بارش بھیگی بھیگی

 


بارش بھیگی بھیگی

ایک دن کی بات ہے کہ میں گھر سے آفس جانے کے لیئے نکلا تو اس وقت آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے چنانچہ گھر سے نکلتے وقت میں نے ایک نظر آسمان کی طرف دیکھا اور ہلکے بادل دیکھ کر ان پر کوئی خاص توجہ نہ دی اور بائیک کو کک مار ۔۔۔کر ۔۔سوری ۔۔اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میری بائیک پہلی کک پر تو اس وقت بھی اسٹارٹ نہیں ہوتی تھی کہ جب یہ نئی نئی ہمارے حبالہء دام میں آئی تھی(سیکنڈ ہینڈ لی تھی) ۔۔ سو بائیک کوککیں مار مار کر جب ہمارا دایاں پاؤں شل ہو گیا اور جب دل سے خود بخود بائیک ایجاد کرنے والے کے لیئے گالیاں نکلنا شروع ہو گئیں تو میں خوش ہو گیا کہ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ اب بائیک اسٹارٹ ہونے کے قریب آ پہنچا ہے ۔۔۔ اور پھروہی ہوا ۔۔ کہ جب میں نے اپنا بچا کھچا زور لگا تے ہوئے بائیک اور اس کے ساتھ ساتھ بائیک کو ایک موٹی سی گالی ۔دیکر ۔ کک ماری ۔۔۔۔ تو۔۔۔ ۔۔۔پھٹ پھٹ کرتی ہوئی میری پھٹ پھٹی اسٹارٹ ہو گئی اور بندہ خود کہ یہ کہتا ہوا بائیک پر سوار ہو گیا کہ آج واپسی پر مستری کو ضرور دکھاؤں گا ۔ اوردفتر کی طرف چل پڑا ۔۔ ابھی میں گھر سے تھوڑی ہی دور گیاتھا کہ اچانک وہ ہلکے ہلکے بادل گھنگھور گھٹا میں تبدیل ہوگئے اور پھر یکا یک موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور یہ مینہ اتنی تیزی سے برسنے لگا کہ مجھے سامنے سے سوائے موسلا دھار بارش کے کچھ دکھائی نہ دینے لگا ۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنی پھٹ پھٹی کی سپیڈ مزید آہستہ کی اور سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ پھر میں نے ادھر ادھر دیکھ کر غور کیا تو مجھے یاد آیا کہ یہاں پاس ہی ہمارے ایک نہایت ہی قریبی عزیزوں کا گھر ہے اور جن عزیز کی میں بات کر رہا ہوں ان کا نام جاوید اقبال تھا اور ان کے دو بچے تھے ایک لڑکا اسد جو کہ میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا اور دوسری ۔۔۔ جی جی ۔۔دوسری ان کی بیٹی کہ جس کا نام نازیہ تھا اور وہ ایم اے ہسٹری کر کے فارغ تھی اور گھر کے کاموں میں اپنی ماما کا ہاتھ بٹاتی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ بڑی خوبصوت اور دلکش لڑکی تھی وہ اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ وہ سمائلنگ فیس تھی ۔۔۔ اور اس کی یہی مسکراہٹ تھی کہ جس نے بڑوں بڑوں کو گھائل کیا ہوا تھا اور ان بڑے بڑے ناموں میں ۔۔۔۔ایک نکا سا میں بھی تھا ۔۔۔سمال کراکری چھوٹا بھانڈا۔۔ہاں تو میں آپ کو نازیہ کے بارے میں بتا رہا تھا ۔۔۔کہ ۔نازیہ ایک لمبے قدکی دودھیا گوری لڑکی تھی اور اس کے سینے پر بڑے بڑے ۔۔۔۔۔ابھار ۔۔۔۔ روز ہی ہم جیسوں کی نیت کو خراب کرتے تھے ۔۔اور اس کے ان بڑےبڑے مموں کی ایک خاص بات اس کے نوکیلے نپلز تھے جو عموماً اس کی ٹائیٹ فٹنگ قمیض میں سے صاف چھپتے بھی نہیں تھے اور نظر بھی آتے تھے اور یہ نوکیلے اور گلابی مائل نپلز اب بھی جب یاد کرتا ہوں تو میرے نیچے کچھ ہلچل سی مچ جاتی ہے ۔۔ بیل کے جواب میں مسزز جاوید نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھتے ہی ان کے چہرے پر ایک مہربان مسکراہٹ ابھری اور وہ بڑی شفقت سے کہنے لگیں ۔۔۔ارے۔۔۔آج یہ چاند کدھر سے نکل آیا ۔۔ پھر جیسے ہی ان کی نظریں میرے بھیگے بدن پر پڑیں تو وہ ایک دم چونک گئیں اور بولیں ۔۔۔اوہ۔۔۔او۔۔۔۔ بیٹا تم تو بُری طرح سے بھیگ گئے ہو ۔۔جلدی سے اندر آ جاؤ ۔۔۔ اور خود ایک طرف ہٹ گئیں جیسے ہی میں اندر داخل ہوا تو ۔۔۔۔ تو انہوں نے فورا ً ہی اپنی بیٹی (نازیہ ) کو آواز دی نازیہ۔۔۔۔ ادھر آؤ۔۔۔اور پھر انہوں نے وہیں سے دوبارہ آواز لگائی اور کہنے لگیں ۔۔۔ بیٹا جلدی سے بھائی کے کپڑے لے آؤ ۔۔ اور پھر مجھ سے بولیں ۔۔ ایسا کرو کہ پہلے تم کپڑے تبدیل کر لو ۔۔۔اتنے میں ، میں تمھارے لیئے چائے لیکر آتی ہوں ۔۔ اسی دوران نازیہ بھی کمرے میں داخل ہو گئی اور مجھے دیکھ کر بولی ۔۔۔ اوہو ۔۔ بھائی آپ تو بُری طرح سے بھیگ چکے ہو ۔۔۔۔پھر بولی آپ ایسا کروکہ باتھ روم میں بھائی کا نائیٹ پاجامہ ٹنگا ہے وہ پہن لیں اور یہ بھیگے کپڑے آپ مجھے دےدیں کہ میں ان کو استری کر کے سکھا دیتی ہوں ۔ نازیہ کی بات سُن کر میں جلدی سے واش روم میں گھس گیا اور اس کے بھائی کا نائیٹ پاجامہ شرٹ پہنا اور اور اپنے گیلے کپڑے لیکر باہر آ گیا ۔۔۔۔ نازیہ کمرے کے باہر میرا انتظار کر رہی تھی ۔۔ جیسے ہی میں واش روم سے باہر آیا اور اس کی نظریں مجھ پر پڑی ۔۔۔ پہلے تو وہ ٹھٹھک گئی ۔۔۔اور پھر وہ بڑے زور سے ہنسے لگی ۔۔۔۔ پھر اچانک پتہ نہیں اسے کیا یاد آیا کہ ایک دم سے اس کا دودھیا چہرے لال ہو گیا ۔۔۔۔۔ ادھر میں حیرانی سے اسے تکے جا رہا تھا کہ پتہ نہیں اس لڑکی کو کیا ہو گیا ہے ۔۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں تھا کہ اس نےاپنا منہ دوسری طرف کیا اور اپنے ہاتھ سے میرے نیچے کی طرف اشارہ کیا۔۔اور اب جو میں نے ۔ اس کی ڈائیریکشن میں اپنے نیچے کی طرف دیکھا تو ۔۔۔ میں نے دیکھا کہ میرا پہنا ہوا پاجامہ نیچے سے سارا پھٹا ہوا تھااور میرا بڑا سا لن ٹٹوں سمیت پاجامے سے باہر نکلا ہوا تھا یہ دیکھ کر میں فوراً ہی واپس واش روم میں گھس گیا اور نازیہ کو کہا کہ مہربانی کر کے مجھے اسد کا کوئی دوسرا پاجامہ لا دو ۔۔۔ اس نے میری بات سنی اور بولی ۔۔۔اوکے آپ اندر ہی رہنا میں لے کر ابھی آئی ۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد اس نے واش روم کے دروازے پر دستک دی میں نے دروازہ کھول کر صرف سر باہر نکالا اور اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور بنا کچھ کہے اسد کا ایک اور پاجامہ مجھے تھما کر چلنے لگی تو پیچھے سے میں نے اسے آواز دیکر کر شرارت بھرے لہجے میں پوچھا کہ ۔۔۔ یہ تو ٹھیک ہے نا ؟؟؟۔۔ میری بات سُن کر اس نے مُڑ کر میری طرف دیکھااور مسکرا کر بولی ۔۔۔جی۔۔۔ یہ ٹھیک ہے اور پھر باہر بھاگ گئی۔۔۔ میں نے جلدی سے پاجامہ تبدیل کیا اور باہر آ کر دیکھا تو مسزز جاوید کھڑی تھیں ۔۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگیں ۔۔لو بیٹا چائے تیار ہے۔۔۔ تم چائے پی لو اتنے میں نازیہ تمھارے کپڑوں کو سکھا کر لے آتی ہے۔۔ میں کرسی پر بیٹھ گیا اور چائے پینے لگا اور اس کے ساتھ ساتھ مسزز جاوید کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ بھی لگاتا رہا ۔۔ اسی دوران نازیہ بھی میرے کپڑوں کو سکھا کر لے آئی تھی ۔۔۔۔ اور میرے سامنے کپڑے رکھ کر وہ بھی بیٹھ گئی اور ہماری گپ میں شامل ہوگئی ۔۔ باتوں باتوں میں اچانک مسزز جاوید نے اپنےسر پر ہاتھ مارا اور بولی ۔۔۔ ایہہ لو ۔۔ میں تو بھول ہی گئی تھی کہ۔۔۔ میں نے ہانڈی چھو لہے پر رکھی ہوئی ہے ۔اور پھر اُٹھتے ہوئے بولیں میں چلوں کہ ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری ہانڈی جل گئی ہو اور پھر وہ تقریباً بھاگتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی ۔ جیسے ہی آنٹی کچن میں گئی تو نازیہ نے اپنی گود میں پڑے ہوئے کپڑے اٹھائے اور میری طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔ ۔۔ ۔۔ بھائی کپڑے پہن لیں تو میں نے مزاقاً اس سے کہا کہ اس کو تو نیچے سے نہیں پھاڑا نا؟؟؟؟ اس نے میری بات سنی لیکن اس کا جواب گول کر گئی ہاں البتہ میرے ہاتھ میں کپڑے پکڑاتے ہوئے اس نے اپنے لمبے لمبے ناخن بڑی ذور سے مجھے چبو دیئے ۔ کپڑے تبدیل کر کے میں باہر آیا اور آنٹی کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔ اتنی دیر میں بارش بھی تھم چکی تھی ۔۔ چنانچہ میں آفس آ گیا ۔۔آفس پہنچ کر بھی مجھے نازیہ کی مسکراہٹ اور خاص کر اس کا ناخن چبونا مجھے کافی دیر تک تنگ کرتا رہا ۔۔۔۔عاشق تو میں اس پر پہلے سے ہی تھا ۔۔۔لیکن اس کی اس حرکت کے بعد میں نے اس پر ہزار جان سے فدا ہو نے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔اور پھر یہ فیصلہ کرنے کے بعد میں آفس کے کاموں میں مصروف ہو گیا ۔۔چائے کے وقفے کے دوران جب مجھے ایک دوست کو فون کرنے کی حاجت پیش آئی تو میں نے جیب میں ہاتھ مارا تو موبائیل ندارد ۔۔۔۔ کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد بھی جب وہ نہ ملا تو اچانک مجھے خیال آیا کہ وہ کہیں نازیہ کے گھر میں ہی نہ رہ گیا ہو ۔۔۔یہ سوچ آتے ہی میں نے لائین لینڈ نمبر سے نازیہ کے گھر فون کیا تو اتفاق سے فون نازیہ نے ہی اُٹھایا ۔۔۔ اور میرے پوچھنے سے پہلے ہی وہ کہنے لگی۔۔۔ جناب شاہ صاحب آپ کا موبائیل تو بہت بجتا ہے ۔۔پھر ریسور پر اس کی جلترنگ سی ہنسی گونجی اور وہ کہنے لگی ۔۔۔ پتہ نہیں کس کس کو نمبر دے رکھا ہے ۔۔۔ پھر وہ ایک دم سیریس ہو گئی اور اپنی ٹون تبدیل کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ اینی وے ۔۔۔ جناب آپ کا موبائیل محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔۔۔ جب جی چاہے آ کر لے جانا۔۔ اس کی بات سُن کر مجھے شرارت سوجھی اور میں نے اس سے کہا کہ نازیہ جی مجھے معلوم ہے کہ میرا موبائیل محفوظ ہاتھوں میں ہے لیکن آپ سے ایک گزارش ہے کہ۔۔۔۔ اور اتنا کہہ کر چُپ ہو گیا تو میں نے رسیور پہ اس کی آواز سُنی وہ کہہ رہی تھی جی ۔۔ بولیئے ۔۔ کیا گزارش کرنی ہے تو میں نے کہا ۔۔۔وہ جی گزارش یہ کرنی تھی کہ ۔۔۔۔۔ کہ مہربانی کر کے میرے موبائیل کے کور کو بھی نیچےسے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ابھی میں نے اتنی ہی بات کی تھی کہ میری بات کاٹ کر بولی ۔۔۔ شاہ جی آپ بھی نا۔۔۔ بڑے وہ ہیں اور ہنس کر ۔۔ ۔۔۔۔ فون بند کر دیا ۔۔ اس کے فون بند کر نے کے تھوڑی دیر بعد میں نے اس کو فون دوبارہ ملایا اور اس کو اپنے دوست کا نام بتا کر کہا کہ مہربانی کر کے مجھے اس دوست کا نمبر لکھوا دے ۔۔ میری بات سُن کر اس نے مجھے ایک منٹ ہولڈ کرنے کو کہا اور کچھ دیر بعد اس نےمجھے نمبر لکھواتے ہوئے بڑے زُومعنی الفاظ میں کہا ۔۔۔ ویسے شاہ جی یہ دوست میل ہے یا فی میل ۔تو میں نے اس سے کہا کہ مس جی یقین کرو کہ یہ نمبر میل کا ہی ہے کیونکہ اگر یہ فی میل ہوتی تو مجھے اس کا نمبر زبانی یاد ہوتا ۔۔۔میری بات سُن کر وہ کہنے لگی آپ کی بات میں دم ہے اور ۔ ۔ پھر اس کے بعد وہ میرے ساتھ کافی فرینک ہو گئی اور ہم نے آدھے گھنٹے تک مختلف مضوعات پر کافی ساری باتیں کیں ۔۔۔ شام کو جب میں گھر اپنا موبائیل لینے گیا تو مجھے آنٹی ملیں وہ کسی فنگشن میں جانے کی تیاری کر رہیں تھیں اور بڑی جلدی میں لگ رہیں تھیں۔۔ مجھے دیکھتےہی کہنےلگیں سوری بیٹا ہم لوگ ایک شادی میں جا رہے ہیں اس لیئے میں آپ کو چائے پانی کا نہیں پوچھ سکتی ہاں آپ کا موبائیل نازیہ کے پاس پڑا ہے۔۔۔جا کر اس سے لے لو۔۔ اور خود جلدی سے واش روم میں گھس گئیں ۔۔۔آنٹی کی بات سُن کر میں نازیہ کے کمرے کی طرف گیا تو اسے بند پایا ۔۔۔ میں نے دستک دینے سے پہلے ویسے ہی ہینڈل گھما کر دیکھا تو وہ کھلا ہوا تھا ۔۔ ان کے گھرانے کے ساتھ میری بے تکلفی تو پہلے سے ہی تھی ۔۔۔ لیکن آج دوپہر کی بات چیت کے بعد خصوصاً نازیہ کے ساتھ میری بے تکلفی کچھ اور بڑھ گئی تھی اس لیئے میں نے دروازہ کھولا اور بے دھڑک اندر داخل ہو گیا ۔۔۔ اندر داخل ہو کر دیکھا تو کمرے میں نازیہ موجود نہ تھی لیکن اس کے ڈریسنگ پر مجھے اپنا موبائیل پڑا نظر آ گیا ۔۔۔ چنانچہ میں اس کے ڈریسنگ کی طرف بڑھا اور ابھی میں وہاں سے اپنا موبائیل اُٹھا ہی رہا تھا کہ اچانک واش روم کا دروازہ کھلا اور ۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔ میں نے جو دروازے کی طرف دیکھا تو نازیہ بڑی تیزی کے ساتھ واش روم سے باہر نکل رہی تھی اس کے ایک ہاتھ میں قمیض جبکہ دوسرے ہاتھ میں ایک میلی سی برا پکڑے وہ تیزی کے ساتھ اپنی الماری کی طرف بڑھ رہی تھی (میرا خیال ہے کہ وہ نئی برا لینا چاہ رہی تھی) جبکہ اس کا اوپری جسم بلکل ننگا تھا ۔۔۔ اور نچلے جسم پر صرف شلوار تھی ۔۔۔اور اس کے اس دودھیا ننگے بدن پر اس کے گول گول ممے تنے ہوئے تھے ۔۔ اس ان تنے ہوئے مموں پر گلابی رنگ کے اس کے دودھ کے نوکیلے سے نپل قیامت ڈھا رہے تھے۔۔۔ میں نے ایک نظر ہی میں نازیہ کے اوپری بدن کا ایکسرے کر لیا تھا ۔۔۔ اور پھر اس سے اگلے ہی لمحے میری اور اس کی نظریں چار ہوئیں ۔۔۔۔ اور ایک لحظہ کے لیئے ہم دونوں ہی ساکت ہو گئے۔۔۔ اور خالی خالی نظروں سے ایک دوسرے کو گھورتے رہے ۔پھر اچانک ایسا لگا کہ جیسے وہ ہوش میں آ گئی ہو ۔۔۔اور اس نے جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتیوں پر رکھے اور ۔۔۔ چلا کر بولی ۔۔۔۔آآ۔۔آپ ؟؟۔۔۔۔تم۔م م م م م م ۔۔۔۔۔یہاں کیسے ؟؟؟؟؟ حیرت اور غصے سے اس کا چہرہ لال ٹماٹر ہو رہا تھا اور ۔اس وقت صورتِ حال کچھ ایسی بن گئی تھی کہ میں خود بھی تھوڑا کنفیوزڈ ہو گیا تھا چنانچہ صورتِ حال کا ادراک کرتے ہوئے باہر جانے لگا۔۔۔ اور ۔۔۔ چند قدموں کے بعد ہی مجھے اپنا موبائیل یاد آگیا ۔۔۔ ۔۔۔۔اور میں جاتے جاتے رُک گیا اور نازیہ کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔میں اپنا موبائیل لے لوں ۔؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ میری بات سُن کر وہ آگ بگولہ ہو گئی اور غصے سے بولی ۔۔۔دفعہ ۔۔ہوجاؤ۔۔۔۔ذلیل۔کمینے ۔۔ میں اس کا مُوڈ دیکھ کر چپ ہو گیااورخاموشی سے باہر نکل گیا ۔۔۔ چونکہ وہ لوگ اس وقت شادی میں جانے کے لیئے تیار ہو رہے تھے اس لیئے میرا وہاں رُکنا بے کار تھا۔۔ چنانچہ میں گھر آ گیا ۔۔ پر سارے راستے میرے زہن میں نازیہ کو گول گول ممے اور نوکیلے نپلز گھومتے رہے۔۔جس سے میرا اور میرے لن کا برا حال ہو گیا سو گھر جاتے ہی سب سے پہلے میں نے واش روم کا رُخ کیا اور نازیہ کے نام کی مُٹھ ماری۔۔۔اور باہر آ گیا ۔۔ لیکن نازیہ کے گول مموں خاص کر اس کے نوکیلے نپلز پھر سے میرے دماغ میں گردش کرنے لگے۔۔اور میرا لن پھر سے کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔ اور اتنی سختی سے کھڑا ہوگیا کہ مجھے ایسا لگنے لگا کہ یہ ابھی ٹوٹ جائے گا۔۔۔ یہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے میں نے دوبارہ سے مُٹھ کا ارادہ ترک کیا اور سوچا کہ لن کو ٹھنڈا کرنے کے لیئے اپنی ایک دوست آنٹی کو فون کرتا ہوں اور پھر فون سے یاد آیا کہ میرا موبائیل تو جاوید انکل کے گھر پڑا ہے پھر یاد آیا کہ وہ تو شادی پر گئے ہوں گے اب کیا کروں ؟ پھر ایک خیال زہن میں آیا کہ ہو سکتا ہے جاوید انکل شادی پر نہ گئے ہوں کہ عموماً ایسی دعوتوں پر جانے سے وہ پرہیز ہی کرتے تھے ۔۔ یہ سوچ کر میں نے ان کے گھر فون کیا ۔۔۔یاحیرت ۔۔کیونکہ دوسرے طرف سے ۔فون نازیہ نے ہی اٹھایا تھا اس کی آواز سُن کر میں حیران رہ گیا اورپھر میرے زہن میں ا س کے ننگے پستان آ گئے اور لن جو پہلے سے ہی تنا ہوا تھا مزید تن گیا ۔۔ نازیہ کے ہیلو کے جواب میں میں نے اس سے کہا کہ ۔۔ہائیں تم شادی پر نہیں گئیں ؟؟میرا سوال سُن کر ۔۔۔۔ پہلےتو کافی دیر تک وہ چپ رہی ۔۔۔۔میرے خیال میں وہ اس تزبزب میں تھی کہ کچھ دیر پہلے والے واقعہ کے بعد وہ مجھ سے بات کرے یا نہ کرے ۔لیکن جب کافی دیر تک میں اس سے نارمل انداز میں ہیلو ہیلو کرتا رہا اور اس پوچھا ۔۔۔ کہ کیا ہوا نازیہ ۔۔۔سو تو نہیں گئی ہو؟؟؟ ۔۔۔تو تب اس نے ایک گہرا سانس لیا اور میرا دس دفعہ کا پوچھا گیا سوال سن کر کہنے لگی جانا تھا پر نہیں گئی۔۔۔ اور امی کے ساتھ میری جگہ اسد چلا گیا ۔۔۔تو میں نے ویسے ہی پوچھ لیا کہ تمھارے نہ جانے کی وجہ کیا ہے؟ کہنے لگی بس ایک تو کوئی خاص موڈ بھی نہ تھا دوسرا پاپا کو وقت پر دوائی دینا میری ڈیوٹی میں شامل ہے۔۔ اور شادی کا فنگشن تم کو معلوم ہی ہے کہ رات گئے تک چلتا ہے اس لیئے ہمارا خیال تھا کہ ہم پاپا کو دوائی کھلا کر چلے جائیں گے لیکن عین وقت پر پاپا کا فون آ گیا کہ وہ تھوڑا لیٹ ہو جائیں گے اس لیئے میں رہ گئی۔۔ اس کی بات سُن کر میں بڑا خوش ہوا اور اس سے کہا کہ مس جی آپ کےہاں میرا موبائیل رہ گیا تھا آپ کی اجازت سے میں وہ فون لینے آ رہا ہوں ۔۔۔۔اور اس سے پہلے کہ وہ ہاں یا ناں میں کوئی جواب دیتی میں نے فوراً ہی ریسور نیچے رکھ دیا ۔۔اور پھر میں آندھی طوفان کی طرح نازیہ کے گھر پہنچ گیا ۔۔۔ اور جا ان کا دروازہ ناک کیا ۔۔ میری ناک کے جواب میں نازیہ باہر آئی تو میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں میرا موبائیل پکڑا ہوا تھا میں نے اس کے ہاتھ سے موبائیل لیا اور اندر داخل ہو گیا ۔۔ پتہ نہیں کیوں وہ کافی پریشان نظر آ رہی تھی ۔۔۔ اس کی پریشانی دیکھ کر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ کیا بات ہے تم کچھ پریشان سی لگ رہی ہو؟ تو وہ بات کو ٹالتے ہوئے بولی نہیں ایسی کوئی بات نہیں وہ بس ویسے ہی ۔۔۔اور چُپ ہو گئی ۔۔اور اپنے دوپٹے کا کونہ جو کہ اس کےمنہ میں تھا ۔۔۔ اسے بار بار ۔۔ منہ سے نکلتی اور پھر ۔۔۔منہ میں ڈال لیتی واضع طور پر لگ رہا تھا کہ وہ مجھ سے ۔۔۔ کچھ کہنا چاہ رہی تھی پر کہہ نہ پا رہی تھی ۔۔آخر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ سچ بتاؤ نازیہ بات کیا ہے؟؟؟؟ تو اس نے میری طرف دیکھ کر ڈرتے ڈرتے کہا کہ وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔ معاذ ۔۔ آنے ولا ہے۔۔۔ معاذ اس کے منگیتر کا نام تھا ۔۔اور جہاں تک میرا خیال ہے نازیہ جان بوجھ کر شادی پر نہ گئی گھی مقصد ۔۔۔ مقصد اپنے منگیتر کے ساتھ ۔۔کچھ ٹائم بتانا تھا ۔۔ لیکن عین وقت پر میں اس کے رنگ میں بھنگ ڈالنے میں آ گیا تھا۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ معاذ کا نام سُن کر میرے ارمانوں پر گھڑوں پانی پڑ گیا تھا ۔۔۔ اور پھر میں نے بڑی مایوسی سے نازیہ کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔۔تو تم چاہتی ہو کہ میں یہاں سے دفعان ہو جاؤں؟ ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ پہلی دفعہ مسکرائی اور بولی میں نے تو دفعان کے الفاظ استعمال نہیں کیئے۔۔۔ بس آپ کو اطلاع دی ہے ۔۔۔ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔میں دیکھ رہی ہوں کہ معاذ کا نام سُن کر آپ کے چہرے پر بارہ بج گئے ہیں ۔۔۔ تو میں نےاس سے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ اور بوجھل قدموں سے ان کے گھر سے باہر آ گیا ۔۔۔۔ ابھی میں نے نازیہ کی گلی کا مُوڑ ہی مڑا تھا کہ سامنے سے مجھے معاذ آتا دکھائی دیا جسے دیکھ میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میری ساری ہوشیاری بھی ختم ہو گئی ۔۔۔۔ اور میں ٹھنڈا ٹھنڈا اپنے گھر کو لوٹ آیا - رات کے دس بجے تھے کہ میرے موبائیل پر گھنٹی بجی دیکھا تو وہ نازیہ کے گھر کا نمبر تھا میں نے فون آن کیا اور ہیلو کہا تو دوسری طرف نازیہ تھی ۔۔۔ بڑی خوش لگ رہی تھی وہ کافی دیر تک میرے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی ۔۔پھر اچانک باتوں باتوں میں اس نے مجھ سے کہا کہ شاہ جی!!!! ۔۔وہ ۔۔ میں نے آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا حکم کرو سرکار۔۔۔۔ میری بات سُن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔بات یہ کرنی تھی کہ آپ نہ ماما سے اس بات کا ہر گز زکر نہ کرنا کہ آج معاذ ہمارے گھر آیا تھا۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں ساری بات سمجھ گیا لیکن چونکہ معاذ کی وجہ سے میرا پروگرام خراب ہوا تھا اس لیئے میں نے اس سے تھوڑی ترشی سے کہا کہ تمھاری بات تو ٹھیک ہے پر کیا تم بتا سکتی ہو کہ میں معاذ والی بات آپ کی ماما سے کیوں نہ کروں ؟ بات کرتے ہوئے میرا لہجہ کافی تلخ تھا اور میرے لہجے کی تلخی کو وہ سمجھ گئی اور خوشامدانہ انداز میں بولی ۔۔۔ ڈئیر شاہ جی ۔۔۔آپ میری ماما سے معاذ والی بات اس لیئے نہیں کریں گے کہ آپ میرے بہت اچھے دوست ہیں۔۔۔اور دوسری بات۔۔۔۔۔۔ پھر دفعتاً اسے کوئی بات یاد آگئی اور تھوڑا جھجکتے ہوئے بولی ۔۔۔وہ شاہ جی میں نے نا آپ سے شام والے واقعہ کی معزرت بھی کرنی تھی ۔۔اصل میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی اور خواہ مخواہ آپ کے ساتھ بدتمیزی کر بیٹھی اور پھر بڑے ہی معزرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔۔ امید ہے آپ نے مجھے معاف کر دیا ہو گا۔۔ تو میں نے شرارت سے اس سے کہا ۔۔نازیہ جی میں سمجھا نہیں کہ آپ مجھ سے کس بات کی معزرت کر رہیں ہیں ؟ میری بات سُن کر وہ سمجھ تو گئی کہ میں ایکٹنگ کر رہا ہوں لیکن بے چاری مجبور تھی کہ اسے اپنی ماما سے منگیتر کے ملن کی بات جو چھپانی تھی اس لیئے وہ تھوڑا اٹک اٹک کر کہنے لگی ۔۔۔وہ ۔۔ جب میں واش روم سے باہر آئی تھی ۔۔۔اس کی اتنی بات سُن کر میں نے ایک قہقہہ لگایا اور اس سے بولا ۔۔۔او ۔۔اچھا اچھا ۔۔۔اب میں سمجھا پھر میں نے اس سے کہا کوئی بات نہیں نازیہ جی ۔۔ ایک دفعہ دن کو آپ نے میرا سامان دیکھا تھا اور ایک دن شام کو میں نے آپ کا سامان دیکھ لیا ۔۔۔ حساب برابر ۔۔۔۔۔میری بات سُن کر پتہ نہیں کہ وہ بد مزہ ہوئی کہ اسے مزہ آیا ۔۔ لیکن اس نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔۔ اور میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔ اوکے شاہ جی آپ سے کافی گپ شپ ہو گئی ہے۔۔۔اب مجھے اجازت دیں پھر کہنے لگی ۔۔۔ اچھا تو میں معاذ والے معاملے سے مطمئن رہوں نا ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ کیوں نہیں جی آپ جم جم معاذ سے ملیں لیکن ۔۔۔۔ نازیہ جی آپ سے ایک گزارش ہے تو وہ کہنے لگی وہ کیا ؟ تو میں نے کہا کہ کبھی کبھی ۔۔۔ اس غریب پر بھی نظرِکرم کر دیا کریں ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ ایک ادا سے ہنسی اور کہنے لگی ۔۔۔۔ آپ کی درخواست نوٹ کر لی گئی ہے اور فون بند کر دیا۔۔۔۔۔ اس واقعہ کے بعد نازیہ کے ساتھ میرے تعلقات کچھ اور بھی گہرے ہو گئے اور وہ اکثر ہی مجھے اور میں اسے فون کرنے لگا ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ تقریباً ہر دوسرے تیسرے دن میں ان کے گھر بھی جانے لگا ۔۔۔ ان کے گھر میں عموماً نازیہ اور اس کی امی ہی ہوتیں تھیں ۔۔۔ جہاں تک اسد کا تعلق ہے تو اس بے چارے کا ان لوگوں نے شیڈول ہی اس قدر ٹائیٹ بنایا ہوا تھا کہ اسے گھر میں رہنے کا ٹائم بہت کم ملتا تھا ۔۔۔۔وہ دو بجے سکول سے آتا تھا ۔۔۔ پھر روٹی شوٹی کھا کر وہ دو تین گھنٹے آرام کرتا ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد وہ ٹیوشن کے لیئے کبھی ایک اور کبھی دوسرے سر ۔۔کے گھر چلا جاتا تھا اور وہاں سے وہ رات آٹھ نو بجے ہی واپس آتا تھا ۔۔۔ ادھر میں شام آفس سے چھوٹی کے بعد ہی ان کے گھر جایا کرتا تھا ۔۔۔ہوتے ہوتے نازیہ کے ساتھ ساتھ اس کی ماما کے ساتھ بھی میری اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی اور اب وہ دوستی دن بدن کچھ اور آگے بڑھ رہی تھی ۔۔۔نازیہ کی ماما کے ساتھ نہیں بلکہ نازیہ کے ساتھ ۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ گو کہ نازیہ کی ماما بھی بہت فرینڈلی تھی لیکن وہ مجھے ایک حد سے آگے نہیں جانے دیتی تھی اور نہ ہی وہ مجھے نازیہ کے ساتھ کوئی تنہائی کا موقعہ دیتی تھی ۔۔۔ لیکن پھر بھی موقعہ ملنے پر میں نازیہ کا ہاتھ پکڑ لیتا تھا اور اسے دبا بھی دیتا تھا ۔۔۔ اور بس ۔۔۔ اس سے آگے نازیہ کی چالاک ماما نے ہمیں موقعہ ہی نہیں دیا تھا۔۔ بلکل سائے کی طرح وہ نازیہ کے ساتھ رہتی تھی ۔اور نازیہ اپنی ماما سے بے حد ڈرتی تھی حلانکہ وہ بظاہر ایسی نظر نہ آتی تھیں لیکن ایک بات ضرور ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے نازیہ کو خاصہ کھینچا ہوا تھا ۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں آفس سے چھٹی کے بعد جاوید انکل کے گھر گیا ۔۔۔ نازیہ کی ماما یعنی کہ مسز جاوید گھر میں اکیلی تھی پوچھنے پر بتایا کہ نازیہ اپنے کسی دوست کے گھر گئی ہے ۔۔۔ وہ برآمدے میں بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھیں اور میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا ۔۔۔ خلافِ معمول آج مجھے مسزز جاوید کچھ زیادہ ہی سنجیدہ دکھائی دے رہیں تھیں میرے پوچھنے پر کہنے لگیں ۔۔۔۔ کچھ نہیں بیٹا ۔۔۔ پھر سبزی چھیلتے انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔ بیٹا آپ سے ایک بات کہوں. آپ برا تو نہیں مانیں گے؟ کیونکہ میرے اندر نازیہ کےبارے میں پہلےسے چور تو موجو د تھااس لیئے آنٹی کی بات سن کر میرے اندر کھد بُد شروع ہو گئی ۔۔ ۔۔۔ کہ پتہ نہیں آنٹی کیا بات کرنے والی ہیں۔۔ چنانچہ میں نے ان سے کہا ۔۔۔ جی آنٹی آپ بے دھڑک بات کریں ۔۔ میں برا نہیں مناؤں گا۔۔۔
 میری بات سُن کر وہ کہنے لگیں ۔۔ بیٹا وہ ۔۔۔وہ ۔آپ کو پتہ ہے کہ نازیہ کی منگنی ہو چکی ہے ؟ ان کی بات سُن کر میں حیران ہوا اور بولا جی آنٹی مجھے خوب اچھی طرح سے معلوم ہے کہ نازیہ کی منگنی ہو چکی ہے اور شاید اگلے سال اس کی شادی بھی ہو جائے ۔۔۔ میری بات سُن کر سبزی چھیلتے چھیلتے انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔۔پھر تم میرا مطلب ہے نازیہ۔۔۔۔۔۔ پھر بات کہتے کہتے وہ رُک گئیں اور سر جھکا کر بولیں ۔۔۔۔ امید ہےکہ تم میری بات کا مطلب سمجھ ہی گئے ہو گے ۔۔۔ آنٹی کی بات سُن کر میری تو ہوائیں اُڑ گئیں اور میں تیزی سے سوچنے لگا کہ اب میں ان کو کیا جواب دوں ۔۔۔ اسی دوران میرے شیطانی دماغ میں ایک آئیڈیا آیا اور ۔ زیادہ ٹائم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے بلا سوچے سمجھے اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔۔چنانچہ میں نے براہِ راست آنٹی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔۔۔۔۔آنٹی یقین کریں میرا نازیہ کے ساتھ کوئی چکر نہیں ہے ۔۔۔۔۔ بلکہ میں تو ۔۔۔۔ اور پھر میں نے جان بوجھ کر وقفہ دیا ۔۔ آنٹی جو بڑے غور سے میری باتیں سُن رہیں تھیں اس بات پر کہ۔۔۔ میرا نازیہ سے کوئی تعلق نہ ہے۔۔۔ حیرت کے مارے ان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور وہ کہنے لگیں ۔۔۔ لیکن ۔۔لیکن۔۔۔۔ میں۔۔۔آئی ایم سوری ۔۔بیٹا ۔۔۔لیکن پھر۔آپ ۔ہمارے گھر کے اتنے چکر کیوں لگاتے ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتیں ۔۔۔ میں نے اپنے چہرے پر ایک گھمبیر سنجیدگی کے ساتھ ساتھ بڑا ہی رومینٹک سا موڈ بنا لیا اور ان سے بولا ۔۔۔۔۔۔آنٹی اگر میں سچی بات کروں تو آپ ناراض تو نہیں ہوں گی نا ؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔ ہاں ہاں تم بات کروں۔۔تمھاری بات اگر ناراض ہونے والی بات بھی ہوئی تو میرا وعدہ ہے کہ میں تم سے ہر گز ناراض نہ ہوں گی ۔۔۔۔ تو میں نے ۔۔۔ تھوڑا ۔۔۔شرماتے اور ۔۔ ۔۔ڈرتے ڈرتے ان سے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔آنٹی جی با ت دراصل یہ ہے کہ مجھے آ آ ۔۔۔آپ بہت اچھی لگتی ہو۔۔۔۔۔۔ میری بات سُن کر آنٹی کو بہت سخت جھٹکا لگا ۔۔۔ اور ۔ وہ ۔ ہکلاتے ہوئے بولیں۔۔۔ یہ ۔۔یہ تم کیا کہہ رہے ہو بیٹا ۔۔۔۔۔ حیرت کے مارے آنٹی کی آنکھیں ڈھیلوں سے باہر نکل رہیں تھیں ۔ تم ۔تم۔۔۔ میرا خیال ہے آنٹی سے میری بات ہضم نہیں ہو ئی تھی اس لیئے ۔وہ اسی شاک کی حالت میں بولیں ۔۔۔بیٹا ۔میں تو ایک بوڑھی عورت ہوں ۔ تھی ۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ۔۔۔۔۔ آپ خود کو میری نظروں سے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے نہ کہ آپ کیا ہو ۔۔۔ اس کے فوراً بعد میں نے اپنی دماغ میں مہا جھوٹ کا فولڈر اوپن کیا اور ان سے بولا ۔۔۔۔ یقین کریں آنٹی ۔۔ میں آپ کی شاندار شخصیت سے بڑا متاثر ہو ں۔۔۔ آپ کی حسین آنکھوں اور آپ کے بات کرنے کے سٹائل نے مجھے تو گھائل کر دیا اور ۔۔اور آپ کا جسم ۔۔۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا آنٹی اک چہرہ غصے سے سُرخ ہو گیا اور وہ فوراً چارپائی سے اُٹھیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر بڑے جلالی لہجے میں کہنے لگیں ۔۔۔ خبردار ۔۔۔۔ اس سے آگے اگر تم نے ایک لفظ بھی کہا تو۔۔۔ حرامزادے ابھی اور اسی وقت میرے گھر سے دفعہ ہو جاؤ ۔۔۔۔ میرا خیال تھا کہ میری یہ لگاوٹ بھری باتیں سُن کر آنٹی پگھل جائیں گی ۔۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہو گیا تھا اور وہ غصے میں آ کر مجھے گھر سے ہی جانے کو کہہ رہیں تھیں یہ دیکھ کر میں نے ہمت نہیں ہاری اور تیزی کے ساتھ دماغ میں جھوٹ کے فولڈر سے ایک نیا جھوٹ نکلا اور ۔۔۔پھر وقت ضائع کیے بغیر میں نے اپنی جوتا اُتارا ۔۔۔ اور پھر بڑے جزباتی انداز میں اس کو اپنے سر پر مارتےہوئے کہا اسی لیئے میم ۔۔۔اسی لیئے ۔۔۔ میں آپ سے یہ بات چھپا رہا تھا ۔۔۔۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ میری یہ حرکت کبھی بھی برداشت نہیں کریں ۔۔ پھر میں نے اپنے جزبات سے بھرپور لہجے میں اپنا جوتا آنٹی کے ہاتھ میں دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔۔آپ پلیز ۔ مجھے اس گستاخی کی سزا دیں ۔۔۔۔ ۔۔۔ اور ان کی طرف دیکھا تو مجھے وہاں پر کشمکش کے آثار نظر آئے ۔۔۔۔ لیکن انہوں نے میرے ہاتھ سے جوتے کو نہیں پکڑا ۔۔۔۔ اور بولیں ۔۔۔ تم پلیز یہاں سے چلے ۔۔اپنے جانے کا سُن کر میں نے بڑی جگر پاش نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہو آنٹی۔۔۔ مجھ جیسے پاجی کو یہاں سے چلا ہی جانا چایئے ۔۔اس کے بعد میں نے جلدی سے اپنا جوتا پہنا اور ان کے گھر سے نکلنے سے پہلے میں ایک نظر ان کی طرف دیکھنا نہ بھولا ۔۔۔۔ اس کے بعد میں کافی دنوں تک آنٹی کے گھر کا چکر نہیں لگایا ۔اور اتفاق سے نہ ہی میرا آنٹی سے کوئی آمنا سامنا ہوا کہ میں اپنی ایکٹنگ کا رزلٹ دیکھ لیتا ۔میرے ان کے گھر نہ جانے سے گاہے نازیہ پوچھتی بھی رہی لیکن میں نے دفتر کی مصروفیت کا بہانہ بنا لیا لیکن اس کے ساتھ گپ شپ ویسے ہی چلتی رہی ۔۔۔۔۔۔ایک دن کی بات ہے کہ میں آفس سے گھر آیا تو دیکھا تو آنٹی امی کے پاس بیٹھی گپیں لگا رہیں تھیں ۔۔ میں نے آنٹی کو دیکھ کر دور سے سلام کیا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگا تو انہوں نے مجھے آواز دیکر بلایا اور بولیں ۔۔۔ کہاں جا رہے ہو ؟ ادھر تو آؤ ۔۔۔ اور میں بڑی مسکین سی شکل بنا کر آنٹی کے پاس چلا گیا ۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگیں ۔۔۔ کیا بات ہے ہم سے کوئی خفگی ہے ؟ جو تم نےکافی دنوں سے ہمارے گھر کا چکر نہیں لگایا ۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔ آنٹی کی بات سُن کر میرے دل میں منوں لڈو پھوٹ گئے کہ وہ مارا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں نے ان پر یہ بات ظاہر نہ ہونے دی اور بڑی آہستگی کے ساتھ ان سے کہا ۔۔۔ وہ جی میں آپ سے ڈر گیا تھا ۔۔۔ میری بات سُن کر انہوں نے تیوری چڑھائی اور بڑی مصنوعی خفگی سے بولیں۔۔ میں کوئ چڑیل ہوں جو تم مجھ سے ڈر گئے تھے؟ یہ سُن کرمیں نے ان سے کہا کہ تو پھر میں کل سے آپ کے گھر آجایا کروں؟ میر ی بات سن کر وہ کہنے لگیں کل سے کیوں بھائی تم آج سے ہی میرے ساتھ چلو۔۔۔ نازیہ بھی تم کو بہت یاد کر رہی تھی ۔۔۔ میں تو ان سے مایوس ہو گیا تھا لیکن آنٹی کے رویے لگ رہا تھا کہ میرا تیر نشانے پر بیٹھا ہے لیکن اس کے باوجود بھی میں نے آنٹی کی طرف سے محتاط ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔چنانچہ اب جب بھی میں ان کے گھر جاتا تو میں آنٹی کو سپیشل ٹریٹمنٹ دیتا لیکن اس بات کا خاص خیال رکھتا کہ نازیہ کو میرے اس نئے عشق کی بھنک بھی نہ پڑے ۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ حسبِ معمول میں آنٹی کے گھر گیا تو نازیہ نے دروازہ کھولا اور پوچھنے پر بتلایا کہ ماما نہا رہی ہیں ۔۔۔۔اتنے دنوں میں میرا یہ پہلا موقعہ تھا کہ مجھے نازیہ کے ساتھ تنہائی کا موقعہ ملا تھا ۔۔چنانچہ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو سہلاتے ہو بولا ۔۔۔وہ نازیہ جی میں نے آپ سے ایک درخواست کی تھی ؟ تو وہ اٹھلاتے ہوئے بولی ۔۔ کون سی درخواست جی ۔۔ مجھے تو کچھ یاد نہیں اور ساتھ ہی مسکرا دی۔۔۔اس کا مسکرانہ تھا کہ میں نے اس کو کھیچ کر اپنے گلے سے لگا لیا اور اس کے گال چوم کر بولا ۔۔۔یہ والی درخواست۔۔۔ جیسے ہی میں نے نازیہ کو گلے سے لگایا ۔۔وہ ایک دم پیچھے ہٹی لیکن اس دوران میں اس کے گال چوم چکا تھا۔۔۔ پیچھے ہٹتے ہی وہ بڑی خوف زدہ آواز میں بولی ۔۔۔۔ تم مرواؤ گے۔۔۔ اگر اوپر سے ماما آ جاتی ۔۔۔ تو نہ تم نے بچنا تھا نہ میں نے ۔۔۔ تو میں نے اس کی بات سن کر اس سے کہا جار ب جی بات یہ ہے کہ میں تو بس آپ کو یاد دلا رہا تھا کہ ۔۔۔ اتنے میں واش روم کا دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی اور نازیہ کے چہرے پر ایک رنگ سا آ گیا ۔۔ موقعہ اچھا دیکھ کر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ یاد آیا ۔۔۔ کہ میں دوبارہ یاد کرواؤں؟ میری بات سن کر اس نے ایک نظر آنٹی کے کمرے کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔۔ ہاں ہاں یاد آ گیا اور بھاگ گئی۔۔۔ اور میں بڑی شرافت سے چلتا ہوا ان کے ڈرائینگ روم میں جا کر بیٹھ گیا ۔۔۔ کچھ دیر بعد آنٹی کمرے میں داخل ہوئی اور ان کو دیکھ میں کھڑا ہو گیا اور یک ٹک ان کو دیکھنے لگا ۔۔۔ مجھے یوں اپنی طرف دیکھتے ہوئے وہ کہنے لگی۔۔۔ یہ۔۔تم مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو۔۔تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ آنٹی اگر آپ مائینڈ نہ کریں تو میں ایک بات کہوں تو وہ کہنے لگی بولو۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ۔۔۔اس سوٹ میں آپ اپسرا لگ رہیں ہیں ۔۔ میری بات سن کر ان کے چہرے پر لالی سی پھیل گئی اور کہنے لگیں ۔۔۔ باتیں بنانا تو کوئی تم سے سیکھے اور پھر میرے سامنے بیٹھ کر بولیں۔۔ کب آئے تو میں نے کہا بس آیا ہی ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک نظر کمرے کے باہردیکھا اور پھر مجھ سے بولیں ۔۔۔ نازیہ اندر آ رہی ہے ۔۔۔تم پلیز اپنی نظروں پر کنٹرول کرو۔۔ تو میں نے ان کو دیکھتے ہوئے رومینٹک لہجے میں کہا ۔۔۔ میں آپ کو نہیں دیکھ رہا ۔۔ بلکہ میری نظریں خود بخود آپ کے حسین سراپے کا طواف کر رہیں ہیں۔۔ ۔۔اتنی دیر میں نازیہ اندر داخل ہو چکی تھی ۔۔۔ اسے ۔۔۔ دیکھ کر وہ ہولے سے بولیں ۔۔ پلیز اپنی نظریں دوسری طرف کر لو۔۔۔ جیسے ہی نازیہ نے کولڈ ڈرنک کی بوتل میرے ہاتھ میں پکڑائی تو میں نے کولڈ ڈرنک پکڑتے ہوئے انگھوٹھے کی مدد سے اس کے ہاتھ پر مساج کر دیا ۔۔۔ جواب میں اس نے مجھے اپنے لمبے سے ناخن چبوئے ۔۔ اتنے میں آنٹی بولیں نازیہ بیٹے ۔۔۔ دوپہر کو مسرت آنٹی کا فون آیا تھا لیکن اس وقت آپ سوئی ہوئی تھیں ۔۔۔ کہہ رہیں تھں کہ کوئی ضروری کام ہے ابھی ان کو فون کر لو ۔۔۔ آنٹی کی بات سن کر نازیہ نے چوری چوری میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ ماما جی میں نے کوئی فون نہیں کرنا مسرت آنٹی کو ۔۔۔ تو آنٹی بولیں ۔۔۔ وہ کیوں بیٹا؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔ ماما آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ وہ فون پر کتنی لمبی بات کرتیں اُف ۔۔ بندہ بور ہو جاتا ہے پر ۔۔۔وہ اپنی ہی ہانکتی رہیتیں ہیں ۔۔ یہ سن کر آنٹی نے تھوڑے لاڈ سے کہا ایسے نہیں کہتے میرا بچہ ۔۔۔ کیا پتہ کوئی واقعہ ہی ارجنٹ کام ہو ۔۔۔ تم اس سے پوچھ لو پلیز۔۔۔ اور آنٹی کی بات سُن کر نازیہ نے ایک نظر ان کی طرف دیکھ اور بولی ۔۔ اوکے ماما ۔۔۔ اور مسرت آنٹی کو فون کرنے کے لیئے دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔
 اسے جاتے دیکھ کر آنٹی نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ شکر ہے اس کا دھیان تمہاری نظروں پر نہیں گیا ورنہ ۔۔۔ آنٹی کی یہ بات سن کر میں صوفے سے اُٹھا اور ان کے پاس چلا گیا اور بولا ورنہ کیا ہوتا ۔۔۔؟ مجھے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر ۔۔ وہ بولیں ۔۔۔ یہ یہ ۔۔تم کیا کر رہے ہو؟ تو میں ان کے قریب بیٹھ گیا اور بولا گھبرائیں نہ میں بس جی بھر کر آپ کے حسین چہرے کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ میری بات سن کر وہ ایک دم سے شرما گئیں اور بولیں ۔۔۔۔واقعہ ہی میں اتنی ۔۔کیوٹ ہوں ۔؟؟؟۔۔ یا تم ۔۔۔ مجھے بنا رہے ہو تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ آپ خود کو میری نظروں سے دیکھیں تو پتہ چلے نا ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں ان کی طرف جھک گیا اور ۔۔۔۔ اپنے ہونٹ ان کے ہونٹوں پر رکھ دیئے ۔۔۔ اور ہلکہ سا بوسہ دے کر بولا ۔۔ آپ بڑی سیکسی ہو ڈارلنگ۔۔۔ !!! میری بات سن کر ان کے چہرے پر حیا کی لالی چھا گئی اور وہ کہنے لگیں۔۔۔ تم بھی کچھ کم نہیں ہو ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں دوبارہ ان کی طرف جھکا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے پرے کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ کیا کر رہے ہو ۔۔ جوان بچی گھر میں ہے اگر اس نے دیکھ لیا تو وہ کیا سوچے گی؟ تو میں نے کہا ٹھیک ہے میں پرے ہو جاتا ہوں ۔۔ لیکن آپ ایک دفعہ مجھے گلے سے لگانے دیں ۔۔۔ میری بات سن کر وہ اُٹھی اور بولی ایک منٹ اور باہر چلی گئی ۔۔۔ پھر واپس آئی تو میں نے ان کہ کہنے سے پہلے ہی ان کو اپنے گلے سے لگا لیا ۔۔۔ اور آنٹی کے نرم ممے میرے سینے کے ساتھ پریس ہونے لگے ۔۔پھر میں ان کے منہ پر جھکا اور ایک دفعہ پھر ان کی ایک سیکس سے بھر پور شہوت بھرا بوسہ دے دیا۔۔۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ چھٹی ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھی کہ میرے موبائیل پر نازیہ کے گھر سے فون آیا ۔۔۔ میں نے آن کر کے ہیلو کہا تو آگے سے آنٹی بولیں ۔۔ وہ تم نے آج ہماری طرف آنا ہے کہ نہیں تو میں نے کہا کیوں نہیں ڈارلنگ ضرور آؤں گا تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ اگر مائینڈ نہ کرو تو " رے بین " والے سے جاوید کا چشمہ لےتں آنا ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا اوکے آتی دفعہ لے آؤں گا تو وہ کہنے لگی آتی دفعہ نہیں جی ۔۔۔ ابھی لاؤ کہ جاوید نے آ کر سب سے پہلا سوال یہی کرنا ہے ۔۔۔ ان کے لہجے میں کوئی خاص بات ضرور تھی کہ جسے سن کر میرا جسم سرشار ہو گیا اور میں نے کہا اوکے جی انکل کا چشمہ لیکر میں ابھی آیا ۔۔۔اور پھر باس کو بتا کر سیدھا” رے بین “والے کے پاس گیا وہ میرا واقف تھا ۔۔۔ چنانچہ وہاں سے انکل کا چشمہ لیکر میں سیدھا ان کے گھر چلا گیا ۔۔۔ میری دستک پر جیسے ہی آنٹی نے دروازہ کھولا تو انہیں دیکھ کر میں دنگ ہی رہ گیا ۔۔ کیونکہ وہ بڑے اہتمام سے تیار ہوئی ہوئیں تھی ۔۔۔ان کو اتنا تیار شیار دیکھ کر میں نے ان سے کہا ۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ آنٹی جی آج تو آپ قیامت لگ رہیں ہیں ۔۔۔ تو وہ بولیں ۔۔ ہٹ بے شرم ۔۔۔۔۔ میری کون سی عمر ہے قیامت لگنےکی ۔۔۔ اور مجھے اندر آنے کا راستہ دے دیا ۔۔۔۔۔۔اندر داخل ہو کر میں نے ان کو چشمہ دیتے ہوئے کہا خیریت ہے آپ نے اتنی جلدی کیوں بلایا ۔۔۔ پھر میں نے ادھر ادھر دیکھا اور بولا ۔۔۔ نازیہ کاہں ہے ؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ اس کی کسی دوست کی برتھ ڈے تھی وہ صبع سے ہی وہاں گئی ہوئی ہے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نہیں گئیں؟ تو وہ بولیں ۔۔۔ یار برتھ ڈے پارٹی رات کو ہے۔۔اس لیئے ہم سب رات کو ہی جائیں گے نا ۔۔ نازیہ تو اس لیئے گئی کہ وہ اپنی دوست کی کھانے پکانے میں کچھ ہیلپ کرسکے ۔۔۔۔ اور دروازہ بند کر کنڈی لگا دی ۔۔۔۔ اب میں نے آنٹی کو اپنی باہنوں میں بھرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ۔۔۔۔ ہم تم۔۔۔ اس مکان میں اکیلے ہیں ۔۔۔ تو انہوں نے ہاں میں سر ہلا کر کہا ۔۔۔ لیکن دیکھو۔۔۔کوئی بدتمیزی نہیں چلے گی۔۔۔ لیکن یہ بد تمیز کہاں باز آنے والا تھا۔۔ آنٹی نے اپنے موٹے سے ہونٹوں پر سُرخ رنگ کی سرخی لگائی ہوئی تھی جو ان کے گورے چہرے پر بڑی جچ رہی تھی۔۔اور ان کے یہ سرخ ہونٹ مجھے اور میرے لن کو بڑے تنگ کر رہے تھے۔۔اس لیئے میں آنٹی کے تھوڑے قریب ہو گیا یہ دیکھ کو وہ تھوڑا سا کسمائی اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں؟؟ کک کیا کرنے لگے ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ میں بولا کچھ نہیں ۔۔لیکن چلتا ہوا آنٹی کے بلکل قریب جا کھڑا ہوا اور اپنے دونوں ہاتھوں میں ان کے چہرے کو پکڑ کر بولا ۔۔۔آنٹی آپ کے ہونٹوں پر یہ سرخ سرخی قیامت ڈھا رہی ہے اور پھر اپنا منہ ان کے منہ کے قریب کرنے لگا ۔

جب میرے ہونٹ ان کے ہونٹوں سے چند سینٹی میٹر رہ گئے تو اچانک آنٹی بولیں ۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ایسے نہ کرو پلیز ۔۔۔ لیکن میں نے ان کی کوئی بات نہ سُنی اور اپنا منہ ان کے کان کے قریب لے گیا اور سرگوشی میں بولا ۔۔۔ آنٹی آپ کے ہونٹ بڑے پیارے لگ رہے ہیں میں بس تھوڑا سا ہی ان کو چوسو ں گا ۔۔۔ پہلے تو آنٹی نے کافی انکار کیا اور میرے بازؤوں کے حصار سے نکلنے کی بڑی کوشش کی لیکن بے سود۔۔۔ پھر وہ ہار مان گئیں اور ۔۔۔ میری طرف دیکھ کر کہنے لگیں ۔۔ وعدہ کرو کس کرنے کے بعد تم یہاں سے چلے جاؤ گے؟ تو میں نے کہا ٹھیک ہے میں چلا جاؤں گا ۔۔۔اب مجھے کس کرنے دیں ۔۔ اب میں نے اپنے ہونٹ ان کےسرخ ہونٹوں پر رکھے اور ان کا رس چوسنے لگا۔۔ ان کے منہ سے ایک عجیب سی مہک آ رہی تھی جو مجھے بھی مست سے مست تر بنا رہی تھی ۔۔۔۔کچھ دیر بعد میں نے اپنی زبان ان کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی تو وہ اچانک الگ ہو گئیں اور بولیں ۔۔۔ بس۔ پلیز اب تم یہاں سے جاؤ۔ ان کے کہنے پر بھلا میں کہاں جانے والا تھا اس لیئے میں نے ان سے کہا کہ بس ایک اور فائینل کس دے دیں تو میں چلا جاؤں گا ۔۔۔تو وہ بولیں ۔۔وعدہ۔۔۔ تو میں جھٹ کہہ دیا وعدہ ۔۔ اور پھر سے میں نے ان کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے اور ان کے ہونٹ چوستے چوستے بڑی نرمی سے اپنی زبان کو ان کے منہ میں داخل کرنے لگا۔۔۔ جیسے ہی میں نے اپنی زبان کو ان کے منہ میں ڈالا انہوں نے پہلے تو اپنے منہ کو نہ کھولا اور میری زبان کو اپنے منہ میں داخل نہ ہونے دیا لیکن میرے مسلسل ٹرائی سے انہوں نے ہلکا سا اپنا منہ کھولا اور میں نے موقعہ دیکھ کر ان کے منہ میں اپنی زبا ن ڈال دی اور کچھ ہچکچاہٹ کے بعد انہوں نے اپنی ٹیسٹی زبان کو میری زبان کے ساتھ ملا دیا ۔۔۔اور پھر جب میری ٹیسٹی زبان اس کی ٹیسٹی زبان سے ٹکرائی تو اچانک آنٹی کانپ اُٹھی اور میرے ساتھ چمٹ گئی۔۔ ۔۔۔ آنٹی کی زبان چوسنے کے ساتھ ساتھ میں نے ایک ہاتھ ان کی رائیٹ پستان پر رکھااور دوسرا ہاتھ ان کی قیمض کے پیچھے لے گیا ۔۔۔ اور ان کی زپ کا ہک پکڑا اور اسے دھیرے دھیرے نیچے لانے لگا ۔۔۔ادھر آنٹی اپنی زبان چوسوانے میں اتنی مگن تھیں کہ پہلے تو ا ن کو سمجھ ہی نہ آئی کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے لیکن جب انہوں نے اس بات پر غور کیا تو اس وقت تک دیر ہو چکی تھی اور میں ان کی قمیض کی ساری زپ کھول چکا تھا ۔۔۔۔ یہ جان کر انہوں نے میرے منہ سے اپنا منہ ہٹایا اور بولیں ۔۔۔ دیکھو تم وعدہ خلافی کر رہے ہو؟ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ نہیں میری جان میں وعدہ خلافی کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔ میں تو بس آپ کے یہ شاندار دودھ کا نظارہ کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر آنٹی نے سراسر مصنوعی خفگی سے کہا ۔۔۔ اُف ۔فو ۔۔۔ کیا مصیبت ہے کبھی کہتے ہو کہ صرف ہونٹ چومنے ہیں اور کبھی میرے دودھ پر نظر رکھتے ہے ۔۔۔۔۔ پھر بولیں نو نو میں یہ نہیں کر سکتی اب تم پلیز یہاں سے جاؤ۔۔۔ میں نے آنٹی کی بات سنی ان سنی کر دی اور ایک دم ان کو گلے سے لگا لیا اور ایک کس کر دی اور اس کے ساتھ ہی ان کی قمیض کے اندر ہاتھ ڈال کے ان کے دودھ پکڑ لیئے ۔۔۔۔ اور ان کو دبانے لگا۔۔۔اور پھر کچھ دیر بعد میں نے ان کی برا ۔اوپر کی اور ان کے ایک دودھ پر اکڑا ہوا نپل اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے مسلنے لگا۔۔۔ اب آہستہ آہستہ آنٹی بھی ڈرامہ چھوڑ کر میرے ساتھ سیکس کا مزہ لینے لگ پڑی تھیں۔۔ کچھ دیر تک نپلز مسلنے کے بعد میں نے جب ان کی قمیض اوپر کی تو انہوں نے ہلکا سا احتجاج کیا اور بولی ۔۔۔۔ نہ کرو نہ۔۔۔۔ پلیزززززززززز۔۔۔لیکن میں نے ان کا نپل اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر آنٹی کے منہ سےضبط کے باوجود ۔۔ہلکی ہلکی ۔۔لزت آمیز کراہیں۔۔۔ نکلنا شروع ہو گئیں۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ تم بڑے بد تمیز ہو۔۔۔ اُف ف ف ف ف۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ میں نے دوسرے ہاتھ سے آنٹی کی ننگی کمر پر مساج کرنا کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔جس سے ان کو بڑا مزہ اور وہ ۔۔سس۔سس۔ آہ ہ ہ ہ۔۔۔ کرنے لگ پڑیں۔۔۔۔۔ جب میں نے دیکھا کہ اب بڑی حڈ تک آنٹی کی مزاحمت دم توڑ چکی ہے تو میں نے اپنا ہاتھ ان کی کمر سے ہٹایا اور نیچے ان کی شلوار تک آ گیا اور ایک دم سے ان کی شلوار کے آزار بند پر ہاتھ رکھا اور آنٹی کی شلوار کھول دی ۔۔۔۔جس سے آنٹی کی شلوار نیچے زمین پر گر گئی اور جیسے ہی میں نے اپنا ہاتھ ان کی چوت کی طرف لے جانا چاہا ۔۔۔۔۔ تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کےس اتھ ہی اپنی دونوں رانوں کو بھی آپس میں ملا دیا ۔۔۔۔اور سر کو نہ کے انداز میں کر کے بولیں ۔۔۔۔ نہیں شاہ ۔۔۔۔ یہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔اب بس کر دو۔۔۔۔۔۔ اور مزید آگے نہ بڑھو پلیز زز۔۔۔ آنٹی کی بات سُن کر میں نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور ۔۔۔تو مجھے وہاں شہوت ہی شہوت نظر آ رہی تھی ۔۔۔ تب میں نے اپنی زبان نکلی اور ان کی کان کی لو کو چاٹنے لگا۔۔۔ فوراً ہی آنٹی کے منہ سے ۔۔۔سس۔۔۔سس۔۔۔ کی آواز نکلی ۔۔ اور میں نے ان کے کان سرگوشی کرتے ہو ئے کہا۔۔۔آنٹی میں کچھ نہیں کروں گا ۔۔۔میں تو صرف اس پر ہاتھ لگانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔آپ پلیززززز میرا ہاتھ چھوڑ دیں ۔اور رانوں کو بھی کھو ل دیں ۔ وعدہ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کروں گا مییر بات سُن کر وہ کہنے لگی۔۔۔ ؟تم بڑے جھوٹے ہو ۔۔۔بار بار وعدہ کرتے ہو اور پھر توڑ دیتے ہو۔۔۔ان کی بات سُن کر میں نے ان سے کہا ۔۔۔ آنٹی جہاں آپ نے اتنا درگزر کیا ہے ایک یہ بھی کر دیں ۔۔۔ اور ان سے اپنا ہاتھ چھڑوا لیا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی رانوں کو بھی کھول دیا ۔۔۔۔۔اور میں اپنا ہاتھ ان کی پھدی پر رکھ دیا ۔جو اس وقت کافی تپی ہو ئی تھی ۔۔جیسے ہی میرے ہاتھ نے ان کی پھدی کو ٹچ کیا تو مجھے صاف پتہ چلا کہ آنٹی کی چوت نیچے سے گیلی ہو رہی تھی ۔۔اب میں نے ان کی چوت کو اپنی مٹھی میں لیا اور بڑی بے دردی سے دبا دیا۔۔۔ تو آنٹی کے منہ سے ایک دلکش سی آہ۔۔۔ نکلی ۔۔ لیکن وہ کچھ نہ بولی۔۔اس کے بعد میں نے ان کی چوت پر ہاتھ پھیرنے شروع کر دیئے اور آنٹی چپ کر کے میرے ہاتھ کا مزہ اپنی چوت پر لیتی رہی ۔۔۔بس کھبی کھبی مم۔م۔مم ۔۔امم ۔کرتی رہیں ۔۔ اس کے بعد میں نے بھی چپکے سے اپنی پینٹ اتار دی ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انڈر وئیر بھی نیچے کر دیا اور پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ننگے لن پر رکھا اور ان سے بولا ۔۔۔ آنٹی میرے لن کو پکڑیں ۔۔۔ آنٹی جو کہ آنکھیں بند کیے اپنی پھدی پر میرے ہاتھ کا مساج انجوائے کر رہیں تھیں ۔۔۔ اور جیسے ہی میں نے ان کا ہاتھ اپنے لن پر رکھا اورہ ایک دم بدک گئیں اور آنکھیں کھول کر پھٹی پھٹی نظروں سے میرے لن کی طرف دیکھنے لگیں ۔۔۔ میرے لن کو دیکھ کر آنٹی کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور ۔۔۔پھر ۔۔۔ جب میں نے اپنا لن پکڑ کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے لہرانا شروع کر دیا تو ۔ اپنے سامنے ایک موٹے تازے لن کو لہراتے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ہوس کے لال ڈورے تیرنے لگے تھے ۔۔۔۔ لیکن انہوں نے میرا لن نہیں پکڑا ۔۔۔اور تھوڑاسا ہچکچائیں ۔۔۔ لیکن پھر میرے اصرار پر انہوں نے لن پر ہاتھ رکھ دیا اور ۔۔۔۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگیں ۔۔جیسے کہ رہیں ہوں کہ تم نے اتنا شاندار لن کہاں سے لیا ہے ۔۔ان کا یہ انداز دیکھ کر میں نے اپنا منہ ان پر جھکا لیا اور ان کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنے لگا۔۔ اور پھر میں ان کے منہ میں اپنا منہ ڈالے آہستہ آہستہ ان کو لیکر بیڈ کی طرف لے جانے لگا۔۔۔۔ ۔۔۔ آنٹی میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑے آہستہ آہستہ جوش میں آتی جا رہیں تھیں پہلے تو وہ بڑے آرام سے لن کو پکڑے ہوئے تھیں ۔۔لیکں پھر رفتہ رفتہ ان کے ہاتھ کی گرفت میرے لن پر سخت سے سخت تر ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ ۔۔۔۔ بیڈ کے قریب پہنچ کر میں نے ان کے منہ سے منہ ہٹایا اور ان کے اکڑے ہوئے نپل کر اپنے ہونٹوں میں لے لیا اور اس کو چوسنے لگا۔۔۔۔ابھی مجھے نپل لیئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک آنٹی نے میرے منہ سے اپنا نپل چھڑایا اور میرا لن کو دبا کر بولی ۔۔۔۔۔یہ کیا پکڑا دیا مجھے۔۔۔ اُف ف ف ۔۔۔۔ یہ کتنا موٹا اور پتھر کی طرح سخت ہے ۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے مسلسل میرے لن کو اپنی مُٹھی میں پکڑے ہوئے دبانا شروع کر دیا ۔۔۔اورپھر لن کے ساتھ کھیلتے کھیلتے ۔۔۔انہوں نے بڑی نشیلی نظرو سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔جانو۔۔۔۔کچھ کرو نا۔۔۔ کہ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ۔۔ پھر وہ مجھ سے بولیں۔۔۔ اچھا اگر تم کچھ نہیں کرتے تو میں خود ہی اس کا کچھ کرتی ہوں اور مجھ سے کہنے لگیں کہ میں بیڈ پر لیٹ جاؤں ۔۔۔ ان کے کہنے پہ جیسے ہی میں پلنگ پر لیٹا وہ بھی بیڈ پر آئیں اور گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی میرے لن کے پاس آ گئیں اور ایک دفعہ پھر اسے اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولیں۔۔۔ واہ ۔۔ ایسا ہوتا ہے نا لن ۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا منہ نیچے جھکایا اور میرے ٹوپے کو اپنے ہونٹوں میں لیکر ۔۔۔۔ اس پر ایک ہلکا سا بوسہ دیا ۔۔۔۔ پھر ۔۔آہستہ آہستہ میرے لن کو اپنے منہ کے اندر لے گئیں اور پھر آدھا لن لیکر کر اپنے منہ سے باہر نکلا اور بولیں ۔۔۔اس سے زیادہ میں نہیں لے جا سکتی ۔۔۔ اور پھر لن کو منہ میں لیا اور اسے چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔ لن چوستے چوستے انہوں نے ایک دفعہ پھر اپنا منہ میرے لن سے ہٹا یا اور کہنے لگیں ۔۔۔۔ شاہ۔۔۔ تمھارے سائز نے تو میرا جی خوش کر دیا۔۔
 اور تمھارے سائز کو دیکھ میرا جی کرتا ہے کہ میں تمھارا لن کھا جاؤں ۔۔تو میں نے ان سے کہا کہ کھا جاؤ نا میری جان۔۔۔تو وہ میری طرف دیکھ کر ایک ادا سے کہنے لگیں ۔۔۔۔ میں اسے کھانے میں ایک منٹ بھی نہ لگاؤں لیکن کیا کروں یار ۔۔۔ میری چوت ناراض ہو جائے گی ۔۔تو میں نے ان سے کہا کیوں آپ کی چوت کیوں ناراض ہو گی آنٹی جی ؟؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ ارے اتنی مشکل سے تو اس کو من پسند لن ملا ہے ۔۔۔۔ پھر کہنے لگیں یو نو۔۔ جب سے تم نے مجھے اپنا لن دکھایا ہے ۔۔۔ میری چوت اسے اپنے اندر لینے کے لیئے بے چین ہے اس پر میں نے ان سے کہا کہآنٹی جی میں نے آپ کی چوت پہ ہاتھ رکھ کر دیکھا تھا ۔۔۔خاصی گرم ہو رہری تھی ۔۔ میری بات سن کر آنٹی بڑے ہی مست اور نشیلے لہجے میں بولی ۔۔۔ کیا کہا تم نے صرف گرم۔۔۔ ارے میری جان ۔۔ میری چوت تو آگ پھینک رہی ہے آگ۔۔۔ پھر وہ اوپر اُٹھیں اور کہنے لگیں میں تم کو بتاؤں اپنی چوت کی آگ اور پھر گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی ۔۔۔ اپنی پھدی کو میرے منہ کے پاس لے آئیں اور اپنی دونوں انگلیوں سے چوت کے دونوں لبوں کو کھول کر بولیں ۔۔۔ دیکھ زرا ۔۔۔ میری پھدی سے کس قدر پانی کا اخراج ہو رہا ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی گرم پھدی میرے منہ پر رکھ دی ۔۔۔اور سرگوشی میں کہنے لگیں ۔۔۔ میری پھدی کو چاٹو۔۔۔ ان کی بات سُن کر میں نے اپنے منہ سے زبان باہر نکالی اور۔۔۔ ان کی پھدی کے اندر ڈال دی ۔۔۔اُف۔۔ف۔ ان کی پھدی اندر سے اس قدر گرم اور پانی سے بھر پور تھی کہ ۔۔۔مجھے چوت چاٹنے کا مزہ آ گیا ۔۔۔ اور میں ان کی کھلی چوت کے پانی میں اپنی زبان کو چپوؤں کی طرح چلانے لگا۔۔۔اور ان کی پھدی کے اندر تک اپنی زبان کو لے گیا۔۔۔ ابھی مجھے چوت چاٹتے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی ۔۔۔ کہ آنٹی نے گہرے گہرے سانس لینے شروع کر دیئے اور اس کے ساتھ ہی اپنی پھدی کو میرے منہ پر رگڑنے لگیں۔۔۔ اور پھر ان کی چوت سے پانی ایک سیلاب سا نکلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ۔۔۔۔۔۔۔ ان کی چوت سے تیزی کے ساتھ پانی کا اخراج ہونے لگا۔۔۔ پھر انہوں نے اپنی پھدی کو میرے منہ سے الگ کیا اور خود بستر پر لیٹ کر بولیں ۔۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔اب میں بستر سے اُٹھا اور ان کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں آ گیا ۔۔۔ اور پھر میں نے ان کی ایک ٹانگ کو اپنے کندھے پر رکھا اور اپنے لن کی نوک کو ان کے موٹے اور پھولے ہوئے دانے پر رکھا اور رگڑنے لگا ۔۔۔۔کچھ ہی دیر بعد آنٹی میرے نیچے سے کسمسائی اور بولیں۔۔۔میری جان اپنے لن کی نوک کو میرے دانے پر اور زیادہ رگڑو ۔۔مجھے بڑا مزہ آ رہا ہے ۔۔۔۔ اور میں نے اپنی لن کی نوک سے ان کے دانے کو اور بے دردی سے رگڑنا شروع کر دیا۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک لیا اور کہنے لگیں ۔۔۔۔ بس۔س۔۔س۔ اب میرے اندر ڈالو۔۔۔ اور پھر میں نے اپنا لن وہاں سے ہٹایا اور آنٹی کی چوت کی چوت پر ایک نظر ڈالی تو میں نے دیکھا کہ آنٹی کو چوت کافی بھری بھری اور گوشت سے بھر پور تھی ۔۔۔۔ جبکہ چوت کے لب کافی موٹے موٹے تھے اور تھوڑے لٹکے ہوئے تھے ۔۔اس کےساتھ ساتھ ساتھ ان کی چوت بلکل صاف اورشفاف تھی اور اس پر ایک بھی بال نہ تھا ۔۔۔ ان کی چوت کا اچھی طرح سے چائزہ لیکر میں نے اپنا لن کو ہاتھ میں پکڑا اور پھر ان کی چوت کے موٹے موٹے لبوں کے درمیان رکھ دیا ۔۔۔۔ اور ہلکا سا دھکا لگایا تو لن پھسلتا ہوا ۔۔۔ان کی گرم چوت میں اتر گیا ۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ میرے کانوں میں آنٹی کی مست آواز گونجی وہ کہہ رہیں تھی ۔۔۔ اور اندر کرو ۔۔۔ اور اندر کرو۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔پھر میں نے لن اور اندر کیا تو آنٹی نے ایک مست سسکی لی اور بولیں سارا ڈالا ہے نا۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟ تو میں نے ان کی بات کا کوئی جوات نہ دیا اور ۔۔۔۔ ایک طاقت سے بھر پور گھسہ مارا۔۔۔ تو وہ نیچے سے کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ ہاں تم نے پورا لن میرے اندر ڈالا ہے ۔۔۔مزہ آ گیا جانو۔۔۔۔۔۔ با رکو مت اور میری چوت کی جم کر پٹائی کرو۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے ان کی چوت میں لن کو تیزی کے ساتھ اندر باہر کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔اور میرے ہر گھسے پر وہ کہتیں ہاں ۔۔۔اب مزہ آ رہا ہے ۔۔یس۔س۔س۔س۔س۔سس۔۔۔پھر اس کے بعد میں نے ان کی مست آوازوں پر کوئی توجہ نہ دی اور پوری قوت سے اپنا لن ان کے اندر باہر کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد اچانک انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر مجھے روک لیا۔۔۔ اس وقت میرا لن جڑ تک آنٹی کی چوت میں پہنچا ہوا تھا کہ جب آنتی نے مجھے رُکنے کا اشارہ کیا ۔۔۔اور میرے رکنے پر ۔۔۔۔وہ بولیں ۔۔۔۔۔ لن چوت سے نکلو۔۔ میں نے سٹائیل تبدیل کرنا ہے اور جب میں نے اپنا لن ان کی چوت سے باہر نکلا تو میں دیکھا کہ میرا لن ان کی چوت کے پانی سے چمک رہا تھا یہ دیکھ کر انہوں نے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور بولیں۔۔۔۔ بڑی شاندار پٹائی کی ہے اس ظالم نے اور پھرتی سے میرے سامنے گھوڑی بن گئیں ۔۔۔ اور بولیں ۔۔۔ اب زرا پیچھے سے بھی ویسے ہی گھسے مارو جیسے کہ آگے سے مارے تھے ۔۔۔ا ن کی بات سن کر میں آنٹی کے پیچھے آ گیا اور پہلے تو ان کی موٹی بنڈ پر ایک کس کی اور پھر حسبِ عادت ان کی گانڈ کی موری میں انگلی گھمائی اور پھر لن کو ہاتھ میں پکڑا اور ان کی چوت پر رکھ دیا ۔۔۔ اور پھر پہلے اہستہ آہستہ گھسے مارے تو وہ اپنا منہ پیچھے کر بولیں ۔۔۔ طاقت لگا میری جان ۔۔اور پٹائی کر جیسے تھوڑی دیر پہلے کر رہا تھا ۔۔ ان کی بات سُن کر میں نے اپنے دھکوں اور طاقت کی رفتار بڑھا دی ۔۔۔ اور ۔۔۔ اپنی پوری قوت سے ان کی پھدی مارنے لگا ۔۔۔۔ میرے ہر گھسے پر وہ کہتیں شاباش ۔۔۔۔۔اور زور سے ۔۔۔۔اور میں اگلی دفعہ پھر زور لگا کر چوت میں گھسہ مارتا ۔۔تو وہ کہتیں ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔ اور پھر مجھے لگا کہ آنٹی کی شاباش میں کچھ گڑبڑ آ گئی ہے ۔۔۔اور وہ بڑا توڑ توڑ کر کہہ رہیں تھیں۔۔۔شا۔۔۔۔۔با۔۔۔ش ش آہ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی آنٹی اپنی پورے زور سے پیچھے ہونے لگیں اور میں سمجھ گیا کہ آنٹی چھوٹنے والی ہیں یہ صورتِ حال دیکھ کر میں بہت پُرجوش ہو گیا اور ۔۔۔۔ بجلی کی سی تیزی سے آنٹی کی چوت میں فُل سپیڈ سے گھسے مارنے لگا ۔۔۔اسی دوران آنٹی کا جسم کانپا ۔۔۔۔۔۔اور ان کی چوت کے مسل میرے لن کے ساتھ ملنا شروع ہو گئے اور پھر اچانک ہی میرے لن نے بھی منی چھوڑنے کا اشارہ دے دیا ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے آنٹی کی چوت میں آخری آخری گھسے مارے اور ۔۔۔اور پھر مجھے ایسا لگا کہ میرے لن سے پانی نکل نکل کر آنٹی کی تنگ ہوتی ہوئی چوت کہ تہہ میں اتر رہا ہے اور ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی آنٹی نے بھی ایک چیخ ماری ۔۔اوئی ماں۔۔۔۔ں ںں ں ۔۔۔اور ان کی چوت سے بھی پانی کا اخراج شروع ہو گیا اور میں بے دم ہو کر آنٹی کے اوپر ہی گر گیا۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ کچھ دیر تک میں آنٹی کے اوپر ہی گرا رہا پھر میں اُٹھا اور ان کے ساتھ ہی لیٹ گیا زور دار دھکے مارنے کی وجہ سے میرا سارا بدن پسینے میں نہایا ہوا تھا۔۔۔ جیسے ہی میں آنٹی کے اوپر سے ہٹا۔۔وہ پھرتی سے اپنی جگہ سے اُٹھیں اور مجھ سے چمٹ گئیں اور کافی دیر تک ہم ایسے ہی ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے رہے پھر انہوں نے ایک کپڑے سے میرا لن اور اپنی چوت کو اچھی طرح صاف کیا ۔۔۔ اورپھر میں واپس اپنے گھر آ گیا۔۔۔ اسی طرح میرا ان کے گھر آنا جانا لگا رہا لیکن اس دن کے بعد مجھے دوبارہ آنٹی کو چودنے کو موقعہ نہیں ملا ۔۔۔ ہاں جھٹ پٹ کس کر لیتا تھا یا ان کے ہاتھ میں لن پکڑا لیتا تھا ۔۔۔ لیکن اس کے بعد مجھے اس شاندار عورت کوچودنے کو موقعہ نہ مل سکا تھا ۔۔۔اسی طرح ۔ادوسری طرف ۔نازیہ کے ساتھ میری دوستی عروج پر تھی لیکن وہاں بھی مجھے کوئی ایسا موقعہ ہاتھ نہ لگ رہا تھا کہ جس سے میرا لن ٹھنڈا ہوتا ۔۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ اس دن صبع سے ہی کافی بادل چھائے ہوئے تھے ۔۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ بائیک پر آفس جایا جائے کہ نہیں یا چھٹی ماری جائے لیکن مسلہ یہ تھا کہ اس دن کچھ ایسے کام تھے کہ میں آفس سے چھٹی نہ کر سکتا تھا اور اسی شش و پنج میں تھا کہ اگر بارش شروع ہو گئی تو بڑی خواری ہو گی ۔۔۔ پھر سوچا کہ چلو ٹیکسی پر چلتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن آخری تاریخیں ہونے کی وجہ سے ۔۔۔ ٹیکسی پرجانا ۔بھی ۔۔ مشکل تھا ۔۔۔ چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے یہی فیصلہ کیا کہ اپنی بائیک پر ہی آفس جایا جائے ۔۔۔اور پھر میں نے اپنی پھٹ پھٹی سٹارٹ کی اور آفس پہنچ گیا ۔۔۔ سارے راستے میں ڈرتا ہی رہا کہ کہیں بارش نہ شروع ہو جائے ۔۔۔ لیکن خیریت ہوئی کہ میرے آفس پہنچتے پہنچتے بارش یہ ہوئی البتہ ٹھنڈی اور مست ہوا چلتی رہی ۔۔۔۔ جس کو وجہ سے موسم بڑا خوش گوار ہو گیا ۔۔۔اور میں یہ سہانا موسم انجوائے کرتا ہوا اپنے آفس پہنچ گیا ۔۔۔ ابھی مجھے اپنی سیٹ پر بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک میرے موبائیل پر ایک ایس ایم ایس آیا میں نے موبائیل آن کر کے دیکھا تو وہ ایس ایم ایس ۔۔ نازیہ کا تھا اور اس نے لکھا تھا۔۔ موسم ہے بارش کا اور یاد تمھاری آتی ہے بارش کے ہر قطرے سے آواز تمھاری آتی ہے ابھی میں نازیہ کا پہلا ایس ایم ایس ہی پڑھ رہا تھا کہ اوپر سے اس کا دوسرا ایس ایم ایس بھی آ گیا اس میں اس نے لکھا تھا رم جھم رم جھم برس رہی ہے یاد تمھاری قطرہ قطرہ ۔۔۔۔ نازیہ کا یہ میسج پڑھ کے میں بڑا حیران ہو گیا ہوا۔۔۔اور اس کو جوابی میسج کیا کہ مس نازیہ آپ کے میسج تو بہت اچھے ہیں لیکن آپ نے ان کو غلط پتہ پر بھیج دیا ہے میرے خیال میں تو یہ پیغام معاذ کے لیے بنتا تھا ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد مجھے پھر سے نازیہ کا جواب موصول ہوا اس نے لکھا تھا ۔۔۔ میں نے بلکل ٹھیک پتہ پر ٹھیک میسج بھیجے ہیں مسڑ شاہ۔۔۔اور اس کے نیچے لکھا تھا ۔۔ ساون کے دن آئے ساجن جھولا کون جھلائے۔۔۔یہ بات پڑھ کے میں نے اس کو لکھا کہ ۔۔۔ ڈئیر نازیہ تمھارا جھولا تو میں جھولا دوں ۔۔۔ لیکن اگر اوپر سے معاذ آ گیا تو ؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ اس نے جوب میں لکھا ۔۔ یہ تم نے کیا معاذ معاذ لگ ا رکھا ہے وہ اپنے آفس کے کام سے لاہور گیا ہوا ہے ۔۔ ۔۔ معاذ کا لاہورکا سن کر مجھے ایک کمینی سی خوشی ہوئی اور میں نے اس سے کہا ۔۔۔ اب میں سمجھا اور پھر ۔۔قدرے مزاحیہ انداز میں تحریر کیا ۔۔۔ تم اپنے لان میں جھولا ڈالو میں شام کو آ کے جھلا دوں گا میرے میسج کے جواب میں اس نے لکھا ۔۔۔۔ جی نہیں ۔۔۔ جھولا جھولنے پر اس وقت من کر رہا ہے اور آپ مجھے شام کا ٹائم دے رہئے ہیں آنا ہے تو ابھی آؤ کہ۔۔۔ شام کو تو ماما بھی آ جائیں گی۔۔۔ ماما کا گھر میں نہ ہونے کا سُن کر میرے لن نے ایک انگڑائی لی اور مجھ سے بولا ۔۔۔ سالے تُف ہےتم پر۔۔لڑکی اتنے کھلے اشارے دے رہی ہے اور تم ہو کہ ۔۔۔۔ میں نے اپنے لن کی بات بڑے دھیان سے سُنی اور اس کو لکھا ۔تم جھولا ڈالو ۔۔۔ میں آفس کا کام ختم کر کے تمھارے پاس آ رہا ہوں ۔۔۔میرے میسج کے جواب میں اس نے لکھا ۔۔ آفس گیا بھاڑ میں ۔۔۔تم ابھی اور اسی وقت میرے پاس آؤ ۔۔۔ پھر آگے لکھا تھا ۔۔۔یاد ہے تم نے ایک دفعہ ایک درخواست کی تھی ۔۔۔ تو آج تمھاری درخواست منظور کر لی گئی ہے ۔۔تم جتنا جلدی میرے گھر آ جاؤ گے تمھارے لیئے اتنا ہی بہتر ہو گا ۔۔۔ نازیہ کا اتنا کھلا پیغام ملتے ہی میں نے آفس کے کام کو خیر آباد کہا اور منہ پر مسکینی طاری کر کے باس کے پاس جا پہنچا اور اس سے عرض کی کہ جناب میرے نانا جی کو دل کا دورہ پڑا ہے اور وہ اس وقت پمز ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔۔۔ اس لیئے مجھے دو گھنٹے کی شارٹ لیو عنائیت فرمائی جائے ۔۔۔ میری بات سُن کر باس نے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ باس کو اپنی طرف متوجہ پا کر میں نے اپنی آنکھوں میں نمی لائی ۔۔۔ اور ایک بہت ہی ٹھنڈا سانس بھر کر بولا۔۔۔۔ سر میرے نانا۔۔۔۔اور منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ میری اس شاندار ایکٹنگ کا باس پر خاطر خواہ اثر ہوا ۔۔اور وہ بولا ۔۔۔ بزرگ بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں ۔۔۔ تم فوراً جاؤ ۔۔۔ تو میں نے کام کے بارے میں بات کی تو وہ کہنے لگے ۔۔۔ تم فوراً پمز پہنچو۔۔۔۔۔ باقی کام تو ہوتے رہتے ہیں۔۔۔۔ ان کی بات سُن کر میں وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا اور بائیک پر بیٹھ کر سیدھا نازیہ کے گھر پہنچ گیا سڑک پر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔۔۔ اور گھنے بادلوں کی وجہ سے دن بھی رات کا منظر پیش کر رہا تھا ۔۔غرض موسم بڑا سہانا اور رنگین تھا۔۔۔۔۔۔اور جا دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔۔ دروازہ نازیہ نے ہی کھولا اس وقت اس نے ایک کالے رنگ کی شال اوڑھی ہوئی تھی ۔۔۔ مجھے دیکھ کر بولی بائیک بھی اندر کھڑی کر دو اور سارا گیٹ کھول دیا ۔۔۔۔ میں نے بائیک کھڑا کیا اور ہم برآمدے میں پہنچ گئے جہاں پر پہلے سے ہی دو کرسیاں اور ایک میز پڑا تھا اور میز پر چائے کے سامان کے ساتھ خاص بات یہ تھی کہ پکوڑے بھی پڑے ہوئے تھے جو کہ برسات کی خاص سوغات تھی ۔۔۔۔ پھر اس نے مجھے وہاں بٹھا یا اور کہنے لگی ۔۔۔ میں چائے لیکر ابھی آئی اور پھر چند ہی لمحوں کے بعد وہ چائے بھی لے آئی اور میرے سامنے بیٹھ گئی۔۔۔ اور میری طرف دیکھنے لگی۔میں تو پہلے ہی اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔ ۔ اور ۔۔۔ وہ میری طرف ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ مجھےایک غزل کے چند مصرے یاد آ گئے ۔۔۔۔۔چنانچہ میں نے نازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ نظر جب اس سے ملتی تھی میں خود کو بھول جاتا تھا بس ایک دھڑکن دھڑکتی تھی میں دل کو بھول جاتا تھا چائے بناتے بناتے اس نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔بڑی شاعری فرما رہے ہو خیریت تو ہے نا ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا مس نازیہ میں شاعری نہیں فرما رہا بلکہ تم کو دیکھ شاعری خود بخود میرے ہونٹوں سے نکلتی جا ر ہی پھر میں نے اس سے کہا کہ نازیہ جی یہ شال تم پر بڑی جچ رہی ہے ۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کربولی ایسے مت بولو۔۔ تم پہ بھی تو یہ شرٹ بہت سوٹ کر رہی ہے تو میں نے اس کہا ۔۔تم ٹھیک کہتی ہو لیکن اور پھر اس یہ شعر سنایا ۔۔۔ اسے ملنے سے پہلے میں بہت سجتا سنورتا تھا مگر جب وہ سنورتی تھی میں خود کو بھول جاتا تھا شعر سُن کر وہ بولی ۔۔۔۔۔۔ مجھے بناؤ مت ۔میں تو کوئی بنی سنوری نہیں ہوں میں تو بس بارش کو انجوائے کرنے کے لیئےیہ عام سا لباس پہنا ہے تو میں نے اس سے کہا کہ اندازہ کرو تم اس عام سے لباس میں بھی قیامت ڈھا ۔۔۔رہی ہو میری بات سُن کر اس کا چہرہ شرم سے گل نار ہو گئی اور مجھے چائے کی پیالی دیتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ لو چائے پیو۔۔۔ میں نے اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ پکڑا اور ہم چائے پیتے ہوئے باتیں کرنے لگا ۔۔۔۔ ہمارے کپوں میں ابھی چائے ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اچانک ۔۔۔ بارش شروع ہو گئی بارش کا پانی دیکھتے نازیہ مست ہو گئی اور میری طرف دیکھ کر بولی آؤ نہاتے ہیں ۔۔۔۔ اور میراجواب سُنے بغیر اس نے اپنے جوتے اتارے اور شال کو کرسی پر رکھا اور بھاگ کر اپنے چھوٹے سے لان میں پہنچ گئی ۔۔اور دونوں بازو پھیلا کر ہلکی ہلکی بارش کا مزہ لینے لگی۔۔۔ اور پھر مجھے بھی اشارے سے اپنے پاس بلایا ۔۔ اس کا اشارہ دیکھ کر میں بھی اپنی سیٹ سے اُٹھا اور اپنی پینٹ میں پڑیں چیزیں نکال کر میز پر رکھیں اور شرٹ اور بوٹ وغیرہ اتار کر اس کے پاس لان میں چلا گیا ۔۔۔مجھے دیکھ کر وہ بولی ایسے ہی رہنے دیتے نا۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔ نہیں مجھے ننگا نہانا پسند ہے ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ شرارت سے بولی تو پھر پینٹ کیں پہنی ہوئی ہے۔۔یہ بھی اتار دیتے۔۔۔ابھی اس نے اتنی ہی بات کی تھی کہ میں نے جھٹ سے اپنی پینٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی۔۔۔۔ ۔۔ارے ارے۔۔۔۔ میں نے تو مزاق کیا تھا ۔تم تو سیریس ہی ہو گئے۔۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی ۔۔۔۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔۔۔ اور میں اور وہ بارش میں نہاتے ہوئے مسلسل ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ تب وہ ہولے سے بولی ۔۔۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ کا دھیان بارش کی طرف کم اور میری طرف زیادہ ہے ۔۔۔ پھر بولی آپ مجھے گھورنا بند کریں اور اور ۔۔۔ بارش کا مزہ لیں نا ۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے اس کو گھورنا بند کیا اور اس کےسراپے کا جائزہ لینے لگا ۔۔۔۔ اس نے پیلے رنگ کی پتلی سی لون کی قمیض پہنے ہوئی تھی ۔اور اس قمیض کے نیچے کالے رنگ کی برا تھی ۔۔۔ بارش کا پانی گرنے کی وجہ سے اس کی قمیض گیلی ہو کر اس کے بدن کے ساتھ چپک رہی تھی اور اس کی چپکی ہوئی قمیض سے اس کا انگ انگ صاف دکھائی دے رہا تھا مزید یہ کہ بارش کے پانی سے اس کی پتلی قمیض اس کے کالے برا کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی اور برا میں سے اس کے نوگ دار نپلز اکڑے ہوئے صاف نظر آ رہے تھے ۔۔۔ ۔اور اس کے اکڑے ہوئے نپلز دیکھ کر میرے انڈروئیر میں حرارت ہوئی اور میرا لن کھڑا ہو گیا ۔۔۔ پھر میں نے اس کے مموں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔اور بلکل فلمی سٹائل میں اپنے ایک گھٹنے کو موڑا اور اس کے ہاتھ کی پشت کو چوم کر بڑے ہی دل رومینٹک انداز میں بولا ۔ آئی لو یو۔ نازیہ ۔ میری اس حرکت سے نازیہ بڑی متاثر ہوئی اور اس نے میری دیکھا اور بڑے ہی دل نشین لہجے میں بولی ۔۔آئی لو یو ٹو۔۔۔۔۔۔اس کی یہ بات سُن کر میں نے اس سے کہا نازیہ یہ شعر بھی تمھارے لیئے ہے ۔ میں اکثر ہی یہ کہتا تھا میں تم سے پیار کرتا ہوں مگر جب وہ یہ کہتی تھی میں دنیا بھول جاتا تھا میرا شعر سن کر اس کے منہ سے ایک جلترنگ سی ہنسی پھوٹی اور اس کی یہ جلترنگ سے ہنسی کی آواز سُن کر میں کھو سا گیا اور اُٹھ کھڑا ہوا اور اس کا ہاتھ تھام کر بولا ۔۔۔ نازیہ اجازت ہو تو میں تم کو ایک کس کر لوں ۔۔۔ تو وہ شرارت سے بولی ۔۔ میں نے آپ سے بارش میں نہانے کے لیئے بلایا تھا ہے یہ بےہودہ حرکات کرنے کے لیئے نہیں۔۔۔ اس لیئے جناب براہِ کرم ۔۔ میری طرف بڑھتے ہوئے اپنے منہ کو قابو میں رکھیں اور برسات کا مزہ لیں ۔۔ لیکن میرا منہ کہاں قابو میں رہتا تھا۔۔اور میرا منہ اس کے منہ کے قریب ہو گیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر اس نے اپنا منہ دوسری طرف گھمایا اور بولی ۔۔۔۔ پلیززززززززز ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی بارش کا موٹا سا قطرہ اس کے لال ہوتے گالوں پر پڑا اور میں نے زبان نکال کر اس کے لال ہوتے گال پر بارش کا یہ قطرہ چاٹ لیا۔۔۔ یہ دیکھ کر اس کے منہ سے منکلا ۔۔۔س۔سس۔۔ مت کرو نا۔۔۔ پھر میں نے اپنی زبان اس کے ہونٹوں کی طرف کی اور اس کے ہونٹوں پر لگی نمی کو بھی چاٹ لیااور پھر اس کے ہونٹؤں کی نمی سے نم ہونے والی اپنی زبان کو اس کے ہونٹوں پر پھیرنا شروع کر دیا ۔۔۔ میری اس حرکت سے نازیہ نے ایک سسکی لی ۔۔۔۔اور بس اتنا ہی بولی۔۔۔ بارش۔ش۔ش۔۔۔ اور اس کے قبل کہ وہ کچھ مزید کہتی میں نے اس کے نیچے والے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔ نازیہ کے بدن نے ایک انگڑائی لی اور میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کو اپنے ساتھ چپکا لیا ۔۔۔ میرے سینے کے ساتھ لگتے ہی اس کے نوک دار نپلز میری چھاتی کے ساتھ لگ گئے اور اس کے اکڑے ہوئے نپلز کے ٹچ کا مزہ میرے سارے بدن میں پھیل گیا۔اور میرے اندر شہوت کا گھوڑا سر پٹ دوڑنے لگا ۔۔ ہونٹ چوستے چوستے میں نے اپنی زبان نازیہ کے منہ میں ڈال دی اور اس کی زبان سے اپنی زبان کو ٹکرانا شروع کر دیا ۔۔۔ نازیہ کے منہ سے اس کی زبان سے مجھے مست مہک آ رہی تھی اور میں پُرجوش طریقے اس کی زبان اور ہونٹوں کو چوس رہا تھا۔ طویل کسنگ کے بعد میں نازیہ سے الگ ہوا ۔۔۔اور اس کے بدن کے ساتھ چپکی ہوئی قمیض کو اتارنے لگا ۔۔۔ اور پھر اس کی قمیض اتار تے ساتھ ہی میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کی برا کا ہُک بھی کھول دیا ۔۔۔۔۔۔۔اور اب نازیہ کی ننگی چھاتیوں میرے سامنے تھیں ۔۔۔ جن کے اوپر پنک رنگ کے نوک دار نپلز اکڑے ہوئے ایک عجیب ہی بہار دکھا رہا تھے ۔۔۔ نازیہ کی چھاتیاں ننگی کر کے میں نے اپنی پینٹ اتاری اور اسے برآمدے میں پھینک دیا اب میں بھی صرف انڈروئیر پہنے نازیہ کے سامنے کھڑا تھا اس وقت میرالن اکڑا ہوا تھا اور اس کا رُخ آسمان کی طرف تھا میرا خیال ہے کہ نازیہ میرے انڈر وئیر کے ابھار سے میرے لن کے سائز کا اندازہ لگا رہی تھی کہ میں نے اس کو بازو سے پکڑا اور اسے گھما کر میں اس کے پیچھے کی طر ف آ گیا ۔۔ اور پھر میں نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑا اور نازیہ کو تھوڑا سا جھکا کر ا س کی گانڈ کے چھید میں اپنا موٹا لن پھنسا لیا اور پھر دونوں ہاتھ سامنے لے گیا اور اپنے دونوں ہاتھوں میں نازیہ کی شاندار چھاتیاں پکڑیں اور ان کو دبانے کے ساتھ اپنے دونوں ہونٹ جوڑ کر اس کی پشت کو چومنے لگا ۔۔۔ اب پوزیشن یہ تھی کہ میرا لن نازیہ کی گانڈ کی دراڑ میں پھنسا ہوا تھا میرے ہاتھ نازیہ کی دونوں چھاتیوں پر تھے اور میرے ہونٹ اس کے ننگے کندھوں سے چپکے ہوئے تھے ۔۔ میری اس واردات سے نازیہ کا برا حال ہو گیا اور وہ ۔۔۔ لزت آمیز سیکیاں لینے لگی ۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔ ادھر میں اپنے ہونٹوں سے مسلسل اس کی پشت کو چومتا رہا جس سے نازیہ کی آگ مزید بھڑک اُٹھی اور وہ بے چین ہو گئی اور لزت آمیز سسکیاں لیتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔جان۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔ اپنا پکڑا نا۔۔۔ آہ ۔۔سس۔سس ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک دم سے اپنی گانڈ کی دراڑ کو میرے لن کے گرد کسنا شروع کر دیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس کی پشت کو چومنا موقوف کر دیا اور پیچھے سے اکے اکڑے ہوئے نپکز کو اپنی دونوں انگلیوں میں پکڑا اور ان کو مسلنے لگا۔۔۔ میرے اس عمل سے نازیہ کو مزید آ گ لگ گئی اور وہ تڑپتے ہوئے اپنی گانڈ کو میرے لن کے گرد مزید سکیڑنے لگی اب میں نے اس کی چھاتیوں سے اپنے ایک ہاتھ ہٹایا اور اسے نیچے کی طرف لاتے ہوئے ۔۔۔ اس کی شلوار کے آزار بند پر آ گیا لیکن اس نے آزار بند کی بجائے۔۔۔۔ اپنی شلوار میں الاسٹک پہنا ہوا تھا ۔۔۔ چنانچہ میں تھوڑا پیچھے ہو کر لن اس کی گانڈ کی دراڑ سے نکلا اور پھر کھینچ کر اس کی شلوار نیچے کر دی اور اس کو ٹانگیں کھولنے کو کہا۔۔ نازیہ نے ایسا ہی کیا اور میں نے ایک دفعہ پھر اپنا لن اس کی ننگی گانڈ کی دراڑ میں پھنسا دیا ۔۔۔ تو وہ اپنا منہ پیچھے کی طرف کر کے بڑی ہی سیکسی آواز میں کہنے لگی۔۔۔ تم بھی اپنا انڈروئیر نیچے کرو نہ اور پھر اس نے خود ہی میرا انڈر وئیر کھینچ کر نیچے کر دیا اور میں نے اپنا ننگا لن دوبارہ سے اس کی ننگی گانڈ کی دراڑ میں پھنسانے لگا تو وہ بولی ایک منٹ ۔۔۔اور پھر اس نے اپنے منہ سے تھوڑا سا تھوک میری ٹوپے پر اور تھوڑا سا تھوک اپنی گانڈ کے رِنگ پر لگایا اور اس کے بعد وہ تھوڑا سا جھکی اور ۔۔۔۔ میرے لن کو پکڑ کر اپنی گانڈ کے رنگ پر رکھ دیا اور ۔۔پھر۔۔۔ بڑی احتیاط سے اس نے اپنی گانڈ کو میرے لن کی طرف دبایا ۔۔۔۔ اور ۔۔میرا ٹوپا پھسلتا ہوا اس کی گانڈ کے رِنگ میں پھنس گیا۔۔۔ اس کے بعد اس نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔ اس سے آگے نہیں لے کر جانا ۔اور پھر اس نے بڑی مستی کے ساتھ اپنے رنگ کو میرے ٹوپے پر کسا اُف۔ف۔ف۔ف اس کی گانڈ کے نرم ٹشو نے میرے ٹوپے کو بڑا مزہ دیا ۔۔۔۔ اور میں نے اس سے کہا ۔۔ایک دفعہ اور ویسا ہی کرو پلیززز۔۔۔ اور اس نے میری طرف دیکھا اور تین چار دفعہ اپنی گانڈ کو میرے ٹوپے پر بھینچ دیا ۔۔ اور پھر کہنے لگی۔۔اب تم پھر سے میری پُشت کو چومو ۔۔۔ اور میں نے اپنے دونوں ہونٹوں کو جوڑ کر اس کی ننگے کندھے پر رکھا اور اس کو چومنے لگا اس کےساتھ ساتھ میں اپنا ایک ہاتھ نازیہ کی پھدی پر لے گیا اور وہاں اپنی انگلیوں سے اس کی چوت پر مساج کرنے لگا اس کی پھدی پر ہلکے ہلکے بال تھے۔۔۔ اور وہ بال بارش کے پانی سے گیلے ہو رہے تھے پھر میں اپنی انگلیاں اس کی چوت کے اندر کے اندر کی طرف لے گیا ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔اس کی چوت سے بہت سارا پانی نکل نکل کر باہر کی طرف بہہ رہا تھا۔۔۔ میں نے اپنی انگلیاں اس کی چوت کی دراڑ میں پھیرتے ہوئے اس کے کان کی لو کو چوما اور بولا۔۔۔ نازیہ جی آپ کی چوت نے تو بہت سارا پانی خارج کیا ہوا ہے۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ نہ نہ ۔۔نہیں یہ پانی میری ۔۔۔۔۔۔۔ کا نہیں بلکہ یہ تو بارش کا پانی ہے ۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے اپنی دو انگلیا ں اس کی چوت میں ڈبوئیں اور پھر باہر نکال کر اس کے آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے بولا ۔۔یہ دیکھو جان ۔۔۔ یہ میری انگلیاں تمھاری چوت کےپانی سے پچ پچ کر رہیں ہیں ۔۔۔ اور اگر یہ بارش کا پانی ہوتا تو میری انگلیاں کبھی بھی چِپ چِپ نہ کرتیں ۔۔۔ میری بات سُن کر اس نے اپنے سر کو میری طرف گھومایا کہنے لگی ۔۔ جب تم اپنا مضبوط ڈنڈا میری گانڈ میں پھنساؤ گے تو میری چوت چِپ چِپ ہی کرے گی تو کیا کرے گی اور پھر کہنے لگی ۔۔۔ میری بات سمجھے ہو نا ۔۔۔ تو میں اس کی بات سمجھ کر ۔۔۔اپنے لن کو اس کی کی گانڈ کے رنگ سے باہر نکالا اور پھر نازیہ کو پکڑ کر اندر کمرے کی طرف لے جانے لگا ۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ بولی۔۔۔۔۔ یہ تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ تو میں نے کہا کہ اندر کمرے میں ۔۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ ہم یہاں ہی سب کچھ کریں گے ۔۔۔۔ اور پھر وہ وہیں اپنے لان کی میں لگی امریکن گھاس پر لیٹ گئی اور بولی۔۔۔ دیکھو نا۔۔۔۔۔ جان یہ گھاس کس قدر نرم ہے ۔اور اوپر سے ۔۔ موسم کس قدر حسین ہے اور ایسے میں مجھے کمرے میں لے جا رہے ہو ۔۔۔ میں نے نازیہ کی بات سُن کر وہیں رُک گیا اس کی دیکھا دیکھی میں بھی نیچے گھاس پر بیٹھ گیا ۔اور ویسے ہی گھاس پر ہاتھ لگا کر دیکھا تو ۔۔۔۔واؤؤؤ۔۔۔ ان کی گھاس بڑی ہی نرم اور ریشمی تھی ۔۔۔۔ مخملی گھاس پر لیٹی نازیہ بڑی شہوت زدہ نظروں سے میری دیکھ رہی تھی اس لیئے میں گھٹوں کے بل رینگتا ہوا نازیہ کے منہ کی طرف گیا اور پھر میں نے اپنا منہ نازیہ کے منہ کے قریب کیا ہی تھا  کہ اس نے مجھ سے   پہلے ہی اپنے منہ سے زبان باہر نکالی ہوئی تھی ۔۔ چنانچہ میں نے اس کی زبان کو اپنے منہ میں لیا اور چوسنے لگا ۔۔۔ اس کے منہ سے سہی مست مہک آ رہی تھی کہ  جس نے مجھے پاگل کیا ہوا تھا ۔۔۔  میں نے کچھ دیر تک نازیہ کی ذائقے والی زبان کو خوب  چوسا پھر میں نے اس کی زبان کو اپنے منہ سے  نکلا اور  اس کی گردن کو چومنے لگا۔۔۔ جیسے ہی میرے ہونٹوں نےاس کی گردن کو چھوا ۔۔۔ اس  نے سسکیاں لینا شروع کر دیں۔۔۔۔۔سی سی ۔۔۔آہ۔ہ ہ۔۔اوں ں ں ں ۔۔۔اس کے بعد میں اپنے ہونٹوں کو تھوڑا اور نیچے لایا اور نازیہ کی شاندار چھاتیوں پر   اکڑے ہوئے اس کے نوکیلے نپلز کو اپنے منہ میں لیا اورباری باری ان کو چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ اور پھر چوستا گیا ۔۔۔ نازیہ کے یہ نوکیلے نپلز  چوسنے میں ایسے  مزے دار تھے کہ میرا کے اس کی چھاتیوں  منہ  ہٹانے کو میرا دل نہ کر رہا تھا لیکن  ابھی چھاتیوں سے بھی زیادہ مزیدار چیز میری منتظر تھی ۔۔۔۔اس لیئے میں نے اس کیے اکڑے ہوئے نپلز سے اپنا منہ ہٹایا اور اور اس کی چھاتیوں کے نیچے سے زبان پھیرنے لگا۔۔  اس کے بعد آہستہ آہستہ میں اپنی زبان کو اس کی چوت کی طرف لانے لگا ۔۔۔ اور ابھی میری زبان اس کے ناف کے گول گڑھے تک جا پہنچی اور میں نے اس کے گڑھے میں خوب زبان گھومائی  اور پھر  آہستہ آہستہ نیچے کی طرف   آ گیا۔۔۔ اور   اس کو ٹانگیں کھولنے کو کہا ۔۔ میرے کہنے پر نازیہ نے اپنی دونوں ٹانگیں آخری حد تک کھول دیں ۔۔اور میں اس کی دونوں ٹانگوں کی بیچ کی جگہ پر بیٹھ گیا اور بڑے غور سے اس کی پھدی کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔ میں  نے  نازیہ کا  لگ بھگ  سارا جسم ہی   چاٹا  تھا لیکن   مجھے اس کے جسم پر  ایک بھی بال نظر نہ  آیا تھا۔۔۔  لیکن اس کے بر عکس ۔۔۔ میں دیکھا کہ نازیہ کی پھدی پر سنہری رنگ کے ہلکے ہلکے بال تھے ۔۔۔ اس کی چوت گوشت سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔۔ اور اس چوت کے ہونٹ  اندر کی طرف کو تھے اسی طرح نازیہ کی چوت کو دانہ  کافی موٹا اور اس وقت   کافی   پھولا ہو ا تھا  اور اس کی  دودھیا رنگ کی چوت اور سنہرے بالوں پر  قدرے کتھئی رنگ کا یہ سوجھا  ہوا دانہ بڑا  ہی دلکش منظر پیش کر رہا تھا  ۔۔اوپر آسمان پر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور نیچے میں ریشمی گھاس پر لیٹی  نازیہ کی پھدی کا بھر پور   نظارہ کر رہا تھا ۔۔ پھر میں نے اپنےدونوں  ہونٹ جوڑے اور اس کی چوت پر رکھ دیئے ۔۔۔اس  کی چوت سے ایک  بھینی بھینی   مست سی  مہک آ رہی تھی ۔۔۔  میں نے اس کی چوت کی مہک کو سونگھا اور پھر اس کی گوشت سے بھر پور چوت کو چومنے لگا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی ایک انگلی اس کی چوت میں بھی دے دی ۔۔۔۔۔۔.نازیہ کی چوت اندر سے کافی گرم اور تنگ تھی اور پانی  اس میں  کافی تعداد میں جمع تھا۔۔  چوت کو اچھی طرح چومنے کے بعد میں نے نازیہ کے انتہائی حَساس جِنسی عضو ۔۔یعنی کہ  اس کی چوت کے عین اوپر  ابھرے ہوئے  کتھئی سے رنگ کے دانے کو اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔ نازیہ جو پہلے ہی سیکس کی آگ میں جل رہی تھی ۔۔  میرا ہونٹوں میں اس کے دانے کو لینے کی دیر تھی ۔۔ کہ اس نے اونچی آواز میں سسکیاں لینا شروع کر دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُف ف فف ف ف ف۔۔۔ آہ۔۔۔ اور اپنےسر کو دائیں بائیں پٹخنے لگے۔۔۔ اور بولی۔۔۔۔۔  میرا  دانہ ۔۔ اُف۔ف۔ف۔ کھا جا ۔۔ اس کو۔۔آہ۔۔۔ اور چوس س س۔ اور پھر اس نے  میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بڑے ہی شہوت زدہ لہجے میں بولی ۔۔میرے دانے کو چوس کے نچوڑ لے۔۔آہ۔۔۔۔۔۔ اچھی طرح چوس ۔۔۔۔ اچھی طرح آہ آہ۔۔۔۔۔۔  دانہ چوسنے کے ساتھ ساتھ میں اس کے دانے کو اپنی زبان کی مدد سے چاٹتا بھی تھا ۔۔۔۔ اور ساتھ ہی  نیچے سے اس کی چوت میں اپنی انگلی کو بھی خوب گھوما رہا تھا۔۔۔۔  پھر کچھ دیر بعد میں  نے اس کے دانے  کو اپنےہونٹوں سے آذاد کیا اور اس کی چوت کے لبوں پر آ گیا اور پھر کچھ دیر تک اس کی چوت بھی چاٹی ۔۔۔ اسی دوران نازیہ ایک دفعہ فارغ بھی ہوئی تھی ۔۔۔ پھر نازیہ نے مجھے بالوں سے پکڑ کر اُٹھایا اور بولی۔۔۔۔ کھڑے ہو جاؤ۔۔۔ اور اس کی بات سُن کر میں اُٹھا  اور اس کے سامنے  گھاس پر کھڑا ہو گیا۔۔۔ جیسے ہی میں کھڑا ہو ا نازیہ بھی اپنی جگہ سے اُٹھی اور میرے سامنے اکڑوں بیٹھ گئی۔۔۔ اور میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی۔۔۔  جتنے تم سیکسی ہو نا اس سے 100 گنا زیادہ تمھارا لن سیکسی ہے۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا منہ میرے لن کے قریب کر دیا اور ۔۔۔۔ اپنے منہ سے زبان  باہر نکالی اور میرے موٹے سے ٹوپے پر پھیرنے لگی۔۔۔۔۔۔ اوربولی۔۔ اُف۔۔۔ کتنا گرم لن ہے تمھارا ۔۔۔اور پھر اس نے اپنا منہ کھولا اور میرے لن کو منہ میں لے لیا اور چوسنے لگی۔اس کے نرم ہونٹ اور گرم سانسوں کا میرے لن پر لگنا تھا کہ ۔۔۔ میں برداشت نہ کر سکا ۔۔اور آہستہ آہستہ کراہنے لگا۔۔۔مجھے کراہتے دیکھ کر اس نے اپنے منہ سے میرا لن نکالا اور بولی۔۔۔ تمہاری سسکیاں بڑی ۔۔۔ لزت انگیز ہیں ۔۔۔ ۔۔۔اور پھر اس کے بعد ۔۔ کافی دیر تک وہ مختلف زاویوں سےمیرے لن کو چوستی رہی اور میرے منہ سے   نکلنے والی  لزت آمیز کراہوں سے محظوظ ہوتی رہی۔۔ وہ کافی دیر تک میرا لن کو چوستی رہی پھر اچانک کھڑی  ہو گئی ۔۔ آسمان پر  کالے بادل چھائے ہوئے تھے اور ان کالے بادلوں سے  پھوار کی صورت میں           ہلکی ہلکی بارش برس رہی تھی۔۔۔ اور اس کےساتھ ساتھ  تھنڈی ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی ۔۔۔۔ نازیہ نے ایک نظر آسمان کی طرف دیکھا اور بولی  ۔۔  کتنا حسین موسم ہے۔۔۔۔ اس کی دیکھا دیکھی میں نے بھی ایک نظر آسمان کی طرف دیکھا اور اس سے بولا ۔۔ موسم واقعہ ہی بڑا حسین ہے پر۔۔لیکن ۔ نازیہ ڈارلنگ ۔۔۔۔ تم سا حسین نہیں ہے ۔۔۔ اس نے میری بات سنی اور شرما کر میری طرف دیکھا اور  بولی ۔۔۔ بناؤ مت ۔۔۔ اب میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کے ہاتھ کو ۔۔۔اپنے دل پر رکھ دیا ۔۔اور بولا۔۔۔۔ بے شک میرے دل سے پوچھ لو ۔۔۔ یہ صرف تمھارے نام پہ دھڑکتا ہے۔۔۔۔ اس نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا اور  میرے سینے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو  نا۔۔۔  تو میں نے اس کو چوم لیا اور بولا۔۔۔۔ آئی لو لو میری جان۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ  ہی اس کا  ہاتھ پکڑ کا اپنے لن پر رکھ دیا۔۔۔ اس نے اپنے  ہاتھ میں میرا لن پکڑ کر بولی۔۔۔  کتنا بڑا ہے تمھارا لن ۔۔۔۔ پھر اس کو دباتے ہوئے بولی ۔۔اس کو کیا کھلاتے ہو؟ ۔؟ تو میں نے بھی اس کی طرف دیکھتےہوئےکہا کہ ۔۔میری جان میں اس کو پھدی  کھلاتا  ہوں۔۔۔ میری بات سُن کر اس نے بڑی نشیلی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ صرف پھدی؟؟ تو میں نے کہا    ۔۔۔نہیں ۔۔۔  اس  کو گانڈ بھی کھلاتا ہوں ۔۔۔ ہونٹوں میں بھی دیتا ہوں ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ ابھی اس کو کیا کھلاؤ گے تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ ابھی میں اس کو تمھاری چوت کھلاؤں گا۔۔۔ میری بات سُن کر ایک دم اس کی آنکھوں میں ایک شرارت کوندی اور اس نے اپنے ہاتھ سے میرا لن چھوڑا  اور بولی۔۔۔۔ ۔۔۔۔ تو کھلاؤ نا۔۔۔اور اپنے لان میں بھاگنے لگی۔۔۔یہ دیکھ کر میں بھی اس کے پیچھے بھاگا اور ۔۔۔  جامن کے درخت کے  پاس جا کر اس کو پیچھے سے پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کو اپنے ساتھ چپکا لیا ۔۔۔ اوپر بارش ہو رہی تھی اور نیچے دو ننگے بدن آپس میں جُڑے ہوئے تھے۔۔۔اور دونوں میں ہوس کی آگ بھڑک رہی تھی ۔۔ میں نے پہلی دفعہ ۔۔۔۔ پانی کواپنے جسموں میں آگ لگاتے ہوئے دیکھا تھا۔۔ شہوت تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔۔  پھر نازیہ نے خود کو مجھ سے چھڑایا  اور وہیں اپنے  اپنے دونوں ہاتھ آگے بڑھاکر   جامن کے درخت کے تنے کو پکڑ لیا اور اپنی گانڈ کو تھوڑا پیچھے کر لیا ۔۔۔ اور پھر اپنا منہ میری طرف کر کے بولی۔۔۔ اپنے لن کو پھدی کھلاؤ نا جان۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں اس کے پیچھے گیا اور اپنے لن پر تھوڑا سا تھوک لگایا اور ٹوپا اس کی چوت پر رکھ کر ایک زوار دار گھسہ مارا تو ۔۔۔  پھسلتا  ہوا میرا لن ۔۔۔ نازیہ کی تنگ چوت میں اتر گیا۔۔۔۔اور اس کےس اتھ ہی نازیہ نے ایک لزت بھری سسکی لی اور بولی۔۔۔۔ پورا ڈالنا ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ فکر  نہ کرو میری جان۔۔۔  لن پورا ہی جائے گا اور ۔۔۔ پھر  میں نے اپنے لن سے اس کی چوت میں پمپنگ شروع کر دی۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ   فضا میں نازیہ کی مترنم اور  گرم سسکیاں بھی گونجنے لگیں ۔۔۔ جو کہ انتہائی لزت آمیز تھیں۔۔۔ اور جن کو سُن کر میں اور زور سے  دھکے  مارتا  اور وہ ۔۔۔ پیچھے مُڑ کر کہتی ۔۔۔  لن پورا گیا ہے نا۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی ۔۔ایک  انتہائی    لزت آمیز سی  چیخ مارتی ۔۔اُف۔ف۔ف۔ف آہ ہ ہ ہ ۔۔۔ اور میں نے مسلسل پیچھے  سے مسلسل دھکے مارنا شروع کر دئے ۔۔۔  کچھ دیر بعد اس نے  اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور  مجھے رُکنے کو بولا اور جب میں نے دھکے مارنے بند کر دئے تو اس نے ہاتھ پکڑ کر میرا لن اپنی چوت سے نکلا اور بولی۔۔۔ باقی چودائی۔۔۔ گھاس پر کرو۔۔۔ اور میرے ساتھ چلتی ہوئی  اپنے  لان کے وسط میں پہنچ  گئی اور وہاں جا کر لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں  کافی حد تک کھولیں اور ان کو اُٹھا کر   بولی۔۔۔۔۔ آ جاؤ ۔۔۔ اپنے لن کو میری پھدی کھلاؤ۔۔۔  میں اس کے ٹانگوں کی سائیڈ پر گیا اور گھٹنوں بل اس کے پاس  کھڑا ہو گیا اور پھر میں  نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑا اور اس کی چوت پر رکھ کر دھکا دیا۔۔۔۔ ۔۔جیسے ہی لن اس کی چوت میں گیا ۔۔۔نازیہ نے ایک چیخ ماری۔۔۔یس۔س۔س۔س۔سس۔۔۔ اور بولی۔۔۔۔ رُکنا نہیں ۔۔ بس مجھے چودتے جاؤ ؤؤ ؤ  ؤ ؤ  ؤ۔۔اور  پھر میں نے بنا کوئی سٹاپ کے اس کی پھدی میں دھکے مارنے شروع کر دیئے ۔۔۔اور اس کو چودتا گیا۔۔۔چودتا گیا۔۔اور وہ لزت آمیز سسکیوں میں مجھے ہلا شیری دیتی گئی اور پھر ۔۔ آخر ایک وقت وہ بھی آیا کہ میں اور وہ ایک ساتھ ایک ساتھ ہی چیخنے لگے اور مجھے پتہ چل گیا کہ میں بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانے والا ۔۔ ہوں تو میں نے نازیہ سے کہا۔۔ نازیہ میں چھوٹنے والا ہوں ۔۔۔ تو وہ بولی ۔۔۔۔ مجھے پتہ چل گیا ہے۔۔۔ تم رُکو مت ۔۔اور مجھے چودتے جاؤؤؤ۔۔ ۔۔اور اپنے لن کی ساری پھوار ۔۔ میری چوت میں اندر تک مار دو۔۔۔۔ اور اس کے  فوراً  بعد ہی اس کے جسم کو جھٹکے لگنا شروع ہو گئے  ۔۔۔اور پھر اس کی چوت کے سارے ہی ٹشو   میرے لن کے گرد سکڑ کر اکھٹے ہو گئے  اور ۔۔۔میرے لن کو  چاروں طر ف سے بھینچنے لگے۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس کی چوت نے ہیچانِ شہوت میں آ کر ۔پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔ میرے لن نے اس کی چوت کو گرم پانی محسوس کیا  ۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔اس کے ساتھ ہی ۔۔ مجھے بھی ایسا لگا کہ میری ٹانگوں کا سارا خون لن کی سمت بڑھ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر  اس کےس اتھ ہی میرے منہ سے نکلا۔۔۔۔اوہ ہ ہ ہ ہہ ہ۔۔۔۔ اوپر آسمان سے  بارش کا پانی  برس رہاتھا  اور نیچے  نیچے زمین پر گھاس پر لیٹی  نازیہ کی چوت میں میرا لن  فوارے کی صورت میں  اپنا  پانی  چھوڑ  رہا  تھا ۔۔۔۔  اور نازیہ کی  چوت   میرے اس پانی  سے   بھرتی جا رہی تھی ۔ میرے اور بارش کے پانی میں فرق  یہ تھا کہ ۔۔ بارش کے  پانی نے نازیہ کے تن بدن میں  آگ لگائی تھی جبکہ ۔۔۔ میرے پانی نے اس کے تن بدن کی  آگ بجھائی تھی۔۔۔۔۔
ختم شد

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے