مرتے دم تک
تحریر: ماہر جی
پہلی قسط
رات کے 10 بج رہے تھے اور صباء اور اس کا شوہر اشرف دونوں اپنے
کانوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے بیڈروم میں بیٹھے ہوئے تھے . . . .
کبھی اشرف اپنے سر کو بیڈ پر
رکھے ہو سرہانے کے نیچے گھسا دیتا اور کبھی بے چین ہو کر اٹھ بیٹھتا اور اپنے
ہاتھوں کی ایک ایک انگلی اپنے کانوں میں ڈال لیتا یہی حال صباء کا بھی تھا
. . . . .
لیکن ان سب کوششوں کے باوجود
ان دونوں کو اس چیز سے چھٹکارا نہیں مل پا رہا تھا جس کی وجہ سے ان دنوں کی یہ
حالت ہو رہی تھی . . . .
غصے کے مارے اشرف کا برا حال
ہو رہا تھا لیکن وہ بڑی ہی مشکل سے خود پر قابو کر پا رہا تھا
. . . . .
ان دونوں نوجوان اور نئے
نویلے جوڑے کی پریشانی کی وجہ تھی بہت ہی اونچی اور بری سی میوزک کی آواز جو کے
ایک پرانی سے ٹیپ پر چلتی ہوئی کیسٹ سے آ رہی تھی اور یہ ٹیپ ریکارڈر ان کی بالکل
ساتھ والے فلیٹ میں رہنے والے ریٹائیرئڈ میجر جوہر کے ہاں چل رہا تھا
. . . . .
لیکن میجر صاحب اپنے ہمساے
کی پریشانی اور اپنے گھر میں چل رہے ٹیپ ریکارڈر دونوں سے ہی لا علم تھے
. . . .
اور اس کی وجہ یہ تھی کہ
میوزک اور ٹی وی چلتا ہوا چھوڑ کر وہ کب کے سو چکے تھے اور ان کو اب کوئی علم نہیں
تھا کے ان کے اردگرد کیا ہو رہا ہے . . . .
سو گئے ہوئے تھے یا شاید
اپنی عادت کے مطابق شراب پیتے ہو بے ہوش ہو گیا تھا . . . .
کچھ پتہ نہیں تھا
. . . .
اور ایسا یہ کوئی پہلی بار
نہیں ہو رہا تھا بلکہ ہر ہفتے میں دو تِین بار ایسا ضرور ہو جاتا تھا جس کی وجہ سے
تمام ہمساے ان سے تنگ آ چکے ہوے تھے . . . .
لیکن میجر جوہر کی غصیلی
طبیعت اور انتہائی نا مناسب راویے کی وجہ سے کوئی بھی ان کے سامنے آنے کی جُرات
نہیں کرتا تھا . . . .
جب اشرف سے برداشت نہ ہو
پایا تو اس نے اپنے سر کے اُوپر رکھا ہوا تکیہ اٹھایا اور زور سے اسے دور پڑے ہو
صوفے پر پھینکتا ہوا اٹھا اور بولا ،
اِس بیہودہ گنوار جانور کو
آج کچھ سکھا کر ہی آنا پڑے گا . . . .
اِس کمینے کو تو انسانوں کے
بیچ میں رہنے کا کوئی سلیقہ ہی نہیں ہے . . . .
جیسے ہی صباء نے اپنے شوہر
کو غصے میں دیکھا تو جلدی سے اٹھی اور اسے روکتی ہوی بولی ،
نہیں نہیں آپ نہیں جاؤ ،
آپ غصے میں ہو آپ روکو میں
ان کو کہہ کر آتی ہوں . . . .
ایسے آپ کے جانے سے بات بڑھ
جائے گی . . . .
اپنی بِیوِی کے بار بار کہنے
پر اشرف روک گیا وہیں بیڈروم میں ہی اور پِھر صباء نے بیڈ پر پڑا ہوا گاؤن اپنے
نائٹ سوٹ پر ڈالا اور اس کی ڈوری باندھتی ہوئی بیڈروم سے باہر نکل آئی
. . . .
اپنے فلیٹ کا مین گیٹ ان لاک
کر کے وہ باہر کوڑی ڈور میں نکلی تو پانچویں منزل کا کوڑی ڈور بالکل خالی تھا
. . . .
صباء اپنے فلیٹ کے دروازے سے
نکلی اور بالکل ساتھ کے دروازے کی طرف بڑھی . . . .
اُس کے چہرے پر بھی نہ چاہتے
ہوے بھی غصہ اور انتہائی نفرت تھی . . . .
کیوںکہ وہ بھی اس بیہودہ
ریٹائیرئڈ میجر کی طبیعت سے اچھی طرح واقف تھی . . . .
صباء نے میجر جوہر کے دروازے
پر جا کر اپنی نازک نازک گوری گوری اور پتلی انگلیوں کو موڑتے ہوے آہستہ آہستہ نوک
کیا . . . . . .
ایک بار
. . . . . . .
دوسری بار
. . . . . . .
تیسری بار
. . . . . . . . . .
لیکن ہر بار کی دستک کا
نتیجہ تو ایک ہی نکل رہا تھا کے دروازہ نہیں کھولنا تھا نہیں کھلا
. . . .
اور کھلتا بھی تب نہ جب کوئی
اندر سن رہا ہوتا تو . . . .
جیسے جیسے صباء نوک کیے جا
رہی تھی ویسے ویسے ہی اس کا غصہ بھی بڑھتا جا رہا تھا . . . .
صباء کو اپنی انگلیوں میں
تھوڑا درد محسوس ہوا تو اس نے اپنا ہاتھ پُورا کھولا اور اِس بار غصے کے ساتھ پورے
ہاتھ کی مدد سے لکڑی کے دروازے کو پیٹنے لگی . . . .
اتنی زور سے دروازہ پیٹنے کے
بعد صباء نے ادھر اُدھر دیکھا کیوںکہ اسے یقین تھا کے وہ کمینہ میجر نکلے یا نہ
نکلے لیکن باقی کے چار فلاٹس میں سے کوئی نہ کوئی ضرور نکل آئے گا باہر
. . . .
لیکن خدا کا شکر تھا کہ ابھی
تک کوئی نہیں نکلا تھا ویسے کوئی نکل بھی آتا تو بھی اسے کوئی پرواہ نہیں تھی
. . . .
جب بہت زور زور سے دو تِین
بار دروازہ پیٹا گیا تو اندر شراب پی کر سوتے ہوئے میجر صاحب کو شاید کچھ کچھ ہوش
آنے لگا اس نے پہلے اپنے کان کھولے اور جب اسے یقین ہو گیا کہ کوئی باہر ان کا
دروازہ توڑنے کے درپے ہے تو بڑی ہی مشکل سے اب انہوں نے اپنی آنكھوں کو کھولا جو
کے نشے کی وجہ سے دوبارہ سے بند ہوئی جا رہی تھیں . . . .
اپنی آنكھوں کو جگانے کے بعد
اب باری تھی سب سے مشکل کام کی یعنی اپنے سوئے ہوے وجود کو جگانے کی تاکہ وہ اپنے
دروازے تک پہنچ سکیں . . . .
کسی نہ کسی طرح سے خود کو
ہوش میں لا کر میجر جوہر اپنے دروازے کی طرف بڑھا لیکن اِس دوران بھی تین بار
دروازہ پیٹ دیا گیا تھا . . . .
جیسے ہی میجر نے دروازہ
کھولا تو اپنی آنكھوں کے سامنے اپنی ہمساے کی انتہائی خوبصورت اور جوان گوری چٹی
بِیوِی کو دیکھا کر تھوڑا نشہ اور ہوا ہوگیا اور آنکھیں پوری طرح سے کھل گئی
. . .
اور وہ شراب اور نیند کے اثر
سے سوراخ ہو رہی اپنی آنکھیں کھول کر اپنے سامنے کھڑی خوبصورت صباء کو دیکھ کر
بولا ،
ہاں کیا بات ہے ؟
کیوں میرے گھر کا دروازہ
توڑنے کو آئی کھڑی ہو . . . .
صباء کے چہرے پر اسے انتہائی
نفرت اور غصہ تو صاف نظر آرہا تھا لیکن وہ بھلا کسی کے غصے یا نفرت کی پرواہ کیوں
کرنے لگا . . . .
صباء :
کوئی شوق نہیں ہے مجھے یوں
آدھی رات کو تمھارے گھر کا دروازہ پیٹنے کا . . . .
یہ جو شور مچا رکھا ہے تم نے
اپنے گھر میں اسی بند کر کے مارو جا کر تاکہ کوئی اور بھی سکون سے سو سکے یہاں پر
. . . .
میجر :
ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا
. . . . . . . . . . . . . . . .
اچھا اچھا کر دیتا ہوں بند
اسے بھی . . . . . . .
لگتا ہے اِس شور میں تیرے اس
ٹھوکو کا کھڑا نہیں ہوتا جو اس نے تجھے اِس وقت میرے پاس بھیجا ہے اسے بند کروانے
. . . . .
صباء کا چہرہ یہ بات سن کر
غصے سے سوراخ ہو گیا اور اس کی آنكھوں سے جیسے آگ نکل رہی ہو لیکن وہ صرف اپنے
ہاتھوں کی مٹھیان ہی بھینچ کر رہ گئی . . . .
اِس خبیث انسان سے ایسی ہی
باتوں کی امید تھی اسے لیکن وہ کوئی تماشہ کھڑا نہیں کرنا چاہتی تھی
. . . . .
صباء :
بند کرو اپنی بکواس اور اِس
شور کو بھی . . . .
تم سے زیادہ گھٹیا انسان تو
میں نے آج تک نہیں دیکھا جسے خواتین سے بات کرنے کی بھی تمیز نہیں ہے
. . . .
یہ کہہ کر صباء اپنے فلیٹ کی
طرف مڑ گئی وہ کوئی اور بات نہیں کرنا چاہتی تھی اور نہ سننا چاہتی تھی
. . . . .
میجر :
ہا ہا ہا ہا ہا ہا
. . . . . . . . . . . .
اور میں نے بھی تمھارے شوہر
جیسے گھٹیا آدمی نہیں دیکھا کبھی جو آدھی رات کو اپنی بِیوِی کو دوسرے مرد کے گھر
بھیجتا ہے . . . . . . . . . . . .
ہا ہا ہا ہا ہا ہا
اِس بات نے ایک بار پِھر
صباء کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی اس نے فوراً ہی مڑ کر پیچھے دیکھا تو میجر نے
ہنستے ہوے اسے ایک آنکھ ماری اور زور سے اپنا دروازہ بند کر لیا
. . . .
صباء کی نظر اپنے فلیٹ کے
سامنے والے فلیٹ کی دروازے پر پڑی تو دیکھا کے وہاں پر منصور صاحب کھڑے ہے
. . . .
وہ بھی بہت ہی بےچارگی والی
نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے . . . .
ادھیڑ عمر کے منصور صاحب
انتہائی شریف آدمی تھے اور اپنی فیملی کے ساتھ بالکل سامنے رہتے تھے اور ان کی
ساتھ اشرف اور صباء کے اچھے مراسم تھے . . . .
صباء نے منصور صاحب کو دیکھا
تو شرمندہ ہو کر اپنی نظریں جھکا لیں . . . .
منصور :
بیٹی تم اِس گندے انسان کے
منہ نہ لگا کرو . . . .
کتنی بار تم لوگوں کو منع
کیا ہے . . . .
صباء نے شرمندگی سے سر جھکا
لیا اور جیسے اس کی آنكھوں سے آنسو نکالنے کو ہی تھے لیکن ساتھ ہی نفرت بھی اندر
ہی اندر اور بڑھ گئی تھی . . . .
لیکن ایک بات تھی کے اپنے
گھر کا دروازہ بند کرنے تک اس خوفناک میوزک کی آواز بھی بند ہو چکی تھی
. . . .
اپنے گھر کا دروازہ اندر سے
لوک کر کے صباء اپنے بیڈروم کی طرف بڑھی یہ اسے ہی معلوم تھا کے اِس اتنی سے کام
کے لیے وہ کس قدر ذلیل ہو کر آئی ہے اس بے شرم بیہودہ انسان کے ہاتھوں
. . . .
لیکن اسے پتہ تھا کے اسے یہ
بات اپنے شوہر اشرف کو نہیں بتانی ہے بلکہ اس سے چھوپانی ہے . . . . . . . . . . .
. . . . . . .
جیسے وہ اب تک چھپاتی آئی ہے
. . . . . . . . . . . . . . .
اپنی تزلیل اور بےعزتی کو
کیوں کے وہ نہیں چاہتی تھی کے اس کا شوہر اس سے لڑ پاری جا کر اور پِھر وہ کمینہ
شخص اُس کے شوہر کو کوئی نقصان پہنچاے . . . . .
اس لیے صباء نے فریج سے
ٹھنڈا پانی نکال کر پیا اور پِھر بیڈروم میں جا کر خاموشی سے بیڈ پر اپنے شوہر کے
ساتھ لیٹ گئی . . . . .
اشرف :
کوئی بدتمیزی تو نہیں کر رہا
تھا وہ کمینہ ؟ ؟ ؟
صباء :
نہیں معذرت کر رہا تھا کے
آنکھ لگ گئی تھی اِس لیے ایسا ہو گیا . . . .
اشرف نے بھی اب کروٹ لی اور
سونے لگا . . . .
صباء بھی کروٹ لے کر اشرف کی
پیٹھ سے چپک کر لیٹ گئی اور اس کمینے انسان کی باتوں کو اپنے دماغ سے نکالتے ہوے
خود کو نیند کی وادیوں میں لے جانے کی کوشش کرنے لگی . . . .
صباء اور اشرف کی شادی کو
ابھی کوئی چھے سات مہینے ہوے تھے . . . .
دونوں اپنی شادی سے بےحد خوش
تھے اور اپنی شادی کے ابتدائی دنوں کو خوب خوب انجوئے کر رہے تھے
. . . .
اسی لیے اشرف جو کے پہلے
اپنے بڑے بھائی کے ساتھ رہتا تھا نے اب اپنے لیے رہنے کا الگ بندوبست کر لیا تھا
. . . .
یہ بندوبست یہی تھا کے اب
اشرف نے اِس بِلڈنگ میں ایک فلیٹ لے لیا تھا اور اب ان کو تقریباً ایک مہینہ ہو
گیا ہوا تھا یہاں شفٹ ہوئے . . . . . .
یہ ایک پانچ مانزلا بِلڈنگ
تھی جس کی ہر منزل پر چھے فلیٹ تھے . . . .
ان کو آخری منزل پر ہی جگہ
مل سکی تھی . . . .
اِس سے اُوپر خالی چھت تھی
جس کی سیڑھیاں بھی ایک کارنر سے جاتی تھیں . . .
تمام فلاٹس کے رومز کی سیٹنگ
ایک جیسی ہی تھیں . . . .
مین گیٹ سے داخل ہونے کے بعد
ایک سیٹنگ روم تھا جو کہ گیسٹ کے بیٹھنے اور ٹی وی لونچ کے لیے استعمال ہوتا تھا
. . . .
اسی سیٹنگ روم کے ایک حصے
میں چھوٹا سا کچن تھا . . . .
پِھر ایک بیڈروم تھا جس کی
ساتھ ہی اٹیچڈ باتھ روم تھا اندر ہی . . . .
سیٹنگ روم سے ایک کھڑکی باہر
کی طرف کھلتی تھی ایک چھوٹی سی بالکونی میں . . . .
یہ بالکونی کپڑے وغیرہ
سوکھانے کے لیے اور بیٹھنے کے لیے استعمال ہوتی تھی . . . .
صباء کے فلیٹ کی بالکونی
میجر صاحب کے فلیٹ کی بالکونی سے ملی ہوئی تھی درمیان میں ایک چھوٹی سی دیوار تھی
جو کے تقریباً چار فٹ تک ہو گی . . . .
میجر جوہر اشرف اور صباء کا
نیکسٹ دوڑ نیبر تھا . . . ۔
وہ ایک ایکس ملٹری آفیسر تھا
،
آفیسر تھا
. . . .
یعنی کے کچھ سال پہلے اسے
آرمی سے نکال دیا گیا تھا اُس کے برے برتاؤ اور راویے کی وجہ سے
. . . .
اپنے سے نیچلے درجے کے
آفیسرز اور عام سپائیوں کے ساتھ اس کا برتاؤ بہت ہی برا تھا جس کی لیے اسے کئی بار
وارننگ بھی دی گئی تھی لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا . . . .
اور آخر کار اسے آرمی سے
نکال دیا گیا . . .
لیکن تب تک بھی وہ میجر کے
رینک تک پہنچ ہی چکا تھا . . . .
میجر جوہر اب بالکل فارغ تھا
لیکن دوسرے آرمی آفیسرز کی طرح ہی بے حد فٹ اور چست تھا . . . .
سر کے بال کافی حد تک اڑ چکے
تھے رنگ بھی سانولا تھا ہائیٹ پانچ فٹ آٹھ انچ تھی . . . .
چہرہ گول مٹول تھا اور صرف
چہرے پر تھوڑی تھوڑی داڑھی رکھی ہوئی تھی انہوں نے جو کے ان کی صفاک چہرے پر اور
بھی خوفناک لگتی تھی . . .
روزانہ جوکنگ اور ایکسرسائز
اس کی عادت تھی . . . .
باڈی ابھی بھی کافی مضبوط
اور طاقتور تھی . . . .
اب اس کا گزر ادھر اُدھر
انویسٹ کیے ہوے پیسوں پر ہی چل رہا تھا اور کافی اچھا گزر ہو رہا تھا کیوں کے صرف
اکیلا ہی تو تھا وہ کھانے والا . . . .
اس کی بِیوِی بھی کافی عرصہ
پہلے اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی جس کی وجہ سے بھی اُس کے مزاج میں بہت زیادہ سختی آ
گئی ہوئی تھی . . .
صبح صبح اٹھ کر جوکنگ اور
ایکسرسائز پِھر اپنے گھر میں ہی بیٹھنا یا کبھی کبھار کہیں نا کہیں اپنی انویسٹمنٹ
چیک کرنے چلے جانا اور شام کو اکثر گھر پر ہی شراب کی محفل سجاتا تھا جس میں اکثر
اکیلا ہی ہوتا اور کبھی کبھار اُس کے دوست بھی اس کے پاس آجاتے تھے اور پِھر وہاں
خوب مستی کرتے تھے . . . . .
بات بات پر گالی دینا اور
بِلڈنگ والوں سے لڑنا اس کا معمول تھا جس کی وجہ سے اسے کوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا
تھا اور پوری بِلڈنگ میں کوئی بھی اس کا دوست نہیں تھا . . . .
ہر کوئی اس سے دور ہی رہنا
پسند کرتا تھا . . . .
بِلڈنگ کے مالک کے ساتھ ان
کے اچھے تعلقات تھے جس کی وجہ سے ان کو آج تک یہاں سے نکالا نہیں گیا تھا
. . . .
ان کی اپنی منزل پر رہنے
والے لوگ بھی ان سے کافی ڈر کر رہتے تھے . . . .
ان تمام بری عادت کے باوجود
بھی میجر صاحب میں چھچوڑاپن نہیں تھا کے کبھی کسی نے ان کو کسی لڑکی یا بِلڈنگ کی
کسی عورت کو ایسے ہی چھیڑتے ہوے دیکھا ہو یا تنگ کیا ہو لیکن اگر کوئی ان سے بات
چیت کرتا تو ان کی شاراتوں سے محفوظ نہیں رہ پاتا تھا . . . .
صرف اسی لحاظ سے سب لوگ ان
کو برداشت کر رہے تھے کے اگر اِس کو کچھ نہ کہا جائے تو یہ کسی کو تنگ نہیں کرتا
اور صرف اپنی ہی دنیا میں مگن رہتا ہے . . . .
اشرف 28 سال کا ایک خوبصورت
جوان لڑکا تھا . . . . .
وہ ایک پرائیویٹ فرم میں سپر
وائزر کے طور پر کام کرتا تھا . . . .
جہاں اس کی جاب صبح آٹھ بجے
سے رات آٹھ بجے تک ہوتی تھی . . . .
کبھی کبھی اگر ڈیوٹی چینج
ہوتی تھی تو پِھر اسے نائٹ پر جانا پڑتا تھا جو کے رات آٹھ بجے سے صبح آٹھ بجے تک
ہوتی تھی . . . .
لیکن کچھ دور ہونے کی وجہ سے
اسے سات بجے نکلنا پڑتا اور پِھر وہ نو بجے صبح ہی وآپس پہنچتا تھا
. . . .
اسی طرح رات کو بھی صبح کی
ڈیوٹی کر کے وہ نو بجے ہی پہنچتا تھا اور اسی لیے اسے رات کو مکمل سکون کی ضرورت
ہوتی تھی تاکہ وہ صبح جاب پر جانے کے لیے مکمل آرام کر سکے . . . .
اشرف ایک بہت ہی ہنس مکھ اور
خوبصورت نوجوان تھا . . .
صباء اس سے بہت ہی خوش رہتی
تھی . . .
وہ بہت ہی محنتی شخص تھا
. . . .
کام پوری ایمانداری اور محنت
سے کرتا اور جب گھر پر ہوتا تو اپنی بِیوِی کو مکمل ٹائم دیتا تھا بلکہ اِس قدر
اُس کے پیچھے رہتا کے کبھی کبھی تو وہ بھی تنگ ہو جاتی تھی . . . .
گھر میں ہوتے ہوے وہ ہر وقت
صباء کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا تھا . . . .
جس کو دونوں ہی انجوئے کرتے
تھے . . . .
گھر کے اندر اشرف بہت آزاد
تھا اور خوب انجوئے کرتا تھا . . . .
صباء کی عمر 24 سال تھی
. . .
مگر 24 سال کی عمر میں ہی اس
کا جسم بہت خوبصورت اور بھرا ہوا تھا . . .
پتلی دوبلی لڑکیوں کے جیسے
نہیں بلکہ اچھی وزنی لڑکی تھی لیکن اسے موٹی ہرگز نہیں کہا جا سکتا تھا
. . .
بہت خوبصورت اور اچھے نین
نقش کی لڑکی تھی جس کا رنگ بھی بہت گورا چٹا تھا . . . .
چھاتیاں بھی اپنی عمر کی
لڑکیوں کی نسبت بڑی لیکن خوبصورت تھی . . . .
اس کے بریزر کا سائز 36بی
تھا . . . .
قد بھی اونچا لمبا تھا
. . . .
بس یہ کہہ لیں کے دونوں کی
جوڑی انتہائی خوبصورت کہی جا سکتی ہے جسے جو بھی دیکھتا تھا رشک اور حسد کی نظر سے
ہی دیکھتا تھا . . . .
صباء بھی اپنے شوہر سے پوری
طرح سے خوش تھی اور اپنی میرڈ لائف کا آغاز بہت ہی اچھے طریقے سے ہونے پر وہ بہت
خوش تھی . . .
گھر میں تو وہ اپنے شوہر کی
فرمائش کے مطابق ہر قسم کے ڈریس پہن لیتی تھی جس میں تیگھتس اور لو اینڈ دیپ نیک
شرٹس بھی شامل تھیں لیکن جب بھی اشرف اسے باہر لے کر جاتا تو اسے ایک شریف عورتوں
کے مطابق برقعہ اور نقاب ضرور پہناتا تھا جس میں سے صرف اُس کے گورے گورے ہاتھ اور
خوبصورت لائٹ گرین کلر کی آنکھیں ہی نظر آتی تھیں . . . .
اپنے گھر میں تو وہ اشرف کی
فرمائش پر شورٹ اسکرٹ تک پہن لیتی تھی شرٹس کے ساتھ اور اسے خود بھی گھر میں اِس
قسم کی آزادی کے ساتھ رہنا بہت اچھا لگتا تھا . . . .
صباء اور اشرف کا آمنا سامنا
میجر صاحب کے ساتھ پہلے ہی دن ہو گیا تھا جس دن وہ اِس بِلڈنگ میں اپنے فلیٹ میں
شفٹ ہوے تھے . . . .
اس دن جب کے اشرف اپنا سامان
نیچے سے لا کر اور کچھ دوسرے مزدوروں کے ساتھ اُوپر لا کر رکھ رہا تھا تو کافی
تھکا ہوا تھا . . .
اشرف اور صباء اُوپر اپنے
فلیٹ میں کھڑے ہو کر سامان اندر رکھ رہے تھے اور مزدور نیچے سے سامان لا کر ان کے
دروازے پر چھوڑ جاتے کوڑی ڈور میں ہی . . . .
ایک مزدور نے ایک صوفہ لا کر
اُوپر رکھا تو وہ میجر صاحب کے فلیٹ کے دروازے کے سامنے رکھ دیا
. . . . .
اشرف اندر مصروف تھا اس نے
سوچا کے ابھی دوسرا سامان اندر چھوڑ کے پِھر یہ صوفہ بھی اٹھا لیتا ہوں لیکن تبھی
میجر صاحب نے اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولا اور باہر جانے کے لیے نکلے تو سامنے ہی
صوفہ پڑا ہوا تھا . . . .
اگرچہ کافی جگہ ان کے گزرنے
کے لیے پڑی ہوئی تھی لیکن ظاہر سی بات ہے کے میجر صاحب کو تو موقع چاہیے تھا
ہنگامہ کھڑا کرنے کا بس وہ انہوں نے کر دیا . . . .
سیدھا اشرف کے فلیٹ کے
دروازے پر گئے اور زور زور سے دروازہ پیٹنے لگے . . . .
اشرف گھبرا کر جلدی سے باہر
نکلا کے پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے اسے میجر صاحب کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں تھا
. . . .
جیسے ہی اشرف باہر گیا تو
میجر صاحب تو شروع ہوگئے . . . . .
میجر :
کوئی تمیز نہیں ہے کیا تم
لوگوں کو کسی جگہ پر رہنے کی . . . .
کیا کسی جنگل سے اٹھ کر آئے
ہو یا پِھر کسی گاؤں سے . . . . .
اشرف :
معافی چاہتا ہوں جناب میں
سمجھا نہیں اور آپ کون ہیں جناب . . . . .
میجر :
چوت مارو معافی کی ابھی یہ
اپنا صوفہ تو اٹھا یہاں سے میرے فلیٹ کے دروازے کے آگے سے . . . .
سارے کا سارا راسته ہی بند
کر دیا ہوا ہے . . . .
اشرف تھوڑا غصہ کرتے ہوے
:
اوہ اچھا سوری ویسے ابھی
اٹھا ہی لینا تھا میں نے ہم نے کون سا اسے آپ کے دروازی کے آگے ہی سیٹ کر دیا ہے
. . . . .
اتنے میں صباء بھی باہر
دروازے پر آئی تو اسے دیکھتے ہی میجر صاحب کو جیسے اور بھی غصہ آگیا کیوںکہ عورتوں
سے تو ویسے انکا خاص جھگڑا تھا . . . .
نفرت سے صباء کی طرف دیکھتے
ہوے بولے ،
میجر :
ابے اسے کہاں سے بھگا کر
لایا ہے ،
اب یہاں اِس بِلڈنگ میں یہ
کنجر خانہ کھلے گا کیا . . . .
اشرف نے مڑ کر صباء کی طرف
دیکھا اور ساتھ ہی اسکا پارا بھی چڑھ گیا ،
بھائی صاحب یہ میری بِیوِی
ہے ذرا زبان سنبھال کر بات کریں . . . .
اپنی عمر دیکھیں اور اپنی
باتیں کیا ایسے کسی نئے ہمساے کے ساتھ بات کرتے ہیں . . . .
میجر :
زیادہ لیکچر نہ دے مجھے تو
اپنا صوفہ سنبھال میں اپنی زبان خود ہی سنبھال لوں گا . . . .
اشرف کا بھی اب غصے سے برا
حال ہو رہا تھا . . . . .
آپ حد سے بڑھ رہے ہیں ایسا
نہ ہو کے میں بھی کوئی بدتمیزی کر بیٹھوں مجھے آپ کی عمر کا خیال آرہا ہے ورنہ
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
میجر غصے سے
:
ابے جا بے جا اپنی اِس چکنی
بِیوِی کے سامنے نمبر بنانے کی کوشش نہ کر ورنہ ایسے ہی مفت میں پٹ جائے گا
میرے ہاتھوں اور پِھر تیری یہ چکنی بھی تجھے اپنے اُوپر چھڑنے نہیں دے گی
. . . .
ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا
. . . . .
یہ سن کر اشرف نے آگے بڑھا
کے جا کر میجر کا گریبان پکڑ لیا لیکن پیچھے سے صباء نے اس کا بازو پکڑ لیا
. . . .
صباء :
نہیں نہیں اشرف چھوڑو اسی
چلو اندر . . . . . . . . . . . . .
صباء نے نفرت کے ساتھ میجر
کو دیکھتے ہوے کہا . . . . .
اشرف بھی چُپ کر کے پیچھے کو
مڑ گیا تبھی میجر دوبارہ بولا ،
میجر :
چل شاباش بچے چل اندر جا کے
دودھ پی تیرے دودھ کا ٹائم ہو گیا ہے . . . .
یہ کہ کر ہنستے ہوے میجر
نیچے کی سیڑھیاں اُتَر گیا اور اشرف ڈانٹ پیستا ہوا اندر چلا گیا
. . . .
اسی پہلے دن دھوپہر کو انکے
سامنے والے فلیٹ سے منصور صاحب اور ان کی بیگم آئے اور اپنے گھر سے کھانا بنا کر
لے کر آئے ان کے لیے . . . .
اشرف اور صباء یہ دیکھ کر
بہت خوش ہوے کے یہاں پر کوئی اچھا ہمسایہ بھی موجود ہے . . .
منصور صاحب کوئی 45 کے قریب
عمر کے تھے ان کی بیگم بھی 40 سے اُوپر کی تھیں اور دونوں ہی بہت ہی اچھے لوگ تھے
. . . .
انکا ایک بیٹا اور ایک بیٹی
تھے دونوں کالج میں پڑھتے تھے . . . .
سب نے ایک ساتھ بیٹھ کر
کھانا کھایا اور ادھر اُدھر کی اور بِلڈنگ کے دوسرے لوگوں کے بارے میں بات چیت
کرتے رہے . . . .
انہوں نے ہی اشرف اور صباء
کو میجر کے بارے میں بتایا اور ان کو کہا کے وہ اس شخص سے دور ہی رہیں
. . . . .
اِس طرح پہلے دن سے ہی صباء
اور اشرف کو میجر صاحب سے نفرت ہو گئی . . . .
اور ہمیشہ ہی ان سے دور رہنے
کی کوشش کرتے . . . .
لیکن اکثر آتے جاتی کبھی نا
کبھی اس سے سامنا ضرور ہو جاتا لیکن وہ کوئی بھی بات نہیں کرتے
. . .
ایک روز اشرف کے جانے کے بعد
صباء نے گھر کے صفائی کی اور پِھر سوچا کے چلو باہر کوڑی ڈور میں بھی اپنے گیٹ کے
آگے سے جھاڑو لگا دوں . . . .
جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا
تو دیکھا کے اُس کے گیٹ کے آگے کوڑی کا ایک بڑا سا شوپر پڑا ہوا تھا
. . . .
اس نے اس میں دیکھا تو اُس
کے اندر شراب کی بوٹلز بھی پڑی ہوئی تھیں ،
صباء فوراً ہی سمجھ گئی کہ
یہ کام میجر صاحب کا ہے . . . .
صباء کو بے حد غصہ آیا اور
وہ خود کو نہیں روک سکی اور جا کر میجر جوہر کا دروازہ نوک کر دیا
. . . .
تھوڑی دیر میں میجر نے
دروازہ کھولا ،
صباء غصے سے بولی ، :
یہ کیا بدتمیزی ہے
. . . .
میجر بھی غصے سے :
کون سی بدتمیزی گھر میں میرے
تو خود آئی ہے تو میں نے کون سی بدتمیزی کر دی ہے . . .
صباء :
یہ آپ نے ہمارے دروازے کے
آگے کوڑا کیوں پھینک دیا ہے . . . .
میجر نے تھوڑا سا باہر کو
نکل کر ان کے دروازے کی طرف دیکھا اور پِھر بولا ،
مجھے کیا پتہ کے کس نے
پھینکا ہے . . . .
صباء :
یہ آپ کا ہی کوڑا ہے
. . . .
میجر :
ارے جا جا کیوں میرا ٹائم
خراب کر رہی ہے میں نے باہر رکھا تھا اب پتہ نہیں کس نے تیرے گھر کے آگے پھینک دیا
ہے . . . .
اب اٹھا کر ایک طرف کر دے
کیوں شور مچا رہی ہے ایسے ہی بِلڈنگ میں . . . .
صباء غصے سے لال ہوتے ہوے :
کیوں میں کیوں اٹھاؤں تو خود
اٹھا آ کر . . . .
میجر ہنستے ہوے اور اُس کے
غصے سے لطف اندوز ہوتے ہوے بولا :
میں تو نہیں اٹھا رہا تیرا
دِل کرتا ہے تو اٹھا لے نہیں تو اس گانڈو کو بھیج دے وہ اٹھا لے گا ویسے بھی وہ
ہیجڑا ایسے کام ہی کر سکتا ہے . . . .
صباء کا یہ سن کر خون کھولنے
لگا ،
کیا بکواس کر رہے ہو
. . . . . . . . . .
کیسے ہیجڑا بول رہے ہو تم
. . . . . . . . . . . . .
کچھ شرم کرو
. . . . .
میجر :
کیوں بڑی مردانگی پسند آ گئی
ہے اس کی تجھے جو اسے ہیجڑا بولنے پر تیری پھدی میں مرچیں لگنی لگی ہیں
. . . . .
صباء نے غصے سے اس کی طرف
دیکھتے ہوے نیچے فرش پر تھوکا اور وآپسی اپنے فلیٹ کی طرف مڑ گئی
. . . . . . . . . . . . .
جاہل . . . . . . .
گنوار . . . . . . . . .
کمینہ . . . .
دِل ہی دِل میں اسے کہتے ہوے
. . . .
اپنے فلیٹ میں آکر اس نے
ٹھنڈا پانی نکال کر پیا اور خود کو ریلکس کرنے لگی . . . .
اسے پتہ تھا کہ اسے یہ سب
اشرف کو بتا کر اسے پریشان نہیں کرنا . . . .
اور رات کو جب اشرف وآپس گھر
آیا تو صباء نے ساری پریشانی کو پی لیا . . . . .
جاری ہے . . . .
0 تبصرے
THANKS DEAR