مرتے دم تک۔ چوتھی قسط

 

مرتے دم تک

تحریر: ماہر جی

چوتھی قسط




لیکن تھوڑا عجیب یہ تھا کہ ایسی گندی باتیں پہلی بار سن کر اس کے جسم میں عجیب سی سنسناہٹ ہونے لگی تھی۔۔۔ جیسے کہ وہ ایک کنواری لڑکی ہواور اس کی کسی دوست نے اس سے سیکس کے بارے میں کوئی بات پہلی پہلی بار کی ہو۔۔۔ اس پہلے پہلے موقعے پرہر لڑکی کو اپنی سہیلی کی وہ باتیں گندی اور بری بھی لگ رہی ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی لڑکی کے جسم میں ایک عجیب سا نشہ بھی پیدا کر دیتی ہیں ۔۔۔ اور وہ یہ فیصلہ کرنے کےقابل نہیں رہتی کہ اس کی دوست نے جو بات کی ہے وہ اس کیلئے ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔۔ اس وقت اس کی وہی کیفیت تھی۔۔۔

میجر ؛ اس وقت توتیری گانڈ بہت ہی اچھل رہی تھی کہ تو میری ویڈیو سب کو دکھا کے مجھے ذلیل کرے گی تو اب جاتی کیوں نہیں ہودکھانے کیلئے۔۔۔

صبا ؛ میجر صاحب وہ میری غلطی تھی میں آپ سے معافی مانگتی ہوں، میں آپ کی ویڈیو آپ کو دے دوں گی لیکن۔۔۔ پلیز آپ وہ ویڈیو مجھے دے دیں۔۔۔ اگر وہ کسی نے دیکھ لی تو میری شادی شدہ زندگی تباہ ہو جائے گی۔۔۔ پلیز ز ز ز ز ز ز ز۔۔۔

میجر ؛ اری رنڈی اگر میں نے وہ ویڈیو تجھے دے دی اور پھر وہ تیرے اس ٹھوکو نے دیکھ لی تو پھر تومیری موت پکی۔۔۔ یا پھر وہ تجھے گھر سے نکال دے گا۔۔۔ اور گھر سے نکال دیا تجھے تو کیا کرے گی پھر۔۔۔ سوائے اس کے کہ توایک رنڈی بن جائے۔۔۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ وہ ویڈیو میرے پاس حفاظت سے پڑی رہنے دے۔۔۔ اس میں ہم دونوں کی بھلائی ہے۔۔۔

چل شاباش اب نکل یہاں سے اور اپنے گھر جا۔۔۔ میرا ٹائم کھوٹی نہ کر۔۔۔

صبا نے کچھ دیر اور میجر کی منت سماجت کی لیکن میجر اسی طرح سے اس کا مذاق اڑاتا رہا اسے ذلیل کرتا رہا۔۔۔ صبا پہلے تو برداشت کرتی رہی لیکن آہستہ آہستہ اس کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہونے لگا اس کے اندر غصہ انتہا کو پہنچ رہا تھا۔۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کسی چیز سے اس کمینے پرحملہ کر دے۔۔۔ اس وقت اب اس کے دماغ میں سوائے اپنی ذلت کے کچھ نہیں تھا وہ اپنی آواز کو تھوڑا اونچا کرتی ہوئی غصے سے بولی۔۔۔

صبا ؛ میجر صاحب میرے صبر کا امتحان نہ لیں۔۔۔تم کو تو کوئی تمیز نہیں ہے۔۔۔ کمینے آدمی ہو تم۔۔۔سیدھی طرح سے وہ ویڈیو مجھے دے دو۔۔۔

میجر تکیے کے ساتھ ٹیک لگا کر ہنستے ہوئے۔۔۔

کیا کر لے گی تو میرا۔۔۔ اتنے دن ہو گئے ہیں تجھے چودے ہوئے اگر تیرے میں کوئی غیرت ہوتی تو یاتیرے اس دلے شوہر میں کچھ غیرت اور ہمت ہوتی تو میرا گلا گھونٹ دیتے آکے۔۔ لیکن تو تو ہے ہی رنڈی۔۔۔ اور وہ تیرا شوہر تیرا دلال ہے۔۔۔ اسی لیے اس دن سے دونوں

چپ ہو۔۔۔

صبا سے اب برداشت کرنا مشکل ہو گیا تھا اس نے غصے سے اِدھر اُدھر دیکھا تو اس کی نظرٹیبل پر پڑے ہوئے پانی کے جگ پر پڑی۔۔۔ صبا نے اسے اٹھایا اور زور سے میجر کو دے مارا اور بولی۔ کمینے تو ہے ہی گھٹیا اور ذلیل۔۔۔ اج تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گی۔۔۔

اب جو بھی چیز صبا کے ہاتھ میں آتی وہ اسے اٹھاتی اور میجر پر کھینچ مارتی۔۔۔ ایک طرف سے میجر کی ہی پڑی ہوئی آرمی والی پتلی سٹک پڑی نظر آئی۔۔۔ صبا نے لپک کر اسے اٹھایا اور غصے سےبپھری ہوئی میجر پر ٹوٹ پڑی۔۔۔ وہ بھول چکی تھی کہ وہ ایک عورت ہے اور میجر ایک مظبوط مرد۔۔۔ اس کا نازک جسم اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن غصے سے وہ پاگل ہو رہی تھی۔۔۔ دوسری طرف۔۔۔ ابھی بھی میجر زور زور سے ہنس رہا تھا۔۔۔ اسے صبا کی ان حرکتوں سے جیسے مزہ آرہا ہو۔۔۔ جیسے وہ صبا کی بے بسی پر ہنس رہا ہو۔۔۔ اس کی یہی گھناؤنی ہنسی ہی توصبا کا غصہ اور بڑھا رہی تھی۔۔۔ جیسے ہی صبا سٹِک لے کر میجر کی طرف بڑھی تو میجر بھی کووچ پر سے اٹھ گیا اور خود کوصبا کے زور دار وار سے بچانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔ میجر نے کووچ سےاٹھ کر صبا کودبوچنا چاہا اور اپنی طرف بڑھے ہوئے صبا کےہاتھ کویکدم سے پکڑ لیا اور ہاتھ مروڑنے لگا لیکن یکدم سےہی صبا اس کی اس حرکت کے مطلب کو سمجھ گئی اور اچانک سے اپنا ہاتھ چھڑوایااور دروازے کی طرف بھاگی۔۔۔ ابھی مین گیٹ پر پہنچ کر وہ

دروازے کو کھول بھی نہیں پائی تھی کہ میجر جو اس کےپیچھے ہی لپکا تھا اس نے صبا کی کمر میں ہاتھ ڈال کراسے پیچھے ہی پکڑ لیا اور زور سے پیچھے کی طرف کھینچنے لگا۔۔۔

صبا ؛ نہیں نہیں ۔۔۔ آج پھر سے نہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہونے دونگی میں۔۔۔ نہیں ں ں ں ں ں ں ں ں ں۔۔۔ پلیز نہیں۔۔۔ جانے دو مجھے۔۔۔

