بارش کی تپش
وہ کافی دیر سے بارش میں بھیگ رھی تھی۔
آج دوپہر سے شروع ھونے والی یہ بارش
مسلسل 4 گھنٹے سے جاری تھی اور اسی بارش کے نتیجے میں اس
بیچاری کو بھیگنا
پڑا تھا۔بلیو ایریا کے بس سٹاپ پہ کھڑی اس لڑکی کو میں
غور سے دیکھ کر افسوس کر
رھا تھا، کیوں کہ 2 لڑکے اس کی بھیگی جوانی کے دلفریب
نظاروں سے اپنی آنکھیں
سینک رھے تھے، اور وہ بیچاری اپنی جوانی کو یوں سر بازار
نمایاں ھوتا دیکھ کر شرم
سے ایک طرف دبکی کھڑی تھی ۔ وہ بھی یقیناْ میری طرح بس
سٹاپ تک آتے ھوئے
بھیگی تھی۔
یہ ان دنوں کی بات ھے جب میں اسلام آباد میں 5 سال بعد
دوبارہ نیا نیا آیا تھا۔( 5
سال پہلے میں یہیں سے اپنی تعلیم نا مکمل چھوڑ کر پشاور
شفٹ ھوگیا تھا۔ ) ۔
میری نئی نئی نوکری تھی سو ہر بات سے بے نیاز میں اپنے
کام میں مصروف رھتا۔ آج
ویک اینڈ پر میرا پروگرام تھا کہ وکی ( میرا بہترین دوست
) کے ساتھ اس کی موٹر سائیکل
پر ایک لمبی ڈرائیو پر ٹیکسلا کی ترف جائیں گے۔ بس سٹاپ
پر رش تو بہت تھا، اگر نہیں
تھی تو بس ویگن نہیں تھی۔ چنانچہ دوسرے مسافروں کی طرح
مجھے بھی بھیگنا پڑا۔
تبھی میں نے اس کو دیکھا۔ ایک بار تو ایسا لگا کہ وہ
مجھے پہچاننے کی کوشش کر رھی
ھے، لیکن بعد میں میں نے سر جھٹک دیا، کہ یہ میرا وھم
ھے۔ کافی دیر بعد پھر مجھے
ایسا لگا کہ وہ لڑکی دوبارہ مجھے ھی گھور رہی ھے۔ میں نے
ایک دو بار گلہ کھنکار کر اس
کی نگاھوں کا زاویہ تبدیل کروانا چاھا، مگر وہ تو ھر بات
سے بے نیاز صرف مجھے ھی
دیکھ رھی تھی۔اب تو اس کی نظریں مجھے مسلسل
اپنے وجود پر چبھ رھی تھیں۔ میں نے اب اس لڑکی سے
ڈاءریکٹ بات کرنے کا فیصلہ کیا،
" جی محترمہ ، کیا میںuآپ کو جانتا ھوں " میں نے اپنی آواز کو حتی الامکان دھیما
رکھتے ھوئے اس سے سوال کیا۔ اصل میں میرا ارادہ اس کو شرمندہ
کرنے کا تھا، کہ وھ
اس طرح شر عام کس دیدہ دلیری سے مجھے دیکھ رھی تھی، کہ
میں ایک انسان نہ
ھوا، کوئی آئس کریم ھو گیا۔ مگر اس کا جواب سن کر الٹا
میں ھی بھونچکا رہ گیا۔ " جی
آپ چاھے مجھے نہ پھچانیں فیروز، لیکن میں نے آپ کو پھچان
لیا ھے۔ " اس کی آواز گویا
کوئی جلترنگ بج اٹھا تھا۔ میں جہاں
اس کا جواب سن کر حیران ھوا، اس سے بھی زیادہ حیرانی
مجھے اس بات پر ھو رھی
تھی، کہ وہ میرا نام لے رھی تھی۔ اب میں نے غور سے اس کو
دیکھنا شروع کیا۔ اچانک
میرے دماغ میں جھماکا سا ھوا۔ " عالی تم،،، مم ،،
میرا مطلب ھے، عالیہ آپ، ،،،،" میرے
منہ سے اپنا نام سن کر وہ ذرا سا مسکرائی۔ میں اب خود
شرمندگی محسوس کر رھا
تھا، کہ 5 سال کے مختصر وقفے میں ھی میں اپنی کلاس فیلو
عالیہ کو پھچان نہ سکا
تھا ، اور ایک وہ تھی ، کہ مجھے دیکھتے ھی پھچان گئی
تھی۔ بہر حال ، میں نے آنے
والی ایک ٹیکسی روکی اور اس سے پوچھا کہ وہ کہاں جانا
چاھے گی، تا کہ میں وھیں
کی ٹیکسی بک کروا کے اس کے گھر پھنچنے کا انتظام کر
دوں۔، اس نے اک نظر میری
طرف دیکھا، اورمسکرا کر بولی، " کراچی
کمپنی۔":اس کی مسکراھٹ ماضی کی طرح آج بھی قاتلانہ
تھی۔ میں اک ذرا سا گھائل ھوا، ظالم آج بھی توبہ شکن حسن
کی مالک تھی، اور
بارش میں بھیگنا گویا سونے پر سہاگہ ھو گیا تھا۔ میں نے
اس کے بھرپور جسم پر اک نظر
ڈالی، اس کی آنکھوں میں حیا آمیز چمک پیدا ھوئی اور اس
کی مسکراتی ھوئی نظریں
جھک گئیں ۔میں ھوش میں واپس آیا، کیوں کہ ھم مسلسل بھیگ
رھے تھے۔میں
نے کراچی کمپنی کی ٹیکسی بک کر لی، اور اسکو بیٹھنے کا
اشارہ کرتے ھوئے گاڑی
میں بیٹھ گیا۔ عالیہ بھی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ کراچی
کمپنی میں آ کر ھم نے نارنگ
بریانی سے بریانی وغیرہ کھائی۔ گرمیوں کا موسم ، باھر
موسلا دھار بارش ، اندر بھیگا
جسم لئے ایک جوان اور خوبصورت لڑکی ، جس کے گیلے کپڑے اس
کے بھر پور جسم
کو چھپانے کی بجائے مزید نمایاں کر رہے تھے، میرا لن فل
مست ھو چکا تھا۔
سچ بات تو یہ ھے کہ میرا لن کافی دیر سے ھی مستی پکڑ رھا
تھا ، لیکن بس سٹاپ پر
رش ھونے کی وجہ سے عالی کے بھیگے بدن کا نظارہ اس طرح
کرنا ممکن نہیں تھا ،
جس طرح سے اب ھو رھا تھا۔ اور یہی چیز میرے لوڑے کی مستی
کا سبب بن رہی
تھی ۔ ( عالی کا سراپا کسی بھی بڑے سے بڑے پارسا کے
ایمان کی تباھی کے لیے
کافی تھا ، میں تو پھر بھی اچھا خاصا آوارہ مزاج تھا۔)
خیر ، میں نے کھانے کے دوران
اس سے پہوچھا ، کہ ، " وہ کیوں وہاں اکیلی بارش میں
بھیگ رھی تھی ، آخر اسے
ایسی کون سی مجبوری آن پڑی تھی ،،،، کیونکہ میری یاد
داشت کے مطابق وہ اچھے
خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے تھی ، پھر اس کا اس طرح
بھیگنا ،،، چہ معنی وارد ؟ "
میں نے یہ سوال اس لئے کیا تھا تا کہ اپنے آپ کو باتوں
میں لگا کر اپنی نظروں کی
گستاخیوں کے اپنے دل پر ھونے
والے اثر کو زائل کر سکوں ، مگر میرے اس سوال پر عالی کے
پری پیکر چہرے پر حزن و
ملال کے بادل چھا گئے ۔ میں نے زیادہ کریدنا ترک کر کے
اس کی توجّہ بریانی کی طرف
دلائی
عالی بھی سمجھدار تھی ، چنانچہ میرے ایک سوال کے نتیجے
میں ماحول پر اچانک
چھا جانے والی سنجیدگی ، چند منٹ بعد ھی گرما گرم بریانی
کی وجہ سے ختم ھو
گئی۔ بعد میں چائے کے دوران اس نے خود ہی بتانا شروع کر
دیا کہ ، اس کے ابّو کی ڈیتھ
ھو چکی ھے، اور ایک بھائی تھا ، جو سوتیلا تھا ، اس نے
دھوکے سے سب کچھ بیچ ڈالا
، اور امریکا
بھاگ گیا ،،،،،اور اب اس کی 1 چھوٹی بہن اور ایک بوڑھی ماں کی خاطر وہ
نوکری ڈھونڈ رہی تھی۔ اب وہ نارمل تھی ، بہر حال ، اس نے
میرا موبائل پکڑا اور
ایک نمبر ملانے لگی ، اس کے پرس میں رکھا اس کا موبائل
گنگنا اٹھا ، اس نے بہت ھی
چالاکی سے میرا نمبرع بھی حاصل کر لیا تھا ، اور اپنا
نمبر بھی دے دیا تھا ۔ میںuہولے
سے مسکرا دیا ۔ گویا وہ بھی مجھ سے رابطے میں رہنا چاھتی
تھی ، میری خواھش بنا
اظھار کے ھی پوری ھو گئی تھی ۔ کھانےکا بل ادا کرنے کے
بعد ، میں نے باہر سے اس
کے لئے ٹیکسی پکڑی ، اور اس کو بٹھا دیا ۔ میں نے جب
ٹیکسی والے کو ایڈوانس
کرایہ ادا کیا ، تو عالی نے منع کرنا چاھا ، " نہیں
فیروز ، پلیز ،،، " لیکن میں
نے کہا ، " کم آن عالی ، اتنے تکلّف والی مت بنو
۔۔۔ " عالی نے ایک نظر میری آنکھوں
میں دیکھا ، اور مان گئی ۔ اس کو رخصت کر کے میں نے پرس
دیکھا ، آج ایک دن میں ،
میں نے پورے ہفتے کا جیب خرچ اڑا ڈالا تھا ۔ موبائل
مسلسل وائبریٹ ھو رہا تھا ، میںuنے
دیکھا ، وکی نہ جانے کب سے کال کر رہا تھا مگر میرا موڈ
بدل چکا تھا ، کیونکہ بارش بند
ھو چکی تھی ، اور بنا بارش کے ، رائیڈنگ کا خاک مزہ آنا
تھا ، سو میں نے سیل فون
ھی آف کر ڈالا۔
رات کے بارہ بجے مجھے ایک اجنبی نمبر سے کال آئی ، میں
ٹی وی
دیکھ رہا تھا ، آج کمرے پر میں اکیلا تھا ، سو آج میں نے
ڈی وی ڈی لگائی ھوئی تھی ، ٹی وی پر
براڈ پٹ کی مشھور فلم " ٹرائے " لگی ھوئی تھی
۔
میں نے نمبر دیکھا،مگر سمجھ نہ آئی ۔ میں نے اٹینڈ کر کے
کہا ، " جی کون ؟ "
" بڑا افسوس ھے فیروز صاحب ، آپ نے میرا نمبر
بھی سیو نہیں کیا ابھی تک ؟" دوسری
طرف سے عالی کی آواز آئی، جو کہ میں نے کوشش کر کے
پیچانی تھی ، اور مجھے
معذرت بھی کرنا پڑی ۔
بہر حال ، عالی نے اگنور کرتے ھوئے کہا ، " فیروز ،
آپ اب تک مجھ سے نارا ض ہیں
ناں ؟ "
" کیا مطلب ؟ " میں جان بوجھ کر بولا ،
حالانکہ مجھے سب سمجھ آ رھی تھی ، کہ وہ
کالج لائف کے دوران آنے والے اس طوفان کی بات کر رھی تھی
، جس کی وجہ سے
مجھے اپنی تعلیم چھوڑنا پڑی تھی ۔ اور اس تمام بات کی
ذمّہ دار عالی تھی ۔ اب اتنے
سال بعد سامنا ھونے پر میں نے اس سے اچھا خاصا کو آپریٹ
کیا تھا ، یہی وجہ تھی
شائد ، کہ وہ رہ نہ سکی ھی ، اور اب مجھ سے معذرت کر رہی
تھی ۔
" ارے نہیں عالی ، پلیز ، میں سب کچھ بھول چکا
ھوں ، اور تم اب تک اس بات کا اثر دل
پر لئے بیٹھی ھو ۔ " میں نے اخلاقاْ کہا ، ورنہ در
حقیقت میں اس بات کو دہرا نا ھی نھیں
۔
چاھتا تھا ۔ وہ میری زندگی کا ایسا ناقابل فراموش واقعہ
تھا جس کے دوبارہ یاد آتے ھی
میرا حلق تک کڑوا ھونے لگا تھا
، " فیروز
، میں آپ سے بہت شرمندہ ھوں ، پلیز ، مجھے معاف کر دو ، پلیز ، " اور
عالی پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔ میں اب خاموش ھو گیا تھا ،
میں اس واقعہ کے بارے میں
کچھ مزید بات کرنا سننا نھیں چاھتا تھا ۔ چنانچہ جب وہ
کچھ ریلیکس ھوئی تو میں نے کہا
، " دیکھو
عالی ، میں آپ کو بتا دوں ، میں اب آپ سے ناراض نھیں ھوں ، " میں نے کچھ
توقّف کے بعد سلسلہـ کلام جوڑتے ھوئے مزید کہا ، "
آپ سے میرے اتنی ریکوئیسٹ
ھے ، کہ پلیز ، اگر آپ مجھ سے کبھی بھی بات کرنا چاہتی
ھیں ، تو آپ وعدہ کریں ، آپ
اس بات کا ذکر آئندہ کبھی نہیں کریں گی ۔ " ( اس
واقعے کا ذکر ، سسپنس کی خاطر پوشیدہ رکھا گیا ھے جو کہ آگے چل کر سامنے آ جائے
گا۔ )،)،،،،،،،،،،،،،،،، میرے لہجے ، اور آئندہ بات کرنے کی
شرط کی وجہ سے ، وہ کچھ تردّد کے بعد مان گئی ۔
" لیکن میری بھی ، ایک شرط ھو گی ، پھر ، کہ
اب آپ مجھے ھر و یک اینڈ پر ملا کریں
گے ۔ " اب ماننے کی باری میری ھی ۔ شائدگھمبیر
ماحول کو اپنی باتوں سے خوشگوار
کرنے کا فن اسے آج بھی آتا تھا ۔ میں نے وعدہ کر لیا ۔
چنانچہ دو دن بعد ، ہفتے کی
شام ملنے کا پروگرام بنا ۔ اس کے بعد ، خدا حافظ کہا ،
اور میں سو گیا ۔
کالج میں ایک عجیب طرح کا سکوت طاری تھا ۔ مگر ایک کمرے
میں ڈیسک کے ہلنے سے
پیدا ھونے والی آوز ، ماحول کا سینہ چیر رہی تھی
کالج کے عین وسط میں موجود ایک کمرہ میں ڈیسک پر عالی
اوندھے منہ لیٹی ھوئی
تھی ، اس کی ٹانگیں ڈیسک کے دونوں اطراف میں پھیلی ھوئی
تھیں ، اس کے
حسیں بدن پر لباس نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ اس کے
اوپر میں لیٹا ھوا تھا ۔ میں زمین پر کھڑا تھا ، اور آگے
کو جھک کر عالی کو اندھا دھند
چود رھا تھا ۔ ڈیسک کی آواز ، اسی ہل جل سے پیدا
ھو رھی تھی ۔ میرا شھزادہ ، ( میرا لوڑا ) عالی کے جسم کی
خوبصورت وادی (
پھدی ) کی سیر کر رھا تھا ۔ اس کی پھدی سے لیس دار پانی
نکل رھا تھا ۔ میرے
ھاتھ آگے سے اس
کے سڈول ممّوں پر تھے ۔ اس طرح سے جہاں میرے سرور میں
اضافہ ھو رھا تھا ،
وھیں میرے گرفت بھی عالی پر بہت مضبوط تھی ،
اور میرے وحشیانہ انداز کے باوجود وہ مجبور تھی اور میری
گرفت سے نکل نہیں پا
رھی تھی۔ عالیہ بلند آھنگ میں چیخ چیخ کر رو رھی تھی۔
میرا لن
بہت ھی تیزی سے آگے پیچھے حرکت کر رہا تھا ، میرا پورا
وجود پسینے سے
شرابور تھا ۔ میری نظریں اس کی پھدی کے سوراخ
پر جمی ھوئی تھیں ، اور جب بھی میرا لن اس ک سوراخ سے
باہر آتا ، میں مزید جوش
میں آ جاتا ، اور مزید طاقت سے اس کو واپس اس
کی پھدی میں پیل دیتا ۔ ہر دھکّے کے نتیجے میں عالی کے
منح سے سسکاری نکلتی
، عالی شائد
ابھی تک رو رہی تھی ، مگر میں تو گویا
باقی ہر احساس سے عاری ھو چکا تھا ، اس وقت مجھے بس ایک
ھی کام یاد تھا ، کہ
عالی کی پھدی کی جم کر چدائی کرنی ھے ، اس کے
مجھ پر ریپ کی کوشش کے لگائے جانے والے اس الزام کو سچ
ثابت کرنا ھے ۔ مجھ
پر عالی کی کی منّت سماجت کا کوئی بھی اثر نھیں
ھوا تھا ، جب میں نے اس کو پکڑ کر اس کے کپڑے پھاڑے تھے
، تب اس نے کتنے
واسطے دئے تھے ، مگر مجھ پر تو جنون سوار تھا ،
کہ اس سے بدلہ لینا ھے ، اور اب میں خوب بدلہ لے رھا تھا
۔ ایسا بدلہ ، کہ جس
سے ، زہنی سکون تو آ ھی رھا تھا ، مگر اس سے بھی
بڑھ کر ، جسم کے انگ انگ ،مین سرور و مستی عود کر آئی
تھی ۔ میں نے پوزیشن
بدل کر سیکس کرنے کا سوچا ، اور اپنا لن نکال لیا ،
ذرا سا پیچھے ھٹ کر، ڈیسک پر لیٹی عالی کو بے رحمی سے
کھینچا ، اس کا آنسوؤں
سے تر چھرہ جونہی میری آنکھوں کے سامنے آیا ، میرے انگ
انگ میں ایک عجیب طرح
کی خوشی دوڑ گئی ۔ جس کی وجہ سے مجھ پر عزّت لوٹنے کا
جھوٹا الزام لگا تھا ، آج
آخر میں نے اس سے بدلہ لے لیا تھا ، سچّ مچّ میں اس کی
پھدی مار کر ، اس کی عزّت
لوٹ کر ۔ ، ، ، " کیوں عالی ، ؟ کیسا محسوس ہو رہا
ھے میری جان ؟ ذرا محسوس تو
کرو ، اور بتاؤ کہ اب ، جبکہ تم واقعی میں میرا لن اپنی
پھدی میں لے چکی ھو ، ،،،،،،،
تو یہ سب کیسا لگ رہا ھے میری جان ؟ " میرے الفاظ
تو شرمناک تھے ھی، مگر میرا
لہجہ اس سے بھی زیادہ کاٹ دار تھا ، عالی اب پھوٹ پھوٹ
کر رو دی ، " خدا کے لئے ،
فیروز ، خدا کے لئے مجھے معاف کر دو ۔ میرے چھوٹے سی
غلطی کی مجھے اتنی بڑی
سزا نہ دو فیروز ، ۔ مجھے معاف کر دو ۔ میں تمھارے آگے
ھاتھ جوڑتی ھوں ۔ " اس نے
آنسوؤں سے تر چھرے سے میری آنکھوں میں دیکھا ، اور روتے
ھوئے میرے آگے دونوں
ھاتھ جوڑتے ھوئے فریاد کی ۔
" کیا کہا ، چھوٹی سی غلطی ، ؟ یتنے بڑے الزام
کو تم چھوٹی سی غلطی کہ رھی ھو
عالی میڈم ؟ " میں نے پھنکارتے ھوئے کہا ، اور اس
کو ڈیسک پر سیدھا لٹا دیا ۔ میری
آنکھوں میں جہاں وحشت ناچ رہی تھی ، وہیں پر ، عالی کی
چدائی سے ملنے والے
سرور کی مستی بھی میری آنکھوں میں اتری ھوئی تھی ۔ میرا
انداز بھت ھی تضحیک
آمیز تھا ۔ عالی کی ٹانگوں کو اوپر کے رخ پر اٹھاتے ھوئے
میں نے اپنے لن کو اییک بار پھر
اس کی پھدی پر ایڈجسٹ کیا ، اور ایک دم سے سارا اندر کر
دیا ۔
عالی کے منہ سے درد ناک چیخ نکل گئی ، اور میرے منہ سے
زور دار قہقہہ بر آمد ھوا ، "
میں نے اپنے ایک ھاتھ کو اس کے داہنے ممّے پر رکھا ، ور
دوسرے ھاتھ سے ڈیسک کو
پکڑا ، اور ایک اور جان دار سٹروک لگیا ۔ اب میں نے اسی
پوزیشن میں مسلسل چدائی
شروع کر دی ، عالی کی چیخیں مجھے مزید وحشی بنا رھی تھیں
۔ میں کبھی اس کے
ممّے کو پکڑ کے کھینچتا ، تو کبھی بائیں والے کو ۔ میری
سپیڈ کبھی بہت زیادہ آھستہ
ھو جاتی ، اور کبھی میں تیزگام بن جاتا ۔ میرا لن بہت ھی
زیادہ گرمی محسوس کر رہا تھا
، اور کیوں
نہ کرتا ، وہ اس وقت کالج کی سب سے زیادہ خوب صورت ، نک چڑھی اور الہڑ
مست حسینہ کی پھدی کے اندر تھا ۔ اس لمحے ، میں ہواؤں
میں خود کو اڑتا ھوا
محسوس کر رھا تھا ۔ عالی کا خوب صورت وجود مکمّل طور پر
میری دسترس میں تھا ۔ اور
میں اس کے انگ انگ کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر رھا
تھا ۔ اچانک کمرے کا
دروازا ایک جھٹکے سے کھلا ، اور پروفیسر قمر اندر داخل
ھوئے ، ان کے ساتھ گارڈ بھی
تھا ،،،،،، " یہ کیا ھو رھا ھے ؟ " ان کی
دھاڑتی ھوئی آواز کمرے میں گونجی ، ،،،،،،
اور اس کے ساتھ ھی میری آنکھ کھل گئی ، ، ، ، مجھے زور
زور کے جھٹکے لگ رھے
تھے ۔ میں جب تک سچوئیشن سمجھنے کے قابل ھو سکا ، ٹرک
الٹ چکا تھا ( مجھے
احتلام ھو چکا تھا
۔ میںuبے ساختہ مسکرا د یا ۔ " عالی ۔۔۔ ؟ " میرے ہونٹوں
سے نکلا ، " آج اتنے سالوں بعد
، پھر وھی
خواب ، ،،،، ؟ " میں نے بڑبڑاتے ھوئے زیر لب کہا ۔ ( یہ وھی خواب تھا ، جو
مجھے ان دنوں تواتر سے آیا کرتا تھا ، جب مجھے کالج سے
عالی کے الزام کی پاداش
میں نکالا گیا تھا ، اور میں ھر وقت عالی سے بدلہ لینے
کا سوچتا رھتا تھا ، اور ھر رات
یا ، دوسری تیسری رات مجھے عالی خواب میں ملتی ، اور وہ
بھی اس حالت میں ، کہ
میں اس کو چود رھا ھوتا
۔) "
لیکن اب تو میں اس واقعے کو فراموش کر چکا تھا ، پھر اس خواب کا کیا
مقصد ھے ؟ " یہی سوچتے ھوئے میں نے ٹائم دیکھا ، تو
میرے ھوش اڑ گئے ، صبح کے
دس بج چکے تھے ، اور عالی سے آج صبح گیارہ بجے صدر میں
ملنا تھا ۔ میں نے فوراْ
بستر چھڑا اور تیّاری میں جت گیا ۔
میں مقرّرہ وقت سے پورے دس منٹ لیٹ تھا ۔ پارک میں عالی
ایک بنچ پر بیٹھی میرا
انتظار کر رہی تھی ۔ جب میں پارک میں داخل ھوا ، ھم دونوں
نے بیک وقت ایک دوسرے کو
دیکھا ۔ عالی نے نیلے رنگ کا خوب صورت لباس زیب تن کر
رکھا تھا ۔ میری نظر اس پر
پڑتے ھی میری آنکھوں میں خواب والے تمام مناظر ایک فلم
کی مانند چلنے لگے ، عالی
مجھے دیکھ کر ہولے سے مسکرائی ، اور کھڑی ھو گئی ۔ میں
پارک کے گیٹ میں کھڑا
اس کو ایک ٹک دیکھ رھا تھا ۔ میرے اس قدر انہماک کو وہ
نہ جانے کیا سمجھی ،مگر سچ
تو بس یہی تھا ، کہ میں اس کے جسم پر موجود لباس کے اندر
اس کے حسین سراپے کو
دیکھ رھا تھا ۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ اس وقت بنا کپڑوں کے
ننگی ھی میرے سامنے
کھڑی ھے ، میرا لن کھڑا ھو گیا ۔ " ارے میاں ،
راستہ دو گے کیا ؟" ایک آواز میری
سماعت سے ٹکرائی ،، اور میں ھوش کی دنیا میں واپس آ گیا
۔
عالی میرے قریب پہنچ چکی تھی ، اور اس کا انداز بتا رھا
تھا ، کہ وہ میرا انہماک نوٹ کر
چکی ھے ۔ ( بیچاری ، پتہ نھیں کیا سمجھ کر مسکرا رہی ھے
، اگر اس کو پتہ چل جائے
، کہ میں کیا
دیکھ رہا تھا ، کیا سوچ رھا تھا ، اور مزید یہ کہ ، اگر اس کو اتنا پتہ چل جائے ،
کہ آج خواب میں ، اس کے ساتھ ، میں نے کیا کر ڈالا ھے ،
، اور کتنے مزے لے لے کے
کیا ھے ، تو بیچاری مسکرانا بھول جائے گی ۔ ) میں اسی
قسم کی باتیں سوچتا ھوا آگے
بڑھا ۔ سلام دعا کے بعد ، عالیہ نے ھلکے پھلکے انداز میں
مجھ پر چوٹ کی ، "ویسے
ایک بات تو ھے فیروز صاحب ، عورتیں خواہ مخواہ دیر کرنے
میں بدنام ھیں ، جبکہ میں
مقرّرہ وقت سے بھی پہلے کی پہنچی ھوئی ھوں ، اور آپ لیٹ
آئے ھیں ۔ "
میں نے اس کا فقرہ سنا ۔ اور اس کی جانب دیکھا ، اس کے
روشن چہرے پر ھلکی سی
شرارت تھی ۔ یہ شائد پچھلے ایک ھفتے کی موبائل میسج چیٹ
کا نتیجہ تھا ، کہ وہ
کافی فرینک نظر آ رھی تھی ۔ میں نے مسکراتے ھوئے اس سے
معزرت کی ۔ میں سفید
رنگ کی سادہ شلوار قمیض میں تھا ۔ دھوپ اچھی خاصی نکلی
ھوئی تھی ، اور اس
دھوپ میں عالیہ کا چہرہ بہت زیادہ دمک رھا تھا ۔ میری
نظریں بار بار بھٹک جاتی تھیں ، اور
میرا مرکز نگاہ اس کا حسین سراپا ھوتا ۔ وہ بھی میری اس
گستاخی کو نوٹ کر چکی
تھی ، مگر اس نے بالکل بھی برا نہیں منایا تھا ۔ ھم سب
سے پھلے ایک جوس کارنر گئے ۔
جوسز پینے کے دوران بھی میری نگاھیں بار بار بھٹک رھی
تھیں ۔ شائد یہ رات
کے خواب کا نشہ تھا ، جس کو عالیہ کے وجود کی قربت اور
اس کے جسم سے اٹھنے
والی مہک نے اور بھی دو آتشہ کر دیا تھا ۔
میں کوشش کے باوجود بھی اس کے چہرے سے نگاھیں ھٹا نہیں
پا رہا تھا ۔ عالیہ کی
غزّالی آنکھیں ، جن میں اس نے ھلکا سا سرمہ ڈالا ھوا تھا
، وہ جب بھی چھرہ اٹھا کر
میری جانب دیکھتی ، میرا دل اچھل کر حلق میں آ جاتا ،
مجھے اپنی سانس ڈوبتی
ھوئی محسوس ھونے لگتی۔ وہ آج مجھ سے اپنی پرانی ٹون میں
بات کر رھی تھی ، جو
کہ کالج لائف میں اس کی پہچان ھوا کرتی تھی ۔ لیکن اس
وقت کی عالیہ اور آج کی
عالیہ میں بہت فرق تھا ۔ وہ عالیہ ایک ٹین ایجر لڑکی تھی
، مگر آج وھی عالیہ ایک بھر پور
جوان لڑکی کے روپ میں ، اپنی تمام حشر سامانیوں ک ساتھ
میرے سامنے جلوہ گر
تھی۔ اس کے سیاہ بال ، جو اس نے ایک قیمتی ھئر بینڈ لگا
کر قابو کیئے ھوئے تھے ،
بہت ھی خوب صورت لگ رھے تھے ۔ اس کی گردن انتہائی شفّاف
تھی جس پر خواہ
مخواہ کس کرنے کو من کر رھا تھا ۔ عالیہ کسی بات پر
کھلکھلا کر ھنسی ، تو گویا کسی
نے نغمہ چھیڑ دیا ھو ۔ فضا میں جلترنگ سے بج اٹھے ۔
عالیہ کے موتیوں جیسے دانت
چمک اٹھے ۔ میں کھو سا گیا ۔ ،،،،،، " فیروز ، کیا
بات ھے ،؟ کیا آج پہلی بار مجھے دیکھا
ھے ؟ "
عالیہ نے مجھے مخاطب کر کے کہا ، اب تو میں بہت شرمندا
ھوا ۔
" آئی ایم سورے ، عالی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آ۔ ۔
۔ آئی مین ، عالیہ جی ، "
میں گڑبڑا کر بولا ۔ عالیہ نے میری چوری پکڑ لی تھی ۔
" اٹس او۔کے۔ جناب ۔
عالیہ نے خوشدلی سے کہا ، اور سلسلہـ کلام جوڑتے ھوئے بولی ، ،،، "
اور یہ آپ
مجھے عالی کہتے ھوئے اتنا شرماتے کیوں ھیں ؟ پلیز ، ھم
پرانے دوست ھیں ، اور
پرانے دوستوں میں اتنا تکلّف ، ؟ ، ، ، چہ چہ چہ چہ چہ !
" عالیہ کی چہکی ھوئی آواز
میرے کانوں میں رس گھول رھی تھی ۔ یہ سچ ھے کہ مجھے اس
وقت اپنا من قابو میں
نہیں لگ رھا تھا ۔
" آئی ایم سوری عالی، مگر آج آپ بہت خوب صورت
لگ رھی ھیں ۔ یہی وجہ ھے ،
کہ میں ۔ ۔ ۔ ۔ "
میں نے آخر کہ ھی ڈالا۔
عالیہ نے ایک دم مجھے دیکھا ، میں آنکھیں نیچی کیئے
بیتھا تھا ، عالیہ ایک دم
کھلکھلا کر ھنس دی۔ وہ میری کیفیت سے پوری طرح سے لطف
اندوز ھو رھی تھی
جبکہ میں اپنی اس کیفیت پر حیران بھی تھا ، اور نادم بھی
" پتہ نہیں عالی میرے بارے میں کیا رائے قائم
کرے ۔ مجھے اپنا
آپ قابو میں رکھنا ھو گا۔ "
میں نے نئےعزم سے سوچا ، اور جلدی جلدی جوس پینے لگ گیا۔
عالی بھی اب
خاموش تھی ، مگر اس کے گلاب چہرے پر شرارت رقص کر رھی
تھی ۔ یقیناْ وہ میری
کیفیت کو انجوائے کر رھی تھی ۔ مگر میں نے اب اپنا آپ
قابو میں کر لیا تھا ۔ سو اب میں
نے مزید کوئی حماقت نہیں کی ۔
جوس پینے کے بعد ، ھم دونوں پارک میں بنے ھوئے راستوں پر
چلنے لگے ۔ وہ مجھ
سے میرے بارے میں سوال کر رھی تھی۔ کہ میری زندگی کیسی
چل رھی ھے ، آج
کل گھر میں تو کوئی پریشانی نھیں وغیرہ وغیرہ
میں محسوس کر رھا تھا ، کہ عالی مجھ سے کچھ کہنا چاھتی
ھے ، مگر شائد کہ
نہیں پا رھی ۔ آخر میں نے پوچھ ھی لیا ، کہ کیا بات ھے ،
، جواب میں وہ دوبارہ سے
وھی پرانا واقعہ لے کر بیٹھ گئی۔ وہ دوبارہ سے شرمندگی
کا اظہار کر رھی تھی ، میں
نے اس سے کہا ، کہ میں اب اس واقعہ کو بھول چکا ھوں۔ وہ
بھی بھول جائے ۔ اس نے
میری آنکھوں میں دیکھا ، اور پوچھا ، " اس کا مطلب
کہ تم نے مجھے معاف کر
دیا؟"
میں نے اقرار میں سر ہلا دیا ۔ اس نے جواب میں اچانک
میرا ھاتھ پکڑ کر چوم لیا ۔
" او ، تھینک یو ، فیروز، تم نے مجھے معاف کر
دیا ۔ ۔ ۔ تھینک یو ویری مچ ، " جبکہ میں
اس کی اس اچانک حرکت پر حیران پریشان اس کو دیکھنے لگ
گیا۔ وہ جب سمجھی کہ
اس نے کیا کر دیا ھے ، تو وہ بھی شرما گئی۔ایک لڑکا شائد
یہ منظر دیکھ رھا تھا ، اس نے
سیٹی بجائی ، میں مسکرا کر آگے بڑھ گیا۔
اس دن ھم سارا دن ساتھ رھے ، ، ، اس کے بعد تو ےہ چیز
معمول بن گئی ، اب
تو ھم ویک اینڈ کے علاوہ بھی ملنے لگے تھے ۔ میسج چیٹ تو
اس ک علاوہ تھی ۔، عالی
سے میں ابھی تک سنبھل کر بات کرتا تھا، جب کہ وہ مجھ سے
بہت فری ہو چکی تھی۔
ایک شام اس کا میسج آیا ، کہ کل ویک اینڈ پر وہ نہیں آ
سکے گی ، کیوں ک اس کی
سگی خالہ کی ڈیتھ ھو گئی ھے ۔ میں نے جواب میں افسوس کا
میسج بھیجا ، اور سوچا ،
کہ آج دفتر سے واپسی پر اس کے گھر افسوس کرنے جاؤں گا۔
میں نے اس سے میسج کے ذریعے احتیاطاْ پوچھ بھی لیا تھا ،
کہ میں اگر افسوس
کرنے کے لئے آؤں ‘ تو اس کی والدہ کو کوئی اعتراض تو
نہیں ھو گا ؟ اس نے جواب میں
کہا تھا ، کہ اس کی والدہ ایسی نہیں ھیں ۔ بلکہ اس نے
میرا اپنی والدہ سے غائبانہ
تعارف بھی کروا دیا ھے-
میں نے دفتر سے ایک گھنٹہ ایڈوانس چھٹّی لی ، اور ٹیکسی
پکڑ کر اس کے گھر
پہنچ گیا ۔ راستے میں مری روڈ پر رش کی وجہ سے مجھے
کمیٹی چوک پہنچتے ھوئے
دو گھنٹے لگے۔ خیر ، میں نے اس کے گھر پھنچ کر ڈور بیل
بجائی ، میں حیران تھا ، کہ
گلی میں ، یہاں تک کہ گلی میں بھی کوئی ایسے آثار نظر
نہیں آ رھے تھے ، جس سے
پتہ چلے ، کہ اس گلی کے کسی بھی گھر میں فوتگی ھوئی ھے ۔
" جی کون ؟ "
عالی کی مترنّم آواز سنائی دی ۔ میں نے جواب میں اسے
اپنا نام بتایا ، تو
اس نے دروازہ کھول دیا ۔اس کی آنکھوں میں ھلکی سی حیرت
تھی ۔ شائد اس کو توقّع
نہیں تھی ، کہ میں آج ہی افسوس کرنے آ جاؤں گا ۔ میں نے
اس سے سلام کا تبادلہ کیا ،
اور دیکھنے لگا کہ ، وہ مجھے گھر میں داخل ھونے دیتی ھے
، یا کہ باھر سے ھی ٹرخا
دیتی ھے ۔ عالی میرا انداز سمجھ گئی اور،ذر ا سے توقّف
کے بعد ، ایک طرف کو ھٹ
گئی ۔ میں گھر میں داخل ھوا ۔ عالی کا گھر کم از کم دس
مرلے پر مشتمل تھا ، جو کہ
ڈبل سٹوری تھا۔ مگر مجھے گھر میں اس وقت عالیہ اور اپنے
علاوہ کوئی اور ذ ی روح نظر
نہیں آ رھا تھا ۔ میں شدید الجھن میں پڑ گیا ۔اور
استفہامیہ اندز سے عالیہ کو دیکھنے
لگا ، جو میرے سامنے ھی آ کر کھڑی ھو گئی تھی ۔ عالیہ
کچھ دیر تو خاموش رہی،
پھر اس نے بتایا ، کہ اصل میں اس کی خالہ مری میں فوت
ھوئی ھے ، اور اس کی
والدہ اور بہن دونون ھی مری جا چکی ھیں ۔ میں یہ جواب سن
کر سٹپٹا گیا ۔ تو گویا ، ، ، ، عالیہ نے مجھے آدھی بات بتائی تھی ، ،،،،، ؟
" اب اس وقت گھر میں اور کون کون موجود ھے ؟ "
میں نے سوال کیا ۔ جواب میں اس نے میری طرف عجیب سی نظروں
سے دیکھا ، اور
کہا ، " صرف ھم دونو ں ۔ " ،،،،،، اس کے اس
جواب نے میرے چودہ طبق روشن کر دئے ۔
میں گم صم سا کھڑا ھوا تھا ۔ مجھے سمجھ ھی نہیں آ رھی
تھی ، کہ عالی نے ایسا
کیوں کیا تھا ؟ اگر وہ پہلی دفعہ میں نہیں بتا سکی تھی ،
تو ، جب میں نے افسوس کے
لئے اس کی والدہ کی اجازت کے لئے فون کیا تھا ، وہ اس
وقت بھی تو بتا سکتی تھی ۔
لیکن اس نے نہیں بتاےا تھا ۔ آخر اس بات کا کیا مطلب
بنتا ھے ؟ کیا اس نے جان بوجھ
کر مجھے لا علم رکھا ، اور اگر اس نے مجھے بلوانے کے لئے
یہ کیا ھے ، تو ،،،،،، آخر
عالیہ نے ایسا کیوں کیا ھے؟ ، اس کے پیچھے آخر کیا مقصد
ھے ؟ " ، ، ،میں ینہی
سوچوں میں غلطاں تھا ، جب اچانک عالی کی آواز آئی ،
" کیا بات ھے فیروز ، ؟ کیا یونہی
کھڑے رہو گے ؟ بیٹھنا نہیں ھے کیا ? " مگر میں اپنے
اندر ایک عجیب سی بے چینی
محسوس کر رھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " میں اور عالی ،
رات کے نو بجے ، اس کے گھر میں ، ، ،
اکیلے ، ، ؟ " ، ، ، ، ، اس سے آگے میں نہ سوچ سکا۔
" لیکن عالیہ کی ماں آخر اس اکیلی کو کس طرح
گھر میں چھوڑ گئی ؟ "
اب میرے دماغ میں ایک نیا اور الگ قسم کا سوال پیدا ھوا
۔
شائد عالیہ نے میرے دماغ میں آنے والے سوال کو پڑھ لیا
تھا ۔ فوراْ بول اٹھی ، " محلّے
کی ایک خالہ آج رات میرے ساتھ ھی سوئیں گی میرے پاس ۔
" ، ، ، عالی کا یہ جواب
سن کر جہاں میں تھوڑا سا پر سکون ھوا ، وہیں دل کے کسی
گوشے میں کوئی امّید دم
توڑ گئی ۔ شائد میں عالیہ کے ساتھ تنہائی ملنے پر شعوری
طور پر پریشان ھوا تھا ، مگر
یہ بھی سچ تھا ، کہ کہیں نہ کہیں یہ بھی آرزو موجود تھی
، کہ کاش ایسی تنھائی
مجھے عالی کے ساتھ میسّر آ جائے ۔ چاھے وہ ایک رات کے
لیے ھی کیوں نہ ھو ۔اور
محلّے کی ایک عمر رسیدہ عورت کی موجودگی کے احساس نے اس
خواھش کا کام تمام
کر دیا تھا ۔
" وہ دیکھو ، وہ رہیں آنٹی شمیم ۔ " عالی
نے اندر ایک طرف اشارہ کیا ۔ میں نے اس
کے ھاتھ کے رخ پر دیکھا ، وہاں برآمدے میں ، ایک عمر
رسیدہ عورت دنیا و مافیہا سے بے
نیاز ، خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی۔ پنکھا فل سپیڈ میں
چل رہا تھا ۔عورت ایسے
سوئی ھوئی تھی ، گویا عرصے بعد ، سونا نصیب ھوا ھو ۔ میں
نے عالیہ سے افسوس کا
اظہار کیا ، دو چار رسمی جملے بولنے کے بعد میں نے اجازت
طلب کی، مگر عالیہ نے
کہا ، کو آخر میں اس کے گھر پہلی مرتبہ آیا ھوں ۔ کچھ نہ
کچھ تو کھا کر جاؤں ۔ " یہ کہ کر
عالی اٹھی ، اور کچن کو چل دی ۔ میں اندر ایک کمرے میں
بیٹھا تھا ۔
شائد یہ عالی کا ہی کمرہ تھا کیونکہ اس میں جگا جگا عالی
کی ھی تصویریں لگی
ھوئی تھیں ۔ ان میں سے چندکالج کی بھی تھیں۔ ایک تصویر
میں تو میں بھی موجود تھا ۔
میں پرانے دنوں میں کھو سا گیا ۔ عالیہ کے قدموں کی آھٹ
نے مجھے چونکایا ۔ وہ ھاتھ
میں بریانی پکڑے مسکرا رھی تھی ۔ میں نے چاول کھائے ، وہ
مجھے کھانا دینے کے بعد
چائے بنانے کچن میں گئی ، اور میں بھی وہیں چلا گیا۔ یہ
آنٹی اتنی جلدی کیوں سو
رھی ھیں ؟ " میں نے کچن میں ایک جگہ ٹیک لگاتے ھوئے
سوال کیا۔ جواب میں وہ
مسکرائی ، اور بولی ،" اس لئے کہ ، میں نے آنٹی
شمیم کو نیند کی ٹیبلٹ دی ھوئی
ھے، اور ئہ اب صبح آٹھ بجے سے پہلے نہیں اٹھنے والیں ۔ "
اس نے کپ میں چائے انڈیلتے ھوئے کہا ، اور میں پھر
چونک اٹھا۔ عالی مستی بھری آنکھوںuسے مجھے دیکھ رھی تھی۔ مجھے اپنی شلوار
میں اب واضح ہلچل محسوس ھو رھی تھی۔ اب کے مجھے عالیہ کی
یہ بت سن کر
پریشانی نہیں ھوئی تھی ، بلکہ اچھا لگا تھا۔
عالی نے کپ اٹھایا اور میرے برابر آن کھڑی ھوئی، اس کی
آنکھوں میں خمار ہی خمار نظر
آ رھا تھا۔ اس نے اپنا داھنا ھاتھ میرے سر کےبالوں پر رکھا
، ھاتھ کو ذرا سا اوپر سے
نیچے حرکت دیتے ھوئے میرے چہرے پر جب اس کا ھاتھ آیا ،
تو اس نے باقی انگلیاں کلوز
کر لیں ، صرف شھادت والی انگلی میرے ہونٹوں سے ٹچ کی،
میں بھی اس کا انداز
سمجھ چکا تھا ۔ ویسے بھی ، اب کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ میں
نے اس کی انگلی پر ھلکا
سا کس کیا اور اس کا ھاتھ تھام لیا ۔ مگر وہ ھاتھ چھڑا
کرکمرے کی طرف بھاگ گئی ،
جاتے جاتے وہ مجھے بھی اندر آنے کا اشارہ کر گئی تھی۔
میرے انگ انگ میں نامعلوم
قسم کا کرنٹ دوڑنا شروع ھو چکا تھا۔میرا لن مستی پکڑ رھا
تھا۔ شائد اس کو بھی پتہ
چل گیا تھا ، کہ خواب سچا ھونے والا ھے ، اور اس کی
ضرورت پڑنے والی ھے۔ میں نے
کپ اٹھایا اور عالی کے پیچھے کمرے کی جانب چل پڑا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔یقیناْ میری آج کی رات انتہائی مستیوں میں
گزرنے والی تھی
0 تبصرے
THANKS DEAR