معصوم یا مجبور

 


معصوم یا مجبور
میرا نام کاشف ہے اور میری زندگی کا پورا وقت کراچی میں ہی گزرا ہے اسی شہر کراچی میں صبح میں اسکول اور اسی اسکول میں شام میں کوچنگ سینٹر ہے میں وہاں جاب کرتا ہوں۔
میری عمر اس وقت 30سال ہے۔ یوں تو میری زندگی میں بہت لڑکیاں آئیں ہیں کیوں کے کام کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے کے زیادہ تر وقت لڑکیوں کے درمیان ہی گزرتاہے اور آج کل کا جو ماحول ہے اس میں ہردوسری لڑکی اپنی چوت ہاتھ میں لے کر گھوم رہی ہے بس چودنے والا ہونا چاہئے ۔ لیکن میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کے بہت رازداری اور اپنی اور دوسرے کی عزت کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور بعض اوقات اگر لڑکی ننگی ہو کر بھی آجائے خود چدوانے کیلئے تب بھی خود کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے کیوں کے تقریباً 10سال کی سخت محنت سے مالکوں کی نظر میں اپنی عزت بنائی ہے اور ذراسی غلطی کی وجہ سے اسے کھونا نہیں چاہتا۔
میں نے آپ کو بتایا ہے کہ میں صبح سے رات تک ایک ہی جگہ جاب کرتا ہوں دن میں دو گھنٹے کا گیپ بھی آتا ہے جو 2سے 4ہوتا ہے اور اس دوران صبح کا اسٹاف اپنے گھر چلاجاتا ہے اور شام کا اسٹاف 4 کے بعد آتا ہے میرا گھر کافی دور ہے اسلئے میں گھر نہیں جاتا۔ ایک دن دوپہر کے وقت تقریباً 2:30 کا ٹائم ہوگا میں اپنے کوچنگ کے آفس میں بیٹھا تھا کے ایک لڑکی اندر آئی اس نے چہرے پر نقاب لگایا ہوا تھا اور اس کی صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں اور آنکھوں سے ہی اندازہ ہورہا تھا کہ وہ بہت خوبصورت ہوگی سلام و دعا کے بعد اسنے کہا کہ وہ کمپیوٹر کورس کرنا چاہتی ہے لیکن وہ کوچنگ نہیں آسکتی ہے اسے کوئی ایسا ٹیچر چاہئے جو گھر پر آکر پڑھادیا کرے میں نے اس کا نمبر لیا اورکل ٹیچر بھیجنے کا وعدہ کرلیا۔اس کے جانے کہ بعد سوچا کہ کیوں نہ میں خود ہی چلاجایا کروں کچھ انکم بھی ہوجائے گی اور دوپہر کا فارغ ٹائم بھی کٹ جایا کریگا ۔اگلے دن میں نے اس نمبر پر کال کی اپنا تعارف کرواکر ایڈریس لیا اور ان کے گھر چلا گیاجو کہ اسکول سے بہت قریب تھا مطلوبہ فلیٹ پر جا کر بیل بجائی تو ایک لڑکی نے دروازہ کھولا میں نے اپنا تعارف کرایا تو اس نے مجھے اندر بلاکر ڈرائنگ روم میں بیٹھایا اور انتظار کرنے کا بول کر اندر چلی گئی۔کچھ دیر انتظار کے بعد ایک گوری چِٹّی لڑکی اندر آئی جس نے نماز کے اسٹائل میں پورا دوپٹہ کور کیا ہوا تھا اور چونک کر مجھے دیکھااس کے چوکنے سے اور اس کی آنکھوں سے مجھے اندازہ ہوگیا کے یہ وہ ہی لڑکی ہے جو کل میرے پاس آئی تھی اسنے مجھے سلام کیا اور سامنے صوفے پر بیٹھ گئی اور اس نے آواز دی اسماء اس کے آواز دیتے ہی وہ لڑکی آگئی جس نے دروازہ کھولا تھا اسنے اسماء سے چائے بنانے کہ لیے کہا اس کے جانے کہ بعد مجھ سے پوچھا کہ کیا میں خود پڑھاوں گا اسے میں نے اسے جواب دیا کہ اگر آپ مجھ سے نہیں پڑھنا چاہتی تو میں نہیں پڑھاوں گا کسی اور کو بھیج دوں گا اسنے کہا ک نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے کل جب آپ سے بات ہوئی تھی تو میں سمجھی کہ آپ کسی دوسرے ٹیچر کو بھجیں گے لیکن آپ خودہی آگئے تو بس یوں پوچھا تھا میں نے کہا کہ دن میں اس وقت فری ہوتا ہوں کل جب آپ سے ملاقات ہوئی تھی تو وہ میرا آف ٹائم تھا لیکن گھر کافی دور ہے اس لیے میں وہیں ٹائم گزارتا ہوں گھر نہیں جاتا اگر آپکو یہ ٹائم سوٹ کرتا ہے تو میں خود آجایا کروں گا لیکن آپ کسی اور وقت پڑھنا چاھتی ہیں توکسی اور کو بھیج دوں گا اسنے کہا کہ نہیں یہی ٹائم ٹھیک رہیگا اسنے فیس کا پوچھا میں نے کہا کہ آ پ کچھ دن پڑھ کے دیکھ لیں اگر آپ کو میرا ٹیچنگ اسٹائل سمجھ آجائے تو فیس کی بات بھی ہوجائے گی اتنی دیر میں اسماء چائے لے کر آگئی اس کے چائے رکھنے کے بعد میں نے پانی مانگا تو وہ پانی لینے چلی گئی اس کہ جانے کہ بعد میں نے اس سے اس کا نام پوچھا تو اسنے اپنا نام مبینہ بتایامیں نے اس سے پوچھا کہ آپ گھر پر ہی کیوں پڑھنا چاھتی ہیں اگرآپ انسٹیٹیوٹ آجایا کریں تو آپ کم فیس میں پڑھ سکتی ہیں کیوں کے کوئی بھی ٹیچر گھر آکر پڑھانے کی زیادہ فیس لیگا تو اسنے کہا کہ وہ روز روز اکیلی نہیں آسکتی ہے کیوں کے سے کوئی لانے والا نہیں ہوتا ہے میرے شوہر صبح آفس چلے جاتے ہیں اور رات تک واپس آتے ہیں میرے شوہر کا ٹرانسفر ابھی لاہور سے کراچی ہوا ہے یوں ہم کراچی شفٹ ہوئے ہیں مجھے یہاں کے راستوں کا بھی زیادہ علم نہیں ہے نہ ہی یہاں ہمارا کوئی رشتہ دار ہے نہ کوئی ملنے والا ہے کبھی اپنے شوہر کہ ساتھ آتے جاتے آپ کے انسٹیٹیوٹ پر نظر پڑجاتی تھی تو یوں وہاں آگئی تھی لیکن روز روز آنا ممکن نہیں ہے سارا سارا دن گھر میں بور ہوتی ہوں بس گھر میں اسماء اور میری ساس ہوتی ہیں اسماء ہماری نوکرانی ہے وہ بھی لاہور سے ہی ہمارے ساتھ آئی ہے اور میری ساس بھی ساتھ آگئیں ہیں کچھ دن کے لئے۔

میں نے سوچا کہ سارا سارا دن بور ہونے سے بہتر ہے کے کمپیوٹر ہی سیکھ لوں تاکہ کچھ ٹائم پاس ہو سکے جب اسنے اپنے شوہر کا بتایا تو مجھے بہت حیرت ہوئی تھی کیو ں کے وہ کسی طرح بھی شادی شدہ نہیں لگ رہی تھی لیکن میں نے خود کو کنٹرول کیا اور اپنی حیرت کا اظہار نہیں کیا پھر کچھ اِدھر اُدھر کی باتوں کہ بعد میں نے کہا کہ میں ہفتہ میں پانچ دن آ سکتا ہوں کیوں کہ ہفتہ اور اتوار کو انسٹیٹیوٹ کی چھٹی ہوتی ہے یوں میں اِدھر نہیں آتا اس بات پر بھی وہ راضی ہوگئی پھر میں نے اجازت لی اور کل سے پڑھانے کا کہہ کر واپس انسٹیٹیوٹ آگیا لیکن کافی دیر تک میں مبینہ کہ بارے مین ہی سوچتا رہا اس کہ جسم کا تو کچھ اندازہ نہیں ہوا تھا مگر شکل سے وہ بہت معصوم تھی گوری لال ٹماٹر جیسے گال بڑی بڑی آنکھیں اور پلکیں وہ سچ میں اتنی خوبصورت تھی کہ جو دیکھے دیکھتا ہی رہ جائے اور مجھے ایک بات اور بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ گھر میں اکیلی ہے ماحول بھی نیا ہے تو اس کہ شوہر نے اسے اجازت کیسے دیدی کہ یوں گھر میں کسی کو بھی بلاکر کمپیوٹر سیکھ لے خیر ان سب باتوں سے مجھے کوئی لینا دینا نہیں تھا مجھے تو خوشی اس بات کی تھی کہ میری انکم میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ بھی اتنی خوبصورت لڑکی کو پڑھانے کے لئے اسے پڑھانے کے اگر پیسے دینے پڑتے تو مجھے وہ بھی منظور تھا اگلے دن جمعہ تھا اور بھی دو دن کی چھٹی تھی تو میں نہیں گیا سوچا پیر سے ہی جاؤگا تقریباً شام پانچ بجے مبینہ کی کال آگئی اور اسنے نہ آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ آج کچھ مصروف تھا یوں نہیں آسکا میں پیر سے آؤگاں پھر دو دن کی چھٹی آگئی اس دوران بھی کئی بار مبینہ کا خیال دماغ میں آتا رہا پھر پیر کو صبح اسکول گیا مگر پتہ نہیں کیوں کام میں دل نہیں لگ رہا تھا اور بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا کہ جلدی سے ٹائم گزے اور دو بج جائیں اس دن سچ میں دن گزارنا مشکل کام تھا خیر جب اسکول کی چھٹی ہوگئی تو میں نے جلدی جلدی تمام کاغذات رکھے اور جانے کی تیاری کرنے لگا تو اسی دوران اسکول کے مالک نے کال کی اور اپنے آفس میں طلب کیا میں سر کے پاس گیا تو انہوں نے پوچھا کہ کہاں جانے کی تیاری ہے تم تو گھرنہیں جاتے۔۔ تو میں نے کہا کہ سر میری خالہ یہاں قریب میں شفٹ ہوگئی ہیں تو میں دن میں وہاں جایا کروں گا وہیں کھانا کھاکر کچھ دیر آرام کرلیا کروں گا اور چار بجے تک واپس آجایا کروں گا کیوں کہ میں انہیں نہیں بتا سکتا تھا کہ انسٹیٹیوٹ کہ ریفرینس سے مجھے ٹیوشن ملی ہے پھر میں نے اسکول سے نکل کر اپنی بائک لی اور اپنی منزل کی جانب چل پڑا جب میں مبینہ کی گھر پہنچا تو 02:15 کا ٹائم تھا میں نے بیل بجائی جانے کیوں اس وقت مجھے بہت گھبراہٹ بھی ہو رہی تھی اور خوشی بھی۔۔۔

بہت عجیب کیفیت تھی میری بیل بجانے کے چند سیکنڈ بعد ہی اسماء نے دروازہ کھول دیا اور مجھے سلام کیا اور اندر آنے کا اشارہ کیا میں اس کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہو گیا اور اس نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور خود اندر چلی گئی کچھ ہی سیکنڈ بعد واپس پانی لے کر آئی میں نے پانی پیا پھر اسماء بولی کہ باجی آپ کو اندر بلارہی ہیں میں اس کہ پیچھے پیچھے اندر چل پڑا اور ہم ڈرائنگ روم کے ساتھ ہی بنے بیڈروم میں داخل ہو گئے۔وہاں سامنے ہی بیڈ پر مبینہ بیٹھی ہوئی تھی روم بہت صاف اور سلیقے سے سجا ہوا تھا ہر چیز اپنی جگہ پر تھی میری نظر مبینہ پر پڑی وہ آج بھی اسی طرح دوپٹہ کور کر کے بیٹھی تھی اس پر نظر پڑتے ہی میری حالت جانے کیوں عجیب سی ہوگئی۔۔۔۔

لیکن میرا دل تیز تیز دھڑکنے لگا اور میں پورا کانپ گیا کیوں کہ وہ اس دن بھی اتنی ہی خوبصورت لگ رہی تھی اس نے بہت ادب سے مجھے سلام کیا اورمیں نے جواب دیا پھر اسنے جمعہ کو نہ آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے کہہ دیا کہ میں مصروف تھا۔

تو اس نے کہا کہ اگر میں مصروف ہوا کروں اور نہ آسکوں تو پہلے سے بتادیا کروں وہ انتظار کرتی ہے میں نے معزرت کی اور کہا کہ آئندہ خیال رکھوں گاپھر میں نے کمپیوٹر کا پوچھا تو مبینہ نے اسماء کو اشارہ کیا اور سائیڈ میں رکھے کمپیوٹر پر سے اسماء نے کور ہٹایا میں نے آگے بڑہ کر پی سی آن کیاپھر مبینہ سے پوچھنا شروع کیا کہ اسے کیا آتا ہے اور کیا نہیں تو اسنے بتایا کہ اسے کچھ نہیں آتا ہے آج تک کبھی پی سی یوز نہیں کیا ہے۔ خیر میں نے اسے بیسکس کہ بارے میں بتانا شروع کیا کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ایک تقریباً پچاس سال کی خاتون بھی وہاں آکر بیٹھ گئی اور غور سے میری باتیں سننا شروع ہوگئی مبینہ نے تعارف کرایا کہ یہ میری ساس ہیں ہم دو کرسیوں پر برابر برابر بیٹھے تھے اور مبینہ کی ساس بیڈ پر بیٹھی تھیں کچھ دیر بعد اسماء جوس کے گلاس لے کر آگئی میں نے ٹائم دیکھا تو 03:15 ہو گئے تھے میں نے جوس پی کر مبینہ سے کہا کہ آج جو بھی بتایا ہے اسکی پرکٹیس کریں میں کل آپ سے آکر پوچھونگا اور میں وہاں سے واپس انسٹیٹیوٹ آگیا.. Next Day بھی تقریباً سیم ہی رہا لیکن اس دن جاتے جاتے مبینہ نے مجھ سے فیس کا پوچھا جومیں نے پانچ ہزار بتائی اس نے بنا کچھ کہے پانچ ہزار الماری سے نکال کر میرے ہاتھ میں پکڑادئیے اس وقت مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی اور میں واپس انسٹیٹیوٹ آگیااسی دن انسٹیٹیوٹ سے واپسی پر میں مارکیٹ گیا اور پورے پانچ ہزار کی شاپنگ کرلی میں بہت خوش تھا تقریباًدس دن اسی روٹین میں نکل گئے میں جب بھی وہاں جاتا تو اسماء چائے یا جوس لانے چلی جاتی اور مبینہ کی ساس آکر ہمارے پاس بیٹھ جاتی ایک دن تو میں نے مزاق میں کہہ بھی دیا تھا کہ میں دوگنی فیس لوں گا آپ نے خالی اپنی بات کی تھی آپ کی ساس تو مفت میں پڑھ رہی ہیں اس بات پر مبینہ بہت ہنسی تھی ان دس بارہ دنوں میں مبینہ تھوڑی فرینک ہو گئی تھی مجھ سے۔۔۔۔۔

ہم تھوڑا ہنسی مزاق بھی کرلیا کرتے تھے ایک دن میں جب مبینہ کے گھر پہنچا اور بیل بجائی تو خلاف معمول مبینہ نے خود دروازہ کھولا اور مجھ کو سلام کر کے اندر آنے کا اشارہ کردیا آج مجھے کچھ عجیب لگ رہا تھا کیوں کہ نہ تو اسنے روز کی طرح اپنے بال کور کیے ہوئے تھے اور دروازہ بھی خود کھولا تھا میں سیدھا اس کے پیچھے پیچھے اس کے ساتھ بنا کچھ کہے اس کہ بیڈ روم میں آگیا اس نے مجھے بیٹھنے کو کہا اور بولی کہ میں ابھی آئی میں پی سی آن کر کے بیٹھ گیاآج گھر میں کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا میں اپنی سوچوں میں گم بیٹھا تھا کے مبینہ آگئی اس کے ہاتھ میں چائے کے کپ تھے اس کے بال بھی گیلے تھے جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید وہ ابھی ابھی نہا کر نکلی ہوگی آج پہلی بار اسے بغیر دوپٹہ کے کھلے بالوں کے ساتھ دیکھا تھا آج وہ اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا میں پاگل ہو رہا تھا اسے دیکھ دیکھ کر اور آج ہی اس کے جسم کا اندازہ بھی ہو رہا تھا جو کہ میری سوچ سے بھی بڑھ کر خوبصورت تھا اف کیا حال تھا میرا میں آپ کو نہیں بتا سکتا جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے بس میری حالت اس بھوکے شخص کی طرح تھی جس کا من پسند کھانا اس کے سامنے موجود ہو اور وہ کئی دن کا بھوکا بھی ہو لیکن وہ اس کھانے کو کھانا تودور کی بات ہاتھ بھی نہ لگا سکتا ہو۔۔۔۔

میں شاید سچ میں پاگل ہو رہا تھا وہ بھی میرے برابر میں کرسی پر بیٹھ گئی اس کے پاس سے آج بہت نش آور خوشبو آرہی تھی اور میں اس نشے میں ڈوبتا جارہا تھاآج خود کو قابو کرنا نہ ممکن لگ رہا تھا اس کے بال بہت بڑے تھے اس کہ ھپ سے بھی نیچے تک وہ بھی ہوا سے اُڑ اُڑ کر میرے منہ پر لگ رہے تھے اس کے بالوں کا بھی عجیب ہی نشہ چھا رہا تھا مجھ پر لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ میں کوئی بھی ایسی غلطی کر بیٹھوں جس کی وجہ سے اتنی خوبصورت لڑکی کا قرب اور لگی لگائی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے نوکری بھی ایسی جس کے لئے لوگ پیسے دینے کو تیار ہوں اور مجھے تو پیسے مل رہے تھے بس جب میری برداشت سے باہر ہوگیا خود پر کنٹرول کرنا تو میں نے مبینہ سے کہا کہ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں جارہا ہوں کل آؤں گا وہ بھی میرے ایک دم یوں اچانک اٹھ کھڑے ہونے سے کچھ پریشان ہوگئی اور پوچھنے لگی کہ کیا ہوا اچانک میں نے کہا کہ سر میں درد ہے اور یہ کہہ کر اس کے گھر سے باہر آگیا سیدھی بات تو یہ ہے کہ میرا لنڈ کھڑا ہوگیا تھا اور انڈر ویئر بہت ٹائیٹ تھا یوں میرے لنڈ میں سخت درد ہونا شروع ہوگیا تھا اور مجھ سے بیٹھا نہیں جارہا تھا میں وہاں سے سیدھا انسٹیٹیوٹ آگیا اور وہاں آکر بھی سکون نہیں ملا اور خود کو ہی برا بھلا کہنے لگا کہ بلاوجہ آگیا میں دل کررہا تھا کہ دوبارہ چلا جاؤں لیکن یوں ایک بار آکر پھر واپس جانا مناسب نہیں لگا مجھے خیر وہ دن بہت مشکل سے گزراتھا۔

اگلے دن صبح ہی مبینہ کی کال آگئی اور اس نے مجھ سے میری طبیعت کا پوچھا میں نے کہا کہ بہتر ہے تو کہنے لگی کہ کل میرے جانے کی وجہ میری طبیعت ہی تھی یا اور کوئی بات تھی مجھے اسکا یہ سوال بہت عجیب لگا میں ایک منٹ سوچ میں پڑگیا کہ اس بات کا کیا جواب دوں پھر میں نے یہ ہی کہا کہ طبیعت ہی خراب تھی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے پھر اس نے کہا کہ آج آپ کب تک آرہے ہیں تو میں نے کہا کہ وہ ہی 02:00 بجے تک اس کی کال پر مجھے کافی حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔

لگ رہا تھا کہ میری خواہش خود پوری ہونے والی ہے لیکن میں خود سے پہل نہیں کرنا چاہتا تھااسکول کی چھٹی کے بعد میں مبینہ کے گھر کی جانب چل پڑا جب بیل بجائی تو وہ نہیں بجی پھر میں نے دروازہ بجایا تو فوراً ہی دروازہ کھل گیا آج بھی دروازہ کھولنے والی مبینہ ہی تھی اسنے روز کی طرح سلام کیا اور اندر آنے کیلئے جگہ چھوڑدی میں اندر داخل ہوا تو اسنے مجھے ڈرائنگ روم میں بیٹھا دیا اور کہنے لگی کے ابھی اچانک لائیٹ چلی گئی ہے آپ کچھ دیر انتظار کرلیں میں خاموشی سے صوفے پر بیٹھ گیا اسنے میری طبیعت کا پوچھا اور کہا کہ میں چائے لاتی ہوں اور وہ وہاں سے چلی گئی جاتے جاتے میں نے اس کے اوپر غور کیا تو یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ آج جو کپڑے اسنے پہنے ہوئے تھے اس میں اس کا جسم صاف نظر آرہا تھا اس نے بلیک کلر کی باریک قمیض اور سفید رنگ کی شلوار پہنی تھی اور سفید ہی کلر کا دوپٹہ اس کی گلے میں جھول رہا تھا جب وہ جارہی تھی تو پیچھے سے اس کی قمیص کے اندر برا صاف نظر آرہی تھی میں بیٹھا انھیں سوچوں میں گم تھا کہ کہاں تو اسکا دوپٹہ بھی سر سے نہیں سرکتا تھا اس کے سر کے بالوں کی جھلک تک نہیں دکھتی تھی اور اب یہ حلیہ ہے اسکا میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا میں یہ ہی سوچ رہا تھا۔۔۔ کہ وہ دو چائے کے کپ لے کر آگئی جب وہ آئی تو میں نے اور غور سے دیکھا اسکو تو اس کی قمیض کے اندر سے اس کی ناف بھی صاف نظر آ رہی تھی اور شلوار کا اِزار بند بھی دکھ رہا تھا میرا حال پھر خراب ہونا شروع ہوگیا تھا لگ رہا تھا کہ لنڈ پینٹ پھاڑ کر باہر آجائے گا وہ آکر میرے سامنے بیٹھ گئی اور چائے کے کپ ٹیبل پر رکھ کر مجھ سے بولی کہ کیا بات ہے میں کچھ ٹینشن میں لگ رہا ہوں میں نے فوراً کہا کے آپ کو دیکھ کر تو کوئی بھی ٹینشن میں آسکتا ہے وہ مسکرادی اور انجان بن کر کہنے لگی کہ کیا مطلب میں نے بھی بات ٹال دی اور کہا کہ کچھ نہیں بس یونہی آپ سناؤ دو دن سے گھر پر کوئی نظر نہیں آرہا ہے تو وہ کہنے لگی کہ میری ساس بس کچھ دن کے لئے ہی آئی تھیں میرے ساتھ ان کا یہاں دل بھی نہیں لگا تو وہ واپس چلی گئیں اور اسماء ےہ بھائی کی شادی ہے تو وہ بھی ان کے ساتھ ہی گئی ہے کچھ دن کے لئے اب بس میں اور میری تنہائی ہیں یہاں آپ آجاتے ہیں تو اچھا لگتا ہے کچھ ٹائم کٹ جاتا ہے آپ کے ساتھ کم از کم کوئی انسان تو مل جاتا ہے بات کرنے کیلئے میں نے پوچھا کہ اگر آپ یہاں اتنا ہی پریشان ہیں تو لاہور سے آئیں کیوں تو وہ کہنے لگی کہ میری شادی کو دو سال ہوئے ہیں میرے شوہر ایک ملٹی نیشنل فرم میں اچھی پوسٹ پر ہیں لیکن عمر میں کافی فرق ہے ہماری شادی کے شروع کے دن تو بہت اچھے گزرے مگر اب وہ بھی بہت مصروف رہتے ہیں صبح جاتے ہیں اور رات کو آتے ہیں اور آکر بھی آفس کا کام لے کر بیٹھ جاتے ہیں لاہور میں وہ ایسے نہیں تھے مجھے وقت بھی دیتے تھے لیکن پھر ان کی پرموشن کر کے ان کا ٹرانسفر کراچی کردیا کمپنی نے یوں مجھے بھی ان کے ساتھ آنا پڑا اور یہاں آکر وہ بہت مصروف ہوگئے ہیں میں جب بھی ان سے شکوہ کرتی ہوں کہ آپ مجھے وقت نہیں دیتے تو کہتے ہیں کہ بس کچھ دن کی بات ہے ابھی نیا نیا آفس جوائین کیا ہے میں نے کام کو سمجھ لوں پھر سب نارمل ہو جائے گا انھیں یہ بات کہتے کہتے دو مہینے تو ہو گئے ہیں پتہ نہیں کب ہوگا سب نارمل یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں عجیب اداسی عجیب پیاس سی محسوس کی میں نے میرا دل کررہا تھا کہ ابھی اٹھ کر اسے اپنے گلے لگالوں اور اس کی ساری پیاس مٹادوں لیکن میں مجبور تھا بہت پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں دو دن سے کیوں ڈسٹرب اور اداس ہوں کسی لڑکی کا چکر تو نہیں ہے میں اس کی یہ بات سن کر بہت زور سے ہنسا اور کہا کہ میں ان چکروں میں نہیں پڑتا ہوں اسنے کہا کہ کیا مطلب آپ تو بہت اسمارٹ ہیں آپ کی تو بہت ساری لڑکیوں سے دوستی ہوگی میں نے کہا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے میں لڑکیوں سے دوستی کی ٹینشن نہیں پالتا اس نے کہا کہ کیسی ٹینشن میں نے کہا کے دوست تو دوست ہی ہے پھر لڑکا یا لڑکی کا فرق نہیں ہوتا ہے میں اپنے کسی لڑکے دوست کو گلے لگا سکتا ہوں اس کے جسم کے کسی بھی حصہ کو چھو سکتا ہوں تو لڑکی بھی میری دوست ہی ہوگی نہ؟

لیکن اسکو ہاتھ لگایا تو وہ سو باتیں سنادے گی اور نہیں بھی سنائیں تب بھی ہمیں کچھ کچھ ہوگا اور پھر بہت کچھ ہوگا اور سارا قصور میرا ہوگا پھر اسنے تو انجوئے کیا ہی نہیں ہوگا اور اگر میری کوئی لڑکی دوست ہو اور میرا دل اسے ملنے کا کررہا ہو تو سو جھنجھٹ ہونگے مثلاًاس کا ملنے آنا پھر اسکے ساتھ گھومنا اور یہ کہ کوئی دیکھ نہ لے پھر کسی ایسی اسٹینڈرڈ جگہ کا ہونا جہاں ہم بیٹھ کر بات کر سکیں اب پٹھان کے ہوٹل پر تو میں اسے لے کر بیٹھ نہیں سکتا اور سب سے بڑی بات کہ لڑکا اور لڑکی میں ایک دوسرے کیلئے فیزکلی اٹریکشن موجود ہوتا ہے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے میں انٹرسٹ لینے لگتے ہیں اوربہت قریب آجاتے ہیں پھر بات پیار محبت تک جاتی ہے اور لاسٹ میں وہ ہی گلے شکوے اور سارا الزام لڑکے پر آتا ہے کہ شاید ہر بات کا وہی قصوروار ہے لڑکی کی تو مرضی نہیں تھی تو اس سب سے بہتر ہے کہ آپ لڑکیوں سے دور ہی رہیں تو اچھا ہے مبینہ میری باتیں بہت غور سے سنتی رہی اور بولی کہ آپ پھر کسی شادی شدہ لڑکی سے دوستی کرلیں تاکہ یہ سب پرابلم نہ ہوں تو میں نے کہا کہ بھلا کوئی شادی شدہ لڑکی کیوں دوستی کریگی مجھ سے؟؟

اسکے پاس تو سب ہوتا ہے اسے کسی اور کی ضرورت کیوں ہوگی؟؟ میں یہ تمام باتیں جان بوجھ کر کہہ رہا تھا لیکن اسنے میری باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش ہوگئی میں نے ٹائم دیکھا تو چار بجنے والے تھے میں نے اس سے اجازت لی لائٹ ابھی تک نہیں آئی تھی میں واپس اپنے انسٹیٹیوٹ آگیا اور سوچنے لگا کہ مبینہ بھی پیاسی ہے بہت اور وہ بھی چاہتی ہے کہ ہم قریب آجائیں لیکن پہل کون کرے اور کس طرح میں نے دل میں پکا ارادہ کرلیا تھا کہ پیر کو میں مبینہ کو کہوں گا کہ آپ بھی تو شادی شدہ ہیں کیا آپ دوستی کریں گی مجھ سے کیوں کہ Next day ہفتہ تھا اور یہ بات پیر کو ہی ہو سکتی تھی...

اسی دن میں رات کو لیٹا ہوا مبینہ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا نیند آنکھوں سے کوسو دور تھی کہ اچانک میرے موبائل کی میسج ٹون بجی میں نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ وہ میسج مبینہ کا ہی فارورڈ میسج تھا کوئی دکھ بھرا شعر فارورڈ کیا تھا اسنے یہ پہلی بار تھا کہ اسنے مجھکو کوئی فارورڈ میسج سینڈ کیا تھا ٹائم دیکھا تو رات کے سوا دو بج رہے تھے میں نے فوراً رپلائی کیا کہ خیریت آپ ابھی تک جاگ رہی ہیں تواسکا میسج آیا کہ آپ بھی تو جاگ رہے ہیں میں نے کہا کہ اپنا کیا ہے جی ہمارا جاگنا اور سونا تو برابر ہے لیکن آپ کے تو شوہر آپ کہ پاس ہی ہونگے اس وقت اگر آپ جاگ بھی رہی ہیں تو ان کے ساتھ مصروف ہونگی تو آپ کو میری یاد کیسے آگئی اس وقت وہ بھی اتنے دکھ بھرے شعر کے ساتھ تو وہ کہنے لگی کہ جی ساتھ ہیں اور سورہے ہیں بے خبر انکا ہونا نہ ہونا برابر ہی ہے میرے لئے پھر اسکا میسج آیا کہ آپ سے ایک بات کہنی ہے میں نے کہا کہ جی ضرور حکم کریں آپ۔ اسنے کہا کہ کیا آپ مجھے اپنی دوستی کہ قابل سمجھتے ہیں کیا میں آپ کی دوست بن سکتی ہوں میں کوشش کرونگی کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو میری ذات سے یہ میسج پڑھ کر تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا مجھے تو یقین نہیں ہورہا تھا کہ جو میں نے سوچا تھا خود بہ خود ہوجائے گا بنا کسی محنت کے میں نے اسے فوراً رپلائی کیا کہ اگر آپ نے مجھے دوستی کے قابل سمجھا ہے تو یہ تو میری خوش نصیبی ہے ورنہ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا دوستی تو میں بھی کرنا چاہتا تھا آپ سے مگر ڈر بھی تھا کہ کہیں آپ کو میری بات بری نہ لگ جائے اور آپ کو دیکھنے سے بھی محروم نہ ہونا پڑے مجھے اور یہ ہی وجہ تھی کہ میں دو دن سے پریشان تھا بہت کیوں کہ دو دن سے آپ میرے حواسوں پر چھائی ہوئی ہیں بہت مشکل سے خود کو آپ سے دور رکھ سکا ہوں پرسوں بھی یوں ہی سر درد کا کہہ کر اٹھ گیا تھا آپ کے پاس سے کہ میں خود کو کنٹرول نہیں کر پارہا تھا تو وہاں سے جانا ہی بہتر سمجھا میں نے اور ابھی آپ میسج کر کے یہ بات نہیں کہتی تومیں خود پیر کو آپ سے بات کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا پھر اسنے پوچھا کہ میں کیا آج آسکتا ہوں اسے ملنے میں نے کہا کہ ہاں ضرور کیوں کہ مجھ سے بھی دور نہیں رہا جارہا ہے دل کررہا ہے کہ ابھی اور اسی وقت آجاؤں میں تمھارے پاس اس نے کہا کہ میں پھر کل جلدی آجاؤں صبح نو بجے تک میں نے کہا کہ ٹھیک ہے اسنے پوچھا کہ میں صبح کیا پہنوں میں نے کہا کہ تم کیا پہننا چاہتی ہو اس نے کہا کہ جو میں کہوں گا وہ پہنوں گی کیوں کہ میں صبح اپنے ٹیچر سے نہیں دوست سے ملوں گی تو چاہتی ہوں کہ ہر کام اس کی مرضی اور پسند کے مطابق ہو میں نے کہا کہ پھر تم کوئی سیکسی سی نائیٹی پہننا اور یوں باتوں باتوں میں ٹائم کا پتہ بھی نہیں چلا اور صبح کے سات بج گئے اسنے کہا کہ میرے شوہر کے جاگنے کا وقت ہوگیا ہے وہ اسے آفس بھیج کر بات کریگی میں نے کہا ٹھیک ہے اور میں بھی واشروم چلا گیا نہانے اور شیو کرنے کیلئے اس میں تقریباً ایک گھنٹہ لگا مجھے اور میں تیار ہوگیااتنی دیر میں امی بھی اٹھ گئیں انھوں نے پوچھا کہ آج کہاں کی تیاری ہے آج تو چھٹی ہوتی ہے تمھاری تو میں نے کہا کہ آج اسکول کی طرف سے پکنک ہے شام تک واپس آؤں گا۔۔

پھر میں مبینہ کی کال کا انتظار کرنے لگا اور امی ناشتہ بنانے چلی گئیں کافی دیر تک مبینہ کی کال نہیں آئی تو میرا موڈ خراب ہونے لگا امی ناشتہ لے کر آگئیں میں نے بے دلی سے ناشتہ کیا اور گھر سے باہر نکل گیا بائیک لی اور مبینہ کے گھر کی طرف چل دیا راستہ بھی کافی لمبا تھا یوں میں راستے میں ہی تھا کہ میرا موبائل بجنا شروع ہوگیا دیکھا تو مبینہ کی ہی کال تھی میں نے ریسیو کی اور کہا کہ کب سے انتظار کررہا ہوں یار کہاں تھیں تم تو اس نے کہا کہ ابھی میرے شوہر گئے ہیں انکے جانے کا ویٹ کررہی تھی پھر اسنے پوچھا کہ میں کب تک آرہا ہوں تو میں نے کہا کہ راستہ میں ہوں پندرہ منٹ میں پہنچ جاؤں گا اسنے اوکے کہا اور کال کاٹ دی میں بھی موبائل واپس جیب میں ڈالا اور بائیک کی اسپیڈ بڑھادی کچھ ہی دیر میں مبینہ کے گھر کہے باہر کھڑا تھا میں نے بیل بجائی تو فوراً ہی دروازہ کھل گیا مبینہ نے سلام کیا اور مسکراکر کہا کہ میں بائیک بھی اندر ہی لیکے آجاؤں میں نے بائیک بھی اندر کھڑی کردی اسنے گیٹ کی کنڈی لگائی اور مسکراتے ہوئے کہا کہ اندر چلیں میں ابھی آئی بس میں بھی مسکراتا ہوا ڈرائنگ روم کی جانب چل پڑا تو اس نے اچانک میرا ہاتھ پکڑلیا اور بہت پیار سے بیڈروم کی طرف اشارہ کر کے بولی کے اِدھر نہیں اُدھر جناب۔۔۔۔۔

میں بھی ہنستا ہوا بیڈروم میں داخل ہو گیا اسنے کہا کہ آپ بیٹھیں میں آتی ہوں اور وہ روم سے باہر چلی گئی میری حالت اس وقت بہت عجیب ہو رہی تھی میں خوش بھی بہت تھا لیکن خوفزدہ بھی تھا پتہ نہیں کیوں لیکن بہت عجیب کیفیت تھی میری جو بیان نہیں کر سکتا میں چند منٹ بعد ہی مبینہ کمرے میں داخل ہوئی اس کے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھی وہ اسنے میری جانب بڑھادی میں نے کہا کہ اسکی کوئی ضرورت نہیں ہے یار تم آکر بیٹھو میرے پاس اسنے کہا کہ آپ ناشتہ کریں میں فریش ہو کے آتی ہوں پانچ منٹ میں اس وقت اسکا جانامجھے بہت برا لگ رہا تھا لیکن میں جسٹ مسکرا سکا۔۔ نہ تو میں اس وقت کچھ کہہ سکتا تھا نہ ہی اپنا موڈ خراب کر سکتا تھا وہ روم میں ہی موجود اٹیچ باتھروم میں چلی گئی اور میں چائے کا کپ اٹھا کر اس کے انتظار میں بیٹھ گیا تقریباً دس منٹ گزر گئے یوں ہی بیٹھے بیٹھے میرا ایک ایک پل مشکل سے گزررہا تھا پھر اچانک واشروم کا گیٹ کھلا اور جو میں نے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا میں سچ میں کچھ پل کیلئے پتھر کا ہوگیا تھا سامنے مبینہ کھڑی تھی بھیگی ہوئی اس کے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا اور اسنے لال کلر کی نائیٹی پہنی ہوئی تھی ہاں ہاں خالی نائیٹی جس میں سے اس کا پورا بدن صاف نظر آرہا تھا اس کے جسم کا ایک ایک حصہ واضح تھا میری آنکھوں کے سامنے وہ باہر نکلی اور کہنے لگی کہ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں ایسے نہیں دیکھیں مجھے شرم آرہی ہے میں پھر بھی ٹکٹکی باندھے اسے ہی دیکھے جارہا تھا میں نے ایسا جسم اپنی پوری زندگی میں کسی بھی لڑکی کا نہیں دیکھا تھا افففف کیا نظارہ تھا۔۔۔

اسکے بھیگے ہوئے بالوں سے پانی کا ٹپکنا ایسا لگ رہا تھا جیسے شہد ٹپک رہا ہو اسکا بھرا ہوا جسم اسکی نائیٹی کے اندر سے ایسے جھلک رہا تھا جیسے کسی ہیرے سے روشنی پھوٹ رہی ہو اور میں اس روشنی میں نہارہا ہوں اس کے بریسٹ ایسے گول تھے جیسے بال ہوتی ہے سائز کا تو مجھے اندازہ نہیں لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ درمیانے سائز کے خربوزے ہوں اور وہ بھی بنا برا کے ہی اتنے ٹائیٹ ہو رہے تھے کہ اسکی نائیٹی کا سینہ تنا ہوا تھا اور پھر اس پر اس کے کھڑے ہوئے نپل۔۔؟؟ میں سچ میں پتھر ہوگیا تھا اسے دیکھ کر وہ میرے پاس آئی اور میرا ہاتھ پکڑکر پوچھا کہ کیا ہوا میں ٹھیک تو ہوں نہ؟؟ تو ایسا لگا کہ جیسے اچانک میں ہوش میں آگیا ہوں میں نے چونک کر کہا نہیں کچھ نہیں ہوا ہے اور پھر اس کے حسن میں مدہوش ہوگیا میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنی جانب کھینچ لیا اور وہ کسی کٹی پتنگ کی طرح میری جانب کھنچی چلی آئی میں نے اسے اپنی باہوں میں بھر کر گلے سے لگالیا اور کافی دیر یوں ہی کھڑا رہااس کے دونوں بریسٹ میرے سینے میں پیوست ہوگئے اور میرا لنڈ اسکی چوت میں رگڑے دینے لگا

ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی پینٹ کی زپ ٹوٹ جائے گی اور یہ خودہی اپنا راستہ بنالیگا کیوں کہ مبینہ نے فرنٹ اوپن نائیٹی پہنی ہوئی تھی باؤتھ گاؤن کی اسٹائل کی وہ فرنٹ سے پوری اوپن تھی اور اس کی دونوں سائیڈ کے کپڑے کو اوپر نیچے کر کے کمر پر ایک بیلٹ بندہی ہوئی تھی اور اس نے مزید نیچے کچھ نہیں پہنا تھااورنیچے سے اس کی نائیٹی آسانی سے ہٹ گئی تھی بنا بیلٹ کھولے اس کی نگی چوت سیدھا میرے لنڈ سے رگڑرہی تھی میں اس وقت کتنے سرور میں تھا دل کررہا تھا کہ وقت یہیں پر تھم جائے پھر میں نے اسے کہا کہ میں شاید ہوش میں نہیں ہوں اسنے پوچھا کہ کیوں کیا ہوا ہے میں نے کہا کہ تم جیسی خوبصورت لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی ہے اور تم میری باہوں میں ہوگی یہ تو سوچا بھی نہیں تھا میں نے یوں بس یقین نہیں ہورہا ہے کے میں ہوش میں ہوں کہ خواب دیکھ رہا ہوں میری بات سن کر وہ تھوڑا شرماگئی اسکے بعد میں نے اسکو پیار کرنا شروع کردیا میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور انھیں چوسنا شروع ہوگیا کس قدر گرم اور خشک ہونٹ تھے اسکے لیکن خشک ہونے کے باوجود ان میں سے شہد جیسی مٹھاس تھی میرا ایک ہاتھ اسکی کمر پر اور دوسرا ہاتھ اس کی گردن پر تھا اور اسنے دونوں ہاتھ میرے ہپس پر رکھے ہوئے تھے اور میرے ہپس کو دبارہی تھی اپنی طرف اور اپنی چوت کو میرے لنڈ سے رگڑرہی تھی مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ وہ لنڈ اندر لینے کہ لیئے بہت بیتاب ہو اس کی اور میری سانس بہت تیز تیز چل رہی تھیں میں نے اپنا ہاتھ اسکی کمر پر سے ہٹا کر اس کی بریسٹ پر رکھ دیا اور ہلکے ہلکے دبانا شروع کردیا اس کے منہ سے سسکاریاں نکلنا شروع ہوگئی اور وہ اور تیز تیز اپنی چوت میرے لنڈ پر رگڑنا شروع ہوگئی میں نے اسکے ہونٹون پر سے ہونٹ ہٹائے اور اسکی گردن پر رکھ کر کس کرنا شروع کردیااور دوسرا ہاتھ اسکے ہپ پر رکھ کر اسکو اپنی طرف دبانے لگا اور دوسرا ہاتھ اسکی نائیٹی میں ڈال کر اسکا بریسٹ پکڑلیا اور اسکا نپل مسلنے لگا اچانک وہ ہوا جس کی مجھے امید نہیں تھی مبینہ نے خود کو ایک جھٹکے سے مجھ سے الگ کیا اور چند سیکنڈ یونہی کھڑی رہی پھر اسنے میری ٹی شرٹ اوپر کی اور میری پینٹ کی بیلٹ کھولنا شروع کردی میں سمجھ گیا کہ مبینہ بہت پیاسی ہے شاید مجھ سے بھی زیادہ پیاسی میں نے بیلٹ کھولنے میں اس کی مدد کی اور خود ہی اپنے پینٹ اتاردی اب میں خالی انڈرویئراور ٹی شرٹ میں تھا اور میرا لنڈ انڈر ویئر پھاڑ رہا تھا پھر میں نے مبینہ کی کمر پر بندھی بیلٹ کا کونا کھینچا تو اس کی گرہ کھل گئی اور میں نے ایک جھٹکے سے اس کی نائیٹی اس کہ جسم سے الگ کردی اور اسکا پورا ننگا بدن میرے سامنے تھا اور میں ایک بار پھر ہوش کھو بیٹھا ایسا خوبصورت بدن افففف ایسا لگ رہا تھا کہ سنگِ مرمر سے تراشا گیا کوئی مجسمہ ہو یا پھر موم سے بنی کوئی گڑیا اس کے جسم کے کسی حصہ پر بال نام کی کوئی شیئ نہیں تھی انتہائی چکنا بدن تھا اسکا پھر میں نے اپنی ٹی شرٹ اتاری اب خالی میرا انڈر ویئر رہ گیا تھا ورنہ ہم دونوں بلکل ننگے تھے میں آگے بڑھا اور مبینہ کو اپنی گود میں اٹھالیا اور اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے اور یوں ہی کس کرتے کرتے اسے بیڈ پر لٹادیا اور دوبارہ پیار کرنا شروع کردیا میں نے اس کو سیدھا لٹا کر اسکے پیٹ پراپنے ہونٹ رکھ دیئے اور اسکے بریسٹ دبانے لگا اور پیٹ پر زبان پھیرتا پھیرتا اسکے بریسٹ کی طرف آیا اور اسکے بریسٹ کو چوسنا شروع کر دیا وہ سرور اور مزے سے پاگل ہوگئی اور اسکے منہ سے مزے سے سسکاریاں نکلنا شروع ہوگئی اسکی سسکاریاں مجھ پر قیامت بن کر گزررہی تھی اسکی آوازوں سے میں اور پاگل ہو رہا تھا پھر میں نے اسکے بریسٹ کو چھوڑا اور اسکے پاؤں کی طرف آیا اور اسکے پاؤں کے انگھوٹھے پر اپنے ہونٹ رکھے اور اسے چوسنے لگا پھر وہاں سے بنا ہونٹ ہٹائے اسکے جسم کے اوپر بڑھنا شروع کردیا انگھوٹھے سے اوپر اسکے پنجوں پر پنڈلیوں پر پھر رانوں پر اور پھر سیدھا اسکی چوت پر اپنے ہونٹ

رکھ کر کس کرنا شروع کردیااس کے منہ سے مسلسل سسکاریاں نکل رہی تھی لیکن میں نے جیسے ہی اسکی چوت پر اپنے ہونٹ رکھے اسکی برداشت سے باہر ہوگیا اور اسکے منہ سے عجیب غوں غوں کی آوازیں نکلنا شروع ہوگئی اور اسنے میرا سر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی چوت پر دبانا شروع کردیا اور اپنی چوت اوپر نیچے کرنے لگی میں مسلسل اسکی چوت اپنی زبان سے چود رہا تھا کچھ ہی دیر میں اسکا جسم ایک دم اکڑا اور پھر ڈھیلا پڑ گیا اور اسکی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں بس وہ فارغ ہوگئی تھی لیکن میرے لنڈ کا برا حال تھا وہ ابھی تک انڈرویر کا قیدی بنا ہوا تھا میں بھی اسکے اوپرسے اٹھکر اس کے برابر میں لیٹ گیا اور اپنی ایک ٹانگ اسکی دونوں ٹانگوں کہ بیچ میں ڈالکر اس کے بریسٹ دبانا شروع کردیئے ایک بار پھر سے اس کے جلتے ہوئے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور اسے اپنے اوپر کھینچ لیا اب وہ مجھ پر الٹی لیٹی تھی اور میں اسکے نیچے تھا وہ میرے ہونٹ پاگلوں کی طرح چوسنے لگی پھر وہ میری گردن پر کس کرنے لگی اور یونہی کس کرتے کرتے میرے سینے اور پیٹ پر آگئی پھر اسنے میرا انڈر ویئر اتار کر بیڈ سے نیچے ڈالدیا اور میرا لنڈ آزاد ہوگیا جیسے ہی اسنے انڈر ویئر نیچے کیا تو لنڈ کسی اسپرنگ کی طرح اچھل کر باہر آ گیا اور ایسے کھڑا ہوگیا جیسے پیٹاری کا ڈھکن کھلتے ہی سانپ کھڑا ہوجاتا ہے میرے لنڈ سے گرمی کے بھپکے نکل رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے آگ لگی ہو اسمیں میرے لنڈ پر جیسے ہی مبینہ کی نظر پڑی مبینہ کی آنکھوں میں چمک آگئی اور اسنے آگے بڑھ کر میرا لنڈ اپنے ہاتھوں میں دبالیااور اسکی ٹوپی پر اپنے ہونٹ رکھدیئے اور میرا برا حال ہونے لگا شاید کچھ دیر میں چھوٹ جاتا میں کیوں کہ مجھے بھی خود برداشت کرتے کرتے کافی ٹائم ہوگیا تھا میں نے مبینہ کو کندھوں سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا اور اسے بیڈ پر لٹادیا اور میں اب اسکو چود کر اپنی اور اسکی پیاس بجھانے کا فیصلہ کر چکا تھا مبینہ کو بیڈ پر لٹاتے ہی میں اس پر چڑھ گیا اور اسکے بریسٹ پکڑ کر اسکے ہونٹ پر اپنے ہونٹوں سے کس کرنے لگا اور نیچے میرا ننگا تنا ہوا لنڈ اسکی ننگی چوت کی چومیاں لے رہا تھا میں یوں ہی اسکا جسم چاٹتا چاٹتا نیچے بڑھا اور اسکے دودھ چوسنا شروع کردیئے اس کے منہ سے بھی سسکاریاں نکلنا شروع ہوگئی اور وہ اپنی چوت اٹھا اٹھا کر میرے لنڈ پر مارنا اسٹارٹ ہوگئی میں سمجھ گیا کہ اب یہ چدوانے کے لئے تیار ہے میں نے اس کی ٹانگیں کھولیں اور اپنا لنڈ اسکی چوت پر فِکس کیا اور ایک زوردار جھٹکا مارا اس کی چوت اسکے نکلنے والے رس سے پوری طرح گیلی ہورہی تھی میرے ایک ہی زوردار جھٹکے سے میرا آدھا لنڈ سلپ کرتا ہوا اسکی چوت میں چلا گیا اور وہ اتنے زور سے چیخی کہ میں خود ڈرگیا اور کہنے لگی آرام سے پلیز درد ہورہا ٹ ہے بہت اسکی چوت بہت ٹائیٹ تھی اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے میں کچھ دیر یونہی رکا رہا اور پھر اپنے لنڈ پر آہستہ آہستہ پریشر بڑھاتا گیا اور اسکے منہ سے ہلکی ہلکی درد بھری چیخیں نکلتی رہیں اور میرا پورا لنڈ اسکی چوت میں غائب ہوگیا میں اسے تکلیف دینا نہیں چاہتا تھا میں کچھ دیر یونہی اسکے اوپراسکی چوت میں اپنا لنڈ ڈالے لیٹا رہا اور اسکے ہونٹ چوسنے کہ ساتھ ساتھ اسکے دودھ دباتا رہا تھوڑی دیر بعد ہی اسنے اپنی چوت خودہی ہلانا شروع کردی پھر کیا تھا میں نے بھی جھٹکے دینا شروع کردیئے اور چندہی لمحوں بعد میں اپنی فل اسپیڈ پر تھا میں اپنا تقریباً پورا لنڈ باہر نکالتا بس میرا ٹوپا اسکی چوت میں رہ جاتا اور پھر پوری طاقت سے لنڈ اسکی چوت کے اندر دھکیل دیتااسکی چوت بہت گرم اور ٹائیٹ تھی اور میرا لنڈ بھی اتنا ہی گرم ہورہا تھا کہ جیسے اسمیں آگ لگی ہوہمیں تقریباً لگ بھگ سات یا آٹھ منٹ ہوگئے یونہی چدائی کرتے کرتے اسکی سسکاریوں اور چھپ چھپ کی آوازوں سے کمرا گونج رہا تھا اور پھر میں چھوٹنے کے قریب آگیا اور میرے لنڈ نے لاوا نکالنا شروع کردیا اور مبینہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہوگئی اور میں یوں ہی تھک کر اس

پر لیٹ گیا کچھ دیر خاموشی رہی اور جب ہمارے ہواس بحال ہوئے تو ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے میں نے پوچھا مزہ آیا تمہیں؟؟

تو مبینہ نے کہا کہ مزہ ہی آج پہلی بار آیا ہے مجھے۔۔

میں نے پوچھا کیا مطلب تو اسنے مسکراکر کہا کہ کچھ نہیں میں نے کہا کہ نہیں بتاؤ مجھے تو کہنے لگی کہ میں نے بتایا تھا نہ کے میرے شوہر مجھ سے کافی بڑے ہیں ان کی ایج پینتالیس سال ہے اور میں بائیس سال کی ہو جو مجھے چاہیے تھا آ ج تم سے ملا ہے کیوں کی بڑھتی عمر کا اثر ہر چیز پر ہوتا ہے۔۔

نہ انکے لنڈ کا سائز تمھارے لنڈ کی طرح موٹا اور لمبا ہے اور نہ ہی ایسی سختی اور گرمی ہے جیسی آج مجھے ملی ہے انھونے تو پہلی رات بھی بہت مشکل سے ڈالا تھا اندر آج جب ہی مجھے بہت تکلیف بھی ہوئی ہے لیکن اسکا بھی اپنا مزہ تھا میں خاموشی سے لیٹا لیٹا اسکی باتیں سنتا رہا اور دل کررہا تھا کہ اسکے شوہر کو تھینک یو بولوں کم از کم اسکا اتنا تو حق بنتا ہی ہے نہ کیوں کہ اسکی وجہ سے ہی آج اسکی بیگم کسی پکے ہوئے آم کی طرح میرے لنڈ پر آن گری ہے ورنہ میں اتنا خوش نصیب کہاں تھا خیر یونہی باتیں کرتے کرتے تقریباً ایک گھنٹہ گزرگیا اور اب ہم دوبارہ تیار تھے انجوائے بھری چدائی کے لئے اس دن میں شام پانچ بجے تک اسکے گھر ہی رہا اور ہم نے چار بار چدائی کی بہت مستی کی سارا دن ساتھ نہائے کھانا کھایا پھر میں گھر آکر سوگیا اور دوسرے دن ہی جاگا اسکے بعد روز مبینہ کو پڑھانے جاتا تو پہلے اسے خوب چودتا اور پھر پڑھاتا تقریباً ایک سال تک یہی چلتا رہا اور اس ایک سال میں ہم بہت خوش رہے پھر میری جاب دُبئی میں ہوگئی تو میں وہاں چلاگیا لیکن دل نہ لگنے کی وجہ سے چھ مہینے میں ہی واپس آگیا لیکن پھر مبینہ واپس لاہور جا چکی تھی اس سے نیٹ اور موبائل پر اب بھی رشتہ ویسا ہی ہے میرا لیکن اب ملنا نہیں ہوتا کیوں کہ نہ وہ کراچی آتی ہے اور نہ میں لاہور جاتا ہوں لیکن ہم ایک دوسرے کو یاد بہت کرتے ہیں دوستوں یہ میری اپنی آپ بیتی داستان ہے آپ ضرور بتانا کے آپکو کیسی لگی گوڈ 

بائے۔


tabasam tabish novels

tabassum tabish novels

tabassum tabish novels pdf free download

tabasam tabish novels and stories

tabasam tabish novels and books

tabasam tabish novels book

tabasam tabish novels collection

tabasam tabish novels complete

tabassum tabish novels pdf download

tabasam tabish novels in urdu

tabasam tabish novels list

tabasam tabish novels list pdf

ایک تبصرہ شائع کریں

3 تبصرے

  1. any girl lady want long term relation with secrets please contact with me 03344925055, your respect is my responsibility,islamabad or rawalpindi

    جواب دیںحذف کریں
  2. Hi I am Zahid here koi aunty ya lady sex chat krna chahti hai to my WhatsApp is 03554751135

    جواب دیںحذف کریں

THANKS DEAR