کسی لڑکی یا عورت کی شرمگاہ گرم ہو کر پانی کیوں چھوڑتی ہے

 

کسی لڑکی یا عورت کی شرمگاہ گرم ہو کر پانی 

کیوں چھوڑتی ہے


میرا نام نوشین ہے اور میری عمر اسوقت 24 سال ہے میری چھاتی 42 کی اور باقی جسم سمارٹ ہے۔ میری شادی کو تقریباً 5 سال ہو چکے ہیں اور میرا ایک بیٹا ہے جسکی عمر 2سال ہے۔ میرے شوہر ایک پرائیویٹ کمپنی میں اکاؤنٹنٹ کی جاب کرتے ہیں۔ یہاں میں آپ کو یہ بتاتی چلوں کہ میں شادی سے پہلے ہی پانچ لوڑوں سے چدائی کروا چکی تھی اور اب تو میرے شوہر کے علاوہ بھی بہت سے لوڑے چود چکے ہیں جن میں میرے شوہر کے باس اور انکے دوستوں کے علاوہ میرے شوہر کے دوست محلے دار اور انکے بچےاور ہمارا مالک مکان بھی شامل ہے اور میری ان چدائیوں میں سے زیادہ تر میں میرے شوہر میرے ساتھ ہی تھے مگر کئی لوڑوں سے میں نے اکیلے ہی چدوایا ہے جیسے کہ ٹیلر ماسٹر دودھ والا سبزی والا ۔ یعنی میرے زندگی میں مردوں اور اکڑے ہوئے لوڑوں کی کمی نہیں ہے۔ میرے شوہر نے میرے ساتھ مل کر میری دو بہنوں اور اپنی ہی ایک بہن کو بھی چودا ہوا ہے۔ اور ہم اکثر مل کر بیویوں کی ادلا بدلی کر کے بھی اکثر چدائی کرتے ہیں۔ اپنی زندگی کی اس کہانی میں میں کوشش کروں کہ اپنی چوت کے ساتھ ہونے والی ان وارداتوں کی تمام تفصیل آپ کو سنا سکوں امید ہے کہ آپ کو پسند آئے گی۔ میں اُن دنوں نویں کلاس میں پڑھ رہی تھی میری عمر اسوقت 15 سال تھی اور مجھے چھوٹی دو بہنیں عاصمہ اور نورین تھیں عاصمہ آٹھویں جماعت میں تھی اور نوریں چھٹی کلاس میں پڑھ رہی تھی۔ یہ وہ دن تھے جب میرے جسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہو گئی تھیں چھاتی پر جہاں صرف باریک باریک سے دو نپل تھے اب وہ جگہ ابھر کر ٹماٹر کی طرح باہر کو نکل رہی تھی اور نیچے بھی میری چوت کے پاس باریک باریک سے کافی سارے بال اگ گئے تھے۔ کچھ دن پہلے ہی مجھے مینسز کا خون آیا تو میں پریشان ہو گئی کہ یہ کیا ہو گیا میں نے اپنی امی سے بات کی تو انہوں نے اس بارے میں مجھے سمجھایا اور میں نے اس بات کو سمجھ کر کپڑا استعمال کرنا شروع کر دیا جسکی وجہ سے مجھے شروع شروع میں چلنے میں عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔ میری سہیلیوں کو جب یہ پتا چلا تو میری ایک سہیلی ارم جو مجھ سے عمر میں تقریباً دو سال بڑی تھی اس نے مجھ سے کہا نوشی تو اب جوان ہو گئی ہے۔ تیرے گھر والوں کو بھی تیری شادی کی فکر ہو گئی ہو گی۔ پھر ہنستے ہوئے میرے کان میں کہا کہ جو لن تیری چوت مارے گا وہ بھی اب جوان ہو گیا ہو گا۔ ساتھ ہی اس نے ہلکے سے میرے گال پر پپی بھی کر لی۔ میرا چہرہ شرم سے گلابی ہو گیا مگر مجھے یہ بات ٹھیک سے سمجھ نہیں آئی تھی۔ اورپھر بات رفع دفع ہو گئی۔ ایک دن مجھے امی نے بتایا کہ اگلے مہینے کی 5 تاریخ کو انکی ایک کزن کی شادی ہے جسکے لئےہمیں کراچی جانا پڑے گا۔ میں نے جب یہ بات سنی تو میں پریشان سی ہو گئی امی نھے میری پریشانی دیکھی تو کہنے لگیں کیا ہوانوشی تو پریشان کیوں ہو گئی بیٹا۔ تو میں نے کہا کہ امی 3 تاریخ سے میری کلاس میں ٹسٹ شروع ہو رہے ہیں اور میں نے ان کیلئے بہت تیاری کی ہےاگر میں کراچی چلی گئی تو میرے ٹسٹ مس ہو جائیں گے۔ یہ بات سب کر امی بھی پریشان ہو گئیں۔ اور مجھے کہنے لگیں کہ ہم لوگ شادی میں نہیں جائیں گے تم پریشان مت ہو۔ مگر میں نے کہا کہ امی کوئی بات نہیں آپ لوگ کراچی چلے جائیں میں ایک ہفتہ ارم کے گھر رہ لوں گی اور اسطرح ہم دونوں مل کر ٹسٹ کی تیاری بھی اچھے سے کر لیں گے۔ امی کچھ سوچ کر چپ رک گئیں اور کہنے لگیں کہ میں تمہارے ابو سے مشورہ کر کے بتاؤں گی کہ کیا کرنا ہے۔ شام کو جب ابو آئے تو امی نے ان سے پتا نہیں کیا بات کر مگر امی نے مجھے کہا کہ ارم کو کہنا کہ اپنی امی سے کہےکہ وہ دوپہر میں گھر پر ہی رہیں میں نے ان سے ملنے آنا ہے۔ دوسرے دن سکول میں جب میں نے ارم کو ساری بات بتائی تو وہ خوش ہو گئی اور اس نے مجھے گلے سے لگا لیا اور میرے دونوں گالوں پر پپی کی۔ جب میں سکول سے واپس آئی توامی نے کہا نوشی بیٹا جلدی سے کپڑے چینج کر لو ارم کے گھر جانا ہے کیونکہ جلدی واپس آ کر گھر کا کام بھی کرنا ہے۔ آدھے گھنٹے بعد تیار ہو کر میں امی کے پاس آئی اور ہم ارم کے گھر چلے گئے۔ ہماری دستک کے جواب میں ارم نے آکر دروازہ کھولا۔ اور ہمیں اندر لے آئی۔ وہیں باتوں باتوں میں امی نے انکے گھر آنے کا مقصد انہیں بتایا تو ارم کی امی نے کہا باجی یہ نوشی بیٹی کا اپنا گھر ہے یہ جب تک چاہے یہاں رہ سکتی ہے اور اسی بہانے یہ دونوں سہیلیاں مل کر پڑھائی بھی کرتی رہیں گی۔ میں بھی خوش ہو گئی مگر ارم مجھے کچھ زیادہ ہی خوش نظر آرہی تھی۔ چائے وغیرہ پی کر ہم واپس اپنے گھر آ گئے۔ اگلے ہفتے میرے گھر والوں نے کراچی جانا تھا۔ ارم بہت خوش تھی اور روز مجھ سے پوچھتی تھی کہ کب تیرے گھر والے کراچی جائیں گے۔ مجھے اس کے اس سوال پر بہت پیار آتا تھا مجھے لگتا تھا کہ اسکی کوئی بہن نہیں ہے شاید اسلیے ارم چاہتی ہے کہ میں جلد از جلد اسکے گھر رہنے آ جاؤں۔ اور پھر وہ دن بھی آگیا جب میرے گھر والے کراچی جا رہے تھے۔ ہم سب انکو اسٹیشن چھوڑنے کیلئے گئے یعنی میں ارم اسکے امی اور ابو اور اسکا چھوٹا بھائی جو اسوقت تقریباً 8 سال کا تھا۔ جب گاڑی چلی گئی تو ہم لوگ اسٹیشن سے کے ایف سی گئے اور کھانا وغیرہ کھا کر رات کو تقریباً 10 بجے کے قریب گھر واپس پہنچ گئے۔ گھر پہنچ کر ارم کے امی اور ابو تو اپنے کمرے میں چلے گئےاور میں ارم اور کاشف (ارم کا چھوٹا بھائی) ارم کے کمرے میں آ گئے۔ کاشف بھی ارم کے ساتھ ہی اسکے کمرے میں سوتا تھا اسکا بیڈ بھی ارم کے بیڈ کے ساتھ ہی تھا مگر درمیان میں ایک چھوٹی سی ٹیبل رکھی ہونے کی وجہ سے اسکا بیڈ تھوڑا دور تھا۔ کمرے میں آ کر ارم نے کاشف کو کہا کہ کاشف ہم نے کپڑے چینج کرنے ہیں تم تھوڑی دیر کیلئے باتھ روم میں جاؤ گے؟ اور وہ باتھ روم میں چلا گیا۔ میں نے اپنا بیگ کھولا اور اس میں سے نائٹ سوٹ نکال کر مڑی تو میں نے دیکھا کہ ارم میرے سامنے ننگی کھڑی ہوئی تھی اور اپنا بریزئیر اتا رہی تھی۔ آج پہلی بار میں کسی جوان لڑکی کو ننگا دیکھ رہی تھی۔ اسکے بڑے بڑے دودھ بریزیئر میں سے باہر نکلنے کو تھے۔ مگر اسکی چوت پر میری طرح بال نہیں تھے۔ مجھے اسطرح تکتا ہوا دیکھ کر وہ ہنسنے لگی اور کہنے لگی جلدی سے کپڑے بدل لوکاشف آ گیا تو دونوں کو ننگا دیکھ لے گا۔ میں نے جھجکتے ہوئے اپنی قمیض اتاری تو میرےدودھ دیکھ کر ارم نے کہا نوشی تیرے دودھ تو ابھی بہت چھوٹے ہیں ان کو تو کافی بڑا ہونا چاہیے تھا۔ میں نے کہا کہ آہستہ بولو کہیں کاشف ناں سن لے۔ میں نے جلدی جلدی کپڑے بدل لیے تو ارم نے کاشف کو آواز دی اور وہ باتھ روم سے باہر آگیا۔ اس نے بھی باتھ روم میں ہی کپڑے بدل لیے تھے۔ ہم دونوں بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں۔ ارم کا بیڈ چھوٹا تھا صرف ایک بندہ ہی اس پر سو سکتا تھا۔ میں نے ارم سے کہا کہ یار ارم تیرا بیڈ تو کافی چھوٹا ہے اس پر ہم دونوں ٹھیک سے نہیں سو سکتی۔ وہ کہنے لگی کہ امی نے مجھ سے کہا تھا کہ میں کاشف کو دوسرے کمرے میں سلا دیتی ہوں تم دونوں سہیلیاں آرام سے کمرے میں سونا۔ کل امی اسکا بستر ڈرائینگ روم میں لگوا دیں گی۔ مجھے گھر والوں کی یاد آرہی تھی ارم اور میں نے باتیں کرنی شروع کر دیں اور کاشف بھی سو گیا۔ بیڈ چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہم دونوں ایک دوسرے کے بالکل ساتھ چپک کر لیٹی ہوئی تھیں۔ اچانک ارم نے میری طرف کروٹ لے لی اور اپنی ایک ٹانگ میری ٹانگوں پر اسطرح رکھ لی کہ اسکا گھٹنا میری چوت کے پاس آگیا اور اپنا ایک ہاتھ اس نے میرے سینے پر رکھ لیا۔ میں نے اس چیز کو محسوس نہیں کیا اور ہم باتیں کرتے رہے باتوں باتوں میں وہ اپنی ٹانگ کو میری جانگوں پر دھیرے دھیرے رگڑ رہی تھی اور اسکا ہاتھ دھیرے دھیرے رینگتا ہو میرے مالٹے کے سائز کے دودھوں کی طرف بڑھ رہا تھا اور یہ مجھے محسوس بھی ہو رہا تھا۔ اچانک ارم نے کہا یار تیرے ممے تو ابھی بہت چھوٹے ہیں میرے ممے دیکھ کتنے بڑے ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا پتا نہیں مگر امی کہہ رہی تھیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بڑے ہو جائیں گے اور مجھے بھی تیری طرح بریزئیر پہننا پڑے گا۔ جب میں یہ بات کر رہی تھی اسی وقت اس نے پورا ہاتھ میرے ایک دودھ پر رکھ دیا اور اس کو اسطرح دھیرے دھیرے سہلانے لگی جیسے ڈاکٹر چیک کرتا ہے۔ جب وہ میرے دودھ سے چھیڑ چھاڑ کر رہی تھی تو میرے جسم میں ایک عجیب سی سنسنی دوڑنے لگی جیسے کوئی ہلکی ہلکی سی گدگدی ہو جو کہ بہت مست کر رہی تھی میرے لیے یہ فیلنگ بالکل نئی تھی۔ میں خاموش ہو کر اس کی باتیں سن رہی تھی اور وہ باتیں کرتے ہوئے میرے دودھوں کو بھی سہلا رہی تھی اور میری جانگوں پر اپنی ٹانگ بھی رگڑ رہی تھی۔ اچانک مجھے ایک بات یاد آئی اور میں نے ارم سے پوچھا کہ یار ایک دن تو نے کہا تھا کہ جو لن میری چوت مارے گا وہ بھی جوان ہو گیا ہو گا۔ اسکا مطلب مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آیا۔ ارم دھیرے سے ہنس پڑی اور بڑے پیار سے میرے گال پر پپی لے مجھے کہنے لگی نوشی تو بہت بھولی ہے۔ میں تجھے کل یہ سب سمجھاؤں گی جب کاشف یہاں نہیں ہوگا۔ اور اسنے مجھے زور سے اپنی بانہوں میں دبا لیا اور میرے ہونٹوں پر اسطرح سے کس کی کہ میرے دونوں ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دبا کر ہلکا سا چوسا اور پھر مجھٍے کہنےلگی اب سو جا صبح سکول سے لیٹ ہو جائیں گے۔ اگلی صبح ہم تقریباً ساڑھے چھ بجے ہی اٹھ گئے تھے جلدی جلدی تیار ہوتے ہوۓ میرے ذہن میں رات کی کوئی بات بھی نہیں تھی سکول میں بھی مصروفیت بس نارمل سی ہی رہی دوپہر کو سکول سے آکر ہم لوگوں نے کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں چلے گئے ابھی ہم اندر جا کر بیٹھے ہی تھے کہ ارم کی امی بھی کمرے میں آ گئیں اور میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے ارم سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں کہ میں زرا پڑوس میں ہی کسی کے گھر جا رہی ہوں ان کی بیٹی کی شادی کی شاپنگ کے لیے جانا ہے میں تقریباً دو گھنٹے میں واپس آ جاؤں گی اور پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگیں تم لوگ آرام سے بیٹھ کر پڑھنا اور باتیں کرنا اور ہاں بھائی کو میں اپنے ساتھ لے کر جا رہی ہوں تم دروازہ اندر سے بند رکھنا۔ ارم نے کہا آپ فکر نہ کریں امی میں اور نوشی مل کر برتن دھو لیتے ہیں ۔ ارم کی امی ہم دونوں کو پیار کر کے کمرے سے چلی گئیں نوشی نے خوشی سے مجھے سینے سے لگا لیا اور میرے گالوں پر پپیاں کرنی شروع کر دیں۔ مجھے اس کی اس ادا پر بہت پیار آرہا تھا کہ وہ مجھ سے کتنا پیار کرتی ہے مگر اس کا پیار مجھے کچھ الگ سا عجیب سا لگ رہا تھا جس میں مجھے ایک سنسنی سی محسوس ہورہی تھی جس کا احساس ہی مست سا کردیتا تھا۔ میں نے ہنستے ہوئے اس کو خود سے الگ کیا اور اس کو کہا بس کر یار کیا ہو گیا ہے تجھے۔ ہم دونوں ہی اس بات ہر ہنس پڑیں اور ارم اٹھ کر کمرے کی بکھری ہوئی چیزیں اکٹھی کرنے لگی- تھوڑی دیر بعد ارم کی امی نے اس کو آواز دی کہ وہ آکر دروازہ بند کر لے ارم دروازہ بند کرنے چلی گئی اور میں بیڈ پر نیم دراز ہو کر سوچنے لگی کہ ارم مجھے کتنا پیار کرتی ہے یہی میری بیسٹ فرینڈ ہے۔ اور ارم کے گھر والے بھی تو مجھے اپنی بیٹی کی طرح ہی پیار کرتے ہیں۔ اچانک ارم کی آواز آئی تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنا دوپٹا لہراتی ہوئی گانا گاتی ہوئی آ رہی تھی “ ہم تم اک کمرے میں بند ہوں اور چابی کھو جائے ” اور پھر وہ ہنستے ہوئے میرے ساتھ لیٹ گئی مجھے اس پر بہت پیار آرہا تھا میں نے ہنستے ہوئے اس سے پوچھا کہ ارم کیا تو مجھ سے پیار کرتی ہے پہلے تو اس نے فوراً ہی کہا آف کورس یار آئی لویو مائی سویٹ ہارٹ تو میری بیسٹ ایور فرینڈ ہے یار مگر نوشی تو نے یہ بات کیوں پوچھی اس کے چہرے پر کچھ پریشانی کے آثار ابھر آئے تھے۔ میں نے اس کو پریشان دیکھتے ہوئے جھٹ سے کہا یار تو مجھے جس طرح سے پیار کرتی ہے مطلب مجھے چومتی ہے یا میرے جسم سے کھیلتی ہے مجھے عجیب سا لگتا ہے۔ مجھے تو ایسا ہی لگا تھا اس لئے میں نے پوچھ لیا میر مقصد تجھے پریشان کرنا نہیں تھا اس بار میں نے اس ہی کے انداز میں اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کے دونوں گالوں کو پیار سے چوما تو اس نے آنکھیں بند کر لیں میں نے مسکراتے ہوئے پہلے اس کی دونوں آنکھوں پر چوما اور پھر اس کے ماتھے پر اچانک اس کو نہ جانے کیا ہوا کہ اس نے ایک دم سے خود کو مجھ سے چھڑا لیا اور مجھے کہنے لگی تو بھی بہت کمینی ہے ہم ہنسنے لگے پھر اس نے پوچھا اچھا کیا پہنے گی تو میں سوچنے لگی تو وہ کہنے لگی چل میں سیلکٹ کرتی ہوں تیرے لیے پھر اسنے الماری میں سے میرے کپڑوں میں سے میرا ایک سوٹ سیلکٹ کیا اور پھر اس نے اپنا ایک سوٹ نکالا میں نے دیکھا کہ پرنٹ تو الگ تھے مگر ہم دونوں کے کپڑوں کا رنگ پنک تھا۔ وہ کپڑے پریس کرنے لگی اور ہم ادھر ادھر کی باتوں میں لگ گئے فارغ ہو کر ارم کہنے لگی یار پہلے نہا کر فریش ہوتے ہیں پھر کپڑے چینج کریں گے مجھے نہیں پتا تھا کیا ہونے والا ہے۔ میں مان گئی ارم نے بڑے پیار سے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے باتھ روم میں لے گئی اندر جاتے ہی اس نے دروازہ اندر سے بند کر دیا اور دروازے کی طرف ہی مونہہ رکھتے ہوئے اپنی قمیض اتارنی شروع کر دی اور شلوار اتارنے کے بعد میری طرف مڑ کر دیکھا تو میں خاموش کھڑی عجیب سی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی اس نے اسکن کلر کا بریزئر پہنا ہوا تھا جس میں اس کے گول مٹول گلابی ممے بمشکل پھنسے ہوئے تھے۔ وہ مجھے دیکھتے ہوئے مسکرائی اور کہنے لگی شرماتی کیوں ہے یار میرے پاس بھی وہی سب کچھ ہے جو تیرے پاس ہے چل ناں اکٹھے ہی نہاتے ہیں۔ اورمیری قمیض کو اوپر اٹھا دیا میں نے بھی بازو اوپر کر لیے اور اس نے اوپر کو کھینچ کر میری قمیض اتار دی پھر اس نے میرا چھوٹا سا بریزیر اتار دیا اس وقت میرے ممے صرف 32 کے تھے اوراس وقت وہ گول مٹول نہیں تھے بلکہ نوک دار مگر سخت تھے۔ شلوار اتارنے کی باری ہوئی تو اس نے کہا یار اب اتنی بھی آلسی مت بنو اور پھر شاور کے نیچے جاکر شاور کھول کر اسکے نیچے کھڑی ہو گئی۔ میٰں نے بھی اپنی شلوار اتار دی اور جھجھکتی ہوئی اس کی طرف بڑھی پانی سے بھیگے ہوئے جسم پر اس کا بریزئیر بہت سختی سے پھنسا ہوا تھا میں اس کی طرف گئی تو اس نے مجھے اپنی طرف کھینچ کر مجھے بھی شاور کے نیچے کر لیااور مجھے بہت زور سے اپنے سینے سے لگا لیا میں نے بریزئیر اتار دیا تھا مجھے اس کے ننگے جسم کا احساس بہت مسحور کن سا لگ رہا تھا اور جس طرح وہ مجھ سے چپکی ہوئی تھی اور اس کے ہاتھ دھیرے دھیرے میری کمر پر رینگ رہے تھے مجھے لگ رہا تھا کہ اس کو بھی بہت اچھا لگ رہا ہے۔ میرے جسم میٰں عجیب سا کرنٹ دوڑنے لگا میں نے اس کو ایک دم خود سے الگ کیا تو ہم دونوں نے ایک ساتھ ایک لمبا سانس لیااور ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ ارم نے صابن لیا اور اپنے جسم پر ملنے لگی میں اس کی پیچھے کھڑی ہوئی تھی اور اسکے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی پھر وہ میری طرف مڑی اور میرے جسم پر صابن ملنے لگی جیسے جیسے وہ میرے جسم پر صابن مل رہی تھی میری آنکھوں میں ایک نشہ سا اتر رہا تھا مگر میں نارمل سا فیل کروا رہی تھی۔ اس نے میری چوت کے بال دیکھے تو کہنے لگی یار تو نے پہلے کبھی بھی اپنی چوت کے بال صاف نہیں کیے اس بار مجھے اس کے مونہہ سے اپنی چوت کا نام سن کر بہت اچھا لگا۔ میں نے کہا یار مجھے امی نے سمجھایا تو تھا مگر ابھی میں نے ان کو صاف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ارم کہنے لگی رک میں تیرا علاج کرتی ہوں وہ اٹھی اور ایک الماری میں سے ایک لوشن نکال کر لائی اور مجھے کہا کہ اپنے جسم سے صابن دھو کر میرے پاس آ جا۔ ہم دونوں شاور کے نیچے آ گئیں اور پھر اپنا جسم دھو کر اس نے مجھے ایک سائیڈ پر بٹھا دیا اور میری ٹانگیں کھول کر میرے سامنے بیٹھ گئی مجھے تھوڑی شرم آ رہی تھی مگر ارم کسی ایکسپرٹ ڈاکٹر کی طرح میری چوت کا معائینہ کر رہی تھی پھر اس نے میری چوت کے بالوں پر وہ لوشن لگایا اور کچھ دیر مجھے اس بارے میں سمجھاتی رہی تھوڑی دیر بعد اس نے ایک کپڑے سے میری چوت کو صاف کیا اور مجھے کہا کہ ابھی میں اپنی چوت کو ہاتھ نہ لگاؤں ہم ایک بار پھر شاور کی نیچے چلے گئے اور اسی طرح ایک دوسرے کو چومتے اور مستیاں کرتے ہوئے نہا کر باہر آئے تو پتا چلا کہ ایک گھنٹہ گزر چکا ہے۔ ہم دونوں ننگی ہی باہر آ گئی تھیں میں نے جسم صاف کر لیا تو ارم نے ٹاول مجھ سے لے لیا اور مجھے کہا کہ میں بیڈ پر لیٹ جاؤں میں لیٹ گئی۔ اس نے اپنا جسم صاف کیا اور الماری میں سے ایک آئینہ نکال کر لائی میں نے دیکھا کہ اس نے بریزئیر اتار دیا ہے اور چلنے کی وجہ سے اس کے بڑے بڑے دودھ جھٹکے کھا کھا کر اچھل رہے تھے۔ اس بار اس نے تکیہ اٹھایا اور مجھے کہا کہ میں یہ اپنے ہپس کے نیچے رکھ لوں مجھے عجیب سا لگا مگر میں نے ایسا ہی کیا اس نے تکیے کو میرے چوتڑوں کو نیچے سیٹ کیا اور میرے ساتھ آ کر لیٹ گئی۔ اس نے ایک ہاتھ میں آئینہ اٹھا کر میری چوت کے پاس کیا اور مجھے کہا کہ میں اپنی ٹانگوں کو کھولوں اور اب اپنی بالوں سے پاک چوت کو دیکھوں میں نے سر کو تھوڑا سا اوپر کیا اور ایک ہاتھ سے ارم کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے آئینے کو چوت کی طرف سیٹ کرتے ہوئے آئینے میں اپنی چوت کو دیکھا تو میں حیران رہ گئی میری گلابی رنگ کی چوت بالکل مکھن کی طرح نرم اور ملائم تھی اور اس میں سے ایک موٹا سا گلابی رنگ کا دانہ باہر کو نکلا ہوا تھا جس کے ساتھ باریک باریک گلاب کی دو پنکھڑیاں سی تھیں جب میں نے ان پنکھڑیوں کو اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے کھولا تو میری چوت کسی تتلی کی طرح نظر آنے لگی ارم کے مونہہ سے بے اختیار نکلا لولی اور اس نے بھی دھیرے سے میری چوت کو سہلایا پھر اس نے آئینہ ایک طرف رکھ دیا اور میری طرف مونہہ کر کے لیٹ گئی اور ایک ٹانگ میری ننگی ٹانگوں پر رکھ لی اوردھیرے دھیرے میری جانگوں پر ہاتھ پھیرنے لگی پھر اچانک پتا نہیں اسے کیا ہوا اس نے ایک دم سے مجھے اپنے اوپر کر لیا اور ہنسنے لگی میرے چھوٹے چھوٹے ممے اس کے بڑے بڑے اور گول مٹول مموں سے چپکے ہوئے تھے اور اس نے مجھے کمر پر سے پکڑا ہوا تھا اس کے ہاتھ رینگتے ہوئے میرے چوتڑوں پر گئے اور اس نے میرے گول چوتڑوں کو پکڑ کر مجھے اوپر کی طرف دھکا دیا تو میرے دودھ اس کے مونہہ کے بالکل قریب آ گئے اورمجھے اپنے مموں پر اسکی گرم گرم سانسیں محسوس ہو رہی تھیں اچانک اس نے میرے چوتڑوں پر سے ہاتھ ہٹا کر دونوں ہاتھوں سے میرے مموں کو ایک سائیڈ سے پکڑ لیا اور ان کے درمیان اپنے ہونٹ رکھ کر اسطرح چوما جیسے چوس رہی ہو اور ساتھ ہی میرے مموں کو ایسے دبا لیا کہ اسکا آدھا چہرہ ان میں دب گیا مجھے بہت مزا آ رہا تھا اور میں اس کو روکنا نہیں چاہتی تھی آخر وہ میری بیسٹ فرینڈ تھی۔ میں کہنیوں کے بل اس کے اوپر لیٹی ہوئی تھی اور وہ میرے مموں کے اوپر مجھے چومتے ہوئے مجھے کہہ رہی تھی آئی لو یو نوشی۔۔۔۔ آئی لو میری جان ۔۔۔اچانک اس نے میرے ایک نپل پر دھیرے سے کاٹا جو کہ بالکل باریک دانہ سا تھا مگر اس وقت وہ بھی اپنے اصل سائز سے تھوڑا بڑا ہو گیا تھا۔ اس نھے کسی بچے کی طرح میرے چھوٹے چھوٹے دودھ چوسنا شروع کر دئے کبھی وہ ایک دودھ چوستی کبھی دوسرا میری آنکھیں بند تھیں وہ میرے دودھ پی رہی تھی اور ساتھ ساتھ میرے چوتڑوں سے کھیل رہی تھی۔ کچھ دیر بعد اس نے مجھے خود پر سے نیچے اتار دیا اور میری گردن کے نیچے اپنا بازو رکھ کر مجھے سائیڈ کی طرف سے اپنے سینے پر لٹا لیا میرے ہونٹ اس کے گول مٹول گلابی مموں سےٹچ ہوئے تو مجھے بہت اچھا لگا اس کے دودھ مکھن کی طرح ملائم تھے۔ میں نے بھی دھیرے دھیرے ارم کے ہی انداز میں ایک ہاتھ اس کے ایک ممے پر رکھا تو مجھ پر ایک عجیب سا نشہ چھانے لگا میں اس کے گول گول مموں سے کھیلنے لگی کیونکہ یہ مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا ارم کے نپل بھی مجھ سے بڑے تھے میں نے اس کے نپل کو چوما اور دونوں ہاتھوں سے اس کا ایک دودھ پکڑ کر اس کو چوسنا شروع کر دیا مجھے بہت مزا آ رہا تھا اچانک ارم نے ایک ہاتھ میری چوت پر رکھ دیا میں نے مزے میں آ کر تھوڑی سی ٹانگیں کھول لیں ارم نے میری ملائم چوت کو سہلانا شروع کر دیا اور میں مست ہو کر باری باری اس کے دونوں دودھ چوس رہی تھی۔ کمرے میں صرف ہم دونوں کی گرم سانسوں یا پھر بستر کی آواز آرہی تھی پھر وہ سیدھی ہو ئی اور مجھے سیدھا لٹا کر میری جانگوں پر چومنے لگی مجھے یہ سب عجیب سا لگ رہا تھا مگر اس میں جو مزا تھا وہ مجھے کچھ اور نہیں سوچنے دے رہا تھا۔ اچانک فون کی گھنٹی بولی اور ہم دونوں کو جیسے ہوش آ گیا ارم گھبرا گئی اور بولی مارے گئے لگتا ہے امی واپس آ گئیں۔ میں اس کی بوکھلاہٹ پر ہنس پڑی اور میں نے کہا ہوش کرو شہزادی صاحبہ ڈور بیل نہیں بجی فون بج رہا ہے۔ وہ کچھ سمجھ کر ایک دم ہنسنے لگی اور ننگی ہی فون کی طرف بھاگی۔ فون پر اس کی مامی تھیں جو اسکی امی سے بات کرنا چاہتی تھیں۔ اس نے بتایا کہ امی تو بازار گئی ہوئی ہیں شاید کچھ دیر میں آ جائیں تو میں آپ کے بارے میں بتا دوں گی۔ فون بند ہوا تو ارم نے ایک لمبی سانس لی اور مجھے کہنے لگی یار ٹائم کا تو پتا ہی نہیں چلا اچھا ہو مامی کا فون آ گیا اور ہمیں ہوش آ گیا چل کپڑے چینج کرتے ہیں۔ پھر ہم دونوں نے کپڑے پہنے اور ٹیلیوژن آن کر لیا۔ ساتھ ساتھ ارم نے مجھے ایک حیران کرنے والی بات بتائی کہ اس کا ایک بوائے فرینڈ بھی ہے جو اسکی خالہ کا بیٹا ہے اسکا نام عمران ہے اور اسی شہر میں رہتا ہے۔ اسکی بہن بھی ہماری ہی ہم عمر ہے۔ اس نے مجھے ڈی وی ڈی پر ایک مووی دکھائی جس کو دیکھ کر میرے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ ایک پتلی دبلی سی لڑکی ایک لمبے چوڑے کالے ہبشی کا گدھے کی طرح لمبا اور کالا لن چوس رہی تھی جس کو وہ ناقابل یقین حد تک بار بار اپنے حلق میں لے کر جاتی تھی اور اس کی ٹوپی کو مزے لے لے کر چوس رہی تھی جیسے اس میں سے شہد جیسی کوئی چیز نکل رہی ہو۔ ارم نے مووی تھوڑی سی آگے کی تو وہی کالا حبشی اپنے لمبے لن کو اس لڑکی کی ٹانگیں کھول کر اس کی چوت کے اندر باہر کر رہا تھا۔ ارم نے کہا کہ تو نے کہا تھا ناں کہ تجھے میری یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی کہ تجھے بھی کوئی لن چودے گا۔ تو میری جان دیکھ لے لن اس طرح سے چوت کو چودتا ہے اور پھر چوت چوت نہیں رہتی پھدی بن جاتی ہے۔ اور نوشی تجھے پتا ہے میری چوت بھی اب پھدی بن چکی ہے اور اسے چوت سے پھدی میں عمران نے ہی تبدیل کیا ہے۔ ارم نے بتایا کہ میری چوت پر ابھی بال بھی نہیں اگے تھے جب عمران نے میری چوت کو پھدی بنا دیا تھا۔ ایک بار ارم کے گھر والے اسے عمران کے گھر چھوڑ کر 10 دن کیلئے شہر سے باہر گئے تھے۔ ارم نے بتایا کہ پہلی بار عمران نے پورا لن بھی میری چوت میں نہیں ڈالا تھا کہ میری چوت میں سے خون نکل آیا تھا اور میری چوت پھٹ گئی تھی۔ ہم دونوں نے خود ہی مل کر اس پر بیٹنوویٹ کریم لگا کر اس بات کو چھپا لیا تھا مگر اس کے تیسرے دن ہی عمران نے مجھے پیار کر کر کے اتنا گرم کر دیا کہ پتا نہیں کب اس نے میری ٹائٹ چوت میں ایک دم سے اپنا لن آدھا گھسیڑ دیا۔ مگر اسی دن اس نے مجھے ایسا چودا کہ میری چوت چوت نہیں رہی بلکہ پھدی بن گئی۔ ارم نے جلدی جلدی مووی کا اینڈ کر دیا آخر میں اس حبشی کے لن میں سے لیس دار سے مادے کی پچکاریاں سی نکلیں جو اس حبشی نے اس لڑکی کے مونہہ میں مار دیں اور وہ لڑکی دہی کی طرح کا وہ لیس دار مادہ پی گئی۔ مجھے بہت عجیب سا لگا۔ میں نے مونہہ دوسری طرف پھیر لیا۔ ارم نے ہسنتے ہوئے ڈی وی ڈی نکالی اور اسے اپنی الماری میں چھپا آئی میں نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ مووی اسے عمران نے ہی دی ہے اور اس کے پاس ایسی بہت سی موویز ہیں۔ وہ مجھے عمران کے ساتھ اپنی چدائی کی کہانیاں سنا رہی تھی تبھی ڈور بیل بجی ارم نے پوچھا تو ارم کی امی نے بتایا کہ دروازے پر میں ہوں دروازہ کھولو کاشف بھی میرے ساتھ ہی ہے۔ ارم نے دروازہ کھول دیا اور اس کی امی اور کاشف اندر آ گئے۔ ارم کی امی نے ہمارا حال چال پوچھا کہ بعد میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی ناں۔ ارم کی امی نے بتایا کہ انہیں کل بھی بازار جانا ہو گا کیونکہ کل ان لوگوں نے دلہن کے کپڑے اورزیور وغیرہ خریدنا تھا۔ امی نے بتایا کہ کل سارا دن ہی مصروفیت کا شکار ہو جائے گا۔ امی نے ارم سے کہا کہ تم کل کاشف کے ہاتھ اپنی چھٹی کی درخواست سکول بھیج دینا اور دونوں سہلیاں مل کر گھر میں ہی سٹڈی کر لینا۔ ارم نے کہا ٹھیک ہے امی جیسے آپ کہیں۔ رات کو کھانے پر ارم کے ابو نے بھی میرا حال چال پوچھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ نہیں انکل کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بھلا ارم کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی پریشا نی ہوسکتی ہے۔ آج ارم کی امی نے کاشف کا بستر ڈرائینگ روم میں لگا دیا تھا اور ہم دونوں ارم کے کمرے میں اکیلے ہی تھے۔ ہم کمرے میں لیٹ کر باتیں کرنے لگے۔ اچانک مجھے رات والی فلم کا خیال آیا جس میں کالا حبشی اپنے گوریلا ٹائپ لوڑے سے اپنی گرل فرینڈ کی پھدی مار رہا تھا۔ میں نے ارم سے پوچھا کہ یار تو نے کوئی اور بھی سیکسی فلم دیکھی ہے کبھی۔ ارم نے مجھے بتایا کہ اس نے تو بہت سی فلمیں دیکھی ہوئی ہیں۔ اس نے بتایا کہ عمران کچھ دنوں بعد اس کو نئی ڈی وی ڈی لا دیتا ہےاور جب بھی مجھے موقع ملتا ہے میں فلم دیکھتی ہوں اور مزا لیتی ہوں۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا تم اکیلے کیسے مزا لیتی ہو فلم کا۔ وہ ہسنسنے لگی اور مجھ سے پوچھا کہ لگتا ہے تیرا دل کر رہا ہے بلیو پرنٹ دیکھنےکا۔ میں نے پوچھا کیا ہم اس وقت کمرے میں وہ فلم دیکھ سکتے ہیں کیا؟ اس نے کہا کہ ابھی نہیں جب سب سو جائیں گے تومیں فلم لگا لوں گی۔ میں نے تو پہلے ہی سوچا ہوا تھا کہ آج ہم دونوں مل کر پوری فلم دیکھیں گے۔ پھر اس نے اپنے فیملی البم نکال لئے اور ہم اس کی فیملی کی تصویریں دیکھنے لگ گئے۔ رات کو تقریباً پونے گیارہ بجے کے قریب ارم نے الماری میں سے پانچ چھ ڈی وی ڈیز نکال لیں اور ان میٰں سے ایک فلم نکال کر ڈی وی ڈی پلیر میں لگائی ۔ اس فلم میں دو لڑکیاں اور چھ انگریز آدمی تھے جو سب ساتھ مل کر ان لڑکیوں کو چود رہے تھے۔ ارم نے ٹی وی کی آوازہلکی کر دی اور ہم دونوں ٹی وی کے سامنے ہی زمین پر کشن رکھ کے بیٹھ گئیں۔ ارم نے کہا نہیں یار یہ والی نہیں۔ اس نے ڈی وی ڈی چینج کر دی دوسری فلم میں دو لڑکیاں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس انگریز آدمی کا لن چوس رہی تھیں۔ مجھے کل رات والی چھوٹی سی پتلی دبلی لڑکی یاد آگئی جو کالے حبشی کا کالا سیاہ اور لمبا لوڑا مزے لے لے کر چوس رہی تھی۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ یار کیا لن چوسنے میں بہت مزا آتا ہے؟ نوشی نے دھیرے سے کہا لگتا ہے تیرا بھی دل کررہا ہے لوڑا چوسنے کا۔ میں شرما گئی مگر ارم نہیں جانتی تھی کہ اس نے میرے بارے میں ٹھیک اندازہ لگایا ہے۔ اس نے وی ڈی وی ڈی بھی نکال دی اور ایک اور مووی لگا دی اس تیسری مووی میں پانچ لڑکیاں جو سب کالج کی یونیفارم میں تھیں ایک صوفے پر بیٹھ کرایک دوسرے کو بالکل ایسے ہی پیار کر رہی تھیں جیسے ارم میرے ساتھ کرتی ہے۔ وہ ایک دوسے کے ہونٹ چوس رہی تھیں ایک دوسرے کے ممے دبا اور سہلا رہی تھیں اور کوئی ایک دوسرے کی چوت کو مسل رہی تھی۔ اور کوئی خود ہی اپنے دودھ دباتے ہوئے اپنی چوت کو انڈرویر کے اوپر سے ہی مسل رہی تھی۔ میں فلم کو دیکھ کر گم سم سی بیٹھی ہوئی دیکھ رہی تھی۔ ارم اٹھی اور بستر پر سے دونوں تکیے اٹھا کر لے آئی اور دونوں تکیے ساتھ ساتھ جوڑ کر رکھ دئے۔ میں دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کے جسم پر کوئی کپڑانہیں تھا اس کا خوبصورت اور سیکسی جسم ننگا میرے سامنے تھا۔ اس نے کہا نوشی اگر فلم کا سہی مزا لینا ہے تو تو بھی ننگی ہو جا۔ فلم میں بھی لڑکیوں نے ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے شروع کر دئے تھے۔ میں نے اپنی قمیض اتار دی اور ارم نے میری شلوار کھینچ کر اتار دی میں بھی بالکل ننگی ہو کر ارم کے ساتھ جڑ کر لیٹ گئی اس کے ننگے جسم کا احساس مجھے بہت مزا دے رہا تھا۔ ہم دونوں خاموشی سے فلم دیکھنے لگ گئیں ارم ایک ہاتھ سے اپنے مموں سے کھیل رہی تھی اور دوسرے ہاتھ کو وہ اپنی چوت پر پھیر رہی تھی۔ فلم میں دو لڑکیاں ایک دوسرے کی چوت چاٹ رہی تھیں ایک لڑکی نیچے لیٹ کر اوپر والی لڑکی کی چوت چاٹ رہی تھی اور دوسری اوپر سے نیچے لیٹی ہوئی لڑکی کی چوت چاٹ رہی تھی جبکہ باقی کی تین لڑکیوں میں ایک لڑکی نیچے لیٹی ہوئی تھی اور ایک لڑکی پیروں کے بل اس لڑکی کے مونہہ پر بیٹھ کر اس کے مونہہ پر اپنی چوت رگڑ رہی تھی اور تیسری لڑکی نیچے لیٹی ہوئی لڑکی کی ٹانگیں چوڑی کر کے اس کی پھدی کو چاٹ رہی تھی کیمرہ بالکل اس پھدی کے پاس تھا وہ لڑکی اپنی زبان سے دوسری لڑکی کی گلابی رنگ کی چوت کو چاٹ رہی تھی جب وہ اپنی زبان نیچے لیٹی ہوئ لڑکی کی چوت میں داخل کرتی تھی تو نیچے لیٹی ہوئی لڑکی کی چوت پھڑکنے لگتی تھی اچانک میں نے محسوس کیا کہ ارم نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی چوت پر رکھ دیا اوراپنی انگلیوں سے میری چوت سے کھیلنے لگی۔ تبھی ارم نے کہا نوشی تیری چوت تو گیلی ہو رہی ہے میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو میری چوت میں سے لیس دار سامادہ رس رہا تھا۔ ارم نے کہا جب چوت کو مزا آتا ہے تویہ اسی طرح پانی چھوڑتی ہے۔ میرے اندر عجیب سی بے چینی اور تناؤ پیدا ہورہا تھا ان لڑکیوں کی سسکاریاں بہت مزا دے رہی تھیں۔ ارم نے میری طرف مونہہ کیا اور فلم والے انداز میں مجھے چومنے اور چوسنے لگ گئی۔ اس کے اسطرح کرنے سے جانے مجھے کیا ہوا کہ میں بھی اس سے لپٹ گئی اور ایک دوسرے کے جسموں پر بیقراری سے ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک دوسرے کے ہونٹوں اور زبان کو چوسنا شروع کر دیا کبھی میں ارم کے ہونٹ چوس رہی تھی اور کبھی وہ میرے اچانک ارم نے میری زبان کو اپنے مونہہ میں لے کر جو چوسا میں تڑپ سی گئی اور میں نے اس کو زورسے پنے سینے سے لگا لیا اس کے پھولے ہوئے گول مٹول دودھ میرے ننگے جسم سے ٹچ ہو کر عجیب سا مزا دے رہے تھے ارم میرے اوپر لیٹ گئی اور مجھے دیوانوں کی طرح چومے جا رہی تھی۔ پھر وہ میرے مموں کی طرف آ گئی میرے باریک بایک نپل سخت ہو گئے تھے۔ پھر وہ میرے پیٹ پر سے چومتی ہوئی نیچے میری چوت کی طرف جا رہی تھی تو میں نے ٹی وی کی طرف دیکھا وہاں ایک لڑکی میری طرح ہی زمیں پر لیٹی ہوئی تھی اور دوسری لڑکی اس کے پیروں میٰں لیٹ کر اس ک چوت کو چاٹ رہی تھی۔ اچانک مجھے اپنی چوت پر ارم کی گرم گرم سانسیں محسوس ہوئیں تو میں نے مستی میں آ کر اپنی چوت کو اوپر کی جانب جھٹکا سا دیا تو میری چوت ارم کے ہونٹوں سے ٹکرا گئی۔ ارم میرے اوپر اسطرح سوار ہو گئی کہ میں نیچے لیٹی ہوئی تھی اور ارم میرے اوپر ڈوگی سٹائل میں اسطرح سوار ہو گئی کہ اس کی چوت میرے ہونٹوں کے بالکل اوپر تھی۔ اس نھے دونوں ہاتھوں سے میری جانگوں کو پکڑ کر میری چکنی چوت پر زبان پھیری تو میرے جسم میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا اور میں نے بھی اپنا سر تھوڑا سا اوپر کو اٹھا کر ارم کی پھدی کو چوم لیا۔ ارم کی پھدی پر ہونٹ لگتے ہی مجھے ایسا مزا آیا کہ میں نے اس کو چوت کو چومنا شروع کر دیا اس کی چوت میں سے بھی لیس دار مادہ نکل رہا تھا۔ جو میرے ہونٹوں پر لگ رہا تھا۔ ارم بھی مستی ے میری چوت چاٹ اورچوم رہی تھی کبھی وہ میر چوت کے دانے کو اپنے ہونٹوں میں دبا کر چوستی اور کبھی دھیرے دھیرے اس پر کاٹ رہی تھی۔ کبھی وہ میری گلابی چوت کے اندرونی ہونٹوں کو جو پنکھڑیوں کی طرح تھے چوستی تھی ہم دونوں اسی طرح کافی دیر ایک دوسرے کے ساتھ کھیتے رہے آخر ایک دم سے ارم کی چوت سے پانی کا ایسا فوارہ سا نکلا کہ میں سمجھی کہ اس نے پیشاب کر دیا ہے۔ اوہ وہ اپنی چوت بیدردی سے میرے مونہہ پر رگڑنے لگی۔ مجھے بہت مزا آرہا تھا دل کر رہا تھا کہ ساری رات ارم میری چوت چاٹتی رہے اور میں اسکی۔ ارم پانی چھوڑنے کے بعد بے حال سی ہو کر لیٹ گئی۔ اس کی سانسیں بہت بے ترتیب ہو رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر وہ ہنسنے لگی۔ فلم میں ابھی بھی وہ لڑکیاں اپنے کام سے لگی ہوئی تھیں۔ میں نے محسوس کیا کہ ارم اب فلم میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی۔ مگر میرا دل نہیں کر رہا تھا فلم سے نظریں ہٹانے کا ارم نے مجھے اپنے بڑے بڑے مموں پر لٹا لیا اور ایک لمبی سانس لے کر آنکھیں بند کر لیں میں فلم دیکھتی رہی تھوڑی دی بعد میں نے ارم کی طرف دھیان دیا تو میں نے دیکھا کہ وہ سو رہی ہے۔ تھوڑی دیر بعد فلم ختم ہو گئی تو میں نے ٹائم دیکھا رات کے ساڑھے بارہ ہو چکے تھے اور ارم بے خبر ننگی ہی سو رہی تھی۔ مجھےاپنے حلق میں تھوڑی سی تلخی محسوس ہوئی تو میں نے پانی پینے کا سوچا اور اٹھ کر کپڑے پہننے لگی میرے ذہن میں اب بھی وہی منظر تھا جب ہم دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کی چوت چاٹ رہی تھیں۔ میں نے ارم کے ننگے جسم پر ایک چادر ڈالی اور اٹھ کر کچن کی طرف چل دی جاتے ہوئے میں نے دروازے کو احتیاط سے بند کر دیا کیونکہ اندر ارم ننگی سو رہی تھی۔ ارم کے کمرے سے نکل کر میں کچن کی طرف بڑھی تو کچن سے تھوڑا پہلے ہی جب میں ارم کی امی کے کمرے کے پاس سے گزری تو مجھے اندر سے سرگوشیوں کی سی آواز آئی بہت پراسرار سی آواز تھی۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس طرح کی آوازیں تو میں نے اس فلم میں سنی تھیں جس میں کالا حبشی اپنی گرل فرینڈ کو چود رہا تھا۔ میں نے دروازے سے کان لگا کر سننے کی کوشش کی تو اندر سے ارم کی امی کی آواز آئی ہائے جانو آہستہ چودو ناں پلیز تمہار لوڑا میری چوت پھاڑ رہا ہے۔ پلیز ابھی آہستہ کرو ناں۔ ارم کی امی کے مونہہ سے ایسی بات سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میرے دل میں اشتیاق پیدا ہوا کہ میں ان کو دیکھوں میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں سے اندر جھانکنے کی جگہ نظر آجائے میں نے کھڑکیوں کو ہلکا سا ہلا کر دیکھا تو اسکے تمام پٹ کھلے ہوئے تھے مگر اندر سے ہلکے سے بند تھے مگر لاک نہیں تھے میں نے ہلکا سا دبایا تو کھڑی ہلکی سی چرررر کی آواز سے کھڑکی تھوڑی سی کھل گئی۔ ارم کے امی ابو نے شاید اس آواز کو سنا نہیں تھا۔ کھڑکی ہلکی سی کھل گئی تھی اور اس میں سے اندر کمرے کا منظر نظر آ رہا تھا۔ ارم کی امی بیڈ کے کنارے پر ڈوگی سٹائل میں گھوڑی بنی ہوئی تھیں اور اشرف انکل ( ارم کے ابو ) بیڈ کے ساتھ کھڑے ہو کر ارم کی امی کی چوت میں زور زور سے اپنا کالے رنگ کا لن مار رہے تھے۔ مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ اشرف انکل کا رنگ تو گورا چٹا تھا مگر ان کا لن کالے رنگ کا تھا۔ ارم کی امی کی پھدی بھی کچھ براؤن سے کلر کی تھی اشرف انکل ارم کی امی کے دونوں چوتڑوں کو پکڑ کر زور وشورسے انکی چوت میں اپنا کالا لن اندر باہر کر رہے تھے اور ارم کی امی ایک ہاتھ سے باری باری اپنے لٹکتے ہوئے مموں کو مسل مسل کر زور زورسےپیچھے کو لن کی طرف جھٹکے مار رہی تھیں میں حیران تھی کہ ابھی تو یہ کہہ رہی تھیں کہ میری چوت پھٹ رہی ہے اور اب کیسے وحشیوں کی طرح لوڑا اپنی پھدی میں مار رہی ہیں میں کھڑکی کے پاس ہی نیچے ہو کر بیٹھ گئی کھڑکی تھوڑی کم کھلی ہوئی تھی۔ میں نے کھڑکی کو تھوڑا سا اور دبایا تو پھر اس میں سے ہلکی سی چررر کی آواز آئی اور اب کھڑکی اتنی کھل چکی تھی کہ کمرے کا سارا منظر مجھے ٹھیک سے نظر آنے لگ گیا تھا۔ اشرف انکل نے لوڑا باہر نکال لیا اور نازیہ آنٹی (ارم کی امی) کو سیدھا ہو کر لیٹنے کو کہا۔ نازیہ آنٹی سیدھی ہو کر لیٹ گئیں اور انہوں نے اپنے چوتڑ تھوڑے سے اٹھا کر ان کے نیچے ایک تکیہ اسطرح رکھ لیا کہ ان کی چوت ایسے ابھر کر سامنے آ گئی کہ مجھے بھی کلیر نظر آرہی تھی۔ انکل اشرف میری طرف کو مڑے تومیں انکا لن دیکھ کر حیران ہی ہو گئی۔ کم از کم نو انچ لمبا کالا لن جو تقریباً ڈھائی انچ کے قریب موٹا تھا مگر ان کے لن کی ٹوپی گہرے گلابی سے رنگ کی تھی۔ سچ کہوں تو مجھے انکا لن بہت خوبصوت لگا تھا۔ پھر وہ بیڈ پر نازیہ آنٹی کی ٹانگوں میں گھس کر ان کے اوپر چڑھ گئے پیچھے سے مجھے انکل کا لوڑا اور آنٹی کی چوت دونوں ہی کلیر نظر آ رہے تھے اب ان دونوں کی کمر میری طرف تھی۔ انکل اپنے اکڑے ہوئے لمبے لن کی موٹی سی ٹوپی کو آنٹی کی پھدی کے ہونٹوں پر رگڑنے لگے ان کو اسطرح کرتے دیکھ کر میری چوت میں عجیب سا کرنٹ دوڑنے لگا۔ میں نے ایک ہاتھ شلوار میں ڈال کر اپنی چوت کو چھوا تو مجھے محسوس ہوا کہ میری چوت سے بھی رس نکل رہا تھا۔ اندر کمرے میں نازیہ آنٹی نے اپنے اوپر چڑھے ہوئے انکل کے چوتڑوں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے تھے اور بہت پیار سے ان پر ہاتھ پھیر رہی تھیں۔ اور انکل انکے ہونٹ چوس رہے تھے پھر انکل نے ایک ہاتھ سے اپنے لوڑے کو تھامتے ہوئے نازیہ آنٹی کی چوت پر رکھا تو آنٹی کو چوت انکے لن کے ٹوپے کی نیچے بالکل چھپ گئی۔ انکل نے دھیرے دھیرے ٹوپی کو چوت کے اندر کیا آنٹی نے مست ہو کر چوت کو گول گول گھمایا تو انکل نے سارے کا سارا لن تھیں مگر انکل نے ان کو اسطرح دبوچا ہوا تھا کہ لوڑا آدھا انچ بھی باہر ناں نکل سکے۔ اچانک انکل نے نیچے سے اچھل کر ایک گھسا ایسا مارا کہ سارے کا سارا لن ان کی گانڈ میں ڈوب گیا۔ آنٹی رو رہی تھیں مگر انکل نے زبردستی ان کو دبوچا ہوا تھا اور زور زور سے لوڑا ان کی گانڈ میں پیل رہے تھے۔ آنٹی کی آوازوں سے لگ رہا تھا کہ وہ روہی ہیں اور انکل کے مونہہ سے ایسی غراہٹ نکل رہی تھی جیسے کوئی وحشی درندہ ہو۔ وہ اچھل اچھل کر گانڈ میں لوڑا گھسیڑ رہے تھے۔ آنٹی ان کی منتیں کر رہی تھیں “ پلیز چھوڑ دو مبشر ۔۔۔ میری گانڈ تیرے طوفانی لوڑے کے گھسوں سے پھٹ رہی ہے۔ بس کر ظالم ۔۔۔ آااہ۔۔۔۔۔ میری گانڈ پھٹ جائے گی۔۔۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔پہلے تو وہ تھوڑی دیر انکل کی منتیں کرتی رہیں کہ مجھے چھوڑ دو میری گانڈ پھٹ جائے گی۔ مگر ایک دم انہوں نے انکل کو پیچھے دھکیلا اور پھر سے بیڈ کے کنارے پر گھوڑی بن گئیں۔ میں نے دیکھا کہ ان کی گانڈ کا سوراخ انکل کے لوڑے نے کافی کھول دیا تھا۔ آنٹی نے ہاتھ پیچھے کر کے انکل کے لوڑے کو اپنی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر ایک زور دار جھٹکا جو مارا تو آدھا لن ان کی گانڈ میں گھس گیا۔ آنٹی نے انکل سے کہا ” لے اب مار میری گانڈ حرامی ، پتا نہیں تیرے لوڑے میں ایسا کیا جادو ہے کہ مجھے اپنے ہر سوراخ میں اس کا مزا آتا ہے۔ انکل نے دھیرے دھیرے لوڑے کو آنٹی کی گانڈ میں گھسیڑنا شروع کر دیا جب پورا لن اندر چلا گیا تو وہ تھوڑی دیر کو رکے اور پھر ایک دم سے آنٹی کی گانڈ پر گھسوں کی برسات کر دی اب مجھے بھی آنٹی کا چہرہ نظر آرہا تھا وہ تکلیف سے رو رہی تھیں مگر لوڑے سے ہار بھی نہیں مان رہی تھیں۔ میرے پاپا کا نام لے لے کر وہ انکل کا لوڑا اپنی گانڈ میں لے رہی تھیں اور ساتھ ساتھ رو بھی رہی تھیں۔ اچانک انکل زمین سے ہٹ کر بیڈ پر ہی چڑھ گئے اور کس کس کے آنٹی کی گانڈ مارنے لگے آنٹی رو رو کر میرے پاپا کا نام لے رہی تھیں اور انکل غراتے ہوئے انکی گانڈ میں اپنا گوریلا ٹائپ لوڑا پیل رہے تھے۔ اچانک انکی رفتار مزید تیز ہو گئی اور انکے مونہہ سے نکلا آصفہ میری جان میں تیرے صدقے تیار ہو جا میرا لوڑا تیری گانڈ میں منی کی پچکاریاں مارنے والا ہے۔ پچک پچک پچک کی آوازوں کے ساتھ ایک آخری زور دار پچک کی آواز آئی اور آنٹی کے مونہہ سے دبی دبی سی چیخ نکل گئی کیونکہ انکل نے انکے مونہہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا ورنہ انکی چیخ اتنی زور کی تھی کہ ساتھ والے گھر کے پڑوسی بھی سن لیتے شاید اسی لیے انکل نے آخری گھسہ مارتے وقت انکا مونہہ سختی سے بند کر لیا تھا۔ وہ کافی دیر اسی طرح اپنا لوڑا انکی گانڈ میں پھنسا کر ان کے اوپر ہی چڑھے رہے ۔۔۔ آنٹی روئے جا رہی تھیں۔ انکل نے اپنا لوڑا دھیرے دھیرے انکی گانڈ سے نکالا تو آنٹی کی گانڈ کے سوراخ سے انکل کی سفید لیس دار گاڑھی گاڑھی منی نکل رہی تھی۔ انکل نے پاس پڑے ٹاول سے اپنے لن اور انکی گانڈ کو اچھی طرح صاف کیا۔ انکل جسطرح پیار سے انکی گانڈ کو صاف کر رہے تھے مجھے وہ بہت اچھے لگے۔ پھر انہوں نے آنٹی کو سیدھا کر کے لٹایا۔ اور انکے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے آنٹی کے مموں کو سہلانے لگے۔ وہ بہت پیار بھری نظروں سے انکو دیکھ رہے تھے جیسے ان پر فدا ہوئے جا رہے ہوں وہ بہت پیار سے آنٹی کے ماتھے اور آنکھوں پر چوم رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں آنٹی بھی نارمل ہو گئیں اور ان دونوں نے ساتھ ساتھ لیٹ کر سرگوشیوں میں باتیں کرنی شروع کر دیں۔ میں دبے پاؤں وہاں سے اٹھی اور کمرے میں آئی تو میں نے دیکھا کہ ارم جاگ رہی ہے اور اس نے کپڑے بھی پہن لیے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ میں سمجھ نہیں پائی کہ اس کی آنکھیں کیا کہہ رہی ہیں۔ اس نے مجھ سے پوچھا نوشی کیا ہوا کہاں تھی تو؟ میں نے اس سے آنکھیں چراتے ہوئے کہا کہ مجھے پیاس لگی تھی میں کچن میں پانی پینے گئی تھی۔ اس نے اپنے چہرے کے تاثرات بدلتے ہوئے ایک دم سے مسکرا کر کہا کہ میرے امی ابو کے کمرے کے باہر انکی کھڑکی کے پاس بیٹھ کر تو کون سا پانی پی رہی تھی گشتی۔ میں شرمندہ سی ہو گئی۔ مجھ سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا۔ آخر میں نے بات بنائی کہ کمرے میں سے مجھے بلیو پرنٹ فلم جیسی آوازیں آرہی تھیں میں نے کھڑکی میں سے دیکھا تو انکل اور آنٹی بھی بلیو فلم کی طرح ہی سیکس کر رہے تھے۔ میری حالت دیکھ کر ارم ہنس دی۔ توبہت گشتی بن گئی ہے نوشی۔ اچھا ایک بات بتا تجھے بلیو فلم کا زیادہ مزا آیا یا امی ابو کی چدائی کا؟ میں نے ارم کی طرف دیکھا وہ مسکراتے ہوئے میری طرف معنی خیز انداز میں دیکھ رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ دیکھ کر میری گھبراہٹ کچھ کم ہو گئی اور میں نے اس کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا چھوڑ ناں یار۔وہ مجھے لے کر بستر پر لیٹ گئی اور میری طرف کروٹ کر کے مجھ سے کہنے لگی اچھا بتا تو نے کمرے میں کیا دیکھا۔ میں نے ہسنتے ہوئے کہا وہی جو بلیو فلم میں ہوتا ہے۔ اس نے میرے گال پر ہلکی سی چٹکی کاٹی اور میرے ہونٹوں کو چومتے ہوئے کہا اچھا اب بتانے میں شرم آ رہی ہےجناب کو۔ اس وقت تو بڑی مست ہو کر اپنی چوت میں انگلی مار رہی تھی اور اب تجھے شرم آ رہی ہے۔ واہ میری نیک پروین۔ اور ہم دونوں ہی ہنس پڑے۔ اس نے اسرارکیا تو میں نے لگ بھگ اسی طرح ساری کہانی اسے سنا دی جیسے کہ آپ کو سنائی ہے۔ ارم نے تب مجھے بتایا کہ اس کے پاپا ہر دوسرے تیسرے دن ممی کو چودتے ہیں ایک دن اتفاق سے کھڑکی کھلی رہ جانے کی وجہ سے ارم نے ان کو چدائی کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا ارم نے بتایا کہ اس نے زندگی میں پہلی بار مرد اور عورت کو چدائی کرتے ہوئے دیکھا تھا اس کے بعد جس دن اسے موقع ملتا وہ جاکر اپنے ممی پاپا کے کمرے کی کھڑکی میں جھانکتی رہتی تھی جس دن کھڑکی کھلی ہوتی وہ رات ارم کی بہترین رات ہوتی تھی ارم نے بتایا کہ میں نے موقع پر کر ممی کے کمرے کی کھڑکی کا ایک پیچ اسطرح ڈھیلا کر کے تھوڑا سا موڑ دیا کہ کھڑکی مکمل بند نہیں ہوتی تھی اس وجہ سے اسکا لاک نہیں لگتا تھا مجبوراً ممی پاپا اس کھڑکی کو یوں ہی بند کر دیتے تھے شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ کوئی ان کو دیکھ رہا ہو گا۔ ارم کی یہ بات سن کر مجھے سمجھ آ گیا کہ جب میں نے کھڑکی کو کھولا تھا تو اس میں سے چررر چرر کی آواز کیوں آ رہی تھی ارم نے اس کو خراب جو کر دیا تھا تا کہ کھڑکی بند نہ کی جاسکے اور وہ روز اپنی ماں کو چدتے ہوئے دیکھ سکے۔ جب اس نے مجھے بتایا کہ ایک دن اسے سکول سے واپس آتے ہوئے ایک لمبا بینگن پڑا ہوا ملا تھا جو کہ کچھ آگے جاتے ہوئے سبزی والے کے ٹھیلے سے گرا تھا۔ ارم نے بتایا کہ گلی اسوقت ویران تھی اور اس میں اسوقت صرف وہ سبزی والا اور اس کا ٹھیلا ہی تھے۔ ارم کہنے لگی میں نے جیسے ہی اس بینگن کو دیکھا میرے ذہن میں پاپا کا اکڑا ہو لوڑا آ گیا میں نے جلدی سے بینگن کو اٹھا کر اپنے بیگ میں چھپا لیا اور ادھر ادھر دیکھ کر آگے چل پڑی شکر ہے مجھے کسی نے دیکھا نہیں تھا۔ مجھے اپنے بیگ میں پڑے ہوئے بینگن کے بارے میں سوچ سوچ کر گدگدی سی محسوس ہو رہی تھی اس کی شیپ دیکھ کر مجھے پاپا کے لوڑے کی شکل یاد آرہی تھی اسی طرح لمبا موٹا اور گول لوڑا ہے پاپا کا بھی میں خیالوں میں اپنی چوت میں اس بینگن کو پھنسا ہوا محسوس کر رہی تھی اور اس کہ وجہ سے ہونے والی تکلیف کا خیال آ رہا تھا کہ اچانک جیسے ہی میں سبزی کے ٹھیلے کے پاس سے گزری مجھے ایسے لگا جیسے سبزی والے نے مجھے کچھ کہا ہو۔ میں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا تو اس نے کہا بے بی بینگن خرید لو بالکل تازہ اور سخت ہیں وہ ایک جوان لڑکا تھا جو یہ بات کہتے ہوئے معنی خیز انداز میں مسکرا رہا تھا۔ میں نے کہا جی نہیں شکریہ۔ اور آگے بڑھ گئی۔ باقی سارے راستے میں یہی سوچتی رہی کہ کہیں اس نے مجھے بینگن اٹھاتے ہوئے دیکھ تو نہیں لیا۔ خیر گھر پہنچ کر میں نے بیگ سائیڈ پر رکھا اور اس میں سے وہ بینگن نکال کر اپنے باتھ روم میں چھپا دیا جہاں اس کے چھوٹے بھائی کا ہاتھ نہ جاسکے۔ رات کو جب سب سو گئے تو میں باتھ روم میں گئی اور اپنے سارے کپڑے اتار کر سائیڈ پر رکھ دئے۔ بینگن کے بارے میں سوچ کر میری پھدی بری طرح چکنی اور گیلی ہو رہی تھی میں نے آج تک اپنی چوت میں کوئی چیز نہیں ڈالی تھی اپنی انگلی بھی نہیں۔ میں باتھ روم کے فرش پر ہی لیٹ گئی اور بینگن کو اپنی چکنی چوت کے اوپر پھیرنا شروع کر دیا بینگن زیادہ موٹا تو نہیں تھا مگر مجھے اسے چوت کے اندر ڈالتے ہوئے ڈر سا لگ رہا تھا۔ جب مجھ سے برداشت نہیں ہوا تو میں نے اپنی ٹانگوں کو پورا کھول لیا جیسے ممی پاپا کا لوڑا اپنی چوت میں لینے کیلئے کھولتی ہیں اور ایک ہاتھ سے اپنی پھدی کے ہونٹوں کو کھول کر بینگن کا سرا اپنی چوت کے سوراخ کے اوپر رکھ دیا مجھے چوت کے دہانے پر بینگن کسی لوڑے کی طرح محسوس ہو رہا تھا میں نے اپنی آنکھیں بند کیں اور محسوس کرنے لگی جیسے یہ بینگن نہیں پاپا کا لوڑا ہے جو میری کنواری چوت میں گھسنے والا ہے اور دھیرے دھیرے پاپا کے لوڑے کے اس ڈپلیکیٹ کو اپنی چوت میں دھکیلنا شروع کر دیا ۔ چوت چکنی تھی اور بینگن بھی زیادہ موٹا نہیں تھا۔ ویسے پاپا کا لوڑا اس بینگن سے کہیں ذیادہ موٹا تھا مگر مجھ سے یہ بینگن بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا میری سوچ سے بھی زیادہ تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔ مگر آج میں یہ کر کے رہنا چاہتی تھی میں نے دھیرے دھیرے تقریباً ایک انچ بینگن اپنی چوت میں ڈال لیا تھا میری آنکھوں میں سے تکلیف کی وجہ سے آنسو نکل رہے تھے۔ اور بینگن میری چوت میں اٹک گیا تھا اس سے آگے گھسیڑنا نا ممکن لگ رہا تھا تقریباً پانچ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ تکلیف سے میری چوت بے حال ہو گئی مگر میں نے بینگن کو باہر نہیں نکالا اور وہ جہاں پھنسا ہو تھا وہیں پھنسا رہنے دیا اور اس سے ہونے والی تکلیف کا مزا محسوس کرنے کی کوشش کرتی رہی کیونکہ جب پاپا کے لوڑے سے ممی کو تکلیف ہوتی تھی اور وہ چیختی تھیں تو پاپا ان سے پوچھتے تھے کہ اگر تکلیف ہو رہی ہے تو میں کچھ آہستہ کروں مگر ممی غصے سے ان کو کہتی تھیں خبردار جو ایسی بات کی اور بے دردی سے میری پھدی میں اپنا لوڑا مارو اس پر رحم کرنے سے اس کو مزا نہیں آئے گا بلکہ اس کے پرخچے اڑیں گے تو اس کو چدائی کا اصل مزا آئے گا۔ اور ان کی یہ بات سن کر پاپا بھی کسی پاگل کتے کی طرح ان کی پھدی کا ہر رات بھرکس نکالتے ہیں۔ میں اپنی پھدی میں وہی درد بھرا مزا محسوس کرنا چاہتی تھی جو ممی پاپا کے لمبے اور موٹے اکڑے ہوئے لوڑے سے لیتی تھیں۔ تکلیف کی وجہ سے میرے آنسو نکل رہے تھے مجھے ایک خیال آیا تو میں نے الماری میں سے پٹرولیم جیلی نکالی اور بہت ساری جیلی اپنی چوت کے ہونٹوں اور سوراخ پر مل دی۔ اور دوبارہ پاپا کا لوڑا (وہی لمبا بینگن) اپنی پھدی کے ہونٹوں پر رکھ کر اندر کی جانب گھسیڑنا شروع کر دیا اس بار بینگن کافی آسانی سے اندر جا رہا تھا مگر صرف دو انچ اندر جا کر ہی وہ پھر پھدی میں جام ہو گیا۔ میرے اندر جو آگ لگی ہوئی تھی وہ مجھے اس کھیل میں بہت مزا دے رہی تھی۔ میں نے اس بینگن کو اپنی چوت میں آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا اس بار تکلیف میں اضافہ ہو گیا جیسے جیسے بینگن اندر ساے باہر اور باہر سے اندر کی طرف روانہ ہوتا درد کی شدید لہر چوت میں سے نکل کر پورے جسم کو کپکپا دیتی تھی مگر میرا دل رکنے کا نہیں کر رہا تھا میں خیالوں میں پاپا کا لوڑا اپنی پھدی میں محسوس کر رہی تھی جب میری برداشت کی انتہا ہو گئی تو میں کچھ دہر کیلئے سیدھی لیٹی رہی اور پھر میں نے اپنی چوت کو اچھی طرح دھویا جب میں نے چوتپر پانی ڈالا تو میری چوت میں جلن ہونے لگی مجھے اندازہ ہو گیا کہ میری چوت میں چیرا پڑ گیا ہے اور میں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی چوت پھاڑ لی ہے۔ پاپا یہ سب آپ اور ممی کا کیا دھرا ہے میں نے دل میں سوچا اور کمرے میں آکر لیٹ گئی۔ اس رات میں نے ممی پاپا کے کمرے کے پاس جاکر سن گن لی اور اندر جھانکا تو میں نے دیکھا کہ وہ دونوں بے خبر سورہے تھے۔ دوسرے دن میں سوکر اٹھی تو میری پھدی میں درد ہو رہا تھا۔ مجھ سے ٹھیک سے چلا نہیں جا رہا تھا میری چال آج مجھے خود بھی بدلی بدلی لگ رہی تھی۔ میں اپنے گھر سے ایک گلی ہی آگے آئی تھی تو میں نے دیکھا کہ گلی میں وہی سبزی والا کھڑا ہے اور جب میں اس کے پاس سے گزری تو میں نے دیکھا کہ وہ میری طرف بہت معنی خیز انداز میں دیکھ کر مسکرا رہا تھا ابھی میں اس کے ٹھیلے سے دو قدم ہی آگے گئی تھی کہ ایک دم سے اس نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی آپ کو چھٹی کر لینی چاہیے تھی سکول سے۔ میں نے مڑ کر اسے گھورتے ہوئے کہا تمہیں اس سے کیا مطلب اپنی حد میں رہو۔ بدتمیز۔ جیسے ہی میں یہ کہہ کر آگے بڑھی تو مجھے ایسے لگا جیسے اس نے کہا ہو کہ بینگن زیادہ موٹا تو نہیں تھا۔ جیسے ہی میں نے یہ بات سنی میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور دل زور زور سے دھڑکنے لگا کہ یہ اس نے کیا کہہ دیا۔ مجھے اس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ میں بس گھبرائی ہوئی وہاں سے نکلی اور سکول چلی گئی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ بینگن اس نے جان بوجھ کر میرے لیے ہی گرایا تھا۔ یہ بتا کر اس نے کہا کہ اس کے کچھ دن بعد ہی سبزی والے کی آواز سن کر میں دروازے پر گئی کیونکہ امی کپڑے دھو رہی تھیں انہوں نے مجھے دو کلو آلو اور ایک کلو ٹماٹر خریدنے کا کہا اور کپڑے سکھانے کیلئے چھت پر چلی گئیں۔ میں نے دروازے پر جا کر سبزی والے کو آواز دی اس نے مڑ کر دیکھا تو یہ وہی بینگن والا تھا۔ میں اس کو دیکھ کر گھبرا گئی مگر وہ فوراً آگے بڑھا اور میرے قریب آ کر بولا جی فرمائیں آپ کو کیا چاہیے۔ میں نے جلدی سے کہا دو کلو آلو اور ایک کلو ٹماٹر دے دو۔ وہ فوراً مڑا اور سبزی تول کر شاپنگ بیگ میری طرف بڑھا دئے میں نے پیسے پوچھے تو اس نے کہا دونوں کے ایک سو بیس ہوئے۔ میں نے اسے ڈیڑھ سو روپے پکڑائے مجھے باقی پیسے گن کر دیتے ہوئے اس نے اچانک میری آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا آج آپ بینگن نہیں لیں گی۔ میں نے اس کے ٹھیلے کی طرف دیکھا آج وہاں بینگن نہیں تھے میں نے کہا تمہارے پاس تو بینگن ہیں ہی نہیں۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں کچھ خاص گاہکوں کی فرمائش پر ہی کبھی کبھی بینگن لاتا ہوں وہ بھی لمبے۔ آپ کو بینگن پسند ہے؟ وہ شرارتی انداز میں مسکرا رہا تھا میں نے باقی پیسے پکڑے اور بغیر کچھ کہے دروازہ بند کر دیا۔ مجھے اس سبزی والے لڑکے پر بہت غصہ آ رہا تھا میں سوچ رہی تھی کہ آخر کیا سوچ اس نے مجھ سے یہ بات کی وہ مجھے کیا سمجھ رہا ہے۔ باقی مجھے یہ تو یقین ہو گیا تھا کہ وہ بینگین اس نے جان بوجھ کر صرف میرے لیے ہی گرایا تھا کیونکہ جس دن میں نے اسکا گرایا ہوا بینگن اٹھایا تھا اس دن تو اس کے ٹھیلے پر بینگن تھے ہی نہیں حالانکہ اس نے مجھے خود کہا تھا کہ بے بی بینگن لے لو تازہ اور سخت ہیں۔ اسی لیے مجھے اس کی نیت کے بارے میں کچھ کچھ اندازہوتا جا رہا تھا۔ مگر مجھے وہ اچھا نہیں لگتا تھا وہ جس طرح میرے جسم کو دیکھتا تھا مجھے وہ انداز بہت گھٹیا اور گندا لگتا تھا مجھ سے بات کرتے ہوئے بھی اس کی نظریں میرے گول گول مموں پر یا میری جانگوں کے سنگم پر جہاں چوت ہوتی ہے گھورتی رہتی تھیں۔ وہ میری چوت کی طرف دیکھ کر اپنے ہونٹوں پر ایسے زبان پھیرتا تھا جیسے میری چوت کو چاٹنا چاہتا ہوں جیسا کہ میں نے پاپا کو ممی کی چوت چاٹتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کے بارے میں اس طرح کی باتیں سوچنے میں اس رات بہت گرم ہو رہی تھی اور رہی سہی کسر جب نکل گئی جب میں نے اسی رات دو بار پاپا کو ممی کی چوت اور گانڈ مارتے ہوئے دیکھا پہلی بار میں پہلے پاپا نے ممی کی چوت چاٹی اور پھر فوراً ہی ان کی چوت میں لن ڈال کر امی کی چوت کی ایسی پٹائی کی کہ امی کے ساتھ ساتھ میں بھی بے حال ہو گئی۔ مجھے بار بار بینگن سے کی گئی اپنی چدائی کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔ مجھے بینگن سے چدوانے کا خیال بہت مزا دے رہا تھا۔ چوت پر انگلیاں رگڑنے کی وجہ سے میری چوت لال سرخ وہ گئی تھی اور اس میں جلن شروع ہو گئی تھی۔ جب پاپا پہلی بار ممی کو چود کر لیٹے تو میں اپنے کمرے میں آ گئی کاشف بے ہوش ہو کر سو رہا تھا میں اپنی چارپائی پر لیٹ گئی میری چوت میں سے آگ سی نکل رہی تھی اور جلن الگ سے ہورہی تھی۔ مجھے تھوڑی پیاس محسوس ہوئی تو میں پانی پینے کچن کی طرف گئی۔ میں نے یونہی ٹھرک ٹھرک میں کمرے کے اندر جھانکا تو میں جس فلم کو ختم سمجھ کر یہاں سے چلی گئی تھی وہ ابھی تک چل رہی تھی اندر کمرے میں پاپا نے ممی کو بیڈ کے کنارے پر اسطرح لٹایا ہوا تھا کہ ممی کا سر بیڈ کے سرے سے باہر لٹک رہا تھا اور پاپا ان کو گردن سے پکڑ کر اپنا لمبا لوڑا ان کے مونہہ میں اسطرح گھسیڑ رہے تھے جیسے ان کی چوت یا گانڈ ہی ہو امی کا برا حال ہو رہا تھا مگر وہ ان کو حلق میں لوڑا ڈال کر چودے جا رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد پاپا نے ممی کو اسی جگہ پر گھوڑی بنا لیا اور ممی کے پیچھے کھڑے ہو کر لوڑا نہ جانے ان کے سورخ پر رکھا اور ایک زور دار گھسہ جو مارا تو ممی کی تو چیخ ہی نکل گئی جو کمرے سے باہر تک کلیر سنائی دی تھی۔ میں ڈر کر نیچے کو ہو گئی مگر ان دونوں کو اپنے علاوہ کسی کی بھی فکر نہیں لگتی تھی۔ ممی نے تکلیف میں ڈوبی مدہوش سی آواز میں کہا جانو لگتا ہے آج تمہارے لوڑے نے میری گانڈ پھاڑدی ہے مجھے بہت درد ہو رہا ہے۔ پاپا نے کہا فکر نہ کرو کافی دن بعد آج تمہاری گانڈ ماری ہے ناں اس لیے تمہاری گانڈ کو محسوس ہو رہا ہے ابھی دیکھنا تھوڑی دیر بعد تم کسی رنڈی کی طرح ہی میرے لوڑے پر اچھل اچھل کر اپنی گانڈ مرواو گی ممی نے مزے میں ڈوبی ہوئی سسکاری بھری اور کہا ہاں مجھے گانڈ مروانے میں بہت مزا آتا ہے مارو ناں میری گانڈ کسی رنڈی کی طرح میری گانڈ میں گھسوں کا ایسا طوفان لاؤ کہ یہ خود تمہارے لوڑے سے انتقام لینے کیلئے تمہارے لوڑے کو چودے۔ پاپا بہت زور و شور سے ممی کی گانڈ مار رہے تھے اور ممی بھی پیچھے کو گھسے مارتے ہوئے ان کے لوڑے کے جنون میں اضافہ کر رہی تھیں۔ میرا حلق خشک ہو چکا تھا کانٹے سے چبھ رہے تھے ممی کو پاپا سے اسطرح گانڈ مرواتے دیکھ کر وہاں بیٹھ کر یہ سب کچھ دیکھنا بہت مشکل ہو رہا تھا میری چوت میں جلن کی وجہ سے میں نے چوت کے پر شلوار کے اوپر سے ہی ہاتھ رکھا ہوا تھا اور دھیرے دھیرے اس کو محض سہلانے والے انداز میں سہلا رہی تھی۔ آخر میں اٹھی جلدی جلدی کچن میں گئی وہاں جا کر ٹھنڈا یخ پانی پیا تو جان میں جان سی آئی ٹھنڈے پانی کی ٹھنڈک مجھے اپنے سینے میں محسوس ہو رہی تھی مجھے رہ رہ کر اس بینگن اور سبزی والے کی چالاکی کا خیال آ رہا تھا۔ دو منٹ وہاں بیٹھنے کے بعد میں دوبارہ ممی کے کمرے کی کھڑکی کے پاس آ گئی میں بیٹھی ہی تھی کہ اس کے دس یا پندرہ سیکنڈ بعد پاپا نے ایک زور کا جھٹکا ممی گانڈ میں مارا ممی نے ایک بار پھر درد میں بھری سسکاری نما چیخ ماری اور پاپا وہیں رک گئے میں سمجھی پاپا کے لن نے ممی کی گانڈ میں اپنی منی انڈ یل دی ہے مگر ایکدم ممی سیدھی ھو گئیں انہوں نے ایک جھٹکے سے لوڑا اپنی گانڈ سے نکال دیا اور پاپا کو کھینچ کر بیڈ پر لٹایا اور ان کے لوڑے کو اپنی گانڈ کے سورخ پر رکھ کر پاپا سے کہا لو میری جان اگر ہمت ہے تو میری گانڈ کا انتقام بھی برداشت کرنا دیکھتی ہوں میری گانڈ تمہارے لوڑے کا ملک شیک نکالتی ہے کہ نہیں۔ اور ایک دم نے نیچے کو جو گھسا مارا تو میں یہ دیکھ کر حیران ہو گئی کہ اس بار چیخ پاپا کی نکلی تھی اور اب ممی نے پاپا کے لوڑے پر اپنی گانڈ کے انتامی گھسوں کی برسات کر دی ممی پاپا کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر ناقابل یقین انداز میں اچھل رہی تھیں ہر سیکنڈ میں دو گھسوں کے حساب سے وہ پاپا کے آٹھ انچ لمبے لوڑے پر اچھل رہی تھیں اور وہ اس کام میں اتنی ماہر تھیں کہ ہر گھسے پر لوڑا اتنا باہر آجاتا تھا کہ پاپا کے لوڑے کی ٹوپی نظر آنے لگتی تھی مگر دوسرے ہی لمحے اس موٹی ٹوپی سمیت پاپا کا پورے کا پورا لوڑا ممی کی گانڈ میں گم ہو جاتا تھا اور پھر سے ممی کیا گانڈ سے ایک لمبی سی چیز باہر آتی تھی اور ان گھسوں کی رفتار ان گھسوں سے بھی تیز تھی جس رفتارسے پاپا کے لوڑے نے ممی کی گانڈ ماری تھی مجھے لگ رہا تھا کہ واقعی ممی کی گانڈ پاپا کے لوڑے کو ہرا دے گی۔ ممی پاپا کے لوڑے پر اسی طرح پھدکے جا رہی تھیں کہ تھکنے کا نام تک نہیں تھا وہ تھوڑی دیر کے لیے رکتی تھیں مگر اس وقت بھی وہ پاپا کے لوڑے کو پورا گانڈ کے اندر فٹ کر کے اپنی گانڈ کو چکی والے انداز میں اسطرح گھماتی تھیں کہ خود ان کی بھی چیخیں نکل رہی تھیں۔ ممی نان سٹاپ سٹائل میں دس منٹ تک پاپا کے لوڑے کا جوس بناتی رہیں اور آخر کار پاپا بھی نیچے سے پھدکنے لگے نیچے سے پاپا گھسا مارتے تھے اور اوپر سے ممی درمیاں میں پہنچ کر ان دونوں کی ٹکر ہو جاتی تھی لوڑا پورا ممی کی گانڈ میں گم ہو جاتا تھا پاپا کے بڑے بڑے اور لٹکتے ہوئے ٹٹے اچھل اچھل کر ممی کی گانڈ پر ٹکرا رہے تھے جو مجھے بہت اچھے لگ رہے تھے۔ اور آخر کا اسی طرح پھدکتے اور اچھلتے ہوئے ممی کی گانڈ نے شاید پاپا کے لوڑے کو نچوڑ کر اس کا جوس نکال ہی دیا کیونکہ وہ دونوں ایک دم سے ہی بالکل رک گئے اور مکمل خاموشی جس میں صرف زور زور سے چلتی ہوئی سانسیں ہی سنائی دے رہی تھیں ممی پاپا کی بھی اور میری بھی۔ آج کی رات میرے لیے بہت زیادہ تھکان بھری تھی۔ اگلے ہی دن سکول سے واپسی پر ایک گلی میں مجھے وہی سبزی والا نظر آگیا آج بھی جہاں وہ کھڑا تھا وہ گلی سنسان تھی۔ میں اس سے نظریں چرا کر گزرنے لگی تو اسنے مجھے دھیرے سے آواز دی پلیز سنیے گا۔ میں مڑی اور کچھ غصے سے اسے دیکھتے ہوئے اس سے کہا کیا بات ہے۔ اس نے مجھے ایک چھوٹا سا لفافہ پکڑایا اور کہنے لگا یہ آپ کے کام کی چیز ہے پلیز اس کو رکھ لیں میں نے وہ لفافہ تھوڑا سا کھول کر دیکھا تو اس میں ایک لمبا بینگن تھا جو پہلے والے سے تھوڑا پتلا اور لمبا تھا۔ میں نے غصے سے اسے دیکھتے ہوئے کہا یہ کیا بدتمیزی ہے اور لفافہ واپس اس کے ٹھیلے پر رکھ دیا۔ اس نے لفافے کو دیکھتے ہوئے کہا اس دن بھی تو آپ میرا بینگن چوری کر کے لے گئی تھیں حالانکہ آپ کا حق بنتا تھا کہ آپ وہ اٹھا کر مجھے دے دیتیں کہ یہ آپ کے ٹھیلے سے گر گیا تھا۔ میں نے غصے سے جواب میں تمہارا مونہہ توڑ دوں دی میں نے کوئی بینگین نہیں اٹھایا تھا تو اس نے ڈیٹھ بن کر کہا مگر میں نے خود دیکھا تھا کہ آپ نے بڑی ہوشیاری سے اس کو اپنے بیگ میں چھپا لیا تھا۔ اب آپ خود ہی بتائیں کہ جوانی کے جوش سے بھرپور ایک لڑکی چپکے سے کہیں سے صرف ایک لمبا بینگن چوری کر لے تو اس کا کیا مطلب ہے یہ ہر ہوش مند انسان جانتا ہے۔ مگر کوئی بات نہیں میں ایک دوست سمجھتے ہوئے آپ کی مدد کرنا چاہ رہا تھا۔ مجھے اس سے ایسی باتیں کرتے ہوئے اس پر غصہ بھی آ رہا تھا اور اندر ہی اندر مجھے مزا بھی آرہا تھا۔ میں نے مصنوعی غصے سے کہا آخر تم مجھ سے چاہتے کیا ہو؟ یہ سن کر وہ تھوڑا سا فری ہونے والے بڑے گندے سے انداز میں میری چوت کی جانب دیکھتے ہوئے بولا مجھے لگتا ہے کہ وہ بینگن تھوڑا موٹا تھا کیونکہ اس کے دوسرے دن آپ تھوڑا مشکل سے چل پا رہی تھیں۔ اس بار میں آپ کے سائز کے مطابق تھوڑا پتلا مگر لمبا بینگین لایا ہوں آپ پلیز یہ رکھ لیں اور ہاں اس لفافے میں کچھ کنڈوم بھی ہیں پہلے دو کنڈوم بینگن پر چڑھانا اور پیچھے سے گانٹھ مار لینا اس طرح بینگن کے ٹوٹ کر اندر رہ جانے کا خطرہ نہیں رہتا۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ بینگن لمبا اور بتلا ہے اس لیے اگر اندر ٹوٹ گیا تو اچھا نہیں ہو گا ڈاکٹرکے پاس جا کر اس سے اس کو نکلوانے میں آپ کو پرابلمز بھی ہو سکتی ہیں۔ اسے نے شاطرانہ سے انداز میں کہا مجھے آپ کی عزت کی فکر ہے۔ پلیز جلدی اس کو بیگ میں رکھ لیں کوئی دیکھ لے گا تو مناسب نہیں ہو گا۔ آپ تسلی رکھیں یہ بات ہم دونوں کے درمیان ہی رہے گی۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا اور پتا نہیں مجھے اس وقت کیا ہوا مجھے اس کی بات یاد آئی کہ اس بار میں تھوڑا بینگین لایا ہوں آپ کے سائز کے مطابق کسی خیال کے تحت اس لفافے کو جلدی سے بیگ میں چھپا لیا اور اس سبزی والے کو گھور تے ہوئے اس سے کہا کہ آج کے بعد مجھے روک کر بات کرنے کی کوشش کی تو تمہارے لیے اچھا نہیں ہو گا اور وہاں سے چلی آئی۔ ہم کافی دیر سے باتیں کر رہے تھے اور باتیں کرتے ہوئے وہ کبھی مجھے چوم لیتی تھی کبھی میرے دودھوں سے کھیلنا شروع کر دیتی تھی میں اس کے مونہہ سے یہ ساری باتیں سن کر بہت حیران ہو رہی تھی میرے لیے یہ سب کچھ بالکل نیا بھی تھا اور جسطرح پے درپے یہ واقعات رونما ہو رہے تھے تو یہ دن میری زندگی کا ایک موڑ بننے والے تھے جس کے بعد میری زندگی میری سوچ میری ضرورتیں میرے احساسات سب کچھ بالکل بدل گئے اسی طرح ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ کرتے اورکبھی میری چوت اور کبھی ارم کی چوت کو سہلاتے ہوئے اور باتیں کرتے ہوئے ہم دونوں جب سوئیں تو صبح کے چار بج چکے تھے۔ اور صبح سکول سے بھی چھٹی تھی۔ دن دس بجے کے قریب مجھے ارم نے آکر اٹھا وہ بھی اسطرح کےمیرے اوپر بیٹھ کر اس نے دونوں ہاتھوں میں میرا چہرہ لے کر ہونٹوں کو جو چوسا تو میں چونک کر اٹھ گئی اور اسطرح اسکی ناک پر چوٹ بھی لگ گئی وہ ایک دم سے پیچھے ہٹ گئی اسے اچھی خاصی چوٹ لگ گئی تھی۔ مگر یہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی کہ وہ اسوقت بالکل ننگی تھی پہلے میں نے دروازے کی طرف دیکھا جو بند تھا پھر میں نے دیوار پر گھڑی میں ٹائم دیکھا تو دس بجکر پندرہ منٹ ہوئے تھے۔ اس نے بتایا کہ چل جلدی سے اٹھ جلدی جلدی نہا کر تیار ہونا ہے کوئی مہمان آ رہا ہے۔ وہ اسی طرح مجھے کھینچ کر باتھ روم میں لے گئی میری آنکھیں اب بھی بند ہو رہی تھیں اور وہ تھی کہ اسکی آنکھوں میں نیند کا نام ونشان تک نہیں تھا حالانکہ رات کو ہم دونوں ساتھ ساتھ ہی سوئے تھے اس نے دیکھا میں کپڑے اتارنے کی بجائے ڈھیلی ڈھیلی سی شاور کے نیچے کھڑی ہوں تو اس نے میرے کپڑے اتارنے کا بھی انتظار نہیں کیا اور شاور چلا دیا وہ شاید ابھی ابھی نہا کر فارغ ہوئی تھی کیونکہ اس کے بال ابھی بھی تھوڑے گیلے تھے وہ بہت جلدی میں تھی۔ اور بہت خوش بھی لگ رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے تو بہت خوش لگ رہی ہے آج۔ اس نے کہا ہاں میں نے تجھے کسی سے ملوانا ہے میں نے کہا کس سے؟ تو اس نے کہا عمران سے۔ میں حیران ہو گئی اور پوچھا وہ کیسے تو اس نے چٹکی بجائی اور کہا ایسے میں نے اپنے گیلے کپڑے اتارنا شروع کر دئے تاکہ ٹھیک سے نہا لوں ارم نے کہا کہ امی جانے لگیں تو میں نے ان کو کہا تھا کہ امی آپ نے شام کو واپس آنا ہے تو آپ عمران بھائی کو کہیں ناں کہ وہ ہمارے پاس آ جائیں ہمیں کپنی بھی دے دیں اور ہم ان سے کچھ نوٹس بھی لے لیں گے سکول ٹیسٹ کیلئے تو امی نے خالہ نورین کو فون کیا کہ بچیاں گھر میں اکیلی ہیں تم عمران کو بھیج دینا وہ بہنوں کا خیال رکھے گا۔ اور یہ کہہ کر وہ کھکھلا کر ہنس دی اور میں بھی اس کے ساتھ ہی ہنس پڑی اچانک ڈوربیل بجی تو ارم کی آنکھوں میں ایک چمک سی ابھری اور اس نے کہا شیطان کا نام لیا ور شیطان حاظر وہ ننگی ہی باتھ روم سے باہر بھاگی میں بھی ایک تولیہ کھینچ کر اسکو اپنے جسم پر لپیٹتی ہوئی باتھ روم سے نکلی ارم کے کمرے کے دروازے پر رک کر میں نے دروازے کی آڑ کے میں گیٹ کی طرف دیکھا ارم نے دروازے کے قریب جا کر دھیرے سے پوچھا کون دوسری طرف سے پتا نہیں کس نے کیا کہا ارم نے پھر پوچھا کون کون آیا ہے اس بار مجھے ہلکی سی آواز آئی میں ہی ہوں۔ ارم نے گیٹ کی آڑ میں ہوکر دروازہ کھولا تو ایک ہینڈسم سا اٹھارہ یا انیس سال کا لڑکا گیٹ کے اندر داخل ہوا ارم نے فوراً دروازہ اندر سے بند کر کے لاک کر دیا اور اسی طرح ننگے بدن سے ہی اس سے لپٹ گئی اور دونوں ایک دوسرے کو دیوانہ وار چومنے لگے وہ الگ ہوئے تو میں دروازے کے پاس سے ہٹ کر بھاگتی ہوئی باتھ روم کی جانب بڑھی تو پیچھے سے ارم کی آواز آئی ارم میں مہمان کو لےکر ممی کے کمرے میں جا رہی ہوں تمہارے کپڑے میں نے استری کر کے ہینگر کر دئے ہیں تم نہا لو تو چینج کر کے زرا کچن میں نظر مار لینا۔ میں تقریباً نہا ہی چکی تھی میں نے کپڑے چینچ کئے اور جیسا کہ ارم نے کہا تھا کہ تم کچن میں دیکھ لینا میں کچن میں بڑھی تو کمرے میں سے ارم کی بلند آواز میں سسکاریاں سنائی دیں اور میں وہیں ٹھٹک کر رک گئی۔ مجھے یاد آیا اس کمرے میں تو ایک کیمرہ لگا ہوا ہے اور میں چپکے سے اس کیمرے (کھلی ہوئی کھڑکی) کے سامنے بیٹھ گئی کھڑکی پہلے ہی اتنی کھلی ہوئی تھی کہ بیڈ پر ہونے والی تمام حرکات وہاں سے بخوبی دیکھی جا سکیں۔ کمرے میں وہی رات والے مناظر چل رہے تھے بس فرق اتنا تھا کہ ارم کی ممی کی جگہ ارم تھی اور انکل کی جگہ عمران۔ عمران گورا چٹا لڑکا تھا اسکا جسم بھی خوبصورت تھا مگر اسکا لوڑا ارم کے پاپا کے جتنا لمبا نہیں تھا۔ اس نھے ارم کی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھی ہوئی تھیں اور ارم کو کندھوں سے پکڑ کر اسکو چود رہا تھا اور ارم تکلیف سے چیخ رہی تھی آہ آہ آہ ہائے عمران میری چوت پھاڑ دو اپنے اس لن سے میری چوت کا بھرکس نکال دو میری چوت بہت دن کی پیاسی ہے یہ تمہارے لوڑے کی دیوانی ہے ہاں عمران میری پھدی کے سوراخ میں مجھے تمہارے لوڑے کی رگڑ محسوس ہو رہی ہے اور زور زورسے مارو میری پھدی میں اور میری پھدی دنوں تم سے اور تمہارے اس جاندار لوڑے سے پیار کرتی ہے آہ آہ آہ آہ ۔ ۔ عمران تیرے یہ لٹکتے ہوئے نرم نرم ٹٹے میری گانڈ کو چومتے ہیں تو میری گانڈ میں تیرے لوڑے کی طلب اور بڑھتی ہے۔ عمران بھی مست ہو کر ایک ردھم میں اسکی چوت پر گھسے لگا رہا تھا اچانک ارم نے میری طرف دیکھا ساتھ ہی اس نے عمران کے کان میں ناں جانے کیا کہا کہ عمران نے بھی ایک دم سے مڑ کر میری طرف دیکھا ان دونوں کی نظریں ایک ساتھ مجھ سے ملیں میں ایک دم سے پیچھے کو ہو گئی تھوڑی دیر بعد میں نے کمرے میں جھانکا تو عمران بیڈ پر سیدھا لیٹا ہوا تھا اور اسکا تنا ہوا لن آسمان کی طرف مونہہ کر کے کھڑا تھا۔ جیسے ہی میں نے اندر دکھا کسی نے میری گردن پکڑ لی میں چونک گئی پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ ارم تھی جو عمران سے چدوانا چھوڑ کر اب میری گردن پکڑے کھڑی تھی اس کی سانس ابھی بھی عمران کی چدائی کی وجہ سے زور زورسے چل رہی تھی۔ اس نے بغیر کچھ بولے مجھے گردن سے پکڑے پکڑے کمرے میں دھکیل دیا اور مجھے کہنے لگی چل یہاں آرام سے سوفہ پر یا یہاں ہمارے پاس بیڈ پر ہی بیٹھ جا اور پھر دیکھ میں جھجھکتے ہوئے صوفے کی طرف بڑھی تو اس نے بازو پکڑ کر مجھے روک لیا اور میرا مونہہ عمران کی طرف کر کے بولی میٹ مائی فرسٹ کزن اینڈ بیسٹ فرینڈ عمران۔ میں نے تمہیں بتا یا تھا ناں۔ اور عمران یہ ہے میری بیسٹ ایور فرینڈ نوشی۔ یہ کچھ دن اور میرے ساتھ یہاں ہے اس کی فیملی کراچی گئی ہوئی ہے۔ کیونکہ عمران بالکل ننگا لیٹا ہوا تھا اسلیے میں اسکی طرف دیکھتے ہوئے تھوڑا ہچکچا رہی تھی۔ وہ مجھے لے کر بیڈ پر عمران کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگی تم کوئی بات کرنا چاہتی ہو عمران سے۔ میں خاموش رہی تو عمران بولا نوشی پلیز آپ اسطرح شرمانا چھوڑ دیں ہم سب بیسٹ فرینڈز ہیں اور بس ایک دوسرے کی کمپنی کو انجوائے کر رہے ہیں۔ ارم نے کہا کوئی بات نہیں عمران نوشی بہت اچھی اور سمجھدار لڑکی ہے تم اس کو دیکھنے دو آؤ ہم دونوں تو پیار کریں۔ پھر وہ عمران کے اوپر گھوڑی بن گئی جس کی وجہ سے ارم کی چوت عمران کے مونہہ پر آ گئی اور ارم کا مونہہ عمران کے لوڑے کے اوپر۔ ارم نے عمران کے لوڑے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور میرے طرف دیکھ کر مسکرات ہوئے اس کے لوڑے کی ٹوپی کو چاٹنے لگی۔ کبھی وہ ٹوپی کو چوستی کبھی اس کے کناروں کو دانتوں سے کاٹتی اور لوڑے کو چاٹتے ہوئے میری طرف بڑی مستی بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی عمران کا لن اب مکمل تن چکا تھا میں پہلی بار کسی لوڑے کو اتنے قریب سے دیکھ رہی تھی اور عمران کا لوڑا تھا بھی بہت فئیر اور خوبصورت اس کی پھولی ہوئی ٹوپی اور لوڑے کے اوپر ابھری ہوئی موٹی موٹی نسیں میری چوت میں کھجلی کر رہی تھیں میں نے ابھی تک لوڑے کا مزا نہیں لیا تھا مگر جسطرح میں نے بلیو فلموں میں دیکھا تھا اور جیسے ارم کی ممی (نازیہ آنٹی )اور ارم کے پاپا (انکل اشرف) کی چدائی دیکھی تھی تو مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ صرف ایک اکڑا ہوا لمبا اور موٹا لوڑا ہی کسی لڑکی یا عورت کی چوت کی آگ کو ٹھنڈا کر سکتا ہے اور مجھے بھی اپنی چوت میں کوئی لوڑا لینے کی طلب محسوس ہو رہی تھی کہ وہ کون سا مزا ہے جسکی خاطر نازیہ آنٹی تکلیف کے باوجود بھی اشرف انکل کے لوڑے سے اپنی چوت کا بھرتہ بنواتی ہیں یا وہ کون سا مزا ہے جسکی خاطر چھوٹی چھوٹی سی لڑکیوں کو میں نے حبشیوں کے کالے اور لمبے لوڑوں سے چدتے اور تڑپتے دیکھا تھا۔ ارم میری طرف دیکھ رہی تھی اور عمران کا خوبصورت لوڑا مزے لے لے کر چوس رہی تھی۔ میری چوت میں بھی کلبلاہٹ ہو رہی تھی جسکی وجہ سے میرے چھوٹے چھوٹے نپل تن کر سخت ہو گئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ارم اٹھی اور خود نیچے اسطرح لیٹ گئی کہ اسکی چوت بالکل میرے سامنے تھی پھر اس نے کہا عمران آؤ اب میری چوت کو چاٹو میری جان وہ چاٹنے لگا تو اس نے اس کو روک دیا اور کہا اسطرح چاٹو کہ یہ سب کچھ نوشی کو بھی نظر آئے عمران شاید سمجھ گیا اس نے ارم کی گانڈ پکڑ کر اسکی چوت کا رخ تھوڑا سا میری طرف کیا اور پھر سائیڈ کو ہو کر اسطرح ارم کی پھدی پر اپنے ہنوٹوں سے پیار کی مہریں لگانے لگا کہ جب اسکے ہونٹ پھدی کو چوم کر پیچھے ہٹتے تھےتو چوت کی نازک جلد عمران کے ہونٹوں سے چپک جاتی تھی عمران اپنی زبان کی نوک سے ارم کی چوت کے دانے کو مسلسل چھیڑ رہا تھا ارم نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور اسکے سر کو اپنی چوت کی جانب دبا رہی تھی تاکہ وہ زور زور سے اسکی چوت کو چاٹے ارم مسلسل سسکاریاں لے رہی تھی اور مستی بھری نگاہوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی میری ہمت اب جواب دے رہی تھی اپنے سامنے ایک سیکسی جسم کے مرد اور ایک ننگی لڑکی کو دیکھ کر مجھے اپنے جسم پر موجود کپڑے اچھے نہیں لگ رہے تھے مگر کچھ جھجھک تھی جو میں خاموش بیٹھی تھی مگر میری سانسیں اب بے ترتیب ہو رہی تھیں ارم نھے میری طرف ہاتھ بڑھا کر مجھے اتنے پیار سے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا کہ میں اسکے پاس کو ہو گئی اس نے میری گردن پر ہاتھ رکھا اور میرا چہرہ اپنی جانب کھینچ کر اپنے ہونٹ میرے سلگتے ہوئے ہونٹوں پر رکھ دیے اس کے ہونٹوں کی گرمی نےمجھےبھی بے قابو کر دیا میں بھی اسکا ساتھ دینے لگی ارم نے اپنا ایک ہاتھ میری قمیض کے اندر کر کے میرے ممے سہلانا شروع کر دیا میں نے فوم والا بریزیئرپہنا ہوا تھا جس کی وجہ سے ارم کے ہاتھوں کو شاید مزا نہیں آرہا تھا وہ میرے بریزیئر میں ہاتھ ڈالنے لگی تو میری سینے پر اتفاق سے چٹکی کاٹی گئی میری سسکاری نکل گئی۔ ارم نے دیکھا تو کہنے لگی نوشی شرماؤ مت یار عمران اور میں بھی تو ننگے ہیں اتار دو ناں یار تم بھی یہ کپڑے میرا دل کر رہا ہے کہ جیسےعمران مجھے پیار کر رہا ہے میں بھی تمہیں پیار کروں۔ میں تھوڑا جھجکی تو ارم نے کہا رکو اسطرح تمہاری شرم کم نہیں ہو گی اب جیسے میں کہوں تم نے ویسے کرنا ہے ورنہ میں تم سے ناراض ہو جاؤں گی سمجھی تم۔ میں خاموش ہو گئ۔ ارم نے کہا میرے زہن میں ایک طریقہ ہے تمہاری جھجھک ختم کرنے کا لیکن یہ میں تب ہی کروں گی جب تم چاہو گی۔ تو بتاؤ کیا تم چاہتی ہو کہ تمہاری جھجھک ختم ہو جائے اور تم بھی ہماری طرح ہی انجوائے کرو میں پھر بھی چپ رہی اور نیچے نظریں کیے بیٹھی رہی۔ اس نے کہا اچھا مت بولو لیکن اگر تمہیں یہ منظور ہے تو اپنی آنکھیں بند کر لو اور جب تک میں نہ کہوں آنکھیں مت کھولنا اور جیسا میں کہوں ویسا کرنا۔ میں نے کچھ کہے بغیر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ارم کی خوشی بھری آواز سنائی دی گڈ گرل۔۔! پھر اس نے عمران کو کہا کہ آگے بڑھے اور ایک ایک کر کے نوشی کے سارے کپڑے اتار کر اسے ننگا کرو۔ میں چونک گئی مگر آنکھیں نہ کھولنےکا وعدہ کیا تھا اسلیئے آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی۔ مجھے اپنے مموں پر پیچھے سے آنے والے دو ہاتھ محسوس ہوئے اور میرے پیچھے سے ہی عمران کی آواز آئی واہ ارم تمہاری سہیلی کے ممے تم جتنے بڑے تو نہیں ہیں مگر بہت نرم ملائم اور سیکسی ہیں پھر ان ہاتھوں نے میری قمیض اوپر کی طرف کھینچی تو میں نے اپنے ہاتھ اوپر کی جانب اٹھا دیے جو رضامندی کا اشارہ تھاپھر اس نے میرے بریزئیر کے ہک کھولے اور اس کو بھی اتار دیا میرے مموں پر مجھے دو ہاتھ اور محسوس ہوئے جو ارم کے تھے ارم نے عمران کو مجھے کس کرنے کو کہا عمران کے ہونٹ مجھے اہنے ہونٹوں پر محسوس ہوئےتو میں پھڑک سی گئی ایسا سرور میری روح میں اتر گیا میں جو بتا نہیں سکتی اس نے میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیے اور چوسنے لگ گیا ارم میرے ممے چوس رہی تھی اور عمران میرے ہونٹ چوس رہا تھا میں نے بھی مزا لینا کا سوچا اور عمران کو اپنی بانہوں میں لے کر اس کا ساتھ دینے لگی ساتھ ساتھ ارم میرے مموں کوچوس رہی تھی جسکی وجہ سے میرے جذبات بہت جلدی بےقابو ہو رہے تھے اور ان دنوں ارم اور میں جن کاموں میں لگے ہوئے تھے میرے ذہن میں ہر وقت سیکس ہی بھرا رہتا تھا کیونکہ ارم کے ساتھ ان چند دنوں میں میں نے زندگی کا جو مزا چکھا تھا وہ میرے لیے بالکل نیا اور بہت خوشگوار تجربہ تھا اور مجھے لگتا تھا کہ میں اب سیکس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی۔ تھوڑی ہی دیر بعد ارم نے میری شلوار بھی اتار دی اور مجھے بیڈ پر لیٹنے کا اشارہ کیا اس کی نظریں میری چوت کی طرف تھیں۔ مگر جیسے ہی میں بیڈ پر لیٹی اس نے میری ٹانگیں کھول کر عمران کو اشارہ کیا کہ میری پھدی چاٹے عمران نے ارم کے پاس آکر اس کے ہونٹوں پر کس کرنی شروع کر دی اور ارم اسکا تنا ہو ا لوڑا اپنے ہاتھوں میں لے کر اس سے کھیلنے لگی میرا ایک ہاتھ اپنی چوت پر اور دوسرامموں پر تھا پھر ارم میرے قریب آئی اور کہنے لگی نوشی دیکھنا آج تمہیں کتنا مزا آئے کا جب ایک مرد تمہاری کنواری پھدی کو چاٹے گا۔ عمران بیڈ پر میری ٹانگوں کے درمیان آ کر بیٹھ گیا اور میری ٹانگیں کھول کر میری چوت کو دیکھا تو اسکے مونہہ سے بے ساختہ نکلا بیوٹی فل بہت پیاری چوت ہے تمہاری سہیلی کی ارم تمہیں یقین ہے کہ اسکی چوت میرا لوڑا برداشت کر لے گی اور کوئی مسئلہ نہیں بنے گا۔ یہ کہتے ہی اس نے میری گلابی پھدی کے ہونٹوں کوہلکے سے چوم لیا میرے بدن میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا جب اسکے ہونٹ میری چوت پر لگے تو میری آنکھیں مزے سے بند ہو گئیں عمران نے میرے گلابی رنگ کے دانے کو اپنے گرم گرم ہونٹوں میں لے کر چوسا تو میں مست سی ہو گئی۔ مزے سے میرے مونہہ سے سسکاریں نکل رہی تھیں آہ ۔ آہ ۔ آہ ۔ عمران پورے مزے سے میری چوت کے ہونٹو ں کو چوس اور چاٹ رہا تھا اور مجھے جو مزا مل رہا تھا وہ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔ تھوڑی دیر بعد میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ارم بھی بیڈ پر لیٹی ہوئی عمران کا لوڑا چوس رہی تھی اور ایک ہاتھ سے اسکے بڑے بڑے اور گلابی رنگ کے ٹٹوں سے کھیل رہی تھی۔ اور عمران میری چوت کو چاٹنے کے ساتھ ساتھ اس کے مونہہ میں ہی اپنے لوڑے سے اسطرح گھسے مار رہا تھا جیسے وہ ارم کی چوت ہو۔ تھوڑی دیر بعد ارم نے عمران کا لوڑا پنے مونہہ سے نکالا اور عمران کو کہا کہ وہ اوپر سے آکر میری چوت چاٹے عمران سمجھ گیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے مگر میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ عمران کو کس پوزیشن کا کہہ رہی ہے عمران گھوم کر میرے اوپر آیا تو اسکا لوڑا میرے نرم نرم گالوں سے ٹکرایا میں نے پہلی بار عمران کے لوڑے کو اتنے قریب سے دیکھا تھا اور وہ مجھے بہت پیارا لگا میں نے اسکو ہاتھ میں لیا اور اسکے ٹوپے کو چوم لیا عمران پھر سے میری چوت پر اپنی ذبان رگڑنے لگا ارم میرے پاس آئی اور عمران کا لن پکڑ کر میرے چہرے پر پھیرنے لگی جب اس نے لوڑے کی ٹوپی میرے ہونٹوں کے قریب کی تو میں نے اپنے ہونٹ کھول کر لوڑے کی ٹوپی کو اپنے مونہہ میں لے لیا میرے ذہن میں نازیہ آنٹی آ گئیں انکو بھی میں نے اسطرح اشرف انکل کا لوڑا چوستے ہوئے دیکھا تھا۔ میں نے عمران کو لوڑے کو چوسنا شروع کر دیا مجھے بہت مزا آرہا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد نہ جانے کیا ہوا کہ عمران کے لوڑے میں نمکین سا کچھ گاڑھا گاڑھا سا لیس دار مادہ سا نکلا ۔ میں لوڑے کو باہر نکالنا چاہ رہی تھی مگر عمران کا لوڑا چوسنے میں مجھے ایسا مزا آرہا تھا کہ میں نے اسکے لوڑے کو مونہہ سے نہیں نکالا اور اسکا وہ لیس دار مادہ اندر ہی اندر نگل گئی ۔ اچانک ارم نے مجھ سے پوچھا ۔ نوشی تو کیسا محسوس کر رہی ہے ۔ میں نے کہا بہت مزا آرہا ہے ارم میرا تو دل کر رہا ہے کہ ہم تینوں بس ایسے ہی ایک دوسرے کو پیار کرتے رہیں اور بس یہ سب کچھ کبھی نہ رکے۔ میری بات سن کر ارم ہنس دی اور عمران کو کہنے لگی عمران مجھے لگتا ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ میری جان میری بیسٹ فرینڈ بھی تمہارے لوڑے کا مزا لوٹے کیا تم اسکی کنواری چوت میں اپنا یہ اکڑا ہو لوڑا ڈالنا نہیں چاہتے۔ عمران نے کہا ارم تمہاری کزن کی چوت اتنی پیاری اور مزے کی ہے کہ میرا دل نہیں کر رہا کہ اسکی اس نرم گلابی اور کنواری چوت سے اپنے ہونٹ ہٹاؤں۔ یہ کہتے ہوئے وہ سیدھا کھڑا ہو گیا اور مجھے بیڈ کے کنارے پر لیٹنے کو کہا مجھے سمجھ آگئی کہ کیسے لیٹنا ہے تو جیسے میں نے اشرف انکل کے کہنے پر نازیہ آنٹی کو بیڈ کے کنارے پر لیٹتے دیکھا تھا ویسے ہی میں اپنی ٹانگیں کھول کر بیڈ کے کنارے پر لیٹ گئی۔ عمران کا لن بہت تنا ہوا تھا مجھے تھوڑا ڈر بھی لگ رہا تھا مگر اسکا لوڑا بینگن سے تھوڑا سی ہی موٹا تھا ۔ عمران نے آگئے بڑھ کر اپنے لہراتے ہوئے لوڑے کو میری چھوٹی سی پھدی کے اوپر رکھ دیا۔ اور میرے ممے پکڑتے ہوئے مجھ سے کہا نوشی کیا میں لن کو اندر کروں ۔ میں نے دھیرے سے کہا ۔ ہاں کرو۔ اور پنی آنکھیں بند کر لیں۔ عمران نے اپنے لن میں سے نکلنے والے لیس دار سے مادے کو میری چوت پر ملا اور دھیرے دھیرے لن کے ٹوپے کو میری پھدی کے ہونٹوں پر پھیرنے لگا۔ اچانک مجھے کچھ محسوس ہوا تو میں نے آنکھیں کھولیں ارم میرے چہرے کے اوپر آکر اسطرح بیتھ گئی تھی کہ اسکی پھدی میرے ہونٹوں کے بالکل قریب آگئی اور مجھے اسکی پھدی کی خوشبو بھی محسوس ہو رہی تھی عمران نے اپنے لن کا ٹوپا میری پھدی کے ہونٹوں پر رکھا اور ہلکا س دبایا تو اسکا لن چوت کے ہونٹوں کو کھولتا ہوا اندر دھنسنا شروع ہو گیا ہلکی ہلکی تکلیف ہو رہی تھی مگر درد برداشت کے قابل تھا۔ لوڑا اندر جانا شروع ہوا تو ارم نے اپنی چوت تھوڑی کو نیچے کو کی تو وہ میرے ہونٹوں سے ٹچ ہونے لگی اسنے چوت کو میرے ہونٹوں پر مسلنا شروع کر دیا میں نے اب اسکی چوت کو چاٹنا شروع کر دیا اور عمران کا لوڑا دھیرے دھیرے میری پھدی میں گھستا جا رہا تھا اور لڑکی مزے سے مست ہوئی جا رہی تھی اس طرح اس نے

 ختم

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے