پاجامی۔ تحریر: ماہر جی



 پاجامی

تحریر: ماہر جی

رات کے دس بجے کا عمل ھو گا جب میں اپنے گاؤں سے تقریباْ دو کلو میٹر دور بس سٹاپ پر اترا تھا۔نزدیک ترین شہر سے ھمارے گاؤں کے لئے صرف دن میں ھی بسیں چلتی تھیں، اور شام کے پانچ بجے کے بعد اگر کسی نے شہرسے گاؤں آنا ھوتا، تو اس کو اسی سٹاپ تک کی بس میسّر آتی تھی، جس سٹاپ کو " بابے والی ٹاہلی" کا نام دیا گیا تھا، اور جہاں ابھی ابھی میں بھی اترا تھا۔ ( یہاں ایک درخت موجود تھا، جس کو ماضی کے کسی بزرگ کی نسبت سے بابے والی ٹاہلی کا نام دیا گیا تھا۔ اس درخت اور اس سے منسوب بزرگ کے حوالے سے ھمارے علاقے میں ایک پرانا قصّہ بھی بہت مشھور ھے، مگر میں اس قصّے کا ذکر کئے بغیر کہانی کی طرف آتا ھوں۔) سردی میں دس بجے، اور وہ بھی ھمارے گاؤں کے علاقے میں، ، ، میرے تو دانت پہلے ھی بج رھے تھے، لیکن جب میں بس سے باھر آیا، تو سردی ناقابل برداشت ہو گئی تھی۔ میں نے سردی سے بچنے کے لئے کافی کچھ پہن رکھّا تھا، مگر اس کے باوجود میں کانپنے پر مجبور ھو چکا تھا۔ چند دن پہلے ھونے والی بارشوں نے ٹمپریچر پر شدید ترین اثر ڈال رکھّا تھا۔ 

" کاش ، میں اسلام آباد سے جلدی نکل پڑتا، تو سردی سے بچ سکتا تھا۔
میں نے اپنے آپ کو کوستے ھوئے دل میں سوچا۔ مگر اب تو کچھ نہیں ھو سکتا تھا۔ سو میں ٹھٹھرتا ٹھٹھرتا، اپنے گاؤں والی سڑک پر چل دیا۔ 
ھمارے گاؤں کی طرف جانے والی سڑک کے اطراف میں ھرے بھرے کھیت موجود تھے۔ ان کھیتوں میں کثرت سے اس وقت گندم کی فصل کاشت کی گئی تھی، مگر ابھی وہ زمین سے اتنی زیادہ نہیں نکلی ھوئی تھی۔ میں آھستہ آھستہ اپنے گاؤں کی جانب رواں دواں تھا۔میرا دھیان رستے پر ھونے کے ساتھ ساتھ اپنے اطراف پر بھی لگا ھوا تھا۔ یہ انسانی نفسیات کی بات ھے، کہ رات کی تاریکی میں اگر آپ اپنے گھر میں بھی موجود ھوں، اور تنہا ھوں، تو یقیناْ آپ کو کچھ نہ کچھ عجیب ضرور لگے گا، چاھے وہ ایک لمحے کے لئے ھی کیوں نہ ھو۔ میں تو پھر بھی ایک سنسان سڑک پر اکیلا پیدل سفر کر رھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ یہ میرے اپنے گاؤں کا علاقہ تھا۔ کچھ دور میرے دادا کی زمین بھی موجود تھی۔ سارا رستہ میرا دیکھا بھالا تھا، یہیں میرا بچپن ھنستے کھیلتے گزرا تھا، اس کے باوجود، رات کے سنّاٹے میں، اس ویران سڑک پر چلتے ھوئے میں قدرے خوف محسوس کر رھا تھا۔ پوری فضا پر ایک بوجھل خاموشی طاری تھی۔ میرے اندر طرح طرح کے اندیشے سر اٹھانے کی کوشش کر رھے تھے، جنہیں میں دباتے ھوئے اپنے گاؤں کی جانب رواں دواں تھا۔ 
رات کے اس پہر کے باوجود سارا رستہ خیریّت سے کٹ گیا۔ میں نے اندر ھی اندر قدرے سکون محسوس کیا۔میرے خوف کی ایک وجہ اچھّو گجّر بھی تھا، جو آج کل جیل سے مفرور تھا۔ اچھّو میرے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں کا ایک جوان سال بد معاش تھا، جس پر اپنے سگے چچا زاد بھائیوں کے قتل کا سنگین الزام تھا۔ سنا تھا، کہ وہ آج کل ساتھ والے جنگل میں چھپا ھوا ھے، اور رات کی تاریکی میں سنسان رستوں پر گھات لگا کر بیٹھ جاتا ھے۔ جو بیچارے شہر سے گاؤں واپس آتے ھوئے کسی مجبوری کے تحت لیٹ ھو جاتے ھیں، ان کو وہ گن پوائنٹ پر لوٹ لیتا ھے۔ میں اچھّو گجّر کے بارے میں سارا رستہ سوچ سوچ کر خوفزدہ ھوتا رھا، مگر میری قسمت میں اس کا شکار بننا نہیں لکھّا تھا، سو میں خطرناک علاقے سے بحفاظت اپنے گاؤں تک پھنچ آیا تھا۔ 
گاؤں کو سامنے دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔ اب میں کافی پر سکون ھو چکا تھا۔ خوف نام کی کوئی چیز اب میں محسوس نہیں کر رھا تھا۔ گاؤں کے کسی کونے سے کبھی کبھی کسی کتّے کے بھونکنے کی آوازیں آ رھی تھیں۔ اس کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دے رھی تھی۔ پورا گاؤں خاموشی میں ڈوبا ھوا تھا۔ گاؤں کی زیادہ تر گلیاں چند سال پہلے تک رات کے وقت اندھیرے میں ھی ڈوبی رھتی تھیں، مگر پچھلے سال منتخب ھونے والے کونسلر صاحب کی کوششوں سے ھر گلی میں روشنی کا معقول انتظام کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ اب ایک گلی میں کھڑے ھو کر تقریباْ گلی کے دوسرے کونے تک دیکھا جا سکتا تھا۔ 
ھماری گلی بھی مکمّل طور پر روشنی میں نہائی ھوئی تھی۔ جب میں اپنی گلی میں داخل ھو رھا تھا، تبھی بالکل اچانک، کسی نے میرے دائیں بازو کو پیچھے سے پکڑ لیا۔ یہ میرے لئے بالکل غیر متوقّع تھا۔ میری سانس خشک ھو گئی، اور میں غیر ارادی طور پر چلّا اٹھّا۔ اضطراری طور پر میں اپنا ھاتھ بھی کھینچ چکا تھا۔ مجھے سخت سردی میں بھی اپنے ماتھے پرپسینہ محسوس ھونے لگا۔ میں نے سنبھلنے کی کوشش کرتے ھوئے حملہ آور کو دیکھا۔ یہ ایک لڑکا تھا مگر اس کے چہرے اور حلئے کو دیکھ کر میرے خوف میں اضافہ ھو گیا۔ افّ، کس قدر خوفناک چہرہ تھا اس کا۔ ۔ ۔ ! اور اوپر سے اس کے بڑھے ھوئے بال، میں نے ڈرتے ڈرتے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ھوئے ایک طرف کو جست لگائی۔ وہ عجیب انداز سے مجھے دیکھ رھا تھا۔اس کے کپڑے بھی جگہ جگہ سے پھٹے ھوئے تھے، اور اس نے اپنے آپ کو سردی سے بچانے کے لئے اپنے اوپر کوئی سویٹر یا جرسی نہیں پہنی تھی،نہ ھی چادر نام کی کوئی چیز اوڑھی ھوئی تھی۔ میں نے محسوس کیا، کہ میرے چلّانے سے وہ بھی خوفزدہ ھو گیا تھا۔ کیونکہ وہ بھی اب مجھ سے دور ھو کے کھڑا ھو گیا تھا۔ اس کا انداز بتا رھا تھا، کہ اس کو میرا چلّانا ذرا پسند نہیں آیا۔ اس کو خوفزدہ دیکھ کر ایک بات تو یقینی ھو چکی تھی، کہ اب وہ میرے نزدیک نہیں آنا چاھتا تھا۔ سو میں نے اسے غور سے دیکھنا شروع کیا۔ اسی اثناٴ میں ھمارے پڑوسیوں کی بیٹھک کا دروازہ کھلا، اور اس میں سے اشرف، اور اصغر باھر آ گئے۔ یہ دونوں چاچے کرم دین کے بیٹے تھے، اور سگے بھائی تھے۔ ان کی عمریں اندازاْ اٹھارہ سال، اور بیس سال تک رھی ھوں گی۔ وہ سیدھے ھماری طرف ھی آ رھے تھے۔ انہوں نے دور سے ھی آواز لگائی۔ " ڈرنے کی ضرورت نہیں ھے فیروز بھائی۔ یہ ھمارے مہمان ھیں۔ ھم انہی کو ڈھونڈ رھے تھے۔ " پڑوسی ھونے کے ناطے وہ مجھے جانتے تھے، اور روشنی کی وجہ سے انہوں نے مجھے دور سے ھی پہچان بھی لیا تھا۔ مگر مجھے یہ جان کر تعجّب ھوا، کہ وہ پاگل آدمی ان کا مہمان ھے، اور یہ، کہ اس سے ڈرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ 
میں نے ان سے سلام دعا کے بعد، اس آدمی کی حرکت شکوہ کناں انداز میں ان کو بتائی۔ میں اس آدمی پر ناراض بھی تھا، اور اس پاگل کو دیکھ کر پریشان بھی تھا۔ مجھے الجھن سی محسوس ھونے لگی تھی۔ اس کی اداس آنکھیں ، ، ، ایسے محسوس ھوتا تھا، کہ ، شائد میں نے اس آدمی کو پہلے بھی کہیں دیکھا ھے ، ، ، ، مگر کہاں دیکھا ھے، یہ بالکل بھی یاد نہیں آ رھا تھا۔ اشرف اور اصغر نے معذرت کی، کہ ان کی لاعلمی میں وہ آدمی گھر سے نکل آیا۔ آئندہ وہ اس آدمی کا پورا پورا خیال رکھّیں گے۔ میں نے جب اس آدمی کے بارے میں دریافت کیا، کہ وہ کون ھے، اور ان کے گھر میں کیا کر رھا تھا، تو جواب میں اشرف نے معذرت کے بعد، مجھے رخصت کرتے ھوئے کہا، "ابھی آپ سفر سے آئے ھیں فیروز بھائی، سردی بھی آپ کو لگ رھی ھو گی۔ گھر جائیے، اور آرام کیجئے۔ صبح آپ کو اس آدمی بارے میں تمام تفصیل بتا دوں گا۔
میں سمجھ گیا، کہ اشرف اس آدمی کے سامنے اس کے متعلّق کوئی بات نہیں کرنا چاھتا تھا۔ میں نے بھی کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ مجھے اچھّی طرح سے معلوم تھا،کہ اگر اشرف نے کہا ھے، تو صبح وہ مجھے ساری حقیقت ضرور بتائے گا۔ ، ، ، لیکن ایک بات کا تو مجھے سو فیصد یقین ھو چکا تھا، کہ وہ آدمی، یقیناْ پاگل ھی ھے، جس کے لئے وہ یہ الفاظ استعمال کر رھے تھے، کہ وہ ان کی لاعلمی میں گھر سے نکل آیا تھا۔ اور یہ کہ، وہ آئندہ اس کا زیادہ خیال رکھّیں گے۔ 
وہ پاگل ٹائپ آدمی،جو کہ شائد میرا ھم عمر ھی رھا ھو گا، ان کو قریب دیکھ کر کافی حد تک نارمل ھو چکا تھا۔ ابھی تک خاموش کھڑا ھوا تھا، اچانک زور زور سے ھنسنے لگا۔ ھم تینوں چونک گئے۔ اس کے ھنسنے سے اس کا چہرہ اور بھی بھیانک محسوس ھو رھا تھا۔ اس کے منہ سے رالیں بہ رھی تھیں، جو اس کی ٹھوڑی سے ھوتی ھوئی اس کی پھٹی ھوئی قمیض اور سینے پر منتقل ھو رھی تھیں۔ اس لمحے مجھے اپنے دل میں پہلی بار اس آدمی کے لئے ھمدردی محسوس ھوئی۔ نہ جانے کس دکھیاری ماں کا بیٹا تھا،جو جوانی میں ھی پاگل ھو چکا تھا۔ بیچارے کو اپنا ذرّہ برابر ھوش نہیں تھا۔ ر وہ آدمی زور سزور سے ھنستے ھوئے اچانک خاموش ھوا، مجھے مخاطب کرنے کے لئے میرے نزدیک ھوا، اور بولا۔ " تم نے میری کوثر کو دیکھا ھے ؟ ابھی یہیں تھی۔ نہ جانے کہاں چلی گئی۔ ؟ ، ، ، اور میں اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سن کر اس کا منہ تکنے لگا۔ 
یقیناْ، یہ کوئی مریض۔ محبّت تھا،
جو اپنی کسی کوثر نامی محبوبہ کا نام لے کر مجھ سے اس کا پتہ جاننے کی کوشش کر رھا تھا۔ اس وقت اشرف اور اصغر کے چہروں پر میں نے صاف ناگواری محسوس کر لی تھی۔
اچانک، بالکل اچانک، وہ پاگل رونے لگ گیا۔ اشرف اور اصغر نے ایک دم سے اسکی جانب دیکھا۔ وہ سسکیاں لے کر رو رھا تھا۔ میں بھی اس کی اس اچانک کیفیّت پر حیران تھا۔ اصغر نے اس کا چہرہ اپنے کاندھے سے لگا لیا، اور اس کو چپ کروانے لگا۔ وہ اس کو ایسے چپ کروا رھا تھا، گویا، وہ ایک یا دو سال کا کوئی بچّہ ھو۔ وہ پاگل بھی اس کے کاندھے پر سر رکھّ کر رو رھا تھا۔ آخر کچھ دیر رونے کے بعد، وہ اچانک چپ ھو گیا۔ اس کے منہ سے بہنے والی رالیں اب پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے بہ رھی تھیں۔
اصغر اس بیچارے کا منہ اپنی چادر سے صاف کرنے میں لگ گیا۔ وہ اس کو بہت ھی پیار سے ٹریٹ کر رھا تھا۔ اس سے ظاھر ھوتا تھا، کہ ان کے چہروں پر یک دم در آنے والی ناراضگی، اس پاگل کے رویّے سے نہیں، بلکہ اس لڑکی کے نام لینے سے آئی تھی، جس کو اس پاگل نے " کوثر " کہ کر پکارا تھا۔ اصغر اس پاگل کا منہ انتہائی توجّہ سے صاف کر رھا تھا۔ اشرف اس دوران خاموش کھڑا رھا۔ وہ آدمی مسلسل مجھے ھی گھور رھا تھا۔ میں نے پھر سے اپنے دماغ پر زور ڈالا، مگر میں اس آدمی کو نہ پہچان سکا۔ 
ضرور یہ محبّت میں ناکامی کا ھی کیس لگتا ھے،،،
میں دل ھی دل میں سوچ رھا تھا۔
اب تو میرے اندر اس آدمی کے بارے میں جاننے کا تجسّس مزید بڑھ گیا تھا۔ چنانچہ میں نے دل میں مصمّم ارادہ کر لیا، کہ کل صبح ھوتے ھی اس آدمی کے بارے میں اشرف وغیرہ سے ضرور معلوم کروں گا، کہ یہ کون ھے، اور اس کی کہانی کیا ھے۔ اس کے بعد، میں نے ان کو خدا حافط کہا، اور ھم اپنے اپنے گھروں کو چل دئے۔ 
اگلے دن میں دس بجے کے قریب میں، اشرف وغیرہ کی بیٹھک میں اشرف کے ساتھ ، موجود تھا۔ پڑوسی ھونے کے ناطے، ھمارا ایک دوسرے کے گھر میں کافی آنا جانا تھا۔ اس کے گھر سے بن کر آنے والے گرما گرم پراٹھے ابھی ابھی ھم نے صاف کئے تھے، اور اب بھاپ اڑاتی چائے سے بھرے ھوئے کپ اٹھائے، ھم دونوں باتوں میں مصروف تھے۔ ھماری گفتگو کا محور ، ظاھر ھے، کہ وھی آدمی تھا۔ میں نے اشرف سے ابتدا میں ھی کہ دیا تھا، کہ اگر وہ بتانا چاھتا ھے، تو صرف سچّ بتائے۔ اس لئے، کہ اس آدمی کے بارے میں افسانوی قسم کی اور من گھڑت داستان سننے سے بہتر ھے، کہ میں اپنا وقت ضائع نہ کروں۔ 
میں نے اپنے طور پر یہ کہ کر اشرف پر نفسیاتی وار کیا تھا، تا کہ وہ اس آدمی کی کہانی سناتے وقت صرف حقیقت بیان کرے، اور جھوٹ سے مکمّل پرہیز پر مجبور ھو جائے۔ لیکن اس نے مجھے یقین دلایا، کہ" فیروز بھائی، میں آپ کی طبیعت سے اچھّی طرح سے واقف ھوں۔ اس لئے یقین کریں، میرا پہلے بھی آپ سے اس متعلّق جھوٹ بولنے کا قطعی ارادہ نہیں تھا۔

اس کی اس بات سے میں مطمئن ھو گیا۔ 
اب اشرف نے اس آدمی کی داستان سنانا شروع کی۔ اس نے سب سے پہلے مجھے ھی مخاطب کیا۔ " فیروز بھائی، میں حیران ھوں، کہ آپ نے بھی اس بیچارے کو پہچانا نہیں ھے ۔
" کیا مطلب ؟ " میں ایک دم مسے سیدھا ھو کر بیٹھ گیا۔ " کیا میں اس آدمی کو جانتا ھوں ؟
" جی ھاں فیروز بھائی۔ " اشرف نے ایک اور دھماکہ کیا۔ میں اسے حیرانی سے دیکھ رھا تھا۔ 
" مگر یہ کون ھے، اور میں اسے کیسے جانتا ھوں؟ " میں نے پھر سے سوال کیا۔ ساتھ ھی ساتھ میں نے اپنے ذھن پر زور دے کر پھر سے یاد کرنے کی کوشش کی۔ میرے پردہٴ تصوّر اس آدمی کا چہرہ لہرایا۔ لیکن لاکھ کوشش کے باوجود بھی میں اپنی شناسائی کے خانے میں سے اس کا چہرہ نہ ڈھونڈ سکا۔ 
اشرف دھیرے سے مسکرایا، اور بولا۔
" اس کا نام واجد ھے۔ ، ، ، واجد عرف واجی۔
میں نے جونھی اس کے منہ سے یہ نام سنا، مجھ پر حیرتوں کے پھاڑ ٹوٹ پڑے۔ 
واجد عرف واجی۔ ۔ ۔ یہ تو اشرف کا پھپھو زاد کزن تھا، جو کہ تین کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ایک اور گاؤں میں رھتا تھا۔ اور اسی واجد عرف واجی کے ساتھ میرے بچپن کے دن کھیلتے ھوئے گزرے تھے۔ وہ جب بھی اشرف وغیرہ کے گھر میں آیا کرتا تھا، ھم دونوں ضرور ملتے۔ اس وقت کے ھم عمر دوستوں میں، واجی میرا سب سے اچھّا دوست تھا۔ ھم نے بچپن کے پانچ سال ایک ساتھ کھیل کود کر گزارے تھے۔ پھر میں شہر میں چلا گیا تھا۔ اس کے بعد، اگلے دو سالوں میں واجد سے چند ایک بار ھی ملاقات ھو سکی تھی، وہ بھی اشرف کے گھر پر۔ غالباْ وہ بھی کسی شہر میں چلا گیا تھا، اور ھمارے گاؤں میں کم کم ھی آتا تھا۔ پھر مجھے اس کی کوئی خیر خبر نہ مل سکی تھی۔ ھم اس کے بعد، ھمارے گاؤں میں بھی کبھی اکٹھّے نہ ھو سکے تھے۔ 
اور آج، اتنے سالوں بعد، واجد، عرف واجی، میرے سامنے اس حال میں آیا تھا، کہ اس کو اپنی ھوش تک نہیں تھی۔ اور میں، فیروز، جس کے ساتھ اس نے بچپن گزارا تھا، وہ بھی اس کو پہچان نہیں سکا تھا۔ 
میرے اندر کی کیفیّت ایک دم سے عجیب ھو گئی تھی۔ مجھے یقین ھی نہیں آ رھا تھا، کہ اشرف جو کہ رھا ھے، وہ واقعی سچّ ھے۔ 
" کیا یہ واقعی وھی واجی ھی ھے۔ میرے بچپن کا دوست، واجد، عرف واجی، ، ، ، کیا یہ واقعی وھی ھے ، ، ، ، ، ، ، ، ؟
میں اپنے اندر سوچ رھا تھا۔ اشرف نے ایک بار پھر سے دھرایا۔ " جی ھاں فیروز بھائی۔ اب آپ کو یاد آیا ھے یہ بد نصیب۔ یہ واجد ھی ھے۔ آپ کے بچپن کا دوست۔ بچپن میں آپ کے ساتھ ھنس ھنس کر کھیلنے والا میری پھوپھی کا اکلوتا بیٹا واجد۔ واجد عرف واجی۔
اشرف نے ابھی اتنا ھی کہا تھا، کہ وہ رونے لگ گیا۔ اس کو روتا دیکھ کر مجھے بھی ایسے محسوس ھوا، کہ میں بھی شائد رو دوں گا۔ لیکن ، ، ، ، میں ایسا نہ کر سکا۔ میری عجیب قسم کی طبیعت نے مجھے ایسا نہ کرنے دیا۔ البتّہ اشرف کو تسلّی دینا میرا فرض تھا، سہ میں نے اپنا کپ ایک طرف رکھّا، اور اشرف کو بازو سے پکڑ کر، تسلّی دیتے ھوئے اس کو خاموش کروانے کی کوشش کرنے لگا۔ اشرف کچھ دیر میں پر سکون ھو گیا۔ واقعی، سگا رشتہ تو دور، کوئی عام انسان بھی ھو، اس کو اس حال میں دیکھ کر،اس کے لئے، کم از کم درد مند دل رکھنے والا انسان، تو ضرور روتا ھو گا۔ چاھے وہ رونا ایک بار کے لئے ھی کیوں نہ ھو۔ اور اشرف تو اس کا سگا بھی تھا، اور اوپر سےاچھّا خاصا نرم مزاج انسان بھی تھا۔
اشرف کو تو میں نے جیسے تیسے چپ کروا دیا تھا۔ مگر اب میں اندر سے بے حد دکھّی ھو گیا تھا۔ مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رھا تھا، کہ جو کچھ مجھے ابھی ابھی اشرف نے بتایا ھے، وہ سچّ ھے۔
لیکن وہ سب کچھ واقعی میں سچّ ھی تھا۔ اور میرے یقین کرنے یا نہ کرنے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔ 
جب ھم دونوں کچھ نارمل ھو چکے، اور دوبارہ سے اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے، تو میں نے اس سے دوبارہ سے بات شروع کرنے کو کہا۔ 
اس نے واجد کی کہانی یوں بیان کی۔ 
" واجد کا بچپن تو آپ کے سامنے ، بلکہ آپ کے ساتھ ھی گزرا ھے۔ اس لئے میں وہاں سے شروع کرتا ھوں، جب آپ اور وہ جدا ھو چکے تھے۔ 
واجد جب بچپن سے جوانی کی حدوں کو پہنچا، تو اس کےمعصوم بچپن نے ایک حسین نوجوان کا روپ دھار لیا تھا۔ وہ اپنی والدہ کا اکلوتا بیٹا ھونے کی وجہ سے سب کا لاڈلا تو تھا ھی، مگر اس کے ساتھ ساتھ بلاٴ کا ذھین بھی تھا۔ اس نے لاھور کے ایک پرائیویٹ کالج میں داخلہ لیا، تو شروع شروع میں سب شہری لڑکے اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ لڑکیاں اور لڑکے اس کو پینڈو کہ کر چھیڑتے، مگر جلد ھی اس نے سب پر اپنی ذھانت کی دھاک بٹھا دی۔ سب کو اندازہ ھو گیا تھا، کہ ایک سادہ اور پینڈو نظر آنے والا یہ لڑکا، کس قدر خدا داد صلاحیّتوں کا مالک ھے۔ سبھی لڑکے اور لڑکیاں اب اس کی قدر کرنے لگ گئی تھیں۔

کالج کے تمام پروفیسرز بھی اب واجی سے بے حد متاٴثّر ھو چکے تھے۔ 

کئی لڑکیاں، تو اب واجی کو کسی اور ھی نظر سے دیکھنا شروع ھو گئی تھیں۔ اتنا ھی نہیں، کئی ایک نے تو اس سے کھلم کھلا اظہار محبّت بھی کر دیا تھا۔ یہ وہ لڑکیاں تھیں، جو محبّت کے نام پر جسم کی آگ بجھانا چاھتی تھیں۔ 
واجی ایک گاؤں میں پلا بڑھا تھا۔ پھر اس کی ماں نے اس کی تربیت ایسے انداز سے کی تھی، کہ وہ اپنے مظبوط کردار کی حفاظت کرنے میں کامیاب رھا۔ کسی بھی مرحلے پر وہ نہیں ڈگمگایا۔
اتنا تو آپ بھی جانتے ھیں، کہ گاؤں اور شہر کے ماحول میں کس قدر فرق ھوتا ھے۔ اسی لئے، واجی نے ان بے باک لڑکیوں کی کسی بھی اوچھی حرکت کا حوصلہ افزا جواب نہ دیا۔ اسی وجہ سے وہ کالج میں "ذھین " کے ساتھ ساتھ " شریف " کے نام سے بھی مشھور ھونا شروع ھو گیا تھا۔ کئی لڑکیوں نے تو اس کو " نامرد" تک کا خطاب دے ڈالا تھا، مگر واجی نے کسی بھی بات کا برا نہیں منایا تھا۔ اس کی نظریں صرف اور صرف اپنے مقصد پر ٹکی تھیں۔
اور اس کا مقصد تھا، " کمپیوٹرز سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری۔ "
واجی کالج میں اٹھنے والے ھر طوفان کو کامیابی سے عبور کر کے اپنی منزل کی جانب محو۔ سفر تھا، جب ، ، ، ، اس لڑکی نے کالج میں داخلہ لیا۔ "
اتنا کہ چکنے کے بعد، اشرف چند لمحوں کے لئے خاموش ھوا۔ میں مکمّل توجّہ سے اس کی بات سن رھا تھا۔ یہاں پہنچ کر اس کا یہ وقفہ مجھے ناگوار گزرا، مگر میں نے اپنی ناگواری چھپاتے ھوئے، اس سے سوال کیا، " کون سی لڑکی ؟ "
اور اس نے جواب میں کہا۔ " وہی، جس کا نام واجی نے رات کو بھی لیا تھا۔
میں نے کہا۔ 
" تمھارا مطلب ھے، کوثر نے ؟
اور اشرف نے کہا۔ 
" جی ھاں، کوثر نے ۔ اور یہی وہ دن تھا، جب واجی کی بربادی کا آغاز ھوا تھا۔ "
میری تمام حسیّات سمٹ کر میرے کانوں میں آ چکی تھیں۔ اتنا تو مجھے ابھی بھی یاد تھا، کہ رات کو واجی نے واقعی، کسی کوثر نامی لڑکی کا نام ھی لیا تھا۔ 

تو گویا، وہ کوثر نامی لڑکی اس کو لاھور میں ملی تھی، جو اس کے پاگل پن کی ذمّہ دار تھی۔ ۔ ۔ ۔ ! " 
میں اپنے دل میں سوچ رھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جاری ھے۔ ) ! 
(کہانی میں سیکس کی غیر موجودگی سے جو دوست ناراض ھیں، ان سے عرض ھے، کہ کہانی کے اگلے حصّے میں آپ سب کی تمنّا ضرور پوری ھونے والی ھے۔کہانی کا اگلا حصہ بھی ایک دو دنوں میں ھی پوسٹ کر دوں گا۔ اور آپ سب کی تسلّی کے لئے، عرض کر دوں ، کہ اس کہانی کا اگلا حصّہ ھی آخری حصّہ ھو گ

 

 

م!

میرا نام کومل ہے. میری عمر 27 سال ہے اور میں شادی شدہ ہوں. میرے شوہر آرمی میں ہیں. میں اپنے ساس - سسر کے ساتھ اپنے سسرال میں رہتی ہوں. شوہر آرمی میں ہیں تو اس وجہ سے میں کئی کئی ماہ لنڈ کو ترستي رہتی ہوں. ویسے تو میرے ارد گرد گلی محلے میں بہت سارے لنڈ رہتے ہیں پر ساس - سسر کے ہوتے یہ میرے کسی کام کے نہیں.
میری گلی کے سارے لڑکے مجھے پٹانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں. میرے ممے لڑکوں کی نیند اڑانے کے لئے کافی ہیں. میری بڑی سی گانڈ دیکھ کر لڑکوں کی حالت خراب ہو جاتی ہے اور وہ کھڑے کھڑے لنڈ کو ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں. میرے ریشمی لمبے بالوں میں پتہ نہیں کتنے لڈو کے دل اٹكے پڑے ہیں. میری پتلی کمر، میرے گلابی گلابی ہونٹ، لڑکوں کو میرے گھر کے سامنے کھڑے رہنے کے لئے مجبور کر دیتے ہیں. سب مجھے پٹانے کے ہتھکنڈے اجماتے رہتے تھے پر میں کسی سے نہیں پٹ رہی تھی. کمپیوٹر پر ضرور چیٹنگ کرکے اپنی پیاس ہاتھ سے بجھا لیتی. چیٹنگ پر مجھے لڑکے اکثر اپنا موبائل نمبر دینے اور ملنے کو کہتے مگر میں سب کو منع کر دیتی. پھر بھی ایک - دو نے اپنا نمبر دے دیا تھا.
ان سب دوستوں میں ایک اےنار آئی بڈھا بھی تھا. وہ کچھ دن بعد پاکستان آنے والا تھا. اس نے مجھے کہا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے، مگر میں نے انکار کر دیا.
کچھ دن کے بعد اس نے پاکستان آنے کے بعد مجھے اپنا فون نمبر دیا اور اپنی تصویر بھی بھیجی اور کہا - میں اکیلا ہی آیا ہوں، باقی ساری فیملی امریکہ میں ہیں.
اس نے یہ بھی کہا کہ وہ صرف مجھے دیکھنا چاہتا ہے بے شک دور سے ہی سہی.
اب تو مجھے بھی اس پر ترس سا آنے لگا تھا. وہ جہلم کا رہنے والا تھا اور میرا گاؤں بھی جہلم کے پاس ہی ہے.
اگلے مہینے میری ساس کی بہن کے لڑکے کی شادی آ رہی تھی جس کے لئے مجھے اور میری ساس نے شاپنگ کے لئے جہلم جانا تھا. مگر کچھ دنوں سے میری ساس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو اس نے مجھے اکیلے ہی جہلم چلی جانے کو کہا.
جب میں نے اکیلے جہلم جانے کی بات سنی تو ایک دم سے مجھے اس بوڑھے کا خیال آ گیا. میں نے سوچا کہ اسی بہانے اپنے بوڑھے عاشق کو بھی مل آتی ہوں.
میں نے نہاتے وقت اپنی جھاٹے صاف کر لی اور پوری سج - سںور کر بس میں بیٹھ گئی اور راستے میں ہی اس بوڑھے کو فون کر دیا. اسے میں نے ایک جوس - بار میں بیٹھنے کے لئے کہا اور کہا - میں ہی وہاں آ کر فون کروں گی.
میں آپ کو بوڑھے کے بارے میں بتا دوں. وہ 55-60 سال کا لگتا تھا. اس کے سر کے بال سفید ہو چکے تھے پر اس کی جو تصویر اس نے مجھے بھیجی تھی اسمے اس کی باڈی اور اس کا چہرہ مجھے اس سے ملنے کو مجبور کر رہا تھا.
بس سے اترتے ہی میں رکشہ لے کر وہاں پہنچ گئی جہاں پر وہ میرا انتظار کر رہا تھا. اس نے میری تصویر نہیں دیکھی تھی اس لئے میں تو اسے پہچان گئی پر وہ مجھے نہیں پہچان پایا. میں اس سے تھوڑی دور بیٹھ گئی.وہ ہر عورت کو آتے ہوئے غور سے دیکھ رہا تھا مگر اس کا دھیان بار بار میرے بڑے بڑے مممو اور اٹھی ہوئی گانڈ کی طرف آ رہا تھا. وہی کیا وہاں پر بیٹھے تمام مرد میری گانڈ اور مممو کو ہی دیکھ رہے تھے. میں آئی بھی تو سج - دھج کر تھی اپنے بوڑھے یار سے ملنے.
تھوڑی دیر کے بعد میں باہر آ گئی اور اسے فون کیا کہ باہر آ جائے. میں تھوڑی چھپ کر کھڑی ہو گئی اور وہ باہر آ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا.
میں نے اسے کہا - تم اپنی گاڑی میں بیٹھ جاؤ، میں آتی ہوں.
وہ اپنی گاڑی میں جاکر بیٹھ گیا، میں نے بھی ادھر ادھر دیکھا اور اس کی طرف چل پڑی اور جھٹ سے جا کر اس کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ گئی.
مجھے دیکھ کر وہ حیران رہ گیا اور کہا - تم ہی تو اندر گئی تھی، پھر مجھے بلایا کیوں نہیں؟
میں نے کہا - اندر بہت سارے لوگ تھے، اس لیے!
اس نے دھیرے دھیرے گاڑی چلانی شروع کر دی، اس نے مجھے پوچھا - اب تم کہاں جانا چاهوگي؟
میں نے کہا - کہیں نہیں، بس تم نے مجھے دیکھ لیا، اتنا ہی کافی ہے، اب مجھے شاپنگ کرکے واپس جانا ہے.
اس نے کہا - اگر تم برا نا مانو تو میں تمہیں کچھ تحفہ دینا چاہتا ہوں. کیا تم میرے ساتھ میرے گھر چل سکتا ہو؟
اس کا جہلم میں ہی ایک شاندار بنگلہ تھا.
پہلے تو میں نے انکار کر دیا پر اس کے مزید زور ڈالنے پر میں مان گئی. پھر ہم اس کے گھر پہنچے. مجھے احساس ہو چکا تھا کہ اگر میں اس کے گھر پہنچ گئی ہوں تو آج میں ضرور چدنے والی ہوں.
میں گاڑی سے اتر کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی.
اندر جا کر اس نے مجھے پوچھا - کیا پیوگی تم کومل؟
"کچھ نہیں! بس مجھے تھوڑا جلدی جانا ہے!"
وہ بولا - نہیں ایسے نہیں! اتنی جلدی نہیں .. ابھی تو ہم نے اچھے سے باتیں بھی نہیں کی!
"اب تو میں نے تمہیں اپنا فون نمبر دے دیا ہے، رات کو جب جی چاہے فون کر لینا .. میں اکیلی ہی سوتی ہوں."
"پلیز! تھوڑی دیر بیٹھو تو سہی!"
میں نے کچھ نہیں کہا اؤر صوفے پر بیٹھ گئی.
وہ جلدی سے کولڈنگ لے آیا اور مجھے دیتے ہوئے بولا - یہ کولڈرنگ ہی پی لو پھر چلی جانا.
میں نے وہ مشروب لے لیا. وہ میرے پاس بیٹھ گیا اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے.
باتوں ہی باتوں میں وہ میری تعریف کرنے لگا.
وہ بولا - کومل .. جب جوس بار میں تمہیں دیکھ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ کاش کومل ایسی ہو، مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ نرم یہی ہے.
رہنے دو! جھوٹی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے جی! میں نے کہا.
اس نے بھی موقع کے حساب سے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا - سچ میں نرم، تم بہت خوبصورت ہو.
میرا ہاتھ میری ران پر تھا اور اس پر اس کا ہاتھ!
وہ دھیرے دھیرے میرا ہاتھ رگڑ رہا تھا. کبھی کبھی اس کی انگلیاں میری ران کو بھی چھو جاتی جس سے میری پیاسی جوانی میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی.
اب میں مدہوش ہو رہی تھی. مگر پھر بھی اپنے اوپر قابو رکھنے کا ڈرامہ کر رہی تھی جسے وہ سمجھ چکا تھا.
پھر اس نے ہاتھ اوپر اٹھانا شروع کیا اور اس کا ہاتھ میرے بازو سے ہوتا ہوا میرے بالوں میں گھس گیا، میں چپ چاپ بیٹھی مدہوش ہو رہی تھی اور میری سانسیں گرم ہو رہی تھی.
اس کا ایک ہاتھ میری پیٹھ پر میرے بالوں میں چل رہا تھا اور وہ میری تعریف کئے جا رہا تھا. پھر دوسرے ہاتھ سے اس نے میری گال کو پکڑا اور چہرہ اپنی طرف کر لیا.
میں نے بھی اپنا ہاتھ اپنی گال پر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا.
اس نے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں پر رکھ دیا اور میرے ہونٹوں کا رس چوسنا شروع کر دیا.
مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میں اس کا ساتھ دینے لگی. پھر اس نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا. اب میرے دونوں چوچے اس کی چھاتی سے دب رہے تھے. اس کا ہاتھ اب کبھی میری گانڈ پر، کبھی بالوں میں، کبھی گالوں میں، اور کبھی میرے مممو پر چل رہا تھا.
میں بھی اس کے ساتھ کس کر چپک چکی تھی اور اپنے ہاتھ اس کی پیٹھ اور بالوں میں گھما رہی تھی.
15-20 منٹ تک ہم دونوں ایسے ہی ایک دوسرے کو چومتے - چاٹتے رہے.
پھر اس نے مجھے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور بیڈروم کی طرف چل پڑا. اس نے مجھے زور سے بیڈ پر پھینک دیا اور پھر میری ٹانگیں پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا. وہ میری دونوں ٹانگوں کے درمیان کھڑا تھا. پھر وہ میرے اوپر لیٹ گیا اور پھر سے مجھے چومنے لگا. اسی دوران اس نے میرے بالوں میں سے ہیئر رنگ نکال دیا جس سے بال میرے چہرے پر بکھر گئے.
مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا، اب تو میں بھی شہوت کی آگ میں ڈوبے جا رہی تھی.
پھر اس نے مجھے پکڑ کر کھڑا کر دیا اور میری قمیض کو اوپر اٹھایا اور اتار دیا. میری برا میں سے میرے ستن جیسے پہلے ہی آزاد ہونے کو پھر رہے تھے. وہ برا کے اوپر سے ہی میرے ستن مسل رہا تھا اور چوم رہا تھا.
پھر اس کا ہاتھ میری پجامي تک پہنچ گیا. جس کا ناڑا کھینچ کر اس نے کھول دیا. میری پجامي بہت ٹائیٹ تھی جسے اتارنے میں اسے بہت مشکل ہوئی. مگر پجامي اتارتے ہی وہ میرے گول گول چوتٹ دیکھ کر خوش ہو گیا.
اب میں اس کے سامنے برا اور پینٹی میں تھی. اس نے میری ٹانگوں کو چوما اور پھر میری گانڈ تک پہنچ گیا.میں الٹی ہو کر لیٹی تھی اور وہ میرے چوتڑوں کو زور زور سے چاٹ اور مسل رہا تھا.
اب تک میری شرم اور خوف دونوں غائب ہو چکے تھے اور پھر جب غیر مرد کے سامنے ننگی ہو ہی گئی تھی تو پھر چدائی کے پورے مزے کیوں نہیں لیتی بھلا.
میں پیچھے مڑی اور گھوڑی بن کر اس کی پینٹ، جہاں پر لنڈ تھا، پر اپنا چہرہ اور گالے رگڑنے لگی. میں نے اس کی شرٹ کھولنی شروع کر دی تھی. جیسے جیسے میں اس کی شرٹ کھول رہی تھی اس کی چوڑی اور بالوں سے بھری چھاتی سامنے آئی.
میں اس پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنے لگی اور چومنے لگی. دھیرے دھیرے میں نے اس کی شرٹ کھول کر اتار دی. وہ میرے ایسا کرنے سے بہت خوش ہو رہا تھا. مجھے تو اچھا لگ ہی رہا تھا. میں مست ہوتی جا رہی تھی.
میرے ہاتھ اب اس کی پینٹ تک پہنچ گئے تھے. میں نے اس کی پینٹ کھولی اور نیچے سرکا دی. اس کا لنڈ انڈروئیر میں کسا ہوا تھا. ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے انڈرویئر پھاڑ کر باہر آ جائے گا.
میں نے اس کی پینٹ اتار دی.
میں نے اپنی ایک اوںگلی اوپر سے اس کے انڈرویئر میں گھسا دی اور نیچے کو کھیںچا. اس سے اس کی جھانٹوں والی جگہ، جو اس نے بالکل صاف کی ہوئی تھی دکھائی دینے لگی. میں نے اپنا پورا ہاتھ اندر ڈال کر انڈرویئر کو نیچے کھیںچا. اس کا 7 انچ کا لنڈ میری انگلیوں کو چھوتے ہوئے اچھل کر باہر آ گیا اور سیدھا میرے منہ کے سامنے ہلنے لگا.
اتنا بڑا لنڈ اچانک میرے منہ کے سامنے ایسے آیا کہ میں ایک بار تو ڈر گئی. اس کا بڑا سا اور لمبا سا لنڈ مجھے بہت پیارا لگ رہا تھا اور وہ میری پیاس بھی تو بجھانے والا تھا.
میرے ہونٹ اس کی طرف بڑھنے لگے اور میں نے اس کے ٹوپے کو چوم لیا. میرے ہوںٹھو پر گرم - گرم احساس ہوا جسے میں مزید محسوس کرنا چاہتی تھی.
تبھی اس بوڑھے نے بھی میرے بالوں کو پکڑ لیا اور میرا سر اپنے لنڈ کی طرف دبانے لگا.
میں نے منہ کھولا اور اس کا لنڈ میرے منہ میں سمانے لگا. اس کا لنڈ میں مکمل اپنے منہ میں نہیں گھسا سکی مگر جو باہر تھا اس کو میں نے ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور مسلنے لگی.
بڈھا بھی میرے سر کو اپنے لنڈ پر دبا رہا تھا اور اپنی گانڈ ہلا ہلا کر میرے منہ میں اپنا لنڈ گھسےڑنے کی کوشش کر رہا تھا.
تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کے دھکوں نے زور پکڑ لیا اور اس کا لنڈ میرے گلے تک اترنے لگا. میری تو حالت بہت بری ہو رہی تھی کہ اچانک میرے منہ میں جیسے سیلاب آ گیا ہو. میرے منہ میں ایک مزیدار چیز گھل گیا، تب مجھے سمجھ میں آیا کہ بڈھا جھڑ گیا ہے.
تبھی اس کے دھکے بھی رک گئے اور لنڈ بھی ڈھیلا ہونے لگا اور منہ سے باہر آ گیا.
اس کا مال اتنا زیادہ تھا کہ میرے منہ سے نکل کر گردن تک بہہ رہا تھا. کچھ تو میرے گلے سے اندر چلا گیا تھا اور بہت سارا میرے چھاتی تک بہہ کر آ گیا. میں بےسدھ ہوکر پیچھے کی طرف لیٹ گئی. اور وہ بھی ایک طرف لیٹ گیا. اس درمیان ہم تھوڑی رومانی باتیں کرتے رہے.
تھوڑی دیر کے باڑ وہ پھر اٹھا اور میرے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر میرے اوپر جھک گیا. پھر اسن مجھے اپنے اوپر کر لیا اور میری برا کی ہک کھول دی. میرے دونوں کبوتر آزاد ہوتے ہی اس کی چھاتی پر جا گرے. اس نے بھی بغیر دیر کئے دونوں کبوتر اپنے ہاتھوں میں تھام لئے اور باری باری دونوں کو منہ میں ڈال کر چوسنے لگا.
وہ میرے مممو کو بڑی بری طرح سے چوس رہا تھا. میری تو جان نکلی جا رہی تھی. میرے مممو کا رسپان کرنے کے بعد وہ اٹھا اور میری ٹانگوں کی طرف بیٹھ گیا. اس نے میری پیںٹی کو پکڑ کر نیچے کھینچ دیا اور دونوں ہاتھوں سے میری ٹاںگے فیلا کر کھول دی.
وہ میری رانوں کو چومنے لگا اور پھر اپنی زبان میری چوت پر رکھ دی. میرے بدن میں جیسے بجلی دوڑنے لگی. میں نے اس کا سر اپنی دونوں رانوں کے بیچ میں دبا لیا اور اس کے سر کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا. اس کا لنڈ میرے پیروں کے ساتھ چھو رہا تھا. مجھے پتہ چل گیا کہ اسکا لنڈ پھر سے تیار ہیں اور سخت ہو چکا ہے.
میں نے بوڑھے کی بانہہ پکڑی اور اوپر کی اور کھینچتے ہوئے کہا - میرے اوپر آ جاؤ راجہ ..
وہ بھی سمجھ گیا کہ اب میری پھددي لنڈ لینا چاہتی ہے.
وہ میرے اوپر آ گیا اور اپنا لنڈ میری چوت پر رکھ دیا. میں نے ہاتھ میں پکڑ کر اس کا لنڈ اپنی چوت کے منہ پر ٹكايا اور اندر کو کھیںچا. اس نے بھی ایک دھکا مارا اور اس کا لنڈ میری چوت میں گھس گیا.
میرے منہ سے آہ نکل گئی. میری چوت میں میٹھا سا درد ہونے لگا. اپنے شوہر کے انتظار میں اس درد کے لئے میں بہت تڑپي تھی.
اس نے میرے ہوںٹھ اپنے ہوںٹھو میں لئے اور ایک اور دھکا مارا. اس کا سارا لنڈ میری چوت میں اتر چکا تھا.میرا درد بڑھ گیا تھا. میں نے اس کی گانڈ کو زور سے دبا لیا تھا کہ وہ ابھی اور دھکے نہ مارے.
جب میرا درد کم ہو گیا تو میں اپنی گانڈ ہلانے لگی.
وہ بھی لنڈ کو دھیرے دھیرے سے اندر - باہر کرنے لگا.
کمرے میں میری اور اس کی سيتكارے اور اهو کی آواز گونج رہی تھی. وہ مجھے بےدردي سے پیل رہا تھا اور میں بھی اس کے دھکوں کا جواب اپنی گانڈ اٹھا - اٹھا کر دے رہی تھی.
پھر اس نے مجھے گھوڑی بننے کے لئے کہا.
میں نے گھوڑی بن کر اپنا سر نیچے جھکا لیا. اس نے میری چوت میں اپنا لنڈ ڈالا. مجھے درد ہو رہا تھا مگر میں سہ گئی. درد کم ہوتے ہی پھر سے دھکے زور زور سے چالو ہو گئے. میں تو پہلے ہی جھڑ چکی تھی، اب وہ بھی جھڑنے والا تھا. اس نے دھکے تیز کر دئے.
اب تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ بڈھا آج میری چوت پھاڑ دے گا. پھر ایک سیلاب آیا اور اسکا سارا مال میری چوت میں بہہ گیا.
وہ ویسے ہی میرے اوپر گر گیا. میں بھی نیچے الٹی ہی لیٹ گئی اور وہ میرے اوپر لیٹ گیا.
میری چوت میں سے اس کا مال نکل رہا تھا. پھر اس نے مجھے سیدھا کیا اور میری چوت چاٹ چاٹ کر صاف کر دی.
ہم دونوں تھک چکے تھے اور بھوک بھی لگ چکی تھی. اس نے کسی ہوٹل میں فون کیا اور کھانا گھر پر ہی مگوا لیا.
میں نے اپنے چھاتی اور چوت کو کپڑے سے صاف کئے اور اپنی برا اور پینٹی پہننے لگی. اس نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا اور ایک گفٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا.
میں نے کھول کر دیکھا تو اس میں بہت ہی پیارا، دلکش برا اور پینٹی تھی جو

وہ میرے لئے امریکہ سے لایا تھا.پھر میں نے وہی برا اور پیںٹی پہنی اور اپنے کپڑے پہن لیے.
تبھی بیل بجی، وہ باہر گیا اور کھانا لے کر اندر آ گیا.
ہم نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا.
اس نے مجھے کہا - چلو اب تمہیں شاپنگ کرواتا ہوں.
وہ مجھے مارکیٹ لے گیا. پہلے تو میں نے شادی کے لئے شاپنگ کی، جس کا بل بھی اسی بوڑھے نے دیا. اس نے مجھے بھی ایک بے حد خوبصورت اور قیمتی ساڑھی لے کر دی اور بولا - جب اگلی بار ملنے آؤگی تو یہی ساڑھی پہن کر آنا کیونکہ اس کو تیری تنگ پجامي اتارنے میں بہت مشکل ہوئی آج.
پھر وہ مجھے بس اسٹینڈ تک چھوڑ گیا اور میں بس میں بیٹھ کر واپس اپنے گاؤں اپنے گھر آ گئی.

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے