سیکس کی خواہش نہ ہو تو عورت کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟



 

سیکس کی خواہش نہ ہو تو عورت کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟

ہنستی کھلکھلاتی اور سٹائلش کپڑے پہننے والی سندھیا اپنی عمر 40 برس بتاتی ہیں۔ اس بات پر پہلی بار میں تو یقین بھی نہیں ہوتا کیونکہ وہ دیکھنے میں اپنی عمر سے بہت کم لگتی ہیں۔

تو اس پر ہم اُن سے پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ ’آپ تو مشکل سے 30 کی لگتی ہیں، 40 برس کی بالکل بھی نہیں۔ اس کا راز کیا ہے؟

سندھیا مسکراتے ہوئے اس کا جواب دیتی ہیں۔ ’راز یہ ہے کہ نو بوائے فرینڈ، نو ہسبینڈ، نو فیملی اور نو فکر.‘

سندھیا بنسل ایک نامور کپمنی میں مارکیٹنگ پروفیشنل ہیں اور دلی کے ایک نواحی علاقے میں کرائے کے فلیٹ میں رہتی ہیں۔

اکیلے وہ اس لیے رہتی ہیں کیونکہ وہ خود کو ’اے سیکشوئل‘ بتاتی ہیں۔ انھوں نے شادی نہیں کی اور فیملی یا خاندان سے متعلق ان کے خیالات کافی مختلف ہیں۔

شادی نہ کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا‘

سندھیا بتاتی ہیں ’میری چھوٹی بہن کی بھی شادی ہوگئی ہے اس لیے مجھ پر شادی کرنے کا دباؤ زیادہ ہے۔ لیکن میں نے اب لوگوں کی نصیحت اور طعنوں کو سننا بند کردیا ہے۔‘

’میں اکیلی رہتی ہوں اور خود مختار ہوں۔ میں اکیلے لنچ اور ڈنر کرنے جاتی ہوں۔ اکیلے شوپنگ کے لیے جاتی ہوں۔ یہاں تک کہ بیمار ہونے پرکئی بار ڈاکٹر کے پاس میں بھی اکیلے ہی جاتی ہوں۔ مجھے ایسا نہیں لگتا کہ شادی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ میرے خیال سے زندگی کی سب سے بڑی ضروریات ہیں اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی آزادی اور ذہنی سکون۔‘

ان کے دفتر میں اور آس پاس کے لوگوں کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟اس بارے میں سندھیا بتاتی ہیں ’لوگوں کو یقین نہیں ہوتا کہ میں 40 برس کی عمر میں سنگل ہوں اور کسی کے ساتھ رشتے میں بھی نہیں ہوں۔ انھیں لگتا ہے کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں۔ میرے کئے پارٹنر ہوں گے یا پھر مجھے کوئی بیماری ہے۔ لوگ میرے بارے میں باتیں کرتے ہیں لیکن اب میں ان کی باتوں پر دھیان نہیں دیتی ہوں۔‘

’میرے دوست بہت اچھے ہیں لیکن وہ بھی مجھے جیسی ہوں ویسے قبول نہیں کر پاتے۔ وہ میرے لیے فکرمند ہیں اور اکثر مجھے ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن میں ڈاکٹر کے پاس نہیں جاؤں گی کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میرے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

سماج کا ایک طبقہ ایسا ہے جسے یہ لگتا ہے کہ اگر ہم جنس، ٹرانس یا اے سیکشوئل افراد کے رشتوں کو قبولیت حاصل تو خاندان کا روایتی ڈھانچہ ہل جائے گا۔

اس بارے میں سندھیا کا کہنا ہے ’میں آپ کو بہت ہی آسان زبان میں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔ کسی بھی باغیچے میں ایک ہی رنگ کے پھول نہیں ہوتے۔ کوئی سرخ رنگ کا ہوتا ہے، کوئی زرد کوئی جامنی رنگ کا۔ اس لیے ہی باغیچہ خوبصورت لگتا ہے۔ اس طرح سے ہی مختلف طرح کے لوگوں سے ہماری دنیا خوبصورت بنتی ہے۔‘

سندھیا کہتی ہیں کہ دنیا کی آبادی اتنی بڑی ہے اور اس میں بعض لوگ شادی کرکے روایتی طور پر گھر نہیں بساتے ہیں اور بچے پیدا نہیں کرتے ہیں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے