صرف ایک جھٹکا
صوفیہ۔۔۔۔
جی۔۔۔۔
اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔۔۔۔
کیسا لگا؟
صوفیہ نے شرما کر آنکھیں بند کر لیں۔۔
میرے ہاتھ اسکی ننگی کمر کو سہلا نے لگے۔۔۔
اسکی نرم گداز چھاتیاں میرے سینے سے لگی تھیں اور اسکی
ننگی ٹانگ میری ٹانگ پر موجود مجھے سکون کا احساس دے رہی تھی....
اسکے گھٹے سے کچھ اوپر میرا لنڈ دوبارہ انگڑائی لینے لگا
تھا۔۔۔۔
اسکے ننگے جوان تازہ بدن میں عجب نشہ تھا۔۔۔۔
میں نے اسکے ماتھے کو بوسہ دیا تو اس نے شرما کر میری
طرف دیکھا۔۔۔۔
عجب کشش تھی اس میں
تبھی تو میں اسکی طرف راغب
ہوا تھا۔۔۔۔۔
چچا۔۔۔
اسکی مدہوش آواز سنائی دی۔۔۔۔
کچھ بدلےگا تو نہیں نہ۔۔۔۔
نہیں کاکی۔۔۔۔۔
میں نے اسکی ننگی کمر سہلاتے ہوئے اسکو خود کے اور پاس
کرلیا.....
کچھ نہیں بدلےگابس اگلی دفع جب بھی تم۔چاہو خود سے پاس
آجانا
صوفیہ نے شرما کر نظرہں جھکا لیں اس کی ہاتھ میرے سینے
کے بالوں کو سہلانےلگے۔۔۔
میری چھاتی کے بالوں سے میرے پیٹ تک اس کے ہاتھوں کا
احساس میرے لنڈ کو دوبارہ جگانے کے لئیے کافی تھا
میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو اپنے اب انگڑائیاں لے کر
تیار ہوتے ہوئے لنڈ پر رکھ دی تو اسکے جسم نے جہسے ایک جھرجھری لی
اس نے نظریں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور میرے لنڈ
کو سہلانا شروع کر دیا
می نے اس ک ملائم ہونٹوں کو اپںنے ہونٹوں میں لے
کر چومنا شروع کر دیا
اسکا گداز جسم اور ننگی چھا تیاں مجھے اور سرور
دینے گے۔میں نے اسے اپنے پاس کیا اور اس کے اوپر آگیا
اسکے ہونٹوں کا رس بہت لذیذ تھا
اگرچہ وہ فرسٹ ائیر میں تھی ابھی لیکن اسکا جسم بہت بھرا
بھرا اور گداذ تھا۔۔۔
اپنی ماں جیسا۔۔۔۔۔
اور لطف بھی۔۔۔۔۔
مجھے یاد تھا کئی دفعہ اسکی ماں کے ساتھ بھی ایسے ہی کئے
حسین لمحے گزارچکا تھا میں
اور اب صوفیہ اپنی ماں کی جگہ لینے کے لئیے تیار تھی
ویسے ہی چوڑا گداز جسم
بھری بھری چھاتیاں
گانڈ سڈول اور متوازن انداز میں بھری ہوئی
جسم پر ہلکے ہلکے نامحسوس بال
اور
وہی خوشبو....
اسکی ماں کے ساتھ بھی بہت سے حسین پل میں نے یونہی اس کے
اںدر اتر کر بتائے تھے۔۔۔۔
میرا لنڈ آہستہ آہستہ اسکی نازک چوت پر رگڑ کھا رہا تھا
اور میری زبان اب اسکے منہ میں طواف کررہی تھی
اسکے سینے کے ابھارمیری بالوں بھرے سینے سے رگڑ کھا رہے
تھے۔۔۔۔
میرا لنڈ اب مکمل تیار تھا۔۔۔۔
میں نے صوفیہ کی ننگے کندھوں
کو اپنے ہونٹوں سے چوما
میرے لنڈ کی ٹوپی آہستہ سے اسکی چوت کے ہونٹوں میں داخل
ہوئی
اسکی چوت کے بہتے دھاروں نے میری لنڈ کے لئییے راستہ
آسان کردیا تھا۔۔۔۔
اف۔۔۔۔۔ اس نے ایک جھرجھری
لی۔۔۔۔۔چاچا۔۔۔۔۔
اسکے منہ سے ایک سسکی نکلی۔۔۔۔۔ اور اسکے دونوں ہاتھوں
نے میرا سر ہلایا۔۔۔۔
میں نے جلدی نہ کی بلکی آرام آرام سے اس میں اترناجاری
رکھا تاکہ اس درد ک احساس کم ہو۔۔۔۔
آہستہ میں اس کی چوت میں اترتا گیا۔۔۔۔۔
میرے ہونٹ اب اس کے سینے کے ابھاروں کو کو اپنے اندر لے
کر چوس رہےتھے
اسکی بھری بھری چھاتیاں اپنی ماں کے مقابلے میں بہت سڈول
اور جوان تھیں۔۔۔۔
میرا لن اب اسکی تازہ چوت میں پورا اتر چکا تھا۔۔۔۔۔
میں ایک ایک لمحے کالطف لے رہا تھا۔۔۔۔
اسکی دبی دبی سسکیاں بھی اسکے من کی کیفیت کابتا رہی
تھیں۔۔۔۔
ہر جھٹکے کے ساتھ اسکی مدہم سے سسکی۔۔۔۔
اسکے سانسوں کی تیزی۔۔۔
اسکے چہرے کی لالی۔۔۔۔۔
مجھے اس پر بےپناہ پیار آ
رہا تھا۔۔۔۔
وہ معصوم سےلڑکی آج کلی سے
پھول بن کر اور حسین ہوگئی تھی۔۔۔۔
میں نے اسکے چہرے کو دیکھا۔۔۔۔۔
ایک عجب سکون تھااس میں۔۔۔۔۔
صوفیہ۔۔۔۔۔
جی۔۔۔۔۔۔ اس نے شرماتے ہوئے نظریں جھکا لیں۔۔۔۔۔
میں نے آگے بڑھ کر اس کے پونٹوں کو چوم لیا۔۔۔۔۔۔
اس نے اپنی بانہیں میرے گرد کس لیں ۔۔۔۔۔۔
آہ ہ ہ ۔۔۔۔۔
ایک جھرجھری۔۔۔۔۔
میرا لنڈ اسکی چوت کی گہرائیوں سے لطف اٹھا رہا تھا۔۔۔۔
اسکے بدن کی جھرجھری اس بات کا ثبوت تھی کہ اسکی نازک
چوت رس چھوڈ چکی۔۔۔۔۔
اسکی تیز سانسیں مدہوش کن تھیں۔۔۔۔۔
اور میں اسکی ایک ایک پور کا لطف لیتا ہوا ایک باد پھر
اسکی چوت کی گہرائیوں میں چھوٹ گیا۔۔
میں نے سر اسکی گدازچھاتیوں
پر رکھ دیا۔۔۔۔
اسکی دھڑکن اب دھیمی ہونے لگی تھی۔۔۔۔
اسکے ہاتھ اب میری کمر کو سہلا رہے تھے
میں آنکھیں بند کئیے اس لمحے کا لطف لے رہا تھا۔۔۔۔۔
چاچا۔۔۔۔۔
اس نے میرا سر چومتے ہوئے
کہا۔۔۔۔۔
چھوڑو گے تو نہیں ناں؟
میں نے سر اٹھا کر اسکی طرف
دیکھا
وہ میری طرف ہی دیکھ رہی
تھی۔۔۔۔
میں نے اسکی چھاتی کو چومتے ہوئے اوپر کو اٹھا اور اسکے
چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔۔
کبھی بھی نہیں کاکی۔۔۔۔۔۔
میں نے اسکے ہونٹوں کو چومتے ہوئے کہا۔۔۔۔
آئی لو یو چاچا۔۔۔۔۔
اس نے مجھے اپنی بانہوں میں
بھر لیا۔۔۔
میں اب آپکی ہوں چاچا۔۔۔۔۔
مجھے پتہ ہے میری جان
میں نے بھی اسکے ہونٹوں کو
چومتے ہوئے کہا۔۔۔۔
وہ اور دونوں جانتے
تھے۔۔۔۔۔۔اب ہم کبھی بھی ایک دوسرے سے دور نہیں جا سکتے۔۔۔۔۔
ثمینہ نے گھڑی کی طرف دیکھا۔۔۔۔
صبح کے دس بج چکے تھے۔۔۔۔۔
ثمینہ نے دروازہ کے پٹ پر
ہاتھ رکھا تو وہ کھل گیا۔۔۔۔
اس نے کمرے میں داخل ہو کر کمرے میں نظر دوڑائی۔۔۔۔۔
فرش پر صوفیہ اور احمد کے
کپڑے بکھرے تھے۔۔۔ اسکی نظر بیڈ پر گئی جہاں صوفیہ سو رہی تھے۔۔۔۔
سب چییزوں سے بیگانی ہو
کر۔۔۔۔۔
باتھ روم سے شاور کی آواز
سنائی دے رہی تھی مطلب احمد اندر نہا رہا تھا۔۔۔۔
سفید چادر میں صوفیہ کا گورا ننگا جسم اسکی
خوبصورتی کی گواہی دے رہا تھا۔۔۔۔
اسکے بکھرے بال اور ننگے کندھے اسکی کل رات کی داستان
سنا رہے تھے....
وہ صوفیہ کےپاس جاکر بیٹھ گئی اور اسکے بالوں کو
سہلایا۔۔۔۔
صوفیہ نے آنکھیں کھولیں اور اسے سامنے پا کر مسکرا دی .....
صبح بخیر ماما جی۔۔۔۔۔۔
صوفیہ نے انگڑائی لے کراپنی ماں کو مسکرا کر دیکھا۔۔۔۔۔
صبح بخیربیٹا جی۔۔۔۔۔
ثمینہ نے صوفیہ کے گالوں سے
بالوں کو ہٹا کراسکا ماتھاچوم کرکہا۔۔۔۔۔۔
کیسی رہی میری بیٹی کی پہلی
رات۔۔۔۔۔
ثمینہ نے صوفیہ کے سر
کوسہلایا۔۔۔۔۔
واہ جی۔۔۔۔
ثمینہ نے چادر ہٹا کر صوفیہ کی ننگی ٹانگوں کو دیکھ جن
پررات کی کارویی کے اثرات ظاہر تھے۔۔۔۔
بستر کی چادر پر پھہلی ہلکی
ہلکی سرخی اسکی بیتے کے عورت بنجانے کا ثبوت تھی
ماما جی۔۔۔۔۔۔۔ صوفیہ نے شرما کر چادر دوبارہ اوپرکھینچ
لی۔۔۔۔
نہ کریں ناں۔۔۔۔۔ اسنے شرما
کرکہا۔۔۔۔۔
ذیادہ درد تونہیں ہوا۔۔۔۔۔
ثمینہ نے اسکے سینے پر ہاتھ پھیرا۔۔۔۔۔
نہیں ماما جی۔۔۔۔۔۔
صوفیہ اٹھ کراپنی ماں کے گلے
لگ گئی۔۔۔۔۔
اب چپ
ہاہاہاہا اچھا جی۔۔۔۔۔
ثمینہ نے اسکی ننگی کمر سہلائی.....
واہ جی ماں بیٹی میں بہت
پیار ہو رہا ہے۔۔۔۔۔
احمد کی آواز نے انن دونوں کو الگ کیا۔۔۔۔
صوفیہ نے شرما کراپنی چادر اپنے سینے تک کر کے اپنی
گدازچھاتیوں کو ڈھانپ لیا ۔۔۔۔۔۔۔
احمد کمرے میں ننگا کھڑا
تھا۔۔۔۔۔
نہانے کے بعداسکا بھیگاجسم مردانگی کاپیکرلگ
رہاتھا۔۔۔۔
اسکا لنڈ آدھا تیار دوبارہ
جوبن پر آنے کے لئیے اشارے کا منتظرتھا۔۔۔۔۔۔
شرم۔کرو بے شرم۔۔۔۔۔ کچھ تو پہن لو۔۔۔۔۔
ثمینہ نے اسکی طرف ٹاول پھینکا۔۔۔۔۔
احمد نے ٹاول اپنے کندھے
پرڈال لیا۔۔
کیوں بھابی جان ایسی کونسی
چیز ہے جوآپ نے یا صوفیہ نے پہلےنہیں دیکھی یا اپنے اندر لی نہیں۔۔۔۔
احمد یہ کہتاکہتابیڈ کے پاس آ چکا تھا۔۔۔
اسکا لنڈ اب ثمینہ کے چہرے
کےسامنے لہرا رہا تھا۔۔۔۔۔
شرم کرو۔۔۔۔۔گدھے۔۔۔۔۔ ثمینہ
نے اسکے لنڈ پہ پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور اسکو سہلایا۔۔۔۔۔۔
اب اس پر میری بیٹی کاحق
ہے۔۔۔۔۔
ثمینہ نے صوفیہ کی طرف مسکرا
کر دیکھا۔۔۔۔۔
امی۔۔۔۔۔۔۔صوفیہ نےچادرمیں
منہ چھپا لیا۔۔۔۔۔۔
جی نہیں جناب۔۔۔۔۔۔
احمد نے ثمینہ کے گال سہلا
کرکہا۔۔۔۔۔۔
جب جب آپکی طلب ہو گی تب تب
آپکو آنا ہوگا۔۔۔۔۔
اچھا جی۔۔۔ اتنا
شوق۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
ثمینہ نے اسکے لنڈ کو سہلاتے
ہوئے اپنے ہاتھ سے دبا کر کہا۔۔۔۔۔۔
اف ف ف ف۔۔۔۔۔۔ ظالم بھابی ذرا آرام سے۔۔۔۔۔
کیوں اب درڈ ہو رہا ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟ ثمینہ نے دوبارہ لنڈ
کی ٹوپی کو اپنی انگل کے درمیان دبا کر کہا۔۔۔۔۔
اب کیوں درد ہو رہا ہے
سرکار۔۔۔۔۔ رات میری بیٹی کو جو درد دیا ہے وہ۔۔۔۔
آہ ہ ہ ظالم ۔۔۔۔۔ احمد نے
درد کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
درد سے ذیادہ مزہ دیا ہے آپکی بیٹی کو۔۔۔۔۔۔پوچھ لیں اس
سے....
اچھا جی۔۔۔۔۔ثمینہ نے لنڈ کی
ٹوپی کو تھوڑا اور دباہا
کیوں صوفیہ مزہ دیا ہے چاچا
نے؟؟؟؟
ثمینہ نے اپنی بیٹی کی طرف
دیکھا جوان دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔۔۔۔
اس نے شرماکرنظریں
جھکا لیں۔۔۔۔۔
ماما جی جائیں آپ۔۔۔۔
اس نے شرما کراپنی ماں کو
بیڈسےدھکیلنے کے لئیے زور لگایا۔۔۔۔
اچھاجی۔۔۔۔ اب چاچا کا لنڈ
مل گیا ہے اب ماں کے ساتھ تویہ کرنا ہی تھا نہ۔۔۔۔۔
ثمینہ نے بیڈ سے اٹھکر
کہا۔۔۔۔۔
اور جناب آپ۔۔۔۔۔۔ ثمینہ نے
اب احمد کے لنڈ کی ٹوپی کو اور دبا کر کہا۔۔۔۔۔
میری بیٹی کو اگر اصل
مزہ نہ نہ دیا تو می نے کاٹ دینا ہے اسے۔۔۔۔۔
اور ۔۔۔۔۔۔
ثمینہ احمد کے کان کے پاس
اپنے ہونٹ لے جا کر آہستگی سےبولی۔۔۔۔۔۔
جب جب مجھے یہ چاہئیے
ہوامجھے اتنا ہی سخت چاہئیے جتنا اسوقت میری بیٹی کے لئیے ہے سمجھے۔۔۔؟؟؟؟
جی جی جی ظالم عورت ۔۔۔۔۔۔
احمد نے کسمساتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
چلو اب جلدی سے دونوں نیچے آؤ ناشتے پر۔۔۔۔۔ اور صوفیہ
بیٹا اچھی طرح نہاکر آن,ا اور ڈیٹول سےنہا لینا۔۔۔۔
جلدی آؤ۔۔۔۔۔
ثمینہ یہ کہ کر کمرے سے باہر
کی طرف چل پڑی
ثمینہ کمرے میں داخل ہوئی تو اندر کامنظر بہت عجیب
تھا۔۔۔۔۔
اسکی بیٹی صوفیہ کمرے کی
مدہم روشنی میں بستر پر لیٹی تھی۔۔۔۔۔ اسکا ٹراؤزر اور شرٹ زمین پر پڑے تھے اور
سامنے کا منظر ثمینہ کے لئیے حیران کن تھا۔۔۔۔
اس مد ہم روشنی میں بھی وہ
دیکھ سکتی تھی کہ اسکی بیٹی آنکھیں بند کیئے اپنی چوت پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اسکا الٹا ہاتھ اسکی چوت کے
دانہ کوسہلا رہا تھا اور سیدھا ہاتھ اسکے سینے پر اسکی سیدھے ہاتھ والی چھاتی کو
مسل رہا تھا۔۔۔۔
اسکی بند آنکھوں اور دانتوں تلے دبے ہونٹوں سے ثمینہ کو
اندازہ ہو ریا تھا کی وہ اسوقت بھرپور لطف میں ہے۔۔۔۔
اسکے ہاتھ کی حرکت تیز ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔
اسکی تازہ جوان چوت پر بالوں کی ہلکی ہلکی جھالر بہت
پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔
چھاتیاں ننگی اور مکمل گولائی میں۔۔۔۔ بھورے رنگ کے موے
دانے جیسے نپل۔۔۔۔۔۔
گورے بدن پر اسکے اثاثے کمال تھے۔۔۔۔
ثمینہ اسکو دیکھ کر مسکرا دی
کسی بھی مرد کے لئیے صوفیہ
کا جسم ایک مثالی جسم تھا
ثمینہ اس روز کلینک سے تھوڑا
جلدی آگئی تھی
صوفیہ شاید اس بات سے بے خبر اپنے کمرے ک دروازہ بند
کرنابھول گئی تگی کہ ماں جلدی بھی آ سکتی ہے
اسکا شمار لاہور کی مشہور گائناکالوجسٹس میں ہوتا تھا
صوفیہ اسکی بڑی بیٹی تھی جو کہ لاہور کالج میں فرسٹ ائیر
میں پڑھ رہی تھی۔۔۔۔
ثمینہ کچھ دیر یونہی اپنی
بیٹی کو دیکھتی رہی۔۔۔۔
اسے اس پر پیار آنے لگا
اس میں کچھ غلط بھی نہیں تھا
وہ اپنے فطری تقاضے پورے کر رہی تھی۔۔۔۔
اسے صوفیہ کا ننگا جسم۔دیکھ کر اچھا لگا کہ اسکی بیٹی
اسکی طرح مکمل جوان اور بھری ہوئی ہے
مضبوط رانیں
کولہوں کی متناسب گولایاں
ابھرا ہوا سینہ اور گورا گداز جسم
اسکو دیکھ کر ہمیشہ ثمینہ کو اپنی جوانی یاد آتی تھی
ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے اس
نے اپنے آپ کو اور اپنی بیٹی کو جسمانی طور پر بہترین حالت میں رکھا ہوا تھا۔۔۔۔
آج بھی چالیس سال سے اوپر کا ہونے کے باوجود اسکا
جسم بلکل متناسب تھا۔۔۔۔۔
شوہر کے ساتھ سیکس لائف اگرچہ بہت
ذیادہ نہیں تھی مگر اس نے خود کی دلچسپی کے لئیے کافی
سامان رکھے ہوئےتھےجن میں سر فہرست اسکا دیور تھا۔۔۔۔۔اسکا لنڈ کافی عرصے سے اسکی
چوت کی پیاس بھجاتا آیا تھا۔۔۔۔ اسکی علاوہ بھی کبھی کبھی ضرورت کے لئیے کچھ مرد
اور ایک دو عورتیں بھی اس کے اس کام میں اسکا ساتھ دیتی تھیں مگر بھروسہ اور سکون
اسے صرف دیور کے ساتھ ہی آتا تھا۔۔۔۔ایک تو وہ بھی اس سے بہت پیار کرتا تھا
دوسرااسکا لنڈ تھابھی بت جاندار
کچھ دیر یونہی صوفیہ کو دیکھنے کے بعد اس نے اپنے ذہن
میں ایک پلان بنایا
وہ سمجھ گئی تھی کہ اب اسکی بیٹی اس عمر کوپہنچ چکی ہے
جہاں اسے ایک مضبوط لنڈ کی ضرورت ہے....اور لنڈ بھی ایسا جس پر بھروسہ کیا
جا سکے۔۔۔۔۔ اور وہ لنڈ کسکا تھاثمینہ کو فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگی
احمد۔۔۔۔۔
ثمینہ نے اسکے بالوں بھرے
سینے میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
جی بھابی۔۔۔۔۔ احمد نے اسکے
ہونٹ چوم کر کہا۔۔۔۔۔۔
تمہیں صوفیہ کیسی لگتی
ہے۔۔۔۔؟؟؟
ثمینہ نے اسکے پیٹ کی گہرائی
میں انگلی پھیر کر کہا۔۔۔۔۔۔
صوفیہ تو اپنی جان ہے
بھابھی۔۔۔۔ اپنی کاکی ہے۔۔۔۔۔احمد کا کاتھ اسکی گانڈ کو سہلانے لگا۔۔۔۔۔۔
کبھی اسکو چودنے کا نہیں
سوچا۔۔۔۔۔؟؟؟؟ ثمینہ نے اسکے لنڈ کے ٹوپے کو انگلی سے سہلایا۔۔۔۔۔۔
سوچا تو ہے بھابھی سچ پوچھیں تو۔۔۔۔۔ کیونکہ بلکل آپکی
جوانی دکھتی ہے۔۔۔۔ مگر ابھی بچی ہے۔۔۔۔۔ سہہ نہیں پائیگی ۔۔۔۔۔۔
سہہ لے گی احمد۔۔۔۔۔ جوان ہے
اب۔۔۔۔۔ ہر لڑکی سہہ لیتی ہے۔۔۔۔اگر سہنا چاہے تو۔۔۔۔ اور لنڈ والا اسکا اپنا ہو
تو۔۔۔۔سہنامشکل نہیں
کیا مطلب بھابھی آپکا۔۔۔۔۔؟؟؟؟
احمد نے ثمینہ کی طرف دیکھ
کر کہا۔۔۔۔۔
دیکھواحمد۔۔۔۔
ثمینہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔
اس کے ہاتھ احمد کے نیم جاگے
لنڈ کوسہلانے لگے۔۔۔۔
صوفیہ اب جوان ہو گئی
ہے۔۔۔۔اب اسکو ضروت ہے کہ کوئی اسکی طلب بھجائے۔۔۔۔ اور میں نہیں چاہتی کی وہ یاں
توانگلی کا سہارا لے کر سیل توڑ لے یاں باہر کہیں کسی کے ساتھ کچھ کرے۔۔۔۔نہ مزہ
ہونہ بھروسہ۔۔۔۔۔
میں چاہتی ہوں اسکی یہ طلب
تم پوری کرو۔۔۔۔۔
تمہارا بھی بھروسہ ہےمجھے اور تمہارے اس لنڈ کابھی۔۔۔۔۔
ثمینہ نے نیچے جھک کر احمد
کے لنڈ کو چوما۔۔۔۔
احمد کا لنڈ اب کافی حد تک
تیار تھا۔۔۔۔۔ثمینہ کی باتیں اور اسکا لمس اسکو تیار کرنے کے لئیے کافی تھا
وہ سب تو ٹھیک ہے بھابی مگر یہ سب ہوگا کیسے۔۔۔۔۔۔۔صوفیہ
کیسے مانے گی۔۔۔۔
وہ تم مجھ پر چھوڑدو۔۔۔۔۔
ثمینہ احمد کے لنڈ کو سیدھا کھڑا کر کہ سہلانے لگی۔۔۔۔
مگر بھابی۔۔۔۔۔۔۔احمد نے
اسکی چھاتی سہلاتے ہوئے کہا
احمد میں ماں ہوں ۔۔۔۔۔ میں
اسکی عمر کی طلب سمجھتی ہوں
میں جاںتی ہوں اسکو ایک اچھے لنڈ کی طلب ہے اور اسکی عمر
کے لڑکے اسکو وہ مزہ نہیں دے سکتے ۔۔۔۔۔۔ جوتم یاں تمہارا لنڈ دے سکتا ہے....
ثمینہ نے بیڈ پر کھڑے ہوتے
ہوئے کہا۔۔۔۔
احمد کالنڈ مکمل تیار
تھا۔۔۔۔۔۔ثمینہ کی چوت بھی۔۔۔۔۔۔
ثمینہ نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا
کر بیڈ کے دوسری طرف رکھی اور آہستہ سےنیچےبیٹھناشروع کیا۔۔۔۔۔ اسکو بیٹھتا دیکھ
کر احمد سمجھ گیا اور لنڈ بلکل سیدھا کردیا۔۔۔۔۔ثمینہ نےلنڈ پکڑکر اپنی چوت کے
نیچے سیٹ کیا اور آرام سے اس پر بیٹھ گئی.....
آہ۔ہ۔ہ۔ہ۔۔۔۔۔
یہ چیز احمد۔۔۔۔۔ یہ کے وہ
چیز جواسکو اسکی عمر کا کوئی لڑکا نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔ یہ مضبوطی۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔اسکے منہ
سے ایک سسکی نکلی جب لنڈ اسکی چوت میں اترنا شروع ہوا۔۔۔۔۔یہ مزہ۔۔۔۔
ثمینہ نے اپنج چوت کو اسکے
لنڈ کےگرد ہلانا شروع کیا۔۔۔۔
اسکےہاتھ پیچھے کو بیڈ پر
تھے جن سےسہارا لے کر وہ اپنے چوت رگڑ رہی تھی.....
میں چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔
کی صوفیہ کی سیل تم توڑو۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔ تاکہ۔۔۔۔۔ ممممم۔۔۔۔۔اسکو بھی وہی سکون اور
اعتماد ملے۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔۔جو کہ مجھے ہے احمد۔۔۔۔۔
اسکی چوت مسلسل احمد کےلنڈ
کولےکر اپنے اندر اوپر نیچے کو رہی تھی۔۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔ ویسے بھی احمد۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں۔۔۔۔۔
ثمینہ آگے کوجھکی اور احمد کی تھوڑی کو کاٹتتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔ احمد میں
چاہتی ہوں میری بیٹی کو بہترین ملے۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔
تم سےبہتر کوئی مرد میری
بیٹی کو وہ سب نہیں دے سکتا۔ ۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔ثمینہ اب تیزی سے اسکے لنڈ
پراوپرنیچے ہو رہی تھی
آہ۔۔۔۔احمد میں چاہتی ہوں
میری بیٹی بھی پورے اعتماد کے ساتھ وہ مزہ لے اپنی چوت کے لئیے جومیں تم سے لیتی
ہوں۔۔۔۔آہ۔۔۔تمہارا یہ لنڈ۔۔۔۔۔اسکی چوت۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔مممممممم۔۔۔۔۔۔اسکی چوت کا بہت
خیال رکھے گا۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔احمد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجری بیٹی کو بھی وہ بہترین لطف دو
جومجھے دیتے ہو۔ ۔۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔بھابی۔۔۔۔۔۔۔۔ ضرور
۔۔۔۔۔۔۔ احمد نے ثمینہ کی گانڈ دباتے ہوئے کہا
۔۔ ایک جھٹکا۔۔۔۔۔ دو جھٹکے۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔ثمینہ کا جسم
جھرجھرایا۔۔۔۔۔اسکی چوت سے پانی کی ایکآبشار احمد کےلن کو بھگوگئی۔۔۔۔۔۔ اس نے
مدہوش ہو کر احمد کے سینے پر سررکھ دیا۔۔۔۔۔۔ احمد اسکی ننگی کمر کو
سہلانےلگا۔۔۔۔۔۔
احمد۔۔۔۔۔۔ثمینہ نے اسکے ہونٹوں کوچومتےہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
میں اپنی بیٹی کےلئیےبہترین
چاہتی ہوں۔۔ اور میری نظر میں تم سےاچھا کوئی نہیں۔۔۔۔۔۔ بولو۔۔۔۔۔۔ منظور ہے۔۔۔
منظور ہے بھابھی۔۔۔۔۔ احمد نے ثمینہ کے ہونٹوں کو چومتے
ہوئے کہا۔۔۔۔۔
مگر صوفیہ مانے گی کیسے۔۔۔۔,؟؟؟؟
وہ تم مجھ پرچھوڑ دو۔۔۔۔۔
ثمینک نے احمد کے لنڈ سے اترتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
یہ اب میرا کام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکو اپنی بیٹی کے لیئے جو
چاہییے تھا وہ مل گیا تھا۔۔۔۔ایک بھروسے والا لنڈ
صوفیہ ۔۔۔۔۔۔
جی ماما۔۔۔۔۔۔
بیٹا سو تو نہیں گئے۔۔۔۔۔۔ ثمینہ نے صوفیہ کے کمرے کا
دروازہ کھولمراندرآتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
نہیں ماما۔۔۔۔۔ آجائیں۔۔۔۔۔۔
صوفیہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
کیا کر رہے تھے آپ۔۔۔۔۔
ثمینہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
کچھ نہیں ماما بس ویسے ہی
دوستوں کےساتھ گپ شپ بس۔۔۔۔
صوفیہ نے اپنی ماں کی گودمیں
سر رکھ کر لیٹتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اچھا جی۔۔۔۔۔ ثمینہ نے اسکے
بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرا۔۔۔۔۔
کیسا جا رہا ہے کالج۔۔۔۔۔
ثمینہ ک ہاتھ اب صوفیہ کے چہرےاور گالوں کو سہلا رہا
تھا۔۔۔۔۔
ٹھیک جا رہا ہے ماما
جی۔۔۔۔صوفیہ کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔۔۔۔
ایک بات تو بتاؤ۔۔۔۔۔ثمینہ
کا ہاتھ اب صوفیہ کی گردن اورچہرے کوسہلا رہاتھا
جی ماما۔۔۔۔۔
صوفیہ نے جواب دیا۔۔۔۔۔
چاچا کے ساتھ بات ہوتی ہے آپ کی۔۔۔۔۔۔
جی ماما ہوتی ہے کبھی
کبھی۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔۔
کچھ بھی نہ ۔۔۔۔۔۔۔کیسے لگتے
ہیں چاچا آپ کو ۔۔۔۔۔۔
ثمینہ کا ہاتھ اب صوفیہ کی چھاتیوں کےکناروں پر پھررہا
تھا....
بیسٹ ماما۔۔۔۔۔۔ چاچا توبیسٹ
ہیں۔۔۔۔۔۔ جانو چاچا ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن آپ کیوں پوچھ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔
وہ اس لئیے بیٹا جی کہ میں نے کچھ سوچا ہے۔۔۔۔۔
ثمینہ کا ہاتھ اب صوفیہ کی چھاتی کو سہلا رہا تھا۔۔۔۔۔ اسکی قمیض کے اوپر سے
وہ کیا ماما۔۔۔۔۔
بیٹا آپ جس عمر میں آگئی ہو
میں جانتی ہوں آپکی کچھ ضرورتیں ہیں جو آپکی پوری ہونی چاہیئیں ۔۔۔۔۔
اسکا ہاتھ مسلسل صوفیہ می
چھاتیاں سہلا رہا تھا اور وہ یہ جان بوجھ کر کر رہی تھی صوفیہ کا موڈ بنانے
کے لئیے۔۔۔۔ تاکہ وہ دماغ نہیں چوت کی گرمی سے اسکی بات سنے اور سوچے
میں جانتی ہوں بیٹا آپکا بھی
دل کرتا ہے کوئی آپکو پیارکرے اور آپ کوجسمانی لذت دے۔۔۔۔۔ثمینہ نے صوفیہ کی چھاتی
کو ہلکا سا دبایا۔۔۔۔۔
ماماجی۔۔۔صوفیہ نے شرما کر ماں کا کا ہاتھ پکڑلیا۔۔۔۔ نہ
کریں نہ۔۔۔۔
ثمینہ نے اسکا ہاتھ اپنے
ہاتھھ سے اٹھایا اعر اسکے کھکے گکے سے اندر کے جا کر اسکے برا کے اوپر سے اسکی
چھاتی کو سہلانےگی۔۔۔۔۔صوفیہ نے آنکھیں بند کر کے ایک جھرجھری لی۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا یہ سب تو فطری بات ہے۔۔۔۔۔۔۔
اور میں سمجھتی ہوں کہ آپکو اب ضرورت ہے اس سب کی۔۔۔۔۔۔
آپکی عمر میں مڑکی کی جسمانی ضرورتیں بہت عرج پر ہوتی
ہیں۔۔۔۔۔ اگر کوئی مرد ساتھ ہو تو اسکا ساتھ لڑکی کو بہت سکون دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
میں چاہتی ہوں مجری بیٹی مجرے بھروسے کے ساتھ اپنی
جسمانی لذت کی دنیا میں ایک بھروسےمند ساتھ کے ساتھ اترے۔۔۔۔۔
اور میں آپ کے ساتھ ہوں ۔۔۔۔۔۔
ماما جی......؟؟؟؟
صوفیہ نے آہستگی سے بولا....اسکی آواز بتا رہی تھی کہ وہ
اپنی ماں کی بات کو دل کی بات سمجھ کر راضی ہے۔۔۔۔۔۔
اسکی چھاتیاں سہلاتے اسکی ماں کے ہاتھ اسکی طلب
بڑھا رہے تھے
میں جانتی ہوں آپکو طلب ہوتی ہے کسی مرد کی
کسی مرد کے ساتھ اور پیار کی۔۔۔۔۔ اور میں نے آپ کے لئیے
سب سوچ لیا ہے۔۔۔۔۔۔
ایک ایسا مرد جو آپکا دوست
بھی کو اور آپکا ساتھی بھی اور جو کہ نہ صرف آپلو ایک اچھ وقت دے بلکہ ایک اچھا
بیڈ کا ساتھی بھی بنے۔۔۔۔۔۔۔
بتاؤ۔۔۔۔۔کیا آپ تیار
ہو۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
ماما جی ۔۔۔۔۔۔ صوفیہ نے شرما کر خود کو ماں کی گود میں
چھپا لیا۔۔۔۔۔۔ ثمینہ نے اسکی کمر کو سہلانا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔
ماما جی۔۔۔۔۔جیسے آپ
کہیں۔۔۔۔۔
صوفیہ کی سانسیں تیز
تھیں۔۔۔۔۔۔
اسکی ماں کے ہاتھ اور بافیں دونوں اسکو لذت کا احساس دلا
رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔
پوچھیں گی نہیں آپ کی وہ کون
ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟
ثمینہ کا ہاتھ صوفیہ کی کمر
پر اسکے برا کے سٹریپ کو سہلانے لگا۔۔۔۔۔
کس کا کہ رہی ہیں آپ ماما؟؟؟
چاچا۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمینہ نے صوفیہ کے برا کا ہک یکدم
کھولتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
ماما جی۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟ صوفیہ نے چونک کر اپنی ماں کی
آنکھوں میں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ ثمینہ نے مسکراکر اسکا گال سہلایا۔۔۔۔۔
جی بیٹا۔۔۔۔۔ کیونکہ میں جانتی ہوں۔۔۔۔۔۔آپکی ہرضرورت
بہترین انداز سے کوئی بھی پوری کر سکتا ہے تو وہ ایک ہی آدمی ہے۔۔۔۔۔۔
صوفیہ کی دھڑکن تیز ہو گئی۔۔۔۔۔
اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اسکی دلی مرا د اسکی ماں کجسےسمجھ
جائیگی۔۔۔۔
کیوں جس شخص کا ذکر اسکی ماں
نے کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔وہ تو۔ ۔۔۔۔۔۔
وہ تو اسکی سب سے بڑی حسرت
تھی۔۔۔۔۔
مجھے منظور ہے ماما۔۔۔۔۔۔
اس نے شرما کرسر جھکا دیا۔۔۔۔۔
مگراس کے سر جھکانے سے پہلے
ثمینہ اسکی آنکھوں میں چمک دیکھ چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔
وہ جانتی تھی کہ وہ اپنی بیٹی صحیح مرد کوصحیح وقث پر
سونپ رہی ہے۔۔۔۔۔۔
وہ مرد جو کی نہ صرف اسکی کلی کو پھول بنائیگا بلکہ اسکو
وہ سب دیگاجسسے اسکی بیٹی سکون لے سکے اور خوش رہے
احمد۔۔۔۔۔۔
تیار ہو۔۔۔۔؟؟؟؟
ثمینہ نے اسکے بالوں کو
سہلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
جی بھابھی۔۔۔احمد نے آگے بڑھ
کر اسکو سینے سے لگا کیا۔۔۔۔۔۔
شکریہ بھابی۔۔۔۔۔ اتنے
خوبصورت تحفہ کے لئیے۔۔۔۔۔۔
میری جان ۔میرے دیور۔۔۔۔۔ جب
اپنا آپ تمکو دے دیا تو پھر کس بات کی فکر۔۔۔۔۔ امید ہے تم میری بیٹی کو بھی وہی
سب دو گے جو مجھے دیتے ہو۔۔۔۔۔۔
ثمینہ نے احمد کے لنڈ کو پکڑ
کرسہلایا۔۔۔۔۔
کیوں نہیں بھابی۔۔۔۔جو مزہ
اور لذت آپکو دی ہے وہی سب آپکی بیٹی کو بھی دونگا فکر نہ کریں۔۔۔۔۔۔
مجھے بھروسہ ہے تم پر۔۔۔۔۔
ثمینہ نے اسکے ہونٹوں کو چوم
کر کہا۔۔۔۔۔
چلو اب جلدی سے تیار ہوجاؤ
میں صوفیہ کو تیارکر کے لاتی ہوں۔۔۔۔۔
بھابی رکو نہ۔۔۔۔۔۔
احمد نے اسک ہاتھ تھام کر روکا۔۔۔۔۔
ایک بار چوس جاؤ
اپنالاڈلا۔۔۔۔۔۔۔اچھا لگے گا صوفیہ میں ڈالنے سے پہلے ایک بار اگر آپکے منہ کا
ذائقہ لگا ہو اسے۔ ۔۔۔۔
بہت بدتمیز ہوتم ویسے۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے ہاتھ سے ایک بار اسکے
لنذ کو سہلایا۔۔۔۔۔
صوفیہ کو یہ پورا ملنا
چاہئیے احمد۔۔۔۔۔۔ میری بیٹی اس پورے لنڈ کا مزہ لے آج۔۔۔۔۔
یہ کہتے کوئے ثمینہ نے
اسکالنڈ اپنے منہ میں ڈال لیا۔۔۔۔
اسکا ایک ہارھ پیچھے جا کر احمد کی گانڈ سہلانے لگا اور
دوسرا نیچے سے اسکے تازہ شیوشدہ ٹٹے سہلانے لگا۔۔۔۔۔
ممممممم۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے احمد۔۔۔۔۔۔۔ممممممم۔۔۔۔۔۔
آج۔۔۔۔۔۔۔۔ممممممممم ۔۔۔۔۔صوفیہ کو بھی۔۔۔۔۔۔۔مممممممم۔۔۔۔۔۔۔۔جوان
بنادینا۔۔۔۔۔۔ممممممممممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ کے ہونٹ اور زبان احمد
کے لن کی اچھی طرح مالش کر رہےتھے۔۔۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔جی
بھابھی۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔۔مممممممممممم۔۔۔۔۔ضرور۔۔۔۔۔ ممممممممممم ۔۔۔۔۔آہ ہ ہ ہ
مممممم ۔۔۔۔۔۔ثمینہ نے اسکلا لنڈ ااپنے منہ
سےنکالا۔۔۔۔۔۔دومنٹ میں ہی اسکا لنڈ کسی ڈنڈے کی طرح تیار ہو چکا تھا۔۔۔۔۔
اب باقی کام میری بیٹی کرے گی ۔۔۔۔۔۔ چلو اب جلدی
سے تیارہو۔۔۔۔۔۔۔ میں صوفیہ کو لے کر آثی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
بھابھی۔۔۔۔۔۔ صوفیہ خوش تو ہے نہ؟؟؟؟
اسکا جواب میری جان میرے لاڈلے لنڈ والے دیور جی اسکا
جواب آپکو میری بیٹی کی چوت کی گرمی خود دے دے گی۔۔۔۔آپ بس اپنے لنڈ صاحب کو تیل
لگائیں۔۔۔۔۔۔
اور خبردار جومیری بیٹی کو
تنگ کیا تو۔۔۔۔۔۔ وہ پیار سے اپنا آپ دے گی۔۔۔۔۔زیادہ تنگ نہ کرنا
اسے۔۔۔۔۔ورنہ۔۔۔۔۔۔۔ ثمینہ نے اسکےلنڈ کا ٹوپہ اپنی انگلی سے مسلتے ہوئے ۔
کہا۔۔۔۔۔۔
اف ف ف ف ف ظالم۔۔۔۔۔۔نہیں نہی نہیں تنگ کرتامیری
ماں میری توبہ۔۔۔۔۔۔
گڈ بوائے۔۔۔۔۔۔
چلتی ہوں۔۔۔۔۔
ثمینہ نے احمد کو ایک بھرپور
کس دی اور باہر نکل پڑی۔۔۔۔
کمرے سے باہر نکل کر اسنے
دروازہ کے ساتھ ٹیک لگا لی۔۔۔۔۔۔
اس کا دل مطمئن تھا۔۔۔۔۔۔
اس روز جو اس نے طلب صوفیہ کی آنکھوں میں دیکھی تھی۔۔۔۔۔
اپنی بیٹی کی طلب بہترین سے پوری کرنا اسکو بے حد سکون دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ چلتی ہوئی صوفیہ کے کمرے
کے باہرآئی۔۔۔۔۔۔
دروزہ کھول کر اس نے اندرقدم
رکھ توصوفیہ آئینے کے سامنے کھڑی بال بنا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
سرخ رنگ کے خوبصورت ریشمی لباس میں وہ بے حد حسین لگ رہی
تھی۔۔۔۔۔۔
وہ جی۔۔۔۔۔۔ ثمینہ نے پیچھے
سے اسے بانہوں میں بھرا۔۔۔۔۔۔
میری بیٹی توبلکل دلہن لگ
رہی ہے۔۔۔۔۔۔
اس نے صوفیہ کی چھاتیوں کو سہلایا۔۔۔۔۔۔
پیس بڑا ٹائیٹ اے۔۔۔۔۔
اس نے قہقہ لگا کر کہا۔۔۔
ماما جی۔۔۔۔۔صوفیہ نے مڑ کر اپںی ماں کوگلے لگ کیا۔۔۔۔۔۔
نہ کریں نہ۔۔۔۔شرم آ رہی ہے بہت پہلے ہی ۔۔۔۔۔
میرے بچے۔۔۔۔۔ ثمینہ نے اسک
ماتھا چوم کر کہا۔۔۔۔۔۔
شرم کی کیا بات۔۔۔۔۔۔ آپ اپنے ہی پسند کے آدمی کےپاس
اپنی ہہ خواہش پوری کرنے جا رہے کو۔۔۔۔میری اجازت سے۔۔۔۔ میری خوشی سے۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ نے اسکی کمرسہلائی......
شرم کی کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔
ویسے بھی۔۔۔۔۔۔
جسکے پاس جا رہے ہو وہ توبے شرم پہلے سے ہی تیار
ہے۔۔۔۔۔۔ اور اسکاوہ بھی۔۔۔۔۔ہیاں آنے کے لئیے۔۔۔۔۔
ثمینہ نے ایک ہاتھ صوفیہ کی
چوت پر رکھا۔۔۔۔۔۔
ماما جی۔۔۔۔۔۔
ایک تو میں آپ سے بہت تنگ
ہوں۔۔۔۔۔۔
صوفیہ نےپیچھے ہوتے ہوئے
کہا۔۔۔۔۔اسکی شکل نیم روہانسی تھی
ثمینہ نے مسکرا کر اسکے
دونوں ہاتھ پکڑے۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا۔۔۔۔۔۔ آج کا دن بہت سے
لوگوں کی زندگی میں شادی کے وقت آتا ہے۔۔۔۔۔ مگر آج میری بیٹی شادی سے پہلے ہی
سہاگ رات منا رہی ہے۔۔۔۔۔
مجھے تم پر فخربھی ہے اور
خوشی بھی۔۔۔۔۔۔
اپنے چاچا کو آج اپنا آپ
پورے بھروسے کے ساتھ دینا۔۔۔۔۔۔ اور میں جانتی ہوں کے وہ تمکو وہ وہ خوشی دےگا جو
کہ تم چاہتی ہو۔۔۔۔
ماما جی۔۔۔۔۔زیادہ درد تو
نہیں نہ ہوگا۔۔۔۔۔؟؟؟؟
نہیں بیٹا۔۔۔۔۔۔چاچا بہت پیار سے کرینگے۔۔۔۔۔میں انکو سب
سمجھا کر آئی ہوں۔۔۔۔۔
شکریہ ماما جی۔۔۔۔۔۔۔ صوفیہ
نے اپنی ماں کو زور سے گلے لگا کیا۔۔۔۔۔۔
چلو شاباش اب۔۔۔۔۔۔ آؤ میں
آپکو لے کے جاؤں چاچا کے پاس۔۔۔۔۔۔ عیسے بھی وہ کب سے تیار بیٹھے ہیں آپکے لئیے
ثمینہ نے فخریہ انداز سے
صوفیہ کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔
اسے اپنی بیٹی پر بھی مان اور فخر تھا کی اس نے کتنی
جوان اور بھری ہوئی بیٹی کے پرورش کی ہے جو آج احمد کو اپنا آپ سونپ کر اسے بہت
لطف دینے والی تھی۔۔۔۔۔۔۔
اس نے صوفیہ کا ہاتھ تھاما اور اسے کے کر کمرے سےباہر
آگئی۔۔۔۔۔
احمد کے دروازے پرپہنچکر اس
نے ایک بار پھر صوفیہ کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔
اسکی آنکھیں جھکی ہوئی
تھیں۔۔۔۔۔
صوفیہ۔۔۔۔۔۔۔
جی ماما جی۔۔۔۔۔۔
اسکی جھکی جھکی نگاہوں نے اپنی ماں کو دیکھا۔۔۔
تیار ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
جی ماما۔۔۔۔۔
ثمینہ نے دروازہ کھول
دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جائیں بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔آج رات آپ کو اپنی سب خواہشات پوری
کرنے کا موقع ملا ہے۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔تمھاری ماں نے تمیں سب سے
بہترین مرد کے حوالے کیا ہے۔۔۔۔۔۔ جاؤ بیٹا۔۔۔۔۔۔اور اپنی اس رات کو یادگار بنا لو
کمرے کے کھلے دروازے میں احمد کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔اس نے ہاتھ
آگے بڑھاکر صوفیہ کا ہاتھ تھامااور اسے کمرے میں بلایا۔۔۔۔۔۔
دھڑکتے دل کے ساتھ صوفیہ
کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔۔
اپنے محبوب کاہاتھ تھام
کر۔۔۔۔۔۔۔
اورثمینہ کمرے کا دروازہ بند
کر کے اپںنےکمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔صوفیہ۔۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔کاکی۔۔۔۔تیار
ہو۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟جی چاچا۔۔۔۔۔ صوفیہ نے نظریں جھکائے کہااحمد نے اسکے ہونٹوں کوچوم کر
اسے گلے سے لگا لیا۔۔۔۔۔۔ایک عجب حسین احساس تھا۔۔۔۔۔۔۔کئی سال پہلی ایسے ہی صوفیہ
کی ماں اسکے کمرے میں اپنا آپ لے کر آئی تھیاور آج اسکی پسندیدہ
بھتیجی۔۔۔۔اسکی کاکی۔۔۔۔۔۔ایک نازک کلی سے پھول بننے اسکے سامنےموجود
تھی۔۔۔۔۔۔احمد نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما۔۔۔۔۔ وہی معصومیت۔۔۔۔۔ وہی
نزاکت۔۔۔۔۔۔کتنی جوان ہوگئی تھی اسکی کاکی۔۔۔۔۔۔اسکی گود میں چڑھ کرکھیلنے والی آج
اسکے لنڈ پر چڑھکرجوان ہونےجا رہی تھی۔۔۔۔۔اسنے اپنے ہونٹ اسکے کونٹوں پر ثبت کر
دئیے۔۔۔۔۔۔۔۔اسکےہاتھ اسکی کمر سہلانے لگے۔۔۔۔صوفیہ کی آنکھیں بند ہوتی
گئیں۔۔۔۔۔اسکی دھڑکنیں بیتاب۔۔۔۔۔۔۔اور چوت پیاسی۔۔۔۔۔۔۔بھیگتی ہوئی۔۔۔۔۔۔پتہ بھی
نہ چلا اور اگلا احساس جوصوفیہ کوملا وہ اسکےننگےبدن پرچاچاکے ہاتھوں
کاتھا۔۔۔۔۔۔اور احمد۔۔۔۔۔۔اس ننگے بدن کودیکھ کر۔۔۔۔ثمینہ کو یاد کئے بنا نہ رہ
سکا۔۔۔۔۔صوفیہ کا کاتھ تھام کر وہ اسکو بسترپرلایا۔۔۔۔۔۔وہی حسین ابھری ہوئی
چھاتیاں۔۔۔۔۔۔ گداز بھرا ہواجسم۔۔۔۔۔
نازک ملائم چوت۔۔۔۔۔ایسا شاہکار بدن کہ جسکو گھنٹوں
چوماجا سکے۔۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔۔چاچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔صوفیہ کی نشہ میں ڈوبی سسکیاں۔۔۔۔۔۔اور
احمد کےجادودکھاتے ہونٹ۔۔۔۔۔۔۔۔سر سےپاؤں تک احمد نےاسکے حسین بدن کا پور پور اپنے
ہونٹوں سے محسوس کیا۔۔۔۔۔اور صوفیہ۔۔۔۔۔۔۔۔اسکی چوت توشاید اتنا پوری زندگی
نہ بھیگی جتنا اب تھی۔۔۔۔۔کاکی۔۔۔۔۔۔جی چاچا۔۔۔۔۔۔۔صوفیہ نے دھڑکتی سانسوں ںسےجواب
دیا۔۔۔۔۔تیار ہو؟؟؟؟جی چاچا۔۔۔۔۔۔صوفیہ نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔ کیسے
بتاتی کہ وہ تو اس رات سےہی تیارتھی جس رات پہلی بار اسکے بدن میں جوانی کی بجلی
کوندی تھی۔۔۔۔۔اپنے چاچا کے لئییے تیار۔۔۔۔۔۔
احمد نے اپنے پھڑپھڑاتےلنڈ
کےٹوپے کو اسکی چوت کےہونٹوں پر رکھااسکے دونوں ہاتھوں میں اپنے ہاتھ ڈالکر وہ
اسکے اوپرجھکا۔۔۔۔۔اورصوفیہ کےملائم ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے۔۔۔۔
اس نےاپنی کمر کو سیدھا کیا۔۔۔۔۔۔
صرف ایک جھٹکا۔۔۔۔۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاچااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صوفیہ کی سسکی گونجی اوراس نے احمد کی ننگی کمرمیں اپنے ناخن گاڑدئیے۔۔۔۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔۔
چاچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ممممممم۔۔۔۔۔۔۔۔احمد نے اپنامنہ اسکےمنہ پر پیوست کردیا۔۔۔۔۔۔
اسکی گانڈ نے آہستہ آہستہ حرکت شروع کی۔۔۔۔۔۔
کلی پھول بن گئی۔۔۔۔۔۔
آہ چاچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی لو
یوچاچا۔۔۔۔۔۔۔ محبت لذت اورنشے میں ڈوبی ہوئی اک آوازابھری۔۔۔
لو یو ٹو کاکی۔۔۔۔۔۔
گانڈ کی حرکت میں تیزی آتی
گئی
ساتھ ہی ساتھ صوفیہ کی نشے میں ڈوبی سسکیوں میں
بھی۔۔۔۔۔۔۔
وقت جیسے تھم سا گیا۔۔۔۔۔۔۔
مسلسل لنڈ چوت سے اندر باہر
ہوتا رہا۔۔۔۔
صوفیہ اس نشے کے احڈاس میں بھیگتی گئی
ان سسکیوں میں وہ سب لطف وہ
سب قرار تھا۔۔۔۔جو صوفیہ کو چاہییے تھا۔۔۔۔۔۔
جو ثمینہ نے اپنی بیٹی کے لئیے سوچا۔۔۔۔۔
ایک جھٹکا۔۔۔۔۔۔
دوسرا۔۔۔۔۔
تیسرا۔۔۔۔
چوتھا۔۔۔۔مردانگی کا اک لاوہ صوفیہ کی چوت کی گہرائیوں
میں اترتاگیا۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔۔۔کاکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد نے خود کو ڈھیلاچھوڈ دیا۔۔۔۔۔۔۔ اور سر صوفیہ کے
سینے پررکھ کر اپنی آنکھیں بند کر کیں۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی بھا بھی کو دیا گیا وعدہ پورا کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔
ختم شد
0 تبصرے
THANKS DEAR