مرتے دم تک۔ساتویں قسط

 

مرتے دم تک

تحریر: ماہر جی

ساتویں قسط

 

جو میرے نازک بدن کو اپنی بانہوں میں لیتا ہے تو توڑ کر ر کھ دیتا ہے۔۔۔ جیسے جسم کی ہڈیاں ہی توڑ دے گا۔۔۔ کمینہ۔۔۔ اشرف کو کِس کرتے ہوئے وہ میجر کو یاد کر رہی تھی۔۔۔ اسکی بند آنکھوں کے آگے غیر ارادی طور پر میجر کا ہی چہرہ آ رہا تھا۔۔۔ جب وہ اسکے ہونٹوں کو چوم رہا تھا چوس رہا تھا۔۔۔ اسے یاد کرتے ہوئے صباء کی گیلی چوت اب تو جیسے پوری طرح سے پانی بہانے لگی۔۔۔ وہ اپنے خیالوں سے میجر کا چہرہ ہٹانا چاہتی تھی۔۔۔ سوچنے لگی۔۔۔ سوچنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔ اشرف نے بھی اب اسکی کسنگ کا جواب دینا شروع کر دیا تھا۔۔۔ اپنے ہاتھوں کو اسکی کمر پر پھیرنے لگا۔۔۔ آنکھیں کھول کر اشرف کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگی اشرف کتنے پیار سے چوم رہا ہے۔۔۔ کتنا پیار کرتا ہے مجھے۔۔۔ اور وہ کمینہ۔۔۔ پیار تو جیسے جانتا ہی نہیں۔۔ وحشی۔۔۔ کیسے مارتا ہے میری گانڈ پر اپنی اسٹک سے۔۔۔ جانوروں کی طرح۔۔۔ کتنا ظالم ہے وہ۔۔۔ پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو۔۔۔ اور کیسے لال لال نشان ڈال دیے ہیں اس نے میری گانڈ پر۔۔۔ ااوووووو۔۔۔ نوووووووو۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ اشرف کو روکنا پڑے گا۔۔۔ آج اپنی پیاس کو دبانا پڑےگا۔۔۔ ورنہ اشرف کو سب پتا چل جائے گا ان نشانات کے بارے میں جو میری گانڈ پر ہیں۔۔۔ اتنی سی دیر کی کِسنگ اور یا پھر۔۔۔ میجر کو یاد کرنے کی وجہ سے صباء کی پیاس جاگ گئی تھی۔۔۔ اسکی پھدی گیلی ہونے لگی تھی۔۔۔ لیکن اسنے آہستہ سے اشرف کو پیچھے ہتایا اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے۔۔۔ اور اسے بولا آج نہیں کل کر لینا پلیز۔۔۔ آج میں تھک گئی ہوئی ہوں۔۔۔ اشرف نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا اور ہمیشہ کی طرح آج بھی مان گیا۔۔۔ اور تھوڑی ہی دیر میں سوگیا۔۔۔ صباء کیلئے خوشی کی بات تھی کہ اس نے آج بھی اسکی بات مان لی تھی اور اسکا راز راز ہی رہاتھا۔۔۔ حالانکہ میجر کے اس طرح اسے پیاسا چھوڑنے کے بعد اسنے یہی سوچا تھا کہ وہ اشرف سے ہی اپنی پھدی کی پیاس بجھائے گی۔۔۔ لیکن اپنی گوری گوری گانڈ پر پڑے ہوئے سرخ نشانات کی وجہ سے وہ چپ رہی تھی۔۔۔ ابھی اسی بات پر خوش ہو رہی تھی کہ اسکے دماغ میں خیال آیا۔۔۔ آخر کیوں ہر بار اشرف اتنی آسانی سے مان جاتا ہے۔۔۔ کیوں رک جاتا ہے جب بھی میں اسے روکتی ہوں تو کیوں زبردستی نہیں کرتا میرے ساتھ۔۔۔ میجر تو کبھی بھی میرے روکنے سے نہیں رکتا۔۔۔ وہ تو وہی کرتا ہے جو اسکا دل چاہتا ہے۔۔۔ زبردستی چود دیتا ہے مجھے۔۔۔ روند دیتا ہے میرے جسم کو۔۔۔ توڑ دیتا ہے میرے بدن کو۔۔۔ اور اگر چاہتا ہے تو پوری طرح سے گرم کر کے پیاسا بھی چھوڑ جاتا ہے۔۔۔ پورا جانور ہے وہ میجر تو۔۔۔ انسان نہیں ہے۔۔۔ لیکن اشرف میں تھوڑی سی بھی حیوانیت کیوں نہیں ہے۔۔۔؟یہ سب سوچتے ہوئے بھی صباء کا ہاتھ خود سے اپنی گرم ہوتی ہوئی۔۔۔ پگھلتی ہوئی۔۔۔ چوت پر تھا۔۔۔ بیڈروم کے نائٹ بلب کی ہلکی روشنی میں صباء نے گھڑی کی طرف دیکھاتو رات کا ڈیڑھ بج رہا تھا۔۔۔ اور کمرے میں اشرف کے خراٹے گونج رہے تھے۔۔۔ شکر ہے یہ سوگیا۔۔۔ اب اگر میجر آبھی گیا تو اسے سنبھال لوں گی۔ واپس بھیج دونگی اسے۔۔۔ کچھ بھی نہیں کرنے دونگی۔۔۔ اشرف بھی تو گھر پر ہے نا۔۔۔ لیکن ابھی تک آیا کیوں نہیں۔۔۔ چلو اچھا ہے کہ نہیں آیا۔۔۔ جان چھوٹ گئی۔۔۔ کہیں موبائل تو آف نہیں ہے میرا کہ کال کرتا رہا ہو۔۔۔ صباء نے فوراً سے اپنا موبائل اٹھایا تو وہ آن ہی تھا۔۔ اگر ابھی اسکی کال آگئی تو اشرف اٹھ بھی سکتا ہے۔۔۔ پھر کیا جواب دونگی کہ کس کی کال ہے۔۔ سائیلنٹ کر دیتی ہوں موبائل کو۔۔۔ اور پھر اسنے اپنے سیل کو سائیلنٹ کر دیا۔۔۔ جیسے جیسے ٹائم گزر رہا تھا تو صباء کی بے چینی بڑھ رہی تھی۔۔۔ چوت کے اندر کی حرارت بڑھ رہی تھی۔۔ عجیب بات ہے پتہ نہیں کیوں کوئی کال بھی نہیں کی۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ وہ بالکونی میں آیا ہی ہو کہیں اشرف نے بالکونی کا دروازہ لاک تو نہیں کر دیا۔۔۔ دیکھ تو آؤں جا کر۔۔۔ ایسے ہی مفت میں پھر سے غصہ کرنے لگے گا۔۔۔ اور پھر اسکا غصہ بھگتنا بھی تو مجھے ہی پڑتا ہے نا۔۔۔ میری گانڈ کو۔۔۔ صباء یہ سوچ کر ہلکی سی مسکرا دی۔۔۔ کیسے لال کر دیتا ہے گانڈ کو۔۔۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس نیں بھی مزہ ہی آتا ہے۔۔۔ پتہ نہیں کیا جادو ہے اس کمینے کے ہاتھوں میں۔ صباء خاموشی سے اٹھی اور دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ ۔۔۔ دبے پاؤں۔۔۔ بیڈروم سے باہر نکل گئی۔۔۔ اپنے ہی گھر میں چوروں کی طرح سے پھر رہی تھی۔۔۔ سیٹنگ روم میں جا کر بالکونی کا دروازہ دیکھا وہ لاک ہی تھا۔۔۔ ہمت کر کے بالکونی میں آئی۔۔۔ وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ دوبارہ سے میجر کے فلیٹ میں جھانکا۔۔۔ لائٹ ابھی بھی جل رہی تھی۔۔ ابھی بھی جاگ رہا ہے کمینہ۔۔۔ تو پھر آیا کیوں نہیں ابھی تک۔۔۔؟ پی رہا ہوگا شراب۔۔۔ آئے گا تو ضرور۔۔۔ بخشے گا تو نہیں۔۔۔ ایسے کیسے جان چھوڑ دے گا۔۔۔ مفت کی ملی ہوئی پھدی بھلا کون جانے دیتا ہے ہاتھ سے۔۔۔ اشرف کےعلاوہ۔۔۔ صباء ہنس پڑی۔۔۔ پتہ نہیں کیوں۔۔۔ واپس آکر پھر لیٹ گئی۔۔۔ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ ہو جائے یا جاگتی رہے۔۔۔اسی بے چینی کی وجہ سے اسکے ساتھ عجیب بات یہ ہو رہی تھی کہ اسکی چوت کے اندر بھی عجیب سی ہلچل سی ہو رہی تھی تڑپ سی جاگ رہی تھی۔۔۔ لیٹے لیٹے نظر سامنے کی کپڑوں کی الماری پر پڑی۔۔۔ اسکا انڈرویر بھی واپس کردونگی اسے۔۔۔ منہ پر مارونگی اسکے۔۔۔ گندا انڈرویئر یہاں چھور گیا۔۔۔ اور مجھے چھپانا پڑا ہے اسے اپنے صاف اور غیر استعمال شدہ پیڈز کے ساتھ۔۔۔ اور کتی بھی کیا۔۔۔ اور کہاں چھپاتی اسے۔۔۔ سارے خراب ہو گئے ہونگے پیڈز تو۔۔۔ اب استعمال نہیں کرونگی ان کو ویسے کچھ بھی نہیں ہوا ہوگا یار۔۔۔ صرف اسکا انڈر ویئر ہی رکھا ہے نا۔۔۔ کیا ہوا اگر اس میں سے اسکی منی کی بد بو آرہی تھی تو۔۔۔ ویسے بھی تو وہ کمینہ دو بار میری پھدی کے اندر اپنی منی چھوڑ چکا ہے۔۔۔ اب تو صرف وہ پیڈ ہے نا جو چوت کے اوپر رکھنا ہے۔۔۔ اور ٹب تو پوری کی پوری منی چوت کے اندر ڈال دی تھی۔۔۔ کمینے نے۔ کہیں اس کتے کی وجہ سے کچھ ہو جاتاتو صباء نے بے خیالی میں آپنا ہاتھ اپنی پھدی پر رکھتے ہوئے سوچا۔۔۔ پہلے سے ہی نکال رکھتی ہوں اسکا انڈرویئر۔۔۔ صباء نے سوچا اور اٹھ کر اپنی دراز میں سے اسکا گندا انڈرویئر نکال کر واپس بیڈ پر لیٹ گئی اور انڈرویئر اپنے سہانے کے نیچے رکھ لیا۔۔۔ پھر پتا نہیں کیا خیال آیا کہ لیٹے لیٹے ہی اشرف پر ایک نظر ڈالی جو دوسری طرف منہ کر کے سو رہا تھا۔۔۔ 

پھر اسنے میجر کا انڈرویئر اپنے تکیے کے نیچے سے باہر نکالا اور ہاتھ میں پکڑ کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔ کتنا گندہ ہو رہا ہے۔۔۔ پتہ نہیں دھوتا کیوں نہیں ہے اسے۔۔۔ دھوئے بھی کون آخر۔۔۔ ہے ہی کون اسکا۔۔۔ میں ہی دھو دیتی ہوں۔۔۔ نہیں میں کیوں دھوؤں۔۔۔؟ اپنی اسی پینوسے دھلوئے جسکی لینے کے بعد ویسے ہی انڈرویئر اور کپڑے پہن لیتا ہے۔۔۔ کتنی بدبو آرہی ہے۔۔ صباء نے انڈرویئر کو اپنی ناک کے پاس لاکر سونگھا۔۔۔ تھوڑا سا ناک کو چڑھایا بدبو کی وجہ سے۔ کتنی عجیب بدبو ہے۔۔۔ اشرف کے انڈرویئر سے تو ایسی بدبو نہیں آتی کبھی۔۔۔ وہ کمینہ خود کر صاف بھی تو نہیں رکھتا تھا۔۔۔ پسینے سے بھیگا رہتا ہے ہر وقت۔۔۔ ناجانے کیوں بنا کچھ سوچے ہی وہ بار بار میجر کے گندے انڈرویئر کو سونگھ رہی تھی۔۔۔ اپنے ناک پر پھیر رہی تھی آنکھیں بند کر کے اور دوسرا ہاتھ خود سے ہی اپنی پھدی کو سہلا رہا تھا۔۔۔ عجیب سی حالت ہو رہی تھی پھدی کی بھی۔۔۔ پانی بہہ رہا تھااسکی پھدی سے۔۔۔ ہاں ں ں ں ں ں ں ں۔۔ اسی کے انڈرویئر سے صاف کرتی ہوں اپنی چوت بھی۔۔۔ کمینے کا انڈرویئر اور بھی گندہ کر دیتی ہوں۔۔۔ صباء نے سوچا اور ایک نظر اشرف کی طرف دیکھ کر انڈرویئر اپنے پجامے کے اندر ڈال لیا اور اسی کے ساتھ اپنی چوت کو صاف کرنے لگی۔۔۔ رگڑنے لگی۔۔۔ ایک اور ہی الگ سا احساس ہونے لگا۔۔۔ میجر کا انڈرویئر اپنی پھدی پر رگڑنے سے۔۔۔ چوت کی آگ کم ہونے کی بجائے اور بھی بڑھنے لگی۔۔۔ اف ف ف ف ف ف ف۔۔۔ کیا ہوتا جا رہا ہے مجھے۔۔۔؟ آہ ہ یہ کتا کب آئے گا آخر۔۔۔؟وہ میجر کے انڈرویئر کو اپنی پھدی پر رگڑتے ہوئے سوچ رہی تھی اور تڑپ رہی تھی۔۔۔ اب نہیں آئے گا وہ کمینہ۔۔۔ اچھا ہے نا آئے۔۔۔ میں کونسا اسکا انتظار کر رہی ہوں۔۔۔ ایسے ہی مجھے انتظار میں ڈال دیا ہے۔۔۔ میں بھی سونے لگی ہوں۔۔ اور اگر بعد میں اسکی کال آگئی تو۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟ اور میں اٹینڈ نا کر سکی تو۔۔۔؟؟؟؟؟؟ تو پھر تو صبح دوبارہ وہی کچھ بھگتنا پڑے گا۔۔۔ اب تو اس سے اسکی تمام شرطیں ماننے کا وعدہ کر لیا ہے میں نے۔۔۔ صباء اس بے چینی میں اپنی چوت کو سہلا رہی تھی میجر کے انڈرویئر سے۔۔۔ اپنی شلوار کے اوپر سے ہی۔۔۔ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ سوئے یا جاگے۔۔۔؟ٹائم گزرتا جا رہا تھا اسکی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ پھدی کی تڑپ بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔ آہی جائے گا اگر آنا ہے تو۔۔۔ اور دفعہ ہو کر لے جو کرنا ہے۔۔۔ مجھے ایسے ہی ذلیل کر رہا ہے نا سونے دیتا ہے۔۔۔ اور نا چین لینے دیتا ہے۔۔۔ خود کال کرلیتی ہوں اسے۔۔۔ کیا کہونگی اسے کہہ دونگی کہ منع کرنے کیلئے کال کی ہے کہ نہیں آنا۔۔۔ لیکن وہ کمینہ سب سمجھ جائے گا کہ میں اسکا انتظار کر رہی ہوں۔۔۔ پھر دوبارہ سے ذلیل کرے گا مجھے گندی گندی گالیاں دے کر۔۔۔ پھر رنڈی بولے گا۔۔۔ میں کوئی رنڈی ہوں جو اسکا انتظار کروں۔۔۔ پتہ نہیں کیا سے کیا بنانے جا رہا ہے مجھے۔۔۔ ایک شریف پڑھی لکھی عورت سے ۔۔۔ ایک رنڈی۔۔۔ پوری رات ایسے ہی جاگتے اور کروٹیں بدلتے ہوئے گزر گئی۔۔۔ کبھی صباء موبائل چیک کرتی اور دوبار تو اٹھ کر باہر بھی گئی۔۔۔ سمجھ نہیں آرہی تھی اسے یا یہ تسلیم نہیں کرنا چاہتی تھی کہ اسے بھی میجر کا انتظار اسی لیے ہے کہ وہ آکر اسے چودے۔۔۔ اسکی پھدی کی پیاس بجھائے۔۔ یہ بات وہ نہیں مان سکتی تھی۔۔۔ چاہے اسکی چوت جتنی بھی گوہی دے رہی ہو۔۔۔ چاہے اسکا جسم کتنا بھی میجر کو پکار رہا ہو ۔۔۔ صبح کی ہلکی سی روشنی ہوئی تو صباء اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔ غصے سے۔۔۔ بے بسی سے۔۔۔ اور جھنجھلاہٹ سے۔۔۔ ساری رات برباد کردی میری اسنے۔۔۔ اس سے تو بہتر تھا کہ اشرف کو ہی نہیں روکتی۔۔۔ چود دیتا مجھے۔۔۔ ایسے ساری رات ذلیل تو نا ہونا پڑتا۔۔۔ تڑپناتو نہیں پڑتا نا۔۔۔ صباء نےاٹھ کر اپنے پجامے کے اندر سے میجر کا انڈرویئر نکالااور اسے دوبارہ دراز میں رکھ دیا اسی پیکٹ میں اور پھر خودواشروم میں آگئی اور اپنا ہاتھ منہ دھونے لگی۔۔۔ آئینے میں خود کو دیکھا تو اسکی دونوں آنکھیں لال سرخ ہو رہی تھیں صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ پوری رات جاگتی رہی ہے۔۔۔ پھر وہ بیڈروم سے باہر آگئی۔۔ کچن میں چائے کا پانی رکھا اور بالکونی کا دروازہ کھولنے چلی گئی۔۔۔ بالکونی میں گئی اور خودبخود ہی اسکی نظر میجر کی بالکونی کی طرف اٹھ گئی۔۔۔ میجر بھی اپنی بالکونی میں کھڑا ایکسرسائز کر رہا تھا۔۔۔ نیچے تو پتا نہیں کیا پہنا ہوا تھا لیکن اوپری جسم بالکل ننگا تھا۔۔۔ کالا، مضبوط جسم بالکل ننگا۔۔۔ چوڑاسینہ مضبوط ابھرے ہوئے مسلز اورپھڑکتے ہوئے بازوؤں کے گولے۔۔۔ وہی جسم جو دوبار اسکے نازک جسم کو روند چکا تھا۔۔۔ اپنی بانہوں میں لے کر مسل چکا تھا۔۔۔ صباء نے اسے دیکھا تو ایک لمحے کیلئے تو سب کچھ بھول گئی لیکن پھر جیسے اسے ہوش آیا۔۔۔ تو غصے سے منہ پھیر لیااور بالکونی میں پڑی ہوئی واشنگ مشین میں کپڑے اِدھر اُدھر کرنے لگی۔۔۔ میجر دیوار کی طرف آیا اور صباء کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ اوہ ہووووووو۔۔۔ غصے میں ہو کیا صبح ہی صبح۔۔۔

