محبت اور ہوس کی جنگ
میری شادی کو کئی سال بیت چکے ۔میں نے کس طرح ایک شہر سے
گاٗوں میں آکر ایک خوبصورت لڑکی سے شادی کی، یہ کہانی پھر کبھی سناٗوں گا۔ فل وقت
میں اپنی موجودہ زندگی کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ میں ایک امیر کبیر خاندان
کا چشم و چراغ ہوں۔ میں اپنے والدین کے ساتھ شہر کے پوش علاقے میں رہتا تھا۔ تب،
قریباً پچیس سال پہلے ہمارے پاس گاڑی تھی، بنگہ تھا اور ضروریات زندگی کی وہ تمام
چیزین میسر تھی جن کی طلب میں آج لوگ مارے مارے پھرتے ہیں۔چونکہ یہ تمام چیزیں
مجھے وراثت میں ملی تھی لہذا میں نے ان کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ یار دوست بہت تھے،
ہر شام بازار جانا، کسی اچھے ہوٹل میں کھانا کھانا تو معمول بن چکا تھا۔میرے
دوستوں میں ایک چھوٹے قد کا ببلی بھی تھا۔ وہ چرس پیتا تھا۔ ہم بھی اس کے ساتھ
بیٹھ کر کش لگا لیتے تھے۔ شغل شغل میں کش لگانے کی عادت ہو گئی۔ یوں ہمارے یاری،
ببلی کے ساتھ اور بھی گہری ہوتی چلی گئی۔ جس رات وہ ہم سے ملاقات نہ کرتا، وہ رات
گزارنا مشکل ہو جاتی۔ ہم اس کی تلاش میں اس کے گھر، بیٹھک، محلے کو چھان مارا
کرتے، مگر وہ تب بھی ہمیں کسی ویران سی ہویلی میں پڑا ملتا۔ یوں ایک دن ابا جی کو
خبر ہوگئی۔ انہوں نے مجھے شہر سے گائوں چچا کے پاس بھیج دیا۔ میں جوان تھا اور
جوانی کے جوش میں اکڑ اکڑ کر چلا کرتا تھا۔ گائوں کی لڑکیاں سادہ تھیں اور پلٹ پلٹ
کر مجھے دیکھا کرتی تھیں۔ یوں ایک لڑکی کے ساتھ میرے دوستی ہوئی اور پھر ہم نے
بھاگ کر شادی کر لی۔ یہ کہانی میں کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں، بات سچی ہے
تو سچ کہنے میں وقت لگتا ہے۔
اب میرے تین بچے ہیں، ایک بیٹا جو سب
سے چھوٹا ہے اور دوسری کلاس میں پڑھتا ہے، ایک بڑی بیٹی اور ایک اُس سے بڑی۔ میرے
بیوی کوئی کام نہیںکرتی، ہاں دن بھر لوگوں کے گھروں میں بیٹھ کر اپنا وقت پاس کرتی
ہے یا کبھی کبھار سلائی کڑھائی وغیرہ بھی کر لیتی ہے۔ پہلے پہل ہمارا گزارہ بہت ہی
اچھا چلتا تھا، مگر پھر جب سے میں شہر بدر ہوا ہوں، اب تو بمشکل ہی گزرا ہوتا ہے۔
میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہ رہا ہوں جسے کرایے پر حاصل کیا ہے۔ مگر میں کرایہ
نہیں دیتا کیونکہ یہ مکان میرے دوست کا ہے اور وہ گائوں سے شہر چلا گیا تھا اس لیے
جاتے جاتے مکان مجھے دے گیا کہ جب تک تم چاہو رہ لو۔ میں تلاش معاش میں دن بھر
ادھر اُدھر بھٹکتا رہتا ہوں، کبھی کوئی کام مل گیا تو کر لیا وگرنہ تاش کے پتے اور
ان سے جڑے پیسے کسے برے لگتے ہیں۔ گائوں میں جس جگہ میرا مکان ہے، اس کا محل وقوع
بیان کر دیتا ہوں۔ میرے گھر کے بالکل سامنے سڑک کے اس پار ایک ویران اور کھلی جگہ
ہے جہاں لوگ کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں۔ اس ویرانے سے ساتھ دو مکانات اور ہیں مگر ان
میں رات کے وقت ہی کوئی اپنے مویشی باندھنے آتا ہے، جبکہ دن بھر خالی پڑے رہتے
ہیں۔ جبکہ میرے مکان کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا مکان ہے اور یوں میرے مکان والی گلی
میں کل چار گھر ہوں گے۔ گائوں میں سب ہی ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے ہیں، میرا
مکان کافی اونچا ہے جبکہ ملحقہ مکانات تین چار فٹ نیچے ہیں۔
میرے بیوی نے یہاں آتے ہی مناہل کو
اپنی سہیلی بنا لیا۔ مناہل ساتھ والے گھر میں رہتی ہے اور اس کی عمر پچیس سال ہے۔
مناہل کی تین بہنیں تھیں جن کی شادی ہو چکی ہے جبکہ وہ ابھی تک کنواری ہے۔ اسکے دو
بھائی ملازمت کرتے ہیں اور صبح کے گئے شام کو گھر لوٹتے ہیں۔ میری بیوی نے مناہل
کے ساتھ دوستی بڑھائی تو وہ ہمارے گھر آنے لگی۔ پھر تو اپنے کپڑے سکھانے کے لیے
بھی ساتھ لے آتی اور میرے مکان کی چھت پر ڈال دیتی۔ اس کے گھر کا دروازہ میرے گھر
کے باہری دروازے سے پانچ فٹ دور ہو گا۔ اس لیے ایک گھر سے نکل کر دوسرے میں جا
گھسنا بہت ہی آسان ہے۔ پہلے پہل وہ میرے گھر آتی تھی تو مجھ سے جھجک محسوس کرتی
تھی۔ پھر ایک دن میرے بیوی نے اسے اپنی شادی کے متعلق سب کچھ بتا دیا، کیسے ہمیں
پیار ہوا اور کیسے ہم اس گائوں سے بھاگ کر شہر گئے، وہاں کمپسرسی کی زندگی گزار کر
واپس اسی گائوں لوٹ آئے۔ وہ مزے سے سنتی رہی اور شاید اس لیے اس کے دل میں جھجک
جاتی رہی ۔ یوں بھی لڑکیاں ایسے عاشقوں کی داستایں بہت خاموشی سے سنتی ہیں جن کی
زندگی میں کوئی نہ کوئی بے وقوفی چھپی ہو۔ میرے زندگی میں بھی ایک بہت بڑی بے
وقوفی چھپی ہوئی تھی، لیکن میں نے اسے جرات کا نام دیا۔ میں نے اپنی کم عقلی کو
اپنی ہمت بنا لیا اور کسی کے آگے جھکنے کو پسند نہ کیا۔ حالانکہ شادی کے بعد تو
سب کچھ بدل گیا تھا۔ میرے عزیز ، دوست رشتہ دار والدین سب ہی میرے مخالف تھے، بھلے
زمانے کی بات ہے، تب عزت اور زلت کا کنسپٹ بہت ہی معنی خیز ہوا کرتا تھا، مگر اب
تو جیسے یہ معمول بنتا جارہا ہے۔ تب ایسی حرکتوں سے بزرگوں کی ناک کٹ جاتی تھی۔
خیر تب کی بات پھر سہی۔
ایک دن میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا اور
میرا بیٹا پاس ہی کھیل رہا تھا کہ مناہل آگئی۔ اسنے اپنے سر پر کپڑوں کا ایک
ٹوکرا اٹھایا ہوا تھا اور کہنے لگی کہ کپڑے چھٹ پر ڈالنے ہیں۔ میں نے اسے ایک
بھرپور نظر سے دیکھا، اس کے نرم ہاتھوں نے ٹوکرے کو تھاما ہوا تھا، اس کے جسم کی
ساخت کسی خوبرو حسینہ جیسی تھی۔ پستان اتنے بھرے ہوئے تھے کہ انہیں دیکھ کر منہ
میں پانی آجائے۔ سفید رنگت اور خوبصورت نقش نین سے مزین چہرہ اپنی معصومیت اور
سادگی کا عکاس تھا۔ اس کی کمر گرچہ پتلی تھی مگر کمرے کے نیچے کا حصہ بھراہوا
تھا۔مناہل کو میں نے جب بھی دیکھا، مجھے وہ گائوں کی لڑکی نہیں لگی۔ وہ اتنا
خوبصورت لباس پہنتی تھی۔ مگر شاید لباس اس پر جچتا بھی بہت تھا۔ وہ ہر لباس میں
سیکسی لگتی تھی۔ یہ سب تاثرات میں نے بارہا نوٹ کیے ۔ اب وہ کپڑوں کا ٹوکرا اٹھائے
چھت پر چلی گی۔ مین اپنے بچے کے ساتھ کھیل میں مصروف رہا۔ کچھ دیر کے بعد وہ خالی
ٹوکرا لے کر واپس لوٹی تو میں نے اس سے ٹھہر کر مجھ سے سوال کیا:
باجی کدھر گئی؟
بازار گئی ہے، بچوں کے لیے لباس خریدنے۔
وہ کب تک واپس آئیں گی؟َ اس نے دوسرا سوال کیا۔
شاید نازیل کے گھر رُک جائے، اس لیے دیر بھی ہو سکتی ہے۔
کیوں کوئی بات ہے تو مجھے بتائو؟: میں نے نرم لہجے میں کہا
نہیں، کوئی بات بھی نہین ہے۔
یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور میں جاتے ہوتے اس کی کمر سے
چپکے بدن کو گھورتا رہا۔ آہ وہ کس قدر خوبرور ہے، کسی افسانوں حسینہ کی مانند۔
کیا اس کا کوئی چکر بھی ہے؟ کسی لڑکے سے معاشقہ وغیرہ؟
میں اس بات کی کھوج میں چند دن تک ادھر ادھر دیکھتا رہا،
پھر مجھے یقین ہو گیا کہ ضرور اس کا کسی سے کوئی معاشقہ نہیں ہے۔ مگر میں تو عمر
میں اس سے بہت ہی بڑا ہوں، وہ میرے طرف مائل نہیں ہو سکتی۔ یہ سوچ میرے دماغ میں
چلتی رہتی تھی۔ پھر ایک دن وہ آئی اور اپنی باجی کے پاس بیٹھ گئی۔ میں بھی صحن
میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔میں نے نوٹ کیا کہ وہ میری طرف بالکل بھی نہیں دیکھ
رہی، بس میری بیوی سے باتیں کیے جا رہی ہے۔ تب میری بیوی جس کا نام شگفتہ ہے،
سلائی کڑھائی کر رہی تھی۔ اس کے سامنے مشین دھری تھی اور وہ فرش پر بیٹھی تھی۔
مناہل نے اپنے دوپٹے کا پلو سنوارتے ہوئے ایک نظر مجھ پر ڈالی پھر اپنی باتوں میں
گم ہو گئی۔ میں نے چائے ختم کی تو ان کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ شگفتہ کے ساتھ خوش
گپیاں کرنے کی ایک دو بار ناکام کوشش کی مگر اس نے ساتھ نہ دیا تو میں نے کمرے کا
رخ کی اور ٹی وی آن کرکے بیٹھ گیا۔ ٹی وی پر دھماکوں کی خبریں چل رہی تھیں، شاید
پھر سے کسی گھر کے چشم و چراغ مر گئے، پھر سے کسی کا چمن ویران ہوا۔ یہ تو روز روز
کی بات ہے۔ اب کو ن ان کی فکر کرے۔ میں نے چینل بدل دیا اور ایچ بی او پر فلم
دیکھنے بیٹھ گیا۔ یہ ایک فرانسیسی فلم تھی ، اور آپ تو واقف ہیں ایچ بی او پر
زیادہ تر فلمیں فحش قسم کی ہوتی ہے، کب کسنگ وغیرہ شروع ہو جائے پتہ ہی نہیں چلتا۔
اسی دوران فلم میں ایک خاتون اپنے عاشق کے ساتھ بستر پر لیٹ کر اس کی پینٹ میں
ہاتھ ڈالے لنگم کو جنبش دے رہی تھی کہ مناہل کمرے میں قینچی لینے آ گھسی۔ اس کی
نظر فلم پر پڑی اور پھر مجھ پر اور یوں وہ قینچی اٹھائے جلدی سے باہر نکل گی۔ میں
