احسان اور قیمت
گلگشت گول باغ کے قریب ٹہلتے ہوئے مجھے احساس ھوا کوئی میرا تعاقب
کر رہا ہے ۔۔یہ محسوس کرتے ہیں میں نے اردگرد غور کیا تو کچھ فاصلے پر مجھے میلے
سے کپڑوں والا چودہ پندرہ سال کا لڑکا جس کے سر پر سفید ٹوپی تھی جو عام طور پر
پٹھان پہنتے ہیں۔ اس کی نگاہوں میں عجیب معصومیت تھی۔ جو مجھے اس کی جانب متوجہ
ہونے پر مجبور کر رہی تھی۔ اس وقت شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے بلکہ سموگ کی وجہ
سے اندھیرا چھا گیا تھا مگر ابھی مغرب میں کچھ دیر باقی تھی۔ من کی ادا سی دور
کرنے کی خاطر میں گاڑی لے کر گول باغ کی طرف نکل آئی تھی کہ۔۔ ساتھ کچھ دیر ٹہلنے
کے بعد قریبی ریسٹورنٹ سے پیزا لیکر شہناز کے پاس چلی جاؤں گی ۔۔وہ کینٹ میں رہتی
تھی۔ میں چند قدم چلنے کے بعد رک گئی اور اسکی جانب دیکھا تو وہ مسلسل مجھے گھور
رہا تھا ۔مگر اسکی نگاہوں ایک خاص قسم کی التجاء تھی۔ میں یونہی واپس مڑی اور اس
کے پاس جا کرنرم لہجےمیں پوچھا کیا بات ہے کوئی پریشانی ہے کیا؟ مجھے قریب آتے
دیکھ کر اس آنکھیں چمک اٹھیں۔۔وہ بولا تو بہت ہی سریلی اور پر سوز آواز نے میری
سماعتوں میں جیسے رس گھول دیا ھو۔۔جی باجی۔۔۔وہ ۔۔۔! اتنا کہہ کر اسنے نظریں جھکا
لیں اور اپنے گلابی لبوں کو دانتوں سے کاٹنے لگا۔ میں نے دو بارہ ہمدردی سے پوچھا
۔۔۔بتاؤ کیا پریشانی ہے ۔اسنے اپنی جھکی پلکوں کو اوپر اٹھایا اور میری آنکھوں میں
جھانکتے ہوئے ۔۔۔انتہائی گلوگیر آواز میں بولا۔ باجی ۔۔۔۔میری امی بیمار ہیں انکی
دوا لینی ہے ۔۔۔مجھے آپ دوا لےدیی میرے بابا فوت ھو گئے ھیں۔اتنا کہتے ہیں اسکی
آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔یہ سب سن کے میری آنکھیں بھی نم ھو گئیں ۔۔۔میں نے جلدی
سے پرس کھولا اور پیسے نکالنے لگی تو وہ جلدی سے بولا باجی ۔۔مجھے پیسے نہیں
چاہیئے آپ بس دوا لےدیں۔۔۔میں نے کہا میں تمہیں دوا کے پیسے دیتی ہوں تم خود لے
لینا۔۔اسنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔۔باجی آپصرف ایک بار میری امی کو دیکھ لیں اس کے
لہجے نے مجھے اس کی جانب کھینچ لیا ۔۔اور میں نے اس کی آنکھوں میں غور سے دیکھا تو
ان میں التجاء اور امید کے چراغ روشن تھے میں نے فیصلہ کیا کہ چلیں آج یہ نیکی ہی
کما لوں۔شاید من کا بوجھ ہلکا ہو جائے خیر میرے پوچھنے پر اس نے گھر کا پتا بتا
بتایا جو کہ پرانا خانیوال روڈ پر ایک مضافاتی علاقے کا تھا میں اسے لیکر گاڑی میں
روانہ ہوئی میں نے پوچھا کچھ کھاؤ گے بیٹا تو ۔۔وہ بس چپ چاپ مجھے دیکھتا رہا
۔۔میں نے کچھ آگے ایک ریسٹورنٹ سے بریانی کے دو پارسل لئے اور پھر سے آگے بڑھا دی
گاڑی۔ خیر گھر پہنچنے تک مجھے اس کے بارے میں کافی معلومات مل چکی تھیں۔۔۔ •√√√•√•••••••••••••••••••••
میں کافی دنوں سے پریشان تھی وجہ صرف شاہ میر تھے شاہ میر شاہ میرا سب کچھ تھے
۔۔۔گو سوائے ویڈیو کال اور فون کے ھم کبھی ملے نہیں تھے ۔۔ہماری جان پہچان کو چار
مہینے ہوئے تھے ۔۔اور ھم ایک دوسرے سے بہت قریب اچکے تھے۔۔۔شاہ میر ۔۔جدہ سعودیہ
میں کسی فرم میں مینیجر تھے ۔۔۔پاکستان میں وہ لاھور سے تھے ۔۔۔شادی شدہ اور تین
بچوں کے باپ تھے۔ فیملی پاکستان میں ہی تھی ۔۔وہ اکثر نیٹ پر وقت گزارتے میرا ان
کا تعلق اسی فورم پر بنا ۔۔۔گو وہ مجھ سے عمر میں دگنے تھے ۔۔۔مگر انکی شخصیت ایسی
سحر انگیز تھی کہ بس جو بھی ان کو دیکھتا گرویدہ ہو جاتا۔ گفتگو کرنے میں اپنی
مثال آپ ۔۔۔فورم کی تقریباً ھر باشعور خاتون ان کی گرویدہ تھی۔ بس تنہائی کے لمحوں
میں نہ جانے ہمیں کب ایک دوسرے سے اتنا قریب کر دیا تھا کہ بس دل چاہتا کہ یہ دوری
پہ بھر میں ختم ھو اور میں اپنے ۔۔۔۔۔دلدار من ٹھار ۔۔۔۔میر کے قدموں میں
جاگروں۔۔۔۔ وہ اکثر مجھے اپنی خوبصورت باتوں سے فرمائے رکھتے جس سے من میں سلگتی
چنگاری بھڑک اٹھتی اور میں بے ھو جاتی ۔۔۔ایسا کر کے وہ ایک دو دن غائب ہو
جاتے۔۔اور جب میری بھڑکتی چنگاری کچھ ٹھنڈیانی ہوتی وہ پھر اسے سلگا دیتے۔۔۔۔اس کی
وجہ سے میں اکثر اداس رہنے لگی۔۔۔رات بھی کافی دیر تک میر نے اپنی دلفریب باتوں سے
مجھے تڑپایا بلکہ۔۔۔ویڈیو کال ہر ۔۔۔مجھے کپڑے اتار کر پیار کرنے کو کہا ۔۔۔میں نے
انکار کر دیا ۔۔تو وہ انتہائی شائستہ اور شیریں لہجے میں میری جانب دیکھ کر
بولا۔۔یار ثانیہ پلیز آج بس آخر بار دکھا دو ۔۔۔اپنا تراشا ھوا حسین
شاہکار۔۔۔خوبصورت چٹانیں۔۔۔۔۔اور خوبصورت صحرا کے عین درمیان سے گزرتی ہوئی ننھی
سی جھیل۔۔۔۔اور جھیل سے سیراب ہونے والے سنہری گھاس کا گراؤنڈ۔۔۔ میر کی آواز نے
مجھے جکڑ لیا۔۔۔۔میں مدھوش سی ھو گئی۔۔۔وہ بولاثانیہ مجھے سنہری گھاس کو سونگھا دو
ناں ۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔کچھ دیر کیلئے ہی سہی اپنی ننھی سی جھیل کے نم کناروں کا بوسہ
لینے دو ناں۔۔۔۔جھیل کے نمکین پانی سے ھونٹوں کی مٹھاس اور پیاس بجھانے دو
ناں۔۔۔ثانیہ میرا گھوڑا۔۔۔۔تمہاری تنی ہوئی چٹانوں کی چوٹی سر کرنا چاہتا کچھ
لمحوں کے لیے ہی سہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی اس گونگے پر ترس کر لو ناں
جان ۔۔پلیز۔۔۔۔۔۔میر کی باتوں سے میری جھیل میں تلا ہم آچکا تھا۔۔۔اور وہ فرط
جذبات سے لبریز اپنے کناروں کو نمکین پانی سے نم کر چکی تھی۔۔۔میں نے جلدی سے شرٹ
اور ٹراؤزر اتار پھینکے۔۔۔اور پھر موبائل کیمرے کے عین سامنے اپنی تنی ہوئی چٹانوں
کو دبوچنے اور مسلنے لگی۔۔۔۔۔ان میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔۔۔اس آگ کی تمتاہٹ سے چٹانوں
کی چوٹیاں بھی سلگ نے لگی ۔۔۔میں نوکیلی چوٹیاں مسلتے ہوئے مست ھو گئی ۔۔۔ادھر سے
۔۔۔۔میر بولے۔۔۔۔۔جان من ۔۔۔۔فیل کرو میں نے زبان کی نوک سے تمہاری سلگتی چوٹیاں
چاٹنے لگا ھوں۔۔۔پھر اس نے زبان نکالی اور شڑاپ شڑاپ کی آواز نکالنے لگا۔۔۔۔مجھے
لگا جیسے واقعی میں وہ میری چوٹیاں چاٹنے رہا ھو۔۔میں سسکنے لگی۔۔۔آہ۔۔ہ۔ہ
اف۔۔۔۔میر پلیز۔۔۔۔نوچ ڈالو۔۔۔ان کو۔۔۔جلدی سے کھاجاؤ۔۔۔۔۔اس کی گرم آواز
گونجی۔۔۔ھاں میری جان ۔۔۔میں اپنے دانتوں سے تمہارے دلکش پہاڑ کاٹ کاٹ کر کھا
جاؤنگا۔۔۔۔میرا ایک ہاتھ پھسل کر جھیل کنارے چلا گیا۔۔۔آس پاس کی بھیگی گھاس نے
میری انگلیاں گیلی ھو گئیں۔ میں سسکتے ھوئے بولی ۔۔۔میر ۔۔۔میرا کیا جرم ھے جان کب
تک یونہی دور سے تڑپاتے رھیں گے ۔۔پاس آکر مجھے سیراب کر دیں ناں ۔۔۔بس ایک بار
اپنی دیوانی کو سیراب کر دیں ۔۔۔وہ بولے ھاں جان ایک بار ہی کیوں زندگی بھر تمہیں
سیراب کرونگا بس اس بار آنے تو دو۔۔۔۔پھر وہ بولے ۔۔۔ثانیہ جھیل کے درشن تو کراؤ
ناں۔۔۔۔یہ دیکھو میرا گھوڑا کتنا بیتاب ہے جھیل کا گھاس کھانے اور اس میں ڈوب مرنے
کےلئے۔۔۔۔؟میں نے دیکھا تو ۔۔۔میر۔۔۔کا لمبا اور موٹا گھوڑا میری طرف رخ کیے جھٹکے
مار رہا تھا ۔۔۔اور غصہ سے اس کے گول منہ سے رال ٹپکنے رہی تھی۔۔۔۔یہ دیکھتے ہی
میں بہت بے چین ھو گئی ۔۔ اور تڑپتے ھوئے بولی۔۔۔میر ۔۔۔پلیز مجھے اپنا گھوڑا نہ
دکھایا کریں دن بھر دماغ پر چھایا رہتا ہے ۔۔۔۔ایسا نہ ھو کہ میں بہک جاؤں۔۔۔
۔۔میری بات سن کر میر بولے ۔۔۔چندا۔۔۔۔ایسا مت کہو ۔۔۔۔بس کچھ ہی دنوں کی بات ھے
پھر یہ گھوڑا تمہارے ہاتھوں میں ھوگا۔۔۔۔۔کافی دیر تک وہ اپنی باتوں سے مجھے
سلگاتا رہا ۔۔۔اور میں بہلتی رہی آخر کار۔۔۔۔اس کے گھوڑے نے الٹی کر دی ۔۔۔اور پھر
کچھ دیر بعد میں سو گئی۔۔۔اگلے دن بس وہی سوچیں تھیں۔ •••••••••••••••••√√√√√√√••••••••• ھم راجے کے گھر پہنچ چکے تھے۔۔۔۔راجہ اس بچے کا نک نیم
تھا اصل نام تو ریاض تھا مگر سب اسے راجہ کہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔باپ مر چکا تھا ۔۔۔ماں
بیمار پڑ ی تھی۔۔۔ماں باپ نے گھر سے بھاگ کر شادی کی جبھی ان کا کوئی بھی نہیں تھا
جو انہیں پال سکے ۔۔۔گھر اپنا تھا گھر کے باھر چند دکانیں تھیں جن سے کرایہ آتا
اور انکی گزر اوقات ہوتی۔۔مگر علاجِ کے لئے پیسے نہیں بچتے ۔۔۔راجہ کی ماں کا نام
تسلیم تھا ۔۔۔ہم گھر کے اندر داخل ھوئے کمرے میں ایک طرف بیڈ پر راجہ کی ماں نڈھال
پڑی تھی ۔۔۔راجہ نے اندر جاتے ہی ماں کے پیر چھوئے اور کہا امی ۔۔۔دیکھو کون آیا
ہے ۔۔؟ اس کی ماں نے ویران ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور راجہ سے پوچھا بیٹا
یہ کون ہیں ۔۔؟ راجہ ماں کے پیر چوم کر بولا۔۔امی یہ باجی آپ کی دوا کیلئے آئی ہیں
۔۔تو راجہ کی ماں بولی آؤ بہن ۔۔۔۔معاف کرنا میں آٹھ نہیں سکتی ۔۔۔پھر وہ قریب
اشارہ کرکے بولی بیٹھیں۔۔۔ میرا بیٹا راجہ پاگل ھے ۔۔۔۔ اس نے ایویں ہی آپ کو
تکلیف دی ہے ۔۔مجھے کچھ بھی نہیں بس کچھ دنوں تک ٹھیک ھوجاؤں گی۔۔راجہ کی ماں
۔۔لمبے قد آور گورے رنگ کی خوشحال گھرانے کی لگتی تھی مگر اس وقت وہ نقاہت سے
نڈھال پڑی تھی بکھری زلفیں آنکھوں کے گرد گہرے حلقے۔۔۔۔چہرے پر پیلا ھٹ۔ تھی
۔۔۔میں نے آہستہ سے تسلیم کا ہاتھ تھاما ۔۔۔اسکا ہاتھ بہت گرم تھا بخار کی حدت تھی
۔۔اور کہاتتسلیم تم نے بہن کہا ہے ناں تو اب بس بہن سمجھو بھی ۔۔۔چلو اٹھو شاباش
تمہاری دوا لینے چلتے ہیں ۔۔۔۔پھر میں راجہ سے بولی تم جب تک بریانی کھا لو پھر
چلتے ہیں ڈاکٹر کے پاس ۔۔۔راجہ نے بریانی والا پارسل اٹھایا اور صحن میں چلا گیا
تسلیم سے پوچھا کہ کب سے ہے تمہیں بخار تو اس نے بتایا ایک ماہ ہو گیا ہے ۔۔محلے
کے ڈسپنسر سے کئی بار دوا کے چکی ہے اور سرکاری ہسپتال سے بھی مگر کچھ فایدہ نہیں
ھوا۔۔اتنے میں راجہ بریانی پلیٹ میں ڈال کے آیا اور بیڈ پر ماں کے قریب بیٹھا اور
کہا لوماں چاول کھاؤ اس کی ماں بمشکل اٹھ کر بیٹھ گئی بیڈ کی بیک سے تکیہ لگاۓ۔وہ بولی بیٹا تم کھا کو ۔۔۔ مجھے بلکل بھی بھوک نہیں ہے۔ پھر راجہ
کے کھانے بعد ھم لوگ تسلیم کو سٹیشن ہسپتال کے آئے ڈاکٹر نے ایڈمٹ کر لیا ۔۔۔۔میں
نے پرائیویٹ روم لے لیا تھا اور تسلیم کا ٹریٹمنٹ شروع ھو گیا اسے ڈرپ لگی ھوئی
تھی انجیکشن کی وجہ سے وہ گہر ی غنودگی میں تھی۔۔رات کافی ھو چکی تھی ۔۔۔روم میں
ایک بینچ تھی جس پر میں اور راجہ بیٹھے تھے ۔۔۔راجہ مجھے بار بار تشکرانہ انداز
میں دیکھ رہا تھا ۔۔۔ میں نے سوچا گھر جاؤں ۔۔مگر یہاں تسلیم کے پاس راجہ اکیلا
تھا ۔۔خیر میں نے گھر امی کو بتایا میں دوست کے گھر ھوں صبح آؤنگی۔۔۔ میں نے بینچ
کے ایک کونے پر بیٹھے راجہ کو کہا تم یہاں سو جاؤ میں بیٹھی ہوں ۔۔۔تو وہ شرماتے
ھوئے بولا نہیں باجی ۔۔۔مجھے نیند نہیں آرہی ۔۔۔مگر اس کے بوجھل لہجے اور لال ھوتی
آنکھیں اس کی چغلی کھا رہی تھی۔۔۔میں نے اسے پیار سے تھپتھپایا اور کہا ادھر آؤ
ایسا کرو سر میری گود میں رکھ لو اور پاؤں دوسری طرف کرکے لیٹ جاؤ ۔۔۔وہ نہ نہ
کرتا رہا میں نے اسے پیار سے سر سے پکڑا اور سلا دیا ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ بھی نیند
کی آغوش میں چلا گیا ۔۔۔اب میں اکیلی تھی کیا کرتی ۔۔۔موبائل نکالا تو واٹس ایپ پر
۔۔۔میر کا میسج تھا ۔۔چندا لفٹ ہی کوئی نہیں ۔۔کہاں گم ھو۔؟ میں نے جوابا ۔۔ساری
کہانی سنا ڈالی ۔۔تو وہ بولا بہت اچھا کیا ہے کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتاؤ رقم
وغیرہ کی ۔۔تو میں نے کہا شکریہ ۔۔میر ۔۔مجھے بس آپ کی ضرورت ہے نہ جانے کب یہ
ضرورت پوری ھو گی ۔۔۔تو ان کی تصویر آئی جس میں انہوں نے اپنے گھوڑے کو ہاتھ میں
پکڑ کر اس کے گول منہ کو کھول رکھا تھا ۔۔سوراخ سے جھانکتا کا سرخ گوشت صاف دکھ
رہا تھا ۔۔۔یہ دیکھتے ہی ۔۔۔میرے ڈھیلے غباروں میں فوراً ہی ھوا بھرنے لگی ۔۔سانس
تیز ھو گئی۔۔میں نے جلدی سے سامنے بیڈ کی جانب دیکھا تو ۔۔تسلیم آنکھیں بند کئے سو
رہی تھی ۔۔اور پھر راجہ کی طرف دیکھا وہ بھی بے سدھ سویا ھوا تھا۔۔۔۔ اتنےمیں
۔۔۔میر۔۔۔نے ایک اور تصویر بھیجی ۔۔۔جس میں اس کے گھوڑے کے پھولے ھوئے منہ پر تھوک
لگا ھوا تھا ۔۔۔جو چمک رہا تھا ۔۔۔۔۔۔اور گھوڑے کی باڈی پر اس کی رگیں پھولی ھوئی
دکھ رہی تھیں۔۔ ساتھ ہی ٹیکسٹ لکھا تھا۔۔۔ چندا کی جھیل میں ڈبکی لگانے کیلئے تیار
۔۔۔اس کا غلام ۔۔۔ سٹی ہسپتال کے روم میں اس وقت ایک مریضہ کیساتھ موجود میری
فیلنگز چینج ھونے لگیں۔۔۔کانوں کی لوئیں تپنے لگیں ۔۔۔جسم اکڑنے لگا ۔۔۔ٹانگوں کے
درمیان سرسراہٹ سے ہونے لگی۔۔۔جھیل کے پانی میں بھی ہلچل سی مچنے لگی ۔۔۔اور چند
بوندیں چھلک کر گھاس کو سیراب کر گئیں۔۔۔۔۔عجیب کشمکش میں تھی ۔۔۔میری گود میں
سویا راجہ گہر ی نیند میں تھا ۔۔ میں بے چین ھو گئی تھی۔۔ اور میر سے کہا ۔۔۔۔یار
میر میں اس وقت ہسپتال میں ھوں پلیز مجھے معاف کر دو ۔۔۔آج۔۔ اسکا رپلائی آیا
۔۔۔کیا ھوا چندا ۔۔۔ میں بھی تو نائٹ شفٹ پر آفس میں ھوں۔۔۔۔ چلو اپنے مسمیوں کے
درشن کراؤ۔۔۔۔میں نے کہا ۔نو۔ ھرگز نہیں۔ تو اس نے کہا ۔۔۔ پلیز ۔۔ بہت طلب ھو رہی
ہے ۔۔ پلیز۔۔۔۔ من تو میرا بھی کر رہا تھا۔۔۔ مگر کبھی میں راجہ کو دیکھوں اور
کبھی اس کی ماں کو ۔۔۔۔۔ خیر میں کچھ سوچتے ھوۓ اٹھی اور روم سے باھر جھانک کر دیکھا کوئی بھی نہیں تھا گیلری
میں۔میں نے دروازے بند کر کے کندی لگا دی ۔۔۔اور پھر بینچ کے کونے پر بیٹھ کر اپنی
قمیض اوپر کی اور برا بھی اوپر کر کے ۔۔ ایک سیلفی لی اور ۔۔۔میر کو بھیج دی
۔۔۔میر نے تصویر دیکھتے ہی ویڈیو کال کی ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔میر ۔۔یار آپ خود دیکھ
لیں ۔۔۔میں اس وقت کس پوزیشن میں ھوں۔۔میر بولے چندا۔۔۔۔مجھے تو بہت مزہ آرہا ھے
اس انداز میں دکھاؤ تو اور کون کون ھے ساتھ ۔۔۔تو میں نے بیک کیمرے سے تسلیم اور
راجہ کو دکھایا ۔۔۔راجہ چونکہ میرے قریب سویا ھوا تھا اور اس کا سر میری ران کے
قریب تھا ۔۔۔ وہ میر کو واضح نظر آیا ۔۔۔میر بولے ۔۔۔۔چندا ۔۔تم نے غور کیا ؟ میں
نے پوچھا کہاں ۔۔۔؟ تو وہ بولے۔۔۔۔یہ جو بچہ ہے کیا نام بتایا تم نے ہا ں راجہ
۔۔۔اس کی ٹانگوں کے درمیان ابھار پر۔۔۔۔۔میں ایک دم چونکتے ہوئے موبائل سکرین پر
دیکھنے لگی ۔۔۔تو واقعی اس میں راجہ کی دونوں ٹانگوں کے درمیان ابھار صاف دکھائی
دے رہا تھا۔۔ میں نے سر ہٹاکر براہ راست راجہ کی رانوں میں نگاہ ڈالی تو میرے گرم
بدن پر چیونٹیاں سی رینگنے لگیں ۔۔۔راجہ کی قمیض کا دامن اس کی رانوں سے ہٹا ھوا
تھا اور اس کا گورا گورا پیٹ نظر آرہا تھا پھر اس سے نیچے ازار بند اور اس سے آگے
کافی اونچا ابھار جیسے کہ کوئی لکڑی وغیرہ کھڑی کی ھو ۔۔ میری کیفیت ہی بدل گئی
تھی اس ابھار کو دیکھ کر ۔۔۔ میں نے زبان پھیر کر اپنے خشک ھوتے لبوں کو تر کیا
اور ۔۔ھولے سے بولی ۔۔۔۔میر۔۔۔۔یہ تو واقعی راجہ کا ڈنڈا لگ رہا ھے ۔۔ مگر یہ تو
سو رہا پھر یہ ڈنڈا کیوں جاگ رہا ہے ۔۔۔تو آگے سے میر بولے چندا ۔۔۔لگتا ہے یہ
ڈنڈا تیرے لیئے جاگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔میں جھٹ سے بولی ۔۔پلیز میر۔۔۔ایسا نہ کہیں ۔۔۔
یہ ابھی بچہ ہے ۔۔اور اور پھر اس کی ماں بیمار ہے میں انکی مدد کیلئے یہاں آئی ہوں
۔۔ آپ مجھے کیوں ایسی باتیں کر کے بہکا رہے ہیں ۔۔۔میر نے کہا ۔سنو ثانیہ۔۔۔اس
لمحے اس حال میں بھی تمہیں طلب ھو رہی ہے ناں ۔۔۔تو بس یہ بچہ بہتر ہے تم اس سے
اپنی پیاس بجھا لو ۔۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ بچہ تمہیں کبھی بلیک میل
نہیں کریگا۔۔۔اور تم جب چاھو اسے استعمال کر سکتی ہو۔۔۔۔میں حیرت زدہ ۔۔۔میر کی
باتیں سن رہی تھی۔۔۔وہ بولا۔۔تم آھستہ سے اٹھو اور راجہ کے پیروں کی جانب سے دھیرے
سے اسکا ڈنڈا پکڑلو۔۔۔اور دیکھو کہ اگر وہ سوتا ہی رہے تو پھر دھیرے دھیرے سے اسے
اوپر سے ہی مسلو۔۔۔۔۔میں انکار کرنا چاہ رہی تھی مگر ۔۔۔اس وقت میں بلکل بے قابو
ھو چکی تھی ۔۔سامنے راجہ کا ڈنڈا تھا صرف ہاتھ بڑھانے کی دیر تھی ۔۔۔برسوں کی پیاس
بجھانے کیلئے یہ موقع اچھا تھا۔۔۔ادھر ۔۔میر ۔ے بھی اپنا گھوڑا کیمرے کے عین سامنے
کیا ھوا تھا اور اس پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔۔۔۔۔آخ کار میں اٹھی اور ایک نظر راجہ
سوئی ھوئی ماں پر ڈالی اور راجہ کے پہلو میں پیروں کے بل بیٹھ گئی۔۔ اب اس کا ڈنڈا
میری آنکھوں کے سامنے تنا ھوا تھا ۔۔۔میں نے کانپتے ہاتھوں سے اسکا سرا پکڑا۔۔۔۔اف
۔۔۔۔بہت ٹائٹ تھا ۔۔۔ہلکا سا دبایا۔۔ تو میری جھیل سے پانی کی بوندیں چھلکنے لگیں
۔۔۔۔زبان خشک ھو گئی۔۔۔میں نے آہستہ سے اس کے ڈنڈے کی جڑ سے پکڑا اور میٹھی بند
کرکے سہلاتے ہوئے اوپر سرے تک لے گئی۔۔۔میر یہ سب کیمرے میں دیکھ رہا تھا وہ بولا
۔۔۔ چندا آرام سے اس کا آزاربند کھولو۔۔ ۔۔۔ میں نے منہ پھیر کر پیچھے تسلیم کو
دیکھا وہ بے سدھ سو رہی تھی۔ اس وقت شدت جذبات سے میرے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔۔میرے
سامنے راجہ کی میلی شلوار میں تنا ھوا ڈنڈا تھا ۔۔۔۔۔میر کی آواز آئی ۔۔۔چندا کیا
سوچ رہی ھو ۔۔۔کھولو ناں اس کا آزاربند ۔۔ میں بولی ۔۔۔میر ۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے
۔۔۔ اس کی ماں اٹھ گئی تو ۔۔۔تو میر بولے۔۔۔پگلی وہ اب صبح ہی جاگے گی ۔۔تم بس ۔۔۔
اپنا دھیان ادھر ہی رکھو ۔۔۔۔میں نے پھر ہاتھ بڑھا کر راجہ کے سخت ڈنڈے کو پکڑ کر
دبا یا۔۔۔۔ کچھ دیر تک ہاتھ سے سہلاتی رہی۔۔۔ پھر ۔۔۔ اس کے ناڑے کا سرا آہستہ سے
اسکی شلوار میں سے نکا لا اور آہستہ سے کھینچا تو گانٹھ کھل گئی ۔۔۔ادھر سے میر
بولے ۔۔۔۔شاباش اب اس کی شلوار ڈھیلی کرو ۔۔۔۔ میں نے ایسا ہی کیا ۔۔۔ میر بولے
کافی زیادہ ڈھیلی کردو اتنی کہ اس میں سے اسکا ڈنڈا آسانی سے باھر نکل آۓ۔۔۔ میں نے مزید ڈھیلا کیا ۔۔۔ اور پھر اس کی شلوار کا اگلا حصہ
راجہ کے ڈنڈے سے نیچے کر دیا ۔۔۔۔ آف ۔۔۔۔واہ۔۔۔راجہ کی ۔۔گوری گوری چکنی رانوں کے
درمیان ۔۔۔ کا سرخ رنگ کا گول گول لمبا سا ڈنڈا ۔۔۔۔اس کی جڑ کے اردگرد سنہرے رنگ
کے بال تھے جو کافی بڑھے ھوۓ
تھے ۔۔۔میں بے اختیار آگے کو جھکی تو۔۔۔ میرے نتھنوں سے راجہ کے سنہری بالوں سے
اٹھتی مہک ٹکرائی ۔۔۔میں کسی مست نشئی کی طرح آنکھیں بند کرکے اسے سونگھنے لگی۔۔۔اف
۔۔۔کیا مہک تھی ۔۔۔۔۔راجہ کا ڈنڈا۔۔۔۔میر کے گھوڑے سے کافی چھوٹا اور پتلا تھا مگر
اس وقت وہ مجھے ۔۔۔میر کے گھوڑے سے کہیں بڑھ کر پیارا لگ رہا تھا ۔۔۔میں آنکھیں
موندے اس کی بالوں سے اٹھتی مہک سے لطف اندوز ہوتی رہی۔ پھر میں نے انگلیوں سے
راجہ کے سنہری بال سہلاۓ وہ
بہت نرم تھے ۔۔۔۔یونہی انگلیاں پھیرتی میں راجہ کے ڈنڈے کے نیچے چپکے گول گول
انڈوں پر پھیرنے لگی ۔۔۔۔میر بولے۔۔۔۔۔چندا ۔۔۔۔کیسا لگ رہا ہے ڈنڈا ؟ میں بولی
۔۔۔ بہت اچھا بہت ہی پیارا ۔۔۔۔تو وہ بولے پھر اس ڈنڈے کو چومو ناں ۔۔۔ پیار کرو
۔۔۔اس کا ذائقہ چکھو۔۔۔ دیکھو کیسا ٹیسٹ ھے ۔۔۔۔؟ میر کی باتیں میری بے چینی میں
مزید اضافہ کر رہی تھیں۔۔۔ میں آگے بڑھی اور راجہ کے ننگے ڈنڈے کو پکڑلیا۔ آف بہت
گرم تھا ۔۔۔ لوھے جیسا سخت ۔۔۔میں بولی ۔۔۔ میر ۔۔۔میری جان ۔۔یی تو سلگ رہا ھے ۔۔
تو میر بولے چندا ۔۔۔ اپنی زبان کی نمی سے اسے ٹھنڈا کر دو۔۔۔۔میں جھکی اور راجہ
کے ڈنڈے کی نچلی طرف اپنی زبان پھیری۔۔۔۔۔۔۔ آہہ۔ہ۔ہ۔ہ بہت ہی گرم نوک تھی راجہ کے
ڈنڈے کی ۔۔۔۔اتنے میں میر بولے۔۔۔۔چندا فرنٹ کیمرہ آن کر کے ڈنڈے کیساتھ سیلفی
کو۔۔۔۔میں نے جلدی سے فرنٹ کیمرہ آن کیا اور موبائل سامنے کر لیا اب میرے چہرے اور
موبائل کے درمیان راجہ کا خوبصورت ڈنڈا تھا ۔۔۔ میں نے منہ کھولا اور ڈنڈے کی نوک
کو منہ کے اندر لے کر ہونٹوں سے گرپ کر لی ۔۔۔ اور اسے چوسا تو ڈنڈے کی نوک سے ایک
نمکین قطرہ میرے منہ میں آگرا۔۔۔۔۔میں نے منہ پیچھے ہٹایا۔ اور ایک تصویر لی اور
اس نمکین قطرے کو پی لیا۔۔۔۔ پھر میں نے زبان باھر نکالی اور ڈنڈے کی موٹی نوک پر
مساج کرنے لگی ۔۔۔ میری جھیل سے مسلسل پانی جھڑ رہا تھا ۔۔۔ اور میں مزے سے نوک پر
مساج کررہی تھی۔ میں نے ڈنڈے کی جڑ سے زبان رکھی اور اسے چاٹتے ہوئے نوک تک لے آئی
اور نوک کے سوراخ سے جھانکتے ۔۔۔نمکین قطرے کو چوسا اور پھر نوک کو اپنے گلابی
لبوں میں لیاااور اندر ہی اندر زبان گھما گھما کر نوک کو چھوڑنے اور چوسنے لگی۔۔۔۔
کافی دیرتک چوسنے کے بعد میں نے ڈنڈے کارخ راجہ کے پیٹ کی جانب کردیا اب اس بھری
بھری بالز کو ۔۔۔۔چاٹنے اور چوسنے لگی ۔۔۔۔۔بہت ہی لذیذ ڈنڈا تھا ۔۔۔۔کماد کے رس
سے بھی زیادہ ۔۔۔اس لطف کو ۔۔اس مزہ کو محسوس کیا جاسکتا ہے مگر بیان نہیں۔۔ مجھے
ھوش کہاں تھا میں تو مست ھو چکی تھی۔۔۔ کہ میر کی آواز کانوں میں گونجی ۔۔۔ ثانیہ
ادھر سکرین پر دیکھو۔۔۔جیسے میری فلپائنی فرینڈز میرے گھوڑے سے کھیلتی ہیں تم بھی
اسی طرح راجہ کے ڈنڈے سے کھیلو۔۔۔۔میں نے سکرین پر دیکھا تو وہاں کا منظر دیکھ کر
میری جھیل میں طوفان سا آگیا ۔۔۔۔میر کے گھوڑے کو ایک فلپائنی لڑکی منہ ڈالے حلق
تک لے جانے کی کوشش کر رہی تھی۔مگر میر کا بڑا اور موٹا گھوڑا آدھے سے کچھ زیادہ
ہی جاتا تو لڑکی آنکھیں نکلنے لگتیں۔۔میر نے اسے بالوں سے پکڑ رکھا تھا اور اس کے
منہ میں اپنا منہ زور گھوڑا آگے پیچھے کرتے ہوئے دوڑا رہا تھا۔۔۔اور دوسری لڑکی نے
میر کے لٹکتے ھوئے بڑے بالز کو منہ میں لے کر مزہ سے چوس رہی تھی۔۔۔۔۔۔ مجھے انہیں
دیکھ کر عجیب سا لگا ۔۔۔۔اور میں میر سے بولی ۔۔۔پلیز چندا یہ مت دکھائیں مجھے
۔۔۔پلیز اور میں نے کال بند کر دی ۔۔۔۔ پھر سر جھٹک کر راجہ کی طرف دیکھا ۔میرے
سامنے ہی اس کا ڈنڈا چمک رہا تھا جس پر میرا تھوک لگا ہوا تھا ۔۔۔میں نے جلدی سے
اپنی قمیض اوپرکی اور برا بھی ااوپر کھسکا دی ۔۔۔۔ اور اپنے مسمیوں کو دباتے ہوئے
آگے بڑھی جھک کر نہ جانے مجھے کیا ھوا میں نے ڈنڈے کی نوک منہ میں لیکر اسے دانتوں
سے کاٹا۔۔۔۔ اف۔۔۔۔۔۔راجہ ۔۔۔۔ہلکی سی آواز نکالتا ہوا آٹھ بیٹھا ۔۔۔۔۔اور دونوں
ہاتھوں سے ڈنڈے کو چھپا لیا ۔۔۔۔۔میں نے اس کی نشیلی آنکھوں میں جھانکا ۔۔تو وہ
مجھے ھوا اور پریشانی کی ملی جلی جھلک دکھائی دی۔۔مگر اگلے ہی لمحے وہ شلوار اوپر
کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ باجی آپ ۔۔۔۔آپ یہ کیا کر رہی ہیں۔۔۔ ؟ میں اپنی انگلی ہونٹوں
پر رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ششش چپ ۔۔۔اگر تم نے کوئی حرکت کی ناں تومیں نے شور کر کے سب
کو اکٹھا کر لینا ہے کہ تم مجھے سوتے میں چھیڑ رہے تھے۔۔۔ میری بات سن کر ۔۔۔راجہ
کے چہرے کا رنگ اڑگیا وہ گھگیاتے ہوئے بولا تو اس کی زبان اٹکنے لگی ۔۔۔ وہ با
باجی میں تو ن نہ نہیں آپ یہ سب کر رہی ہیں۔۔۔میں نے تھوڑ سا سخت لہجے میں کہا
۔۔۔چپ بس جیسے کہوں ویسا ہی کرو چپ چاپ لیٹے رھو ۔۔ورنہ میں تمہاری ماں کو اٹھا کر
سب بتاتی ہوں ۔۔۔تو وہ جلدی سے ہاتھ جوڑے التجاء کرنے لگا ۔۔اپ کی مہربانی ہوگی
باجی آپ جو چاہتی ہیں کر لیں ۔۔۔پر میری امی کو نہ بتائیں۔۔۔۔۔ میں نے اس کے ڈنڈے
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔یہ کیوں ڈھیلا پڑ گیا ۔۔۔۔دوبارہ سے سخت کرو اسے ۔۔۔۔
تو وہ بولا باجی مجھ سے نہیں ھوگا آپ خود ہی کر لیں ۔۔۔میں نے کہا چلو پھر اپنے
کپڑے اتار دو۔ تو راجہ تذبذب میں پڑ گیا ۔۔۔میں بولی کیا سوچ رہے ہو ۔۔۔ اتارو ناں
۔۔۔یہ کہہ کر میں نے بھی خود کو بے لباس کر لیا۔۔۔راجہ بار بار میری تنی ھوئی
خوبصورت چٹانوں کی طرف دیکھتا اور کبھی میری ننھی سے جھیل کی گہرائی کی طرف ۔۔۔
راجہ بھی بے لباس ھو گیا ۔۔۔ اس کا چکنا بدن ۔۔۔ خاص طور پہ ناف سے نیچے ڈنڈے کے
اردگرد کے سنہری بال بہت بھلے لگ رہے تھے میں نے اسے بینچ پر بیٹھنے کو کہا وہ
ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گیا۔۔۔ اس کا ڈنڈا نیم مردہ حالت میں میں تھا ۔۔میں اس کے
پیروں میں بیٹھی اور اس کے ڈنڈے کو پکڑ لیا اور دھیرے سے سہلانے لگی ۔۔میر ہاتھ
لگتے ہی راجہ کے ڈنڈے میں جان پڑنے لگی اور وہ سخت ھونے لگا ۔۔۔۔ میں نے پوچھا
۔۔۔راجہ پہلے کبھی کسی کیساتھ یہ سب کیا ہے ۔۔۔۔؟ وہ بولا نہیں باجی ۔۔۔۔۔بس محلے
کے لڑکوں کو دیکھا ہے اور ان سے سنا ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے پوچھا اچھا تو کسی لڑکے سے
بھی نہیں کیا ۔۔۔؟ تو وہ بولا ۔۔۔۔ بس ایک ہماری دکان کا کرایہ دار کا بیٹا ہے وہ
چوپےلگواتا بھی ہے اور بولتا بھی ہے ۔۔۔ اس کیساتھ کبھی کبھی کرلیتا ہوں۔ اچھا تو
اسکا مطلب ہے تمہیں چوپے لگوانا پسند ہے ۔۔۔میں نے کہا ۔۔۔ تو وہ بولا نہیں باجی
۔۔ پلیز آپ ایسا نہ کریں ۔۔۔میری امی اٹھ گئیں تو میں تو مر ہی جاؤں گا ۔۔۔۔میں
بولی ۔۔۔ نہیں اٹھتی تمہاری امی ۔۔ میں بس تھوڑا سا چوہوں گی ۔۔۔تمہارا گنا ۔۔۔پھر
بس ۔۔۔ یہ کہہ کر میں نے منہ کھول کر راجہ کے اکڑے ہوئے گنے کو اندر لیا اور گنے
کی مانند چوپنے لگی ۔۔۔۔وہ اب بہت اجڑ چکا تھا ۔۔۔میں نے اس کی نوک پر زبان پھیری
اور پورا منہ میں لیکر چوسنے لگی۔۔میرے چوسنے سے راجہ بھی اب سسکاریاں بھرنے لگا
تھا ۔۔۔ اسکے منہ سے آہ ہ ہ اف کی آوازیں نکلنے لگیں۔۔۔ میں بہت تیزی سے منہ کو
آگے پیچھے کر کے چوپے لگاتی رہی ۔۔۔اور ایک ہاتھ سے راجہ کی رانیں سہلانے لگی
۔۔۔پوزیشن اس وقت یہ تھی کہ راجہ بینچ پر پاؤں لٹکائے بیٹھا تھا اور اس کی پشت بیڈ
کی طرف تھی ۔۔۔جہاں اس کی امی سوئی ہوئی تھی ۔۔۔اور میرا رخ راجہ کی طرف تھا میں
سر اٹھا کر تسلیم کو بھی دیکھ لیتی ۔۔۔ چوپے لگانے میں اتنا مست ہوئی کہ مجھے پتہ
ہی نہ چلا کب راجہ کی ماں جاگ گئی اور ہمیں دیکھنے لگی ۔۔۔میرے چوپے کافی تیز ھو
چکے تھے ۔۔۔۔راجہ بھی ایک اینڈ پر تھا وہ میرا سر پکڑے اپنے گنے پر دبا رہا تھا کہ
اس کے بدن اکڑنے لگا اور پھر ایک زور دار جھٹکے سے ۔۔۔اس کے گنے کا رس اچھل اچھل
کر میرے منہ میں گرنے لگا۔۔۔۔میں ایک دم پیچھے ہٹیں تو گنے کا شاور میرے چہرے پر
پڑا ۔۔۔۔اور رس کی کچھ بوندیں میرے گالوں پر پڑیں ۔۔۔میں نے راجہ کے ڈنڈے کو میٹھی
میں پکڑ کر آگے پیچھے کرنے لگی۔۔۔جب آخری قطرہ بھی نچوڑ لیا تو معا میری نگاہ بیڈ
پر پڑی۔۔۔تو تسلیم کی اور میری نظریں ٹکرائیں تو تسلیم نے منہ پھیرلیا۔۔۔۔میرے دل
پر جیسے کسی نے زور دار گھونسا دے مارا ھو ۔۔۔۔ میں آج اپنی نظروں میں ہی گر گئی
۔۔۔یہ نیٹ اور ویڈیو کالز اور اس طرح کی کہانیوں نے مجھے اتنا بھڑکا دیا کہ میں
عرش سے فرش پر جاگری۔۔۔۔۔۔ میں نے جلدی سے کپڑے پہنے اور راجہ کو کہا تم کپڑے پہنو
اور یہ نیچے کینٹین سے جوس لے آؤ۔۔۔ وہ کپڑے پہن کر نیچے چلا گیا اسے نہیں پتہ چلا
کہ اس کی ماں سب دیکھ چکی ہے ۔۔۔ راجہ کے جانے کے بعد میں شرمندگی سے آگے بڑھی اور
تسلیم کے پیروں میں بیٹھ گئی۔۔ وہ تکیہ میں منہ چھپائے رو رہی تھی ۔۔۔ اس کی
سسکیاں بڑھتی جارہی تھی۔۔ میں نے تسلیم کے پاؤں پکڑ لئے اور کہا بہن مجھے معاف
کردوں۔۔۔۔۔میں بہک گئی تھی۔۔۔۔۔۔پلءز۔۔۔ تو تسلیم نے چہرہ تکیہ سے نکال کر مجھے
دیکھا اس کی آنکھوں سے آنسؤوں کی برسات تھی جو بہت جارہی تھی۔۔۔۔۔۔آخر وہ گلوگیر
آواز میں بس اتنا بولی ۔۔۔۔۔ بہن ۔۔۔۔۔تم نے بھیک کی بہت بھاری قیمت وصول کر لی
ہے۔۔۔اب ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو۔۔۔ ایسا نہ ہو کہ میں خود کشی کرنے پر مجبور
ھوجاؤں ۔۔۔میں نے تمہیں سمجھنے میں غلطی کی فرشتہ سمجھ بیٹھی تھی ۔۔۔۔وہ مسلسل روۓ جا رہی تھی۔۔۔۔ میں بہت شرمندہ ھوں ۔۔۔مجرم ھوں آپکی ۔۔۔جو دل
چاہے سزا دو۔۔۔ مگر ایک بس ایک دل سے معاف کردو ۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے میں
اس کے پیروں میں جھک گئی تو تسلیم نے مجھے اوپر کھینچ لیا۔۔۔ اور کہا تمہارا احسان
اور اس کی قیمت زندگی بھر یاد رہے گی۔۔
0 تبصرے
THANKS DEAR