مرتے دم تک
تحریر: ماہر جی
چھٹی قسط
صبا نے آنکھیں بند کر لیں اور آہستہ آہستہ اپنی گانڈ کو ہلانے
لگی۔۔۔ مستی سے۔۔۔ اورابھی کچھ دیر پہلے ہوئی ساری بات اسکے دماغ سے جیسے نکل گئی
تھی۔۔۔ بس دھیان تھا تو اپنی گانڈ پر حرکت کرتی ہوئی میجر کی اسٹک کے فلائپر کا جو
اسے نئی ہی دنیا میں لیے جا رہی تھی۔۔۔ فلائپر نیچے کو آیا۔۔۔ اسکی گانڈ سے
نیچے۔۔۔ دونوں رانوں کے درمیان اور پھر اسی فلائپر سے میجر نے صبا کی پھدی کو
چھواتو۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔ صبا کے پورے جسم نے ایک جھر جھری سی لی اور اسکی پھدی
کے پانی کے نکلنے کے آگے جو بند بندھے تھے وہ ٹوٹنے لگے۔۔۔ تھوڑا تھوڑا پانی رسنے
لگا اسکی پھدی سے باہر کو۔۔۔ اسکی پھدی کو تھوڑی دیر تک چھیڑ چھاڑ کرنے کے بعد
فلائپر واپس صبا کی گانڈ پر آیا۔۔۔ صبا کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔ لذت کے مارے۔۔۔ اور
پھر ایکدم سے وہ چیخ اٹھی۔۔۔ آآآووووچ چ چ چ چ چ چ ۔۔۔
میجر نے ایکدم سے اپنی اسٹک کو لہرا کر اسکا آگے لگا ہوا فلائپر
زور سے صبا کی گوری گوری گانڈ پر مار دیا تھا۔۔۔ جو کہ اسکی نازک سی گانڈ پر سرخ
نشان چھوڑ گیا تھا۔۔۔ صبا نے چونک کر پیچھے کو دیکھا لیکن بولی کچھ نہیں۔۔۔ میجر
اسے دیکھ کر گندی سی مسکراہٹ دے رہا تھا۔۔۔ پھر میجر نے اسکی گانڈ پر لگے ہوئے سرخ
نشان کو اسی فلائپر کے ساتھ آہستہ آہستہ سہلانا شروع کر دیا۔۔۔
میجر ؛ زور سے لگ گیا کیا۔۔۔؟؟
صبا نے اسے دیکھا اور پھر منہ آگے کر لیا۔۔۔ کتنا عجیب آدمی ہے۔۔۔
پہلے تکلیف دیتا پھر خود ہی۔۔۔ اسکی گانڈ پر زور سے لگے فلائپر کی وجہ سے درد کی
لہریں اٹھ رہی تھیں۔۔۔ جلن ہو رہی تھی۔۔۔ لیکن میجر کے فلائپر اسی زخم پر پھیرنے
سے اسے کچھ اور جلن تو ہوئی لیکن تھوڑا سکون ملنے لگا۔۔۔ سسس سسس سسس سسس۔۔۔ امم م
م م م۔۔۔ صبا سسکی۔۔۔ آآووچ چ چ۔۔۔ دوبارہ سے میجر نے ایک زور کی ضرب لگا دی تھی
اسکی گانڈ پر۔۔۔ صبا حیران تھی۔۔۔ لیکن اسے اس جانور سے کچھ بھی امید تھی۔۔۔ اسکی
گانڈ بری طرح سے تڑپ رہی تھی۔۔۔ ہل رہی تھی۔۔۔ مچل رہی تھی۔۔۔ درد کی لہریں اٹھ
رہی تھیں پوری گانڈ پر۔۔۔ لیکن گانڈ کے بالکل درمیان۔۔۔ نیچے۔۔۔ اسکی پیاری سی
گلابی۔۔۔ ٹائٹ پھدی کی تو حالت ہی کچھ اور تھی وہ گانڈ کی تکلیف سے بے نیاز گیلی
ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ پانی پانی ہونے لگی تھی۔۔۔ عجیب ہی بات تھی صبا کیلئے کہ میجر
اسے اپنی اسٹک سے مارتا اور اسے اچھا لگنے لگتا۔۔۔ گانڈ پر ہو رہی جلن سے بھی اسے
عجیب سا مزہ آرہا تھا۔۔۔ لذت مل رہی تھی۔۔۔ ایسا پہلی بار ہو رہا تھا اسکے ساتھ۔۔۔
لیکن پہلے کبھی کسی نے اسکی گانڈ کو ایسے بجایا بھی تو نہیں تھا نا۔۔۔ سرخ نشان پڑ
چکے تھے اسکی گوری گوری نازک گانڈ پر۔۔۔ اور سرخ نشانوں میں جلن ہو رہی تھی ۔۔۔
میٹھی میٹھی جلن۔۔۔
میجر ؛ سالی تھوڑی سزا تو ملے گی ہی نا تجھے۔۔۔ تیرے شوہر کی وجہ
سے۔۔۔
میجر نے اب پہلی بار اسکی گانڈ کو چھوا اور اپنا ہاتھ اسکی گانڈ پر
رکھ کر اسکی ملائم گانڈ کو سہلانے لگا۔ میجر کے کھردرے اور سخت ہاتھ کا ٹچ صبا کو
اچھا لگا۔۔۔ اسے اپنی جلن میں تھوڑی کمی ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔۔۔ تھوڑا سکون
ملنے لگا۔۔۔ اچانک ہی میجر کا پورا ہاتھ کھلی فضا میں بلند ہوا اور اگلے ہی لمحے
اسکی سفید گانڈ پر اپنی پانچوں انگلیوں کے نشان چھوڑ گیا۔۔۔ صبا تڑپ اٹھی۔۔۔ میجر
کے ہاتھ نے تو اسکی اسٹک کے فلائپر سے بھی زیادہ درد کیا تھا۔۔۔ میجر ہنسنے لگا۔
صبا کو اب ان نشانات کو دوبارہ سے چھپانا تھا۔۔۔ اشرف سے۔۔۔ آخر وہ اسے کیا بتاتی
کہ یہ کس کے ہاتھ کا نشان ہے جو کہ اسکی گانڈ پر اپنا اثر چھوڑ گیا ہے۔۔۔
میجر ؛ چل اپنی ٹانگیں کھول تھوڑی سی۔۔۔
صبا نے چپ چاپ اپنی دونوں رانوں کو تھوڑا پھیلا دیا۔۔۔ اسکی پھدی
بھی کھل کر سامنے آگئی میجر نے اپنی اسٹک کو آہستہ آہستہ صبا کی رانوں پر پھیرنا
شروع کر دیا۔۔۔ پہلے پیچھے کی طرف اور پھر آہستہ آہستہ اسے صبا کی رانوں کی اندر
کی سائیڈ پر لاتے ہوئے اسکی رانوں کو سہلانے لگا۔ صبا کیلئے یہ سب برداشت کرنا
مشکل ہو رہا تھا۔۔۔ اسکا پورا جسم گرم ہو رہا تھا۔۔۔ اسکی پھدی پانی چھوڑ رہی تھی۔۔۔
مچل رہی تھی۔۔۔ تڑپ رہی تھی۔۔۔ کسی سخت چیز کے لمس کیلئے۔۔ آہستہ آہستہ اوپر کو
آتے ہوئے میجر نے اپنی اسٹک کی فلائپر کے بغیر والی سائیڈ سے صبا کی پھدی
کےبالکل قریب ٹچ کیا تو۔۔۔ سسس سسس سسس۔۔۔ آآآہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔ صبا
سسک اٹھی۔۔۔
میجر ؛ کیا ہوا۔۔۔؟؟ مزے لے رہی ہے کیا۔۔۔؟ٹھیک کہتا ہوں میں تیرے
بارے میں کہ تو پکی رنڈی ہے جو بھی صورت حال ہو تیری پھدی فوراً سے پانی چھوڑنے
لگتی ہے۔۔۔
صبا میجر کی یہ بات سن کر شرمندہ ہو گئی کیونکہ وہ بالکل ٹھیک بات
کر رہا تھالیکن اس وقت اسے اپنی بے عزتی کی پرواہ نہیں تھی۔۔۔ میجر نے آہستہ سے
اپنی اسٹک سے صبا کی پھدی کو چھوا اور اپنی اسٹک کادوسرا سرا اسکی چوت پر اوپر سے
نیچے کو پھیرنے لگا۔۔۔ اسکی پھدی کو بہت ہی پیار سے سہلاتے ہوئے۔۔۔ جیسے جیسے میجر
اپنی اسٹک سے صبا کی چوت کو سہلا رہا تھا ویسے ویسے ہی صبا کی حالت خراب ہوتی جا
رہی تھی۔۔۔ اسکی پھدی نے بھی میجر کی اسٹک کے ساتھ ساتھ ہی حرکت کرنی شروع کر دی
تھی۔۔۔ صبا کی گانڈ گھوم گھوم کر ہلتے ہوئے بہت ہی سیکسی منظر دیکھا رہی تھی۔۔۔
صبا تڑپ رہی تھی۔۔۔ اسکی پھدی سے پانی بہہ رہا تھا۔۔۔ اسے اس وقت صرف اپنی پھدی کی
پرواہ ہو رہی تھی۔۔۔ اور کسی چیز کی فکر نہیں تھی۔۔۔ یہ بھی فکر نہیں تھی کہ وہ
خود کو میجر کے حوالے کرنے کا وعدہ کر چکی ہے ہمیشہ کیلئے۔۔۔ اسے یہ بھی فکر نہیں
تھی کہ اسکے شوہر کے آنے کا وقت قریب آرہا ہے۔۔۔ وہ تو بس آہستہ آہستہ اپنی گانڈ
کو ہلاتے ہوئے اپنی پھدی کو میجر کی اسٹک پر رگڑ رہی تھی۔۔۔ اسکی چوت کا پانی نکل
کر میجر کی اسٹک پر لگ رہا تھا اور اسے جیسے چکنا کر رہا تھا۔۔۔ میجر نے اپنی اسٹک
کی نوک صبا کی چوت کے
سوراخ پر رکھی اور آہستہ آہستہ پُش کرتے ہوئے اسے صبا کی پھدی
کے اندر داخل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔ صبا کی پھدی تو پہلے ہی چکنی ہو رہی تھی
اپنے ہی پانی کی وجہ سے، جیسے ہی تھوڑا سا زور میجر نے ڈالا تو اسکی اسٹک کا اگلا
حصہ صبا کی پھدی کے اندر چلا گیا۔۔۔ سسس سسس سسس سسس۔۔۔ آآآآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔
مم م م م م م م۔۔۔ صبا سسک اٹھی لیکن اسنے میجر کی اسٹک کو اپنی پھدی سے نکالنے کی
کوئی کوشش نہیں کی ۔۔۔ وہ تو اسوقت اپنی پھدی میں میجر کا موٹے لن کی امید کر رہی
تھی تاکہ اسکی پھدی کی پیاس کو بجھا سکے۔۔۔ اسکی چوت کے اندر لگی ہوئی اس آگ کو
بجھا سکے جو کہ میجر نے ہی سلگائی تھی۔۔۔ لیکن میجر نے تو صرف اپنی اسٹک داخل کر
دی تھی اسکی چوت میں۔۔۔ لیکن صبا کو اس بات کی بھی فکر نہیں تھی۔۔ اسنے آہستہ
آہستہ اپنی پھدی کو ہلانا شروع کر دیا۔۔۔ گول گول چکر میں جس سے وہ اسٹک بھی اسکی
پھدی کے اندر گھومنے لگی۔۔۔ اسے مزہ دینے لگی۔۔۔ صبا کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔ منہ سے
سسکاریاں نکل رہی تھیں۔۔۔ اور پھدی سے پانی۔۔۔ ہر بار کی چرح میجر کی ذیادتی اور
ریپ کے بعد صبا اس سے پہلے سے بھی زیادہ نفرت کرنے لگتی تھی۔۔۔ لیکن جیسے ہی وہ اس
روپ میں اسکے سامنے آکر کھڑا ہوتا تھا تو اسکا اپنا جسم اسکے سامنے ہتھیار ڈال
دیتا تھا۔۔۔ اسکی پھدی پانی چھوڑنے لگتی تھی۔۔۔ میجر کے لن کو اپنے اندر لینے کی
خواہش کرنے لگتی تھی۔۔۔ اسکی ساری کی ساری نفرت ختم ہوجاتی تھی۔۔۔ یاد رہتا تھا تو
بس میجر کا موٹا لن۔۔۔
پھر میجر نے اپنی اسٹک صبا کی پھدی سے نکال لی صبا نے فوراً اے
پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔ اور میجر کی طرف ہی دیکھنے لگی۔۔۔ اسکی آنکھوں میں اب میجر
کیلئے کسی قسم کا کوئی خوف نہیں تھا۔۔۔ کوئی بھی ڈر نہیں تھا۔۔۔ نا ہی میجر کیلئے
کوئی پیار کا جذبہ تھا۔۔۔ بس اسے اتنا پتا تھا کہ اسکے جسم کے اندر جاگ اٹھی ہوئی
اسکی پیاس کو اب میجر کے علاوہ کوئی دوسرا بجھا نہیں سکتا۔۔۔ اشرف بھی نہیں۔۔۔
کیونکہ اسے ایک موٹا لن چاہیے تھا اپنی ٹائیٹ پھدی میں۔۔۔ جوکہ صرف میجر کے پاس
تھا۔۔۔ اشرف کےپاس نہیں۔۔۔ اور یہ بات وہ اچھے سے جان چکی ہوئی تھی۔۔ صبا میجر کی
طرف ہی پیاسی اور سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے پوچھ رہی ہو کہ کیوں نکال لیا
اپنی اسٹک کو باہر۔۔۔ لن نہیں ڈالنا تھا تو کچھ دیر اسے ہی اندر رہنے دیتے۔۔۔ میری
چوت کا پانی تو نکل آتا۔۔۔ میجر نے مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے اپنی اسٹک اسکے چہرے
کی طرف بڑھائی اور اسکی پھدی کے پانی سے گیلی ہو رہی اسٹک کے سرے سے صبا کے ہونٹوں
کو چھو لیا۔۔۔ جیسے ہی گیلی اسٹک اسکے ہونٹوں کو ٹچ ہوئی تو فوراً سے صبا نے اپنا
منہ پیچھے ہٹایا لیکن جیسے ہی میجر نے غصے سے اسے دیکھا تو صبا وہیں رک گئی۔۔۔
میجر نے اس اسٹک کو آہستہ آہستہ اسکے گلابی سے نازک سے پتلے پتلے ہونٹوں پر پھیرنا
شروع کر دیا ۔۔۔ آہستہ آہستہ اسکی پھدی کا پانی اسکے اپنے ہونٹوں پر لگنے لگا۔۔۔
اسکے ہونٹوں کو گیلا کرنے لگا۔۔۔ میجر نے جب کوئی مزاحمت نہیں دیکھی تو آہستہ
آہستہ اپنی اسٹک کو صبا کے ہونٹوں کے درمیان پُش کرنے لگا۔۔۔ اسکے منہ کے اندر۔۔۔
صبا نے پہلے تو اپنے ہونٹوں کو دبا کر اسے روکنا چاہا لیکن پھر اپنے
ہونٹوں کے گوشت کو ڈھیلا کر دیا اور اسکی اپنی پھدی کے پانی سے
بھیگی ہوئی میجر کی اسٹک اسکے منہ میں داخل ہو گئی۔۔۔ میجر نے دوسرے ہاتھ کی انگلی
صبا کی چوت میں ڈال دی اور اسے آہستہ آہستہ اندر باہر کرنے لگا۔۔۔ جس سے اسکے جسم
کے اندر کی ٹھنڈی ہوتی ہوئی آگ دوبارہ سے بھڑک اٹھی اور آنکھیں بند کر کے اس اسٹک
کو جیسے چوسنے لگی۔۔۔ اپنی ہی پھدی کے پانی کو پہلی بار اپنے منہ میں محسوس کر رہی
تھی۔۔۔ ٹیسٹ کر رہی تھی۔۔۔ عجیب سا ذائقہ تھا ۔۔۔ تھوڑا میٹھا سا۔۔۔ تھوڑا نمکین
سا۔۔۔ عجیب سا۔۔۔ لیکن برا نہیں تھا۔۔۔ اپنی پھدی کے اندر میجر کی انگلی کا لمس
محسوس کرتے ہوئے دھیرے دھیرے اپنی گانڈ کو آگے پیچھے کو ہلانے لگی۔۔۔ اسکی انگلی
کو اپنی چوت میں اندر باہر کو لینے لگی ۔۔۔ میجر نے اسٹک اسکے منہ سے ہٹا کر سائیڈ
پر رکھ دی تھی۔۔۔ دھیرے دھیرے اسکی چوت کے اندر انگلی چلا رہا تھا۔۔۔ آآآہ ہ ہ ہ ہ
ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ مم مم م م م م م م۔۔۔ ااااو وووئ ئ ئ ئی ی ی ی ۔۔۔ صبا کے منہ سے
سسکاریاں نکل رہی تھیں اور اسکا پورا جسم کانپ رہا تھا۔۔۔ جل رہا تھا۔۔۔ تڑپ رہا
تھا۔۔۔ اور اسکے جسم کی پوری طاقت صرف اور صرف اسکی پھدی میں جمع ہو رہی تھی جس سے
وہ میجر کی انگلی کو بھینچنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔اپنی پھدی کے اندر دبانے کی
کوشش کر رہی تھی۔۔۔ اور بھی اندر لے جانا چاہ رہی تھی۔۔۔ اسکی گوری گوری گانڈ پر
اپنا ایک ہاتھ پھیرتے ہوئے میجر اسکی چوت کو اندر سے سہلا رہا تھا۔۔۔ کبھی اسکی
پھدی کے دانے کو مسل رہا تھا ۔۔۔ اسے تڑپا رہا تھا۔۔۔ اچانک سے اسکا جسم بہت زور
زور سے جھٹکے لینے لگا۔۔۔ اسکی چوت نے
اور بھی زور سے میجر کی انگلی کو بھیچنا شروع کر دیا۔۔۔ وہ بہت جلد
اپنی منزل کو پہنچنے والی تھی۔۔۔ آج کا پہلا آرگزم حاصل کر لینے والی تھی کہ اچانک
سے میجر نے اسکی چوت سے اپنی انگلی نکال لی۔۔۔ صبا تڑپ اٹھی۔۔۔ اور مڑ کر میجر کی
طرف دیکھنے لگی۔۔۔ پیاسی نظروں سے۔ منت کرتی ہوئی۔۔۔
میجر ؛ سالی میں تجھے یہاں سزا دینے بیٹھا ہوں اور تو ہے کہ مزے لے
رہی ہے۔۔۔ بہن چود۔ چل اپنی گانڈ کھول کر دکھا اپنے ہاتھوں سے۔۔۔
صبا نے بے بسی سے میجر کی طرف دیکھا اور پھر اپنے دونوں ہاتھ اپنے
دونوں گانڈ کے ابھاروں پر ر کھ کر دونوں ہپس کو کھول دیا۔۔۔ اسکی گانڈ کا گلابی
سوراخ میجر کی نظروں کے سامنے تھا۔۔۔ بالکل ٹائیٹ اور سکڑا ہوا۔۔۔ جیسے اس میں ایک
تنکا بھی نا جا سکتا ہو۔۔۔ اپنے دونوں ہپس کو کھول کر صبا دوبارہ سے میجر کی طرف
دیکھنے لگی۔۔۔ میجر کھڑا ہوا اور اپنی پینٹ کھولنے لگا۔۔۔ اپنی پینٹ کھول کر نیچے
کی تو اسکا لن باہر آگیا۔۔۔ کالا بالکل سیدھا اکڑا ہوا۔۔۔ہوا میں لہراتا ہوا صبا
کی آنکھوں کے سامنے۔۔۔ صبا کی نظرجیسے ہی میجر کے لن پر پڑی تو اسکا گلا خشک ہونے
لگا۔۔ بڑی ہی مشکل سے اس نے سوکھے گلے سے تھوک کو نیچے حلق میں اتارا۔۔۔ پتہ نہیں
شاید اس لن کے خوف سے۔۔۔ یا پھر اس لن کی پیاس سے۔۔۔ میجر نے اپنے لن کو اپنے ہاتھ
میں لیا اور آہستہ آہستہ اس پر ہاتھ پھیرنے لگا۔۔۔ نیچے سے اوپر۔۔۔ اوپر سے
نیچے۔۔۔
صبا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے۔۔۔ میجر کے لن کو دیکھ کر صبا کا
گلا تو سوکھ رہا تھا لیکن۔۔۔ اسکی پھدی اور بھی گیلی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ اور بھی
تڑپنے لگی تھی۔۔۔ جیسے امید کر رہی ہو۔۔۔ آرزو کر رہی ہو کہ بہت جلد ہی یہ موٹا لن
اسکے اندر ہو گا۔۔۔ اسکی ٹائیٹ پھدی کے اندر۔۔۔ رگڑ رہا ہو گا۔۔۔ چود رہا ہو گا۔۔۔
جیسے ہی لن دوبار پہلے اسے چود چکا تھا۔۔۔ اسے لذت کی دنیا کی سیر کروا چکا تھا۔۔۔
سب کچھ بھلا چکا ہوا تھا پہلے بھی۔۔۔ اسی طرح آج بھی سب دنیا کا ہوش بھلا رہا
تھا۔۔۔ اپنے شوہر کا بھی۔۔۔ اشرف کا ذہن میں آتے ہی صبا کو خیال آیا کہ کہیں اسکے
آنے کا وقت تو نہیں ہو رہا لیکن اس نے اس لن پر سے نظر ہٹا کر گھڑی کی طرف دیکھنا
بھی گوارا نہیں کیا۔۔۔ اسے اشرف کی بھی کوئی فکر نہیں تھی۔۔۔ کسی سے پکڑے جانے کا
خوف بھی نہیں تھا۔۔۔ فکر تھی تو صرف یہ کہ بس اب یہ لن اسکی پھدی میں چال جائے۔۔۔
چاہے بعد میں اسے خود پر شرم آئے۔۔۔ لیکن اسوقت اسے اور کچھ نہیں چاہیے تھا۔۔۔
سوائے اس لن کے۔۔۔ اشرف کا خیال آتے ہی صبا کو تھوڑا یہ احساس بھی ہوا کہ آخر وہ
کیوں ایسا کر رہی ہے۔۔۔ کیوں اسکے سامنے بے بس ہو گئی ہوئی ہے۔۔۔ کیوں آخر اپنا سب
کچھ اسکے سامنے کھولے بیٹھی ہے۔۔۔ اسکے اندر سے آواز آئی۔۔۔ یہ سب کچھ بھی تو اشرف
کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے نا۔۔۔ میں خود تو نہیں کروا رہی نا۔۔۔ نا وہ اس سے لڑتا
اور نا ہی مجھے اس طرح خود کو میجر کے آگے ننگا کرنا پڑتا۔۔۔ اور یہ سب میں کر بھی
تو اشرف کی خاطر ہی رہی ہوں نا۔۔۔ اپنی خاطر تو نہیں نا۔۔۔ صبا بنا اپنی نظریں
ہٹائے میجر کے لن کو دیکھے جا رہی تھی۔۔۔
اور اپنے دل کو تسلی دے رہی تھی۔۔۔ دلاسہ دے رہی تھی۔۔۔ جو کر رہی
تھی اس سے خود کو مطمئن کر رہی تھی۔۔۔ دوسری طرف نیچے اسکی پھدی تڑپ رہی تھی۔۔۔
میجر کا لن مانگ رہی تھی۔۔۔ لیکن اسکی زبان اسکا ساتھ نہیں دے پا رہی تھی کہ وہ
میجر کو بول سکے کہ اپنا لن اسکی پھدی میں ڈال دے۔۔۔ چود دے اسے۔۔۔ ٹھنڈی کر دے
اسکی پھدی کی آگ۔۔۔ بس خاموشی سے اسکی طرف دیکھتی جا رہی تھی کہ شاید۔۔۔ شاید میجر
اسکی آنکھوں کی زبان سمجھ جائے۔۔۔ اسکی پیاس کو دیکھ لے۔۔۔ اور اسے چود دے۔۔۔
اچانک سے جیسے اسکی خواہش پوری ہوتی ہوئی محسوس ہوئی اسے۔۔۔ جب میجر نے اسے انگلی
سے اشارہ کیا اور صوفہ کے اوپر آنے کو کہا۔۔۔ کانپتے ہوئے بدن کے ساتھ صبا اٹھی
اور صوفہ کے اوپر آگئی۔۔۔ بیٹھ گئی۔۔۔ میجر نے ہلکا سا دھکا دیا اور اسے صوفہ پر
لٹا دیا۔۔۔
میجر ؛ چل جلدی سے اپنی ٹانگیں کھول دے۔۔۔
صبا ؛ نہیں۔۔۔ پلیززززز۔۔۔ نہیں۔۔۔
صبا کے منہ سے نکلا لیکن اسکا جسم تو اسکے کنٹرول میں نہیں تھا
نا۔۔۔ اسکے الفاظ پورے ہونے سے پہلے ہی اسکی دونوں رانیں کھل چکی ہوئی تھیں۔۔۔ صبا
نے بنا کچھ بولے اپنی ٹانگوں کو پھیلا دیا۔۔۔ اسکی ٹائیٹ گلابی چوت میجر کی آنکھوں
کے سامنے تھی۔۔۔ گرم چوت۔۔۔ پانی چھوڑتی ہوئی۔۔۔ تڑپتی ہوئی۔۔۔ پھڑکتی ہوئی۔۔۔ چوت
کے اوپر کے حصے پر ہلکے ہلکے بال تھے
بہت ہی خوبصورتی سے تراشے ہوئے۔۔۔ بلکل کالے سیاہ۔۔۔ میجر نے اسکی
پیاری سی چوت کو دیکھا اور پھر دوبارہ سے اپنی انگلی سے اسکی چوت کو سہلانا شروع
کر دیا آہستہ آہستہ۔۔۔ اور اسکی چوت کے دانے کو رگڑنے لگا۔۔۔ صبا نے آنکھیں بند
کیں اور اپنی چوت کو اوپر کو اچھالنے لگی۔۔۔ منہ سے سسکاریاں نکالنے لگی۔۔۔ لیکن
ہونٹوں سے کوئی بھی لفظ نہیں نکلا۔۔۔ میجر بھی صوفہ پر چڑھ کر سیدھا ہو گیا۔۔۔ صبا
کی ٹانگوں کے درمیان میں اور اسکا لن اسکی پھدی کے بالکل سامنے آگیا۔۔۔ بالکل
قریب۔۔۔ صبا کی آنکھیں یہی منظر دیکھ رہی تھیں۔۔۔ میجر نے صبا کا ایک ہاتھ پکڑا
اور اسے کھینچ کر اپنے اکڑے ہوئے لن کے اوپر رکھ دیا۔۔۔ افف ف ف ف ف ف۔۔۔ لوہے کی
گرم موٹی راڈ جیسے اسکے ہاتھ میں پکڑا دی تھی میجر نے۔۔۔ جس پر ہاتھ پڑتے ہی صبا
کی آنکھیں کھل گیں۔۔۔ دیکھا تو میجر کے لن پر اسکا ہاتھ تھا۔۔۔ میجر کی آنکھوں میں
دیکھتے ہوئے صبا نے اپنا ہاتھ ہٹانا چاہا لیکن ہلکی سی مزاحمت کے ساتھ میجر نے
اپنا سر ہلا کر جیسے صبا کا ہاتھ وہیں کا وہیں روک دیا۔۔۔ میجر کے موٹے گرم لن
پر۔۔۔ اپنے نازک سے گورے نرم ملائم ہاتھ میں میجر کا کالا موٹا لن دیکھ کر صبا نے
اپنی نظریں جھکا لیں۔۔۔ میجر کے لن پر ٹکا لیں۔۔۔ اسکا ہاتھ آہستہ آہستہ میجر کے
لن کو سہلانے لگا۔۔۔ اسے محسوس کرنے لگا۔۔۔ افف ف ف ف ف ف ف ۔۔۔ کس قدر موٹا ہے
اسکا۔۔۔ اور سخت بھی۔۔۔ اشرف کا تو ایسا نہیں ہے۔۔۔ کتنا نرم سا لگتا ہے اشرف کا
۔۔۔ نازک سا جیسے ابھی کھینچا تو ٹوٹ جائے گا اور یہ۔۔۔ پتہ نہیں پتھر کا بنا ہوا
ہے اس کمینے کا لن۔۔۔ چودتا بھی تو اتنی بری طرح سے ہے نا۔
جان ہی نکال لیتا ہے۔۔۔ ابھی دوبارہ سے نکالے گا میری چوت کی
جان۔۔۔ صبا کے دل میں خواہش دوبارہ سے جاگی۔۔۔ میجر کے لن کو سہلاتے سہلاتے صبا نے
آہستہ سےاسکے لن کو کھینچا اپنی پھدی کی طرف۔۔۔ بالکل ہی بے خیالی میں۔۔۔ کچھ بھی
نہیں سوچتے ہوئے۔۔۔ جیسے خود بخود ہی سب کچھ ہو رہا تھا۔۔۔ صبا نے میجر کا لن اپنی
چوت کی طرف کھینچا۔۔۔ اپنی چوت کے اندر لینے کیلئے۔۔۔ اپنے جلتے ہوئے جسم کی آگ کو
بجھانے کیلئے۔۔۔ اپنے پیاسے بدن کی پیاس بجھانے کیلئے۔۔۔ میجر مسکرایا اور صبا کا
ہاتھ اپنے لن پر سے ہٹا دیا۔۔۔ اور پھر اپنے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑے بنا ہی
آہستہ سے اسکی پھدی پر ٹچ کر دیا۔۔۔ صبا تو تڑپ ہی اٹھی۔۔۔ اچھال دیا اپنی پھدی کو
اوپر کی طرف۔۔۔ لیکن لن کو اندر نہیں لے سکی۔۔۔ میجر نے اسکی دونوں ننگی چکنی
رانوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور ان کو نیچے کو دباتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنا لن
صبا کی پھدی پر رگڑنا شروع کر دیا۔۔۔ بہت ہی دھیرے دھیرے اسکی پھدی کے اوپر پھیرنے
لگا۔۔۔ اوپر سے نیچے۔۔۔ نیچے سے اوپر۔۔۔ اسکی پھدی کے سوراخ پر ۔۔۔ اسکی چوت کے
دانے پر۔۔۔ لن کو اسکی چوت سے ہٹایا تو اس پراسکی پھدی کا گاڑھا پانی لگ گیا ہوا
تھا ایک تار سی جیسے اسکی پھدی سے کھینچی آئی تھی۔۔۔ صبا کی چوت کے پانی نے میجر
کے لن کا رشتہ اپنے ساتھ جوڑ لیا تھا۔۔۔ جیسے اسی پانی کی باریک سی تار کے ساتھ ہی
میجر کے لن کو جکڑنا چاہتی ہو۔۔۔ اپنی طرف کھینچنا چاہتی ہو۔۔۔ بالکل سپائیڈرمین
کے ہاتھ سے نکلنے والے باریک تاروں کی طرح۔۔۔ صبا کی آنکھیں بند تھیں اور وہ مچل
رہی تھی۔۔۔ تڑپ رہی تھی۔
اسکے منہ سے نکلا۔۔۔ پلیززززززز ۔۔۔ میجر صاحب۔۔۔ پلیززززززز۔۔۔
بسس س س س س س۔۔۔ میجر مسکرایا۔۔۔ اسکا مطلب سمجھ چکا تھا۔۔۔
میجر ؛ کیا پلیزززز۔۔۔ چھوڑ دوں کیا تم کو۔۔۔؟؟؟؟؟؟
جیسے ہی میجر نے اپنا لن اسکی پھدی پر سے ہٹایا تو صبا نے بڑی ہی
بے چینی سے اپنا سر نہیں میں ہلا دیا۔۔۔
میجر ہنسا ؛ کیا کہتی ہے ڈال دوں اسے تیری چوت میں۔۔۔؟؟؟
صبا نے اپنے دونوں ہونٹ کھولتے ہوئے۔۔۔ زور کی سسکیاں لیں۔۔۔ جیسے
ہاں کہہ رہی ہو۔ میجر نے اپنے لن کی موٹی ٹوپی اسکی پھدی کے سوراخ پر رکھی اور
آہستہ آہستہ وہیں پر رگڑنے لگا اور اگر تیرا شوہر آگیا تو۔۔۔
صبا نے تھوڑا سا اپنی پھدی کو اوپر کو اچھالتے ہوئے اپنی رضامندی
دے دی کہ اسے اسکی پرواہ نہیں ہے۔۔۔ میجر نے تھوڑا سا دباؤ ڈالا اور اسکے لن کی
ٹوپی صبا کی پھدی میں داخل ہو گئی۔۔۔ اگر تیرے شوہر نے دیکھ لیا تم کو چودتے تو
مجھے جان سے ہی مار دے گا۔۔۔ ہے نا۔۔۔
صبا نے آنکھیں بند کر کے نہیں میں سر ہلا دیا۔۔۔ وہ تو اب کچھ بھی
نہیں سوچ رہی تھی۔۔۔ صرف اسکے موٹے لن کی موٹی ٹوپی کو اپنی پھدی کے اندر محسوس کر
رہی تھی۔۔۔
اپنی چوت کواوپر کو اچھال رہی تھی تاکہ اسکا لن اور بھی اسکے اندر
اتر سکے۔۔۔ سب کچھ بھول چکی تھی۔۔۔ اپنا شوہر۔۔۔ اپنا گھر۔۔۔ اپنا پیار۔۔۔ اپنی
تعلیم۔۔۔ اپنی تربیت۔۔۔ اپنی ٹریننگ اپنی فیملی اور شوہر کی عزت۔۔۔ سب کچھ۔۔۔ یہ
بھی بھول چکی تھی کہ آج بھی میجر نے اسے مجبور کردیا ہے یہ سب کرنے کیلئے۔۔۔ بلیک
میل کر کے۔۔۔ ڈرا کر۔۔۔ لیکن اب تو اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا۔۔۔ یاد تھا اور خیال
تھا تو بس میجر کے لن کا جس کی ٹوپی اسکی پھدی کے اندر پھنسی ہوئی تھی۔۔۔ صبا کو
اپنی پھدی میں طوفان اٹھتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔ اسکی چوت دوبارہ سے اپنی منزل کی طرف
بڑھ رہی تھی۔۔۔ اپنے ادھورے آرگزم کو پورا کرنے کیلئے۔۔۔ اسکے چہرے کے تصورات بدلنے
لگے۔۔۔ چوت کی گرفت ٹائیٹ ہونے لگی اسکے لن پر۔۔۔ جیسے ہی میجر کو محسوس ہوا۔۔۔
اسنے فوراً سے پہلے اپنا لن اسکی پھدی سے نکال لیا۔۔۔ صبا تو جیسے جل اٹھی۔۔۔ تڑپ
اٹھی۔۔۔ اپنی بے چینی پر۔۔۔ اپنی تذلیل پر۔۔۔ فوراً سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور
میجر کے لن کو پکڑنا چاہا لیکن اسکا ہاتھ میجر کے لن پر لگے ہوئے اپنی ہی پھدی کے
چکنے پانی سے پھسل گیا اور میجر کا لن پھسل کر اسکی گرفت سے نکل گیا۔۔۔ میجر اسکی
چوت سے لن ہٹا کر صوفہ سے نیچے کھڑا ہو چکا تھا۔۔۔ صبا اسکی طرف سوالیہ نظروں اے
دیکھ رہی تھی جیسے پوچھ رہی ہو کیا ہوا۔۔۔؟؟ کیوں مجھے ادھورا چھوڑ کر جا رہے
ہو۔۔۔؟ دونوں بار پہلے اسنے میری مرضی کے بغیر ہی مجھے چودا۔۔۔ میں نہیں چاہتی تھی
لیکن اسنے چود دیا مجھے آج جب میں خود اس سے چودوانا چاہ رہی تھی ۔۔۔ جب خود میری
پھدی اسکا لن مانگ رہی
تھی تو اس طرح مجھے ادھورا اور پیاسا چھوڑے جا رہا ہے کمینہ۔۔۔
میجر اسکی یہ حالت دیکھ کر مسکرارہا تھا۔۔۔ خاموشی سے اسنے اپنی پینٹ پہنی اور صبا
کو تڑپتا ہوا چھوڑ کر بالکنی کی طرف بڑھا۔۔۔
رات کو بالکنی کا دروازہ کھلا رکھنا اور موبائل بھی پھر آؤنگا
تیری پیاس بجھانے۔۔۔ تیری چوت چودنے۔۔۔ اتنی آگ تو رنڈیوں کی پھدی میں بھی نہیں
ہوتی جتنی تیرے اندر لگی رہتی ہے ہر وقت۔۔۔ میجر نے اسے ذلیل کرتے ہوئے کہا۔۔۔
صبا وہیں صوفہ پر لیٹی ہوئی بے بسی سے میجر کی طرف دیکھ رہی تھی
اور اپنے ہاتھ کو اپنی چوت پر رکھے اسے دبا رہی تھی۔۔۔ بھینچ رہی تھی۔۔۔ باہر
اندھیرا ہو چکا تھا۔۔۔ میجر بالکنی سے اپنے فلیٹ میں چلا گیا اور اسکے جاتے ہی صبا
اپنی پھدی کو خود ہی اپنے ہاتھوں سے رگڑنے لگی آج بھی اپنی انگلی اپنی چوت میں ڈال
لی۔۔۔ کیوں چھوڑ گیا ہے ایسے مجھے۔۔۔ سمجھتا کیا ہے یہ کمینہ خود کو۔۔۔ مجھے رنڈی
بنا دیا ہوا ہے کہ جب دل کرے مجھے اس طرح گرم کر دے اور پھر بیچ میں چھوڑ دے۔۔۔
کیا کروں۔۔۔ افف ف ف ف ف ف ف۔۔۔ کیا کروں ں ں ں ں ں آآآآآ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔ مم م
م م م م م م م۔۔۔ اور پھرمیجر کو یاد کرتے کرتے ہی اپنی انگلی سے ہی آخر اسنے اپنا
پانی نکال لیا۔۔۔ پھدی کی آگ تھوڑی دیر کیلئے ٹھنڈی ہوگئی تو جسم بھی ٹھنڈا پڑ
گیا۔۔۔ لمبے لمبے سانس لیتی ہوئی وہیں لیٹ گئی۔۔۔ صوفے پر ہی۔۔۔ ننگی ہی۔۔۔
پورے جسم کی جان نکل چکی ہوئی تھی۔۔۔ بے جان ہو رہا تھا جسم۔۔۔
بالکل ڈھیلا۔۔۔ کیوں اس کمینے کو اتنی آزادی دے دی ہے میں نے۔۔۔ کیوں خود کو اتنا
کمزور کر دیا ہے اسکے سامنے کیا ہے آخر اس میں ایسا جو میری ساری ہمت ختم کر دیتا
ہے۔۔۔اسکا غصہ۔۔۔یا اسکا لن۔۔۔؟ ہاں شاید دوسری بات ہی ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔
ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔ ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔۔۔ کیسے مجھے رات کو آنے کا بول
گیا ہے۔۔۔ جیسے۔۔۔ جیسے میں اسکی کوئی زر خرید ہوں۔۔۔ اسکی غلام ہوں۔۔۔ جیسے کوئی
رنڈی ہوں جس نے اس سے پیسے لیے ہیں اور اس نے اب رات کو آنا ہو۔۔۔ کیا حق ہے اسے
مجھ پر ایسا حکم چلانے کا۔۔۔ کہیں بھی نہیں جاؤنگی میں رات کو۔۔۔ چاہے جتنا بھی
بلائے نہیں جاؤنگی۔۔۔ میں کوئی رنڈی ہوں جو رات کو اسکے کہنے پر اٹھ کر اسکے پاس
چلی جاؤں۔۔۔ نہیں ہوں میں رنڈی۔۔۔ اتنا ہی شوق ہے میرے پاس آنے کا دوبارہ سے تو
اسوقت کیوں چھوڑ گیا تھا مجھے تڑپتا ہوا۔۔۔ سسکتا ہوا۔۔۔ سب تو نظر آرہا تھا کہ
میری کیا حالت تھی۔۔۔ اب کیا میں اسکی منتیں کرتی کہ مجھے چود دو۔۔۔ جکپد ( گرم
چوت پے دھوکا) کر گیا ہے میرے ساتھ۔۔۔ اب نہیں جاؤنگی۔۔۔ بس اشرف کے پاس ہی
رہونگی۔۔۔ صرف اپنے اشرف کے پاس۔۔۔ اسکا چھوٹا ہے تو کیا ہوا اب صرف اس سے ہی پیاس
بجھاؤنگی اپنی۔۔۔ صبا فیصلہ کر رہی تھی۔۔۔ پکا فیصلہ۔۔۔؟ ایک بار پھر اپنے اندر
میجر کیلئے نفرت اور اپنے شوہر اشرف کیلئے محبت پیدا کر کے صبا نے خود کو سنبھالا
اور سیٹنگ روم میں بکھرے ہوئے اپنے کپڑے اٹھانے لگی۔۔۔ جلدی سے اپنی شلوار، برا
اور قمیض پہنی
اور اپنے بال ٹھیک کرنے لگی۔۔۔ حلیہ درست کرنے لگی۔۔۔ آئینے میں
خود کو دیکھا تو خود سے بولی ۔۔۔ صاف لگ رہا ہے جیسے بری طرح سے چد گئی ہوں آج بھی
حالانکہ آج تو اسنے مجھے چودا بھی نہیں ہے ۔۔۔ کمینہ ادھورا ہی چھوڑ گیا ہے۔۔۔
جانور ہے پورا کسی کے جذبات کا کوئی احساس ہی نہیں ہے اس کمینے کو۔۔۔ بڑا غرور ہے
نہ جیسے اپنے لن پر۔۔۔ صبا غصے اور حسرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ پھر سے میجر کو یاد
کرنے لگی تھی۔۔۔ بنا کسی ارادے کے۔۔۔ حلیہ ٹھیک کر کے باہر آئی۔۔۔ فریج سے پانی
نکال کر پیا اور پھر سیٹنگ روم کا حلیہ ٹھیک کرنے لگی۔۔۔ سب چیزیں اپنی اپنی جگہ
پر رکھنے اور سمیٹنے لگی۔۔۔ یہ کیا۔۔۔؟؟؟؟؟ یہ انڈرویئر کس کا ہے۔۔۔؟؟؟؟؟؟ اشرف کا
تو ہے نہیں۔۔۔ اااووووو۔۔۔ یہ تو اسی کتے کا ہے۔۔۔ کمینہ ویسے ہی پینٹ پہن گیا
ہے۔۔۔ صبا نے میجر کے اترے ہوئے انڈرویئر کو اٹھا لیا۔۔۔ اسے دیکھنے لگی۔ کتنا
گندہ ہو رہا ہے۔۔۔ پتہ نہیں دھوتا کیوں نہیں ہے۔۔۔ اندر کو دیکھا تو اس پر پیلے
پیلے نشان بھی نظر آرہے تھے۔۔۔ شاید میجر کے پسینے کے۔۔۔ اور شاید اسکے پیشاب
کے۔۔۔ کتنی بدبو آرہی ہے۔۔۔ صبا نے تھوڑا سا اوپر لا کر میجر کے گندے انڈرویئر کو
سونگھا۔۔۔ کتنی گندی سمیل ہے۔۔۔ بدبو ہے۔۔۔ جیسے میلا اور پیشاب اور پتہ نہیں کیا
کیا لگا ہواس پر۔۔۔ ڈسٹ بین میں پھینک دیتی ہوں اسے۔۔۔ اس کمینے کے گندے انڈرویئر
کو۔۔۔ صبا ڈسٹ بین کی طرف بڑھی۔۔۔ پھینکنے ہی لگی تھی کہ خیال آیا ۔۔۔ اگر اس
کمینے نے واپس مانگ لیا تو۔۔۔؟؟؟؟؟؟ تو کہاں سے دونگی۔۔۔؟ اس ذلیل آدمی سے کچھ بھی
امید کی جا سکتی ہے۔۔۔ پھر کیا کروں۔؟
ہاں اسکی بالکنی میں پھینک دیتی ہوں۔۔۔ یہ ٹھیک ہے۔۔۔ باہر بالکنی
میں گئی۔۔۔ ہوا چل رہی تھی۔۔۔ نہیں اگر پھینکتی ہوں اور ہوا سے نیچے چلا گیا
تو۔۔۔؟؟؟تو پھر سے وہی مصیبت ہو جائے گی۔۔۔ پھر سے میرے سر ہو جائے گا وہ اپنی
گندی حرکتیں لے کر۔۔۔ وہ واپس آگئی۔ کیا کروں اب اسکا۔۔۔؟؟بیڈروم میں آئی ہاتھ میں
وہی گندہ انڈرویئر پکڑے ہوئے۔۔۔ اسکے فلیٹ پر جا کر دے آتی لیکن اب تو اشرف کسی
وقت بھی آسکتا ہے۔۔۔ کہاں چھپاؤں اسے جہاں اشرف کی نظر نا پڑے اس پر۔۔۔ اچانک اسے
ایک خیال آیا۔۔۔ ہاں یہ جگہ ٹھیک ہے۔۔۔ وہ جلدی سے اپنی کپڑوں کی الماری کی طرف
بڑھی۔۔۔ ایک دراز کھولا۔۔۔ اس میں صرف اور صرف صبا کے انڈرگارمنٹس تھے۔۔۔ اسکی
برا۔۔۔ پینٹیز۔۔۔ اور اسکے وشپر۔۔۔ ہاں اسکے وشپر پیڈز کا پورا پیکٹ۔۔۔ اسکے
پیریڈز کیلئے۔۔۔ صبا نے اس کھلے ہوئے وشپر پیڈز پیکٹ کو کھولا اور میجر کا
انڈرویئر ۔۔۔ گندہ انڈرویئر۔۔۔ میلا۔۔۔پیشاب اور شاید منی کے قطروں سے خراب ہو رہا
ہوا میجر کا انڈرویئر۔۔۔ اپنے غیر استعمال شدہ مینسز پیڈز کے پیکٹ میں ٹھونس
دیا۔۔۔ سکون کا سانس لیتی ہوئی سوچنے لگی ۔۔۔ ہاں یہی محفوظ جگہ ہے۔۔۔ کیونکہ اسے
پتا تھا کہ اشرف کبھی بھی اسکے انڈرگارمنٹس والے دراز کو نہیں کھولتا اور اسکے
وشپر پیڈز کو دیکھنا اور چھونا تو بہت دور کی بات تھی۔۔۔ باہر سیٹنگ روم میں آئی
تو دیکھا کی کافی وقت ہو چکا ہے اور اشرف ابھی تک نہیں آیا۔۔۔ اسے فکر ہونے لگی۔۔۔
صبا نے اپنا فون اٹھایا اور اشرف کا نمبر ملایا۔۔۔
صبا ؛ ہیلو۔۔۔کہاں رہ گئے ہو۔۔۔ ابھی تک واپس کیوں نہیں آئے۔۔۔ کیا
کام بہت زیادہ ہے؟ اشرف ؛ نہیں بس پہنچ ہی رہا ہوں پانچ منٹ میں۔۔۔ اشرف نے جواب
دیا۔۔۔
تھوڑی دیر میں بیل ہوئی۔۔۔ جلدی سے صبا دروازے کی طرف بھاگی۔۔۔ گیٹ
کھولا تو اشرف ہی تھا۔۔۔ سر جھکائے ہوئے اندر آیا۔۔۔ اسکا چہرہ ابھی بھی پریشان لگ
رہا تھا۔۔۔ غصہ اور شرم کی کیفیت اسکے چہرے پر صاف نظر آرہی تھی۔۔۔ اسی پریشانی
اور شرمندگی کی وجہ سےتو وہ جلدی جلدی گھر سے نکل گیا تھا۔۔۔ ہمت نہیں کر پا رہا
تھا صبا کے سامنے بیٹھے رہنے کی۔۔۔ حالانکہ اسکا بالکل بھی دل نہیں کر رہا تھا
ڈیوٹی پر جانے کو۔۔۔ لیکن گھر بیٹھ کر وہ خود کو اور بھی شرمسار ہی محسوس کرتا۔۔۔
اسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ایک مکا مار کر میجر نے اسے صبا۔۔۔ اپنی ہی بیوی کی
نظروں میں گرا دیا ہو۔۔۔ اسے اسکے سامنے حقیر ثابت کردیا ہو۔۔۔ اپنی ڈیوٹی پر بھی
وہ پریشان ہی رہا تھا۔۔۔ جو کچھ بھی میجر نے آج اسکے ساتھ کیا تھا وہ ایکسٹریم
تھی۔۔۔ اسے اسکی بیوی کے سامنے ہی مکا مار دیا تھا۔۔۔ اسے بے بس کر دیا تھا۔ اشرف
کو اس بات پر غصہ آرہا تھا اور شرمندگی اس بات کی تھی کہ وہ اس کو جواب نہیں دے
پایا تھا۔۔۔ اپنی بیوی کے سامنے وہ میجر کا کچھ نا بگاڑ سکا تھا۔۔۔ اسکی اپنی
جسمانی طاقت اتنی نہیں تھی میجر کے مقابلے میں کہ وہ اسکا بدلہ لے سکتا۔۔۔ میجر نے
اسکی بیوی کی تذلیل کی تھی بے عزتی کی تھی۔۔۔ لیکن وہ اسکا کچھ نہیں کر سکا۔۔۔ یہ
بات اس کو پریشان کر رہی تھی۔۔۔
کیا میں اپنی بیوی کی حفاظت بھی نہیں کر سکتا۔۔۔ اس کمینے نے اتنی
بے عزتی کی میری بیوی کی اور میں اس سے مکا کھا کر گر پڑا۔۔۔ لعنت ہے مجھ پر۔۔۔
اپنی اس شرمندگی کی وجہ سے ہی وہ کافی دیر تک گھر نہیں آیا تھا۔۔۔ حالانکہ اپنے
کام سے تو وہ ایک گھنٹے میں ہی فارغ ہو گیا تھا لیکن گھر آنے کی بجائے ایک پارک
میں ٹہلتا رہا تھا۔۔۔ سوچتا رہا تھا۔۔۔ اپنے اندر حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا
رہا تھا کہ کیسے سامنا کرے وہ صبا کا۔۔۔ پارک میں کافی وقت ضائع کیا تھا اسنے
حالانکہ اگر وہ پہلے ہی گھر آجاتا تو اسے گھر پر ایک اور ہی منظر نظر آتا۔۔۔ جس
میں ایک بار پھر سے اسکی بیوی کی تذلیل ہو رہی ہوتی۔۔۔ اور اسکی بھی۔۔۔ اور اس
منظر کو دیکھ کر وہ تو ڈوب ہی مرتا اور یا پھر کسی نہ کسی کو مار ہی دیتا۔۔۔ لیکن
شکر ہے کہ وہ نہیں گھر آیا سیدھا۔ اپنی بیوی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی
تھی۔۔۔ کیا سوچتی ہوگی کہ میں اسکی حفاظت بھی نہیں کر سکتا۔۔۔ کیا سوچتی ہوگی کہ
میں کتنا کمزور ہوں اور بے بس ہوں اس ذلیل شخص کے سامنے۔۔۔ کیا مجھے یہ فلیٹ چھوڑ
دینا چاہیے۔۔۔؟ کیا کروں آخر میں۔۔۔؟یہی وقت تھا جب صبا کی کال آئی تھی اور اسے
واپس اپنے گھر جانا پڑا تھا۔۔۔ گھر پہنچ کر بھی اس نے حقارت سے اور شاید بے بسی سے
میجر کے فلیٹ کے دروازے کی طرف دیکھا۔۔۔ میرا بس چلے تو آگ لگا دوں اسکے فلیٹ کو
زندہ ہی جل مرے گا کمینہ۔۔۔ گھر کے اندر آتے ہی ایک اچھی بیوی کی طرح صبا نے پہلی
ہی نظر میں جان لیا کہ ابھی بھی اشرف کا موڈ ٹھیک نہیں ہے اور وہ بے حد شرمندہ لگ
رہا ہے۔۔۔ لیکن صبا اسے مزید شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
اسے پتا تھا کہ اس میں اشرف کا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔ میجر جیسے
گندے اور بدمعاش انسان کے ساتھ اس جیسا شریف آدمی کیسے الجھ سکتا ہے۔۔۔ پھر میجر
ہٹا کٹا اور باڈی بلڈر آدمی تھا اور اشرف نازک سے جسم والاایک عام شریف آدمی جو کہ
صرف اپنے گھر میں اپنی بیوی پر ہی اپنا حکم چلاتا ہے اور غصہ دکھاتا ہے۔۔۔ لیکن
باہر کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہوتی۔۔۔ باہر کسی سے لڑنے کی ہمت نہیں ہوتی۔۔۔ صبا
اشرف سے بہت زیادہ توقعات بھی نہیں کر رہی تھی۔۔ صبا نے تھوڑی سی کام کے بارے میں
باتیں کیں اور پھر کھانا لگانے کا پوچھا۔۔۔ لیکن اشرف نے منع کر دیا کہ مجھے بھوک
نہیں ہے۔۔۔
صبا ؛ کیا بات ہے اشرف۔۔۔؟ لگتا ہے کہ تم ابھی تک اسی بات کو لے کر
بیٹھے ہو۔۔۔؟ چھوڑو اب اس بدمعاش کے بارے میں سوچنا۔۔۔
اشرف چپ رہا۔۔۔ سر جھکا کر بیٹھا رہا ۔۔۔ شرمندہ سا۔۔۔ بے بس سا۔۔۔
صبا ؛ دیکھو اشرف اس بات کو دل پر لینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ وہ ایک
کمینہ اور گھٹیا آدمی ہے ہم اس سے پنگا نہیں لے سکتے۔۔۔ وہ جو بھی کرتا ہے اور جو
کچھ بھی اس نے کیا وہ اپنی گندی ذہنیت اور گھٹیا پن کو باور کرنے کیلئے کیا۔۔۔ تم
کیوں پریشان ہوتے ہو۔۔۔
اشرف ؛ لیکن۔۔۔ اسنے تم کو بھی گندی گندی گالیاں دیں۔۔۔ لیکن میں
کچھ نہیں کر سکا۔۔۔ صبا اشرف کو اپنی بانہوں میں بھرتے ہوئے بولی ۔۔۔
ارے یار کہہ دیا تو کیا ہوا۔۔۔ میرا کیا بگڑ گیا ہے۔۔۔ ریلیکس کرو
یار ڈونٹ فیل وریڈ۔۔۔
اشرف ؛ میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ فلیٹ چھوڑ کر کہیں اور چلے جانا
چاہیے۔۔۔
صبا ؛ ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔ تم دیکھو ہم یہ جگہ چھوڑ کر کوئی
اور جگہ پھر ہم وہاں شفٹ ہو جائیں گے ۔۔۔ چلو اٹھو ہاتھ دھو کر آؤ اور کھانا کھاتے
ہیں۔۔۔ اور اس معاملے کو میں خود ہی ہینڈل کر لوں گی۔۔۔ منصور انکل کی وائف سے
کہونگی کہ وہ بات کریں منصور صاحب سے اور میجر کو سمجھائے۔۔۔
صبا نے بات کو ختم کرنے کیلئے کہا حالانکہ یہ اسے ہی پتا تھا کہ
معاملہ ختم کر چکی ہے اور کیسے۔۔۔ اور اس معاملے کو ختم کرنے کی کیا قیمت اسے ادا
کرنی پڑی ہے۔۔۔ اور ابھی آگے کیا قیمت چکانی پڑے گی۔۔۔ اشرف کو کچھ حوصلہ ہوا وہ
اٹھا اور پھر دونوں نے ایک ساتھ کھانا کھایا۔۔۔ کھانا کھاتے ہوئے بھی یہ سوچ رہی
تھی۔۔۔ اب سے کیسے بتاؤں کہ کیسے معاملہ ختم ہواہے۔۔ کیا کچھ بھگتنا پرا ہے اسے اس
معاملے کو ختم کرنے کیلئے۔۔۔ اور جاتے ہوئے کتنا برا کر کے گیا ہے وہ کمینہ اسکے
ساتھ۔۔۔ کیسے بتاتی کہ وہ اسکی پھدی کی پیاس بڑھا کر اسے پیاسا چھور کے دفع ہوا
ہے۔۔۔ اور رات کو دوبارہ آنے کا کہہ گیا ہے۔۔۔ اور یہ سب صرف اسی کی وجہ سے ہوا
ہے۔۔۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد اشرف کیبل پر ایک مووی دیکھنے لگا۔۔۔ اگلے دن
چھٹی جو تھی اس لیے اسے کوئی جلدی نہیں تھی سونے کی کیونکہ صبح جلدی اٹھنا کوئی
ضروری نہیں تھا۔
صبا بھی اسکے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی سیٹنگ روم میں ٹی وی دیکھنے۔۔۔
صبا کو خیال آیا کہ اشرف اسی صوفے پر بیٹھا ہوا ہے جس پر کچھ دیر پہلے میجر بیٹھا
ہوا تھا۔۔۔ اور اسی صوفے پر میجر نے اسے ننگا کر کے بے شرمی سے اپنی دونوں ٹانگیں
کھول کر لیٹنے پر مجبور کیا تھا۔۔۔ اور اسی صوفے پر وہ کمینہ اسکے جسم میں آگ لگا
کر اسے پیاسا چھوڑ کر چلا گیا تھا۔۔۔ بنا اسکے جذبات اور پیاس کی پرواہ کیے
ہوئے۔۔۔ مووی صبا نے کیا دیکھنی تھی جیسے جیسے ٹائم گزر رہا تھا ویسے ویسے اسکی بے
چینی میں اضافہ ہو رہا تھا۔۔۔
رات کے تقریباً بارہ بج رہے تھے اور اشرف کا سونے کا کوئی موڈ نہیں
تھا۔۔۔ پریشانی صبا کو تھی تو صرف میجر صاحب کی کہ اگر ابھی کسی وقت میں اشرف کے
جاگتے ہوئے ہی وہ آگیا تو کیا ہوگا صبا کا اپنا سارا پول کھل جائے گا۔۔۔ وہ صوفہ
پر بیٹھی ہوئی بار بار بالکنی کے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی کہ کہیں وہ آتو نہیں
گیا۔۔۔ اور آیا تو اسے وہیں سے روک دے گی۔۔۔ منت کرکے۔۔۔ لیکن کیا وہ مان جائے
گا۔۔۔؟ مانے گا تو دوبارہ آنے کی شرط پر۔۔۔ ٹھیک ہے بعد میں آجائے آتا ہے تو۔۔۔
لیکن اسوقت نہیں۔۔۔ اب کوئی اور جھگڑا شروع نہیں کروانا چاہتی میں۔۔۔ پٹنا تو اشرف
نے ہی ہے دوبارہ سے لیکن اس بار بدنامی بہت زیادہ ہو گی۔۔۔ اور سب سے زیادہ میری
اپنی ۔۔۔ آگے کا سب کچھ سوچ کر صبا کانپ اٹھی۔۔۔ نہیں نہیں اسے روکنا ہوگا۔۔۔ کسی
بھی قیمت پر۔۔۔ اسکی اپنی پسند کی قیمت پر۔۔۔ کسی بھی شرط پر۔۔۔
اسکی ہر شرط ماننی پڑے گی۔۔۔ جیسے وہ پہلے منوا کو گیا ہے۔۔۔ لیکن
پہلے تو وہ مجھے پیاسی حالت میں چھوڑ گیا ہے۔۔۔ اسی وقت سب کچھ کر جاتا تو اچھا
تھا نا۔۔۔ کیسی آگ لگا دی تھی میری پھدی میں۔۔۔ یہ خیال آتے ہی صبا کو ایک بار پھر
سے اپنی پھدی میں تھوڑی سنسناہٹ سی محسوس ہونے لگی۔۔۔ جیسے اندر گیلا پن شروع ہو
رہا ہو۔۔۔ نہیں نہیں یہ میرا وہم ہے۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے نیچے وہاں۔۔۔ صبا
نے خود سے ہی جھوٹ بولنا شروع کر دیا۔۔۔ ایک بار تو جب اسکی بے چینی بہت بڑھ گئی
تو وہ اٹھ کر باہر بالکنی میں ہی چلی گئی۔۔۔ دیکھنے کہ کہیں وہ آتو نہیں رہا۔۔۔
لیکن باہر بالکل اندھیرا تھا۔۔۔ بالکنی کے پیچھے۔۔۔ نیچے کے گراؤنڈ میں اس وقت
بالکل خاموشی اور اندھیرا تھا۔۔۔ کہیں کہیں سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں بھی آرہی
تھیں۔۔۔ صبا نے دیوار کے اوپر سے میجر کے فلیٹ میں جھانکا تو اس کے سیٹنگ روم کی
لائٹ جل رہی تھی لیکن کھڑکی کے آگے پردہ ہونے کی وجہ سے کچھ بھی نظر نہیں آرہا
تھا۔۔۔ ابھی بھی جاگ رہا ہے کمینہ۔۔۔ آئے گا تو ضرور اپنی حوس پوری کرنے۔۔۔ مجھے
ذلیل کرنے۔۔۔ صبا نے سوچا۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے اسکا ہاتھ اپنی نجانے کیسے اپنی پھدی
پر چلا گیا۔۔۔ اور اپنے پجامے کے اوپر سے ہی اسنے اپنی چوت کو سہلانا شروع کر
دیا۔۔۔ میجر کے فلیٹ کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہوئے۔۔۔ پھر وہ واپس مڑی۔۔۔
اشرف پر اسکی نظر پڑی۔۔۔ کیسی عجیب بات ہے نا کہ جس شخص کیلئے میرے شوہر کا خون
کھول رہا ہے۔۔۔ اسی دشمن کیلئے میری پھدی گیلی ہو رہی ہے۔۔۔ تقریباً ایک بجے مووی
ختم ہوئی تو صبا اور اشرف دونوں
بیڈروم میں آگئے۔۔۔ اشرف اپنی سائیڈ پر دوسری طرف منہ کر کے لیٹ
گیا۔۔۔ صبا کو حیرانی ہوئی کہ اسنے کچھ بھی نہیں کیا اور کیوں خاموشی سے لیٹ گیا
ہے۔۔۔ خود صبا کی حالت بھی خراب ہو رہی تھی۔۔۔ وہ پیچھے سے ہی اشرف کی کمر سے لپٹ
گئی۔۔۔ اپنے ممے اسکی کمر سے پریس کر دیے۔۔۔ اور اپنی ٹانگ اسکی کمر پر ر کھ کر
اپنی چوت کو آہستہ آہستہ اسکی گانڈ سے رگڑنے لگی۔۔۔ اسکی چوت تو پہلے ہی گیلی ہو
رہی تھی۔۔۔ لیکن اشرف نے کوئی ریسپانس نہیں دیا۔۔۔ شاید یہ ابھی بھی پریشان ہے۔۔۔
صبا نے اشرف کی کروٹ اپنی طرف کی اور اسے اپنی بانہوں میں لینا چاہا۔۔۔ وہ اب میجر
سے نہیں ملنا چاہتی تھی۔۔۔ لیکن اسکے جسم کی آگ ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی۔۔۔
صبا نے اپنے ہونٹ اشرف کے ہونٹوں پر ر کھ دیے اور اشرف کے بے جان سے جسم کو چومنے
لگی۔۔۔ مم م م م م م م م م م۔۔۔ کتنے نرم ہونٹ ہیں اشرف کے۔۔۔ کتنا مزہ آتا ہے
اسکے ہونٹوں کو چومنے اور چوسنے کا۔۔۔ اور ایک وہ میجر ہے کتنے موٹے اور کھردرے
ہیں اسکے ہونٹ۔۔۔ موٹے اور کالے۔۔۔ بدبودار۔۔۔ سخت ہیں ہونٹ اسکے۔۔۔ شاید مردوں
کے۔۔۔ بھرپور مردوں کے ہونٹ ایسے ہی ہوتے ہوں۔۔۔ اشرف بھی تو مرد ہی ہے۔۔۔ لیکن
اسکے ہونٹ کتنے نرم ہیں۔۔۔ لڑکیوں کی طرح سوفٹ۔۔ لیکن اس میں اشرف کا کیا قصور
ہے۔۔۔ ہونٹ اسکے بھی تو اسکے باقی جسم کی طرح ہی ہوں گے نا۔۔۔ جیسے باقی جسم نرم
ہے ویسے ہی ہونٹ بھی۔۔۔ ویسے بھی یہ کونسا باڈی بلڈنگ اور ایکسرسائز کرتا ہے جو
اسکا جسم بھی مضبوط اور سولڈ ہو۔۔۔ سخت ہو۔۔۔ میجر کی طرح۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
0 تبصرے
THANKS DEAR