بات چیت کرنے تک کی بات تو ٹھیک تھی لیکن میجر پر حملہ کر کے صبا نے بہت بڑی غلطی کر لی تھی۔۔۔ اور میجر کو جیسے غصہ دلا دیا تھا۔۔۔ اور صبا کا اس وہشی کے ہاتھوں بچ پانا آسان نہیں لگ رہا تھا۔۔۔اور صبا کے اندر کا خوف پوری طرح سے سامنے آچکا ہوا تھا اور اسے پتا لگ گیا تھا کہ وہ ایک بار پھر سے میجر کی گرفت میں ہے وہ بری طرح سے تڑپ رہی تھی۔۔۔ ہاتھ پیر مار رہی تھی لیکن میجر کی مظبوط گرفت اسے کہاں نکلنے دینے والی تھی۔۔۔ صبا کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا کہ اس نے اس کے فلیٹ میں آکر غلطی کی ہے۔۔۔ بہت بڑی غلطی۔۔۔ جس کا جرمانہ اسے پتا نہیں کتنابھرنا پڑے گا۔۔۔ کسی گڑیا کی طرح سے میجر نے صبا کے مچلتے اور مزاہمت کرتے ہوئے جسم کو اپنے مظبوط بازووں میں اٹھا لیا اورواپس کووچ کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔ صبا نے اپنے ہاتھوں کےتیز ناخنوں سےمیجر کے جسم کو زخمی کرنا چاہا۔۔۔ لیکن اس کا میجر کےلوہے جیسے جسم پر کیا اثر ہونا تھا۔۔۔ جاتے جاتے صبا نے میجر کے کاندھے پر اپنا منہ رکھا اوراپنے دانت اس کے کاندھے میں گاڑھ دیے۔۔۔ میجر کے جسم سےنکل رہا ہوا اس کا پسینہ صبا

کے منہ میں نمکین سا ذائقہ چھوڑنے لگا۔۔۔ لیکن اس وقت صبا کوکچھ پرواہ نہیں تھی۔۔۔ سوائے اس بات کے۔۔۔ کہ وہ خود کو اور اپنی عزت کواس بارمیجر کے ہاتھوں لٹنے سے بچا لے لیکن۔۔۔ فی الحال تو میجر کا ہی پلا بھاری تھا۔۔۔ اس نے لا کر کووچ پر پٹخ دیا۔۔۔

میجر ؛ پکی رنڈی ہے۔۔۔ اس دن جو سبق تجھے پڑھایا تھا وہ سمجھ نہیں آیا تجھے۔۔۔کہا بھی تھا کہ میرے ساتھ پنگا نہیں لینے کا۔۔۔ لیکن نہیں آئی باز۔۔۔ رانڈ ہے تو پوری کی پوری ۔۔۔ اتنے دن چپ رہا ہوں تیری عزت نہیں کھولی سب کے سامنے تو ،تونے مجھے کمزور ہی سمجھ لیا کیا۔۔۔ آج پھر اپنی چوت چدوانے چلی آئی ہے میرے سے۔۔۔ لے آج پھر تجھے وہ مزہ دیتا ہوں۔۔۔

میجر نے جیسے ہی صبا کو کووچ پر پٹخا تھا توساتھ ہی اس کے اوپر سوار ہو گیا اور اس کے دونوں بازو اوپر کر کے پکڑ لیے۔۔۔ پھر ایک ہاتھ سے اس کے بوبز کو دبانے لگا۔۔۔

صبا ؛ نہیں ں ں ں ں ں ں ں ۔۔۔ پلیز ز ز ز ز ز ز ز۔۔۔ مجھے جانے دوووووووووووو۔۔۔ میری زندگی تباہ نہ کرو۔۔۔ پلیز ز زززززززززز۔۔۔۔

لیکن میجر نے اس کے بوبز کو اس کی شرٹ کے اوپر سے ہی زور زور سے اپنی مٹھی میں لے کر دبانا شروع کر دیا۔۔۔

سسسس سسسس سسسس سسسس سسسس سسس ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہہا صبا کے منہ سے درد کے مارے سسکاریاں نکلنے لگیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگے۔۔۔اتنے زور سے میجر نے صبا کے بوبز کو دبایا کہ صبا کی چیخ ہی نکل گئی۔۔۔ اس کے بوبز دکھنے لگے۔۔۔ اسے یقین ہو گیا کہ اندر اس کے نازک بوبز کی گوری گوری سکن پر ضرور میجر کی انگلیوں کے نشان پڑ گئے ہوں گے۔۔۔ اپنے بوبز میں اٹھنے والی تکلیف کی طرف دیہان لگا تو وہ ٹانگیں مارنا ہی بھول گئی۔۔۔ جیسے ہی صبا کا جسم ڈھیلا پڑا تو میجر نے جلدی سے اس کا پجامہ نیچے کھینچ دیا جس میں الاسٹک تھی۔۔۔ اس کا پجامہ نیچے کھینچ کر اس کے پیروں سے نکال دیا۔۔۔ صبا کی گوری گوری ٹانگیں اور رانیں اور ملائم چوت ایک بار پھر سے میجر کی آنکھوں کے سامنے ننگی تھیں۔۔ میجر کی آنکھیں چمک پڑیں ۔۔۔ جیسے ہی صبا کی شلوار اتری تو صبا کوجیسے ہوش آگیا۔۔۔ وہ پھر چیخی اور میجر کو پیچھے کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔ وہ بیحد پریشان ہو رہی تھی کہ آج پھر سے وہی کچھ ہونے جا رہا تھا۔۔۔ ایک بار پھر سے اس کا جسم میجر نے ننگا کر دیا تھا۔۔۔ اور پھر سے وہی گھناؤنا کھیل کھیلنے جا رہا تھا وہ۔۔۔

صبا ؛ پلیز زززززززز چھوڑ دو مجھے ۔۔۔ ایسا نہیں کرو۔۔۔ جانے دو مجھے۔۔۔ آئیندہ میں کبھی

آپکوکچھ نہیں کہوں گی۔۔۔ پلیززززززز میری عزت تباہ نہ کرو۔۔۔

صبا اس کے سامنے گڑگڑا رہی تھی ۔۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن تب تک میجر کی موٹی انگلی ایک بار پھر سے صبا کی چوت کے اندر داخل ہو چکی ہوئی تھی۔ تھوڑی سی دیر کیلئے مچلتے ہوئے جسم کو قابو کرتےہوئے اس کی چوت کے اندر میجر نے اپنی انگلی اندر باہر کرنا شروع کر دی۔۔۔ صبا کی چوت یکدم سے جیسے مچلنے لگی ۔۔۔ اس کیلئے یہ اچانک کا حملہ بہت زیادہ تھا۔۔۔ برداشت سے باہر تھا۔۔۔ اس نے اپنے نچلے جسم کو اِدھر اُدھر ہلانا شروع کر دیا۔۔۔ لیکن یہ ہلانا اس کیلئے اور بھی کام کو خراب کر رہا تھا۔۔۔ جتنا وہ ہلتی میجر کی انگلی اور بھی اس کی چوت میں مستی پیدا کرتی جاتی۔۔۔ اور پھر اچانک سے ۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ خود کر چھڑانے میں کامیاب ہوتی ۔۔۔ ایک بار پھر سے میجر نے اپنا برمودہ نیچے کیا اور اپنا لن باہر نکال کر یکدم سے صبا کی چوت کے اندر ڈال دیا۔۔۔

صبا ؛ آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ نوووووووووووووووووووو۔۔۔ صبا کے منہ سے تکلیف سے آہ نکل گئی۔۔۔ میجر کا وہی موٹا لن جو پہلے بھی اس کی چوت میں جا چکا تھا۔۔۔ ایک بار پھر سے اس کی چوت کی گہرائیوں میں اتر چکا تھا۔۔۔ اس کی ساری مزاحمت اس کا سارا غصہ ۔۔۔ اس کی ساری ہمت ختم ہو رہی تھی۔۔۔ تھی تو بس اب بے بسی ۔۔۔ اور سرنڈر۔۔۔ یہی تو تھا وہی لن جس کے بارے میں اس کے دل میں خیال آتا تھا۔۔۔ جب وہ

اشرف سےچدوا رہی ہوتی تھی۔۔۔ اس کی تنگ اور ٹائٹ چوت میں پھنسا ہوا لن۔۔۔ اس کی چوت کی دیواروں کوچھیل رہا تھا۔۔۔ صبا کی آنکھیں بند ہو گئی تھیں۔۔۔ جسم ڈھیلا ہو گیا تھا۔ ساری مزاحمت ختم ہو گئی تھی۔۔۔ بس وہ اپنی چوت میں اندر باہر ہوتے ہوئےلن کو محسوس کر رہی تھی۔۔۔ کیا آج پھر وہی ہوگا۔۔۔؟کیا آج بھی میرا جسم میرے اپنے ساتھ ہی بیوفائی کر جائے گا؟اور خود کو آج بھی میجر کے سپرد کر دے گا۔۔۔؟ نہیں ں ں ں ں ں ں ں ں۔۔۔ پتا نہیں ں ں ں ں ں ں ں ں ں ں۔۔۔ لیکن ایک بات ضرور تھی کہ چند ہی لمحوں میں اسے اپنی چوت میں میجر کے لن کے ساتھ ساتھ تھوڑا گیلا پانی بھی محسوس ہونے لگا تھا۔۔۔ کیا میجر فارغ ہو رہا ہے۔۔۔؟ اتنی جلدی۔۔۔؟یا یہ میری اپنی چوت کا پانی ہے۔۔۔ اس خیال نے اس کے دل کو زور سے دھڑکادیا۔۔۔ اس کے جسم کی ۔۔۔ اس کی چوت کی۔۔۔ اس سے بیوفائی شروع ہو چکی تھی۔۔۔

میجر کا موٹا لن اس دن کے بعد آج پھر اس کی چوت میں داخل ہو چکا تھا۔۔۔ اس دن کے اورگزم کو یاد کر کے صباکا جسم ڈھیلا ہونے لگا۔۔۔ اس کی مزاحمت ختم ہونے لگی تھی۔۔۔ لیکن آج اس کی مزاحمت کچھ بھی زیادہ دیرنہیں چلی تھی۔۔۔ میجر کے جسم کی طاقت۔۔۔ یا ۔۔۔ اپنے ہی جسم کی بیوفائی کے ہاتھوں۔۔۔ مجبور ہو کر وہ ہاتھ پیر چھوڑ رہی تھی۔۔۔ اپنی ہی شکست کی وجہ بھی وہ خود ہی اپنے آپ کو دے رہی تھی۔۔۔ خود کو یہ سمجھانے کی کوشش کر

رہی تھی۔۔۔ کہ۔۔۔ میں کیسے اس وحشی جانور کی طاقت کا مقابلہ کر سکتی ہوں۔۔۔ وہ اتنا طاقتور ہے اور میں۔۔۔ ایک نازک سی عورت ہوں۔۔۔ وہ میرا ریپ کر رہا ہے۔۔۔ وہی ناپسندیدہ کام جو پہلے اس نے کیا تھا۔۔۔ یہ سب باتیں وہ اپنے دماغ کی تسلی کیلئے سوچ رہی تھی لیکن اسے یہ نہیں احساس تھاکہ آج تو اس نےاپنی شکست تسلیم کرنے اور خود کومیجر کے آگے سرنڈر کرنے میں کوئی بہت زیادہ دیر بھی نہیں لگائی تھی۔۔۔

جیسے ہی میجر نے اپنا موٹا لن صبا کی چوت میں اندر باہر کرنا شروع کیا تو صبا کی آنکھیں بند ہو گیں۔۔۔ اس کے چہرے پر درد اورتکلیف کا احساس تھا۔۔۔ اسی درد کے تجربے میں ہی کچھ لذت کے نشانات بھی چہرے پر ظاہر ہو رہے تھے۔۔۔ آہستہ آہستہ ۔۔۔ میجر کے لن نے اس کے دماغ کو سلا دیا تھا۔۔۔ بس اب اس کا جسم صرف اور صرف اس کے اپنے دل کے کنٹرول میں تھا۔۔۔

میجر نے صبا کے دونوں بازو اوپر کیے اور اس کے سر کے اوپر لے جا کر جکڑ پکڑ کر خود صبا کے چہرے پر جھک گیا۔۔۔ مجھے مار رہی تھی نہ تو۔۔۔ میری جان لینا چاہتی تھی نہ۔۔۔ دیکھ اب میں کیسے تیری مار رہا ہوں۔۔۔ اور دیکھنا کیسے تجھے چود چود کر تیری چوت کی جان نکالتا ہوں۔۔ صبا نے آنکھیں کھولیں تو میجر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے زور زور سے گھسے مارنے شروع کر دیے۔۔۔ میجر کا لن صبا کی چوت میں اندر باہر ہو رہا تھا۔۔۔ اور۔۔۔ صبا کی چوت

بھی گیلی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ اور۔۔۔ اس بات کا بہت اچھے سے میجر کو پتا چل رہا تھا۔۔۔ صبا اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں نفرت ہی نفرت تھی۔۔۔ لیکن اس کی چوت میجر کے لن سے جیسے لپٹی جا رہی تھی۔۔۔ گیلی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ پانی چھوڑے جا رہی تھی۔۔۔

میجر ؛ پوری کی پوری رنڈی ہے تو ۔۔۔ دیکھ کتنی جلدی سےتیری چوت گیلی ہو گئی ہے۔۔۔ حرامزادی ۔۔۔ تو آئی ہی مجھ سے چدوانے کیلئے تھی۔۔۔ بس ناٹک کر رہی تھی۔۔۔ مجھے غصہ دلانے کا۔۔۔ کہ میں غصے میں آکرآج پھر تیرا ریپ کر دوں۔۔۔

جس ارادے سے وہ آئی تھی اور اس کی ساری کی ساری کوشش کو غلط نام دے کرمیجر نے ایک بار پھر سے اسے ذلیل کر دیا تھا۔۔۔ اسے بہت زیادہ شرم آرہی تھی میجر کی باتیں سن کر۔۔۔ اپنی ذلالت پر ۔۔۔ اب اس کی ان باتوں پر غصہ کرنے کا کیا فائیدہ۔۔۔ اب اس سے زیادہ میری تذلیل کیا ہو سکتی ہےکہ یہ میری چوت چود رہا ہے میری عزت لوٹ رہا ہے۔۔۔ اور۔۔۔ اور سب سے غلط بات یہ ہے کہ میرا جسم اس کا ساتھ دے رہا ہے۔۔۔ صبا نے سوچا۔۔۔

صبا کی چوت میں اپنا لن ڈالے ڈالے ہی میجر نے اس کے ہاتھ چھوڑے اور پھر صبا کی شرٹ کو اوپر کو اٹھانے لگا اور اگلے ہی لمحے صبا کی وائیٹ بریزر میں لپتی ہوئی چھاتیاں میجر کی آنکھوں کے سامنے تھیں۔۔۔ میجر نے اس کی قمیض پھاڑے بنا ہی اس کے گلے سے نکالنا چاہی تو اس بار

صبا نے کوئی بھی مزاحمت نہیں کی۔۔۔ پتا نہیں کیوں۔۔۔ میجر نے اس کی شرٹ اتار دی ۔۔۔ اور اب صبا کے بوبزسفید بریزر میں لپٹے ہوئے ۔۔۔ چھپے ہوئے۔۔۔ درمیان میں سے جھانکتے ہوئے ۔۔۔ اورخوبصورت سا کلیوج بناتے ہوئے بوبز ۔۔۔ میجر کی نظروں کے سامنے تھے۔۔۔ صبا اب بلکل مزاحمت نہیں کر رہی تھی۔۔۔ اس کی آنکھیں بند تھیں ۔۔۔ اور اس کے چہرے پر کسی بھی پریشانی کی بجائے لذت آمیز سکون تھا۔۔۔ عجیب بات تھی یہ۔۔۔ صبا کیلئے ہی نہیں ۔۔۔ بلکہ میجر کیلئے بھی۔۔۔ میجر نے اب صبا کی براکی سٹرپس کو اس کے کندھوں سے نیچے کھینچا اور صبا کے بوبز کو ننگا کر لیا۔۔۔ صبا کے گورے گورے ۔۔۔خوب ابھرے ہوئے ۔۔ سخت۔۔۔ گلابی نپلز ۔۔۔ اور بلکل ہی چھوٹے سے دائرے کے ساتھ۔۔۔ خوبصورت بوبز ۔۔ میجر کی آنکھوں کے سامنے تھے۔۔۔

میجر نے جھک کر صبا کے بوبز کے درمیان میں کِس کیا اور پھر ہاتھ نیچے اس کی کمر کے پیچھے ڈال کر اس کی برا کا ہک کھول کر اس کی برا بھی اتار کر نیچے پھینک دی ۔۔۔ اب صبا کا جسم بلکل ننگا تھا گورا گورا ۔۔۔ دودھ کی طرح سفید۔۔۔ مکھن کی طرح نرم۔۔۔ریشم کی طرح ملائم۔۔۔ ہیرے کی طرح چمکتا ہوا جسم۔۔۔ صبا کا جسم۔۔۔ میجر کی آنکھوں کے سامنےننگا تھا۔۔۔ کپڑے کے ایک بھی ٹکڑے کے بغیر ۔۔۔ جیسے اس دن وہ ننگی کر دی گئی تھی جس دن پہلی بار اس کا ریپ ہوا تھا۔۔۔ اور آج بھی اسے ننگا کر دیا تھا میجر نے۔۔۔ اس کا جسم۔۔۔ میجر کے

کھردرے موٹے۔۔۔ سخت ہاتھوں کی گرفت میں تھا۔۔۔ بلکل نڈھال پڑا تھا۔۔۔ کسی بھی مزاحمت کے بغیر۔۔۔ جیسے پورے پورے تاوؤن اور رضامندی پر امادہ ۔۔۔ جیسے ہی میجر نے صبا کے جسم سے پورے کپڑے اتارپھینکے اور اسے بلکل ننگی کر دیا تو پھر اپنا لن اس کی چوت سےنکالا اور اس کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں اس کی چوت پر جھک گیا۔۔۔

میجر ؛ ااااااااف ف ف ف ف ف ف کیا غضب کی چوت ہے تیری۔۔۔ کیا ظالم جسم ہے تیرا اس رنڈی۔۔۔ پینو کا جسم تو تیرے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ قیامت ہے تو ،تو قیامت۔۔۔

میجر صبا کے خوبصورت جسم کو اس گٹیا اور نیچ کام کرنے والی لڑکی کے جام سے مقابلہ کروا رہا تھا صبا کو بہت برا لگا۔۔۔ لیکن اندر ہی اندر اسے خوشی بھی ہوئی۔۔۔ وہی عورت کی پرانی اور ہر عورت کی خاص کمزوری۔۔۔ کہ اپنے حسن اور اپنے جسم کی تعریف اسے اچھی لگتی ہے۔۔۔ اسے خوشی ہوئی کہ میجر کو اس کا جسم اس پینو کے جسم سے زیادہ پسند آیا ہے۔۔۔ یہ میں کیا سوچ رہی ہوں۔۔۔ یہ میرا ریپ کر رہا ہے اور میں اس کی بات سن کر خوش ہو رہی ہوں۔۔ اس کمینی کی حیثیت ہی کیا ہے میرے مقابلے میں جس سے یہ مجھے کمپیر کر رہا ہے۔۔۔ صبا کے دماغ نے اس کو تھوڑا ملامت کیالیکن اس کا دل اور جسم اس کے دماغ کا ساتھ دینے کوبلکل بھی تیار نہیں تھے۔۔۔ اچانک سے اپنے ہی منہ سے نکلنے والی ایک تیز سسس سسسس سسسس سس

آآآآآآآآآآ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا کے ساتھ صبا اپنے خیالوں سے باہر آئی کیوں کہ نیچے میجر نے اپنے ہونٹ صبا کی چوت پر رکھ دیے تھے۔۔۔ اور میجر کی اس حرکت سے ۔۔۔ صبا کا پورا جسم لرزاٹھا۔۔۔ نفرت اور حقارت یا غصے سے نہیں۔۔۔ لذت اور مزے کے مارے۔۔۔ کیونکہ آج تک کسی نے بھی۔۔۔ اس کی چوت پر اپنا منہ نہیں رکھا تھا۔۔۔ اس کی چوت کو کسی نے نہیں چوما تھا۔۔۔ اشرف نے بھی نہیں۔۔۔ اور وہ اس لذت اور مزے سے نا آشنا تھی۔۔۔ لیکن اس مزے اور لذت کی طرف اسے یہ۔۔۔ میجر ۔۔۔ اس کا دشمن اور ریپسٹ میجر لے جا رہاتھا۔۔۔ کیا سچ میں میرا ریپ ہو رہا ہے۔۔۔ ایک لمحے کیلئے صبا نے پھر سوچا۔۔۔ یا۔۔۔ سب کچھ میری مرضی سے ہو رہا ہے۔۔۔ پتا نہیں۔۔۔ صبا نے یہ کہہ کر اپنے دماغ کو جھٹکا دیا۔۔۔ پھر میجر نے اس کی گانڈ کے دونوں حصوں پر اپنے ہاتھ رکھے اور دونوں ہپس کو کھول دیا۔۔۔ بلکل گلابی ۔۔۔ بلکل تنگ ۔۔۔ بالوں سے بلکل پاک۔۔۔ صبا کی گانڈ کا سوراخ میجر کی آنکھوں کے سامنے تھا۔۔۔ میجر سے رہا نہیں گیاتو وہ جھکا اورجھک کر اپنے ہونٹ صبا کی گانڈ کے اس کنوارے گلابی سوراخ پر رکھے اور ایک زوردار کِس کر لیا۔۔۔

جیسے ہی میجر کے ہونٹ صبا کی اس نازک سی جگہ پر ٹچ ہوئے تو صبا تو جیسے تڑپ ہی اٹھی۔۔۔ اس کے جسم اور گانڈ نے ایک زور کی جھر جھری لی ۔۔۔ لیکن میجر کے ہاتھوں کی گرفت سے نہ نکل سکی۔۔۔

میجر ؛ کتنا ٹائٹ ہے تیری گانڈ کا سوراخ۔۔۔ لگتا ہے اس گانڈو نے ایک بار بھی تیری گانڈ نہیں ماری۔۔۔ وہ سالہ کیا مارے گاتیری گانڈوہ تو خود پتا نہیں کِس کِس سے اپنی گانڈ مرواتا ہو گا۔۔۔ میجر بار بار اس کے شوہر کی تذلیل کرتا تھااسے گالیاں دیتا تھا اور صبا کو اس کی یہ بات بھی بہت بری لگتی تھی۔۔۔ لیکن پتا نہیں کیوں آہستہ آہستہ اب وہ اس بات کی عادی ہوتی جا رہی تھی کہ اسے میجر کا اس کے شوہر کو گالیاں دینا اب پہلے جتنا برا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔

میجر جھکا اوراب اپنی زبان کی نوک کو اس کی گانڈ کے سوراخ پر پھیرنے لگا۔۔۔ جیسے ہی میجر کی زبان اس کی گانڈ کے سوراخ سے ٹچ ہوئی تو۔۔۔ اسے اس کی گانڈ کا سوراخ سکڑتا ہوا محسوس ہوا تھوڑا کھلتا اور تھوڑا بند ہوتا ہوا۔۔۔ میجر کے ہونٹوں پرگھناؤنی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔ میجر نے اپنی زبان کی نوک کو صبا کےسکڑتے ہوئے گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور تھوڑا سا اندر کو پش کیا تو اسے ایسا لگاکہ جیسے اس کی گانڈ کے سوراخ نے اس کی زبان کی نوک کوجکڑ لیا ہو۔۔۔ اور آہستہ آہستہ اسے چوس رہا ہو۔۔۔ میجر کو عجیب سا مزہ آیا اس میں۔۔۔ اب اس نے آہستہ آہستہ صبا کی گانڈ کے سوراخ کو اپنی زبان سے چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔ اپنے ہاتھوں سے اس نے صبا کی گانڈ کے سوراخ پر اپنا تھوک گرا دیا۔۔۔ سفید اور گاڑھا تھوک۔۔۔ اور پھر اپنی زبان سے اسے اس کے سوراخ پر پھیلاتے ہوئے چاٹ لیا۔۔۔ صبا کو اس کی ایسی گندی حرکتوں پر بہت ہی حیرانی ہو رہی تھی کہ کیا کوئی ایسا بھی کر سکتا ہے۔۔۔ لیکن اسی حیرت کے ساتھ ساتھ اسے

مزہ بھی آرہا تھا۔۔۔ پھر میجر نے اپنے ہاتھ کی موٹی انگلی صبا کی کنواری گانڈ کے سوراخ کے اندر داخل کرنے کی کوشش کی۔۔۔ لیکن بہت مشکل سے صرف اگلا حصہ انگلی کا ہی اندر گیا تھا کہ صبا چیخ اٹھی۔۔۔ اور آگے کو گرتے ہوئے اس کی انگلی کو اپنی گانڈ سے نکلوا لیا۔۔۔

میجر ہنسا اور پھر دھیرے دھیرے وہ نیچے کو آنے لگا اور صبا کی چوت کے دونوں لبوں کو کھول کر نیچے سے اوپر تک ایک بار چاٹا تو صبا اچھل ہی تو پڑی ۔۔۔ میجر نے اب اپنی زبان صبا کی چوت کے اندر ڈال دی اوراس کی اندر کی دیواروں کو اپنی زبان سے چاٹنے لگا ۔۔۔ صبا کا مزے سے برا حال ہو رہا تھا۔۔۔ میجر کی زبان صبا کی چوت میں اندر باہر ہو رہی تھی اورصبا اپنی منزل کو پہنچنے کے قریب ہی تھی۔۔۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور سانسیں تیز ہو رہی تھیں۔۔۔ اس کی چوت کے مسلز سکڑنا اور پھیلنا شروع ہو چکے تھے۔۔۔ اور پھر ایک تیز سسکاری کے ساتھ صبا کی چوت نے پانی چھوڑنے کی تیاری شروع کر دی۔۔۔ میجر کو بھی احساس ہو چکا ہوا تھااس لیے۔ پتا نہیں کیا سوچ کر ۔۔۔ فوراً ہی میجر نے اس کی چوت سے اپنا منہ ہٹا لیااور پیچھے ہو کر صبا کی چوت کو دیکھنے لگا۔۔۔

صبا کی چوت کا منہ کھل اور بندہو رہا تھا۔۔۔ اور صبا کا پورا جسم جھٹکے کھا رہا تھا۔۔۔ تڑپ رہا تھا۔۔ دوبارہ سے میجر کے ہونٹوں اور اس کی انگلی کو اپنی چوت میں لینا چاہ رہا تھا۔۔۔ تاکہ ۔۔۔ وہ اپنی منزل کو پہنچ سکے۔۔۔ لیکن۔۔۔ میجر۔۔۔ میجر تو ہنس رہا تھا۔۔۔

میجر ؛ دیکھو رنڈی کی چوت کتنی بے شرمی سے مزے لے رہی ہے۔۔۔ یہ ہے ہماری بلڈنگ کی ایک شریف زادی۔۔۔ کتیا برقے اور نقاب کے اندر ایک پوری رنڈی چھپی ہے۔۔۔ تیرے لیے تو پوری بلڈنگ کے لن بھی کافی نہیں ہیں۔۔۔ کمینی۔۔۔ حرامزادی۔۔۔ جتنی تو گرم کتیا ہے تجھے تو۔۔۔ کتوں سے چدوانا چاہیے۔۔۔ پھر شاید تیری پیاس ۔۔۔ تیری چوت کی پیاس ختم ہو۔۔۔

صبا کیلئے یہ تذلیل اور بے عزتی انتہائی شرمندگی کی بات تھی لیکن۔۔۔ اس پر یہ کہ وہ پھر بھی اپنی چوت میں ہو رہے آرگزم کو کنٹرول نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔ روک نہیں سکی تھی۔۔۔ اور سچ میں کسی رنڈی کی طرح سے میجر کے آگے ننگی جھکی ہوئی۔۔۔ کتیا بنی ہوئی۔۔۔ کسی گرم کتیا کی طرح سے ہی۔۔۔ اپنی چوت کا گرم گرم پانی نکالنے کیلئے بے چین ہو رہی تھی۔۔۔ اس کا دماغ بلکل سن ہو رہا تھا۔۔۔ اسے میجر کی کسی بات کی فکر نہیں تھی۔۔۔ وہ کہاں ہے۔۔۔ اس کی بھی فکر نہیں تھی۔۔۔ کس کے ساتھ ہے۔۔۔ اس کی بھی فکر نہیں تھی۔۔۔ کس حالت میں ہے۔۔۔ اس کی بھی فکر نہیں تھی۔۔۔ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اس کی بھی فکر نہیں تھی۔۔۔ فکر تھی تو بس اس بات کی کہ کسی بھی طرح سے ۔۔۔ اس کا آرگزم پورا ہو جائے۔ اس کی چوت کا پانی نکل آئے۔۔۔ اسی مقصد کیلئے اس نے فوراً سے ہاتھ پیچھے لے جا کر ۔۔۔ بڑی بے شرمی کے ساتھ۔۔۔ اپنی ہی انگلی اپنی ہی چوت میں ڈال لی۔۔۔ اور کسی رنڈی کی

طرح تیزی سے آگے پیچھے کرنے لگی۔۔۔ اندر باہر کرنے لگی۔۔۔

صبا کی حالت دیکھ کر میجر ہنسنے لگا۔۔۔ کتنی تڑپ رہی ہے تیری چوت سالی۔۔۔ لیکن صبا اس کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی انگلی سے اپنی چوت کی پیاس بجھانے میں لگی ہوئی تھی۔۔۔ لیکن میجر۔۔۔ میجر بھی تو میجر تھا نہ۔۔۔ ایک نمبر کا کمینہ اور ذلیل شخص۔۔۔ اتنی آسانی کیسے پیدا کر سکتا تھا اس کیلئے۔۔۔ اس نے ہاتھ بڑھایا اور صبا کے اس ہاتھ کو پکڑ لیا جو کہ اپنی چوت میں انگلی کر رہا تھا۔۔۔ اورایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ اس کی چوت سے ہٹا لیا۔۔۔صبا تڑپ اٹھی نہیں ں ں ں ں ں ں ںں ں۔۔۔پلیززززززززززززز۔۔۔ نہیں ں ں ں ں ں ںں ں ں

آآآآآآآآآآآآآآآآہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔ آآآآگہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔ چھوڑ دو وووووووو میرا ہاتھ ھ ھ ھ ھ ھ ھ ھ ززززززز سسس سسس سسس سسس ۔۔۔

لیکن میجر ہنسے جا رہا تھا۔۔۔ اس کے ہاتھوں میں صبا کے دونوں بازو تھے جن کو اس نے پیچھے کو کھینچ لیا ہوا تھا۔۔۔ اور کسی گھوڑے کی لگام کی طرح۔۔۔ بلکہ کسی گھوڑی کی لگام کی طرح ۔۔۔ پیچھے کو پکڑا ہوا تھا۔۔۔ صبا اس کے سامنےتڑپ رہی تھی۔۔۔ اس کی چوت مچل رہی تھی۔۔۔ اس کی گانڈ ہوا میں ادھر ادھر ۔۔۔ آگے پیچھے کو لہرا رہی تھی۔۔۔ اور میجر یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔ اور ہنس رہا تھا۔۔۔ آخر اسے ترس آگیا۔۔۔ صبا کی حالت پر۔۔۔ صبا کی پیاس پر۔۔۔ صبا کی چوت پر۔۔۔ اس نے تھوڑا سا آگے ہو کر اپنا اکڑا ہوا۔۔۔ موٹا ۔۔۔ کالا۔۔۔ مضبوط لن صبا کی چوت

کے سوراخ پر ٹکایا اور ایک ہی جھٹکے میں اندر کر دیا۔۔۔ آآآآآآآآآآآآآآآہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا اسسس سسس سسس سسس صبا کے منہ سے جیسے سکون کی سسکاری نکلی۔۔۔ اور پورے جسم میں سکون کی لہر پھیل گئی۔۔۔ اس کی چوت سےشروع ہو کر دماغ تک۔۔۔

میجر گھوڑی کی طرح اسے چود رہا تھاپیچھے سے۔۔۔ پھر اس نے اپنی سٹک اٹھا لی جو کہ پاس ہی پڑی تھی۔۔۔ وہی سٹک جس سے صبا نے میجر کو مارنا چاہا تھا۔۔۔ یہ میجر کی آرمی والی سٹک تھی۔۔۔ جسے آج بھی وہ اپنے ہاتھ میں رکھتا تھا۔۔۔ دوفٹ کی چھڑی۔۔۔ کالے رنگ کی۔۔ پتلی سی۔۔۔ لیکن مضبوط۔۔۔ اس کے ایک سرے پر ایک چھے انچ کالیدر کا ٹکڑا لگا ہوا تھا جو کہ دو انچ چوڑا اور چھے انچ لمبا تھا۔۔۔ کسی چھوٹے سے فلیپر کی طرح کا۔۔۔ بلکل چمکتا ہوا لیدر۔۔ بلکل کالا۔۔۔ شاید اس سٹک کو پکڑنے کیلئے تھا۔۔۔ اور یا پھر کسی اور کام کیلئے۔۔۔

میجر وہ سٹک صبا کی کمر پر پھیرتے ہوئے بولا۔۔۔ اسی سے مارناچاہتی تھی نہ مجھے۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے صبا کے ہپس پر اس دو انچ چوڑے فلیپ کے ساتھ زور سے مارا۔۔۔ آآآآآآآآؤؤؤؤؤؤؤؤچ چ چ چ چ چ چ چ چ صبا کی چیخ نکل گئی۔۔۔ اس کی نازک سی گوری گوری گانڈ پر اتنے زور سے کسی نے کچھ نہیں مارا تھا کبھی بھی۔۔۔ اور اب یہ میجر نے ۔۔۔ لیکن اتنی دیر میں ایک اور لگا ۔۔۔پھر اور۔۔۔ پھر اور۔۔۔ جیسے ہی وہ لیدر فلیپر صبا کی گانڈ پر لگا تو صبا تڑپ اٹھی تھی اس کی گانڈ اچھل پڑی تھی۔۔۔ اس کی گانڈ جلنے لگی تھی جیسے۔۔۔ جیسے اس

میں سے گرمی کی لہریں اٹھ رہی ہوں۔۔۔ لیکن جیسے ہی تھوڑا سا وقت گزر رہا تھاتو اسے اپنی گانڈ پر تکلیف کی بجائے کچھ عجیب سا مزہ محسوس ہونے لگا۔۔۔ اسی میٹھےمیٹھے سے درد کے مارے صبا کی چوت اور بھی گیلی ہونے لگی۔۔۔ اسے اپنی چوت میجر کے لن کے گرد اور بھی ٹائٹ ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔۔۔ اسکی چوت اپنے ریپسٹ کے لن کو چوسنے لگی۔۔۔ دبانے لگی کہ کہیں اس کا لن اس کی چوت سے نکل ہی نہ جائے۔۔۔ اسکی گانڈ اور پورے جسم میں لذت کی لہریں پھیل رہی تھیں۔۔۔ اور اسے میجر کی چھڑی کی مار اچھی لگنے لگی۔۔۔ دل چاہنے لگا کہ وہ اسے اور مارے ۔۔۔ سرخ کر دے اسکی گانڈ کو۔۔۔

میجر ؛ سالی تیری تو گانڈ ہی لال کر دونگا میں مار مار کے۔۔۔ آئندہ تونے کبھی میرے پر ہاتھ اٹھایا نا تو تیرے ہاتھ ہی توڑ دونگا۔۔۔ صبا کو اپنی گانڈ جلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ اسکی گانڈ سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔۔۔ میجر کا ہاتھ رک چکا تھا لیکن اسکے لیدر فلیپر کی تکلیف ابھی بھی موجود تھی۔۔۔

جیسے ہی میجر کا ہاتھ رکا تو صبا نے چونک کر پیچھے دیکھا جیسے پتا نہیں کونسی لذت سے اسے محروم کر دیا ہو میجر نے اس نے اپنی سرخ ہوتی ہوئی گانڈ کو دیکھا اور پھر نفرت اور غصے سے میجر کی طرف دیکھ کر پھنکاری۔۔۔

صبا ؛ رک کیوں گیا ہے کمینے۔۔۔ مار اور مار۔۔۔ جتنا دل کرتا ہے مار مجھے ۔۔۔ لیکن میں تجھ

asسے مدلہ ضرور لونگی۔۔۔ کتے۔۔۔ مارمجھے ۔۔۔ مار اپنی اس چھڑی سے۔۔۔

میجر نے صبا کی بیقراری اور تڑپ دیکھی تو سمجھ گیا کہ اس رنڈی کو تو اس چھڑی کی مار میں بھی لذت مل رہی ہے۔۔۔میجر نے اسی حالت میں صبا کو چودنا شروع کر دیا ۔۔۔ اسکی چوت میں اپنا لن اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔۔۔ لیکن صبا کو تو وہ لن صرف ایک لمحے کیلئےہی چاہیے تھا نا۔ جیسے ہی وہ گرم گرم لن کچھ دیر کیلئے صبا کی چوت میں گیا تو اسکی چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا۔۔۔ اسکی خواہش پوری ہو گئی۔۔۔ اسکی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔۔۔ جب سے وہ آئی تھی ۔ اس فلیٹ میں۔۔۔ میجر کے فلیٹ میں۔۔۔ تب سے شاید تیسری بار۔۔۔ دماغ بند تھا لیکن صرف جسم جاگ رہا تھا۔۔۔ جسے میجراپنے لن سے شانت کر رہا تھا۔۔۔ صبا کی چوت میجر کےموٹے لن کو بھینچ رہی تھی۔۔۔ دبا رہی تھی۔۔۔ اور میجرکو اسکی ٹائٹ چوت اور بھی ٹائٹ لگ رہی تھی۔۔۔ اور بھی مزہ دے رہی تھی۔۔۔ صبا اب شانت ہو چکی تھی۔۔۔ اسکی چوت بھی شانت ہو چکی تھی۔۔۔ دماغ بھی جاگنے لگا تھا۔۔۔

میجر ؛ سالی کیا چوت ہے تیری۔۔۔ اس کمینی پینو سے بھی ٹائٹ ہے۔۔۔ اسکی چوت تو اس کے کھسم نے چود چود کر ڈھیلی کر دی ہوئی ہے۔۔۔ لیکن بہن چود تیرا شوہر تو جیسے صرف دیکھتا ہی ہے تیری چوت کو چودتا نہیں ہے کیا۔۔۔؟ لگتا ہے اس ہیجڑے کا لن پینو کے کھسم سے بھی چھوٹا ہے۔۔۔ دھت۔۔۔ سالا ۔۔۔ ہیجڑا۔۔۔ عورت لے آیا ہے اور چودنے کا پتا نہیں ہے۔

کمینہ ۔۔۔ بار بار کی اپنے سوہر کی تذلیل صبا کو تھوڑی بری بھی لگ رہی تھی۔۔۔ کیونکہ وہ ہر لحاظ سے خوش تھی اپنے اشرف سے۔۔۔ میجر کے ریپ کرنے سے پہلے۔۔۔ وہ اشرف سے بلکل مطمعین تھی۔۔۔ لیکن پھر بھی میجر ہر وقت اسکی مردانگی پر تیر چلاتا رہتا تھا۔۔۔ اور ذلیل صبا کو کرتا رہتا تھا۔۔۔ صبا نے سوچا ۔۔۔ ٹھیک ہے کہ میجر کا ۔۔۔ وہ۔۔۔ زیادہ موٹا۔۔۔ زیادہ لمبا۔۔۔ زیادہ سٹیمنا ہے اسکا۔۔۔ زیادہ طاقت کے ساتھ چودتا ہے۔۔۔ لیکن اشرف بھی تو ٹھیک ہی ہے نا۔۔۔ اور یہ کیا اب۔۔۔ اب اس کمینے میجر نے اشرف کر اس دینوں سے بھی کمپیر کرنا شروع کر دیا ہے۔۔۔ جیسے مجھے پینو سے کرتا ہے۔۔۔ کیا سچ میں میری چوت ابھی بھی بہت ٹائٹ ہے۔۔۔؟ کیا پینو کی چوت سچ میں مجھ سے زیادہ کھلی ہو چکی ہوئی ہے۔۔۔؟ کیا سچ میں پینو کے شوہر کالن بہت موٹا ہے۔۔۔؟ کیا سچ میں دینوں کا لن اشرف کے لن سے موٹا اور لمبا ہے۔۔۔؟ کیا میجر ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔؟ خود با خود ہی صبا کا ذہن اب دینوں کے لن کی طرف جا رہا تھا۔۔۔ اسکی آنکھوں کے سامنے بلڈنگ کے گیٹ پر کھڑا ہٹا کٹا دینوں آگیا تھا اسکی نظریں خیالوں ہی خیالوں میں اسکی پینٹ کے ابھار پر چلی گئی تھیں۔۔۔ اسکا ذہن اسکے لن کی طرف جا رہا تھا۔۔۔ ایک نیچ سے لوور کلاس کے گارڈ کے لن کی طرف۔۔۔ نہیں جانا چاہیے تھا۔۔۔ غلط بات تھی۔۔۔ عجیب بات تھی۔۔۔ لیکن۔۔۔ ہو رہی تھی۔۔۔ اور شاید صرف اور صرف میجر کی وجہ سے۔۔۔ اسنے خود کو تسلی دینے کیلئے اس بات کا الزام بھی میجر پر تھوپ دیا تھا۔۔۔

میجر نے پیچھے سے ایک زوردار دھکا لگاکر اپنے لن کو صبا کی چوت کے اندر ڈالا تو ایک بار پھر سے صبا کو خیال آگیا کہ وہ میجر سے چد رہی ہے۔۔۔ میرا ریپ ہو رہا ہے۔۔۔ ایسا ریپ جس میں میری اپنی چوت کئی بار پانی چھوڑ چکی ہوئی ہے۔۔۔ لیکن پھر بھی اس بات کو نا مانتے ہوئے صبا رونے لگی۔۔۔ اسکی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔۔۔ پانی کے موتی ۔۔۔ پانی کے قطرے۔۔ اور دوسری طرف اسکی چوت میں بھی پانی کے قطرے نکلنے لگے تھے ۔۔۔ سفید سفید موتیوں کی طرح کے ۔۔۔ جو کہ میجر کے لن سے نکل رہے تھے۔۔۔ ہاں۔۔۔ ایک بار پھر سے میجر نے اپنے لن کی منی صبا کی چوت میں ڈال دی تھی۔۔۔ اپنا پورا لن اندر گساتے ہوئے۔۔۔ جڑ تک۔ اس کی بچہ دانی کے منہ تک لے جاتے ہوئے۔۔۔ اپنی پوری منی اسکی چوت میں چھوڑ دی تھی اور پھر نڈھال ہو کر پیچھے کو ہٹ کے گر پڑا۔۔۔ صبا بھی وہیں ڈھیر ہو گئی۔۔۔

وہیں کووچ پر دونوں کے ننگے جسم ایک دوسرے سے تھوڑے فاصلے پر پڑے ہوئے تھے۔۔۔ صبا آنکھیں بند کیے ہوئے لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔۔۔ اسکے پورے جسم میں سکون ہی سکون تھا۔۔۔ چوت میں شانتی ہی شانتی تھی۔۔۔ چہرے پر اطمینان ہی اطمینان تھا۔۔۔ اسکے جسم کی۔۔۔ اسکی چوت کی پیاس بجھ چکی تھی۔۔۔ لیکن اسکے دماغ میں پھر سے ایک طوفان اٹھا ہوا تھا۔۔۔تذلیل اور پچھتاوے کا طوفان۔۔۔ کچھ دیر کے بعد میجر اٹھا اورنیچے گرے ہوئےصبا کے کپڑے اٹھا کراسکے ننگے جسم پر پھینکے اور بولا۔۔۔ چل اٹھ کے پہن اپنے کپڑے اور دفعہ ہو

اپنے فلیٹ میں۔۔۔ یا پھر سے چوت مروانے کا ارادہ ہے۔۔۔ پھر اپنا برمودا پہن کر صوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔۔۔ اور ایک سگرٹ نکال کر سلگا لیا۔۔۔

اسکی حقارت آمیز باتیں سن کرصبا۔۔۔ لڑکھڑاتی ہوئی ۔۔۔ آنسو بہاتی ہوئی۔۔۔ اٹھی اور اپنا برا اٹھا کر پہن لیا اور پیچھے ہاتھ لے جا کے ہک بندکرنے لگی۔۔۔ لیکن اسکے ہات کانپ رہے تھے نہ بند کر سکی اپنی برا کا ہک تو اسے ایسے ہی چھوڑ کر اپنی شرٹ اٹھائی اور اسے پہننے لگی۔۔۔ پھر اپنا پجامہ بھی اٹھا کر پہن لیا۔۔۔ پجامہ پہنتے ہوئے اسکا ہاتھ اپنی گانڈ کو چھووا تو ایک بار پھر درد کا احساس ہوا اور جلن دوبارہ سے شروع ہو گئی۔۔۔

ابھی اسنے باہر کے دروازے کی طرف قدم بڑھایا ہی تھا کہ میجر بولا۔۔۔ ’’رک زرا ایک چیز تو دیکھتی جا ۔۔۔ صبا نے روتی ہوئی آنکھوں سے ۔۔۔ مڑ کر میجر کی طرف دیکھا تو اس نے ٹی وی کے ریمونٹ سے ٹی وی آن کر دیا۔۔۔ اور جو منظر ٹی وی پر صبا کو نظر آیا تو۔۔۔ اسکے تو جیسے پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی۔۔۔ اسکا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔۔۔ جس سے اسکی سانسیں اٹکنے لگیں۔۔۔ ابھی ابھی اسے میجر نے جو چودا تھا۔۔۔ اسی چدائی کی ویڈیو ٹی وی پر چل رہی تھی۔۔۔ اس کمینے نے آج پھر ریکارڈنگ کر لی تھی۔۔۔ اور آج تو مکمل سین کی ریکارڈنگ تھی۔۔۔ صبا نے اپنی آنکھیں جھکا لیں اور آگے بڑھنے لگی ۔۔۔ باہر کی طرف۔۔۔

وہ اسوقت میجر کو کچھ بھی کہنے کے یا اس سے جھگڑا کرنے کے قابل نہیں تھی۔۔۔

میجر ؛ وہ ٹیبل پر میرا موبائل پڑا ہے اس میں اپنا سیل نمبر اور نام فیڈ کر کے جا۔۔۔

صبا سمجھ چکی تھی کہ اسکے فلیٹ میں آکرتو پہلے سے بھی بری طرح سے پھنس چکی ہے اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کے اس کمینے کی تمام باتیں مانی جائیں یہی سوچتے ہوئے۔۔۔ اس نے ٹیبل پر پڑے ہوئے موبائل کی طرف دیکھا اور اسے اٹھا لیا کیونکہ اور کوئی اوپشن بھی تو نہیں تھا نا۔۔۔ موبائل اٹھا کر اس میں اپنا نمبر لکھنے لگی۔۔۔

میجر ؛ اور ہاں اسی موبائل میں تیری وہ پہلے والی کلپ اور فوٹو بھی ہیں ۔۔۔ ڈلیٹ کرنے ہیں تو کر لے۔۔۔

یہ خیال صبا نے دماغ میں پہلے بھی آیا تھا موبائل اٹھاتے ہی۔۔۔ لیکن اس نے اس خیال کو جھٹک دیا تھا۔۔۔ کیونکہ اب تو اس ایک کلپ اور فوٹوز سے بات بہت آگے بڑھ چکی تھی۔۔۔ اور صرف ان فوٹوز کو ختم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔۔۔ صبا نے خاموشی سے موبائل ر کھ دیا میجر ؛ میرے موبائل سے اپنے سیل پر بیل دے اور میرا نمبر بھی فیڈ کر لینا ۔۔۔ جس مرضی نام سے۔۔۔ دل کرے تو کتالکھ دینا۔۔۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ لیکن جب بھی فون کروں جواب ضرور دیناورنہ بہت بری طرح سے پیش آؤنگا میں تیرے ساتھ۔۔۔ اگر کبھی جواب نہ دیا نہ تو اسی وقت تیرے گھر میں آجاؤنگا اور تیرے اس بہن چود کے سامنے ہی چود دونگا تجھے۔۔۔ سمجھی۔۔۔؟

صبا نے میجر کے موبائل سے اپنا نمبر ڈائل کیا تو موبائل کی سکرین پر نام آنے لگا۔۔۔ صبا کے سیل پر بیل جا رہی تھی جو کہ اسکے اپنے بیڈروم میں پڑا ہوا تھا۔۔۔ آخر سیل رکھ کر باہر دروازے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔

مین ڈور کے قریب ہی اسے اپنے فلیٹ کی چابی کا گچھا مل گیا اسے اٹھایا اور اسکی نظر پاس ہی لگے ہوئے آئینے پرپڑی۔۔۔ اسکے بال بکھرے ہوئے تھے۔۔۔ چہرے کا رنگ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔ کپڑے بے ترتیب ہو رہے تھے۔۔۔ مسلے ہوئے۔۔۔ صاف لگ رہا تھا کہ کسی نے اسے بری طرح سے مسل کر چودا ہے۔۔۔ اپنی یہ حالت دیکھ کر صبا کے چہرے پر شرمندگی پھیل گئی۔۔۔ پیچھے مڑ کر اس نے میجر کی طرف دیکھااور خود با خود ہی الفاظ اسکے ہونٹوں سے پھسل گئے۔۔۔ کتا۔۔۔

کمینہ۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

THANKS DEAR