نے اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور اپنی مستی میں مگن رہا۔ مگر میرے دل میں بار
بار خیال آتا تھا کہ کس طرح مناہل کو اپنی بیڈ کی زینت بنائوں، کس طرح اس کے نرم
جسم کو اپنے قبضے میں کرکے اپنی پیاس بڑھائوں۔ وہ کوئی موقع نہیں دے رہی تھی اور
شاید وہ مجھے موقع دینا بھی نہیں چاہتی تھی۔جب کبھی سیکس کی طلب زیادہ ہوتی ہے تو
آدمی کا دل چاہتا ہے کیس حسینہ کے ساتھ فل مستی کی جائے، مگر وہ حسینہ آپکی بیوی
نہیں ہو سکتی۔ بیوی سے جتنا مرضی سیکس کر لو، کسی اور سے سیکس کرنے کی طلب بڑھتی
ہی جاتی ہے۔ وہ جتنا قریب آتی ہے، شوق اتنا ہی دُور چلا جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم
ایسا کیوں ہوتا ہے۔ میں نے حال ہی میں ایک فرانسیسی دانشور کی ٹیڈ پر گفتگو سنی۔
وہ محبت کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا آپ کسی سے بھی محبت کر سکتے
ہیں:
ہاں آپ کسی سے بھی محبت کر سکتے، اپنی ماں سے ، اولاد
سے، کسی خوبصورت لڑکی سے، دیوار سے، اور بیوی سے۔
جب اس نے ’’بیوی‘‘ کہا تو سامعین کی ہنسی نکل گئی۔
بس تب مجھے لگا کہ بیوی فرانسیسی ہو یا پاکستانی، کوئی
فرق نہیں ہوتا۔
مگر شاید فرق مردانہ ذہنیت میں ہو؟ خیر یہ فلسفیانہ منطق
ہمارے بس کی بات نہیں، ہم تو اتنا کہیں گے کہ عورت سیکس کے معاملے میں جتنا زیادہ
کھلتی ہے، مرد اُتنا ہی زیادہ دُور ہوتا جاتا ہے۔ بس یہ ہی سمجھ میں آیا۔ اب میری
بیوی تو مجھ پر کھلی ہوئی تھی، اور میں اس سے بھاگ رہا تھا جبکہ مناہل مجھے ایک
نظر دیکھنے کو تیار نہیں اور میں اس کی جانب لپک رہا تھا۔
رات گئے تک میں اور شگفتہ آپس میں
باتیں کرتے رہے۔ بچے دُوسرے کمرے میں سو رہے تھے۔ شگفتہ نے مجھ سے گلہ کیا کہ تم
ابھی بھی نہیں کماتے۔ ایسے گلے شکوے تو روز ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ مجھ پر
ہاتھ بھی اٹھا دیتی ہے اور بہت بار میں نے اس سے مار بھی کھائی۔ وقتی طور پر مجھے
بھی رنج ہوتا ہے، سوچتا ہوں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے چلا جائوں مگر میں نے اسے محبت کے
طور پر قبول کیا تھا، میں نے اسے بہت جھوٹ سنائے تھے، آسمان سے تارے توڑ کر لانے
والی باتیں میری ہی ایجاد ہیں۔ لیکن کوئی بھی عاشق، عاشقی کے بعد، اپنی محبوبہ کو
خوش نہیں رکھ پاتا۔ دعوے سب مرد کرتے ہیں، لیکن وہ تمام دعوے ، چسکے سے پہلے تک ہی
ہوتے ہیں۔ بس ایک بار محبوب بانہوں میں آیا، اس کے جسم میں نو انچ کا لنگم اتارا
تو محبت کی قیمت جاتی رہتی ہے۔
میں نے چینل بدل دیا کہ شاید بات بدل
جائے۔ مگر شگفتہ نے ناراضی سے منہ موڑ لیا اور اپنی پیٹھ میری طرف کر لی۔ میں نے
اس کے بدل کو سہلانا شروع کر دیا۔ اس کے پستان پر ہاتھ رکھا تو اس نے میرے ہاتھ کو
جھٹک دیا۔ میں نے اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا، کافی دیر تک اس کی گانڈ
پر ہاتھ پھیرنے کے بعد جب میں نے اس کے پستان کو پکڑا تو مجھے مناہل یاد آگئی۔
ایک سیکنڈ میں میرا لن تن گیا۔ شگفتہ نے ایک دو بار مجھے منع کیا مگر میں کہاں رکنے
والا تھا۔ لن کو اپنے ہاتھ میں تھام کر شگفتہ کی شلوار اتاری اور اسے گانڈ میں
گھسانے کی لیے تیار ہی تھا کہ وہ اٹھ بیٹھی۔ اس نے سختی سے مجھے منع کیا۔ مجھ سے
صبر نہیں ہو رہا تھا، میں اس کے بدن سے لپٹ گیا، اس کے چہرے اور گال کو تھام کر
چومنے لگا۔ مگر وہ مجھ سے دُور ہٹتی گئی اور یوں وہ بستر سے اتر کر میرے سامنے
کھڑٰ ی ہو گی۔ اس نے کچھ کہے بغیر کمرے کا دروازہ کھول دیا اور بچوں کے پاس چلی
گئی۔ جبکہ میں بے قراری کی حالت میں بیٹھا رہا۔ پھر مجھے مناہل یاد آگئی، میں نے
تصور کیا کہ وہ میرے پاس ہے اور میں اس کے جسم کو سہلا رہا ہوں۔ یوں رات کی نیند
پوری ہوئی۔
شگفتہ نے اگلی صبح ناشتہ تیار کیا اور
مجھے بتایا کہ آج بچوں کو سکول سے لے آنا میں اپنی باجی کے گھر جارہی ہوں۔ اس کی
باجی شہر میں رہتی ہے۔ شہر میرے گائوں سے چند ہی کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ میں نے
اس کی بات ان سنی کر دی اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ بچے سکول کے لیے تیار ہوئے تو
انہیں سکول چھوڑ کر واپس آیا۔ سنسان گھر میں میری بے قراری کے علاوہ اور کوئی نہ
تھا۔ میں نے کمرے میں بیٹھ کر ٹٰی پر فلم دیکھنا شروع کر دی۔ دن کے دس بج چکے تھے،
باہر ٹھنڈ تھی۔ اتنی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی تو میں کمرے سے نکل کر دروازے تک
آٰیا۔ دروازہ کھولا تو مناہل کھڑی تھی۔
وہ بغیر پوچھے اندر چلی آئی۔ میں نے دروازہ بند کر دیا
اور اس کے پیچھے پیچھے صحن تک آگیا۔ صحن میں کھڑے ہو کر اس نے پوچھا، باجی کہاں
ہے؟
یہ سوال پوچھتے ہی وہ جھجک گئی جیسے وہ شکار بن چکی ہو
اور جلد ہی قید میں چلی جائے گی۔ میں نے کہا: کمرے میں لیٹی ہوئی ہے، طبیعت خراب
ہے۔
وہ کمرے کی طرف چل پڑی۔میں بھی اس کے پیچھے تھا۔ جب وہ
کمرے مین پہنچی تو میں نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور ایک آن میں مناہل کو پیچھے
سے پکڑ لیا۔ وہ بہت ہی دھیمی اواز میں چلائی’’یہ کیا کر رہے ہو‘‘۔
میں نے کوئی جواب دیے بغیر اسے جھپٹی ڈال رکھی تھی اور
وہ مجھے کہہ رہی تھی ’’مجھے چھوڑو میں باجی کو بتا دوں گی‘‘۔
مگر میں اسے کیسے چھوڑ دیتا۔ میری ہوس تو عروج پر پہنچ
چکی تھی۔ اس کا بھرا ہوا جسم ، نرم نرم گانڈ کو میرا لن چھو رہا تھا۔ میں مستی سے
بے قرار تھا جبکہ وہ مجھ سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں نے اس کے پستان پر
ایک ہاتھ رکھ دیا اور سختی سے اسے بھینچ لیا مگر وہ مسلسل کوشش کرتی رہی اور کہتی
رہی کہ مجھے چھوڑ دو۔ لیکن عورت کو رام کرنے کا ایک نسخہ ہے، وہ نسخہ بروقت میرے
دماغ میں آیا۔
میں نے اپنی انگلی کو منہ میں ڈالا
اور پھر اس انگلی کو مناہل کی قمیض کے اندر سرکا دیا۔ وہ جان چھڑانے کی کوشش کرتی
رہی، اس میں طاقت تھی اور وہ پھرتی سے مجھے پیچھے دھکیل رہی تھی۔ میں نے انگلی کو
زور سے جنبش دی اور اس کی شلوار کے اندر ہاتھ ڈال دیا۔ جونہی میری انگلی اس کی
پھدی کے درمیان اتری، وہ چلا اٹھی، بے غیرت، چھوڑ و مجھے۔ مگر اب چھوڑنے کا کوئی
فائدہ نہیں تھا۔ میں نے پھدی کے درمیان میں انگلی پھیرنی شروع کر دیا اور وہ میرا
ہاتھ اپنی شلوار سے باہر نکالنے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔ چند سیکنڈ کے بعد اس کی
کوشش ڈھیلی پڑ گئی اور میرے انگلی نے اس کی پھدی سے نکلنے ہوئے پانی کو محسوس کیا۔
یہی وقت تھا: میں نے مناہل کو بیڈ پر گرا دیا اور اس کے اوپر لیٹ کر اس گردن اور
کو چومتا رہا جبکہ ایک ہاتھ سے اس کے پستان دبارہا تھا۔ وہ بے حس پڑی ہی۔ اب وہ
بالکل بھی کوشش نہیں کر رہی تھی۔ اب وہ جان چھڑانے کی کوشش ترک کر چکی تھی۔میرا لن
تن چکا تھا۔ مناہل میرے نیچے لیٹی ہوئی تھی۔ اس کی گانڈ پر میرا لن رقص کر رہا
تھا۔ مین نے اس کی شلوار اتارنی چاہی تو اس نے کہا: ’’کوٗی آجائے گا‘‘۔
بغیر جواب دیے میں نے شلوار کو گانڈ
کے نیچے تک سرکا دیا اور اپنا لن اس کی گانڈ کے درمیان رکھ کر جنبش دینے لگا۔ مجھ
سے کنٹرول نہیں ہو رہا تھا۔میں چاہتا تھا کہ اس کے پستان ننگے کروں اور انہیں اپنے
منہ میں لے کر کچھ دیر کے لیے سو ہی جائوں مگر اتنا وقت نہیں تھا، وہ کسی بھی لمحے
جان چھڑا کر بھاگ سکتی تھی۔ شاید وہ اسی لیے بھاگنے کی کوشش ترک کر چکی تھی تاکہ
میں بھی اسے موقع دوں اور وہ نکل جائے۔ لیکن ایسا تو ہو نہیں سکتا۔ میں نے اپنا لن
اس کی گانڈ پر ٹکائے رکھا اور دونوں ہاتھوں سے اس کے بدن کو سہلاتا رہا۔ اسی دوران
میں نے اپنے لن پر تُھوک لگایا اور لن کو اس کی گانڈ میں عین نشانے پر رکھ کر ایک
زور دار دھکا دیا۔ اس کی چیخ نکلی اور وہ اچھل کر بیڈ کے دوسرے کنارے تک پہنچ گئی۔
میرا لن اس کی گانڈ میں گھسا اور میں نے اپنے لن کی ٹوپی پر درد محسوس کی۔ اس کی
گانڈ بہت ہی ٹائٹ تھی اور شاید اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ میں اس کی پھدی میں لن
نہیں ڈالنے والا بلکہ میں تو گانڈ میں ڈال رہا ہوں۔ میں نے جلدی سے اسے پھر سے
کھینچ لیا۔ اس نے رونا شروع کر دیا مگر میں نے پھر سے لن کو گانڈ پر ٹکا دیا اور
اس بار میرا نشانہ اس کی گانڈ نہیں تھا۔ لیکن وہ ٹانگیں کھولنے کے لیے تیار نہیں تھی
اور نہ ہی میں ایسا کر سکتا تھا۔ میں نے کوشش کی کہ وہ ایسے ہی لیٹی رہے اور میں
اس کے جسم کو ایسے ہی سہلاتا رہوں۔ اس کی انکھ میں آنسو تھے مگر میں اسے چومتا
رہا اور اپنا لن پھر سے اس کی گانڈ میں ڈالنے کی کوشش کرتا رہا۔چند لمحوں کے بعد
میں نے پھر سے اپنا لن اس کی گانڈ میں اتار کر یکایک تین سے چار سٹروک لگائے تو وہ
درد سے چیخ اٹھی اور اس نے بھرپور کوشش سے اپنے آپ کو آزاد کرانا چاہا۔ لیکن
میرے ہاتھوں کی پکڑ بہت مضبوط تھی۔ میں نے اس کی گانڈ میں لن ڈال رکھا تھا اور وہ
چیخ رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے لیے میں نے سٹروک لگانا چھوڑدیا اور یونہی اس کے اوپر
پڑا رہا تاکہ وہ کروٹ لینے کی کوشش نہ کرے۔ مگر وہ اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے تھی۔
اسی دوران اس نے کروٹ لینے کی بھرپور کوشش کی تاکہ وہ اٹھ سکے مگر اس کی ٹانگیں
جونہی ہوا میں اٹھیں، میں نے انہیں تھام لیا۔ اب وہ سیدھی بستر پر لیٹی ہوئی تھی
اور میں نے اس کی ٹانگوں کو زور سے پکڑ رکھا تھا۔ وہ بار بار کہہ رہی تھی مجھے
چھوڑ دو مجھے چھوڑ دو، مگر میں اس کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔مجھے پتہ تھا اگر
اب میں ناکام رہا تو یہ کبھی بھی واپس نہیں آئے گی۔
اب میں نے اس کی ٹانگوں کو تھام کر اس
کی پھدی پر لن رکھ دیا۔ وہ مسلسل ہلتی رہی۔ اس نے شلوار پہن رکھی تھی اور اس کی
شلوار اس کی ٹانگوں کے درمیان پھنسی ہوئی تھی۔ میں بھی اپنا وقت اس کی شلوار
اتارنے میں نہیں لگانا چاہتا تھا اور نہ ہی میری کوشش تھی کہ اس کی پھدی کو
دیکھوں۔ وہ مسلسل ہلتی رہی اور میں مسلسل اپنے لن کو اس کی پھدی میں ٹکانے کی کوشش
کرتا رہا۔ اسی کوشش میں مَیں نے اس کی ٹانگیں اوپر اٹھا دیں اور ایک زور دار سٹروک
لگایا جس سے میرا لن اس کی پھدی میں تھوڑا سا سرک گیا اور وہ درد سے ایک بار پھر
اچھلی مگر اس بار تیر نشانے پر لگا تھا۔ اس کی پھدی میں چند ہی انچ تک میں نے اپنا
اتارا تھا۔ پھر اہستہ اہستہ اس کی پھدی میں لن اترتا گیا۔ جوں جوں ایک ایک انچ اس
کے اندر جذب ہو رہا تھا تُوں توں وہ خاموش ہوتی جا رہی تھی۔ بالاخر میں نے مکمل لن
اس کی پھدی میں اتار دیا اور وہ پرسکون ہو گئی۔ چند لمحوں تک میں ایسی حالت میں
رہا۔ جی چاہ رہا تھا سٹروک لگائوں، مگر اس نے لن کا ذاٗئقہ پہلی بار چکھا تھا۔ بس
ایک آۃ بھر کر اس نے کہا ’’درد ہو رہا ہے‘‘۔ مگر میں نے درد کی بات کو بڑی بے
دردی سے رد کر دیا اور ہلکے ہلکے سٹروک لگانا شروع کیے۔ جوں جو ں وقت گزرتا جا رہا
تھا اس کی ٹانگیں کھلتی جا رہی تھی۔ یہ تو نہین کہہ سکتا کہ اسے مزا آرہا تھا مگر
یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ پرسکون تھی۔ اس کی پھدی اتنی گرم تھی کہ دو تین منٹ بعد ہی
میرے لن سے پانی ٹپک پڑا۔ میں نے جلدی سے لن اسکی پھدی سے باہر نکالا اور واش روم
چلا گیا۔ واش روم میں میں نے لن کو صاف کیا ، اس پر خون کے قطرے جم رہے تھے۔ میرے
لن نے ایک کنواری لڑکی کو شکار کیا تھا۔ درد سے کراہتی ہوئی لڑکی۔ میں نے شاور آن
کر لیا اور نہانے کے بعد جب واپس آیا تو وہ جا چکی تھی۔ تب میں سر پکڑ کے بیٹھ
گیا کہ اب کیا ہو گا۔
شام ہو چکی تھی۔ بچے سکول سے واپس
آکر سو رہے تھے۔ شام کو شگفتہ واپس آئی۔ میرا دل مسلسل ڈر رہا تھا کہ اب کچھ ہو
گا اب کچھ ہو جائے گا۔ لیکن رات تک میرے بے چینی برقرار رہی مگر کچھ نہ ہوا۔ اگلے
دن میں گھر سے باہر نکلا۔ مناہل کا دروازہ بند تھا۔ اس کے بھائی معمول کے مطابق
اپنی نوکری کے لیے گھر سے نکل گئے اور باپ کھیتوں میں مزدوری کرنے چلا گیا۔ میں
شام تک سوچتا رہا، کسی کو پتہ نہ چل جائے، کوئی میری بیوی کو نہ بتا دے۔ مگر ایسا
کچھ نہ ہوا۔ ایک ہفتے تک مناہل مجھے نظر نہیں آئی۔ میری نظریں اسے کھوجتی رہیں
مگر وہ نہیں آئی۔ایک ہفتے کے بعد وہ عین اس وقت میرے گھر آئی جب گھر میں کوئی
نہیں تھا۔
آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔میں
آپکو اچھا انسان سمجھتی تھی لیکن آپ ویسے نہیں ہیں۔
یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی اور میں نے بولنا شروع کر
دیا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں تمہیں کس قدر قریب رکھنا چاہتا ہوں۔ اگر مجبوری نہ
ہوتی تو میں تمہیں تمام عمر اپنے ساتھ رکھتا۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے شگفتہ بالکل بھی
اچھی نہیں لگتی، مجھے تم اچھی لگتی ہو۔ ہاں میں نے جذبات میں شاید بہت سی حدیں پار
کر دیں ۔
وہ میرے سامنے کھڑی تھی اور میں اسے رام کرنے کی کوشش کر
رہا تھا۔ پھر ہم دونوں چارپائی پر بیٹھ گئے۔ اس کے چہرے پر اداسی تھی، گہری اداسی۔
میں نے پوچھا: کیا بات ہے ؟
کیا سب مرد ہوس کے پجاری ہوتے ہیں؟ اس نے بڑی حیرت سے
میری طرف دیکھا
شاید؛ سب مرد ہی ہوس پرست ہوتے ہیں۔
پھر محبت کیا چیز ہے؟
محبت؟ یہ تو بس ایک بہانہ ہے، کسی کو قریب لانے کا۔
دراصل ہمارے اندر تو ایک ہی خواہش چل رہی ہوتی ہے، بس اس خواہش کی تکمیل کے لیے ہم
شارٹ کٹ استعمال نہیں کر سکتے۔ کوئی عورت شارٹ کٹ کا شکار ہونا پسند نہیں کرتی۔ ہر
عورت چاہتی ہے کہ مرد اسے محبت سے بہلائے اور پھر جب وہ اس کی ہو جائے تب جو مرضی
کر لے۔ ہاں ہاں، عورت کی ایسی ہی خواہش ہوتی ہے۔ میں شادی شدہ ہوں، جانتا ہوں کہ
محبت بس دھوکا ہے، اصل مقصد تو ہوس ہے۔
اس نے میری طرف دیکھا۔ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔وہ
شاید مرد اور عورت کے رشتے کی حقیقت تسلیم کر گئی اور لیٹتی چلی گئی
ختم شد
0 تبصرے
THANKS DEAR