وہ بس رات کو مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ تمہارے پاس جانا ہے۔۔۔ یاد آجاتا تو ضرورآتا تمہارے پاس۔۔۔ تم کو ایسے ہی انتظار کرنا پڑا میری وجہ سے۔۔۔ اپنی عادت اور مزاج سے ہٹ کر میجر پتہ نہیں کیوں آج اچھے موڈ میں تھا۔۔۔ شاید صباء کی بے بسی کا مزہ لے رہا تھا۔۔۔ میجر کا مود لائٹ دیکھا تو صباء نے فوراً ہی جیسے نخرے شروع کردیے۔۔۔ وہی عورتوں کی عادت کہ جیسے ہی مرد منانے کی کوشش کریں تو اور بھی غصہ کر کے دکھانے لگتی ہیں۔۔۔ جوکہ ہوتا تو جھوٹ موٹ کا ہی ہے نا۔۔۔ 

 صباء غصے سے بولی ؛ میں کوئی انتظار نہیں کررہی تھی تمہارا۔۔۔ اچھا ہوا کہ نہیں آئےاور ویسے

 بھی مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ تمہارا انتظار کروں۔۔۔

میجر ؛ انتظار نہیں کر رہی تھی تو پھر اتنا غصہ کیوں کر رہی ہے سالی۔۔۔ اور یہ تمہاری آنکھیں کیوں اتنی لال ہو رہی ہیں جیسے ساری رات جاگتی رہی ہو میرے انتظار میں۔۔۔ 

میجر ہنسا ؛ کہتی ہو تو ابھی آجاؤں چودنے کیلئے۔۔۔؟؟؟

 صباء جلدی سے اندر کو دیکھ کر بولی؛ نہیں نہیں۔۔۔ ابھی نہیں۔۔۔ 

پھر خود ہی اپنی کہی ہوئی بات پر شرمندہ ہوتے ہوئے بولی ؛ میرا مطلب ہے کہ اب کبھی نہیں آنے دونگی۔۔۔ کیوں میرے پیچھے پڑ گئے ہوئے ہو۔۔۔ کیوں میری زندگی تباہ کرنے کے پیچھے

 پڑے ہو۔۔۔ کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا۔۔۔ 

میجر ؛ ہنستے ہوئے۔۔۔ اب تو میں جب دل کرے آسکتا ہوں تمہارے پاس۔۔۔ خود ہی تو تم نے اپنے گھر کی چابی دی ہے مجھے کہ جب دل کرے آسکوں تمہارے پاس۔۔۔ اورپتہ ہےکل جب تم نے میری ساری شرطیں مانی تھیں اور جب میرے پیروں میں پڑی ہوئی معافی مانگ رہی تھی اور جب کتیا کی طرح ننگی کھڑی ہو کر اپنی گانڈ دکھا رہی تھی مجھے اس سب کی بھی ویڈیو میں نے بنا لی ہوئی ہے اپنے موبائل میں۔۔۔ 

میجر گھناؤنے انداز میں ہنسا ؛ اب تیرے اس گانڈو کے جانے کے بعد آؤں گا تیرے پاس۔۔۔

 یا تم خود آؤ گی میرے پاس۔۔۔

  صباء ڈر گئی۔۔۔ آخر اب وہ کر بھی کیا سکتی تھی پتہ نہیں کون کونسی ویڈیو اسکی میجر کے پاس تھی۔۔۔ جن کو وہ کہیں بھی کسی کو بھی دکھا سکتا تھا۔۔۔ 

 صباء ؛ پلیز بس کر دیں۔۔۔ نہ کریں مجھے ایسے ذلیل۔۔۔ میں ایسی لڑکی نہیں ہوں جیسا آپ نے مجھے سمجھ لیا ہے۔۔۔ میں بدنام ہو جاؤں گی پلیز۔۔۔ اس دن بھی بانو نے مجھے دیکھ لیا تھا جب میں آپ کے گھر سے نکلی تھی۔۔۔ وہ پتہ نہیں کہاں کہاں بتاتی ہوگی جا کر۔۔۔ 

میجر ؛ ارے تم بانو کی فکر نہیں کرو اسے میں دیکھ لوں گا۔۔۔ وہ کسی کو نہیں کہے گی۔۔۔

 صباء ؛ وہ۔۔۔ بانو ہے تو سہی آپ کے پاس آپ کی ہر بات ماننے کیلئے تو پھر آپ مجھےچھوڑ کیوں نہیں دیتےایسے خراب کرنا۔۔۔ 

میجر ؛ ارے اسکا تیرے سے کیا مقابلہ۔۔۔ وہ ایک سستی رنڈی کی طرح ہے۔۔۔ اور تو۔۔۔ تو کسی ہائی کلاس کال گرل کی طرح۔۔۔ خوبصورت اور سیکسی۔۔۔ اونچے بھاؤ والی۔۔۔ 

 صباء سوچتے ہوئے۔۔۔ کمینے کو تعریف بھی نہیں کرنی آتی۔۔۔ تعریف بھی کر رہا ہے تو ذلیل ہی کرتے ہوئے۔۔۔ صباء کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ ایسے ہی لڑتے لڑتے اور غصہ دکھاتے ہوئے میجر سے باتیں کرنے لگی تھی۔۔۔ 

 صباء ؛ بہت ہی کمینے ہو تم۔۔۔ کتنی بار کہا ہے کہ مجھے یہ بازاری عورتوں کی طرح نہیں بلایا کرو۔ کسی شریف عورت سے بات کرنے کی بھی تمیز نہیں ہے تم میں۔۔۔ 

میجر ؛ کون شریف۔۔۔ تو شریف ہے۔۔۔؟ بہن چود رنڈی۔۔۔ اتنی بار مجھ سے چدوا چکی ہے کل بھی اپنی ننگی گانڈ مجھے دکھا دکھا کر معافی مانگتی رہی ہے۔۔۔ اور ایک بار بھی اپنے شوہر کو نہیں بتایا پھر کہتی ہے کہ تو شریف ہے۔۔۔ سالی تیرے سے بڑی رنڈی تو میں نے آج تک نہیں چودی۔۔۔ 

 صباء نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔۔۔ وہ کمینہ اسے ذلیل کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے 

جانے نہیں دیتا تھا۔۔۔ اتنے میں اندر سے اسے اشرف کی آواز آئی۔۔۔ وہ اپنے بیڈروم سے نکل رہا تھا۔۔۔ صباء نے گھبرا کر اندر دیکھا۔۔۔ اور اشرف اٹھ گیا ہے ۔۔۔ کہتی ہوئی اندر کو بھاگی۔۔۔ میجر اپنی بالکونی میں کھڑا ہنستا رہا۔۔۔ 

تھوڑی دیر میں کال کروں گا میں تم کو۔۔۔ پیچھے سے میجر نے اسے کہا۔۔۔ 

جسے صباء نے سن تو لیا لیکن کوئی جواب نہیں دیا اور اندر چلی گئی۔۔۔ اشرف اٹھ کر باہر آیا ہوا تھا صباء کچن کی طرف بڑھی اور بولی ؛ تم چلومیں چائے لاتی ہوں اندر ہی ۔۔۔ 

اشرف واپس کمرے میں چلا گیا۔۔۔ صباء چائے بنانے لگی۔۔۔دوبارہ نظر بالکونی کی طرف ہی

 اٹھی۔۔۔ کمینہ ہے پورا کا پورا یہ شخص۔۔۔ کہتا ہے کال کرے گا مجھے۔۔۔ کیوں کال کرے گا۔۔ میں نے کوئی بات نہیں کرنی اس سے۔۔۔ اوووووو۔۔۔ نوووووو۔۔۔ میرا موبائل تو بیڈروم میں ہی پڑا ہوا ہے۔۔۔ کہیں اگر اسنے کال کر ہی دی تو۔۔۔ صباء فوراً بیڈروم کی طرف بھاگی۔۔۔ اور خاموشی سے اپنا موبائل اٹھا کر باہر آگئی۔۔۔ اشرف دوسری طرف کروٹ لیے لیٹا ہوا تھا۔ فوراً سے کچن میں آکر اپنا موبائل چیک کیا۔۔۔ لیکن شکر ہے کہ کوئی کال یا میسج نہیں تھا۔۔۔ صباء نے موبائل کو سائلنٹ موڈ سے وائبریٹ موڈ میں سیٹ کیا اور اپنا موبائل اپنی برا کے اندر رکھ لیا۔۔۔ اپنے خوبصورت مموں کے درمیان۔۔۔ چائے پنا کر بیڈروم میں لائی اور اشرف کو بھی دی۔۔۔ دونوں چائے پینے لگے لیکن دھیان تو صباء کا اپنے برا میں رکھے ہوئے موبائل کی طرف تھا کہ کہیں اسکی کال ہی نہ آجائے۔۔۔ مجھے موقع دیکھ کر خود ہی اسے بتا دینا چاہیے کہ کال نہیں کرے کیونکہ آج تو اشرف نے گھر پر ہی ہونا ہے۔۔۔ تھوڑی دیر میں اشرف اٹھ کر باتھ روم میں چلا گیا۔۔۔ صباء نے فوراً اپنا موبائل نکالا اور میجر کو میسج لکھنے لگی۔۔۔ 

 صباء ؛ پلیز آپ کوئی کال یا میسج نہیں کرنا کیونکہ اشرف گھر پر ہی ہے۔۔۔

 صباء نے میسج ٹائپ کیا اور پھر کافی دیر سوچنے کے بعد میجر کو سینڈ کر دیا۔۔۔ دویا تین منٹ کے بعد صباء کا سیل وائبریٹ کرنے لگا۔۔۔ صباء گھبرا گئی۔۔۔ دیکھا تو میجر کی ہی کال تھی۔۔۔ صباء کا جسم کانپنے لگا۔۔۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔۔۔ باتھ روم کے دروازے کی طرف دیکھا اندر سے شاور کے چلنے کی آواز آرہی تھی۔۔۔ موبائل کی وابریشن کے ساتھ ہی وائبریٹ ہوتے ہوئے ہاتھ کے ساتھ صباء نے کال اٹینڈ کر لی۔۔۔ 

میجر ؛ کیا ہو گیا تھا سالی۔۔۔ کیوں اتنی دیر لگا دی کال اٹینڈ کرنے میں ۔۔۔؟ 

 صباء بہت ہی دھیمی آواز میں بولی ؛ میں نے بتایا تھا نا آپ کو کہ میرا شوہر گھر پر ہی ہے پھر بھی آپ نے کال کردی۔۔۔ 

میجر ؛ وہ سالا اسوقت کہاں ہے۔۔۔؟ 

 صباء نے اپنے شوہر کو دی جانے والی گالی کو نظرانداز کر دیا کیونکہ اب یہ اس کیلئے عام سی بات 

ہو چکی تھی۔۔۔ 

 صباء ؛ وہ نہا رہا ہےباتھ روم میں ہے ۔۔۔

میجر ؛ کیوں رات چودا تھا کیا تیری پھدی کو جو نہانے چلا گیا ہے صبح ہی صبح۔۔۔؟

 صباء ؛ نہیں ۔۔۔ ویسے ہی۔۔۔ 

پھرخود ہی خیال آیا کہ ایسا کیوں بتا دیا سے۔۔۔

میجر ؛ چودا نہیں اس نےتو اسی لیے صبح سے پھدک رہی ہے تیری چوت نا۔۔۔ بول ڈال دوں تیری چوت میں لن اپنا آکر۔۔۔؟ 

 صباء ؛ نہیں۔۔۔ نہیں میں اب فون بند کر رہی ہوں وہ کسی بھی وقت باہر آجائیں گے۔۔۔ 

میجر ؛ وہ گھر رہتا ہے یا نہیں مجھے نہیں پتا اس بات کا۔۔۔ میں تو آؤں گا ہی تمہارے پاس۔۔۔ دیکھتا ہوں وہ کمینہ میرا کیا بگاڑ سکتا ہے۔۔۔ 

 صباء ؛ پلیز میجر صاحب نہیں۔۔۔ کل کو جیسے آپ کہو گے میں مان لوں گی لیکن آج نہیں۔۔۔ صباء نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔ 

میجر ؛ سن رنڈی۔۔۔

 اب میجر کا لحجہ پہلے کی طرح سے ہی سخت اور غضبناک ہو گیا ہوا تھا۔۔۔ 

میں بارہ بجے تیرے گھر پر آؤں گا بالکونی کے راستے۔۔۔ اب یہ تیری مرضی ہے کہ تو اس بہن چود کو باہر بھیجتی ہےیا پھر اُس کےسامنے ہی چدواتی ہے۔۔۔ اور ہاں اگر بالکونی کا دروازہ بند ہوا نا تو پھر تجھے پتا ہی ہے کہ کیا ہو گا۔۔۔ تیرے اس ہیجڑے کے سامنے تجھے تو چودوں گا اور ساتھ ساتھ اسکی بھی گانڈ ماروں گا میں اپنے لن سے۔۔۔ سن لیا نا۔۔۔ 

یہ کہتے ساتھ ہی میجر نے فون بند کر دیا۔۔۔ صباء تو کچھ بھی نہیں بول سکی۔۔۔ اسے دوبارہ 

سے روک بھی نہیں سکی۔۔۔ میجر کا غصیلا لہجہ واپس آتے ساتھ ہی صباء کی ساری طاقت اور غصہ ختم ہوگیاتھا۔۔۔ اس کی مزاحمت دم توڑ گئی تھی۔۔۔ انتہائی پریشانی کے عالم میں صباء نے ناشتہ بنانا شروع کر دیا۔۔۔ دونوں میاں بِیوِی نے ناشتہ کیا اور صباء گھر کے کاموں میں لگ گئی جبکہ اشرف ٹیوی دیکھنے لگا ۔۔۔ کام کرتے ہوئے صباء کی نظریں گھڑی پر ہی تھیں ۔۔۔ کیا کروں میں ۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے ایسے ہی دھمکی ہی دی ہو ۔۔۔ اشرف کے ہوتے ہوئے وہ آنے کی ہمت تو نہیں کر سکتاویسے ۔۔۔ لیکن اس کمینے کا کچھااعتبار بھی نہیں ہے وہ کونسا اشرف سے ڈرتا ہے ۔۔۔ اگر ایسے ہوا تو کیا ہو گا ۔۔۔ ایک تو میری عزت گئی ۔۔۔ اور دوسرا لڑائی جھگڑا ہوجائے گا ۔۔۔ پوری بِلڈنگ میں میں خودہی بدنام ہو جاؤں گی ۔۔۔ اور جیسے اس نے کہا تھا کہ اشرف کی گانڈ ماروں گا تواگر ویسا کیا تو ۔۔۔ تو و و و و۔۔۔ کیا ہو گا ۔۔۔ صباء کے دماغ میں ایسا ہی منظر گھوم گیا ۔۔۔ تو پِھر اب کیا کروں میں ۔۔۔ کیا اشرف کو باہر بھیج دوں کہیں میں ۔۔۔ کسی بھی کام سے ۔۔۔ پِھر اس کے بعد وہ آیا تو پِھرکیا ہوگا ۔۔۔ کیا کرے گا وہ ۔۔۔ وہی کچھ کرے گا نہ جو وہ پہلے کرتا ہے ۔۔۔ کیا کروں میں ۔۔۔ کیا ایسا ہی کھلونا بناۓرکھے گا مجھے وہ اپنا ۔۔۔ کل خود ہی چھوڑ گیا تھا نہ مجھے میں نےتو نہیں روکا تھا نہ ۔۔۔ اور خود ہی رات کو نہیں آیانہ ۔۔۔ تو شاید اسی لیے آج اپنی ہوس پوری کرنا چاہ رہا ہے ۔ ۔۔ رات کو شاید اسی لیے نہیں آیا کے میری پیاس بڑھاناچاہتا تھا ۔۔۔ دیکھنا چاہتا تھا کہ میں کتنا تڑپتی ہوں اُس کے لیے ۔۔۔ تڑپی تو ہوں ۔۔۔ لیکن اتنا بھی کیا کہ ایک دن بھی نہیں رک سکتا ۔۔۔ اشرف تو کبھی بھی ایسا نہیں کرتا ۔۔۔ جیسے کہوں مان لیتا ہے ۔۔۔ روکوں تو رک جاتا ہے ۔۔۔ لیکن وہ تو میجر ہے نہ۔۔۔ وہ کہا ں میری مانے گا ۔۔۔ ہاں بس لڑائی جھگڑے سےبچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اشرف کو کچھ دیر کے لیےباہر بھیج دوں ۔۔۔ صباء نے فیصلہ کر لیا ۔۔۔ صباء نے جلدی سے گھر کے راشن کی ایک لسٹ بنائی ۔ ۔۔ حالانکہ یہی راشن اس نے کل منگوانا تھا جب اشرف کو بتاتے ہوئے اس کی میجر سےٹکر ہو گئی تھی ۔۔۔ لسٹ بناتے ہوئے وہ سوچنے لگی ۔۔۔ خود کو کوسنے لگی ۔۔۔ یہ میں کیا کر رہی ہوں ۔۔۔ اپنے خوبصورت اور پیار کرنے والے شوہر کو دھوکا دیتےہوئے باہر بھیج رہی ہوں اس مردود ۔۔۔ کمینے کے لیے ۔۔۔ کیا ہو گیا ہے صباء تجھے ۔۔ ۔ لیکن یہ سب میں اپنے شوہرکے لیے ہی تو کر رہی ہوں ۔ ۔۔ اسے اور اپنی میرڈ لائف کوبچانے کے لے ۔۔۔ اس ذلیل کے شاکنجے میں بھی تو اسی کی وجہ سےآئی ہوں نااگر کچھ طاقت ہوتی اس میں میجر سے مقابلہ کرنےکی تو کیا مجھے اُس کےسامنے یوں جھکنا پڑتا ۔ ۔ اگر میں اشرف کو باہر نہ بھیجوں تو کیا اس کا نازک جِسَم میجر کے مضبوط ۔۔۔ پتھر جیسے جِسَم کا مقابلہ کر سکتا ہے۔؟ پہلے بھی تو ہونٹ سوجھا پڑا ہے اس کمینے کا ایک مکالگنے سے اب کہیں اور ہی ہڈی پسلی نہ تڑوا لے اپنی۔۔۔ صباء خود کو مطمئن کر رہی تھی اور ساتھ ہی انجانے میں اپنےشوہر کو میجر سے کمپیئربھی کر رہی تھی ۔۔۔ انجانے میں میجر کے جِسَم کی تعریف کر رہی تھی اور اپنے شوہر کو اُس کےسامنے حقیر ثابت کر رہی تھی ۔۔۔ ۔ پِھر وہ لسٹ اشرف کو دیتے ہوئی بولی ۔۔۔ اشرف پلیز جلدی سے جا کریہ کچھ سامان لے آؤ ۔۔۔ 

اشرف :یار آج تو ہم نے باہر جانا تھا اور تم مجھے کام کے لیےبھیج رہی ہو ۔۔۔ 

 صباء :ارے یار یہ بھی تو ضروری ہے نا ۔ ۔۔ویسے بھی باہر تو لنچ کے بعدہی جا سکیں گے نا۔۔۔ جلدی سے لے آؤ جا کر اتنے میں میں بھی گھر کے کام نپٹا لیتی ہوں ۔۔۔ 

اشرف بد دلی سے اٹھ گیا ۔ ۔۔ پرچون کی ایک چھوٹی سی دکان تو بالکل بِلڈنگ کے پاس ہی تھی لیکن صباء کو پتہ تھا کہ اشرف اُس کے پاس نہیں جائے گا کیونکہ اس دکان سےصرف چھوٹی موٹی چیزیں ہی خریدتا تھا وہ اور زیادہ چیزیں ہوتیں تو پِھر تقریباً پندرہ منٹ کی دوری پر ایک ڈپارٹمینٹل اسٹور تھاجس کے مالک کے ساتھ اشرف کی اچھی بن گئی ہوئی تھی اور دوستی بھی ہوگئی ہوئی تھی اسی کے پاس جا کر لاتا تھا اور اکثر اس کے ساتھ گپ شپ بھی لگانے میں دیر کر دیتا تھا ۔۔۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی صباء بولی۔۔۔

 صباء :دیر نہیں کرنا نہ بس جلدی سے نیچے والی دکان سے ہی لے آؤ ۔۔۔ 

 صباء نے ڈرتے ہوئے کہا کہ کہیں سچ میں ہی نیچے سےہی لے کر نہ آجائے لیکن ۔۔۔ 

اشرف :نہیں یار ۔۔۔ زیادہ سامان ہے نہ تو میں اپنے دوست کے اسٹور پر ہی جاؤں گا ۔۔۔ وہ تھوڑی کمی بھی کر لیتاہے قیمتوں میں اور چیز بھی اچھی ہوتی ہے ۔۔۔ اِس نیچے والے کے پاس توبس ایمرجنسی میں ہی جاناپڑتا ہے ورنہ مجھے تو نہیں پسند ۔۔۔ اس کا مال بھی کوئی زیادہ اچھی کوالٹی کا نہیں ہوتااور خود بھی تو دیکھو نا کیسے گندہ بن کے بیٹھا رہتاہے ۔۔۔ تیل مرچوں میں ڈوبا ہوا ۔۔۔ جیسے عید کے عید ہی نہاتاہو ۔۔۔ 

اشرف ہنستے ہوئے بولا اور صباء بھی ہنس پڑی ۔۔۔ 

 صباء :اچھا چلو ٹھیک ہے جہاں سےلانا ہے لاؤ لیکن جلدی آنا ۔ ۔۔

اشرف چلا گیا تو صباء نے اسے بِلڈنگ سے باہر جاتےہوئے بھی دیکھ لیا ۔۔۔ ابھی صرف ساڑھے گیارہ ہوئے تھے ۔۔۔ اب کیا کروں میں ۔۔۔ کیا خود اسے بلاؤں کہ آجاؤ اور کر لو جو کرنا ہےمیرے ساتھ ۔۔۔ نہیں نہیں خود ہی فون کرے گا وہ ۔۔۔ یا خود ہی آنا ہوگا تو آئے گا مجھے کیا میں کیوں بلاؤں اسے ۔۔۔ لیکن ٹائم تو تھوڑا ہی ہے ۔۔۔ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ ہے اور اگر بنا ٹائم برباد کیےسامان لے کر اشرف نکل آیا تو پِھر تو آدھا گھنٹہ ہی لگےگا ۔۔۔ میرا خیال تھا کہ کچھ دیرلگائے گا اشرف جانے میں لیکن وہ تو فوراً ہی نکل گیا ۔۔۔ ساری ٹائمنگ خراب کر دی ہے اب کیا کروں ۔۔۔ اب میجر کو تو نہیں پتہ نا کہ اشرف جا چکا ہے اس نےتو بارہ بجے کا ہی کہا تھا نایہ تو میری وجہ سے پہلےچلا گیا ہے وہ ۔۔۔ تو اب اگر میں نہیں بتاؤں گی اسے تو کیسے پتہ چلے گااسے کہ اشرف گھر پر نہیں ہے اب اور اگر میجر اپنے ٹائم پر آیااور اس وقت اشرف بھی آچکا ہوا تو و و و ؟ آخر صباء نے ہمت کر کے اپنےموبائل پر میسیج لکھا ۔۔۔ اشرف چلا گیا ہے آدھےگھنٹے کے لیے باہر ۔۔۔ اور یہ میسیج اس نے میجرکو سینڈ کر دیا ۔۔۔ 

فوراً ہی میجر کی کال آ گئی۔۔۔

واہ جی واہ ۔۔۔ صبح تو بڑے نخرے کر رہی تھی رنڈی کہ نہیں آنے دوں گی ۔۔۔ اب بارہ بھی نہیں بجنے دیےاور بھیج دیا اپنے کھسم کوباہر ۔۔۔ اتنی آگ لگی ہوئی ہے کیاتیری چوت میں سالی۔۔۔

 صباء :نہ ۔۔۔ نہ ۔۔۔ نہیں ں ں ں یہ بات نہیں ہے۔۔۔ 

میجر :اچھا اچھا اب زیادہ ڈرامہ نہیں کر ابھی کچھ دیر میں آتا ہوں ورزش کر رہا ہوں ابھی تو ۔ ۔ چل رکھ فون سالی ۔۔۔ خود کو تو چدوانے کے سواکوئی کام نہیں دوسروں کوبھی کوئی کام نہیں

 کرنےدیتی ۔۔۔ رنڈی کہیں کی۔۔۔ 

 صباء : پِھر گھبرا کر اور ڈرتےہوئے ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ وہ ۔۔۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا ۔۔۔ اگر آپ نہ ۔۔۔ آؤ و و و و و۔۔۔ تو و و و و و و ۔۔۔ 

میجر :ہاں ہاں اگر میں نہ آؤں تو کیا ۔۔۔ بولا ہے نہ کہ تھوڑی دیر میں آ رہا ہوں ۔۔۔ اگر زیادہ ہی آگ لگی ہوئی ہےتیری چوت میں تو جا دفعہ ہو باہر گلی سے کسی کو بلاکر چُدوا لے اپنی چوت فارغ سمجھا ہوا ہے نہ مجھےکہ جب تیرا دِل چاہے آ کرتیری پھدی چود دوں ۔۔۔ حرامزادی ۔ ۔ رنڈی۔۔۔ 

یہ کہہ کر میجر نے فون بند کردیا ۔۔۔ صباء تو ہکا بكا رہ گئی میجرکی زبان کو سن کر ۔۔۔ صبح میجر کے تھوڑا نرم بولنے کی وجہ سے صباء ایکسپیکٹ نہیں کر رہی تھی کہ وہ اب ایسے بولے گا ۔۔۔ لیکن اس نے تو آج پِھر اسےذلیل کر دیا تھا ۔۔۔ صباء تو جیسے غصے سےکھول اٹھی ۔۔۔ کیا کمینہ انسان ہے یہ کتا ۔ ۔۔ حرامزادہ ۔۔۔ پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے خودکو ۔۔۔ میں نے تو نہیں بلایا تھا نا۔ ۔۔ خود ہی بولا تھا کہ آؤں گا اور اب مجھے ہی ذلیل کر رہاہے ۔۔۔ دِل تو کرتا ہے کہ گلا ہی کاٹ دوں اس کا ۔۔۔ یا پِھر اس کا لن ہی کاٹ دوں ۔۔۔ ہر وقت ذلیل ہی کرتا رہتا ہے۔۔۔ کیا میں اتنی ہی گری ہوئی چیز ہوں ۔۔۔ اچھی خاصی پڑھی لکھی لڑکی ہوں ۔۔۔ اچھے گھر کی ہوں شریف اور پاک لیکن اِس کمینے نے تو مجھے طوائفوں سے بھی گھٹیا سمجھ لیا ہے ۔۔۔ کتا ۔۔۔ آج تو اِس کمینے کو میں خودہی مار دوں گی ۔۔۔ آنے دو اس کو ۔۔۔ موقع ملتے ہی گلا کاٹ دوں گی چھری سے ۔۔۔ دیکھاجائے گا جو بھی بعد میں ہوگا ۔۔۔ پھانسی ہی لگا دیں گے نا مجھے یہ روز روز کی ذلالت تو ختم ہو گی نا۔۔۔ صباء پتہ نہیں کیا کیامنصوبے بنا رہی تھی دِل ہی دِل میں صوفہ پر بیٹھی ہوئی غصے سے بل کھا رہی تھی ۔۔۔ کسی زخمی ناگن کی طرح ۔۔ ۔ زخمی ہی تو کر دیا ہوا تھا میجر نے اس کی روح کو ۔۔۔ اُس کے جذبات کو ۔۔۔ اس کی انا کو ۔۔۔ لیکن اب کروں تو کروں کیا ۔۔ ۔ اُدھر ٹائم گزر رہا ہے اگر پِھر وہی ہوا کہ وہ کمینہ اسی وقت آیا جب اشرف آیا ہوا تو۔۔۔ تو کیا کروں گی ۔۔۔ ؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے نا کہ اشرف وہیں پر اسٹور پر ہی دیر لگا آئے تھوڑی ۔۔۔ اپنے دوست کے پاس ۔۔۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے نہ کہ وہ اسٹور پر ہو ہی نا اور اشرف بس سامان لے اور واپس چلا آئے ابھی تھوڑی ہی دیر میں ۔۔۔ یہ سب حساب کتاب لگاتے ،سوچتے اور پریشان ہوتے ہوئے اس کا دِل جیسے ڈوبتا جا رہا تھا ۔۔ ۔ اسے سخت بے چینی ہو رہی تھی ۔۔۔ کیا کروں ۔۔۔ اس کتے نے بھی نخرے شروع کر دیے ہیں نا۔۔۔ ٹھیک ہے آتا ہے تو آنے دو۔۔۔ اشرف کے سامنے ہی ۔۔۔ کہہ دوں گی کہ میرا ریپ کرنے آیا ہے ۔۔۔ پِھر اشرف خود ہی بِلڈنگ والوں کو بلا لے گا اور پِھر اِس میجر کی اچھی مرمت ہوگی ۔۔۔ ہاں اس کی مرمت ہوگی تو وہ کیا میری عزت بنے رہنے دے گا۔۔۔ ؟ ؟ ؟ وہ بھی تو کمینگی دکھاۓ گا نا۔۔۔ اس نے اگر میری ویڈیوز دکھا دیں تو ۔۔۔ اف ف ف ف ف۔۔۔ خدایا کیا کروں میں بری طرح سے پھنس گئی ہوئی ہوں ۔۔۔ اتنی بے چین ہو رہی تھی جیسے کہ بس ابھی کے ابھی اسے الٹی آ جائے گی ۔۔۔ گھبرا ٹ سے اسے اپنا دِل حلق میں آتا ہوا محسوس ہورہا تھا ۔۔۔ بے چین ہو کر اٹھی اور جا کرپانی پینے لگی ۔۔۔ ابھی بھی گھڑی کو دیکھتے ہوئے ۔۔۔ اور دوسری نظر سیدھی بالکونی کے دروازے پر ڈالتےہوئے۔۔۔ گھڑی کی سوئی جیسےجیسے آگے رینگتی جا رہی تھی ویسے ویسے ہی صباء کی پریشانی میں اضافہ ہوتاجا رہا تھا۔۔۔ آخر اس نے اپنے آپ کو مصروف کرنے کے لیے خودکو کچن میں مصروف کر لیااچانک ہی اسے بالکونی میں۔۔۔ دهاپ کی آواز آئی۔۔۔ جیسے کوئی بالکونی میں کودا ہو۔۔۔ اُس کے ساتھ ہی اس کا دِل زور سے اچھل گیا۔۔۔ فوراً ہی مڑ کر دیکھا تو۔۔۔ میجر بالکونی کے دروازے سے اندر داخل ہو رہا تھا اُسکے سیٹنگ روم میں۔۔۔ صرف اپنا ڈھیلا ڈھالا شارٹ پہنے۔۔۔ اوپری بدن بالکل ننگا۔۔۔ کالا سیاہ جِسَم۔۔ مضبوط اور سولڈ۔۔۔ پسینے سے بھیگا ہوا۔۔۔ سچ میں جیسے ایکسرسائزکرکے آیا ہو۔۔۔سینے ، گردن ،پیٹ اور چہرے پر پسینہ چمک رہا تھا۔۔۔ اِس عمر میں بھی اس کا پیٹ ذرا بھی نہیں لٹکا ہوا تھا۔۔۔ پسینے کی وجہ سے جِسَم کےمسلز چمک رہے تھے۔۔۔ جیسے ہی اندر آیا تو صباء کے تو جیسے پیر ہی جم گئے۔۔۔ اُس کے جِسَم کے نظارے نےاور اُس کے سامنے آتے ہی اس کا سارے کا سارا غصہ ہوا ہوگیا تھا۔۔۔ صوفہ کے پاس کھڑا مسکرانے لگا۔۔۔ صباء حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ آخر یہ بندہ ہے کیا چیز۔۔۔ کبھی کیسا موڈ ہوتا ہے اورکبھی کیسا۔۔۔ ہاں لیکن وہ تو ہر کسی کا ہی ایسے ہی ہوتا ہے نا۔۔۔ لیکن یہ تو غصے میں جانورہی بن جاتا ہے۔۔۔ لیکن قصور بھی تو میرا ہی ہوتا ہے نا۔۔۔ اسے غصہ بھی تو ہر بار میں ہی دلاتی ہوں نا۔۔۔ اب تو اچھے موڈ میں لگ رہاہے۔۔۔ بس اب کوشش کرتی ہوں کہ اسے غصہ نہ آئےاور اچھے سے جو بھی بات چیت ہو جائے اور پِھر اسے اشرف کے آنے سے پہلے پہلے واپس بھیج دوں۔۔۔ اگر غصہ آیا تو پِھر ایک بارمیرے قابو سے باہر ہو جائےگا۔۔۔قابو۔۔۔ ؟ ؟ ؟ ؟ پہلے کون سا میرے قابو اور کنٹرول میں ہے یہ وحشی جانور۔۔۔ میجر کچن کی طرف ہی بڑھا۔۔۔ کچن کے پاس ہی ان کا فریج پڑا تھا۔۔۔ صباء پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اس نے جا کر فریج کھولا اور اس میں سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکال لی۔۔۔ صباء ایک طرف ہو کر کھڑی تھی۔۔۔کچن سے باہر کچن کی دیوار کے پاس ہی۔۔۔ خوفزدہ سی۔۔۔ سہمی ہوئی سی۔۔۔ ڈری ہوئی سی۔۔۔ اُس کے چہرے پر گھبرا ٹ اور خوف کے آثار صاف نظر آرہے تھے۔۔۔ اس کا دِل بری طرح سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ رہے تھے۔۔۔ جیسے ہمیشہ ہی میجر کواپنے قریب اور سامنے دیکھ کر ہو جاتے تھے۔۔۔ وہ ابھی تک اپنے دِل سےمیجر کا خوف نکال نہیں پائی تھی۔۔۔ کسی سہمی ہوئی ہرنی کی طرح سے اپنی خوبصورت آنكھوں کو جھپکتے ہوئے وہ میجر کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ میجر نے بوتل کو ہی منہ لگایا اور پانی پینے لگا۔۔۔ حالانکہ اسے یہ بات بہت بری لگتی تھی کہ کوئی بوتل کو منہ لگا کر پانی پئے۔۔۔ اشرف کی اسی عادت پر وہ اکثر اس سے لڑتی بھی رہتی تھی اور اسے ٹوکتی تھی۔۔۔ لیکن یہ اشرف نہیں تھا۔۔۔میجر تھا۔۔۔ اسے کیسے وہ ٹوک سکتی تھی۔۔۔ میجر نے پانی پیا اور پِھر بوتل اُس کے قریب لاتے ہوئے بولا۔۔۔ پیو گی پانی۔۔۔ سہمی ہوئی صباء نے انکارمیں سر ہلا دیا۔۔۔ میجر نے بوتل کو تھوڑا اُوپرکیا اور اس میں سے پانی صباء کے سینے پر گرانے لگا۔۔۔ ہنستے ہوئے جیسے ہی ٹھنڈا پانی صباء کے اُوپر گرا تو وہ اچھل پڑی۔۔۔ لیکن پِھر برداشت کر گئی۔۔۔پتلی گلابی قمیض کو پانی نے بھگو دیا۔۔۔ پانی اس کے بلیک برا کےاندر تک چلا گیا۔۔۔ ٹھنڈے پانی نے اُس کے نپلزکو کھڑا کر دیا۔۔۔ سخت اور سولڈ۔۔۔ گلابی شرٹ کے نیچے پہنی ہوئی بلیک برا بھی صاف دِکھ رہی تھی۔۔۔ پِھر میجر نے اُس کے قریب ہی کچن کے کاؤنٹر پر بوتل ر کھ دی۔۔۔ صباء کا جِسَم کانپنے لگا۔۔۔ شاید خوف سے۔ شاید غصے سے۔۔۔ شاید جذبات سے۔۔۔ یا شاید ٹھنڈے پانی کی ٹھنڈک سے۔۔۔ دِل کی دھڑکن بے ترتیب ہونےلگی۔۔۔ گھبرا ٹ بڑھنے لگی۔۔۔ میجر کا مضبوط کالا سیاہ جِسَم اُس کے بالکل قریب تھا ۔۔۔چند انچ کے فاصلے پر۔۔۔ میجر نے ہاتھ بڑھا کر اپناموٹا طاقتور ہاتھ صباء کے کاندھے پر رکھا۔۔۔ اسے صباء کا جِسَم کانپتا ہوا صاف محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ وہ مسکرایا۔۔۔

میجر :ڈر رہی ہو کیا مجھ سے۔۔۔؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟

 صباء نے بنا جواب دیے بس اپنی سہمی ہوئی آنكھوں سےمیجر کی آنكھوں میں دیکھااور اس کی آنكھوں میں لہراتےخوف کے سایوں نےمیجر کو جواب دے دیا۔۔۔ میجر ہنس پڑا۔۔۔ 

میجر :اشرف کو بھیج دیا ہے کیا تم نے ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟

میجر نے جان بوجھ کر ایسی بات کی تھی تاکہ صباء کو ایک بار پِھر سے احساس ہوجائے کہ اس کا شوہر خودنہیں گیا بلکہ اس نے اسےباہر بھیجا ہے۔۔۔ میجر کی خاطر صباء نے ڈرتے ڈرتے آہستہ

 سےہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ میجر آہستہ آہستہ صباء کےکاندھوں اور بازوؤں پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔۔ آج اس کی حرکتوں میں وحشیانہ پن نہیں تھا۔۔۔ اِس لیے تھوڑا تھوڑا خوف صباء کا کم ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ صباء کے کندھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے میجر نے اپنےہاتھ سے صباء کی ننگی گردن کو ٹچ کیا۔۔۔ تو صباء کا جِسَم کانپ اٹھا۔۔۔ صباء نے نظریں نیچے جھکالیں۔۔۔ اس کی گردن سے ہوتا ہوا میجر کا ہاتھ صباء کے چہرے پر پہنچا اور اس نے اپنی انگلی سے صباء کے گال کوسہلانا شروع کر دیا۔۔۔ اس کے گال کے چکنے پن کومحسوس کرنے لگا۔۔۔ اس کی ناک پر انگلی پھیرنےلگا۔۔ 

میجر :میرا انتظار کر رہی تھی کیاتم ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟

 صباء نے اپنا چہرہ مزیدجھکا دیا۔۔۔ میجر نے اپنی انگلی اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھی اور اس کا چہرہ اُوپر کو اٹھایا۔۔۔

میجر :بتاؤ نا میرا انتظار کر رہی تھی نا؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟

 صباء نے میجر کی آنكھوں میں دیکھا اور بہت ہی ہولےسے ایک بار ہاں میں سر ہلایا اور پِھر جلدی سے انکار میں سر ہلا دیا۔۔۔ میجر ہنسنے لگا۔۔۔ اس کی انگلیاں اب دھیرےدھیرے صباء کے گلابی ہونٹوں کو سہلانے لگیں۔۔۔ اُس کے ہونٹوں کو اُوپر کےاور نیچے کے دونوں حصوں کو محسوس کرنے لگیں۔۔۔

میجر :بہت پیارے ہونٹ ہیں تمہارے۔۔۔ گلابی اور رسیلے۔۔۔ دِل کرتا ہے ان کو چوس لوں اور سارا رس پی لوں۔۔۔ میجر اُس کے نچلے ہونٹ کواپنے انگوٹھے اور انگلی میں لیتے ہوئے بولا میجر :اپنی زبان باہر نکالو۔۔۔ 

 صباء نے ایک بار میجر کی طرف دیکھا اور پِھر بہت ہی آہستہ سے اپنی تھوڑی سی زبان باہر نکالی۔

میجر :اور۔۔۔ 

صباء نے اپنا منہ کھولتے ہوئے اپنی زبان اور باہر نکال دی۔۔۔ میجر نے آہستہ سے اپنا انگوٹھا صباء کی باہر نکلی ہوئی زبان پر رکھا اور اس کی زبان پر پھیرنے لگا۔۔۔ جیسے ہی میجر کا انگوٹھا صباء کی زبان سے ٹچ ہوا تواس کا گندہ ذائقہ صباء کےمنہ میں پھیل گیااور صباء کا چہرہ بگڑ سا گیا مگر میجر نے اس کی پرواہ کیے بنا ہی اس کی زبان کواپنے انگوٹھے اور انگلی میں پکڑا اور دھیرے دھیرے اسےمحسوس کرنے لگا۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ اُس کےہونٹوں پر انگلی پھیرتا۔۔۔ صباء بے بس تھی۔۔۔ پِھر میجر آگے کو بڑھا اوراپنے موٹے کالے ہونٹ صباء کے گرم ،گلابی ،رسیلے ہونٹوں پر ر کھ دیے۔۔۔ اسے چومنے لگا۔۔۔ اُس کے ہونٹوں کو اپنےہونٹوں میں دبوچ لیا اور ان کو چوسنے لگا۔۔۔ صباء کی زبان کو اچانک سےاپنے ہونٹوں کی گرفت میں لے لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔ بری طرح سے۔۔۔ کسی جانور کی طرح سے۔۔۔ پِھر اپنی زبان باہر نکال کر صباء کے ہونٹوں کو چاٹنے لگا۔۔۔ اپنی موٹی زبان کو اُس کےچہرے اور ہونٹوں پر پھیرنے لگا۔۔۔ اپنے تھوک سے صباء کےچہرے کو گیلا کرنے لگا۔۔۔ صباء کو بہت ہی عجیب سالگ رہا تھا۔۔۔اُس کے منہ کی گندی بدبوسے اس کا دم گھٹ رہا تھا۔۔۔دوبارہ سے اُس کے ہونٹوں کوچومتے ہوئے اِس بار میجر نےاپنی زبان صباء کے منہ میں ڈال دی۔۔۔ اس کی مزاحمت کے باوجود بھی۔۔۔ صباء کو عجیب سا احساس ہونے لگا۔۔۔ میجر نے اپنے دونوں ہاتھ صباء کی کمر پر رکھتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگایا ہواتھا اور صباء نے اپنے ہاتھ پہلے اُس کے کندھوں پررکھے تاکہ اسے روک سکےلیکن پِھر وہ بھی میجر کوپُش کرنا بھول گئی۔۔۔بس اپنے ہونٹوں کو بچانےکی کوشش کرنے لگی۔۔۔ بہت ہی عجیب انداز تھا میجر کے چومنے کا۔۔۔ ایسے کبھی بھی اشرف نے اسے نہیں چُوما تھا۔۔۔بہت ہی گندے طریقے سےاسے چوم رہا تھا۔۔۔لیکن پتہ نہیں کیوں صباء کواس کا ایسے چومنا اچھا لگ رہا تھا۔۔۔ اشرف کی کسِنگ سےمختلف۔۔۔ ایک سوفٹ کس سے ہٹ کر۔۔۔ کسی جانور کی طرح سےوحشیانہ کِسنگ۔۔۔ صباء کی سانسیں بھی تیز ہورہی تھیں۔۔۔ اُس کے جِسَم میں بھی عجیب سی بے چینی پیدا ہورہی تھی۔۔۔ اب اسے جیسے اشرف کاخوف نہیں تھا۔۔۔ اس کی پھدی گیلی ہوناشروع ہو رہی تھی۔۔۔ میجر کا ڈر ختم ہو رہا تھا۔۔۔ صباء کے ممے اس کی سانسوں کے ساتھ اُوپر نیچےکو ہوتے ہوئے میجر کے سینےسے رگڑ کھا رہے تھے۔۔۔ میجر کا جادو دوبارہ سے اس پر چلنا شروع ہو رہا تھا۔۔۔ صباء کی جو تھوڑی بہت مزاحمت تھی وہ بھی ختم ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔۔۔میں کیوں خود ہی اُس کےساتھ شامل ہو رہی ہوں۔۔۔کیا میں اپنی مرضی سےسب کچھ کررہی ہوں۔۔۔؟

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے