سررر سررر
تیزھوائیں ۔۔۔۔ ھر طرف گھومتی کچی جھگیوں کے چھتی اڑاتی ۔۔۔ سرررررر۔۔۔
طوفانی ھواوں سے ھم لڑکیاں اتنا نہی گھبراتیں تھیں ۔۔۔ جتنا ھم سرکاری گاڑیوں میں
آنے والے پولیس یا رینجرز اہلکاروں سے۔۔۔۔۔۔
کیوں کہ وہ ھمارے
ملاح خاندانوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے کا کھتے محفوظ مقامات پر لیجانے کے وعدے
کرتے تھے مگر کچھ لوگوں کو ایک گاڑی میں اور کچھ کو دوسری سرکاری گاڑیوں میں
ٹھونستے تھے۔۔۔۔
کچھ کو ایک شھر کے
مقام پر کیمپ میں بھیجتے اور کچھ کو دوسرے شھر۔۔۔۔ اسطرح ھم ملاح لوگ ان پڑھ ھونے
کی وجہ سے ۔اکثر بچھڑے رھتے اور پھر کیمپس میں بھی جب آفیسرز وزٹ کرتے تبھی کچھ
ڈھنگ سے کھانا ملتا تھا۔۔۔ ورنہ وہ لوگ کسی دوکمرے والے اسکول کو کیمپ بنا کر ۔۔۔۔
پچیس سے تیس افراد تک اس میں بٹھاتے رھائش دیتے ۔۔۔لنگر کے نام پر دال روٹی اور
گدلہ پانی ملتا رھتا۔۔اس کیمپ پر مجھ جیسی مٹیار۔۔ چڑھتی ۔۔۔۔ جوانی
۔۔۔کپڑوں سے باھر دکھتے سینے کے ابھار۔۔۔ فیشن سے پاک مگر قدرتی طور پر چمکدار
چھرے والیاں۔۔۔بے پردہ گھومتی۔۔۔ اور کھیں بھی چولی اٹھا کر پیشاب کرنے بیٹھ جانے
والیاں ذرا لفٹ دینے کے سگنل دینے والیوں کو مال زیادہ ملتا اور اکثر
شھری بابو کیمپ انچارج کے ساتھ۔۔اسکا گفٹ اس کو پہلے ملتا۔۔۔ دوسرے لفظوں میں
ھمارا ( بھڑوا) ھم جیسیو ں کے پاس انٹرویو کے بھانے قریب
بھی آتے۔۔۔اپنی آنکھیں سیکتے اور کچھ گفٹ پیکٹ بھی دے جاتے۔۔۔۔ جنکے ساتھ
بچے ھوتے وہ زیادہ خواری دیکھتے تھے۔۔
ایسی ھی طوفانی
رات کی گرما گرم چدائی کھانی۔۔۔۔ چلتی گاڑی میں شروعاتی چدائی کا احوال اسکے بعد
امدادی کیمپ تک پھنچنے اور بعد کی راتوں کی کھانیاں میں آپکو بتاؤں
گی۔۔۔ کہ نانی سے میں نے کیا سیکھا۔ ...ںانی نے رات کو ھی مجھے گاڑی کے ڈالے
کے ساتھ چدواتے پتانہی کیسے دیکھ لیا۔۔۔ تو زور زور سے بولی۔۔۔۔
مفت کی چدائی سے
باز آجا ساراں ۔۔
اپنی چوت کی
قدر کرلے۔۔۔
میرا نام ساراں
ھے عمر بقول نانی کے بیس سال، میرے دو بڑے بھائی جو ابو کے ساتھ شکار پر گئے ھوئے
تھے دو مجھ سے چھوٹی بہنیں تھیں جو کہ بعد میں ھم سے بچھڑ گئیں ۔ والدہ کا تین سال
پہلے انتقال ھوچکا تھا، میں نانی اور اپنے چاچیوں کے ساتھ گھر پر ھی رہتی تھی۔
صاف سفید گندمی رنگت، شوخ
چنچل ھر ایک سے جلدی فرینک ھوجانے والے مزاج کے سبب پورے علاقے میں مقبول تھی۔
گندمی رنگ کی وجہ سے بھی میں
سب سے جدا تھی کیوں کہ باقی اکثر لڑکیاں سیاہ رنگت والی تھیں۔
سیکسی بم ، بڑے بڑے ہپس،
سیکسی باڈی پر درمیانے سائز کے ممے تھے جنھیں میرے چاھنے والوں نے چوس چوس کر
کھینچ کھانچ کر، پھلا کر بڑا سائز کردیا تھا۔
خوش قسمتی سے میں نے بچپن سے
نوجوانی تک کے ابتدائی کچھ سال شھر میں اپنے رشتے داروں کے پاس بھی گذارے تو میری
جان پہچان کریموں سے کچھ بہتر تھی دوسری چھوکریوں کی نسبت۔
باتیں کرنے اور جنس مخالف کو
متاثر کرنے کا میرا ٹیلنٹ سب سے الگ تھا۔۔۔
دوسرے ملاحوں کی طرح میرے
ابو اور بھائیوں کو بھی اپنی کشتی لینے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔
جسے پورا کرنے کے لیئے وہ
میرے بھائیوں سمیت لمبی لمبی مسافتوں اور گہرے پانیوں میں مچھلیاں پکڑنے والی بڑی
کشتیوں پر اکثر مھینوں کے حساب سے سفر کرتے تھے۔
ھمارے ملاحوں کے کئی خاندان
وھاں آباد تھے۔
لمبی مسافت پر جانے والی
کشتی میں کھانے پکانے کے بہانے چند عورتوں کو بھی لے جایا جاتا تھا۔
لیکن ایک روایت یا چالاکی یہ
کی جاتی تھی کہ دوسرے خاندان یاکم ازکم اسی کشتی پر ان عورتوں کے کسی بھی قریبی
رشتہ دار نا سوار ھوں۔
کیوں کہ سب کو پتہ تھا کہ ان
کے ساتھ اکثر جنسی تعلقات قائم کرلئے جاتے تھے تو کہیں کوئی غیرت نا دکھانے لگ
جائے بیچ سمندر میں تو یہ بھی ایک پرانی روایت چلی آرہی تھی۔
ھم لڑکیاں بالیاں بھی فارغ
نہی بیٹھتی تھی ، آپ کو تو پتہ ہی ھے کہ سمندر میں کنارےسے کتنی اندر کرکے بڑی
کشتیاں اپنے لنگر گراتی تھیں L.B.O.Dچین کے تعاون سے بنائی گئی ایک
سیم نالے کے چوڑے کنارے کو بھی بطور پورٹ استعمال کیا جاتا تھا۔
پھر وھاں سے ھم جیسی لیبر
آئی ھوئی مچھلیوں کو نسل و سائز کے حساب سے الگ کرتی تھیں اور انکو گوداموں تک
چھوٹی کشتیوں سے پھنچوانے میں مدد فراھم کرتی(یعنی لوڈ و ان لوڈ کرتی)۔
ھر بڑی کشتی والے نے اپنا
اپنامنشی رکھا ھوتا تھا جو دھاڑیاں لکھتا اور ھفتہ وار ادائیگیاں کرتا تھا۔
بیڈمی اور زیرو پوائنٹ کے
نام والے علاقے میں ھم سمندر کنارے رھنے والے وہ ملاح (ماھی گیر, اکثریت جاھل ان
پڑھ لوگ تھے) جنھیں آئے دن سمندری طوفانوں اور تیز ھواوں کی عادت سی تھی۔
لیکن سرکاری اھلکار پولیس یا
روینیو آفیسران تپے داروں کے ذریعے سمندری طوفان سے ڈراتے اور نام نہاد کیمپوں میں
ان غریبوں کو لے جانے آجاتے تھے، تاکہ وھاں میڈیا کے ذریعے اپنے بڑوں یا مالی
معاونت کرنے والی NGOS کو متاثرین کی کثیر تعداد جمع کر دکھائیں،
پھر ان کے لیئے مالی امداد یا کپڑے لٹھے کے علاوہ کھانے پینے کے بندوبست کے نام پر
فنڈ ھڑپ کرتے رھیں۔
گزشتہ کئی سالوں کے تجربات
کے بعد اب تو پولیس والوں کے کہنے پر لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے کو تیار نا ھوتے
تھے، تو وہ لوگ اب رینجرز اھلکار جو قریبی چوکی کے ھوتے جنھیں عوام فوجی کہتے تھے
بھیج کر، کبھی پیار سے اور کبھی زبردستی گاؤں خالی کروالیا کرتے۔
چند دن کے کیمپ والی زندگی
گزارنے کے بعد جب واپس گھروں کو اپنے خرچے پر لوٹتے تو چور اچکوں کی دست برد سے
بمشکل ھی کوئی گھر بچا ھوتا، جو کہ عام بات تھی۔
لیکن جس 1999 والے طوفان کے
واقعات میں اپکو بتانا چاھ رھی ھوں، اسمیں واقعی بڑی تباھی مچی تھی۔
سمندر کا پانی کئی کلو میٹر
دور اس چائنہ پل کو بھی لے اڑا تھا۔
پیچھے رہ جانے والے بھادر
فوجی نوجوانوں کی گاڑیاں بھی سمندر کی بڑی لہروں کی نظر ھوگئیں تھیں۔
گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے
ختم ھوگئے تھے۔
قدرت کے رنگ دیکھیں کہ ایک
ڈرائیور پانچ دن بعد (جب پانی کافی سارا واپس چلا گیا) امدادی کاروائیوں والے فوجی
جوانوں کو ایک پل کےاندر اس حالت میں ملا کہ اس کی پیٹھ کا اکثر گوشت مچھلیاں یا
دوسرے جانور نوچ نوچ کر کھا چکے تھے بے ھوش مگر زندہ تھا، اور ایک بچہ جسے اسکی
ماں نے بڑی سی ھنڈیاں میں ڈال کر رب سوھنے کے حوالے کردیا تھا، یہ دونوں اتنے بڑے
طوفان میں بھی زندہ سلامت رھے بلکہ تادم تحریرحیات ہیں۔
بھر حال آتے ھیں کھانی کی
طرف، میری ٹولی کے چاروں لڑکیوں کے حسن وجمال سیکسی بدن اور لفٹ کرانے کے چرچے
جوانوں اور شوقینوں میں بہت عام تھے۔
میں چونکہ انکی کمدار تھی تو
مجھ سے پوچھ کر لڑکیاں کسی بھی کشتی پے جاتی کام کرنے، کروانے۔
میرا ایک فوجی افسر یار بھی
تھا میں اسکے ساتھ کیسے پھنسی یہ آگے جاکر بتاؤں گی مگر اس وجہ سے بھی میرا دوسروں
پر رعب قائم تھا۔
طوفان کے سبب سمندر کے کنارے
پر مسلسل پانی کے اضافے کی وجہ سے ھمارے علاقے میں کافی دنوں سے کام بند پڑے تھے
تو فاقوں کے سبب نانی نے مجھے کہا کہ چل منشی سے تیرا حساب کتاب بھی لے آئیں گے
اور تیرے والد والی کشتی کی خیر خبر بھی معلوم کر آئیں گے۔
منشی الانے کی مجھے پھنسانے
کی اب تک کی ساری تدبیریں ناکام ھوچکی تھی لیکن آج اسکا دن تھا۔
ھمیں آتا دیکھ کر لیبر کو
بھگا دیا اور میرے ایک ھفتے کے پیسے دے کر دوسرے ھفتے کے روک لیئے یہ اعتراض لگا
کر کہ تم نے کشتی کے نچلے ٹینک میں ٹھیک سے صفائی نہی کی۔
کچھ نہی نکالا ( کچھ وہ
چھوٹی مچھلی جسے کشتیوں والے بڑے مال کی موجودگی میں اھمیت نہی دیتے ھیں جو لیبر
سے پھنکوا دیتے تھے لیکن آس پڑوس کے لوگ اسے جمع کر سکھانے کے بعد مرغی فیڈ والوں
کو بیچتے ھیں)۔
میں انکاری ھوگئی کہ یہ تو
ھو نہی سکتا ھماری ٹولی اپنا کام ایمانداری سے کرتی ھے مگر اس نے کہا کہ چلو میں
تمھیں دکھاتا ھوں کہ اندر کتنی بدبو وسڑن پھیلی ھوئی ھے۔
نانی مجھے ڈانٹتے کہا کہ تم
لاپروائی سے کیوں کام کرتی ھو تو میں نے بھی ضد پکڑ لی کہ ایسا ھو ہی نہی سکتا۔
تو اس نے مجھے آنکھیں دکھاتے
ھوئے نانی سے کہا کہ تم چل کر خود دیکھ لو۔
منشی بڑا خرانٹ تھا اسے پتہ
تھا کہ نانی تو اب رسی سے اوپر چڑھنے سے رھی تو مجھے ہی اسکے ساتھ اکیلا جانا پڑے
گا۔
بھر حال نانی کو پھٹے پر
بٹھا کر میں الانے منشی کے ساتھ کشتی کی اوپری منزل پر چلی گئی۔
پہلی منزل پر ایک سانولا سا
کچی عمر کا پپو سا لڑکا جال کی صفائی ومرمت میں مصروف تھا۔
جسے منشی نے کہا پرو ھم نیچے
ٹینک میں جا رھے ہیں تو کسی کو نیچے مت آنے دینا۔
ٹنکی صاف تھی، مگر منشی کی
نیت خراب تھی پہلے میں نییچے اتری اسکے بعد منشی نے نیچے آتے ھی مجھے پیچھے سے
اپنی بانہوں میں کس کر پکڑ لیا۔
اور لگا میری موٹی گانڈ کے
درمیان اپنا لن رگڑنے، اور آگے کی طرف اپنے ھاتھوں سے میرے بوبز کو بھی دبانے لگا۔
میں نے زور سے کسمسا کر اپنی
جان چھڑائی اور اسے گالی دی کہ بہن چود تو نے نانی کو جھوٹ کیوں بولا، اب وہ واپس
جاکر میری ٹولی کی دوسری لڑکیوں کو گالیاں دینے کے علاوہ تیری میری اس اکیلے وزٹ
کا بھی بتائیں گی۔
منشی خرانٹ سی ہنسی میں بولا
کہ وہ سب بھی میری کانیاں ھے لیکن ایک تو نہی ھاتھ آرھی تھی تو میں نے یہ موقع
بنایا ہے اب تو تعاون کرے تو میرا واعدہ کے تیری کوئی دھاڑی کبھی خالی نہی ھوگی۔
میں نے کہا رہنے دے یہ لارے
لپے کسی اور کو دینا۔
میں ساراں ھوں،
ساراں ملاح ۔
جس کے حسن کے چرچے ھیں ھر
طرف اور میں ھر کسی کو گھاس نہی ڈالتی۔
اس نے فوراً ایک جیب سے کچھ
رقم نکالی اور گن کر ،کچھ نوٹ مجھے دینے لگا تھا کہ میں نے ساری رقم جھپٹا مار کر
اس کے ھاتھ سے ساری رقم چھین لی اور کہا کہ منظور ھے تو ٹھیک ھے ورنہ میں جا رھی
ھوں واپس۔
اس نے کہا یہ لگ بھگ دس ھزار
ھوں گے تو ٹھیک نہی کر رھی، پرائے پیسے ہیں۔
میں نے تلخ لہجے میں کہا تو
حرام خور منشی کسی نا کسی کھاتے میں اسکا حساب کتاب برابر کر ہی لےگا، دوسری بات
تو جو میری چڈ مارنا چاہ رھا ھے نا وہ بھی پرائی امانت ہے۔
وہ جل بھن گیا، لاجواب ھوکر
زرا دیر خاموش ھوگیا۔
بعد میں نخوت سے بولا تو جو
اتنے نخرے کرنے والی بنی پھرتی ھے نا آج کل۔
مجھے پتہ ھے کہ تو کس فوجی
افسر کے ساتھ سیٹ ھے تو اسلئے نخرے زیادہ کرنے لگی ھے۔
میں نے شوخی میں آکر کہ ہی
دیا کہ وہ فوجی افسر تمھاری طرح صرف غریبوں کو لارے لپے لگا کر سوکھا پھٹوں یا
گھاس پھونس میں نہی چودتا۔۔۔ ھاں۔
مجھے سامان اور پیسے بھی
دیتا اور نرم بسترپر سلا کر فکنگ کرتا ھے۔
الانے نے کھا چل ٹھیک ھے اب
جلدی سے چولا اتار تاکہ میں لن کو تیرے اندر ڈال کر سکون حاصل کروں، ورنہ دیر
ھوجانی،ادھر تیری نانی بھی اوپر ہی نا آجائے، آخر وہ بھی پرانی چدکڑ ھے۔
میں نے کھا کہ نیچے تیل لگا
ھوا ھے میرے کپڑے خراب ھوجانے ھیں تو کھڑے کھڑے ھی کر ، جو کرسکتا ہے کرلے۔
اس نے آؤ دیکھا نا تاؤ۔
دھوتی کھول کر نیچے بچھادی اور خود اس پر لیٹ گیا جبکہ مجھے اپنے کھڑے لن پر
بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
میں نے تھوک نکال کر اسکے
موٹے لمبے لن پر ملا اور کچھ دیراسکی مٹھ لگائی پھر اپنا چولا اوپر اٹھایا، تو
میری چوت کی لال لال پنکھڑیاں اور بالوں سے صاف چوت دیکھ کر حیرت سے اسکی آنکھیں
پھٹنے والی ھوگئیں۔
ساراں ھی چھا۔۔۔
ایتری مکھن ملائی چڈ ۔
کتھا آندی اتھی ۔
( ساراں تو مکھن ملائی
نرم چوت کہاں سے لائی
)
میں نے کہا کہ یہ میرے فوجی
یار کا کمال ھے جب بھی شھر جاتا ہے میرے لیئے فیئر لولی اور بال صفا کریم ضرور
لاتا ھے۔
اس نے جلدی سے میری چوت پر
حظ لینے کیلئے کچھ دیر تک ھاتھ پھیرنا اور انگلی اندر ڈالنے کی کوشش کی تو میں نے
اسکے ھاتھ جھٹکے پھر اپنی چوت اسکے موٹے لن پر سیٹ کرنے لگی تو میری چوت کی نرم
پنکھڑیاں محسوس کرتے اسکی مزے والی سسکاریاں نکلنے لگیں جب میں نیچے کی طرف آھستہ
آھستہ دبانے لگی تو،اتنی صاف شفاف بالوں سے پاک چوت الانے منشی نے شاید ھی کبھی
ماری ھو، اس کا تو مزے کی وجہ سے منہ ھی کھل گیا۔
آھ اوھ اھھھھ اففف واہ ساراں
واہ ۔
تیری چوت کا تو میں دیوانا
ھوگیا، باقی لڑکیاں تو بال بھی صاف نہی کرتیں اور انکی چوت تو اتنی نرم بھی نہی
ھوتی۔
اسکے لن کی موٹائی کی وجہ سے
مجھے کچھ تکلیف تو ھوئی اندر لینے میں کیونکہ پچھلے کئی دنوں سے میں چدئی نہی تھی۔
ذرا سی دیر اوپر نیچے ھونے
سے اسکالن میری چوت میں رواں ھوگیا۔
اب میں نے بھی اوپر نیچے
ھوکر اسکے موٹے لن کو انجوائے کرنا شروع کردیا۔
میں جب لن باھر نکال کر ٹوپی
ایریا سے تیز واپس نیچے کو کرتی تو لن میرے اندر غڑاپ کرکے گھستا تو بڑا مزہ آتا
مجھے۔
جبکہ الانے منشی کے ھاتھ
میرے بوبز کو کپڑوں کے اوپر سے ہی مسلنے میں مصروف تھے، میرا پسندیدہ انداز تھا
سیکس میں۔
کچھ دیر بعد میں اسکے لن پر
گھوم گئی اب میری بڑی گانڈ اسکے منہ کی طرف ھوئی تو وہ لگا میرے چوتڑوں پر ھاتھ
پھیرنے اور میں نے تیزی سے اوپر نیچے ھونا شروع کردیا۔
میں ابھی اسکے گوڈوں پر ھاتھ
رکھ کر آٹھ دس مرتبہ ہی اوپر نیچے ھوئی ھوں گی کے اسکی بس ھوگئی اور وہ میرے اندر
ھی چھوٹ گیا اسکی گرم منی کااحساس ھوتے ھی میں جلدی سے سیدھی اٹھ کھڑی ھوئی اور
لگی اسے گالیاں دینے ،،،، بھن چود اندر نہی چھٹنا تھا۔
بھر حال تب تک میری چوت کا
سارا ملبہ بھی میں نے اس پر گرایا اور کھڑے کھڑے پیشاب بھی کردیا، حالانکہ میرا
مزہ پورا نہی ھوا تھا۔
اس نے ایک دفعہ اور کرنے کی
التجا کی مگر میں نے کہا بس پھر کسی اور وقت ابھی نہی، اتنے میں باھر والا لڑکا
زور سےفوجیوں کے آنے کی اطلاع دینےلگا۔
ان لوگوں کے لیے رینجرز
اھلکار بھی فوجی ھی تھے۔
ھم باہر نکلے تو اھلکار سب
کو بتا رھا تھا کہ حالات تشویشناک حد تک خراب ھوچکے ھی، پانی بھی دیکھو کتنا اوپر
چڑھ آیا ھے، نکلو جلدی یہاں سے جان ہے تو جھان ھے۔
دوسروں کی طرح ھمیں بھی بڑی
فوجی گاڑی میں بٹھایا کہ ھم لوگ جلد از جلد ایل بی او ڈی کے بندتک پہنچنیں جہاں
سندہ سرکار کی بھیجی گئی گاڑیاں سرکاری ریلیف کیمپ تک لے جانے کے لیئے ائی ھوئی
تھیں، باقی سارا گاؤں خالی کرالیاگیاتھا۔
میں اور نانی اگلی سیٹوں پر
جبکہ منشی اور وہ لڑکا پچھلی طرف بٹھا دیئے گئے
جب ایل بی او ڈی جسکو مقامی
لوگ چائنہ بند بھی کہتے ہیں تک ھم پہنچے تو تین بڑی مزدا گاڑیوں میں ھمارے گاؤں کے
کئی لوگ کھچا کھچ بھرے ھوئے تھے۔
میں اور نانی اپنی چھوٹی
بہنوں کو ڈھونڈنے لگیں سب گاڑیوں کے پاس جاکر پوچھا آوازیں دیں، مگر کہیں سے کوئی
پتہ نا چلا۔
میں گھروں کی طرف بھاگی مگر
کچھ آگے جاکر مجھےخالد نے اطلاع دی کہ وہ تمھاری چاچی والوں کے ساتھ پہلے گاڑیوں
میں چلی گئیں ھوں گی شاید، جھگیوں میں اب کوئی بھی نہی ھے۔
اتنی دیر میں باقی دو گاڑیاں
تو نکل گئیں ھی اب جلدی آجاؤ یہ اسطرف کی آخری گاڑی ھے۔
نانی اور مجھے ڈالے کے پاس
بمشکل کھڑے ھونے کی جگہ ملی تھی جبکہ باقی گاڑی میں بچے بوڑھے مرد وزن کھچا کھچ
بھرے ھوئے تھے۔
تیز ھواوں کی سرسراہٹ کی وجہ
سے کان پڑی آواز سنائی نہی دے رہی تھی۔
میں ڈالے کے قریب بمشکل کھڑی
ھوسکی تھی اس کے ساتھ ھی پردہ لگا ھوا ھواتھا، اور ایک دو مرد داھنے طرف اور ایک
دو میری والی طرف ڈنڈے اور پردے کو پکڑنےاور حفاظت کی خاطر کھڑے تھے۔
ھمارے گاؤں سے قریب ترین شھر
بھی 100کلومیٹر کے لگ بھگ دور تھا، روڈ بھی کچا کھڈوں والا تھا۔
ذرا سی دیر میں بارش بھی
شروع ھوگئی، کافی آگے جاکر اچانک ایک موڑ پر گاڑی موشن چھوڑ گئی اور بند ھوگئی، اب
پیچھے کھڑے لوگوں نے نیچے اتر کر دھکے لگانے شروع کردئیے، مگر گاڑی کا انجن سٹارٹ
نہی ھو رھا تھا۔
اتنے میں دیکھا تو دور سے
ایک ٹریکٹر گزر رھا تھا ایک بندہ آوازیں دیتا بھاگ کر اس تک پھنچا اور مدد مانگ لی
پیچھے کھڑے لوگوں کی استدعا پر اس نےھماری گاڑی مزدا کو ٹوچن کرلیا۔
اور پیچھے دو کھڑے بندے بھی
ٹریکٹر پر ڈرائیور کے ساتھ ھی بیٹھ گئے۔
اب جو میں نے پیچھے مڑ کر
دیکھا تو ، الانو منشی اور وہ پپو پرو ھی پردے کے پیچھے کھڑے تھے۔
شام ھوئی گھپ اندھیرے میں
کھڑے ھم تھک گئے نانی کو میں نے دھکم پیل کرکے بٹھا ہی لیا اور نانی کے ساتھ ہی
میں پیچھے والے ڈالے پر بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد مجھے ایسا محسوس
ہوا کہ کوئی میری پیٹھ پر ھاتھ پھیر رھا ھے۔
میں بدک کر کھڑی ھوئی تو
پیچھے سے منشی کی آواز آئی کہ ساراں خیر ھے خیر، تھک جاؤ گی بیٹھ جاو۔ بیٹھ جاو۔
ابھی سفر بھت باقی ھے۔ نانی
جھاندیدہ عورت تھی، میرے بدکنے کی وجہ سمجھ گئی تھیں تو بولی ساراں سستی نا
ھوجانا، مفت میں نا مروانا، نا مزے لینے دینا۔
ناں اماں ناں ،
توں ماٹھ کر ۔
چپ ھوجا میں بولی
منشی کی آواز سن کر میں پھر
بیٹھ گئی۔
اب اس کی گستاخیاں بڑھ گئیں
بارش تو بند ھو چکی تھی مگر رات کا اندھیرا بھت تھا۔
کچھ دیر بعد مجھے ایک ھاتھ
اپنی پیٹھ اور ایک اپنی ران پر سرکتا محسوس ھوا۔
تومیں پھر بدک کر کھڑی
ہوگئی۔ میرے کھڑے ھونے میرا پاوں بھی اگے بیٹھی نانی کے ھاتھ پر آگیا۔
تو اس نے گالی دیتے ھوئے کہا
کہ آرام سے بیٹھ نہی سکتی ، ھاتھ چپاٹ دیا،
بدتمیز چھوری۔
میں نے پیچھے مڑکر گالی دی
کہ یہ کون کنجر ھے جو سکون سے بیٹھنے نہی دیتا۔
کچھ دیر بعد پھر منشی کا
ھاتھ میرے ھاتھ پر سرکنے لگا اور اس نے بڑی چالاکی سے جلدی سے کوئی نوٹ میری مٹھی
میں دے دیا۔
میں نے حاضر دماغی سے کام
لیتے ھوئے نوٹ کو جلدی سے اپنے بریزی میں پھنچانے کے ساتھ ھی پیچھے مڑکر یہ بھی کہ
دیا کہ یہ صرف ایک ھاتھ کے ھیں ، دوسرا ھاتھ تو دوسرا نوٹ۔
منشی بولا بڑی چالاک ھے تو،
میں نے کھا دیکھ بابو ایک ھاتھ سے تو نے گاڑی کا ڈنڈا پکڑا ھوا ھے اسے تو جمپوں کی
وجہ سے چھوڑ نہی سکتا تو ۔۔دوسرا ھاتھ تو کسی اور کا ھوا نا۔
زرا سی دیر میں میری مٹھی
میں دوسرا نوٹ بھی پہنچ گیا اور اسکے ساتھ ھی میرے پیٹ پر ھاتھ پھر نے لگا۔
جبکہ ایک ھاتھ میری کمر پر
چلنا شروع ھوگیا۔
اب حالت یہ تھی کہ آگے والا
ھاتھ میرے بوبز اور پیٹ پر جبکہ پیچھے والا ھاتھ میری گردن سے لیکر گانڈ تک گھوم
رھا تھا۔
کافی دیر بعد منشی کی سرگوشی
سنائی دی کہ تو اپنا ایک ھاتھ پیچھ نکالنے کی کوشش کر میں نے ایک ھاتھ پیچھے کی
طرف نکالا۔۔۔ تو منشی نے اپنا ننگا لن میرے ھاتھ میں پکڑا دیا۔۔ میں اسکو آگے
پیچھے کرتے گویا اسکی مٹھ مارنے لگ گئی۔
کچھ دیر بعد ایک بڑے سے جمپ
پر جب گاڑی اچھلی تو ظاھر ھے کہ پکڑا ھوا لن بھی میرے ھاتھ سے پھسل گیا۔
ذرا سی دیر بعد جب مجھے
پیچھے سے اشارہ ملا کہ ھاتھ پیچھے نکالو تو اب جو لن میرے ھاتھ میں دیا گیا وہ
منشی والا نہی تھا۔
کیونکہ ابھی چند گھنٹے پہلے
ھی تو میں اس لن کو اپنی مکھن ملائی چوت میں برت چکی تھی، میں نے فوراً ھاتھ کھینچ
لیا۔
منشی کی آواز آئی کہ اب کیا
ھوا تو میں بولی کہ نیا نوٹ ، نیا کام ، نیا لن ۔
منشی نے ایک گالی نکالی مگر
تیز ھواوں کی وجہ سے مجھے نہی لگتا کہ کسی اور نے سنی ھوگی۔
بھرحال کچھ دیر بعد ایک اور
نوٹ میری مٹھی میں پھنچ گیا، پھر سے میرا ھاتھ پیچھے نکل گیا۔
اب مجھے بھی مستی چڑھنےلگی
کہ واہ ساراں تیرے عاشق اتنے سخت حالات میں بھی تیرے ساتھ سیکسی کارروائیوں میں
مصروف ہیں۔
کچھ دیر بعد منشی نے سرگوشی
میں کہا کہ زرا وقفہ کر، اگر پرو لڑکے کیساتھ میرا لائیو شو دیکھنا ھے تو دو منٹ
بعد پیچھنے دیکھنا۔
زرا دیر بعد جب میں نے کھڑے
ھوکر پیچھے دیکھا تو وہ پپو لڑکا شلوار اتار کر گاڑی کی سیڑھی پر گھوڑی بناھوا
تھا، جبکہ ایک ھاتھ سے اس نے ڈالے کو پکڑا اور دوسرے سے نچلی سیڑھی کو قابو کر کے
اپنا ننگا پچھواڑہ منشی کی طرف اونچا کیئے ھوئے تھا، جبکہ منشی نے ایک ھاتھ
سےڈالا، دوسرے ھاتھ سے اسکی کمر کو آگے پیچھے کر کے لن کی سیدھ میں لاتا اور غڑپ
سے لن اندر باھر کر رھا تھا۔
پرو کوئی پرانا چتو تھا کہ
اتنی سی جگہ اور زبردست جمپوں میں بھی گانڈ مروا رھا تھا۔
بھر حال دونوں پوری مہارت و
دلچسپی کے ساتھ اپنے اپنے کام میں مصروف و ایکسپرٹ تھے۔
زرا دیر بعد میں نے چادر ھٹا
کر جو پھر دیکھا، تو اب منشی نے پرو کا ایک پاؤں اپنے کندھے پر رکھا ھوا ھے اور
زرا نیچے جھک کر خوب دھما چوکڑی سے اسکی گانڈ میں لن اندر باھر کرنے میں لگاھوا ھے۔
پرو بھی کچڑا سا نرم نازک
اندام والا تھا مگر بڑی برداشت سے منشی کا موٹا لن اندر باہر کر وارھا تھا۔
جمپ میں اسکا لن بھی باھر
نکل جاتا تھا، بہت دیر میں نے انکا شو دیکھا مگر تیز ھواوں اور جمپوں کی بنا پر
کچھ خاص جم نہی رھا تھا انکا۔
کافی دیر بعد مجھے پھر منشی
کی سرگوشی سنائی دی کہ ساراں تیرے بنا مزہ نہی، تو ایک دفعہ پھر مٹھ مار دے، میں
برجستہ بولی کہ تو میری مٹھی پھر سے گرم کردے، میں تیرا لن گرم کردوں گی۔
چار وناچار اس نے پھر دو نوٹ
میری مٹھی تک پہنچائے اور میں نے ایک ھاتھ پیچھے کی جانب کیا۔
دوبارہ التجا پر میں نے
دوسرا ھاتھ بھی پیچھے کیا اور منشی کا لن بھی پردیے کے پیچھے سے ھاتھ میں لے لیا
اب سچویشن کچھ ایسی بنی کہ میرے پیروں میں آگے کیطرف نانی بیٹھی ھوئی تھی جبکہ میں
دونوں پیچھے نکالے ھاتھوں میں دو جاندار لن پکڑے بیٹھی تھی اب میں دونوں ہاتھوں سے
انکی مٹھ مارنے میں پھر سے لگ گئی ۔
گھپ اندھیرے کی وجہ سے شاید کسی
کو کچھ نظر تو نہی آرھا تھا ویسے بھی درمیان میں چادر لگی ھوئی تھی، لیکن لنڈ
والوں کو تو مزہ آہی رھا ھوگا نا۔
میرے جیسے نرم ونازک ھاتھوں
والی جب انکے لنڈ کی جڑ سے لیکر ٹوپے تک رگڑائی کر رھی تھی، تو وہ کب تک اپنے آپ
کو قابو کرتے ویسے بھی وہ اپنا پانی نکالنے کیلئے کافی خجل خوار ھو چکے تھے۔
آخر کب تک وہ میرے نرم وگداز
ہتھیلی کے جادو سے بچ پاتے کچھ دیر بعد اچانک پرو کے لن سے جو منی کی پچکاری نکلی
سیدھی میرے آگے بیٹھی نانی کے بازو پر گری ، ساتھ ھی زرا سی دیر تیز ھواوں کے
باوجود منی کی خوشبو گاڑی میں پھیلی۔
نانی میری تو ہتھے سے ہی
اکھڑ گئی، گالیوں کی بوچھاڑ شروع کردی، کافی دیر بعد بھی جب وہ خاموش نا ھورھی تھی
تو میں نے حالات کے سنگینی کے پیش نظر چپکے سے اپنی بریزی سے دو نوٹ نکال کر نانی
کے چھرے سے لگائے تو ایک دم جیسے انکو بریک لگ گیا، جھپٹا مارکے فوراً نوٹ
سنبھالنے لگیں جبکہ بولتی بھی انکی بند ھوگئی۔
آگے ایک جمپ پر انکے لنڈ
میرے ھاتھ سے پھسل گئے، ایک دفعہ پھر جب سب اچھل کر نیچے لگے تو بچوں کی چیخیں نکل
گئیں، عورتیں ڈرائیور کو گالیاں دینے لگیں۔
اتنے میں ایک بچے نے کہا کہ
مجھے پیشاب لگا ھے ایک نے کہا کہ بڑا پیشاب کرنا ھے تو اب کیا کیا جائے، میں نے
راز نا کھل جائے فوراً پیچھے اطلاع دی کہ بچوں کو پیشاب لگا ھے۔
منشی نے جذبات پر قابو پاتے
بمشکل کہا کہ گاڑی تو اب روکنا مشکل ھے بچوں کو ڈالے پر لے آؤ۔
تم پیچھے سے بچے کو پکڑ لینا
ھم اسکی للی پکڑ کر پیشاب کروالیں گے۔
اس کی بات میری سمجھ میں
آگئی تو میں نے پیشاب والےبچے کو گود میں اٹھا کر ڈالے پر بٹھا لیا اور اسکی قمیض
کا دامن اوپر کیا تو میری ھنسی ھی نکل گئی، اسکی للی ھی میرے ھاتھ میں لگی بچے نے
تو سلوار پہنی ھی نہی تھی۔
اس نے پردے کے ھٹتے ھی تیزی
سے پیشاب کی دھار جو چھوڑی ۔۔۔
تو پتہ کیا
ھوا۔۔۔۔؟..ھھاھاھھھا
تیز ھواوں کے جھکڑ چلتے رھے تھے، اسکا پیشاب بچے کی ماں جو میرے
پیچھے ہی آکھڑی ھوئی تھی، منشی، پرو اور مجھ پر پھوار کی صورت میں ھمارے منہ پر
آپڑی جبکہ نیچے بیٹھے ھوئے لوگوں نے سمجھا کہ پھر سے بارش ھو گئی ھے، میں ھنس
دی تو ناگواری والی فزا(منشی و پرو کی طرف سے) بنتے بنتے رہ گئی۔
۔ امدادی کیمپوں کے
اندرونی حالات ۔
بھر حال آدھی رات کے قریب ھم مختلف کیمپس کے سامنے سے گزرتے
ہوئے، سرکاری اسکول کے مین کیمپ تک پہنچ سکے جسکا ڈرائیور کو کہا گیاتھا۔
وہاں تو بھت بھیڑ لگی ھوئی تھی، کمروں کے علاوہ کھلےمیدان میں بھی
خیمےلگےھوئےتھے۔
جبکہ کئی خاندان ابھی تک جائے پناہ(کمرہ یا خیمہ) ڈھونڈنے لگے ھوئے
تھے۔
ادھر نانی کی دانائی بڑی کام آئی، اس نے منشی کو لائین میں لگ کر
خاندان کی انٹری کروانے بھیج دیا جبکہ پرو کو بولا کہ وہ گیٹ پر سے فوجی (رینجرز
اھلکار) کو بلا لائے۔۔
مجھے کہا کہ جلدی سے کسی اچھے پکے کمرے کی تلاش کر اسمیں
مجھے بٹھا دے تاکہ قبضہ کرلیں۔
فوجی نے آکر خیریت دریافت کی تو نانی نے بتایا کہ ھم زیرو پوائنٹ
چوکی کے علاقے سے یہاں لائے گئے ھیں، تو فوجی نے فوراً کہا کہ سومار ملاح کا
خاندان آیا ھے کیا؟
نانی نے کہا کہ ھاں، تم کیسے جانتے ھو تو اس نے کہا کہ آپ کا نام
شاید سکینہ مائی تھا۔۔۔
میں نے بھی اس چوکی پر دوسال ڈیوٹی کی تھی ۔
صبح صبح آپکے گھر سے ھمارا ناشتہ آتا تھا، میں نے اب پہچان لیا ھے
آپکو،کوئی تکلیف ھو تو بتادیں۔
نانی نے کہا کہ یہاں تو پولیس والے کسی کی بات ہی نہی سنتے اور
وہاں تمھارے اھلکاروں نے ھمیں گھر سے برتن، بوریا بستر بھی اٹھانے نہی دیا تو اب
تم ھمارے لیئے کچھ بندوبست کرادو۔
فوجی جب ساتھ ھوا تو مین گیٹ کی پچھلی سائڈ والا کمرہ ھمارے لیئے
کھلوادیا گیا۔
نانی نے جلدی سے اس کے دروازے پر اپنا دوپٹہ باندہ کر قبضہ پکا
کرلیا۔
تب فوجی مجھے اور پرو کو لیکر لنگر خانے کی طرف چلا وہاں پر
تو ھڑ بونگ مچی ھوئی تھی، لیکن فوجی کی اک دھاڑ پر سب ہمیں دیکھنے لگے، سب
نے یکدم خاموشی اختیار کی اور سائیڈ بھی دے دی۔
فوجی نے لنگری کو کہا کہ دس بندوں کا کھانا دو تمھارے برتنوں میں
انکے پاس کچھ نہی ھے سب اڑ گیا طوفان میں۔۔۔
اسکے بعد پانی والے سے دو کین لیکر جب ھم کمرے تک پھنچے تب میں نے
پوچھا کہ ھم تو چار افراد ھیں آپ نے اتنا زیادہ کھانا کیوں لے دیا تو اس نے بتایا
کہ گیٹ پر ھم چار اھلکار صبح سےکھڑے ھیں کیمپ انتطامیہ نے کھانا تک نہی پوچھا ہمیں
، دوسرا یہ روینیو محکمے والے تم لوگوں کے نام پر بھت کچھ حاصل کرلیتے ہیں تو
کھانا کیا چیز ہے اسکی نسبت اگر آپ اور ھم سے بچ جائے گا تو آس پڑوس
کے لوگوں کو دے دینا۔
ھم نے منشی کا بتایا تو اس نے رجسٹریشن کرنے والے کو بولا کہ الانے
منشی کو آگے بلوا کر انٹری جلدی کردو یہ میرے مہمان ھیں۔
اسطرح رش والی جگہ پر نانی کی دانائی اور پرانی نیکیاں ھمیں
کام آئیں۔
ابھی ھم کھانےسے فارغ ہی ھوئے تھے کہ کیمپ انچارج تپے دار میوو خاں
لڑکھڑاتا ( موالی فل ٹن تھا) کمرے میں آدھمکا اور کمدار سے بارعب انداز میں
پوچھنے لگا کہ چار افراد پر یہ اتنا بڑا کمرہ کیوں دیدیا انھیں۔
جب اسے فوجی کے رشتے دار بتایا گیا تو نشے میں ھونے کے باوجود
انھیں ڈانٹا کہ میں اس کیمپ کا نگران ھوں، میرے علم میں لائے بغیر کسی کو کوئی
کمرہ تو کیا کوئی پانی کا کین بھی نا دیا کرو۔
میں جو اب تک خاموش بیٹھی ھوئی تھی چادر لپیٹ کے، تپے دار کی
مغرورانہ باتیں سن کرتپ گئی، میں گرج کر بولی۔
سالے رشوت خورو ایک تو منتیں کر کر کے ھمیں وہاں سے اٹھا
لاتے ھو پھر یہاں ھمارے نام پر این جی اوز سے فنڈ بٹورتے ھو ، انتظامات تک پورے
نہی کرتےاور اوپر سے غریبوں پر رعب جھاڑتے ھو۔
نانی بھی شیر ھوگئی کہتی آنے دو کل میڈیا والوں کو تمھارے سارے
کرتوت کھول کر بیان کروں گی، دو سال پہلے بھی تم لوگوں نے ھمارے لیئے آئے ھوئے
خیمے گھریلو برتن مچھر دانیاں چھوٹے جنریٹر تک کھالیئے تھے، بھڑوو۔۔
اس کے نشے اڑنے لگے اور وہ اپنی پہلی بات تو تب ھی بھول گیا تھا جب
اس نے میرے سراپے کا بغور جائزہ لے لیا تھا ۔
میں بھی اسے متوجہ کرنے کو ایک دلکش انگڑائی لے کر اٹھی تو
میری چادر بھی سرک کر نیچے گری۔
میرا گندمی رنگ کا سراپا، تیکھی ناک، پتلے ھونٹ، اس پر سیکسی گول
مٹول ممے، بڑے بڑے چوتڑوں پر ھاتھ رکھ کر جب میں کھڑی ھوئی تو، میری ترچھی
نظر میووے پر ہی تھی شکاری نے شکار پہچان لیا تھا۔۔
توجلتے بجھتے بلب کی روشنی میں بھی میں نے اسکی آنکھوں
میں شہوت انگیز جذبات امڈتے دیکھے۔
موالی فل ٹن میرے اور قریب آیا تو میرے تیکھے نقوش چڑھتی جوانی،
گول۔مٹول بڑے بڑے بوبس اور پیچھے کو نکلتی دلکش گانڈ کو دیکھ کر،
اسکی رال ٹپکنے لگی۔
میں نے موقعے پر چھکہ مارتے ھوئے اس کا ھاتھ اپنے نرم ونازک
ہتھیلوں میں تھامتے ھوئے کہا کہ۔۔
سائیں تم سومار ملاح زیرو والے کو نہی جانتے ہو کیا۔۔۔؟
میرے ھاتھ کے لمس نے تو موالی کے اوسان ہی خطا کرڈالے۔۔ زبان
لڑکھڑانے لگی، کمدار کو چائے لانے بھیج دیا اور مجھ پرڈورے ڈالنے کی کوشش شروع
کردی۔
ھاں۔۔ ھاں۔۔۔ اسکے تومجھ پر بھی کئی احسانات تھے، لیکن وہ کہاں ھیں
نظر نہی آرھے تمھارے ساتھ۔۔
تو نانی نے کہا کہ وہ ھفتہ بھر پہلے گہرے پانیوں میں بڑی کشتی
والوں کے ساتھ شکار پر گیا تھا۔ ابھی تک اسکی کوئی خیر خبر نہی ملی ھمیں۔
میوا موالی کو صبح سے لگتا کسی حسینہ نے لفٹ نہیں کرائی تھی جبکہ
میں نے تو ڈائریکٹ ھاتھ پکڑ لیا تھا تو اس کا تو نشہ سر چڑھنے لگا۔
اب وہ بھی مجھ سے بظاہر گاؤں کے حالات پوچھنے لگا لیکن دراصل وہ
مزید قریب ھوکر میرے حسین سراپے سے آنکھیں سینکنے میں مگن ھوگیا۔۔
نانی مجھے چپ ھوجانے کے اشارے کر رہی تھی جبکہ وہ میرے حسن کی
تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگا۔۔۔ موالی کی موج میں کی گئیں باتیں بڑی
مزیدار ھوتی ھیں، تو مجھے مزہ آنے لگا۔
کہنے لگا کہ تم جیسی حسینہ اور یہ کیمپ۔۔ نا نا ۔۔۔ تم کیمپ میں
نہی سجتی میرے گھر میں رہنے چلو ، ابھی کے ابھی اٹھاو سامان۔۔
سومار ملاح تو میرا ھم پیالہ یار ھے۔
مجھے خدمت کاموقع دو، نانی نے برملا کہ دیا کے ھاں ھاں مجھے سب پتا
ھے، موالیوں کا۔
لیکن آج رات ھمارا بندوبست یہاں کردے پھر کسی دن تیری مہمانی بھی
کھا لیں گے، اس نے فوراً اپنے کمدار کو رلی وبستر لانے بھیج دیا تھا۔
چائے پلانے کے بعد تپے دار مزید بدتمیزی پر اتر آیا، اور دست درازی
کرنےلگا۔
نانی کی ڈانٹ ڈپٹ کا بھی اب اسپر کچھ اثر نہی ھو رہا تھا، وہ کبھی
میرے ھاتھوں پر اپنے ھاتھ رگڑتا تو کبھی میرے چہرے پر ھاتھ پھیرنے کی کوشش کرنے
لگا۔
منشی تو کب کا سوگیا تھا لیکن پرو حالات کو بگڑتے دیکھ کر ، جلدی
سے فوجی کو بلا لایا۔۔۔
موالی میوا نے ایک نظر فوجی کو دیکھا پھر بے پروائی سے بولا کہ
لالہ تمھاری ڈیوٹی صرف گیٹ تک محدود ھے، توفوجی جوان نے برجستہ جواب دیا کہ میں
یہاں سونے آیا ھوں، جبکہ دوسرے گیٹ ڈیوٹی پر موجود ھوں گے، اب تو میووا بھت جز بز
ھوکر کمرے سے باھر نکلا۔
صبح پاپوں کے ساتھ چائے نصیب ھوئی، میری چڑھتی جوانی کا جادو صبح
سویرے ہی سارے کیمپ میں پھیل گیا تھا تبھی تو۔
دوسرے تپے دار و کمدار بھی میری زیارت کرنے کے لیئے بہانے بہانے سے
کمرے کاچکر لگاتے، فوجی کو آرام کرتا دیکھ کر ، جلدی سے ساتھ بیٹھی نانی سے پوچھتے
کہ کوئی کام کار ھو تو ھمیں ضرور یاد کرنا۔
کافی دیر بعد مزید گاڑیوں میں بھی مسافر کیمپ میں داخل ھوئے۔
تو پھر سے کیمپ میں ھلہ گلا شروع ھوگیا۔۔
دوپہر کو مختیار کار ڈی سی ودیگر صاحبان صحافیوں کے ساتھ وزٹ پر
آگئے تو نانی نے انھے بھی آڑے ہاتھوں لیا کہ ھمیں تمھارے اھلکاروں نے گھر سے بستر
وغیرہ بھی اٹھانے نا دیئے ادھر تم نے کچھ انتظامات ہی نہی کیئے ھم اس خالی فرش پر
رات لیٹے تو ساری رات نہی سو سکے ہیں۔
صحافی بھی ساتھ تھے تو سبکی سے بچنے کے لیئے اس نے تپے دار میووے
کو کہا کہ اماں کے لیئے چارپائی کا انتظام فوری طور پر کیا جائے۔
نانی نے کہا کہ تم ھمارے سر کے سائیں ھو آفیسر ھو ھمارے غریبوں کے
نام پر فنڈ کھاؤ گے، تو کچھ تو ھمارے کو سہولت فراہم کرو۔
ڈی سی صاحب بھی اماں کو تسلی دینے کے بعد آگے روانہ ھوئے۔
میوا تپیدار مجھے ابھی بھی نشے میں لگا اس کی خماری آنکھیں مجھ پر
گڑھ سی گئیں تھیں، میں نے بھی چادری ھٹا کر اسے اپنے مموں کی درمیانی لکیر کا
دیدار کرایا تو اس نے اسی وقت اپنے کمدار بچایا کو اپنے گھر مرغی ودیگر سامان کے
لیئے پیسے دیتے ھوئے کہا کہ گھر بتا دینا کہ دو معزز خواتین رات کو میری مہمان ھوں
گیں۔
اچانک سے مجھے سامنے کے کمرے میں رہائش پذیر خواتین کی چھوٹی بچیاں
دیکھ کر اپنی بہنیں یاد آئیں تو
میں نے میووے کو کہا کہ میرا ایک کام کردوگے تو ھی میں شام کو
تمہاری مہمان بنوں گی ورنہ نہی؟۔
پھر میں نے آتے وقت کی ساری کہانی اسے سنائی کہ ھم کشتی پر وصولی
کرنے گئی تھیں،
تو وہ نجانے کس گاڑی میں کس کے ساتھ کس کیمپ میں چلی گئیں ھوں گی
تو وہ بھی سوچ میں پڑھ گیا کہ کیسے پتالگایا جائے کہ وہ کس طرف والی گاڑی میں سوار
ھوئی ھوں گی بے چاریاں۔۔۔
کیوں کہ کئی شہروں میں سرکاری کیمپ لگے تھے، لیکن اس نے میری چچی و
چاچا کے نام کے علاوہ بہنوں کی عمریں و کچھ نشانیاں بھی پوچھیں، اور شام تک انکا
سراغ لگانے کا کہ کر چلا گیا۔
نانی نے میرے اس اقدام کی تعریف کی اور کہا کہ شاباش ایسے ہی ان سے
کام لیا کر، فری میں نا خوش کرنا انہیں۔
نانی کے مشورے سے میں چادری اوڑھ کر پرو کے ساتھ نزدیکی کیمپوں میں
بہنوں کی تلاش میں نکل پڑی۔
وہاں مجھے اپنی طرف کے لوگ تو نا ملے مگر کئی دوسرے خاندانوں کی
لڑکیاں الھڑ جوانیاں گھومتی نظر آئیں، ایسی ہی مٹر گشت کر تے ھم ایک کیمپ سے باہر
نکلنے لگے تو پرو نے کہا کہ ساراں تیرے چاھنے والوں میں ھم بھی شامل ہیں۔
میں نے ترچھی نگاہوں سے اسکا جائزہ لیا تو واقعی عہ خود بھی ایک
لونڈا سا تھا،
رنگ سانولا تھا مگر گانڈ بڑی تھی، باڈی بھری بھری سی تھی۔
میں نے کہا کہ تو تو خود چتو ہے منشی سے گانڈ مرواتے میں نے خود
دیکھا ہے تجھے، وہ بولا کہ مجبوری کا فائدہ اٹھاتا ہے منشی مجھے پناہ دے رکھی ہے
اس نے۔
لیکن میں آپکو مایوس نہیں کروں گا، خوب مزے دوں گا۔
میں برجستہ بولی کہ میں مفت میں مزے نہی کرنے دیتی، تو بولا کہ میں
تیرا سچا عاشق ھوں، گانڈ مروا کر بھی تیرے لیئے پیسے جمع کروں گا۔۔۔
میں اسکے بے ساختہ جواب پر خوب کھلکھلا کر ہنسی، تو وہ بولا کہ بس
آپ مجھے خود ڈے جدا مت کرنا۔
میرا اس ملک میں سوائے آپ لوگوں کے اور کوئی آسرا نہی، اور منشی سے
میری جان چھڑا دیں، خود بھی اور کشتی کے دوسرے لوگوں سے بھی مجھے چدوایا کرتا ھے۔
میں نے کہا کہ میں تمہیں آزماؤں گی اگر تم رازداری نبھا سکے تو میں
تجھے ساتھ رکھ لوں گی، لیکن اگر میرے ہی کسی چاھنے والے نے تیری لال لال گانڈ
مارنے کی فرمائش کردی تو۔۔۔۔
کافی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا کہ اگر تم کہو گی تو میں
کروالیا کروں گا۔۔۔ لیکن پلیج مجھے ساتھ رکھ لینا۔
اسکی غیرملکی کشتی سے گرفتاری اور پہلی چدائی والا واقعہ میں آئندہ
بتاوونگی۔
ابھی ہم یہ باتیں ہی کر رھے تھے کہ صبح سے حبس زدہ ماحول میں تیز
طوفانی ھواوں اور بارش کا سلسلہ شروع ھوگیا، کمزور خیمے اڑنے لگے اور تیز بارش
شروع ہوگئی، ھم نے بھی بھاگ کر ایک خالی پڑے خیمے میں پناہ لی۔
ھم چوں کہ اپنے کیمپ سے کافی دور نکل آئے تھے کالی گھٹائیں اور تیز
بارش کی وجہ سے کافی اندھیرا پھیل گیا تھا تو اسی کیمپ میں داخل ھو کر بیٹھے باتیں
کرنے لگے میں لیٹ گئی اور پرو کی ٹانگ پر سر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔
پرو نے میرے سر کو دبانا شروع کردیا کافی دیر بعد جب میری آنکھیں
نیند کی وجہ سے بند ھونے لگیں تو مجھے اسکے ھونٹ اپنے ھونٹوں پر محسوس ھوئے مگر
میں کچھ نا بولی، اسنے آھستہ آھستہ میرے ھونٹ چوستے ہوئے ایک ھاتھ سے ممے دبانے
شروع کردیئے۔
اسکی بے باکیاں تو بڑھنے لگیں مگر مجھ پر بھی موسم کی وجہ سے خماری
چڑھنے لگی، بارش تھی کہ رکنے کا نام ہی نہی لے رہی تھی۔
کیمپ میں شاید ابھی زیادہ لوگ انٹری نہی حاصل کرپائے تھے تو کافی
سارے خیمے ابھی تک خالی تھے۔
میں نے بھی اسکی رانیں سہلانا شروع کر دیں، اسکا لن بھی کھڑا ہو کر
میرے سر کے بالوں میں کنگھی کرنے کی کوشش کر رھا تھا۔
میں نے ھاتھ بڑھا کر خیمے ک اسامنے والا پردہ نیچے گرادیا تھا،
اسطرح کچھ گرمی سی تو ھوگئی خیمے میں لیکن دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے ھم۔
اب میں نے اسکا لن پکڑا تو وہ بھی مستی میں سرشار ھوگیا، اور
زوردار فرنچ کس کرتے میری زبان کو اپنے منہ میں کھینچ لے گیا، میرے لیئے یہ زبان
چسوائی کا پہلا تجربہ تھا، جسے میں نے خوب انجوائے کیا۔
کچھ دیر بعد میں نے اسکی شلوار نیچے کروائی اور الٹی لیٹ کر اسکا
لن منہ میں لے لیا، یہ اسکا پہلا تجربہ تھا کہ اس غریب نے ہمیشہ دوسروں کے ہی لن
چوسے تھے ۔اسکا بھی کوئی چوسے گا یہ تو اسکے تصور میں بھی نہی تھا۔
بھرحال لن تو اسکاپتلا تھا مگر لمبا کافی تھا ویسے بھی وہ ابھی
چودہ پندری سال کا بچہ ہی تھا، میں اسکا لن چوستے اور اسکے ٹٹے ھاتھ سے سھلاتی
رہی، کچھ دیر میں اس نے میرے سر کو مضبوطی سے پکڑ کر اک دم سے میرے منہ میں اپنے
لن کو تیزی سے آگے پیچھے کرنا شروع کردیا، اب اسکا لن میرے حلق تک مار کر رھا تھا۔
پھر اسنے میرے منہ سے اچانک لن باھر نکال دیا اور وہیں میری آنکھوں
کے سامنے جھڑ گیا، خود شانت ھونے کے بعد اس نے میری طرف بڑی ممنونیت سے دیکھتے
ھوئے کہا ۔۔
کہ اب آپ بتاو کیا خدمت کروں میں آپ کی، میں نے اپنی چوت کی طرف
اشارہ کیا کہ اس ٹینکی میں بھی ہانی بھرا ھوا ھے، زرا اسے بھی خالی کرواد، وہ
بولا۔ کہ جو حکم میری شھزادی۔۔۔
اب اس نے اپنی شلوار اوپر کرکے پہن لی، جبکہ میری شلوار کو نیچے
کھسکاکر میری رانوں پر ھاتھ پھیرنے لگا،
آھستہ آھستہ اب وہ میری چوت کے قریب پہنچنے لگا، اسکے ھاتھوں کے
لمس میں بھی اک مزہ تھا نرم نرم سے گوشت بھرے ھاتھ میں نے بھی فرط جذبات سے اسکے
منہ میں انگوٹھا دے دیا، جسے اسنے چوسنا شروع کردیا اور نیچے اسکی انگلیاں میری
چوت کے آس پاس گھومتی پھر رھی تھیں۔
کافی دیر اسی حالت کو انجوائے کرنے کے بعد اس نے اپنے ایک ھاتھ کی
دو انگلیاں میرے منہ میں داخل کیں مجھ سے چسوائیں پھر وہی انگلیاں میری چوت میں
ڈال کر انہیں اندر باھر کرنے لگا۔
میری چوت کے دانے کو دونوں انگلیوں میں پکڑ کر خوب رگڑنے لگا۔
مجھ پر بھی اس کی انگلیاں برابر اثر انداز ھورہی تھیں، کچھ دیر بعد
اس نے اپنی ٹانگ پر سے میرا سر اٹھایا اور پچھلی طرف آکر میری ٹانگوں کو مزید کھول
کے درمیان میں بیٹھ گیا۔
جب اس نے اپنی زبان میرے چوت کے آس پاس کے علاقے میں پھیرنی شروع
کی تومجھے بھی بڑا مزہ آنے لگا، میں نے اسکے سر کو پکڑ کر خوب اپنی چوت پر ایک طرح
سے میں نے اسے گھسیڑا تو اس نے دم گھٹنےنے کی وجہ سے میرے ھاتھ زبردستی ھٹوائے اور
ایک طرف ھوکر زور زور سے سانس لینے لگا۔
میں نے افسوس کا اظہار کیا تو بولا کہ۔۔۔ خیر ھے ۔۔۔ پیار میں اکثر
ایسا ھوتا ھے۔ کوئی ہنستا ھے کوئی روتا ھے۔۔
میں نے کہا واہ یار وا ۔۔۔ تم ہیں تو گانے بھی یاد ہیں تو بولا کہ
ھاں میں انتاک شری تک کھیلا ھو۔
پھر اس نے میری ٹانگیں اوپر کی طرف کیں تو میں یہی سمجھی کہ وہ
میری چوت میں لن ڈالنے لگا ھے، مگر کچھ ہی دیر میں پھر سے اسکی زبان میری چوت
چسائی میں مگن ھوگئی۔
اس اینگل میں میری چوت بھی زرا باھر کی طرف نکل آئی تھی تو وہ کبھی
میری چوت کے لبوں کو چاٹتا اور کبھی اس میں اپنی زبان اندر باھر کرکے میری چدائی
کرنے لگتا۔۔
دوسری طرف اسکے ھاتھ میرے بوبز کو بھی رگڑنے میں مصروف ھوگے تھے تو
اس ڈبل مزے نے مجھے واقعی بے حال کردیا تھا۔
کچھ ہی دیر گزری ھوگی کہ میں ارگیزم حاصل کرنے والی ھوگئی، اور مزے
میں سرشار ھو کر اسے خوب داد دینے لگی۔۔کہ شاباش میرے شیر ایسے ھی لگے رھو۔۔
واہ بڑا مزہ آرہا ھے۔۔۔ آھھھھ اوں ھھھھ اآ ھھھھ کرتے کرتے اخر کار
میں چھوٹ گئی۔
تو اس نے میری چوت سے نکلنے والا سارا نمکین پانی پی لیا اور سرشار
ھوکر بولا کیسے ساراں مزہ آیا کہ نہی، میں بولی واقعی تیری زبان میں بڑا جادو ھے
کہ بغیر لن گھسائی کے تو نے مجھے فارغ کر دیا آج تو ۔۔
اتنی دیر میں بارش رک چکی تھی اور باھر لوگوں کی ھلچل بھی شروع ھو
چکی تھی۔۔۔
جب ھم باھر نکلے تو کیمپ والوں نے ھمیں گھیر لیا اور لگے پرو سے
سوال جواب کرنے کہ جون ھو اور کہاں سے آئے ھو ۔۔
اور یہ لڑکی تمھاری کیالگتی ھے وغیرہ وغیرہ تم اب کہاں جا رھے ھو
ھمارے کیمپ میں بھی تمھیں سب سھولیات ملیں گی ھمارے پاس ٹھر جاو۔۔
پرو بولا کہ ھمارے پاس تو کارڈ بھی نہی ھیں دیگر خاندان کے لوگوں
کو ھم ڈھونڈنے نکلے تھے کہ تمھارے کیمپ کے پاس ھمیں تیز بارش نے آلیا تو ھم زرا
سستانے بیٹھ گئے۔
لیکن وہ اپنے بڑے کو بلا لائے جنکی بڑی داڑھی پیٹ تک آرہی تھی،
پائنچے اوپر گھٹنوں تک اٹھائے ھوئے تھے، موٹے اتنے جیسے سانڈ مجھے بغور دیکھتے
ھوئے کھنے لگے کہ آپ لوگ اگر ھمارے کیمپ میں پناہ لینا پسند کریں، تو ھم آپکو مکمل
پرائویسی بھی دیں گے اور اچھے اچھے کھانے بھی کھلوائیں گے۔
لیکن مجھے اسکی آنکھوں میں اپنے لیئے چھپی ھوئی شیطنت بھی نظر آنے
لگی۔
بھر حال میں نے جان چھڑانے کو کہا کہ ھم انٹری تو کروادیں گے آپکے
پاس لیکن ھم اپنے خاندان والوں کو ڈھونڈنے ادھر ادھر جاتے رھیں گے تو اس پر آپکی
انتظامیہ کو اعتراض نہی ھونا چاھیئے۔
زرا دیر انتظامیہ نے آپسی کھسر پھسر کے بعد وہ خیمہ پرو اور اسکی
زوجہ کے نام سے رجسٹر کر لیا۔
ان کے لڑکوں نے جلدی سے بستر بھی لگادیئے اور تولیہ وغیرہ بھی ھمیں
لادیئے، چائے پکوڑے سے ھماری خاطر مدارت کی، پرو کو رجسٹریشن کارڈ لا کر دیا اور
ساتھ ہی کھانے کا شیڈول بھی بتا دیا، میں نے احتیاطی طور پر کہ دیا کہ ھم تقریباً
چھ کے قریب لوگ ھوں گے کھانے والے۔
اور ھاں ھم خاندان کے دوسروں کو بھی ترغیب دیں گے آپکے کیمپ کی طرف
آنے کی۔
اگر آپ لوگوں کو ھمارے آنے جانے پر اعتراض نہیں ہوگا تو۔
اتنے میں گیٹ پر سے کسی نے دوسری گاڑی کی آمد کی اطلاع دی تو
انچارج نے گھری نظروں سے مجھے دیکھتے ھوئے کہا ، جیسے آپ سجنوں کی مرضی۔
اک قسم کی ریس لگی ھوئی تھی ھر تنظیم چاھتی تھی کہ۔میرے کیمپ میں
زیادہ لوگ داخل تاکہ دوسری تنظیموں سے فنڈز وصول کیئے جاسکیں۔
جب وہ اپنے دیگر کاموں میں مصروف ھوگئے تو ھم دونوں چپکے سے وہاں
سے نکلے اور کچھ ہی دیر چلنے سے اپنے کیمپ پھنچ گئے۔
وہاں ایک نئی افتاد ھماری منتظر تھی۔
0 تبصرے
THANKS DEAR