدری ایک انتہائی ضروری کام کے سلسلے میں مہینے کے لئے گاؤں سے باھر گیا ھوا تھا ۔ پھر وہ ایک مہینے سے پہلے کیسے آ سکتا ھے ؟

ایک دم سے اس نے اس رستے کی طرف دیکھا، جہاں سے صنم اور ننھی گئی تھیں ، لیکن وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا ۔ اس نے اطمینان کی ایک سانس لی ۔ وہ دونوں تو شائد اس وقت تک گھر بھی پہنچ چکی ھوں ۔

ھو سکتا ھے ، چوھدری کا کوئی ملازم ھی گاڑی چلا رھا ھو ۔ نومی نے سوچا، لیکن پھر اسے یاد آیا، کہ یہ تو چھدری کی مخصوص جیپ تھی ۔ اس گاڑی پر تو وہ خود ھی سفر کرتا تھا ۔ اب بھی جیپ یقیناْ اسی کے زیر استعمال تھی۔ یعنی اس وقت چوھدری بذات۔ خود بھی گاڑی میں موجود تھا ۔ اس کی ریڑھ کی ھڈّی سنسنا اٹھّی ۔

" اس کا مطلب یہ ھوا، کہ جس وقت میں اور صنم ملاقات کر رھے تھے، اس وقت بھی چوھدری گاؤں میں، یعنی اپنے گھر میں ھی موجود تھا ۔ "

اس خیال نے نومی کو پسینے پسینے کر دیا ۔ لیکن پھر اسے ایک طرف سے اطمینان محسوس ھوا، کہ کم از کم صنم اور ننھی تو اس وقت یہاں موجود نہیں ھیں ۔ چوھدری کو کیا معلوم ، کہ ابھی کچھ ھی دیر پہلے صنم یہاں موجود تھی ۔

وہ خود ساختہ دلاسوں سے قدرے مطمئن ھو گیا ۔

گاڑی اب اس کے کھیت کے برابر سے گزر رھی تھی ۔ یقیناْ چوھدری اپنے کھیت کی طرف جا رھا تھا ۔ ، ، ، لیکن یہ کیا؟ گاڑی تو اس کے کھت کے برابر میں آ کر رک گئی تھی ۔ اور اگلی سیٹ سے چوھدری بر آمد ھوا ۔ اس کے ساتھ اس کا دیرینہ ملازم بھی موجود تھا ۔ اس ملازم کو دیکھ کر گاؤں کے بڑے بڑے جوانوں کا پتّہ پانی ھو جاتا تھا ۔

نومی نے دیکھا، کہ چوھدری اور اس کا ملازم اب اس کے کھیت میں داخل ھو گئے تھے ۔

نومی کے اوسان خطا ھونا شروع ھو گئے۔ آج سے پہلے تو چوھدری کبھی اس کے رقبے میں داخل نہیں ھوا تھا ۔ تو پھر آج ھی کیوں ؟

چوھدری اس کو دیکھتا ھوا اس کے قریب آ رھا تھا ، اور نومی اندر سے ھمّت چھوڑ رھا تھا ۔ پھر اس نے یہ سوچ کر خود کو دلاسہ دیا، کہ جو بھی ھو گا، دیکھا جائے گا ۔ خواہ مخواہ ڈرنے کی کیا ضرورت ھے ۔ ھو سکتا ھے چوھدری کسی کام سے ھی آیا ھو ۔

چوھدری اب اسے کے پاس آ چکا تھا ۔ نومی نے حوصلے مجتمع کرتے ھوئے اسے سلام کیا ۔ چوھدری ایک ٹک اسے ھی گھورے جا رھا تھا ۔ نومی اس کی نظروں کی تاب نہ لا سکا، اور اس کی نظریں جھک گئیں ۔ چوھدری کا ملازم نومی کے عقب میں پہنچ چکا تھا ۔ اس کے ھاتھ میں انتہائی جدید قسم کی گن موجود تھی ۔ یہ بڑی ھی ڈرامائی صورت حال بن گئی تھی ۔ نومی کے سامنے چوھدری موجود تھا ۔ وہ نہ تو منہ سے کچھ بول رھا تھا ، اور نہ ھی اس کے انداز سے نومی کو کچھ سمجھ آ رھی تھی۔ دسری طرف چوھدری کا خاص ملازم ڈانگر، اس کے عقب میں گن لئے کھڑا تھا ۔ گویا ایک طرح سے اب نومی ان دونوں کے گھیرے میں تھا ۔

نومی اندر سے ٹھیک ٹھاک گھبرا چکا تھا ۔ جب اسی کیفیّت کو کچھ لمحے گزر گئے ، تو نومی نے ھمّت کر کے دوبارہ سے زبان ھلائی ۔

" چوھدری صاحب ، خیر تو ھے ناں ، آپ، اور اچانک، میرے رقبے میں ۔ مجھے تو یقین ھی نہیں ھو رھا جناب ۔ آپ بیٹھیں ناں ، آئیں ، وہاں چارپائی موجود ھے کماد کے ساتھ ۔ "

لیکن چوھدری پھر بھی کچھ نہ بولا ۔ اب نومی مکمّل طور پر سمجھ چکا تھا ، کہ چوھدری کو اس کی اور صنم کی محبّت کی خبر ھو چکی ھے، ورنہ وہ اس طرح سے یوں کبھی نہ آتا، اور اسے اس انداز سے کبھی نہ گھورتا ۔

نومی یہ سوچ رھا تھا، کہ اچانک چوھدری گویا ھوا ۔

" " کاکا، کیا نام ھے تمھارا ، ھاں ، نومی ۔ یار، تم سے ایک ضروری کام پڑ گیا ھے ۔ باغ میں جا رھا تھا ، تم کو دیکھا، تو سوچا، ابھی کہتا جاؤں ۔ "

اور نومی کے منہ سے ایک پر سکون سانس خارج ھو گئی ۔ اسے اطمینان ھوا، کہ اس کے اندیشے غلط ثابت ھوئے تھے ۔ چوھدری تو اس کے پاس کسی کام سے آیا تھا ۔

" آپ حکم کریں جناب ۔ میں آپ کا شاد ھوں ۔ "

نومی کی بات سن کر چوھدری نے اسے ایک نظر دیکھا، اور بولا ۔ " یار، کام یوں بتانے کا نہیں ھے ۔ کیا تم ایسا نہیں کر سکتے، کہ آج شام کو بلکہ رات کو آٹھ بجے ، میرے آم کے باغ والے ٹیوب ویل پر آ جاؤ ۔ وہاں پر تمھیں کام بھی سمجھا دیا جائے گا، اور وہاں پر آج کی رات تمھاری ضرورت بھی ھے، اور ھاں ، وہاں پر تم آج رات ھمارے مہمان کی حیثیّت سے آؤ گے ۔ آخر ھمیں تم سے کام ھے ، تو تمھاری خاطر کرنا تو ھمارا فرض بنتا ھے ناں ۔ "

نومی چوھدری کی اس بات سے شش و پنج میں پڑ گیا ۔ اسے یقین ھی نہیں آ رھا تھا ، کہ چوھدری اس وقت اس کے پاس موجود اس قدر شیریں لہجے میں اس سے بات کر رھا ھے ۔ چوھدری تو کبھی گاؤں کے کسی بزرگ سے بھی سیدھے منہ بات نہیں کیا کرتا تھا ۔ یقیناْ دال میں کچھ کالا ھے ۔ کہیں ، ، ، ؟

ابھی وہ یہی سوچ رھا تھا، کہ چوھدری نے دوبارہ سے کہا، " کیا بات ھے ؟ تم کچھ پریشان لگ رھے ھو؟ کیا تم آنا نہیں چاھتے ؟ " آخری فقرہ کہتے کہتے چوھدری کا لب و لہجہ غصّیلا ھو گیا، اور نومی نے نہ چاھتے ھوئے بھی اقرار میں سر ھلا دیا ۔

وہ انکار کر ھی نہیں سکتا تھا۔ اسے معلوم تھا، کہ جب بھی چوھدری کو کسی سے کام درپیش ھو، تو وہ اس آدمی کو صرف ایک بار ھی کام کرنے کا کہتا ھے ، جو کہ ایک طرح سے حکم کا درجہ رکھتا ھے ۔ چوھدری کو انکار سننے کی عادت ھی نہیں تھی ۔ اور چوھدری تو دور کی بات تھی، چوھدری کے ملازم بھی چوھدری کا نام لے کر گاؤں کے کسی بھی آدمی کو کوئی کام کہ دیتے تھے، تو اس آدمی کی اتنی جرّاٴت نہیں ھوتی تھی، کہ ان کو انکار کر دے ۔ جب اس کے ملازموں کی دھشت کا یہ عالم تھا، تو پھر چوھدری کو انکار کون کر سکتا تھا۔ نومی بھلا اسے کیسے انکار کر سکتا تھا ۔ چوھدری نے اس کے اقرار میں ھلتے سر کو دیکھ کر اپنے ملازم کو دیکھا، اور بولا ۔

" لو دیکھ لو ڈانگر، تم تو کہتے تھے، کہ اسے منانا بڑا مشکل ھو سکتا ھے ۔ کتنی آسانی سے مان گیا ھے یہ ۔ کیوں کاکا نومی ؟ "

یہ کہ کر اس نے نومی کی طرف دیکھا، اور نومی نے پھر سے اقرار میں سر ھلا دیا، جیسے اس کی بات کی تائید کر رھا ھو ۔

اس کے بعد چوھدری نے اسے پھر سے وقت پر پہنچنے کی تاکید کی، اور وہاں سے چلا گیا ۔ اس کے پیچھے پیچھے ڈانگر بھی چل رھا تھا ۔

چوھدری جا چکا تھا ، اور نومی گہری سوچوں میں ڈوبا ھوا تھا۔ اسے کسی خطرے کی بو آنا شروع ھو گئی تھی ۔ اس کی چھٹی حس نے اسے خبر دار کرنا شروع کر دیا تھا ۔

لیکن مسئلہ یہ تھا، کہ وہ چوھدری کو ہاں کہ چکا تھا ۔ ناں کا تو سوال ھی پیدا نہیں ھوتا تھا ۔ اور اگر نومی وہاں شام کو نہ جاتا، تو بھی اس کی شامت آنا لازمی امر تھا ۔

وہ ایک عجیب مخمصے میں پھنس گیا تھا ۔ آخر اس نے اپنے دوست، بلال سے مشورہ کرنے کے لئے گاؤں کا رخ کیا ۔

نومی کی قسمت، کہ اس وقت گاؤں میں بلال موجود نہیں تھا۔ میں بھی ان دنوں اسلام آباد میں موجود تھا ۔ اسے کوئی رازداں میسّر نہیں آیا، تو اس نے ننھی سے رابطے کا فیصلہ کیا، لیکن اسے اس وقت شدید مایوسی ھوئی، جب اسے معلوم ھوا، کہ ننھی کا شوھر اچانک آیا، اور ننھی کو لے کر واپس چلا گیا ھے ۔ شائد اس کے گھر میں کوئی ایمر جنسی ھو گئی تھی ۔ اب تو نومی کو کوئی بھی ایسا رازداں دوست نہیں مل رھا تھا، جس سے وہ اس خطرناک بات پر مشورہ کر سکے ۔

آخر اسے اکیلے ھی فیصلہ کرنا پڑا، اور وہ سب کچھ تقدیر پر چھوڑتے ھوئے شام کو چوھدری کی بتائی ھوئی جگہ پر پہنچ گیا ۔

رات کا وقت تھا، جب نومی چوھدری کے رقبے میں پہنچا تھا ۔ ھر طرف ھو کا عالم طاری تھا۔ اوپر سے چاند بھی اپنی آخری تاریخوں پر تھا، اور رات کے آخری پہر میں ھی طلوع ھوتا تھا۔ ورنہ تو چاندنی رات بھی بذات خود انسان کے لئے ایک حوصلہ ھوا کرتی ھے ۔ رات اگر اندھیری ھو، تو انسان اکیلے میں خواہ مخواہ بھی ڈر سکتا ھے، نومی تو پھر چوھدری جیسے سفّاک انسان کے سامنے پیش ھونے والا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس کی بیٹی سے نومی کا چکّر بھی عروج پر جا رھا تھا۔

نومی ڈر بھی رھا تھا اور خود کو تسلّی بھی دے رھا تھا۔ اسے رہ رہ کر صنم کا خیال آ رھا تھا ۔ ننھی کے جانے کے بعد سے وہ صنم سے مشورہ کرنے کے قابل بھی نہیں رھا تھا ۔ نہ ھی کوئی دوست موجود تھا جس سے وہ مشورہ کر سکتا ۔ کہیں چوھدری اسے کسی سازش کے تحت تو نہیں بلا رھا ؟ اگر واقعی میں ایسا ھی تھا تو نومی کے لئے بہت برا تھا ۔ بہر حال، اب جو بھی تھا۔ نومی اس کا سامنا کرنے کے لئے خود کو تیّار کر چکا تھا ۔

ابھی وہ ٹیوب ویل پر پہنچا بھی نہیں تھا، کہ اچانک ایک طرف سے کچھ نقاب پوشوں نے اسے پکڑ کر قابو کر لیا۔ انہوں نے آتے ھی اس کی آنکھوں اور منہ پر کپڑا رکھ دیا۔ نومی اس اچانک افتاد سے گھبرا گیا ۔ اس نے اپنے دفاع کی کوشش کی، لیکن وہ لوگ اس پر اتنی اچانک حملہ آور ھوئے تھے، اور انہوں نے آتے ھی اسے اس انداز سے جکڑ لیا تھا، کہ نومی ھلنے جلنے کے قابل بھی نہیں رھا تھا ۔ وہ لوگ نومی کو مسلسل مار رھے تھے ۔ اس کے منہ پر کپڑا بھی باندھ دیا گیا تھا تا کہ وہ چلّا نہ سکے، اور اس کی آواز سن کر کوئی اس طرف نہ آ نکلے ۔ نومی گو کہ ان کی گرفت سے نکل نہیں سکتا تھا، پھر بھی وہ اپنے طور پر نکلنے کی بھر پور جدّو جہد ضرور کر رھا تھا۔ اچانک نومی کی آنکھوں کے سامنے تارے سے ناچنے لگے ۔ اسے اپنے جسم پر پڑنے والی دوسری ضربوں کا احساس تو ھو ھی رھا تھا، لیکن اب اسے اپنے سر پر انتہائی شدید درد کا احساس ھوا تھا۔ شائد اس کے سر پر کسی نے وار کیا تھا، جو اتنا شدید تھا، کہ نومی کے ھوش و حواس جواب دینے لگے، اور پھر وہ بے ھوش ھو گیا ۔

نومی کو ھوش آئی، تو وہ ایک کمرے میں پڑا ھوا تھا۔ ھوش آتے ھی اسے اپنے سر میں شدید ترین درد کا احساس ھوا۔ یقیناْ اس کے سر پر کسی نے کسی ایسی چیز سے وار کیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ بے ھوش بھی ھو گیا تھا، اور اب بھی وھاں درد موجود تھا۔ اس کے کپڑے بھی کچھ جگہوں سے پھٹے ھوئے تھے، اور ان پر خون بھی لگا ھوا تھا ۔ یقیناْ یہ خون بھی اسی کے جسم سے یا سر سے نکلا ھو گا۔ اس نے ھاتھ لگا کر اپنے سر کو چیک کرنا چاھا، تو اسے معلوم ھوا، کہ اس کے دونوں ھاتھ پشت پر بندھے ھوئے ھیں ۔ اس نے ھاتھوں کو ھلا جلا کر بندش کی گرفت پرکھنے کی کوشش کی ۔ باندھنے والے نے اسے اتنی سختی سے باندھا تھا، کہ ذرا سی کوشش کرنے پر بھی اس کے ھاتھوں میں شدید درد شروع ھو گیا۔ وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا۔

اب آھستہ آھستہ ساری بات اس کی سمجھ میں آ رھی تھی ۔ چوھدری نے اسے دھوکے سے ھی بلایا تھا، اور جب وہ وہاں پہنچا تھا، تو اس کو اچانک دھر لیا گیا تھا۔ یہ چوھدری ھی کا کوئی خفیہ ٹھکانہ تھا جہاں وہ قید کر دیا گیا تھا۔ اور اب وہ کسی بھی وقت چوھدری کے سامنے ھو گا۔

چوھدری کا سامنا ھونے کا خیال آتے ھی اس کے بدن میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی ۔ چوھدری اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا ؟ یہ وہ سوال تھا جو بار بار اس کے دماغ میں گونج رھا تھا۔ آخر اس کے سر میں درد شروع ھو گیا، اور اس نے کچھ دیر کے لئے خود کو حالات کے سپرد کرتے ھوئے سوچنا بند کر دیا۔

اب اس نے ارد گرد غور کرنا شروع کر دیا۔ کمرہ شائد کسی تہ خانے کا تھا کیونکہ اس کی حالت انتہائی مخدوش تھی، اور اس میں اتنی بدبو اور اتنا تعفّن پھیلا ھوا تھا، کہ نومی کو ابکائی سی آنے لگی ۔ اس کمرے میں اس کے علاوہ اور کوئی ذی روح موجود نہیں تھا۔ اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی، کہ وہ کتنی دیر تک بے ھوش رھا تھا، لیکن وہ کسی بھی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔

نومی حیران تھا، کہ چوھدری سے اتنا خوف محسوس کرنے والا نومی اب چوھدری کی قید میں کسی نا معلوم جگہ پر پہنچ چکنے کے بعد بھی اب اتنا نہیں گھبرا رھا تھا، جتنا وہ آزاد پھرتے ھوئے گھبراتا تھا ۔ وہ چوھدری کا سامنا کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیّار کر رھا تھا ۔

صنم کی محبّت نے شائد اسے اندر سے پہلے کی نسبت زیادہ مضبوط بنا دیا تھا ۔

اب اسے چوھدری کا انتظار تھا ۔ چوھدری کسی بھی لمحے وہاں وارد ھو سکتا تھا ۔

نومی وہاں پڑے پڑے اچانک سو گیا۔ اچانک دھڑام سے دروازہ کھلا، اور دروازے سے چوھدری نمودار ھوا ۔ اس کے ھاتھ میں ایک ھنٹر تھا، اور اس کے ساتھ ڈانگر بھی موجود تھا۔

نومی سمجھ گیا، کہ اب اس کے ساتھ کیا سلوک ھونے والا ھے ۔

صنم اپنے گھر میں پہنچی، تو اس کا باپ گھر میں واپس آ چکا تھا ۔ وہ گھبرا گئی ۔ اس نے گھر والوں سے باتوں باتوں میں معلوم کر لیا، کہ اس وقت وہ کہاں ھے ۔ اسے بتایا گیا، کہ وہ کھیتوں کی طرف کسی کام سے گیا ھے ۔ یہ سن کر اس نے سکھ کی سانس لی، کہ وہ اس وقت تک وہاں سے نکل آئی ھے، ورنہ تو آج اس کی، ننھی کی اور نومی کی شامت یقینی تھی ۔ وہ دل ھی دل میں شکر ادا کر رھی تھی، کہ وہ تینوں مصیبت میں پڑنے سے بچ گئے۔ اسے معلوم نہیں تھا، کہ جس وقت وہ شکر ادا کر رھی تھی، عین اسی وقت اس کا باپ نومی کے ساتھ کھیتوں میں موجود تھا، اور اسے آج شام اپنے رقبے پر آنے کا حکم بھی سنا چکا تھا ۔ وہ حکم، جس پر عمل کر کے بھی نومی بیچارہ ضرور پھنستا، اور نہ کرتا، تو بھی مجرم ٹھہرتا، اور چوھدری کا قہر اس پر یقیناْ ٹوٹتا ۔ یعنی دونوں صورتوں میں ھی نومی کے لئے خطروں کے سوا کچھ نہیں تھا ۔

ان تمام باتوں سے لا علم، صنم اپنے تئیں پر سکون تھی ۔ وہ بے چاری اس بات سے قطعی بے خبر تھی ، کہ آج رات اس کے نومی کے ساتھ کیا ھونے جا رھا تھا ۔ اس کا باپ چوھدری ، نومی کو انتہائی عبرت ناک سزا دینے کا فیصلہ کر چکا تھا ۔

**********************

اور اس وقت نومی چوھدری کےرحم و کرم پر تھا ۔

چوھدری کا سامنا کرنے کے لئے نومی نے بڑی دیر تک اپنے اندر حوصلہ جمع کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے باوجود جب چوھدری وہاں داخل ھوا تھا، تو نومی اسے دیکھ کر ایک بار سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کی آخری پور تک کانپ گیا تھا ۔

نومی نے اندزہ لگانے کی کوشش کی، کہ آیا چوھدری اسے ایک ھی رات میں قتل کر دے گا، یا کہ انتہائی اذیّت ناک موت دے گا، جو کہ قسطوں کی صورت میں ھوتی ۔ جو بھی ھوتا، لیکن ایک بات تو وہ تسلیم کر چکا تھا، کہ اب چوھدری اسے زندہ نہیں چھوڑے گا ۔

چوھدری چلتا ھوا اس کے سامنے آ گیا ۔ ڈانگر بھی اس کے عقب میں موجود تھا ۔ ڈانگر کے ھاتھ میں موجود گن نومی کو اور بھی دھشت زدہ کر رھی تھی، لیکن اس وقت جس چیز نے نومی کے خوف میں سب سے زیادہ اضافہ کیا تھا، وہ چیز تھی، چوھدری کا چہرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چوھدری کا چہرہ اس وقت کسی کریہہ مخلوق کا منظر پیش کر رھا تھا ۔ اس کے دہشت ناک چہرے پر موجود گھنی مونچھوں نے اس کے چہرے کو اور بھی وحشت ناک بنا دیا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں موجود سرخی اس بات کی غمّاز تھی، کہ وہ اس وقت پئے ھوئے تھا ۔ نومی نے ایک نظر ڈانگر کو دیکھا، جو اسے ھی گھور رھا تھا۔ نومی کو محسوس ھوا، کہ اگر اس وقت یہاں چوھدری خود موجود نہ ھوتا ، تو ڈانگر اسے آن۔ واحد میں ھی قتل کر ڈالتا ۔ کم از کم اس کےچہرے اور آنکھوں کے انداز تو نومی کو یہی سمجھا رھے تھے ۔

ڈانگر ھمیشہ سے ھی "شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار " کے مصداق تھا ۔

چوھدری نومی کے بالکل سامنے زمین پر اکڑوں بیٹھ گیا ۔ اس کے لٹھے کے سوٹ سے بھینی بھینی خوشبو اڑ اڑ کر نومی کے نتھنوں میں گھس رھی تھی۔ کوئی اور وقت ھوتا، تو نومی اس خوشبو کو ضرور انجوائے کرتا، لیکن اس وقت وہ خوشبو نومی کو صرف پریشان ھی کر رھی تھی ۔ اور اس کی پریشانی میں مسلسل اضافہ ھوتا جا رھا تھا۔ چوھدری کی خاموشی اس کے دماغ پر ھتھوڑے برسا رھی تھی ۔ لیکن ابھی تک چوھدری نے اس سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا ۔ وہ تو بس اپنی حد سے زیادہ نشیلی آنکھوں سے اسے گھورے ھی جا رھا تھا ۔ اس نے آج شائد انگور کی بیٹی کچھ زیادہ ھی چڑھا لی تھی ۔

جب نومی نے دیکھا، کہ چوھدری اس سے کوئی بات نہیں کر رھا، بلکہ ایک ٹک اسے دیکھے ھی جا رھا ھے، تو وہ رہ نہ سکا ۔

"آخر بات تو کرنا ھی پڑے گی ۔ "

نومی نے سوچا ۔ اب اس نے ھمّت کی، اور خود ھی بات کا آغاز کیا ۔

" کیا بات ھے چوھدری صاحب ؟ مجھے، اس طرح باندھ کر کیوں رکھّا گیا ھے یہاں ؟ آخر میں نے ایسا کیا کر دیا ھے جناب ؟ "

اور یہی وہ وقت تھا، جب چوھدری کے پیچھے کھڑے ڈانگر نے آگے بڑھ کر ایک ٹھڈّا اس کی پسلیوں پر رسید کیا تھا ۔ نومی درد کی شدّت سے بلبلا اٹھّا۔ اس کے منہ سے ایک لمبی درد بھری کراہ نکلی ۔ چوھدری نے اسی وقت اس کو سر کے بالوں سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر اٹھایا ۔ نومی کی آنکھیں درد سے بند تھیں، اور اس کے بھنچے ھوئے چہرے پر ناقابل۔ برداشت تکلیف کے آثار صاف دکھائی دے رھے تھے ، لیکن چوھدری اس پر قطعی رحم کھانے والا نہیں تھا۔ اس نے تو اسے آج یہاں رکھّا ھی تکلیفیں دینے کے لئے تھا ۔ آخر اس نے چوھدری کی بیٹی سے عشق لڑانے جیسا ناقابل معافی جرم کیا تھا ۔ اب چوھدری کے فیصلے کی کتاب میں نومی کی کم از کم سزا سنگین ، گمنام اور پرلے درجے کی موت تھی ۔ اور آج رات، اس ویرانے میں ، نومی کی اس سزا کا ابتدائی راؤنڈ کھیلا جانے والا تھا ۔

چوھدری نے اس کے سر کے بالوں کو کھینچا، تو نومی نے ایک لمبی سسکی لیتے ھوئے آنکھیں کھول دیں، اور چوھدری کو دیکھا۔ چوھدری اب بھی اسے بس دیکھ ھی رھا تھا ۔ نومی توقّع کر رھا تھا، کہ چوھدری شائد اب بولے گا ۔

اور آخر چوھدری نے بولنے کے لئے ھونٹ ھلائے ۔ لیکن جب اس کے منہ سے پہلا لفظ نکلا، تو وہ نومی کے لئے ایک غلیظ گالی تھا ۔ اس نے کہا تھا ،

" کیوں اوئے، کسی کنجری نسل کے حرامی بچّے ۔ بہت ھمّت آ گئی ھے ناں تیرے اندر۔ بہت دلیر ھو گیا ھے تو ۔ اتنا دلیر ھو گیا، کہ میری حویلی ، میری عزّت ، میری بیٹی، جس کے بارے میں صرف سوچنے والے کو بھی میں اس دنیا پر زندہ نہ رہنے دوں، میری اس بیٹی تک تیری ناپاک نظریں پہنچ گئیں ؟ اتنا دلیر ھو گیا تو ؟ اتنی جرّاٴت آ گئی تیرے اندر ؟ کیوں اوئے ؟ اتنا دلیر ھو گیا تو ؟ "

" نہیں چوھدری جی ، نہیں ، یہ آپ کیا کہ رھے ھیں ؟ بھلا آپ ، ھمارے مائی باپ، ھم تو آپ کے کتّوں کو بھی سلام کرتے ھیں جناب ۔ تو پھر بھلا ایسی سنگین، اور اتنی بڑی گستاخی کرنے کی جرّاٴت میں کیسے کر سکتا ھوں جناب ؟ "

یہ نومی کے الفاظ تھے ، جو اس نے چوھدری کی باتوں کے جواب میں انتہائی ادب سے کہے تھے۔ قید میں اکیلا پڑا نومی بہت دلیری کی باتیں سوچتا رھا تھا، لیکن چوھدری کے سامنے آتے ھی اس کی ساری دلیری ھوا ھو گئی تھی ۔ وہ ایک دم سے وھی بزدل نومی بن گیا تھا، جو گاؤں میں بزدلی میں اوّل نمبر مانا جاتا تھا ۔ اسے اس وقت صنم سے محبّت بھی بھولنے لگی تھی ۔ وہ تو اس وقت چوھدری کے چنگل سے نکلنے کی سوچ رھا تھا ۔ اسی لئے اس نے چوھدری کی منّت سماجت شروع کر دی تھی ۔

لیکن چوھدری تو کچھ اور ھی سوچ رھا تھا، اور وہ نومی کی اس بات پر یقین کرتا بھی کیسے، کہ اس نے تو صنم کو اپنی آنکھوں سے نومی کے کھیتوں میں سے نکلتے دیکھا تھا، اور نومی بھی اس وقت اس کے پاس ھی موجود تھا۔ چوھدری تو اس وقت نومی کو حد سے زیادہ جسمانی اذیّت پہنچانے کے مختلف منصوبے سوچ رھا تھا ۔ جب اس نے نومی کو اپنی بے گناھی کی بات کرتے سنا، تو اسے غصّہ آ گیا، لیکن ابھی وہ کارروائی کرنا نہیں چاھتا تھا ۔ کارروائی کے لئے وقت ھی وقت تھا ۔ ابھی تو وہ اس حیرانی سے ھی نکل نہیں پایا تھا، کہ نومی واقعی اتنا بہادر ھو گیا تھا، کہ اس کی بیٹی سے عشق کا چکّر چلا رھا تھا ۔

چوھدری نے نومی کے بالوں پر اپنی گرفت سخت کرتے ھوئے اسے ایک اور گندی گالی دی ۔

" اوئے، کسی رنڈی کے بچّے ۔ زیادہ باتیں نہ کر ۔ نہ کر زیادہ باتیں ۔ مجھے ذرا دیکھ تو لینے دے تیرا پنڈا ۔ اس پنڈے میں اتنا دل ھے، کہ چوھدری کی بیٹی کے خواب دیکھ سکے ؟ اوئے ، تجھے ذرا خوف نہیں آیا ؟ "

"

آخری فقرہ کہتے کہتے چوھدری کواتنا طیش آیا، کہ وہ اپنا قابو کھو بیٹھا، اور اس نے نومی کے بال کھینچتے ھوئے اس کے چہرے پر ایک تھپّڑ رسید کر دیا ۔ ھنٹر ابھی تک چوھدری کے ھاتھ ھی میں تھا، اور شائد اب جلد ھی اس کے استعمال کی باری بھی آنے والی تھی، کیونکہ اب چوھدری کھڑا ھو رھا تھا ۔ نومی درد سے نیچے پڑا ھوا تھا ۔ اس نے چوھدری کی طرف دیکھتے ھوئے سماجت بھرے لہجے میں کہا ۔

" چوھدری جی ، چوھدری جی ۔ مائی باپ ، آپ کو کوئی بہت بڑی غلط فہمی ھو گئی ھے جی ۔ آپ جو کچھ بھی کہ رھے ھیں، ایسا کچھ بھی نہیں ھے جی ۔ آپ مجھے معاف کر دیں چوھدری جی ۔ میں آپ کو یقین دلاتا ھوں جی ، کہ ایسا کچھ نہیں ھے ۔ "

نومی کی اس بات کے جواب میں ایک ھنٹر اس کی کمر پر پڑا تھا، اور کمرہ اس کی بلند آھنگ " ھائے " سے گونج اٹھّا تھا ۔ ھنٹر اس پر اتنی شدّت سے برسایا گیا تھا، کہ نومی نیچے پڑا مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگا تھا ۔ اس کے منہ سے رونے کی آوازیں بھی برآمد ھونے لگی تھیں ۔ چوھدری نے ایک حقارت بھری نظر سے اسے دیکھا، اور ایک اور ھنٹر برسا دیا۔ بس ، پھر کیا تھا، چوھدری ایسے شروع ھو گیا، جیسے ھنٹر برسانا سانس لینے بھی زیادہ ضروری ھو ۔ ھربار نومی تڑپ کر ذرا سا اچھلتا، اور پھر نیچے کو گر جاتا ۔ چوھدری اس کو گالیاں بھی دیتا جا رھا تھا، اور ساتھ ساتھ ھنٹر بھی برسا رھا تھا ۔ نومی اب اونچی آواز میں رونے لگا تھا، اور کبھی کبھی وہ اپنی بے گناھی کی آواز بھی بلند کر دیتا تھا ۔ چوھدری نے تو جیسے اس کی آواز نہ سننے کا تہیّہ کر لیا تھا، کیونکہ نومی کی کسی بھی منّت سماجت کا اس پر قطعی کوئی اثر نہیں ھو رھا تھا ۔ وہ تو بس اس پر ھنٹر برسائے چلا جا رھا تھا۔ چوھدری پر اس وقت جنون سوار ھو چکا تھا ۔ حتّیٰ کہ ڈانگر، جو گاؤں والوں کے لئے دہشت و بربریّت کی ایک مثال گردانا جاتا تھا، اور جس کی سفّاکی پورے علاقے میں مشہور تھی، وہ بھی چوھدری کے نزدیک آنے کی ھمّت نہیں کر پا رھا تھا ۔

آخر چوھدری کی سانس پھولنے لگی، اور ایک بار تو وہ اپنا توازن کھو بیٹھا۔ اب ڈانگر آگے بڑھا، اور اس نے چوھدری کو سہارا دے کر ایک طرف کھڑا ھونے میں مدد دی ۔ جب چوھدری کھڑا ھو گیا ، تو ڈانگر انتہائی نرمی سے بولا ۔

" چوھدری صاحب، آپ اس وقت اپنے آپ کو غصّہ مت دلائیں ۔ ڈاکٹر نے آپ کو زیادہ غصّے سے منع کر رکھّا ھے جناب ۔ اس حرامزادے کو میرے حوالے کریں جی ۔ پھر دیکھیں، میں پانچ منٹ سے بھی پہلے، اس کی ساری جرّاٴت اس کی گانڈ کے راستے کیسے نکالتا ھوں ۔ یہ موت کی دعائیں کرتا نظر نہ آئے، تو میرا نام بدل دیجیے گا جی ۔ آپ اس کو بس ایک بار، صرف ایک بار میرے حوالے کر دیں سر جی ۔ "

ڈانگر انتہائی سفّاک، اور کینہ توز نظروں سے نومی کو دیکھ رھا تھا، جو درد کی وجہ سے شائد نیم بے ھوشی کی کیفیّت میں چلا گیا تھا ۔

"

چوھدری نے نومی کی طرف اشارہ کیا، اور ڈانگر سے کہا ۔ " اسے ھوش میں لاؤ ۔ میں اتی جلدی اس کی جان نہیں چھوڑوں گا ۔ ابھی تو اس کو آج کی خوراک بھی پوری طرح نہیں ملی، اور یہ بے ھوش بھی ھو گیا ۔ جلدی سے ھوش میں لاؤ اسے ۔ " چوھدری جیسے دھاڑا ۔ اور ڈانگر کانپ گیا ۔ یہی نہیں ، بلکہ نومی بھی چوھدری کی دھاڑ سن کر جیسے ڈر کر اٹھ گیا تھا ۔ چوھدری نے اسے ھوش میں آتے دیکھا تو پھر اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔ نومی اب اس سے حد درجہ خوفزدہ دکھائی دے رھا تھا ۔

چوھدری نے اب کی بار نومی کو ناک سے پکڑا، اور نومی بلبلا اٹھّا ۔ اس کے منہ سے عجیب قسم کی آوازیں نکل رھی تھیں ۔ چوھدری غصّے سے کانپ رھا تھا ۔ اس نے نومی کی سانس بند کی،اور چند سیکنڈ بعد جب نومی کی آنکھیں ابلنے کے قریب آ گئیں، تو اس نے اس کی ناک چھوڑ دی۔ یہ عمل اس نے تین بار دھرایا، اور اس کے بعد نیم مردہ نومی کے بال مٹھّی میں جکڑتے ھوئے اس نے کہا ۔

" یاد رکھنا نومی ، تم نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر ڈالی ھے، اور اس کی ایسی سزا بھگتو گے، کہ زندگی تم کو بوجھ لگنے لگے گی، اور تم موت کو مہربان سمجھنے لگو گے ۔ تمھارے انگ انگ سے موت کی دعائیں نکلیں گی نومی خان، لیکن میں تمھیں اتنی آسانی سے مرنے بھی نہیں دوں گا ۔ ھاں ، آج کے بعد، میں تمھاری موت کے اور تمھارے درمیان کھڑا ھوں ۔ "

اس کے بعد اس نے اس کے بال چھوڑ دئے ، نومی دھڑام سے نیچے گرا ۔اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں ۔ وہ چوھدری کے قدموں میں گر پڑا، اور اپنا چہرہ اس کے پیروں میں رکھتے ھوئے بولا ۔

" مجھے معاف کر دیں، چوھدری جی، میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ خدارا مجھے معاف کر دیں ۔ "

اس سے آگے وہ کچھ کہ ھی نہ سکا، کیونکہ چوھدری کے ملازم نے اس کو ٹھڈّوں پر رکھ لیا تھا ۔ وہ درد سے چلّانے لگا ۔ چوھدری کھڑا دیکھ رھا تھا ۔ ڈانگر کی ھر چوٹ کے ردّ عمل کے طور پر نومی اچھلتا، او زمین پر گر جاتا ۔ چوھدری کے چہرے پر ابھی تک سفّاکی تیر رھی تھی ۔ اسے نومی کی حالت پر ذرا بھی رحم نہیں آ رھا تھا ۔

آخر چوھدری نے ڈانگر کو اشارہ کیا، اور وہ رک گیا ۔ اب چوھدری نومی کے پاس آیا، اور بولا ۔

" آج کے لئے اتنا ھی کافی ھے یا کچھ اور خاطر تواضع ھو جائے مسٹر نومی صاحب ۔ آخر آج آپ میرے ڈیرے پر مہمان جو ھیں۔ "

چوھدری کے طنزیہ الفاظ تو زھریلے تھے ھی، لیکن اس سے بھی زیادہ زھریلی اس کی آنکھوں سے نکلنے والی چنگاریاں تھیں، جن کی تپش نومی کو اپنے چہرے پر محسوس ھو رھی تھی ۔

اس کے بعد چوھدری نے اسے ایک جھٹکے سے زمین پر گرا دیا، اور خود ڈانگر کے ساتھ وہاں سے باھر نکل گیا ۔

نومی زمین پر پڑا بے بسی سے انہیں جاتے ھوئے دیکھ رھا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے چلے جا رھے تھے ۔ اس کے انگ انگ سے درد کی ٹیسیں نکل رھی رتھیں ۔ اس کے جسم سے خون بھی نکلنا شروع ھو گیا تھا ۔ اسے ایسے لگ رھا تھا، جیسے اس کی کمر اور اس کی پسلیاں اس کے وجود کے ساتھ ھی نہیں ھیں ۔ وجود کے ان حصّوں پر اتنی شدید ضربیں پڑی تھیں، کہ ان کے لئے درد کا احساس ھی سوا ھو گیا تھا ۔ اس کی ایک آنکھ بھی زخمی ھو چکی تھی، شائد ڈانگر یا چوھدری کا ایک آدھ ٹھڈّا اس کی آنکھ پر بھی پڑا تھا ۔ خون اس کے ھونٹوں کو تر کرتا ھوا نیچے گریبان کی جانب جا رھا تھا، کچھ خون اس کے منہ میں بھی چلا گیا تھا، جسے اس نے تھوک دیا ۔

نومی کوئی افسانوی قسم کا ھیرو نہیں تھا۔ وہ ایک عام سا دیہاتی نوجوان تھا جس نے ایک لڑکی کو اپنی طرف ملتفت دیکھا، تو وہ بھی اپنے جوان جذبوں کے ھاتھوں بہک گیا، اور چوھدری کے غصّے کو جانتے بوجھتے ھوئے بھی اس نے صنم سے محبّت کی پینگیں بڑھا لیں ۔ اگر صنم اس کی طرف پییش قدمی نہ کرتی، تو وہ کبھی بھی صنم کے ساتھ اس حد تک نہ جا سکتا ۔ بلکہ وہ تو صنم کی طرف دیکھنے کی ھمّت بھی نہ کر پاتا ۔ اور صنم کی طرف سے مسلسل پیش قدمی نے اسے بھی اس مقام پر لا کھڑا کیا تھا، کہ اسے بھی صنم سے محبّت ھو گئی تھی ۔ وہ محبّت، جو اس کی مصیبتوں کا نقطہٴ آغاز تھی ۔ اور جس کے نتیجے میں آج بالآخر وہ چوھدری کے زیر عتاب آ گیا تھا ۔

نومی زمین پر کیڑوں کی طرح پڑا ھوا تھا ۔ آخر اسی طرح لیٹے لیٹے اس کی آنکھ لگ گئی ۔

************************************************** *********

صنم اپنے گھر میں سوئی ھوئی تھی، کہ اچانک کسی چیز نے اسے نیند سے بیدار کر دیا، اور وہ ھڑبڑا کر اٹھّی ۔ اس نے گھڑی دیکھی۔ اس وقت رات کے دو بجنے والے تھے ۔ وہ حیران رہ گئی ۔ اس کے کمرے میں اس وقت وھی لیٹی ھوئی تھی۔ اس نے غور کیا، تو اسے کوئی ایسی آواز سنائی نہیں دی، جو اس کی نیند سے بیداری کا سبب بنی ھو ۔ اس کا دل بھی گھبرا رھا تھا، اور اس کے چہرے پر پسینہ بھی آیا ھوا تھا، حالانکہ اس وقت اس کے کمرے کا روم کولر بھی چل رھا تھا ۔ اس کے دل کی بے چینی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رھی تھی ۔

کافی دیر تک وہ بیٹھی باھر کے ماحول پر غور کرتی رھی، کہ شائد اسے کوئی آواز سنائی دے جائے، جسے وہ اپنی نیند سے بیداری کی وجہ گردانتے ھوئے دوبارہ سے پر سکون اورمطمئن ھو جائے، لیکن اسے ایسی کوئی آواز سنائی نہیں دی ۔

اسے سمجھ نہیں آ رھی تھی، کہ وہ اس وقت بغیر کسی وجہ کے اتنی زیادہ گھبراھٹ کا شکار کیوں ھو رھی تھی ۔ نہ جانے کیوں، لیکن اس کا دل چاہ رھا تھا، کہ وہ اسی وقت بھاگ کر جائے، اور نومی کی بانہوں میں جا کر سو جائے ۔ اسے نومی کی یاد آ رھی تھی، اور حد درجہ آ رھی تھی ۔ اسے ایسے لگ رھا تھا، جیسے نومی بھی اس وقت ایسے ھی اسے یاد کر رھا ھو ۔ اس نے دل سے دعا مانگی، کہ نومی جہاں بھی ھو، خیریّت سے ھو ۔ پتہ نہیں کیوں اس کے دل سے باربار کوئی غیر مفہوم قسم کی خطرے کی گھنٹی بجنے لگتی تھی ۔ اس نے سوچا ، کہ صبح اٹھتے ھی کسی نہ کسی طرح نومی کی خیریّت معلوم کروائے گی ۔

یہ سوچ کر وہ دوبارہ سے لیٹ گئی، اور سونے کی کوشش کرنے لگی ۔اب وہ صبح ھوتے ھی نومی کو کسی بہانے سے ملنا چاھتی تھی ۔ اسے کیا معلوم تھا، کہ اس کے باپ کے دماغ نے اس کے لئے کیا سوچ رکھّا تھا ، اور صبح اس کے ساتھ کیا ھونے والا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

***********************

اگلے دن علی الصبح ھی چوھدری نے صنم کو طلب کر لیا ۔ اس کے باپ نے صرف اسے ھی بلایا تھا ۔ آج حویلی میں ملازموں کو بھی چھٹّی دے دی گئی تھی ۔ صنم حیران تھی، کہ اس طرح اس کے باپ کی جانب سے اپنے کمرے میں صرف اسے بلائے جانے کی کیا وجہ ھو سکتی ھے ۔ انہی سوچوں میں ڈوبی ھوئی وہ اپنے باپ کے کمرے میں پہنچ گئی ۔

اس کے باپ نے اسے ایک طرف کھڑے ھونے کا کہا، اور کنڈی لگا دی ۔ صنم کی سانسیں جیسے رک گئیں ۔ اس کی چھٹی حس نے اسے شدید ترین خطرے کا احساس دلایا ۔ " خیر نہیں لگتی ۔ کہیں ابّے کو کہیں سے میرے اور نومی کے بارے میں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ؟ "

اس سے زیادہ وہ سوچ ھی نہ سکی، کیونکہ اس کے باپ نے اسے ’گت سے پکڑ کر اوندھے منہ بیڈ پر گرا دیا تھا ۔ اس کی چیخ نکل گئی ۔ اس کے باپ نے ایک ھنٹر اٹھایا ھوا تھا ۔ صنم کی زبان گنگ ھو گئی ۔ اسے سمجھ آنا شروع گئی تھی، کہ آج تک اس کے لاڈ اٹھانے والا باپ اگر آج اس کے لئے قصائی بنا ھوا نظر آ رھا ھے، تو اس کے پیچھے کوئی معمولی بات ھر گز نہیں ھو سکتی ۔ یقیناْ نومی کا اور اس کا قصّہ اس کے باپ کے کانوں تک بھی پہنچ گیا تھا ۔

اس نے ھونٹ بھینچ لئے، اور اپنے آپ کو آنے والے لمحوں کے لئے تیّار کرنے لگی ۔

اس کے باپ نے ھنٹر برسانا شروع کئے، تو لگاتار برسائے گیا ۔ صنم تڑپتی رھی، اور ھنٹر کھا کر نومی کی محبّت میں اور بھی ڈوبتی گئی ۔ اس کے باپ نے اسے اتنا مارا، کہ وہ بے ھوش ھو گئی ۔

چوھدری نے کمرے کو باھر سے کنڈی لگائی، اور تالہ لگا کر باھر آ گیا ۔ گھر میں کسی کو معلوم ھی نہیں ھو سکا تھا، کہ صنم کے ساتھ اندر کیا بیت چکی ھے ۔

تھوڑی دیر بعد، صنم اپنے باپ کی جیپ میں بیٹھی لاھور کی طرف سفر کر رھی تھی ۔

اس کے باپ نے اسے ھوش میں لا کر دوبارہ سے مارا تھا، اور اس کے بعد اس نے اسے لاھور کے لئے روانہ کر دیا تھا ۔ صنم بھی جوان تھی، ھر بات سمجھ رھی تھی، لیکن فی الحال وہ اپنے باپ کے سامنے بولنے کا حوصلہ نہیں رکھتی تھی، سو خاموش تھی ۔ اسے اچھّی طرح معلوم تھا، کہ اگر اس نے اپنے باپ کے سامنے زبان کھولنے کی جرّاٴت کی، تو اس کی زبان ھمیشہ ھمیشہ کے لئے خاموش بھی کی جا سکتی ھے ۔ اس کا باپ اتنا ھی سفّاک تھا۔

صنم کو اس وقت سب سے زیادہ نومی کی فکر ھو رھی تھی ۔ وہ سوچ رھی تھی، کہ اگر اس کے باپ نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا ھے، تو نومی کے ساتھ کیا سلوک کرے گا ۔ یقیناْ نومی بھی عنقریب مصیبت میں گرفتار ھونے والا تھا ۔ وہ دعا کر رھی تھی، کہ نومی پھر سے اچانک کراچی چلا جائے ۔ اسے کیا معلوم تھا، کہ نومی تو اس سے پہلے ھی گرفت میں آ چکا تھا ۔ جس وقت رات کو وہ ھڑبڑا کر اٹھی تھی، تو اس وقت نومی اس کے باپ کی مشق۔ ستم بنا ھوا تھا ۔ رات کے جس پہر وہ نومی کے لئے بے چینی اور بے کلی محسوس کر رھی تھی، عین اس وقت، صنم کا سگا باپ، چوھدری نومی پر ظلم کے پہاڑ توڑ رھا تھا ۔ اور ابھی نہ جانے کتنے ھی دن تک وہ اس مصیبت میں گرفتار رھنے والا تھا ۔

گاڑی سڑک پر برق رفتاری سے دوڑے جا رھی تھی ۔ گاؤں سے صنم کو دور لے جا رھی تھی، گاؤں جو اس کے بچپن کی یادوں کا امین تھا، اور اب اس کی محبّت کی رھائش گاہ بھی تھا۔ وہ گاؤں سے جسمانی طور پر جیسے جیسے جتنی دور ھوتی جا رھی تھی، ویسے ویسے نومی کی یادوں کی جڑیں اس کے من کے اندر اتنی ھی زیادہ سرائت کرتی جا رھی تھیں ۔ وہ اپنے اندر اپنے باپ کے خلاف بغاوت کے پودے کو پنپتے ھوئے محسوس کر رھی تھی ۔ صنم حیران رہ گئی ۔ نومی کی محبّت میں وہ کس قدر دلیر ھو گئی تھی ۔

کیا وہ واقعی اپنے باپ کے خلاف بغاوت کا سوچ رھی تھی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

*************************************************

دوسری صبح گاؤں میں انتہائی ھنگامہ خیز تھی ۔

نومی اور فیکے کی گمشدگی کی خبریں پورے گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھیں ۔ نومی کے باپ نے تو ساری رات جاگ کر گزار دی تھی ۔ اب وہ بیچارہ اپنے جوان بیٹے کی گمشدگی کے متعلّق اعلان کروا کے آ رھا تھا ۔

اس نے اعلان کروانے کے بعد سیدھا چوھدری کی چوپال کا رخ کیا ۔ ان گاؤں والوں کو جب بھی کوئی انفرادی یا اجتماعی مصیبت آتی، وہ بے چارے سیدھے چوھدری کے پاس فریاد لے کر پہنچ جاتے، کہ اس گاؤں میں بلکہ اس پورے علاقے میں چوھدری سے زیادہ با اثر، طاقتور اور مسائل حل کروانے کی طاقت رکھنے والا کوئی نہیں تھا ۔

نومی کے باپ نے چوھدری سے ملنے کے لئے اس کے ملازم سے بات کی، تو اسے پتہ چلا، کہ چوھدری تو لاھور جا چکا ھے، اور شام سے پہلے واپس نہیں آ سکتا ۔ یہ بھی ھو سکتا ھے، کہ آج رات وہیں رک جائے ۔

نومی کا باپ وہاں جیسے ڈھے سا گیا ۔ اس کی آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگا تھا ۔ وہ تو بڑی امّید لگا کر آیا تھا، کہ چوھدری سے ملاقات کر کے اپنے بیٹے کے بارے میں درخواست کرے گا، کہ وہ اس کے بیٹے کو تلاش کروائے ۔ اس بےچارے کو کیا معلوم تھا، کہ جس کے پاس وہ فریاد لے کر جا رھا ھے، وھی انسان اس کے بڑھاپے کے سہارے کو غائب کروانے کا ذمّہ دار ھے ۔ جس چوھدری کو وہ متوقّع مددگار سمجھ رھا تھا، اسی چوھدری کی ایماٴ پر ھی اس کے جواں سالہ بیٹے کو نا معلوم جگہ پر باندھ کر رکھّا گیا تھا ۔ اور اب جبکہ اسے معلوم ھوا تھا، کہ چوھدری شام یا کل رات تک ھی لوٹے گا، تو اس کے ڈوبتے دل کو جیسے ایک اور بھنور نے آ گھیرا ھو ۔ چوھدری کے ملازم نے اس کی کیفیّت بھانپ لی، اور اسے سہارا دے کر چارپائی پر بٹھا دیا۔ ملازم نے دیکھا، اس کی بوڑھی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ ملازم خدا ترس انسان تھا۔ اس نے اسے پانی پلایا۔

نومی کا باپ جیسے تیسے کر کے گھر پہنچا۔ گھر کے باھر کچھ گاؤں والے بھی جمع تھے، جن کی زبانی اسے معلوم ھوا، کہ فیکا بھی رات سے غائب تھا ۔ سب گاؤں والے اس بات پر حیران تھے، کہ نومی اور فیکا آپس میں دوست بھی نہیں تھے، پھر ان کا ایک ساتھ غائب ھو جانا، یہ نقطہ سب کی سمجھ سے بالاتر تھا، سوائے ایک انسان کے ۔

پورے گاؤں میں ایک ریحانہ ھی ایسی تھی جو اس معاملے کو کسی حد تک سمجھ رھی تھی ۔ لیکن ایک بات اس کی تشویش میں اضافہ کئے جا رھی تھی ۔ اور وہ بات تھی فیکے کا غائب ھو جانا ۔

کہیں فیکے کو بھی چوھدری نے ھی بند نہ کر دیا ھو ۔ اگر ایسا ھی ھے، تو یقیناْ چوھدری اس سے صنم اور نومی کے چکّر سے باخبر اور لوگوں کا نام بھی لازمی پوچھتا ۔ اور فیکا چوھدری کے چند جھانپڑ کھا کر اس کا نام اگل دیتا ۔ معاملہ چوھدری کی بیٹی کا تھا ۔ وہ اپنی بیٹی کے عشق کے چکّر کی تشہیر کبھی پسند نہ کرتا ۔

ریحانہ کو یوں لگ رھا تھا، کہ نومی سے انتقام لینے کی خواھش میں وہ ایک سنگین غلطی کر بیٹھی تھی ۔ اب اسے سمجھ نہیں آ رھی تھی، کہ کیا کرے، اور کس طرح چوھدری سے بچے ۔ آخر جب اسے کچھ سمجھ نہ آئی، تو اس نے اپنا سامان باندھا، اور اپنے والدین کو لے کر اسی شام گاؤں سے نکل گئی ۔

ریحانہ گاؤں چھوڑ کر اپنے رشتے داروں کے ھاں چلی گئی تھی ۔ اس کے خیال میں شہر میں اسے ڈھونڈنا چوھدری کے لئے اتنا آسان نہ ھوتا ۔

اسے معلوم نہیں تھا، کہ چوھدری سے بھی پہلے اس تک کوئی اور پہنچنے والا تھا۔

*******************************

میں، اسلام آباد میں اپنے کمرے پر لیٹا ھوا تھا، کہ مجھے ایک فون آیا ۔ جب میں نے کال اٹینڈ کی، اور بات کی، تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔

میں نے اسی وقت اپنا ضروری سامان باندھا، اور گاؤں کے لئے نکل پڑا ۔

صنم اپنے گھر میں پہنچی، تو اس کا باپ گھر میں واپس آ چکا تھا ۔ وہ گھبرا گئی ۔ اس نے گھر والوں سے باتوں باتوں میں معلوم کر لیا، کہ اس وقت وہ کہاں ھے ۔ اسے بتایا گیا، کہ وہ کھیتوں کی طرف کسی کام سے گیا ھے ۔ یہ سن کر اس نے سکھ کی سانس لی، کہ وہ اس وقت تک وہاں سے نکل آئی ھے، ورنہ تو آج اس کی، ننھی کی اور نومی کی شامت یقینی تھی ۔ وہ دل ھی دل میں شکر ادا کر رھی تھی، کہ وہ تینوں مصیبت میں پڑنے سے بچ گئے۔ اسے معلوم نہیں تھا، کہ جس وقت وہ شکر ادا کر رھی تھی، عین اسی وقت اس کا باپ نومی کے ساتھ کھیتوں میں موجود تھا، اور اسے آج شام اپنے رقبے پر آنے کا حکم بھی سنا چکا تھا ۔ وہ حکم، جس پر عمل کر کے بھی نومی بیچارہ ضرور پھنستا، اور نہ کرتا، تو بھی مجرم ٹھہرتا، اور چوھدری کا قہر اس پر یقیناْ ٹوٹتا ۔ یعنی دونوں صورتوں میں ھی نومی کے لئے خطروں کے سوا کچھ نہیں تھا ۔

ان تمام باتوں سے لا علم، صنم اپنے تئیں پر سکون تھی ۔ وہ بے چاری اس بات سے قطعی بے خبر تھی ، کہ آج رات اس کے نومی کے ساتھ کیا ھونے جا رھا تھا ۔ اس کا باپ چوھدری ، نومی کو انتہائی عبرت ناک سزا دینے کا فیصلہ کر چکا تھا ۔

**********************

اور اس وقت نومی چوھدری کےرحم و کرم پر تھا ۔

چوھدری کا سامنا کرنے کے لئے نومی نے بڑی دیر تک اپنے اندر حوصلہ جمع کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے باوجود جب چوھدری وہاں داخل ھوا تھا، تو نومی اسے دیکھ کر ایک بار سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کی آخری پور تک کانپ گیا تھا ۔

نومی نے اندزہ لگانے کی کوشش کی، کہ آیا چوھدری اسے ایک ھی رات میں قتل کر دے گا، یا کہ انتہائی اذیّت ناک موت دے گا، جو کہ قسطوں کی صورت میں ھوتی ۔ جو بھی ھوتا، لیکن ایک بات تو وہ تسلیم کر چکا تھا، کہ اب چوھدری اسے زندہ نہیں چھوڑے گا ۔

چوھدری چلتا ھوا اس کے سامنے آ گیا ۔ ڈانگر بھی اس کے عقب میں موجود تھا ۔ ڈانگر کے ھاتھ میں موجود گن نومی کو اور بھی دھشت زدہ کر رھی تھی، لیکن اس وقت جس چیز نے نومی کے خوف میں سب سے زیادہ اضافہ کیا تھا، وہ چیز تھی، چوھدری کا چہرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چوھدری کا چہرہ اس وقت کسی کریہہ مخلوق کا منظر پیش کر رھا تھا ۔ اس کے دہشت ناک چہرے پر موجود گھنی مونچھوں نے اس کے چہرے کو اور بھی وحشت ناک بنا دیا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں موجود سرخی اس بات کی غمّاز تھی، کہ وہ اس وقت پئے ھوئے تھا ۔ نومی نے ایک نظر ڈانگر کو دیکھا، جو اسے ھی گھور رھا تھا۔ نومی کو محسوس ھوا، کہ اگر اس وقت یہاں چوھدری خود موجود نہ ھوتا ، تو ڈانگر اسے آن۔ واحد میں ھی قتل کر ڈالتا ۔ کم از کم اس کےچہرے اور آنکھوں کے انداز تو نومی کو یہی سمجھا رھے تھے ۔

ڈانگر ھمیشہ سے ھی "شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار " کے مصداق تھا ۔

چوھدری نومی کے بالکل سامنے زمین پر اکڑوں بیٹھ گیا ۔ اس کے لٹھے کے سوٹ سے بھینی بھینی خوشبو اڑ اڑ کر نومی کے نتھنوں میں گھس رھی تھی۔ کوئی اور وقت ھوتا، تو نومی اس خوشبو کو ضرور انجوائے کرتا، لیکن اس وقت وہ خوشبو نومی کو صرف پریشان ھی کر رھی تھی ۔ اور اس کی پریشانی میں مسلسل اضافہ ھوتا جا رھا تھا۔ چوھدری کی خاموشی اس کے دماغ پر ھتھوڑے برسا رھی تھی ۔ لیکن ابھی تک چوھدری نے اس سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا ۔ وہ تو بس اپنی حد سے زیادہ نشیلی آنکھوں سے اسے گھورے ھی جا رھا تھا ۔ اس نے آج شائد انگور کی بیٹی کچھ زیادہ ھی چڑھا لی تھی ۔

جب نومی نے دیکھا، کہ چوھدری اس سے کوئی بات نہیں کر رھا، بلکہ ایک ٹک اسے دیکھے ھی جا رھا ھے، تو وہ رہ نہ سکا ۔

"آخر بات تو کرنا ھی پڑے گی ۔ "

نومی نے سوچا ۔ اب اس نے ھمّت کی، اور خود ھی بات کا آغاز کیا ۔

" کیا بات ھے چوھدری صاحب ؟ مجھے، اس طرح باندھ کر کیوں رکھّا گیا ھے یہاں ؟ آخر میں نے ایسا کیا کر دیا ھے جناب ؟ "

اور یہی وہ وقت تھا، جب چوھدری کے پیچھے کھڑے ڈانگر نے آگے بڑھ کر ایک ٹھڈّا اس کی پسلیوں پر رسید کیا تھا ۔ نومی درد کی شدّت سے بلبلا اٹھّا۔ اس کے منہ سے ایک لمبی درد بھری کراہ نکلی ۔ چوھدری نے اسی وقت اس کو سر کے بالوں سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر اٹھایا ۔ نومی کی آنکھیں درد سے بند تھیں، اور اس کے بھنچے ھوئے چہرے پر ناقابل۔ برداشت تکلیف کے آثار صاف دکھائی دے رھے تھے ، لیکن چوھدری اس پر قطعی رحم کھانے والا نہیں تھا۔ اس نے تو اسے آج یہاں رکھّا ھی تکلیفیں دینے کے لئے تھا ۔ آخر اس نے چوھدری کی بیٹی سے عشق لڑانے جیسا ناقابل معافی جرم کیا تھا ۔ اب چوھدری کے فیصلے کی کتاب میں نومی کی کم از کم سزا سنگین ، گمنام اور پرلے درجے کی موت تھی ۔ اور آج رات، اس ویرانے میں ، نومی کی اس سزا کا ابتدائی راؤنڈ کھیلا جانے والا تھا ۔

چوھدری نے اس کے سر کے بالوں کو کھینچا، تو نومی نے ایک لمبی سسکی لیتے ھوئے آنکھیں کھول دیں، اور چوھدری کو دیکھا۔ چوھدری اب بھی اسے بس دیکھ ھی رھا تھا ۔ نومی توقّع کر رھا تھا، کہ چوھدری شائد اب بولے گا ۔

اور آخر چوھدری نے بولنے کے لئے ھونٹ ھلائے ۔ لیکن جب اس کے منہ سے پہلا لفظ نکلا، تو وہ نومی کے لئے ایک غلیظ گالی تھا ۔ اس نے کہا تھا ،

" کیوں اوئے، کسی کنجری نسل کے حرامی بچّے ۔ بہت ھمّت آ گئی ھے ناں تیرے اندر۔ بہت دلیر ھو گیا ھے تو ۔ اتنا دلیر ھو گیا، کہ میری حویلی ، میری عزّت ، میری بیٹی، جس کے بارے میں صرف سوچنے والے کو بھی میں اس دنیا پر زندہ نہ رہنے دوں، میری اس بیٹی تک تیری ناپاک نظریں پہنچ گئیں ؟ اتنا دلیر ھو گیا تو ؟ اتنی جرّاٴت آ گئی تیرے اندر ؟ کیوں اوئے ؟ اتنا دلیر ھو گیا تو ؟ "

" نہیں چوھدری جی ، نہیں ، یہ آپ کیا کہ رھے ھیں ؟ بھلا آپ ، ھمارے مائی باپ، ھم تو آپ کے کتّوں کو بھی سلام کرتے ھیں جناب ۔ تو پھر بھلا ایسی سنگین، اور اتنی بڑی گستاخی کرنے کی جرّاٴت میں کیسے کر سکتا ھوں جناب ؟ "

یہ نومی کے الفاظ تھے ، جو اس نے چوھدری کی باتوں کے جواب میں انتہائی ادب سے کہے تھے۔ قید میں اکیلا پڑا نومی بہت دلیری کی باتیں سوچتا رھا تھا، لیکن چوھدری کے سامنے آتے ھی اس کی ساری دلیری ھوا ھو گئی تھی ۔ وہ ایک دم سے وھی بزدل نومی بن گیا تھا، جو گاؤں میں بزدلی میں اوّل نمبر مانا جاتا تھا ۔ اسے اس وقت صنم سے محبّت بھی بھولنے لگی تھی ۔ وہ تو اس وقت چوھدری کے چنگل سے نکلنے کی سوچ رھا تھا ۔ اسی لئے اس نے چوھدری کی منّت سماجت شروع کر دی تھی ۔

لیکن چوھدری تو کچھ اور ھی سوچ رھا تھا، اور وہ نومی کی اس بات پر یقین کرتا بھی کیسے، کہ اس نے تو صنم کو اپنی آنکھوں سے نومی کے کھیتوں میں سے نکلتے دیکھا تھا، اور نومی بھی اس وقت اس کے پاس ھی موجود تھا۔ چوھدری تو اس وقت نومی کو حد سے زیادہ جسمانی اذیّت پہنچانے کے مختلف منصوبے سوچ رھا تھا ۔ جب اس نے نومی کو اپنی بے گناھی کی بات کرتے سنا، تو اسے غصّہ آ گیا، لیکن ابھی وہ کارروائی کرنا نہیں چاھتا تھا ۔ کارروائی کے لئے وقت ھی وقت تھا ۔ ابھی تو وہ اس حیرانی سے ھی نکل نہیں پایا تھا، کہ نومی واقعی اتنا بہادر ھو گیا تھا، کہ اس کی بیٹی سے عشق کا چکّر چلا رھا تھا ۔

چوھدری نے نومی کے بالوں پر اپنی گرفت سخت کرتے ھوئے اسے ایک اور گندی گالی دی ۔

" اوئے، کسی رنڈی کے بچّے ۔ زیادہ باتیں نہ کر ۔ نہ کر زیادہ باتیں ۔ مجھے ذرا دیکھ تو لینے دے تیرا پنڈا ۔ اس پنڈے میں اتنا دل ھے، کہ چوھدری کی بیٹی کے خواب دیکھ سکے ؟ اوئے ، تجھے ذرا خوف نہیں آیا ؟ "

"

آخری فقرہ کہتے کہتے چوھدری کواتنا طیش آیا، کہ وہ اپنا قابو کھو بیٹھا، اور اس نے نومی کے بال کھینچتے ھوئے اس کے چہرے پر ایک تھپّڑ رسید کر دیا ۔ ھنٹر ابھی تک چوھدری کے ھاتھ ھی میں تھا، اور شائد اب جلد ھی اس کے استعمال کی باری بھی آنے والی تھی، کیونکہ اب چوھدری کھڑا ھو رھا تھا ۔ نومی درد سے نیچے پڑا ھوا تھا ۔ اس نے چوھدری کی طرف دیکھتے ھوئے سماجت بھرے لہجے میں کہا ۔

" چوھدری جی ، چوھدری جی ۔ مائی باپ ، آپ کو کوئی بہت بڑی غلط فہمی ھو گئی ھے جی ۔ آپ جو کچھ بھی کہ رھے ھیں، ایسا کچھ بھی نہیں ھے جی ۔ آپ مجھے معاف کر دیں چوھدری جی ۔ میں آپ کو یقین دلاتا ھوں جی ، کہ ایسا کچھ نہیں ھے ۔ "

نومی کی اس بات کے جواب میں ایک ھنٹر اس کی کمر پر پڑا تھا، اور کمرہ اس کی بلند آھنگ " ھائے " سے گونج اٹھّا تھا ۔ ھنٹر اس پر اتنی شدّت سے برسایا گیا تھا، کہ نومی نیچے پڑا مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگا تھا ۔ اس کے منہ سے رونے کی آوازیں بھی برآمد ھونے لگی تھیں ۔ چوھدری نے ایک حقارت بھری نظر سے اسے دیکھا، اور ایک اور ھنٹر برسا دیا۔ بس ، پھر کیا تھا، چوھدری ایسے شروع ھو گیا، جیسے ھنٹر برسانا سانس لینے بھی زیادہ ضروری ھو ۔ ھربار نومی تڑپ کر ذرا سا اچھلتا، اور پھر نیچے کو گر جاتا ۔ چوھدری اس کو گالیاں بھی دیتا جا رھا تھا، اور ساتھ ساتھ ھنٹر بھی برسا رھا تھا ۔ نومی اب اونچی آواز میں رونے لگا تھا، اور کبھی کبھی وہ اپنی بے گناھی کی آواز بھی بلند کر دیتا تھا ۔ چوھدری نے تو جیسے اس کی آواز نہ سننے کا تہیّہ کر لیا تھا، کیونکہ نومی کی کسی بھی منّت سماجت کا اس پر قطعی کوئی اثر نہیں ھو رھا تھا ۔ وہ تو بس اس پر ھنٹر برسائے چلا جا رھا تھا۔ چوھدری پر اس وقت جنون سوار ھو چکا تھا ۔ حتّیٰ کہ ڈانگر، جو گاؤں والوں کے لئے دہشت و بربریّت کی ایک مثال گردانا جاتا تھا، اور جس کی سفّاکی پورے علاقے میں مشہور تھی، وہ بھی چوھدری کے نزدیک آنے کی ھمّت نہیں کر پا رھا تھا ۔

آخر چوھدری کی سانس پھولنے لگی، اور ایک بار تو وہ اپنا توازن کھو بیٹھا۔ اب ڈانگر آگے بڑھا، اور اس نے چوھدری کو سہارا دے کر ایک طرف کھڑا ھونے میں مدد دی ۔ جب چوھدری کھڑا ھو گیا ، تو ڈانگر انتہائی نرمی سے بولا ۔

" چوھدری صاحب، آپ اس وقت اپنے آپ کو غصّہ مت دلائیں ۔ ڈاکٹر نے آپ کو زیادہ غصّے سے منع کر رکھّا ھے جناب ۔ اس حرامزادے کو میرے حوالے کریں جی ۔ پھر دیکھیں، میں پانچ منٹ سے بھی پہلے، اس کی ساری جرّاٴت اس کی گانڈ کے راستے کیسے نکالتا ھوں ۔ یہ موت کی دعائیں کرتا نظر نہ آئے، تو میرا نام بدل دیجیے گا جی ۔ آپ اس کو بس ایک بار، صرف ایک بار میرے حوالے کر دیں سر جی ۔ "

ڈانگر انتہائی سفّاک، اور کینہ توز نظروں سے نومی کو دیکھ رھا تھا، جو درد کی وجہ سے شائد نیم بے ھوشی کی کیفیّت میں چلا گیا تھا ۔

"

چوھدری نے نومی کی طرف اشارہ کیا، اور ڈانگر سے کہا ۔ " اسے ھوش میں لاؤ ۔ میں اتی جلدی اس کی جان نہیں چھوڑوں گا ۔ ابھی تو اس کو آج کی خوراک بھی پوری طرح نہیں ملی، اور یہ بے ھوش بھی ھو گیا ۔ جلدی سے ھوش میں لاؤ اسے ۔ " چوھدری جیسے دھاڑا ۔ اور ڈانگر کانپ گیا ۔ یہی نہیں ، بلکہ نومی بھی چوھدری کی دھاڑ سن کر جیسے ڈر کر اٹھ گیا تھا ۔ چوھدری نے اسے ھوش میں آتے دیکھا تو پھر اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔ نومی اب اس سے حد درجہ خوفزدہ دکھائی دے رھا تھا ۔

چوھدری نے اب کی بار نومی کو ناک سے پکڑا، اور نومی بلبلا اٹھّا ۔ اس کے منہ سے عجیب قسم کی آوازیں نکل رھی تھیں ۔ چوھدری غصّے سے کانپ رھا تھا ۔ اس نے نومی کی سانس بند کی،اور چند سیکنڈ بعد جب نومی کی آنکھیں ابلنے کے قریب آ گئیں، تو اس نے اس کی ناک چھوڑ دی۔ یہ عمل اس نے تین بار دھرایا، اور اس کے بعد نیم مردہ نومی کے بال مٹھّی میں جکڑتے ھوئے اس نے کہا ۔

" یاد رکھنا نومی ، تم نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر ڈالی ھے، اور اس کی ایسی سزا بھگتو گے، کہ زندگی تم کو بوجھ لگنے لگے گی، اور تم موت کو مہربان سمجھنے لگو گے ۔ تمھارے انگ انگ سے موت کی دعائیں نکلیں گی نومی خان، لیکن میں تمھیں اتنی آسانی سے مرنے بھی نہیں دوں گا ۔ ھاں ، آج کے بعد، میں تمھاری موت کے اور تمھارے درمیان کھڑا ھوں ۔ "

اس کے بعد اس نے اس کے بال چھوڑ دئے ، نومی دھڑام سے نیچے گرا ۔اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں ۔ وہ چوھدری کے قدموں میں گر پڑا، اور اپنا چہرہ اس کے پیروں میں رکھتے ھوئے بولا ۔

" مجھے معاف کر دیں، چوھدری جی، میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ خدارا مجھے معاف کر دیں ۔ "

اس سے آگے وہ کچھ کہ ھی نہ سکا، کیونکہ چوھدری کے ملازم نے اس کو ٹھڈّوں پر رکھ لیا تھا ۔ وہ درد سے چلّانے لگا ۔ چوھدری کھڑا دیکھ رھا تھا ۔ ڈانگر کی ھر چوٹ کے ردّ عمل کے طور پر نومی اچھلتا، او زمین پر گر جاتا ۔ چوھدری کے چہرے پر ابھی تک سفّاکی تیر رھی تھی ۔ اسے نومی کی حالت پر ذرا بھی رحم نہیں آ رھا تھا ۔

آخر چوھدری نے ڈانگر کو اشارہ کیا، اور وہ رک گیا ۔ اب چوھدری نومی کے پاس آیا، اور بولا ۔

" آج کے لئے اتنا ھی کافی ھے یا کچھ اور خاطر تواضع ھو جائے مسٹر نومی صاحب ۔ آخر آج آپ میرے ڈیرے پر مہمان جو ھیں۔ "

چوھدری کے طنزیہ الفاظ تو زھریلے تھے ھی، لیکن اس سے بھی زیادہ زھریلی اس کی آنکھوں سے نکلنے والی چنگاریاں تھیں، جن کی تپش نومی کو اپنے چہرے پر محسوس ھو رھی تھی ۔

اس کے بعد چوھدری نے اسے ایک جھٹکے سے زمین پر گرا دیا، اور خود ڈانگر کے ساتھ وہاں سے باھر نکل گیا ۔

نومی زمین پر پڑا بے بسی سے انہیں جاتے ھوئے دیکھ رھا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے چلے جا رھے تھے ۔ اس کے انگ انگ سے درد کی ٹیسیں نکل رھی رتھیں ۔ اس کے جسم سے خون بھی نکلنا شروع ھو گیا تھا ۔ اسے ایسے لگ رھا تھا، جیسے اس کی کمر اور اس کی پسلیاں اس کے وجود کے ساتھ ھی نہیں ھیں ۔ وجود کے ان حصّوں پر اتنی شدید ضربیں پڑی تھیں، کہ ان کے لئے درد کا احساس ھی سوا ھو گیا تھا ۔ اس کی ایک آنکھ بھی زخمی ھو چکی تھی، شائد ڈانگر یا چوھدری کا ایک آدھ ٹھڈّا اس کی آنکھ پر بھی پڑا تھا ۔ خون اس کے ھونٹوں کو تر کرتا ھوا نیچے گریبان کی جانب جا رھا تھا، کچھ خون اس کے منہ میں بھی چلا گیا تھا، جسے اس نے تھوک دیا ۔

نومی کوئی افسانوی قسم کا ھیرو نہیں تھا۔ وہ ایک عام سا دیہاتی نوجوان تھا جس نے ایک لڑکی کو اپنی طرف ملتفت دیکھا، تو وہ بھی اپنے جوان جذبوں کے ھاتھوں بہک گیا، اور چوھدری کے غصّے کو جانتے بوجھتے ھوئے بھی اس نے صنم سے محبّت کی پینگیں بڑھا لیں ۔ اگر صنم اس کی طرف پییش قدمی نہ کرتی، تو وہ کبھی بھی صنم کے ساتھ اس حد تک نہ جا سکتا ۔ بلکہ وہ تو صنم کی طرف دیکھنے کی ھمّت بھی نہ کر پاتا ۔ اور صنم کی طرف سے مسلسل پیش قدمی نے اسے بھی اس مقام پر لا کھڑا کیا تھا، کہ اسے بھی صنم سے محبّت ھو گئی تھی ۔ وہ محبّت، جو اس کی مصیبتوں کا نقطہٴ آغاز تھی ۔ اور جس کے نتیجے میں آج بالآخر وہ چوھدری کے زیر عتاب آ گیا تھا ۔

نومی زمین پر کیڑوں کی طرح پڑا ھوا تھا ۔ آخر اسی طرح لیٹے لیٹے اس کی آنکھ لگ گئی ۔

************************************************** *********

صنم اپنے گھر میں سوئی ھوئی تھی، کہ اچانک کسی چیز نے اسے نیند سے بیدار کر دیا، اور وہ ھڑبڑا کر اٹھّی ۔ اس نے گھڑی دیکھی۔ اس وقت رات کے دو بجنے والے تھے ۔ وہ حیران رہ گئی ۔ اس کے کمرے میں اس وقت وھی لیٹی ھوئی تھی۔ اس نے غور کیا، تو اسے کوئی ایسی آواز سنائی نہیں دی، جو اس کی نیند سے بیداری کا سبب بنی ھو ۔ اس کا دل بھی گھبرا رھا تھا، اور اس کے چہرے پر پسینہ بھی آیا ھوا تھا، حالانکہ اس وقت اس کے کمرے کا روم کولر بھی چل رھا تھا ۔ اس کے دل کی بے چینی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رھی تھی ۔

کافی دیر تک وہ بیٹھی باھر کے ماحول پر غور کرتی رھی، کہ شائد اسے کوئی آواز سنائی دے جائے، جسے وہ اپنی نیند سے بیداری کی وجہ گردانتے ھوئے دوبارہ سے پر سکون اورمطمئن ھو جائے، لیکن اسے ایسی کوئی آواز سنائی نہیں دی ۔

اسے سمجھ نہیں آ رھی تھی، کہ وہ اس وقت بغیر کسی وجہ کے اتنی زیادہ گھبراھٹ کا شکار کیوں ھو رھی تھی ۔ نہ جانے کیوں، لیکن اس کا دل چاہ رھا تھا، کہ وہ اسی وقت بھاگ کر جائے، اور نومی کی بانہوں میں جا کر سو جائے ۔ اسے نومی کی یاد آ رھی تھی، اور حد درجہ آ رھی تھی ۔ اسے ایسے لگ رھا تھا، جیسے نومی بھی اس وقت ایسے ھی اسے یاد کر رھا ھو ۔ اس نے دل سے دعا مانگی، کہ نومی جہاں بھی ھو، خیریّت سے ھو ۔ پتہ نہیں کیوں اس کے دل سے باربار کوئی غیر مفہوم قسم کی خطرے کی گھنٹی بجنے لگتی تھی ۔ اس نے سوچا ، کہ صبح اٹھتے ھی کسی نہ کسی طرح نومی کی خیریّت معلوم کروائے گی ۔

یہ سوچ کر وہ دوبارہ سے لیٹ گئی، اور سونے کی کوشش کرنے لگی ۔اب وہ صبح ھوتے ھی نومی کو کسی بہانے سے ملنا چاھتی تھی ۔ اسے کیا معلوم تھا، کہ اس کے باپ کے دماغ نے اس کے لئے کیا سوچ رکھّا تھا ، اور صبح اس کے ساتھ کیا ھونے والا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

***********************

اگلے دن علی الصبح ھی چوھدری نے صنم کو طلب کر لیا ۔ اس کے باپ نے صرف اسے ھی بلایا تھا ۔ آج حویلی میں ملازموں کو بھی چھٹّی دے دی گئی تھی ۔ صنم حیران تھی، کہ اس طرح اس کے باپ کی جانب سے اپنے کمرے میں صرف اسے بلائے جانے کی کیا وجہ ھو سکتی ھے ۔ انہی سوچوں میں ڈوبی ھوئی وہ اپنے باپ کے کمرے میں پہنچ گئی ۔

اس کے باپ نے اسے ایک طرف کھڑے ھونے کا کہا، اور کنڈی لگا دی ۔ صنم کی سانسیں جیسے رک گئیں ۔ اس کی چھٹی حس نے اسے شدید ترین خطرے کا احساس دلایا ۔ " خیر نہیں لگتی ۔ کہیں ابّے کو کہیں سے میرے اور نومی کے بارے میں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ؟ "

اس سے زیادہ وہ سوچ ھی نہ سکی، کیونکہ اس کے باپ نے اسے ’گت سے پکڑ کر اوندھے منہ بیڈ پر گرا دیا تھا ۔ اس کی چیخ نکل گئی ۔ اس کے باپ نے ایک ھنٹر اٹھایا ھوا تھا ۔ صنم کی زبان گنگ ھو گئی ۔ اسے سمجھ آنا شروع گئی تھی، کہ آج تک اس کے لاڈ اٹھانے والا باپ اگر آج اس کے لئے قصائی بنا ھوا نظر آ رھا ھے، تو اس کے پیچھے کوئی معمولی بات ھر گز نہیں ھو سکتی ۔ یقیناْ نومی کا اور اس کا قصّہ اس کے باپ کے کانوں تک بھی پہنچ گیا تھا ۔

اس نے ھونٹ بھینچ لئے، اور اپنے آپ کو آنے والے لمحوں کے لئے تیّار کرنے لگی ۔

اس کے باپ نے ھنٹر برسانا شروع کئے، تو لگاتار برسائے گیا ۔ صنم تڑپتی رھی، اور ھنٹر کھا کر نومی کی محبّت میں اور بھی ڈوبتی گئی ۔ اس کے باپ نے اسے اتنا مارا، کہ وہ بے ھوش ھو گئی ۔

چوھدری نے کمرے کو باھر سے کنڈی لگائی، اور تالہ لگا کر باھر آ گیا ۔ گھر میں کسی کو معلوم ھی نہیں ھو سکا تھا، کہ صنم کے ساتھ اندر کیا بیت چکی ھے ۔

تھوڑی دیر بعد، صنم اپنے باپ کی جیپ میں بیٹھی لاھور کی طرف سفر کر رھی تھی ۔

اس کے باپ نے اسے ھوش میں لا کر دوبارہ سے مارا تھا، اور اس کے بعد اس نے اسے لاھور کے لئے روانہ کر دیا تھا ۔ صنم بھی جوان تھی، ھر بات سمجھ رھی تھی، لیکن فی الحال وہ اپنے باپ کے سامنے بولنے کا حوصلہ نہیں رکھتی تھی، سو خاموش تھی ۔ اسے اچھّی طرح معلوم تھا، کہ اگر اس نے اپنے باپ کے سامنے زبان کھولنے کی جرّاٴت کی، تو اس کی زبان ھمیشہ ھمیشہ کے لئے خاموش بھی کی جا سکتی ھے ۔ اس کا باپ اتنا ھی سفّاک تھا۔

صنم کو اس وقت سب سے زیادہ نومی کی فکر ھو رھی تھی ۔ وہ سوچ رھی تھی، کہ اگر اس کے باپ نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا ھے، تو نومی کے ساتھ کیا سلوک کرے گا ۔ یقیناْ نومی بھی عنقریب مصیبت میں گرفتار ھونے والا تھا ۔ وہ دعا کر رھی تھی، کہ نومی پھر سے اچانک کراچی چلا جائے ۔ اسے کیا معلوم تھا، کہ نومی تو اس سے پہلے ھی گرفت میں آ چکا تھا ۔ جس وقت رات کو وہ ھڑبڑا کر اٹھی تھی، تو اس وقت نومی اس کے باپ کی مشق۔ ستم بنا ھوا تھا ۔ رات کے جس پہر وہ نومی کے لئے بے چینی اور بے کلی محسوس کر رھی تھی، عین اس وقت، صنم کا سگا باپ، چوھدری نومی پر ظلم کے پہاڑ توڑ رھا تھا ۔ اور ابھی نہ جانے کتنے ھی دن تک وہ اس مصیبت میں گرفتار رھنے والا تھا ۔

گاڑی سڑک پر برق رفتاری سے دوڑے جا رھی تھی ۔ گاؤں سے صنم کو دور لے جا رھی تھی، گاؤں جو اس کے بچپن کی یادوں کا امین تھا، اور اب اس کی محبّت کی رھائش گاہ بھی تھا۔ وہ گاؤں سے جسمانی طور پر جیسے جیسے جتنی دور ھوتی جا رھی تھی، ویسے ویسے نومی کی یادوں کی جڑیں اس کے من کے اندر اتنی ھی زیادہ سرائت کرتی جا رھی تھیں ۔ وہ اپنے اندر اپنے باپ کے خلاف بغاوت کے پودے کو پنپتے ھوئے محسوس کر رھی تھی ۔ صنم حیران رہ گئی ۔ نومی کی محبّت میں وہ کس قدر دلیر ھو گئی تھی ۔

کیا وہ واقعی اپنے باپ کے خلاف بغاوت کا سوچ رھی تھی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

*************************************************

دوسری صبح گاؤں میں انتہائی ھنگامہ خیز تھی ۔

نومی اور فیکے کی گمشدگی کی خبریں پورے گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھیں ۔ نومی کے باپ نے تو ساری رات جاگ کر گزار دی تھی ۔ اب وہ بیچارہ اپنے جوان بیٹے کی گمشدگی کے متعلّق اعلان کروا کے آ رھا تھا ۔

اس نے اعلان کروانے کے بعد سیدھا چوھدری کی چوپال کا رخ کیا ۔ ان گاؤں والوں کو جب بھی کوئی انفرادی یا اجتماعی مصیبت آتی، وہ بے چارے سیدھے چوھدری کے پاس فریاد لے کر پہنچ جاتے، کہ اس گاؤں میں بلکہ اس پورے علاقے میں چوھدری سے زیادہ با اثر، طاقتور اور مسائل حل کروانے کی طاقت رکھنے والا کوئی نہیں تھا ۔

نومی کے باپ نے چوھدری سے ملنے کے لئے اس کے ملازم سے بات کی، تو اسے پتہ چلا، کہ چوھدری تو لاھور جا چکا ھے، اور شام سے پہلے واپس نہیں آ سکتا ۔ یہ بھی ھو سکتا ھے، کہ آج رات وہیں رک جائے ۔

نومی کا باپ وہاں جیسے ڈھے سا گیا ۔ اس کی آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگا تھا ۔ وہ تو بڑی امّید لگا کر آیا تھا، کہ چوھدری سے ملاقات کر کے اپنے بیٹے کے بارے میں درخواست کرے گا، کہ وہ اس کے بیٹے کو تلاش کروائے ۔ اس بےچارے کو کیا معلوم تھا، کہ جس کے پاس وہ فریاد لے کر جا رھا ھے، وھی انسان اس کے بڑھاپے کے سہارے کو غائب کروانے کا ذمّہ دار ھے ۔ جس چوھدری کو وہ متوقّع مددگار سمجھ رھا تھا، اسی چوھدری کی ایماٴ پر ھی اس کے جواں سالہ بیٹے کو نا معلوم جگہ پر باندھ کر رکھّا گیا تھا ۔ اور اب جبکہ اسے معلوم ھوا تھا، کہ چوھدری شام یا کل رات تک ھی لوٹے گا، تو اس کے ڈوبتے دل کو جیسے ایک اور بھنور نے آ گھیرا ھو ۔ چوھدری کے ملازم نے اس کی کیفیّت بھانپ لی، اور اسے سہارا دے کر چارپائی پر بٹھا دیا۔ ملازم نے دیکھا، اس کی بوڑھی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ ملازم خدا ترس انسان تھا۔ اس نے اسے پانی پلایا۔

نومی کا باپ جیسے تیسے کر کے گھر پہنچا۔ گھر کے باھر کچھ گاؤں والے بھی جمع تھے، جن کی زبانی اسے معلوم ھوا، کہ فیکا بھی رات سے غائب تھا ۔ سب گاؤں والے اس بات پر حیران تھے، کہ نومی اور فیکا آپس میں دوست بھی نہیں تھے، پھر ان کا ایک ساتھ غائب ھو جانا، یہ نقطہ سب کی سمجھ سے بالاتر تھا، سوائے ایک انسان کے ۔

پورے گاؤں میں ایک ریحانہ ھی ایسی تھی جو اس معاملے کو کسی حد تک سمجھ رھی تھی ۔ لیکن ایک بات اس کی تشویش میں اضافہ کئے جا رھی تھی ۔ اور وہ بات تھی فیکے کا غائب ھو جانا ۔

کہیں فیکے کو بھی چوھدری نے ھی بند نہ کر دیا ھو ۔ اگر ایسا ھی ھے، تو یقیناْ چوھدری اس سے صنم اور نومی کے چکّر سے باخبر اور لوگوں کا نام بھی لازمی پوچھتا ۔ اور فیکا چوھدری کے چند جھانپڑ کھا کر اس کا نام اگل دیتا ۔ معاملہ چوھدری کی بیٹی کا تھا ۔ وہ اپنی بیٹی کے عشق کے چکّر کی تشہیر کبھی پسند نہ کرتا ۔

ریحانہ کو یوں لگ رھا تھا، کہ نومی سے انتقام لینے کی خواھش میں وہ ایک سنگین غلطی کر بیٹھی تھی ۔ اب اسے سمجھ نہیں آ رھی تھی، کہ کیا کرے، اور کس طرح چوھدری سے بچے ۔ آخر جب اسے کچھ سمجھ نہ آئی، تو اس نے اپنا سامان باندھا، اور اپنے والدین کو لے کر اسی شام گاؤں سے نکل گئی ۔

ریحانہ گاؤں چھوڑ کر اپنے رشتے داروں کے ھاں چلی گئی تھی ۔ اس کے خیال میں شہر میں اسے ڈھونڈنا چوھدری کے لئے اتنا آسان نہ ھوتا ۔

اسے معلوم نہیں تھا، کہ چوھدری سے بھی پہلے اس تک کوئی اور پہنچنے والا تھا۔

*******************************

میں، اسلام آباد میں اپنے کمرے پر لیٹا ھوا تھا، کہ مجھے ایک فون آیا ۔ جب میں نے کال اٹینڈ کی، اور بات کی، تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔

میں نے اسی وقت اپنا ضروری سامان باندھا، اور گاؤں کے لئے نکل پڑا ۔

·          

·          

مجھے گاؤں سے یہ اطّلاع ملی تھی، کہ نومی کئی دنوں سے گاؤں سے غائب ھے، اور اپنے جوان بیٹے کی گمشدگی کے غم میں اس کے باپ کی حالت بہت خراب ھو چکی ھے۔ وہ چارپائی سے لگ کر رہ گیا ھے، اور لمحہ بہ لمحہ اس کی زندگی کی امّید کم ھوتی جا رھی ھے ۔

میرے لئے دونوں خبریں ھولناک تھیں ۔ نومی میرے بچپن کا دوست تھا، اور اس کے یوں اچانک غائب ھونے کی خبر سن کر جہاں میں فکر مند ھو گیا تھا، وھیں میرے اندر خطرے کی گھنٹی بھی بج اٹھّی تھی ۔ میری چھٹی حس بار بار یہ اعلان کر رھی تھی، کہ ھو نہ ھو، یہ کام چوھدری نے کیا ھے، یا کسی سے کروایا ھے ۔ بالواسطہ، یا بلا واسطہ ، مجھے اس کام میں صرف چوھدری ھی ملوّث نظر آ رھا تھا ۔

شہر سے چلنے سے پہلے میں نے اپنے باس کو ایمرجنسی چھّٹی کے لئے فون کر دیا تھا، اور ساتھ ھی یہ بھی کہ دیا تھا ، کہ ھو سکتا ھے مجھے اس کی مدد کی ضرورت پڑ جائے ۔ میرا باس بڑی توپ قسم کی چیز تھا ۔ مجھے یقین تھا، کہ گاؤں میں اگر کہیں چوھدری کے خلاف قانونی کارروائی کروانا پڑی ، تو میرے باس کے تعلّقات میرے بڑے کام آ سکتے ھیں ۔ ماضی میں میں نے اپنے باس سے اچھّے تعلّقات بنا رکھّے تھے ۔ اس وقت مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا، کہ مجھے اپنے گاؤں میں بھی باس کی مدد کی ضرورت پڑ سکتی ھے ۔

گاؤں پہنچنے تک شام کا دھندلکا چھا رھا تھا ۔ میرے انتظار میں بلال کے علاوہ ایک اور لڑکا بھی موجود تھا ۔ اس کا نام فیض تھا، لیکن گاؤں والے اسے فیضو کے نام سے جانتے تھے ۔ ( ھمارے گاؤں میں لڑکوں کا نام بگاڑنے کا رواج عام ھے ۔ جیسے فیض سے فیضو، اور بلال سے اکری ، ذولفقار سے ’جپھا وغیرہ ۔ ) فیضو کا کھیت نومی کے کھیت کے ساتھ ھی واقع تھا، اور اس کے اوپر نومی کے چند معمولی احسانات بھی تھے ۔ انہی احسانات کی وجہ سے وہ لڑکا نومی کے غیاب کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھ کر اس میں غیر معمولی دلچسپی لے رھا تھا ۔

ھم لوگ اس وقت گاؤں سے باھر ایک سنسان جگہ پر موجود تھے ۔ اس لڑکے نے مجھے چند ایسی باتیں بتائیں جن سے میرا شک یقین میں بدل گیا ۔ گاؤں پہنچ کر میں نے نومی کے باپ کی خیریّت معلوم کی تھی، اور گاؤں کے ایک ڈاکٹر سے اپنے سامنے اس کا ایک بار چیک اپ بھی کروا لیا تھا۔ اس کی دوائی سے نومی کے باپ کا بخار اتر گیا تھا، اوراس کی صحّت کچھ دیر بعد قدرے نارمل ھو گئی تھی ۔ اس کے بعد میں نے بلال اور فیضو کو لے کر اس گوشے کا رخ کیا تھا تا کہ نومی کے متعلّق معلومات حاصل کر سکوں، اور بلال وغیرہ کے مشورے سے کوئی لائحہٴ عمل تیّار کیا جا سکے ۔ اسی دوران ھی فیضو نے چند باتیں بتائی تھیں، جنہیں سن کر میرا یقین اس بات پر پختہ ھو گیا، کہ چوھدری ھی نومی کے اغواْ کا ذمّہ دار ھے ۔ فیضو کے مطابق، اس نے شام کے وقت مسلّح حالت میں ڈانگر، اور چوھدری کو نومی کے کھیت میں آتے ھوئے، اور پھر واپس جاتے ھوئے بھی دیکھا تھا ۔ نومی بھی اس وقت کھیت میں موجود تھا ۔ فیضو نے چوھدری کو دیکھا، تو اس کاماتھا ٹھنکا ، کیونکہ آج تک چوھدری کسی کے بھی کھیت میں چل کر نہیں گیا تھا ۔ اسے اگر کسی سے کام ھوتا، تو وہ اسے اپنی چوپال پر بلوا لیا کرتا تھا ۔ اگرچہ چوھدری کا نومی سے باتیں کرنا تو کوئی خاص بات نہیں تھی، لیکن اس کا نومی کے پاس چل کر جانا بذات۔ خود ایک خاص بات تھی ۔ فیضو کے مطابق نومی اور چوھدری کے درمیان چند باتیں بھی ھوئی تھیں، کیونکہ چوھدری سیدھا نومی کے پاس گیا تھا اور اس کے پاس کھڑا رھا تھا ۔ فیضو نے سارا آنکھوں دیکھا حال مجھے سنا دیا تھا ۔

یہ میرے لئے انتہائی سنسنی خیز اطّلاع تھی ۔ بلال بھی اس بناٴ پر چوھدری کو مشکوک گردان رھا تھا، لیکن مسئلہ یہ تھا، کہ چوھدری سے اس متعلّق بات کون کرے ، کیونکہ چوھدری کے سامنے بولنے کی جرّاٴت کسی میں نہیں تھی ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ لیکن دوسری طرف معاملہ بھی نومی کی زندگی کا تھا ۔ اگر وہ واقعی، چوھدری ھی کی قید میں بند تھا، تو چوھدری سے اس کی زندگی کو شدید ترین خطرہ لاحق تھا ۔ چوھدری اسے بغیر کسی وجہ کے بند نہیں کرتا، اور چوھدری اگر نومی کو بند کر چکا تھا، تو اس کی ایک ھی وجہ سمجھ میں آتی تھی، اور وہ وجہ تھی، چوھدری کی بیٹی اور نومی کا فسانہٴ محبّت ۔ یقیناْ چوھدری کو بھی اس معاملے کی بھنک کہیں سے پڑ گئی تھی ۔ اور اگر ایسا تھا، تو پھر تو نومی سیدھا سیدھا موت کے منہ میں پہنچا ھوا تھا، اس کے ساتھ کبھی بھی کچھ بھی ھو سکتا تھا ۔ گاؤں کا فرد ھونے کے ناطے میں اور بلال اچھّی طرح جانتے تھے، کہ چوھدری کتنا سفّاک انسان تھا ۔ اس سے کچھ بھی بعید نہیں تھا ۔

دوسری طرف مجھے فیضو کی ھی زبانی یہ بھی معلوم ھو چکا تھا، کہ صنم بھی اس وقت گاؤں میں موجود نہیں ھے ، اور حیران کن بات یہ تھی، کہ نومی کے غائب ھونے اور صنم کے گاؤں چھوڑنے کا دن ایک ھی تھا ۔ ( نومی غائب تو رات کو ھوا تھا، لیکن اس کی خبر دوسرے دن صبح ھونے کے بعد گاؤں والوں کے علم میں آئی تھی، اسی بناٴ پر فیضو ان دونوں باتوں کو ایک ھی دن کی کارروائی گن رھا تھا ۔ ) اس بات سے بھی نومی کے معاملے میں چوھدری کی ذات پر شک مضبوط ھو جاتا تھا ۔ کہیں ایسا تو نہیں تھا، کہ چوھدری نے نومی کو غائب کروا کے صنم کو اس نے کسی اور جگہ پر بھیج دیا ھو، تا کہ یہ معاملہ یہیں ختم ھو جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

معاملات انتہائی گمبھیر ھو چکے تھے ۔ معاملہ ایک انسان کی زندگی کا تھا، اور وہ انسان ھمارا بچپن کا دوست تھا ۔ ھم اس معاملے کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھ کر ڈیل کر رھے تھے، لیکن ھمیں کوئی راہ سجھائی نہیں دے رھی تھی ۔ ھم بار بار اسی بات پر اٹک رھے تھے، کہ کیا واقعی نومی چوھدری ھی کی قید میں ھے، یا وہ کسی اور ھی چکّرمیں پھنس گیا تھا ۔ ان دنوں گاؤں کے اطراف میں ایک گروپ کے حوالے سے بھی کچھ پیدل قسم کی خبریں گردش کر رھی تھیں، جن سے پتہ چلتا تھا، کہ اس علاقے میں کوئی ھتھوڑا مار گروپ آیا ھوا ھے، جو کسی بھی انسان کو باھر کام کرتے ھوئے پا کر، اس کی لا علمی میں، ھتھوڑے کا اچانک وار کر کے قتل کر دیتے ھیں، اور اس کی لاش وغیرہ لے کر کہیں غائب ھو جاتے ھیں ۔ اگر واقعی میں ایسا کوئی گروپ ھوتا، تو یقیناْ وہ انسان کے اعضاٴ کی فروخت کرنے والے لوگ ھوں گے، لیکن اس بات کی آج تک کوئی تصدیق نہیں ھو سکی تھی ۔ دوسری طرف نومی کے کھیت سے بھی ایسی کوئی نشانی نہیں ملی تھی، جس سے اس پر ایسے کسی گروپ کے حملے کا امکان نظر آتا ۔ اس وجہ سے ھم اس خیال کو ردّ کر دیتے ۔ پھر ھم سوچتے، کہ نومی یقیناْ چوھدری کی قید میں تھا، لیکن پھر سوال یہ پٌیدا ھوتا تھا، کہ آخر چوھدری کے قید خانے کا سراغ کیسے لگایا جائے ۔ اچانک میرے ذھن میں ایک خیال آیا ۔

" کیوں نہ ننھی سے کچھ پوچھا جائے ؟ اگر چوھدری کو اس معاملے کی خبر ھو گئی تھی، تو ننھی سے اس بارے میں شائد کچھ پتہ چل سکے ۔ "

لیکن فیضو نے جواب دیتے ھوئے یہ انکشاف کیا، کہ ننھی اس وقت گاؤں میں موجود ھی نہیں ھے ۔ وہ اسی دن سسرال چلی گئی تھی، جس دن شام کو نومی غائب ھوا تھا ۔

یہ کڑی تو یہیں پر ٹوٹ گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن نہیں ، کڑی ٹوٹی نہیں تھی ۔ اس لئے، کہ ننھی ابھی تک چوھدری کے پنجے میں نہیں آئی تھی ۔ شائد یہ بھی ننھی کے حق میں بہتر ھی ھوا تھا، کیونکہ اگر وہ اس دن کے بعد گاؤں میں موجود رھتی، تو چوھدری کے عتاب سے ھر گز نہ بچ سکتی ۔ چوھدری اسے اس بات کی بھی سنگین ترین سزا ضرور دیتا، کہ اس نے صنم اور نومی کے چکّر میں معاون۔ خصوصی کا کردار نبھایا تھا ۔ گاؤں سے چلے جانا اس کے لئے ایک طرح سے مصیبت سے بچنے کا سبب بن گیا تھا ۔ ، ، ،

لیکن نہیں ، یہ بچت تو عارضی سی تھی ۔

کیونکہ آج نہیں تو کل، ننھی گاؤں ضرور آتی ۔ اور چوھدری اسے بھی کسی نہ کسی طرح سے اٹھوا لیتا ۔ اس کے سسرال سے اٹھوانے کے مقابلے میں اسے اپنے گاؤں سے اٹھوانا چوھدری کے لئے زیادہ آسان تھا ۔ گویا اس معاملے کا ایک انتہائی اھم کردار ، ننھی بھی خطرے میں تھی ۔ اسے بھی با خبر کرنا بہت ضروری تھا ۔

ایک اور بات جو ھم سب کے لئے برابر حیران کن تھی، وہ یہ تھی، کہ جس دن نومی اغواٴ ھوا تھا، عین اسی دن سے فیکا بھی گاؤں سے غائب تھا ۔ کیا فیکا بھی نومی کے ساتھ ھی اغواٴ ھوا تھا ؟ کیا فیکا اور نومی کو اغواٴ کروانے میں ایک ھی انسان، چوھدری ھی ملوّث ھے ؟ اگر ھاں ، تو ان دونوں کا کیا تعلّق بنتا تھا ؟ چوھدری نومی کے ساتھ فیکے کو کیوں اغواٴ کرواتا ؟ سوچ سوچ کر میرے سر میں شدید درد شروع ھو گیا تھا ۔

تبھی فیضو نے ایک اور انکشاف کیا ۔

اس نے ھمیں نومی اور ریحانہ کے چکّر کا بتا دیا ۔ یہ میرے لئے بالکل نئی خبر تھی ۔ میں حیران رہ گیا، جبکہ بلال اس بات سے واقف تھا ۔ بلال کے نزدیک یہ خبر ایک عام سی تھی، جبکہ اس بات سے آگاھی نے میرے اندر سوچنے کا ایک نیا راستہ پیدا کر دیا تھا ۔ سوچ کا ایک دروازہ کھلا، تو میں اس میں داخل ھو گیا، اور پھر واقعی، آگے جا کر اس میں سے نئے نئے راستے خود بخود ھی کھلتے چلے گئے ۔

میں اور فیکا ایک ھی گاؤں کے افراد تھے ۔ اس وجہ سے میں فیکے کے کردار سے واقف تھا ۔ ریحانہ کے جسم کی طلب اسے ھمیشہ سے رھتی تھی، یہ بات بھی میں پہلے سے ھی جانتا تھا ۔ گو کہ ابھی تک میرے سامنے کوئی بھی واضح بات نہیں آئی تھی ، لیکن ایک بات تو مشترک تھی، کہ جس دن سے فیکا اور نومی اغواٴ ھوئے ھیں، اسی دن سے ریحانہ اچانک گاؤں چھوڑ کر کہیں روپوش ھو گئی تھی، اور کوئی انجانی قوّت بار بار میرے اندر چیخ چیخ کر گویا اعلان کر رھی تھی، کہ فیکا، اور ریحانہ، ان دونوں کا اس معاملے سے گہرا تعلّق ھے، اور اگر ریحانہ مل جائے، تو اس کے ذریعے سے نومی کے معاملے کا سراغ آسانی سے لگایا جا سکتا ھے ۔

آخر میں نے بلال سے مشورہ کر کے، سب سے پہلے ریحانہ کو ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا ۔ ایک بات جو ھم سب نے ذھن نشین کر لی تھی، وہ یہ تھی کہ ھم تینوں کے درمیان ھونے والی گفتگو راز ھی رھنی چاھئے ۔ معاملہ اتنا حسّاس تھا، کہ فی الحال ھمیں ھر قدم انتہائی رازداری اور ھوشیاری سے اٹھانا تھا، کیونکہ اگر چوھدری کو پتہ چل جاتا، کہ میں اور بلال نومی کو ڈھونڈنے کے مشن پر نکل کھڑے ھوئے ھیں، تو وہ نومی کی جان بھی لے سکتا تھا ۔ جب تک ھم نومی کو اس کے چنگل سے نکال نہ لیتے، تب تک ھمیں ھر قدم پھونک پھونک کر رکھنا تھا ۔

بلال کو میں نے ننھی تک پیغام پہنچانے کا کام سونپا ۔ اس نے دوسرے ھی دن ایک رابطہ کار کے ذریعے پیغام پہنچا دیا، کہ ننھی فی الحال گاؤں کا رخ نہ ھی کرے، تو بہتر ھو گا، کیونکہ گاؤں کے حالات ابھی سازگار نہیں ھیں ۔ ویسے ننھی کو پہلے سے ھی اس سارے واقعے کی خبر ھو چکی تھی ۔ گاؤں کی کسی سہیلی نے اسے حالات سے باخبر کر دیا تھا۔

اس دوران میں نے ایک دو دوستوں سے روائتی سے انداز میں نومی کے بارے میں سن گن لینے کی کوشش کی، لیکن کوئی کام کی خاص بات معلوم نہیں ھو سکی تھی ۔ آخر میں نے محسوس کیا، کہ اب تک مجھے اس معاملے کی سب سے بہترین اندر کی خبریں فیضو نے دی تھی ۔ وہ خبریں ایسی ھیں، جن پر ھم کام کرتے، تو شائد نومی تک پہنچ جاتے، یا پھر ھمیں اس تک پہنچنے کا کوئی راستہ ھی مل جاتا ۔

میں اور فیضو گاؤں سے باھر ایک جگہ پر موجود تھے، جب بلال نے آ کر مجھے ننھی تک خبر پہنچانے سے آگاہ کیا ۔ ننھی کی طرف سے مطمئن ھو کر میں نے اور بلال نے ریحانہ کی طرف توجّہ دی ۔ فیضو کو ھم نے گاؤں میں ھی چھوڑ دیا تھا، تا کہ گاؤں کے معاملات سے وہ ھم دونوں کو برابر آگاہ رکھّے، اور چوھدری کی طرف سے کوئی بھی غیر معمولی سر گرمی دیکھے، یا صنم کے حوالے سے کوئی بات معلوم ھو ، تو فوراْ ھم کو اطّلاع کرے ۔ اس کے علاوہ میں نے اس کے ذمّے ایک اور کام بھی لگا دیا تھا ۔ اس نے ننھی تک رسائی حاصل کر کے نومی اور صنم کے حوالے سے اھم معلومات لینا تھیں ۔ عام حالات میں تو ننھی شائد فیضو سے اس حوالے سے کبھی بھی بات نہ کرتی، لیکن اب حالات مختلف تھے، اور مجھے امّید تھی، کہ ننھی معاملے کی سنگینی کا احساس کرتے ھوئے فیضو کو صنم اور نومی کے بارے میں کافی معلوماتی باتیں بتا دیتی ۔

میں اور بلال ریحانہ کے پیچھے پیچھے اس کے نئے ٹھکانے پر پہنچ چکے تھے ۔ ریحانہ کی دانست میں اس کا انتہائی محفوظ ٹھکانہ ، ھمیں آسانی سے معلوم ھو گیا تھا ۔ گاؤں میں اس کی سب سے بہترین سہیلی سے یہ تمام معلومات فیضو نے ایک دوست لڑکے کے توسّط سے حاصل کر لی تھیں ۔

ھم دونوں ریحانہ کے شہر تو پہنچ چکے تھے، لیکن اس تک پہنچنے کے لئے ھمارے پاس کوئی پلان نہیں تھا ۔ آخر میں نے کچھ وقت کے لئے ایک ھوٹل کا رخ کیا ۔ در اصل میں ریحانہ پر بھونڈے انداز میں ھاتھ نہیں ڈلوانا چاھتا تھا ۔ میرے پاس وسائل نہیں تھے، پھر بھی میری سوچ یہ تھی، کہ میں ریحانہ کو اس انداز سے اپنی گرفت میں لاؤں، کہ ھمیں اس کو لے کر اس شہر میں گلی گلی بھاگنا نہ پڑے ۔ ریحانہ سے سوال جواب کرنے کے لئے ایک پر سکون گوشے کا انتظام انتہائی ضروری تھا ۔ ان سب باتوں پر سوچ بچار کئے بغیر کوئی حل نکلنا نا ممکن تھا ۔

نہانے کے بعد، ھم دونوں لیٹے ھوئے تھے، کہ اچانک میرے ذھن میں ایک خیال آیا ۔ میں نے فوراْ اپنے باس کو فون کیا ۔ اس وقت جبکہ مجھے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رھی تھی، شائد باس ھی کچھ کر پاتا ۔ میں جانتا تھا، کہ باس کراچی سے لے کر پشاور تک ، کئی ایسے کام آسانی سے کروا لیتا تھا، جو بظاھر نا ممکن نظر آتے تھے ۔ اور میرا اندازہ ٹھیک نکلا۔ جب میں نے اپنے باس کو حالات سے مختصر طور پر آگاہ کیا، تو باس نے میری اس شہر میں بھی مدد کرنے کی حامی بھر لی تھی ۔

اس نے مجھے آدھے گھنٹے بعد اس شہر کے ایک تھانے میں پہنچنے کو کہا تھا ۔ پتہ نہیں باس کس طرح سے میری مدد کرنے والا تھا، لیکن جب باس نے کہ دیا تھا، تو وہ میری مدد ضرور کرتا ۔ اتنا تو میں جانتا ھی تھا۔

************************************************** **************************************

انسپکٹر ھم سے تعاون کا وعدہ کر چکا تھا ۔ تھانے کے انسپکٹر کو " اوپر " سے کسی کا فون آیا تھا، کہ فیروز نام کے آدمی کے ساتھ تعاون میں کوئی کسر نہیں رھنی چاھئے، چاھےمعاملہ کوئی بھی کیوں نہ ھو ۔ یقیناْ یہ باس کے ذریعے سے ھی ھوا ھو گا۔ انسپکٹر کو میں نے صاف صاف بتا دیا تھا، کہ ایک گھر سے ایک لڑکی کو اٹھوانا ھے، تو اس نے کچھ سوچنے کے بعد، حامی بھر لی ۔ میں نے اس سے پوچھا، کہ وہ لڑکی کو کہاں لائے گا، کیونکہ ھمارا اس شہر میں کوئی ٹھکانہ نہیں ھے ۔ اس سوال پر اس نے مجھے تھانے کے عقب میں واقع ایک گھر کا ایڈریس بتا دیا ۔ یہ گھر اس کے دوست کا تھا، اور اس وقت اسی کے استعمال میں تھا ۔ ھمیں اس گھر میں رات کے وقت تک پہنچنا تھا۔ اس وقت تک ھماری مطلوبہ لڑکی ( ریحانہ ) وھاں پہنچائی جا چکی ھوتی ۔

جب میں نے انسپکٹر سے پوچھا، کہ وہ اس لڑکی کو کیسے اٹھوائے گا، تو اس نے مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھا ۔ مجھے اس کی نظریں اپنے وجود پر چبھتی ھوئی محسوس ھو رھی تھیں ۔ شائد میرا یہ سوال اسے انتہائی ناگوار گزرا تھا ۔ میں نے سوال پر معذرت کر لی، لیکن اس نے پھر بھی مجھے کڑوا سا جواب دے دیا ۔

" صاحب، آپ بس اپنے کام سے کام رکھّیں ۔ ھم کام کیسے کرتے ھیں ۔ اس سے آپ کو کوئی غرض نہیں ھونی چاھئے ۔ بس اتنا کافی نہیں ھے کہ،آپ کا کام ھو جائے گا ۔ اور کیا چاھئے آپ کو ؟ "

اور میں خاموش ھو گیا ۔

Bottom of Form

·          

Top of Form


ریحانہ حیران نظروں سے ھم کو دیکھ رھی تھی ۔

اس وقت ھم اسی مکان کے کمرے میں موجود تھے جس کا ایڈریس ھمیں انسپکٹر نے بتایا تھا، اور یہ سب باس کی مدد سے ممکن ھو سکا تھا ۔

جب ھم رات کے وقت اس مکان پر پہنچے تھے، تو ریحانہ چارپائی پر بے ھوشی کی حالت میں موجود تھی، اور اس کے ھاتھ پاؤں بندھے ھوئے تھے ۔ ایک کپڑا اس کے منہ پر بھی باندھا گیا تھا، جو یقیناْ اسے اٹھاتے کی کارروائی کے دوران کا عمل تھا، تا کہ وہ چلّا نہ سکے ۔

انسپکٹر بھی اس وقت اس جگہ پر موجود تھا۔ اس کے علاوہ چند اور افراد بھی موجود تھے ۔ انسپکٹر نے مجھے چار گھنٹے کے اندر مکان خالی کرنے کا کہا، کیونکہ اس کے مطابق اس کا دوست کسی بھی وقت واپس آ سکتا تھا ۔ میں نے حامی بھر لی ۔

انسپکٹر کے جانے کے بعد، ھم نے ریحانہ کے چہرے پر پانی کے چھپاکے مارے، اور جب اس نے آنکھیں کھولیں، تو پہلے تو وہ کچھ سمجھ ھی نہ پائی۔ اور جب اسے کچھ سمجھ آئی، اور اس کی آنکھیں دیکھنے کے قابل ھوئیں، تو وہ ھم کو سامنے پا کر ششدر رہ گئی ۔

اس نے دفعتاْ اٹھنے کی کوشش کی تھی، لیکن اپنی جگہ سے ھل بھی نہ سکی تھی ۔ میں دل ھی دل میں اس آدمی کو داد دئے بغیر نہ رہ سکا، جس نے اسے رسّی کی بندشوں میں جکڑا تھا ۔ اس لئے، کہ اٹھنے کی کوشش میں اس کے چہرے پر شدید تکلیف کے آثار پیدا ھوئے تھے ۔

بلال میرا اشارہ پا کر ریحانہ کے قریب ھوا، اور اس کے منہ سے کپڑا ھٹاتے ھوئے بولا۔

" دیکھو ریحانہ، ھمارے پاس وقت بالکل بھی نہیں ھے ۔ سیدھا سیدھا جواب دینا ۔ الٹا جواب تمھیں کتنا مہنگا پڑ سکتا ھے، اس کا تمھیں اندازہ بالکل بھی نہیں ھے ۔ "

اس کے بعد بلال نے ایک ذرا سے توقّف کے بعد، پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق ، اس کی آنکھوں میں جھانکتے ھوئے ایک دم سے سوال داغ دیا ۔

" نومی کے اغواٴ کے بارے میں کیا جانتی ھو ؟ "

میں نے اپنی نظریں ریحانہ کے چہرے پر گاڑ رکھّی تھیں، تا کہ اس کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ سکوں، اور میں نے دیکھ لیا تھا، کہ نومی، اور اس کے اغواٴ کے ذکر پر اس کے چہرے کے رنگ تبدیل ھو گئے تھے۔ اگرچہ اس نے دوسرے ھی لمحے، اپنی کیفیّت پر قابو پا لیا تھا، لیکن جو کچھ میں دیکھنا چاھتا تھا، وہ میں نے دیکھ لیا تھا۔

میرا شک درست نکلا ۔ ریحانہ اس معاملے میں کہیں نہ کہیں یا تو ملوّث تھی، اور اگر ملوّث نہیں بھی تھی، تو کچھ نہ کچھ جانتی ضرور تھی ۔

اس نے بلال کے سوال پر سنی ان سنی کرتے ھوئے الٹا ھم سے سوال جواب کرنے کی کوشش کی، نتیجتاْ بلال نے اس کے چہرے پر ایک تھپّڑ مارا۔ ریحانہ تڑپ اٹھّی ۔ بلال اسے گالیاں بھی دے رھا تھا ۔ بلال نے فوراْ دوسرا تھپّڑ بھی مار دیا، اور پھر تیسرا۔ میں نے دیکھا، کہ بلال چوتھا تھپّڑ بھی مارنا چاھتا تھا، لیکن میں نے اس کا ھاتھ پکڑ لیا ۔ پھر کچھ دیر بعد چھوڑ دیا۔ اب بلال دوبارہ ریحانہ سے مخاطب ھوا ۔

" اس وقت اس کمرے میں ھمارے علاوہ اور کوئی موجود نہیں ھے، جو تمھاری فریاد سن سکے ۔ سیدھی طرح سے بتا دو، کہ نومی اور فیکے کے اغواٴ کے بارے میں تمھیں کیا معلوم ھے ؟ اگر سیدھی طرح سے نہیں بتاؤ گی، تو پھر مجبوراْ مجھے تمھارے کپڑے اتارنے پڑیں گے ۔ اور پھر تشدّد تو ھو گا ھی، لیکن ساتھ ھی ساتھ ھم سب کے لن بھی تمھیں اپنی پھدّی اور گانڈ میں برداشت کرنا ھوں گے ۔ سوچ لو، ان میں سے کون سا راستہ چننا پسند کرو گی ؟ تمھارے پاس صرف پانچ منٹ ھیں ۔ اگر صحیح بتا دو گی، تو صرف میں اکیلا ھی تمھاری چدائی کروں گا ۔ اور ھاں، میں گانڈ مارنا پسند نہیں کرتا، سالی بد بو آتی ھے ۔ ھاں ، پھدّی تو میری کمزوری ھے ۔ اور اگر لڑکی کی چدائی انتقاماْ کرنی ھو، تو پھر تو مجھ سے بہتر کوئی اور مرد ھو ھی نہیں سکتا ۔ جلدی فیصلہ کر لو، تب تک میں دودھ پی لوں ، اور ۔ ۔ ۔ ساتھ ایک سپیشل گولی بھی تو کھانی ھے ناں ، میری جان کے لئے ۔ "

آخری فقرہ کہتے ھوئے بلال نے دانستہ اسے آنکھ ماری تھی ۔

اس کی بات واقعی سچّ تھی ۔ ھم سب میں سے بلال کی ٹائمنگ سب سے زیادہ تھی ۔ ٹھیک طرح سے تو میں نہیں جانتا، لیکن سالے کی ٹائمنگ ھم دوستوں میں بہر حال سب سے زیادہ تھی ۔

ریحانہ کی آنکھوں میں خوف اتر آیا تھا ۔ وہ ابھی تک بے یقینی کے سے انداز میں ھم کو دیکھ رھی تھی ۔ وہ تو اپنی دانست میں گاؤں چھوڑ کر چوھدری سے جان چھڑا آئی تھی ۔ اسے کیا معلوم تھا، کہ چوھدری سے بھی پہلے ھم اس کی شامت۔ اعمال بن کر اس کے پیچھے پیچھے ھی پہنچ جائیں گے ۔

میں نے بلال سے باھر آنے کو کہا ۔ میں اندازہ لگا چکا تھا، کہ ریحانہ اب جلد ھی کچھ نہ کچھ اگل دے گی ۔ اگر اس کے پاس کوئی اطّلاع نہ ھوتی، تو اس کے تیور ھی کچھ اور ھوتے ۔ لیکن اس نے تو ابھی تک منہ سے ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا ۔ اور اب بلال کے تشدّد کے بعد اس کی حالت بتا رھی تھی، کہ وہ ھم سے تعاون کے لئے تیّار ھو رھی ھے ۔

پانچ منٹ بعد ریحانہ نے مشروط طور پر کچھ بتانے کا وعدہ کیا ۔ میں نے اس کی ایک آدھ شرط ماننے کا وعدہ کر لیا ۔ اس نے بحفاظت گھر تک واپسی، اور بلال سے چدائی سے بچنے کی شرطیں رکھ دیں، تو بلال نے کہا، کہ ایک آدھ شرط مانی جا سکتی ھے ۔ ریحانہ نے دونوں شرائط پر ضد کی کوشش کی ، تو بلال نے اس کے چہرے پر ایک زنّاٹے دار تھپّڑ رسید کیا، اور اسے گالیاں دیتے ھوئے کہا،

" کنجری ، گشتی، کتیا، ھم سے سودے بازی کرنا چاھتی ھے ؟ ھمارے دوست کی زندگی خطرے میں ھے، اور تو ھمارا وقت ضائع کر رھی ھے ؟ بول، بکواس کرتی ھے، یا پھر تیرے منہ میں دوں ابھی اپنا لن ؟ بول ۔ جلدی بول، بھونک، بھونک کتیا بھونک ۔ "

بلال کے انداز اور گرجدار آواز سے تو ایک بار میں بھی سہم کر رہ گیا تھا ۔ ریحانہ اس کا تھپّڑ کھا کر رونے لگ گئی تھی ۔ اس سے پہلے، کہ بلال فرط۔ جذبات میں واقعی شلوار کھول کر کچھ ایسا ویسا کر دیتا، میں نے اسے پکڑ لیا۔ اب میں نے ریحانہ سے کہا، کہ وہ ایک منٹ میں بات شروع کر دے، ورنہ میں بلال کو قابو کرنے کی مزید گارنٹی نہیں دے سکتا ۔ ریحانہ گھبرا گئی ۔ اس نے فوراْ بات شروع کر دی تھی، اور اس کے منہ سے ھونے والے انکشافات نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی ۔

نومی کو پھنسانے والی کوئی اور نہیں ، بلکہ ریحانہ ھی تھی ۔

میری چھٹی حس نے اس بار بھی میری درست رہنمائی کی تھی ۔

ریحانہ نے ھمیں ساری بات بتا دی تھی، کہ کس طرح نومی سے اس نے اپنے جسمانی تعلّقات استوار کئے، اور پھر بعد میں نومی جب اس سے گریزاں نظر آیا، تو اس نے چوھدری کی دھمکی دی، جس کے جواب میں نومی نے اس کا گینگ ریپ کروایا۔ اور ریحانہ نے انتقاماْ فیکے کے ذریعے سے چوھدری تک ساری بات پہنچوا دی ۔اس کے بعد سے نومی غائب تھا ۔

اب ایک بات تو واضح تھی، کہ نومی کو چوھدری ھی نے اٹھایا تھا ۔ لیکن اسے رکھّا کہاں گیا تھا ۔ اس بارے میں ھمیں کچھ معلوم نہیں تھا ۔

یہ بڑی ھی خطرناک صورت۔ حال تھی ۔ نومی موت کے منہ میں پھنسا ھوا تھا، اور ھم خود کو بے بس محسوس کر رھے تھے ۔

ریحانہ ھم سے معافی مانگ رھی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا، کہ نومی کو کہاں رکھّا گیا تھا، تو اس نے قسمیں کھا کر کہا، کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتی ۔ بلال پھر اس کے درپے ھونا چاھتا تھا، لیکن میں نے اسے روک لیا۔ جب اس نے قسمیں کھا کر ایک ھی بات کی رٹ لگائے رکھّی، تو ھم سمجھ گئے، کہ وہ واقعی اس بارے میں کچھ نہیں جانتی ۔

اس نے مجھ سے پوچھا، کہ کیا اب ھم اسے چھوڑ دیں گے، تو میں باھر نکل آیا۔ بلال اندر ھی موجود تھا۔ یہ میری طرف سے اسے اس بات کا اشارہ تھا، کہ وہ ریحانہ کے جسم سے مزہ کشید کر سکتا ھے ۔ آخر ھمارے دوست کو پھنسانے والی کے ساتھ کچھ تو ھونا ھی چاھئے تھا ۔ بلال نے اس کو الٹا کیا، اور بے رحم طریقے سے اس کو چودنا شروع کر دیا ۔اس نے شروع میں ھی ایسی سپیڈ اختیار کی، جیسے گاڑی موٹر وے پر ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتی ھے ۔ اس نے نہ جانے کون سی گولی کھائی تھی، کہ پورا ایک گھنٹہ جانوروں کی طرح ریحانہ اس کے ظالم قسم کے جھٹکے سہتی رھی ۔ دوسرے کمرے میں کھڑے ھو کر میں نے اندر کی کارروائی دیکھی ۔ کھلی کھڑکی سے ریحانہ کو بلال کے نیچے چیخ و پکار کرتے ھوئے دیکھنے سے مجھے بڑی راحت محسوس ھوئی ۔ مجھے غصّہ تو بہت تھا، لیکن اس رات میں نے ریحانہ کی چدائی نہیں کی ۔ بلال لگاتار جھٹکے لگا رھا تھا ۔ شروع شروع میں تو ریحانہ نے درد برداشت کرنے کی بڑی کوشش کی تھی، لیکن اب آدھے گھنٹے بعد اس کے ھر ھر جھٹکے پر ریحانہ کے منہ سے درد بھری آوازیں بر آمد ھو رھی تھیں ۔

میں جانتا تھا، کہ بلال اس وقت مزے کے لئے نہیں، بلکہ غصّے کی وجہ سے ریحانہ کو چود رھا تھا ۔ اسے بھی اپنے دوست کے اغواٴ کا بہت دکھ تھا ، اور یہ دکھ اس کے ھر ھر جھٹکے سے عیاں تھا ۔

بلال نے ریحانہ کو چودا، اور فارغ ھونے کے بعد باھر نکل آیا۔ وہ پسینے میں شرابور تھا ۔ باھر آ کر وہ ایک چارپائی پر ڈھے سا گیا ۔ میں نے مسکراتے ھوئے پنکھے کی سپیڈ تیز کر دی ۔ اسے اس وقت آرام اور جسمانی سکون کی اشد ضرورت تھی ۔

آدھ گھنٹے کے بعد، بلال نہا دھو کر تازہ دم ھو چکا تھا ۔

اس کے بعد، ھم نے وہاں سے روانگی کا ارادہ کیا۔ انسپکٹر کا ایک آدمی گلی سے باھر ھمارا انتظار کر رھا تھا ۔ میں نے اسے فون کر کے بتا دیا، اور وہ وہاں آ گیا ۔ جانے سے پہلے ھم نے اس آدمی سے کہا، کہ وہ بھی چاھے، تو اس لڑکی کو چود سکتا ھے۔ میری اس بات کے جواب میں وہ عیّاری سے مسکرایا ۔ میں سمجھ گیا، کہ اس کی رال بھی ٹپک پڑی ھے ۔ میں نے اس کا شانہ تھپکا، اور مکان سے نکل گیا ۔

ریحانہ دوبارہ سے ایک مرد کا شکار ھونے والی تھی ۔

اس نے نومی کو پھانسا بھی خود تھا، اور پھر اس کے گینگ ریپ کے بدلے میں اسے چوھدری کے پنجے میں پھنسانے میں اھم کردار ادا کیا تھا ۔ میری طرف سے اس کے لئے یہ کم سے کم سزا تھی، ورنہ تو اس پر کم از کم سو آدمی چھوڑا جانا چاھئے تھا ۔ مکان سے نکلتے ھوئے میں سوچ رھا تھا ۔

منیر نیازی نے کہا تھا، کہ

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو،

میں ایک دریا کے پار اترا، تو میں نے دیکھا ۔

بالکل ایسی ھی صورت۔حال کا سامنا ھمیں بھی تھا ۔

اب ھمیں کسی بھی طرح چوھدری کی قید سے نومی کو چھڑانا تھا ۔

دوسری طرف چوھدری بھی آرام سے نہیں بیٹھا ھوا تھا ۔

اس نے صنم کو گاؤں سے باھر بھجوانے کے بعد، نومی کو تو قابو کر ھی لیا تھا، اب اس نے سب سے پہلے اپنی بیٹی کی سہیلی پر ھاتھ ڈالنے کا فیصلہ کیا، لیکن اس کا ملازم ڈانگر اس بات سے متّفق نہیں تھا ۔ وہ چاھتا تھا، کہ ننھی کو اس بات سے بے خبر رکھّا جائے، تا وقتیکہ وہ گاؤں نہ آ جائے ۔ سسرال میں اس پر ھاتھ ڈالنا نہ صرف مشکل ھو سکتا تھا، بلکہ اس سے چوھدری کی عزّت بھی اچھل سکتی تھی، کیونکہ اگر اس کارروائی کے دوران کسی کو بھی پتہ چل جاتا، تو ساری بات کھل کر سامنے آ جاتی ۔ ڈانگر نے اس کے سامنے یہ بات بھی رکھّی، کہ ننھی کے سسرال والے کوئی اتنی معمولی آسامی بھی نہیں ھیں ۔ ننھی پر وھاں ھاتھ ڈالنے سے سارا کھیل خراب بھی ھو سکتا تھا ۔ اس سے بہتر تھا، کہ اسے کسی بھی طرح، کسی بھی بہانے سے گاؤں میں بلوایا جائے۔ اور جونہی وہ گاؤں میں پہنچ جائے، تو اس کو اٹھوا لیا جائے ۔

عام حالات میں چوھدری شائد اس کی بات نہ مانتا، لیکن معاملہ اس کی عزّت کا تھا، اور ڈانگر کی دلیل میں وزن بھی تھا، سو بات چوھدری کی سمجھ میں آ ھی گئی ۔ وہ فی الحال رک گیا، لیکن اس نے ڈانگر کو دو دنوں کاٹائم بھی دے دیا، کہ دو دنوں کے اندر اندر ننھی گاؤں میں ھونی چاھئے ۔ چوھدری کا بس نہیں چل رھا تھا، کہ وہ فوراْ سے پہلے ننھی تک ہپہنچ جائے ۔ اس کا غرور اسے کسی کل چین نہیں لینے دے رھا تھا ۔ شائد ابھی تک وہ اس بات کو ھضم ھی نہیں کر پایا تھا، کہ گاؤں کے ایک معمولی سے لڑکے میں اتنی ھمّت بھی آ سکتی ھے، کہ وہ اس کی بیٹی کے ساتھ عشق لڑائے، اور گاؤں میں رھتے ھوئے ھی دن دھاڑے اس کی بیٹی کے ساتھ ملاقاتیں بھی کرتا پھرے ۔ چوھدری جتنا اس بات پر سوچتا تھا، اتنا ھی اس کا خون کھولنے لگتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ یہی وجہ تھی، کہ وہ ھر روز نومی کے پاس جا کر اس کی دھلائی کرتا تھا، تا کہ اس کے جذبہٴ انتقام کو کچھ سکون میّسر آ سکے ۔ آج بھی وہ اسی کام سے فارغ ھو کر آیا تھا ۔

اور اس سارے کام میں نومی اور صنم کی معاون تھی ننھی ۔ ۔ ۔ ۔ نومی کو تو اس نے قابو کر لیا تھا ۔ ۔ ۔

اب ننھی کی باری تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

اس نے ننھی کے لئے بھی انتہائی خطر ناک منصوبہ سوچ رکھّا تھا ۔ بس اسے اس وقت کا بے چینی سے انتظار تھا، کہ کب ننھی گاؤں میں قدم رکھّے ، اور وہ اسے اچک لے ۔

نہ جانے اب ننھی کے ساتھ کیا ھونے والا تھا ۔ ننھی اس وقت تک قدرے محفوظ تھی، جب تک وہ سسرالیوں میں رھتی ۔ یہ بات ننھی بھی اچھّی طرح سے جان چکی تھی ۔ اسی لئے اس نے سوچ رکھّا تھا ، کہ ابھی اس کا سسرال میں رھنا ھی ٹھیک تھا۔ ابھی وہ گاؤں آنے کا خطرہ ھر گز مول نہ لیتی ۔ ۔ ۔

لیکن آخر کب تک ؟ کیونکہ آج نہیں تو کل، آخر اس نے گاؤں میں آنا ھی تھا، کہ آخر یہ اس کا میکہ تھا ۔ وہ اپنے میکے والوں سے زیادہ عرصہ دور نہیں رہ سکتی تھی ۔ وہ نہ بھی آنا چاھے، تو اس کےمیکے والے اسے ملنے کے لئے بلوا سکتے تھے ۔

کیا پتہ، کب ننھی گاؤں میں آنے پر مجبور ھو جاتی ؟

ھم تینون سوچ سوچ کر تھک چکے تھے، لیکن کوئی راہ سجھائی نہیں دے رھی تھی ۔ ھمیں شک ضرور ھو چکا تھا، کہ چوھدری نے نومی کو ضرور باغ والے رقبے پر رکھّا ھو گا۔ یہ جگہ اس کا سب سے خاص ٹھکانہ سمجھی جاتی تھی ۔ لیکن اس رقبے کے اس گوشے تک رسائی کیسے حاصل کی جائے، جہاں نومی کو رکھّا گیا ھو گا ؟ کیونکہ اگر وہاں نومی کو رکھّا گیا ھو گا، تو پھر وھاں پہرے کا بھی سخت انتظام ھو گا ۔

دوسری طرف نومی کے باپ کی حالت بگڑتی چلی جا رھی تھی ۔ جوان بیٹے کے غم میں اس پر کسی بھی دوا یا دعا کا اثر نہیں ھو رھا تھا ۔ ھم تینوں اس وجہ سے اور بھی پریشان تھے ۔ گاؤں والے حیران تھے، کہ کسی سے بھی دشمنی نہ رکھنے والا نومی، اچانک غائب کیونکر ھو گیا ، اور ایسے کیسے غائب ھو گیا، کہ کوئی نشانی تک نہ ملی۔ آخر اسے زمین کھا گئی، یا آسمان نگل گیا ؟

ایک شام ھم تینوں بیٹھے سوچ رھے تھے، کہ اچانک بلال نے ایک حل پیش کر دیا۔ اس حل نے تو مجھے بھی حیران کر دیا ۔ اگرچہ اس کام میں خطرہ بھی تھا، لیکن آخر نومی کو کسی نہ کسی طرح تو چھڑانا ھی تھا ۔ اگر نومی کو چھڑانا تھا، تو خطروں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا ۔ یہ وہ مرکزی بات تھی، جو ھم نے اس وقت طے کی تھی، جب ھم اس مشن پر نکلے تھے ۔

ھم تینوں اس حل سے متّفق ھو چکے تھے ۔

میں نے بلال سے پوچھا، کہ وہ اس منصوبے پر عمل کیسے درآمد کروائے گا، تو اس نے مجھے یہ کہ کر آنکھ ماری، کہ صرف اور صرف دو گھنٹے کے اندر اندر نتیجہ مل جائے گا ۔ میں اس کے اعتماد پر حیران رہ گیا۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں تھا، کہ منصوبہ پرانا ھونے کے باوجود بھی مؤثّر لگتا تھا ۔

***********************************

ڈانگر اس وقت چوھدری کی حویلی کے باھر موجود تھا ۔ اس کے آس پاس گاؤں کے چند آدمی بھی بیٹھے ھوئے تھے ۔ رات کا وقت تھا ، اور وہ ان سب سے جان چھڑانا چاھتا تھا، لیکن کچھ لوگوں نے اسے گھیر کر بٹھایا ھوا تھا ۔ وہ اس کی خوشامد کر کے اسے باتوں میں لگا کر بیٹھے تھے ۔ ان سب باتوں کے دوران ھی اس کا موبائل بجا ۔ اس نے موبائل نکالا۔ سکرین پر کوئی اجنبی نمبر جگمگا رھا تھا ۔ وہ قدرے حیران تو ھوا، لیکن اس نے ایک طرف ھو کر فون اٹینڈ کیا ۔(اس کی ھمیشہ سے عادت رھی تھی، کہ وہ ایک طرف ھٹ کر فون سننے کا عادی تھا ۔ صرف چوھدری ایسا انسان تھا، جس کے پاس کھڑے ھوئے اس کا فون آتا، تو وہ وھیں کھڑے کھڑے سنتا تھا ۔ چوھدری کے ساتھ ھوتے ھوئے اس میں ایک طرف جا کر فون سننے کی ھمّت ھی نہیں ھوتی تھی ۔ )

ڈانگر : ھیلو ۔ کون ؟

(دوسری طرف سے ) ڈانگر صاحب، ڈانگر صاحب ۔ نومی بھاگ گیا ۔ نومی بھاگ گیا صاحب جی ۔ "

وہ ایک دم سے چونک اٹھّا ۔ محفل والوں سے ذرا دور ھوتے ھوئے اس نے فون کرنے والے سے پوچھا ۔ نہ چاھتے ھوئے بھی اس کی آواز بلند ھو ھی گئی تھی ۔

" بھاگ گیا ؟ کیا مطلب ؟ کون ھو تم ؟ "

لیکن دوسری طرف سے رابطہ کاٹ دیا گیا تھا ۔ ڈانگر اپنی جگہ پر حیران و پریشان کھڑا رہ گیا تھا ۔اس نے ایک دو بار ھیلو ھیلو بھی کی، لیکن دوسری طرف سے کال کٹ چکی تھی ۔

گاؤں کے چند لوگ، جو اس وقت چوھدری کی چوپال پر بیٹھے ھوئے تھے، وہ اسی کی طرف دیکھ رھے تھے ۔ وہ اس وقت بلب کے عین نیچے کھرا تھا ۔ اس کی روشنی میں اس کا چہرہ صاف نظر آ رھا تھا ۔ اس کے چہرے پر تفکّر کے گہرے سائے لہرا رھے تھے ۔ کچھ تو ایسا ھو گیا تھا، کہ ڈانگر جیسا آدمی بھی گہرا پریشان نظر آ رھا تھا ۔ چوپال کے صحن پر بیٹھے کچھ لوگ اسے دور سے ھی دیکھ کر اندازے لگانے کی کوشش کر رھے تھے ۔ ڈانگر نے تیزی سے ایک نمبر ملایا۔ رابطہ ھونے پر اس نے تیزی سے ایک نام لیا ۔

" بھٹّو ۔ "

اس کی آواز دھاڑ سے مشابہ تھی ۔ لیکن دوسرے ھی لمحے اس نے اپنی آواز دھیمی کر دی ۔ شائد غصّے کی وجہ سے اس کی آواز بلند ھو گئی تھی ۔ لیکن دوسرے ھی لمحے اسے یقیناْ اپنی غلطی کا احساس ھوا ھو گا، اسی وجہ سے اب وہ بے حد دھیمی آواز میں بات کر رھا تھا ۔

کچھ دیر تک فون پر بات کرنے کے بعد ڈانگر ان سب کی محفل کو چھوڑتا ھوا گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔ چند آدمی اسے آوازیں دیتے ھی رہ گئے ۔ ڈانگر کے جانے کے

چند منٹ بعد ایک آدمی اٹھّا، اور ایک طرف کو نکل گیا ۔

یہ آدمی ھمارا بھیجا ھوا تھا، اور اب وہ ھمیں کوئی اھم اطّلاع دینے کے لئے ایک تنہا گوشے کی تلاش میں جا رھا تھا ۔ یہی وہ آدمی تھا، جس نے ڈانگر کو اس وقت چند لوگوں کی مدد سے چوپال پر بٹھایا ھوا تھا ۔

ھمارا پھینکا ھوا تیر یقیناْ ٹھیک نشانے پر لگا تھا ۔ ڈانگر کو اجنبی کال ھم نے کی تھی، اور اس خیال کے تحت کی تھی، کہ اس اطّلاع کے بعد، ڈانگر لا محالہ اسی ٹھکانے پر جائے گا، جہاں نومی کو رکھّا گیا تھا ۔ اگرچہ ھم جانتے تھے، کہ وہ سب سے پہلے اس ٹھکانے پر موجود کسی اور چیلے کو فون کرے گا، جو یقیناْ نومی کے سر پر کھڑا ھو گا، لیکن پھر بھی ھمیں یقین تھا، کہ ڈانگر ایک بار اس جگہ ضرور جائے گا، جہاں نومی کو رکھّا گیا تھا ۔ انسانی نفسیات کچھ ایسی ھی ھوتی ھے ۔ یہ ایک نفسیاتی حربہ تھا، جو ڈانگر جیسے جانور کی سمجھ میں آ بھی سکتا تھا، اور نہیں بھی ۔ لیکن یہ ھماری خوش قسمتی تھی، کہ جس وقت اس نے ھماری اجنبی کال سن کر کسی بھٹّو نامی آدمی کو فون کیا تھا، تو اس کے پوچھنے پر اس آدمی نے اسے بتایا تھا، کہ اس وقت وہ نومی سے دور تھا ۔

گویا اسے معلوم ھی نہی ھو سکا تھا، کہ نومی کے بھاگنے کی اطّلاع درست تھی، یا کہ غلط ۔

ڈانگر اس اطّلاع کو سن کر اتنا بد حواس ھوا تھا، کہ کسی اور کو فون کرنے کی بجائے وہ گاڑی لے کر نکل کھڑا ھوا ۔ اور یہی ھم چاھتے تھے ۔ ھم نے تو اسے کال ھی اسی لئے کی تھی، کہ وہ کال سن کر اس جگہ تک جائے، جہاں نومی کو رکھّا گیا تھا، اور قسمت بھی شائد ھمارا ساتھ دے رھی تھی ۔

نومی تک پہنچنے کے لئے ڈانگر خود ھماری رھنمائی کرنے والا تھا ۔

رات کے اس وقت ڈانگر کا پیچھا کرنا ھمارے لئے اتنا مشکل نہ ھوتا ۔ اس کام کے لئے ھم نے پہلے سے بندو بست کر رکھّا تھا ۔

ھمارے مخبر نے ھمیں اطّلاع دی، کہ فون سننے کے فوری بعد ڈانگر نے کسی بھٹّو نام کے آدمی کو فون کیا تھا ۔ ھم حیران رہ گئے، کیونکہ ھمارے گاؤں میں کسی کا نام بھی بھٹّو نہیں تھا ۔

لیکن ساتھ والے ایک گاؤں میں ایک آدمی کا نام بھٹّو تھا۔ یہ بات ھمیں فیضو نے بتا دی تھی ۔

تو کیا نومی کو گاؤں سے باھر کہیں، کسی اور کے پاس رکھّا گیا تھا ؟

جو بھی تھا، لیکن اب تو سب سے پہلے ڈانگر کا پیچھا کرنا تھا، تا کہ ھم اس جگہ کو دیکھ سکیں ، جہاں نومی موجود تھا ۔

اس وقت ایک طرف سے بادل بھی اٹھ آئے تھے ، اور صبح سے بنا ھوا حبس بھی ایک دم سے گہرا ھو گیا تھا ۔ ایسے لگتا تھا، کہ بارش آنے والی تھی ۔ میں سوچ رھا تھا، کہ کہیں بارش ھمارے کام میں رکاوٹ ھی نہ ڈال دے۔ لیکن بعد میں مجھے احساس ھوا ، کہ اس رات ھونے والی بارش کی وجہ سے ھم ھی فائدے میں رھے تھے ۔ اگر اس رات بارش نہ ھوتی، تو چوھدری کھوجی کو بلوا کر کھرا نکلواتا، اور ھم فوراْ پکڑے جاتے ۔ اس رات بارش کی وجہ سے ھمارے قدموں کے نشانات زمین پر بچے ھی نہیں تھے ۔

ڈانگر اس وقت چوھدری کی گاڑی پر نکلا تھا ۔ ھم دوست بھی سڑک کے مختلف مقامات پر موجود تھے ۔ ڈانگر گاؤں سے باھر جانے والی سڑک پر مڑ گیا۔ فیضو کو ھم نے احتیاطاْ بابے والی ٹاھلی کے پاس کھڑا کیا تھا۔ اسے میں نے بتا دیا، کہ ڈانگر اسی طرف آ رھا ھے ۔ وہ ھوشیار ھو گیا۔ ڈانگر ساتھ والے گاؤں کی طرف ھی جا رھا تھا، جہاں بقول فیضو، ایک بھٹّو نام کا آدمی رھتا تھا ۔

تو کیا نومی کو بھٹّو کے پاس کہیں رکھّا گیا تھا ؟

اس سوال نے مجھے حیران تو بہت کیا، لیکن بعد میں سب کچھ میری سمجھ میں

آگیا تھا ۔ چوھدری نومی کو اپنے کسی بھی رقبے پر نہیں رکھنا چاھتا تھا، کیونکہ اگر اس کا کوئی ملازم مخبری کر دیتا، تو بات گاؤں والوں کے کانوں تک بھی پہنچ جاتی ۔ اس نے اس معاملے میں حد سے زیادہ احتیاط سے کام لیا تھا ۔

بارش کے قطرے برسنا شروع ھو گئے تھے ۔ فی الحال بارش انتہائی دھیمی رفتار سے اتر رھی تھی ۔

ڈانگر کا پیچھا کرتے کرتے ھم ساتھ والے گاؤں میں پہنچے، اور پھر اس نے اس گاؤں سے بھی آگے کا رخ کر لیا ۔ گاؤں سے نکلنے کے بعد، ایک جگہ سے مشرق کا رخ کرتے ھوئے اس نے گاڑی ایک کچّی سڑک پر اتار دی ۔ اس طرف اس گاؤں والوں کے کھیت پڑتے تھے ۔ آخر ڈانگر کی گاڑی ایک جگہ جا کر ایک کھیت کی طرف مڑ گئی ۔ ھم بھی اس کا پیچھا کرتے کرتے اس جگہ تک چلے آئے تھے ۔ ھم اس سے مناسب فاصلے پر موجود تھے ۔ ھمیں یقین ھو چکا تھا، کہ ھمارا دوست، نومی اسی کھیت میں موجود تھا ۔ اس کھیت میں ایک مکان بنا نظر آ رھا تھا ۔ اور نومی یقیناْ اس مکان میں ھی کہیں موجود تھا ۔

ڈانگر کی گاڑی کی ھیڈ لائٹس کی روشنی میں ھم نے دیکھا، کہ کئی گیدڑ وھاں

سے ادھر ادھر بھاگ رھے تھے ۔ وہ یقیناْ اس وقت اس تنہا گوشے میں شب بسری کے لئے جمع ھوئے تھے، اور اب ھماری آمد کے بعد ان کی ساری محفل بھگدڑ کا شکار ھو کر رہ گئی تھی ۔

یہ ایک کھیت ھی تھا، لیکن اس کھیت میں فصل نہیں تھی ۔ فیضو کے مطابق یہ کھیت آسیب زدہ سمجھا جاتا تھا ، اور آج کل یہاں دن کے وقت اس بھٹّو نامی آدمی کے جانور ھی بندھے رھتے تھے ۔ البتّہ رات کے وقت یہ جگہ گیدڑوں اور دوسرے جنگلی جانوروں کا مسکن بن جاتی تھی ۔ ساتھ ھی ایک جنگل پڑتا تھا، جہاں سوٴر اور گیدڑ وغیرہ عام پائے جاتے تھے ۔ رات کے وقت وہ جانور چہل قدمی ( ؟ ) کرنے کی غرض سے یہاں تک آ نکلتے ھوں گے ۔

فیضو کے مطابق اس نے اس جگہ کے متعلّق کئی ڈراؤنی داستانیں سن رکھّی تھیں ۔ شائد نومی کو اسی لئے یہاں رکھّا گیا تھا ، کیونکہ آسیب زدہ سمجھی جانے والی جگہ کی طرف گاؤں والے شاذو نادر ھی جایا کرتے ھیں ۔ گویا ایک طرح سے یہ گوشہ تنہا تھا۔

بارش اب تیز ھو رھی تھی ۔ ھم تینوں بارش میں بھیگ رھے تھے ۔ لیکن اپنے دوست کی خاطر یہ بھیگنا کچھ بھی نہیں تھا ۔ ھم تینوں تو اس کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیّار تھے ۔

ڈانگر نے مکان کے باھر ایک جگہ پر جیپ کھڑی کی، اور مکان کے اندر داخل ھو گیا ۔ اس نے گاڑی کی لائٹس بند کر دی تھیں ۔ کھیت کے ایک گوشے سے گیدڑوں کے رونے کی آوازیں آ رھی تھیں۔ شائد انہیں ان کی تنہائی میں اس طرح سےبناٴاجازت ھمارا مخل ھونا کسی طور نہیں بھایا تھا۔ اب وہ مختلف آوازیں نکال کر احتجاج کر رھے تھے ، گویا ناراضی کا اظہار کر رھے ھوں ۔

ھم نے ایک مناسب فاصلہ رکھ کر ڈانگر کا تعاقب کیا تھا ۔ اگرچہ وھاں بیٹھنے کی بجائے ھم اٹھ کر ڈانگر کا سامنا کرنا چاھتے تھے، لیکن ھم یہ بھی جانتے تھے، کہ فلم، اور حقیقی زندگی میں بہت فرق ھوتا ھے، اور ھم اس وقت کسی فلم کی شوٹنگ پر نہیں، بلکہ ایک حقیقی خطرے کے انتہائی نزدیک موجود تھے ۔ ڈانگر ایک پلا ھوا بد معاش تھا، اور ھم اس کا مقابلہ کرنے کی اھلیّت نہیں رکھتے تھے ۔ پھر اس کے پاس ایک خطر ناک قسم کی گن بھی ھمہ وقت موجود رھتی تھی ۔ ان سب باتوں نے ھمیں وھیں صبر کے ساتھ بیٹھے رھنے پر مجبور کر رکھّا تھا ۔ ھم تینوں نے اپنے فشار۔ خون پر بڑی مشکل سے قابو پایا ھوا تھا ۔

بارش کے ٹھنڈے ٹھنڈے قطرے بھی ھمارے دماغ کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے انتہائی اھم کردار ادا کر رھے تھے ۔

سیانے کہتے ھیں، کہ دشمن جسمانی لحاظ سے زیادہ طاقت ور ھو، تو اسے جسمانی طاقت سے نہیں، بلکہ دماغ سے لڑ کر شکست دو ۔ اور ھم اس وقت اسی اصول پر عمل پیرا تھے ۔ ڈانگر جیسے طاقت ور دشمن سے نمٹنے کے لئے ھم اپنے دماغ کو استعمال کر رھے تھے ۔

ایک ایک لمحہ جیسے قیامت ھو رھا تھا ۔ اوپر سے بارش کی رفتار بھی تیز ھو گئی تھی ۔

ڈانگر کو اندر گئے دس منٹ ھو چکے تھے ۔ ھمارے لئے وھاں زیادہ دیر بیٹھنا محال ھوتا جا رھا تھا ۔ بہر حال، ھمیں پختہ یقین تھا، کہ ڈانگر نومی کو دیکھ کر چلا جائے گا ۔ اور یہی ھوا ۔ ڈانگر کچھ دیر بعد مکان سے نکل آیا تھا ۔ وہ جیپ میں سوار ھوا، اور وہاں سے روانہ ھو گیا ۔

اب ھم نے کچھ دیر تک ادھر ادھر کی سن گن لی ۔ جب کافی دیر تک وھاں کوئی ھلچل محسوس نہیں ھوئی، تو ھم نے ایکشن میں آنے کا فیصلہ کیا ۔

ایک ایک کر کے ھم تینوں دبے پاؤں مکان کے دروازے کی طرف بڑھے ۔ سب سے آخر میں بلال موجود تھا، اور سب سے آگے فیضو ۔ میں درمیان میں تھا ۔

دروازے کے قریب کھڑے ھو کر ھم کان لگا کر سننے کی کوشش کرتے رھے، کہ آیا اندر کوئی موجود ھے یا کہ نہیں ۔ جب ھمیں پختہ یقین ھو گیا، کہ اندر کوئی بھی مسلّح آدمی موجود نہیں ھے ، تو ھم نے دیوار پھلانگی، اور اندر کود گئے ۔ اب ھم تینوں کے قدموں میں جیسے بجلی بھر دی گئی تھی ۔ اتنے دنوں کی محنت کے بعد ھم آخر نومی تک پہنچ ھی گئے تھے ۔

مکان جتنا باھر سے خستہ نظر آتا تھا، اندر اس سے بھی زیادہ خستگی کا شکار تھا ۔ شائد اسے جان بوجھ کر اس حالت میں رکھّا گیا تھا، تا کہ کوئی خواہ مخواہ اس مکان کی طرف متوجّہ نہ ھو سکے ۔ بھٹّو نامی آدمی کے جانور بھی اس مکان کے باھر تک ھی بندھے رھتے تھے ۔ اندر وہ بھی کم ھی آتا تھا ۔ ( یہ رقبہ بھی چوھدری ھی کا تھا، لیکن اس نے ابھی تک یہ بات کسی کو بتائی ھی نہیں تھی ۔ اس مکان کو وہ اسی طرح کے کاموں کے لئے استعمال کیا کرتا تھا ۔ اس نے اگر کسی کو سزا دینا ھوتی تھی، تو اسی مکان میں لا کر رکھتا تھا ۔ یہ باتیں ھمیں بعد میں معلوم ھوئی تھیں۔ )

ھم مکان کی چار دیواری کے اندر پہنچ چکے تھے ۔ ابھی تک ھمیں کسی بھی خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا ۔ شائد ڈانگر وغیرہ اس وجہ سے مطمئن تھے، کہ اس طرف کون آنے والا تھا، اور نومی تو اندر یقیناْ بندھا ھوا ھی تھا ۔ ان کی دانست میں نومی یہاں سے بھاگ نہیں سکتا تھا ۔ انہیں کیا معلوم تھا، کہ نومی آج رات کے اندھیرے میں یہاں سے بھاگنے والا تھا ۔

مکان کے اندر دو کمرے بنے ھوئے تھے ۔ ایک طرف ایک لیٹرین تھی، اور کمروں کے آگے ایک برآمدہ بھی بنا ھوا تھا۔ یہ تمام عمارت ھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی ۔ ھم نے ارد گرد دیکھتے ھوئے ایک کمرے کا رخ کیا۔ اس کمرے کو تالہ لگا ھوا تھا ۔

ھم تینوں سمجھ گئے، کہ اندر کوئی نہ کوئی غیر معمولی بات ضرور تھی ۔

یقیناْ نومی اسی کمرے میں موجود تھا ۔

ھم نے ایک طرف سے ایک دو بڑے بڑے پتھّر اٹھائے، اور میں تالے پر زور آزمائی

کرنے لگا۔ اچانک اندر سے ایک آواز آئی ۔ جیسے کوئی درد مندانہ انداز میں کچھ بول رھا ھو ۔

شائد اندر کوئی شدید درد کی کیفیّت میں کراہ رھا تھا ۔

ھم نے کان لگا کر سنا، تو ھماری رگوں میں خون سنسنا اٹھّا۔

یہ نومی کی آواز تھی ۔

نومی اندر ھی موجود تھا ۔

نومی کی آواز سن کر میرے ھاتھوں کی حرکت تیز تر ھو گئی ۔ میرا بس نہیں چل رھا تھا، کہ کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر گھس جاؤں ۔ اس وقت اندر سے جو حالت میری تھی، میرے ساتھی بھی یقیناْ اسی کیفیّت کا شکار تھے ۔

آخر کچھ ھی دیر میں تالہ ٹوٹ کر میرے ھاتھ میں آ گیا ۔ ھم بے تابی سے اندر داخل ھوئے۔ اندر کے منظر پر نظر پڑی ، تو ھم جیسے ساکت رہ گئے ۔

اندر ایک ھولناک منظر ھمارا منتظر تھا ۔ ۔ ۔ ۔ !

ندر کا نظّارہ ھمارے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لئے کافی تھا ۔

کمرے میں ایک لالٹین کی ھلکی سی روشنی میں ھم نے دیکھا ، جگہ جگہ سے اکھڑے ھوئے فرش پر نومی ایک حقیر کیڑے کی طرح پڑا ھوا تھا ۔ اس کے بدن پر کپڑا نام کی کوئی چیز بھی موجود نہیں تھی ۔ وہ اس وقت سسکیاں لے کر رو رھا تھا ۔ اس کے بدن کے مختلف حصّوں سے خون بھی بہ رھا تھا ۔ ایک طرف غلاظت بھی پڑی ھوئی تھی، لیکن زیادہ تکلیف دہ امر یہ تھا، کہ نومی کا جسم بھی انسانی غلاظت میں لتھڑا ھوا تھا ۔ وہ بیچارہ بندھا ھوا تھا، اور اس حالت میں وہ اور کیا کر سکتا تھا ۔ قارئین نومی کی حالت کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ھیں ۔

یہ سارا منظر دیکھ کر ھم تینوں کی حالت ایک سی ھو گئی ۔ ھمیں ایسے لگ رھا تھا، کہ اس وقت اگر چوھدری وغیرہ میں سے کوئی موجود ھوتا، تو ھم نتائج سے بے پروا ھو کر شائد ان سے بھی بھڑ جاتے ۔ میری رگوں میں خون کی گردش انتہائی تیز ھو چکی تھی اور میری آنکھیں بھی غصّے کی شدّت سے سرخ ھو چکی تھیں ۔ یہی حالت بلال اور فیضو وغیرہ کی بھی تھی ۔

ھم تینوں دوست ایک دوسرے کے لئے ایسے ھی تھے ۔

نومی کی ایک درد بھری آہ نے ھمیں جیسے ھوش کی دنیا میں لا پھینکا تھا ۔ ھم ایک ساتھ آگے بڑھے تھے ۔ میں نے بجلی کی سی سرعت سے نومی کا سر گود میں رکھ کر بلال کو اشارہ کیا ۔ اس نے خنجر نکال کر نومی کے ھاتھ پاؤں کی بندشیں کھول دیں ۔ یہ خنجر بلال نے احتیاطی طور پر ساتھ رکھ لیا تھا ۔ اب وھی خنجر کام بھی آ رھا تھا ۔ ایک طرف ایک برتن میں کچھ پانی پڑا تھا ۔ فیضو نے اور بلال نے مل کر نومی کے جسم سے گندگی دھو دی تھی ۔

نومی شائد نیم بے ھوش تھا، کیونکہ اس نے ھمیں دیکھنے کے باوجود بھی ابھی تک ھم سے کوئی بات نہیں کی تھی، بلکہ اس کی آنکھیں بار بار بند ھو رھی تھیں ۔ ایک دو بار میں نے اسے آواز دی، لیکن بلال نے مجھے اشارہ کیا۔ میں سمجھ گیا، کہ ابھی نومی کو یہاں لٹا کر آواز دینے کی بجائے یہاں سے نکلنا زیادہ ضروری تھا ۔ ھم اس وقت شدید ترین خطرے والی جگہ پر بیٹھے تھے ۔ اگر ڈانگر یا چوھدری کا کوئی اور کارندہ اس طرف آ نکلتا، تو ھم تینوں کا پھنس جانا یقینی تھا ۔ ھمارے پاس نہ تو کوئی اسلحہ تھا، اور نہ ھی ھم اس طرح کے کسی بھی معرکے کے لئے ذھنی طور پر تیّار ھو کر آئے تھے ۔ ویسے بھی ھم کوئی مشّاق قسم کے لڑاکا کمانڈو انسان ھر گز نہیں تھے ۔ ھمارا مقصد صرف اور صرف جاسوسی کر کے نومی تک پہنچنا تھا، اور اسے آزاد کروانا تھا، جس میں ھم تقریباْ کامیاب ھو چکے تھے ۔ اب صرف وھاں سے نکلنے کا کام باقی رہ گیا تھا ۔

فیضو نے نومی کی کمر کے گرد ایک کپڑا ڈھانپ دیا، جو کہ اس کے کاندھے پر رکھّا ھوا تھا ۔ گاؤں کے اکثر لوگوں کی عادت ھوا کرتی ھے، کہ کاندھے پر کپڑا ضرور رکھتے ھیں ۔

ابھی ھم وھاں سے نکلنے کا سوچ ھی رھے تھے، کہ میرے ذھن میں ایک بات آئی ۔

فیکا کہاں تھا ؟

میں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے فیکے کو بھی ایک گوشے سے تلاش کر لیا تھا ۔ وہ زخمی حالت میں تھا، لیکن ھوش میں تھا اور ایک طرف پڑا ھوا تھا ۔ اگرچہ اس کی حالت نومی سے کم ابتر تھی، لیکن تشدّد کے نشانات اس کے جسم پر بھی موجود تھے ۔ ھم نے اسے بھی وھاں سے نکال لیا ۔

اس کے بعد ھم وھاں سے نکل آئے ۔ ھم نے نومی کو گاؤں لے کر جانے کی بجائے ایک اور جگہ کا رخ کیا تھا ۔ نومی نے نیم بے ھوشی کی حالت میں ھم سے ایک دو باتیں کی تھیں، اور اسی کی ھدائت پر ھم نے یہ اقدام اٹھایا تھا ۔

ھمارے خیال میں ابھی اسے گاؤں لے کر جانا کسی طور بھی خطرے سے خالی نہیں تھا ۔

************************************************** ***

گاؤں میں اگلی صبح بڑی پر اسرار ثابت ھوئی تھی ۔

چوھدری تو اس وقت گاؤں میں موجود نہیں تھا، لیکن ڈانگر چوھدری کی چوپال پر بیٹھا ھوا تھا اور اس نے حویلی کے سارے ملازمین کو اپنے آگے لگا رکھّا ھوا تھا ۔ اس کے چہرے سے عیاں تھا، کہ اس وقت وہ اندر ھی اندر کسی بات پر پیچ و تاب کھا رھا تھا ۔ اس کے چہرے کی رگیں تنی ھوئی تھیں، اور آنکھیں جیسے شعلے برسا رھی تھیں ۔

بلال اور فیضو اس وقت اس کے سامنے سے گزر رھے تھے، جب وہ اپنے ماتحتوں پر کسی وجہ سے برس رھا تھا ۔ چوھدری کے بعد حویلی کے تمام ملازمین پر اسی کا حکم چلتا تھا، اور جب چوھدری موجود نہیں ھوتا تھا، تو اس وقت ڈانگر ھی تمام ملازمین کا مطلق العنان بادشاہ ھوتا تھا ۔ بلال اور فیضو جانتے تھے، کہ ڈانگر کے چڑچڑے پن کی اصل وجہ کیا ھے ۔ وہ دونوں ڈانگر کی حالت دیکھنے کے لئے ھی وھاں سے گزرے تھے ۔

رات کے وقت ، بارش کے رکنے کے بعد ، ڈانگر کسی پہر دوبارہ اسی جگہ پر گیا تھا، جہاں نومی قید تھا ۔ شائد اس کی چھٹی حس نے اسے خبر دار کر دیا تھا، یا اس نے رانگ نمبر کے بارے میں تحقیق کی تھی، جس کے نتیجے میں اس کے دل میں کوئی شک گزرا تھا ۔ اور جب وہ وہاں پہنچا تھا، تو وھاں نہ صرف نومی غائب تھا، بلکہ فیکا بھی موجود نہیں تھا ۔ یہ دیکھ کر اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی تھی ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے چوھدری کا درندہ صفت چہرہ اور اس کی شخصیّت کے بے رحم پہلو لہرانے لگے ۔ آج تک اس نے چوھدری کو شکار مہیّا کئے تھے، اور اب وہ خود ھی چوھدری کے ظلم کا شکار ھونے والا تھا ۔

ڈانگر نے صبح سے کئی لوگوں سے معلوم کیا تھا، لیکن اسے کسی سے بھی اس رانگ نمبر کے بارے میں معلوم نہ ھو سکا تھا ۔ اس نے کئی دفعہ کال بھی کی، لیکن ھر دفعہ وہ نمبر بند ھی مل رھا تھا ۔ اس کے اندر کا اضطراب بڑھتا ھی جا رھا تھا اور نتیجتاْ اس نے سارے ملازموں کا بھرکس نکال کر رکھ دیا تھا ۔ چند ایک پر تو اس نے باقاعدہ ھاتھ بھی اٹھا ڈالا تھا ۔ سب اس کے اس بدلتے رویّے پر حیران تھے ۔ اور ڈانگر اندر ھی اندر اس بات سے خوفزدہ تھا، کہ نہ جانے چوھدری اس کے ساتھ اب کیا سلوک کرے ۔ پورے گاؤں میں دھشت کی علامت سمجھا جانے والا اب خود دھشت زدہ ھو چکا تھا ۔

سارا گاؤں ڈانگر کی بگڑی ھوئی حالت پر بحث کر رھا تھا ۔ ھمارے گاؤں کے بے روزگار نوجوانوں کے پاس اس طرح کی باتوں پر سر کھپانے کے لئے وقت ھی وقت ھوتا ھے ۔ آج بھی یہی ھو رھا تھا۔ کچھ ڈانگر کے اس رویّے پر اسے پاگل قرار دے رھے تھے، تو کچھ اسے صحیح قرار دے رھے تھے، کہ چوھدری کی غیر موجودگی میں اسے کپتانی کا کردار ادا کرنا ھی تھا ۔ اصل بات سے سب لا علم تھے ۔ میں چند منٹ تک ان کی باتوں سے محظوظ ھوتا رھا، پھر میں نومی سے ملنے نکل کھڑا ھوا ۔

راستے میں مجھے بلال بھی مل گیا ۔ وہ ایک جگہ پر بیٹھا میرا ھی انتظار کر رھا تھا ۔ فیضو سب سے پہلے ھی نومی کے پاس پہنچا ھوا تھا ۔ جب ھم بھی نومی کے پاس پہنچ گئے، تو نومی کے اصرار پر اور باھمی مشورے سے فیضو کو ھم نے نومی کے باپ کو لینے کے لئے بھیج دیا تھا ۔ یہ فیصلہ بھی ھم نے سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ مجھ سے نومی کے باپ کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی ۔ اگر ھم دوست ھونے کے ناطے اس سے مل رھے تھے، تو وہ تو اس کا باپ تھا ۔ آزاد ھونے کے بعد نومی کا باپ سے ملنا اس کا حق تھا، اور فرض بھی تھا ۔ اسی بناٴ پر ھم نے فیضو کو بھیجا تھا، تا کہ وہ نومی کے باپ کو کسی بھی بہانے سے وھاں تک بے آئے ۔ ھمیں معلوم نہیں تھا، کہ ھمارا یہ فیصلہ سنگین ثابت ھو گا ۔

سب سے پہلے ھم نے فیکے کی خبر لی ۔ اسے ھم نے ایک علیحدہ کمرے میں باندھ کر رکھّا تھا ۔ اس بے غیرت انسان کی وجہ سے نومی چوھدری کے چنگل میں پھنسا تھا ۔ اسے کچھ نہ کچھ سزا تو بہر حال ملنی ھی چاھئے تھی ۔ میں نے جاتے ھی اس پر لاتوں کی بارش کر دی ۔ رات کو بھی ھم جب اسے لائے تھے، تو اس کی اچھّی خاصی درگت بنائی تھی ، اور اب پھر وھی کام شروع ھو گیا تھا ۔ جب میں اس کام سے فارغ ھو چکا، تو بلال شروع ھو گیا ۔ چند منٹ بعد ھم کمرے کو بند کر کے باھر آ گئے ۔ فیکا زمین پر پڑا تڑپ رھا تھا، لیکن اس کی سزا ابھی ختم نہیں ھوئی تھی ۔ ابھی اسے اور بھی تڑپنا تھا ۔

ھم وھاں پہنچے، تو نومی جاگ رھا تھا ۔ ایک ڈاکٹر نومی کو چیک کر کے جا چکا تھا ۔ اس ڈاکٹر کا انتظام بھی نومی کے اسی دوست نے ھی کیا تھا ۔ دو تین جگہوں پر پٹّی بھی بندھی ھوئی تھی ۔ وہ اس وقت شب۔ گزشتہ کے مقابلے میں بہت بہتر نظر آ رھا تھا ۔ ھم دونوں اس کی حالت دیکھ کر مطمئن سے ھو گئے، لیکن جلد ھی ھمارا اطمینان غارت ھو گیا ۔

نومی نے ھمیں دیکھتے ھی گاؤں جانے کی ضد شروع کر دی تھی ۔ میں اور بلال اسے سمجھانے لگے، کہ ابھی حالات کا تقاضا یہی ھے، کہ وہ گاؤں کا خیال بھی دل سے نکال دے ۔ جب معاملہ کچھ ٹھنڈا ھو جائے گا، تو ھم خود اسے گاؤں لئے چلیں گے ۔ ھم دونوں دلیلیں دے دے کر تھک گئے، لیکن نومی اپنی ھی بات پر اڑا رھا، کہ اسے گاؤں جانا ھے ۔ میں حیران تھا، کہ نومی بھی عجیب ھے ۔ ابھی ابھی تو یہ چوھدی کی قید سے نکل کر آیا ھے، اور دوبارہ سے وھیں جانا چاھتا ھے جہاں اس کی زندگی کو خطرہ ھے ۔ وہ ھماری ھر بات کے جواب میں صرف یہی کہتا، کہ اسے گاؤں میں چند بے حد اھم کام ھیں ۔ ھمارے لاکھ پوچھنے پر بھی اس نے ھمیں کچھ نہیں بتایا تھا، کہ وہ انتہائی ضروری کام کس نوعیت کے ھیں، اور جب میں نے اسے یہ کہا، کہ ھم وہ کام کر سکتے ھیں، تو اس نے یکسر نفی میں سر ھلا دیا ۔ اس کے مطابق کام ایسے تھے، کہ وہ خود ھی کر سکتا تھا، اور کرنا بھی خود ھی چاھتا تھا ۔ ھم اس کی بے سر و پا باتوں سے عاجز آ گئے ۔

آخر میں اور بلال مشورہ کرنے کی نیّت سے باھر نکل آئے ۔ ھماری سمجھ میں نہیں آ رھا تھا، کہ نومی کو کیسے سمجھائیں ۔

آخر بلال نے نومی کے حق میں رائے دے دی ۔ وہ بھی اب نومی کے گاؤں جانے پر رضا مند نظر آ رھا تھا ۔

میں نے اپنا سر پیٹ لیا ۔

جب میں نے اسے خطرے کا حوالہ دیا، تو اس نے کہا ۔

" آخر ایسا کون سا جرم کیا ھے اس نے، جو تم ھمیں اتنا ڈرا رھے ھو ؟ "

میں : اس نے کون سا جرم کیا ھے، اور وہ جرم کتنا بڑا ھے، تم اس بات سے اچھّی طرح واقف ھو بلال ۔

میں نے طنز کرتے ھوئے اسے گویا یاد دلایا تھا، لیکن اس نے میری بات کے جواب میں ایک مضبوط دلیل پیش کر دی ۔

" میں جانتا ھوں فیروز، کہ اس نے کیا کیا ھے، لیکن یہ بات چوھدری شر۔ عام کبھی بھی نہیں بتا سکتا ۔ کسی کو بھی نہیں بتا سکتا ۔ ھم اس بات کو چھپا لیتے ھیں، کہ نومی کس کے قبضے میں تھا، اور پھر دیکھنا، کہ چوھدری نہ تو س پر ھاتھ ڈال سکے گا، اور نہ جی سکے گا ۔ نومی اس کے سامنے ھو گا اور وہ اس کا لن بھی نہیں اکھاڑ سکے گا ۔ گاؤں وال اگر پوچھیں گے ، تو کوئی بھی داستان جو نومی کے باپ کو مطمئن کرنے کے لئے سنائیں گے، وھی گاؤں والوں کو بھی سنا دیں گے ۔

میں نے جواباْ کہا، کہ چوھدری اگر نومی کو ایک بار غائب کروا سکتا ھے، تو دوسری بار بھی کروا سکتا ھے ۔ لیکن اب بھی بلال کے پاس ایک ٹھوس دلیل موجود تھی ۔ اس نے کہا، کہ پہلے نومی اس لئے شکار ھو گیا تھا، کہ اس کے ساتھ ھم میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا ۔ اب جب ھم ساتھ ھوں گے، تو چوھدری اس پر اتنی بھی آسانی سے ھاتھ نہیں ڈال سکے گا ۔

ویسے اس کی بات مجھے دل کو لگتی ھوئی محسوس ھو رھی تھی ۔ کچھ بھی تھا، لییکن ایک بات تو بہر حال طے تھی ، کہ چوھدری اپنی بیٹی کے عشق کی تشہیر ھر گز ھر گز پسند نہ کرتا ۔ اسی بناٴ پر بلال ’پر یقین تھا،کہ چوھدری نومی کو شر۔ عام کچھ نہیں کہ سکتا تھا، اور اگر وہ ایسی کوئی غلطی کر بیٹھتا، تو اس کی اپنی ھی عزّت اچھلتی ۔

اگرچہ بلال کی بات میں وزن تھا، لیکن میں اس کی بات سے بہر حال متّفق نہیں تھا ۔اس بات میں خطرہ بھی تھا ۔ میں کوئی اور راستہ سوچنے کی کوشش ر رھا تھا ۔ لیکن کوئی اور راستہ موجود ھی نہیں تھا ۔ کم از کم اس وقت تو ھمیں سجھائی نہیں دے رھا تھا ۔

ابھی ھم اس بات پر بحث ھی کر رھے تھے، جب بلال نے ایک طرف اشارہ کیا ۔ میں نے بلال کے ھاتھ کے رخ پر دیکھا ۔ فیضو اور نومی کا باپ موٹر سائیکل پر آ رھے تھے ۔

فیضو نومی کے باپ کو لے کر پہنچ چکا تھا ۔

نومی کے باپ نے اپنے جواں سال بیٹے کو اس حال میں دیکھا، تو وہ تڑپ کر رہ گیا ۔ ایک طرف اسے بیٹا ملنے کی خوشی تھی، تو دوسری طرف بیٹے کو اس طرح زخمی دیکھ کر اس کے بوڑھے چہرے پر دکھ کے سیاہ بادل امڈ آئے تھے ۔ آنکھوں میں آئے ھوئے پانی کو روکنے کی کشش کئے بغیر وہ اپنے بیٹے سے لپٹ گیا ۔ نومی بھی اس وقت تک کافی بہتر ھو چکا تھا ۔ اگرچہ زخم کافی تھے، لیکن پھر بھی وہ رات والی حالت سے کئی درجے بہتر ھو چکا تھا ۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے لگ کر خوب روئے ۔ ھم نے بھی کسی کو چپ کروانے کی کوشش بالکل نہیں

کی ۔ چند لمحوں بعد دونوں نے خود بخود ھی چپ کر جانا تھا ۔

نومی اور اس کا باپ ایک دوسرے سے مل کر رو رھے تھے، اور ھم ایک طرف بیٹھے اس جذباتی سین کو دیکھ رھے تھے ۔ میں دیکھ رھا تھا، کہ نومی کا باپ ان چند دنوں میں ایک دم سے بوڑھا نظر آنے لگا تھا۔ اس سے پہلے میں نے اسے کبھی اتنا غمزدہ نہیں دیکھا تھا ۔ وہ ھمیشہ ھشّاش بشّاش نظر آنے والا انسان تھا جو ھمہ وقت کام کرتا رھتا اور اپنے ارد گرد موجود انسانوں سے بھی ھر وقت زندگی کی باتیں کیا کرتا تھا ۔ اسے ڈھلتی عمر تو اتنی آسانی سے شائد بوڑھا نہ کر پاتی، لیکن بیٹے کی چند دنوں کی گمشدگی سے اس پر ایک دم سے بڑھاپا اتر آیا تھا ۔ وہ کئی دنوں کا بیمار نظر آ رھا تھا ۔

جب ان دونوں کی ملاقات ختم ھوئی، اور وہ دونوں نارمل ھو گئے، تو ھم نے نومی کے باپ کو ایک طرف بٹھانا چاھا، لیکن وہ نومی کے سرھانے بیٹھ گیا ۔ اس نے نومی کا ھاتھ اپنے ھاتھ میں لے کر اپنی گود میں رکھ لیا تھا ۔ نومی بھی اپنے باپ کو ھی دیکھے جا رھا تھا ۔

نومی کے باپ نے چند ساعتوں کے بعد ھم سے سوال شروع کر دئے ۔ ھمیں معلوم تھا، اور ھم اس کے بارے میں پہلے سے ھی ایک ٹھوس لائحہٴ عمل بھی طے کر چکے تھے ۔

ھم نے نومی کے باپ کے سامنے ایک من گھڑت کہانی سنا دی ۔

نومی کا باپ حیران ضرور ھوا، لیکن ھم نے وہ کہانی اتنی خوب صورتی سے گھڑی تھی، کہ اس بیچارے انسان نے بالآخر اس کہانی پر یقین کر ھی لیا تھا ۔

جب نومی کے باپ کو وھاں آئے ھوئے چند منٹ گزر چکے تھے، اور وہ چائے وغیرہ پی چکا، تو وہ نومی کو گاؤں لے جانے پر بضد ھو گیا ۔ وہ اس بات پر بھی ھم سے خاصا ناراض ھوا، کہ ھم نے نومی کو گھر لے کر آنے کی بجائے دوسرے گاؤں میں رکھّا ۔ اور یہ کہ فیضو نے اسے گاؤں سے لاتے وقت بھی اسے کچھ نہیں بتایا تھا ۔ اگر اسے پتہ چل جاتا، تو وہ گاؤں میں اپنے بیٹے کے مل جانے کا اعلان کروا کے آتا ۔ اس طرح سارے گاؤں والوں کو پتہ چل جاتا، کہ نومی مل چکا ھے ۔

ھم تینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہ گئے ۔

اس سے تو بہتر تھا، کہ نومی کے باپ کو خبر ھی نہ کی جاتی ۔ کم از کم اس امتحان سے تو بچ جاتے ۔ وہ بے چارہ نہیں جانتا تھا، کہ اس کی یہ ضد اس کے بیٹے کے لئے کتنی نقصان دہ ثابت ھو سکتی ھے ۔

یا پھر ھم یہ کرتے، کہ اس انسان کو ساری کہانی سچّ سچّ بتا دیتے ۔ کم از کم وہ نومی کو گھر لے کر جانے کی ضد تو نہ کرتا ۔ لیکن اب کیا ھو سکتا تھا ۔ اگر اب ھم اس کو نومی کے عشق کی داستان سنادیتے، تو امکان تھا، کہ وہ الٹا نومی کے ھی درپے ھو جاتا ۔ بیٹے کی گمشدگی کا بخار اتر چکا تھا، اور اب وہ پھر سے اپنی پرانی جون میں واپس آ چکا تھا ۔ نومی سے ملوانے سے پہلے ھم اگر نومی اور صنم کے عشق کی داستان نومی کے باپ کو سنا بھی دیتے، تو اس نے برداشت کر لینا تھی، کہ اس وقت اس کے لئے سب سے زیادہ غم نومی کی جدائی تھی ۔ لیکن اب ایسا کر کے ھم نومی کو اس کے باپ کے سامنے شرمندہ اور رسوا ھی کرتے ۔

نومی کو اس کا باپ گاؤں میں لے آیا ۔

ھم تینوں بھی اب مجبوراْ اس بات پر قائل ھو چکے تھے ۔ نومی کے باپ کے سامنے ھماری ایک نہیں چلی تھی ۔ ھم اس وقت کو کوس رھے تھے، جب ھم نے نومی کے باپ کی حالت پر ترس کھاتے ھوئے اسے نومی سے ملوانے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ھمیں لگا، کہ نومی کے باپ پر رحم کھا کر ھم نے نومی کی زندگی پھر سے خطرے میں ڈال دی تھی ۔

ھمارا یہ اندازہ بعد میں سچّ ثابت ھوا تھا ۔

نومی گاؤں پہنچا، تو کچھ دن تو وہ خاموش رھا لیکن چوتھے دن اس کا صبر جواب دے گیا ۔اس نے صنم کے بارے میں پوچھ ھی لیا ۔ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔ مجھے ایسے لگا تھا، جیسے میرے کان بجے ھوں ۔ کیونکہ میرے اندازے کے مطابق اب اسے صنم سے ملنا تو دور، اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاھئے تھا، کہ اس لڑکی کی وجہ سے وہ موت کے منہ سے واپس آیا تھا، لیکن جب اس نے اپنا سوال دھرایا، تو میں اس کے سوال پر اس کا منہ تکنے لگا ۔

میں نے اس سے پوچھا، کہ وہ کیوں پوچھ رھا تھا، تو اس نے بہانہ گھڑا، کہ اس کی کچھ قیمتی چیزیں صنم کے پاس ھیں، اور وہ اس سے واپس منگوانا چاھتا ھے ۔ اگرچہ میں سمجھ گیا، کہ وہ مجھ سے کچھ چھپا رھا ھے، لیکن میں نے اسے اتنا ضرور بتا دیا، کہ صنم کو اس کے باپ نے ھمیشہ کے لئے گاؤں سے باھر بھیج دیا ھے، اور ننھی بھی گاؤں میں موجود نہیں ھے ۔ اسے مستقلاْ ، نہیں تو کم از کم عارضی طور پر اپنا ارادہ ضرور ملتوی کر دینا چاھئے ۔ میری اس بات سے اس کا چہرہ مرجھا گیا تھا ۔ میں دیکھ رھا تھا، کہ صنم کے ذکر پر اس کے چہرے پر ایک عجیب قسم کی سرخی دکھائی دینے لگتی تھی ۔ ایسی سرخی کسی لڑکی کے جسم کے متلاشی انسان کے چہرے پر کبھی بھی نظر نہیں آتی ۔

تو پھر نومی صنم کا کیوں پوچھ رھا تھا ؟

کیا اب بھی اس کے دل میں صنم کے لئے محبّت باقی تھی ؟

اگر ایسا ھی تھا، تو یہ بہت ھی غلط اور خطر ناک معاملہ تھا ۔ میں نے سوچ لیا، کہ اب نومی سے اس بارے میں فیصلہ کن بات ھو ھی جائے ۔ میں نے بلال کو بھی اس گفتگو میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔

اسی دن بلال کو ایک ضروری کام کے سلسلے میں فیصل آباد جانا پڑ گیا ۔ اس کی واپسی کچھ دن بعد ھونا تھی ۔

ھم دونوں دوست آج کل اکٹھّے ھی گھوم پھر رھے تھے ۔ فیضو بھی ھمارا ساتھ دیا کرتا ۔ ھم دونوں اندر سے انتہائی فکر مند تھے ۔ ھمیں انتظار تھا، کہ نومی پر اب کس طرح سے چوھدری کا وار ھوتا ھے ۔ دوسرے لفظوں میں ھم نومی پر ممکنہ حملے کے لئے ذھنی طور پر تیّار تھے ۔ لیکن ایک ھفتہ گزر جانے کے باوجود بھی کچھ نہیں ھوا تھا ۔ ھم تینوں اس بات پر حیران تھے ۔ آخر ھمیں وجہ پتہ چل گئی، کہ چوھدری اس وقت تک گاؤں میں آیا ھی نہیں تھا ۔

ڈانگر بھی کچھ دن پہلے کسی کام کے سلسلے میں کہیں چلا گیا تھا ۔ گویا عارضی طور پر مصیبت ٹل چکی تھی ۔

در اصل چوھدری آج کل بے حد مصروف ھو چکا تھا ۔ کچھ عرصے بعد الیکشن ھونے والے تھے، اور چوھدری اس مرتبہ خود الیکشن میں حصّہ لینا چاھتا تھا ۔ اس کے آباٴ و اجداد کی ایک عرصے سے علاقے کے سیاستدانوں سے گاڑھی چھنتی چلی آ رھی تھی، اور اس علاقے کے تمام ووٹ اسی کو ملتے تھے، جسے چوھدری کا گھرانہ منظوری کی سند عنائت کر دیا کرتا تھا ۔ اب چوھدری سوچ رھا تھا، کہ اتنے زیادہ ووٹ دے کر کسی اور کو جتوانے کی بجائے کیوں نہ خود ھی الیکشن لڑا جائے ۔ اسے کامل یقین تھا، کہ وہ ضرور الیکشن جیت جائے گا ۔ اسی سلسلے میں آج کل وہ شہروں میں گھوم پھر رھا تھا ۔ اسے کیا معلوم تھا، کہ الیکشن سے پہلے ھی اس کی زندگی میں ایک ناقابل۔ فراموش طوفان آنے والا تھا ۔

ھم دونوں اکثر اکٹھّے ھی رھتے تھے ۔ فیضو کبھی کبھی ھمارے ساتھ ھوتا تھا ۔

گاؤں والے نومی سے پوچھتے تھے، کہ اسے کس نے اغواٴ کیا تھا، تو وہ ان سب کو بھی فرضی اغواٴ کاروں کی کہانی سنا کر مطمئن کر دیتا تھا ۔ اس کے مطابق نومی کے اغواٴ کار اسے ایک رات ساتھ والے گاؤں کے قریب ھی ایک ویرانے میں پھینک گئے تھے، جہاں سے رمضان عرف رمضو نے اسے اٹھایا تھا ۔ ( رمضو ساتھ والے گاؤں کا لڑکا تھا ، جس کے گھر ھم نے نومی کو رکھّا تھا ۔ ) کوئی سن کر حیران ھوتا، تو کوئی یقین کرتے ھوئے کانوں کو ھاتھ لگانے لگتا ۔ کئی ایک ایسے بھی تھے، جو اس سے گہرے سوالات کرتے تو وہ ان سب کو یہ کہ کر چپ کرا دیتا، کہ اغواٴ کاروں نے پہلے دن سے لے کر آخر تک اس کے منہ اور آنکھوں پر پٹّی باندھے رکھّی تھی، جس وجہ سے وہ ان کو بالکل بھی نہیں پہنچانتا تھا ۔ یہ دلیل سب کو چپ کروا دیتی تھی ۔ ھم اس کی دلیلوں کو سن سن کر زیر۔ لب مسکراتے رھتے تھے ۔

ایک دن مجھے پتہ چلا، کہ رات کو ڈانگر گاؤں واپس آ چکا ھے ۔ میرے اندر خطرے کی گھنٹی بج اٹھّی تھی ۔ پچھلے ایک ھفتے کے دوران نومی کے فرار ھونے کے باوجود ڈانگر کی طرف سے کوئی سرگرمی نہ ھونا سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔ میرے اندر کی قوّت مجھے سمجھا رھی تھی، کہ دشمن اس دفعہ چھپ کر نومی پر وار کرے گا ۔ اور اس دفعہ میں بھی ان کی زد پر ھو سکتا تھا ۔ ڈانگر کو اچھّی طرح معلوم ھو چکا تھا، کہ میرے شہر سے واپس آنے کے چند روز بعد ھی نومی فرار ھو گیا تھا، اور اب ھم اکثر اکٹھّے ھی گھومتے رھتے تھے ۔ ھو نہ ھو، اسے میری ذات پر شک ضرور ھو چکا تھا، کہ کہیں نہ کہیں نومی کے فرار میں میرا ھاتھ بھی ضرار موجود رھا ھو گا ۔ گویا اب مجھے بھی انتہائی احتیاط کی ضرورت تھی ۔ یہ سوچتے ھوئے میں نے اپنی پیشانی پر پسینے کے قطرے محسوس کئے جنہیں میں نے ھتھیلی سے صاف کر دیا ۔ حالات کسی وقت بھی خراب ھو سکتے تھے ۔ اب میں نومی سے صنم کے حوالے سے بات کرنے کے لئے بلال کا انتظار نہیں کر سکتا تھا ۔ مجھے کچھ دنوں سے نومی کے اندر کسی خطر ناک منصوبے کے پلنے کا پکّا شک ھو چکا تھا ۔

میں نومی کو لے کر گاؤں سے باھر نکل آیا ۔ اس وقت ھم دونوں کے پاس ایک ایک خنجر موجود تھا ۔ اگرچہ ڈانگر کی طرف سے کوئی بھی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آ رھی تھی، اور چوھدری بھی ابھی شہر سے نہیں لوٹا تھا ۔ لیکن پھر بھی ھم احتیاط ضرور کر رھے تھے ۔

نومی ذرا سا لنگڑا کر چل رھا تھا ۔ یہ عارضی لنگ ابھی باقی تھا، ورنہ اس کے زخم اب کافی بہتر ھو چکے تھے، اور وہ کسی سہارے کے بغیر چلنے بھی لگ گیا تھا ۔

میں نے نومی سے صنم کے بارے میں اس کی موجودہ رائے جاننے کی کوشش کی، تو اس نے بات گول کر دی ۔ میں نے جب دوبارہ یہی بات شروع کی، تو اس نے کہا، کہ وہ فی الحال صنم کے بارے میں سوچ ھی نہیں رھا ھے ۔ میں نے جان بوجھ کر اس سے کہا، کہ وہ مجھ سے جھوٹ بول کر اپنے اندر کی کیفیّت چھپا نہیں سکتا ۔

میں نے اندازہ لگا کر یہ بات کہی تھی، جو حرف بہ حرف سچّ ثابت ھوئی ۔ نومی چند لمحے تو میری آنکھوں میں دیکھتا رھا، پھر ایک طرف منہ موڑ کر بولا ۔

" ھاں ۔ یہ سچّ ھے، کہ میں آج بھی صنم سے محبّت کرتا ھوں ۔ اس سے کہیں زیادہ جو میں اسے اس وقت کرتا تھا، جب مجھے چوھدری نے قید کر لیا تھا ۔ "

اس کے الفاظ تھے، یا کوئی وزنی پتھّر ۔ میں اس کے منہ سے صنم کے لئے محبّت بھرے الفاظ سن کر ششدر رہ گیا ۔ کیا اتنا تشدّد برداشت کرنے، اور موت کو اتنے قریب سے دیکھنے کے بعد بھی وہ اتنی بہادری کی بات کر سکتا ھے ؟

" تو کیا چوھدری کا خوف نہیں ھے تجھے ؟ "

" ھاں ھاں ، نہیں ھے ۔ نہیں ھے مجھے چوھدری کا خوف ۔ اور سن، تو بھی مجھے چوھدری سے ڈرانے کی کوشش نہ کر ۔ "

" لیکن نومی ۔ ۔ ۔ "

اس نے میری بات کاٹ دی اور بولا ۔

" لیکن ویکن کچھ نہیں فیروز ۔ میں نے فیصلہ کر لیا ھے ، کہ اب میں ایک چوھدری سے تو کیا، اس کے سارے خاندان سے بھی خوفزدہ نہیں ھوں گا ۔ ان چند دنوں کی قید نے مجھے صنم کی محبّت کی مزید گہرائی میں اتار دیا ھے فیروز ۔ اب تو میں گوڈے گوڈے اس کے عشق میں ڈوب چکا ھوں ۔ اب میرا کچھ نہیں ھو سکتا فیروز۔ اب میں واپس آنا چاھوں تو بھی نہیں آ سکتا یار ۔ "

"

" چاھے اس راہ میں تیری موت ھو جائے ؟ "

" اوئے نہیں ھوتی میری موت اتنی آسانی سے ۔ ’تو اتنی ٹینشن مت لے میرے یار ۔ ’سن ، پہلے میں ڈرتا تھا، لیکن اب میں سمجھ گیا ھوں، کہ میں اتنی جلدی مرنے والا نہیں ھوں ۔ دیکھو فیروز ۔ اگر میں نے ابھی مرنا ھوتا، تو چوھدری اتنے دن تک مجھے زندہ کیوں رکھتا ؟ وہ پہلے دن ھی نہ مار دیتا مجھے ؟ وہ مجھے مار بھی سکتا تھا فیروز، لیکن نہ مار سکا ۔ جانتے ھو کیوں، اس لئے، کہ چوھدری کے ھاتھوں میری موت نہیں لکھّی ھے ۔ بلکہ میرے نصیب میں میری زندگی، میری صنم لکھّی ھوئی ھے فیروز ۔ میں اس لیے زندہ ھوں فیروز ، کہ میں نے اپنی صنم کو پانا ھے ۔ ھم نے ایک ھونا ھے اب ۔ اپنی ماضی کی غلطیوں کو ٹھیک کرنا ھے اب میں نے ۔ اور ھمیں اب ایک ھونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ "

میں نے ایک نئے زاوئے سے اسے گھیرنے کی کوشش کی ۔

" لیکن جس کے بارے میں تو اتنے دعوے کر رھا ھے ، اور جس کی محبّت میں ’تو موت سے بھی نہیں ڈر رھا ۔ وہ کیا سوچتی ھے ، کیا اس کا بھی پتہ ھے ’تجھے ؟ "

" ھاں ھاں پتہ ھے ۔ وہ بھی اسی طرح سوچ رھی ھے، جیسے میں سوچ رھا ھوں ۔ "

" یوں خود سے ھی اندازے لگا کر خوش فہمی میں مت رہ نومی ۔ زندگی اندازوں پر نہیں، ٹھوس دلیلوں پر چلتی ھے ۔ تیرے پاس اس بات کی کیا دلیل ھے، کہ صنم بھی اسی طرح سوچتی ھو گی ؟ "

" ھاں، ھے دلیل میرے پاس ۔ اور وہ دلیل یہ ھے، کہ اگر صنم میرے حق میں نہ ھوتی ، تو چوھدری اسے زبر دستی گاؤں بدر نہ کرتا ۔ اوئے خود سوچ، کہ اگر اسے گاؤں سے نکالا گیا ھے، تو اسی وجہ سے ، کہ چوھدری اس کے عشق کے سامنے بے بس ھو گیا ھو گا ۔ اور اگر صنم میرے حق میں نہ ھوتی ، تو اب تک اس کی شادی بھی ھو چکی ھوتی ۔ "

پھر کچھ توقّف کے بعد وہ پھر بولا ۔

"اور اس کے عشق کا سب سے بڑا ثبوت تو میرے دل کی گواھی ھے فیروز ۔ میرا دل کہتا ھے ، کہ صنم میرے ساتھ ھے ، اور میرے ساتھ ھی رھے گی ۔ اور ھاں، صنم کو پانے کے لئے اب میں کسی بھی طوفان سے ٹکرا سکتا ھوں ۔ چاھے اس میں میری جان ھی کیوں چلی جائے ۔ لیکن اب میں صنم کو اپنے دل سے کسی صورت بھی نہیں نکال سکتا میرے دوست ۔ "

اس کے بعد وہ آھستہ آھستہ چلتے ھوئے میرے پاس آیا، اور میرے کندھے پر ھاتھ رکھتے ھوئے بولا ۔

" معاف کرنا نومی ۔ میں نے تم دونوں کو اپنے دل کی یہ بات اس وقت نہیں بتائی ۔ لیکن اگر میں اس وقت بتا دیتا ، تو تم لوگ مجھے گاؤں شائد آنے ھی نہ دیتے ۔ میں نے اپنے باپ کے ساتھ آنے کے لئے بھی اسی لئے رضا مندی دے دی تھی، کہ میں اپنے گاؤں آنا چاھتا تھا ۔ وہ گاؤں جہاں میری صنم رھتی ھے ، جہاں ھر طرف فضاؤں میں اس کی خوشبوئیں ھیں ۔ اگرچہ وہ یہاں نہیں ھے، لیکن میں پھر بھی اس کی خوشبو محسوس کر سکتا ھوں فیروز ۔ میں جانتا ھوں، کہ تم مجھے پاگل سمجھ رھے ھو گے، لیکن مجھے اس بات کا ذرا بھی افسوس نہیں ھے دوست ۔ بلکہ میں بھی تمھیں یہی بتانا چاھتا ھوں، کہ میں صنم کے عشق میں پاگل ھو چکا ھوں ۔ "

نومی بول رھا تھا، اور میں اس کے چہرے کی طرف دیکھ رھا تھا ۔ وہ اس وقت مجھے کوئی عام انسان نہیں لگ رھا تھا ۔ وہ اسی طرح اور بھی نہ جانے کیا کیا بولتا رھا، لیکن میں اب اس کی باتیں سننے کی بجائے اس کے انداز، اور اس کے چہرے میں کھو گیا تھا ۔ اب مجھے اس کے چہرے پر ھمیشہ نظر آنے والی اس مدھم سی سرخی کی سمجھ آ چکی تھی ۔ یہ سرخی در اصل صنم کی محبّت کا رنگ تھا ۔ اور جس میں میرا دوست پورا پورا رنگا جا چکا تھا ۔ اسے صنم کی محبّت کا رنگ چڑھ چکا تھا ۔ وہ محبّت، جس کا آغاز کسی طور بھی پاکیزہ نہیں تھا، لیکن اب نومی کے لئے وھی محبّت پاکیزگی کی آخری حدوں کو چھو رھی تھی ۔ اب وہ چوھدری اور اس کے ملازموں کے خوف سے بھی بے پروا ھو چکا تھا ۔ ایسے لگتا تھا، جیسے وہ سب کچھ بھول چکا ھے ۔ اسے اگر کچھ یاد تھا، تو صرف اور صرف صنم ۔

وہ میری طرف دیکھ رھا تھا ۔ اس کا ھاتھ ابھی تک میری کاندھے پر پڑا ھوا تھا ۔

آخر میں نے اس کے ھاتھ پر ھاتھ رکھ دیا، کہ آخر کچھ بھی تھا، لیکن تھا تو وہ میرا بچپن کا دوست، اور دوست کا ساتھ تو ’مجھے بہر حال دینا ھی تھا ۔

وہ بے ساختہ میرے گلے لگ گیا ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ’مجھے صاف نظر آ رھے تھے ۔

کچھ دیر بعد، اس نے مجھے بتایا، کہ اگلے چند دنوں میں وہ صنم کے پیچھے جانا چاھتا ھے ۔ میں حیرانی سے اسے دیکھنے لگا ۔ کیونکہ صنم کہاں تھی، اس بارے میں کسی کو بھی کچھ معلوم نہیں تھا۔ میرے اس سوال پر اس نے مسکرا کر کہا، کہ وہ جانتا ھے ، کہ صنم کہا ھو سکتی ھے ۔ اس حوالے سے اسے صنم حفظ ما تقدّم کے طور پر ماضی میں ھی بتا چکی تھی، کہ اس طرح کی صورت۔ حال میں اس کا باپ اسے کس کس شہر میں بھجوا سکتا ھے ۔ میں اس کی بات سن کر سکرا دیا، لیکن میں نے اس سے وعدہ لیا، کہ مجھے اور بلال کو بتائے بغیر وہ ایسا کوئی کام ھر گز ھر گز نہیں کرے گا ۔ وہ وعدہ تو نہیں کرنا چاھتا تھا، لیکن میرے بار بار اصرار پر آخر اس نے وعدہ کر ھی لیا ۔

ایک دن میں گھر میں لیٹا ھوا تھا، کہ اسلام آباد سے ’مجھے باس کی کال آئی ۔ انہوں نے ’مجھے ایمر جنسی اسلام آباد میں بلایا تھا ۔ دفتر کے پرانے حسب کتاب میں کوئی بڑی گڑ بڑ نکل آئی تھی، اور انہوں نے سارا سٹاف اسلام آباد آفس میں طلب کر لیا تھا ۔

مجھے بھی جانا تھا ۔ بلال سے رابطہ کر کے پوچھا، تو پتہ چلا، کہ وہ کل شام تک گاؤں پہنچ جائے گا ۔

میں نے کوشش کی ، کہ کل شام تک گاؤں رک سکوں، لیکن باس نہ مانا ۔ آخر مجھے اسی دن اسلام آباد کے لئے نکلنا پڑا ۔ جانے سے پہلے میں نومی کے گھر گیا ۔ وھاں جا کر میں نے نومی کو بھی ساتھ چلنے کے لئے کہا ۔ لیکن نومی نے بتایا، کہ اس کے باپ کی صحّت خراب ھے، اور وہ اسے اس حال میں چھوڑ کر ھر گز نہیں جا سکتا ۔ چار و ناچار میں نے فیضو اور نومی کو اپنے طور پر احتیاط برتنے کا مشورہ دیا ۔ اب میرے بس میں نہیں تھا ورنہ تو میں نومی کو بھی اپنے ساتھ ھی اسلام آباد لے جاتا ۔

Bottom of Form

·          

Top of Form


اسلام آباد کا سارا رستہ میرے ذھن میں نومی اور صنم کی محبّت کی داستان گونجتی رھی ۔ آخر اسی حالت میں مجھے سیٹ پر بیٹھے بیٹھے نیند آ گئی ۔

***********************************

دوسرے دن صبح صبح مجھے بلال کی کال آئی ۔ کال اٹینڈ کرنے پر مجھے محسوس ھوا، کہ وہ بے حد پریشان تھا ۔ بے اختیار میرا دل انجانے خدشے کے تحت دھڑک اٹھّا ۔ اس نے مجھے بتایا، کہ دو گھنٹے پہلے نومی کو پولیس پکڑ کر لے گئی تھی ۔ اس پر چوھدری کے ملازم ڈانگر نے کھیت سے ڈیزل انجن ( پیٹر انجن ، جس میں ڈیزل ڈال کر ٹیوب ویل چلاتے ھیں ۔ ) اور پھلوں کی چوری کا الزام لگا دیا تھا ۔

بلال نے مزید بتایا، کہ وہ اس وقت فیصل آباد سے نکل رھا ھے، اور کچھ گھنٹے بعد گاؤں پہنچ جائے گا ۔ اس نے مجھے بھی فوراْ واپس آنے کو کہا ۔

میں اپنا دل مسوس کر رہ گیا ۔ ابھی میں گاؤں نہیں جا سکتا تھا ۔

میرے خدشات درست تھے ۔ میری اور بلال کی غیر موجودگی میں نومی پر پھر سے ھاتھ پڑ چکا تھا، اور اس دفعہ چوھدری کے ملازم نے اسے پولیس کے ذریعے اٹھوایا تھا ۔

میں جانتا تھا، کہ ھمارے علاقے کا تھانیدار چوھدری کا نمک خوار ھے ، اور وہ چوھدری کے ایک اشارے پرنومی کے جسم کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دے گا ۔ پولیس والوں کی مار ایسی ھو ھوا کرتی ھے ۔

میں حد درجہ الجھتا چلا جا رھا تھا ۔ جو بھی کرنا تھا، فوری کرنا تھا، ورنہ نومی پر کیس بنا کر اسے بڑی جیل بھی بھیجا جا سکتا تھا ۔ تھانے میں پڑنے والی مار اس کے علاوہ بونس تھی ۔ آخر میں نے باس سے ملاقات کا ارادہ کیا ، لیکن پتہ چلا، کہ باس ابھی دفتر پہنچے ھی نہیں ۔ آخر میں نے فون پر ھی باس سے بات کی ۔ جب باس کو پتہ چلا، کہ میں پھر سے گاؤں جانا چاھتا ھوں، تو باس نے یکسر انکار کر دیا ۔ اس کے بعد باس نے فون بھی بند کر دیا ۔

میری سمجھ میں نہیں آ رھا تھا، کہ کیا کروں ۔

چند منٹ تک دفتر میں کمپیوٹر پر کام کرتے ھوئے اچانک مجھے ایک غیبی مدد حاصل ھو گئی ۔

ھوا یوں، کہ گڑ بڑ کا ریکارڈ میرے ھاتھ لگ گیا تھا، اور باس کو ھونے والے لاکھوں کے جس نقصان کا کوئی بھی ثبوت نہیں مل رھا تھا، اس کا ثبوت اچانک ھی مجھے کمپیوٹر کے ریکارڈ سے مل گیا تھا ۔ میں نے وہ ثبوت باس کے سیکرٹری کے حوالے کئے، اور باس کو بھی اس بارے میں میسج کر کے بتا دیا ۔ اب مجھے یقین تھا، کہ میرا بناٴ چھٹّی لئے چلے جانا ، باس کو اتنا ناراض نہیں کرے گا ۔

*************************************************

گاؤں پہنچ کر میں نے بلال سے ملاقات کی ۔ اس کی زبانی پتہ چلا، کہ نومی کو پولیس نے بہت مارا تھا، اور فیضو کو بھی اس کام میں ملوّث کر کے گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ یہی نہیں، بلکہ اس پر شبہ بھی ظاھر کیا جا رھا تھا، کہ وہ علاقے کے نواح میں ھونے والی دیگر کئی چوریوں میں بھی ملوّث تھا ۔

میں نے اب انسپکٹر سے ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا ۔ جب بلال نے پوچھا، کہ ھم اسے مل کر کیا فائدہ حاصل کر سکتے ھیں، کہ وہ تو خود چوھدری کا نمک خھوار ھے ۔ تو میں نے کہا ۔

" جانتا ھوں، کہ وہ چوھدری کا پالتو کتّا ھے ۔ لیکن میرا مقصد چوھدری کی عزّت کی دھجّیاں اڑانا ھے ۔ اگر وہ ھمارے دوست پر اتنا قہر برسا رھا ھے ، تو اس کی جھوٹی عزّت کی قلعی بھی تو کھلنی چاھئے ناں ۔ میں اسے پورے گاؤں میں بدنام کرنے والا ھوں ۔ عنقریب نومی اور صنم کی عشقیہ داستان گاؤں کے بچّے بچّے کی زبان پر ھو گی ، اور گاؤں والوں کو معلوم ھو جائے گا، کہ نومی کے ساتھ ھونے والے سارے مظالم کا ذمّہ دار چوھدری ھے ، اور اس کی اصل وجہ کیا ھے ۔ نومی کے ساتھ تو جو ھو گا، ھو گا ھی، لیکن اس سے چوھدری کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رھے گا بلال ۔ اور ھو سکتا ھے، اس سے شائد گاؤں والے بھی نومی کا ساتھ دینے پر تیّار ھو جائیں ۔ "

میں نے دیکھا، کہ بلال میری اس بات سے متفّق نظر نہیں آ رھا ھا ۔ اس نے خدشہ ظاھر کیا، کہ اس سے تو نومی پر اور بھی زیادہ ظلم شروع ھو جائے گا ، تو میں نے کہا ۔

" فکر نہ کرو ۔ اس کا انتظام بھی ھو جائے گا ۔ "

کچھ بھی تھا، لیکن ایک بات تو میں نے سوچ لی تھی ۔

چوھدری کو اب گاؤں والوں کے سامنے صحیح معنوں میں ننگا کرنے کا وقت آ گیا تھا ۔

( جاری ھے ۔ )

چوھدری کی اذٰیّت ناک چدائی کا راؤنڈ مکمّل ھونے کے ساتھ ھی ننھی بھی بے ھوش ھو گئی ۔ چھدری ایک مکمّل سانڈ تھا ۔ اس نے ننھی کی پھدّی اس طرح سے ماری تھی ، کہ وہ شادی شدہ ھونے کے باوجود چدائی کے دوران ھی بے ھوش ھو گئی تھی ۔

چوھدری نے سانس درست کی، ایک نظر ننھی کے ننگے وجود پر ڈالی، اور مسکرانے لگا ۔ کچھ دیر وہ پنکھے کے سامنے ھو کر بیٹھ رھا ۔ سخت مشقّت کے بعد اس کا سارا جسم پسینے سے شرابور تھا ۔ پنکھے کی ٹھنڈی ھوا سے اپنا پسینہ سکھانے کے بعد وہ کپڑے پہن کر باھر نکل گیا ۔ باھر جا کر اس نے ڈانگر کو اپنے ساتھ لیا، اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔ ڈانگر کو چند ھدایات دینے کے بعد چوھدری نے گاڑی سنبھالی، اور وہاں سے روانہ ھو گیا ۔ گاڑی کی پشت پر نظریں جمائے کھڑا ڈانگر زیر۔ لب مسکرا رھا تھا ۔ 
شہر کے ایک پر سکون گوشے میں واقع یہ فلیٹ چوھدری ھی کی ملکیّت تھا، جس میں اس کے چند خاص کارندے رھتے تھے ۔ اسی فلیٹ میں موجود ایک بیڈ پر اس وقت بے لباس اور بے ھوش ننھی موجود تھی۔ 
کچھ ھی دیر بعد کمرے میں ڈانگر داخل ھوا۔ اس کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراھٹ کھیل رھی تھی ۔ اس نے آتے ھی دروازہ بند کر دیا تھا ۔ اس کی نظریں بیڈ پر موجود ننھی کے ننگے جسم پر ٹکی ھوئی تھیں ، جو اس کی آمد سے بے خبر بیڈ پر آڑی ترچھ لیٹی ھوئی تھی ۔ ایسے لگتا تھا، جیسے وہ اپنی مرضی سے نہ لیٹی ھو، بلکہ اسے زبردستی اس انداز میں بیڈ پر لٹا دیا گیا ھو ۔ بے چاری ننھی، جو ایک وحشی مرد کی ظالمانہ چدائی سے ابھی تک نیم بے ھوش پڑی ھوئی تھی، اور ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا، کہ وہ اب پھر سے ایک مرد کے نیچے آنے والی تھی ۔ اور مرد بھی ڈانگر جیسا درندہ صفت تھا ۔ جو بے رحمی اور درندگی و بربریّت میں چوھدری سے بھی دو ھاتھ آگے تھا ۔ اور یہاں تو معاملہ بھی ایک جوان لڑکی کے جسم کا تھا ۔


ڈانگر نے آتے ھی جگ سے پانی لے کر ننھی کے ننگے وجود پر انڈیل دیا ۔ ننھی ایک جھٹکے سے اٹھّی، جیسے ڈر گئی ھو ۔ ڈانگر اسے دیکھ کر زور سے ھنسا، جبکہ ننھی کی آنکھوں میں اسے دیکھتے ھی خوف کے سائے مزید گہرے ھو گئے ۔ ڈانگر نے اس کے سامنے اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دئے ۔ ننھی اور تو کچھ نہ کر سکی، اس نے زور زور سے رونا شروع کر دیا ۔ 
ڈانگر اس کے پاس آ کر بولا ، " جتنا چاھے روتی رھو، میری بلبل ۔ یہاں تمھاری آواز سننے والا کوئی نہیں ھے ۔ اس کمرے سے تمھاری آواز کبھی بھی باھر نہیں جا سکتی میری جان ۔ " اور ننھی کو اچانک چپ سی لگ گئی ۔ گویا وہ لاشعوری طور پر یہی سوچ رھی تھی، کہ شائد اس کیے رونے کی آوازیں سن کر ھی کوئی یہاں آ جائے ، اور اسے بچا لے ۔ لیکن اس بیچاری کو معلوم نہیں تھا، کہ ایسا صرف فلموں اور کہانیوں میں ھوا کرتا ھے ، حقیقی زندگی میں نہیں ۔ حقیقت ، فلموں اور کہانیوں سے کہیں زیادہ تلخ ھوا کرتی ھے ۔ 
ننھی کو اچانک ھی ڈانگر نے دبوچ لیا ۔ اس کے ننگے وجود سے ایک عجیب قسم کی بدبو آ رھی تھی، لیکن اس وقت ننھی کے لئے اس بد’بو سے بھی زیادہ ’روح فرسا یہ احساس تھا، کہ وہ ڈانگر جیسے غیر مرد کے ساتھ تنہا اس کمرے میں اس سے ’چدنے والی ھے ۔
ننھی نے دوبارہ سے مزاحمت کی ، لیکن ڈانگر نے جواب میں چوھدری سے بھی زیادہ تشدّد شروع کر دیا ۔ اس نے ایک ھنٹر نما رسّی نکالی، اور اس کے ننگے وجود پر برسا دی ۔ ننھی مرغ۔ بسمل کیطرح تڑپنے لگی ۔ ڈانگر ساتھ ساتھ اسے دھمکاتا بھی جا رھا تھا، کہ اگر وہ تعاون نہیں کرے گی ، تو وہ اسے اسی طرح مارتا بھی رھے گا، اور اس کی پھدّی تو وہ بہر حال مار کر ھی رھے گا ۔ 
ننھی بری طرح سے پھنس کر رہ گئی تھی ۔ آخر اس نے حالات سے سمجھوتہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس نے خود کو ڈانگر کے حوالے کر دیا ۔ شائد اس نے سوچ لیا تھا، کہ جب آخر کار چدائی ھی مقدّر ٹھہری، تو پھر مزاحمت کر کے اتنا زیادہ تشدّد کیوں برداشت کرے ۔ 
ڈانگر نے اسے اوندھے منہ بیڈ پر لٹا دیا، اور اس کی پھدّی پر لن رکھ کر ایک دم سے چدائی شروع کر دی ۔ ننھی نیچے پڑی درد کی شدّت سے کبھی رو پڑتی ، تو کبھی ھونٹ دانتوں تلے دبا کر اپنی برداشت کی آخری حد کو آزمانے لگ جاتی ۔
مرد کی ھمیشہ سے روایت رھی ھے ، کہ وہ عورت کے جسم سے لطف کشید کرتے وقت اس کی درد بھری آھیں سن کر اور بھی زیادہ جوشیلا ھو جاتا ھے، اور راحت محسوس کرتا ھے ، جیسے عورت کی سسکیاں اور آھیں ھی ایک مرد کی بھر پور قوّت۔ مردانگی کی سند ھوں ۔ ڈانگر بھی یہی کر رھا تھا ۔ جونھی ننھی اس کے جھٹکے کے جواب میں درد سے چلّاتی، تو وہ اسے دیکھ کر خوش ھوتا، لیکن جب ننھی کی چیخ اس کے کانوں میں نہ پڑتی ، تو وہ اسے اپنی توھین محسوس کرتا، اور پہلے سے بھی زیادہ شدید تر جھٹکے لگاتا، اور اس ے جسم کو زیادہ وحشیانہ طریقے سے بھنبھوڑتا، جس کے نتیجے میں نیچے پڑی ننھی ایک بار پھر درد سے بلبلا اٹھتی ، اور ڈانگر ایسے خوش ھو جاتا، گویا کے- ٹو فتح کر لیا ھو ، یا ھفت اقلیم کا خزانہ اس کے ھاتھ لگ گیا ھو ۔ 
اس رات ننھی کو چوھدری کے کئی ملازموں نے چودا ۔ ننھی اس دوران بے ھوش بھی ھوتی رھی، لیکن اسے پھر سے ھوش میں لایا جاتا ۔ اور ھوش میں آنے پر پھر سے چدائی شروع ھو جاتی ۔ آخر صبح کا سویرا پھیلنے سے ذرا پہلے سب لوگ ننھی کو اس کمرے میں بندھی ھوئی حالت میں چھوڑ کر وھاں سے چلےگئے ۔ صرف ایک ملازم موجود تھا، جو ننھی کی نگرانی پر مامور کیا گیا تھا ۔

ننھی اس وقت بھی بے ھوشی کی کیفیّت میں بیڈ پر پڑی ھوئی تھی ۔

***************************************

میری آنکھ ایک زور دار آواز سے کھلی تھی ۔ میں نے ھڑبڑا کر آنکھیں کھولیں، تو دیکھا، میرے سرھانے بلال کھڑا تھا ۔ وھی مجھے آوازیں دے رھا تھا ۔ 
میں اس وقت اپنے گھر کے اندر چارپائی ڈال کر سو رھا تھا، جب بلال آن پہنچا تھا، اور جب میں اٹھ کر بیٹھ گیا، تو اس نے مجھے وہ خبر سنائی، جسے سن کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔ 
بلال نے کہا تھا ۔
" ننھی کل ، بلکہ پرسوں دن سے غائب ھے ۔ "
میں یہ خبر سن کر سکتے میں آ گیا تھا ۔ ھم تو یہی سمجھ رھے تھے، کہ ننھی محفوظ ھے ، لیکن آخر ھماری یہ غلط فہمی دور ھو گئی تھی ۔ ننھی بھی اغواٴ ھو چکی تھی ۔ 
" کیا مطلب ، غائب ھے ؟ کہاں سے غائب ھے ؟ پوری بات بتا مجھے ۔
میرے استفسار پر بلال نے مجھے اٹھ کر منہ ھاتھ دھونے کو کہا، لیکن میں نے اٹھ کر بیٹھتے ھوئے اپنا سوال دھرا دیا، تو بلال نے مجھے ننھی کے اغواٴ کی ساری بات بتا دی ۔ اس نے مجھے یہ بھی بتا دیا، کہ ننھی کا باپ کل آدھی رات کے وقت گاؤں پہنچا تھا، اور اسی کی زبانی اسے ابھی ابھی اس واقعے کی اطّلاع ملی تھی ۔ بلال کے مطابق ننھی کا باپ حیران تھا، کہ اس کی معصوم سی بیٹی کو نہ جانے کون ظالم اٹھا کر لے گیا تھا ۔ 
یہ بات سن کر میرے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگی تھیں ۔ اس کہانی ، اور اب اس کیس کا ایک اھم ترین گواہ ھمارے ھاتھ سے نکل گیا تھا ۔ ایک دن پہلے ھی تو میں اور بلال یہ پلان بنا رھے تھے، کہ اب چوھدری کی بیٹی اور نومی کی داستان عشق سب کے سامنے بیان کرنے کا وقت آن پہنچا تھا ۔ ھمارے پاس اس کہانی کی اھم ترین اور چشم دید گواہ ، ننھی موجود تھی ۔ لیکن ایک رات کے وقفے کے بعد ھی مجھے پتہ چل رھا تھا، کہ ننھی کو اغواٴ کر لیا گیا ھے ۔ 
ویسے ھمیں اندازہ ھو چکا تھا، کہ ننھی کو کون اغواٴ کروا سکتا تھا ۔ لیکن ھمارے لئے یہ معاملہ انتہائی مشکل ثابت ھو رھا تھا ۔ 
کچھ گھنٹے بعد میں اور بلال ننھی کے بوڑھے باپ کے گھر میں موجود تھے ۔ وہ تو چارپائی پر لیٹا ھوا ایسے لگ رھا تھا، جیسے مرنے کے قریب ھو ۔ اس کے گھر میں آدھا گاؤں جمع تھا، اور سب اس کے ساتھ اظھار۔ افسوس کر رھے تھے ۔ 
میں نے چند لمحات تک انتظار کیا، اور پھر بلال کے اشارے پر ھی میں نے اور بلال نے ننھی کے باپ کی چارپائی اٹھائی، اور ایک علیحدہ گوشے میں لے گیا ۔ ھم نے گاؤں والوں سے کہا تھا، کہ چاچے کو اس وقت آرام کی ضرورت ھے ۔ 
اس کمرے میں لا کر میں نے اور بلال نے چاچے سے تفصیلی بات چیت کی ۔ لیکن ھمیں کوئی واضح ثبوت یا کوئی اشارہ سمجھ نہ آ سکا ۔ ھم نے چاچے کو بہت تسلّی دی، اور کہا، کہ ھم اس کی بیٹی کو واپس لا سکتے ھیں، اگر وہ ھم کو کوئی بات بتا سکے، لیکن وہ مسلسل رو رو کر ایک ھی بات دھراتا رھا، کہ اغواٴ کار منہ پر کپڑے باندھ کر آئے تھے۔ جب ھم نے دیکھا، کہ چاچا سچّ کہ رھا ھے ، تو ھم مایوس ھو کر کھڑے ھو گئے ۔ 
میں نے آخری بار کے طور پر کہا ۔ " ٹھیک ھے چاچا ۔ ھم چلتے ھیں ۔ کیونکہ بغیر کسی راستے کے ، اور بناٴ کسی اشارے کے ھم ننھی تک کیسے پہنچ سکتے ھیں ۔
اچانک چاچے نے میری طرف دیکھا، اور بولا ۔ " بیٹا ۔ پہلے مجھ سے وعد کرو، کہ جو کچھ میں تم کو بتاؤں گا، وہ تم کسی کو بتاؤ گے نہیں ۔
چاچے کی بات سن کر میں اور بلال دونوں ھی کے کان کھڑے ھو گئے ۔ اس سے پہلے ، کہ مزید کوئی بات ھوتی ، باھر سے میرے نام کا شور اٹھّا ۔ کوئی بار بار مجھے آوازیں دے رھا تھا ۔ میں نے بلال کی طرف دیکھا، اور باھر کی طرف چل دیا ۔ باھر ایک اور ھنگامہ میرا منتظر تھا ۔ 
میرے باس گاؤں پہنچے ھوئے تھے ۔ 
میں جہاں باس کو دیکھ کر حیران ھوا ، وھیں باس بھی مجھے دیکھ کر حد سے زیادہ خوش ھوئے تھے ۔ ھم دونوں بغل گیر ھوئے ۔ گاؤں والے میرے باس کو دیکھ کر خاصے مرعوب نظر آ رھے تھے ۔ لیکن میں تیزی سے سچوئیشن کو سمجھنے کی کوشش کر رھا تھا، کہ آخر باس یوں اچانک، بناٴ اطّلاع کے گاؤں کیوں چلے آئے ھیں ۔ 
میری یہ الجھن باس نے ھی دور فرما دی ۔ ان کے مطابق، جب میں نے ان کے حساب کتاب میں غبن پکڑ کر اس کی اطّلاع ان کو دی ، تو وہ بے حد خوش ھوئے، اور میرے اچانک گاؤں چلے آنے کے بعد، وہ بھی میرے پیچھے پیچھے گاؤں چلے آئے ۔ وہ میرا خصوصی شکری ادا کرنا چاھےت تھے، کیونکہ میں نے ان کا لاکھوں کے نقصان کے ثبوت ان کو دینے کی وجہ سے وہ خصوصی طور پر میرا شکریہ ادا کرنا چاھتے تھے، اور جب انہیں پتہ چلا، کہ میں ایمر جنسی کی وجہ سے گاؤں چلا آیا ھوں، تو وہ بھی گاؤں چلے آئے ۔ آخر اسلام آباد سے گاؤں آنے میں اپنی گاڑی پر ٹوٹل تین گھنٹے ھی تو لگتے تھے ۔ 
میں باس کی باتیں سن کر سوچ رھا تھا، کہ کیا یہ محض اتّفاق تھا؟ یوں اچانک میرے باس کا گاؤں چلے آنا محض اتّفاق نہیں ھو سکتا تھا ۔

اس وقت ھم جس طرح کی الجھن میں پھنسے ھوئے تھے، ایسی صورت حال میں ھمیں کسی حد سے زیادہ طاقت ور انسان کی مدد کی ضرورت تھی ۔ ھمارا مقابلہ چوھدری سے تھا، اور اس سے لڑنے کے لئے اس سے بھی زیادہ پاور والے آدمی کی ضرورت تھی، اور شائد ھمیں قدرت نے ایسا سہارا فراھم کر دیا تھا ۔

شائد قدرت نے ھمارے لئے، اور خاص طور پر نومی کے لئے ایک مدد گار بھیج دیا تھا ۔

آج ھم نومی کے معاملے میں تھانے جانے کا سوچ چکے تھے ۔ ایسے میں باس کا چلے آنا ، سخت گرمی کے موسم میں بارش کے قطرے سے کم نہ تھا ۔

 

تمھارا ساتھ کافی ھے ( پندرھواں حصّہ )

میں نے اپنے باس ( آپ ان کو رانا صاحب کہ سکتے ھیں، کیونکہ وہ بہر حال رانا برادری سے تعلّق رکھتے تھے، اور ان کی غیر موجودگی میں دفتر میں بھی اکثر ان کو رانا صاحب کے نام سے ھی یاد کیا جاتا تھا ۔ ) کو اپنے ساتھ لیا، اور اپنے گھر کی طرف چل دیا ۔ وہ اپنی گاڑی پر ھی آئے تھے، چنانچہ ھم دونوں ان کی کار میں بیٹھ گئے ۔ بلال بھی ھماری طرف ھی آ رھا تھا، اور اپنے باس کو بلال کا مختصر تعارف کروا کر میں نے بلال کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کر دیا تھا ۔ وہ عقبی نشست پر بیٹھ گیا، اور باس نے کار آگے بڑھا دی ۔
میں نے رانا صاحب کی گاؤں کے روایتی کھانوں سے تواضع کی ۔ کھانے کے دوران وہ مجھ سے پوچھتے بھی رھے، کہ وہاں مجمع کیسا تھا، اور میں اتنی ایمر جنسی میں گاؤں کیوں چلا آیا ۔ آخر ایسا کون سا واقعہ ھو گیا ھے، کہ جس کی وجہ سے میں اب زیادہ تر وقت گاؤں میں ھی گزار رھا ھوں ۔ اس کے علاوہ انہوں نے مجھ سے اس واقعہ کی تفصیل بھی پوچھی تھی، جب ھم ریحانہ کے پیچھے پہنچے تھے، اور رانا صاحب کے ایک فون سے ھمارا کام انتہائی آسان ھو گیا تھا ۔ وہ مجھ سے سوال کرتے رھے، اور میں ان سے کھانے کے بعد، کھاے کے بعد، کا کہ کر ان کو ٹالتا رھا۔ در اصل میں چاھتا تھا، کہ جب میں سے بات کروں، تو وہ میری ساری بات مکمّل توجّہ سے سن رھے ھوں ۔ جب ھم کھانے پینے سے فارغ ھو چکے، تو میں نے اب ان کو ساری کہانی سنانے کا فیصلہ کر لیا ۔ رانا صاحب کے کھانے کے دوران میں اپنے دماغ میں ساری کہانی ترتیب دے چکا تھا ۔

میں نے اپنے دوست نومی کی ساری کہانی ان کو سنا دی ۔ آخر میں ، میں نے ان کو یہ بھی بتا دیا، کہ اب میں کیا کرنا چاھتا ھوں ۔
میری زبانی سارے حالات سن کر رانا صاحب گہری سوچ میں پڑ گئے ۔ ساتھ ساتھ وہ چائے بھی پی رھے تھے ۔ ھم اس وقت میری چوپال میں موجود تھے ۔ باھر ھلکے ھلکے بادل بن چکے تھے، اور ٹھنڈی ٹھنڈی ھوا بھی چل رھی تھی ۔ رانا صاحب بظاھر باھر اڑتی ھوئی دھول کی طرف نظریں جمائے اسے ھی دیکھ رھے تھے ۔ بلال جو اب تک خاموش بیٹھا ھماری باتیں سنتا رھا تھا، ان کو اس طرح گہری سوچ میں ڈوبے دیکھ کر اشاروں میں مجھ سے پوچھنے لگا، لیکن میں نے اسے خاموشی کا اشارہ کر دیا، کیونکہ میں جانتا تھا، کہ رانا صاحب اس وقت اس مسئلے کے سلسلے میں ھی کچھ سوچ رھے ھوں گے ۔ ان کے ھاں ملازمت کرنے کے دران اتنا تو میں ان کو سمجھ ھی چکا تھا ۔

کم از کم اب تو وہ میری مکمّل مدد ضرور کرتے ۔ اتنا تو مجھے پختہ یقین تھا ۔

کافی دیر کے بعد رانا صاحب نے میری طرف دیکھا، اور بولے ۔
" مسئلہ کافی سیرئس ھے ۔ اور خاص طور پر ان حالات میں ، جبکہ تمھارے دوست پر الزام ھی چوری کا لگا ھے ۔ ایک تو اس کو اس الزام سے کلئر کروانا ھو گا۔ اور دوسری طرف، اسکی گرل فرینڈ، کیا نام بتایا ھے تم نے اس کا ؟؟؟ ھاں، صنم ۔ ۔ ۔ جب تک وہ سامنے آ کر بیان نہیں دے دیتی، کہ وہ بھی نومی کے ساتھ انوالوڈ ھے ، تب تک تمھارے اس پلان کا کوئی فائدہ نہیں ھے ۔ بلکہ اس سے الٹا تھانے میں بند تمھارے دوست کو ھی نقصان پہنچ سکتا ھے ۔ اس لئے ، فی الحال تم خاموش ھو جاؤ، اور اس لڑکی کو فرنٹ پر لاؤ ۔ لیکن ایک مسئلہ اور بھی ھے ، کہ اس لڑکی کا بیان شروع سے لے کر آخر تک، تمھارے دوست کے حق میں ھونا چاھئے ، جو کہ کافی سے بھی زیادہ مشکل بات نظر آ رھی ھے ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ جب بات اتنی زیادہ اچھلے گی ، تو اس سے اس چوھدری کی عزّت کا جنازہ نکل جائے گا، ، ، ، اور ۔ ۔ ۔ میرا نہیں خیال ، کہ وہ لڑکی اپنے باپ کی عزّت یوں سر۔ عام اچھلتی دیکھ کر اپنے باپ کے خلاف بیان دینے پر قائم رہ سکے ۔ "
یہاں رانا صاحب نے ذرا سانس لینے کے لئے توقّف کیا، اور دوبارہ سے گویا ھوئے ۔
" ایک اور بات ، کہ جس لڑکی کا تم نے ذکر کیا ھے ، جو ایک دو دنوں سے غائب ھے ۔ اس لڑکی کا بھی اس کیس میں سامنے آ کر گواھی دینا بہت لازمی ھو گا ۔ وہ چونکہ اس کیس میں تمھارے دوست اور اس کی گرل فرینڈ کی ھمراز رھی ھے ،۔ اور ان سب واقعات کی چشم دید گواہ ھے ، اس لئے تمھارے دوست ، اور اس کی گرل فرینڈ ، ان دونوں کے حق میں، یا ان دونوں کے خلاف ، جیسی بھی ھو لیکن اس کی گواھی سب سے زیادہ موٴثّر ثابت ھو گی ۔ یعنی ، اس کا ھونا انتہائی اھم ھو گا ۔ ، ، اس کو بھی سامنے لانا ھو گا ۔ "

میں اور بلال رانا صاحب کی باتیں سن رھے تھے، اور ھمیں ایسے لگ رھا تھا، جیسے نومی کو چوھدری کے چنگل سے اور تھانے والوں کی قید سے چھڑانا ھمارے لئے نا ممکن ھے ، کیونکہ جو پوانٹس رانا صاحب نے بیان کئے تھے، وہ ھمارے بس سے تو باھر نظر آ رھے تھے ۔
میں نے رانا صاحب سے کہا، کہ ان کی سب باتیں واقعی انتہائی نکتے والی ھیں، لیکن ان سے ان باتوں کے شئر کرنے کا مقصد یہی تھا، کہ وہ اس معاملے میں ھماری خصوصی مدد کریں ۔
رانا صاحب نے یہ سنا، تو انہوں نے نفی میں سر ھلا دیا۔ " نہیں فیروز نہیں ۔ میں اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا ، کیونکہ میں نے آج شام واپس پہنچنا ھے ، اور کل ایک انتہائی اھم میٹنگ میں شریک ھونا ھے ۔ اور بھی کئی کام ھیں مجھے ۔ تم بھی جانتے ھو، کہ میں کتنا مصروف رھتا ھوں ۔ ویسے بھی یہ تمھارے گاؤں کا معاملہ ھے ، تم اس کیس میں مجھے ملوّث نہ ھی کرو، تو بہتر ھو گا۔ بلکہ تم لوگ ایسا کرو، کہ چوھدری کے پاس جا کر صلح کی کوشش کرو۔ ھو سکتا ھے ، کہ وہ کسی طرح سے تمھارے دوست کی جان بخشی کروا دے ۔ "
رانا صاحب کی بات سن کر ، میں اور بلال ھکّا بکّا رہ گئے ۔
تو گویا، رانا صاحب اس معاملے میں ھماری مدد کرنے سے انکار کر رھے تھے ۔ لیکن دکھ کی بات تو یہ تھی، کہ انھوں نے جو مشورہ دیا تھا، وہ بے حد تکلیف دہ تھا ۔ بلال نے میری طرف دیکھا، اور میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا ۔ میری آنکھوں میں بے بسی اور شرمندگی کے آنسو تھے، جنھیں میں بلال سے چھپا لینا چاھتا تھا ۔
میرا مان رانا صاحب نے توڑ دیا تھا، اور مان سے بھی بڑھ کر یہ تھا، کہ ان کے انکار سے ھمارے دوست نومی کی زندگی کی مشکلات ایک دم سے بہت زیادہ بڑھی ھوئی نظر آنے لگی تھیں ۔

تو گویا ھم نومی کو چھڑا نہیں سکیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟؟؟؟؟ ایک سوال پھانس بن کر میرے دماغ سے اٹھّا، اور نشتر بن کر میرے دل میں پیوست ھو گیا ۔


لیکن نہیں ، ھم کو اتنی جلدی ھمّت نہیں ھارنی چاھئے ۔ رانا صاحب کو قائل کرنا چاھئے ۔
یہ سوچ کر میں نے رانا صاحب کو پھر سے اس بات کے لئے منانا شروع کر دیا ۔ میں مسلسل منّت کر رھا تھا، لیکن وہ بڑے ھی ڈپلو میٹک انداز میں مجھے انکار کر رھے تھے ۔ آخر میں میرا لہجہ ذرا تلخ ھو گیا، اور میں نے ان سے کہا ۔
" ٹھیک ھے رانا صاحب ۔ آپ نے ھمارے دوست کی مدد نہیں کرنی ، نہ کریں۔ لیکن آپ کو جانے سے پہلے میرے دوست کے بوڑھے باپ کا حال ضرور دیکھنا ھو گا، جو اس وقت اپنے بیٹے کے جیل جانے کے غم میں چارپائی سے لگ کر رہ گیا ھے ۔

" رانا صاحب نہ نہ کرتے ھی رہ گئے ، لیکن میں ان کو لے کر نومی کے باپ سے ملوانے چل پڑا ۔ ھم اس وقت پیدل ھی جا رھے تھے، اس لئے کہ نومی کا گھر پاس ھی تھا ۔ میں اور رانا صاحب برابر چل رھے تھے، جبکہ بلال ھمارے پیچھے پیچھے آ رھا تھا ۔
میں نے نومی کے گھر کے دروازے پر دستک دی، اور دروازے کے تختے کو دھکیل کر اندر داخل ھو گیا ۔ رانا صاحب بھی میرے ساتھ ھی تھے ۔
اندر پہنچے، تو میرے اور بلال کے ساتھ رانا صاحب بھی دھل گئے ۔
نومی کے باپ کی حالت ھماری توقّعات سے بھی زیادہ خراب تھی ۔ گاؤں کے ایک دو آدمی اس وقت بھی ان کی دیکھ بھال میں مصروف تھے ۔ ان کو بہت تیز بخار تھا، اور وہ نیم بے ھوشی کی کیفیّت میں تھے ۔ کبھی کبھی ان کے منہ سے ایک آواز نکلتی، جو کبھی کسی کی سمجھ میں آ جاتی، تو کبھی نہ آتی ۔
رانا صاحب وہاں چند منٹ کھڑے رھے، پھر ان سے رھا نہ گیا، اور وہ دوسروں سے بولے ۔ " ڈاکٹر کو بلاؤ۔ جلدی سے کسی ڈاکٹر کو بلاؤ ۔ "
میں نے کہا۔ " آپ نے سنا نہیں ۔ چاچے کی زبان سے کیا لفظ نکل رھا ھے ؟ چاچا کسی ڈاکٹر سے نہیں، بلکہ اس انسان کی آمد سے ٹھیک ھو گا، جس کا نام اس وقت چاچے کی زبان پر ھے ۔ "
کس کا نام ھے ان کی زبان پر ؟ " رانا صاحب بے اختیار پوچھ بیٹھے تھے ۔
اس سوال پر میں نے ان کی آنکھوں میں دیکھا، اور کہا ۔ " نومی کا نام ۔ ان کے اکلوتے بیٹے کا نام ۔ ۔ ۔ اگر آپ چاھیں، تو آپ بھی سن سکتے ھیں ۔ "

میری یہ بات سن کر رانا صاحب خجل سے ھو گئے ۔
کچھ ھی دیر میں ڈاکٹر آ گیا۔ اس نے ھم سب سے ایک طرف ھونے کو کہا، اور خود چاچے کے علاج میں جت گیا ۔
اگرچہ رانا صاحب کسی بھی لحاظ سے ھمارے سر پرست نہیں تھے، نہ ھی ھماری مدد کرنا ان کے فرائض میں شامل تھا، لیکن میں جانتا تھا، کہ جب وہ نومی کے باپ کی حالت دیکھیں گے، تو ان کے لئے شہر جانا مشکل ھو جائے گا ۔ پھر وہ اپنی فطرت کے ھاتھوں مجبور ھو کر ھماری مدد کرنے پر خود ھی راضی ھو جائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تھے ھی ایسے ۔ ۔ ۔ اور ان کی اس فطرت سے میں اچھّی طرح واقف تھا۔ اسی لئے میں نے ان کے مسلسل انکار کے بعد ان پر یہ داؤ چلانے کا فیصلہ کیا تھا، اور مجھے امّید تھی، کہ میں اس میں سو فیصد کامیاب رھوں گا ۔

۔ ۔ ۔ اور ایسا ھی ھوا ۔
رانا صاحب جب نومی کے باپ کے گھر سے میرے ساتھ باھر آئے، تو میری طرف دیکھ کر بولے ۔
" تمھارے گاؤں کا تھانہ کس طرف ھے ؟ "

ان کی یہ بات سن بلال تو حیران ھوا، لیکن میں نے دل ھی دل میں شکر ادا کیا، کہ اب رانا صاحب کا ساتھ میسّر آنے کے بعد یہ معاملہ اتنا مشکل نہیں رھے گا ۔

اگر ھماری ٹکّر چوھدری سے تھی، تو ھمارے ساتھ بھی اب رانا صاحب جیسی مضبوط اسامی تھی ۔ رانا صاحب ، جو کئی منسٹرز کو جیب میں لے کر گھومتے تھے ۔ چوھدری کی پہنچ اگر ڈویژن کی سطح تک تھی، تو رانا صاحب کے ھاتھ اسمبلی تک پہنچے ھوئے تھے ۔
میں نے رانا صاحب سے کہا، کہ سب سے پہلے چوپال میں چل کر کچھ صلاح مشورہ کر لیا جائے ، کہ تھانے میں کس طرح بات کرنی ھے ۔ کیونکہ تھانے میں اس وقت چوھدری کا نمک خوار تھانیدار بیٹھا ھوا تھا ۔
میری یہ بات سن کر رانا صاحب مسکرا دئے ۔
" یار، اگر ایک گاؤں کے تھانے میں جانے کے لئے مجھے بیٹھ کر صلاح مشورہ کرنا پڑے، تو پھر لعنت ھے میری ھائی فائی اپروچ پر ۔ ۔ ۔ ۔ چلو یار ۔ دیکھتے ھیں، کیا بلاٴ بیٹھی ھے جس سے اتنے ڈر رھے ھو تم دونوں ۔ "
بلال مجھ سے بھی زیادہ حیران تھا۔ آخر و بولا ۔ " جناب، مانا کہ صلاح مشورے کے لئے آپ چوپال تک جانا نہیں چاھتے، لیکن اپنی گاڑی کے لئے تو آپ کو بہر حال چوپال تک جانا ھی پڑے گا ۔ "
اور رانا صاحب کھل کر ھنس دئے ۔
چوپال پر پہنچ کر ھم گاڑی میں سوار ھوئے، اور تھانے میں پہنچ گئے ۔ اس وقت تک شام ھونے والی تھی ۔ آسمان پر بادل بدستور موجود تھے ۔ راستے میں رانا صاحب ھم سے ھمارے علاقے کے سیاستدانوں کے بارے میں سادہ سادہ سوالات کرتے رھے ۔ میں نے ان کو بتایا، کہ ھمارے علاقے کے موجودہ اور سابقہ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی، دونوں چوٹی کے سیاستدان ھی چوھدری کے انتہائی قریبی مانے جاتے تھے ۔ میری یہ بات سن کر بھی رانا صاحب معنی خیز انداز میں مسکرائے تھے ، جبکہ ھم ان کی مسکراھٹ کو کوئی بھی معنی نہ پہنا سکے ۔
تھانے کے سامنے گاڑی کھڑی کر کے گاڑی سے اتر کر ھم مین عمارت کی طرف چل دئے ۔ سیکیورٹی پر معمور پولیس والا ھمارے علاقے کا ھی ایک آدمی تھا، چنانچہ ھمیں آسانی سے داخلے کی اجازت مل گئی ۔ رانا صاحب نے مجھے گاڑی میں ھی سمجھا دیا تھا، کہ تھانے میں ھمیں زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ھے ۔
کچھ ھی دیر بعد ھمیں تھانے کے ایس ایچ او کے کمرے تک رسائی مل گئی ۔

ایس ایچ او ملک مظہر اقبال نام کا ایک بھاری بھرکم آدمی تھا، جس کی عمر کم از کم چالیس سال تھی ۔ اس کی جسامت دیکھ کر ایک بار تو اچھّے خاصے آدمی کی ھنسی نکل جاتی تھی۔ اور اگر کوئی بندہ اسے اوپری دھڑ سے ننگا دیکھ لیتا، تو وہ تو ھنس ھنس کر لوٹ پوٹ ھو جاتا تھا ۔ خود میں بھی اسے ایک بار قمیض کے بغیر دیکھ چکا تھا، لیکن اس وقت چونکہ ھم ایک انتہائی سیرئس معاملے میں تھانے کے اندر موجود تھے، اور ھمارے ساتھ رانا صاحب بھی موجود تھے، لہٰذا میں اور بلال ، دونوں نے ھی اپنی مسکراھٹ پر مکمّل قابو پائے رکھّا۔ ایس ایچ او کے لئے ھمارے دل سے نکلنے والی گالیاں بھی ھم اپنے دل میں ھی دفن کر رھے تھے ۔
میں نے ایس ایچ او سے رانا صاحب کا شہر کے ایک معزّز بزنس مین کے طور پر تعارف کروایا، تو اس نے ان کا جائزہ لینے کے انداز میں سرسری سا ان کی طرف دیکھا، اور اپنی نظروں کا زاویہ دوبارہ میری طرف گھماتے ھوئے سپاٹ لہجے میں بولا ۔
" بولیں ۔ میں آپ لوگوں کی کیا خدمت کر سکتا ھوں ؟ "
رانا صاحب نے گلہ کھنکار کر بات کا آغاز کیا ۔
" دیکھئے ، ملک صاحب ۔ گزارش صرف اتنی ھے ، کہ آپ نے میرے ایک عزیز کو تھانے میں بلا وجہ بند کر دیا ھے ۔ اسی وجہ سے مجھے خود آپ کے تھانے میں چل کر آنا پڑا ھے ۔ میرے عزیز کے بارے میں آپ لوگوں کو کوئی غلط فہمی ھوئی ھے ۔ اس لئے میں چاھتا ھوں ، کہ آپ میرے عزیز کو فوراْ رھا کر دیں ۔
ایس ایچ او، جو رانا صاحب کی بات سننے کے دوران باری باری ھم تینوں کو گھورتا رھا، ان کی بات پوری ھونے کے بعد بولا ۔ " آپ کے کس عزیز کو ھم نے بند کر دیا ھے جی ؟ آپ تو شہر میں رھتے ھیں، پھر آپ کے عزیز کو ھم اس تھانے میں کس طرح سے بند کر سکتے ھیں ؟ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی ۔ ذرا اپنے اس عزیز کا نام بتانا پسند فرمائیں گے ، جو بقول آپ کے ، اس وقت ھمارے تھانے میں بند ھے ؟ ۔ ۔ ۔ اور کس جرم کے الزام میں بند ھے ؟ "
رانا صاحب مسکرائے، اور بولے ۔
" انسپکٹر صاحب ۔ میرا عزیز آپ کے تھانے میں اس لئے بند ھے ، کہ وہ آپ کے پاس والے گاؤں میں ھی رھتا ھے ، اور وہ گاؤں آپ کے تھانے کی رینج میں آتا ھے ۔ ۔ ۔ ۔ اور جہاں تک میرے عزیز کے نام کا سوال ھے ، ، ، تو اس کا نام ھے نومی خان، جسے آپ لوگوں نے چوری کے جھوٹے الزام کے تحت اپنی حوالات میں دو تین روز سے بند کر رکھّا ھے ۔ "

نومی کا نام تھا، یا کہ ایٹم بم کا دھماکہ ، جو رانا صاحب نے ایک دم سے انسپکٹر کے کانوں میں کر دیا تھا ۔ ایس ایچ او یوں اچھلا، جیسے اس کی کرسی کے نیچے سے اسے چار سو چالیس کا کرنٹ لگ گیا ھو ۔ دوسرے ھی لمحے اس کے چہرے پر درشتی عود کر آئی، اور وہ از حد رعونت بھرے لہجے میں رانا صاحب سے مخاطب ھوا ۔ ساتھ ھی اس نے اپنے ھاتھ میں پکڑے محکمانہ ڈنڈے کا رخ بھی رانا صاحب کی طرف کر دیا ۔
" اے مسٹر رانا ۔ جو بھی نام ھے تمھارا ۔ اگر اس سے آگے ایک لفظ بھی بولا، تو تمھارے ساتھ بہت برا سلوک کروں گا ۔ اگر خیریّت چاھتے ھو، تو ایک منٹ کے اندر اندر یہاں سے دفع ھو جاؤ ۔ تم لوگوں کے لئے اتنا ھی کافی ھے ، کہ تم لوگ نومی کی وکالت کر کے میرے تھانے سے صحیح سلامت واپس چلے جاؤ گے ۔ "
انسپکٹر کی بات سن کر رانا صاحب کے چہرے کی کیفیّت ایک دم سے بدلی، لیکن دوسرے ھی لمحے انہوں نے کمال مہارت سے اپنے غصّے پر قابو پا لیا ۔ ان کی اس بدلتی کیفیّت کو میں اور بلال دونوں ھی نوٹ کر رھے تھے ۔ میں ان کی اس خوبی سے واقف تھا، کہ ان کو جلدی غصّہ نہیں آتا تھا ۔ لیکن جب آتا تھا، تو پھر جلدی اترتا بھی نہیں تھا ۔
رانا صاحب ایک بار پھر سے مسکرائے، اور بولے ۔ " انسپکٹر صاحب ۔ ھم آپ کے تھانے میں مہمان بن کر آئے ھیں، اور مہمانوں سے اس لہجے میں بات نہیں کی جاتی ۔ آپ پلیز اپنا لہجہ درست ۔ ۔ ۔ ۔ "
ابھی رانا صاحب بات کر ھی رھے تھے، کہ انسپکٹر نے ان کی بات کاٹ دی، اور دھاڑتے ھوئے بولا ۔
" اے مسٹر بزنس مین ۔ اب تم مجھے تمیز سکھاؤ گے ۔ تمھاری اتنی جرّاٴت ۔ کہ میرے ھی تھانے میں بیٹھ کر مجھے تمیز سکھاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ایک منٹ کے اندر اندر تم یہاں سے اٹھ کر نہ گئے، تو پھر جو حشر تمھارا ھو گا، تم اس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے ۔ "
رانا صاحب ایک بار پھر سے برداشت کر گئے، لیکن انسپکٹر کی بد قسمتی، کہ اسی دوران اس سے ایک انتہائی سنگین غلطی ھو گئی ۔
وہ رانا صاحب کو ایک غلیظ گالی دے بیٹھا تھا ۔ اس نے رانا صاحب کو " مادر چود " کہ دیا تھا ۔
اب تو رانا صاحب کی قوّت برداشت جواب دے گئی، اور وہ ایک دم سے کھڑے ھو گئے ۔ انہوں نے کرسی کو لات ماری، اور قریب تھا، کہ انسپکٹر پر پل پڑتے، لیکن میں نے انہیں روک لیا ۔ وہ کچھ دیر لمبی سانسیں لیتے رھے، اس دوران انسپکٹر بھی کھڑا ھو گیا تھا، اور اس نے دو سپاھیوں کو اشارہ بھی کر دیا تھا جو دروازے میں آ کر کھڑے ھو گئے تھے ۔ وہ لوگ شائد ھمیں گرفتار کرنا چاتے تھے ۔ وہ انسپکٹر کی طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھ رھے تھے، اور انسپکٹر طنزیہ نظروں سے رانا صاحب کی طرف۔ پھر وہ بیٹھ گیا ۔ اس کے چہرے پر رعونت صاٍ نظر آ رھی تھی ۔ اسے شائد بالکل بھی پروا نہیں تھی، کہ رانا نام کا آدمی کسے فون کر رھا تھا ۔ اسے چوھدری کے پہنچ کا بہت زعم تھا، لیکن اسے معلوم نہیں تھا،کہ اس نے انجانے میں، اور چوھدری کی شہ پر شہد کے چھتّے میں ھاتھ دے دیا تھا ۔
رانا صاحب کچھ دیر اپنے اعصاب پر قابو پانے کی کوشش کرتے رھے ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے موبائل سے ایک کال کی، اور دوسری طرف سے کال اٹینڈ ھونے کے بعد انہوں نے اپنے مخاطب کا جو نام لیا تھا، اسے سن کر ھم دونوں ھی ششدر رہ گئے ۔ لیکن ھماری یہ حیرانی خوشی سے بھر پور تھی، جبکہ ایس ایچ او اپنی کرسی پر بیٹھا ایک دم سے اچھل پڑا ۔ شائد اسے اپنے سامنے بیٹھا ایک عام سا نظر آنے والا آدمی بے ضرر محسوس ھو رھا تھا، اور دوسری طرف اسے اپنی پشت پر موجود چوھدری پر بھی بڑا مان تھا، اس لئے وہ اتنی سخت بات کہ گیا تھا ۔ اتنی سخت بات، کہ جس نے رانا صاحب جیسے ٹھنڈے مزاج کے انسان کو بھی تاؤ دلا دیا تھا ۔
رانا صاحب نے سیدھا آئی جی صاحب کو فون کیا تھا ۔ اور وہ آئی جی صاحب کو ایسے مخاطب کر رھے تھے، جیسے کوئی اپنے لنگوٹیئے کو مخاطب کرتا ھے ۔
سیانے کہتے ھیں، کہ انسان کو ھر سوراخ میں انگلی نہیں دینی چاھئے ۔ کیا پتہ، کس سوراخ میں کیا چیز چھپی بیٹھی ھو ۔
انسپکٹر نے بھی شائد ایک غلط سوراخ میں انگلی دے ڈالی تھی ۔ اب اس کے ساتھ انتہائی برا سلوک ھونے والا تھا ۔
رانا صاحب بات کرتے کرتے باھر کو نکل گئے ۔ انسپکٹر کی حالت ایسی ھو چکی تھی، کہ اس پر کپکپی کی سی کیفیّت طاری ھو گئی تھی ۔ وہ ایک دم سے شیر سے گیدڑ نظر آنے لگا تھا ۔
اچانک اس کے سامنے ٹیبل پر موجود فون سیٹ کی گھنٹی بج اٹھّی ۔ کافی دیر تک بیل ھوتی رھی، لیکن انسپکٹر فون اٹھانے کی ھمّت نہ کر سکا۔ آخر اس کے ایک ماتحت نے فون اٹینڈ کیا ۔ دوسری طرف کی آواز سن کر وہ ایک دم سے اٹینشن ھو کر سیلیوٹ کرنے لگا۔ دوسرے سپاھی بھی گھبرا گئے ۔ فون سننے والے نے کچھ لمحوں بعد " یس سر۔ " کہ کر ریسیور انسپکٹر کی طرف بڑھا دیا ۔ ساتھ ھی اس نے یہ بھی بتا دیا ۔
" اوپر سے کال ھے سر ۔ "
انسپکٹر نے مریل سے انداز میں فون سنا، اور ریسیور اس کے ھاتھ سے ڈھے گیا ۔ وہ بھی کرسی پر گرتا چلا گیا ۔ رانا صاحب بھی باھر سے آ گئے تھے ۔ انہوں نے جیسے ھی کمرے میں قدم رکھّا، انسپکٹر ان کے قدموں میں گر گیا ۔ رانا صاحب غصّے سے لال نظر آ رھے تھے ۔ انہوں نے انسپکٹر کو ٹھڈّوں پر رکھ لیا ۔ ھم سب یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے ۔ پولیس والے بھی انگشت بدنداں کھڑے تھے ۔
رانا صاحب کے منہ سے گالیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسہ چل پڑا تھا ۔ "مادر چود" ایک گالی تھی، جو انسپکٹر نے ان کو دی تھی، لیکن اب وھی انسپکٹر اس سے بھی زیادہ گندی گالیاں نہ صرف سن رھا تھا، بلکہ برداشت بھی کر رھا تھا، اور یہ سب اس انسپکٹر کے تھانے میں ھو رھا تھا۔ وہ تھانہ، جہاں وہ دوسرے غریب آدمیوں کے سامنے زمینی خدا بن جاتا تھا، آج خود رحم کی بھیک مانگتا ھوا کسی کے قدموں میں رینگ رھا تھا ۔ "مادر چود، بہن چود، گشتی کا بچّہ ،۔ رنڈی کا بچّہ، حرامی، " اور نہ جانے کون کون سی گالی تھی، جو رانا صاحب کے منہ سے نکل رھی تھی ۔
رانا صاحب سراپا شعلہ بنے ھوئے تھے ۔ ان کی زبان اور ٹانگیں مسلسل چل رھے تھے ۔ میں نے آج اپنے باس کو پہلی بار اتنے غصّے میں دیکھا تھا ۔ بلال نے مجھے رانا صاحب کو پکڑنے کا اشارہ کیا، لیکن میں نے آنکھوں ھی آنکھوں میں معذرت ظاھر کر دی ۔ میں جانتا تھا، کہ اب رانا صاحب کا غصّہ ٹھنڈا ھونے میں کچھ وقت لے گا ۔
انسپکٹر ٹھڈّے کھانے کے باوجود بھی ان کے پاؤں پکڑے زمین پر لوٹ پوٹ ھو رھا تھا ۔ آخر چند منٹ کی ٹھکائی کے بعد رانا صاحب رک گئے ۔ انہوں نے مجھے دیکھا ۔ پھر تھانیدار کو مخاطب کیا ۔ جب وہ بولے، تو ان کی آواز گرجدار تھی ۔
" حوالات کی چابی کدھر ھے ؟ "
انسپکٹر نے کھڑے ھو کر چابی خود پیش کی، لیکن رانا صاحب نے اس کے چہرے پر تھپّڑ لگاتے ھوئے اسے کہا ۔
" دفع ھو کر خود اسے نکال کر لاؤ۔ جاؤ ۔ مادر چود ۔ حرامی انسان ۔ "
اور انسپکٹر "جی سر، جی سر ۔" کہتا ھوا بھاگ کھڑا ھوا ۔ کچھ ھی دیر میں نومی ھمارے سامنے کھڑا تھا ۔

لیکن اس کی حالت دیکھ کر میں اور بلال ، دونوں ھی تڑپ اٹھّے ۔ ھماری زبانیں جیسے گنگ ھو گئیں ۔ 

تمھارا ساتھ کافی ھے۔ 
رانا صاحب نے تھانیدار کو چند گالیاں اور دیں، ایک دو ُٹھڈّے بھی مارے اور اس کے بعد نومی کو سنبھالنے لگے۔ یقیناً انہیں بھی نومی کی‌حالر دیکھ کر تکلیف ھوئی تھی۔ ھمارے تھانے میں جانے ولاے غریب کے ساتھ کیا سلوک ھوتا ھے، نومی کی‌حالت دیکھ کر ھم کو اچھّی طرح سے سمجھ آ چکی تھی۔ 
میں نے فیضو کے بارے میں سوال کیا، تو تھانیدار نے اپنے ماتحت کو اشارہ کیا۔ وہ دوبارہ حوالات کی جانب گیا اور اب کی بار فیضو کو لے کر آ گیا۔ فیضو کی حالت بھی نومی کے مصداق ھی تھی۔ ھم لوگ اپنا دل مسوس کر رہ گئے ۔ 
چند لمحات مزید ھم وہاں رھے۔ اس دوران رانا صاحب نے تھانیدار کو دھمکی آمیز لہجے میں کچھ ھدایات دیں۔ اس کے بعد ھم عمارت سے باھر آ گئے۔ 
ھم لوگ اب تھانے سے باھر کھڑے تھے۔ تھانیدار بھی ھمارے پیچھے پیچھے ھی آ گیا تھا۔ وہ رانا صاحب کے پیچھے ایسے کھڑا تھا جیسے مزارع یا نوکر اپنے مالک کے سامنے کھڑا ھوتا ھے۔ رانا صاحب نے تھانیدار کو ایک بار پھر سے دھمکی لگائی اور تھانیدار بے چارہ پھر سے منتّیں کرنے لگا۔ ساتھ ھی اس نے ھر طرح سے تعاون کا یقین بھی دلا دیا تھا۔ 
اب میں نے رانا صاحب کو ایک طرف لے جا کر سمجھایا۔ 
" سر جی۔ اس تھانیدار کی بدلی وغیرہ نہ کروائیے گا۔ اس وقت جتنا فائدہ یہ بندہ دے سکتا ھے، نیا آنے والا شائد نہ دے سکے۔"
رانا صاحب میری اس بات سے متّفق ھو گئے۔ انہوں نے اس کے خلاف مزید کاروائی نہ کرنے کا وعدہ کر لیا۔ 
ھم لوگ وھاں سے نکل کر ڈاکٹر کے پاس پہنچ چکے تھے۔ تھانیدار اب بھی ھمارے ساتھ ھی تھا۔ فیضو اور نومی کو ڈاکٹر کے پاس چھوڑ کر میں اور رانا صاحب گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے۔ بلال نومی وغیرہ کا خیال کرنے کے لئےان کے ساتھ موجود تھا۔ 
رانا صاحب اب واپسی کی اجازت مانگ رھے تھے۔ ان کے مطابق ُانہیں کل ھر ُصورت اسلام آباد میں دو میٹنگز اٹینڈ کرنا تھیں ورنہ کروڑوں کا ُنقصان ھو سکتا تھا۔ میں چاھتا تھا کہ رانا صاحب بس چند دن اور رک جائیں۔ اسی لئے میں نے ان کو منانے کی کوشش کی تھی، لیکن رانا صاحب ظاھر ھے اپنی بزنس میٹنگ ھمارے ذاتی مسائل کی خاطر چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ انہیں نہ ماننا تھا سو وہ نہ مانے۔ 
یہی وہ وقت تھا جب ایک جیپ ھماری گاڑی کے بالکل آگے کی طرف آ کے کھڑی ھوگئی۔ ایک جھٹکے سے اس کا دروازہ کُھلا اور اس میں سے ڈانگر بر آمد ھوا۔ اس کے ھاتھ میں وھی مخصوص گن تھی جو ھمیشہ سے اس کی پہچان رھی تھی۔ 
جیپ دیکھ کر میرا حلق ُخشک ھو گیا ۔یقیناً تھانے اکے اندر سے کسی اھلکار نے چوھدری کے ساتھ وفاداری نبھائی تھی۔ 
یہ چوھدری کی جیپ تھی جو ھمیشہ اس کے زیر استعمال رھتی تھی۔ تو گویا چوھدری گاؤں میں آ چکا تھا، اور۔۔۔۔۔۔ اس وقت ھم لوگ چوھدری کا سامنا کرنے والے تھے۔ 
مجھے اپنی سانس رکتی ھوئی محسوس ھوئی۔ 
رانا صاحب غصّے سے گاڑی کی طرف دیکھ رھے تھے۔ کیونکہ آنے والے نے جس انداز سے اور جتنی رفتار سے گاڑی ھمارے برابر سے گزاری تھی، ھم ڈر گئے تھے۔ ایک دم ایسے لگا کہ شائد گاڑی ھماری گاڑی سے ٹکرا گئی ھو، لیکن ایسا ھوا نہیں تھا۔ 
"یہ کون بد تمیز ھے۔ اسے گاڑی چلانے کی بھی تمیز نہیں ھے ۔؟" یہ کہ کر وہ میری طرف استفہامیہ انداز میں دیکھنے لگے، گویا سوال کر رھے ھوں کہ آنے والا کون تھا۔ میں نے بمشکل تھوک نگلا، اور رانا صاحب کو بتایا کہ آنے والا چوھدری شاد تھا۔ 
ایک دفعہ تو رانا صاحب کی آنکھوں میں بھی حیرت نظر آئی، لیکن وہ خوفزدہ بالکل بھی نہیں ھوئے تھے۔ 
چوھدری شاد بھی اب گاڑی سے باھر آ چکا تھا۔ 
رانا صاحب بھی اپنی گاڑی سے نکلنا چاھتے تھے، لیکن میں نے انہیں روک دیا۔ 
"نہیں سر۔ آپ بیٹھئے پلیز۔ پہلے میں نکل کر بات کرتا ھوں سر۔ ھو سکتا ھے انہیں ھمارے ساتھ کوئی کام ھی نہ ھو بلکہ وہ ڈاکٹر سے ملنے آئے ھوں۔ "
رانا صاحب مان گئے اور گاڑی میں ھی رک گئے۔ 
میں نکلا اور ڈانگر کی طرف دیکھنے لگا۔ 
ڈانگربھی میری طرف ھی دیکھ ر ھا تھا اور اس کی شعلہ بار آنکھیں گواھی دے رھی تھیں، کہ وہ لوگ اس وقت صرف ھماری وجہ سے ھی وھاں موجود تھے۔ چوھدری شاد ابھی تک گاڑی سے باھر نہیں نکلا تھا۔ لیکن ھمیں پتہ چل چکا تھا کہ وہ بھی گاڑی کے اندر ھی موجود ھے۔ 
تھانیدار، بلال اور ڈاکٹر بھی اس وقت تک چوپال سے نکل کر صحن میں آ چکے تھے۔ غالباً وہ بھی جیپ کی آواز سن کر ھی باھر آئے تھے۔ 
اچانک ڈانگر غصّے سے میری طرف بڑھا۔ میں دل ھی دل میں سوچ رھا تھا کہ کیا کروں۔ دفعتاً تھانیدار کی گونج دار آواز سنائی دی۔ 
"خبر دار ڈانگر، کوئی غلط حرکت مت کرنا۔
اورڈانگر رک کر اس کو دیکھنے لگا۔ اس پر گویا حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ چوھدری شاد کا نمک خوار تھانیدار میرے جیسے ایک عام سے آدمی کی حمائت میں ڈانگر کو دھمکی لگا رھا تھا۔ ڈانگر نے اسے گالی نکالی تو تھانیدار بولا۔" میں تمھیں آخری بار وارننگ دیتا ھوں ڈانگر۔۔ ۔ اب تمھارے منہ سے کوئی گالی نہ نکلے۔ اور ھاں۔ اپنی گن بھی گاڑی میں رکھ دو۔ "
تھانیدار اتنی دیر میں اپنا سروس ریوالور بھی نکال چکا تھا۔ یقیناً اسے احساس ھو گیا تھا کہ صورت حال کسی بھی لمحے خراب ھو سکتی ھے۔ 
ایک جھٹکے سے جیپ کا دروازہ کھلا، اور چوھدری شاد باھر نکلا۔ اس کا چہرہ تھانیدار کی طرف تھا۔ "اوئے تھانیدار، ایک تو توُ نے ھمارے مجرم چھوڑ دئے، اوپر سے میرے بندے کو دھمکی لگاتا ھے۔۔۔ تیری اتنی جرّأت، کہ ُتو میرے آدمی کو دھمکی لگائے۔ میرے آدمی کو۔ چوھدری شاد کے آدمی ڈانگر کو۔۔۔۔۔ ؟"
تھانیدار کا سر جھک گیا۔ شائد چوھدری کے سامنے بولنے کی ھمّت اب بھی اس میں نہیں تھی۔ مجھے لگا، کہ شائد اب ڈانگر دوبارہ پیش قدمی کرے گا، لیکن تھانیدار نے ایک دم سے سر اٹھّا کر کہا۔" معاف کرنا چوھدری جی، لیکن میں اب آپ کو من مانی نہیں کرنے دوں گا۔ "
اب تو چوھدری کو جیسے آگ لگ گئی۔ وہ غصّے سے تھانیدار کی طرف بڑھا۔ تھانیدار اپنی جگہ پر ھی کھڑا تھا۔
چوھدری شاد اس پر پل پڑا تھا۔ اس نے تھانیدار پر تھپّڑوں کی بارش کر دی تھی۔ تھانیدار خاموشی سے تھپّڑ کھا رھا تھا۔ شائد اس پر چوھدری کے رشوت کے پرانے احسانات تھے جن کے بوجھ تلے دب کر وہ ابھی تک خاموش تھا۔ چوھدری کے اس اقدام کے بعد رانا صاحب کے لئے گاڑی میں بیٹھے رھنا دشوار ھو گیا اور وہ باھر آ گئے۔ 
" بات سنیں چوھدری صاحب ۔ "
اور چوھدری نے پلٹ کر دیکھا۔ سامنے رانا صاحب پر نظر پڑتے ھی وہ مکمّل رانا صاحب کی سمت گھوم گیا۔ 
رانا صاحب چوھدری کی طرف بڑھے۔ ڈانگر چوھدری کی طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھ رھا تھا۔۔ چوھدری نے اسے رکنے کا اشارہ کر دیا تھا۔ اب چوھدری بھی رانا صاحب کی طرف بڑھ رھا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے سامنے پہنچے اور ایک دوسرے کو غور سے دیکھنے لگے۔ 
"چوھدری صاحب ۔ اس غریب پر غصّے کیوں ھو رھے ھیں۔ آخر معاملہ کیا ھے۔۔؟"
چوھدری شاد کی آنکھوں میں قہر نظر آنے لگا تھا۔ " آپ کون ھوتے ھو یہ بات پوچھنے والے ؟"
تھانیدار نے جواب میں چوھدری کو بتا دیا کہ یہ رانا صاحب ھیں۔ اسلام آباد سے آئے ھیں۔ ان کی پہنچ بڑی دور تک ھے، اور یہ کہ انہی کے کہنے پر نومی اور فیضو کو چھوڑا گیا تھا۔ 
چوھدری نے اس کی بات سن کر قہر آلود نظروں سے رانا صاحب کو دیکھا، اور بولا۔ "اچھّا تو یہ ھے وہ آدمی جس نے ھمارے مجرم کو چُھڑایا ھے۔ "
رانا صاحب انتہائی اطمینان سے بولے۔ " دیکھیں چوھدری صاحب۔ میری آپ کی کوئی دشمنی نہیں ھے۔ نومی کے حوالے سے بھی آپ کو شائد کوئی غلط فہمی ھو گئی ھے۔ ایسا کرتے ھیں، اندر بیٹھ کر بات کر لیتے ھیں، اور غلط فہمی دور کر لیتے ھیں۔ "
لیکن چوھدری نے دھاڑ کر ان کی بات کاٹ دی۔ " بس مسٹر رانا بس۔ تمھاری ھماری دشمنی کے لئے اتنا ھی کافی ھے کہ تم نے میرے گاؤں میں آ کرمیرے مجرم نومی کو چھڑایا ھے۔ تمھاری پہنچ بہت دور تک ھو گی، لیکن اس گاؤں میں صرف میرا راج چلتا ھے۔ صرف میرا۔ یہاں میری اجازت کے بغیر کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، اور تم نے میری اجازت کے بغیر میرے مجرموں کو آزاد کروا دیا۔ ۔ ۔ ۔ ؟ اتنی بڑی غلطی کر دی۔ ۔ ۔ ۔ ؟"
رانا صاحب چوھدری کے لب و لہجے کی پروا کئے بغیر پھر سے گویا ھوئے۔ "دیکھیں چوھدری صاحب، ھماری عمریں ھم سے تقاضا کرتی ھیں کہ ھم بیٹھ کر سکون سے بات کریں۔ بچّوں سے غلطی ھو جاتی ھے مگر بڑوں کو چاھئے کہ غلطیوں کو ھوش سے سدھاریں۔ غصّے سے نہیں۔ "
چوھدری اب کی بار پہلے سے بھی زیادہ غصّے سے دھاڑا تھا۔ ایک بار تو رانا صاحب بھی چونک گئے تھے۔ میں آنے والے لمحات کو پردۂ تصوّر پر دیکھنے کی کوشش کر رھا تھا۔ میرا دل تیزی سے دھڑک رھا تھا۔ 
رانا صاحب اب بھی تحمّل سے بات کرنے کے موڈ میں تھے۔ ویسے بھی ان کا یہ کوئی ذاتی معاملہ نہیں تھا جس پر وہ اتنی ذاتی دلچسپی لے کر چوھدری سے ڈائریکٹلی پنگا لے لیتے۔ انہوں نے ایک دفعہ پھر تحمّل سے بات کر کے چوھدری کو سمجھانا چاھا، لیکن چوھدری اس وقت اپنے آپ میں نہیں تھا۔ اس نے ایک بار پھر سے بد تمیزی کا لہجہ اختیار کرتے ھوئے رانا صاحب کو جان کی دھمکی دے ڈالی۔ ساتھ ھی اس نے ڈانگر کو اشارہ کیا۔ ڈانگر رانا صاحب کی طرف بڑھا۔ اس کے دوسرے کارندے بھی گاڑی سے نکل چکے تھے۔ ان کے ھاتھوں میں ڈنڈے واضح نظر آ رھے تھے۔ ان کے چلنے کا انداز ھی ان کے عزائم کا پتہ دے رھا تھا۔ میرے وجود کا سارا خون سمٹ کر جیسے میری آنکھوں میں آ گیا تھا۔ میرا دل انتہائی تیز رفتاری سے دھڑک رھا تھا۔ بے ساختہ میں پکار اٹھّا۔ 
"رانا صاحب۔" جواب میں رانا صاحب نے مجھے دیکھے بغیر ھاتھ سے ھی مجھے رکنے کا اشارہ کر دیا۔ رانا صاحب نے اب کی بار غصّیلے لہجے میں چوھدری کو مخاطب کر کے کہا۔ "سوچ لو چوھدری۔ ابھی بھی وقت ھے۔ عقل سے کام لو۔ ورنہ بعد میں تم پچھتانے لائق بھی نہیں رھو گے۔ 
مگر چوھدری اس وقت اپنی طاقت کے نشے میں‌دھت تھا۔ 
ڈانگر رانا صاحب کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اس کے ھاتھ میں انتہائی جدید قسم کی گنن تھی ۔ تشدّد کے حوالے سے بھی وہ پورے علاقے میں اپنی مثال آپ تھا۔ جسامت، عمر اور صحّت کے لحاظ سے بھی اس کا اور رانا صاحب کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ رانا صاحب دو قدم پیچھے کی جانب ھٹے۔ اب کیا ھونے والا تھا ؟

تو کیا آج میرے باس رانا صاحب بھی چوھدری کا شکار ھو جائیں گے؟


******************************************
لیکن میں شائد بھول گیا تھا، کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ھوتا ھے۔ اس وقت اس جگہ پر تھانیدار بھی موجود تھا جو کہ اس وقت ھماری حمائت میں موجود تھا۔ یہ بھی اتّفاق ھی تھا کہ وہ تھانے سے ڈاکٹر کے کلنک تک ھمارے سساتھ آ گیا تھا، ورنہ اس وقت ھم‌ چوھدری اور اس کے ملازمین کے ھاتھوں شائد مارے جاتے۔ ؎
تھانیدار کا ھمارے ساتھ آ جانا ھمارے لئے ایک بہت بڑی نعمت ثابت ھوا تھا۔ 
تھانیدار نے ایک گرجدار آواز لگا کر ڈانگر کو آگے بڑھنے سے روکا تھا، اور جب اس نے دیکھا کہ ڈانگر مسلسل آگے بڑھ رھا ھے، تو تھانیدار نے ایک ھوائی فائر کیا، اور ڈانگر ایک جھٹکے سے رک گیا۔ تھانیدار نے پھر سے اسے رکنے کا حکم دیا۔ ڈانگر غصّے سے اس کی طرف مُڑا۔ شائد وہ اُس پر فاِئر کھولنا چاھتا تھا، لیکن تھانیدار پہلے سے تیّار تھا۔ اس نے ایک فائر کیا اور ڈانگر کے ھاتھ سے گن چھوٹ کر دور جا گری۔ میں جیسے خواب سے جاگا اور لپک کر گن اٹھّا لی۔ 
گن اٹھانے کے بعد میں لپک کر رانا صاحب کے پاس پہنچا تھا۔ انہوں نے تعریفی نظروں سے تھانیدار اور پھر میری طرف دیکھا تھا۔ چوھدری کو جیسے یقین ھی نہ آ رھا ھو۔ وہ پتھّر کا بنا کھڑا تھا۔ 
رانا صاحب چل کر چوھدری کے سامنے پہنچے۔ تھانیدار اتنی دیر میں چوھدری کے سر پر پہنچ چکا تھا۔ اس کے پستول کا رُخ سیدھا چوھدری کے سینے کی جانب تھا۔ ساتھ ھی اس نے دوسرے کارندوں کو بھی ُرکنے کا اشارہ کر دیا تھا۔ ُان کو تھانیدار کی بات ماننا ھی پڑی۔ ُان کے ڈنڈے بلال نے قابو کر لئے تھے۔ 
بازی مکمّل طور پر پلٹ چکی تھی۔ وقتی طور پر چوھدری کو شکست ھو چکی تھی۔ 
رانا صاحب نے اس کی آنکھوں میں‌آنکھیں ڈال کر سنسناتے ھوئے لہجے میں‌کہا۔ 
" چوھدری شاد۔ اگر تم اس علاقے کے بے تاج بادشاہ ھو، تو میں‌تم جیسے بادشاھوں کو جیبوں میں لے کر گھومتا ھوں۔ میں نے تمہیں سمجھایا تھا لیکن بات تمھاری سمجھ میں نہیں آئی۔ اب سنو۔ میرا اس سے پہلے تک تو اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں‌تھا پر اب بن گیا ھے۔ تم نے مجھے مجبور کر دیا ھے چوھدری ۔ اور میں‌اب تمھیں کھلے عام چیلنج کر رھا ھوں۔ تمھاری بیٹی صنم کی شادی اسی نومی سے ھو گی، جس سے اس کا ٹانکا چل رھا ھے۔ اگر ھمّت ھے اور اپنے باپ کی اولاد ھو تو روک کر دکھا دینااس شادی کو۔ ۔ "

آخری الفاظ کہتے ھوئے ان کی آواز خطرناک ھو گئی تھی۔ چوھدری نے ان کی بات سن کر غصّے سے دھاڑنا چاھا، لیکن تھانیدار نے آگے بڑھ کر پستول دکھائی ، گویا خاموش رھنے کا حکم دے رھا ھو۔ چوھدری مجبوراً چپ ھو گیا۔ ھم میں‌ سے سب نے رانا صاحب کے الفاظ سنے تھے۔ 
یہ رانا صاحب نے کیا کہ ڈالا تھا۔ 
چوھدری شاد پیچ و تاب کھا رھا تھا لیکن بے بس تھا۔ تھانیداراس کی طرف پستول تان کر کھڑا تھا۔ 
رانا صاحب نے تھانیدار کو اشارہ کیا اور اس نے چوھدری شاد کے پاس جا کر قدرے درشت لہجے میں کہا۔ " چوھدری صاحب۔ میں نے آپ کو سمجھایا تھا کہ رانا صاحب اونچے آدمی ھیں۔ مگر آپ نہیں مانے۔ اب میں آپ کو وارننگ دے رھا ھوں، کہ بلال، نومی فیروز فیضو یا ان کے کسی بھی تعلّق والے آدمی کو آپ کا کوئی بھی بندہ تنگ نہ کرے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ھو گا۔ یاد رکھنا چوھدری صاحب۔ آپ نے اب تک بہت من مانی کر لی، لیکن اب نہیں۔ اور نہیں۔ ایک بات آپ سمجھ لیں چوھدری صاحب۔ آج سے میں آپ کے اور نومی کے درمیان دیوار بن کرکھڑا ھوں۔ "
الفاظ تھے یا سیسہ جو پگھلا کر چوھدری کے کانوں میں ڈالا جا رھا تھا۔ اس کے چہرے کی کیفیّت اس کے اندر اٹھنے والے تلاطم کی ترجمانی کر رھی تھی۔ لیکن وہ اس طوفان کو اندر ھی اندر روکے کھڑا تھا۔ 
ھم لوگ بحفاظت وہاں سے اپنے گھر آ گئے تھے۔

************************************************** ************************ 
رات کو نومی کسی پہر جاگا تھا۔ بلال میں‌اور نومی ایک ھی کمرے میں سو رھے تھے، جبکہ رانا صاحب کے لئے ھم نے ایک علیحدہ کمرے کا بندوبست کر دیا تھا۔ فیضو رات کو ھی اپنے گھرچلا گیا تھا۔ 
نومی نے پانی مانگا تو میں نے اسے پانی لا دیا۔ پانی پینے کے بعد وہ پھر سےچارپائی پر لیٹ گیا تھا۔ میں اس کی چارپائی کی پائنتی کی طرف بیٹھ گیا تھا۔ 
"کیسے ھو نومی ؟ ابھی کتنا درد ھو رھا ھے ؟
"بہت درد ھو رھا ھے فیروز۔ بہت درد ھو رھا ھے۔۔۔ لیکن زخموں میں نہیں۔ یہاں، اس میں۔ " ساتھ ھی اس نے اپنا ھاتھ اپنے سینے پر رکھّا۔ میں نے اس کے ھاتھ کی طرف دیکھا، اور میرے اندر سے ایک سسکاری سی نکل گئی۔ نومی کے چہرے سے صاٍف پتہ لگ رھا تھا، کہ وہ جسمانی درد سے بھی بے چین ھو رھا تھا، لیکن اسے فکر تھی تو اپنے اندرونی درد کی۔ اپنے دل کی ۔ دل، جس میں ابھی تک صنم کا بسیرا تھا۔ میں ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا۔ نومی واقعی اپنی دُھن کا پکّا تھا۔ 
"دیکھو نومی۔ میں مانتا ھوں کہ تم صنم سے بہت محبّت کرتے ھو۔ لیکن یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں ھے۔ ابھی تمہیں‌صرف اپنی صحّت کا خیال رکھنا چاھئے۔ اور دیکھو۔ اب تو رانا صاحب بھی تمھاری حمائت میں کھڑے ھو گئے ھیں۔ چوھدری کے سامنے کیسے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے انہوں نے بات کی ھے، تم نے نہیں دیکھا، لیکن میں نے دیکھا ھے۔ ھاں‌ نومی۔ اب تمہارا ملن ضرور ھو گا میرے دوست۔ لیکن پلیز۔ ابھی تم صرف اپنے آپ پہ توجّہ دو میرے یار۔"
میں اس کے ھاتھ کو اپنے ھاتھ میں‌ لے کر اسے نرمی سے سمجھا رھا تھا لیکن وہ تو جیسے کہیں اور ھی پہنچا ھوا تھا۔ اور جب وہ بولا تو مجھے بھی اس بات کا اندازہ ھو گیا۔
"صنم اس وقت کہاں ھو گی فیروز؟"
میرا دل چاھا کہ اپنا سر دیوار سے ٹکرا دوں۔ واقعی اسے سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے سے بھی کہیں‌بڑھ کر تھا۔ 
میں چُپ چاپ اپنی چارپائی پر آ کر لیٹ گیا۔ نومی دور خلأ میں کہیں تک رھا تھا۔ 
***********************************
صبح سویرے میری آنکھ ذرا دیر سے کھلی۔ میں نے دیکھا رانا صاحب اپنی چارپائی پر نہیں تھے۔ پتہ چلا کہ وہ اور بلال کھیتوں کی طرف گئے ھیں۔ مجھے پریشانی ھوئی۔ رات کے واقعے کے بعد اتنی بے خوفی کے ساتھ ان کو باھر نہیں‌جانا چاھئے تھا۔
نومی نے میری یہ الجھن بھی دور کر دی۔ 
"تھانیدار اور اس کے دو مسلّح ساتھی بھی ان کے ساتھ ھی ھیں۔ آج رانا صاحب اور ھم سب کا خصوصی ناشتہ بھی اسی کی طرف سے آیا ھے۔"
میں اندر ھی اندر مسکرا دیا۔تو اس کا مطلب یہ تھا کہ تھانیدار صبح ھی‌صبح رانا صاحب کو سلام کرنے پہنچ گیا تھا۔ بیچارے کو اپنی نوکری کی فکر پڑی ھوئی تھی۔ بے چارہ ھمارا پولیس کا محمکہ۔۔۔۔۔۔!
رانا صاحب اور بلال ایک گھنٹے کے بعد واپس آئے تھے۔ رانا صاحب اس وقت فون پر بات کر رھے تھے۔ 
میں رانا صاحب کی بات سن کر حیران رہ گیا تھا۔ بات ھی ایسی تھی۔ وہ اس وقت چوھدری کی حویلی جا رھے تھے۔
جب میں نے ان کو روکنے کی کوشش کی تو وہ مسکرا کر بولے۔ " یہ ملاقات رات والی ملاقات سے بالکل مختلف ھو گی۔ اس ملاقات کا بندوبست نذیر ملک صاحب نے کیا ھے۔ اتنا تو تم جانتے ھی ھو ناں کہ نذیر ملک صاحب کون ھیں۔۔۔۔ "
نذیر ملک صاحب ھمارے علاقے کی سیاست کے مائی باپ سمجھے جاتے تھے۔ رانا صاحب کے ان کے ساتھ خاصے دوستانہ مراسم استوار تھے۔ رات کا قصّہ تھانیدار کو ھضم نہیں‌ھوا تھا۔ اس نے رات کوھی یہ بات ملک صاحب تک پہنچا دی تھی۔ جب ملک صاحب کو اس بات کا پتہ چلا تو انہاں نے خود میدان میں آ کر اس قصّے کو ختم کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔ 
تو تھانیدار ملک‌صاحب کا پیغام لے کر آیا تھا۔ 
رانا صاحب اکیلے ھی وہاں جانا چاھتے تھے لیکن میں‌ ساتھ جانے کی ضد کر رھا تھا۔ انہوں نے مجھے سمجھایا کہ یہ بات غلط ھے۔ آخر ُمجھے ھی ُان کی بات ماننا پڑی۔ لیکن میں‌نے ُان سے چند وعدے لئے تھے۔ انہوں نے مُسکرا کر میرے مطالبات مان لئے تھے۔ 
رانا صاحب کے جانے کے بعد میں اور بلال تو باتوں میں‌ مشغول ھو گئے جبکہ نومی کو اس کا باپ دوائی دینے لگا ۔ چند لمحوں بعد نومی نیند کی وادی میں پہنچ چکا تھا۔

*************************
رانا صاحب کی واپسی ابھی تک نہیں ھوئی تھی اور پانچ گھنٹے گزر چکے تھے۔ یہ پانچ گھنٹے ھمارے لئے پانچ صدیوں جیسے تھے۔ نومی کا باپ اس وقت اپنی زمین میں گیا ھوا تھا۔ نومی اس دوران جاگ چکا تھا اور ھم سے کئی سوالات کر چکا تھا۔ اس کی حالت رات سےقدرے بہتر تھی۔ اس نے جو خاص سوال کیاتھا وہ یہ تھا کہ صنم کے حوالے سے کوئی خیر خبر ھے یا نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ ؟
ھم لوگ اس کے اس سوال سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر رہ گئے تھے۔ 
آخر رانا صاحب کی گاڑی ھمیں آتی ھوئی دکھائی دی۔ بے ساختہ ھم لوگ اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ھو گئےتھے۔ ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ
رانا صاحب جانتے تھے کہ ھم لوگ حویلی میں‌ھونے والی گپ شپ جاننے کے لئے کتنے بے چین ھیں۔ انہوں نے مسکرا کر ھماری کیفیّت سے لطف لیا اور چند ثانئے کی خاموشی کے بعد انہوں نے جیسے اعلان کیا۔ 
" چوھدری شاد نومی کی شادی صنم سے کروانے کے لئےنیم رضامند ھو گیا ھے۔"
اور بلال اپنی جگہ سے تقریباً اچھل پڑا تھا۔ ایک عام سے انداز میں انہوں نے کتنی بڑی خبر دے ڈالی تھی۔ مجھے پہلے تو یقین ھی نہیں آیا۔ اور جب میں اس خبر کے جھٹکے سے سنبھلا، تو میں نے فوراً نومی کو دیکھا، جو بلال کے سہارے کھڑا تھا۔ وہ بھی حیران ھوا تھا، لیکن اتنا زیادہ نہیں۔ شائد اس کی محبّت نے اس کے اندر پہلے سے ھی یہ اعتماد پیدا کر دیا تھا، کہ صنم ایک نہ دن آخر اسے ضرور مل کر رھے گی۔ 
رانا صاحب نے مسکراتی نظروں سے پہلے مجھے اور پھر نومی کو دیکھا تھا۔ نومی نے آسمان کی طرف دیکھا اور چند ثانئے بعد اس کی نگاہیں‌ رانا صاحب پر آ کر ٹھہر گئی تھیں۔ 
"لیکن رانا صاحب۔ کیسے ؟ کیسے مان گیا وہ اتنی جلدی ؟ کہیں‌آپ مذاق تو نہیں کر رھے ناں ۔ "
میرے اس سوال پر رانا صاحب گویا ھوئے۔ "مانتا کیسے نہیں۔ اس کے تو اچھّے بھی مانتے۔"
ھم حیرت کے سمندر میں غرق تھے۔ آخر رانا صاحب نے تفصیل بھی بتا ھی دی۔ اور ان کی بتائی گئی تفصیل اور بھی حیران کن تھی۔ 
ان کے بقول ملک صاحب اور وہ کھانے کے بعد حویلی میں اسی موضوع پر بات کرتے رھے تھے۔ پہلے تو ملک‌صاحب نے رانا صاحب سے کہا کہ اس معاملے سے ھاتھ کھینچ لیں۔ لیکن رانا صاحب نے صاف انکار کر دیا۔ رانا صاحب نے یہاں تک کہ ڈالا تھا کہ وہ نومی اور صنم کو شہر کے پوش علافے میں ایک خوبصورت کوٹھی صنم کے نام لے کر دینے کو تیّار ھیں جہاں چوھدری شاد کی بیٹی عیش کی زندگی گزارے گی۔ جب ملک صاحب نے دیکھا کہ رانا صاحب نہیں مان رھے تو آخر انہوں نے چوھدری سے یہ مطالبہ کر دیا کہ وہ ھی ھار مان لے۔ ملک صاحب نے چوھدری اور رانا صاحب سے الگ الگ بات کی تھی۔ چوھدری پہلے تو انکاری تھا لیکن ملک صاحب نے اسے الیکشن کا حوالہ دے کر گویا دھمکی لگائی کہ اگر الیکشن سے پہلے چوھدری کے گھر میں کوئی بھی سکینڈل کھڑا ھو گیا تو چوھدری کے لئے الیکشن جیتنا مشکل ھو جائے گا۔ اور پھر اس ُصورت میں ملک صاحب بھی اس کی‌حمائت سے دستبردار ھو سکتے ھیں۔ 
ملک صاحب کی اس دھمکی کے بعد چوھدری کے غبارے سے ھوا نکل گئی تھی اور وہ بادل نخواستہ رضامند ھو گیا تھا۔ اسے الیکشن ھر صورت جیتنا تھا۔ اسمبلی کے اندر پہنچنا ایک عرصے سے اس کا خواب تھا اور وہ ھر قیمت پر اس خواب کی تعبیر پانا چاھتا تھا۔ 
رانا صاحب نے یہ بھی بتایا تھا کہ چوھدری نے صنم کو بھی واپس بلانے کا فیصلہ کر دیا تھا۔ کل شام تک صنم واپس اپنے گاؤں آنے والی تھی۔ ساتھ ھی ساتھ رانا صاحب نے ھمیں بھی چند ایک ھدایات دیں۔ 
صنم کی واپسی کے حوالے سے اتنی دھماکا خیز خبر سن کر نومی کے چہرے پر رنگ بکھر گئے تھے۔ 
چوھدری نے ننھی کو بھی آزاد چھوڑنے کا وعدہ کر لیا تھا۔ ننھی آج رات تک اپنے گھر والوں تک پہنچا دی جانی تھی۔ 
اس دن ھمیں پتہ چلا تھا کہ اسمبلی تک پہنچنے کے خواش مند اپنی خواھش کی تکمیل کے لئے کیسے کیسے کڑوے گھونٹ مسکرا کر نگل جاتے ھیں۔ 
اس تفصیل سے جہاں ھم چوھدری کی رضا مندی کے راز سے مطمئن ھو گئے تھے وہیں ایک بات نے ہمیں ششدر بھی کر دیا تھا۔ 
رانا صاحب نومی کی شادی کے لئے اتنے سیرئس ھو چکے تھے کہ صنم کے نام شہر میں‌کروڑوں کی کوٹھی تک لے کر دینے کو تیّار تھے اوراس بات کا باقاعدہ اعلانیہ وعدہ کر آئے تھے۔ 
میں نے نومی کی طرف اور اس نے حیرانی سے میری طرف دیکھا۔ بلال بھی آنکھیں پھاڑ کر ھم سب کو ھی دیکھ رھا تھا۔ 
ھم نے رانا صاحب سے اس کی وجہ پوچھی کہ آخر اتنی بڑی آفر انہوں نے کیوں دے دی جبکہ نومی سے ان کا کوئی خونی رشتہ بھی نہیں تھا۔ یہ بات سمجھنے کے لئے کسی سائنس کی ضرورت تو تھی نہیں کہ آخر کروڑوں روپے کی جائیداد کوئی کسی کے لئے بلا وجہ تو لے کر دینے سے رھا۔ 
اس بات کے جواب میں رانا صاحب کی آنکھوں میں‌ نمی سی محسوس ھونے لگی تھی۔ وہ مسلسل ٹالتے رھے اور کہتے رھے کہ بس ضد میں آ کر کہ آیا ھوں۔ 
لیکن میں جانتا تھا کہ وہ کچھ چھپا رھے ھیں۔ آخر کچھ عرصہ ان کے ھاں ملازمت کرنے سے، ان کے ساتھ رھنے سے اتنا تو میں ان کو سمجھ ھی سکتا تھا۔ 
میں نے یہ بات ان سے اکیلے میں‌ پوچھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ 
رانا صاحب نے ایک بات کی سختی سے تاکید بھی کی تھی کہ ابھی صنم اور نومی کے حوالے سے تمام باتیں‌ راز رکھّی جائیں گی۔ چوھدری نہیں چاھتا تھا کہ الیکشن سے پہلے مخالف پارٹی کے ھاتھ کوئی موقع لگتا اور وہ کسی بات کو بنیاد بنا کر چوھدری کے خلاف پروپیگنڈا کر سکیں۔ نومی اور صنم کی شادی الیکشن کے بعد کی جانا تھی۔ اس بات سے نومی کا منہ اتر گیا تھا۔ میں نے خدشہ ظاھر کیا کہ اگر جیتنے کے بعد چوھدری کے تیور بدل گئے تو۔۔۔ جواب میں‌رانا صاحب مسکرائے اور بولے کہ اوّل تو ایسا ھو نہیں‌ سکتا۔ کیونکہ ملک صاحب درمیان میں‌موجود ھیں۔ اور اگر چوھدری نے بھاگنے کی کوشش کی بھی تو رانا صاحب بولے۔ " آخر میں کس مرض کی دوا ھوں۔ " اور ھم سب کھلکھلا کر ھنس دئے تھے۔

دوپہر کو میں رانا صاحب کو لے کر اکیلے ھی کھیتوں کی جانب نکل آیا ۔ میں جان بوجھ کر ان کے ساتھ اکیلا ھی آیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اکیلے میں وہ شائد اپنے اندر کی بات مجھے بتا سکیں۔ 
جب میں‌ نے ان سے اپنا مدّعا بیان کیا تو وہ مسکرا دئے تھے۔ "میں‌ جانتا تھا تم ضرور پوچھو گے۔" رانا صاحب بولے۔ اس کے بعد انہوں نے کھل کر اپنے دل کی باتیں‌ مجھے بتائیں۔ رانا صاحب اور ان کی بیوی اکیلے ھی رھتے تھے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ وہ تنہا ھی اس کروڑوں کے بزنس کے مالک تھے۔ کتنے ھی سکولوں اداروں کو چلاتے تھے۔ ھسپتالوں میں‌ بھی فنڈز دیا کرتے تھے۔ وہ مسلسل دوسروں کی اولاد کے دکھ سمیٹ رھے تھے لیکن اپنی اولاد کے درد کی تڑپ کیا ھوتی ھے وہ ھمیشہ اس تڑپ سے محروم رھے۔ جب میں‌ نے انہیں نومی کے باپ کو نومی کے لئے تڑپتا دکھایا تھا تو وہ بے چین سے ھو گئے تھے۔ انہوں نے اسی لمحے فیصلہ کر لیا تھا کہ نومی کے لئے انہیں جتنا پیسہ بھی خرچ کرنا پڑا وہ کر دیں گے لیکن اس کے باپ کو کم از کم ایک دفعہ وہ اس پریشانی سے نجات ضرور دلائیں‌گے۔ ایک بے اولاد آدمی ایک باپ کی اپنی اولاد کے لئے پریشانی سہ نہیں سکا تھا۔ رانا صاحب نے جب یہ باتیں‌ بیان کیں، ان کی آنکھوں سے آنسو چل پڑھے تھے ۔ میں نے آج ان کو پہلی دفعہ روتے ھوئے دیکھا تھا۔ شئاد وہ بھی پہلی دفعہ ھی کسی کے سامنے کھل کر بولے تھے۔
ان کی طرف دیکھتے ھوئے میں‌ سوچ رھا تھا کہ واقعی آج بھی دنیا میں‌عظیم انسان موجود ھیں، جو کسی کے ایک دکھ کی خاطر اپنا پیسہ حتّیٰ کہ اپنا سکون تک قربان کر دیتے ھیں۔ رانا صاحب نے بھی ایک اجنبی آدمی کے لئے کتنا کچھ کر ڈالا تھا۔ 
رانا صاحب واقعی ایک عظیم انسان تھے۔ 
************************************************** *
صنم گاؤں میں پہنچ چکی تھی۔ 
جس دن صنم پہنچی تھی، اسی دن ھمیں بھی پتہ چل گیا تھا۔ ھوا کچہ یوں، کہ میں اور بلال بابے والی ٹاہلی سے پیدل ھی اپنے گاؤں کی طرف آ رھے تھے۔ دوپہر کا وقت تھا اور ٹھنڈی ٹھنڈی ھوا چل رھی تھی۔ ھمارے گاؤں سے پہلے ایک نہر آتی ھے، جو کم از کم پندرہ بیس فٹ چوڑی ھے ۔ اس نہر کے پل پر ایک کھڈا سا بنا ھوا تھا جس میں کئی مرتبہ گاڑیوں کے ٹائر پھنس جاتے تھے۔ انہیں نکالنے کے لئے یا تو کم از کم پانچ چھے افراد مل کر زور لگا کر اسے نکالتے، یا پھر کسی نہ کسی زور آور مشینی چیز کی مدد لینا پڑتی تھی۔ ھم پل پر پہنچنے سے پہلے ھی اس جیپ کو دیکھ چکے تھے جو پل پر پھنس چکی تھی۔ یہ چوھدری کی حویلی ھی کی ایک گاڑی تھی۔ 
ھم ایک دم سے محتاط ھو گئے۔ اس رات کے بعد سے آج تک چوھدری یا اس کے کسی بھی خاص کارندے سے سامنا نہیں ھوا تھا۔ اگرچہ حالات ھمارے حق میں بدل چکے تھے تاھم لاشعوری طور پر ھم شائد کچھ ڈر بھی رھے تھے۔ ھمیں نہیں پتہ تھا گاڑی میں کون سوار تھا۔ ابھی تک بس ایک ڈرائیور ھی نظر آ رھا تھا جو گاڑی کے باھر کھڑا ِادھر ُادھر دیکھ رھا تھا۔ شائد ِکسی کی مدد کا ِانتظار کر رھا تھا۔ 
اور جب ھم قریب پہنچے تو ھم دونوں کو ایک خوشگوار حیرت کا جھٹکا سا لگا تھا۔ گاڑی میں صنم بیٹھی ھوئی تھی۔ اس نے بھی ھمیں‌ دیکھ لیا تھا۔ لیکن ُاس کی حالت دیکھ کر ھم بھونچکّا رہ گئے تھے۔ یہ صنم ُاس صنم سے کس قدر مختلف تھی جو نومی کی معشوقہ تھی۔ کہاں وہ بھرے بھرے جسم والی صحّت مند صنم اور کہاں یہ مریل سی لڑکی جو سوکھ سوکھ کر کانٹا ھو گئی تھی۔ بہر حال، جلد ھی ھم نے اپنی نظروں کا زاویہ بدل لیا، کیونکہ ڈرائیور اب ھماری طرف متوجّہ تھا۔ 
اس نے ھمیں پہچان لیاتھا۔ بے چارہ شائد صنم اور نومی کے چکّر سے بے خبر ھی تھا۔ اس نے ھمیں بتایا کہ ڈانگر دوسری گاڑی لے کر حویلی سے نکل رہا ھے اوردو چار منٹ کی بات ھے وہ یہاں مدد کے لئے پہنچ جائے گا۔ ھم نے پھر بھی سرسری سا مدد کے لئے کہا۔ اس کے انکار کے بعد ھم وہاں سے نکل آئے۔ ھم جلد سے جلد اس گاڑی سے دور نکل جانا چاھتے تھے۔ اب ھمارا رخ سیدھا نومی کے گھر کی طرف تھا۔ 
آج ھمارے پاس نومی کے لئے اس کی شادی کی خبر سے بھی بڑھ کر بڑی خبر تھی۔

************************************************** ***********
نومی صنم کی واپسی کا سن کر ایک دم گم سم سا ھو گیا۔ ھم ڈر گئے کہیں اس کا دماغ ماؤف تو نہیں ھو گیا، لیکن پھر جیسے وہ سنبھلااور جب وہ بولا تو ھماری سٹی گم ھو گئی۔ 
اس نے صنم سے ملنے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ 
اب ھم نے لاکھ کوشش کر لی کہ ابھی ایسا ممکن نہیں لیکن وہ اڑ گیا۔ ھمیں اس لمحے پر افسوس ھوا جب ھم نے اسے صنم کی واپسی کا بتایا تھا۔ آخر میں نے اسے دھمکی دے دی، کہ اگر وہ اپنی ضد سے باز نہ آیا تو میں راناصاحب کو بتا دوں گا، اور پھر وہ ھو سکتا ھے نومی کی سرپرستی سے پیچھے ھٹ جائیں۔ اس دھمکی نے کام دکھایا اور اس کی بیٹری ڈاؤن ھو گئی۔ بہر حال، بڑی مشکل سے اسے منایا گیا تھا۔ 
ھمیں معلوم نہیں‌تھا کہ جلد ھی وہ اپنی صنم سے ملنے والا تھا۔
قسمت اسےخود بخود صنم کے سامنے لے کر جانے والی تھی ۔ 
************************************************** *
چوھدری شاد کو اچانک گاؤں سے شہر جانا پڑ گیا تھا۔ عام حالات ھوتے تو کوئی بڑی بات نہ تھی، لیکن آج کے حالات مختلف تھے۔ کہاں تو یہ وقت کہ صنم کی واپسی کے بعد سے لے کر آج تک وہ ھر وقت گھر میں یا پھر اپنی چوپال کے باھر ھی موجود رھتا تھا، اور اب اچانک وہ آناً فاناً نکل گیا تھا۔ معاملہ کوئی سیرئس ھی تھا۔ ڈانگر بھی اس کے ساتھ ھی تھا۔ 
چوھدری کے جانے سے نومی کے وارے نیارے ھو گئے۔ اب اس کے دل میں‌ پختہ یقین ھو چلا تھا کہ صنم سے اس کی ملاقات اب کے ضرور ھو گی۔ اس نے مجھ سے کہا دیا تھا کہ دیکھ لینا فیروز۔ دو دن سے پہلے پہلے صنم مجھ سے ضرور ملے گی۔ دودن سے پہلے وہ میری بانہوں میں ھو گی۔ میں نے اس کی باتوں کو سن کر ھنسی میں اڑا دیا تھا، لیکن وہ اپنی بات پر قائم تھا۔ اور اس کا یقین ایک دم سچّ میں بدل گیا۔ 
اس کی ملاقات اگلے ھی دن ھو گئی تھی۔ ھوا کچھ یوں، کہ صنم اس دن ایک دفعہ پھر سے اپنی ایک سہیلی اور ایک ملازم کے ساتھ اپنے رقبے کی طرف نکل پڑی تھی۔ شائد وہ بھی نومی کو دیکھنے کے لئے بے چین ھو رھی تھی۔ نومی بھی اس دن اتّفاق سے اپنے رقبے پر ھی موجود تھا۔ میں اور بلال اس کی فصل کو پانی لگا رھے تھے جبکہ وہ چہل قدمی کے لئے آ گیا تھا۔ وہ کوئی بات کر رھا تھا جب اس نے دور سے صنم کو آتے ھوئے دیکھ لیا تھا۔ اس کی زبان کو بریک لگ گئے اور وہ ایکدم اس طرف دیکھنے لگا۔ ھم نے بھی محسوس کیا، اور دیکھا تو ھم بھی پریشان ھو گئے۔ 
ھمیں‌ ڈر تھا کہ کہیں نومی صنم کو دیکھ کر بے قابو ھی نہ ھو جائے ۔ اسی لئے میں اور بلال ایک دم سے اس کے پاس آ گئے۔ صنم کے ساتھ مسلّح گارڈ تھا۔ اور گو کہ چوھدری نے صنم کے لئے نومی کو قبول کر لیا تھا، لیکن منزل ابھی دور تھی۔اور رانا صاحب نے بھی ھمیں سمجھایا تھا کہ ابھی کچھ دن صبر سے کام لینا ھو گا۔ ابھی صنم کی شادی نومی سے ھونا تھا، ھوئی نہیں تھی۔ 
نومی نے اسے دیکھ کر تو کوئی خاص حرکت نہیں‌کی، لیکن ان کے جانے کے بعد وہ ھمارے سر پر سوار ھو گیا تھا۔ "مجھے آج ابھی اس سے ملنا ھے۔ "
ھم سکتے میں آ گئے۔ "لیکن نومی۔ ابھی ایسا کرنا ممکن نہیں ھے۔" میں نے سمجھانے کی کوشش کی۔ نومی ھتھّے سے اکھڑ گیا۔" اگر تم لوگ میری مدد نہیں‌ کر سکتے تو میں‌اکیلا ھی چلا جاؤں گا اس کے رقبے میں۔ پھر جو ھو گی، دیکھی جائے گی۔ "
اس کی یہ بات ھمیں‌ ڈرانے کے لئے کافی تھی۔ اس نے جیسا کہا تھا وہ واقعی ایسا کر بھی گزرتا۔ ھمیں اس کی عادت کا پتہ تھا۔ نومی صنم کو دیکھ کر فوری طور پر تو بے قابو نہیں ھوا تھا، لیکن اب صنم کے گزر جانے کے بعد اس کی دیوانگی بے قابو ھو رھی تھی۔ 
ھم نے لاکھ اس کی منتّیں کیں، لیکن وہ نہ مانا۔ آخر ھمیں‌ھی اس کی ضد کے آگے ھار ماننا پڑی۔ 
ھم نے ایک پلان بنایا، اور میں اور نومی نکل پڑے۔ بلال نے دور سے ھمیں‌ موبائل کے ذریعے رہنمائی فراھم کرنی تھی۔ اس کے علاوہ بھی اس نے ایک انتہائی خاص کام انجام دینا تھا۔

نہ جانے آگے کیا ھونے والا تھا ؟

ھم دونوں نہر کے ساتھ ساتھ موجود سرکنڈے اور جھاڑ جھنکاڑ کا سہارا لے کر چوھدری کے کھیت کی جانب جا رھے تھے۔ ھم سے چوھدری کا کھیت تھوڑا ھی دور موجود تھا۔ اس کےرقبے میں داخل ھو کر باغ کے ایک کونے کے پاس پہنچ کر ھم یہاں رک گئے۔ 
بلال دوسری طرف سے آ رھا تھا۔ اس کے ذمّے چوھدری کے ملازم کوکسی طریقے سے کچھ دیر کے لئے صنم وغیرہ سے دور لے جانے کا کام تھا۔ 
ھم جانتے تھے کہ یہ کام انتہائی خطرناک ثابت ھو سکتا ھے۔ خاص طور پر جب حالات بھی سازگار ھو چکے تھے تو ایسے میں اس طرح کی حرکت بنا بنایا کھیل بگاڑ سکتی تھی۔ پکڑے جانے کی صورت میں نومی کا رشتہ بھی کینسل ھو سکتا تھا اور ھو سکتا ھے اب کی بار چوھدری ان دونوں کو یا کم از کم نومی کو مروا ھی دے۔ غیرت کے معاملات میں ھمارے علاقے میں قتل اتنی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ لیکن نومی کو اس وقت کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ اگر اسے کچھ یاد تھا تو صنم۔۔۔ اور وہ اسی کی محبّت کی لگن میں بڑھا چلا جا رھا تھا۔
آخر ھمیں بلال کی کال موصول ھوئی۔ اس نے بتایا، کہ میدان صاف ھے۔ اب اگلا کام نومی کا ھے۔ 
میں نے نومی کو صورت حال سے آگاہ کر دیا۔ مجھے لگ رھا تھا کہ نومی کا تنفّس تیز ھو رھا ھے، لیکن اس سے کہیں زیادہ بے ترتیب مجھے اپنی سانسیں لگ رھی تھیں۔ 
نومی کھیتوں میں چھپتا چھپاتا آگے کو بڑھ گیا۔ میں دل ھی دل میں نومی کی بخیریّت واپسی کی دعائیں کرنے لگا۔ 
نومی کی واپسی چند منٹ کے اندر ھی ھو گئی تھی۔ "میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔" کیا ھوا؟"
اور نومی نے مجھے واپس چلنے کو کہا۔ مجھے سمجھ نہ آئی، لیکن اس نے بتایا، کہ صنم اس سے ملنے کے لئے گامے موچی کی زمین کی طرف آ رھی ھے۔ اس لئے کہ اس کے کھیت میں یا نومی کے کھیت میں ملنا خطرناک ھو سکتا تھا۔ 
میں عش عش کر اٹھّا۔ تو گویا چوھدری کی بیٹی راضی ھو ھی گئی ملنے کو۔ واقعی محبّت کی‌آگ بجھتی نہیں اور معاملہ اگر دو طرفہ ھو تو سونے پہ سہاگہ ھو جاتا ھے۔ اگر نومی اتنا عرصہ صنم کے نام کی مالا جپتا رھا تھا توصنم بھی اتنے دنوں کے باوجود نومی کو بھلا نہیں پائی تھی۔ 
ھم تیز رفتاری کے ساتھ مطلوبہ کھیت میں پہنچے۔ اس کھیت میں کماد کی اونچی اونچی فصل کے علاوہ کپاس کی فصل بھی موجود تھی۔ اس لئے یہاں دور سے دیکھے جانے کا خطرہ نہ ھونے کے برابر تھا۔ میں نے نومی کو ضروری ھدایات دیں، حالانکہ میں اسے پہلے بھی کئی باتیں سمجھا چکا تھا۔ نومی مسکرا کر میری باتیں‌سنتا رھا۔ آخر مجھے ایک طرف سے صنم آتی دکھائی دی۔ نومی نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔ اس نے مجھے آنکھ ماری۔ میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ دل ھی دل میں ُاسے الوداع کہا جیسے وہ محبوب سے ملنے نہیں‌بلکہ محاذِ جنگ پر جا رھا ھو۔ ۔ 
بلال نے نہ جانے کون سا چکّر چلایا تھا کہ صنم کے ھمراہ آنے والا گارڈ کہیں دکھائی نہیں دے رھا تھا۔ چلو جہاں بھی تھا، کم از کم اس کا غائب ھو جانا ھمارے حق میں ھی تھا۔ 
نومی صنم کو دیکھتا ھوا آگے کو بڑھ رھا تھا۔ میں‌ایک طرف بیٹھا گردوپیش پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ بلال سے ایک مرتبہ پھر میں‌نے بات کر کے حالات معلوم کئے۔ وہ گاؤں سے آنے والے راستے پر بیٹھ کر حالات کا جائزہ لے رھا تھا۔ میں نے سانس لی اور آنکھیں بند کر لیں۔ اب تو جوھونا تھا ھو رھا تھا، آگے جو ھو گا وہ بھی دیکھا جائے گا۔ 
نومی صنم کے پاس پہنچ چکا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو ھی دیکھ رھے تھے۔ صنم کی سہیلی بھی اس کے ھمراہ تھی۔ آخر ایک جگہ پہنچ کر اس کی سہیلی بھی ایک کونے میں کھڑی ھو گئی۔ اب صنم اکیلی ھی کپاس کی طرف بڑھی۔ نومی بھی اس کے پیچھے پیپچھے اسی جانب چل پڑا۔ 
صنم کپاس کے کھیت میں‌پہنچ کر ایک صاف سی جگہ پر رک گئی۔ نومی بھی اس کے پیچھے پیچھے وہاں پہنچ چکا تھا۔ دونوں کے درمیان کچھ قدموں کا فاصلہ تھا۔ نومی اسی کی جانب دیکھ رھا تھا جبکہ صنم سر جھکائے کھڑی تھی۔ کتنی ھی دیر تک دونوں میں سے کوئی نہ بولا۔ شائد دونوں اپنے اندر الفاظ تلاش کر رھے تھے۔ ایسے الفاظ جو اتنے دنوں کی جدائی کی ترجمانی کا حق ادا کر سکیں۔ لیکن شائد انہیں الفاظ مل ھی نہیں رھے تھے۔ تبھی دونوں خاموش تھے۔ آخر نومی سے رہا نہ گیا اور وہ بولا۔
"صنم۔ کیا خاموش ھی کھڑی رھو گی ؟ کچھ بولو بھی ۔ "
اور صنم ایک دم سے بھاگ کر اس کے سینے سے لگ گئی۔ نومی نے اسے بازؤوں میں‌بھر لیا تھا۔ صنم اس کے سینے سے لگتے ھی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔ نومی کی آنکھوں سے بھی جیسے پانی کا چشمہ ابل پڑا تھا۔ وہ جنہیں جدائی کے اظہار کے لئے الفاظ نہیں مل رھے تھے، وھی دیوانے خاموش زبان سے ایک دوسرے کو اپنی کیفیّت کہ رھے تھے۔ ایک دوسرے سے جدائی کے ایّام میکے دوران اپنے اپنے دل پر گزرنے والے جاں گسل لمحات بیان کر رھے تھے۔ ایک دوسرے کو اپنا درد سنا رھے تھے۔ 
کتنی ھی دیر تک نومی اور صنم ایک دوسرے سے چمٹے رھے۔ پھر نومی نے اسے پکڑ کر اس کا چہرہ اپنے سامنے کیا، تو صنم کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ نومی سے رھا نہ گیا اور اس نے صنم کو ایک بار پھر سے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ اب کی بار وہ صنم کو دیوانہ وار چوم رھا تھا۔ کبھی اس کے سر کے بالوں کو تو کبھی اس کی پشت کو۔ کبھی اس کا چہرہ پکڑ کر سامنے کر لیتا اور اسے چومنے لگ جاتا۔ ساتھ ھی ساتھ صنم اور وہ رو بھی رھے تھے۔ آخر چند منٹ کے بعد جیسے انہیں‌کچھ قرار میّسر آ گیا ھو۔ وہ ایک دوسرے سے الگ ھو گئے۔ نومی وارفتگی سے صنم کی طرف دیکھ رھا تھا تو صنم بھی انتہائی وارفتگی سے اسی کو دیکھ رھی تھی۔
"کتنے دن بعد دیکھا ھے ناں تَُجھے صنم۔۔۔" نومی نے کہا۔ صنم تڑپ کر رہ گئی تھی۔ 
" کتنی کمزور ھو گئی ھو صنم۔کیا ھو گیا ھے تمہیں۔۔۔۔۔۔؟"
نومی کے اس سوال پر صنم نے غور سے اس کی جانب دیکھ کر جواب دیا۔ "اور خود جیسے رستم خان بن گئے ھو۔ اپنی حالت دیکھو، مجھ سے بھی زیادہ خراب حالت تو تمہاری ھو گئی ھے نومی۔ مجھے سب پتہ چل چکا ھے نومی۔ میں‌سب جانتی ھوں۔ میرے پیچھے کیا کیا ھوا ھے۔ ابّے نے کیا کیا ظلم توڑے ھیں۔ میں سب جانتی ھوں۔ "
"لیکن اب مجھے کوئی غم نہیں‌ھے صنم۔ اب تم میری بانہوں میں ھو۔ مجھے ساری تکلیفیں بھول گئی ھیں۔ ھاں صنم۔ اب ایسے لگتا ھے جیسے کسی نے مجھے کبھی بھی کانٹا تک نہیں چبھویاتھا۔"
وہ دونوں اسی طرح محبّت بھری باتیں‌کرتے کرتے بیٹھ چکے تھے۔ کبھی نومی اس کی باتیں‌سننے لگ جاتا اور کبھی صنم اس سے گزرے دنوں کے قصّے سنانے کو کہتی۔ 
"اچھّا یہ تو بتاؤ۔ مجھے کب کب یاد کرتے تھے ؟"
صنم نے پوچھا تھا تو نومی نے اس کے بالوں‌میں‌انگلیاں پھرتے ھوئے کہا۔ "سچّ تو یہ ھے صنم۔ کہ میں سانس بعد میں‌لیتا تھا اور تمہاری یاد پہلے میرے دل اور دماغ میں‌موجود ھوتی تھی۔ مجھے باتیں‌بنانا نہیں‌آتیں صنم، لیکن اتنا جانتا ھوں، کہ کہ ان دنوں میں میری باتیں تم سے شروع ھوتی تھیں، اور تمہی پر ختم ھوتی تھیں۔ "
صنم نومی کی اس بات کے جواب میں ایک دم سے محبّت بھرے انداز میں اس کے ساتھ چمٹ گئی۔ نومی نے بھی اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا تھا۔ صنم کے ھونٹوں کو اپنے ھونٹوں میں لیتے ھوئے اس نے کسنگ شروع کر دی۔ صنم نے بھی اس کا پھربور ساتھ دیا تھا۔ نومی اس کے نچلے ھونٹوں کو اپنے ھونٹوں میں ڈال کر چوسنے لگا تھا۔ صنم نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور اس کا تنفّس تیز ھو گیا تھا۔ نومی کی کیفیّت بھی اس سے مختلف نہیں تھی۔ 
ان کو وہاں گئے ھوئے آدھا گھنٹا ھونے والا تھا۔ میں بار بار اسے کال کر رھا تھا اور وہ بار بار کاٹ رھا تھا۔ میں نے اسے جانے سے پہلے بار بار روکا تھا۔"دیکھ نومی۔ دس منٹ میں باتیں‌ختم کر دینا، اور خبر دار اگر سینے سے نیچے جانے کی کوشش کی۔" میری اس بات پر نومی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسا ھی کرے گا۔
لیکن کپاس کے کھیت میں‌صنم کو اتنے قریب پا کر نومی وعدے بھول چکا تھا۔ اب وہ صنم کی ذات میں‌گم ھو رھا تھا۔ صنم بھی اتنے دنوں کی جدائی کے بعد محبوب کو اتنے قریب پا کرجدائی کے زخموں کا سارا خراج آج ھو وصول کر لینا چاھتی تھی۔ 
نومی نے اس کے ھونٹوں کو چوسنے کے بعد گردن کو چومنا شروع کیا تو صنم کی بے چینی میں شدید اضافہ ھو گیا۔ نومی نے اس کے ممّوں پر ھاتھ رکھ دئے تھے۔ صنم بھی اس کے جسم پر ھاتھ پھیر رھی تھی۔ اب نومی نے اس کی قمیض اوپر کو اٹھّا دی تھی اور نیچے سے وہ اس کے ننگے ممّے پکڑ کر کبھی دبا رھا تھا تو کبھی منہ میں‌ لے کر چوس رھا تھا۔ جب بھی وہ ممّے کو دباتا صنم کی سسکاری نکل جاتی۔ 
نومی اور صنم مکمّل طور پر مست ھو چکے تھے۔ اب بس کچھ ھی دیر میں وہ کپڑوں سے آزاد ھونے والے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب صنم کی سہیلی نے باھر سے اسے آواز دی۔ "صنم۔ جلدی کرواور فوراً باھر آ جاؤ۔ ماما اسی طرف آ رھا ھے۔ "
ماما غالباً اس ملازم کا نام تھا جو ان کی حویلی سے ان کے ساتھ آیا تھا۔ صنم تڑپ کر اٹھّی۔ نومی بھی جیسے خواب سے جاگا۔ کچھ بھی تھا آخر انہیں‌ خطرے کا احساس بھی تھا۔ 
صنم نے نومی سے چمٹتے ھوئے کہا۔ "نومی۔ میرا ابّا مان تو گیا ھے لیکن مجھے ابھی بھی بہت ڈر لگتا ھے۔ "
فکر مت کرو صنم۔ میں اب پہلے والا نومی نہیں ھوں۔ اب میں بھی دلیر ھو گیا ھوں۔ اور پھر میرے دوست اور رانا صاحب بھی اب ھمارے ساتھ ھیں۔ "
صنم بولی۔ "لیکن یہ میں بھی بتا دوں، کہ اگر ابّے نے اب اگر کوئی گڑ بڑ کی تو میں‌ خاموش نہیں بیٹھوں گی۔ ھاں نومی۔ میں‌اب چپ نہیں رہوں گی۔ ان چند مہینوں کی جدائی نے جہاں مجھے اندر سے توڑا ھے، وہیں مجھے ایک نئی ھمّت بھی دی ھے نومی۔ یقین کرو، جب جب مجھے تمھارے ساتھ ھونے والے ظلم کا پتہ چلتا تھا تب تب مجھے اپنے اندر ایک حوصلہ پلتا محسوس ھوتا تھا۔ اور اب وہ حوصلہ جوان ھو گیا ھے نومی۔ اب میں تمھارا ساتھ پانے کے لئے ابّے کے سامنے کھڑے ھو کر بھی بول سکتی ھوں نومی۔ مجھے اب کسی کی بھی پروا نہیں ھے نومی۔ میرے لئے تمہاری محبّت کافی ھے نومی۔ " پھر اس نے ایک توقّف کیا اور پھر اس کے سینے سے لگ کر بولی۔ 
"ھاں نومی۔ اب مجھے تمھارا ساتھ کافی ھے۔ "
اور نومی نے اسے کھینچ لیا گویا اسے اپنے اندر سمو لینا چاھتا ھو۔ 
چند لمحوں بعد صنم بوجھل دل کے ساتھ وھاں سے روانہ ھو گئی۔ 
جب تک نومی میرے پاس نہیں پہنچا تھا، میری سانسیں جیسے اٹکی ھی رھیں۔ اس کے آتے ھی میں اسے لے کر وہاں سے بھاگ ھی پڑا تھا۔ اس کے کھیت میں‌آتے ھی میں‌اس کے سر پر چڑھ دوڑا۔ وہ آگے سے سر جھکائے زیرِلب مسکراتا ھی رھا۔ جب میں نے اسے پوچھا، کہ کہیں‌کام ناف سے نیچے تو نہیں گیا، تو وہ سر اٹھّا کر بولا۔
"نہیں‌یار۔ آدھے گھنٹے میں اتنا کچھ کیسے کر سکتا تھا میں۔۔۔۔۔۔۔؟"
بلال بھی کچھ دیر میں ھمارے پاس پہنچ چکا تھا۔ ھم نے پانی کا رُخ ایک ساتھ کئی کیاروں کو موڑا اور گھرواپس آ گئے۔

************************************************** **********
"اچھّا بھئی فیروز۔ اب مجھے تو دو اجازت۔ ذرا اپنے کاروبار کی بھی خبر لے لوں۔ " رانا صاحب کھڑے ھوتے ھوئے بولے تھے۔ 
ھم لوگ اس وقت نومی کے گھر میں ھی موجود تھے۔ نومی کی صحّت پہلے سے کافی بہتر تھی۔ اس کے باپ کو بھی اب نومی اور صنم کی کہانی کا معلوم ھو چکا تھا۔ پہلے تو وہ حیران پریشان رہ گیا ۔ لیکن جب رانا صاحب نے ساری بات بتائی تو وہ کچھ پر سکون سا ھو گیا تھا۔ کوٹھی والی بات سن کر تو اسے جیسے یقین ھی نہ آ رھا ھو۔ وہ جو پہلے ھی ان کا مشکور بنا پھرتا تھا، اب اور بھی زیادہ رانا صاحب کے آگے پیچھے پھر رھا تھا۔ رانا صاحب کو آئے ھوئے تیسرا دن گزر چکا تھا۔ اس دوران نہ جانے ان کی کتنی قیمتی میٹنگز کینسل ھوئی تھیں۔ نہ جانے ان کو کتنے کا نقصان ھوا تھا۔ میری معلومات کے مطابق ان کے کروڑوں کے کم از کم دو سودے کینسل ھو چکے تھے۔
"رانا صاحب۔ مجھے سمجھ نہیں آ رھی کہ آخر کس طرح سے آپ کا شکریہ ادا کروں۔ آپ نے چند دنوں میں‌ ھی کتنے بڑے بڑے احسان کر دئے ھیں ھم سب پر۔ سمجھ نہیں‌آتی آخر کیسے ان احسانوں کا بدلہ اتاروں۔ ؟
میں نم آلود انکھوں سے بولا تھا۔ نومی بے چارہ تو اس دن سے مسلسل ان کا شکریہ اد ا کئے جا رھا تھا۔ 
رانا صاحب بولے۔" ایک طریقہ ھے بدلہ اتارنے کا۔ کہ جلد سے جلد آفس جوائن کر لو اور آئندہ پھر سے میرے دفتر میں کوئی بندہ غبن کرے تو دوبارہ سے ثبوت تلاش کر کے مجھے دے دینا۔ "
اور ھم سب مسکرا دئے تھے۔ 
نومی کے باپ نے رانا صاحب کے لئے خصوصی طور پر کچھ سامان ان کی گاڑی میں‌ رکھوایا تھا۔ رانا صاحب بے چارے نہ نہ کرتے ھی رہ گئے اور نومی کے باپ نے دیسی گھی، مونگ پھلی، اور چند اور دیسی چیزیں ان کی گاڑی میں رکھوا دی تھیں۔ یہ گویا اس کی طرف سے ایک طرح کا تحفہ تھا۔ 
رانا صاحب اپنی گاڑی پر شہر کے لئے روانہ ھو گئے۔ 
************************************************** ***
ھم دوست ایک مرتبہ پھر سے پرانی روٹین سے گھومنے لگے تھے۔ نومی گو کہ مکمّل صحّت یاب نہیں‌ھوا تھا لیکن اب چلنے لگ گیا تھا۔ کچھ زخم ابھی بھرنے باقی تھے لیکن وہ گاؤں میں‌ چلنے کو ترس گیاتھا۔ اور ویسے بھی اس کے اور صنم کے درمیان موجود سمندر نے خود ھی اسے راستہ دے دیا تھا۔ جلد ھی صنم اس کی ھونے والی تھی۔ کطرہ ٹل چکا تھا۔ اب وہ آزادی سے گاؤں میں‌ گھوم پھر سکتا تھا ۔ گاؤں جیسے ایک دم سے نکھرا نکھرا سا لگنے لگا تھا۔ نومی شاعرانہ باتیں‌ کرنے لگا تھا۔ میں اور بلال نومی کی شاعرانہ باتیں‌سن کر ھنسی سے دوھرے ھو جاتے۔ زندگی کتنی حسین ھو گئی تھی۔
چند دن گاؤں میں‌ رہ کر میں‌ بھی اسلام آباد آ گیا ۔ 
************************************************** ****************
میں اپنے دفتر میں‌بیٹھا کام کر رھا تھا ۔ مجھے یہاں‌آئے ھوئے دس دن ھو چکے تھے ۔ رانا صاحب اس وقت ملک سے باھر گئے ھوئے تھے۔ زندگی اپنی روٹین پر آ چکی تھی جب بلال کا ایک ھنگامہ خیز فون مجھے آیا تھا۔ 
"غضب ھو گیا فیروز۔ نومی کو چوھدری کے کارندے ڈانگر نے گولی مار دی ھے۔ میں گاؤں جا رھا ھوں۔ تم کب تک پہنچ سکتے ھو ؟ "
فون تھا یا دھماکا، جو میرے سر پر پھٹا تھا۔ "یا خُدا، یہ میں نے کیا سنا ؟
میں‌کرسی پر ڈھے سا گیا۔ 
************************************************** ***********************

تُمھارا ساتھ کافی ھے - فائِنل غیر نظرِ ثانی شُدہ۔

نہ جانے کتنی ھی دیر تک تو میں اس خبر کے صدمے سے سنبھل ھی نہ پایا تھا۔ 
پھر جب حالت کچھ نارمل ھوئی تو میں نے بلال کو فون لگا کر مزید معلومات حاصل کیں۔ اس کے مطابق اسے بھی بس اتنا ھی پتہ تھا کہ نومی کو گولی لگ گئی ھے اور اسے نزدیکی شہر والے ھسپتال میں لے جا رھے ھیں۔ وہ اس وقت گاڑی میں بیٹھ کر گاؤں کے لئے روانہ ھو چکا تھا۔ 
بلال کے بعد میں نے فیضُو کا نمبر ملایا۔ اس نے بتایا کہ وہ اس وقت نومی کے ھمراہ ھی ھے۔ جس وقت نومی کو گولی لگی، اس وقت فیضُو بھی اپنے کھیت پر موجود تھا۔ فیضو کا وھاں‌ھونا شائد نومی کی زندگی بچ جانے کا بہانہ بن گیا تھا۔ اسی نے نومی کو اپنے ٹریکٹر پر لاد کر پہلے گاؤں کے ڈاکٹر تک پہنچایا تھا اور جب گاؤں کے ڈاکٹر نے اس کی حالت دیکھ کر جواب دے دِیا، تو وہاں سے وہ لوگ اسے ڈاکٹر ھی کی کار میں ڈال کر شہر لے آئے تھے۔ وہ آدھا گھنٹہ پہلے ھاسپٹل کے اندر پہنچ چکے تھے۔ نومی کا باپ اور گاؤں کا ڈاکٹر بھی ان کے ھمراہ تھا۔ 
نومی کو ایک گولی پیٹ میں لگی تھی اور دُوسری اس کے سر کے بالوں کے اُوپر سے ھوتی ھُوئی گُزر گئی تھی۔ گویا ڈانگر نے اپنی طرف سے نومی کو مارنے کی پُوری کوشش کی تھی۔ 
میں نے نومی کی حالت کا ُپوچھا تو اس نے بتایا کہ نومی اس وقت ھوش میں نہیں ھے۔ ڈاکٹر اسے ایمرجنسی آپریشن کے لئے لے گئے ھیں۔ گاؤں کے ڈاکٹر نے خون بند کرنے کی اپنی سی کوششیں کر لی تھیں، اس کے باوجود یہاں‌ پہنچنے تک زخم سے خون مسلسل جاری تھا۔ 
مُجھے اپنا دل ڈوبتا ھوا محسوس ھوا۔ نومی اس وقت زندگی اور موت کے درمیان لٹک رھا تھا۔ یہ ھمارے لئے نہائت سنگین صُورتِ حال تھی۔ کسی بھی لمحے کچھ بھی ھو سکتا تھا۔ میرا بچپن کا وہ دوست جس کے ساتھ میں نے زندگی کے نہ جانے کتنے حسین پل بسر کئے تھے، جس کے ساتھ نہ جانے کتنی خوشیاں کتنے غم بانٹے تھے وہ اس وقت موت کے نرغے میں تھا۔ بس ایک سانس کی ڈور تھی جو ابھی تک اسے زندہ رکھّے ھوئے تھی، لیکن یہ ڈور بھی انتہائی کمزور پڑ چکی تھی اور کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتی تھی۔ پھر مجھے میرے فون پر ایک کال آتی اور کُچھ ایسے الفاظ سننے کو ملتے۔ " فیروز۔ نومی اب ھمارے درمیان نہیں رھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اُفّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نومی کی موت کا تصُوّر ھی کتنا جاں سوز، کِتنا رُوح فرسا تھا۔ میں ایک جُھرجُھری سی لے کر رہ گیا۔ 
اسی وقت میرے پردۂ تصوُّر پر نومی کے باپ کا چہرہ نمودار ھُوا ۔ اگر میں‌ نومی کے لئے اتنا جذباتی ھو رھا تھا، تو اس کے باپ کا کیا حال ھو گا۔۔ نومی اس کا اکلوتا بیٹا تھا،اس کی تمام تر امّیدوں کا محورو مرکز۔ اپنے جواں سالہ بیٹے کو موت کے منہ میں دیکھ کر اس بے چارے بُوڑھے کے دل پر کیا گزر رھی ھو گی۔ کہیں ایسا نہ ھو، کہ نومی کو اس حالت میں دیکھ کر اس سے پہلے اس کے باپ کو ھی کچھ ھو جائے۔۔۔۔۔۔۔
دُوسری طرف چوھدری کے اس عمل سے بھی صاف ظاھر تھا کہ اس نے نومی کے ساتھ دھوکا کیا تھا۔ رانا صاحب اور ملک صاحب کے سامنے تو وہ مجبوراً مان گیا تھا لیکن اب اس نے اپنا اصلی چہرہ ظاھر کر دیا تھا۔ اور ستم بالائے ستم یہ تھا کہ یہ واقعہ ایسے وقت میں‌ پیش آیا تھا جب رانا صاحب بھی یہاں پاکستان میں‌ موجود نہیں تھے۔ 
ویسے میں چوھدری کی دلیری پر حیران تھا۔ اس نے ملک صاحب کے ساتھ یہ معاھدہ کیا تھا کہ وہ نومی سمیت کسی بھی بڑے معاملے میں‌ الیکشن سے پہلے ھاتھ نہیں‌ ڈالے گا، لیکن ابھی چند روز ھی گزرے تھے، کہ اس نے وعدہ خلافی کر ڈالی تھی اور ایک انتہائی سنگین قدم اٹھا دیا تھا۔ گو کہ نومی کو گولی ڈانگر نے ماری تھی، لیکن اس کے درِ پردہ ھمیں چوھری صاف نظر آ رھا تھا۔ نومی کو چوھدری کی شہ کے بغیر ڈانگر یا اس کا کوئی بھی کارندہ گولی مار ھی نہیں سکتا تھا۔ 
یہ بھی تو ھو سکتا ھے، کہ چوھدری اور ملک صاحب درونِ پردہ مِل گئے ھوں۔ اگرچہ رانا صاحب کے ساتھ ملک صاحب کے اچھّے مراسم تھے، لیکن علاقائی سیاست کی اپنی ایک اھمیّت ھوتی ھے اور ملک صاحب اور چوھدری شاد اس سیاست کے فریق تھے جبکہ رانا صاحب ان کو یہاں کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے تھے۔ ھو سکتا ھے کہ آپس کے مفادات کو تحفّظ دینے کے نظرئے کے تحت ملک‌ صاحب نے بھی اندر ھی اندر چوھدری کو ”گرین سگنل“ دے دیا ھو۔ اگر چوھدری شاد ملک صاحِب کا مُحتاج تھا تو کئی مُعاملات میں ملک صاحِب بھی چوھدری کے مرھُونِ مِنّت تھے۔ آخِر ”نظرِیۂ ضرُورت“ بھی تو کوئی چِیز ھوتا ھے۔۔۔۔۔!
پھر میرے خیالات کا رُخ صنم کی طرف مُڑ گیا۔ کیاصنم کوبھی اس بات کی خبرھو گئی ھوگی ؟ اس پر اس نے کیا ردِ عمل دیا ھو گا ؟ کیا وہ نومی کی محبّت میں اپنے سگے باپ چوھدری شاد کے خلاف عَلَمِ بغاوت بُلند کرنے کا حوصلہ رکھتی تھی ؟صنم کے حوالے سے اور بھی نہ جانے کتنے ھی سوالات جنم لے رھے تھے لیکن ظاھر ھے فیضو اور نومی کے پاس پہنچنے کے بعد ھی ان سوالات کے جوابات مل سکتے تھے ۔ 
اسی طرح کے مُختلف خیالات تھے جو سارا راستہ میرے دل و دِماغ پر چھائے رھے۔ اور میں اپنے گاؤں کے نزدیکی شہر "نُورے والا" پہنچ چکا تھا۔ 
نورے والا ایک چھوٹا سا شہر تھا لیکن دو بڑے شہروں کو ملانے والی ایک بڑی سڑک پر واقع تھا اور یہاں دو بڑی فیکٹریوں کے عِلاوہ پاس ھی ایک ھاؤسنگ سوسائٹی بھی بن چکی تھی جس وجہ سے یہاں بہت سی جدید سہولیات موجود تھیں۔ نومی کو بھی یہاں کے ایک جدید ھسپتال میں‌ رکھّا گیا تھا۔ 
میں ھاسپٹل پہنچا تو سب سے پہلے نومی کا باپ ھی مُجھے ملا۔ میں‌ اسے دیکھ کر تڑپ اُٹھّا۔ رو رو کر اس کی آنکھیں سُرخ ھو چُکی تھیں۔ آنسُو مسلسل بہ بہ کر اُس کے گالوں پر جیسے جم سے گئے تھے۔ وہ بے چارہ آگے بڑھا اور میرے سینے سے لگ کر بچّوں کی طرح بِلک بِلک کر رونے لگا۔ اس کی حالت دیکھ کر میرا ضبط جواب دینے لگا۔ قریب تھا کہ میں‌ بھی اپنا حوصلہ کھو بیٹھتا، اچانک پیچھے سے کسی نے میرے کاندھے پر ھاتھ رکھ دیا۔ میری وہ کیفیّت ٹُوٹ گئی اور میں‌ نے پِیچھے مُڑ کر دیکھا۔ وہ فیضُو تھا۔ اس کے ھاتھوں میں‌ کچھ ادویّات تھیں۔ اُس نے میری آنکھوں میں‌ موجُود نمی دیکھ کر یقیناً میری دلی کیفیّت بھانپ لی تھی۔ اُس نے مُجھے اشارہ کیا گویا سمجھا رھا ھو کہ نومی کے باپ کے سامنے اپنے آپ پر قابُو رکھنا ھو گا۔ 
میں نے اس کا اِشارہ سمجھتے ھُوئے اثبات میں سر ھِلا دِیا۔ اس نازُک صُورتِ حال میں نومی کے باپ کو سنبھالنے کی ذِمّہ داری بھی ھمیں ھی نِبھانا تھی۔ 
میں دل کڑا کرکے نومی کے باپ کو تسلّی دینے لگا۔ چند منٹ تک وہ ایسے ھی میرے سینے سے لگا روتا رھا، پھر فیضُو نے اسے سہارا دے کر ایک بنچ پر بِٹھا دیا۔ میں بھی اس کے ساتھ ھی بیٹھ گیا تھا۔ اسی اثنأ میں بلال بھی واش رُوم سے نکل آیا۔ وہ مُجھ سے پہلے ھی پہنچ چُکا تھا۔ ھم دونوں پُر نم آنکھوں سے بغل گیر ھوگئے، لیکن ضبط کا دامن بھی دونوں نے تھامے رکھّا۔ 
کُچھ دیر تک میں وہیں بیٹھا رھا، اس دوران نومی کا باپ کبھی نومی کو تو کبھی چوھدری کو کوسنے دیتا رھا۔ اِتنا تو وہ بھی سمجھ رھا تھا کہ نومی پر ٹُوٹنے والی اس قیامتِ صُغریٰ کا سبب صنم کی ذات تھی۔ اس کے مُطابِق نومی اورصنم کے درمیان شُرُوع ھونے والی کہانی ھی نومی کی اس حالت کا نُقطۂ آغاز تھی۔ 
ھم تینون اُسے اپنے اپنے انداز میں تسلّیاں دے رھے تھے۔ پھر جب نومی کے باپ کی حالت کُچھ سنبھل گئی، تو میں نے فیضُو کو ساتھ لیا اور ھسپتال کے لان میں ایک پُر سکُون گوشے میں بیٹھ گیا۔ بلال بھی وھیں آ رھا تھا۔ 
فیضُو نے ھمیں تفصیل سے آگاہ کیا۔ اُس کے مُطابق ڈانگر نے الزام لگایا تھا کہ نومی نے اس کی جواں سالہ بھتیجی کو اُس وقت سرِ عام چھیڑا تھا اور اس سے زبردستی کرنے کی کوشش کی تھی، جب وہ کھیتوں کی طرف جا رھی تھی۔ ڈانگر بھی دُور سے یہ سب دیکھ رھا تھا۔ ڈانگر کی غیرت نے یہ گوارہ نہ کیا اور اس نے نومیکے پاس پہنچ کر اس پر فائر کھول دیا۔ اس سے زیادہ تفصیل فیضُو کو بھی معلُوم نہیں تھی، کیوُنکہ اس کے بعد وہ نومی کو لے کر ڈاکٹر کے پاس آ گیا تھا۔ 
بڑی ھی گھسی پِٹی قِسم کی کہانی بنائی گئی تھی۔ اتنا تو ھمیں سمجھ آ چُکا تھا کہ یہ ساری کاروائی ایک منصوبہ بندی کے تحت کی گئی تھی۔ اور اب مُجھے گاؤں کے ایک دوست کے توسُّط سے یہ بھی پتہ چل چُکا تھا کہ ملک صاحب بھی در پردہ چوھدری کو اپنے مُکمّل تعاوُن کا یقین دلا چُکے تھے۔ 
گویا میرا شک درُست نکلا تھا۔ 
چوھدری نے ملک صاحب کو اعتماد میں لے کر ھی یہ کام کیا تھا۔ ویسے انہوں نے زبردست چال چلی تھی۔ کمال ھوشیاری سے کام لیتے ھُوئے رانا صاحب کے سامنے چوھدری کو منا لیا تھا۔ رانا صاحب کے مُطالبے کی منظُوری کے بعد اُنہیں وہاں سے مُطمئن کر کے بھیج دیا تھا۔ اور جب بعد میں رانا صاحب مُلک سے باھر چلے گئے تو اُنہوں نے اپنا داؤ چل دیا تھا۔ 
ھم سمجھ چُکے تھے کہ یہ چوھدری کا سوچا سمجھا منصُوبہ تھا جس پر اس نے ڈانگر کے ذریعے عمل کروایا تھا تا کہ ملک صاحب اور رانا صاحب کے سامنے سچّا ھو سکے۔ اس نے ھماری اور خاص طور پر رانا صاحب کی پاکستان میں غیر موجُودگی میں غضب کی چال چلی تھی ۔
صنم کے حوالے سے فیضُو کو کُچھ معلُوم نہیں تھا۔ ھم اُٹھ کر ایک مرتبہ پھر سے اندر آ گئے۔
************************************************** ******************** ایک جنگ اندر جاری تھی تو باھر بیٹھے ھم سب کے اندر بھی ایک جنگ جاری تھی۔ اندر ڈاکٹر نومی کی زندگی بچانے کے لئے موت سے جنگ کر رھے تھے تو باھر ھم سب کےدل بھی ایک خوف کے تحت دھل رھے تھے اور ھم سب اپنے تئیں اُس خوف سے نبرد آزما تھے۔
جتنی دیر ڈاکٹر اندر آپریشن کرتے رھے، ھم چاروں افراد باھر ھی موجُود رھے۔ گاؤں کا ڈاکٹر ھمارے اصرار پر چند گھنٹے قبل واپس چلا گیا تھا۔ نومی کے باپ کو ھم نے آرام کرنے کے لئے بہت مرتبہ کہا، لیکن وہ اس جگہ سے قدم تک ھلانے کو تیّار نہیں ھُوا۔ آخر ھم چُپ ھو گئے۔
وہ گھڑیاں بہت صبر آزما تھیں ۔ لیکن جیسے تیسے کر کے کٹ ھی گئیں ۔ 
آخر ھمیں رات کے کسی پہر ڈاکٹر نے یہ نوید سُنائی کہ نومی کی حالت اب کُچھ بہتر ھونے کے امکانات پیدا ھو رھے ھیں۔ اب سے پہلے تک اُس کی سانس اُکھڑ رھی تھی، لیکن اب یہ سلسلہ رُک گیا تھا جو کہ ایک مُثبت اشارہ تھا۔ لیکن ابھی بھی خطرہ مُکمّل ٹلا نہیں تھا۔۔۔۔۔ بس نومی کی فوری موت کا خطرہ ٹل گیا تھا۔ 
ھمارے لِئے یہ بھی بہت بڑی خوش خبری تھی۔ نومی کا باپ پہلے تو روتا ھُوا سجدے میں گِر گیا۔ کتنی ھی دیر تک تو وہ سجدے میں ھی پڑا اپنی گُلوگِیر آواز میں خُدا کا شُکر ادا کرتا رھا۔ ڈاکٹر اس دوران خاموش کھڑا رھا۔ پِھر نومی کا باپ اُٹھّا، اور ڈاکٹر کے گلے لگ گیا۔ ڈاکٹر نے بھی اُسے اپنے ساتھ چمٹنے دیا اور ساتھ ھی تسلّی بھی دی۔ 
اب نومی کے باپ نے نومی کو دیکھنے کی خواہش ظاھر کی، لیکن ڈاکٹر نے اِس سے معذُوری ظاھر کر دی۔ اُس کے مُطابِق ابھی نومی ڈاکٹرز کی نِگرانی میں ھی تھا۔ اور یہ سب اقدامات نومی کی زندگی بچانے کے لئے کئے جا رھے تھے۔ نومی کا باپ خاموش ھو گیا۔ آُس کی آنکھیں پُر نم تھیں، لیکن اب اُس کی حالت میں پہلے سے کافی فرق نطر آ رھا تھا۔ اس کے چہرے پر حوصلہ صاف نظر آ رھا تھا۔ 
اب ھم نے نومی کے باپ کو سونے پر قائل کر ھی لیا۔ ھمیں بھی اب سخت نیند آ رھی تھی۔ ھمیں جہاں جگہ مِلی، وھیں لیٹ گئے۔
************************************************** ******************** 
صنم اس وقت اپنی بڑی بہن کے گھر میں موجُود تھی۔
اس کی بڑی بہن کا نام شازیہ تھا۔ اس کی شادی قریباً پانچ سال قبل لاھور میں ھوئی تھی ۔ اس کا شوھر عدنان بھاری تنخواہ پر نوکری کر رھا تھا ۔ وہ لوگ شہر کے ایک پوش عِلاقے میں رھتے تھے۔ شائِد قِسمت کی بات تھی کہ ابھی تک اُن کی گود ھری نہیں ھوئی تھی۔ 
صنم اپنے کمرے میں ھی لیٹی رھتی تھی۔ اس کو نہ اپنے کپڑوں کی صفائی کا ھوش تھا نہ ھی اپنے بناؤ سنگھار پر توجّہ تھی۔ اس کی آنکھوں سے اکثرو بیشترآنسوؤں کا ایک سیلاب جاری رھتا۔ اس کی بہن نے اسے کئی مرتبہ سمجھایا، اپنا خیال رکھنے پر زور دیا تھا لیکن صنم جیسے اس کی بات سُنتی ھی نہیں تھی۔ آج بھی شازیہ نے اسے سمجھایا تھا لیکن صنم نے حسبِ معمُول کوئی توجّہ نہیں دی تھی اور شازیہ کا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔ صنم سے اُسے شدید مُحبّت تھی۔ ویسے تو صنم گھر میں سب کی ھی لاڈلی ھُوا کرتی تھی، لیکن شازِیہ نے خُصوصاً صنم کا بے انتہا خیال رکھّا تھا۔ جب بھی صنم رو رھی ھوتی، شازیہ کو صنم کا بچپن یاد آ جاتا جب صنم کی خوشی کے لئے کئی کئی مرتبہ اس نے نہ جانے کتنی مشقّتیں اٹھائی تھیں۔ نہ جانے کِتنی مرتبہ اپنے آپ کو ھلکان کِیا تھا، صنم بھی زیادہ تر اُسی سے اپنے لاڈ اٹھواتی تھی اور وہ خصوصاً اس کے آگے پیچھے پھرتی رھتی تھی۔ اس تمام تر محنت کا مقصد صنم کی صِرف ایک مُسکُراھٹ ھُوا کرتا تھا اور آج وھی صنم ایک خِزاں رسیدہ درخت کی طرح مُرجھائی ھوئی اس کے سامنے تھی۔
شازیہ کو صنم اور نومی کی ساری کہانی معلوم ھو چُکی تھی۔ اس نے صنم سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی تھی لیکن آج وہ صنم سے بات کرنے کا پکّا فیصلہ کر چُکی تھی۔
اس نے تمام نوکروں کو گھر سے باھر بھیج دیا اور صنم کو لے کر لان میں آ گئی۔ چائے اور کُچھ نِمکو بھی ساتھ لے لی۔ صنم کو نِمکو کے ساتھ چائے بے حد پسند رھی تھی۔ 
دونوں بہنیں لان میں موجود تھیں۔ صنم دُور کہیں دیکھ رھی تھی اور شازیہ اس کی آنکھوں میں نظریں جمائے ھوئے تھی۔ شازیہ کے بے حد اصرار پر صنم نے چائے تو پی لی تھی لیکن نِمکو کی طرف دیکھا تک نہیں تھا۔ شازیہ نے اُسے یاد دِلایا تو صنم نے ”جی اچھّا“ کہ کر جیسے بات ختم کر دی۔ 
شازیہ نے سوچا۔ ” ایسے تو یہ کبھی کھُل کر بات نہیں کرے گی۔ اس سے سیدھی سیدھی بات کی جائے تو بہتر ھو گا۔
اب شازیہ نے اُسے اپنی طرف دیکھنے کا کہا، اور جونہی صنم نے آنکھیں اُٹھّا کر اُس کی آنکھوں میں دیکھا، شازیہ نے سوال داغ دیا۔ 
یہ نومی کا اور تُمھارا کیا مُعاملہ چل رھا ھے ؟
سوال اتنا غیر مُتوقّع اور اچانک تھا کہ صنم اپنے تاثّرات چُھپا نہ سکی۔ پہلے تو اُس سے بات ھی نہ ھو سکی، اور جب اُس نے اپنی بہن کی طرف دیکھ کر کُچھ کہنا چاھا، تو جیسے زُبان نے ساتھ چھوڑ دیا۔
صنم شرمندگی سے سر جُھکا کر رہ گئی۔ اُس کے ھاتھوں کی اُنگلیاں باھم پیوست تھیں اور وہ اُنہیں بِلا مقصد آپس میں توڑ مروڑ رھی تھی۔ 
شازِیہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر گئی۔ صنم کے چہرے کے بدلتے رنگ اور گھبراھٹ و شرمِندگی سے جھُکے سر سے شازیہ کو اپنے سوال کا جواب مِل چُکا تھا۔ اُس کا مقصد صنم کو شرمندہ کرنا ھر گِز نہیں تھا ۔ وہ تو بس صنم سے اس بات کی تصدیق چاھتی تھی کہ کیا صنم واقعی نومی سے مُحبّت کرتی تھی۔
اور نومی کا نام سُننے کے ساتھ ھی صنم کے چہرے پر پھیلتی گھبراھٹ اور اس کا شرمندگی سے جھُکا ھُوا سر اس بات کے ثُبُوت تھے کہ یہ خبر جھُوٹی نہیں تھی۔ 
صنم بھی نومی کی محبّت میں غرق تھی اور اُس کی اس ابتر حالت کی وجہ بھی یہی مُحبّت تھی۔ 
دیکھو صنم۔ میں مانتی ھُوں کہ یہ عُمر ھوتی ھی ایسی ھے کہ کوئی لاکھ سمجھائے لیکن عشق کا بھُوت سر چڑھ جائے تو بندہ کِسی کی نہیں سُنتا۔ لیکن میں بڑی بہن ھونے کے ناطے کُچھ پُوچھنا چاھتی ھُوں۔“ 
اس کے بعد صنم نے اس سے چند عام سے سوال پوچھنا شروع کر دِئے۔ صنم پہلے تو اس کے سوالوں پر حیران ھوئی لیکن جب اس نے شازیہ کے چہرے پر دوستانہ تأثّرات دیکھے تو اُسے جواب دینے میں آسانی ھوگئی۔ وہ اب قدرے روانی سے شازیہ کے سوالوں کے جوابات دے رھی تھی۔ شازیہ اس سے نومی کے مُتعلّق پُوچھ رھی تھی۔ پھر اس کے سوالات کا رُخ مُلاقاتوں کی طرف مُڑ گیا۔ صنم نے اُسے مُلاقاتوں کا مُختصراحوال بھی سُنا دِیا، بس وہ اپنی چُدائی والی کہانی گول کر گئی تھی۔ اس نے ننھی کے تعاون کا بھی بتا دیا تھا ۔ کئی باتیں ھوئیں۔ صنم اب اس سے کھُل کر نومی کے موضوع پر بات کر رھی تھی۔ شازیہ نے اب اصل سوال کرنے کا فیصلہ کیا اور صنم کی آنکھوں میں دیکھتے ھُوئے بالکل اچانک، سوال کر دیا 
صنم، کیا نومی پراپنا سب کُچھ لُٹا بیٹھی ھو یا کُچھ اپنے پاس بچا کر بھی رکھّا ھُوا ھے ؟
سوال گو کہ سیدھی طرح سے نہیں پُوچھا گیا تھا لیکن صنم اس سوال کا مطلب اچھّی طرح سمجھ گئی تھی اور جواب دینے کی بجائے صنم کا سر جھُک گیا۔ اس کے چہرے پر در آنے والی سُرخی شازیہ کو جواب سمجھانے کے لئے کافی تھی۔ 
شازیہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔ 
گویا صنم نومی سے۔۔۔۔۔ اس سے آگے سوچ کر ھی اُسے اُبکائی آنے لگی۔
صنم کسی مُجرِم کی طرح سر جھُکائے بیٹھی تھی۔ اچانک وہ اُٹھّی اور شازیہ کے قدموں میں گِر گئی۔ وہ بِلک بِلک کر رو رھی تھی اور ساتھ بولے بھی جا رھی تھی۔ 
آپا۔ مُجھے مُعاف کر دو آپا۔ مُجھ سے بہُت بڑی غلطی ھو گئی آپا۔ مُجھے مُعاف کر دو آپا۔
صنم اپنی بہن کے قدموں میں لوٹ رھی تھی۔ اس کے پیر پکڑ کر مُعافی مانگ رھی تھی۔ 
مُجھے مُعاف کر دو پیاری آپا۔ اگر سزا بھی دینا چاھو تو دے لو آپا، مگر ایک بار، بس ایک بار مُجھے میرے نومی سے مِلوا دو آپا۔ میں، میں اُس سے بہت مُحبّت کرتی ھُوں آپا۔ سچّی ًمُحبّت کرتی ھُوں میں آپا۔ کئی دِنوں سے اُسے دیکھنے کو ترس گئی ھُوں آپا۔ مُجھ پر رحم کرو آپا، ورنہ ، ورنہ میں مر جاؤں گی آپا۔ اس طرح میں مر جاؤں گی آپا مر جاؤں گی۔ بس ایک بار میرے نومی سے مِلوا دو میری پیاری آپا۔
شازیہ اس کے اس عمل اور نئے مُطالبے سے اور بھی پریشان ھو گئی اور اس کے الفاظ سُن کر تو شازیہ حیرت کے سمندر میں ڈُوب گئی تھی۔ اسے صنم کے خاموش اعترافِ جُرم سے غُصّہ ضرور آیا تھا لیکن وہ سمجھ دار تھی۔ جانتی تھی کہ اس عُمر میں اِنسان کا ڈگمگا جانا کوئی بہت زیادہ انوکھی بات نہیں ھوتی، لیکن صنم اس سے جو مُطالبہ کر رھی تھی وہ نا مُمکن تھا۔ اگرچہ صنم اُسے بہت زیادہ پیاری تھی اور وہ ھمیشہ سے صنم کی ھر مانگ پوری کرنے کی کوشش کرتی رھی تھی لیکن اب کی بات اور تھی۔ اب صنم اس سے کوئی کھِلونا نہیں، بلکہ نومی مانگ رھی تھی اور شازیہ بے چاری اتنی با اختیار ھر گز نہیں تھی کہ صنم کی یہ مانگ پُوری کر سکے خُصُوصاً جب اس کا سگا باپ چوھدری شاد اس مُعاملے کی سب سے بڑی دیوار بن کر کھڑا تھا۔
بے بسی کے احساس کے ساتھ ھی اُس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسُو نِکلے اور اس کے گالوں پر بہ گئے۔ 
فوراً اُسے احساس ھُوا، کہ صنم نے اُس کے سامنے کِتنا سنگِین قِسم کا اعترافِ جُرم کِیا ھے۔۔۔۔۔۔ 
صنم مُسلسل اس کے قدموں میں بیٹھی ھوئی تھی اور اس کی فریاد بھی جاری تھی۔ 
غلطی ھو گئی۔۔۔؟ جانتی بھی ھو، یہ کِتنی بڑی اور سنگِین غلطی ھے۔۔۔؟ اور اس کی قیمت بھی جانتی ھو تُم۔۔۔؟ تُمہیں ذرا بھی شرم نہیں آئی صنم، خاندان کی عِزّت مٹّی میں مِلاتے ھُوئے ۔ ۔ ۔ ؟ کل کو شادی کِس سے کرو گی، اور اپنے شوھر کو کیا مُنہ دِکھاؤ گی تُم۔۔۔ کیسے سامنا کرو گی اپنے شوھر کا پہلی رات کو ؟
آپا، اس مُعاملے کا حل بہت آسان ھے۔ ھم سے غلطی ضرُور ھوئی ھے لیکن میں اور نومی اس غلطی کا ازالہ کر سکتے ھیں۔صنم نے سر اُٹھاتے ھوئے پُر نم آنکھوں سے اُسے دیکھتے ھوئے کہا۔ شازِیہ استفہامِیہ انداز سے اُسے دیکھنے لگی۔ 
ھاں آپا۔ نومی مُجھ سے شادی کرنے کو راضی ھے آپا۔ اگر ایسا ھو گیا، تو پِھر یہ ڈر، ڈر نہیں رھے گا آپا۔ تُم کسی طرح مُجھے میرے نومی سے مِلوا دوآپا۔۔
اب صنم پِھر اُس کے قدموں پر سر جھُکا کر مُلتجی لہجے میں فریاد کُناں بن گئی۔ 
آپا میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی آپا۔ وہ بھی مُجھے بہت چاھتا ھے آپا۔
اب صنم نے پِھر سے سر اُٹھایا۔
جانتی ھو آپا، ابّے نے اُسے کئی دن تک قید رکھّا، اس پر ظُلم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ نہ جانے کتنا مارا اُسے لیکن وہ آج بھی میری مُحبّت کا دم بھرتا ھے آپا۔ اب ابّے نے اُسے گولی مروا دی ھے آپا۔ اور اس سب کی ذمّہ دار مَیں ھُوں آپا مَیں۔ اگر اُسے کُچھ ھو گیا ناں آپا، تو میں بھی خُود کُشی کر لُوں گی آپا۔ ھاں آپا۔ میں زھر کھا لُوں گی ۔
اس بات پر شازیہ نے اُسے کندھوں سے جھٹک کر اُٹھایا اور تیزی سے کھڑی ھو گئی۔ صنم سر جھُکائے کھڑی رو رھی تھی۔ شازِیہ بے بسی اور غُصّے کے مِلے جُلے تأثّرات سے اُسے دیکھ رھی تھی۔ اُس وقت اُسے صنم پر بے انتہا غُصّہ بھی آ رھا تھا اور ساتھ ھی بے تحاشہ پیار بھی آ رھا تھا۔ 
کُچھ دیر تک ایسے ھی دیکھتے رھنے کے بعد شازیہ نے اس کا چہرہ ٹھوڑی سے اُٹھایا ۔ صنم کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ صنم نے نم آنکھوں سے اُسے دیکھا، شازیہ نے اُس کی آنکھوں میں‌ جھانکا، اور پیار غُصّے پر غالِب آ گیا۔ 
دونوں بہنیں تڑپ کر ایک دُوسری کے گلے لگ گئیں ۔ اب وہ دونوں ھی رو رھی تھیں۔ فرق صِرف اتنا تھا، کہ صنم اپنے دِل کے ھاتھوں مجبُور ھو کر رو رھی تھی، اور شازِیہ اپنی بہن کو اِس حالت میں تڑپتا دیکھ کر رو رھی تھی۔ 
آنسوؤں کا سیلاب کُچھ تھم گیا تو شازیہ نے اُسے تھپکی دیتے ھوئے کہا۔ ”چل اندر چل۔ میں تُجھے چائے پِلاتی ھُوں۔ وھیں کِچن میں باتیں کریں گے۔ چل شاباش۔ چل میری پیاری بہن۔
صنم اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔ شازیہ نے اس سے ھلکی پھُلکی باتیں جاری رکھیں اور کُچھ ھی دیر میں صنم اس جذباتی کیفیّت سے کسی حد تک نِکل آئی۔ اب اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نہ ھونے کے برابر تھے۔ 
در اصل صنم کی خود کُشی والی بات سے شازیہ گھبرا گئی تھی۔ اس نے سوچا کہ صنم سے اس موضُوع پر فی الحال مزید بات کرنا خطرناک ھو گا۔ اس کا خیال تھا کہ جب صنم اس جذباتی لمحے سے نِکل آئے گی تب اس سے مزید بات کرنا بہتر ھو گا اور تب وہ اس کی بات سمجھ بھی سکے گی۔ 
شازیہ نے اس موضُوع کو کسی اور وقت کے لِئے اُٹھّا رکھّا۔ 
************************************************** *****************
ھمیں کوئی راہ سُجھائی نہیں دے رھی تھی۔ اُس وقت رانا صاحب ھمیں‌ بڑے یاد آئے۔ 
میں نے گاؤں کے چند دوستوں کے ساتھ رابطہ کیا۔ ان میں ایک دو لڑکیاں بھی شامل تھیں ۔ ایک عورت سے بھی مدد کی درخواست کی۔ در اصل میں چاھتا تھا کہ وہ کسی بھی طرح سے صنم کے ساتھ یا تو ھماری بات کروا دیں، یا کم از کم اُس سے بات کرکے اُس تک ھمارا ایک پیغام ھی پہنچا دیں ۔ 
بعد میں پتہ چلا، کہ اُن میں سے کوئی بھی ھماری مدد نہیں کر سکتا، کیونکہ صنم کو اس کے باپ نے اپنی بڑی بیٹی کے پاس پہنچا دیا تھا، اور چند ھی دنوں میں وہ اپنی بڑی بیٹی کے سُسرال میں ھی اس کی بھی شادی کرنے والا تھا۔ 
چوھدری نے جنگ کی اس بساط پر کمال ھوشیاری سے اپنے مُہرے بِچھا لِئے تھے۔ ھمارے کِسی بھی پیادے کے لِئے کوئی راستہ نہیں‌ چھوڑا تھا ۔ 
صاف لگ رھا تھا کہ ھمیں اس شطرنج نُما بازی میں بڑی شکست ھونے والی تھی ۔
نومی کی صحّت اب قدرے بہتر لگ رھی تھی۔ ڈاکٹرز کے مُطابق اُسے دو دن مزید ھسپتال میں رُکنا تھا۔ اس کے بعد اُسے چھُٹّی دے دی جاتی۔ یہ خبر ھمارے لِئے خاصی حوصلہ افزأ تھی۔ 
************************************************** ************************
دُوسرے دِن شازیہ اور صنم پھِر سے ایک دوسری کے سامنے بیٹھی تھیں اور شازیہ نے اب کی بار حتمی بات چیت کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ جلد سے جلد اس کہانی کو کسی کنارے تک پہنچانا چاھتی تھی۔ وہ اپنی بہن کو اس کرب سے نکالنا چاھتی تھی۔ 
دیکھو صنم۔ تُم نے جو کرنا تھا کر لیا، لیکن ۔۔۔۔
صنم سر جھُکائے بیٹھی تھی۔ ایک سانس لینے کے بعد شازِیہ نے سلسلۂ کلام جوڑتے ھُوئے کہا۔ ” اب آگے کی سوچو، کہ آگے کیا کرنا ھے۔ ابّے کو تُم اچھّی طرح جانتی ھو۔ وہ مر تو سکتا ھے لیکن اپنی کسی بھی بیٹی کے حوالے سے ایسی کوئی بات کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ تُمہیں ایسا قدم اُٹھانا ھی نہیں‌ چاھئے تھا، چوھدری شاد کی بیٹی اورگاؤں کے ایک عام سے کِسان کے بیٹے سے سرِعام عِشق لڑائے، یہ ابّے سے کیسے برداشت ھو سکتا تھا ۔ کبھی کبھی تو میں حیرت سے سوچتی ھُوں کہ ابّے نے تُجھے زِندہ کیسے چھوڑ دِیا۔۔۔۔۔؟ اب جانتی بھی ھو ابّے نے کیا فیصلہ کِیا ھے تیرے مُتعلّق ؟ وہ تیری شادی کر رھا ھے اور وہ بھی عدنان کے بھائی مُودے سے۔ وھی مُودا جِسے اپنا ناک صاف کرنے کی بھی تمیِز نہیں ھے۔
اور صنم کا سر میکانکی اندز میں شازیہ کی طرف اُٹھ گیا۔ اُس کی آنکھیں‌ پھٹی کی پھٹی رہ گئِیں۔ 
تو گویا اس کے باپ نے اس کی تقدیر کا فیصلہ صادر کر دیا تھا۔ 
لیکن ابّا جانتا نہیں، کہ صنم کی مرضی کے بغیر اس کا جنازہ تو اُٹھ سکتا ھے، ڈولی نہیں۔“ یہ جُملہ اُس کے دماغ میں‌ گُونجا تھا جس کے ساتھ ھی اس کے چہرے پر ایک زھریلی مُسکُراھٹ پھیل گئی تھی ۔ 
شازیہ نے اپنی بات جاری رکھّی۔ 
صنم، میری پیاری بہن صنم۔ بات کی سنگینی کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ کوئی فِلم یا کہانی نہیں ھے۔ تُمھاری خواھش مُمکن نہیں ھے۔ ابّا ھر گِز ایسا ھونے نہیں دے گا۔ اگر جلد تُم نے اپنے آپ کو نہ سمجھایا تو پھِر وہ ھو سکتا ھے جو ابھی تک نہیں ھُوا۔ ۔ ۔ پلِیز صنم، حالات کی سنگِینی کو سمجھنے کی کوشِش کرو۔ اگر تُم ابّے سے مُعافی مانگ لو، تو میں بھی ابّے کے پیر پکڑ کر مُودے سے تیری شادی رُکوانے کی پُوری کوشِش کرُوں گی۔ پھر ُمناسب وقت اور حالات دیکھ کر تیری شادی دھوم دھام سے کسی اچھّی جگہ پر کروا دوں گی ۔ میری بہن، مُعافی مانگ لو گی تو کم از کم زِندہ تو رھو گی ناں۔ ورنہ تُم بھی جانتی ھی ھو ھمارا باپ کِتنا سنگ دِل ھے ۔ وہ تُمھیں اپنے ھاتھوں سے ذبح کر دے گا لیکن نومی کے ھاتھ میں‌ تُمھارا ھاتھ کبھی نہیں دے گا۔ وہ تُمھیں سچّ مُچ مار دے گا صنم ۔“ شازِیہ نے اُسے ڈرانے کی کوشِش کی، اور آخری جُملہ کہتے ھُوئے شازِیہ کی آواز واقعی کانپ گئی تھی، جیسے اس کے تصوُّر میں چوھدری شاد واقعی صنم کا گلا گھونٹے اُسے مارنے کے درپَے تھا۔ 
لیکن اُسے معلُوم نہیں‌ تھا کہ صنم اب اس طرح کے ھر خوف سے بے نیاز ھو چُکی ھے۔ اب اُس کے سامنے اس طرح کی ڈراؤنی باتیں بے معنی تھیں۔ 
مارنا ھے تو مار دے۔“ صنم جیسے پھٹ پڑی۔ ”کر دے ذبح اپنے ھاتھوں سے۔ اب میں مرنے ورنے سے نہیں ڈرتی آپا۔ ابّا کیا سمجھتا ھے آپا، کہ اس طرح سے وہ مُجھے اپنے فیصلے کے سامنے جھُکا لے گا یا میرے دِل سے اُس کی مُحبّت نِکال پائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔ نہیں‌ آپا نہیں ۔ یہ ابّے کی غلط فہمی ھے۔ بہت سہ لئے ابّے کے ظُلم، بہت برداشت کر لیں ابّے کی من مانیاں۔ لیکن اب نہیں۔ ھاں آپا، اب اور نہیں۔ صنم اب نومی کی ھے، اور نومی کی ھی رھے گی۔ اوراگر اِس محبّت میں‌صنم کی جان چلی بھی جائے تو کوئی پروا نہیں ھے آپا۔ لیکن اب میں ابّے کے غلط فیصلوں کے سامنے سر نہیں جُھکا سکتی۔ میری شادی وھیں ھو گی جہاں میں چاھُوں گی، اور اگر میری شادی نومی سے نہیں ھو سکتی، تو ابّے کے گھر سے میرا صِرف جنازہ ھی اُٹھّے گا آپا۔
تب اچانک ھی صنم نے یک لمحاتی توقُّف کے بعد ایک عجِیب بات کہ دی۔
میں آپ کی طرح ابّے کے غلط فیصلے کی بھینٹ نہیں چڑھُوں گی آپا۔
اور شازِیہ کی آنکھیں کھُلی کی کھُلی ھی رہ گئیں۔ صنم تو اس کے بعد اُٹھ کر اندر چلی گئی اور شازیہ وہیں بیٹھی جیسے ماضی میں کھو سی گئی۔ 
یہ سچّ تھا کہ شازِیہ بھی چوھدری شاد کے عتاب کا شَکار ھُوئی تھی۔ اس نے بھی مُحبّت جیسے سنگین جُرم کا ارتکاب کِیا تھا۔ اسے بھی گاؤں کے ھی ایک نوجوان سے مُحبّت ھو گئی تھی جس کا نتیجہ اس نوجوان کی گاؤں بدری اور شازیہ کی اچانک شادی کی صُورت میں نِکلا تھا۔ بعد میں وہ نوجوان شہر میں ھی کسی ٹرک کے نیچے آ کر مر گیا تھا۔ لیکن شازیہ جانتی تھی کہ یہ کام بھی اُس کے سگے باپ چوھدری شاد نے ھی کروایا تھا۔ لیکن یہ باتیں عراصہ پُرانی تھیں، اب تو شازیہ بھی جیسے اس قصّے کو فراموش کر بیٹھی تھی، وقت نے تمام زخم مندمل کر دِئے تھے۔ یہ سب پُرانی باتیں تھیں اور وہ سمجھتی تھی کہ صنم تو اس قصّے سے قطعی واقف نہیں ھو گی۔ 
لیکن صنم نے اس کا خیال غلط ثابت کر دیا تھا۔
صنم نے اس کے ماضی کو پھِر سے جیسے زندہ کر دیا تھا۔ اُس کے رُوح فرسا زخم جو وقت کی سِلائی نے لمحہ لمحہ ٹانکے تھے، صنم نے ایک ھی جھٹکے میں وہ سب بخِئے اُدھیڑ دِئے تھے۔ اس کے مندمل زخم جیسے پھر سے ھرے ھو گئے تھے۔ 
شازِیہ اس دن خُوب روئی۔ جب دِل کُچھ ھلکا ھو چُکا، تو خیالات کے در وا ھونا شُرُوع ھو گئے۔ وہ سارا دِن اپنے کمرے میں بند رھی ۔ اس کا دماغ مُختلف خیالات کی آماجگاہ بنا رھا۔ مُسلسل سوچ بچار کے بعد ، آخر ایک بڑے فیصلے پر پہنچ کر وہ کمرے سے باھر آ گئی۔ اب اُسے اپنے شوھر کا انتظار تھا۔ 
شام کو اس کا شوھر جلد ھی گھر آ گیا تھا۔ وہ کئی دنوں سے کراچی گیا ھوا تھا اور آج صُبح ھی لاھور پہنچا تھا۔
جونہی وہ کمرے میں داخل ھوا ایک بھینی سی خوشبو نے اس کا استقبال کیا اور اس کے چہرے پر بے اختیار ایک مسکراھٹ پھیل گئی۔ یہ اس کی پسندیدہ خوشبو تھی۔ بیڈ پر پھول ھی پھول بکھرے ھوئے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے شازیہ نے خاص طور پر یہ اھتمام کیا تھا۔ 
اور عدنان اس اھتمام کا مقصد اچھّی طرح سے جانتا تھا۔ 
شازیہ اسی دن ایسا اھتمام کرتی تھی جب اُسے عدنان کی شِدّت سے طلب ھوتی تھی۔ اور آج تو ویسے بھی وہ دونوں ایک مہینے کے بعد بِستر پر مِلنے والے تھے۔ بِستر پر نظر پڑتے ھی مِیٹھے مِیٹھے بے لگام جذبے سر اُٹھانے لگے۔ یقیناً کُچھ ھی دیر کے بعد اس بِستر پر چُدائی کا ایک شاندار راؤنڈ کھیلا جانے والا تھا۔ عدنان بے اختیارمُسکُرا اُٹھّا۔ 
واش رُوم سے پانی گرنے کی آواز آ رھی تھی۔ یقیناً شازیہ نہا رھی تھی۔ اس نے ھاتھ بڑھا کر کمرے کا مرکزی دروازہ مُقّفل کر دیا۔ 
چند لمحوں کے بعد شازیہ باھر آئی تو عدنان نے دروازے سے ھی اسے پکڑ لیا۔ وہ اس وقت صرف ایک انڈر وِئر میں تھا۔ باقی کپڑے اس نے پہلے ھی اُتار دئے تھے۔ شازیہ اس اچانک حملے سے گھبرا گئی اور جب اسے صورت حال کا اندازہ ھوا تو وہ خود سپردگی کے انداز میں عدنان کے گلے سے لگتی چلی گئی۔ اچانک دروازے کا خیال آتے ھی اس نے عدنان کی طرف دیکھا، تو عدنان نے اسے اطمینان بھرا اشارہ کر دیا، جیسے سمجھا رھا ھو کہ فکر کی بات نہیں۔ 
وہ دونوں اب بیڈ پر ایک دوسرے کی بانھوں میں گُم ھوتے چلے جا رھے تھے۔ عدنان کے ھونٹ اس کے ھونٹوں کا رس پی رھے تھے۔ اس کے ھاتھ شازیہ کی قمیض کے اندر سے ھوتے ھوئے اس کے ثمرِجوانی پر پہنچ چُکے تھے۔ شازیہ مست ھوتی چلی جا رھی تھی۔ اب عدنان نے اس کے کان میں‌ کہا۔ ”جانِ من، یہ کپڑے تُمھارے جِسم پر اِس وقت بالکُل بھی اچھّے نہیں لگ رھے۔
اور شازیہ نے مُسکُراتے ھُوئے اُٹھ کر قمیض اُتار دی۔ عدنان نے اِشارہ کیا اور شازیہ نے اپنی شلوار بھی اُتار دی۔ اس نے نیچے ایک برا پہنا تھا جسے عدنان نے کھول دیا۔ اب وہ صرف ایک انڈر وِئر میں تھی۔ عدنان نے اپنا اور اس کا انڈر وئر بھی اُتار دیا۔ اس کی پھُدّی کے تمام فالتُو بال صاف تھے۔ عدنان کھِل اُٹھّا۔ اُسے صاف پُھدّی مارنا اچھا لگتا تھا اور شازیہ نے چُدائی کے راؤنڈ سے پہلے اس کی اس پسند کو یاد رکھّا تھا۔ 
اب وہ دونوں ننگے ھی لیٹے ھوئے تھے۔ عدنان شازیہ کے نیچے لیٹا تھا ، اس کے ھاتھ شازیہ کے مُموں پر مُسلسل مصروفِ عمل تھے۔ کبھی وہ اس کے مُمّوں کو منہ میں ڈال کر چوسنے لگ جاتا تو کبھی دانتوں سے ھلکا سا کاٹ بھی لیتا تھا۔ نیچے سے اس کی ٹانگیں بھی شازیہ کی ٹانگوں کے ساتھ رگڑ کھا رھی تھیں۔ وقفے وقفے سے وہ اپنے گھٹنے کو بھی اس کی ٹانگوں کے درمیان اور کبھی پھُدّی سے مس کر دیتا تھا۔ اس تمام کاروائی کے نتیجے میں شازیہ کی بے خودی بتدریج بڑھتی چلی جا رھی تھی۔ اس کی سانسیں دھونکنی کی طرح چل رھی تھیں۔ عدنان اس کے جسم سے نہ صرف خود مزہ لے رھا تھا بلکہ اسے بھی مست کر چُکا تھا۔اور اس کا اکڑا ھُوا لن نیچے سے شازیہ کے جسم پر بار بار مس ھو رھا تھا۔ اب تو شازیہ بار بار اپنی پھُدی اس کے لن پر رگڑ رھی تھی گویا اسے اندر آنے کی دعوت دے رھی ھو۔ ایک آدھ بار اس نے اندر لینے کی کوشش کرتے ھوئے سوراخ کو لن پر رکھا تو عدنان نیچے سے سرک جاتا جس کے نتیجے میں نشانہ خطا ھو جاتا اور شازیہ مصنوعی غُصّے سے اس کی طرف دیکھ کر رہ جاتی۔ عدنان اسے مزِید تڑپانا چاھتا تھا۔ آخر شازیہ سے رہا نہ گیا، اور اس نے مخمُور لہجے میں عدنان کے کان میں سرگوشی کی۔ 
کیوں تڑپا رھے ھو عدنان۔ کیا آگے کُچھ کرنے کا ارادہ نہیں ھے؟ صِرف چُوما چاٹی ھی کرو گے یا آگے بھی بڑھو گے ظالِم ؟
اور عدنان اس کے اس انداز پر بے اختیار مُسکُرا دیا۔ اب اس نے شازیہ کی حالت پر رحم کھاتے ھوئے اسے نیچے لٹا لیا اور اس کی ٹانگوں کے درمیان آ کر بیٹھ گیا۔ شازیہ کی پھدّی کب کی گیلی ھو چکی تھی۔ اس کی پُھدّی سے نِکلنے والا پانی اس کی رانوں پر بھی لگ چُکا تھا۔ خود عدنان کے لن سے بھی لیس دار مادّہ نِکل رھا تھا۔ اس نے شازیہ کی دونوں ٹانگیں کھول کر دائیں بائیں کر دیں، اس کی پھُدّی پر اپنا لن رکھّا، اور شازیہ کی طرف دیکھتے ھوئے ایک ھی جھٹکے میں سارا لن اندر کر دیا۔ شازیہ کے منہ سے ایک سِسکاری خارِج ھو گئی۔ اس نے آنکھیں بند کر لِیں، اور عدنان کے لن کو اپنی پُھدّی میں محسُوس کرنے لگی۔ 
وہ نیچے مزے سے لیٹی ھوئی تھی۔ اب عدنان کے عمل کا وقت تھا۔ اس نے آھستگی سے آگے پیچھے حرکت شُرُوع کی ۔ عدنان نے ایک ھاتھ سے اس کی ایک ٹانگ کو سنبھال رکھّا تھا جبکہ اسکا دوسرا ھاتھ شازیہ کے مُمّوں پر حرکت کر رھا تھا۔ کبھی وہ نرمی سے انہیں سہلانے لگتا، تو کبھی سختی سے کھینچنے لگ جاتا۔ نیچے سے اس کا لن بھی بار بار اس کی پھدّی کے اندر باھر ھو رھا تھا۔ شازیہ اس کے ھر ھر انداز سے مزہ کشید کر رھی تھی۔ 
عدنان نے چند منٹ تک ایسے ھی جھٹکے لگائے، اور پھِر شازیہ سے اپنی ٹانگیں‌ خود سنبھالنے کو کہا۔ شازیہ سمجھ گئی، کہ اب عدنان ھٹ ھٹ کر ”سٹ“ مارے گا۔ شازیہ نے اپنے ھاتھوں سے اپنی ٹانگیں پکڑ لیں اور انہیں مُمکنہ حد تک اپنے سینے کی جانب کھینچ کر لے گئی۔ اب عدنان کے دونوں ھاتھ آزاد تھے اور اس کے لن اور شازیہ کی پھُدّی کے درمیان حائِل شازیہ کی ٹانگیں بھی پیچھے کی طرف ھٹ چُکی تھیں۔ عدنان نے ایک بار پھر سے لن اس کی پھُدّی پر رکھّا، اور سارا اندر کر دیا۔ اب اس کی رفتار پہلے سے تیز تھی۔ وہ انتہائی جاندار قسم کے جھٹکے لگا رھا تھا اور شازیہ کے منہ سے مستی سے بھر پُور آوازیں بر آمد ھو رھی تھیں۔ عدنان کے ھاتھ بھی شازیہ کے سینے پر رینگ رھے تھے۔ 
عدنان کی رفتار بڑھتی ھی جا رھی تھی۔ شازِیہ تو مزے کی انتہاؤں پر پہنچ چُکی تھی۔ اچانک اُس نے اپنا جِسم اکڑایا، اور ڈھِیلا چھوڑ دیا۔ عدنان سمجھ گیا، کہ وہ منزِل پا چُکی ھے، لیکن عدنان ابھی منزلِ مقصُود تک نہیں پہنچا تھا۔ اس نے اپنی رفتار بڑھا دی۔ اب شازیہ ڈھیلی پڑ چُکی تھی۔ اس کی گرمجوشی اب برائے نام رہ گئی تھی۔ اب عدنان کے جھٹکے شازِیہ کو تکلِیف دے رھے تھے، وہ مجبُوراً عدنان کا ساتھ دے رھی تھی۔ لیکن یہ بھی سچّ تھا کہ بیزاری اُس کے چہرے پر مترشح تھی۔ عدنان نے جیسے اُس کا چہرہ پڑھ لِیا تھا، اور اس کھیل کو آخری حد تک لے جانے کا فیصلہ کرتے ھوئے اُس نے اپنی رفتار مزِید بڑھا دی۔ اُس کی تیز رفتاری کا نتیجہ یہ ھُوا کہ مزید چند ھی جھٹکوں میں وہ بھی اس کے اندر ھی فارِغ ھو گیا۔
چند سیکنڈز تک تو وہ اس کے اُوپر ھی موجُود جھٹکے کھاتا رھا، شازیہ اب اس کی آنکھوں میں دیکھ رھی ھو، گویا پوچھ رھی ھو، کہ مزہ آیا یا نہیں۔ عدنان کی مخمُور آنکھیں اس بات کی گواھی دے رھی تھیں، کہ اس نے سیرِحاصل مزہ لیا تھا۔ شازیہ کے چہرے پر طمانیت بھری مُسکُراھٹ بِکھر گئی۔
************************************************** *********************
نومی کو ھسپتال میں‌ داخل ھوئے آج پانچواں دن تھا۔ ڈاکٹرز نے اُسے ایک کمرے میں شفٹ کر دیا تھا۔ اُس کے ساتھ اُس کا باپ ھمہ وقت موجُود تھا۔ نومی کو ڈرپ لگی ھُوئی تھی اور پیٹ سفید چادر سے ڈھکا ھُوا تھا۔ بلال اور فیضُو وغیرہ نے تو اس کے پیٹ سے چادر ھٹا کر زخم شائد دیکھا تھا یا نہیں، لیکن میں اور اس کا باپ یہ ھمّت نہیں کر سکے تھے۔ مُجھ سے تو اس کا چہرہ تک دیکھنے کی ھمّت نہیں ھوتی تھی۔ اکثر میں اُس کے چہرے سے نظریں چُرا جایا کرتا تھا۔ نومی کا ھر وقت تروتازہ نظر آنے والا چہرہ اب جیسے نچوڑ دیا گیا تھا۔ جہاں پہلے ھر وقت ایک معصُوم سی مُسکراھٹ کا بسیرا تھا وھاں اب نقاہت پژمردگی اور کرب بھرے آثار ڈیرہ ڈالے ھوئے تھے۔ ھم سے ھر وقت ھنس ھنس کر باتیں کرنے والا اب دن میں ایک آدھ بات ھی بہت مُشکل سے کر پا رھا تھا۔ بے چارے کا زیادہ تر وقت کراھتے ھوئے گزرا تھا یا پھر دوائیوں کے زیر اثر سوتے ھوئے۔ 
میں اور بلال تنہائی میں بیٹھے اگلی منصُوبہ بندی کر رھے تھے۔ 
اب ھمارے پاس ایک ھی راستہ بچا تھا، کہ تھانیدار سے رابطہ کر کے اُس کے خیالات معلُوم کریں۔ اگرچہ اس سے بھی اب ھمیں کوئی خاص امّید تو نہیں تھی لیکن ھم مفرُوضوں کی بجائے اُس کے مُنہ سے اُس کے اندرکی بات سُننا چاھتے تھے۔ 
ایک دوست نے گاؤں سے فون کر کے ھمیں یہ بھی بتا دیا تھا، کہ چوھدری کے کُچھ پالتُو کتّے خُفیہ طور پر ھمارا انتظار کر رھے تھے۔ 
حالات مُکمّل طور پر ھمارے ھاتھ سے نکل چُکے تھے۔ حتّیٰ کہ ھمارے لئے اپنے ھی گاؤں جانا بھی اتنا سہل نہیں رھا تھا۔ 
میں نے تھانیدار کا نمبر حاصل کیا، اور اُسے فون کر دیا۔ فون کا لاؤڈ سپیکر آن تھا تا کہ بلال بھی گفتگُو سُن سکے۔
میں نے کال اٹھائے جانے کے بعد کہا۔ ”ھیلو۔ تھانیدار صاحب کیا حال چال ھیں؟ فیروز بات کر رھا ھُوں۔ امّید کرتا ھوں پہچان لیا ھو گا۔
تھانیداربولا۔ ”ھاں، فیروز۔ کہو، کیا بات ھے؟“ اس کا لہجہ عامیانہ سا تھا۔ 
میں نے سِیدھا مطلب کی بات پر آتے ھوئے کہا۔ ” کیا آپ جانتے ھیں، کہ نومی کو ڈانگر نے گولی مار دی ھے اور وہ اس وقت ھسپتال میں زندگی اور موت کے درمیان لٹک رھا ھے۔۔۔۔۔۔؟
اس بات پر تھانیدار نے کہا۔ ”میں تو یہ سب باتیں جانتا ھُوں برخوردار، لیکن تُم شائد یہ نہیں‌ جانتے، کہ اُس نے اُسے کیوں گولی ماری ھے۔ شُکر کرو، کہ ڈانگر کی بھتیجی نے گاؤں والوں کی منّت سماجت کی وجہ سےاُس کے خلاف رپورٹ درج نہیں کروائی ورنہ وہ اس آپریشن کے بعد ایک اور آپریشن تھیٹر پہنچ سکتا تھا۔
میں سمجھ گیا کہ تھانیدار نے بھی پارٹی تبدَیل کر لی ھے یا پھر ملک‌ صاحب کا سیاسی دباؤ کام دِکھا گیا تھا۔
آپ بھی کمال کرتے ھیں سر۔ ایک تو اس نے گولی ماری ھے اور اُوپر سے آپ بھی اسی کی سائیڈ لے رھے ھیں۔ قانُونی طور پر آپ کو چاھئے، کہ آپ فوری۔۔۔۔
مُجھے قانُون مت پڑھاؤ مِسٹر فیروز۔“ اس نے کرخت لہجے میں میری بات کاٹ دی۔ ”اور ھاں، ایک اطّلاع اور۔ چوھدری صاحب نے کہا ھے، کہ ایک شرط پر نومی کی جان بخشی ھو سکتی ھے۔ اگر وہ وعدہ کرے کہ ھمیشہ ھمیشہ کے لئے یہ گاؤں چھوڑ کر دُور کہیں چلا جائے گا، تو وہ لوگ کسی قسم کی قانُونی کاروائی نہیں کریں گے۔۔۔۔۔لیکن اگر نومی نے اس شرط کو تسلیم نہ کیا، توپھر اس پر سنگین قسم کا کیس کر دیا جائے گا۔ اور پھر مُجھے مجبُوراً نومی کو اسی حالت میں اپنی حراست میں لینا پڑے گا۔
میں اس اطّلاع پر بھونچکّا رہ گیا۔ 
ایک طرف تو نومی کو گولی مارنے کے باوجُود ڈانگر آزاد تھا۔ اور دُوسری طرف نومی بے چارہ موت کے مُنہ میں پہنچا ھُوا تھا، اس کے باوجُود قانُون اُلٹا اُسی کے خِلاف حرکت میں آنے کے لئے تیّار بیٹھا تھا۔ 
میں نے اُسے رانا صاحب کے ساتھ کئے گئے وعدے یاد دِلائے تو اُس نے مُجھے ڈھکے چھُپے لفظوں میں‌ سیدھی بات بتا دی۔
دیکھو مسٹر فیروز۔ ھر بندے کی اپنی مجبوریاں ھوتی ھیں۔ تم بھی اسی ملک میں رھتے ھو اور اچھّی طرح سے جانتے ھو کہ اس ملک کے تھانیدار کس حد تک اپنی مرضی کے مالک ھو سکتے ھیں۔ یہاں ھر پولیس افسر کے سر پر کوئی ملک، چوھدری، رانا یا ملک بیٹھا ھوتا ھے جو اُس سے اپنی منشأ کے مُطابق کام کرواتا ھے۔ امّید ھے کہ تُم میری مجبُوری اچھّی طرح سمجھ گئے ھو گے۔ میں اس مُعاملے میں اب تُم لوگوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔
اس کے بعد کہنے کو کُچھ باقی نہیں رھا تھا۔ میں نے فون کال کاٹ دی۔ 
تھانیدار نے باتوں ھی باتوں میں مُجھے ملک صاحب کا اِشارہ دے دِیا تھا۔ میں اور بلال ھونقوں کی طرح ایک دُوسرے کی طرف دیکھ رھے تھے۔ آخِر بلال کے فون کی گھنٹی نے ھی اس سکُوت کو توڑا۔ 
بلال نے نمبر دیکھا۔ فیضُو کی کال تھی۔ اس نے کال اٹینڈ کی اور جب فیضُو کی بات سُنی تو بلال اچانک ایسے کھڑا ھو گیا، جیسے کسی نے اس کے نیچے انگارے رکھ دِئے ھوں۔ اس کے مُنہ سے بے ساختہ نِکلا تھا۔ ”کیا ۔۔۔۔؟
میں بھی اس کے انداز پر سٹپٹا گیا، اور جب میں نے بلال سے پُوچھا،
کیا ھُوا بلال ؟ سب خیر تو ھے ناں؟
تو اس نے خالی خالی نظروں سے مُجھے دیکھتے ھُوئے موبائِل میری طرف بڑھا دیا۔ اس پر میری بے چینی دوچند ھو گئی۔ 
ھاں فیض۔ بولو۔ میں فیروز بات کر رھا ھُوں۔“ میں نے جلدی سے کہا۔ 
جواب میں فیضُو نے جو بتایا، اُسے سُن کر میری بھی سِٹی گُم ھو گئی۔ 
کِسی نے نومی کے گھر میں اور کھیت میں آگ لگا دی تھی۔ اُن کی پکی پکائی گندُم کی فصل سمیت تمام کھیت جلا کر راکھ کر دیا گیا تھا۔ گھر کے تمام جانور مار دِئے گئے تھے۔ اورپُورے گاؤں میں کِسی کو بھی معلُوم نہیں تھا کہ یہ سب کرنے والا کون تھا ۔۔۔۔۔۔۔!
************************************************** ********************* 
جِسم کی آگ بُجھ چُکی تھی۔ دونوں سیراب ھو چُکے تھے۔ 
عدنان تو آنکھیں موندے ایک طرف ھو کر لیٹ گیا، جبکہ شازیہ نے لیٹے لیٹے ھی اپنے اندر الفاظ ترتیب دینے شُرُوع کر دِئے۔ 
آج اس نے یہ سارا اھتمام ایسے ھی نہیں کِیا تھا۔ وہ عدنان کو پہلے ذھنی طور پر پُر سکُون کرنا چاھتی تھی، اور پِھر اُس سے بات کرنا چاھتی تھی۔ ایک مرحلہ تو طے ھو گیا تھا۔ اب اگلا اور مُشکِل مرحلہ باقی تھا۔ 
وہ نہیں جانتی تھی کہ جو بات وہ عدنان سے کرنے جا رھی تھی، اُسے سُن کر اُس کے شوھر کا کیا ردّعمل ھوتا۔۔۔۔؟ اس کے دِماغ کے اندر کئی اندیشے کِلبِلا رھے تھے۔ 
آخِر اس نے اپنے اندر ھمّت پیدا کی، اور دھیمی آواز میں عدنان کو مِخاطِب کِیا۔ 
عدنان۔۔۔۔۔؟“ 
اور عدنان نے سر اُٹھّا کر اُس کی طرف دیکھا۔ شازِیہ کا دِل بے اختیار دھڑک اُٹھّا۔ 
(جاری ھے ۔۔۔۔۔۔)
************************************************** ************************
محبّت، نفرت، دُشمنی اور ایسے کئی جذبوں سے گُندھی اس داستان کا اگلا اور آخری حِصّہ جلد ھی پیش کر دِیا جائے گا۔

·         Story Maker

شازِیہ ھِمّت نہ کر سکی۔ لیکن بات تو اُسے بنانا ھی تھی۔ چنانچہ اُس نے چائے کا پُوچھ کر اُسے ٹال دِیا۔ عدنان نے کہا، کہ فی الحال اُسے نیند آ رھی ھے، اور اُس نے دوبارہ سے آنکھیں بند کر لِیں۔ 
اب شازِیہ سوچ رھی تھی، کہ اچھّا ھی ھُوا کہ اُس نے عدنان کو کُچھ نہیں‌ بتایا۔ ابھی تو عدنان تھکا ھارا آیا تھا۔ اوپر سے آتےھی اُس نے ٹھیک ٹھاک مِحنت بھی کر ڈالی تھی۔ اُسے آرام کی شدِید ضرُورت تھی۔ ایسے میں اگر وہ اِتنا ضرُوری مُعاملہ اُس کے سامنے رکھ دیتی، تو ھو سکتا ھے وہ اس کو اتنی اھمِیّت ھی نہ دیتا، یا اتنی سنجیدگی سے غور کئے بغیر ھی جان چُھڑا لیتا۔
بہتر یہی تھا، کہ کل جب وہ تازہ دم ھو کر اُٹھّے، تو اس وقت اس سے بات کی جائے۔ تب وہ سکُون سے غور بھی کر سکے گا، اور شازیہ اُس کو اپنا مُدّعا بھی کھُل کر سمجھا سکے گی۔ 
عدنان کو دفتر سے سات دِن کی چھُٹّی مِلی تھی۔ یہ وقت بات کرنے کے لِئے کافی تھا۔ اُس نے سوچا اور مُطمئِن ھو گئی۔ 
************************************************** ************************
دوسری طرف چوھدری شاد اپنی اِنتِخابی مصروفیات کی وجہ سے گاؤں میں پھنسا ھُوا تھا۔
اسے آج کل ملک صاحِب کے ساتھ کہیں‌ نہ کہیں جانا ھوتا تھا۔ کبھی کِسی بڑی عِلاقائی شخصِیت کے ساتھ کوئی بیٹھک تو کبھی کسی گاؤں میں الیکشن مُہِم کے سِلسِلے میں جلسہ۔ اُس کے شب وروز اِنتِہائی مصرُوف ھو گئے تھے۔ چونکہ انتخابات قریب آ چُکے تھے، اِس لِئے آج کل اُسے سر کھُجانے کو بھی فُرصت نہیں تھی۔
آج بھی وہ ایک جلسے سے دُھواں دھار خطاب کر کے آیا تھا۔ چند منٹ تک تو وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر آنکھیں بند کِئے اپنے آپ کو پُر سکُون کرتا رھا، پِھر وہ نہانے کے لِئے غُسل خانے میں داخِل ھو گیا۔
نہانے کے بعد وہ تازہ دم ھو چُکا تھا۔ ایک مُلازِم اُس کے لِئے چائے لے آیا۔ چائے رکھ کر مُلازِم جِس خاموشی سے آیا تھا، اُسی خاموشی سے واپِس چلا گیا۔ چوھدری کُرسی پر بیٹھ کر چائے پیتا رھا، ساتھ ساتھ وہ نومی کے متعلّق بھی سوچتا جا رھا تھا۔ 
اُس نے ڈانگر کے ھاتھوں نومی کو گولی مروا دی تھی۔ اپنے تئِیں تو اُس نے نومی کا پکّا بندوبست کر دِیا تھا، لیکِن کم بخت پِھر بھی بچ نِکلا تھا۔ اُسے فیضُو پر بھی شدِید غُصّہ تھا، لیکن ملک صاحِب کے روکنے پر وہ فی الحال تحمّل سے کام لے رھا تھا۔ 
اُس نے الیکشن کے بعد نومی اور فیضُو سے نِمٹنے کا تہیّہ کر رکھّا تھا۔ 
پِھر اُس کی سوچوں کا رُخ اپنی بیٹی صنم کی طرف مُڑ گیا۔ 
اُس نے اپنی بیٹی کو لاھور میں چھوڑ کر ایک طرح سے اپنی ذِمّہ داری سے جُز وقتی جان چُھڑانے کی کوشِش کی تھی۔ جس دِن وہ صنم کو چھوڑنے گیا تھا، اس دِن بھی ایک جلسے کی وجہ سے وہاں زیادہ رُک نہیں پایا تھا۔ وہ شازِیہ کو صِرف اِتنا ھی بتا سکا تھا، کہ اگلے ایک دو روز میں صنم کی شادی محمُود سے کر دی جائے گی۔ باپ کے دبدبے کی وجہ سے شازِیہ اُس سے ایک سوال تک نہیں کر پائی تھی۔ چوھدری شاد کا تایا زاد اور عدنان کا باپ، چوھدری نعمان اس وقت لاھور سے باھر ایک دفتری سِلسِلے میں گیا ھُوا تھا۔ اس کی واپسی ایک روز بعد تھی۔ چوھدری شاد نے اپنے تایا زاد چوھدری نعمان سے صنم اور محمُود کے رِشتے کی بات اُسی وقت فون پر ھی کر لی تھی، اور اُس نے جواب میں فوراً حامی بھی بھر لی تھی،کہ چوھدری نعمان کو اپنے ”پیدل“ بیٹے محمُود کی شادی کے لِئے بڑی پریشانی تھی۔ ایسے میں صنم جیسی لڑکی کا رِشتہ ردّ کرنے کا سوال ھی پیدا نہیں ھوتا تھا۔
چوھدری شاد نے واپس جانے سے پہلے اگلے ایک دو روز میں دوبارہ لاھور آنے کا کہا تھا، لیکن روزانہ ھی کوئی نہ کوئی مصرُوفِیت اس کے پاؤں کی زنجِیر بن جاتی اور وہ لاھور نہ جا پاتا۔ ابھی تک اُسے قرِیب قرِیب آئِندہ دس دِن تک لاھور جانے کی کوئی صُورت نظر نہیں آ رھی تھی۔
وہ اندر ھی اندر سخت پیچ و تاب کھا رھا تھا۔ جِتنا وہ صنم کا مُعاملہ جلدی نِمٹانے کی کوشِش کرتا تھا، اُتنی ھی دیر ھوئی جاتی تھی۔ اب تو اُسے اِنتِخابی مُہم بھی کبھی کبھی سخت بُری لگنے لگتی تھی، جو اُس کے گھریلو مُعاملاتِ زِندگی پر بُری طرح سے اثر انداز ھو رھی تھی، لیکِن ایسے میں اس کا اسمبلی میں پُہنچنے کا سُہانا خواب اُسے ٹھنڈا رکھتا تھا۔
اچانک ھی اُس کے موبائِل پر ایک فون آیا۔ اُس نے بات کی، تو اُسے پتہ چلا، کہ ملک صاحِب ایک کام کے سِلسِلے میں‌ اچانک اِسلام آباد چلے گئے ھیں اور اس بِنأ پر آج اور کل کی اِنتِخابی مصروفِیات عارضی طور پر روک دی گئی ھیں۔ کیونکہ کل اگلا جلسہ جِس عِلاقے میں تھا، وہ عِلاقہ ملک‌ صاحِب کا گڑھ تھا، اور خود ان کی موجُودگی کے بغیر وہ لوگ وھاں کامیاب جلسہ نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے اندر جیسے ٹھنڈک اُتر گئی۔ 
تو گویا اس کے پاس دو روز کا وقت تھا۔ 
اِتنا وقت لاھور جانے آنے کے لِئے بُہت تھا۔
اس نے فوراُ ڈانگر کو طلب کِیا، اور اُسے گاڑی نِکالنے کو کہا۔ 
اس کی منزِل اب لاھور تھی۔
************************************************** *******
میری آنکھیں اَیسے پھیل گئی تھیں، جیسے نومی کا گھر اور کھیت میری آنکھوں کے سامنے ھی جل رھے ھوں۔ بلال کی حالت بھی مُجھ سے مُختلِف ھر گِز نہیں تھی۔ 
نہ جانے کِتنی ھی دیر تک جب یہی کیفیّت برقرار رھی، تو بلال نے ھی مُجھے کندھے سے پکڑ کر جنجھوڑا تھا اور میرا لاشُعُور انجان صدماتی گھاٹیوں سے یکایک پلٹ آیا تھا۔ ھم دونوں نے ایک دُوسرے کی طرف دیکھا۔ اُسی لمحے نومی کے باپ کی کھنکار سُنائی دی، ھم نے چونک کر پہلے اس طرف دیکھا، اور اُسے متوجّہ پا کر نظریں چُرا لِیں۔ 
کیا بات ھے بلال پُتّر؟ کس کا فون ھے؟ سب خیر تو ھے ناں ؟“ 
ھاں چاچا، سب خیر ھے۔
لیکن تُم دونوں کُچھ پریشان سے لگ رھے ھو پُتّر؟ فون کِس کا تھا ؟
نہیں چاچا۔ ایسی کوئی بات نہیں ھے۔ ھم ٹھِیک ھیں۔اور فون فیروز کے بھائی کا تھا۔
بلال اور اس کے درمیان یہ باتیں ھو رھی تھیں، اور میں تیزی سے صُورتِ حال پر غور کر رھا تھا۔ اس وقت نومی یا اُس کے باپ کو اَیسی دِلخراش خبر کِسی صُورت بتائی نہیں جا سکتی تھی۔ بے چارے ابھی ابھی ایک صدمے سے کِسی حد تک سنبھلے تھے۔ اَیسے میں یہ خبر اُن کے لِئے از حد خطرناک ھو سکتی تھی۔ خُصُوصاً جب نومی زخمی حالت میں پڑا تھا، اور اُس کا باپ اپنے بیٹے کی حالت پر پہلے ھی شدِید دِل گرِفتہ تھا۔ 
لیکن سوال یہ تھا، کہ ھم کب تک اُن کو اُنہی کے اِتنے بڑے گھریلو مُعاملے سے بے خبر رکھ سکتے تھے؟ جلد یا بدیر، اُنہیں اس بات کا پتہ چلنا ھی تھا۔ اور اُنہیں اس واقعے کا عِلم ھونا بھی چاھِئے تھا۔ آخِر کو مُعاملہ اُن کے گھر، جانوروں اور کھیت کا تھا۔ ایک کِسان کی جمع پُونجی ایسی ھی چیزیں ھُوا کرتی ھیں، اور کِسی ظالِم نے اُن کی عُمر بھر کی کمائی آنِ واحِد میں جلا کر خاکِستر کر ڈالی تھی۔ 
گاؤں میں جو واقعہ پیش آیا تھا، وہ کِسی بھی لمحے خبر بن کر نومی یا اس کے باپ کے کانوں تک پہنچ سکتا تھا۔ گو کہ نومی کا موبائِل ھر وقت ھمارے پاس ھی ھوتا تھا لیکن گاؤں سے کوئی فرد آ کر بھی تو اس واقعے کی اِطّلاع اُنہیں فراھم کر سکتا تھا۔ 
اور اگر اُنہیں ایک مرتبہ پتہ چل جاتا تو کیا ھوتا۔۔۔۔۔؟ 
اس سے آگے میری سوچ نے کام چھوڑ دِیا۔ میں ایک ٹھنڈی سانس لے کر باھِر نِکل آیا۔ 
بلال بھی باھِر آ چُکا تھا۔ ھم دونوں ھی صدمے سے چُور ھو چُکے تھے۔ دونوں اس بات پر فیصلہ نہیں کر پا رھے تھے کہ کریں تو آخِر کیا کریں۔۔۔۔۔۔۔
آخِر باھم مشورے کے بعد ھم نے نومی کو بتانے کا فیصلہ کر ھی لِیا۔ کُچھ بھی تھا، وہ جوان تھا، اور چوھدری سے دُشمنی اُسی نے مول لی تھی۔ وہ حالات کی سنگِینی کا اِدراک بھی رکھتا تھا اور چوھدری سے دُشمنی کے گُزشتہ چند ماہ کے دَوران پَے در پَے اَیسے واقعات پیش آئے تھے، جِنہوں نے اُسے ذھنی اور اعصابی طور پر کافی مضبُوط بنا دیا تھا۔ اس کا ایک ثُبُوت تو یہ بھی تھا کہ ڈانگر سے گولی کھانے کے بعد بھی اُس نے انتہائی حوصلے کا مظاھِرہ کِیا تھا۔ 
ھم دونوں نومی کو اس کے گھر اور کھیت میں پیش آنے والی کہانی بتانے والے تھے۔ اس کے لِئے ھمیں فیضُو کی مدد بھی درکار تھی۔ ھم نے اُسے ھسپتال میں طلب کر لِیا۔ 
جب وہ ھمارے پاس پہُنچ گیا تو ھم نے اُسے ساری بات سمجھادی ۔ پِھر اُسے نومی کے باپ کو کُچھ دیر کے لئے ھسپتال سے باھر لے کر جانے کو کہا۔ وہ اندر گیا، اور چند ھی مِنٹ میں اُس کے ساتھ نومی کا باپ باھِر آگیا۔ نومی کے باپ نے ھمیں بتایا، کہ وہ مارکیٹ کی طرف جا رھے تھے جو کہ چند منٹ کی مُسافت پر واقع تھی۔ ھم نے اثبات میں سر ھِلا دِیا۔ اُن کی واپسی سے پہلے ھم صُورتِ حال سنبھال سکتے تھے۔ 
بلال اور میں نومی کے پاس پہنچ چُکے تھے۔ اب ھمارا امتحان تھا۔ 
نومی آنکھیں بند کِئے لیٹا تھا۔ شائِد سو رھا تھا۔ یہ بات سُننے کے بعد اُس کا ردّ عمل کیا ھوسکتا تھا، اس کا ھمیں اندازہ نہیں تھا۔ لیکن ھمارے پاس وقت بھی مُختصر تھا۔ اس کے باپ کی واپسی سے پہلے ھم نے اُسے ساری بتانی تھی۔ 
آخِر میں نے ھِمّت کر کے اُسے مُخاطِب کِیا۔
نومی۔
اور اُس نے آنکھیں کھول دیں۔ 
**************
دوسرے دِن عدنان تو صُبح دیر تک سوتا رھا، جبکہ شازیہ گھر کے کاموں میں جُت گئی۔ آج اُس نے کھانے کا بھی خاص اھتمام کروانا تھا۔ جب وہ مُلازموں کو ضرُوری ھداایات دے چُکی، تو اچانک اُسے صنم کا خیال آیا۔ اُس نے مُلازمہ سے صنم کے ناشتے کا پُوچھا، تو مُلازِمہ نے اُسے بتایا، کہ وہ تو ناشتہ لے کر اُس کے دروازے پر گئی تھی، لیکن بار بار کی دستک کے باوجُود بھی صنم نے دروازہ کھولا ھی نہیں تھا۔ 
شازِیہ ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی۔ 
صنم ابھی تک اپنے کمرے میں ھی تھی۔ 
وہ صنم کے کمرے کے دروازے پر پہنچ گئی۔ صنم دروازے کو اندر سے بند کِئے پڑی تھی۔ شازیہ نے دستک دی۔ کافی دیر انتظار کروانے کے بعد آخِر کارصنم نے دروازہ کھول ھی دیا۔ 
شازیہ اندر داخِل ھُوئی، اور دروازہ بند کر دِیا۔ اِتنی دیر میں صنم واپِس بیڈ پر بیٹھ چُکی تھی۔ 
میں تو سمجھی تھی تُم سو رھی ھو۔
اُسی لمحے شازیہ کی نظریں اُس کی آنکھوں پر پڑ گئیں۔ اگرچہ صنم نے اپنی آنکھوں کو صاف کر لیا تھا اور وہ اپنا چہرہ بھی اُس کی طرف کرنے سے گُریزاں تھی، اس کے باوجود شازیہ نے اُس کی انکھوں کے نم گوشے دیکھ لِئے تھے۔ 
ارے، یہ کیا، تُم تو رو رھی ھو۔۔۔!“
کُچھ نہیں آپا۔ ویسے ھی۔“ صنم نے جواب دِیا۔
صنم۔ میری جان۔ کب تک ایسے چلے گا؟ کیوُں اپنے ساتھ ساتھ مُجھے بھی تڑپا رھی ھو؟ خُدا کے لِئے ایسے اپنی جان پر ظُلم مت کرو۔“ شازیہ تڑپ کر آگے بڑھی۔ اُس نے صنم کے برابر میں بیڈ پر بیٹھ کر اُسے اپنے ساتھ چِمٹا لِیا۔ 
شازِیہ اپنا ایک ھاتھ اُس کے چہرے پر جمائے اُسے اپنے ساتھ چِمٹائے ھُوئے تھی، جبکہ دُوسرے ھاتھ سے اُس کے بالوں میں اُنگلِیاں پھیر رھی تھی ۔ صنم کی آنکھیں ایک بار پھر سے بھیگ گئیں۔ اس کی آنکھوں سے آنسُو نِکلے اور شازیہ کے ھاتھ کو بھِگو گئے۔ شازِیہ پِھر سے تڑپ گئی۔ اُس نے صنم کا چہرہ اپنے سامنے کِیا اور رنجِیدہ لہجے میں بولی۔ 
صنم۔ کیا ھُوا میری جان؟ کِیوں رو رھی ھو؟
اور صنم چند ثانِئے اُسکی آنکھوں میں جھانکتے رھنے کے بعد اس کے سینے سے چِمٹ گئی۔ اب کی بار وہ اُونچی آواز میں رو رھی تھی۔ چند لمحے پہلے جو اپنی بہن کو اپنا ایک آنسُو بھی دِکھانا نہیں چاھتی تھی، اب اُسی کے دامن سے لِپٹی آنسُوؤں کے سیلاب بہا رھی تھی۔ 
شازِیہ بھی بے حد رنجِیدہ دِکھائی دے رھی تھی۔ وہ اُس کا درد جانتی تھی، لیکن اس درد کی دوا کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔
صنم۔ کُچھ تو بولو صنم۔ کیا ھُوا ھے ؟
اور صنم اُس کے سِینے سے لگے لگے جیسے پھٹ پڑی۔
آپا۔ میں نومی کے بغیر نہیں جی سکتی۔ نہیں رہ سکتی میں نومی کے بغیر۔ میں نے لاکھ کوشش کر کے دیکھ لیا، لیکِن میں اُس کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتی۔ خُدا کے لِئے میرا کُچھ کرو۔ خُدا کے لِئے میرے حال پر رحم کھاؤ آپا۔ خُدا کے لِئے، خُدا کے لِئے میری حالت پر ترس کھاؤ۔ مُجھے میرے نومی سے مِلوا دو آپا۔ مُجھے میرے نومی سے بس ایک بار مِلوا دو۔ میں اُسے دیکھنے کو ترس گئی ھُوں۔ نہ جانے وہ کِس حال میں ھے۔ آپا، اگر چند دِن اور میں ایسے ھی نومی سے دُور رھی، تو میں پاگل ھو کر اس کمرے کی دیواروں سے سر پٹخ پٹخ کر مر جاؤں گی آپا۔ ھاں، مَیں قسم کھاتی ھُوں، کہ تُمھاری صنم یہاں پاگل ھو کر مر جائے گی آپا۔
پِھر اُس نے سر اُٹھایا، اور شازیہ کی آنکھوں میں دیکھتے ھُوئے سوال کِیا۔
کیا تُم بھی ابّے کی طرح یہی چاھتی ھو‌ کہ تُمھاری بہن پاگل ھو کر مر جائے؟
اور شازِیہ نے ایک نظر اُس کی موٹی موٹی آنکھوں میں دیکھتے ھُوئے تڑپ کر اُسے دوبارہ سینے سے لگا لِیا۔ صنم کی آنکھوں سے آنسُو بدستُور جاری تھے۔ 
نہیں میری بہن، نہیں ۔ تُم تو میری جان ھو۔ میں تو تُمھاری خُوشی کی خاطِر اپنی جان تک قُربان کر سکتی ھُوں میری بہن۔ تُم ایسے سوچ بھی کیسے سکتی ھو میری جان؟
صنم نے اُس کی گود میں پڑے پڑے ھی سرگھُما کر اس کے چہرے کی جانِب ک۔یا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرمعصُومِیت سے بولی۔
تو پِھر آپ میری مدد کُیوں نہیں‌ کرتیں آپا؟ آپ نے بھی تو محبّت کی تھی ناں ؟ آپ تو میرا درد سمجھ سکتی ھیں آپ تو جانتی ھیں، کہ مُحبّت کتنا تڑپاتی ھے؟ آپ، آپ تو میری پیاری بہن ھیں۔ آپ تو اپنی اس بے بس بہن کی مدد کریں۔
صنم کی باتیں تھ۔یں یا نشتر، جو سیدھے اُس کے دِل میں اُتر رھے تھے۔ اُس کا چہرہ آنسُوؤں سے تر بہ تر تھا۔ آنکھیں بھی پانی سے بھری ھُوئی تھیں۔ ایک سیلِ رواں تھا جو اُس کی آنکھوں سے مُسلسل بہا چلا آ رھا تھا۔ شازِیہ اُس سے نظریں چُرا گئی۔ اُس کی اپنی آنکھیں بھی اَب پانی اُبلنا شُرُوع کر رھی تھیں۔ 
شازِیہ اُسے خاموش دِلاسہ دے رھی تھی۔ صنم اُس کے سِینے سے لگی روتی رھی اور وہ اُسے اپنے ساتھ چمٹائے دُور کہیں دیکھتی رھی۔
صنم نہیں جانتی تھی، کہ ابھی عِشق کے کِتنے اِمتِحان باقی تھے، اور اُسے نومی کی مُحبّت میں ابھی درد کے اور کِتنے سمندر پار کرنا تھے، 
لیکن قُدرت کو شائِد اُس پر رحم آ گیا تھا۔ 
اُس کی دُکھ کی سیاہ رات بس کٹنے ھی والی تھی، اور سویرا بس آنے ھی والا تھا۔ 
اُس کی سگی بہن ھی اُس کے درد کا درماں کرنے والی تھی۔ ھاں، اُس کی سگی بہن شازِیہ، جو چوھدری شاد ھی کی اولاد تھی۔ جو اچھّی طرح جانتی تھی، کہ اس بغاوت کا نتیجہ کِتنا بھیانک ھو سکتا تھا۔ وھی شازِیہ، صنم اور نومی کے درمیان پُل بن کر اُن کا سنگم کروانے جا رھی تھی۔ 
اُس نے کل یہی فیصلہ کِیا تھا۔ 
آج صنم کی حالت دیکھ کر اُس کے اِرادے میں مزید مضبُوطی آ گئی تھی۔ صنم کے ھر ھر آنسُو کے ساتھ ھی اُس کے ناتوں اِرادے بتدرِیج توانا ھوتے چلے جا رھے تھے۔ 
وہ اپنے سفّاک اور بے رحم باپ کے اٹل اُصُولوں کے خِلاف اِنتِہائی بغاوت کا سا سنگِین قدم اُٹھانے جا رھی تھی۔ حالانکہ وہ اپنے باپ کی سفّاکی سے اچھّی طرح واقِف تھی ، لیکن وہ تو جیسے ھر خطرے سے بے نیاز ھو کر سوچ رھی تھی۔
بہن کی مُحبّت ھر خطرے کے اِحساس پر حاوی ھو گئی تھی۔ 
جو بھی ھو گا دیکھا جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ ابّا مُجھے مار ھی دے گا ناں، مار دے۔ لیکن میں اپنی پیاری بہن کی یہ حالت مزِید نہیں دیکھ سکتی۔ میں‌ اپنی بہن کو ابّے کی جھُوٹی اَنا کی بلی نہیں چڑھنے دُوں گی۔ میرے ساتھ تو ابّے نے جو کِرنا تھا کر لیا، لیکن اب میں ابّے کو وہ کہانی دُہرانے نہیں دُوں گی۔ میں اپنی معصُوم بہن کی خُوشِیوں کی ھر رُکاوٹ دُور کر دُوں گی۔ میں ابّے کو اپنی بہن کے ارمانوں سے کھیلنے کی اِجازت نہیں دُوں گی۔ نہیں، ھر گِز نہیں۔
****************************************
میں پاس رکھّے ایک بنچ پر جبکہ بلال نومی کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا تھا۔ 
نومی سوالیہ نظروں سے ھمیں دیکھ رھا تھا۔ میں نے بات شُرُوع کی۔
بات یہ ھے نومی۔۔۔۔!“
ٹھہرو، پہلے یہ بتاؤ، کہ صنم تو ٹھِیک ھے ناں؟
اُس کی بات سُن کر میرے لہجے میں بیزاری عُود کر آئی۔ 
صنم کو کُچھ نہیں‌ ھُوا نومی۔ لیکن، بات یہ ھے کہ۔۔۔۔“ 
میں پِھر خاموش ھو گیا۔
کُچھ آگے بھی بولو یار۔ کیوں میرے صبر کا اِمتِحان لے رھے ھو تُم لوگ ؟
وہ تیز لہجے میں بولا۔
میں نے بلال کی طرف دیکھا۔ بلال اُس کے کاندھے پر ھاتھ رکھتے ھُوئے بولا۔ 
نومی۔ حوصلے سے سُننا۔ تُمھاری حالت۔۔۔۔
یار، آگ لگاؤ میری حالت کو۔ جلد بتاؤ، ھُوا کیا ھے؟ بس اب بتا دو مُجھے۔
ٹھِیک ھے۔ تو پِھر حوصلے سے سُنو۔ کِسی نے تُمھارا گھر، جانور اور کھیت، سب جلا دِیا ھے نومی۔ اور چوھدری نے تھانیدار کے ذرِیعے دھمکی بھی لگائی ھے، کہ اگر نومی گاؤں میں واپس آیا، تو اس پر سنگِین قِسم کا کیس بنا کر اُسے لمبے عرصے کے لِئے جیل بھیج دِیا جائے گا۔
بلال بولا تھا۔ میں نے اور اُس نے نومی کے کندھے تھام لِئے تھے۔ 
نومی یہ خبر سُن کر ایک دم گُم سُم ھو گیا۔ اُس کی خالی خالی آنکھیں لمحہ لمحہ نیچے کی طرف آ رھی تھیں۔ آخِر اُس نے اپنا اُٹھا ھُوا سر تکِئے پر رکھّا، اور آنکھیں سختی سے بھینچ لِیں۔ لیکن وہ منہ سے کُچھ بھی نہیں‌ بولا تھا۔ 
میں اور بلال اُس سے شدِید ردّ عمل کی توقُع کر رھے تھے۔ لیکن اُس نے اِتنا شدِید ردّ عمل نہیں دِیا تھا۔ شائِد اُس نے اپنے آپ کو مُستقبِل کی شدید ترین صُورتِ حال کے لِئے ذھنی طور پر پہلے سے تیّار کر رکھّا تھا۔ 
لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں تھا، کہ اُسے اس خبر سے دُکھ نہیں پہنچا تھا۔ کیونکہ چند ھی لمحوں بعد، اُس کی آنکھوں سے آنسُو جاری ھو گئے تھے۔ وہ بیڈ پر پڑے پڑے ھی رو رھا تھا۔ 
اَور اچانک اُس نے اُونچی آواز میں دھاڑیں مار کر رونا شُرُوع کر دِیا۔ ھم دونوں گھبرا گئے۔ یہ خطرناک صُورتِ حال تھی۔ اگرچہ گھر اَور کھیت جلنے کی خبر سُن کر اُس کا رونا فِطری بات تھی، لیکِن اَیسا کرنے سے اُس کے جِسم میں کھِچاؤ پَیدا ھوتا، اَور اِس سے اُس کے زخم پر بھی شدِید اَثر پڑ سکتا تھا۔
ایک ڈاکٹر بھی اُس کی آواز سُن کر وھاں پہُنچ گیا۔ اُس کے پِیچھے پِیچھے ایک نرس بھی تھی۔ ڈاکٹرکو دیکھ کر نومی کو جبراً چُپ ھونا پڑا۔ اُس نے اپنے آنسُو بھی پُوچھ لِئے تھے، لیکِن رنج کا اِحساس اُس کے چہرے پر واضِح طَور پر نظر آ رھا تھا۔ 
ڈاکٹر نے ھمیں سمجھایا، کہ نومی کے لِئے رونا بالکُل بھی ٹِھیک نہِیں ھے۔ ھم نے اُسے تسلّی دی، اور نومی کو غَور سے دیکھتے رھنے کے چند لَمحے بعد، وہ چلا گیا۔ 
ھم دونوں نے نومی کو بڑی مُشکِل سے سنبھالا۔ 
میں اور بلال اُس کو تسلّیاں دیتے رھے، اگرچہ ھم جانتے تھے، کہ ھماری تسلّیوں سے نہ تو اُس کا نُقصان پُورا ھو سکتا تھا، اور نہ ھی اُس کا زخم بھر سکتا تھا۔ لیکن اس وقت اُسے دینے کے لِئے ھمارے پاس سِوائے تسلّی کے اور کُچھ تھا بھی نہیں۔ 
ھم تینوں دوست ایک دُوسرے کا سہارا تھا، اور اس وقت ایک دُوسرے کا سہارا بنے بیٹھے تھے۔ ھسپتال کے اس کمرے میں ایک قیامت نُما گھڑی تھی جو خبر بن کر نومی کے دِل پر ٹُوٹی تھی، اور میں اور بلال نومی کے شکِستہ دِل کو جوڑنے کی اپنی سی کوشِش کر رھے تھے۔ 
چند منٹ رو لینے کے بعد، نومی ھم سے مُخاطِب ھُوا۔ جب وہ بولا، تو اس کی آنکھیں نمناک تھِیں، اور لہجہ گُلُوگِیر۔ 
یار۔ یہ بات ابھی ابّے کو ھر گِز نہ بتانا۔ میں تو برداشت کر گیا ھُوں، لیکِن ابّا برداشت نہیں کر سکے گا یار۔ وہ تو مر ھی جائے گا۔
اور میں نے اور بلال نے اثبات میں سر ھِلا دِیا۔ 
یہ سب میری وجہ سے ھو رھا ھے۔ میں ھی ابّے کی تباھی کا ذِمّہ دار ھُوں۔ نہ میں صنم کی طرف بڑھتا، اور نہ ھی یہ سب ھوتا۔ میں خُود ھی اپنے گھر کے لِئے منحُوس ثابِت ھُوا ھُوں۔ اس سے تو اچھّا تھا، کہ میں ڈانگر کی گولی کھا کر مر گیا ھوتا۔
نومی آنکھیں بند کِئے روتے روتے بول رھا تھا۔
نہیں نومی، نہیں۔ ایسی بچّوں جیسی باتیں مت کر۔ کیا ھو گیا ھے تُجھے یار؟“ میں نے اُٹھ کر اس کے ھاتھ کو اپنے ھاتھ میں لیتے ھُوئے کہا۔ جواب میں اُس نے میری طرف دیکھ کر کہا۔
تو اور کیسی باتیں کرُوں میرے یار؟ ھمارا گھر تباہ کر دِیا گیا ھے فیروز۔ ھماری فصل جلا دی گئی ھے، ھمارے سارے ڈنگر مار دِئے گئے ھیں۔ ھمارے پاس کُچھ بھی نہیں‌ رھا فیروز۔ ھم کنگال ھو گئے ھیں، اُوپر سے وہ سالا چوھدری ھمیں ھمارے ھی گاؤں جانے نہیں دے رھا، اور تُم کہتے ھو، میں بچّوں جیسی باتیں‌ کر رھا ھُوں۔۔۔۔؟
میں مانتا ھُوں،
مَیں نے کہا،
لیکِن دیکھو۔ اس وقت تُمہیں حوصلہ کرنا ھو گا۔ اپنے باپ کی زِندگی کی خاطِر تُمہیں حوصلہ کرنا ھو گا۔ اور یقین رکھّو، ھم چوھدری سے اُس کے ایک ایک ظُلم کا پُورا پُورا حِساب لیں گے۔ یہ میرا وعدہ ھے تُم سے۔ تُم بس ایک مرتبہ رانا صاحِب کو آ لینے دو۔ اُس چوھدری سے ھم تُمھارے نُقصان کی ایک ایک پائی وُصُول کر کے دِکھائیں گے۔
میں نے اُس کا ھاتھ اپنے ھاتھ میں لے کر کہا تھا۔ رانا صاحِب کا حوالہ سُن کر اُس کی آنکھوں میں‌ بھی چمک سی آ گئی تھی۔ 
اچانک اُس نے ایک سوال کر دِیا۔
اور صنم؟ کیا صنم نہیں لے کر دو گے مُجھے؟
میں اُس کے اس سوال پر خاموش ھو گیا۔
یہ دِیوانہ اب بھی صنم کو بھُلانے کو تیّار نہیں تھا۔ 
نومی پھیکی ھنسی ھنسا۔
سمجھ گیا دوست۔ تُو چاھتا ھے، کہ میں صنم کو دِل سے نِکال دُوں۔
ھاں نومی۔ میں یہی چاھتا ھُوں۔ دیکھ میرے دوست۔ پہلے حالات اور تھے، لیکِن اب بات جان پر بن آئی ھے۔ جِس لڑکی کی مُحبّت تُمھاری جان کی دُشمن بن چُکی ھے، تُم کیوں ساری زِندگی اُسی لڑکی کے پِیچھے پڑے رھنا چاھتے ھو؟ کیا زمانے میں اور خُوب صُورت لڑکِیاں ختم ھو گئی ھیں میرے یار؟
ہاں فیروز۔ میرے لِئے تو ختم ھی ھو گئی ھیں۔ میرے لِئے تو اگر کوئی ھے تو وہ ھے صِرف اور صِرف صنم۔ اور یہ بھی تُم نے ٹھِیک ھی کہا میرے دوست، کہ بات اب جان پر بن آئی ھے۔ نومی اگر جِئے گا، تو صنم کی مُحبّت میں، اور اگر مرے گا، تو بھی صنم کی مُحبّت میں۔
میں اور بلال ایک دُوسرے کی طرف بے بسی سے دیکھ کر رہ گئے۔ اگر نومی اپنا اِتنا نُقصان کروا کر، اَور موت کے مُنہ میں پہُنچ جانے کے بعد واپِس آ کر بھی اُسے بھُلانے کو تیّار نہیں تھا، تو پھِر کبھی بھی اُسے بھُول نہیں سکتا تھا۔ 
ھم نے اس موضُوع پر اُس سے بحث کرنا مُناسِب نہیں سمجھا اور خاموش ھو گئے۔ نومی بھی آنکھیں چھت پر جمائے پنکھے کو دیکھ رھا تھا۔ 
ھم تِینوں ھی چُپ سادھ چُکے تھے۔ 
************************************************** ********
عدنان اُس کی طرف دیکھ رھا تھا۔ شازیہ کو سمجھ نہیں آ رھی تھی، کہ بات کہاں سے شُرُوع کرے۔ آخِر اُس نے گلا کھنکار کر بولنا شُرُوع کر ھی دیا۔
عدنان۔ میں آپ سے صنم کے بارے میں بات کرنا چاھتی ھُوں۔ میری بہن، یہاں آئی ھُوئی ھے، اتنا تو آپ جانتے ھی‌ ھیں۔
ھاں ھاں۔ یہ بات تو تُم نے مُجھے فون پر ھی بتا دی تھی۔ لیکن اُس کے بارے میں مُجھ سے کیا بات کرنا چاھتی ھو؟ سب خیر تو ھے ناں؟“ 
عدنان اس کے انداز جانتا تھا، اِسی لِئے ذرا چونک کر پُوچھ رھا تھا۔ 
وہ عدنان۔۔۔ در اصل۔۔۔
کیا بات ھے شازیہ؟ کُھل کر بات کرو ناں۔ کمرے میں اِس وقت ھمارے عِلاوہ کوئی نہیں ھے۔
شازِیہ اس بات کے جواب میں عدنان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ عدنان نے اُسے اپنے مزِید قرِیب کر لِیا۔ وہ اس وقت بیڈ کی پُشت سے ٹیک لگائے لیٹا ھُوا تھا۔ 
بات یہ ھے عدنان، کہ مُجھے ایک بہت ھی خاص مُعاملے میں آپ کی مدد درکار ھے۔
کَیسی مدد ؟ مُعاملہ کیا ھے؟
پہلے آپ ایک وعدہ کریں، کہ یہ بات اپنے تک ھی رکھّیں گے، اور میری مدد بھی ضرُور کریں گے۔“ شازِیہ اُس کے سِینے پر لیٹ گئی۔ عدنان مُسکُرا دِیا۔ 
یہ کیا بچّوں جیسی باتیں کر رھی ھو؟ ایسی کون سی بات ھے راز داری کی ؟
آپ وعدہ کریں ناں میرے ساتھ ۔
اچھّا بھئی۔ وعدہ رھا۔ اب تو بتا دو۔
وہ عدنان۔ در اصل، میں صنم کی شادی کرنا چاھتی ھُوں اور وہ بھی اِسی ھفتے۔
کیا کہ رھی ھوتُم؟ صنم کی شادی ، اور وہ بھی اِسی ھفتے؟ ۔۔۔۔۔
عدنان ایک دم سے چونک کر اُٹھ بیٹھا۔ 
ھاں عدنان۔ اِسی ھفتے۔“ شازِیہ اُس سے علیحدہ ھوتے ھوئے بولی۔ 
اور چوھدری انکل؟
اُن کے بغیر ھی یہ شادی کروانا چاھتی ھُوں۔ وہ اگر ھوں گے، تو پِھر یہ شادی۔۔۔۔
دیکھو شازِیہ۔ یہ پہیلیوں کے انداز میں بات کرنا بند کرو۔ تُم جانتی ھو، کہ اِس طرح مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آنے والی۔ صاف صاف کہو۔ کہ آخِر مُعاملہ کیا ھے؟
شازِیہ نے ٹھنڈی سانس اپنے سِینے سے خارِج کی۔ 
عدنان۔ بات یہ ھے کہ، صنم یہاں آئی نہیں، بلکہ بھیجی گئی ھے۔ ابّے نے اُسے زبردستی بھیجا ھے یہاں۔ اور ابّے کا اِرادہ جانتے ھو کیا ھے۔۔۔؟ وہ چند دِنوں تک یہاں آ کر زبردستی صنم کی شادی محمُود سے کرنا چاھتا ھے۔۔۔۔۔
اس کے بعد شازِیہ نے عدنان کو صنم کی مُحبّت کی ساری کہانی سُنا دی۔ البتّہ اُس نے عدنان سے یہ بات چھُپا لی تھی، کہ صنم اور نومی جوشِ مُحبّت میں تمام حدیں پھلانگ چُکے تھے۔ عدنان حیرت سے آنکھیں‌ پھاڑے اُس کے مُنہ سے ساری داستان سُنتا رھا۔ 
شازِیہ اُسے تمام قِصّے سے آگاہ کر چُکی تھی۔ عدنان حیرت سے بُت بنا اُس کی طرف دیکھ رھا تھا۔
شازِیہ نے نہائِت سوچ سمجھ کر اُسے آگاہ کرنے کا فیصلہ کِیا تھا۔ عدنان اس کا خیال رکھنے والا، اُس کی بات کا بھرم رکھنے والا اُسے بے انتہا پیار کرنے والا شوھر تو تھا ھی، لیکن وہ ایک اچھّا اور سچّا اِنسان بھی تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ، کہ وہ بھی مُحبّت کے درد کو سمجھتا تھا۔ یہ بات شازِیہ بھی اچھّی طرح جانتی تھی۔ جب اُن دونوں کی نئی نئی شادی ھوئی تھی، تو عدنان پِیتا بھی تھا، اور رات گئے تک گھر بھی نہیں آیا کرتا تھا۔ یہی نہیں، بلکہ جب وہ گھر پر ھوتا، تو وہ شازیہ سے بات تک نہِیں کرتا تھا۔ آھ۔ستہ آھ۔ستہ شازیہ پر یہ عُقدہ کھُلا، کہ عدنان بھی شادی سے پہلے کِسی سے مُحبّت کرتا تھا، کِسی کی زُلفوں کا اسِیر رہ چُکا تھا، لیکِن وہ لڑکی اُنہی کے دفتر میں کام کرتی تھی، اور اس کے باپ کو یہ رِشتہ کِسی صُورت منظُور نہ ھُوا۔ بلکہ اُس نے فوراً زبردستی اُس کی شادی اپنے تایا زاد چوھدری شاد کی بیٹی سے کروا دی تھی۔ عدنان اُن دِنوں باپ کے اِحتِرام میں خاموش ھو کر بیٹھ رھا تھا۔ لیکِن اپنے دِل میں وہ اس سب کا ذِمّہ دار اپنے باپ کے ساتھ ساتھ اپنے چچا چوھدری شاد کو بھی سمجھتا تھا۔ اس بات سے شازیہ کو عدنان پر بڑا ترس آیا، اور اُس نے عدنان پرخُصُوصی توجُّہ دینا شُرُوع کر دی۔
اب اس کے دِل میں عدنان کے لِئے نفرت نہیں تھی، کیونکہ عدنان کا دُکھ بھی اُس کے دُکھ سے مِلتا جُلتا تھا۔ دونوں ھی مرِیضانِ ناکام مُحبّت تھے۔ شازیہ کی اس توجّہ کا اثر یہ ھُوا، کہ عدنان جو پہلے اس کو اپنی نفرت کے قابل بھی نہیں سمجھتا تھا آھستہ آھستہ اُس کی طرف مائَل ھونا شُرُوع ھو گیا۔ اور ایک دِن ایسا بھی آیا جب شازِیہ اپنے مثبت رویّے سے عدنان کا پتھّر دِل موم کرنے میں کامیاب ھو چُکی تھی۔ 
عدنان کو بھی شازیہ سے مُحبّت ھو چُکی تھی۔ 
اس کے بعد عدنان نے اس کا بے حد خیال رکھّا تھا۔ تب شازیہ کو پتہ چلا، کہ عدنان اندر سے کتنا سچّا اور اچھّا انسان تھا۔ اُس نے شازیہ کو بے حد مُحبّت دی تھی۔ 
عدنان نے بعد میں اپنی داستان اُسے سُنا دی تھی۔ اس کی زُبانی شازیہ کو پتہ چلا تھا، کہ عدنان مُحبّت کرنے والوں کے لِئے بے حد حسّاس جذبات رکھتا ھے۔ 
لیکن اس سب کے باوجُود بھی شازیہ نے اُسے اپنی کہانی کبھی نہیں سُنائی تھی۔ 
عدنان ایک درد مند دِل رکھتا تھا۔ اسی لئے شازیہ نے فیصلہ کِیا تھا کہ وہ اس مُعاملے میں عدنان سے بات کرے گی۔ اُسے یقین تھا، کہ جب وہ عدنان کو اپنے باپ کی اپنی بیٹی کے ساتھ سنگ دلی کا بتائے گی، تو عدنان کے پُرانے زخم بھی تازہ ھو جائیں گے۔ اور وہ بھڑک جائے گا۔ چوھدری شاد کے خِلاف عدنان کی نفرت کی شِدّت شازیہ کے منصُوبے کے لِئے آکسِیجن کا کام دینے والی تھی۔
عدنان نے ساری بات سُن کر ایک ٹھنڈی سانس لی، اور آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔ شازیہ جانتی تھی، کہ اب وہ چند لمحات تک صُورتِ حال پر غور کرے گا۔ اسی لِئے وہ بھی خاموش رہ کر اُس کے بولنے کا اِنتِظار کرتی رھی۔
کمرے میں کافی دیر تک ایک خاموشی طاری رھی۔ شازیہ بے صبری سے لیکن انتہائی تحمّل کے ساتھ اُس کے ردّ عمل کا انتظار کرتی رھی۔
آخِر اس سکُوت کو عدنان کی آواز نے ھی توڑا۔
ھُوں۔ تو یہ بات ھے۔
ھاں۔
لیکن۔ میں اس مُعاملے میں کیا کر سکتا ھُوں؟
آپ؟ ارے واہ۔ آپ ھی تو مدد کر سکتے ھو میری۔
لیکن پتہ بھی تو چلے، کہ کیسے ؟
میں چاھتی ھُوں، کہ صنم کی شادی نومی کے ساتھ ھی ھو، اور اس سب کا اِنتِطام آپ کروائیں۔
ارے واہ۔ پاگل تو نہیں ھو گئی ھو تُم ؟ میں، اور یہ کام کرُوں۔۔۔۔۔؟ ھر گِز نہیں۔۔ ۔ یہ کام اِتنا آسان نہیں ھے جناب، تُمھارے باپ کے قہر سے مُجھے کون بچائے گا ؟ میرے باپ کے قہر سے کون بچائے گا مُجھے ؟ اور پِھر ھم تو یہ بھی نہیں جانتے، کہ وہ لڑکا، کیا نام ھے اُس کا، ھاں، نومی۔ ھم تو یہ بھی نہیں جانتے، کہ نومی زِندہ بھی ھے یا نہیں، اور اگر ھے بھی، تو اس وقت وہ کہاں ھو گا ؟
اُس کا پتہ آپ کو مِل جائے گا، لیکِن آپ ھاں تو کریں۔
لیکِن عدنان نے اِنکار کر دِیا۔ 
شازِیہ اُسے مُسلسل مناتی رھی، قائِل کرنے کی کوشِش کرتی رھی، لیکن عدنان مان کر نہِیں دے رھا تھا۔ شازِیہ سارا دِن اُس کی مِنّتیں کرتی رھی، لیکِن عدنان نہ مانا۔ جب شازِیہ کا اِصرار حد سے بڑھا، تو اُس نے آخَِر کاراُسے جِھڑک دِیا۔ شازِیہ رو دی۔ عدنان اُسے منانے بیٹھ گیا، لیکِن شازِیہ کی ایک ھی رٹ تھی، کہ صنم کی زِندگی کے تحفّظ کے لِئے اُس کی خُوشی اُسے مِلنا ضرُوری تھی، اور اُس کی خُوشی اُس کی مُحبّت نومی تھا۔ 
آخِر شازِیہ نے اُسے صنم اور نومی کے جِسمانی تعلُّق کا بھی بتا دِیا۔ اب تو عدنان ششدر رہ گیا۔
شازِیہ نے اُسے قائِل کرنے کے لِئے انتہائی بات بتا دی تھی۔ اب عدنان سوچ میں پڑ چُکا تھا۔ شازِیہ نے کہا، کہ اگر صنم کی شادی کہِیں اور کی گئی، تو صنم کا شوھر پہلی رات میں ھی سمجھ جائے گا، کہ صنم پہلے ھی کہِیں سے کاروائی کروا چُکی ھَے، اَور اَیسی صُورت میں صنم کی زندگی برباد بھی ھو سکتی تھی۔
لیکن نومی سے شادی کی صُورت میں اُس کو کوئی خطرہ نہِیں تھا۔
عدنان نے چند ثانِئے توقّف کے بعد کہا۔
لیکِن مَیں ابّا جی سے اَور چاچا شاد سے کَیسے بچُوں گا شازِیہ؟
میں کُچھ نہیں جانتی عدنان۔ آپ میری مدد کر سکتے ھیں، اِتنا میں اچھّی طرح سے جانتی ھُوں۔ اب کیسے کر سکتے ھیں، اور میرے اور اپنے باپ سے کیسے نمٹنا ھے آپ نے، یہ سوچنا آپ کا کام ھے، لیکن میں بس اتنا چاھتی ھُوں، کہ پلیز، آپ میری مدد کریں۔ یقین کریں عدنان۔ اگرشادی کے مُعاملے میں صنم سے زبردستی کی گئی، تو وہ واقعی کُچھ کھا کر مر جائے گی۔ میں اپنی بہن کو اچھّی طرح سے جانتی ھُوں۔ وہ جو کہتی ھے، واقعی کر بھی گُزرتی ھے۔ پلیز۔۔ اگر میری بہن نے ایسا ویسا کُچھ کر دِیا عدنان، تو میں بھی کُچھ۔۔۔۔؟
اچھّا اچھّا بس۔ اب آگے ایک لفظ بھی مت کہنا۔
چند ثانِئے بعد پِھر اُس کی آواز اُبھری۔
وہ ،،، نومی کہاں ھے اِس وقت ۔۔۔۔۔؟
اُس کی آپ فِکر نہ کریں۔ صنم کے پاس اس کا نمبر ھے۔ اس کے نمبر پر فون کر کے اس کا پتہ کروایا جا سکتا ھے کہ وہ کہاں ھے ! اور ایک بات کا یقِین کر لیں عدنان، کہ جِتنی صنم اُس کے مُعاملے میں سِیرِئس ھے، اُس سے کہیں زیادہ نومی اِس مُعاملے میں سنجِیدہ ھے۔ اچھّا، اب تو کنفرم کر دیں، کہ آپ میری لاج رکھّیں گے۔ میری اور میری بہن کی مدد کریں گے، پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اور عدنان نے 
اوکے بابا
کہ دیا۔ شازِیہ ایک نعرہ مارتے ھُوئے اس کے سینے سے لگ گئی۔ عدنان نے مُسکُرا کر اُسے ویلکم کِیا تھا۔ 
اس کے بعد عدنان اور شازیہ نے بیٹھ کر مزید تفصِیلات طَے کر لِیں۔
شازِیہ کے خیال میں مولوی بُلوا کر خُفِیہ نِکاح پڑھوا دینے سے مسئلہ حل ھو جاتا، لیکِن عدنان نے اِس خیال کو یکسر مُسترد کر دِیا۔
وہ اپنے گھر میں صنم کے باپ کی رضا مندی کے بغیر اُس کا خُفِیہ نِکاح نہِیں کروا سکتا تھا۔ 
اِس مسئلے کا واحِد حل کورٹ میرِج ھَے میری جان۔
اور شازِیہ کورٹ میرِج کے نام سے ھی کانپ گئی۔
عدنان نے اُسے سمجھایا، کہ کورٹ میرِج میں شادی بھی آسانی سے ہو جائے گی، اور چوھدری شاد سے قانُونی تحفُّظ حاصِل کرنے میں بھی آسانی رھے گی۔
شازِیہ کو بادلِ نخواستہ اِس حال پر راضی ھونا پڑا۔ 
اب شازِیہ جلد از جلد صنم کو یہ خُوش خبری سُنا دینا چاھتی تھی۔ 
************************************************** *************
نومی اب اس خبر کے صدمے سے سنبھل چُکا تھا۔ 
ھمارے درمیان طے پایا تھا، کہ کِسی بھی‌ صُورت یہ خبرابھی اُس کے باپ کو نہیں بتائی جائے گی۔ بعد میں جب نومی کی حالت کُچھ بہتر ھو جائے گی، تو مُناسِب موقع دیکھ کر اُس کے باپ کو بھی صُورتِ حال سے آگاہ کر دِیا جائے گا۔ 
نومی کے ھسپتال سے ڈِسچارج ھونے کے بعد بھی ھم نے اس کے چچا کے گھر کا رُخ کرنا تھا، جو کہ گوجر خان کے نواح میں ایک گاؤں میں واقع تھا۔ اُسے فون کر کے نومی کا باپ اس کی رضا مندی بھی لے چُکا تھا۔ 
نومی کے لِئے اِن حالات میں گاؤں جانا مُمکِن ھی نہیں‌ تھا۔ اور گاؤں جانے سے نومی کے باپ کو بھی اپنے گھر کے جلنے کا عِلم ھو جاتا۔ اِس لِئے ھم نے یہ فیصلہ کِیا تھا۔ نومی کے باپ کو منانا ھمارے لِئے آسان ثابِت ھُوا تھا۔ چوھدری نومی کی جان کا پیاسا ھو چُکا تھا۔ ایسے میں گاؤں جانا خطرناک امر تھا۔ چند دِن کے بعد حالات سازگار دیکھ کر گاؤں واپسی کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ گھر اور فصلوں کے حوالے سے فیضُو نے نومی کے باپ کو مُطمئِن کر دیا تھا۔ اسے وقتی طور پر جھُوٹی تسلّی دینے کے سِوا کوئی چارہ بھی تو نہیں‌ تھا۔ 
نومی کے گوجر خان جانے سےمُجھے بھی آسانی تھی۔ میں دفتر سے کافی چھُٹِیاں کر چُکا تھا اور اب میں دفتر جانا چاھتا تھا۔ اگر نومی گوجر خان ھوتا، تو میں بھی اُس کے پاس ھر دُوسرے تیسرے دِن چکّر لگا سکتا تھا۔ 
نومی کو چند دِن کے اِضافی قیام کے بعد ھسپتال سے چُھُٹّی دے دی گئی تھی۔ ڈاکٹر کے مُطابِق اُسے اب کُچھ دُنوں کے بعد چیک اپ کے لِئے آنا تھا۔ لیکن ھم نے فیصلہ کر لِیا تھا کہ اب اُس کا چیک اپ اِسلام آباد کے کِسی ھسپتال سے کرواتے رھیں گے۔ ڈاکٹر سے بھی ھم نے اِس سِلسِلے میں مشورہ کِیا تھا، تو اُنہوں نے نہ صِرف اِجازت دے دی، بلکہ اِسلام آباد کے سرکاری ھسپتال میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر کا نمبر اور پتہ بھی دے دِیا۔ اپنی طرف سے اُس ڈاکٹر کے نام ایک چِٹ بھی بنا دی۔ 
نومی کا زخم گو کہ کُچھ بہتر تھا، لیکن ڈاکٹر نے چند احتاطیں بتائی تھیں جِن پر عمل کیا جانا از حد ضرُوری تھا۔ ھم نے ڈاکٹر کو ھدایات پر عمل کا یقین دِلایا، اور ھسپتال سے نِکل آئے۔ نومی کے لِئے ایک خصُوصی ایمبولینس کا بندوبست کِیا گیا۔ 
شام تک ھم نومی کو لے کر گوجر خان پہُنچ چُکے تھے۔ بلال اُسی دِن رات کی گاڑی سے فیصل آباد کے لِئےعازِمِ سفر ھوگیا، جبکہ مَیں وہ رات نومی کے پاس ھی ٹھہرا تھا۔
دُوسرے دِن علی الصُبح مَیں بھی اپنے دفتر کے لِئے روانہ ھو گیا۔
************************************************** ************
شازِیہ اپنی بہن صنم کے پاس موجُود تھی۔ 
صنم اپنی پُرانی روِش پر قائِم تھی۔ شازِیہ چند گھڑِیاں اُس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے اُس کا دِل بہلانے کی کوشِش کرتی رھی، لیکِن صنم بے دِلی سے اُس کی باتیں سُن رھی تھی۔ آخِر شازِیہ اُٹھ گئی۔ جاتے جاتے اُس نے اُسے منہ ھاتھ دھو کر باھِر آنے کو کہا، لیکن صنم نے سُنی ان سُنی کر دی۔ شازِیہ نے ایک دو مرتبہ اُسے اپنی طرف مُتوجّہ کرنے کی کوشِش کی، لیکن صنم نے کوئی خاص دھیان نہیں دِیا۔ اب شازِیہ اس کے کمرے کے دروازے میں پہنچ چُکی تھی۔ وہاں اُس نے رُک کر کہا۔
صنم۔ جلدی سے باھِر آ جاؤ۔ مُجھے تُم سے ضرُوری بات کرنی ھے۔ اور عدنان بھی اب تک باھِر آ چُکے ھیں۔ کیا سوچیں گے وہ؟ اور ھاں۔ آتے ھُوئے نومی کا نمبر لیتی آنا۔ مُجھے نومی سے کُچھ بات کرنی ھے۔
اور صنم جو بد دِلی سے سُن رھی تھی، شازِیہ کے منہ سے نومی کا نام اور اس کی پُوری بات سُن کر چونکی تھی۔ اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔ 
ایک دم سے وہ اُٹھ کھڑی ھُوئی، اور اپنی بہن کے پیچھے لپکی۔
کیا کہا آپ نے آپا؟ کِس سے بات کرنی ھے آپ نے ؟
اور کمرے سے نِکلتی شازِیہ اُس کی طرف دیکھے بغیر زیرِ لب مُسکُراتے ھوئے دوبارہ بولی۔
اُسی سے جِس کا نام تُم نے سُنا۔ بہری تو نہیں ھو ناں تُم۔
اب تو صنم بھاگ کر اُس کے برابر میں آ کھڑی ھُوئی۔ 
ایک منٹ آپا، ایک مِنٹ۔ اب بتائیں، کیا کہا‌ آپ نے ؟
ھاں بھئی ، کیا کہا میں نے ؟
آپا پلِیز۔ بتائیں ناں۔
شازِیہ اُسے تڑپانے کے مُوڈ میں تھی، سو انجان بنی رھی، لیکِن اس کے ھونٹوں پر رقصاں شرِیر تبسُّم صنم کو ساری بات سمجھا رھا تھا۔ صنم یقین نہ کرنے والے انداز میں اُسے دیکھ رھی تھی،اور جب اُسے یقِین ھو گیا، کہ اُس نے جو سُنا، وہ سچّ تھا، تو اس نے شازِیہ کو جھنجھوڑ ڈالا۔
پلیز بتاؤ آپا۔ کیا بات ھے ؟ کیا بات کرنی ھے آپ نے اُس سے ؟
ارے پگلی۔ تیرے بارے بات کرنی ھے، اور مُجھے اُس سے کیا کام ھو سکتا ھے ؟
لیکِن میرے بارے کیا بات کرنی ھے آپ نے اُس سے ؟ خُدا کے لِئے آپا، مُجھے تڑپائیں نہیں، جلدی سے بتائیں، ورنہ میری سانس رُک جائے گی ۔ دِل پھٹ جائے گا میرا ۔
شازِیہ نے اُس کے منہ پر ھاتھ رکھ دِیا۔ 
خبردار جو دوبارہ سے ایسی منحُوس بات کی۔
اب شازِیہ اس کے سامنے آن کھڑی ھوئی۔ صنم اُسے ایسے دیکھ رھی تھی، جیسے یقین اور بے یقینی کے درمیان کھڑی ھو۔ اُس کی آنکھیں پانی سے بھری ھوئی تھیں، اور اس کا چہرہ اور اس کے ھونٹ شِدّتِ جذبات سے کانپ رھے تھے۔ 
شازِیہ نے اس کے چہرے کو اپنے ھاتھوں کے پیالے میں بھرتے ھوئے کہا۔
ھاں صنم۔ میں نومی سے تیرے بارے، تیری شادی کے بارے میں ھی بات کرنا چاھتی ھُوں۔ میں نے فیصلہ کِیا ھے، کہ میں تیری شادی نومی سے کروا کے ھی رہُوں گی۔ میں تیرا مِلن کرواؤں گی نومی سے ۔
اور صنم، جو حیرت سے اُس کی بات سُن رھی تھی، اُس کے جھنجھوڑنے پر ایک دم جیسے جاگی، اور 
دوبارہ بولی۔
آپا۔ کیا تُم مذاق تو نہیں کر رھی ھو ناں میرے ساتھ ؟ دیکھو آپا، ایسا مذاق ٹھیک نہیں ھو گا میرے لِئے۔
ارے نہیں پگلی۔ تیری بہن تُجھ سے ایسا مذاق کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
اور صنم جو پہلے ھی اُسے حیرت کی بُت بنی دیکھ رھی تھی، اُس کی بے یقینی میں مزِید اِضافہ ھو گیا۔
ھاں صنم۔ میں نے اَور عدنان نے فیصلہ کر لِیا ھے، کہ تیری شادی نومی سے ھی ھو گی۔ میں کرواؤں گی تیری شادی نومی سے۔ ابّے کے بغیر، اُس کی مرضی کے بغیر۔ اَور اِس سِلسِلے میں‌ عدنان بھی ھمارے ساتھ ھَے
اور صنم 
میری پیاری آپا
کہتی ھوئی تڑپ کر بِجلی کی سی سُرعت سے اپنی بہن کے سِینے سے لگ گئی۔
شازِیہ اُس کی پِیٹھ تھپتھپا رھی تھی۔ صنم کے رونے کی آواز اب اُسے صاف سُنائی دے رھی تھی۔ یقیناً وہ شِدّتِ جذبات سے رو رھی تھی۔ 
دُکھ کی جاں سوز گھڑِیوں کے بعد آج اُس کی بہن نے مُژدۂ زِندگی سُن لِیا تھا۔ 
ارے پگلی۔ تُو پِھر سے شُرُوع ھو گئی۔ چل اب چُپ کر جا۔ دیکھ صنم، تیرے یہ آنسُو مُجھے بالکُل اچھّے نہیں لگتے۔ اری پگلی تیرے اِن آنسوؤں سے مجبُور ھو کر ھی تو میں نے اِتنا بڑا قدم اُٹھانے کا فیصلہ کِیا ھے، اور تُو پِھر بھی آنسُو بہائے جا رھی ھے۔
اس بات پر صنم اس کے گلے لگے لگے ھی بولی۔
نہیں آپا۔ یہ تو میری خُوشی کے آنسُو ھیں۔ تُم نے اِتنی بڑی خوشخبری اچانک سُنا ڈالی ھے، تو اِتنے سے آنسُو تو بنتے ھی ھیں ناں آپا۔ اِنہیں میری خُوشی کا صدقہ سمجھ کر بَہ جانے دو۔
شازیہ اُس کی کمر پر ھاتھ پھیرتی رھی، اور صنم اُس کے سِینے سے لگ کر اپنے دِل کا بوجھ ھلکا کرتی رھی۔ اِسی جگہ کھڑے کھڑے اُنہوں نے نہ جانے کِتنی باتیں کر ڈالی تھیں۔ 
شازِیہ اب اُسے اپنے منصُوبوں کی جُزئیات سمجھا رھی تھی۔ اور اب وہ بھی اپنی مُکمّل دِلچسپی کے ساتھ اُس کی باتیں سُن رھی تھی۔ اُس کا انہماک ایسا تھا، گویا شازِیہ کے مُنہ سے نِکلے ھوئے ایک ایک لفظ کو اپنے اندر قید کر لینا چاھتی ھو۔ ایک ایک نُکتہ سمجھنا صنم کے لئے بے حد ضرُوری تھا۔ خُصُوصاً چوھدری شاد کا سامنا ھونے پر اُسے کِس طرح کا ردّ عمل دینا تھا۔ 
شازِیہ نے ایک مرتبہ پھِر سے اپنی بہن کی خُوشی کی خاطِر قُربانی دینے کا فیصلہ کر لِیا تھا۔ یہ الگ بات، کہ اب کی بار قُربانی کِسی اور چِیز کی نہیں، بلکہ اُس کی جان تک کی ھو سکتی تھی۔ 
چوھدری شاد اُسے اس اقدام کے نتیجے میں زِندہ جلا بھی سکتا تھا، اور اپنے کُتّوں کے آگے بھی پھِنکوا سکتا تھا۔ اَپنی اَنا کے مُعاملے میں وہ اَیسا ھی تھا۔ 
لیکن شازِیہ نے عدنان کے پاس بیٹھ کر اِس اقدام کے نتَِِیجے میں پیش آنے والے ایسے تمام مُمکِنہ مسائِل سمیت اپنے باپ کے شدِید ترین ردّ عمل اور اُس سے نِمٹنے کے طرِیقوں پر اچھّی طرح سے غور کر لِیا تھا۔ 
شازِیہ کے لِئے سب سے اھم اور مثبت پہلُو یہ تھا، کہ اس اقدام میں اُسے اپنے شوھر کی مُکمّل حمائِت حاصِل ھو گئی تھی۔ اب اُسے اِتنی زیادہ پریشانی نہیں تھی۔ 
شازِیہ اور صنم جِس وقت ایک دُوسری کے سینے سے لگ کر ُسہانے سپنے بُن رھی تھیں، عین اُسی لمحے کوٹھی کا مرکزی دروازہ کُھلا، اور اُس میں سے چوھدری شاد کی مخصُوص جِیپ گھر میں داخِل ھُوئی۔
چوھدری شاد بھی لاھور پہُنچ چُکا تھا۔ 
************************************************** *********
نومی اپنے چچا کے گھر میں موجُود تھا اور اس وقت کمرے میں اکیلا ھی لیٹا تھا۔ میں اپنے دفتر میں تھا، اور نومی کا باپ اس وقت اپنے بھائی کے ساتھ باھر کہیں گیا ھُوا تھا۔ 
جب وہ ھسپتال میں تھا، تو ھم میں سے کوئی نہ کوئی اُس کے ساتھ چِپکا رھتا تھا، تا کہ وہ سوچوں میں کم سے کم غرق رہ سکے، لیکن اب اُسے تنہائی مُیسّر آ گئی تھی۔ اور اس کی سوچوں کے گھوڑے صنم کی مُحبّت کے بیابانوں میں بھٹک رھے تھے۔ 
وہ اس وقت بھیگی پلکوں کے ساتھ صنم کے ساتھ گُزرے سُنہرے دِنوں کو یاد کر رھا تھا۔ صنم کا حسِین چہرہ بار بار اُس کی آنکھوں کے سامنے آ رھا تھا۔ صنم کی یاد اُس کے دل و دِماغ پر ساون کی گھٹا کی مانِند چھائی ھُوئی تھی۔ اُسے مُسلسل یاد کر کر کے اُس کے سِینے میں دھُواں سا بھر گیا تھا۔ اُس کا دِل جَیسے جل رھا تھا، اور ھر گُزرتے پل کے ساتھ اُس کے دِل کی تکلیف میں اِضافہ ھوتا جا رھا تھا۔ 
نہ جانے کِتنی ھی دیر تک وہ صنم کے خیالات میں ڈُوبا نہ جانے کیا کیا سوچتا رھا۔ اُسے شِدّت سے اپنی بے بسی کا احساس ھو رھا تھا۔ اُسے احساس ھو رھا تھا، کہ وہ اب ایک لمبے عرصے تک چارپائی سے لگ کر رھے گا۔ گولی نے اگرچہ اُس کے اندر اِتنا زیادہ نُقصان نہیں‌ کِیا تھا، لیکن پھِر بھی اُسے ٹھِیک ھونے میں لمبا عرصہ درکار تھا۔ 
وہ سمجھ چُکا تھا، کہ اگر وہ اگلے چند دِنوں میں کُچھ ٹھِیک ھو بھی گیا، تو اس حد تک ھی ھو گا، کہ خُود سے چند قدم چل سکے۔ لیکن مُکمّل صِحت یابی کے لِئے اُسے ھفتوں نہیں، بلکہ مہینوں درکار تھے۔ 
بے بسی کا اِحساس بڑا ھی تکلِیف دہ تھا۔ اُس کا دِل جیسے کٹ رھا تھا۔ رہ رہ کر صنم کی یاد بھی اُس کے دِل کو کچوکے لگا رھی تھی، اُسے گھائِل کر رھی تھی۔ اُس کی پلکیں بار بار بھیگ رھی تھیں۔ 
اِنسان کِسی ھمدرد کے کندھے پر سر رکھ کر جِتنا مرضی کھُل کر رو لے، اپنے دِل کا غُبار نِکال لے، لیکن یہ ایک حقِیقت ھے، کہ اِنسان سب سے زیادہ کُھل کر تنہائی میں ھی رو سکتا ھے۔ 
آج کئی دِنوں کے بعد اَیسی تنہائی مِلی تھی، تو وہ بھی شائد کھُل کر رویا تھا۔ 
اب وہ ٹھنڈے دِماغ سے حالات پر غور کر رھا تھا۔ ایک بات جو اُس نے تسلِیم کر لی تھی، کہ اب اُس کے اور صنم کے درمیان ایک لمبی جُدائی ایک یقینی امر تھا ۔ نہ تو وہ گاؤں جا سکتا تھا، اور نہ ھی صنم اُس کے پاس آ سکتی تھی۔
یہ بھی مُمکِن تھا، کہ نومی کے ٹھِیک ھونے سے پہلے پہلے صنم کا باپ اُس کی شادی کہیں اور کروا دے۔
یہ خیال اس کی رُوح تک کو گھائِل کر رھا تھا ، لیکِن اب وہ اس بات سے آنکھیں چُرانے کی بجائے سنجِیدگی سے ان تمام اِمکانات پر غور کر رھا تھا۔ 
یہ بات جب ھم اُسے سمجھا رھے ھوتے تھے، تو وہ مان کر ھی نہیں دیتا تھا، لیکن اب نومی کو سوچنے کے لِئے وقت مِلا تھا تو وہ خُود بخُود ھی اس حقِیقت کو تسلِیم کر رھا تھا۔
پِچھلے چند دِنوں کی تنہائی نے اُسے حقیقت پسند بنا دِیا تھا۔
وہ دِل ھی دِل میں اپنی بے بسی پر پِھر سے رو دِیا۔ 
اُسی لمحے اُس کے دِل سے ایک لمبی آہ نِکلی۔ اُس نے اپنے دِل میں اُسے پُکارا تھا، جو امِیر غریب، گورے کالے، چھوٹے بڑے سمیت کِسی بھی فرق کو خاطِر میں لائے بغیر سب کی سُنتا ھے۔

اُس نے دِل ھی دِل میں‌ اپنے خُدا کو پُکارا تھا۔ 
************************************************** ********
چوھدری شاد گاڑی سے اُترا، اور اندر پہنچ گیا۔ سامنے عدنان کھڑا تھا۔ دونوں بغل گِیر ھُوئے۔ مُلاقات کے بعد عدنان اُسے اپنے کمرے میں ھی لے آیا۔
رسمی علیک سلیک کے بعد عدنان اُس سے گاؤں کے حالات اور اِنتِخاب کی تیّارِیوں کا پُوچھنے لگ گیا۔ شاد رسمی سے جواب دے رھا تھا۔ اِتنی دیر میں شازِیہ بھی وہاں آ گئی۔ باپ نے بیٹی کے سر پر ھاتھ پھیرا۔ عام حالات ھوتے، تو شازِیہ اپنے باپ کو وھاں دیکھ کر ضرُور خُوش ھوتی، لیکن اب حالات اَیسے تھے، کہ شازِیہ کے اندر کڑواھٹ گھُل گئی۔ اُسے اس وقت اپنے باپ کا وُجُود انتِہائی کھُل رھا تھا۔ 
باھِر سے چوھدری نعمان کی آواز آ رھی تھی۔ یقیناً وہ بھی وھاں پہُنچ چُکا تھا۔ شازَیہ کا دِل ایک انجانے خدشے کے تحت دھڑک اُٹھا۔ 
چوھدری نعمان اور چوھدری شاد گرمجوشی سے مِلے۔ دونوں ایک طرف رکھّی کُرسِیوں پر آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ 
دو تایا زاد بھائِیوں کی گُفتگُو شُرُوع ھُوئی، تو شازِیہ کو وھاں سے کِھسکنے کا موقع مِل گیا۔ وہ باھِر نِکلنے سے پہلے عدنان کو باھِر آنے کا اِشارہ کرنا نہیں بھُولی تھی۔ 
عدنان بھی کُچھ دیر کے بعد اُس کے پاس پہُنچ چُکا تھا۔ وہ اس وقت صنم کے کمرے میں تھے۔ صنم بیڈ پر ایک طرف ھو کر بیٹھ گئی۔ وہ بھی اُن کی طرف پریشانی سے دیکھ رھی تھی۔ اُسے بھی صُورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ ھو رھا تھا۔
عدنان۔ مُجھے گڑ بڑ لگ رھی ھے۔ ابّے نے پِچھلی دفعہ کہا تھا، کہ جلد ھی وہ آئے گا اور صنم کی شادی کر کے ھی جائے گا۔ لگتا ھے، کہ ابّا اِسی کام کے لِئے آیا ھے، کیونکہ تایا نعمان بھی یہاں پہنچ چُکا ھے ۔ لگتا ھے دونوں ساری باتیں راستے میں موبائِل پر ھی طَے کر چُکے ھیں۔
ارے ڈرو نہیں۔ اِتنا بڑا کام اِتنی جلدی بھی نہیں ھو سکتا۔ آخِر کُچھ وقت تو لگائیں گے وہ لوگ۔ اور وھی وقت ھمیں کافی ھو گا۔
نہیں عدنان۔ آپ میرے باپ کو اُتنا نہیں جانتے جِتنا میں جانتی ھُوں۔ وہ اب صنم کا کُچھ نہ کُچھ کر کے ھی جائے گا۔ اور مُجھے لگتا یہی ھے، کہ وہ آج کل میں ھی کُچھ کرگُزرنے کا اِرادہ رکھتے ھیں۔ کُچھ کرو عدنان، خُدا کے لِئے کِسی طرح کُچھ کرو۔ میرا تو دِل بیٹھا جا رھا ھے۔
عدنان نے اُسے تسلّی دی۔ اب وہ تیزی سے کُچھ سوچنے میں مصرُوف تھا۔ آخِر کُچھ سوچ کر وہ وھاں سے اُٹھ آیا۔ 
************************************************** ********
وہ اپنے خُدا کے حُضُور دِل ھی دِل میں خاموش فریاد پیش کر رھا تھا۔ 
اے خُدا۔ میں بہُت گُناھگار ھُوں۔ کوئی اور جانے نہ جانے، لیکِن تُو میرے ھر عیب سے واقِف ھے۔ میں اپنی ھر غلطی کی مُعافی مانگتاھُوں، میرے خُدا۔ مُجھے مُعاف کر دے۔ خدایا، میرے گُناہ مُعاف کرنے سے تیری خُدائی میں ذرّہ برابر بھی فرق نہیں آ سکتا۔ تُو اکیلا ھر بات پر قادِر ھے۔ خُدایا، مُجھے مُعاف کر دے۔ خُدایا۔ میری ھر سعی ھر کوشِش ناکام ھو گئی ھے۔ میں ھار گیا ھُوں مولا۔ لیکن جو کام ھم ساری کوشِشوں کے باوجُود نہ کر سکیں، خُدایا، وھی کام تیرے فقط ایک لفظ فرما دینے سے ھی انجام پا جاتا ھے خُدایا۔ مُجھ پر رحم فرما۔ میرے لِئے آسانی پیدا فرما۔ مُجھے تو کوئی راستہ بھی نظر نہیں آ رھا ھے ۔ تُو ھی کرم فرما۔ مُجھے کِسی بھی طرح صنم سے مِلوا دے خُدایا۔ میری زِندگی کو آسان کر دے خُدایا۔ تُجھے تیرے پیاروں کا واسِطہ۔ میرے لِئے آسانی پیدا فرما خُدایا۔
نومی کا دِل مُسلسل فریاد بھی کر رھا تھا اور ساتھ ساتھ وہ روتا بھی جا رھا تھا۔ 
خُدایا۔ مَیں نے صنم سے جو کر دِیا ھَے، اُس کے بعد اُس کی زِندگی برباد ھو سکتی ھے۔ مَیں اُسے بربادی سے بچانا چاھتا ھُوں خُدایا۔ میری مدد فرما۔ اب تو صِرف تُو ھی میری مدد کر سکتا ھَے۔
وہ شکِستہ دِل لِئے نَم آنکھوں سے خُدا کے حُضُور فریاد پیش کر رھا تھا، اَور اِنسان اِس طرح سے اپنے خُدا کو پُکارے، تو خُدا اِنسان کی فریاد کو ردّ کَیسے کر سکتا ھے ۔۔۔۔ !۔ 
اُس کی فریاد یقیناً سُن لی گئی تھی۔ قُدرت کو اُس پر یقیناً رحم آ چُکا تھا۔ 
کیوُنکہ اُسی لمحے اُس کے موبائِل پر ایک ایسا فون آیا تھا، جو بعد میں اُس کی زِندگی کا سب سے اھم فون ثابِت ھُوا۔ 
************************************************** ******************** 
عدنان اُن کے پاس پہنچ چُکا تھا۔ وہ دونوں اُس کو دیکھ کر ایک مرتبہ تو خاموش ھو گئے، لیکن پِھر چوھدری نعمان نے اُسے مُخاظِب کر کے مُختصر لفظوں میں صنم اور محمُود کے نِکاح کی اِطّلاع دی۔ وہ آج ھی نِکاح کرنا چاھتے تھے۔
عدنان اندر ھی اندر شازِیہ کی تعرِیف کِئے بِنأ نہ رہ سکا۔ اُس کا اندازہ حرف بہ حرف سچّ ثابِت ھُوا تھا۔
عدنان نے پہلے تو خُوشی کا اِظہار کِیا ، اور اس کے بعد سوچے سمجھے منصُوبے کے تحت اِتنی جلدی نِکاح اور اِس مُعاملے میں‌ عدنان سے مشورہ نہ کِئے جانے پر مصنُوعی ناراضی ظاھِر کرنے لگا۔ پِھر اُسے جھُوٹ بولنا پڑا، کہ ایک تو وہ آج پھِر دفتری کام سے کہیں جا رھا تھا (حالانکہ وہ دفتر سے چھُٹّی پر تھا) دُوسرے یہ کہ، وہ اپنے بھائی کی شادی دھُوم دھام سے کرنا چاھتا تھا۔
چوھدری شاد اور چوھدری نعمان نے دفتر سے ایک دو دِن کی چھُٹّی لینے کا کہا، لیکِن اُس نے بہانہ گھڑ دِیا، کہ آج کل اُس کی کمپنی کے مالِکان بھی باھِر سے آئے ھُوئے تھے۔ کوئی بہت بڑا مُعاملہ چل رھا تھا، اِس لِئے وہ چھُٹّی نہیں کر سکتا تھا۔
چوھدری شاد اس کام کو جلد از جلد نمٹانا چاھتا تھا۔ اُس نے کہا، کہ اُس کے بغیر ھی نِکاح کر دینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ 
عدنان اُس کی بات سُن کر حَیرانی سے اُسے دیکھنے لگا۔ 
کیا بات کر رھے ھَیں چچا جان؟ میرے بھائی کی خُوشی میں، مَجھے ھی نہِیں دیکھنا چاھتے آپ ؟
پِھر وہ اپنے باپ سے مُخاطِب ھُوا۔
لیکِن بالفرض اگر مَیں شرِیک نہ بھی ھوسکُوں، پھِر بھی شادیاں اور وہ بھی ھمارے خاندان میں، ایسے انجام نہیں پاتیں۔
اُس کے باپ نے چوھدری شاد کی طرف دیکھا۔ چوھدری شاد کے چہرے پر شِکنیں واضح نظر آ رھی تھیں۔ یقیناً اُسے عدنان کی بات پسند نہیں آ رھی تھی۔ 
دیکھو عدنان۔ میں الیکشن لڑ رھا ھُوں۔ چاھتا یہ ھُوں، کہ جلد سے جلد صنم کی شادی کر دُوں۔ اِسی لِئے میں آیا ھُوں، کہ آج اور ابھی، اِسی گھر سے صنم کی رُخصتی بھی کروا دیتے ھیں۔ یہ گھر بھی میرا اور صنم کا ھی ھے۔ کیا وہاں اور کیا یہاں، کیُوں بھائی صاحِب ؟
آخری بات چوھدری شاد نے چوھدری نعمان کو مُخاطِب کر کے کہی تھی جِس کے جواب میں چوھدری نعمان نے بھی تائِیدی انداز میں سر ھِلا دِیا تھا۔ 
اب کے عدنان نے اپنے سُسر کو دوبارہ مُخاطِب کِیا۔
کیا بات ھے چچا جان‌؟ آخِر آپ اپنی ھر بیٹی کی شادی کے مُعاملے میں‌ اِتنی جلدی میں ھی کِیُوں ھوتے ھیں؟ شازِیہ کی شادی بھی آپ نے ایسے ھی آناً فاناً کروا دی تھی۔ اور اب صنم کو بھی ایسے ھی رُخصت کرنا چاھتے ھیں۔ شازِیہ کی بارات تو پھِر آپ کے دروازے پر گئی تھی، لیکِن صنم کے مُعاملے میں تو آپ یہ رسم تک قُربان کر دینا چاھتے ھیں۔ معذرت کے ساتھ، لیکِن چچا جان، عِزّت دار لوگ اپنی کنواری بیٹِیوں کو اپنے گھر سے اِس طرح رُخصت نہیں کِیا کرتے ۔ اگر آپ چوھدری خاندان سے ھیں، تو ھم بھی تو چوھدری ھیں۔ اور ھمارے خاندان میں شادِیاں اَیسے تھوڑی ھوتی ھیں۔۔۔۔۔!“
چوھدری شاد کُچھ کہنا چاھتا تھا، لیکِن عدنان نے اُسے بولنے کا موقع دِئے بغیر اپنی بات جاری رکھّی۔
میرے بھائی کی شادی ضرُور ھو گی چچا جان، لیکِن دھُوم دھام سے۔ رسمیں بھی کی جائیں گی، خُوشِیاں بھی منائی جائیں گی اور بارات بھی آپ کے دروازے پر آئے گی۔ ورنہ لوگ میری معصُوم بہن، اور آپ کی معصُم بیٹی بیچاری صنم کے بارے میں سو سو جھُوٹی باتیں گھڑیں گے چچا ۔ کیا آپ ایسا چاھتے ھیں ؟
عدنان نے اپنے باپ اور چچا کو لاجواب کر دِیا تھا۔ چوھدری نعمان کے چہرے سے بھی لگ رھا تھا، کہ اُسے بھی عدنان کی باتوں نے شدِید مُتأثّر کِیا ھے ۔ وہ بھی اب عدنان کی ھاں میں ھاں مِلا رھا تھا۔ 
لیکِن عدنان۔۔۔۔۔۔؟
لیکِن ویکن کُچھ نہیں چچا۔ صنم کی شادی ھو گی آپ کی مرضی سے، لیکِن ھم ھر رسم بھی پُوری کریں گے۔ آپ الیکشن سے فارِغ ھو لیں۔ اور آپ صنم کے بارے میں بالکُل بھی پریشان نہ ھوں۔ اگر آپ الیکشن کی وجہ سے صنم پر توجُہ نہیں دے پا رھے، تو اِس کا حل بھی ھے میرے پاس۔ صنم آپ کے الیکشن ختم ھونے تک یہیں رہ لے گی، اپنی بہن کے پاس۔ اِس طرح آپ صنم کی طرف سے بے فِکر ھو کر سکُون سے الیکشن لڑ سکیں گے۔ کیا خیال ھے ابّا جان ؟
اور چوھدری نعمان فوراً بولا۔
بالکُل ٹھِیک ھے پُتّر ۔ بالکُل ٹھِیک ھے۔
پِھر وہ چوھدری شاد سے مُخاطِب ھُوا۔
عدنان ٹھِیک کہ رھا ھے شاد۔ الیکشن کے بعد صنم کی شادی دھُوم دھام سے کریں گے۔ تُو صنم کی فِکر نہ کر۔ الیکشن تک رھنے دے اُسے یہیں، شازِیہ کے پاس۔
لیکِن اگر شادی ابھی کر دیں گے، تو اِس میں بھی حرج تو کوئی نہیِں تھا ؟“ چوھدری شاد اندر سے زِچ ھو کر، لیکِن بظاھِر دھِیمے لہجے میں بولا تھا۔
اب بس بھی کر دے شاد۔ خواہ مخواہ کی ضِد چھوڑ دے۔ عدنان کی یہ بات میرے بھی دِل کو لگی ھے، کہ اَیسے شادی کرنے سے شرِیک سو سو باتیں بنائیں گے۔ صنم پُتّر کی شادی الیکشن کے بعد ھو گی۔ دھُوم دھام سے ھو گی، ھر رسم کی جائے گی، اور ڈولی بھی تیرے دروازے سے ھی اُٹھّے گی۔
اور چوھدری شاد ”جی بھائی جان۔“ کہ کر چُپ ھو رھا۔ بظاھِر وہ چُپ تھا، لیکِن اُس کے اندر جوار بھاٹے کی سی کیفیت چل رھی تھی۔
وہ کِسی ھارے ھُوئے جواری کی طرح سر جھُکائے بیٹھا تھا۔ اچانک جَیسے چوھدری نعمان کو کُچھ یاد آیا۔ وہ عدنان کی مُخاطِب کر کے گویا ھُوا۔
اچھّا بھئی عدنان۔ یہ تو بتاؤ، صنم پُتّر کہاں ھے ؟ ابھی تک میَں اُس سے تو مِلا ھی نہیِں۔ باتوں باتوں میں دھیان ھی نہیِں رھا۔۔۔۔۔ شازِیہ۔۔۔۔؟ او شازِیہ۔۔۔۔۔! صنم کہاں ھے ؟ اچھّا ٹھہرو، میَں خُود ھی اُس کے کمرے میں آ رھا ھُوں۔
چوھدری نعمان اندر کی جانِب چل دِیا۔ 
عدنان نے فاتِحانہ نظروں سے اپنے سُسر کو دیکھا جِس کا سر ابھی تک جھُکا ھُوا تھا۔ عدنان یقیناً اُس کے اندر تک جھانک کر اندازہ لگا سکتا تھا کہ اس وقت چوھدری شاد اندر سے کِتنے غُصّے میں ھو گا۔ 
اُس نے پہلے محاذ پر اپنے سُسر کو شکِست دے دی تھی۔
************************************************** ********
نومی نے نمبر دیکھا۔ نمبر اجنبی تھا۔ پہلے تو وہ چاھتا تھا، کہ نہ اُٹھائے، لیکن پِھر کِسی خیال کے تحت اُس نے دھڑکتے دِل کے ساتھ فون اُٹھا ھی لِیا۔
جی، کون ؟“ 
آپ نومی بول رھے ھو؟“ آواز انتِہائی شائِستہ تھی اور لہجہ اِنتِہائی دوستانہ۔
مگر آپ کون ھو ؟
دیکھو۔ میں جو بھی ھُوں، لیکِن تُمھارا خیر خواہ ھُوں۔ تُم نومی ھی ھو ناں؟
جی۔ لیکن آپ کَون ھَیں ؟ مَیں تو آپ کو نہِیں جانتا۔ ؟
ٹھِیک کہا۔ تُم مُجھے نہیں جانتے، لیکِن میں تُمھارے بارے میں بہُت کُچھ جانتا ھُوں۔
میرے بارے میں ؟
نومی کا دِل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
لیکِن آپ ھیں کون؟ اور میرے بارے میں کیسے جانتے ھیں؟ اور مُجھے فون کرنے کا مقصد کیا ھے آپ کا ؟“ 
بتاتا ھُوں، سب کُچھ بتاتا ھُوں۔ پہلے یہ بتاؤ، کہ اِس وقت کوئی تُمھارے پاس تو نہیں ھے ناں‌؟
جی نہیِں، میں اکیلا ھی ھُوں۔ آپ بات کریں۔
میں لاھور سے چوھدری عدنان بات کر رھا ھُوں۔
لیکِن میں تو لاھور میں کِسی چوھدری عدنان کو نہیں جانتا۔۔۔
حالانکہ وہ لاھور میں رھنے والے ایک عدنان کو تو جانتا تھا۔ صنم نے اُسے اپنے بہنوئی کے بارے میں کافی کُچھ بتا رکھّا تھا۔ 
سب سے پہلے تو ایک بات کا دھیان رکھنا۔ اِس فون کا اَور اِس کال کے دوران ھونےوالی گفتگُو کا ذِکر کبھی کِسی سے مت کرنا۔۔۔۔۔۔۔ اب آتے ھَیں میرے تعارُف کی طرف۔ تو سُنو۔ مَیں تُمھارے گاؤں میں رھنے والے چوھدری شاد کے خاندان سے ھُوں، چلو تُمھیں کُچھ اور بھی بتائے دیتا ھُوں ۔ میں صنم کا سگا بہنوئی ھُوں۔
صنم کا نام سُنتے ھی نومی کا دورانِ خُون ایک دم سے تیز ھو گیا۔ اُس کا شک اب یقِین میں بدل رھا تھا۔ دُوسری طرف عدنان کی بات جاری تھی۔
لیکِن مُجھ سے ڈرنے یا پریشان ھونے کی ضرُورت بالکُل نہیں ھے ۔ میرا مقصد جو بھی ھے، وہ میں بعد میں بتاؤں گا، فی الحال اِتنا سمجھ لو، کہ میں تُمھارا دُشمن نہیں، بلکہ خیر خواہ ھُوں۔
پِھر وہ چند ثانِئے کی خاموشی کے بعد بولا تھا۔ 
دیکھو نومی۔ مَیں تُم سے اِنتِہائی اھم موضُوع پر بات کرنا چاھتا ھُوں۔ اور اُس موضُوع کا تعلُّق براہِ راست نہ صِرف تُمھاری ذات سے ھے، بلکہ تُم سے جُڑی ایک اور زِندگی سے بھی ھے۔ مَیں صنم کی بات کر رھا ھُوں۔ اُمّید ھے، کہ تُم کو کافی حد تک اندازہ تو ھو گیا ھو گا، کہ میں تُم سے کِس موضوع پر بات کرنا چاھتا ھُوں۔ لیکِن اِس موضُوع پر تُم سے مزِید بات ابھی نہِیں، بلکہ دو گھنٹے بعد ھو گی۔ اِتنی دیر تک تُم بھی اپنے آپ کو بات کے لِئے تیّار کر لو۔ اور ھاں، سب سے اھم بات۔ جب بھی میں فون کرُوں، صِرف اور صِرف تنہائی میں ھی بات کرنا۔ اور یاد رکھنا، اِس فون کا ذِکر اپنے کِسی بھی رازداں دوست تک سے مت کرنا۔ اور یہ مَیں‌ صِرف تُمھاری بھلائی کے لِئے کہ رھا ھُوں۔ اُمّید ھے، کہ تُم اَیسا ھی کرو گے۔ اچھّا، خُدا حافِظ ۔
نومی اُس کی بات کے جواب میں کُچھ کہنا چاھتا تھا، لیکن دُوسری طرف عدنان نے اُس کی بات کا اِنتِظار کئے بغیر ھی کال کاٹ دی تھی۔
وہ جو پہلے ھی حیران و پریشان تھا، اس بات کے بعد تو اُس کے اندر جیسے بے چینی کا ایک سمندر موجزن ھو گیا۔ طرح طرح کے خیالات اُس کے دِماغ میں پیدا ھو رھے تھے۔ 
ایک تو وہ اس بات پر پریشان تھا، کہ عدنان نے تعارُف میں‌صنم کا حوالہ اور اِشارہ کِیوں دِیا تھا، اور اُسے عدنان کی اس بات نے بھی سب سے زیادہ تذبذب میں مُبتلا کر دِیا تھا، کہ وہ اُس سے ایسے موضُوع پر بات کرنا چاھتا تھا،، جِس کا تعلُّق اُس کے عِلاوہ اُس سے جُڑی ایک اور ھستی سے بھی تھا۔ پِھر آخِر میں اُس نے صنم کا نام لے کر ھر بات جَیسے واضِح کر دی تھی۔ 
وہ کوئی دُودھ پیتا بچّہ نہیں‌ تھا، کہ اِن اِشاروں کا مطلب نہ سمجھ سکتا۔ اِن باتوں سے اُسے واضح طور پر سمجھ آ رھی تھی، کہ عدنان اُس سے اُس کے اور صنم کے تعلُّق کے حوالے سے ھی بات کرنا چاھتا تھا۔
لیکِن سوال یہ تھا، کہ وہ اُس سے اِس موضُوع پر کیا بات کرنا چاھتا تھا ؟ 
اور کِیوں بات کرنا چاھتا تھا ؟ 
کہیں یہ بھی نومی کو پھانسنے کے لِئے کوئی نیا پھندا تو نہیں تھا ؟
نومی جِتنا اِس بات پر غور کر رھا تھا، اُتنا ھی اُلجھتا جا رھا تھا۔ آخِر اُس نے مُجھے فون کر کے ساری بات بتا دی ۔ میں اُس وقت دفتر کے کام کے سِلسِلے میں کِسی جگہ بیٹھا ھُوا تھا۔ 
نومی کی زُبانی یہ باتیں سُن کر میں بھی ورطۂ حیرت میں ڈُوب گیا تھا۔ اِتنا تو ھم نے سُن رکھّا تھا، کہ چوھدری شاد کی بڑی بیٹی لاھور میں کِسی عدنان نامی شخص کے ساتھ بیاھی گئی تھی، لیکِن ھمیں اُس شخص کا خاص تعارُف حاصِل نہیں تھا۔ 
مُجھے بھی جہاں عدنان نامی اُس شخص کے نومی کو ایسا فون کرنے پر حیرت ھُوئی تھی، وہیں عدنان کی باتوں سے کُچھ سمجھ بھی نہیں آ رھی تھی، کہ عدنان در اصل کیا چاھتا تھا۔
آخِر میں نے نومی سے کہا، کہ فی الحال وہ اُس سے کِسی طرح کی فالتُوبات نہ کرے۔ بلکہ مُحتاط انداز میں ھی بات کرے اور بولے کم، سُنے زیادہ۔ تا کہ عدنان کی باتیں سُن کر نتیجہ اخذ کِیا جا سکے۔ اور جو بھی بات ھو، وہ فوراً مُجھے بتائے۔ 
نومی کی خواھِش تھی، کہ میں ابھی اُس کے پاس پہنچُوں، لیکن میں اس وقت دفتری مُعاملات کی وجہ سے نہیں جا سکتا تھا۔ 
میں نے آج شام تک اُس کے پاس پہُنچنے کا وعدہ کر لِیا۔ 
*********************************** *****************************
عدنان نے ایک اھم اور مُشکِل مرحلہ خُوش اَسلوبی سے طَے کر لِیا تھا۔ 
چوھدری شاد اپنی بیٹی کی فوری شادی کرنے کی نِیّت باندھ کر لاھور آیا تھا، لیکِن عدنان نے چند باتیں کر کے ھی بازی پلٹ دی تھی۔ چوھدری نعمان، جو پہلے چوھدری شاد کا ھمنِوا بنا ھُوا تھا، عدنان کی دلیل سُن کر یکسر بدل گیا تھا۔ اب وہ اپنے بیٹے کی شادی صنم کے ساتھ اُسی طرح دھُوم دھام سے کرنا چاھتا تھا، جیسے عدنان نے خواھِش ظاھِر کی تھی۔
چوھدری شاد وھاں سے جا چُکا تھا۔ اُس نے جانے سے پہلے صنم کی شکل دیکھنا بھی گوارہ نہیں کِیا تھا۔ حتّیٰ کہ جاتے وقت بھی وہ اُس کے سر پر ھاتھ پھیرے بغیر ھی وھاں سے نِکل گیا تھا۔ 
دُوسری طرف صنم بھی اپنے کمرے سے اُس وقت تک نہ نِکلی، جب تک چوھدری شاد وھاں سے چلا نہیں گیا۔ 
عدنان کا باپ بھی چوھدری شاد کے ساتھ ھی نِکل گیا تھا۔ وہ اُسے لے کر اپنی حویلی چلا گیا تھا۔ وہ علیحدہ گھر میں رھتا تھا۔ 
عدنان اب صنم اور شازِیہ کے پاس بیٹھا ھُوا تھا۔ صنم تو سر جھُکائے بیٹھی تھی، لیکِن شازِیہ آئِندہ کے حالات پر منصُوبہ بندی کر رھی تھی۔ اچانک صنم اپنی جگہ سے اُٹھّی، اور اس سے پہلے، کہ عدنان اور شازِیہ کُچھ سمجھتے، وہ تیزی سے عدنان کے قدموں میں گِر گئی۔ عدنان سٹپٹا کر پِیچھے ھٹ گیا۔ شازِیہ بھی حَیرانی سے صنم کو دیکھ رھی تھی۔ اُسی لمحے صنم کی روھانسی آواز سُنائی دی جو اَب سر اُٹھا کر عدنان سے مُخاطِب تھی۔
عدنان بھائی۔ مَیں آپ کا شُکرِیہ تو ادا نہیں کر سکتی، پِھر بھی، ایک بات کہنا چاھُوں گی۔ میرا کوئی بھائی نہیں ھے۔ اگر ھوتا، تو میری خواھِش ھوتی، کہ کاش، آپ کی طرح ھوتا۔ آپ بہُت اچھّے ھیں عدنان بھائی۔ آپ بہُت اچھّے ھیں۔ جب ایک باپ اپنی بیٹی کی خُوشِیوں کے راستے کی دِیوار بن کر اپنی بیٹی کو عُمر بھر کے لِئے تڑپتے رھنے کے لِئے چھوڑ دینا چاھتا ھے، آپ اُس وقت اُس بیٹی کی خُوشِیوں کے لِئے اِتنا بڑا قدم اُٹھا رھے ھیں۔ میری دُعا ھے، کہ زِندگی بھر آپ خُوشِیاں ھی سمیٹتے رھیں۔ کبھی کوئی غم آپ کو چھُو بھی نہ سکے۔ میری دِلی دُعا ھَے، کہ خُدا آپ کو جلد سے جلد اَولاد سے بھی نواز دے۔
اور جواب میں عدنان نے مُسکُرا کر اُس کے سر پر ھاتھ پھیر دِیا۔ اُس کی آخری بات سُن کر تو شازِیہ بھی جذباتی ھو گئی تھی۔ 
کُچھ دیر کے بعد ماحول جب کُچھ ھلکا پُھلکا ھو گیا، تو عدنان نے صنم سے نومی کا نمبر مانگا۔ 
اُنہوں نے نومی کو فون اُسی نشِست میں لگایا تھا۔
************************************************** *********
چوھدری شاد اِس وقت اپنی گاڑی میں بیٹھا گاؤں واپِس جا رھا تھا۔ اُس کو سب سے زیادہ غُصّہ عدنان پر آ رھا تھا جِس نے چوھدری شاد کے اِرادوں پر پانی پھیر دِیا تھا۔ 
لیکِن ایک بات پر چوھدری شاد خُوش بھی تھا۔ عدنان نے صنم کو الیکشن تک اپنے پاس ھی رکھنے کی تجوِیز دے کر چوھدری کی ایک پریشانی کم کر دی تھی۔ 
اور پھِر اُن لوگوں نے اِنتِخابات کے فوری بعد ھی سہی، شادی کی رضا مندی بھی دے ھی دی تھی۔ 
صنم کی شادی بے شک نہیں‌ ھو سکی تھی، لیکِن وہ اب اُسے کم از کم گھر میں نظر بھی نہ آتی۔ 
شاد اب جلد از جلد صنم سے جان چُھڑا لینا چاھتا تھا۔ اور بھلے وقتی طور پر سہی، لیکِن اُس کی جان صنم سے چھُوٹی ھُوئی تھی۔ 
اب چوھدری اِنتِخابات کے مُعاملات یکسُوئی کے ساتھ دیکھ سکتا تھا۔
************************************************** *********
عدنان کا فون شام کے وقت تک نہیِں آیا تھا۔ اب تک مَیں بھی نومی کے پاس پہُنچ کر اُس سے ایک لمبی بات چِیت کر چُکا تھا۔ لیکِن عدنان کے مُتوقّع فون کے حوالے سے ھم دونوں ھی کوئی اندازہ لگانے سے قاصِر تھے۔ 
آخِر عدنان نومی سے کیا خاص بات کرنے والا تھا۔۔۔۔۔؟
ایک بہتری یہ ھُوئی، کہ اُس وقت نومی کا باپ اپنے بھائی کے ساتھ کِسی کام سے گیا ھُوا تھا ورنہ وہ نومی کو صنم کے موضُوع پر عدنان سے کوئی بھی بات نہ کرنے دیتا۔
اچانک نومی کا موبائِل گُنگُنا اُٹھّا۔ اُس نے سکرِین کی طرف دیکھ کر مُجھے فوراً بتا دِیا کہ فون عدنان کا ھی تھا۔ 
ھم دونوں کی دھڑکنیں تیز ھو گئیِں۔ کُچھ ھی دیر میں ساری بات سامنے آنے والی تھی۔
اُس نے کال اٹینڈ کرتے ھی موبائِل کا لاؤڈر والا بٹن بھی دبا دِیا تھا۔ اب میَں بھی اُن کے درمیان ھونے والی گُفتگُو سُن سکتا تھا۔
جی۔ کون ؟
مَیں عدنان بات کر رھا ھُوں لاھور سے۔ تُم نومی ھی ھو ناں؟
جی جناب۔ لیکِن مُجھے آپ کے فون کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آ رھی ۔
آ جائے گی۔ وجہ بھی جلد ھی سمجھ میں آ جائے گی۔ پہلے ایک بات بتاؤ، کہ تُم اِس وقت کہاں ھو، کیُوںکہ میَں تُم سے فوری مِلنا چاھتا ھُوں۔
نومی کا جِسم ایک نئے ڈر سے سنسنا اُٹھّا۔ اُس کے اندر انجانے خدشات مضبُوط ھوتے جا رھے تھے۔ میری حالت بھی اُس سے مُختلِف ھر گِز نہیں تھی۔
یہ بھی یقیناً چوھدری کی ھی کوئی چال تھی۔ 
لیکِن آپ مُجھ سے کِیوں مِلنا چاھتےھیں جناب؟ آپ کو کام کیا ھے مُجھ سے، آپ کھُل کر کیُوں نہیں بتا دیتے کہ آپ کا مقصد آخِر کیا ھے ؟ میَں تو آپ کو جانتا تک نہیں ھُوں۔
لیکِن میَں نہ صِرف تُم کو جانتا ھُوں، بلکہ تُمھاری زِندگی کے کئی رازوں سے واقِف ھُوں۔ اور یہ بھی جانتا ھُوں، کہ تُم کو گولی لگی ھے، اور تُم زخمی ھو۔
پِھر تو آپ اِس بات سے بھی واقِف ھوں گے، کہ مُجھے گولی کیوُں ماری گئی ھے۔۔۔۔؟
ھاں، میَں نہ صِرف ظاھِری وجہ سے واقَف ھُوں، بلکہ پسِ پردہ بات سے بھی آگاہ ھُوں۔
میرا دِل بے اِختیار چاھا، کہ فون اُس کے ھاتھ سے پکڑ لُوں، اور خُود بات کروں، لیکِن بڑی مُشکِل سے میَں نے اپنا آپ قابُو میں رکھّا۔
دیکھیں جناب۔ آپ کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آ رھیں۔ آپ کھُل کر بات کیُوں نہیں کرتے آخِر ؟
دیکھو نومی۔ مُجھ پر اِعتماد کرو۔ میَں تُمھارا خیر خواہ ھُوں۔
صِرف زُبانی کلامی کہ دینے سے کوئی اجنبی خیر خواہ کیَسے بن سکتا ھے عدنان صاحِب؟ اگر آپ اِتنی باتوں سے آگاہ ھیں، تو پھِر تو میرے تمام تر حالات آپ کے عِلم میں ھوں گے۔ اِن حالات میں تو میَں آپ کو اپنا پتہ نہیِں بتا سکتا۔ آپ کے پاس میری خیر۔۔۔۔۔
عدنان نے نومی کی بات درمیان میں ھی کاٹ دی۔ 
اگر صنم کہ دے، تب بھی نہیِں۔۔۔؟
اور نومی کا دِل جیسے دھڑکنا بھُول گیا۔ میَں بھی یہ ساری گُفتگُو سُن کر حیران پریشان بیٹھا تھا، لیکِن نومی کی تو جیَسے آنکھیں ھی پتھرا گئی تھیں۔ 
میرا دِل دوبارہ سے چاھا، کہ فون پکڑ کر خُود عدنان سے بات شُرُوع کر دُوں، لیکِن ابھی تک عدنان کی عائِد کردہ رازداری کی شرط حائِل ھو رھی تھی۔ 
کِتنی ھی دیر تک تو نومی بول ھی نہ پایا۔ آخِر عدنان کی آواز دوبارہ ھماری سماعتوں سے ٹکرائی۔
بولو نومی۔ اگر صنم تُم سے بات کر لے، پِھر بھی تُم مُجھ پر یقِین نہیں کر سکتے ؟
کیا صنم آپ کے پاس موجُود ھے ؟ اگر ھَے تو اُس سے میری بات کروائیں۔
میَں نومی کے سوال پر بھونچکّا رہ گیا۔ میَں نے اُسے بار بار سمجھایا تھا، کہ پہلے وہ اُس کے سامنے کِسی طرح کا اِعتراف نہیں کرے گا، بلکہ صِرف اُس کی سُںے گا۔ 
لیکِن طَے شُدہ منصُوبے کے برعکس نومی بھی سیدھی سیدھی بات پر اُتر آیا تھا۔ عدنان کی باتوں کے بعد، اور خُصُوصاً اُس کی جانِب سے صنم سے بات کی پیشکش کے بعد وہ اپنے آپ کو مزیِد روک نہیں سکا تھا۔
اگر ایسی بات ھے، تو لو، صنم سے بات کر کے اپنی تسلّی کرلو۔“ عدنان نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا تھا۔ 
نومی کا چہرہ جذبات کی حِدّت سے سُرخ ھو رھا تھا۔ پنکھا چلنے کے باوجُود پسیِنے کے قطرے اُس کی پیشانی پر نُمایاں طور پر نظر آ رھے تھے۔ عدنان کی بات سُن کر تو میری اپنی حالت بھی عجِیب ھو گئی تھی۔ 
کیا واقعی عدنان صنم سے نومی کی بات کروانے جا رھا تھا ؟ اگلے چند لمحوں میں اِس بات کا فیصلہ ھونے والا تھا۔ 
ھم دونوں ھی فون سے اُبھرنے والی آواز پر کان لگائے بیٹھے تھے۔
چند ساعتیں خاموشی رھی۔ نومی کے لِئے وہ چند ساعتیں صدِیوں پر مُحِیط تھیں۔ وہ سانس روکے اپنی تمام تر توجّہ موبائِل پر مرکُوز کِئے بیٹھا تھا۔ یُوں لگتا تھا، کہ اُس کی تمام حِسیں سِمٹ کر اُس کی آنکھوں میں آ گئی ھوں۔ اُس کی آنکھیں، جو حد درجہ پَھیل چُکی تھیں۔ 
پِھر ایسے لگا، جیسے کوئی بولنے سے پہلے اپنا گلا صاف کرنے کے لِئے کھنکار رھا ھو۔ 
پِھر فون پر صنم کی سُرِیلی آواز اُبھری۔
کیسے ھو نومی ؟
اور نومی کی دھڑکنیں تیز ھو گئیِں، یا شائِد اُس کا دِل دھڑکنا ھی بھُول گیا۔ حالانکہ صنم نے اپنا تعارُف نہیِں کروایا تھا، لیکِن اِس کے باوجُود نومی اُس کی آواز سُن کر فوراً اُسے پہچان گیا تھا۔ 
نومی کے لِئے صنم کی رسِیلی آواز ھی اُس کا مُکمّل تعارُف تھی۔ 
وہ ابھی تک آواز میں ھی کھویا ھُوا تھا۔ جب کافی دیر تک نومی بول نہ پایا، تو صنم دوبارہ بولی تھی۔ 
نومی۔۔۔۔ سُن رھے ھو ناں ؟
میَں نے اُسے جھنجھوڑا، تو وہ ھوش میں واپِس آیا، اور گویا ھُوا۔
صنم۔ کیا یہ واقعی تُم ھی ھو صنم ؟
ھاں نومی۔ میں صنم ھی ھُوں۔ تُم کیسے ھو؟
میں ٹِھیک ھُوں۔ تُم لاھور میں ھو اِس وقت ؟ تُم ٹھِیک تو ھو ناں؟
ھاں، میَں لاھور میں ھُوں، اور بالکُل ٹھِیک ھُوں۔ اب تُمھارا زخم کیسا ھے ؟
کون سا زخم ؟
مُجھے سب پتہ ھے نومی۔ ڈانگر نے گولی ماری ھے تُمھیں۔
تو گویا تُمھیں پتہ ھے ؟
ھاں، لیکِن اب بتا بھی دو، کہ کَیسے ھو تُم ؟ زخم کَیسا ھے ؟
میَں بالکُل ٹھِیک ھُوں میری جان، اوراب تُمھاری آواز سُن لینے کے بعد، تُم سے بات کر لینے کے بعد تو میرے سب زخم اب مُجھے ٹھِیک لگنے لگے ھیں۔
میَں بھی صنم کی آواز سُن رھا تھا۔ نومی اب شائِد میری پروا کِئے بغیر ھی بول رھا تھا۔ صنم کی‌آواز سُن کر وہ دُنیا و مافیہا سے جیَسے بے نیاز ھو گیا تھا۔ میَں نے ایک نظر باھِر دیکھا، کہ کہیں کوئی آ نہ رھا ھو، لیکِن باھِر کوئی نہیں تھا۔
سُنو نومی۔ میَں جانتی ھُوں، تُمھیں گولی لگی ھے، تُمھاری حالت ٹِھیک نہیں ھے، لیکِن حالات اب ایَسے رُخ پر چل رھے ھیَں، کہ ھمیں فوری بڑے فیصلے کرنا ھوں گے۔ باتوں کے لِئے تو عُمر پڑی ھے ۔ غور سے سُنو نومی۔ عدنان بھائی میرے بہنوئی ھیں، اور تُم اُن پر اُتنا ھی اِعتماد کر سکتے ھو، جِتنا تُم مُجھ پر یا اپنے دوستوں پر کرتے ھو۔ کیونکہ اُنہوں نے اور آپا شازِیہ نے مُجھ سے ھماری فوری شادی کا وعدہ کر لِیا ھے۔
خبر تھی یا دھماکا۔ نومی سے زیادہ میَں اُچھل پڑا تھا۔ 
کیا کہ رھی ھو صنم؟ کیا کہ رھی ھو تُم ؟ کیا واقعی۔۔۔۔؟
ھاں نومی۔ ایسا ھی ھے۔
اور تُمھارا باپ۔۔۔؟
اُسے بتائے بغیر ھی یہ سب ھو گا، ورنہ وہ کہاں ھونے دیتا یہ سب۔ اچھّا سُنو، ابھی میَں زیادہ بات نہیِں کر سکتی۔ عدنان بھائی اور آپا اگرچہ میرے کمرے سے باھِر کھڑے ھیَں، لیکِن مُجھے اُن کی وجہ سے شرم سی آ رھی ھے۔ تُم ویسے ھی کرو، جیَسا عدنان بھائی کہیں۔۔۔۔
لیکِن صنم۔ اِتنے عرصے بعد بات ھو رھی ھے، اور اِتنی جلدی۔۔۔؟ کُچھ دیر تو بات کرو مُجھ سے۔ مُجھے یقِین تو آ لینے دو، کہ میَں کوئی خواب نہیَں دیکھ رھا، بلکہ سچّ مُچّ اپنی صنم سے ھی بات کر رھا ھُوں۔
میَں جانتی ھُوں نومی، تُم مُجھ سے بہُت سی باتیں کرنا چاھتے ھو۔ میَں بھی تُم سے ڈھیروں باتیں کرنا چاھتی ھُوں میری جان۔ لیکِن ابھی ھمیں تھوڑا صبر کرنا ھو گا نومی۔ بس کُچھ دِن اور، پھِر صنم ھمیشہ ھمیشہ کے لِئے تُمھاری ھونے والی ھے نومی۔ پھِر ھم جی بھر کے باتیں کرلیں گے۔ ابھی ھمیں تھوڑا صبر کرنا ھو گا نومی۔ ۔۔۔ اچھّا اب عدنان بھائی آواز دے رھے ھیں، تُم اُن سے بات کر کے اپنا پتہ اُن کو سمجھا دو۔ وہ خُود تُم سے مِلنے پہُنچ جائیں گے۔ اور‌ھاں، ھمارے پاس وقت بہُت کم ھے نومی۔ جو بھی کرنا ھو گا، جلدی کرنا ھو گا۔ تُم سمجھ رھے ھو‌ ناں؟
ھاں ھاں میری جان۔ سمجھ گیا۔ تُم بس اپنا خیال رکھنا۔
اس کے بعد چند لمحوں تک خاموشی رھی، پِھر عدنان کی آواز آئی تھی۔
ھاں بھئی۔ اب تو یقِین آ گیا ناں؟
جی عدنان بھائی۔ میَں مُعافی چاھتا ھُوں، لیکِن آپ بھی میرے حالات جانتے ھی‌ ھیں اب تو۔ میَں آج کل بہُت ڈرا ھُوا ھُوں۔ اِس لِئے آدمی تو دُور، ھر اجنبی فون نمبر سے بھی بعض دفعہ خَوف آنے لگتا ھے۔
میَں تُمھاری پوزِیشن سمجھ رھا ھُوں نومی۔ اِسی لِئے اِنتِہائی مجبُوری کی وجہ سے ھی صنم سے تُمھاری بات کروائی ھے۔ تا کہ تُمھارا شک دُور کِیا جا سکے۔ اب بتاؤ، تُم کِس شہر میں ھو؟
میَں گوجر خان کے پاس ھُوں ایک گاؤں میں۔
نومی نے عدنان کو گاؤں کا مُکمّل پتہ سمجھا دِیا۔ 
ٹھِیک ھے نومی۔ آج اور کل تو میَں کہیِں مصرُف ھُوں۔ اب پرسوں ھی آؤں گا، اور دھیان رکھنا۔ کِسی کو بھی پتہ نہیں چلنا چاھِئے، کہ میَں تُمھیں مِلنے آ رھا ھُوں، ورنہ تُم بھی مزِید مُشکِل میں پڑ سکتے ھو، اور صنم بھی۔ اور میَں بھی اچھّا خاصا پھنس جاؤں گا۔ سمجھ رھے ھو ناں ؟
آپ باکلُ فِکر نہ کریں، عدنان بھائی۔ لیکِن ایک بات کی اِجازت دیں۔ میرا ایک دوست میرے ھر راز میں میرا مددگار رھا ھے۔ اُس کا نام فیروز ھے۔ وہ آپ کو سڑک سے گھر تک ساتھ لے کر آئے گا۔ آپ ناراض تو نہیِں ھوں گے ناں ؟
یہ کیا کہ رھے ھو؟ سوچ لو، کہیِں کوئی گڑ بڑ نہ کروا دے ؟
نہیں عدنان بھائی۔ میَں اُس پر اپنے آپ سے بھی بڑھ کر اِعتماد کرتا ھُوں، اور آپ بھی فِکر نہ کریں۔ وہ اِس سارے سِلسِلے کے دوران ھر مُشکِل مرحلے پر میری مدد کرتا آیا ھے۔ صنم بھی یہ بات جانتی ھی ھے۔
یہ بات کرتے ھُوئے نومی میری طرف دیکھ کر مُسکُرا رھا تھا۔
تو پِھر ٹِھیک ھے ۔ تُم سے پرسوں مُلاقات ھو گی ۔ خُدا حافِظ ۔
’”خُدا حافِظ ۔
رابطہ کٹ چُکا تھا۔
ھم دونوں ھی ایک دُوسرے کی طرف ایسے دیکھ رھے تھے، گویا ایک دُوسرے کی نظروں میں کُچھ پڑھ کر یقِین کی منزِل تک پُہُنچنا چاھتے ھوں۔ یقِیناً صُورتِ حال غیر معمُولی رُخ اِختیار کر چُکی تھی۔
لیکِن نومی کے باپ کو کیسے منایا جاتا ؟ یہ ھمارے لِئے بے حد مُشکِل کام تھا۔ نومی پر جان لیوا حملے کے بعد اُس کا باپ کِسی صُورت بھی چوھدری شاد کی بیٹی کے لِئے ھاں نہ کرتا۔ وہ تو اب صنم کے نام سے ھی بھڑک جاتا تھا۔ وہ میرے سامنے بارھا نومی کی تمام تکالِیف کی ذِمّ دار صنم کو ٹھہرا چُکا تھا۔ اُسے نومی کے غائِب ھو جانے والی بات بھی اب تک بُھولی نہیں تھی۔ اگر نومی شدِید زخمی نہ ھُوا ھوتا، تو نہ جانے نومی کے ساتھ وہ کیا سلُوک کرتا!
ھم نے اُس کے باپ کو نہ بتانے کا فیصلہ کر لِیا تھا۔ لیکِن اِس صُورت میں عدنان سے نومی کی مُلاقات اِنتِہائی مُشکِل تھی، کیونکہ نومی گھر سے باھِر نہیں جا سکتا تھا، اور عدنان کے گھر تک آنے کی صُورت میں نومی کے والِد کو لازمی پتہ چل جاتا۔
نومی کا باپ عدنان کو جانتا تھا۔ 
آخِر ھم دونوں نے اِس کا بھی ایک حل سوچ ھی لِیا۔ اب ھمیں بلال کو فون کر کے ساری صُورتِ حال بتانا تھی۔میَں نے اُس کا نمبر مِلا دِیا۔ 
************************************************** *********** 
میَں رات کو واپِس آ گیا تھا۔ اب ھمیں پرسوں والے دِن کا اِنتِظار تھا۔
ایک بات بہر حال ھمارے لِئے پریشانی کا باعِث بنی ھُوئی تھی۔ ھمیں اچھّی طرح اندازہ تھا، کہ آج نہیں تو کل، آخِر ایک دِن نومی کے باپ کو بھی ساری بات بتانا ھی پڑے گی۔
مُشکِل یہ تھی، کہ اِن حالات میں اُسے نومی کی صنم کے ساتھ شادی کے لِئے منایا کیَسے جائے گا ؟
مُجھے رہ رہ کر رانا صاحِب کی کمی محسُوس ھو رھی تھی۔ اگر وہ ھوتے تو نومی کے باپ کو مِنٹوں میں منا لیتے۔ 
میَں اِنہی سوچوں میں گُم اپنے کمرے تک پہُنچ گیا۔ 
جو ھو گا، دیکھا جائے گا۔ جب عدنان آ کر بات کرے گا، تب کوئی فیصلہ کریں گے۔ ابھی تو سونا چاھِئے۔“ 
یہ فیصلہ کر کے مَیں سو گیا۔
************************************************** *******
اگلی صبح بڑی ھی ھنگامہ خیز تھی۔ 
رات کے کِسی پہر رانا صاحِب کی بیوی کو ھارٹ اٹیک ھُوا تھا اور وہ اِس وقت آئی سی یُو میں داخِل تھیں۔ یہ بات مُجھے میرے دفتر ھی سے پتہ چل سکی تھی۔ مَیں خاصا پریشان ھو گیا۔ رانا صاحِب مُلک سے باھِر تھے، اور اُن کی بیوی ھسپتال پہُنچ چُکی تھی۔ مَیں اُن کی بیوی سے اُن کے گھر پر کئی مرتبہ مِل چُکا تھا۔ وہ بھی رانا صاحِب کی طرح بڑی شفِیق خاتُون تھِیں۔ مُجھے بہُت پیار سے مِلتی تھِیں۔ مَیں بھی اُن کا بے حد اِحتِرام کرتا تھا۔ اُن کے سامنے جا کر مُجھے اُن کی اولاد سے محرُومی یاد آ جاتی اور ھمیشہ مَیں اُن کے لِئے اپنے دِل میں ایک ٹِیس سی محسُوس کرتا۔ 
خُصُوصاً غبن پکڑوانے کے بعد تو رانا صاحِب نے اُن کے کہنے پر ایک مرتبہ اپنے گھر پر میری دعوت بھی کی تھی۔
اب اُن کی صِحّت کا سُن کر مُجھے دِلی پریشانی لاحق ھو گئی تھی۔
مَیں نے ھسپتال کا پتہ لِیا، اور مینجر صاحِب سے دو گھنٹے کی چھُٹّی لے کر نِکل کھڑا ھُوا۔
وہ شِفا اِنٹر نیشنل ھسپتال میں داخِل تھِیں۔ 
ھسپتال میں پہُنچ کر جب مَیں رانا صاحِب کی بیگم کے لِئے مخصُوص کردہ کمرے کے سامنے پہُنچا، تو ایک خُوشگوار حیرت کا منظر میرا مُنتظِر تھا۔
سامنے رانا صاحِب ایک ڈاکٹر کے ساتھ کھڑے تھے۔
یقِیناً وہ اپنی بیگم کی صِحّت کا سُن کر اچانک واپس آئے تھے، ورنہ تو کاروباری مُعاملات کی وجہ سے اُن کا نِصف ماہ کے قرِیب دورہ ابھی باقی تھا۔
میَں اُن سے بغل گِیر ھُوا۔ سلام دُعا کے بعد مَیں نے اُن سے اُن کی بیگم کی صِحّت کا پُوچھا، تو اُنہوں نے مُختصراً بتایا، کہ اب اُن کی صِحّت کافی بہتر ھے اور ڈاکٹر اُن کوکمرے میں مُنتقِل کر چُکے َھیں۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹِیم ابھی بھی اُن کا مُعائِنہ کر رھی تھی۔
اِس کے بعد وہ تو ڈاکٹر کے ساتھ ایک طرف چلے گئے۔ اور مَیں ایک طرف رکھّی کُرسی پر بیٹھ گیا۔ جب تک ڈاکٹروں کی ٹِیم کمرے سے باھِر نہ آ جاتی، مَیں اندر نہِیں جا سکتا تھا۔
وھاں بیٹھے بیٹھے میرے دِماغ میں مُختلِف خیالات جمع ھونا شُرُوع ھو گئے تھے۔ اب مَیں رانا صاحِب کی بیگم کی صِحّت کی پریشانی سے نِکل کر نومی کے موضُوع پر سوچ رھا تھا۔
رانا صاحِب اچانک اُس وقت پاکِستان واپِس آ گئے تھے، جب ھمیں اُن کی کمی شِدّت سے محسُوس ھو رھی تھی۔ 
لگ یہی رھا تھا، کہ قُدرت اب ھر طرف سے نومی کی مدد کر رھی تھی۔
مَیں نے فوری نومی اور بلال کو باری باری رانا صاحِب کی اچانک واپسی کا بتا دِیا۔ بلال تو خُوش ھُوا ھی، لیکِن نومی کی خُوشی کا تو کوئی ٹِھکانہ ھی نہِیں تھا۔ 
اب یقیناً ابّے کو منانا بھی آسان ھو جائے گا فیروز۔
اُس نے جذبات سے لبریز آواز میں کہا تھا۔
مَیں رانا صاحِب کی بیوی کے اِصرار پر اُس دِن دیر تک ھسپتال میں ھی رُکا رھا۔ مَیں نے اُن کا بے حد خیال رکھّا۔ وہ بھی مُجھ سے اَیسے باتیں کر رھی تھیں، جَیسے مَیں اُن کا سگا بیٹا ھُوں۔ 
شام تک رانا صاحِب کی بیوی کی صِحّت کافی حد تک سنبھل چُکی تھی۔ اگرچہ اُن کے تمام ٹیسٹ ٹِھیک آئےتھے، لیکِن رانا صاحِب نے اُنہیں اِحتِیاطاً مزِید ایک رات یہیں روک لِیا تھا۔ 
یقِیناً وہ اپنی بیوی سے بے حد مُحبّت کرتے تھے۔
ھسپتال سے واپسی پر رانا صاحِب نے مُجھے اپنی گاڑی میں بِٹھا لِیا تھا۔ میری بائِیک اُن کا ڈرائِیور لا رھا تھا۔ 
میری تو پہلے ھی شدِید خواھِش تھی، کہ کِسی طرح کوئی موقع بنے، اور مَیں اُن کو کُچھ بتا سکُوں، لیکِن ابھی تک اُن کی بیوی کی صِحّت کی وجہ سے چُپ تھا۔ 
لیکِن اب، جبکہ اُن کی بیوی کی صِحّت کُچھ سنبھل چُکی تھی، تو اُنہیں ذھنی سُکُون مُیسّر آیا تھا۔ اب شائِد وہ بھی مُجھ سے چند باتیں کرنا چاہ رھے تھے۔
گاڑی میں اُنہوں نے مُجھ سے گاؤں کے حالات اور نومی کا پُوچھا۔ میں نے کِسی قدر تردُّد کے بعد ، اُن کے مُلک سے باھِر جانے کے بعد پیش آنے والے سارے واقعات بِلا کم وکاست اُنہیں سُنا دِئے ۔
رانا صاحِب بہُت حیرت زدہ تھے۔ خُصُوصاً اُنہیں ملک صاحِب پر بہُت دُکھ تھا، اور نومی کی زمِین اور گھر جلائے جانے کا سُن کر تو وہ حَیرت سے سُن سے ھو گئے تھے۔ لیکِن جو بھی ھونا تھا، اب تو ھو چُکا تھا۔ 
رانا صاحِب نے مُجھے سختی سے تاکِید کی، کہ مَیں صبح سویرے ھسپتال پہُنچ جاؤں۔ اُنہوں نے بھی وھِیں آنا تھا۔ مزِید بات اب صُبح ھسپتال میں بیٹھ کر ھی کی جانا تھی۔
رانا صاحِب کے جانے کے بعد مَیں اپنے آپ کو بے حد ھلکا پُھلکا محسُوس کر رھا تھا۔ 
نومی کی کہانی کو واضِح رُخ مِل چُکا تھا، اور اب اُس کے دُکھوں کا مداوا ھونے ھی والا تھا۔ 
مُجھے اَب اُس کی اور صنم کی مُحبّت ایک پاکِیزہ رِشتے کی جانِب تیزی سے بڑھتی دِکھائی دے رھی تھی۔
رانا صاحِب سے مُلاقات ھو چُکی تھی۔ مَیں اُن کو تمام تفصِیل سے آگاہ کر چُکا تھا۔ اُنہوں نے مُجھے تاکِید کی، کہ نومی کو لے کر مَیں اِسی ھسپتال پہُنچ جاؤں۔ اُس کے عِلاج کے بقِیہ اخراجات وہ اُٹھانے والے تھے۔ ایک ڈاکٹر کو بھی اُنہوں نے اِس سِلسِلے میں فون کر دِیا تھا۔
اُنہوں نے چند ایک فون نومی کے کیس کے حوالے سے بھی کر ڈالے۔
اب نومی کا کیس مزِید مضبُوط ھو چُکا تھا۔
************************************************** ********
مَیں دُوسرے دِن علی الصُبح نومی کے پاس پہُنچ چُکا تھا۔
اُس کو ھسپتال لے کر جانا تھا۔ مَیں نے اُن کو بتا دِیا تھا کہ رانا صاحِب نے اس کے تمام اخراجات کا بندوبست کر دِیا ھے۔ نومی کا باپ اُن کا یہ اِحسان لینے کے حق میں نہِیں تھا۔ وہ بڑی مُشکِل سے مانا تھا۔ 
ھم نومی کو لے کر شِفا اِنٹر نیشنل ھسپتال آ گئے۔ راستے میں عدنان نے بتایا، کہ عدنان‌ آج نہِیں آ سکتا تھا۔ اُس کوئی کام پڑ گیا تھا، اور اب وہ کل آنے والا تھا۔ 
ھسپتال میں اُس کا بہُت اچھّا چیک اَپ ھُوا۔ واقعی ھسپتال تو مہنگا تھا، لیکِن عِلاج بھی بہُت اچھّا ھوتا ھو گا۔ 
رانا صاحِب بھی ھسپتال میں ھی آ گئے تھے۔ نومی کو دیکھ کر اُنہیں بہُت دُکھ ھُوا تھا۔ 
ھم چاھتے تھے، کہ رانا صاحِب نومی کے والِد کو ابھی سے اِعتماد میں لے لیں، لیکِن رانا صاحِب نے اِس تجوِیز کو مُسترِد کر دِیا۔ پہلے وہ عدنان کی بات جان لینا چاھتے تھے۔ باقی رانا صاحِب کا تعاوُن ھمارے ساتھ تھا، اِس بات میں تو کوئی شک تھا ھی نہیِں۔
وھاں سے ھم لوگ سِیدھا میرے کمرے پر آئے تھے۔ میرا اِرادہ نومی کو ایک رات اِسلام آباد میں رکھنے کا تھا۔ کل عدنان سے مُلاقات کے لِئے میرا کمرہ ھی بہترِین جگہ تھی۔
مَیں نے نومی کے باپ کو بھی قائِل کر ھی لِیا تھا۔ بہانہ ھم نے یہ کِیا تھا، کہ دو دِن بعد 
۔ دوبارہ ھسپتال جانا ھے۔ گوجر خان جانے کی بجائے یہاں رُکنا زیادہ مُناسِب رھے گا۔ 
نومی کے چچا کو بھی فون کر دِیا گیا تھا 
اب عدنان سے ھونے والی مُلاقات کے منصُوبے میں مقام تبدِیل ھو گیا تھا، اور عدنان کو بھی ھم نے 
آگاہ کر دِیا تھا۔ اُس نے کوئی اِعتراض کِئے بغیر گوجر خان کی بجائے اِسلام آباد آنے کی حامی بھر لی۔ 
عدنان کی آمد کے موقع پر نومی کے باپ کو کُچھ دیر کے لِئیے کمرے سے غائِب کرنا میرے لِئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ یہ کام تو مَیں مُحلّے کے ایک بابا جی سے بھی کروا سکتا تھا۔ اِس سِلسِلے میں نومی کے والِد اور اُن بابا جی کی ایک قدرِ مُشترِک کام آنے والی تھی، جِس کا نام تھا ”تاش“ کھیلنے کی عادت۔ اِنگلِش میں جِسے کارڈز کہا جاتا ھے۔
اب کام آسان تر ھوتا جا رھا تھا۔
************************************************
رات کو میَں نے اُن بابا جی سے مُلاقات کر کے اُنہیں کُچھ اَیسے انداز میں سمجھایا، کہ اگلے دِن ھمیں کم از کم تِین گھنٹے مُیسّر آ سکیں۔ اِتنا وقت ھمارے لِئے کافی تھا۔ یہ بات ھم نے عدنان سے بھی طَے کر لی تھی۔ 
اب ھمیں عدنان کا اِنتِظار تھا۔ عدنان، جو صنم اور نومی کی مُحبّت کی کہانی میں ایک فیصلہ کُن کِردار ادا کرنے والا تھا۔ اگرچہ ھم نے بھی اپنے اپنے طَور پر نومی کی مدد کی تھی، لیکِن ھم میں سے کوئی بھی نومی کو صنم تک قانُونی رسائی نہیِں دِلوا سکا تھا۔ جبکہ عدنان نے ایک ھی جست میں اَیسا کر دِکھانے کی اُمّید دِلا دی تھی۔
دُوسرے دِن اتوار کی وجہ سے مَیں چھُٹّی پر تھا۔ بلال بھی فیصل آباد سے پہُنچ چُکا تھا۔ ھم سب میرے کمرے میں آسانی سے سما گئے تھے۔
*******************************************
اگلے دِن ھم سب نے ناشتے کے بعد کُچھ دیر تک آرام کِیا۔ ھم تِینوں دوستوں کو اُن بابا جی کا اِنتِظار تھا۔ وہ تو نہ آئے، مگر رانا صاحِب آ گئے۔
اُنہوں نے نومی کے باپ کو اَور مُجھے ساتھ لِیا اور گاڑی لے کر چل پڑے۔ مَیں جانا تو نہِیں چاھتا تھا، مگر رانا صاحِب کے بے حد اِصرار پر مجبُوراً جانا پڑا۔ 
ھم نے راستے میں اُن سے بہُت پُوچھا، کہ ھم کہاں جا رھے ھَیں، لیکِن وہ خاموش رھے۔
ایک جگہ ایک گھر کے سامنے پہُنچ کر اُنہوں نے گاڑی روک دی اور ھمیں باھِر آنے کو کہا۔ وہ گھر کے مرکزی دروازے میں داخِل ھُوئے، تو ھمیں بھی اُن کی تقلید کرنا پڑی۔ مَیں حَیران تھا، کہ یہ گھر کِس کا تھا۔۔۔۔۔ !
گھر کافی خُوب صُورت تھا، اور گھر کے اندر اور باھِر چند مزدُور رنگ کا کام کرنے میں مصرُوف تھے۔
رنگ کرنے والے رانا صاحِب کو دیکھ کر اِحتِراماً سِیدھے ھو کر سلام کر رھے تھے۔
یہ لیں بابا جی۔ یہ رھا آپ کے لِئے اَور نومی کے لِئے میری طرف سے ایک چھوٹا سا ُتحفہ۔
اَور ھم دونوں حَیرانی سے جہاں کھڑے تھے، وھیں کھڑے رہ گئے۔ رانا صاحِب نے اپنا کہا سچّ کر دِکھایا تھا۔ 
لیکِن اب میرے بیٹے کی شادی اُس لڑکی سے ھو ھی نہیِں رھی، جِس سے آپ نے طَے کی تھی۔ تو پھِر اِس گھر کا ھم کیا کریں گے ؟ نہیں رانا صاحِب نہِیں ۔ ھمارے لِئے ھمارا گھر ھی بہُت ھے۔
نہیِں جناب۔۔ یہ تو آپ کو قبُول کرنا ھی پڑے گا۔ اَور اَب مَیں آ گیا ھُوں ناں، تو اُس لڑکی کے مُعاملے کو بھی ایک آدھ دِن میں دیکھ لیتے ھَیں۔
جب رانا صاحِب نومی کے والِد کو چابی دینے لگے، تو نومی کے باپ نے بہُت اِنکار کِیا، لیکِن بالآخِر رانا صاحِب نے اُنہیں چابی تھما ھی دی۔
گھر کا کام مُکمّل ھونے میں بس چند دِن باقی تھے۔
نومی کے باپ نے اُن کا نم آنکھوں سے شُکرِیہ اَدا کِیا۔ 
اِس تمام کام میں ھمیں ایک گھنٹا لگ گیا۔ واپسی پر مَیں نے نومی کے باپ کو رانا صاحِب کے ساتھ ھی بھِجوا دِیا تھا۔ اب وہ اُن کے گھر اُن کی بیگم کا بھی شُکرِیہ اَدا کرنے جا رھا تھا۔
اَبھی مَیں راستے میں ھی تھا، کہ مُجھے بلال نے فون پر بتایا، کہ عدنان اِس وقت پشاور موڑ پہُنچنے والا ھے۔ مَیں بھی وھیں پہُنچ گیا۔ عدنان کا نمبر مُجھے مِل چُکا تھا۔ فون کر کے ھم نے ایک دُوسرے کو اپنی اپنی لوکَیشن اَور حُلِیہ بتا کر ایک دُوسرے کو تلاش کر لِیا۔
عدنان لمبے قد کا مالِک، تقرِیباً پینتِیس سالہ گورے رنگ کا آدمی تھا۔ اُس کے بھاری چہرے پر بھاری مُونچھیں اُس کی مردانہ وجاھت اَور وقار میں اِضافہ کر رھی تھیں۔ 
کمرے میں پہُنچ کر عدنان نے جب نومی کو دیکھا، تو اُس کو بھی بے حد دُکھ ھُوا۔ 
عدنان سے مُلاقات سے پہلے ھی بلال کو نومی نے کُچھ دیر کے لِئے باھِر بھیج دِیا تھا۔ لیکِن آج عدنان کو ھم نے بلال اَور رانا صاحِب کے بارے میں اِعتماد میں لینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ 
مَیں نے رانا صاحِب کو فون پر عدنان کی آمد کا بھی بتا دِیا تھا، اور نومی کے باپ کو کُچھ زیادہ وقت کے لِئے روکنے کی درخواست بھی کر دی تھی۔ اُنہوں نے کہا۔
اَب جب تک تُم مُجھے نہِیں کَہو گے، مَیں اِن کو روک کر ھی رکھّوں گا۔
اَور مَیں نے شُکرِئے کے ساتھ رابِطہ ختم کر دِیا۔ 
عدنان سے اُس دِن کی مُلاقات تِین گھنٹے پر مُحِیط تھی۔ اُس نے ھمیں اپنے منصُوبے سے کھُل کر آگاہ کِیا۔ 
وہ عدنان اَور صنم کا خُفِیہ نِکاح عدالت کے ذرِیعے ، یعنی کورٹ میرج کروانے جا رھا تھا۔ 
اُس نے بتایا، کہ صنم کے معمُولاتِ زِندگی میں کوئی فرق نہِیں آئے گا۔ وہ اپنے باپ کے گھر بھی رھنا چاھے، تو رَہ سکتی ھَے، لیکِن بس ایک خاص وقت تک۔ اِتنے میں نومی بھی کُچھ بہتر ھو جاتا۔ پِھر ایک دو ماہ کے بعد عدنان کِسی طرح سے بھی صنم کو اُس کے باپ کے گھر سے لاھور منگوا لیتا اَور نومی کے حوالے کر دیتا۔ تبھی نومی اِس نِکاح کو ظاھِر کر دیتا۔ 
ھم بھی جانتے تھے، کہ اِس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ھے۔ مسئلہ صِرف نومی کے والِد کو منانے کا تھا۔
وہ چاھتا تھا، کہ نومی کو نِکاح کے لِئے کِسی طرح سے لاھور لے جایا جائے، مگر نومی کی موجُودہ حالت کے پیشِ نظر اِحتِیاطاً ھم اَیسا نہیں کرنا چاھتے تھے۔ 
آخِر ھم نے صنم کو ھی اِسلام آباد لانے کا فیصلہ کِیا۔ صنم، شازِیہ اَور عدنان کُچھ دِن کے بعد مری کی سَیر کے بہانے اِسلام آباد آتے، اَور عدالت میں لے جا کرصنم اَور نومی کا خُفِیہ نِکاح کروا دِیا جاتا۔ 
اِتنے دِنوں تک نومی اپنے قدموں پر کھڑے ھو کر کِسی حد تک چلنے کے قابِل ضرُور ھو جاتا۔ 
مَیں اب تک ایک بات پر سخت حَیران تھا، کہ اِتنا بڑا کام کرنے کے بعد عدنان چوھدری شاد اَور اپنے والِد کا سامنا کیسے کرے گا ؟ 
شازِیہ سے اُس کا باپ کیا سلُوک کرے گا ؟
جب مَیں نے عدنان سے اِس بارے سوال کِیا تو وہ مُسکرایا، اور بولا۔
تُمھارا کیا خیال ھے، کہ مَیں نے اِس کا حل نہ سوچا ھو گا ؟
نہیِں جناب۔ لیکِن بس جاننا چاھتا ھُوں، کہ آخِر آپ کریں گے کیا ؟
تُم سوچ سوچ کر اپنے آپ کو ھلکان مت کرو بھائی۔ یہ میرا مسئلہ ھَے، اَور مَیں اِس سے نِمٹ لُوں گا۔
مَیں خاموش ھو گیا۔ اِس مُعاملے میں وہ یقیناً مُجھےآگاہ نہیں کرنا چاھتا تھا۔ 
نومی بے حد خُوش نظر آ رھا تھا۔ اُس کی اَور صنم کی مُحبّت جو گاؤں کے کھیتوں سے شُرُوع ھُوئی تھی۔ 
اب دو ھفتے بعد، یہ سَنسَنی خیز مُحبّت اِسلام آباد کی عدالت میں ایک پاکِیزہ رِشتے کا رُوپ دھارنے والی تھی۔
وَیسے بھی اِسلام آباد میں رانا صاحِب ایک زبردست مددگار کی صُورت میں ھمارے ساتھ موجُود تھے۔ اُنہوں نے نومی کے خُفِیہ نِکاح کے سِلسِلے میں ھر طرح کی قانُونی مدد فراھم کرنے کا وعدہ کر لِیا تھا۔ اُنہوں نے اِس سِلسِلے میں اپنے ایک وکِیل دوست سے بھی بات کر لی تھی۔ 
عدنان سے مِل کر ھم نے ایک ایک نُکتے پر غَور کِیا۔ کئی سوال تھے، جو ھم سب کے ذہنوں میں پَیدا ھوتے رھے، اَور ھم باھم مشورے سے اُن پر بحث کرتے رھے۔ آخِر ھم تِینوں اِس بات پر مُتّفِق ھو گئے، کہ ھم لوگ ھر مُمکِنہ خطرے پر بات کر کے اُس کا حل سوچ چُکے ھَیں۔ 
ھم اپنی طرف سے ھر تیّاری کر چُکے تھے۔ باقی ھم نے خُدا پر چھوڑ دِیا۔
تِین گھنٹے سے زیادہ وقت گُزر چُکا تھا۔ کافی گپ شپ ھو چُکی تھی۔ مَیں اَور نومی، عدنان کو بلال اَور رانا صاحِب کے لِئے بھی اِعتماد میں لے چُکے تھے۔ 
عدنان اَب جانا چاھتا تھا۔ 
اُسی دَوران میرے دِماغ میں ایک خیال آیا۔ مَیں نے عدنان اَور نومی سے بھی اِس پر بات کی۔ 
چند مِنٹ کی بحث اور غَور کے بعد وہ دونوں بھی میری تجوِیز سے مُتّفِق ھو گئے تھے۔
مَیں نے رانا صاحِب کو پِھر سے فون لگا دِیا اَور اُن سے اِجازت مانگی، کہ مَیں اَور عدنان بھی اُن کے گھر ھی آ‌جائیں۔ 
وہ خُود بھی عدنان سے مِلنا چاھتے تھے۔ اُنہوں نے فوراً ھاں کر دی۔
عدنان کو لے کر مَیں رانا صاحِب کے گھر چلا آیا۔ نومی کا باپ اُن کے گھر میں ھی بیٹھا تھا۔ اُس نے جب عدنان کو دیکھا، تو وہ بے حد حَیران ھُوا۔ 
سَلام دُعا کے بعد، چائے کے دَوران عدنان نے نومی کے باپ کو اُس کے گھر اور کھیت کے سانِحے سے آگاہ کر دِیا۔ 
یہ میری تجوِیز تھی، جو مَیں نے اُس وقت پیش کی تھی، جب ھم میرے کمرے میں موجُود تھے، اَور عدنان جانے کےلِئے کھڑا ھو رھا تھا۔ اِسی لِئے ھم لوگ یہاں آئے تھے۔
عدنان، رانا صاحِب کی موجُودگی میں نومی کے باپ کو سنبھالنا زیادہ آسان ھوتا۔
نومی کے باپ کی حالت بے حد خراب ھو گئی۔ ھم نے بڑی مُشکِل سے اُنہیں سنبھالا تھا۔ 
آدھا گھنٹہ وہ بیچارہ وقفے وقفے سے روتا رھا۔ جب اُس کی حالت کُچھ سنبھل گئی، تو عدنان بولا۔
چاچا جی۔ مَیں جانتا ھُوں، کہ آپ لوگوں کو بہُت تنگ کِیا گیا ھے۔ چاچا شاد کو مُجھ سے زیادہ کون جانتا ھو گا! وہ ایک مرتبہ کِسی سے دُشمنی باندھ لے، تو اُسے اِنسان تو کیا، جانور بھی نہِیں سجھتا۔ لیکِن مَیں آپ سے وعدہ کرتا ھُوں، کہ اب چاچا شاد نومی اَور آپ لوگوں کی طرف مَیلی آنکھ سے دیکھ بھی نہِیں سکے گا۔ مَیں اَور رانا صاحِب مِل کر اُس کے لِئے اَیسا بندوبست کر دیں گے، کہ وہ اپنے اِنتِقام کی آگ میں اندر ھی اندر جلتا رھے گا۔
نومی کا باپ صنم کے نام سے ھی چَڑتا تھا۔ لیکِن یہ بھی سچّ تھا، کہ جب رانا صاحِب بھی نومی کی صنم کے ساتھ کورٹ میرِج پر رضامند نظر اَور مدد کے لِئے تیّار نظر آئے، تو وہ اُن کے سامنے کُھل کر صنم کی مُخالِفت نہ کر سکا۔ اُوپر سے عدنان بھی مُکمّل ساتھ دے رھا تھا۔ 
اُس مجلِس میں صنم اَور نومی کی کورٹ میرج کے لِئے نومی کے باپ کی رضامندی حاصِل کر لی گئی تھی۔
************************************************** *****
ھمارے اِس منصُوبے کی کامیابی کا سب سے بڑا اھم نِکتہ رازداری تھا۔ ھر کام رازداری سے انجام پاتا، تو نومی 
آسانی سے صنم کو حاصِل کرنے میں کامیاب ھو جاتا۔
پِھر ایک مُناسِب وقت دیکھ کر اِس نِکاح کو ظاھِر کر دِیا جاتا۔ 
اور اِس مُناسِب وقت کا تعیّن عدنان نے کرنا تھا۔
اَور ھر کام اَیسے ھی ھُوا جَیسے ھم نے سوچا تھا۔ 
عدنان صنم اور شازیہ کو لے کر اِسلام آباد پہُنچ گیا تھا۔ نومی کو بھی مَیں اِسلام آباد اپنے پاس بُلا چُکا تھا۔ 
پہلی دفعہ جب صنم نومی کے سامنے پہُنچی تھی، وہ نظّارہ مَیں آج تک نہِیں بُھلا سکا۔

Bottom of Form

·          

·        
تُمھارا ساتھ کافی ھَے ۔ (آخری حِصّہ)

·         عدنان صنم اور شازیہ کو لے کر اِسلام آباد پہُنچ گیا تھا۔ نومی کو بھی مَیں اِسلام آباد اپنے پاس بُلا چُکا تھا۔ 
پہلی دفعہ جب صنم نومی کے سامنے پہُنچی تھی، وہ نظّارہ مَیں آج تک نہِیں بُھلا سکا۔ 
صنم اپنی بہن اَور بہنوئی کی معیّت میں عدالت آئی تھی۔ مَیں، بلال، نومی، اُس کا باپ اَور رانا صاحب اپنی بیگم کے ھمراہ وھاں پہلے سے موجُود تھے۔ 
نومی اَور صنم کی نظریں آپس میں ٹکرائِیں، اَور نومی کی‌ نمناک ھوتی آنکھوں سے بے اِختیار آنسُو چھلک پڑے تھے۔ دُوسری طرف صنم بھی پُر نَم آنکھوں سے اُسی کو دیکھ رھی تھی۔ وہ دونوں ھی اگرچہ خاموش تھے، لیکِن دونوں کی آنکھیں جُدائی کے گُزرے دِنوں کی اَلمناک داستان بیان کر رھی تھِیں۔ اُن کی آنکھیں باتیں کر رھی تھِیں۔ آنکھیں جو کبھی جُھوٹ نہِیں بولا کرتِیں۔ اَور اُن کی آنکھیں اپنے اندر کا سچّ بیان کر رھِیں تھِیں۔ 
وہ اگرچہ بات نہیں کر سکتے تھے، لیکِن کیا باتیں صِرف زُبان کی مُحتاج ھُوا کرتی ھَیں ؟
وہ دونوں خاموش تھے، اَور اُن کی خاموشی باتیں کر رھی تھی ۔ مُحبّت کو جب اِظہار کا کوئی ذرِیعہ نہ مِلے تو پِھر خاموشی بھی زُبان بن جاتی ھَے۔ 
ھاں، اُن کی خاموشی ھی اُن کے لِئے ذرِیعۂ اِظہار بن گئی تھی اور وہ اپنی خاموشی کے راستے اپنے اپنے دِل کے جذبات ایک دُوسرے کو مُنتقِل کر رھے تھے، سمجھا رھے تھے۔ 
صنم شائِد نومی سے بھی زیادہ بے چَین تھی۔ اُس کا بس نہِیں چل رھا تھا، کہ دَوڑ کر اپنے محبُوب کے گلے لگ جائے۔ اُس کے ساتھ اُس کی سگی بہن موجُود تھی ۔ وہ اُسے ھی دیکھ رھی تھی۔ نومی اُس وقت میرے ساتھ تھا اَور مُسلسل صنم پہ نظریں جمائے بَیٹھا تھا۔ اُس کو یقِیناً اس وقت اُلجھن ھو رھی تھی کہ صنم اُس کے سامنے موجُود تھی اور چند لمحوں بعد ھی اُس کی بیوی بننے والی تھی، لیکِن اس کے باوجُود وہ اُس سے بات تک نہِیں کر پا رھا تھا۔ اُس کے اندر کی کشمکش اُس کے چہرے سے ھویدا تھی۔ آخِر نومی کے مُنہ سے ایک دو مرتبہ ٹھنڈی آہ نِکلی تو مَیں نے نومی کا کندھا آھِستگی سے دبا کر اُسے سمجھایا، کہ اپنا آپ قابُو میں رکھّے ۔ جذبات کے اِظہار کو کِسی مُناسِب وقت کے لِئے سنبھال کر رکھّے، اَور اِس کے لِئے مُناسِب وقت بھی اُسے جلد ھی مِلنے والا تھا۔ 
نومی کو اپنا آپ سنبھالنے میں اگرچہ دِقّت کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکِن بہر حال اُس نے اپنی آنکھوں کا زاوِیہ بدل لِیا۔ دُوسری طرف یقِیناً شازِیہ نے بھی اپنی بہن کو دبی آواز میں کُچھ کہا تھا۔ چنانچہ صنم بھی اب کِسی اَور طرف دیکھ رھی تھی۔ 
رانا صاحِب کی بیگم صنم کے پاس گئِیں اَور اُس کو اپنے ساتھ چِمٹا کر پیار کِیا۔ ڈھیروں دُعائیں دِیں، اَور اپنی طرف سے ایک خُوب صُورت اَور بیش قِیمت ھار تُحفے میں دے دِیا۔ صنم اِنکار کرتی رہ گئی اَور وہ اُس کے گلے میں ھار ڈال بھی چُکی تھِیں۔ 
نومی کا والِد، عدنان اَور رانا صاحِب وکِیل کے ساتھ ایک طرف کھڑے ھو کر کوئی مشورہ کرنے لگ گئے۔ شازِیہ چل کر نومی کے پاس آئی۔ اُس نے کُچھ دیر تک نومی کی خیرِیّت دریافت کی، پِھر وہ اَور صنم ایک طرف بیٹھ گئِیں۔ رانا صاحِب کی بیگم رانا صاحِب کے پاس جا چُکی تِھیں۔ 
اب وھاں ایک طرف تو مَیں، نومی اَور بلال موجُود تھے اَور دُوسری طرف صنم اپنی سگی بہن کے ھمراہ ایک طرف رکھّی کُرسیوں پر بیٹھی تھی۔ 
شازِیہ کُچھ دیر تک صنم سے کُچھ کہتی رھی۔ پِھر وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر دوبارہ سے نومی کے پاس آئی، اَور نئی زِندگی کے لِئے دُعائیں دینے لگی۔ نومی نے سر جُھکائے رکھّا، اَور شُکرِیہ اَدا کرنے پر ھی اِکتِفا کِیا۔ شائِد وہ شازِیہ سے نظریں نہِیں مِلا پا رھا تھا۔ شازِیہ نے بطَور سالی ایک آدھ مزاحیہ جُملہ بھی کہا تھا لیکِن نومی نے کوئی جواب نہِیں دِیا تھا۔ 
نومی اَور صنم کی کورٹ میرِج اگرچہ اِتنا آسان کام نہِیں تھا، لیکِن رانا صاحِب اَور عدنان کی مدد سے آسان تر ھو گیا تھا۔ رانا صاحِب اَور وکِیل اِس کام میں پیش پیش رھے۔ اگرچہ رانا صاحِب کا نومی سے کوئی خُونی ناطہ نہِیں تھا، لیکِن اُنہوں نے نومی کے باپ کی مدد کرنے کی ٹھان لی تھی۔ اُنہوں نے اب تک اپنی بات کا پاس رکھّا تھا، اَور یقیناً آئِندہ بھی رکھنے والے تھے۔ وہ اَیسے ھی تھے۔ 
اِن کے وکِیل دوست نے اِسلام آباد کی عدالت کے تمام مُعاملات خُود سنبھال لِئے تھے۔ اُس کی جج صاحِب سے سلام دُعا بھی کام آ رھی تھی۔ 
سب کُچھ اَحسن طرِیقے سے اَنجام پا گیا تھا۔
عدالت کی کاروائی بھی ایک فلمی نظّارہ بن گیا تھا۔۔۔۔۔! سب سے زیادہ جذباتی منظر دستخط کرتے وقت پیش آیا تھا۔ 
صنم اُس وقت اِتنی جذباتی ھو گئی تھی، کہ دستخط کرتے کرتے رونے کے دَوران ھی بے ھوش ھو گئی۔ شائِد بیچاری نومی کی بیوی بننے کا خواب پُورا ھونے کی خُوشی سنبھال نہِیں پا رھی تھی۔ 
جب نومی اپنے دستخط کر رھا تھا، تو اُس کی آنکھوں سے آنسُو جاری تھے۔ دستخط کرنے کے بعد وہ ھم سب کے گلے لگ کر خُوب رویا تھا ۔ 
اُس نے اپنی محبّت پا لی تھی۔ صنم اب اُس کی قانُونی بیوی بن چُکی تھی۔ ایک عرصہ پہلے اُس نے جو سُنہری خواب آنکھوں میں سجایا تھا، وہ اب تعبِیر کی منزِل کو پہُنچ چُکا تھا۔ 
صنم بی بی اب صنم نومی بن چُکی تھی۔
لیکِن یہ بھی ایک حقُیقت تھی، کہ اِس منزِل کو پانے کے لِئے نومی کو بھاری قِیمت چُکانا پڑی تھی۔ اُسے نہ صِرف اپنے مال متاع کی قُربانی دینا پڑی تھی، بلکہ صنم کو پانے کے لِئے اُس کے جِسم نے بھی اپنے حِصّے کا خراج ادا کِیا تھا۔
صنم کو ھوش میں لایا گیا۔ وہ اب بھی لگا تار رو رھی تھی۔ اُس کی بہن اُسے تسلّی دیتی رھی، اَور وہ رو رو کر اپنے دِل کا غُبار نِکالتی رھی۔ 
وہ بیچاری جہاں ایک طرف اپنے محبُوب کو پا لینے پر خُوش تھی، وھِیں وہ اپنے ماں باپ کو یاد کر کے رو رھی تھی۔ اُس کی ھمیشہ سے شدِید خواھِش رھی تھی، کہ وہ بھی عام لڑکِیوں کی طرح اپنے باپ کے گھر سے والِدَیں کی دُعاؤں کے سائے تلے رُخصت ھو۔ اُس کی ماں اُسے اپنے ھاتھ سے اپنے داماد کے حوالے کرے۔ اُس کا باپ شفقتِ پِدری سے لبریز جذبات اَور مُحبّتوں کے ساتھ اُسے عِزّت سے رُخصت کرے۔ وہ اپنی ماں کے سِینے سے لگ کر دُعائیں لینے کی پیاسی تھی۔ رُخصتی کی آخری گھڑی میں وہ اپنی ماں کے سِینے سے لگ کر جی بھر کے رونا چاھتی تھی، لیکِن یہ سب مُمکِن نہِیں ھو سکا تھا 
اُسے ڈھیروں دُعائیں اَور بے تحاشہ تحائِف تو بے شک مِل گئے تھے، لیکِن نِکاح کے وقت ماں باپ کی دہلِیز اَور مُحبّت بھری دُعاؤں سے وہ یکسر محرُوم رہی تھی، اَور وہ اچھّی طرح جانتی تھی کہ اُسے رُخصت بھی اُن کی دُعاؤں کے بغَیر ھی ھونا تھا۔ 
اِس دَوران صنم اَور نومی کی نظروں کا کئی بار ٹکراؤ ھُوا، لیکِن بے چاروں کو ابھی تک ایک بار بھی بات کرنے کا موقع نہ مِل سکا تھا۔ 
دونوں مجبُوراً ایک دُوسرے کو چور نظروں سے دیکھ دیکھ کر ھی خُوش ھورھے تھے۔ اگرچہ اُن کے اِرد گِرد موجُود لوگ اُن کو ھمیشہ ھمیشہ کے لِئے مِلا رھے تھے، لیکِن اِس کے باوجُود اُن کے درمیان حائِل ایک مخصُوص حد قائِم تھی۔ وہ حد جو نِکاح اور رُخصتی سے پہلے تک قائِم رھنی چاھِئے۔ وہ رِوائِت جو مشرِقی مُعاشرے کی شادِیوں کا حُسن سمجھی جاتی ھے۔ 
وہ دونوں کُھل کر بات تک نہیں کر سکتے تھے۔ 
وہ اگرچہ مِلن کے لِئے بے حد تڑپ رھے تھے، لیکِن یہ بھی جانتے تھے، کہ جلد یا بدیر آخِر اُنہیں مِلنا ھی تھا۔ یہ دُورِیاں عارضی تھِیں۔ پِھر صنم کو نومی کی بانہوں میں ھی سمانا تھا۔ کیُونکہ اُن کی مُحبّت کو اب وہ حیثیّت حاصِل ھو گئی تھی، جِس کے بعد زمانے کا بڑے سے بڑا مُفتی بھی اُن کے مِلنے پر کوئی قدغن نہِیں لگا سکتا تھا۔ 
وہ دونوں قانُونی طَور پر مِیاں بیوی بن گئے تھے۔ 
**************************************
عدالت سے باھِر نِکل کر ھم لوگ ایک ساتھ رانا صاحِب کے گھر پہُنچے، جہاں سب کے لِئے ایک پُر تکلُّف کھانے کا اھتمام تھا۔ سب نے مِٹھائی کھائی جو رانا صاحِب نے نومی کی طرف سے منگوائی تھی۔
رانا صاحِب اَور اُن کی بیگم نے نومی اَور صنم کو بیش قِیمت تحائِف دِئے۔ شازِیہ اَور عدنان نے بھی نومی کوچند اَیسے تُحفے دِئے تھے، کہ ھر تُحفہ ایک دُوسرے سے بڑھ کر قِیمتی تھا۔
**************
عدنان، شازِیہ اَور صنم ایک دِن اِسلام آباد میں رُکے رھے۔ اُنہوں نے اپنے لِئے ایک ھوٹل میں رِھائِش کا بندوبست کِیا تھا۔
اُس ایک دِن کے دَوران صنم اَور نومی کو ایک مرتبہ بھی تنہائی میں مِلنے کا موقع نہ مِل سکا ۔ 
صنم نومی کی بیوی بن جانے کے باوجُود ابھی تک اُس کی دسترس سے باھِر تھی۔ 
اِس سِلسِلے میں نومی کے والِد نے شدِید اِحتِیاط کا مُظاھِرہ کِیا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو جلد از جلد اپنے پَیروں پر پہلے کی طرح کھڑا دیکھنا چاھتا تھا۔ اگرچہ صنم اَور نومی کو تنہائی مِل بھی جاتی، تو بھی نومی کی حالت اَیسی تھی، اَور ڈاکٹر کی جانِب سے سختی سے کی گئی تاکِید بھی اُسے ھمہ وقت یاد رھتی تھی، کہ وہ کُچھ زیادہ کرنے کی ھِمّت نہِیں رکھتا تھا، لیکِن نومی کے باپ کے دِل میں وھم بیٹھا ھُوا تھا۔ اُس نے رانا صاحِب سے کُھل کر بات کی تھی، کہ جب تک ڈاکٹر اِجازت نہِیں دے دیتے، نومی صنم کے قرِیب پھٹک بھی نہِیں سکتا۔ 
اَور رانا صاحِب بے اِختیار مُسکُرا دِئے تھے۔
نومی صنم کو دیکھ بھی نہِیں پا رھا تھا۔ البتّہ اُن کی فون پر ایک مرتبہ بات کروا دی گئی۔
شازِیہ نے اُسے تنہائی فراھم کر دی تھی۔ وہ اپنے شَوھر کو لے کر کُچھ دیر کے لِئے باھِر نِکل گئی تھی۔ 
اب صنم کمرے میں اکیلی ھی تھی۔ وہ نمبر مِلائے دھڑکتے دِل کے ساتھ اپنے محبُوب شَوھر، نومی کی آواز سُننے کا اِنتِظار کر رھی تھی۔
نومی میرے کمرے میں لیٹا تھا۔ اُس کا باپ اپنے بھائی سے مِلنے گوجر خان گیا ھُوا تھا۔ 
نومی کو جب صنم کا فون‌ آیا، تو وہ مچل اُٹھّا۔ 
اُس نے مُجھے بتایا، تو مَیں بھی مُسکُراتا ھُوا کمرے سے نِکل گیا۔ 
شادی مُبارِک ھو صنم۔
آپ کو بھی بہُت بہُت مُبارِک ھو۔ ۔ ۔ ۔ آپ کَیسے ھَیں ؟ خُوش تو ھَیں ناں ؟ “ 
ارے واہ۔ تُمھارا تو لہجہ اَور اندازِ تخاطُب سب کُچھ تبدِیل ھو گیا صنم۔ پہلے تو تُم مُجھے میرا نام لے کر بُلایا کرتی تھِیں۔ اَب کیا ھو گیا ھَے تُم کو؟
بس جی۔ پہلے کی بات اَور تِھی۔ اَب ھم مِیاں بیوی بن گئے ھَیں۔ اَور ھمارے گھروں میں بیوی اپنے شَوھر کو اُس کے نام سے تو کیا، تُم کَہ کر بھی نہِیں بُلا سکتی۔
اوھو۔ یہ کیا بات ھُوئی صنم؟ مَیں اِن سب باتوں کو نہِیں مانتا۔ وَیسے بھی بیوی کے لِئے اپنے شَوھر کو اُس کے نام سے بُلانا ثواب کا کام ھَے۔
اچھّا،بعد میں دیکھ لیں گے۔ فی الحال تو مَیں اَیسا نہِیں کر سکتی۔
چلو جَیسی تُمھاری مرضی۔
نومی نے کُچھ توقُّف کِیا پِھر اُسے جَیسے کُچھ یاد آیا۔ 
اَور یہ خُوش ھونے والی بات کیُوں پُوچھی تُم نے ۔۔۔۔؟ یہ بھی کوئی کرنے والی بات ھَے ؟ تُم بتاؤ کیا تُم خُوش نہِیں ھو میری جان ؟
نہِیں تو ۔ مَیں تو بہُت خُوش ھُوں۔
ہاں۔ یہ ھُوئی ناں بات۔۔۔۔۔ یقِین کرو صنم۔ مُجھے تو ابھی تک یقِین ھی نہِیں ھو رھا، کہ تُم میری بیوی بن چُکی ھو۔ لگتا ھَے مَیں ھواؤں میں اُڑ رھا ھُوں۔
نومی خُوشی سے اُسے بتا رھا تھا۔ اُس کی بات سُن کر جہاں صنم کے چہرے پر خُوشی چھا رھی تھی، وھِیں آنے والے دِنوں کے حسِین لمحات کے تصوُّر سے حیا کی سُرخی بھی پَھیل رھی تھی۔ 
وہ دونوں پیار بھری باتیں کرتے رھے۔ نومی اُس سے اپنی والہانہ مُحبّت جتا رھا تھا، اَور صنم مشرِقی عَورت کی طرح شرم کے مارے چُپ تھی۔ پِھر آھِستہ آھِستہ اُس کی ھِچکِچاھٹ جَیسے کم ھو رھی تھی۔ 
وہ توقُّف سے بولی۔ 
اَب آپ کا زخم اَب کَیسا ھَے ؟
مَیں تو جَیسا بھی ھُوں، تُم اپنی بتاؤ بیگم نومی۔ اَب کَیسا لگ رھا ھَے ؟ آخِر کو تُم نئی نویلی بیگم نومی بنی ھو جانِ من!“
مَیں؟ نئی نویلی بیگم نومی ؟ لیکِن مَیں تو ابھی تک پہلے کی طرح اکیلی رھتی ھُوں، اَور اکیلی ھی سوتی ھُوں، اَور مَیں نے سُن رکھّا ھَے، کہ نئی نویلی بیگمیں تو اپنے شوھروں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر سوتی ھَیں۔ میرے ساتھ تو ابھی تک اَیسا کُچھ بھی نہِیں ھُوا جو نئی نویلی بیگم کے ساتھ اُس کے شوھر کرتے ھَیں۔ تو پِھر مَیں اپنے آپ کو بیگم نومی کَیسے مان لُوں جی ؟
صنم کے لہجے میں واضح شرارت موجُود تھی۔
اچھّا، یہ بات ھَے ؟ چلو، آج ھی ڈاکٹر سے بات کرکے ایک رات کی اِجازت لیتا ھُوں۔ پِھر ایک رات میں تُم کو یقِین دِلوا کے ھی رہُوں گا، کہ تُم میری نئی دُلہن ھو۔
اَور صنم اُس کی بات سُن کر شرم سے نِہال ھو گئی۔ حسِیں لمحوں کا تصوّر بڑا ھی سرُور انگیز تھا۔ 
نومی تو خاموش ھو گیا تھا، لیکِن صنم کا دِل اِس بات کو مزِید بڑھانے پر اُکسا رھا تھا۔ وہ نومی کے ساتھ عملی سُہاگ رات منانے سے پہلے باتوں باتوں میں اُس کے ساتھ تھوڑی سی سُہاگ رات منانا چاھتی تھی۔ 
اچھّا؟ اَیسا کیا کریں گے مُجھے یقِین دِلانے کے لِئے ؟
بتا دُوں؟
ھاَں ھاں، بتا دیں۔ آخِر مُجھے بھی تو پتہ چلے، کہ شادی کے بعد لڑکی کے ساتھ اَیسا کیا ھوتا ھَے؟
حالانکہ وہ شادی سے پہلے ھی اپنے موجُودہ شوھر کے ساتھ یہ مرحلہ طَے کر چُکی تھی۔ وہ دونوں ھی ایک دُوسرے کے جِسم سے اپنے آپ کو سَیراب کر چُکے تھے، لیکِن وہ دونوں ایسی باتیں کر کے بس اپنے من کو شانت کر رھے تھے۔ شادی کے باوجُود جُدائی سے پَیدا ھونے والی طلب کی مُسلسل بڑھتی شِدّت کو کُچھ کم کرنا چاھتے تھے۔
اچھّا، تو پِھر سُنو۔ سب سے پہلے تو مَیں تُمھارے کپڑے اُتارُوں گا۔
ھائے میرے ربّا۔۔۔ پِھر ؟
پِھر مَیں اپنے کپرے بھی اُتارُوں گا۔
ھائے میں مر گئی۔۔۔۔۔ پِھر ؟
پِھر۔۔۔ مَیں تُمھارے جِسم کو پیار سے چُومُوں گا۔
اُفّ۔۔۔۔۔۔ اَیسا نہ کہو جی ۔ ۔ ۔ وَیسے کہاں کہاں سے چُومو گے ؟
سب سے پہلے مَیں تُمھارے ھونٹوں کو چُوسُوں گا، پِھر مَیں تُمھاری گردن کو چُومُوں گا۔ اِس کے بعد۔۔۔
نومی کی آواز مدھم اور سانسیں بتدرِیج تیز ھو رھی تھیں۔ اُس کی شلوار میں موجُود لن کِسی سانپ کی طرح سر اُٹھا رھا تھا۔ اُس کے تصوُّر میں صنم کے ساتھ کھیتوں میں گُزرے ھُوئے واقعات ایک فِلم کی مانِند چل رھے تھے ۔ اُس کی آنکھوں میں اُس وقت صنم کا حسِین سراپا لہرا رھا تھا۔ 
صنم جو ایک چڑھتی ندّی کی مانِند تھی ۔ اَیسی ندّی جو اپنے راستے میں آنے والی زمِین کو فتح کر لینے کے فن سے آشنا ھو۔
اُس نے نومی کے دِل کی زمِین کو بھی فتح کر لِیا تھا۔ نومی کا دِل اب صنم کا مفتُوح بن کے رہ گیا تھا۔ 
دُوسری طرف صنم بھی جذبات کی گرمی میں بہنا شُرُوع ھو گئی تھی۔ اُس کی پُھدّی میں خارِش شُرُوع ھو گئی تھی۔ اُس کا محبُوب نومی اُس کے ساتھ باتیں ھی اَیسی کر رھا تھا۔ نومی نے بات ادھُوری چھوڑ دی۔ نومی کے لِئے صنم کی طلب میں اِضافہ ھو رھا تھا۔
وہ ھمیشہ سے نومی کی پیاسی رھی تھی۔ جب سے اُسے نومی سے محبّت ھُوئی تھی، وہ ایک پل بھی اُس کے بغَیر چَین سے رہ نہ سکی تھی۔ نومی سمجھتا تھا کہ اُس نے صنم کو پایا تھا، جبکہ درحقِیقت صنم نے نومی کو پا لِیا تھا۔ 
لیکِن اُسی لمحے اُسے احساس ھُوا کہ یہ غلط تھا۔ مِلن سے پہلے اِس طرح کی باتیں کر کے ایک دُوسرے کے جذبات کو مُشتعِل کرنا کِسی طَور بھی درُست عمل نہ تھا۔ اُس نے اپنی کیفیّت پر قابُو پانے کی کوشِش میں چند لمبی لمبی سانسیں لیں اور ایک نئے عزم سے بولی۔
اچھّا بس کردیں اب آپ۔
کیوں کیا ھُوا ؟ اِتنی جلدی ھِمّت ھار بیٹھی ھو جانِ من؟ کیا تُمہیں خُوشی نہِیں ھو رھی تھی اِن باتوں سے ؟
ارے نہِیں بابا نہِیں۔ بہُت خُوشی ھو رھی ھَے، لیکِن مُجھے اپنی خُوشی سے کہِیں زیادہ آپ کی صِحّت عزِیز ھَے۔ وہ سب تو مَیں مذاق کر رھی تھی، اَور اِس بات کو اب یہِیں ختم بھی کر دیں، ورنہ بات اگر آپ کے ابّے تک پہُنچ گئی تو آپ تو زخمی ھونے کی وجہ سے بچ جائیں گے مگر پِھر میری خَیر نہِیں ھو گی۔
اَور نومی بے ساختہ کُھل کر ھنس دِیا۔ 
اِسی طرح کی پیار بھری باتیں کرتے کرتے آخِر اُنہوں نے فون بند کر دیا تھا۔ 
وہ لوگ وھاں دُوسرے دِن دوپہر تک رُکے رہے۔ ھم اُن کو روکنا تو چاھتے تھے، لیکِن عدنان اِحتیاطاً آج ھی واپس چلے جانا چاھتا تھا ۔ 
ھم بھی مجبُوری سمجھتے تھے، لہٰذا ھم نے روکنے کے لِئے زیادہ اِصرار نہِیں کِیا۔ 
دُوسرے دِِن وہ لوگ مری کے لِئے روانہ ھو گئے۔ 
****************************************
ایک ھفتے بعد مری کا تارِیخ ساز تفرِیحی دورہ مُکمّل کر کے عدنان، شازِیہ اَور صنم لاھور پہُنچ چُکے تھے۔
عدنان کا اِسلام آباد کا دَورہ بے حد اھم ثابِت ھُوا تھا۔ 
اِس دَورے نے نومی اَور صنم کے مُحبّت بھرے تعلُّق کو ایک نام دے دِیا تھا۔ نومی اپنے دُکھوں کو بھُول کر اپنی آئِندہ زِندگی کے سپنے سجا رھا تھا۔ اُس کو اپنے سابقہ تمام زخموں کا خراج عنقرِیب مِلنے والا تھا۔ 
حالانکہ وہ صنم کے جِسم کی لذّت سے آگاہ تھا، اِس کے باوجُود وہ بے حد خُوش تھا، اَور اِسی جذبے کا نام مُحبّت تھا۔ 
مُحبّت جو جِسموں کی تڑپ سے بہُت آگے ایک پاکِیزہ رِشتے کا نام ھے۔ جو اِنسان کو اِنسان کی قدر سِکھاتی ھَے۔ جو دو اِنسانوں میں اَن دیکھے مگر انمِٹ رِشتے کا نام ھے۔ اِسی رِشتے نے اُنہیں ایک نئے بندھن میں باندھا تھا۔ وہ رِشتہ جو قُدرت کے تخلِیق کردہ حسِین ترِین رِشتوں میں سے ایک تھا۔ ۔ ۔ میاں بیوی کا رِشتہ۔۔۔۔۔۔!
دُوسری طرف چوھدری شاد کے وھم وگُمان میں بھی نہِیں تھا، کہ اُس کا اپنا داماد، جو اُس کا بھتِیجا بھی تھا، وھی اُس کے ساتھ اِتنا بڑا دھوکا کر سکتا تھا۔ اُس نے جِس پر اِعتماد کر کے اپنی جوان بیٹی اُس کے سپُرد کی تھی، وھی اُس بیٹی کو اُس لڑکے کے نام کر چُکا تھا، جِس سے چوھدری شاد دُشمنی کی اِنتِہاؤں پر پہُنچا ھُوا تھا۔ 
اَور اِس تمام عمل کے پِیچھے اُس کی اپنی سگی بیٹی کی منصُوبہ بندی کارفرما تھی۔ 
وہ تو اپنی دانِست میں صنم کو محفُوظ ھاتھوں میں دے آیا تھا۔ اُس کا اگلا منصُوبہ نومی کے لِئے تھا جو بے حد خطرناک تھا، اَور جِس پراُس نے الیکشن کے بعد عمل درآمد کروانا تھا۔
اُس نے نومی کو گوجر خان میں ھی مروانے کا منصُوبہ بنایا تھا۔ بس الیکشن درمیان میں حائِل ھو گئے تھے، جِس کی وجہ سے اُسے چند دِن صبر کرنا پڑ رھا تھا۔ 
اُسے معلُوم نہِیں تھا، کہ یہ چند دِن کا صبر اُس کے ناپاک عزائِم کو ناکامی سے دوچار کر گیا تھا۔ 
چوھدری نے صنم کو نومی سے دُور کرنے کے لِئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا، لیکِن وہ قِسمت کے لِکّھے کو بدل نہِیں سکا تھا۔ 
صنم نومی کی ھو چُکی تھی۔
******************************
صنم اَور نومی کبھی کبھی فون پر بات کر لِیا کرتے تھے۔ کبھی وہ فون پر ایک دُوسرے کو اپنے آئِندہ زِندگی کے حوالے سے سجائے گئے خوابوں سے آگاہ کرنے لگتے، تو کبھی پِچھلے دِنوں کو یاد کر کے خُوب ھنستے۔ صنم نومی کی دِیوانی تھی۔ نومی جب بات کرنے لگتا تو صنم اِتنی توجّہ سے سُنتی کہ نومی بات مُکمّل کر کے چُپ بھی ھو جاتا تو بھی صنم خاموش ھی رہتی۔ نومی اُسے آوازیں دیتا، تو صنم کو اِحساس ھوتا کہ نومی بات ختم کر چُکا اَور اب بولنے کی باری اُس کی تھی۔ 
اُن کی زِندگی حسِین ترِین موڑ پر پہُنچ چُکی تھی۔ زِندگی اُن پر خُوشِیاں نِچھاور کر رھی تھی۔ 
ھر پَل اُن پر خُوشِیوں کے انبار لُٹا رھا تھا۔ 
صنم جانتی تھی، کہ نومی کے دِل میں اُس کے باپ کے خِلاف نفرت ھی نفرت ھَے۔ اِسی لِئے وہ نومی کے ساتھ بات کرتے وقت اپنے باپ کا ذِکر نہِیں کرتی تھی، اَور اگر نومی کِسی بات میں اُس کا ذِکر کر بھی دیتا، تو صنم کِسی نہ کِسی بہانے سے بات کا رُخ بدل دیتی۔ 
لیکِن آخِر بات تو کرنا ھی تھی
*********************************
مُلک میں اَیسے حالات پَیدا ھو گئے تھے، کہ الیکشن کُچھ دِن کے لِئے ملتوی ھو گئے تھے۔
شازیہ کی چھٹی حِس نے اُسے خبردار کر دِیا۔ اُس نے اپنے شوھر سے کہا، کہ جلد از جلد صنم کو نومی کے حوالے کر دِیا جائے کیونکہ اب چوھدری شاد کِسی بھی وقت صنم کو لینے آ سکتا تھا۔ الیکشن مُلتوی ھونے کے بعد اب وہ صنم کی جلد از جلد شادی کروانے پر تُل جائے گا۔ عدنان نے جب اُس کی دلِیل پر غَور کِیا تو بات اُس کی سمجھ میں بھی آ گئی ۔ 
اُس نے ایک دوست کو فون کر کے اپنی درخواست پر پیش رفت کا پُوچھا۔ دوست نے دو گھنٹے میں جواب دینے کا وعدہ کرلِیا۔ 
دو گھنٹے بڑی کشمکش میں گُزرے تھے۔ آخِر اُس کے دوست نے اُسےفون کر کے خوش خبری سُنا ھی دی۔ 
در اصل اُس نے ایک افسر کے توسُّط اَور سِفارِش سے بیرُونِ مُلک اِنگلِستان میں واقع اپنی کمپنی کے مرکزی دفتر میں اپنے تبادلے کے لِئے درخواست دی ھُوئی تھی۔ آج اُسے بتا دِیا گیا تھا، کہ اُس کی درخواست منظُور کرتے ھُوئے اُس کا تبادلہ کر دِیا گیا تھا، اَور اُسے اگلے ھفتے دفتر میں حاضِر ھونا تھا۔
عدنان نے اپنی بیوی کو بھی خُوشخبری سُنا دی۔ 
شازِیہ باھِر جانے کے خیال سے خُوش ھونے کی بجائے اُداس ھو گئی۔ یقیناًً اُسے احساس ھو رھا تھا، کہ پاکِستان سے باھِر جا کر وہ اپنے کِسی بھی خُونی رِشتے سے مِل نہِیں پائے گی۔ 
لیکِن جو قدم اُنہوں نے اُٹھایا تھا، اُس کے بعد پاکِستان میں رھنا اُن کے لِئے خطرناک تھا۔ یہی وہ حل تھا جو عدنان نے اُس دِن سوچا تھا، جب اُس نے اَور شازِیہ نے صنم کی شادی نومی سے کروانے کا فَیصلہ کِیا تھا۔ 
اُسی لمحے اُس کے موبائِل پر چوھدری شاد کا فون آ گیا۔ 
اُس نے دھڑکتے دِل کے ساتھ فون اُٹھایا۔ چوھدری شاد نے اُسے بتایا، کہ وہ دو دِن بعد صنم کو لینے شہر آ رھا تھا۔ ساتھ ھی اُس نے یہ دھماکا بھی کر ڈالا، کہ صنم کی شادی اب اِسی ھفتے کی جائے گی، کیونکہ الیکشن مہینے سے بھی زیادہ دِن کے لِئے مُلتوی ھو چُکے تھے۔ 
چوھدری شاد کے فون کی وجہ سے عدنان پریشان ھو گیا تھا۔ اُس نے اپنی بیوی کو بھی صُورتِ حال سے آگاہ کر دِیا۔ 
لیکِن اُن کو اب چوھدری شاد کی اِتنی پریشانی نہِیں رھی تھی۔ شازِیہ کو اگر کوئی بات پریشان کر رھی تھی تو وہ یہ تھی کہ صنم اور نومی کے نِکاح کا سُن کر چوھدری شاد صنم اَور نومی کے ساتھ کیا سُلُوک کرے گا ؟
عدنان نے اُسے سامان تیّار کرنے کے لِئے کہا۔ اگرچہ اُن کے پاس ایک ھفتہ تھا لیکِن عدنان جلد از جلد صنم کو نومی کو سونپ کر یہاں سے نِکل جانا چاھتا تھا۔ 
آخِر شازِیہ نے اپنا مسئلہ عدنان کے سامنے رکھ دیا۔ 
وہ دونوں اس بات پر الگ الگ نکتۂ نظر رکھتے تھے۔ عدنان جلد از جلد یہاں سے نکل جانا چاھتا تھا جبکہ شازیہ جانے سے پہلے اپنی بہن کے مُستقبِل سے آگاھی چاھتی تھی۔ وہ اُس لمحے تک یہاں رھنا چاھتی تھی جب نومی اور صنم کے نِکاح کی خبر چوھدری شاد تک پہُنچنا تھی اور وہ اس خبر پر اُس کا ردّ عمل دیکھ کر جانا چاھتی تھی۔ 
عدنان کو اُس نے قائِل کِیا کہ جب تک نومی اور صنم چوھدری شاد کا سامنا کر نہِیں لیتے، وہ پاکستان سے باھر نہیں جا سکتے۔ عدنان یہ خطرہ مول لینا نہِیں چاھتا تھا لیکن شازیہ نے حل پیش کِیا کہ وہ لوگ ظاہِر یہی کریں گے کہ وہ پاکستان سے جا چُکے ھیں لیکِن فی الحال چند دِن پاکستان میں ھی گُزاریں گے۔ 
عدنان ایک طوِیل بحث کے بعد مانا تھا۔ روپوشی کا اُسے کوئی مسئلہ نہِیں تھا۔ اِس حوالے سے اُس کے تعلّقات اِتنے وسِیع تھے کہ وہ ایک دو ماہ آرام سے لاہور شہر یا پِھر اِسلام آباد کے اندر ھی گُزار سکتا تھا۔ 
آخِر اُس نے اِسلام آباد جانے کا فَیصلہ کِیا۔ 
عدنان نے نومی کو بھی فون کر دِیا تھا، لیکِن اُسے ابھی تک اِتنا ھی بتایا تھا، کہ صنم، شازِیہ اَور عدنان کل اِسلام آباد آ رھے تھے۔ اُس نے نومی کو اِئرپورٹ پر ھی بُلا لِیا تھا۔ نومی نے اُن کی اچانک آمد پر خُوشگوار حیرت ظاھِر کرتے ھُوئے اُسے اپنے نئے گھر میں آنے کی دعوت دی، لیکِن عدنان نہ مانا۔ 
اِئرپورٹ پر بُلائے جانے کی وجہ نومی کو سمجھ نہ آ رھی تھی۔ عدنان فون بند کر چُکا تھا۔ 
اس کے بعد عدنان نے رانا صاحِب کو بھی فون کر دیا۔ اُس نے رانا صاحب کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کرتے ھُوئے بتا دیا تھا کہ اب وہ صنم کو نومی کے حوالے کرنا چاھتا ھے۔ رانا صاحب نے مکمّل تعاون کا یقین دلاتے ھوئے اُس سے اگلے پروگرام کا پُوچھا تو عدنان نے اُنہیں مختصراً آگاہ کر دیا۔
دُوسرے دِن وہ اِسلام آباد پہُنچ چُکے تھے۔ 
نومی اپنے والِد سمیت موجُود تھا۔ رانا صاحِب عدنان کی خُصُوصی درخواست پر اپنی بیگم کے ھمراہ اِئرپورٹ تک آئے تھے۔ 
اِئرپورٹ پر اُن کی مُلاقات ھُوئی، اَور عدنان نے نومی کو اپنے نِصف منصُوبے سے آگاہ کر دِیا۔ بس اِتنا نہِیں بتایا تھا، کہ وہ ابھی پاکِستان میں ھی رُکیں گے۔
اِس کے بعد عدنان نے اپنی بیوی کو اِشارہ کِیا۔ 
شازِیہ نے صنم کا ھاتھ پکڑا، اَور نومی کے ھاتھ میں دے دِیا۔ ساتھ ھی اُس نے نومی کے والِد کو مُخاطِب کرتے ھُوئے بولی۔
ھماری ذِمّہ داری یہِیں تک تھی۔ اب آپ اپنی امانت خُود سنبھالیں چاچا۔
پِھر وہ نومی سے مُخاطِب ھُوئی۔ اُس کی آنکھوں میں آنسُو تھے۔ 
مَیں جانتی ھُوں نومی، کہ بیٹِیاں اپنے باپ کے گھر سے رُخصت ھوں تو ہی اچھّی لگتی ھَیں، مگر مَیں بے حد بد قِسمت ھُوں، کہ اپنی بہن کی رُخصتی اَیسے با عِزّت طرِیقے سے نہِیں کروا سکی۔ اِس اِئر پورٹ پر اِس سے پہلے کِسی کی اَیسی رُخصتی شائِد ھی ھُوئی ھو۔ صنم اپنے باپ کے گھر سے رُخصت نہ ھو سکی، لیکِن اِس کا یہ مطلب ھر گِز نہِیں ھَے کہ تُم بعد میں میری بہن کی بے قدری کرو۔ تُم بھی ھر بات سے واقِف ھو۔ مَیں اُمّید کرتی ھُوں، کہ آئِندہ زِندگی میں تُم میری بہن کو عِزّت کا ھر وہ مقام دو گے، جِس کی ایک عورت اپنے شَوھر سے اُمّید رکھتی ھَے۔
نومی نے اثبات میں سر ھِلا دِیا تھا۔ 
پِھر اُس نے اشک بار آنکھوں سے صنم کو اپنے ساتھ چِمٹا لِیا۔ صنم بھی اپنی بہن کی جُدائی پر شدِید دِل گرِفتہ تھی۔
عدنان نے رانا صاحِب اَور نومی کو ساتھ لِیا اَور ایک کونے میں کھڑے ھو کر آئِندہ زِندگی کے لِئے سمجھانے لگا۔ نومی نے اُس سے وعدہ کِیا کہ وہ صنم کے مُعاملے میں کبھی کِسی شِکائِت کا موقع نہِیں دے گا۔ 
شازِیہ اَور عدنان نے صنم کو مُستقِل طَور پر رانا صاحِب اَور اُن کی بیگم کی سپُرد داری میں دے دِیا تھا۔ 
دونوں بہنیں ایک دُوسرے کے گلے لگ کر خُوب روئیں، اَور جُدا ھو گئِیں۔ 
اگلے چند لمحات میں عدنان اپنی بیوی سمیت وہاں سے نامعلُوم مقام کے لِئے روانہ ھو چُکا تھا۔
رانا صاحِب اُن کو اپنے گھر لے آئے تھے۔ 
اب نومی اور صنم ایک ھی چھت کے نیچے ھونے کے باوجود بھی الگ الگ رہنے پر مجبُور تھے۔ نومی کے والد نے ابھی بھی اُن کو ایک ساتھ سونے کی اجازت دینے سے انکار کر دِیا تھا۔ اُس کے خیال میں کم از کم چھے ماہ تک نومی کو صنم سے دُور رھنا چاھئے تھا۔ رانا صاحب نے اُسے سمجھایا تو وہ ایک ماہ پر اڑ گیا۔ بڑی مُشکِل سے رانا صاحب نے اُسے قائِل کِیا کہ اب نومی کی حالت پہلے سے کافی بہتر تھی اور اب وہ اپنی بیوی سے مِل سکتا تھا۔ لیکن نومی کے باپ نے کہا کہ دو ھفتے سے قبل کسی صُورت بھی ایسا ھو نہیں سکتا۔
رانا صاحب نے یہ شرط تسلِیم کرتے ھُوئے نومی کو صُورتِ حال سے آگاہ کرنے کی ذِمّہ داری مُجھ پر ڈال دی۔ نومی اُس وقت میرے پاس آیا ھُوا تھا۔
مَیں نے نومی کو آگاہ کر دیا اور ھم دونوں مُسکُرانے لگے۔ نومی اپنی بے بسی پر اور مَیں اُس کی حالت دیکھ کر۔
دُوسرے دِن کا سُورج بھی ایک نیا ھنگامہ لے کر طُلُوع ھُوا تھا۔ 
دونوں باپ بیٹا گاؤں جانے کے حوالے سے مُتّفق نہِیں ھو رھے تھے۔ نومی اب اپنے گاؤں جانا چاھتا تھا، لیکِن اُس کا باپ ڈر رھا تھا۔ آخِر یہ مسئلہ رانا صاحِب کے سامنے رکھ دِیا گیا۔ 
اُنہوں نے نومی کے حق میں‌ فیصلہ دے دِیا۔
نومی کے باپ نے اُن کے فَیصلے پر اپنے تحفُّظات کُھل کر بیان کر دِئے۔ وہ چوھدری شاد سے شدِید خوفزدہ تھا۔ اُسے اپنے بیٹے کی زِندگی بے حد عزِیز تھی اَور وہ اُسے گاؤں لے جا کر خطرے میں نہِیں ڈالنا چاھتا تھا۔ 
رانا صاحِب نے اُنہیں سمجھایا، کہ اگر وہ چوھدری شاد سے یُونہی ڈرتے رھے تو زِندگی بھر بھاگتے رھیں گے۔ اَور اگر ایک مرتبہ اُس نے نومی پر اپنی بیٹی کے اغوأ کا کیس کر دِیا تو بنا بنایا کام اُلٹا بھی ھو سکتا ھَے۔ 
اِس سے پہلے کہ چوھدری شاد کوئی کاروائی کرے، اُنہیں پہل کر دینی چاھِئے۔ 
رانا صاحِب نے اُنہیں قائِل کر لِیا۔ وہ لوگ اب کل ھی گاؤں جا رھے تھے۔
رانا صاحِب نے کمرے سے باھِر آ کر اپنے چند پولِیس افسر دوستوں کو فون کِئے۔ وہ نومی کو سخت حِفاظتی حِصار میں اُس کے گاؤں بِھجوانے والے تھے۔ ساتھ ھی اُنہوں نے ایک مِیڈِیا ھاؤس کے دوست کو بھی فون کر لِیا۔ اُس نے کہا کہ وہ کِسی بھی وقت اُن کی مدد کے لِئے تیّار رھے گا۔ 
رانا صاحِب نے نومی کو حفاظتی اقدامات سے آگاہ کر دِیا تھا۔ 
نومی اپنے گاؤں جانے کے خیال سے خُوش بھی تھا، اَور اُداس بھی۔ اُسےخُوش تو ھونا ھی چاھِئے تھا کہ اِتنے دِن بعد اپنے آبائی عِلاقے میں جا رھا تھا، لیکِن غم کی ایک وجہ اُس کا گھر تھا۔ وہ گھر جہاں اُس نے آنکھ کھولی، جہاں اُس کا بچپن گُزرا، جہاں اُس نے اپنے والِدین کی مُحبّتیں سمیٹی تھیں، جِس گھر سے اُس کی مرحُوم والِدہ کی اَن گِنت یادیں وابستہ تِھیں، وہ گھر اب جلا کر خاکِسترکر دِیا گیا تھا۔ اُس کا کھیت بھی جلا دِیا گیا تھا۔ اُس کے تمام جانور بھی مار دِئے گئے تھے۔ اَور اِن سب کے پِیچھے ایک ھی اِنسان تھا، چوھدری شاد۔ 
چَوھدری شاد کا نام ذھن میں آتے ھی حلق میں گُھلنے والی کڑواھٹ دِل تک اُتر گئی۔ 
نومی کی حِفاظت کے لِئے پولِیس کی نفری ساتھ جا رھی تھی۔ اِس کے عِلاوہ ھمارے ضِلع کا ایک اِنتِہائی اھم افسر اُن کا اِنتِظار کر رھا تھا جِسے ضِلع کی حُدُود سے نومی کے گاؤں تک اُس کے ساتھ جانا تھا، لیکِن ابھی تک اُسے نومی کے نام وغیرہ کے حوالے سے کوئی خبر نہِیں دی گئی تھی۔ اِس حوالے سے رانا صاحِب نے سمجھ داری کا مُظاھِرہ کِیا تھا۔ پولِیس کے محکمے میں اَیسے ٹاؤٹ بھی پائے جاتے ھَیں جو اپنے نام نِہاد آقاؤں کو خُوش کرنے کے لِئے اُن کے مطلب کی خبریں غَیر قانُونی انداز میں اُن تک پہُنچاتے رہتے ھَیں۔ رانا صاحِب گاؤں پہُنچنے تک نومی کی آمد کی خبر خُفِیہ رکھنا چاھتے تھے۔ جب گاؤں جانے کا وقت آیا، تو نومی کے باپ نے رانا صاحِب کے بغیر گاؤں جانے سے اِنکار کر دِیا۔ 
رانا صاحِب نے وجہ پُوچھی تو اُس نے کہا کہ وہ رانا صاحِب کے بغیر کبھی بھی گاؤں نہِیں جائے گا۔ 
رانا صاحِب ایک مصرُوف آدمی تھے، اُن کے پاس اِتنا وقت نہِیں تھا۔ اُنہوں نے اُسے قائِل کرنے کی بے حد کوشِش کی لیکِن وہ تھا، کہ کِسی صُورت بھی مان کر ھی نہِیں دے رھا تھا۔ آخِر رانا صاحِب کو ھی ھتھیار ڈالنا پڑے۔
اب وہ بھی ساتھ چل رھے تھے۔ 
صنم کو بھی گاؤں جانے کا پتہ چل چُکا تھا۔ اِتنا تو وہ جانتی ھی تھی کہ وہ لوگ مُکمّل اِنتِظامات کے ساتھ جا رھے تھے۔ ایک طرف وہ اپنے شوھر کی زندگی کے لِئے پریشان ھو رھی تھی تو دُوسری طرف اُسے اپنے والِد کی پریشانی بھی لاحق ھو رھی تھی۔ چوھدری شاد جَیسا بھی تھا لیکِن اُس کا سگا باپ تھا۔ نومی کو پالینے کے بعد اُس نے اپنے باپ کے تمام سخت رویّے اَور مار پِیٹ بُھلا دی تھی۔ اُس کے دِل سے اب بھی اپنے جابِر باپ کے لِئے صِرف دُعا ھی نِکل رھی تھی۔۔۔۔۔ ھاں بیٹیاں اَیسی ھی ھُوا کرتی ھَیں۔۔۔۔۔ اپنے والدین کے لِئے ریشم سے زیادہ نرم دِل۔۔۔ 
وہ سوچ رھی تھی کہ اگر اُس کے باپ نے نومی کو نُقصان پہُنچانے کی کوشِش کی تو کیا ھو گا ؟ پولِیس یقیِناً نومی کی طرف بڑھنے والے ھر ھاتھ کو روک دیتی۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ تو کیا اُس کا باپ پکڑا جائے گا ؟ یا ۔۔۔۔۔۔؟ اِس سے زیادہ وہ سوچ ھی نہ سکی۔ 
وہ سخت ذہنی کش مکش کا شِکار تھی۔ 
ایسے میں نومی کا محبّت بھرا ساتھ اُسے سہارا اَور حوصلہ دے رھا تھا۔۔۔۔۔ لیکن اپنے باپ کے حوالے سے اُس کے دماغ میں موجُود وھم ابھی تک اپنی جگہ پر موجُود تھے۔
آخِر اُس نے نومی سے بات کر کے اُس سے وعدہ لِیا، کہ اگر چوھدری شاد اُن دونوں کے رِشتے کو قُبُول کرتے ھُوئے اُنہیں مُعاف کر دے، تو وہ بھی اپنے تمام نُقصان کے حوالے سے یا کِسی بھی بات کو بُنیاد بنا کر اُس کے خِلاف کوئی قانُونی چارہ جوئی نہیں کریں گے۔۔۔۔۔
نومی نے مشرُوط طَور پر ھاں کر دی تھی، جبکہ اُس کے باپ نے یہاں تک کہ دِیا تھا کہ اُس نے ابھی سے چوھدری شاد کو مُعاف کر دِیا تھا۔
صنم نے رانا صاحِب اور اُن کی بیگم کے سامنے بھی ھاتھ جوڑ دِئے تھے کہ جہاں تک مُمکِن ھو، اُس کے باپ کو کِسی قِسم کا کوئی نُقصان نہ پہُنچایا جائے۔ رانا صاحِب نے وعدہ کِیا تھا کہ اگر چوھدری شاد نے کوئی غلط قدم نہ اُٹھایا تو وہ بھی چوھدری شاد کی طرف دوستی کا ھاتھ بڑھاتے ھُوئے اُس سے صُلح کر لیں گے۔
اِتنا تو صنم بھی جانتی تھی کہ رانا صاحِب سے اس کے باپ سے کوئی ذاتی لڑائی نہِیں تھی۔ یہ سب بھی وہ صنم اَور اُس کے شَوھر کے لِئے ھی کر رھے تھے۔
نومی اپنی بیوی صنم اور اپنے والِد کے ساتھ پولِیس کے اِنتِہائی ذِمّہ دار افسر کی گاڑی میں بیٹھا ھُوا تھا۔ اُس کے لِئے تمام اِنتِطامات رانا صاحِب نے کروائے تھے۔ 
رانا صاحِب اپنی کار میں آ رھے تھے۔ اُن کی بیگم بھی ضِد کر کے اُن کے ساتھ آ رھی تِھیں۔ وہ صنم کا گاؤں دیکھنا چاھتی تِھیں۔ مَیں بھی اُن کی کار میں ھی بیٹھا ھُوا تھا۔ بلال ھمارے ساتھ نہِیں تھا۔
نومی کا باپ اَور مَیں، ھم دونوں گاؤں جاتے ھُوئے اپنی اپنی جگہ پر عجِیب کشمکش کا شِکار تھے۔ ھمارے دِل میں چوھدری شاد کا ڈر تھا۔ لیکِن صنم ایک لڑکی ھونے کے باوجُود زیادہ حَوصلے میں تھی۔ اُس کے لِئے نومی کی مُحبّت وہ سہارا ثابِت ھُوئی تھی، جِس کو پا کر وہ اپنے جابِر باپ کے خِلاف بولنے کی جُرّأت کرنے والی تھی۔ 
رانا صاحِب کی بیگم نے روانگی سے پہلے اِس حوالے سے اُسے اچھّی طرح پڑھا دِیا تھا۔ اُنہیں وکِیل نے مُکمّل رہنُمائی دی تھی۔ اِس سِلسِلے میں نومی کے ماں باپ کے سامنے اَور کِسی بھی عدالت کے سامنے اُس کا ایک بیان سب سے اہم درجہ رکھتا تھا۔ 
ھمارے گاؤں کی ضِلعی حُدُود سے ایک اھم افسر بھی ھمارے ھمراہ ھو چُکا تھا۔ اب نومی، اُس کا باپ اَور صنم اُس کی گاڑی میں بیٹھ چُکے تھے۔
صنم اپنے اِرد گِرد دیکھ کر حَیران تھی۔ 
رانا صاحب کیا بلأ تھے اَور اُن کے تعلّقات کِتنے وسِیع تھے، اِس بات کا صحِیح اندازہ اُسے اب ھو رھا تھا۔ اپنے اِرد گِرد اتنی زیادہ سیکیورٹی دیکھ کر اُسے اپنے باپ کی سلامتی خطرے میں نظر آنے لگی تھی۔ 
کبھی وہ اپنے باپ کی زِندگی کی دُعائیں کرتی تو کبھی اپنے محبُوب کی سلامتی کے لِئے فریاد کُناں ھو جاتی۔اُسے تو عام حالات میں بھی اپنے محبُوب کی زندگی کی فِکر مُسلسل دامن گِیر رھتی تھی اَور اب تو وہ دونوں ایک ساتھ گاؤں جا رھے تھے۔ 
نہ جانے آگے کیا ھونے والا تھا ؟ 
گاؤں کی حُدُود جَیسے جَیسے قرِیب آ رھی تھِیں، وَیسے وَیسے میری گھبراھٹ بڑھ رہی تھی۔ یہ حقِیقت تھی، کہ اِس سے پہلے مَیں نے چوھدری شاد کا اِتنا خَوف کبھی محسُوس نہِیں کِیا تھا۔ 
آخِر چار گھنٹے کے سفر کے بعد دوپہر کے وقت ھم اپنے گاؤں پہُنچ گئے۔
صنم اپنے باپ کے غُصّے سے واقِف تھی۔ اگرچہ وہ لوگ بہترِین حِفاظتی حِصار میں گاؤں آ ئے تھے، اِس کے باوجُود نِسوانی فِطرت کی وجہ سے اُسے نومی کی زِندگی کے حوالے سے شدِید پریشانی لاحق ھو رھی تھی۔ 
دُوسری طرف اُسے اپنے باپ کی پریشانی بھی ستائے جا رھی تھی۔ وہ جانتی تھی، کہ پولِیس والے اُس کی اور نومی کی حِفاظت پر مامُور کِئے گئے ھَیں۔ اگر نومی کی طرف اُس کا باپ یا اُس کا کوئی بھی کارِندہ بڑھا، تو پولِیس والے اُسے گرفتار بھی کر سکتے تھے، اَور اگر بات اسلحے کے اِستعمال پر آ گئی، تو کِسی کی جان بھی جا سکتی تھی۔ 
اُفّ۔۔۔۔۔ یہ خیال ھی کِتنا رُوح فرسا تھا۔ صنم کانپ کر رہ گئی۔
اُس نے دِل ھی دِل میں نومی اَور اپنے والِد کی لمبی زِندگی کی دُعائیں کرنا شُرُوع کر دِیں۔ 
پولِیس کی گاڑِیاں دیکھ کر گاؤں‌ والے پہلے ھی حَیرانی سے وہاں جمع ھونا شُرُوع ھو گئے تھے۔ 
نومی اَور صنم جب چوک میں گاڑی سے اِکٹھّے اُترے، تو گاؤں کے لوگوں کی اُنگلِیاں دانتوں کے نِیچے دب کر رہ گئِیں۔ جِس نے بھی نومی اَور صنم کو ایک ساتھ دیکھا، اُس کی سِٹی گُم ھو گئی۔ اگرچہ گاؤں کے کئی افراد نے نومی اَور صنم کو مُلاقاتیں کرتے دیکھا تھا، لیکِن کِسی کے وھم وگُمان میں بھی نہِیں رھا ھو گا، کہ صنم اَور نومی محبّت میں اِس حد تک بھی جا سکتے تھے۔۔۔ خاص طَور پر نومی اَور اُس کے باپ کے بارے میں سب کو یقِین ھو چلا تھا، کہ اب وہ کبھی گاؤں لَوٹ کر نہِیں‌آئیں گے۔
گاؤں میں نومی اَور صنم کی ایک ساتھ آمد کی خبر گویا جنگل کی آگ تھی، جو آناً فاناً پُورے گاؤں میں پَھیل گئی۔
ھم لوگ اُس وقت نومی کے گھر کے باھِر کھڑے اُس کے مکان کے ملبے کا جِائِزہ لے رہے تھے۔ رانا صاحِب پولِیس افسر کو چوھدری کے مظالِم کے حوالے سے بتا رہے تھے۔ ھمارے گاؤں کا ایس ایچ او بھی موجُود تھا۔ نومی اَور اُس کا باپ خاموش ھو چُکے تھے۔ اُنہیں بولنے کی ضرُورت بھی نہِیں تھی۔ افسر اُن کے گھر کی حالت دیکھ کر ھی اندازہ لگا چُکا تھا، کہ چوھدری نے اُن کے ساتھ کیسا سلُوک روا رکھّا ھو گا۔ 
اُسی اثنأ میں ایک لڑکے نے نومی کو آواز دے کر بتایا، کہ ڈانگر مُسلحّ ھو کر اپنے چند چیلوں کے ساتھ اُن کی طرف آ رھا تھا۔ 
نومی کا باپ جو پہلے ھی گھبرایا ھُوا تھا، اُس کا رنگ پِیلا پڑنے لگا۔ نومی نے پہلے اپنے باپ کو حَوصلہ دینے کے لِئے اُس کے کندھے پر ھاتھ رکّھا، پِھر صنم کی طرف دیکھا جو قدرے خوفزدہ نظر آ رھی تھی۔ نومی نے اُس کو آنکھوں ھی آنکھوں میں اِشارہ کِیا جَیسے کہ رہا ھو، کہ گھبرانے کی کوئی بات نہِیں۔ کُچھ نہِیں ھو گا۔ 
رانا صاحِب نے افسر کی طرف مُسکُراتی نظروں سے دیکھ کر کہا۔
لیں جی ارشد صاحِب۔ اب آپ کا اصلی اِمتِحان شُرُوع ھو رھا ہَے۔
ارشد نامی افسر نے جواباً اُنہیں دیکھ کر پُر اِعتماد لہجے میں کہا تھا۔
دیکھ لیتے ھَیں رانا صاحِب۔ یہ کون سا اِمتِحان ھَے! ایک بات یقینی ھَے رانا صاحِب۔ پاکستانی پولِیس اگر اِیمانداری سے کام کرے، تو بہادُری اَور دلیری میں دُنِیا کی اعلیٰ ترِین پولِیس کو بھی پِیچھے چھوڑ سکتی ھَے۔
اَور رانا صاحِب بھی ترکی بہ ترکی بولے تھے۔
جی جی۔ بالکل۔۔۔۔۔ لیکِن اگر آپ کی طرح اِیمانداری سے کام کرے، تب۔۔۔۔
پولِیس افسر رانا صاحِب کی بات میں اپنے محکمے پر کِیا گیا دبا دباسا طنز سُن کر مُسکرا دیا تھا۔
ڈانگر کی آمد ایک گاڑی پر ھُوئی تھی۔ پولِیس والے چوکنّے ھو کر کھڑے ھو چُکے تھے۔
ڈانگر گاڑی سے اُتر کر جونہی آگے بڑھا ایس پی نے اُنہیں ھتھیار پھینکنے کا کہا، لیکِن اُس نے جَیسے بات سُنی ھی نہِیں تھی۔ اب اَیس پی بِجلی کی سی سُرعت سے سامنے آیا اَور اپنا ریوالور نِکال لِیا۔ اَیس اَیچ اَو نے بھی اُس کی تقلِید کی۔ پولِیس والے اُس کے ایک اِشارے کے مُنتظِر تھے۔ ڈانگر ایس پی کے قرِیب پہُنچ چُکا تھا۔ اُس کی شُعلہ بار نِگاہوں کا مرکز نومی ھی تھا۔ اُس کے ھاتھ میں موجُود اُس کی مخصُوص گن چمک رہی تھی۔ اُسے جَیسے اپنے لِئے ایک تازہ اَور جوان شِکار مِلنے کی خُوشی تھی۔ 
لیکِن ابھی وہ وقت نہِیں آیا تھا۔ نومی اَور اُس کے درمیان ایس پی اَور پولِیس کی نفری دِیوار بن کر کھڑی تھی۔ 
اَیس پی نے آخری تنبِیہ کے طَور پر اُسے رُکنے کا کہا، اَور ساتھ ھی ایک ہوائی فائِر بھی کر دِیا۔ ڈانگر جَیسے خواب سے جاگا۔ اَیس پی نے اُسے دوبارہ تنبیہ کی۔ ڈانگر نے غُصّے سے کُچھ کہنا چاھا، لیکِن پولِیس والوں نے اُسے ساتھِیوں سمیت چاروں طرف سے گھیر لِیا۔ اُن کے ھاتھوں میں موجُود گنوں کا رُخ ڈانگر اَور اُس کے ساتِھیوں کے سِینوں کی طرف تھا۔ یقِیناً ایس پی نے اُنہیں اِشارہ کر دِیا تھا۔ 
ڈانگر اَور اُس کے ساتھ گرِفتار ھو چُکے تھے۔ پولِیس والے اب اُن کی دُھلائی کر رھے تھے۔
تھوڑی دیر گُزری ھو گی کہ ایک اور واقعہ ھو گیا۔ 
ایک طرف سے چار بندے آ رھے تھے۔ چلتے چلتے وہ نومی کے گھر کے سامنے پہُنچ گئے۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک نظر ڈالی۔ نومی اکیلا ھی بیٹھا تھا۔ اُس کے اِرد گِرد ایک پولِیس والا بھی نہِیں تھا۔ وہ لوگ مُسکُرائے۔ اُن کا شِکار کِتنی آسانی سے اُن کی زد پہ آ چُکا تھا۔ ایک آدمی نے پِستول نِکالنے کے لِئے اپنی قمِیض کے اندرھاتھ ڈالا۔ 
یہی وہ وقت تھا جب اچانک جلے ھُوئے مکان کی ایک بچی کُھچی دِیوار کی اَوٹ سے پولِیس کی بھاری تعداد نِکل آئی۔ اُن کے ھاتھ میں رائفلیں تھِیں۔ 
اَیس پی بھی ایک طرف سے نِکل کر سامنے آ چُکا تھا۔ اُس نے گرجدار آواز میں اُن کو ھاتھ اُوپر کرنے کا حُکم دِیا۔ 
یہ اَیس پی کی چال تھی۔ وہ ایک کونے میں چُھپ کر اُن سب کا گہرا مُشاہِدہ کر رھا تھا۔
اِتنی زیادہ پولِیس کو دیکھ کر وہ گھبرا گئے تھے۔ گنیں دیکھ کر تو وہ مزِید بوکھلا گئے اَور جلدی جلدی ھاتھ اُوپر کر دِئے۔ ایک نے بھاگنے کی کوشِش کی لیکِن دو چُست پولِیس والوں نے اُسے چند قدموں پر ھی دبوچ لِیا تھا۔
پولِیس والوں نے اُنہیں آسانی سے گھیر لِیا تھا۔ اب اُن کی دُھلائی شُرُوع ھو گئی تھی۔ 
نومی پر دو مرتبہ حملے کی کوشِش کی گئی تھی۔ اگرچہ دونوں حملے ناکام کر دِئے گئے تھے، لیکِن اب ایس پی اَور رانا صاحِب مزِید خطرہ مول لینے کے لِئے تیّار نہِیں تھے۔
اُن دونوں نے فیصلہ کیا تھا کہ اب ملک صاحب سے بات کی جائے تو زیادہ بہتر تھا۔

·        
ایس پی نے ملک صاحِب سے فون پر بات کی اَور اُن سے فوری مُلاقات کی خواھِش ظاھِر کی۔ ملک صاحِب اپنی حویلی پر ھی موجُود تھے۔ اَیس پی اُن کو تھانے میں مِلنا چاھتا تھا لیکِن ملک صاحِب نے اِصرار کر کے اُسے اپنی حویلی پر ھی بُلا لِیا اَور ساتھ ھی کھانے کی دعوت بھی دے ڈالی۔ 
ایس پی نے رانا صاحِب کو بھی ساتھ چلنے کا کہا لیکِن رانا صاحِب نے اِنکار کر دِیا۔ یقیناً اُنہیں ملک‌ صاحِب کی وعدہ خِلافی ابھی تک یاد تھی۔
*******************************
چوھدری شاد اپنی حویلی میں پہُنچا ھی تھا کہ اُس کے ایک مُلازِم نے اُسے نومی کی صنم کے ھمراہ گاؤں میں آمد کی منحُوس خبر سُنا دی تھی۔ لیکِن یہ خبر خُود اُس مُلازم کے لئے منحُوس ثابت ھُوئی تھی کیونکہ اُسے ایسی بات کرنے کی پاداش میں فوراً کُتّوں کے آگے ڈال دیا گیا تھا۔
چوھدری نے بات پر غَور کِیا تو اُسے بات کی سنگِینی کا اِدراک ھُوا۔ اُس نے ایک اور مُلازِم سے پُوچھا کہ کیا وہ مُلازِم ٹِھ۔یک کَہ رھا تھا۔ لیکِن وہ بیچارہ جواب میں کُچھ بولنے کی ھمّت نہ کر سکا۔‌ پہلے مُلازِم کا حشر اُس کے سامنے تھا جو اب بھی کُتّوں کے دانتوں کے آگے مشقِ سِتم بنا چِیخ رھا تھا۔ آخر چوھدری دھاڑا۔ نوکر نے ڈرتے ڈرتے اِس خبر کی تصدِیق کر دی۔‌ چوھدری کی بڑی بڑی آنکھیں غُصّے سے اَیسے اُبل آئِیں کہ ابھی پھٹ پڑیں گی۔ اُس نے‌ اِسے بھی اپنے تھُّڑوں کی زد پہ رکھ لِیا۔
کیا بکواس کر رھے ھو کُتّے ؟ کیا بھونک رھے ھو ؟ چوھدری شاد کی بیٹی کا نام اُس کمینے کے ساتھ لینے کی جُرّأت کیسے کی تُم نے ؟
وہ اُسے مارتا بھی جا رھا تھا اور برابر ھذیان بھی بکے جا رھا تھا۔ 
سب مُلازم اپنی اپنی جگہ ساکت کھڑے تھے۔ کِسی کی ھِمّت نہِیں تھی کہ اُس کا ھاتھ پکڑ لیتا۔ آخِر تھک کر وہ خُود ھی رُک گیا۔ اُس کے مُنہ سے جھاگ بہنا شُرُوع ھو گئی تھی۔ 
عدنان سے بات کراؤ میری۔۔۔ جلدی۔۔
اُس نے اِسی مُلازم سے کہا۔ وہ بیچارہ جو ابھی پِٹنے کے بعد اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشِش کر رھا تھا، اپنی تکلِیف بُھول کر موبائل نکالنے لگا۔ 
جلدی۔۔۔
چوھدری پِھر سے دھاڑا تھا اور نوکر کے ھاتھ سے موبائل گِرتے گِرتے بچا۔ آخر اُس نے جیسے تیسے کر کے عدنان کا نمبر مِلایا لیکِن یہ کیا؟ نمبر تو بند تھا۔ 
لیکِن یہ بات چوھدری کو بتانے سے وہ ڈر رھا تھا۔ چوھدری نے اُسے گھُورا تو اُس نے بے بسی سے ڈرتے ڈرتے موبائِل چوھدری کی طرف بڑھا دِیا۔ چوھدری نے موبائل کان سے لگایا، لیکِن نمبر بند کا سُن کر اُس کا غُصّہ مزِید بڑھ گیا۔ اُس نے مُلازِم کو غلِیظ گالِیاں دِیں اور اپنی بیٹی شازِیہ کا نمبر مِلا دِیا۔ یہ نمبر بھی بند تھا۔ کوٹھی کا نمبر بھی ٹرائی کِیا لیکِن بار بار کی گھنٹی کے باوجُود بھی وہ نمبر کوئی اُٹھا ھی نہِیں رھا تھا۔ 
اُس نے غُصّے سے موبائِل دِیوار پر دے مارا۔ 
چوھدری شاد کو یقِین ھو چُکا تھا کہ عدنان فرار ھو چُکا تھا۔ یقِیناً اس نے نومی سے نِکاح میں صنم کی مدد کی تھی یا خُود ھی اُس کا نِکاح نومی سے کروا دِیا تھا۔ ۔۔۔۔ ۔ لیکِن اُس کے گھر میں شازِیہ بھی موجُود تھی اَور اُس کی مدد کے بغَیر اِتنا بڑا قدم اُٹھانا عدنان کے لِئے مُمکِن ھی نہِیں تھا۔ گویا اُس کی سگی بیٹی شازِیہ بھی اِس کھیل میں برابر شامِل رھی ھو گی۔ 
اُسے یقِین ھی نہِیں آ رھا تھا کہ اُس کی سگی بیٹی بھی اُس کے ساتھ اِتنا بڑا ھاتھ کر سکتی تھی۔ 
حالانکہ ھاتھ تو دو بیٹِیوں نے کِیا تھا۔ 
غُصّے سے چوھدری شاد کا چہرہ سُرخ ھو رھا تھا۔ اُس کا وُجُود کانپنا شُرُوع ھو چُکا تھا۔ سب مُلازِم سر جُھکائے کھڑے تھے لیکِن کِسی کی ھِمّت نہِیں تھی کہ اپنی طرف سے کوئی مشورہ ھی دے دیتا۔
آخِر اُس نے چوھدری نعمان سے بات کرنے کا فیصلہ کِیا۔
چوھدری نعمان اُس کا فون دیکھ کر خُوشی سے بولا تھا۔ 
ھاں شاد۔ کہو، کَیسے ھو ؟
لیکِن جواب میں چوھدری شاد نے اُسے دھمکانا شُرُوع کر دِیا۔ اس وقت وہ چوھدری نعمان کا احترام وغیرہ سب بُھول چُکا تھا۔ اپسے یاد تھا تو صِرف عدنان کا دھوکا۔ اُس کی باتیں سُن کر چوھدری نعمان بھی حیران رہ گیا۔ 
یاد رکھنا چوھدری شاد۔ اگر اِن میں سے کوئی الزام بھی جُھوٹا ثابِت ھو گیا تو تُمھاری خَیر نہِیں ھو گی ۔
واہ بھائی جان واہ۔ وہ کمِینہ حرامی نومی میری بیٹی کو لے کر گاؤں میں پہُنچ گیا ھَے اور آپ یقین کرنے نہ کرنے میں اُلجھے ھُوئے ھَیں۔
اگر اَیسا ھے تو مَیں اپنے ھاتھوں سے عدنان کو سزا دُوں گا۔
آپ سزا دیں یا نہ دیں، لیکِن مَیں اب عدنان کو جلد ھی مار دُوں گا بھائی جی ۔ اَور چھوڑُوں گا شازِیہ کو بھی نہِیں۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ھَے۔ “ 
اِس کے بعد اُس نے چوھدری نعمان کی بات سُنے بغیر ھی فون کاٹ دِیا۔ غُصّے سے اُس کا چہرہ سُرخ ھو رھا تھا۔ 
چوھدری کی یہ کیفِیّت برقرار تھی۔ اچانک وہ اُٹھّا اور گن اُٹھا لی۔ مُلازِم اپنی اپنی جگہ کانپ گئے۔ ایک لمحے کے لِئے اُنہیں لگا کہ ابھی وہ طَیش کی وجہ سے سب کو بُھون کر رکھ دے گا، لیکِن اَیسا نہِیں ھُوا تھا۔ چوھدری گن اُٹھا کر گاڑی کی طرف بڑھ رھا تھا۔ شاکا نامی مُلازِم تیزی سے سامنے آیا۔
نہِیں چوھدری صاحِب نہِیں۔ آپ نہِیں۔ آخر ھم مر گئے ھَیں کیا؟“ 
اوئے ھٹ جا اوئے میرے راستے سے۔ آج تو وہ حرامی میرے ھاتھ سے ہی مرے گا۔ مَیں کہتا ھُوں ھٹ جا شاکے۔
اُسی لمحے ملک‌ صاحِب کی گاڑی حویلی میں داخِل ھُوئی۔ ملک صاحِب کو دیکھ کر چوھدری نے گن اُس شاکا نامی مُلازِم کو پکڑا دی تھی۔ اُس نے اپنے آپ کو نارمل کرنے کے لِئے ایک دم سے چہرے پر مُسکراھٹ سجا لی تھی۔ شائِد وہ اپنی بیٹی والی خبر اُن تک پہُنچنے نہیں‌ دینا چاھتا تھا، لیکِن جانتا نہیں تھا کہ وہ اُس سے بھی پہلے یہ خبر سُن چُکے تھے۔
ملک‌ صاحِب اور شاد آپس میں گلے مِلے۔ پِھر وہ اُسے ایک کونے میں لے گئے ۔ تب ملک‌ صاحِب نے جَیسے اُس کے سر پہ اچانک بم پھوڑ دَِیا۔ 
شاد۔ مَیں نے نومی اَور صنم کے بارے میں تُجھ سے اھم بات کرنی ھَے۔ اندر کمرے میں چل۔
چوھدری‌شاد ایک لمحے میں سمجھ گیا کہ بات ملک صاحِب تک بھی پہُنچ چُکی تھی۔ اِسی لِئے وہ اِتنی دُور سے چل کر اُس کے پاس پہُنچ چُکے تھے۔ اُن کی بات سُن کر ایک لحظے کے لِئے اُس کی نظریں ملک‌ صاحِب سے ٹکرائِیں لیکِن اگلے ہی لمحے جُھک گئِیں۔ اُس وقت چوھدری شاد کو ملک صاحب کے سامنے اپنا آپ ایک حقِیر کیڑے کی طرح لگا رھا تھا۔ 
ملک‌ صاحِب نے اُسے اپنے ساتھ لگا لِیا اَور شانہ تھپکتے ھُوئے اندر کی طرف لے کر چل دِئے۔ چوھدری شاد کی آنکھیں بھر آئی تِھیں۔ زِندگی میں پہلی مرتبہ وہ اَیسی صُورتِ حال سے نبرد آزما ھُوا تھا۔ 
چوھدری اور ملک‌ صاحب ایک مخصُوص کمرے میں بیٹھ گئے۔ دروازہ بند کر دِیا گیا۔
ملک‌ صاحب نے چوھدری شاد کو ایس پی کی جانب سے دیا گیا پیغام سُنا دِیا۔ اب تو چوھدری کے تن بدن میں آگ سی بھر گئی۔ اب اُسے ملک صاحب کا لحاظ بھی نہِیں رھا تھا کیونکہ وہ جس خبر کو اُن کے کانوں سے بچانا چاھتا تھا وہ خبر تو ملک‌ صاحب سُن چُکے تھے۔
چوھدری اُٹھ کر کھڑا ھو گیا لیکِن ملک‌ صاحب نے اُس کا راستہ روک لِیا۔
ایک منٹ شاد۔ کہاں جا رھے ھو ؟
ھٹ جائیں ملک صاحِب۔ آج تو مَیں اُس بے غیرت نومی کا خُون کر کے ھی رہُوں گا۔
ھوش میں آؤ شاد۔ عقل کو ھاتھ مارو۔
کہاں کی ھوش اَور کہاں کی عقل ملک‌ صاحِب ؟ میری عِزّت کا جنازہ نِکال دِیا ھَے اُس حرام خور نے اَور آپ مُجھے عقل کا سبق پڑھانے لگے ھُوئے ھَیں؟ خُدا کے لِئے مُجھے چھوڑ دیں ملک‌ صاحِب۔ بس ایک مرتبہ آدھے گھنٹے کے لِئے مُجھے چھوڑ دیں۔ آج مُجھے کُچھ سمجھ نہِیں آنے والا۔ مَیں پاگل ھو جاؤں گا۔ اُس حرام خور کی اتنی جُرّأت، کہ میری بیٹی کو ورغلا کر عدالت تک لے گیا۔۔۔ ؟ اَور اُوپر سے وہ سالا اَیس پی بھی اُلٹا مُجھے چوھدری شاد کو دھمکانے آ گیا ھَے ۔ نہِیں ملک‌ صاحِب نہِیں۔ اب تو مَیں اُسے زِندہ چھوڑ ھی نہِیں سکتا۔ خُدا کے لِئے میرے راستے سے ھٹ جائیں آپ۔
تو وہاں جا کر کیا کر لو گے تُم ؟ کیا تُمھارے خیال میں نومی وہاں اکیلا بیٹھا تُمھاری گولی کھانے کا اِنتِظار کر رہا ھے ؟ جانتے بھی ھو وہاں پولِیس کے کِتنے لوگ ھَیں اُس کی حِفاظت کے لِئے ؟ ارے ھوش میں آؤ شاد۔ بات اب تُمھارے اِختِیار میں نہِیں رھی۔ اِس بات کو تسلِیم کر لو۔ میرے ساتھ بَیٹھ کر اِس صُورتِ حال پر سکُون سے خُود بھی غَور کرو، اَور مُجھے بھی کُچھ سمجھنے سمجھانے دو۔
دونوں اپنی اپنی بات منوانے کی کوشِش کر رھے تھے لیکِن چوھدری شاد ملک صاحِب کو زیادہ پُش نہِیں کر رھا تھا۔ یقِیناً وہ اُن کے مرتبے سے واقِف تھا۔ نتِیجتاً ملک صاحِب اُسے دھکیل کر کُرسی تک لے آئے تھے۔ ابھی بھی چوھدری شاد اپنی بات پر بضِد تھا۔ 
جب اُنہوں نے دیکھا کہ چوھدری شاد کسی طور بھی مان نہیں رھا تو اُنہوں نے ایک تھپّڑ اُس کے گال پر مارا۔
بس کر دو شاد اب۔ بس کر دو۔ اپنی حویلی کی چاردِیواری سنبھال نہِیں سکے تُم اَور اِلزام دُوسروں پر لگا رھے ھو۔ حد ھوتی ھَے بے وقُوفی کی بھی۔ بس کرو اب اَور میری چند باتیں غَور سے سُنو۔“ 
چوھدری شاد اُن کا تھپّڑ کھا کر کُچھ دِھیما پڑ گیا تھا۔ اب وہ‌ حَیرانی سے اُنہیں دیکھ رھا تھا ۔ ملک صاحب نے اُسے اپنے ساتھ چِمٹایا اَور کُرسی پر بِٹھا دِیا۔ 
یاد رکھّو شاد اگر اپنے غُصّے کو قابُو نہِیں کرو گے تو الیکشن سے پہلے ھی ھار جاؤ گے۔ الیکشن بھی اَور اپنی زِندگی بھی۔
کون سا الیکشن ملک صاحِب‌! کون سا الیکشن۔ ھار تو مَیں پہلے ھی گیا ھُوں۔ اُس دو ٹکے کے کمِّیں سے ھار گیا مَیں۔ چوھدری شاد ھار گیا۔۔۔۔؟“ وہ رو دینے کے قرِیب تھا۔ اپنی زِندگی میں بے بسی کے اِحساس سے شائِد وہ پہلی مرتبہ واقِف ھو رھا تھا اَور اِسی لِئے اِس کی تکلِیف برداشت نہِیں کر پا رھا تھا۔ 
کون کہتا ھَے کہ تُم ھار گئے ھو؟ ۔۔۔۔۔ نہِیں ھارے تُم ۔ بالکل بھی نہیں ھارے تُم۔ ابھی بھی کھیل تُمھارے ھاتھ میں ھَے۔ بس ذرا سے صبر اَور حَوصلے کی ضرُورت ھَے جو تُم نہِیں کر رھے ھو۔
چوھدری شاد نے پہلی مرتبہ اُن کی بات کو غَور سے سُن کر اُن کی طرف غور سے دیکھا تھا۔
ھاں۔ اب دھیان سے سُنو۔
پِھر وہ اُسے سمجھانے لگے، کہ فی الحال بازی اُس کے ھاتھ سے مُکمّل طور پر نِکل چُکی تھی۔ نومی اَور صنم عدالت میں جا کر شادی کر چُکے تھے۔ ساتھ ھی نومی کی جانِب سے ایک رپورٹ درج کروائی گئی تھی کہ نومی کو، اُس کے باپ کو اور نومی کی بیوی صنم، اِن تمام کی زِندگی کو چوھدری شاد کی جانب سے شدِید خطرات لاحق ھَیں اور اگر اُن میں سے کِسی کو بھی کُچھ ھوتا ھَے تو اُس کا ذِمّہ دار صِرف اَور صِرف چوھدری شاد ھو گا۔ نِیچے سے لے کر اُوپر تک بازی نومی کے حق میں پلٹ چُکی تھی۔ اُس کے ساتھ نہ صِرف سخت سیکیورٹی تھی بلکہ اُوپر تک مُعاملات چوھدری شاد کے خِلاف تھے۔ اَور تو اَور رانا صاحِب کے تعلّقات اِتنے وسِیع تھے، کہ کِسی بھی کاروائی کے نتِیجے میں یہاں پر مِیڈِیا کے بندے بھی منگوائے جا سکتے تھے جو ھر بات کو بڑھا چڑھا کر اپنے اپنے چَینل پر پیش کر دیتے۔ پِھر گاؤں میں سب کے سامنے پنچائِت بھی کروائی جاتی، اَور گڑے مُردے اُکھاڑے جاتے۔ ننھی اَور فِیکے کی کہانی بھی منظرِ عام پر لائی جاتی۔ تب صنم سے سب کے سامنے بیان لِیا جاتا جو چوھدری خاندان کی عِزّت کے تابُوت میں آخری کِیل ثابِت ھوتا۔ ملک صاحِب بھی اُس کے لِئے کُچھ نہ کر پاتے۔ تب چوھدری شاد کا پکڑا جانا تو یقِینی تھا ھی، لیکِن ساتھ ھی اُس کی رھی سہی عِزّت کا جنازہ بھی نِکل جاتا۔ چوھدری شاد کی جانِب سے جوش میں آ کر اُٹھایا گیا ایک قدم تمام مُعاملات کو خراب کر سکتا تھا۔ عقل کا تقاضا بھی یہی تھا، کہ اگر وہ اِس نازُک موقع پر اپنی بیٹی کو مُعاف کرتے ھُوئے نومی کو بطور داماد قُبُول کر لے تو اِس اقدام سے عِلاقے کے غرِیبوں میں اُس کی عِزّت میں اِضافہ ھو جائے گا۔ اُس کے ووٹ بینک میں حَیرت انگیز اِضافہ ھو سکتا تھا۔ اِس سے مُعاملہ بھی ٹھنڈا ھو جاتا، وہ الیکشن بھی جِیت جاتا، اَور بعد میں موقع محل دیکھ کر نومی کو بھی آسانی سے ٹِھکانے لگوایا جا سکتا تھا۔ 
لیکِن مَیں نومی کو اپنے داماد کے طَور پر کَیسے تسلِیم کر لُوں ملک‌ صاحِب ؟ آپ بھی کمال بات کر رھے ھَیں ؟ کَیسے بھر لُوں یہ کڑوا گھونٹ مَیں ؟ کَیسے سمجھاؤں مَیں اپنے دِل کو ؟
جَیسے لوگ سمجھاتے ھَیں اپنے آپ کو شاد۔ جَیسے دُنیا میں دُوسرے لوگ بڑا اَور کامیاب آدمی بننے کے لِئے، اپنی کامیابی کے لِئے بڑے بڑے کڑوے گھونٹ پی جاتے ھَیں، بالکُل وَیسے۔ شاد۔ اگر تُمھاری بیٹی تُمھارے حق میں بیان دے دیتی تو کہانی بدلی جا سکتی تھی۔ غُصّہ نہ کرنا، لیکِن وہ تو کام پکّا کروانے کے بعد یہاں آئی ھَے۔
اِس بات سے چوھدری شاد کے تن بدن میں آگ لگ گئی، لیکِن وہ کُچھ بھی نہ بول سکا۔ ملک صاحِب کی نظر میں اُس کی بیٹی گھر سے بھاگی تھی، اِس لِئے اُسے خاموشی سے سب کُچھ سُننا تھا۔ بھاگ کر شادی کرنے والی بیٹِیوں کے باپ دُوسروں کے سامنے سر اُٹھا کر بات نہِیں کرتے۔ 
چوھدری شاد سُنتا رھا اور ملک صاحِب اُسے سُناتے رھے۔ اُن کا پلان یہ تھا کہ کِسی بھی طرح بس الیکشن خیرِیّت سے گُزر جائیں۔ پِھر وہ نومی کا قِصّہ بھی تمام کروا دیں گے۔
چوھدری شاد سے ملک صاحِب کی وہ مُلاقات دو گھنٹوں پر مُحِیط رہی۔ وہ اُسے سمجھاتے رہے، اَور وہ خالی خولی نظروں سے اُن کی باتیں سُنتا رھا۔ اِس دوران کئی مرتبہ چائے کا دَور ھُوا تھا۔ مُلازِم چائے باھر سے ھی اُن کو پکڑا کر چلے جاتے تھے۔
ملک صاحِب نے اُسے قائِل کر ھی لِیا تھا۔ اب ایس پی کو بُلا کر اُس کے سامنے چوھدری شاد کی اُس کی بیٹی سے اَور نومی سے صُلح کروانا تھی۔
ملک صاحِب نے ایس پی کو آگاہ کر دِیا۔ جب اُنہوں نے یہ کہا، کہ ایس پی نومی اَور صنم کو لے کر چوھدری شاد کی حویلی پر آ جائے، تو ایس پی نے اِنکار کر دِیا۔ اُس نے کہا، کہ نومی اَور صنم کی زِندگی کے حوالے سے وہ کوئی رِسک نہِیں لینا چاہتا۔ اِس لِئے اگر آنا ھے تو چوھدری شاد اَور وہ چل کر نومی کے گھر آئیں۔ 
آخِر چوھدری شاد اَور ملک صاحِب کو ماننا پڑا۔ ہ دونوں وہاں سے نومی کے گھر کے لِئے روانہ ھُوئے تھے۔
ملک صاحِب اپنے تئِیں مُطمئِن تھے کہ چوھدری شاد اُن کے سمجھانے پر ٹھنڈا پڑ چُکا تھا، لیکِن اُن کا اندازہ غلط تھا۔
چوھدری شاد نے جب دیکھا تھا کہ ملک‌ صاحِب اُسے کِسی صُورت نومی اور صنم کو مارنے جانے نہِیں دے رھے، تو اُس نے اپنی اندرُونی کیفِیّت کو چُھپانے کا فیصلہ کرتے ھُوئے بظاھِر اُن کی بات مان لی تھی، لیکن اندر سے وہ اب بھی نومی اور صنم کے قتل کے فَیصلے پر قائِم تھا۔ بس ایک مرتبہ اُس کا سامنا نومی سے ھونے کی دیر تھی۔ پِھر وہ اپنی مرضی کا مالِک تھا۔ اِس مقصد کے لِئے اُس کی قمِیض میں موجُود ایک خُفِیہ پِستول کافی تھا۔ یہ پِستول وہ ھمیشہ اپنی قمِیض کے اندر رکھتا تھا۔ 
ملک صاحِب نے سب کو منع کر دِیا۔ 
ھم وہاں اکیلے ھی جائیں گے شاد ۔ اِن سب کو بول دو کہ کوئی ھمارے پِیچھے نہِیں آئے۔
پِھر ملک‌ صاحِب نے خُود ھی اُنگلی کھڑی کرتے ھُوئے سب کو مُخاطِب کرتے ھُوئے تنبِیہی انداز میں سختی سے کہا۔
سُنا تُم لوگوں نے ؟ کوئی ھمارے پِیچھے نہ‌ آئے۔
نومی وغیرہ ابھی تک اپنے گھر میں ھی موجُود تھے۔ اگرچہ اُن کے سونے کے لِئے ھمارے گھر میں اِنتِظام ھو چُکا تھا لیکِن وہ لوگ ابھی تک وہِیں اپنے گھر کے ملبے کو دیکھ دیکھ کر اپنی یادیں تازہ کر رھے تھے۔ 
چوھدری شاد اور ملک صاحِب اکیلے ھی آئے تھے۔ یہ ھِدائِت بھی ایس پی کی طرف سے ھی کی گئی تھی۔ 
ایس پی نے اُن کو خُود وَیلکم کِیا تھا۔ ملک‌ صاحب اور چوھدری شاد گاڑی سے اُتر کر اُس کے سامنے پہُنچے۔ چوھدری شاد نے ایس پی کا بغور جائِزہ لِیا۔ اُس کے ساتھ چند پولِیس والے بھی کھڑے تھے۔ گاؤں کا ایس ایچ اَو بھی موجُود تھا۔ چوھدری شاد اَور ملک‌ صاحِب کو دیکھ کر اُس نے نظریں جُھکا لی تِھیں۔ 
گاؤں کے چند افراد وہاں جمع ھونا شُرُوع ھُوئے تو ایس ایچ اَو نے اُنہیں جِھڑک دِیا ۔ 
چلو اَوئے۔ پُھوٹو یہاںس ے ۔ کیا یہاں سرکس لگی ھُوئی ھَے ؟ چلو بھاگو یہاں سے ۔
اَور چوھدری شاد کو لگا تھا کہ یہ جُملہ اُسے سُنانے کے لِئے کہا گیا تھا، حالانکہ اَیسا نہِیں تھا۔ بات صِرف اِتنی تھی کہ وہ ھر بات کو خواہ مخواہ اپنے آپ سے نتھی کر رھا تھا۔ بیٹی کے عدالت میں جا کر نِکاح کرنے سے وہ شائِد اپنی ہی نظروں میں گِرتا جا رھا تھا۔ 
یہ تمام باتیں اُس کے جذبۂِ اِنتِقام کو مزِید بھڑکا رھی تِھیں۔ اُس نے ھاتھ لگائے بغَیر پِستول کو جَیسے محسُوس کِیا۔ پِستَول اُس کی قمِیض کے اندر اُس کے جِسم کے ساتھ ھی موجُود تھا۔ آجسے پہلے اُس نے اِسے شائِد ھی کبھی نِکالا ھو، لیکِن اب اُسے نِکالنے کی ضرُورت پڑنے والی تھی۔
اَیس ایچ اَو گاؤں والوں کی طرف مُتوجّہ تھا۔ ساتھ ہی اُس نے ایک دو آدمِیوں کے پِیچھے بھاگتے ھُوئے اُنہیں ڈنڈے رسِید کر دِئے۔ اب دو تِین پولِیس والے بھی آگے بڑھے اَور گاؤں والوں کو مُنتشِر کرنا شُرُوع کر دِیا۔ 
گاؤں والے اب وہاں سے جا رھے تھے۔ 
چوھدری شاد کی نِگاہیں ماحول کا جائِزہ لے رہی تھِیں۔ 
حرام زادہ۔
اُس کے اندر سے اَیس پی کے لِئے ایک گندی گالی نِکلی تھی۔ یہ چوھدری شاد کی بے بسی کا اِظہار تھا کہ اِتنا کُچھ ھو جانے کے باوجُود، چاہتے ھُوئے بھی وہ کُچھ نہِیں کر پا رھا تھا۔ بس دِل ہی دِل میں گالِیاں بک رھا تھا۔
آئیں چوھدری صاحِب۔ اُمِّید ھَے کہ آپ۔۔۔
ملک صاحِب نے درمیان میں ھی اِشارہ کر کے ایس پی کو خاموش کروا دِیا تھا گویا کہ رھے ھوں، کہ حالات اب قابُو میں ھَیں۔ 
ایس پی بھی سمجھ گیا اور خاموش ھو گیا۔ 
وہ تِینوں ایک ساتھ ھی نومی کے مَیدان نُما گھر میں داخِل ھُوئے تھے ۔ سامنے نومی اَور صنم الگ الگ چارپائیوں پر بَیٹھے تھے۔ اُن کے اِرد گِرد پولِیس والے مُستعِد کھڑے تھے۔ ایک طرف رانا صاحِب اپنی بیگم کے ھمراہ کھڑے تھے۔ ساتھ ھی نومی کا والِد بھی موجُود تھا۔
مَیں اُس وقت اپنے گھر گیا ھُوا تھا۔
صنم اپنے باپ کو دیکھ کر تیزی سے کھڑی ھُوئی تھی۔ نومی بھی کھڑا ھو چُکا تھا۔ رانا صاحِب بھی چوھدری شاد اَور ملک صاحِب کو دیکھ کر آھِستہ سے چلتے ھُوئے اُن کی جاںِب بڑھے تھے۔ نومی کا باپ چوھدری شاد کو دیکھ کر اپنی جگہ جَیسے پتھّر کا ھو چُکا تھا۔
چوھدری شاد اور صنم ایک دُوسرے کی طرف ھی دیکھ رھے تھے۔ 
یکدم صنم آگے بڑھی اور چوھدری شاد کے پَیروں میں گِر گئی۔ 
مُجھے مُعاف کر دو ابّا۔ مُجھے مُعاف کر دو۔ مَیں نے تُمہیں بہُت دُکھایا ھَے ابّا۔ خُدا کے لِئے مُجھے مُعاف کر دو۔ ربّ کے واسطے اپنی صنم کو مُعاف کر دو ابّا۔
وہ بولتی جا رھی تھی اور ساتھ ساتھ روئے جا رھی تھی۔ چوھدری شاد خالی نظریں اُس کی پُشت پر جمائے کھڑا تھا۔ 
سب لوگ اپنی اپنی جگہ جَیسے جم سے گئے تھے۔ پہلے تو کِسی کو سمجھ ہی نہِیں آیا کہ کیا کرے، کیا کہے۔ آخِر ملک‌ صاحِب نے چوھدری شاد کو کندھے سے ہلایا۔
شاد۔ بیٹیاں خُدا کی رحمت ھوتی ھَیں۔ اِن کی قدر کرنی چاھِئے۔ اَور جب وہ رو کر اپنی غلطی کی مُعافی مانگ لیں تو مُعاف بھی کر دینا چاھِئے۔ چل اب تُو بھی اپنی بیٹی کو مُعاف کر دے۔“ 
اور چوھدری شاد نے چونک کر اُن کی طرف دیکھا۔ صنم ابھی تک اُس کے قدموں میں گِری ھُوئی تھی۔ 
نومی بھی چلتا چلتا اُس کے قرِیب آ چُکا تھا۔ یقِیناً وہ بھی اپنی بیوی کی تقلِید کرتے ھُوئے چوھدری شاد سے سندِ قبُولِیّت پانا چاھتا تھا۔ صنم کو پا لینے کے بعد اُسے اپنے گھر، فصل اَور کھیت جلائے جانے کا غم تقرِیباً بُھول چُکا تھا۔ وہ اب نئی زِندگی شُرُوع کرنا چاھتا تھا جِس میں اُسے چوھدری شاد جَیسے کِسی بھی اِنسان کوئی خَوف نہ ھو۔ 
وہ چوھدری شاد سے صُلح کا ھاتھ بڑھانا چاھتا تھا۔ 
اچانک، بالکل اچانک چوھدری شاد نے اپنا ھاتھ اپنی قمِیض کے اندر ڈالا اَور جب اُس کا ھاتھ باھر آیا تو اُس میں ایک پِستول موجُود تھا۔ 
تمام لوگ اِس اچانک افتاد سے گھبرا گئے تھے۔ ایس پی نے فوراً اپنے پستول کا رُخ نومی کی طرف کر دیا۔ ملک صاحِب بھی حیرانی سے ایک طرف ھٹ کر کھڑے ھو گئے تھے۔ وہ تو چوھدری شاد کو مُطمئِن کر کے لائے تھے۔ مُعاملہ چونکہ چوھدری شاد کی بیٹی کا تھا، اِسی لِئے وہ اپنے گارڈ تک کو ساتھ نہِیں لائے تھے۔ ایس پی کو اُنہوں نے ضمانت دی تھی کہ چوھدری شاد کوئی غلط حرکت نہِیں کرے گا۔ اُنہیں کیا معلُوم تھا کہ چوھدری شاد اُن کو زُبان دے کر بھی مُکر جائے گا۔
خبردار چوھدری صاحِب۔ کوئی غلط حرکت مت کرنا، ورنہ اچھّا نہِیں ھو گا۔
اَیس پی بولا۔ وہ بھی اپنا پِستول نِکال چُکا تھا اَور چوھدری شاد اُس کے نِشانے پر تھا۔ 
اوئے بند کر اَوئے اپنی ٹر ٹر۔ بہُت دیکھے ھَیں مَیں نے تیرے جَیسے افسر۔ تُو کیا سمجھتا تھا کہ یہ چند بندے ساتھ لا کر تُو مُجھے مجبُور کر لے گا ؟ مُجھے ؟ چوھدری شاد کو ؟ نہیں ایس پی نہِیں۔ لوگ مُجھے چوھدری شاد کہتے ھَیں۔ زمانہ جانتا ھَے کہ مَیں اپنے مُجرِموں کو سزا دِئے بغیر کبھی چھوڑتا نہِیں ھُوں۔ اَور یہ دونوں میرے مُجرِم ھَیں میرے۔ سزا تو اِن کو مِل کر رھے گی۔
رانا صاحِب ایک طرف کھڑے ھو کر اُسے دیکھ رھے رتھے۔ اُن کی بیگم اُن کو بازُو سے پکڑ کر کھڑی تِھیں۔صنم کھڑی ھو چُکی تھی۔ نومی اَور صنم اب برابر کھڑے ھو چُکے تھے۔ پولِیس والے بھی اپنی اپنی جگہ پر بندُوقیں تان چُکے تھے۔۔۔۔ 
بڑی ھی ڈرامائی کیفیّت بن چُکی تھی ۔ اَس وقت کئی افراد کے ھاتھ اپنی اپنی بندُوقوں کی لبلبی پر تھے۔ کِسی بھی لمحے اُن میں سے کوئی بھی ٹریگر دبا سکتا تھا اَور ایک گولی نومی، صنم یا پھِر چوھدری شاد میں سے کِسی کی بھی زِندگی کا خاتِمہ کر سکتی تھی۔ گلی میں گاؤں والے پِھر سے جمع ھونا شُرُوع ھو رھے تھے۔ 
اچانک صنم اپنی جگہ سے ھِلی اور نومی کے سامنے آ گئی تھی۔ اُس کی جُرّأت پر خُود چوھدری شاد حَیران رہ گیا تھا۔ نومی نے اُس کی طرف دیکھا۔ اِس طرح کے منظر اُس نے فِلموں اَور ڈراموں میں اکثر دیکھے تھے۔ لیکِن وہ اِن کو دیکھ کر مذاق سے ھنسا کرتا تھا۔ اُس کے مُطابِق کوئی کِسی سے اِتنی محبّت کر ھی نہِیں سکتا کہ اُس کے لِئے اپنی جان تک دینے کو تیّار ھو جائے۔۔۔۔ لیکِن آج اُس کی آنکھوں کے سامنے حقِیقت میں اَیسا ھی ایک منظر دُہرایا جا رھا تھا، اَور یہ کوئی فِلم کی شُوٹِنگ نہِیں تھی بلکہ جیتی جاگتی ایک حقیقت تھی۔ صنم واقعی اپنے باپ کے اَور اُس کے سامنے آ چُکی تھی۔ 
واقعی مُحبّت میں بڑی طاقت ھوتی ھے۔ صنم نومی سے اِتنی محبّت کرتی تھی کہ اُس کے نام کی گولی اپنے سِینے پر کھا لینے کو تیّار تھی لیکِن اپنی آنکھوں کے سامنے اُسے مرتے ھُوئے دیکھ نہِیں سکتی تھی۔
ابّاجی۔ اگر گولی چلانی ھَے تو سب سے پہلے میرے سِینے پر چلائیں۔ آپ کا مُجرِم نومی نہِیں ھَے۔ آپ کی مُجرِم مَیں ھُوں مَیں۔ اگر مارنا ھی ھَے تو مُجھے ماریں۔ شائِد اپنی بیٹی کو مار کر آپ کے غُصّے کو قرار آ جائے۔
ھٹ جا صنم ھٹ جا۔ مرنا تو تُم دونوں کو ھَے لیکِن تُجھ سے پہلے مَیں اِس کمِینے کو قتل کرُوں گا۔
نہِیں ابّا جی نہِیں۔ اب آپ اِن کو گالی نہِیں دے سکتے۔ یہ میرے شوھر ھَیں۔ اَور رھی بات آپ کے مُجرِم کی، تو وہ آپ کے سامنے کھڑی ھَے۔ اب ھِمّت ھَے تو چلائیں گولی اَور ختم کر دیں اپنی بیٹی کو اپنے ھاتھوں سے۔ سوچا تھا، آپ کے پَیر پکڑ کر آپ سے مُعافی مانگ لُوں گی۔ لیکِن نہِیں۔ آپ تو پتھّر ھَیں۔ دِل تو آپ کے سِینے میں ھَے ھی نہِیں۔ مُعاف کرنا تو آپ کو آتا ھی نہِیں ناں۔
کِس بات کی مُعافی مانگ رھی ھو تُم؟ کنجری بن کر گھر سے بھاگی ھو اِس بات کی مُعافی دُوں؟ عدالت کی سِیڑھی چڑھ آئی ھو اِس بات کی مُعافی ؟ ارے گلا گھونٹ کر مار نہ دُوں تُجھے ؟
ھاں ھاں مار دیں ۔ مار دیں مُجھے۔ اَور اگر مَیں نے نومی سے نِکاح کِیا ھَے تو بھاگ کر نہِیں کِیا ۔ میری سگی بہن اَور بھائی عدنان نے ساتھ جا کر میرا نِکاح کروایا ھَے نومی سے۔ ماں باپ بن کر عِزّت سے نومی کے حوالے کِیا ھَے۔ اَور مَیں پِھر بھی آپ سے مُعافی مانگنا چاھتی تھی ابّا جی، کِیوںکہ میرے نِکاح میں آپ کی اِجازت شامِل نہِیں تھی۔
سزا تو اُن دونوں کو بھی مِل کر رھے گی۔ مَیں اُن دونوں کو بھی اپنے ھاتھوں سے مارُوں گا۔
کِس کِس کو ماریں گے آپ ؟ کِس کِس کو ماریں گے ؟ آپ کی بیٹی نے اپنا جاِئز حق اِستِعمال کِیا ھَے اِس بات پر آپ اِتنے قتل کر دیں گے ؟ ۔۔۔۔۔ کیا بیٹی کو اُس کا حق نہِیں مِلنا چاھِئے ؟ مرضی کی شادی کا حق تو ھمارا مذھب بھی بیٹیوں کو دیتا ھَے ابّا جی ۔ لیکِن آپ تو اُونچے شِملے والے چوھدری ھَیں ناں۔ آپ مار تو سکتے ھَیں، لیکِن بیٹی کو اُس کا اَیسا جائِز حق نہِیں دے سکتے جو آپ کی اَنا سے ٹکرا جائے۔۔۔۔۔۔ مُعاف نہِیں کر سکتے۔ تو ٹِھیک ھَے۔ مار دیں۔ مار دیں مُجھے۔ لیکِن یاد رکھیں ابّا جی۔ مُجھے مار کر بھی آپ کو سکُون نہیں مِلنے والا۔ جو ھونا تھا وہ ھو چُکا۔ اب کوئی فائِدہ نہِیں ابّا جی۔ اَور مُجھے اب مرنے کا کوئی غم بھی نہِیں ھو گا۔ لیکِن یاد رکھّیں ابّا جی، آپ ساری عُمر پچھتاتے رہیں گے۔
نومی حَیرانی سے صنم کو تک رھا تھا۔ صنم جو ھمیشہ اپنے باپ کے نام سے ھی کانپتی آئی تھی آج وہی صنم تن کر اپنے باپ کے سامنے کھڑی تھی۔ اپنے باپ کو ترکی بہ ترکی جواب دے رھی تھی۔ اَور یہ سب وہ نومی کی محبّت میں کر رھی تھی۔ 
وہ ایک عورت تھی، جو بُنیادی طَور پر کمزور سمجھی جاتی تھی لیکن محبّت نے آج اُسے اِتنا توانا کر دِیا تھا کہ وہ نومی کو بچانے کے لِئے اُس کے سامنے ڈھال بن گئی تھی۔
نومی کا باپ بھی نومی کے پاس پہُنچ چُکا تھا۔ اُس نے اپسے کندھے سے تھام لِیا تھا۔ اکلوتے بیٹے کو موت کے منہ میں‌ دیکھ کر وہ بھی پِیچھے کھڑا نہِیں رہ سکا تھا۔ 
گلی میں گاؤں والوں کی تعداد میں اچھّا خاصا اِضافہ ھو چُکا تھا۔ 
چوھدری صاحِب۔ مَیں آپ کو دوبارہ وارن کر رھا ھُوں۔ ھتھیار پھینک دیں۔
یہ اَیس پی کی آواز تھی۔
مَیں آپ کی اِس غلطی کو جذباتی قدم کے طور پر مُعاف کر دُوں گا۔ ھتھیار پَھینک دیں چوھدری صاحِب۔ وعدہ کرتا ھُوں کہ آپ کو گرِفتار نہِیں کرُوں گا۔
وہ صنم اَور دِشاد کے سامنے آ گیا تھا۔ سنسنی بڑھتی جا رھی تھی۔ چَوھدری شاد کا چہرہ غُصّے اَور جذبات کی تمازت سے سُرخ ھو چُکا تھا۔ 
شاد۔ یہ کیا بے وقُوفی کر رھا ھَے تُو ؟
یہ بے وقُوفی نہِیں ھَے ملک صاحِب، بلکہ میری غَیرت کا فَیصلہ ھَے۔ آج مَیں اِن دونوں کو مار کر ھی جاؤں گا یہاں سے ۔
لیکِن تُم نے تو مُجھ سے ۔۔۔“ 
جُھوٹ بولا تھا مَیں نے۔ کیونکہ میرے لِئے کوئی بھی الیکشن میری عِزّت، میری غَیرت سے بڑھ کر نہِیں ھو سکتے۔
چَوھدری شاد۔ اپنا پِستول پَھینک دو۔ مَیں آخری وارنِنگ دے رھا ھُوں۔
اَیس پی دھاڑا تھا۔ 
شائِد چوھدری شاد جواب میں فائِر کرنے والا تھا کہ اچانک ملک صاحِب آگے بڑھے اَور چوھدری‌ شاد کے سامنے آ گئے۔
یہ کیا پاگل پن ھَے شاد؟ کیا وعدہ کِیا تھا تُو نے میرے ساتھ‌؟ بُھول گیا ؟ گاؤں والوں کے سامنے تو تماشہ بن ھی گیا ھَے، سارے جگ کے سامنے بھی تماشہ بننا چاھتا ھَے ؟ چھوڑ یہ پاگل پن۔ اِدھر دے پِستول۔ اِدھر مُجھے دے۔
چوھدری شاد نے پِستول دینے سے اِنکار کر دِیا۔ ملک صاحِب نے پِستول کا رُخ اُوپر کی طرف کر دِیا۔ رانا صاحِب آگے بڑھے اَور نومی اَور صنم کو کھینچ کر ایک طرف لے گئے۔ صنم اب پریشانی سے اپنے باپ کو دیکھ رھی تھی۔ شائِد اُسے آنے والے لمحوں کا اندازہ ھو رھا تھا۔ اِسی اثنأ میں پولِیس والوں کو ایس پی نے اِشارہ کر دِیا۔ اُنہوں نے آگے بڑھ کر چوھدری شاد کو قابُو کر لِیا جبکہ دو پولِیس والوں نے اُس کے ھاتھ سے پِستول چِھین لِیا۔
اب چوھدری شاد نہتّا ھو چُکا تھا۔ ملک‌ صاحِب چوھدری شاد کے ساتھ کھڑے تھے۔ پولِیس والے چوھدری شاد کو قابُو کر کے اُس کی طرف بندُوقیں تان چُکے تھے۔ 
مَیں نے آپ کو سمجھایا تھا چوھدری صاحِب۔ لیکِن آپ نے ایک نہِیں مانی۔ اب مَیں آپ کو گرِف۔۔
ابھی اُس کی بات مُکمّل نہیں ھُوئی تھی کہ ملک صاحِب بول اُٹھّے۔
اوئے چُپ کر اوئے اَیس پی۔ اب تُو چوھدری شاد کو گرِفتار کرے گا ؟ تیرا دِماغ تو خراب نہیں ھو گیا کہِیں ؟
مَیں مجبُور ھُوں ملک صاحِب۔ اِنہوں نے قانُون کو ھاتھ میں لِیا ھَے۔۔
اوئے بس کر اوئے تُو بڑا قانُون والا۔ تُجھے پتہ بھی ھَے تُو بات کِس سے کر رھا ھَے؟
اَیس پی بولنا چاھتا تھا لیکِن رانا صاحِب درمیان میں آ گئے تھے۔ اُنہوں نے اَیس پی کو خاموش رہنے کا اِشارہ کِیا اَور ملک صاحِب کا ھاتھ پکڑ کر ایک طرف لے آیا۔
ملک صاحِب۔ اَیس پی کی بات کا بُرا لگا ھو تو مَیں مُعافی چاھتا ھُوں۔ در اصل سیچوئیشن ھی اَیسی بن گئی تھی۔۔۔
رانا صاحِب نے ملک صاحِب کو رام کر لِیا۔ 
اگلے چند مِنٹ بڑے سنسنی خیز تھے۔ چوھدری شاد کو ملک‌ صاحِب اپنے ساتھ لے گئے تھے، لیکِن پولِیس والے بدستُور اُن کے ساتھ تھے۔ وہ اُن کو گھر تک چھوڑ کر واپس آنے والے تھے۔ رانا صاحِب اَور اُن کی بیگم اَیس پی کے ساتھ کھڑے تھے۔ نومی کا والِد بھی اُن کے پاس ھی موجُود تھا۔ چوھدری شاد کے وہاں سے چلے جانے کی وجہ سے اب وہ بھی مُطمئِن نظر آ رھا تھا۔ 
پولِیس والے گاؤں والوں کو مُنتشِر کرنے میں لگ گئے۔ 
ملک‌ صاحِب کے سیاسی قد کاٹھ کی وجہ سے چوھدری شاد کو گرِفتار نہِیں کِیا گیا تھا۔ نومی اَور صنم ابھی تک ایک دُوسرے کا ھاتھ تھامے کھڑے تھے، جَیسے اُنہیں ابھی تک بِچھڑ جانے کا خَوف ھو۔
جب چوھدری شاد اَور ملک صاحِب جا چُکے تو رانا صاحِب نے نومی کے باپ سے کہا۔
لیں بابا جی۔ آپ کا سارا ڈر ختم کروا دِیا ھَے ھم نے۔ اب تو آپ سکُون میں ھَیں ناں‌؟
بہُت بہُت شُکرِیہ جناب۔ ۔ ۔ آپ نے ھمارے ساتھ بے حد تعاوُن کِیا ھَے۔ ایس پی صاحِب اور دُوسرے سب لوگوں کا بھی شُکرِیا۔ ۔ ۔ لیکِن اب مَیں نے ایک فیصلہ کِیا ھَے۔ اب ھم اِس گاؤں میں نہِیں رھیں گے۔ مَیں‌ یہ زمِین، یہ گھر سب کُچھ بیچ دُوں گا۔ یہاں اب ھمارا رہنا ٹِھیک نہِیں ھو گا۔
یہ کہتے ھُوئے اُس کی آنکھیں پانی سے بھر آئی تِھیں۔ 
اپنا جدّی پُشتی گھر چھوڑنے کا دُکھ وہی سمجھ سکتا ھے جِس پر کبھی اَیسا وقت گُزرا ھو۔
آپ ٹِھیک کہتے ھَیں بابا جی۔ آپ کے لِئے اب شہر والا گھر ھی کافی رھے گا۔ آپ کے بیٹے کو شہر میں کوئی نوکری کوئی کام بھی مِل ھی جائے گا۔ کِیوں سرتاج ؟
یہ آواز رانا صاحِب کی بیگم کی تھی۔ آخری دو لفظی جُملہ اُنہوں نے اپنے شَوھر کو دیکھ کر اَدا کِیا تھا۔ جواب میں رانا صاحِب نے بھی اثبات میں سَر ھِلاتے ھُوئے کہا تھا۔
بالکُل بالکُل۔ کِیوں نہِیں۔۔۔ !“
نومی اَور صنم بھی اب یہاں رھنے کے لِئے تیّار نہِیں تھے۔ دُوسرے دِن وہ لوگ گاؤں سے واپِس شہر روانہ ھو گئے۔
شہر کے آزاد ماحول میں خَوف سے پاک، محبتوں اَور چاھتوں سے مُزیّن ایک سُکھ بھری نئی زِندگی نومی اَور صنم کا اِنتِظار کر رھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

*******************************************
چَوھدری شاد اُس دِن کے بعد اپنے گھر میں قَید ھو کر رہ گیا۔ ملک صاحِب نے اُسے گرفتاری سے بچا لِیا تھا، لیکِن اُس کی زِندگی عذاب بن کر رہ گئی تھی۔ 
اُس نے الیکشن میں حِصّہ لینے سے بھی اِنکار کر دِیا تھا۔ اُسے گاؤں والوں کا سامنا کرتے ھُوئے ڈر لگنے لگا تھا۔ گاؤں کے کِسی بھی فرد کا سامنا کرتے ھُوئے اُسے یُوں لگتا تھا کہ وہ صنم کی شادی اَور اُس دِن کی چَوھدری شاد کی بے بسی کو یاد کر کے چَوھدری شاد کا مذاق اُڑا رھا ھو۔
اُس کا سارا طنطنہ ھوا بن کر اُڑ گیا تھا۔ 
گاؤں میں پیش آنے والا واقعہ ایک تلخ یاد بن کر اُس کے دِماغ سے چِمٹ گیا تھا جِسے کِسی طَور بھی بُھلانا اُس کے لِئے آسان نہِیں تھا۔ 
وہ کمرہ بند کِئے اپنے ماضی کو یاد کر کر کے روتا رھتا۔ اُس نے گاؤں والوں پر نہ جانے کِتنے ظُلم ڈھائے تھے۔ کِتنوں کی عِزّتیں برباد کی تِھیں۔ سب مظالِم اب ایک ایک کر کے اُس کو یاد آتے تھے۔ نہ جانے کِتنوں کو اُس نے خُون کے آنسُو رُلایا تھا۔ 
شائِد اُن میں سے ھی کِسی کی ھائے اُس کو لگ گئی تھی۔ 
وہ کِسی سے اپنے دِل کی بات نہِیں کِیا کرتا تھا۔ بس کبھی کبھی وہ اپنے دِل کی باتیں گاؤں کے ایک فَرد چاچا فرِید کو سُنانے کے لِئے اُنہیں گھر سے بُلا لِیا کرتا تھا۔ ستّر سالہ چاچا فرِید اُس کے والِد کے پُرانے دوست تھے اَور چوھدری شاد کو اُس کے بچپن کے دَوران اکثر اپنے کندھوں پر سواری کرایا کرتے تھے۔ 
چاچا فرِید اُس کی جابِر طبِیعت سے پہلے سے آگاہ تھے، اِسی لِئے اُس کے گھر آنا جانا بند کر چُکے تھے۔ اب اُس پر وقت آیا تھا تو اُس کے باپ سے دوستی کی وجہ سے چلے آتے تھے۔ وہ اُس کی باتیں سُن کر اُسے حَوصلہ دِیا کرتے تھے۔ 
ایک ھنستے بستے اِنسان کے لِئے تنہائی بہُت بڑا عذاب ھُوا کرتا ھَے۔ وہ بھی اِسی عذاب میں گِرِفتار ھو چُکا تھا۔ 
چَوھدری شاد کی تنہائی کِسی طَور کم نہ ھو سکی۔ 
آخِر ایک دِن اُس نے اِس عذاب سے تنگ آ کر کمرہ بند کر کے خُود کُشی کر لی تھی۔ 
ختم شُد۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے