مرتے دم تک۔تیسری قسط

 

مرتے دم تک

تحریر: ماہر جی

تیسری قسط




جیسے ہی میجر کے لن سے پانی نکلنے لگا ویسے ہی صباکی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔۔۔ میجر کا لن صبا کی پھدی میں جھٹکے مارتے ہوئے اپنا پانی نکال رہا تھا۔۔۔ اور صبا رو رہی تھی۔۔۔ لیکن اس کی پھدی۔۔۔میجر کے لن کے گردسکڑ اور پھیل رہی تھی۔۔۔ جیسے اسے نچوڑ رہی ہو اور پھر اس کی پھدی نے بھی پانی چھوڑ دیا۔۔۔روتی ہوئی صبا کی چوت نے اپنا پانی چھوڑ دیا۔۔ میجر اپنا پورا پانی نکال کر پیچھے ہٹا اور اپنا لن اس کی پھدی سے نکالا تو ساتھ ہی اس کی چوت سے منی بھی باہر آنے لگی۔۔۔صبا نڈھال ہو کر روتی ہوئی ویسے ہی ننگی لیٹی رہی۔۔۔اب چھپانے

اور بچانے کیلئے بچا ہی کیا تھااس کے پاس۔۔۔ میجر نے اس کی چوت کے سامنے ہی بیٹھ کر اس کی ننگی رانوں پرتھوڑی دیر ہاتھ پھیرا اور پھر نیچے پڑی ہوئی اپنی قمیض کی پاکٹ میں سے اپنا موبائل نکالااور ننگی لیٹی صبا کی تصویریں بنانے لگا۔۔۔ صبا میں اب اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ کچھ بھی مزاہمت کر سکے۔۔۔ صبا کی منی نکالتی ہوئی چوت کی تصویریں اور اس کے پورے ننگےجسم کی بہت ساری تصویریں بنا کر پھر میجر نے اس کی ویڈیو بھی بنا لی پوری تفصیل کے ساتھ اس کے جسم کے ایک ایک حصے اور اس کے چہرے کی۔۔۔ صبا نے بہت کوشش کی اپنا چہرہ چھپانے کی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔۔۔ آخر کار میجر نے اپنے موبائل کا کیمرہ آف کیااور اپنے کپڑے پہننے لگا لیکن صبا وہیں صوفے پر ہی پڑی رہی۔۔۔ اپنے کپڑے پہن کر میجر نے قریب کے ٹیبل پر پڑا ہوا صبا کا موبائل اٹھایا اور اس کے قریب آکر اس کے سینے پر دونوں مموں کے درمیان میں رکھتے ہوئے بولا۔۔۔

یہ لو اپنا موبائل۔۔۔ اس میں میری وہ کلپ ابھی بھی موجود ہے۔۔۔ ڈلیٹ نہیں کی میں نے اور اب ڈلیٹ بھی نہیں کروں گا۔۔۔ تم اسےرکھو اپنے پاس اور جسے چاہو دکھا دو بلڈنگ میں۔ لیکن اس کے بعد جو میں دکھاؤں گا ان کو وہ تم کو بھی پتہ ہے۔۔۔ اور جو کچھ اس کے بعد ہوگا۔۔ مجھے امید ہے کہ تم کو وہ بھی پتہ ہی ہوگا۔۔۔

صبا نے نفرت سے اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیا لیکن میجر نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھ میں

پکڑااور اپنی طرف موڑ کراس کے چہرے کے اوپر جھکا اور صبا کے ہونٹوں کو چوم لیا۔۔۔ صبا نے نفرت سے اپنا چہرہ چھڑایا اس سے اور اس کے چہرے پر تھوک دیا ایک بار۔۔۔ میجر ہنسااور اپنے چہرے کو نیچے پڑی ہوئی اس کی برا سے صاف کیا اور پھر اس کے منہ کو جبڑے سے پکڑ کر زور سے دبانے لگا جس سے اسکا منہ کھل گیا۔۔۔ میجر نے اس کے کھلے ہوئے ہونٹوں پر اپنے موٹے موٹے ہونٹ رکھے اور ایک زوردار کس کر لی۔۔۔ آئندہ کبھی ایسا نہ کرناسمجھی۔۔۔ ورنہ ۔۔۔میجر مسکرایا اور اٹھ کر جدھر سے آیا تھا اسی راستےاپنے فلیٹ میں واپس چلا گیا۔۔۔ اسے جاتے ہوئے دیکھ کر صبا کے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔۔

کُتا۔۔۔ کمینہ ۔۔۔

صبا نے گھڑی کی طرف دیکھا تو ایک بج رہا تھا۔۔۔ پورے تین گھنٹے وہ اس میجر کی درندگی کا نشانہ بنتی رہی تھی۔۔۔ اور ابھی اس کے جسم میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اٹھ کر خود کو سنبھالے۔ وہ وہیں صوفے پر پڑی ہوئی ہی سسکتی رہی ۔۔۔ روتی رہی۔۔۔ اور خود کو ڈھانپنے کی کوشش بھی نہیں کی۔۔۔ آخر چھپانے کو بچا ہی کیا تھا اس کے پاس ۔۔۔ یہی سوچتے ہوئے وہ نڈھال ہو کر۔۔۔ پتہ نہیں بیہوش ہو گئی۔۔۔ یا پتا نہیں سو گئی۔۔۔ تقریباً دو گھنٹوں کے بعد اسے جیسے ہوش آیاتو وہ جلدی سے اٹھی اور ایک بار پھر اس سارے واقعے کی پوری کی پوری فلم اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگی۔۔۔ ایک بار پھر سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگے۔۔

صبا نے اچانک ہی پاس پڑا ہوا اپنا موبائل اٹھایا اور جلدی سے اپنے شوہر اشرف کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔۔۔ ابھی بتاتی ہوں اس کمینے کی اس حرکت کے بارے میں اشرف کو۔۔۔ آج اسے زندہ نہیں چھوڑے گا وہ۔۔۔ صبا کی اندر کی آواز ۔۔۔ زندہ نہیں چھوڑے گا اسے۔۔۔ پھر اس کے بعد۔۔۔؟؟؟ اس کے بعد کیا وہ مجھے زندہ چھوڑے گا ۔۔۔ ؟؟؟؟ لیکن میرا تو کوئی قصور نہیں ہے نہ۔۔۔ تو مجھے کیوں کچھ کہے گا۔۔۔ وہ مجھے اچھے سے جانتا ہے۔۔۔ صبا دوبارہ سے اشرف کا نمبر ملاتی ہوئی۔۔۔ مجھے اس نے زندہ چھوڑ بھی دیا تو وہ خود ہی پھانسی چڑھ جائے گانہ اور اس کے بغیرمیں بھلا اکیلی جی کر کیا کروں گی۔۔۔ نہیں نہیں مجھے ابھی اشرف کو اس بارے میں کچھ نہیں بتانا چاہیے۔۔۔ وہ بہت ہی غصے والا ہے ضرور کوئی انتہائی قدم اٹھا بیٹھے گا۔۔۔ میں اس کمینے کو تو اب بدنام کرکے ہی رہوں گی۔۔۔ میری عزت لوٹ لی اس نے اس کمینی کی وجہ سے اب تو میں سب کو ضرور بتاؤں گی اس کے بارے میں۔۔۔ بتاؤ بتاؤ سب کو بتاؤ اور پھر جب تمہاری فوٹوز وہ سب کودکھائے گا تو کیا جواب دوگی اشرف کو اور سب بلڈنگ والوں کو۔۔۔ یہ سب باتیں سوچ سوچ کر صبا پریشان ہو گئی۔۔۔ لیکن ایک فیصلہ اس نے ضرور کر لیا تھا۔۔۔ اور وہ فیصلہ تھا ۔۔۔ ابھی فی الحال چپ رہنے کا۔۔۔ حالات کو دیکھنے کا۔۔۔خود پر قابو پانے کا۔۔ اور پھر سوچ سمجھ کر میجر کے بارے میں کچھ کرنے کا۔۔۔ یہ سوچ کر صبا اٹھی اور اپنے پھٹے ہوئے کپڑے سمیٹ کر اپنے لڑ کھڑاتے ہوئے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھی ۔۔۔ اپنے پھٹے ہوئے کپڑے اس نے ایک سوٹ کیس میں رکھ دیے جہاں اس کے پرانے کپڑے

پڑے ہوئے تھے۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے ان کپڑوں پر اس کے شوہر کی نظر پڑے۔۔ اور وہ اس کی نظروں میں مشکوک ہو جائے۔۔۔ اور اس کی نظروں میں گر جائے۔۔۔ اور اس کی زندگی تباہ ہوجائے۔۔۔ ان کپڑوں کو سمیٹنے کے بعد صبا باتھ روم میں چلی گئی اور شاور چلا کر نہانے لگی۔۔۔ پانی کی بو چھاڑ کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے بھی پانی ایک بار پھر سے بہنے لگا لیکن اس شاور کی پھوار میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا اس کے آنسوؤں کا۔۔۔ اپنی پھدی کو مل مل کر دھونے لگی۔۔۔ اس کے اندر تک صفائی کرنے لگی تاکہ اس کمینے بدمعاش میجر کی منی اس کے اندر سے نکل جائے۔۔۔ اس نے پھدی کے اندر انگلی ڈالی تو اسے درد محسوس ہوا۔۔۔ س س س سس س۔۔۔ کمینے کتے نے چودا بھی تو کس قدر بے رحمی سے ہے نہ۔۔۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ میرے اشرف نے ایسے مجھے چودا ہو۔۔۔ ہمیشہ پیار سے چودتا ہے۔۔۔ صبا سوچ رہی تھی ۔۔۔ اوراس کتے کا موٹا بھی تو بہت تھا نہ۔۔۔ پوری کی پوری اندر تک جلا کر رکھ دی ہے میری۔۔۔ جانور کہیں کا۔۔۔ ان سب باتوں کو سوچتے ہوئے ایک اور بات اس کے ذہن میں آئی جس نے اسے تھوڑا شرمندہ بھی کر دیا۔۔۔ لیکن میری پھدی کیوں گیلی ہو گئی تھی۔۔۔ کیا مجھے بھی اس کے ساتھ مزہ آرہا تھا۔۔۔؟؟؟؟ کیا مجھے اس کا لن اپنی پھدی کے اندر اچھا لگ رہا تھا۔۔۔؟؟؟؟ کہیں میں نے خود بھی تو اپنا ریپ انجوائے نہیں کیا۔۔۔؟؟؟؟؟ ان سب سوالوں نے اسے خود سے شرمندہ کر دیا۔۔۔ اور آخری مہر اس بات نے لگا دی جب اسے یاد آیا کہ اس کی پھدی نے بھی تو اپنا پانی چھوڑ دیا تھا ناآخر میں جب وہ خود بھی اپنی فراغت کو

پہنچ گئی تھی۔۔۔ کمینے نے چودا بھی تو اتنی بری طرح سے ہے نا۔۔۔ کس قدر طاقت ہے اس کے جسم میں۔۔۔ کتنا موٹا ہے اس کا وہ۔۔۔ لن۔۔۔ کیسے پھنس پھنس کر جا رہا تھا میرے اندر چوت کے اندر تک۔۔۔ اف ف ف ف ف۔۔۔ اسے اپنی چوت میں پھر سے کچھ ہلچل سی محسوس ہونے لگی۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا وہ تو ایک جانور ہے اور اس نے میری عزت لوٹ لی ہے اور ایسا شخص تو قتل کیے جانے کے قابل ہے۔۔۔ صبا نہا کر نکلی اور دوسرے کپڑے الماری سے نکال کر پہنے اور کچن میں جا کر مصروف ہو گئی۔۔۔ رات کو اشرف آیا تو صبا نے اپنے فیصلے کے مطابق بالکل نارمل برتاؤ کیا وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایسے پیش آئی جیسے کہ اس کے ساتھ کچھ بھی نہ ہوا ہو۔۔۔ حالانکہ آج اس کی عزت لٹ گئی تھی۔۔۔ وہ لڑکی جسے اس کے شوہر کے سوا کسی اور نے نہیں دیکھا تھا، جو بازار بھی جاتی تھی تو نقاب کر کے جاتی تھی لیکن آج ایک دوسرے مرد نے اسے بالکل ننگا کر کے اس کے جسم کو دیکھا اور اسے چود کر اس کے جسم اور اس کی عزت کو برباد بھی کر دیا تھا۔۔۔ لیکن وہ بہادر لڑکی اپنے گھر اور اپنے شوہر کو بچانے کیلئے سب کچھ برداشت کر گئی تھی اور بالکل نارمل انداز میں اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھی کھانا کھا رہی تھی۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد جب دونوں بیڈ پر لیٹے اور حسب معمول اشرف نے صبا کے ساتھ تھوڑی چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔۔۔ لیکن آج صبا کا بالکل بھی موڈ نہیں بن رہا تھا اس کا ساتھ دینے کا کیونکہ اس کا دماغ کہیں اور تھا۔۔۔ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔۔۔ اسے بار بار اس کا موٹا لن اپنی پھدی کے اندر باہر آتا جاتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ جیسے ہی اسے یہ

محسوس ہوتا تو اس کی پھدی خود با خود ہی میٹھا میٹھا سا درد محسوس کرنے لگتی۔۔۔ اس وقت بھی وہ آنکھیں بند کیے میجر کے لن کو ہی یاد کر رہی تھی جب اشرف نے اسے چومنا اور کِس کرنا شروع کیا تھا۔۔۔ تھوڑی سی کِسنگ اور مموں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر لینے کے بعد صبا نے آہستہ سےاشرف کو روک دیا کہ پلیز آج کچھ نہیں کرو۔۔۔ آج اسے اشرف کے ہاتھ اپنے جسم پر مزہ نہیں دے رہے تھے۔۔۔ اس کے ہاتھوں کی گرفت اسے کمزور لگ رہی تھی۔۔۔ وہ چاہ رہی تھی کہ اس کے روکنے کے باوجود اشرف زور زور سے اس کے مموں کو مسل ڈالے۔۔۔ اور پھر اس کے روکنے کے باوجود اسے زبردستی نہیں چودا۔۔۔ اس کی مرضی کی پرواہ کیے بغیر ہی۔۔۔ جیسے۔۔۔ جیسے۔۔۔ جیسے صبح میجر نے کیا تھا اس کے ساتھ۔۔۔ لیکن اشرف جو کہ ہمیشہ سے ایک اچھا شوہر ثابت ہوا تھا، جیسے وہ بھی غصے کا تیز تھا لیک اپنی بیوی کی بات ضرور مان لیتا تھا۔ اور اگر اس کا موڈ نہ ہوتا تو اس کے ساتھ سیکس نہیں کرتا۔۔۔ آج بھی اس نے ایسے ہی کیا اور خاموشی سے صباکو اپنی بانہوں میں لے کر سو گیا۔۔۔ لیکن صبا اپنے شوہر کی بانہوں میں سمائی ہوئی کافی دیر تک جاگتی رہی اور میجر کے بارے میں سوچتی رہی۔۔۔ اسے اشرف کا اس طرح سے اس کی بات مان لینا اور اسے سونے کی اجازت دے دینا بھی بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔ اسے مایوسی ہوئی تھی کہ اشرف کیوں رک گیا۔۔۔ کیوں اس نے میری مرضی کے خلاف مجھے سب کچھ کرنے پر مجبور نہیں کیا ۔۔۔ اس کے بازؤوں میں لیٹی ہوئی اس کے جسم کو محسوس کرنے لگی۔۔۔ اشرف کو بھی ایکسر سائز کرنی چاہیے۔۔۔ تاکہ اس کا جسم بھی مضبوط اور طاقتور

ہو جائے۔۔۔ میجر کی طرح۔۔۔ کیا ہو گیا ہے مجھے کیوں میں میجر کے بارے میں ہی سوچے جا رہی ہوں۔۔۔ مجھے تو نفرت ہے اس سے۔۔۔ میں کیسے یہ چاہ سکتی ہوں کہ اشرف کو اس کی طرح کاہونا پسند کروں۔۔۔ وہ کمینہ تو ہر وقت مجھے گالیاں دیتا ہے۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ وہ تو بس ایک جانور ہے۔۔۔ جو جسموں کو نوچ ڈالتا ہے۔۔۔ اور جسموں کو نوچنا جانتا ہے۔۔۔ صبا کو ایک بار پھر سے اپنی پھدی گیلی ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔۔۔ جانور ہے لیکن جسم تو توڑ کر رکھ دیا ہے نا میرا اس نے۔۔۔ صبا کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔ کتا۔۔۔ کمینہ ۔۔۔ اگلی صبح میجر اپنے گھر پر ہی رکا ہوا تھا اور کسی نہ کسی ہنگامے کے ہونے کا منتظر تھا۔۔۔ وہ اپنے فلیٹ میں ہی ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔۔۔ کچھ دیر میں اسے اشرف کے فلیٹ کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی میجر بھی اپنے دروازے سے لگ کر کھڑا ہو گیا اور باہر کی آواز سننے لگا۔۔۔ اس نے سنا کے صبا اپنے شوہر کو سی آف کر رہی ہے۔۔۔ جیسے ہی اس کے سیڑھیوں پر قدم رکھنے کی آواز آئی تو میجر نے اپنا دروازہ کھول دیا اور باہر کو نکل آیا۔۔۔ وہ مطمئن ہو چکا تھا کہ صبا نے سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئےاپنے شوہر کو کچھ بھی نہیں بتایا اور جیسے اس نے کہا تھا سب کچھ چھپا گئی ہے۔ صبا ابھی بھی اپنے دروازے میں کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔ میجر نے صبا کی طرف دیکھا اور جب دونوں کی نظریں آپس میں ملیں تو میجر کے چہرے پر خود بہ خود ہی ایک فاتحانہ لیکن گھناؤنی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔ میجر کے چہرے پر ایسی گندی مسکراہٹ دیکھ کر صبا کا دل ایک بار پھر نفرت سے بھر گیااور یہ نفرت اس کے چہرے پر بھی چھلکنے لگی۔۔۔ لیکن اسی وقت اس کی

چدائی کا پورا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے دوڑ گیا اور اس کا چہرہ شرم سے سرخ ہونے لگا۔۔۔ یہ سوچ کر کہ کیسے اس نے اس کا ریپ کر دیا تھا اور یہ سوچ کر وہ مزید پریشان ہو گئی کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا تو میری کتنی بدنامی ہو گی۔۔۔ اس نے اپنا چہرہ نیچے جھکا لیا۔۔۔ میجر نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو کِس کیا اور صبا کی طرف اچھالتے ہوئے اسے کسی لوفر کی طرح سے فلانگ کِس دی اور ساتھ ہی اپنی انگلی سے اسے اپنے فلیٹ میں آنے کا اشارہ کیا۔۔۔ صبا نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور حقارت سے فرش پر تھوک کر بولی۔۔۔ کتا ۔۔۔ کمینہ ۔۔۔ اور زور سے اپنا دروازہ بند کر کے اندر چلی گئی اور اپنی پیٹھ اپنے دروزے کے ساتھ لگا کر کھڑی ہو گئی۔۔۔ رات بھر خود کو ہی لعنت ملامت کرنے کے بعد ہی وہ پھر سے اپنے دل میں میجر کیلئے نفرت کو قائم رکھ پائی تھی۔۔۔ جو بھی ہوا تھا اس کے جسم کا جو بھی ریسپونس تھا اس میجر کیلئے لیکن بہر حال اسکا ریپ ہوا تھا اور یہی چیز اس کیلئے پریشان کن تھی ۔۔۔ شرمناک تھی اور اذیت ناک تھی۔۔۔ اس بات کو وہ کیسے اپنے دل سے نکال سکتی تھی۔۔۔ اس بات سے میجر کی ہمت بڑھ چکی تھی۔۔۔ اس نے جب دیکھا کہ ارد گرد کوئی بھی نہیں ہے تو آگے بڑھ کراس نے صباکے دروازے پر نوک کر دیا۔۔۔ اندر دروازے کے ساتھ چپکی ہوئی صبااس اچانک کی دستک سے اچھل پڑی۔۔۔ اسے میجر کی کمینگی کا توپتہ تھا لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ سیدھا اس کے دروازے پر دستک دینے کی ہمت بھی کرے گا۔۔۔ لیکن ظاہر ہے کہ صبا نے دروازہ نہیں کھولا اور نہ ہی دوسری بار میجر نے نوک کیااور ہنستا ہوااپنے فلیٹ میں چلا گیا۔۔۔ اندر صبا کا دل بری

طرح سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔ اگر۔۔۔ اگر۔۔۔ میجر اندر آگیا تو۔۔۔ تو۔۔۔ تو وہ پھر سے۔۔۔ پھر سے وہی کچھ کرے گا میرے ساتھ۔۔۔ اپنے موٹے لن کے ساتھ۔۔۔ اف ف ف ف ف نہیں ں ں ں ں ں ں ں ں ں۔۔۔ پھر سے وہی موٹا لن میری نازک سی پھدی میں۔۔۔ آہ ہ نہیں ں ں ں ں ں ں ں۔۔۔ ایسا اب نہیں ں ں ں۔۔۔ ہونے دوں گی میں۔۔۔ صبا نے غصے سےسوچا۔۔۔ لیکن۔۔۔ اس کی سانس بہت پھولنے لگی۔۔۔ ممے اوپر نیچے ہونے لگے۔۔۔ تیزی کے ساتھ۔۔۔ صرف اسی خیال کے ساتھ کہ اگر وہ کسی طرح سے دوبارہ اندر آگیا تو کیا ہو گا۔۔۔ یہ خیال آتے ہی اسے یقین ہو گیا کہ اگر وہ کمینہ اندر آیا تو پھرسے وہی کچھ کرے گا۔۔ جو کل کیا تھا اس نے۔۔۔ اسے پھر سے اپنے نازک جسم پر میجر کے طاقتور جسم کابوجھ محسوس ہونے لگا۔۔۔ اسے اپنی پھدی کے اندر پھر سے اس کا لن۔۔۔ موٹا لن۔۔۔ اپنی چوت کے اندر باہر ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا۔۔۔ اسی سوچ کے ساتھ ہی اسے اپنی پھدی میں کچھ گیلا پن بھی محسوس ہونے لگا۔۔۔ لیکن اس احساس کو جھٹک کر وہ اپنے کام کی طرف بڑھ گئی۔۔۔

وہ یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھی کہ اس میجر کا تصور ہی اسے کمزور کر دیتا ہے۔۔۔ اس دن کے بعدمیجر نے کبھی بھی صبا سے دوبارہ کوئی بات نہیں کی۔۔۔ پتہ نہیں کیوں۔۔۔ اس کو کبھی دیکھ بھی لیتاتو صرف مسکرا کر آگے چلا جاتایا اسے اگنور کر دیتا۔۔۔ اسے اب صبا کی کوئی فکر نہیں تھی۔۔۔ کیونکہ اسے پتہ تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی۔۔۔ اور یہ حقیقت بھی تھی۔۔۔

اور شایدیہ بھی حقیقت تھی کہ وہ اب کسی کو بتانا بھی نہیں چاہتی تھی۔۔۔ جب بھی اس کا سامنا میجر سے ہوتا تو خوف کے مارےاس کی ٹانگوں کی جان نکلنے لگتی۔۔۔ جسم ڈھیلا پڑنے لگتا ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑنے لگتے۔۔۔ میجر کیلئے اس کی نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔ ایک بار جب وہ منصور صاحب کے گھر گئے تو اشرف منصور صاحب سے بولا،

اشرف ؛ منصور انکل آپ یہ اس میجر کا کچھ کرتے کیوں نہیں ؟؟ اپارٹمنٹ کے مالک کو ہی شکایت لگا دیں اس کی کچھ بندوں کو لے جا کراپنے ساتھ تاکہ یہ یہاں سے نکلےاور سب کو سکون ملےیہاں رہنے میں۔۔۔

منصور ؛ بیٹا اس خبیث کا ایک ہی حل ہےکہ اسے منہ ہی نہ لگایا جائے۔۔۔ ویسے میں دیکھتا ہوں کیا کر سکتا ہوں میں۔۔۔

یہ بات سن کر صبا کا دل زور سے دھڑک اٹھا۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اشرف کا دوبارہ سے میجر کے ساتھ کوئی پنگا ہو اور کہیں بہت زیادہ غصے میں آکر وہ اشرف کو اس کے بارے میں وہ بات بتا دے جس سے اس کی شادی شدہ زندگی خطرے میں پڑ جائے۔۔۔ وہ بول پڑی۔۔۔

صبا ؛ اشرف چھوڑیں آپ بھی۔۔۔ کیوں اس کو اپنے دماغ پرسوار کیا ہوا ہے۔۔۔ بس اسے آپ منہ ہی نہ لگائیں ۔۔۔ ایسے بندے سے دشمنی لینے کا کیا فائیدہ۔۔۔ بس خاموشی سے رہتے ہیں اپنے گھر میں۔۔۔

منصور ؛ کہتی تو صبا بیٹی بھی ٹھیک ہے لیکن پھربھی میں دیکھتا ہوں کچھ کرتا ہوں اگر کچھ ہو سکا تو کسی نہ کسی کو اپنے ساتھ ملاتا ہوں پھر ہی جاؤں گا مالک کے پاس۔۔۔

منصور صاحب ایک بہت ہی اچھےاور نیک اورمذہبی شخص تھے۔۔۔ چہرے پر بڑی سی بھاری بھرکم داڑھی تھی جو کہ سفید ہو چکی تھی لیکن وہ اسے ہمیشہ لال رنگ میں رنگ کر رکھتے تھے بلڈنگ کےبالکل ساتھ ہی ایک مسجد میں امام تھے اور نماز پڑھاتے تھے۔۔۔ کچھ تھوڑا بہت بزنز بھی تھاجس سے ان کا اچھا گزر اوقات ہو جاتاتھا۔۔۔ ہمیشہ سفید شلوار قمیض ، سر پرسفید ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح پکڑے منصور صاحب بہت ہی معزز اور مذہبی شخصیت لگتے تھے۔۔۔ بھاری بھرکم جسم، توند نکلی ہوئی، بھاری چہرہ اور صاف ستھرا ایک پاک کردار ہی تھا جس کی وجہ سے علاقہ میں اوربلڈنگ میں ان کا اچھا روب تھا اور ان کی بات سنی بھی جاتی تھی ۔۔۔ بالکل ایک عام مولوی کی طرح موٹا اور بھاری جسم تھا توند جیسے کہ عام طور پر اکثر مولوی ہوتے ہیں ۔۔۔ میجر صاحب بھی ان سے کافی حد تک دبتے تھے لیکن دونوں ہی ایک دوسرے سے زیادہ بات چیت نہیں کرتے تھے۔۔۔ منصور صاحب کے دو بچے تھے دونوں کالج میں پڑھ رہے تھے۔۔۔ بڑی بیٹی فرح صبا سے دو ، تین سال ہی چھوٹی تھی اس لیے دونوں کی جلد ہی دوستی ہو گئی تھی۔۔۔ اس سے چھوٹا بیٹا تھا اسد اور وہ بھی کالج کا سٹوڈنٹ تھا۔۔۔

کافی دن مزید گزرنے کے باوجود بھی جب کچھ نہ ہوا اور میجر صاحب کی خاموشی صبا کیلئے حیران

کن تھی۔۔۔ میجر کی خاموشی سے صبا کی ہمت بڑھنے لگی اسے پھر سے اپنی ویڈیو اور فوٹوز کو واپس لینے اور ہمیشہ کیلئےخود کو محفوظ کر لینے کا خیال آنے لگا۔۔۔ جیسے جیسے اس کی ہمت بڑھتی جا رہی تھی ویسے ویسے ہی اس کا خوف بھی کم ہوتا جا رہا تھااور اس کے ساتھ ہی اس کی نفرت بھی بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔ لیکن ایک بات اور تھی جو اس کے من میں بار بار کھٹک رہی تھی وہ یہ کہ۔۔۔ کئی بار اس دوران اشرف نے اسے اپنی بانہوں میں لیا۔۔۔ اسے چودا۔۔۔ لیکن جب بھی وہ اسے اپنی بانہوں میں لیتا تو اسے ان بانہوں میں کمزوری اور نرمی محسوس ہوتی۔۔ وہ چودتا تو وہ چلاتی ۔۔۔ اور زور سے۔۔۔ اور طاقت سے۔۔۔ پلیز ز ز ز ز۔۔۔ اس کی بند آنکھوں کے آگے میجر کا چہرہ آجاتا۔۔۔ اور وہ اشرف کے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہوئے میجر کے مظبوط جسم کو محسوس کرنا چاہتی لیکن۔۔۔ لیکن ۔۔۔ وہ تو اشرف تھا اس کا جسم اس مضبوط پہاڑ جیسے میجر کی طرح کیسے ہو سکتا تھا۔۔۔ اشرف آخر میجر کی طرح کیسے چود سکتا تھا۔۔۔ اور کیسے اس کے جسم کی پیاس اس جانور کی طرح بجھا سکتا تھا۔۔۔ جس نے ریپ کر کے بھی اس کے دماغ پر اپنا اثر چھوڑ دیا تھا۔۔۔ اتنا کہ وہ اب بھی اس کے بارے میں سوچتی تھی۔۔۔ اتنی نفرت کرنے کے باوجود بھی۔۔۔ کافی دن تک سوچنے کے بعداس نے فیصلہ کر لیا کہ ایک بار وہ میجر سے ضرور ملے گی اور اس سے ریکوسٹ کرے گی کہ وہ اسے اس کی ویڈیو واپس کر دے۔۔ ہو سکتا ہے کہ اتنے دن گزر جانے کے بعد اس کا دل کچھ نرم پڑ چکا ہواور اب اسے ہمیشہ کیلئے آزاد کر دے۔۔۔ لیکن پھر ایک خوف اس کے سامنے آ جاتا کہ اگر میجر نے دوبارہ سے اس کے

ساتھ درندگی کا مظاہرہ کیا اور پھر سے اس کے ساتھ۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ اب ایسا نہیں ہو گا۔۔ ضروری تو نہیں کہ اس بار بھی وہ اس کے ساتھ وہی حرکت کرے۔۔۔ جو بھی ہو لیکن بہر حال ایک بار تو جانا ہی پڑے گا۔۔۔ اس کے پاس اس ارادے کو کئے ہوئے بھی اسے دو چار دن مزید گزر گئے لیکن اسے میجر کاسامنا کرنے اور اس سے بات کرنے کی کوئی ہمت نہ ہو سکی۔۔۔ ایک دن دوپہر میں جب کہ اشرف اپنی ڈیوٹی پر تھا تو صبا نے ہمت کر ہی لی میجر کے پاس جا کر اس سے بات کرنے کی۔۔۔ اسے میجر کے فلیٹ پر جانے میں ڈر بھی محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ یہ خوف بھی تھا کہ اگر اشرف نے اسے میجر کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے دیکھ لیا یا اس کے فلیٹ پر تو پھر تو اس کی زندگی اور شادی کی کوئی بھی ضمانت نہیں رہے گی۔۔۔ لیکن جو بھی ہو اسے ایک بار تو یہ رسک لینا ہی تھا۔۔۔ جیسے جیسے وہ خود کو تیار کر رہی تھی۔۔۔ اس کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ ہر خوف کے اور خطرے کے باوجود اپنی زندگی اور اپنی شادی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے بھی وہ میجر کے پاس جانا چاہتی تھی۔۔۔ اپنی ویڈیو اور فوٹوز حاصل کرنے۔۔۔ یہ فیصلہ وہ نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔کیونکہ دل کےکسی کونے میں اس کے یہ ڈر بھی موجود تھا کہ اگر وہی کچھ ہوگیا تو۔۔۔ ہوا تو دیکھا جائے گا پھر ۔۔۔ آخر اس نے فیصلہ کر ہی لیا۔۔۔ صبا نے ایک دوپٹہ اپنے سر پر اچھے سے لیا اور دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولا اور باہر دیکھا۔۔۔ گرمیوں کی دوپہر تھی تو باہر کوئی بھی نہیں تھا سب لوگ اپنے اپنے کام پر تھے یا گھروں میں آرام کر رہے تھے۔۔۔ صبا نے اپنے فلیٹ کے گیٹ سے باہر

پیر رکھااور اپنے فلیٹ کو لاک کر کے اپنی بے چینی کو کنٹرول کرتے ہوئے قدم بڑھائے اور میجر کے دروازے کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔۔۔ یہاں تک تو وہ آچکی تھی لیکن اب اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ کیسے نوک کرے دروازے پر۔۔۔ اس کی سانس بہت پھول رہی تھی۔۔۔ اور دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔۔۔ ایک طرف اسے میجر کےپاس جانے کا خوف تھا تو دوسری طرف یہ بھی ڈر تھا کہ کوئی دیکھ نہ لے اسے۔۔۔ جب اس کی ہمت نہ ہوئی تو واپس پلٹ آئی۔۔۔ لیکن دوقدم بڑھا کر ہی پھر پلٹی اور ایک بار پھر میجر کے دروازے پر تھی ۔۔۔ اس بار کانپتے ہوئے ہاتھ اٹھے اور اس نے بیل دبا ہی دی۔۔۔ بیل کے دبانے کے بعد چند لمحے گھنٹوں کی طرح گزرنے لگے۔۔۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے پتہ نہیں کتنی دیر ہو گئی ہےاسے بیل دبائے ہوئے اور کوئی کھول ہی نہیں رہادروازہ۔۔۔ دوبارہ بیل دینے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔۔۔ ابھی وہ واپس پلٹنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ دروازہ کھل گیا اور اس کے سامنے میجر صاحب کا جوان اور طاقتور جسم کھڑا نظر آنے لگا۔۔۔ اور جیسے ہی صبا کی نظر میجر کے اوپری ننگے جسم پر پڑی تو اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔۔۔ اس کی نظر اب صرف اس کے جسم پر ہی تھی۔۔۔ سانولا رنگ لیکن بہت ہی مظبوط جسم۔۔۔ وہ بس اس کے جسم کو تکے جا رہی تھی۔۔۔ جیسے ہی میجر صاحب نے صبا کو اپنے دروازے پر اور پھر اپنے ننگے جسم کو گھورتے ہوئے دیکھا تو خود با خود ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔

میجر ؛ ہاں کیا بات ہے۔۔۔؟؟ کیا کرنے آئی ہے۔۔۔؟؟ ابھی تو میں نے ٹیپ چلائی بھی نہیں ہے۔۔۔ پھر کیوں آگئی ہے۔۔۔؟؟؟ اب کس کام سے بھیج دیا ہے تجھے اس بھڑوے نے۔۔؟ صبا ؛ پلیز میجر صاحب۔۔۔ ایسا نہ کہیں۔۔۔ و و و۔۔۔ وہ۔۔۔ مجھے ے ے ے ے۔۔۔ ہی ی ی ی ی۔۔۔ آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔۔۔

صبا جیسے ہوش میں آتے ہوئے بولی۔۔۔

میجر ؛ ہاں کرو جلدی میری نیند خراب نہ کرو۔۔۔

میجر نے دوپٹے میں لپٹے ہوئے صبا کے خوبصورت اور گداز جسم کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ صبا بڑی ہی بے چینی کے ساتھ اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کر رہی تھی اور کھول رہی تھی۔۔۔ اور اپنے فلیٹ کی چابیوں کے گچھے کو مظبوطی سے پکڑے ہوئے تھی۔۔۔ صبا نے ادھر ادھر دیکھا اور بولی۔۔۔

نہیں وہ یہاں نہیں۔۔۔ کوئی دیکھ لے گا۔۔۔

میجر ؛ یہاں نہیں تو پھر کیا مجھے کسی ہوٹل میں یا پارک میں ملنے کا کہنے آئی ہے۔۔۔ یہ رنڈیوں والے کام کب سے شروع کر دیے تو نے۔۔۔ تجھے تو تیرے اس شوہر نے بڑی کوئی شریف بنا کر پیش کیا ہوا ہے سب کے سامنے۔۔۔

صبا ؛ پلیز میجر صاحب ۔۔۔ ایسا مت بولیں۔۔۔ اندر جا کر بات ہو سکتی ہے کیا آپ سے صرف چند منٹ ۔۔۔

صبا کو بہت بے عزتی محسوس ہو رہی تھی لیکن اسے پتا تھا میجر اسے ذلیل کیے بنا نہیں رہ سکتا۔۔ میجر کی باتوں سے ذلیل ہونے پر وہ خود کو بہت ہی بے بس محسوس کر رہی تھی۔۔۔ اسے خیال آرہا تھا کہ وہ آخر کیوں دوبارہ اس کے سامنے آگئی ہے۔۔۔

میجر ؛ لیکن اگر تیرے شوہر نے تجھے میرے فلیٹ میں دیکھ لیا تو۔۔۔ ؟؟؟

خلافِ توقع اس بار میجر نے کچھ نرمی سے بولا تھا۔۔۔

صبا گھبرا کر ؛ نہیں پلیز بس تھوڑی دیر بات کرنی ہے آپ سے۔۔۔

صبا نے منت سماجت کی اس کی۔۔۔ میجر نے بھی اِدھر اُدھر دیکھا اور مسکرا دیا اور پھر تھوڑا سا راستہ دیتے ہوئے بولا۔۔۔

ٹھیک ہے تو پھر آجاؤ اندر۔۔۔ اندر آکر بات کر لو۔۔۔ لیکن جلدی کرنا۔۔۔ میرے پاس ٹائم نہیں ہے۔۔۔

صبا نے ایک نظر پھر سے کوریڈور میں ڈالی اور بہت ہی تیز دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ میجر کے فلیٹ میں قدم رکھ دیا۔۔۔ میجر دروازے میں ہی کھڑا رہااور صبا کوگزرنے کا تھوڑا سا راستہ

دیا۔۔۔ ایک لمحے کیلئے تو صبا کو میجر کی یہ ات بھی بہت بری لگی لیکن پھر وقت کی نزاکت کودیکھتے ہوئےوہ آگے بڑھ گئی۔۔۔ جو وہ حاصل کرنے آئی تھی اس کیلئے اسے کچھ تو برداشت کرنا ہی تھا نا۔۔۔ اور پھر وہی ہوا جو میجر چاہتا تھا۔۔۔ صبا کا جسم اس کے جسم سےچھو کر آگے گیا اس کے اندر آنے کے بعدمیجر نے بھی اپنا دروازہ بند کر لیا۔۔۔ صبا آگے آگے چل رہی تھی اور میجر اس کےپیچھے پیچھے آتا ہوااس کی پتلی کمر اورخوبصورت موٹے موٹے چوتڑوں کو دیکھ رہا تھا۔ صبا کو یہی خوف دل میں آرہا تھا کہ۔۔۔ ابھی یہ وہشی جانورمجھے پیچھے سے دبوچ لے گا اورایک بار پھر سےوہی کھیل شروع کر دے گا۔۔۔ صبا کسی بھی لمحے اس کے ہاتھوں کا لمس اپنے جسم اور گانڈ پرمحسوس کرنے کیلئےخود کو تیار کر چکی تھی۔۔۔ لیکن میجر نے ایسی کوئی حرکت نہ کی جس سے صبا کو تھوڑا حوصلہ ہوااور لگا کہ شاید بات بن جائے۔۔۔ کیا مست گانڈ ہے۔۔۔ میجر نے سوچا۔۔۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اس کے فلیٹ میں آئی ہے۔۔۔ چاہے بات کرنے کیلئے ہی آئی ہو۔ سیٹنگ روم میں آکر میجر نےسوئچ بورڈ سے پنکھے کا بٹن دبایا اور ایک دو بٹن اور بھی آن کر دیے۔ لیکن اس بات کاعلم صبا کو نہیں ہوا کیونکہ وہ آگے آگے چل رہی تھی۔۔۔ میجر کے فلیٹ کےسیٹنگ روم میں پہنچی تو دیکھا کہ بہت ہی بے ترتیب سا کمرہ ہےہر طرف کپڑے اور سامان بکھرا پڑا ہے۔ ۔۔ فرش پر اِدھر اُدھر سگرٹ کے ٹکڑے اور ماچس کی تیلیاں بکھری پڑی ہوئی تھیں۔۔۔ ایک کونے میں بالکنی کی کھڑکی کے پاس ہی میجر نےاپنا ایکسرسائز کا سامان رکھا ہوا تھا۔۔۔ کچن کا بھی برا حال لگ رہا رتھا۔۔۔ ایک طرف ایک کوچ پڑا ہوا تھا۔۔

جس پر ایک گول تکیہ رکھا ہوا تھا میجر کے بیٹھنے کیلئے۔۔۔ فلیٹ میں اسے سگرٹ اور شراب کی بدبو بھی آرہی تھی۔۔۔ ملی جلی ہوئی۔۔۔ میجر کے ہاتھ میں اس وقت بھی سگرٹ موجود تھی ایک طرف ایک صوفہ بھی پڑا ہوا تھا۔۔۔ میجر سیدھا جا کراس کوچ پر بیٹھ گیالیکن اس نے صبا کو بیٹھنے کیلئے نہیں بولااورصبا بھی خاموشی سے سامنے کھڑی رہی اس نے بھی صوفے پر بیٹھنا پسند نہیں کیا۔۔۔ صبا دیکھ رہی تھی کہ میجرنے اس وقت ایک برمودہ پہنا ہوا تھا کاٹن کاجو کہ اس کے گھٹنوں سے بس نیچے ختم ہو رہا تھا۔۔۔ اس کا اوپری جسم بالکل ننگا تھا۔۔۔ اس کے سینے اور پیٹ کےمسلز بہت اچھی شیپ میں تھے۔۔۔ اس کے بازوؤں کےڈولے بھی اچھے خاصے پھولے ہوئے تھے۔۔۔ نیچے اس کی ٹانگیں بھی کافی مظبوط اورتگڑی لگ رہی تھیں۔۔۔ سانولا سا رنگ تھا میجر کےجسم کا جسے گندمی بھی نہیں کہا جا سکتا۔۔۔ باڈی بلدر کی طرح میجر کا سینہ بھی بالوں سے بالکل پاک تھا۔۔۔ اس کے سینے گردن اور جسم پرپسینا بالکل صاف بہتا ہوا نظر آ رہا تھا۔۔۔ جیسے ابھی ابھی وہ ورزش کرتے ہوئے چھوڑ کر گیٹ کھولنے آیا ہو۔۔۔ صبا کی نظروں میں اس کے جسم کےپورے اتار چڑھاؤ صاف تھے اوراس کے جسم کی طاقت کا اندازہ اسے ہو رہا تھا۔۔۔ اس کے جسم کا فوراً ہی صبا نے مقابلہ اشرف کے جسم کے ساتھ کیا تو اسے احساس ہوا کہ اشرف تو اس سے کافی کمزور ہےاور وہ اس سے ہرگزبھی لڑائی نہیں کر سکتا۔۔۔ میجر کا جسم اسےکافی طاقتور لگ رہا تھا میجر کے سینے اور کندھوں پراسے لمبے لمبے باریک سے بالکل پتلی لکیروں کی طرح کے زخموں کے نشان نظر آرہے تھے۔۔۔ صبا فوراً ہی سمجھ گئی کہ

یہ اس کےناخنوں کے نشان ہیں جو کہ اس دن اس نے میجر کے جسم پرڈالے تھے خود کو بچاتے ہوئے۔۔۔ یہ بات یاد آتے ہی اس دن کا واقعہ دوبارہ کسیریکارڈنگ کی طرح سے اس کے دماغ میں چلنے لگا جب میجر کا یہی مظبوط طاقتور جسم صبا کے نازک گورے جسم کے اوپر تھااور وہ اسے بہت ہی بری طرح سے رگڑ رہا تھا۔۔۔ اس دن کے ہوئے اپنےریپ اور بہت ہی وہشیانہ انداز کی چدائی کو یاد کر کےصبا کے دل کی دھڑکن بھی بے ترتیب ہونے لگی۔۔۔اور اسے اپنی ٹانگیں کمزور پڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔۔۔ جیسے اس کی ٹانگوں سے جان نکل رہی ہو۔۔۔ ابھی وہ میجر کے جسم کودیکھتے ہوئے اس دن کی باتوں کو ہی یاد کر رہی تھی کہ میجر کی آواز نے اسے چونکا دیا۔۔۔

میجر ؛ ہاں جلدی بول اب کیا بات کرنی ہے تجھے میرے ساتھ۔۔۔

میجر نے سگرٹ کا دھواں اڑاتے ہوئے کہا۔۔۔

صبا ؛ وہ ۔۔۔ میں اس لیے آئی تھی کے ۔۔۔ آپ۔۔۔ پلیز۔۔۔ میری وہ ویڈیو۔۔۔

میجر ؛ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔ اچھا اچھااپنی ننگی مووی دیکھنے کیلئے آئی ہے تو۔۔۔ لے ابھی دکھا دیتا ہوں۔۔۔

صباجلدی سےبولی؛نہیں نہیں ۔۔۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔ میں یہ کہنا چاہتی تھی۔۔۔

کہ آپ۔۔۔ وہ ویڈیو۔۔۔ ڈلیٹ کر دیں۔۔۔

میجر ؛ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔ ڈلیٹ کر دوں۔۔۔؟؟؟؟؟ کیوں کر دوں بھلا ۔۔۔ارے اس ویڈیو میں تیرے ننگےجسم کو دیکھ دیکھ کے تو میں مٹھ مارتا ہوں ہر روز۔۔۔ اور تو کہتی ہے کہ میں اسے ڈلیٹ کر دوں۔۔۔ پاگل ہو گئی ہے کیا۔۔۔

صبا کا میجر کی بات سن کر چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔۔۔ اسے یہ امید نہیں تھی کہ میجرایسی گری ہوئی بات بھی کر سکتا ہے اس سے۔۔۔ اس نے آج تک ایسی زبان میں کسی سے بات نہیں سنی تھی اور کبھی اشرف نے بھی اس سے کوئی غلط قسم کی گفتگو نہیں کی تھی۔۔۔ جو بھی بات میجر کرتا تھا وہ صبا کیلئے نئی ہی ہوتی تھی۔۔۔ وہ جس ماحول میں بڑی ہوئی تھی۔۔۔جس فیملی بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتی تھی وہاں پر ایسی سب باتوں کو برا سمجھا جاتا تھا۔۔۔اور آگے بھی اب وہ جس فیملی میں بیاہ کر آئی تھی۔۔۔اشرف کے ساتھ وہ فیملی بھی کافی مذہبی اور شریف تھی۔۔۔ وہاں بھی اسے ہمیشہ پردے اور شرم کا ہی ماحول ملا تھا۔۔۔میجر جیسے غلیط ذہن کے شخص سے کچھ بھی امید کی جا سکتی تھی۔۔۔اسے میجر پر غصہ بھی آیا لیکن وہ اپناغصہ اپنے چہرے پر لائے بنا اندر ہی پی گئی۔۔۔ پتہ نہیں کیوں اسےاپنی یہ بے عزتی اور میجر کی گندی باتیں بہت زیادہ عجہب یا بری نہیں لگ رہی تھیں۔۔۔ شاید اس لیے کہ اسے پتا تھا کہ یہ شخص ایسے ہی بولتا ہے۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے