ایک سیکس دس کہانیاں۔انڈین لڑکیوں کی چدائی

 


ایک سیکس دس کہانیاں

تحریر: پی کے ساقی

پہلی کہانی
آپ کو یاد دلا دوں کہ میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا ہوں اور ہمارا مکان پرانا ہے!
بات 1995 کی ہے تب میں بارہویں میں پڑھتا تھا. ہمارے گاؤں ایک آدمی پوسٹمےن کی ڈیوٹی منتقلی پر آیا ہوا تھا اور اس کی 3 سال پہلے شادی ہوئی تھی اور ایک دو سال کی بچی بھی تھی. اس کی عمر تقریبا 30 سال اور اس کے بی بی کی 20 سال تھی. بھابھی کا نام ریکھا تھا اور دیکھنے میں ایکدم وہ گوری، سندر، 5'1 "اونچائی، 36" کی چوچی، 30 "کی کمر اور 36" کے چوتڑ! انہوں نے میرے گھر سے ملحق میرے ہی رشتہ دار کا گھر کرایہ پر لیا تھا.
گاؤں کے گھروں کے بارے بتا دوں تو میرا اور ان کا گھر چپکا ہوا تھا، درمیان میں ایک مٹی کی دیوار ہی تھی جس کے اوپر کی طرف بانس کی تاٹيا لگی ہوئی تھی جس سے ادھر کا ادھر سے کچھ بھی دیکھ سکتے تھے.
اب ان کو دو ماہ گزر چکے تھے جس کی وجہ سے ان سے ہمارے اچھے تعلق بن گئے تھے. روز کسی نہ کسی بات سے میری لائن بھابھی سے بات چیت ہوتی ہی رہتی تھی. اس کا شوہر ہر ہفتہ اور اتوار کو اپنے گاؤں میں جاتا تھا تب بھابھی کی دیکھ رکھنے کے لئے ہمارے گھر میں کہہ کر جاتا تھا.
بدھ تھا، میرے گھر کے لوگ شادی کے لئے میرے رشتہ دار کے گاؤں گئے ہوئے تھے اور میں میری امتحان کی وجہ سے اکیلا ہی گھر پر تھا. رات کو دس بجے میں نے اپنی تعلیم ختم کر کے سونے گیا تو تھوڑے ہی دیر کے بعد مجھے بھابھی کے گھر کے اندر سے سسکاریاں بھرنے کی آواز سنائی پڑي- اهه ... اهه .... همممهمماواجے سن کر ایسے لگ رہا تھا جیسے اندر چدائی چل رہی ہو!
آواز سنتے ہی میرے لںڈ نے کھڑا ہونا شروع کر دیا تو میں بھی اندر کیا ہو رہا ہے دیکھنے کے لئے بیتاب ہو رہا تھا!
میں نے ایک بنچ اٹھایا اور دیوار سے چپکا کر اس پر کھڑا ہو گیا اور اندر جھاںکنے لگا. اندر میں درمیانے سی روشنی تھی، بھیا اور بھابھی ایک ہی پلنگ پر تھے، بھیا بھابھی کی چچیوں کو بلاج کے اوپر سے ہی مسل رہے تھے، بھابھی اپنے ایک ہاتھ سے ساڑی کے اوپر سے اپنی چوت پر ہاتھ گھما رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے بھیا کا لںڈ ہلا رہی تھی. بھابھی مکمل طور پر گرم ہو گئی تھی جس کی وجہ سے اس کی آواز بڑھ گئی تھی لیکن 15 منٹ کے بعد بھی بھیا کا لںڈ کھڑا نہیں ہو رہا تھا.
اگلے ہی پل بھابھی نے غصے سے بھیا کا لںڈ چھوڑ دیا اور ایک دھکا مار کر ان کو اپنے سے دور کر دیا! انہوں نے اپنی ساڑی کو اوپر اٹھا لیا اور اپنی پیںٹی کو گھٹنے تک نیچے اتار دیا!
واہ کیا چوت تھی بھابھی کی! ایکدم گوری گوری، جس پر ایک بھی بال نہیں تھا! میرا تو ایک ہی جھٹکے میں لںڈ کھڑا ہو گیا تھا اور دیکھ دیکھ کر میں اپنے لںڈ کو آگے پیچھے کر رہا تھا.
اب بھابھی نے اپنی انگلیاں چوت میں ڈال دی اور آگے پیچھے کرنے لگی اور دوسرے ہاتھ سے اپنی چوچیاں مسلنے لگی. بھیا یہ سب تماشا بھڑوے کے جیسے دیکھ رہے تھے. میرا تو دل کر رہا تھا کہ میں بھابھی کو چود ڈالو اور اس کی جوانی کا رسپان کروں.
اب بھابھی اپنے عروج پر تھی اور زور زور سے انگلی اندر-باہر کر رہی تھی، اهه ... اهه .. کی آواز بھی بڑھ گئی تھی اور تھوڑی ہی دیر کے بعد بھابھی جھڑ گئی!
انہوں نے اپنی چوت کو کپڑے سے صاف کیا اور بھیا کو گالیاں دینے لگی- بھڑوے! تیرے لںڈ میں طاقت نہیں تھی، تو کیوں شادی کی؟ کچھ شرم تو کرنی تھی کہ اپنے سے 10 سال چھوٹی لڑکی سے کیوں شادی کروں؟ اب میں کس سے اپنی پیاس بجھاتي رہوں! تیرا لںڈ تو اب کسی کم کا نہیں رہا!
بھیا نیچے مںڈی کرکے سب سن رہے تھے لیکن ان کی بولنے کی بھی ہمت نہیں ہو رہی تھی. تھوڑی دیر بعد بھابھی نے اپنی چادر لی اور اوڑھ کر سو گئی.
ویسے تو میں نے بھابھی کو نہاتے ہوئے بہت بار دیکھ چکا تھا، ان کی چوچیوں کو بھی دیکھا تھا لیکن آج ان کی چوت کی ادھوری پیاس دیکھ کر میرے دل میں بھابھی کو چودنے کی خواہش بیدار ہوئی تھی اور اس کے بعد میں نے بھابھی کو چودنے کے لئے کوشش کرنے لگا کہ کس طرح بھابھی کو پٹاو!
ہر ہفتہ کے دن صبح کی اسکول ہونے کی وجہ سے میں 12 بجے تک گھر پہنچ جاتا تھا اور اس کے بعد میں بھابھی کے گھر میں ہی ٹی وی دیکھتا تھا. بھیا خطوط بانٹنے کے لئے صبح ہی نکل جاتے تھے اور شام کو 5 بجے آتے تھے، اس کے بعد ہفتہ اور اتوار 2 دن کے لئے اپنے گاؤں کو جاتے تھے.
ایک ہفتہ کو میں اپنے ایک دوست کے پاس سے اجادلوك نام کی سیکسی کہانیاں والی کتاب لایا جس رنگین تصویر بھی تھے اور کتاب لے کر بھابھی کے یہاں چلے گیا! تب بھابھی ٹی وی دیکھنے مصروف تھی! میں نے ایک کرسی پر بیٹھ گیا جان بوجھ کر تصویر والا صفحہ بھابھی کے طرف کر دیا!
تھوڑی ہی دیر کے بعد سیریل ختم ہو ہوا تو بھابھی کی توجہ میرے طرف گیا!
بھابھی میرے ہاتھ میں کتاب کی تصویر دیکھنے لگی اور اٹھ کر میرے پاس آ گئی اور میرے ہاتھ کی کتاب چھین لی!
میں بولا- بھابھی، یہ کیا کر رہی ہے آپ؟ میری کتاب واپس کرو!
میں جان بوجھ کر ڈرامہ کر رہا تھا.
بھابھی بولی نہیں دیتی! مجھے بھی پڑھنے دو، کیا ہے اس میں؟
میں بولا- بھابھی یہ اچھی کتاب نہیں ہے، گندی کتاب ہے! آپ پڑھ کے کیا کرو گی؟
بھابھی بولی تم پڑھ سکتے ہو تو میں کیوں نہیں پڑھ سکتی؟
اور ایسا بول کر انہوں نے شام کو پڑھنے کے بعد رات کو واپس کرنے کا وعدہ کیا.
میں من میں ہی خوش ہو رہا تھا کہ آپ کی منصوبہ بندی کام کر رہی ہے اور جلد ہی بھابھی کو چودنے کا موقع ملنے والا ہے.
میں بولا ٹھیک ہے، آپ کو پڑھنا ہے تو پڑھ لو لیکن پڑھنے کے بعد مجھے کچھ نہیں بولنا کہ اتنی گندی کتاب پڑھتے ہو کرکے یا کچھ!
بھابھی بولی ٹھیک ہے، نہیں بولوگي !! اب جاؤ اور مجھے پڑھنے دو، رات کو نو بجے آنا، میں تمہیں تمہاری کتاب واپس کر دوں گی!
اور میں ان کے یہاں سے چلا آیا.
رات کو کھانا کھانے کے بعد ٹھیک 9 بجے میں بھابھی کے یہاں پھر سے گیا!
بھابھی ابھی کچھ زیادہ ہی سج سںور کے میری ہی راہ دیکھ رہی تھی!
میں نے بھابھی سے اپنی کتاب مانگی تو بھابھی بولی ہاں دیتی ہوں لیکن یہ کتاب اردو میں ہے اور مجھے کچھ الفاظ سمجھ میں نہیں آئے، وہ سب آپ بتانے ہوں گے، تب ہی میں کتاب واپس کروں گی!
میں بھی یہی چاہ رہا تھا کہ کس طرح بھی کرکے بھابھی کے ساتھ جنسی تعلقات کی باتیں کروں جس سے مجھے ان کو چودنے کا راستہ مل ہی جائے گا.
میں بولا- ٹھیک ہے! پوچھئے جو پوچھنا ہے، ویسے بھی آج بھیا نہیں ہے، جب آپ کو پوچھنے میں شرم نہیں تو مجھے بتانے میں کیا شرم!
بھابھی پہلا سوال پوچھتے ہوئے بولی اس میں ویرے لکھا ہے، وہ کیا ہے؟
میں بولا- بھابھی، یہ مرد کا پانی ہے جس سے بچے پیدا ہوتے ہیں!
بھابھی نے دوسرا سوال پوچھا یہ چوچیاں کیا ہیں؟
میں بولا- چوچیاں جو آپ کے پاس ہیں!
بھابھی بولی کون سی چوچیاں میرے پاس ہے؟
میں بولا- جو آپ کی گردن کے نیچے اور پیٹ کے اوپر ہیں!
بھابھی بولی میں سمجھی نہیں؟ آپ ہاتھ لگا کر بتا سکتے ہو!
میں اسی موقعے کی فراك میں تھا کہ کب بھابھی ناسمجھي والی بات کرے اور اس بہانے سے مجھے بھابھی کو چھونے کا موقع ملے کیونکہ ابھی تک میرا لںڈ یہ سب باتیں کرتے کرتے مکمل کھڑا ہو گیا تھا!
بھابھی نے اپنی ساڑی کا پلو اپنے کندھے سے نیچے کر دیا جس سے ان دونوں اروج بلاج کے اندر سے بڑے ہی سخت دکھ رہے تھے، شاید ان کی برا تگهونے کی وجہ سے ان کی چوچیاں بلاج کے اوپر سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی، دونوں چوچو کے درمیان میں پوری کھائی نظر آ رہی تھی!
بھابھی کے چھاتی دیکھتے ہی میرا دھیان ان کی چوچیوں پر ٹک گیا. اتنے میں بھابھی نے چوٹکی بجائی اور بولی وہ مسٹر آپ جلدی بتائیے، نہیں تو آپ کی کتاب آج ملنے والی نہیں!
میں اندر ہی اندر خوش ہو گیا کہ آج تو بھابھی کی چوت مل ہی گئی سمجھ لو!
میں نے ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کرتے ہوئے اٹھا اور ان کی پیٹھ کے پیچھے سے دونوں چوچے اپنے ہاتھوں میں لے کر ان کے گردن کو چوم کر بولا ان کو چوچیاں بولتے ہیں بھابھی!
اور میں وہاں سے اٹھ گیا.
صحیح میں دیکھا جائے تو بھابھی ہی مجھے جان بوجھ کر خود کی چدائی کرنے کے لئے اکسا رہی تھی.
بھابھی بھی اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور اپنا بلاج کھولنے لگی لیکن بلاج کے ہوک پیچھے ہونے کی وجہ ان سے بلاج کھل نہیں رہا تھا!
میں بولا- بھابھی آپ یہ کیا کر رہی ہیں؟ آپ بلاج کیوں نکال رہی ہیں؟
بھابھی بولی مجھے آپ سے ایک اور سوال پوچھنا ہے جس کے لئے مجھے اپنا بلاج کھولنا پڑے گا! آپ ذرا اس کو کھول دیجیے میرا ہاتھ نہیں پہنچ رہا ہے!
میں بھی یہی چاہتا تھا، میں نے ان کے بلاج کے تمام ہوک کھول دئے اور ان کا بلاج اتار دیا. اب ان کی چوچیوں پر صرف کالی برا بچی ہوئی تھی.
بھابھی بولی ارے برا کو کیوں چھوڑا؟ اس کے بھی ہوک کھول دو!
میں نے ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کرتے ہوئے ان کی برا کے ہوک کھول دیے. اب تک میرا لںڈ میرے برمڈے کے اوپر سے مکمل کسا دکھ رہا تھا. برا کا ہوک کھولتے وقت میں نے اپنا لںڈ بھابھی کے گاںڈ سے چپکا کر رکھا تھا اور آہستہ آہستہ لںڈ سے گاںڈ کو دھکے بھی مار رہا تھا!
بھابھی کو یہ محسوس ہو رہا تھا لیکن وہ جان بوجھ کر کچھ بھی بول نہیں رہی تھی!
بھابھی نے اپنی برا اپنے ہاتھوں سے الگ کر دی اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے نپل کو پکڑوا دیا اور پوچھنے لگی- اس کو کیا بولتے؟
میں بولا- بھابھی اسے چچك بولتے ہیں!
اور میں نے چچك کو اپنے اںگلیوں سے مروڑكر چھوڑ دیا.
بھابھی بولی پلیج ایسے ہی کرتے رہو نا! اچھا لگتا ہے!
بس اور کیا میری تمنا اب پوری ہونے والی تھی! میں بھابھی کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور ان کی چوچیاں اور چچك دبانے لگا، ساتھ ساتھ میں گردن کو بھی چوم رہا تھا.
اب بھابھی کو مکمل طور پر گرم ہو گئی تھی انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی ساڑی اتار دی اور پیٹیکوٹ کا ناڑا بھی چھوڑ دیا اور اپنے پیروں کو اوپر اٹھا کر پیٹیکوٹ کو ایک طرف پھینک دیا.
اب میرا ہاتھ انکی چوچیوں کو مسلتا ہوا بیچ بیچ میں ان کی چوت پر بھی آ رہا تھا، اںگلیوں سے انکی چوت کی خلیج کو رگڑ رہا تھا!
پیچھے سے لںڈ شیف گاںڈ کی کھائی میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے.
بھابھی مکمل طور پر ہوس میں ملوث ہو چکی تھی، انہوں نے اپنا ہاتھ پیچھے لے کر میرے لںڈ کو مروڑنا شروع کر دیا تھا، ان کی سانسیں بڑھ گئی تھی!
اگلے ہی پل میں نے ان کو اپنی طرف گھما دیا اور ان کی چوچیوں کو دباتے ہوئے چچك اپنے منہ میں بھر کر چوسنا شروع کر دیا. وہ بھی میرا برمودا اتارنے کی کوشش کرنے لگی.
اب وو میرے ہونٹوں کو چھو کے لئے بیتاب ہو رہی تھی تو میں نے اپنے ہاتھوں سے اس کی گردن کو پکڑ کے ہونٹوں کو جم کر چومنے لگا. وہ بھی اپنی زبان میرے منہ میں ڈالنے لگی.
اب تک ہم دونوں بھی مکمل طور پر چدائی کے لیے تیار ہو گئے تھے.
15 منٹ کے بعد میں نے بھابھی کو پلنگ پر لٹا دیا اور اپنا برمودا اور تنوں اتار کر اپنے لںڈ کو ان کے منہ کے پاس پہنچا دیا.
بھابھی نے فورا اسے پکڑ کر اپنے منہ میں بھر لیا اور میرے 6 "لمبے اور 2" موٹے لںڈ کو چوسنے لگی. میں نے بھی بھابھی کے منہ کے اندر آگے پیچھے کر رہا تھا اور ساتھ میں ان کی چوچیوں اور چوت پر ہاتھ گھما رہا تھا.
اب تھوڑے دیر کے لئے میں نے بھابھی کو روکا اور ان کی چڈی اتار دی.
واہ ... کیا چوت تھی بھابھی کی! ایکدم نرم سی، جیسے ابھی تک مہر ہی نہیں ٹوٹی ہو.
لیکن بڑی لمبی لمبی جھاٹے تھی! میں نے اپنی ایک انگلی ان کی چوت کے دروازے پر رکھ دی اور اسے اندر ڈال دياچوت مکمل طور پر گیلی ہونے کی وجہ انگلی جانے میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی پر بھابھی بڑا مجا آیا.
بھابھی بولی انگلیاں کیوں اپنا لںڈ شیف ڈالو نا! اب برداشت نہیں ہو رہا ہے!
میں نے اپنے انگلی کی سپیڈ بڑھا دی جس سے بھابھی مکمل طور پر چدائی کا لطف لے رہی تھی اور اپنی گاںڈ کو اٹھا-اٹھا کر انگلیوں سے اپنی چوت کو چدا رہی تھی اور دونوں ہاتھوں سے اپنی چوچیاں دبا رہی تھی.
اب میرا لںڈ بھی چوت میں جانے کے لئے بےقرار ہو رہا تھا، میں نے اپنی انگلی نکال لی اور پلنگ پر چڑھ کر بھابھی کے دونوں پیروں کو اپنے کندھے پر لے لیا اور پورے جسم کو ان کے جسم پر ڈال دیا. جس سے میرے ہاتھ انکی چوچیوں پر اور ہونٹ ان کو ہونٹوں پر آ رہے تھے.
میں نے اپنے لںڈ کو ان کی چوت کے منہ پر رکھا اور ایک زور دار جھٹکا مارتے ہوئے پورا لںڈ چوت میں گھسیڑ دیا.
بھابھی کے منہ سے ایک زور دار آواز نكلي- ووهه ماں ... پھٹ گئی ... درد ہو رہا ہے!
اب میں دھیرے دھیرے اپنا لںڈ چوت میں اندر-باہر کر رہا تھا! بھابھی بھی بڑے پیار سے جنسی لطف لے رہی! تھوڑی ہی دیر بعد میں نے اپنی سپیڈ بڑھا دی تو اس کے ساتھ ساتھ بھابھی کی سسکاریاں بھی تیز ہو گئی- پلیج جور سے چودو مجھے .. میرا شوہر نکما ہے سالا ... پیاس بجھا دو میری .. پلیج ایسے ہی ہر ہفتہ اور اتوار کو چودت رہنا!
میں اب پورے جوش میں لںڈ کو بھابھی کے چوت میں ٹھوک رہا تھا! قریب 20 منٹ کے بعد بھابھی اور میں دونوں جھڑ گئے، میرا پورا ویرے بھابھی کی چوت میں چلا گیا اور قریب 5 منٹ تک ہم ایسے ہی لیٹے رہے!
اس رات میں نے بھابھی کو 2 بار اور چودا!
اگلے دن میں نے بھابھی کی جھاٹے بھی صاف کر دی اؤر چوت چاٹكر بھابھی کا پانی پیا اور رات بھر بھابھی کو تین بار چودا!
ایسا قریب 6 ماہ تک چلا، بھابھی حاملہ ہو گئی تھی! میں نے میرے دوستوں کو بھی بھابھی کو پٹانے کے لئے بولا اور میرے تین دوستوں نے بھی لائن بھابھی کی جم کر چدائی کی!
کبھی کبھی تو میں اور میرا چچےرا بھائی دونوں بھی رات رات بھابھی کو چودتے تھے.
لیکن کچھ دنوں بعد بھیا کو بھابھی کی چدائی کے بارے پتہ چل گیا اور وہ ہمارا گاؤں چھوڑ کر دوسرے گاؤں چلے گئے!
میں دوپہر کو اس گاؤں میں جا کر بھی بھابھی کو چودتا رہا اور کچھ ہی دن بعد اسی گاؤں کے لوگوں نے بھی بھابھی کی چدائی کی.
ریکھا بھابھی کی ہوس اتنی بڑھ گئی تھی کہ وہ اب اپنے شوہر کا بھی لحاظ نہیں کرتی تھی جس کی وجہ سے ان میں آئے دن جھگڑے ہوتے تھے!
ایک دن تو ایسا آ گیا کہ بھیا اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر اپنی لڑکی کو اور چھوٹے لڑکے کو لے کر اپنے گاؤں چلے گئے اور بھابھی اپنے مایکے چلی گئی.
لیکن وہاں پر بھی وہ رہ نہیں پائی اور آخر ہوس کی وجہ سے جنسی کا دھندہ کرنے لگی.
اور آخر میں ہی بھابھی کی ہوس پرسکون ہوئی!



دوسری کہانی
میں تو ایک دولتمند اور ایک مصروف تاجر کی پیسے والے باپ کی بیٹی تھی. میرے پاس خود کی بہت سرمایہ تھی. لیکن میرے شوہر انیرودھ ایک استاد تھے، ایک عام شخص تھے. رات کے دس بجے تک وہ ٹیوشن کرتے تھے. ہمارا محبت شادی تھا، خود کی ضد تھی سو والد نے ہار کر شادی کروا دیا تھا. ان کا روزانہ پروگرام بہت ہی ٹائیٹ تھا، ان کے پاس کسی بھی کام کے لیے وقت نہیں تھا. اکثر رات کو ٹیوشن کے بعد تھک کر وہ تین چار پےگ دارو پی کر گہری نیند میں سو جایا کرتے تھے. میں نے بھی ان کی مصروفیت سمجھتی تھی.
جولائی کا مہینہ تھا. انہی دنوں ان کا بھائی راجو بی اے کر کے ہمارے پاس ہی آ گیا تھا. میری چدائی میں میرے شوہر اب زیادہ دلچسپی نہیں دکھایا کرتے تھے. پر جوانی کا تقاضہ ہے چدنا ... بغیر چدائی کے میری مدمست جوانی تڑپنے لگی تھی. پھر میری جیسی عادت تھی کہ مجھے آرام زیادہ پسند تھا. كھاليپن میں میرے دماغ میں بس سیکس کی باتیں ہی زیادہ آیا کرتی تھی. پیسہ زیادہ ہونا بھی ايياشي کی ایک وجہ ہوتا ہے. زیادہ تر تو میری نظر تو اب ہر کسی لڑکے کے پتلون کے اندر لنڈ تلاشتي رہتی تھی. راجو کے یہاں آنے کے بعد میری ايياش نظریں راجو کی طرف اٹھنے لگی تھی.
وہ ایک مست بھرپور جوان لڑکا تھا. جب وہ رات کو پجاما پہنتا تھا تو اس کے مست چوتڑ کی گولائیاں میرے دل کو چھو جاتی تھی. اسکے لنڈ کے ابھار کی جھلک میرے من میں ہوس کا غبار بھر دیتی تھی. اسے دیکھ کر میں من مسوس کر رہ جاتی تھی. جانے کب وہ دن آئے گا جب میری من کی مراد پوری ہوگی. مجھے پتہ تھا کہ میرے پڑوس کی لڑکی سرتا کو وہ من ہی من چاہتا تھا. وہ سرتا ہی میرا ذریعہ بنی.
میرے من میں سرتا اور راجو کو ملوانے کی بات سمجھ میں آنے لگی.
"راجو، سرتا تجھے پوچھ رہی تھی، کیا بات ہے؟"
"سچ بھابھی، وہ مجھے پوچھ رہی تھی، کیا کہہ رہی تھی؟"
"آمدنی ہیلو، بڑی تڑپ اٹھ رہی ہے، ملے گا اس سے؟"
"بس ایک بار ملوا دو نا، پھر جو آپ كهےگي مے آپ کیلئے کروں گا!"
"سوچ لے، جو مے كهوگي، پھر کرنا ہی پڑے گا ..." مے ہنسنے لگی.
پھر میں نے راجو کو پٹانے کے لیے اسے میں نے سرتا سے ملوا دیا. اس کے گھر آتے ہی میں نے سرتا سے بھی یہی بات کہی تو وہ شرما گئی. سرتا ایک تیز قسم کی چالو ٹائپ کی لڑکی تھی. اس کے کتنے ہی عاشق تھے، میری طرح وہ بھی جانے کتنی بار اب تک چد چکی تھی. سرتا کے ہی کہنے پر میں نے اس کے اور راجو کو میرے سوا والے کمرے میں باتیں کرنے کا حکم دے دی. مجھے پتہ تھا کہ وہ باتیں کیا کریں گے، بلکہ اندر گھستے ہی چدائی کے کوشش میں لگ جائیں گے.
... اور ہوا بھی یہی! میں چپکے سے انہیں دیکھتی رہی. وہ دونوں بھاواوےش میں ایک دوسرے سے لپٹ گئے تھے. پھر کچھ ہی دیر میں چوما چاٹی کا دور چل پڑا تھا. سرتا کے چھاتی کے مقام پر راجو نے قبضہ کر لیا تھا اور کپڑے کے اوپر سے ہی اس کے ابھاروں کو مسل رہا تھا. سرتا کے ہاتھ بھی راجو کے لنڈ کو پکڑ چکے تھے.
مجھے لگا کہ اس کے آگے تو سرتا چد گی، اور ایک بار راجو نے اسے چود دیا تو ان کے راستے کھل جائیں گے پھر تو وہ دونوں کہیں بھی چدائی کر لیں گے.
میں نے دروازے پر دستک دے کر انہیں روک دیا.
سرتا نے دروازہ کھولا، اس کے ہوس سے بھرے گلابی آنکھوں کے ڈورے سب کچھ بیان کر رہے تھے.
"مل لیے اب بس، اب کل ملنا!"
سرتا کے نین جھک گئے. اس نے اپنے کپڑے ٹھیک ریٹویٹ بالوں کو سیٹ کیا اور باہر آ گئی.
"راجو، اب باہر بھی آ جاؤ!"
"بھابھی ابھی نہیں، انتظار تو!"
سرتا نے مجھے شرما کر دیکھا اور جلدی سے باہر نکل گئی. میں راجو کو دیکھنے کے لئے کمرے میں گھس گئی. اسکا لنڈ تننايا ہوا تھا. مجھے دیکھتے ہی وہ جلدی سے گھوم گیا.
"کیا چھپا رہے ہو راجو؟ مجھے بھی تو بتاؤ!"
"کچھ نہیں بھابھی، آپ دیکھیں ..."
"او ه ... پہلے بتاو تو ..." میں نے جان کر کے اس کے سامنے آ گئی.
"ائی ماں ... راجو یے کیا !!!" اور میں زور سے ہںس پڑی.
اس نے شرم کے مارے اپنے دونوں ہاتھ لنڈ کے آگے رکھ دیئے اور اسے چھپانے کی کوشش کرنے لگا.
"مجا آیا نہ سرتا کے ساتھ ... اے! کیا کیا کیا ... بتا نا؟"
"کچھ نہیں کیا بھابھی ..."
"وہ تو تمھارے انداز سے پتہ چل چل رہا ہے کہ کیا کیا ... اسے مجا آیا؟"
اس نے اچانک مجھے کندھوں سے پکڑ لیا اور اپنی طرف کھینچ لیا.
"ارے یہ کیا کر رہا ہے ... چھوڑ دے ... دیکھ لگ جائے گی."
اس کی سانسیں تیز ہو گئی تھی، اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا. اس نے مجھے کس کر جکڑ لیا. مجھے اس کا براہ راست حملہ کرنا بہت اچھا لگا.
"بس بھابھی، کچھ نہ بولو ... مجھے کرنے دو ..." وو تقریبا هافتا ہوا بولا.
مجھے اور کیا چاہیئے تھا! میں اسکی باہوں میں نہ نہ کرتے ہوئے سمانے لگی. میری كلپنايے احساس سی ہوتی لگی. اب تو اس کے کڑک لنڈ کا سپرش بھی میری چوت کے ارد گرد ہونے لگا تھا. تبھی اس کے ہاتھوں نے میرے سینے کو دبا دیا.
میرے مکھ سے آہ سی نکل گئی. میرے من میں اسکا لنڈ روکنے کی خواہش ہونے لگی. تبھی وہ جھٹکے سے الگ ہو گیا.
"اوہ بھابھی ... میں یہ کیا کرنے لگا تھا ... مجھے معاف کر دینا!"
"ایک تو شرارت کی ... پھر معافی ... بڑے بھولے بنتے ہو ..." میں نے كاتر لہجے میں طنز کیا.
وہ سر جھکا کر ہنس دیا. اوہ ... ہنسا تو فسا! اب کوئی نہیں روک سکتا مجھے ... سمجھو اس مستانے لنڈ کا مزہ مجھے ملنے ہی والا ہے.
سرتا کو چودنے کی امید میں میں نے اسے فسا لیا تھا، اب تو سرتا گئی بھاڑ میں! اتارنا fucking کو گھر میں گھسنے ہی نہیں دوں گی.
شام کو پتدےو جب دارو پی کر كھرراٹے بھرنے لگے. باہر موسم بہت سهاونا ہو رہا تھا، بادل گرج رہے تھے، لگتا تھا کہ تیز برسات ہونے والی ہے.
ٹھنڈی ہوا چلنے لگی تھی. رات بھی گہرا گئی تھی، من کا میور کچھ کرنے کو بے تاب ہو رہا تھا. تو میرے دل میں شہوت کا شیطان بلوان ہونے لگا. میں نے شوہر کو جھنجھوڑ کر رکھ کے اٹھانے کی کوشش کی پر وہ تو جیسے دارو کی مدهوشي میں کسی دوسری دنیا میں کھو چکے تھے. میں نے جلدی سے ایک دری لی اور چھلاگے مارتی ہوئی چھت پر آ گئی.
افف، کتنی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی. تبھی راجو نے مجھے آواز لگائی. میں نے نیچے جھانک کر دیکھا پھر کہا- اوپر آ جاؤ مست موسم ہے.
وہ پجاما پہنے ہوئے تھا. وہ بھی چھت پر آ گیا. هوايے تیز چلنے لگی تھی. مجھے لگا کہ راجو کی نیت مجھے دیکھ کر ڈول رہی ہے. پجامے میں اسکا لنڈ کھڑا ہوا تھا. وہ بار بار اسے مسل رہا تھا. مجھے لگا لوہا گرم ہے اور یہی گرم گرم لوہا میری چوت میں اتر جائے تو اندر کا مال پگھل کر باہر آنے میں تاخیر نہیں کرے گا. وہ مجھے ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہا تھا.
"کیا ہو رہا ہے دیور جی ... کس کی یاد آ رہی ہے؟"
"جی، کوئی نہیں ... میں تو بس ..."
"ہوتا ہے جی، جوانی میں ایسا ہی ہوتا ہے ... سرتا کی یاد آ رہی ہے نا؟"
میں نے اس کے کافی قریب آ گئی اور اس کی آستین پکڑ لی. تبھی زور کی بجلی تڑكي.
میں جان کر سہم کر اس سے جا چپکی.
"ہاے رے، کتنی زور سے بجلی چمک رہی ہے."
اس نے بھی موقع دیکھا اور مجھے زور سے جکڑ لیا. میں نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا. اس کی آنکھوں میں شہوت کے لال ڈورے ابھرے ہوئے تھے. میں نے اسے اور اتاولا کرنے کے لیے اسے آہستہ سے دور کر دیا.
سرتا کو بلا دوں کیا ...؟
"اوہ بھابھی، اتنی رات کو وہ کس طرح آئے گی."
میں نے چھت پر دری بچھا دی اور اس پر لیٹ گئی- اچھا دن میں اس کے ساتھ کیا کیا کیا تھا. دیکھو صاف صاف بتانا ....
"وہ تو بھابھی نے اسے ...!"
"چوم لیا تھا ... ہے نا ... پھر اس کے سینے پر آپ کی نظر پڑی ..."
تبھی برسات کی ہلکی ہلکی بوندیں گرنے لگی. میں تو محض پیٹیکوٹ اور بلاوج میں تھی، بھیگنے سی لگی.
"آپ کو کیسے پتہ ... ضرور آپ نے چھپ کر دیکھا تھا ..."
"اوه ... جوانی میں تو یہی ہوتا ہے نا ..."
برسات سست ہونے لگی تھی. میں بھیگنے لگی تھی.
"بھابھی اٹھو ... نیچے چلتے ہیں."
تبھی بجلی زور کی چمکی اور اچانک تیز برسات شروع ہو گئی. میں نے اپنے ہاتھ اور پاؤں فیلا دیے.
"دیور جی، تن میں آگ لگی ہوئی ہے ... بدن جل رہا ہے ... برسات اور تیز ہونے دو ..."
میں نے دیور کا ہاتھ زور سے پکڑ لیا. وہ بھی بھيگتا ہوا مجھے دیکھنے لگا. اس نے ایک ہاتھ سے اچانک میرے گال سہلا دیے. جانے کیا ہوا کہ اس کے ہونٹ مجھ پر جھکتے گئے ... میری آنکھیں بند ہوتی گئی. ہم دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے پر کسنے لگے. اسکے لنڈ کا ابھار اب میری چوت پر گڑنے لگا تھا. اس کے ہاتھ میرے چوتڑوں پر آ گئے تھے اور گولو کو دھیرے دھیرے سہلانے لگے تھے.
پانی سے تر بےسدھ ہوکر میں تڑپ اٹھی.
"دیور جی، بس اب چھوڑ دو!"
"بھابھی، ایسا نہ کہو ... میرے دل میں بھی آگ لگ گئی ہے."
"دیکھ نہ کر ایسا! میں تجھے سرتا سے بھی زوردار لڑکیوں سے دوستی کرا دوں گی، ان کے ساتھ تو چاہے جو کرنا، پر اب ہٹ جا."
"پر بھابھی آپ جیسی کہاں سے لاؤں گا!"
اس کی باتیں مجھے زخمی ریٹویٹ دے رہی تھی. میری یون بھی اب چدنے کے کھل چکی تھی. مجھے احساس ہو رہا تھا کہ اس میں سے اب پانی نکلنے لگا ہے.
"راجو، پلیج، اچھا اپنی آنکھوں بند کر لے اور دری پر لیٹ جا!" میرے من میں چدنے کی خواہش بلوتی ہونے لگی. اس نے میری بات جھٹ سے مان لی اور وہ دری پر سیدھا لیٹ گیا. میں نے اس کے کھڑے لنڈ کو چڈی کے اوپر سے نهارا اور اس کی چڈی آہستہ سے نیچے اتار دی. اس کا تننايا ہوا لنڈ جھومتا ہوا میری آنکھوں کے سامنے لہرا گیا. اس کا ادھكھلا لال سپارا مجھے زخمی کر رہا تھا.
"بھابھی، کیا کر رہی ہو، دیکھو پھر مجھ سے رہا نہیں جائے گی."
برسات زور پکڑ چکی تھی، بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے میرا دل بھی لرجنے لگا تھا.
"تو کیا کر لے گا، دھن تو ذرا ...؟"
"دیکھو بھابھی، بس کرو ورنہ میں آپ کو چود ..."
"ہاے رے! جی ہاں جی ہاں، بول دے نا ... تجھے میری قسم ... کیا کہہ رہا تھا؟" میں نے اس کا افنتا لنڈ پکڑ لیا. آہ! گرم، کڑک لوہے جیسا! میرا دل مچل اٹھا.
میں نے اپنا پیٹیکوٹ اوپر اٹھا لیا اور اپنی گیلی چوت کو اس ادھكھلے سپارے پر رکھ دیا. میری چوت میں ایک تیز میٹھی سی گدگدی ہوئی اور اسکا لنڈ میری چوت میں سماتا چلا گیا. تبھی دہاڑ کے ساتھ بجلی تڑك اٹھی. ہوا بھی تیز ہو گئی تھی. ساتھ ہی راجو کا صبر بھی ٹوٹ گیا اور اس نے مجھے دبا کر پلٹی مار دی.
اب وو میرے اوپر تھا. اس کا بوجھ میرے جسم پر بڑھتا چلا گیا، اس کا مست لؤڑا میری چوت کو چیرتا ہوا پیندے تک بیٹھ گیا.
میں نے چوت کا اور زور لگا کر اسے جڑ تک گڑا دیا. دونوں کے جسم تڑپ اٹھے.
اس زبردست دھکوں سے میں نہال ہو اٹھی. میرا بدن اس طوفانی رات میں جیسے جل کر آگ ہونے لگا. راجو اپنی آنکھیں بند ریٹویٹ مجھے جھٹکے دے دے کر چودے جا رہا تھا.
تبھی ہوس کی مقدار سے میں جلد ہی انتہائی حد پر پہنچ گئی اور میرے جسم نے اکڑ کر اپنا رج چھوڑ دیا. راجو کی تڑپ بھی جلد ہی حدود کو پار گئی اور اس کے لنڈ نے پانی چھوڑ دیا. ہم دونوں جلد ہی جھڑ گئے تھے.
"دیور جی، چود دیا نہ اس کی بھابھی کو ..."
زور کی برسات اب بھی دونوں کو پاگل ریٹویٹ دے رہی تھی. راجو میرے سے پھر ایک بار اور چپک گیا، پھر جانے کس طرح ایک بار اور اسکا لنڈ کڑک اٹھا اور میرے جسم کو پھر سے بھےدتا ہوا چوت میں اتر گیا. میں پھر سے ایک بار اور چدنے لگی. پھر جیسے برسات تھم سی گئی. ہم دونوں نڈھال سے پاس پاس میں لڑھک گئے.
پھر میں اٹھی اور راجو کو بھی اٹھایا. ہم دونوں جلدی جلدی نیچے آئے اور نل کے نیچے کھڑے ہو کر غسل کر لیا. پھر میں نے اپنے کپڑے سمهالے اور بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی آئی. میں شوہر کی بغل میں جا کر سو گئی اور اسے توجہ سے دیکھنے لگی. میرا دھیان دھیرے دھیرے راجو پر آ گیا اور چدائی کے بارے میں سوچنے لگی.
صبح میری نیند ذرا دیر سے کھلی. مجھے رات کا واقعہ خواب جیسی لگی. اف! کیسی طوفانی رات تھی، کیا میں واقعی چدی تھی. پر میرا بھرم جلد ہی ٹوٹ گیا. مجھے یقین ہو گیا تھا کہ رات کو میں واقعی میں چدی تھی. راجو بھی آج سر جھكايے شرماتا ہوا مجھ چھپنے کی کوشش کر رہا تھا.
مجھے اب معلوم ہو گیا تھا کہ راجو اب سرتا کو نہیں بلکہ مجھے پسند کرنے لگا تھا. وہ شام کو اپنے گاؤں جا رہی تھی پر راجو اسے چھوڑنے نہیں گیا تھا

دوسری کہانی

میں جوراور سنگھ، راجستھان سے ہوں ... گاؤں میں برسات نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے یہاں سے بہت سے جوان فوج میں چلے گئے تھے. میری پوسٹنگ ان دنوں راجستھان کے ریگستانی علاقے میں تھی. بارڈر پر دہشت گردوں اور اسمگلروں سے نمٹنے کے لیے ہماری ایک نہ ایک ٹولی ہمیشہ بارڈر کی گشت پر رہتی تھی. بارڈر پر تب بھی چھٹپٹ چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے ... وہاں کے لوگ کہنے کو جانوروں چرايا کرتے تھے جانے وہ لوگ وہاں کیوں رہتے تھے؟ کیا وہ اتكيو کی مدد کرتے تھے؟
ایک رات گشت کے دوران ... دور سے ہم نے دیکھا کہ ایک مقام پر آگ زنی ہو رہی تھی. میں اس وقت سب سے تیز دوڑنے والا اور بلشٹھ جوانوں میں سے ایک تھا. لیڈر نے مجھے اشارہ کیا. میں ہوا کی طرف دوڑتا ہوا منٹ میں وہاں پہنچ گیا. ایک دو خواتین کی چیخوں کی آواجے آ رہی تھی. میں نے دیکھ کہ ایک گھر شعلوں سے گھرا ہوا تھا ... ایک آواز تو وہیں سے آ رہی تھی. میں نے ہمت باندھی اور اس جلتی ہوئی کٹیا میں گھس گیا ...
اندر دیکھا کہ ایک کونے میں ایک لڑکی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر پٹک رکھا تھا. میں نے فورا اسے کھولا اور اسے کندھے پر لادا اور پھر سے سینڈی جنگل میں کود پڑا. جھاڑیوں میں سے ہوتے ہوئے میں اس لڑکی کو لیے ہوئے چلتا رہا ... پھر تھک کر ریت کے ایک گڈے میں گر پڑا اور هافنے لگا.
تبھی اس لڑکی کی ہنسی سنائی دی.
"ارے، تھک گئے ہیں؟ مجھے کیوں اٹھائے حصہ رہے ہو؟ میں کوئی لنگڑی لولي تھوڑے ہی ہوں ... بھلی چگي ہوں ... فوجی تو بس مزے ..."
"چپ هرامجادي ... سالی کو گولی مار دوں گا ... ایک تو بچا کر لایا!"
"میرا مطلب تھا کہ مجھے بھی چلنا آتا ہے ... کب تک مجھے اٹھا کر چلتے ... تم تیز حصہ لیتی ہوں!
مجھے بھی ہنسی آ گئی ... پر اتنا وقت ہی کہاں تھا. بس، میرا تو ایک ہی مقصد تھا. اسے محفوظ جگہ پر لے جانا. کچھ ہی وقت بعد میں وہ اس کے ساتھ پاس والے گاؤں میں تھے. وہاں کے سربراہ نے ہمیں باہر ایک جھوپڑينما گھر میں ٹھہرا دیا. رات کے تین بج رہے تھے. میں باہر آ کر ایک ریت کے ٹیلے پر بیٹھ گیا. تبھی وہ لڑکی بھی آ گئی.
میرا نام كھےرونسسا ہے ...
میں جوراور سنگھ ... فوجی ...
میں نے اسے اب توجہ سے دیکھا ... وہ ایک گوری لڑکی تھی ... پتلی دبلی ... پر تیز طرار ... خوبصورت ... جسم کا لچک ... جیسے ربڑ کی گڑیا ہو ... اس کے چھاتی ٹھیک ٹھاک تھے ... بہت بڑے نہیں تھے ... پر اس کے نتمب ... اچھی گولائی لیے ہوئے تھے.
"ہاے میری سلونی ...!"
"کیا کہا؟"
"سلونی ... میری بیوی ... تمہاری ہی طرح ..."
"بہت محبت کرتے ہو اسے ...!"
"بہت ... بہت ... اتنا کہ ... صرف چھ ماہ سے دور ہوں ... اس کی یاد تڑپا جاتی ہے." میں کہیں دور یادوں میں کھوتا ہوا بول رہا تھا.
وو میرے پاس آ کر بیٹھ گئی. میں ابھی ایک پٹھاني کرتے میں تھا ... كھےرو بھی پٹھاني کرتے میں تھی. جو ہمیں گاؤں کے مکھیا نے دیا تھا.
"تم کیا پہلوان ہو؟"
"نہیں، پر میں فوج میں اپنی مرضی سے پہلوانی کرتا ہوں ... دوڑ کی مشق کرتا ہوں ... یہ میرے بہت کام آتا ہے."
وہ میرے اور قریب آ گئی اور اپنی پیٹھ میری چھاتی سے لگا دی اور آرام سے بیٹھ گئی. مجھے بہت سکون سا ملا. ایک ناری کے تن کو چھو ... بہت دل کو بھایا.
"میں ایسے بیٹھ جاؤں ... بڑا اچھا لگ رہا ہے." كھےرو نے مجھے مسکرا کر دیکھا.
"سچ ... كھےرو ... تو تو دل کو بھا گئی."
"اللہ رے ... آپ تو بڑے گدگدے سے ہے ... آپ کی گودی میں بیٹھ جاؤں ...؟" اس کی آنکھوں میں ایک للاي سی تھی.
مجھے بڑی تیز سنسنی سی لگی. وہ اپنا کرتہ اوپر کرکے ٹھیک سے میری گودی میں بیٹھ گئی. میرا پورش آہستہ آہستہ جاگنے لگا. ایک لڑکی میری گودی میں آکر بیٹھ جائے تو لنڈ کا مشغول ہونا فطری ہی ہے.
"ذرا سا اوپر اٹھو تو ... میرا کرتہ فںس رہا ہے ... بلند کر لوں ..." میں نے اس سے کہا.
اس نے اپنی گانڈ دھیرے سے اوپر کر لی، میں نے کرتہ اوپر کھینچ لیا. میری طرح اس نے بھی کرتے کے نیچے کچھ نہیں پہن رکھا تھا. وہ براہ راست ہی میرے لنڈ پر بیٹھ گئی.
"ارے ... کمال ہے تو بھی ... نیچے کچھ پہنا نہیں؟"
ترچھی نظر سے اس نے مجھے دیکھا، میں تو زخمی سا ہو گیا.
"كھےرو ... بیٹھی رہ ... اچھا لگے ہے ..."
میرا لنڈ اب سخت ہونے لگا تھا. اس نے میرے گالوں کو سہلا کر پیار سے چپت ماري- جانتے ہو جوراور ... آپ مجھے اچھے لگنے لگے ہو ...
"تو بھی میرے دل کو بھانے لگی ہے ..."
میرا ایک ہاتھ پکڑ کر اس نے چوما اور اسے اپنے نرم سے ابھرے ہوئے چھاتی پر رکھ دیا. افف! گرم گرم سے ... گداج اور مانسل ... میں نے ہلکے سے اسے دبا دیے.
"ایسے نہیں جی ... جرا جور سے ... دبايے ... اهههه"
میرا لنڈ اب مکمل طور پر سخت ہو کر كھےرو کی چوت کو برابر کریز رہا تھا. اب تو وہ گیلے بھی ہو چکا تھا. كھےرو نے اپنی ٹانگوں کو اور کھول سا لیا تھا ... وہ میری چھاتی سے لپٹ گئی تھی.
اسسس ... اللہ ... اس نے میرا كرتا زور سے تھام لیا. میرا سپارا اسکی چوت میں ہولے سے داخل کر گیا تھا. میں نے اسے زور سے جکڑ لیا تھا. یہ کسی طرح کا کوئی آسن نہیں تھا ... بس ہم دونوں آڑے ٹےڈھے سے لپٹے ہوئے مزہ لے رہے تھے.
تبھی اس نے بھی اپنے آپ کو قائم کیا اور میں نے بھی اس کے اور لپٹا لیا. اس نیم باز آنکھیں مجھے ہی نہار رہی تھی. لنڈ گھستا ہی چلا جا رہا تھا.
"ابببب ... اهههه ... میرے راجا ... یہ کیسا لگ رہا ہے ... امی جان ... اهههه ..."
"میری كھےرو ... میری جان ... اههههه ... کتنا لطف آ رہا ہے .."
میرا لنڈ مکمل اندر اندر بیٹھ گیا تھا. وہ تو جیسے نیم باز آنکھوں سے خواب دیکھ رہی تھی ... خوشی کی انوبھوتيا بٹور رہی تھی. پھر اس نے جیسے نیچے سے ہلنا شروع کیا ... جیسے رگڑنا ... میٹھی میٹھی سی جلن ... گدگدی ... ایک کسک ... بس ایسے ہی هلتے هلتے ہم خوشی کے دور سے گزرنے لگے ... اس کے تھرتھراتے ہونٹوں اب میرے ہوںٹھو سے دب چکے تھے ... اس کے نرم سے سخت اروج ... مسئلے جا رہے تھے ... پھر جیسے ایک جوار سا آیا ... ہم دونوں اس میں بہہ نکلے ....
جھڑنے کے بعد بھی ہم دونوں ویسے ہی وہیں پر گودی میں خوشی لیتے رہے. لنڈ جھڑ کر كبكا باہر پھسل کر نکل چکا تھا. پر کچھ ہی دیر میں لنڈ تو پھر سے سخت ہو گیا. اس بار كھےرو نے اپنی دل کی کر ہی کر ہی لی.
وہ آہستہ سے میری گودی سے اٹھی اور آگے جھک سی گئی ... اس گول گول مانسل چوتڑ کھل کر چاندنی میں چمک اٹھے. میرا لنڈ پھر سے زور مارنے لگا.
میں نے فورا نشانہ شفل اور اس کی نرم گانڈ میں لنڈ کا سپاڑا گھسا دیا.
وہ خوشی سے جھوم اٹھی.
میں نے اپنا لنڈ دھیرے دھیرے اندر باہر کرتے ہوئے اسے مکمل گھسیڑ دیا. اس نے اپنا سر جھکا کر ریت کے غبار پر رکھ دیا. میرا لمبوترا لنڈ اسکی گانڈ میں مستی سے چلنے لگا تھا.
بہت دیر تک اس کی نرم گانڈ کو چودا تھا میں نے ... پھر میرا انزال ہو گیا. اس کی چوت نے بھی اس دوران دو بار پانی چھوڑا تھا. پھر کرتہ ٹھیک کرکے ہم دونو ہی گہری نیند میں سو گئے تھے. سویرے ہمیں اسی سربراہ نے جگایا ... ہم نے چائے وغیرہ پی ... تبھی ہماری جیپ وہاں آ گئی تھی.
ہیڈکوارٹر پر جاکر كھےرو نے بتایا کہ بارڈر سے آنے والے اتكيو کو مار کر ان کے ہتھیار وہ لوگ چھپا لیتے تھے ... اس کی نشان دےهي پر بھاری مقدار میں ہتھیار کی برآمدگی کی گئی. اب میرے دماغ میں بارڈر پر رہنے والوں کے لیے دشمنی کا نہیں احترام کا جذبہ آ گیا تھا. كھےرو طرف کروائی گئی اس برآمدگی کیلئے سراہا بھی گیا تھا


تیسری کہانی
ہیلو میرا نام شرت ہے، میری عمر 18 سال ہے، ویسے تو کالج میں میرا نام پرجنالي سنگھ ہے. میں لکھنؤ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتی ہوں. میرے خاندان میں پاپا دلیپ عمر 56 سال، ممی اوما 38 سال، بھائی نیرج 20 سال اور میں ایک کرائے کے مکان میں رہتے ہیں، وہیں اسی مکان میں دوسرے کمرے میں ایک لڑکا رانو عمر 26 سال رہتا ہے، ہم اسے چاچا کہتے ہیں. میرے پاپا بھوت براہ راست یا یوں کہیں کہ بیوکوف تھے، دن بھر پوجاپاٹھ میں لگے رہتے تھے، ایک جوان عورت کو کیا چاہئے، شاید انہیں معلوم ہی نہیں تھا.
میری ممی جوان، خوبصورت ایک سڈول جسم کی مالکن ہیں، ان کے چھاتی 34 کے ہے پر وو 32 نمبر کی برا پہنتی ہیں، کمر اور چوتڑوں کا سائز 34-36 ہے. میری ممی بہت هسمكھ ہیں.
کچھ دن پہلے کی بات ہے، جب پاپا بینک چلے جاتے، تب چچا کے گھر پر آتے اور ٹی وی دیکھتے تھے. ممی ان کیلئے چائے بنا کر لاتی تھی. اس وقت ممی زیادہ تر ساڑی اور بلاج میں چچا کے پاس جاتی تھی اور ہمیشہ اپنے بلاج کا اوپر والا بٹن کھلا رکھتی تھی، جس سے ان کے گول گول چوچے ہمیشہ سامنے جھلكتے تھے اور اس پر سیاہ موتیوں کا چھوٹا سا مگلسوتر بہت سیکسی لگتا تھا.
چچا ایک دن ممی سے کہہ رہے تھے- کیا غضب لگ رہی ہو رانی!
اور ممی اس بات پر مسکرا دی.
اس بات سے میں حیران رہ گئی، مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ دونوں کے درمیان کب پیار ہو گیا، چاچا ممی سے کہہ رہے تھے- میں تم سے محبت کرتا ہوں اوما!
ممی بھی چچا سے کہہ رہی تھی 'تم مجھے بہت اچھے لگتے ہو رانو.
ایک دن گھر میں کوئی نہیں تھا سوائے ممی اور میرے! تبھی چچا آئے اور اندر والے کمرے میں جا کر ممی کو باہوں میں لے کر چومنے لگے. میں نے یہ چپ چاپ دیکھ باہر والے کمرے سے کہا- ممی، میں بگل والی اٹي کے پاس جا رہی ہوں، تھوڑی دیر میں آ جاؤں گی.
اتنا کہہ کر میں باہر چلی آئی. پھر کچھ دیر بعد میں نے دبے پاؤں اندر گئی تو دیکھا کہ چچا پورے ننگے تھے اور ان 7 "کے لنڈ کو ممی اپنے ہاتھوں میں لے کر چوس رہی تھی. ایک مرتبہ چچا کا 7" لنڈ دیکھکے میرا بھی دل کیا کہ جا کر اسے چوسو پر ہمت نہیں کی، صرف اپنی چوت میں اںگلی ڈال لی. پهلي بار کسی مرد کا اتنا لمبا اور موٹا لنڈ دیکھا تھا، بچپن میں ایک بار نیرج بھیا کو ننگے دیکھا تھا پر تب وہ فنني تھا، اب بھیا 20 کے ہو گئے ہیں اب کبھی موقع لگا تو ان کے لنڈ کے درشن کروں گی.
آہستہ آہستہ چاچا نے ممی کی ساڑی اتار دی، اب وہ بلاج اور پیٹیکوٹ میں تھی، ان کے 34 انچ کے چوچے چچا خوب زور زور سے سہلا رہے تھے، اور اچانک انہوں ان بدن سے ان بلاج اتار دیا اور ان کے چوچو کو منہ میں لے کر چوسنے لگے.
ممی نے چچا سے کہا اور زور سے چوسو میرے بادشاہ! میری برسوں سے دبی جوانی کی گرمی نکال دو میرے بادشاہ!، شرت کے پاپا تو اب بوڑھے ہو گئے ہیں، 18 سال کی بھری جوانی میں ایک 35 سال کے مرد سے شادی ہو گئی تھی. کئی سال ہو گئے ہیں، گرمی شانت کر دو! چوسو رانو! جمكے چوسو! یہ جوانی کے پہاڑ تمہارے ہیں، چوسو، جمكے چوسو!
چاچا کافی دیر تک ممی کے اروج چوستے رہے، سہلاتے رہے پھر ممی جھکی اور چچا کے لنڈ کو چوسنے لگی اور زور زور سے منہ سے آگے پیچھے کرنے لگی.
چچا بولے- اور زور سے چوس! مجا آ رہا ہے!
ممی بولی ہاں رانو، مجا آ رہا ہے! یار کتنے دنو بعد ایک کنوارا لنڈ چوسنے کو ملا ہے. کتنا مست نمکین سا ذائقہ آ رہا ہے.
یہ بات سن کر میرے دل میں بھی خیال آیا کہ کاش میں بھی اس کا ذائقہ کا مجا لے سکتی!
پھر میں نے طے کیا کہ ایک دن میں نے بھی چچا کے لنڈ کا ذائقہ چكھوگي. 15 سے 20 منٹ تک ممی چچا کا لنڈ چوستی رہی اور اچانک ایک تیز ترراٹ پچکاری چچا کے لنڈ سے نکلی اور چچا نے اسے ممی کے چہرے پر چھون دیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے ممی وہ سفید کریم چٹ کر گئی اور بولی کتنے دنوں بعد كوارے لنڈ کی کریم کھانے کو ملی ہے میرے بادشاہ!
چچا بولے- سالی، ضعیفوں کی کریم کا کیا کرتی تھی؟
ممی نے کہا ضعیفوں کی کریم تو شادی کے بعد شرت اور نیرج کو پیدا کرنے میں لگ گئی اور جب یہ دونوں ہو گئے تو ضعیفوں کا لنڈ کھڑا نہیں ہوتا تھا تو کریم کہاں سے نکلتی.
یہ سن کر میں حیران ہو گئی کہ میرے پیدا ہونے سے اس کریم کا کیا تعلق، پر یہ میں بعد میں سمجھ گئی تھی.
پھر چچا کا ہاتھ ممی کے پیٹیکوٹ کے ناڑے پر گیا اور اسے بھی ان کے بدن سے الگ کر دیا.
اب ممی پوری نںگی تھی چچا کے سامنے، چچا ان کی چوت کو ہاتھوں سے سہلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے- کیا مست چوت ہے! اتنی گددےدار فولي ہوئی چوت!
انہوں نے پہلے کبھی تصویر میں بھی ایسی چوت نہیں دیکھی تھی جس میں اتنے مست ویکسنگ کروانی سیاہ بال ہوں کہہ رہے تھے- تمہاری ویکسنگ کروانی جھانٹوں والی چوت مجھے بہت پسند آئی اوما.
یہ سن کر میں نے بھی طے کیا کہ میں بھی اپنی چوت پر ویکسنگ کروانی جھاٹے ركھوگي تاکہ چچا جیسے مرد میری جھانٹوں میں فںس جائیں اور میری چوت میں ہی گھسے رہیں.
پھر وہ ممی کی چوت میں اپنی انگلی ڈال کر اچھی طرح سے آگے پیچھے کرنے لگے.
10-12 منٹ کے بعد ممی بولی اب نہیں سہا جا رہا ہے میرے بادشاہ، چود ڈالو اس پیاسی چوت کو، پھاڑ ڈالو، مجھے چودو، جم کر چودو، آج ساری پیاس بجھا دو، اب دیر نہ کرو، چود ڈالو اسے!
چچا بولے- اب لو مادرچود، تیری چوت کی گرمی نکالتا ہوں!
اتنا کہہ کر اپنا لنڈ ممی کی چوت میں ڈال دیا اور تیزی کے ساتھ چودنے لگے.
ممی کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھی ائی ما امپف! چودو یار، کیا مست چدائی کرتے ہو، مجا آ رہا ہے اور تیزی کے ساتھ چودو!
اتنے میں چاچا نے اپنی چدائی کی سپیڈ اور تیز کر دی.
یہ سب دیکھ کر میرے دل میں کئی سوال اٹھے، میں ان کی باتیں سن کر اتنی مست ہو گئی تھی کہ میری چوت پوری گیلی ہو چکی تھی، من کر رہا تھا کہ جاکر چاچا کے لنڈ پر ابھی بیٹھ جاؤں اور اپنی چوت کو بھی چدوا لوں.
تبھی میرے ہاتھ لگنے سے کھڑکی میں رکھی کٹوری گر گئی. ممی چدائی میں مست تھی، انہیں پتہ نہیں چلا پر چچا نے مجھے دیکھ لیا پر انہوں نے ایسے دیکھا کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو، اور پھر ممی کی چدائی میں لگ گئے.
میں کھڑکی کے پاس سے انہیں دیکھتی رہی، چچا نے 20 منٹ تک جم کر چدائی کی، پھر دہکتا ہوا اپنا لنڈ ممی کی چوت سے نکالا اور ممی اسے سہلانے لگی اؤر بولی- ہو گیا کیا؟
چچا بولے- نہیں اوما ڈارلںگ! ابھی تو تمہاری گاںڈ مارنی ہے.
ممی بولی نہیں اس میں نہیں یار! درد ہو جائے گا!
چچا بولے- نہیں اوما ڈارلنگ، جب تک کتیا کی طرح سے تمہاری گاںڈ نہیں ماروگا، تب تک میرا لنڈ جھڑےگا نہیں کیونکہ چوت سے زیادہ گاںڈ میں گرمی ہوتی ہے.
اتنا کہہ کر چاچا نے ممی کو کمر کے سہارے پلٹ دیا، اب ممی کی گاںڈ چچا کے لنڈ کی طرف تھی. چاچا نے لنڈ پر ايور کریم لگائی اور لنڈ کو ممی کی گاںڈ پر رکھا اور آہستہ سے آگے بڑھانے لگے.
ممی چللاي- ائی ماں! پھاڑ ڈالے گا کیا؟ بہت درد ہو رہا ہے رانو!
چاچا نے ممی کی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی اور پورا کا پورا لنڈ ممی کی گاںڈ میں گھسیڑ دیا.
ممی چللاي- ائی ماں! گاںڈ ہے کوئی میان نہیں کہ پوری تلوار ڈال دی؟ بہت درد ہو رہا ہے جانو!
میں نے پہلی بار گاںڈ مارنے کی بات سنی تھی، صرف دل ہی دل محسوس کر رہی تھی. چچا ممی کی گاںڈ تیزی کے ساتھ مارنے لگے، ممی درد سے چللا رہی تھی پر چاچا نے کوئی توجہ نہیں دی، 10 منٹ بعد ممی کو کس کر پکڑ لیا، شاید چچا جھڑ رہے تھے!
تبھی ممی بولی - سارا مال اندر ہی مت چھوڑ دینا!
یہ سن کر چچا نے اپنا لنڈ نکالا، اور ممی کے منہ میں ڈال دیا اور سفید کریم ممی کے منہ میں چھوڑ دی. ممی اسے مکمل چٹ کر گئی اور چچا کے سینے میں سر رکھ کر مسکراتے ہوئے بولی رانو، آج تم نے برسوں کی پیاس بجھا دی! اور وعدہ کرو کہ میرا ساتھ ہمیشہ نبھاوگے اور ایسے ہی ہمیشہ چودوگے.
چچا بولے- میں ہمیشہ ایسے ہی تمہاری چدائی کروں گا.

چوتھی کہانی

میری 2 بجے کی اپيٹمےٹ تھی. ایک ہفتے پہلے یہ اپيٹمےٹ پکی ہوئی تھی، اس کے بعد سے آج تک چین سے نیند نہیں آئی ہے، پہلی بار کسی سے جنسی کے فی اپنا ڈر بتانے والی تھی ..
میری سہیلی خواب نے اس ڈاکٹر کے بارے میں بتایا تھا کہ کس طرح اس ڈاکٹر نے اس کے دل سے خوف کو ہٹایا اور ساتھ ہی اسے اپنے شوہر کو خوش رکھنے کا طریقہ بھی بتایا. پہلے سن کر تھوڑا عجیب لگا کہ کس طرح ایک انجان آدمی سے یہ سب کہوں گی پر ہے تو وہ ڈاکٹر ہی، یہ سوچ کر اپيٹمےٹ لے لیا. خواب بھی بہت زور دے رہی تھی.
سچ بھی ہے، پہلے تو خواب اتنی شرمیلی تھی کہ کسی سے نظر اٹھا کر بات کرنے میں بھی ڈرتی تھی، پر اب بہت اعتماد آ گیا ہے اس میں اور تو اور پوری چدکڑ بھی ہو گئی ہے. اپنے شوہر کے علاوہ نہ جانے کس کس سے چدواتی فرتي ہے .. میرے فلیٹ میں ہی کئی بار اپنے نئے نئے عاشقوں کے ساتھ آتی رہتی ہے، اس کے کمرے سے آتی آوازیں سن کر اچھا تو لگتا تھا پر پتہ نہیں کس بات کا ڈر تھا میرے من میں کہ چدائی کا نام سنتے ہی ڈر کے مارے جان نکل جاتی تھی.
میں ٹیکسی لے کر اس کے بتائے ایڈریس پر پہنچی، آج تک فون پر ہی بات کی تھی.
کلینک ایک پوش سی کالونی میں تھی، ایک بنگلے کو کلینک کے طور پر استعمال کر رہے تھے. میں نے جیسے ہی اندر قدم رکھا، ایسا لگا کی جیسے کسی پانچ ستارہ ہوٹل میں آ گئی ہوں.
سامنے ایک بہت خوبصورت سی لڑکی اور ایک ہیرو جیسا لڑکا تھا. میں نے اس لڑکی کو اپنا نام بتایا، اس نے مسکرا کر اس لڑکے کو دیکھا اور کہا میڈم، یہ آپ ساری باتیں بتائیں گے، آپ ان کے ساتھ جائیں.
مجھے تھوڑا عجیب لگ رہا تھا، پر اب تو میں آ ہی چکی تھی تو چپ چاپ اس کے پیچھے چل پڑی. وہ مجھے اس لابی کے آخری کمرے میں لے گیا. کمرہ دو حصوں میں بٹا ہوا تھا، سامنے اٹےلين ڈجاين کا کچھ تھا اور ایک کافی ٹیبل تھا اور دوسرا حصہ پردے سے ڈھکا تھا. کچھ دکھائی ہی نہیں دیا.
اس نے مجھے ایک فارم دیا، کہا- آپ پہلے رےلكس ہو جائیے اور اسے فل کر لیجیے، ڈاکٹر تھوڑی دیر میں آ جائیں گے.
اور پھر میرے لئے کافی لے آیا. اس فارم کی ڈیٹیلس بڑی عجیب تھی، جیسے- آپ نے کبھی سیکس کیا ہے؟ کیا آپ مشت زنی کرتے ہیں؟ اگر ہاں تو کس چیز کا استعمال کرتے ہیں، ہاتھ یا سبزی یا کچھ اور؟ چھاتی کا سائز، پھگر وغیرہ!
وہ لڑکا مسلسل میری طرف دیکھے جا رہا تھا، میں اور بھی عجیب محسوس کرنے لگی. وہ آگے جھکا اور میرے فارم کو پڑھنے لگا. جب میں نے فارم بھر لیا تو وہ اسے لے کر جانے لگا، جاتے جاتے مڑ کر کہا آپ نے سچ میں کبھی مشت زنی بھی نہیں کیا؟ میڈم، آپ بالکل صحیح جگہ آئی ہیں، سر آپ کی ہیلپ کریں گے.
میں نے کچھ کہوں، اس کے پہلے اس نے کہا آپ اس روم میں جا کر چینج کر لیجیے، ایک ڈریس وہاں ہے، چیک اپ کے لیے آپ کو وہی پہننا ہوگا!
اور چلا گیا.
پردے کے اس پار، ایک الشان کمرہ تھا، بہت بڑا بستر، ایک سوفی اور میز پر ایک ڈریس!
دیکھ کر مجھے تھوڑا ڈر لگا، پر سائڈ ٹیبل پر کچھ آلات رکھے دیکھ کر تسلی ہوئی. ڈریس کے ساتھ ایک پرچی تھی جس پر لکھا تھا چیک اپ کے لئے صرف یہ پہنے اور کچھ نہیں! خود کو صاف کر لیں، ساری چیزیں باتھ روم میں ہیں.
میں ڈریس لے کر باتھ کی طرف بڑھی، وہاں ہر طرح کے شےمپو-صابن تھے، اور طرح طرح کے ہیئر رےمووگ کریم اور رےجرس تھے.
تب سمجھ آیا کہ مجھے اپنی جھانٹوں صاف کرنی پڑے گی.
تھوڑی دیر میں ڈریس پہن کر میں باہر آ گئی ... سلک کی ڈریس تھی سامنے سے کھلی ہوئی صرف دو ربنو سے بندھی، میںنے پیںٹی یا برا بھی نہیں پہنا تھا. میرے بدن پر سلک کا احساس گدگدا رہا تھا.
تبھی کسی کے دروازہ کھولنے کی آواز آئی ... دیکھا تو ایک بہت لمبا اور هٹٹا کٹا آدمی، مشکل سے 40 کا ہو گا، سفید کوٹ پہنے کھڑا تھاڈكٹر سورج!
ان کے ہاتھ میں میرا فارم تھا اور کچھ آلات!
مسکرا کر میری طرف دیکھ کر انہوں نے ہلکی پھلكي بات شروع کی، پوچھا کہ مجھے کس بات کا ڈر ہے.
میں نے کہا کہ جنسی سے درد ہوگا اور پھر اگر میرا بدن پسند نہیں آیا تو، کیا پتہ میں کسی کو مطمئن کر پاوںگی یا نہیں.
انہوں نے کہا آپ آرام سے کھل کر بات کیجئے، سمبھوگ سب عام چیز ہے.
ان کے منہ سے یہ سن کر عجیب تو لگا پر تھوڑا سکون آیا کہ اب رسمی کی ضرورت نہیں ہے.
انہوں نے کہا کبھی جنسی نہیں کیا، پر کیا لنڈ دیکھا ہے؟ آدمی اور عورت کا جسم ایک دوسرے کے لئے ہی بنے ہیں، اس میں شرمانے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں! اور کوئی پریشانی ہوئی تو میں ٹھیک کر دوں گا. اب آرام سے بستر پر لیٹ جاؤ اور مجھے چیک اپ کرنے دو.
میں ڈریس کو سبھالتے ہوئے لیٹ گئی، میرے پاؤں رانوں تک کھلے تھے اور ربن کے گےپ میں سے میرا پیٹ اور چوچیاں ساف دکھ رہے تھے ... میں بتا دوں کہ خدا نے مجھے بہت اچھی چوچیوں سے نوازا ہے، میرا سائیز 38- 30-34 ہے ... ہر کوئی میری چوچیوں پر ہی اٹک جاتا ہے، ڈاکٹر کی نظر بھی بار بار وہاں جا رہی تھی.
پہلے تو انہوں نے میری عام سی جانچ کی، پھر بولے- اب گہرائی سے چیک کرنا ہے، آپ آرام سے آنکھیں بند کر لیجیے، گھبرانے کی ضرورت نہیں!
میں آنکھیں بند کر کے اپنے جسم پر گھومتے ان کے ہاتھ کو محسوس کر رہی تھی. انہوں نے ایک دھات کی سلاخوں جیسی چیز سے میری یون کہ جانچ پڑتال کی، پھر پریشان آواز میں کہا- ہمم! یہاں تھوڑی مسئلہ ہے، چوت کا چھید چھوٹا ہے اور بالکل گیلی نہیں ہے. ہم نے آپ کو کافی کے ساتھ کچھ دوا دی تھی جس سے گیلاپن ہونا چاہئے تھا.
میں نے اپنی آنکھیں کھولی اور اٹھتے ہوئے پوچھا اب کیا ہوگا ڈاکٹر؟
انہوں نے میرے کندھے پکڑ کر مجھے لےٹاتے ہوئے کہا آپ آرام سے لےٹيے، یہ سب میں ٹھیک کر دوں گا، پہلے ہمیں گیلاپن لانے کو کچھ کرنا ہو گا، پھر الگ الگ اوزار ڈال کر چوت کے اندر کی جانچ کرنی ہوگی. تھوڑا درد ہو سکتا ہے پر پھر سب ٹھیک ہو جائے گا!
میں ویسے ہی ڈری ہوئی تھی، خاموشی لیٹ گئی. انہوں نے مجھے ایک منشیات پلائی پھر الماری سے ایک تیل کی شیشی نکالی، کہنے لگے- چوت کے ساتھ ساتھ باقی حصوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا، منشیات کے اثر کرنے تک میں آپ کو مساج کا طریقہ بتا دیتا ہوں.
اس دوا کے اثر سے مجھے عجیب سا لگ رہا تھا، سب اچھا لگ رہا تھا، ان کے ہاتھ جب بھی میرے ننگے بدن پر پڑتے تو سهرن سی ہوتی تھی. انہوں نے آہستہ سے میری ڈریس کے ربن کھولے اور تھوڑا تیل میرے پیٹ اور چوچیوں پر ٹپکا دیا، پھر اهستے سے پیٹ پر مساج کرنا شروع کیا.
مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا!
انہوں نے کہا اب آپ مجھے بتاتی جانا کہ کیسا لگ رہا ہے تا کہ میں ٹھیک سے مساج کر سکوں!
میںنے کہا- 'آپ کے ہاتھوں میں جادو ہے، مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے، کرتے رہئے!
انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا اسی طرح آپ کو اپنے پیٹ کی روز مالش کرنی ہوگی، اور پھر اس طرح سے چھاتی کی!
کہ کر انہوں نے میری بڑی بڑی چوچیوں کو دبا دبا کر مساج کرنا شروع کیا.
"آپ تو گھبرانا ہی نہیں چاہئے، میں نے آج تک اتنے اچھے اروذ کسی کے نہیں دیکھے! آپ کا شوہر بہت خوش ہو جائے گا آپ سے!"
مجھے پتہ نہیں کیوں شرم سی آ گئی، مساج تو چوچیوں کی ہو رہی تھی پر میری چوت میں عجیب سا لگ رہا تھا، میںنے کہا- مجھے وہاں نیچے عجیب سا لگ رہا ہے!
"کہاں پیرو میں؟"
"نہیں وہاں!"
"کھل کر بتائیے ورنہ مجھے کیسے سمجھ آئے گا؟"
"مجھے وہاں رانوں کے درمیان میں ... یون میں عجیب سا لگ رہا ہے!"
"ہمم! دوائی کا اثر ہو رہا ہے، سب ٹھیک ہو جائے گا!"
ان کے ہاتھ میرے بدن کو نہ جانے کہاں کہاں چھو رہے تھے، مجھ پر تو جیسے نشہ چھا رہا تھا، میں نے سرور میں اپنی آنکھیں بند کر لی. تھوڑی دیر میں مجھے اپنی چوچیوں پر کچھ عجیب سا لگا، آنکھیں کھولی تو ڈاکٹر میری نپل چاٹ رہا تھا.
میںنے پوچھا- یہ کیا؟
"یہ سب علاج کے لئے ہے تاکہ پتہ چلے کہ آپ کے اعضاء ٹھیک ہیں یا نہیں! ورنہ آپ کے شوہر کو پریشانی ہوگی. ہمیں سب کچھ صحیح طریقے سے چیک کرکے اس کا علاج کرنا ہے. آپ کو صرف آرام کیجئے، آپ کو اچھا ہی لگے گا، صرف بولتے جانا کہ کیسا لگ رہا ہے! "
وہ اب میری چوچی جور جور سے دبا کر چوسنے لگے .... میں تو ساتویں آسمان پہ تھی 'اههه ڈاکٹر، اور چوسو، سسسسسس!
تھوڑی دیر میں وہ رک گئے .... میرے ہاتھ خود با خود اپنی چوچی دبانے لگے ...
"واہ، بس ایسے ہی دباو انہیں!" اور میرے ہاتھ پکڑ کر دبوانے لگے. میں اپنی چوچی دبا رہی تھی اور ان کے ہاتھ میرے پیٹ سے سرک کر میری جگھاو پر آ چکے تھے.
"اب اس کی باری!" آہستہ آہستہ میری یون کے دانے کو سہلانے لگے، پھر تھوڑی دیر رک کر میرے پیروں کے درمیان میں آ گئے اور میری چوت کو اپنی جیبھ سے سہلانے لگے- اب کیسا لگ رہا ہے؟
"بہت اچھا! اور چاٹو ... سسسسسسس ..... اه ه ه ه .... چاٹو اور چاٹو!"
"گیلاپن تو آ رہا ہے، اب اوزار ڈال کر چیک کرتا ہوں." پھر کچھ ربڑ ڈڈا جیسا اٹھایا، اسے تیل سے بھگویا اور میری چوت پر رگڑنا شروع کیا. "اههه ه ه ه ه ه ه ..... ڈاکٹر .... کچھ کرو! مجھے عجیب سا لگ رہا ہے ... هيي ای ای ا ا ..... کچھ کرو!"
"تھوڑا درد ہو سکتا ہے پر علاج کے درمیان میں رک نہیں سکتے، تو آپ چاہے تو ہم رک جاتے ہیں یا پھر شروع ہونے کے بعد درد کی وجہ رک نہیں سکتے!"
"نہیں، انتظار مت، علاج مکمل ہونا چاہئے، رکنا مت! میں کہوں تو بھی نہیں!"
انہوں نے آہستہ سے اس ڈنڈے کو میرے چوت کے سوراخ پر رکھا اور ایک جھٹکے میں اندر ڈال دیا ... میری چیخ نکل گئی، آنکھوں سے آنسو آنے لگے، میری چوت میں اتنی زور کا درد ہوا ... "تھوڑی دیر میں سب ٹھیک ہو جائے گا، صرف لیٹی رہو! "
اور تھوڑا تیل میری چوت پر ٹپكايا اور اس ڈنڈے کو اندر-باہر کرنے لگے.
تھوڑی دیر میں درد کم ہوا، میری چوت میں وہ ڈڈا مجھے اچھا لگ رہا تھا- ڈاکٹر! اسے اندر-باہر کرنے سے مجھے درد میں آرام ہے! "
"اندر-باہر کرنا نہیں کہتے، یہ ڈڈا ایک ڈلڈو ہے، جس سے میں نے چوت کو چود رہا ہوں، تاکہ آگے کی تکلیف دور ہو!"
"اسے چدائی کہتے ہیں؟ یہ تو بہت اچھی لگ رہی ہے، مجھے تو مزا آ رہا ہے ڈاکٹر!"
"یعنی اب تمہاری آدھی پرابلم ختم!" انہوں نے ڈلڈو میری چوت سے نکال دیا، اس پر خون لگا تھا، جسے دیکھ کر میں ڈر گئی.
"یہ خون تمہاری یون کی جھلی پھٹنے سے نکلا ہے، اب جا کر دھو لو، پھر آگے علاج جاری رکھیں گے!"
میں نے باتھ روم میں جا کر اپنی چوت کو سہلا سہلا کے صاف کیا، جب واپس آئی تو ڈاکٹر نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور کہا اب صرف محسوس کرنا ہے.
مجھے لٹا کر میری چوچیوں کو دبا دبا کے چوسنے لگے .... میں زور زور سے سسکاریاں لینے لگی .... سس سس ص ص ص ... اهه ه هه ه ه ه .... اور چوسو! او او او او ... اچھا لگ رہا ہے ...
تھوڑی دیر میں مجھے ان کا بوجھ اپنے اوپر لگا، انہوں نے اپنے کپڑے اتار دئے تھے- اب اصلی علاج ہو گا، صرف مزے لو!
اور زور زور سے مجھے ہر جگہ چومنے لگے ... انہوں نے اپنا لنڈ میری چوت پر رگڑنا شروع کیا!
"یہ ڈلڈو تو الگ لگ رہا ہے ڈاکٹر؟"
"ہا ہا ہا، یہ ڈلڈو نہیں میرا لںڈ ہے، چوت کا علاج صرف لںڈ ہی کر سکتا ہے، آپ کو صرف مزے لو!"
میری چوت پوری گیلی تھی .... انہوں نے اپنا لنڈ میری چوت میں ڈالا ... ہاے کیا لںڈ تھا ... بہت موٹا اور ایکدم کڑک ... اور دھیرے دھیرے چودنا شروع کیا .... ہمارے ننگے بدن آپس میں چپکے ہوئے تھے .. وہ موٹا لںڈ میری گیلی چوت کو ٹھوک ٹھوک کر بجا رہا تھا.
میں نے بھی اپنی کمر اچكا اچكا کے ان کا مکمل ساتھ دیا ... چدائی کے ساتھ ساتھ وہ میری چوچیوں کو چوس رہے تھے ...
"اهه هه ... اور چودو مجھے ... میری چوت کا اچھے سے علاج کرو ... اور چودو ...!"
تھوڑی دیر میں میرا جسم اکڑنے لگا، کچھ عجیب سا لگا اور ایک کںپکںپی کے ساتھ میری چوت میں سے کچھ نکلا ...
بعد میں ڈاکٹر نے بتایا کہ اسے انزال یعنی جھڑنا کہتے ہیں ....
ڈاکٹر تو ابھی بھی مجھے چود رہے تھے ... اب ان کے جھٹکے تیز ہو گئے تھے ... مجھے تھوڑا درد بھی ہو رہا تھا پر بہت مزا آ رہا تھا ...
تھوڑی دیر کے بعد ان کا جسم اکڑنے لگا، انہوں نے جھٹکے سے لںڈ باہر نکالا اور اپنا سارا پانی میرے پیٹ پر چھوڑ دیا ...
اس دن کے بعد مسلسل ایک ہفتے تک ایسے ہی اسپیشل علاج چلا ...
علاج کے بعد سے نہ جانے میں کتنوں کے نیچے لیٹی ہوں ... نہ جانے کتنے لنڈ کھائے ہیں ... پر اس ڈاکٹر جتنا مزہ کسی نے نہیں دیا .... ہیلو کیا علاج تھا

پانچویں کہانی

دوستو، میرا نام ميك ہے، عمر 28 سال، شادی شدہ ہوں. گھر میں میں اور میری بیوی ہم دونوں ہی رہتے ہیں.
یہ کہانی آج سے کوئی 3 سال پہلے کی ہے. شادی شدہ ہونے کے بعد بھی میں اپنی بیوی سے خوش نہیں تھا کیونکہ وہ میرے ساتھ جنسی تعلقات تو کرتی پر مکمل طور پر نہیں. میں اس کے ساتھ ٹھیک سے مزہ نہیں کر پا رہا تھا اور اسی وجہ سے ہمارے درمیان کشیدگی بنا رہتا تھا.
اسی درمیان مجھے میرے سسرال جانے کا موقع ملا. میری سسرال میں میرے سسر اور ساس ہی ہیں. ہمارے وہاں پہنچتے ہی میرا استقبال کیا گیا.
شام کا کھانا کھانے کے بعد میں نے اپنے سسر جی سے بات کرنے لگا اور میری بیوی میری ساس ماں کے ساتھ باورچی خانے میں کام کر رہی تھی. پھر ہم سب لوگ تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد سونے چلے گےمےري بیوی ہمیشہ کی طرح جنسی تعلقات میں دلچسپی نہ لیتے ہوئے سونے لگی لیکن میں بھی اسے بغیر جنسی ریٹویٹ کیسے سونے دیتا. میں گاؤن کے اوپر سے ہی اس کے بوبے دبانے لگا، اسے کچھ ہونے لگا لیکن جنسی میں دلچسپی نہیں ہونے کی وجہ سے اس نے کوئی رد عمل نہیں کیا.
میں بھی اتنی جلدی ہار نہیں مانے والا تھا، میں کوشش کر کے اس کا گاؤن نکال دیا اور اپنے بھی سارے کپڑے اتار دئے. اب میں بالکل ننگا اور وہ صرف پیںٹی میں تھی. اس نے برا نہیں پہنی تھی.
میں دھیرے دھیرے اس کے بوبے دبانے لگا اور بیچ بیچ میں چوستا بھی جا رہا تھا. پر اس کی طرف سے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا. یہ سب ہونے کے بعد مجھے بہت غصہ آیا کیونکہ میرا لںڈ کڑک ہو چکا تھا اور میں پیاسا ہی تھا.
ہماری بحث شروع ہو گئی. ہماری بحث سے شاید میری ساس ماں جاگ گئی تھی اور وہ ہمارے کمرے کی کھڑکی سے ہمیں دیکھ رہی تھی. اس وقت بھی میں بالکل ننگا اور میری بیوی صرف پیںٹی میں تھی. مجھے اس بات کا پتہ کچھ دیر بعد چلا جب اچانک میری نظر کھڑکی پر پڑی. پر میں نے دیکھ کر بھی نظر انداز کر دیا جس کی وجہ سے وہ بہت دیر تک چھپ چھپ کر کھڑکی سے دیکھتی رہی اور ہمارا جھگڑا سنتی رہی.
بہت دیر تک بحث کرنے کے بعد میں اپنے آپ کو پرسکون کرنے کے لئے اٹھا اور مجھے دیکھ میری ساس اپنے کمرے میں چلی گئی جو ہمارے کمرے سے لگا ہوا ہی تھا. میں جانتا تھا کہ میری ساس نے کمرے میں گئی ہیں، میں نے جان بوجھ کر باتھ کا دروازہ بند نہیں کیا صرف تھوڑا سا ٹکا دیا اور میں مٹھ مارنے لگا. ساس ماں کے کمرے سے باتھ صاف دکھائی دیتا تھا. میں نے دیکھا کہ ساس ماں کے کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا ہے. میں نے ادھر نہ دیکھتے ہوئے مٹھ مارنا جاری رکھا.
قریب 10 منٹ بعد میں نے اپنا مال باتھ میں چھوڑ دیا. باتھ صاف کرنے کے بعد میں اپنے کمرے میں آگیا اور ننگا ہی سو گیا. صبح جب اٹھا تو میں نے دیکھا کہ میری ساس مجھ سے بات کرنے میں کچھ ہچکچا رہی ہیں اور میری طرف ٹھیک دیکھ بھی نہیں رہی ہیں. میں رات والی بات جانتے ہوئے بھی انجان بنا رہا.
صبح کے کام اور ناشتہ کرنے کے بعد میری بیوی مجھ مارکیٹ جانے کے لئے کہنے لگی پر میں رات والی بات سے ناراض تھا اس لئے میں نے اسے منع کر دیا. وو میرے سسر جی کے ساتھ مارکیٹ چلی گئی. چونکہ میرا سسرال شہر سے تھوڑا دور تھا اس لئے میرے سسر جی نے اکیلے جانے سے انکار کر دیا اور وہ میری بیوی کو لے کر چلے گئے.
ان کے جانے کے بعد میں نے ٹی وی دیکھنے لگا اور میری ساس باورچی خانے میں کام کر رہی تھی. کچھ دیر بعد میری ساس میرے پاس آئی اور بیٹھ گئی پر کچھ بول نہ پائی.
میں سمجھ گیا کہ رات کو جو کچھ دیکھا اور سنا اس کی وجہ سے بات نہیں کر پا رہی ہیں. میں بنا کچھ بولے ٹی وی دیکھ رہا تھا.
کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ بولی میں نے رات کو تمہاری باتیں سنی.
یہ سن کر میں نے انجان ہونے کا ڈرامہ کیا اور چونک گیا.
وہ تھوڑی دیر تک کچھ نہیں بولی.
پھر پوچھا یہ سب روز ہوتا ہے؟
میں نے سر جھکا کر شرمانے کا ڈرامہ کیا اور بولا روز تو نہیں پر اکثر ہوتا ہے.
یہ سن کر وہ بولی میری بیٹی نادان ہے، ابھی چھوٹی ہے، آہستہ آہستہ سمجھ جائے گی.
میں یہ سن کر تھوڑا غصے میں بولا کب؟ جب عمر نکل جائے گی تب؟
یہ سن کر وہ کچھ نہیں بولی.
پھر میں نے کہا آپ نے شادی سے پہلے وضاحت کی نہیں کہ اپنے شوہر کو ناراض نہیں کرنا چاہئے.
وو بولی- سمجھایا تو تھا پر ...........!
اتنا بول کر رک گئی.
میں تھوڑا اور غصہ ہوتے ہوئے کہا اب میں کیا کروں؟ بیوی ساتھ دیتی نہیں ہے، باہر جا نہیں سکتا، بدنامی کا ڈر ہے. بس اپنا ذہن مار کر رہ جاتا ہوں.
وہ کچھ نہیں بولی اور چپ چاپ اپنے کمرے میں چلی گئی.
تھوڑی دیر بعد اندر سے آواز اي- ميك جی!
میں اندر گیا تو جو میں نے دیکھا، دیکھ کر میرے تو ہوش اڑ گئے. سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ خوش هوو یا باہر چلا جاؤں. میں نے دیکھا کہ میری ساس بلکل نںگی کھڑی ہیں.
میںنے پوچھا- یہ سب کیا ہے؟
وو بولی- میری بیٹی کی سزا میں بھگتنے کو تیار ہوں.
میں سمجھ گیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں، اپنی ساس کو چودنے کی میری خواہش تو شادی کے وقت سے تھی پر موقع نہیں ملا اور پھر ہے تو ساس ہی نا.
میری ساس کا پھگر ہے 36-34-38 تھوڑی موٹی ضرور ہیں پر ہے مست. عمر ہوگی کوئی 48 کے قریب. پرانے زمانے میں شادی جلدی ہو جانے کی وجہ سے بچے بھی جلدی ہو جاتے تھے. میری بیوی کی پیدائش ہوئی تب میری ساس کی عمر ہوگی قریب 22 سال.
خیر میں بھی سب کچھ بھول کر لگا اپنے کپڑے اتارنے. میں یہ موقع نہیں کھونا چاہتا تھا. وو میرے لںڈ کو غور سے دیکھ رہی تھی.
میں نے میری ساس سے کہا جب سزا بھگتنے کو تیار ہو تو ٹھیک ہی بھگتو نا!
وو بولی- جیسا تم کہو گے میں ویسا ہی کروں گی.
میں نے اسے پلنگ پر لٹايا اور ہم 69 کی حالت میں آ گئے. پہلے تو اس نے میرا لںڈ چوسنے سے منع کر دیا پر میرے زور دینے پر چوسنے لگی اور میں اس کی چوت چاٹ رہا تھا.
تھوڑی دیر تک یہ سب کرنے کے بعد میں نے کہا اب میں آپ چودوگا! تم تیار ہو؟
وو بولی- ہاں.
میں اسکی ٹاںگوں کے بیچ بیٹھ گیا اور اپنا 8 انچ کا لنڈ اسکی چوت میں گھسانے لگا. چونکہ وہ بہت سالوں کے بعد چدوا رہی تھی اس لئے اس کی چوت ایک دم نئی چوت کی طرح کسی ہوگئی تھی. میں نے ایک زور دار جھٹکا مارا تو میرا آدھا لںڈ اسکی چوت میں گھس گیا اور اس کی تھوڑا سا درد ہونے لگا.
میں تھوڑی دیر رکا اور اس کے بوبے چوسنے لگا. پھر میں نے ایک اور جھٹکا دیا اور اپنا پورا لںڈ اسکی چوت میں گھسا دیا. پھر میں نے آہستہ آہستہ چدائی شرو کی. کچھ دیر بعد اسے بھی مجا آنے لگا اور وہ میرا ساتھ دینے لگی.
یہ دیکھ میں نے اپنی سپیڈ بڑھا دی. تھوڑی دیر باد وو جھڑ گئی پر میں نے اپنا کام جاری رکھا. قریب 20 منٹ تک چودنے کے بعد مجھے لگا کہ میں جھڑنے والا ہوں. تب تک میری ساس تین بار جھڑ چکی تھی.
میں نے اپنی ساس سے کہا میں جھڑنے والا ہوں، اپنا لںڈ نکال لوں کیا؟
وو بولی- ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے، اب میں ماں نہیں بنوں گی، آپ میری چوت میں اپنا مال بھر دو.
یہ سن کر میں نے اپنی سپیڈ اور بڑھا دی اور 10-12 جھٹکوں کے بعد میں نے اپنا سارا مال اپنی ساس کی چوت میں چھوڑ دیا.
تھوڑی دیر تک ویسے ہی رہنے کے بعد میری ساس بولی اٹھو، کوئی آ جائے گا.
میں اٹھا اور کپڑے پہن کر ٹی وی دیکھنے دوسرے کمرے میں چلا گیا. تھوڑی دیر بعد میری ساس بھی کپڑے پہن کر آ گئی اور بولی میری بیٹی تو بالکل نادان ہے پر تم جب چاہو پھر اس کی بھول کی سزا مجھے دے سکتے ہو.
یہ سن کر ہم دونوں ہنسنے لگے.

چھٹی کہانی
میری پھوپھی کی ایک بیٹی ہے جس کا نام پریٹی ہے، وہ مجھ سے کچھ سال چھوٹی ہے. بچپن سے ہی ہم دونوں ایک دوسرے کے کافی قریب رہے ہیں. جب چھوٹے تھے تو گرمی کی چھٹیوں میں اکثر پھوپھی ہمارے گھر آیا کرتی تھی اور ساتھ میں پریٹی بھی. مجھے وہ شروع سے ہی کافی سیکسی لگتی تھی. اس کا چہرہ اور اس کے جسم کا ہر حصہ مدہوش کر دینے والا رہا ہے. پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ایک دوسرے کے تئیں لگاؤ جسمانی لگاؤ بن گیا اور میں اسے چودنے کے حسیں خواب دیکھنے لگا.
میں نے اس کے جسم کو چوسنے کے لئے بے حد پاگل اٹھا تھا. پھر تو بس ہر پل دماغ میں اسے چھونے اور اسے ننگا کرنے کا خیال ہی گھومتا رہتا تھاجب بھی ہمارے یہاں آتی تو ہم دونوں اکثر رات کو ساتھ ہی سوتے تھے اور ایسی ہی ایک رات کو میں اور پریٹی اور ایک اور چچےري بہن ساتھ میں سو رہے تھے. مجھ تھا کہ بس رہا نہ جا رہا تھا.
رات کو جب مجھے لگا کہ تمام گہری نیند میں سو رہے ہیں تو میں نے اپنا ہاتھ پریٹی کے اوپر رکھ دیا اور اس کے پاس کھسک گیا. تھوڑی دیر بعد میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے لگا دئے اور اسے چومنے لگا مگر پریٹی کو کچھ بھی احساس نہ ہوا. پھر میں نے اس خوف سے کہ کوئی اٹھ نہ جائے اپنے آپ کو روکا اور سو گیا.
اس واقعہ کے بعد میں اور پریٹی ایک دوسرے سے اگلے چار سال مل نہ سکے کیوںک میری پڑھائی کی وجہ سے مجھے باہر جانا پڑا تھا. پھر ایک بار موقع پڑا جب پریٹی میرے گھر رہنے آئی اور وہ بھی بالکل اکیلے. میری ممی نے ہم دونوں کے سونے کا انتظام میرے کمرے میں ہی کر دیا جس سے ہم آرام سے باتیں وغیرہ کر سکیں. بس پریٹی کو چودنے کی چاہ دل میں پھر جاگ اٹھی.
اب تو پریٹی بھی کافی مست ہو چکی تھی. اس کا جسم کافی بھر گیا تھا اور اس کی گاںڈ ہموار اور مست ہو چکی تھی. اسمے وكشو میں اتنا دودھ بھر گیا تھا کہ پوری رات بھی انہیں چوس لوں تو ختم نہ ہو. دیکھ کر بس ایک ہی خیال آتا کہ اسے تو ہر لڑکے چودنا چاہتا ہوگا اور تو اور شاید اس کی چوت 3-4 نے تو مار ہی لی ہوگی. اس کے جسم کو نوچنے کے لئے میں پاگل ہو اٹھا تھا.
پھر رات کو جب ہم دونوں سونے لگے تو میں نے ایسے ہی تھوڑی دیر بات کرنے کا بہانہ بنا کر اس کے پاس لیٹ گیا. تھوڑی ہی دیر میں پتہ نہ چلا کہ کب ہم دونوں کو نیند آ گئی. رات کو جب آنکھ کھلی تو میری ہوس مجھ پر حاوی ہو چکی تھی اور میں نے پھر وہی برسوں پرانا طریقہ اپنانا درست سمجھا اور اس کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ دیا. مگر یہ کیا، پریٹی نے بھی اپنا ہاتھ میرے اوپر رکھ دیا. پہلے تو میری تھوڑی پھٹی پھر میں نے سوچا کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا. اگر آج میں نے اس کے گرم بدن کو نہ چودا تو پھر شاید زندگی میں کبھی نہیں موقع ملے گا.
تھوڑی دیر بعد میں نے اپنی جیبھ اس کے ہونٹوں پر چھوا دی اور پھر اپنے ہونٹ بھی اسے چھوا دئے. اب میں اور کچھ سوچتا اس سے پہلے ہی پریٹی نے بھی اپنا منہ کھول لیا اور میرے ہوںٹھوں کو چومنے لگی. اس کو اتیجیت ہوتے دیکھ کر مجھے بھی مزا آنے لگا. لیکن میں نے اپنے آپ کو تھوڑا صحیح رکھنے کے لئے بولا نہیں پریٹی! یہ ہم کیا کر رہے ہیں، یہ تو غلط ہے.
تو پریٹی بولی بھیا، پتہ نہیں کیوں؟ آپ چوم لینے کا من کیا.
پھر وہ مجھے بولی- آپ سے ایک بات پوچھو؟
تو میںنے کہا- پوچھ.
وہ بولی- آج سے کچھ سال پہلے آپ نے رات میں مجھے سوتے وقت چومنے کی کوشش کی تھی؟
مجھے وہ واقعہ اچھے سے یاد تھی، یہ سن کر تو میں حیران رہ گياپھر جو اس نے انکشاف کیا وہ سن کر تو میری پھٹ گئی، اسانے بتایا کہ یہ سب بات اسے اگلے دن میری چچےري بہن نے بولی.
اب جب بات سامنے تھی تو میں نے پریٹی کو بولا- پتہ نہیں تجھے دیکھ کر مجھے کیا ہو جاتا ہے.
اور وہ بھی مجھے یہی بولی کہ اس کے دل میں بھی میرے فی لگاؤ ہے.
پھر ہم زیادہ دیر بات نہ کرکے اور سونے کا ناٹک کرنے لگے.
مگر دل میں لگی آگ کہاں بجھنے والی تھی. اب میںنے آو دیکھا نہ تاو، پریٹی کو پکڑ لیا اور اسے پاگلوں کی طرح چومنے لگا. وہ بھی مجھے چپک گئی. اب تو بازی میرے ہاتھ میں تھی. میں نے اس کے بدن کو ننگا کرنا شروع کر دیا. اس کے جسم کو بغیر کپڑوں کے دیکھنے کو میں کب سے ہی پاگل ہو رہا تھا اور آج تو سارا مال ہی میرے ہاتھ لگ گیا تھا.
میں نے اس کے سلیپنگ گاؤن کو اتار دیا اور اب وہ صرف برا اور پینٹی میں تھی. اس مدہوش بدن کو ان چھوٹے سے کپڑوں سے ڈھکا دیکھ وہ مجھے بہت ہی مست لگ رہی تھی. اپنا برسوں کا خواب سچ ہوتے دیکھ میری آنکھیں ہوس سے سرخ ہو اٹھی تھی. میں نے اب اپنے انگلیاں اس کے ساولے اور چکنے بدن پر پھراني شروع کر دیا. پریٹی سسکاریاں بھرنے لگ پڑی تھی. پھر میں نے اس جسم کو اپنی ناک سے سوگھنا شروع کرا اور اس کی چوت کی کھشبو تو بس مدہوش ہی کر دینے والی تھی. اچھا ہو رہی تھی کہ اگر میرے پاس 3-4 لؤڑے ہوتے تو سب اس میں گھسا دیتا ایک ساتھ.
وہ بھی مدہوش ہو چکی تھی اور مجھے بولنے لگی- بھیا میرے کو مت چھوڑنا آج. میرا رس نکال کر پی لینا مکمل. آج میں آپ کی رنڈی بن چکی ہوں اور اچھے سے چد کر ہی مانوگي.
میں بھی کہاں اسے چھوڑنے والا تھا. بس برا پھاڑ ڈالی، اس کے چچوك کس کر پکڑ لئے. پھر اس کی پیںٹی کو کھینچ کر نکال دیا اور اس کے اوپر چڑھ گیا. اس کے گرم اور نرم جسم کے اوپر چڑھ کر تو کوئی بھی پاگل ہو اٹھے. صحیح میں ایسی لڑکی کو چودکر کسی بھی لڑکے کو مزہ آ جائے.
میں نے اس کے چوچو کو منہ میں لے کر چوسنے لگا اور انہیں کاٹنے لگا. وہ آہ آہ کرنے لگی اور چلانے لگی- بھیا اور زور سے چوسو.
میرا سارا دودھ پی جاؤ. ایک بوںد بھی نہ چھوڑنا اور کاٹ کھانا مجھے مکمل.
اب باری آئی اس کے منہ میں اپنے لںڈ کو ڈالنے کی. میں نے اس کے منہ کو پکڑا اور میرا اوزار اس میں ڈال دیا. وہ بھی بڑے مزے سے اسے چاٹنے لگی. ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی کتیا مدہوش ہو کر کسی چیز کو چاٹ رہی ہو. وہ میرے لؤڑے کی تعریف کر رہی تھی اور اسے اپنے اندر دیکھنے کی سفارش کر رہی تھی. میں تو اس کے ننگے بدن کو دیکھ کر ہی اتنا اتیجت ہو چکا تھا کہ اس کے منہ میں ہی ایک بار تو مکمل رس نکال دیا اور وہ بھی اسے ڈکار کر پی گئی.
رس نکلتے ہی میرا لؤڑا دوبارہ کھڑا ہو گیا اس کے چودنے کے لئے. اب میں نے اسے لٹايا اور اس کی چوت کو چاٹنے لگا. میں نے اپنی جیبھ اسکی چوت میں پوری گھسا دی اور زور زور سے اسے ہلانے لگا.
وہ چيكھنے لگی اور مجھ اسے چودنے کی بھیک مانگنے لگی.
میںنے کہا- پریٹی، آج میں تجھے نہیں بكشوگا.
میں نے اب اپنے لؤڑے کو پورے زور کے ساتھ پریٹی کی چوت میں گھسا دیا. اس کی چوت میں گھس کر تو میرے لؤڑے کو بھی خوشی آ گیا. ایسا لگا جیسے گویا جنت نصیب ہو اٹھی ہو. بس پھر کیا تھا، میں زور زور سے لؤڑے کو اندر-باہر دھکا دینے لگا اور پریٹی پاگلوں کی طرح چللا رہی تھی 'بھیا، چودو مجھے! اور زور سے چودو! میری چوت کو پھاڑ دو.
میں بھی لگا رہا، قریب ایک گھنٹے تک مسلسل اس کی چوت مارنے کے بعد جا کر کہی میں رکا اور اس کے جسم کو نوچنے لگا. اتنا کھایا میں نے اس رات کو پریٹی کو اور تو کھلایا اس رات پریٹی نے مجھے کہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا.
اس رات کے بعد تو اب جب بھی پریٹی مجھے ملتی ہے میں اسے چودتا ضرور ہوں. اب تو میری بھی شادی ہو چکی ہے اور اس کی بھی. پر آج بھی ایک دوسرے کے ساتھ جو سهواس کا جو لطف ہے وہ کسی اور میں کہاں!

ساتویں کہانی
اگر گھر میں ایک عدد بھابھی ہو تو دل لگا رہتا ہے. اس کی ادايے، اس کے دورتھي ڈيلوگ بولنا، کبھی کبھی بلاوج یا گاون میں سے اپنے سڈول ممے دکھانا ... دل کو زخمی کر دیتی ہے. تس پر وہ ہاتھ تک نہیں دھرنے دیتی ہے. بھابھی کی انہی اداوں کا میں قائل تھا. میری بھابھی تو بس بھابھی ہی تھی ... بلا کی خوبصورت ... ساںولا رنگ ... لمبائی عام گوا کی لڑکیوں سے کافی زیادہ ... ہوگی تقریبا پانچ فٹ اور چھ انچ ... بھرے ہوئے مانسل اروج ... بھاری سے چوتڑ ... من کرتا تھا بس ایک بار موقع مل جائے تو اسے طبیعت سے چود دوں ... پر لحاظ بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے. بس ذہن مار کر بد مٹھٹھ مار لیتا تھا. بھیا بھی زیادہ تر کینیڈا ہی رہتے تھے. جانے بھابھی بغیر لنڈ کھائے اتنے مہینوں تک کیسے رہ پاتی تھی.
بہت دنوں سے بھابھی پاپا کا پرانا مکان دیکھنا چاہتی تھی ... پر آج تو انہوں نے ضد ہی پکڑ لی تھی. سالوں سے وہ حویلی سنسان پڑی ہوئی تھی. میں نے نوکروں سے کہہ کر اسے آج صاف کرنے کو کہہ دیا تھا. ٹوٹے فوٹے فرنیچر کو ایک کمرے میں رکھنے کو کہہ دیا تھا. لايٹے وغیرہ کو ٹھیک کروانے کو الےكٹريشين بھیج دیا تھا. دن کو وہاں سے فون آ گیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک کر دیا گیا ہے. ویسے بھی وہاں چوکیدار تھا وہ گھر کی دیکھ تو رکھتا ہی تھا. انہوں نے بتایا باہر چوکیدار مل ہی جائے گا، چابی اس سے لے لینا.
پھر میں حویلی جانے سے پہلے ایک بار میرے دوست شخص کے پاس گیا. وہ میرا پرانا راجدار بھی تھا ... میرے بہت سے چھوٹے موٹے کاموں کیلئے وہ مشورہ بھی دیتا تھا. بھابھی کے بارے میں میرے خیال جان کر وہ بات سن کر بہت ہنسا تھا ... گنہگار ہو تم جو اپنی ہی بھابھی کے بارے میں ایسا سوچتے ہو ...
"پر یہ دل کا کیا کروں بابا ... یہ تو اسے چودنے کے لیے بیتاب ہو رہا ہے."
اس نے کہا ... سالے تم بدمعاش ہو ... پھر بھی تمہیں موقع تو ملے گا ہی.
پھر اندر سے ایک شیشی لے کر آیا، بولا یہ شیشی تم لے جاؤ ... اسے کسی بھی کمرے کے کونے میں چھپا دینا اور اس کا ڈھکن کھول دینا ... توجہ رہے کہ ایک گھنٹے تک اس کا اثر رہتا ہے ... پھر اسے ایک گھنٹے کے بعد محض پانچ منٹ میں فورا بند کر دینا ورنہ یہ شیشی تمہارا ہی تماشا بنا دے گی.
بابا میرا دوست ہوتے ہوئے بھی ان کو رشوت میں میں نے ایک ہزار روپے دیئے اور چلا آیا. جی ہاں اسے رشوت ہی کہوں گا میں ... پھر آج کے زمانے میں مجھے یقین نہیں تھا کہ بابا کا جادو کام کرے گا یا نہیں، پر آزمانا تو تھا ہی ... میرے لنڈ میں آگ جو لگی ہوئی تھی.
میں نے شیشی احتیاط سے جیب میں رکھ لی اور باہر گاڑی میں بھابھی کا انتجار کرنے لگا. اففف! ٹائیٹ جینس اور کسی ہوئی بنیان میں وہ غضب ڈھا رہی تھی. میرا لنڈ تو ایک بارگي تڑپ اٹھا. بال اوپر کی اور گھوسلانما سیٹ ریٹویٹ ہوئے تھے.
"ٹھیک ہے نا جو ... کیسی لگ رہی ہوں؟"
"بھابھی ... ایکدم پٹاكھا ... کاش آپ میری بیوی ہوتی ..."
"چپ شیطان کہیں کا ... تیری بھی اب شادی کرانی پڑے گی ... اب چلو ..."
یہاں سے بیس کلومیٹر دور میرا یہ آبائی رہائش گاہ تھا ... میرے پاپا ڈاکٹر تھے ... بہت نام تھا ان کا ... یہ پراپرٹی میری اور بھیا کی ہی تھی. پرانا گوا کا یہ ایریا اب تو کچھ ترقی کی طرف بڑھ گیا تھا. دن کو قریب گیارہ بجے ہم دونوں وہاں پہنچ گئے تھے. چوکیدار وہیں باہر کھڑا ہوا انتظار کر رہا تھا.
"بابو جی، یہ چابی لو ... سب کچھ ٹھیک کر دیا ہے ... آپ آ گئے ہو، میں اب مارکیٹ ہو آتا ہوں."
"جلدی آ جانا ... ہم یہاں زیادہ دیر نہیں ركےگے ..." میں نے چوکیدار کو آگاہ کر دیا.
میں نے فاٹك کھولا اور گاڑی اندر لے گیا. پھر بھابھی کو میں نے پوری حویلی گھما دی. میں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بابا کہے مطابق اجلاس میں کونے میں وہ شیشی کھول کر ایک کونے میں چھپا دی. سب کچھ عام سا تھا ... کچھ بھی نہیں ہوا. شیشی میں سے دھواں وغیرہ کچھ بھی نہیں نکلا. میں مایوس سا ہونے لگا.
پر دس منٹ میں مجھے اچانک کچھ بھابھی میں تبدیلی سا لگا. جی ہاں ... ہاں ... بھابھی شاید اتیجیت سی تھی ... ان کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ تیرنے لگی، ان کی آنکھیں گلابی ہونے لگی، ان کے گال تمتمانے لگے.
مجھے لگا کہ جیسے بھابھی کی ٹائیٹ جینس ان بدن پر اور کس گئی ہے، ان کے بدن میں لچک سی آنے لگی ہے. کیا بھابھی میرے اوپر موہت ہونے لگی ہیں ... یا یہ اس شیشی کا اثر ہے.
یہی میرے پاس صرف ایک موقع تھا. میں نے ہمت کرکے میٹنگ کے کمرے میں بھابھی کا ہاتھ پکڑ لیا. سوچا کہ وہ کچھ کہے گی تو ساری کہہ دوں گا!
پر بھابھی تو بہت رومانٹك ہو گئی تھی. میرے ہاتھ کو اپنے سے لپٹا کر بولی- جو ... آج موسم کتنا سهاونا لگ رہا ہے !!
"جی ہاں بھابھی، گوا کا موسم تو ہمیشہ سهاونا ہی رہتا ہے ..." میرے تن میں جیسے بجليا دوڑ پڑی.
"یہ مکان کتنا رومانٹك لگ رہا ہے ... کیسا جادو سا لگ رہا ہے؟"
"آو بھابھی یہاں بیٹھتے ہیں ... اور ٹھنڈا پیتے ہیں ..."
میں نے کولڈ ڈرنک کا ایک کین کھول کر بھابھی کو دے دیا.
"پہلے تو پی لے ... لے پی نا ..."
"نہیں پہلے آپ ... بھابھی!"
میں نے بھابھی کو اپنی طرف کھینچ لیا. اهههه! وہ تو کٹے درخت کی طرح میری گودی میں آ گری.
"جو ... ذرا دیکھنا تو ... یہاں کوئی دوسرا تو نہیں ہے نا .."
"نہیں بھابھی. .. بس میں اور تم ... بالکل اکیلے ..."
"ہائے ہائے ... تو پھر اتنی دور کیوں ہو؟ کتنا مزا آ رہا ہے ... سارے جسم میں جیسے چيٹيا رینگ رہی ہے ... ذرا جسم کو رگڑ دو ... بھیا!"
میرا لنڈ تو بھابھی کی حرکت پر پہلے ہی ٹنن ہو گیا تھا. میرا جسم خوشی اور جوش سے سے کانپنے لگا تھا. میں نے فورا بھابھی کو اپنی باہوں میں دبا لیا اور ان سیکسی تن کو میں یہاں وہاں سے رگڑنے لگا.
"افف ... جو! کتنے کس رہے ہے یہ کپڑے ... کیا کروں؟"
"بھابھی اتار دو پلیج ... تب تھوڑی سی ہوا لگ جائے گی اسے بھی ..."
"تو اتار دے نا ... اهه ... دیکھ تو یہ تن سے چپکا جا رہا ہے ..."
میں نے بھابھی کی چپکی ہوئی بنياننما ٹاپ کھینچ کر اتار دی ... اففف! ان کے بڑے بڑے ممے ان کی برا میں سما بھی نہیں رہے تھے ...
"ارے ... یار ... یہ کتنا فںس رہا ہے ... ہٹا دے اسے بھی ..."
بھابھی نے برا کو کھینچ کر ہٹا ہی دی ...
اے خدا! بلا کے خوبصورت تھے بھابھی کے اروج. تبھی بھابھی جیسے تڑپ اٹھی ... یہ جینس ... ارے یار ... اههه ... کھینچ کر اتار دے اسے ... سالی کتنی تنگ ہے یہ ....
میرے تو ہوش جیسے اڑے اڑے سے تھے ... یہ سب میری مرضی کے متبك ہی تو ہو رہا تھا. کچھ ہی لمحات میں بھابھی بلکل نںگی میری گودی میں تھی.
"اب تیرے یہ کپڑے ... ارے اتار نہ انہیں یار ...!"
مجھے تو بس موقع چاہیے تھا. میں نے بھی اپنے کپڑے اتار دیے پر اپنا تنا ہوا لنڈ بھابھی سے چھپانے لگا.
"کیسا نشہ نشہ سا ہے ... ہے نا ... وہ آرام سے اس بستر پر چلیں ...؟"
میں نے بھابھی کو اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور پیار سے انہیں بستر پر لیٹا دیا. میں نے ایک ہی نظر میں دیکھ لیا کہ بھابھی کا تن چدائی کے لیے کیسے تڑپ سا رہا تھا. بھابھی کی چوت بہت گیلی ہو چکی تھی ... بھابھی نے لیٹتے ہی مجھے دبوچ لیا. پھر نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے مجھ پر چڑھنے لگی.
"جو بھیا! پلیج برا مت ماننا ..."
میرے ننگے جسم پر وہ چڑھ گئی ... بھابھی کے منہ سے تھوک سی نکلنے لگی تھی. ان کی آنکھیں سرخ سرخ ہو گئی تھی ... ان جلفے ان کے چہرے پر ناگن کی طرح بل کھا رہی تھی. پھر اچانک ان گرم کاںپتے ہوئے ہونٹ میر لبوں سے بھڑ گئے. ان کی زبان لپلپاتي ہوئی میرے مکھ کی گہرائیوں میں اتر گئی.
"اف! یہ سانپ سی کیا چیز ہے ...؟" مجھے گلے کے اندر بھابھی کی زبان کچھ عجیب سا احساس دے رہی تھی ....
جیسے میری سانسیں رکنے لگی تھی ... مجھے تیز کھانسی آ گئی ... میرا لنڈ اسکی گرم چوت پر گھس رہا تھا. بھابھی کے منہ سے جیسے گرراهٹ سی آنے لگی تھی.
تبھی بھابھی چیخ پڑی ... سالے هلكٹ ... حرامی ... لیٹا ہوا کیا ماں چدا رہا ہے ... چودتا کیوں نہیں ہے ...؟
افف! بھابھی کے جسم میں اتنی آگ !! ... اس کی چوت اپنے آپ ہی میرے لنڈ پر جیسے جور جور پٹكنے لگی. تبھی میرا لنڈ اسکی چوت میں راستہ بناتا ہوا اندر اترنے لگا.
وہ چيكھي ... مار ڈالا رے ... مکمل گھسیڑ دے مادرچود ... ذرا اههههه ... مستی سے نا ... سالا بھڑوا ... لنڈ لے کر گھومتا ہے اور بھابھی کو چودتا بھی نہیں ہے.
میں نے اپنی کمر اونچی کی اور لنڈ کو اس کی چوت کی تہہ پہنچانے کی کوشش کرنے لگا. پھر مجھے زبردست جوش آ گیا ... میں نے بھابھی کو اپنے نیچے پلٹی مار کر دبا لیا ... اور بھابھی کو چودنے لگا.
میرا دھیان اس دوران بھابھی کے چہرے طرف گیا ہی نہیں ... بھابھی کے منہ سے گرراهٹ اور چیخیں عجیب سی لگ رہی تھی.
مجھے بھی ہوش کہاں تھا ... میں تو اچھل اچھل کر زور زور سے اسے چودنے میں لگا تھا. بھابھی اور میں ... آنکھیں بند کرکے رگينيو کا لطف لے رہے تھے.
"چود حرامی چود ... زور نہیں ہے کیا؟ دے اندر زور کی ایک دھکا ... فاڑ دے سالی بھوسڑي کو ..."
اس میں اب غضب کی طاقت آ گئی تھی. اس نے مجھے اٹھا کر ایک طرف گرا دیا اور اپنے چوتڑ ابھار کر گھوڑی سی بن گئی.
"لے بھیا ... اب مار دے میری گانڈ ... مست مارنا سالی کو ... چل چل جلدی کر ..."
میں جلدی سے اٹھ کر اپنی پوزیشن بنا کر اس کے پیچھے سیٹ ہو گیا. اف کتنا موہک سوراخ تھا ... پیارا سا ... چدنے کو تیار تھا. میں نے اپنے لنڈ کا سپاڑا اس پر رکھا اور زور لگایا.
اس کا چھید پھیلنے لگی ... سپاڑا اندر فستا چلا گیا. فےلتے فےلتے اس سوراخ تو میرے ڈنڈے کے سائز کا فیل گیا. لنڈ بنا کسی ہچکچاہٹ کے اندر دھستا چلا گیا. میرے لنڈ میں ایک تیز میٹھی سی چبھن ہونے لگی. اندر باہر کرتے ہوئے لنڈ مکمل اندر اندر تک چلا گیا.
بھابھی کی ہنکار تیز ہونے لگی تھی. میرا لنڈ بھی تیز چلنے لگا تھا ... اور تیز ہوتا گیا ... پسٹن کی طرح میرا لنڈ اسکی گانڈ میں چل رہا تھا. اس کی دونوں بھاری سی چوچیاں میرے ہاتھوں سے مسلي جا رہی تھی ... خوب زور زور سے دبا رہا تھا میں نے بھابھی کی چوچیوں کو.
پھر تو بس کچھ ہی دیر میں میرا تن ... اكھڑنے سا لگا تھا. میں بس جھڑنے ہی والا تھا.
"بھابھی ... سنبھل کر ... میرا تو ہونے والا ہے ...!"
"بھیا ... میرے مکھ میں جھڑنا ..." یہ کہانی آپ انترواسناكم پر پڑھ رہے ہیں.
"تو آجا ... بھابھی ... جلدی ... اهه ... جلدی ...!"
میں نے اس کی گانڈ سے اپنا لنڈ باہر نکالا ... بھابھی نے پلٹ کر اپنا منہ کھول لیا ...
میں نے دبا کر لنڈ کو اس کے دونوں ہونٹوں کے درمیان گھسا دیا ... پھر محبت محبت کی وہ پہلی پیاری سی دھار ... اففف نکل ہی پڑی.
پہلی پچکاری مکھ کے اندر تک گلے تک ... چلی گئی ... پھر پچكاريو کے طور پر میرا لنڈ ویرے اگلتا ہی چلا گياتبھي میرے مکھ سے ایک چیخ سی نکل گئی- اس کی جیب سانپ کی طرح دو حصوں میں ویبکت تھی، اس کے دانتوں کے دونوں جبڑے باہر نکل آئے ... اس کے چہرے کا رنگ تیزی سے بدل رہا تھا. آنکھیں سرخ سرخ اندر کی طرف دھسي ہوئی مجھے گھور رہی تھی.
بھابھی کا جسم جیسے ڈھیلا ہوتا جا رہا تھا. میں اچھل کر اس سے دور ہو گیا ...
تبھی دیوار کی گھڑی نے دو بجنے کا اشارہ دیا. میرے ہوش اڑ گئے ... یہ تو اسی شیشی کا اثر تھا.
بھابھی کا جسم اچانک مجھ الگ ہو گیا اور چھت سے جا ٹکرایا.
مجھے جیسے کسی انجان طاقت نے اٹھا کر دور فیںک دیا.
مجھے آدھا ہوش تھا اور مجھے پتہ تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے ... میں لپک کر کونے پر جا کر اس شیشی کو بند کر دیا، پھر اٹھ کر باہر کی جانب بھاگا پر سیڑھیوں سے پھسل کر میں تاریکی کی گهنتا میں کھوتا چلا گیا.
مجھے جب ہوش آیا تو میرے جسم میں جگہ جگہ چوٹیں تھی ... پاؤں کی ایک ہڈی ٹوٹ چکی تھی ... چہرے پر جیسے جلنے کے نشان تھے.
"آپ کی بھابھی نہ ہوتی تو آپ کو کون بچاتا؟"
"کیا ہو گیا تھا بھیا آپ ... خدا کی مہربانی ہے آپ کو کوئی سيريس چوٹ نہیں لگی." بھابھی نے اپنی تشویش کا اظہار کیا.
"پر یہ سب اچانک کس طرح ہوگیا؟"
تبھی بابا کی ہنسی سنائی دي- آپ سب پلیج باہر چلے جائیں ...
"بابا ... کیا یہ؟"
"جی ہاں ... میں نے کہا تھا نہ کہ یہ ایک گھنٹے ہی کام کا ہے ... پھر بھی غنیمت ہے کہ تم نے وقت پر شیشی کو بند کر دیا ... ویسے مجا آیا نا ...؟"
"بابا ... مجھے معاف کر دینا ... اب ایسا کبھی نہیں کروں گا ..."
"یہ تو سوچنا ہی گناہ تھا ... پر تشویش کی کوئی بات نہیں ہے ... آپ کی بھابھی کو کچھ بھی یاد نہیں رہے گا ... آپ کو صرف اپنا دماغ صاف رکھو ... بھابھی کو ماں کی طرح سمجھو ... اب کفارہ کے لئے تیار ہو جاؤ ... روز سویرے مٹھٹھ مارو، ساری من کی گندگي کو نکالو اور دل کو صاف کر لو ... پھر روز کسی بھوکے کو کھانا کراؤ اور پھر تم کھانا کرنا. اتنا بہت ہے تمہارے لئے. "
بابا ہنستے ہوئے چلا گیا. مجھے یقین نہیں ہوا کہ آج کے دور میں بھی یہ سب جادو چلتا ہے ... زندہ ہے.
"نہیں ... نہیں یہ میرے من کا بھرم ہے ..." تبھی میری ٹانگ میں درد اٹھا ...
"لیٹے رہو جو ... کوئی برا خواب دیکھا تھا کیا؟" میری پريتما، میری جان ... دویا میرے پاس بیٹھی ہوئی مسکراتے ہوئے میرے بال سہلا رہی تھی.

آٹھویں کہانی
ریٹا كانوےٹ اسکول کی انتہائی جدید خیالات والی سےكسي طالبہ تھی. ریٹا امےريكن ماں اور بھارتی باپ کی اکلوتی، خوبصورت، ہموار دوغلی اولاد تھی. گول معصوم چہرے پر ریشمی بال، خوب ابھری ہوئی کشمیری سےبو سی لال لال گالے، موٹی موٹی گیلی نشیلی اور بلی سی ہلکی بھوری بللوري آنکھیں، رس بھرے سرخ اچكے ہوئے موٹے ہونٹ جیسے لليپوپ کو چوسسا مارنے کو لاليت ہوں.

سکیٹنگ ریٹا کی من پسند گیم تھی. اس سے ریٹا کا بدن بھرپور سڈول اور كڑيل ہو گیا تھا. اس چھوٹی سی عمر میں ہی ریٹا کا گورا چٹا تندروست بدن حد سے زیادہ گدرا گیا تھا. ھٹی کریم سی جلد، مکھن میں سندور ملا رنگ، لمبی پتلی گردن، کھڑے کھڑے تراشے چچچے، پتلی کمر، پچكا پیٹ، ہیرے سی چمکتی خوب گہری ناف، دائیں بائیں پھیلے ہپ، گول گول ابھرے بھاری چوتڑ اور لمبی سڈول مرمري ٹاںگیں. کل ملا کر ریٹا تازی تازی جوانی کے بوجھ سے لدی پھدي ٹنا ٹن اور پٹاكا لونڈیا تھی.

ریٹا کی طوفانی اور قاتل جوانی کی خوبصورتی کا کوئی حساب کتاب نہیں تھا. حسین ریٹا کے حسن اور عذاب جوانی نے اسکول اور محلے میں گدر مچا رکھا تھا. ہر ایک جوان ریٹا پر لائن مار دیتی تھی. پر ریٹا نے جگہ جگہ پر اپنی شراپھت کے جھنڈے گاڑ رکھے تھے. جدھر سے ایک بار نکل جاتی لڑکے پپو پکڑ کر ہاے ہاے کر اٹھتے تھے.

میگنا پھوكس، پامےلا اےمڈرسن، قطرینہ کیف، لذا رے اور ایشوریا رائے کی جوانی تو ریٹا کی جھاٹ کی دھول کے برابر بھی نہیں تھی، وہ بات الگ ہے کہ 18 سال کی ریٹا کی نادان کچی چوت پر رويے کا نامو نشان بھی نہیں تھا. ابھی تک نادان اور انگوٹھا چوسنے والی ریٹا ٹےڈيبيرو ہی کھیلتی رہی تھی. ابھی تک بیچاری ریٹا کی نادان چوت موتنے کے ہی کام آ رہی تھی.

کچھ دن پہلے ہی نئی نئی جوان ہوئی ریٹا اپنی نئی سہیلی مونیکا سے خوب گھل مل گئی. مونیکا جی بھر کے حسین اور دلپھےك چھوكري تھی. مونیکا بہت شرارتی تھی اور کبھی بھی سکرٹ کے نیچے كچچھي نہیں پہنتی تھی. مونیکا ہمیشہ اپنی چوت پر ہلکا سا روذ، لالی اور لپگلس کا مےككپ کرکے چوت پر چار چاند لگائے رکھتی تھی. مونیکا نے اپنی چوت کو مکھن اور ھٹی کریم کی مالش کر کے اور بھی حسین اور قاتل بنا لیا تھا.

مونیکا سکول میں کلاس، لايبرےري، اسکول بس اور محلے میں اپنی ننگی چوت کا حسن دکھا دکھا کر لڑکوں کو پاگل بنانے اور پٹانے میں استاد تھی. دن میں نہ جانے کتنی بار شرارتی مونیکا اپنے جوتوں کے فيتے بادھتي اور مختلف پوذ بنا بنا کر لڑکوں کو اپنی ننھی چوت سے لشكارے مار مار کر دیوانہ کرتی رہتی تھی. لڑکے گلی کے ٹھرکی کتوں جیسے مونیکا کے آگے پیچھے گھومتے رہتے تھے. مونیکا کی کٹی پتنگ سی جوانی کو لوٹنے کے لیے نہ جانے کتنے لنڈ مونیکا کے چاروں طرف منڈلاتے رہتے تھے.

ایک دن اکیلے میں مونیکا نے ریٹا کو گھر بلا کر جب بليو فلم دکھائی تو بیچاری ننھی ریٹا کا تو دماغ ہی گھوم گیا. ریٹا کے لیے یہ سب کچھ ایک دم نیا اور بہت مزہ تھا. مونیکا نے اپنے پسندیدہ منظر ریٹا کو ريواينڈ کر کر کے دکھائے تو ریٹا نے اپنا سر پکڑ کر سوچا- توبہ توبہ، یہ لڑکیاں کتنی گنڈي گنڈي باتیں کرتی ہیں، اور یہ مرد کتنی بری طرح سے خوبصورت خوبصورت لڑکیوں کو چودا مارتے ہیں. یہ بیشرم چھوكريا اتی بری طرح سے مست ہو کر اپنی چوت اور گاںڈ مرواتي هےكتنے اسٹائل سے پری سی ولایتی چھوكريا لڑکوں کے کیلے سے لمبے لمبے لڈو کو چسڑ-چسڑ کر کے چسسا مارتی ہیں اور پلک جھپکتے ہی لڈو کو اپنی گوری-گوری چوت اور گاڈ میں آسانی سے سٹك لیتی ہیں.

تب مونیکا نے بتایا کہ وہ چنگے چنگے تڑنگے لنڈو کو اپنی ٹانگوں کے نیچے سے نکال کر انہیں دھول چٹا چکی تھی. اس لئے ریٹا کی چوت کے مقابلے میں چدکڑ مونیکا کی چوت پھول سی کھلی ہوئی سی معلوم پڑتی تھی. مونیکا کی چوت پر دلکش چھللي سے سنہری نرم اور چھترايے سے جھانٹوں تھے. مونیکا نے بتایا کی اس اكل لوگوں اور اپنے سے چھوٹے لڑکوں کے ساتھ چھپ چھپ کر چودم-چدائی کا کھیل کھیلنے میں بہت مزہ آتا ہے. كميني مونیکا ہر ماہ نئے عاشق سے چوت مرواتي تھی. مونیکا نے بتایا کہ اب تو وہ دس يچ سے کم لنڈ والے کو گھاس بھی نہیں ڈالتی.

پھر بليو فلم دیکھنے کے بعد مونیکا نے ریٹا سے الٹی سیدھی بےهودي حرکتیں شروع کر دیں. شروع شروع میں ریٹا کو مونیکا کی گنڈي حرکت پر بہت غصہ آیا، پر بعد میں جب شیطانی مونیکا نے ریٹا کی ٹانگوں کو چوڑا کر زبردستی ریٹا کی چوت کو عام کی گٹھلي کی طرح چوسا تو ریٹا موم بتی سی پگھلنے چلی گئی. مونیکا اپنی سانپ سی لمبی لپلپاتي جیبھ سے ریٹا کی چوت کو چاٹنے اور چودنے لگی. کبھی کبھی مونیکا اپنا منہ ٹےڈھا کر ریٹا کی رسیلی درار دانتوں میں دبا کر زور زور سے چوس کر ریٹا کی نا نا کروا دیتی تھی.

مونیکا کے لال لال نےلپالش سے رنگے ہوئے ناخن ریٹا کے گورے گدرايے ہوئے چوتڑوں میں دھسے ہوئے بڑے موہک لگ رہے تھے. ناخنوں کی تیکھی چبھن بھی ریٹا کو عجیب سا مزہ دے رہی تھی.

اب ریٹا کا انکار اکرار میں بدل گیا. تب ریٹا کے ہاتھ اپنے آپ مونیکا کی کھوپڑی پر کس گئے اور اب تو ریٹا کا دل کر رہا تھا کہ وہ مونیکا کو پورا کا پورا اندر سٹك لے. ریٹا کو لگا جیسے مونیکا کا منہ ویکیوم پمپ بن گیا ہو.

جب مونیکا دانتوں سے ریٹا کی چوت نوچنے لگی تو ریٹا مزے سے پاگل ہو اٹھی اور بےشرمي سے اپنی ٹانگوں کو 180 ڈگری پر پھیلا دی. بےهيا مونیکا کے دانتوں کی كچوٹو نے تو ریٹا کو جنت میں پہنچا دیا.

آخر میں ٹھرك سے بدحواس اور پگلاي ہوئی ریٹا مونیکا کو پلنگ پر پٹک کر اس کے چہرے کو اچھل اچھل کر اندھادھندھ اپنی مست چوت سے پیٹنے لگی. ریشم سی ملائم اور گداذ چوت کی مار سے ایک بار تو مونیکا جیسی تشدد چدکڑ لڑکی کی بھی سٹٹيپٹي گم ہو گئی. دھکوں سے، جھٹکوں سے ریٹا کے ریشمی بال ہوا میں اڑ اڑ جاتے تھے اور چچچے ذگلي جانوروں کی طرح اوپر-نیچے، دائیں بائیں اچھل جاتے.

مونیکا کا خوبصورت چہرہ ریٹا کے جوانی کے رس سے تربتر ہو گیا. کںواری ریٹا کی دبی دبی خوشی بھری سریلی چیخیں، كراهٹے اور سسکاریاں سن مونیکا اور بھی پاگل ہو گئی.

چدائی فن میں نپ، وحشی مونیکا نے جنگلی بلی کو قابو کرنے کے لیے جوابی حملے میں ریٹا کی گاںڈ میں اپنی تھوک سے سنی انگلی گھسیڑ کر گول گول گھمانے لگی اور چوت کے دانے کو ہونٹوں تلے دبا کر زبان سے اس پر چما کرنے لگی تو ریٹا کا بینڈ ہی بج گیا.

ریٹا کی چیخوں اور تیزی سے مونیکا سمجھ گئی کہ بس اب لونڈیا كھللاس ہی ہونے والی ہے. پھر تو ریٹا کی بدن کمان کی طرح اکڑ گیا، آنکھیں اوپر کی طرف لڑھک گئی اور کئی چھپاكو کے ساتھ ریٹا کی نئی نویلی چوت بھربھرا کر جھٹکوں کے ساتھ هچچ هچچ کر پانی چھوڑنے لگی. چوداس مستی سے بھاو-وبھور ہوئی ریٹا کی چوت سے رہ رہ کر لطف کرنٹ نکل کر سارے جسم میں دھماکوں کے ساتھ پھیل رہا تھا.

ادھر مونیکا ریٹا کی چوت سے قطرہ قطرہ جوس كچكچا کر پینے کی ناکام کوشش کر رہی تھی پر ریٹا کی چوت تو جیسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بالٹيا بھر بھر کر چھپاك چھپاك پانی پھیںکے جا رہی تھی. دے رےلے پہ ریلا، دے رےلے پہ ریلا.

ریٹا کی چوت کی پچكاريو نے مونیکا کے بالوں اور بستر کی چادر کو ایکدم بھیگی دیا. چدی ہوئی کتیا کی طرح هاپھتي، كاپتي ہوئی اور كرهاتي سی نٹھال ہو ریٹا مونیکا کے اوپر لڑھک گئی.

مونیکا نے تو ابھی کھیل شروع کیا تھا. مونیکا نے زبردستی تیتلی سی پھڑپھڑاتي ریٹا کے چوتڑوں کو ٹیبل ٹینس کے بیٹ سے تابڑ توڑ پیٹا تو ریٹا بھی تشدد چدائی میں یقین رکھنے لگ پڑی تھی. پٹاك-تڑاك، پٹاك-تڑاك کی چوتڑوں پر بیت ٹکرانے کی اونچی آواز اور گاںڈ پر میٹھی میٹھی جلن نے تو ریٹا کو پاگل کر دیا. پھر تو مستی میں آ کر ریٹا نے اپنی ظالم گوری-گوری گاںڈ کو ہوا میں اور بھی اوپر اچكا دیا.

مونیکا گالیاں دیتی ہوئی ریٹا کے ھٹی کریم سے چوتڑوں کو پیٹ پیٹ کر گلابی سے سرخ اور سرخ سے سرخ کر دیے تو ریٹا کو تھوڑی تسلی ملی.

پھر چھينال مونیکا نے ریٹا کی چوت اور گاںڈ کو ایک بار پھر سے کولڈ کریم چپڑ کر چھ يچ کے بینگن سے جبرا چود دیا تو ریٹا کو دن میں تارے نظر آ گئے.

ریٹا نے شرماتے اور مسکراتے ہوئے مونیکا کو تھےنك یو کہا اور چوتڑ مٹكاتي اور گنگناتي ہوئی گھر کو چل دي- "دل کا پنچھی بولے كو كوه كو كو كوه كو"

دو دن تک بینگن سے چدی ہوئی ریٹا کی چوت اور گاںڈ میں سرسراهٹ ہوتی رہی تھی. ٹیبل ٹینس کے بیٹ سے تابڑ توڑ پامال چوتڑوں میں میٹھی میٹھی جلن بھی بھرپور مزا دے رہی تھی. بلیو فلم دیکھ کر بینگن کی چدائی سے اور مونیکا کی باتوں سے ریٹا کو چوت اور لنڈ کا مزیدار کھیل سمجھ آ گیا تھا. مونیکا کے ساتھ رہ کر ریٹا بھی خوب گالیاں دینا بھی سیکھ گئی تھی. اب تو ریٹا مونیکا کی چھترچھايا میں اپنی جوانی کو دونوں ہاتھوں سے لٹانے کو آتر ہو اٹھی. رہ رہ کر اس ننھی نويوونا کے سكومل اعضاء میں کشیدگی و کساو آ جاتا اور کوری پھددي کسی پھڑپھڑاتے لنڈ کو گپكنے کیلئے كلبلا اٹھتی تھی.
پھر ریٹا کبھی کبھی پڑھنے کے بہانے اپنے پڑوسی راجو سے ٹشن مارنے اور ٹھرك بھورنے چلی جایا کرتی تھی. کئی بار اکیلے میں آپس میں مذاق اور چھیڑ چھاڑ کرتے دھيگامشتي اور لپٹا چمٹی میں راجو کچی کلی کے گھسسے مار کر اوپر اوپر سے ٹھرك پوری کر لیتا تھا. ریٹا کو بھی اپنے اعضاء راجو کے جسم سے رگڑ کر بہت سکون اور خوشی ملتا تھا. ریٹا کے جانے کے بعد ٹھرکی راجو آنکھیں بند ریٹویٹ سےكسي ریٹا کے بارے سوچ سوچ کر گھنٹوں مٹھ مار دیتی رہتا تھا.
اکثر راجو ریٹا سے جان بوجھ کر دھيگامشتي میں شکست جاتا تھا. ہارنے کو بعد جب ریٹا راجو کے اوپر ہوتی تو گھوڑا-گھوڑا کھیل كھلنے سے نہیں چوكتي تھی. راجو کو پیٹھ کے بل چت کر راجو کی پتلون میں پھنسے ہوئے پپو کو جب اپنی چوت سے پیٹتی اور رگڑتي تو راجو شداي ہو جاتا تھا. راجو کے دھکوں سے ریٹا کے سنترے پاگلوں کی طرح اچھل اچھل پڑتے تھے. ریٹا کا چہرہ انترواسنا سے تمتما اٹھتا تھا. راجو اس پوج کا فائدہ اٹھا کر ریٹا کی گدراي رانوں پر ہاتھ فیر دیتا تھا. کبھی کبھی ریٹا ٹھرك میں خود ہی راجو کے ہاتھوں کو کھینچ کر اپنی چکنی سگمري رانوں پر رکھ دیتی تھی. اس خشک چدائی سے کئی بار تو راجو کا پتلون میں ہی چھوٹ جاتا تھا.
بهتےري بار رگڑم رگڑائی اور ٹھرك کے مزے سے ریٹا کی بھی آنکھیں مد سی جاتی تھی اور سسکاریاں بھی نکل جاتی تھی.
کبھی کبھی کشتی کشتی کھیلتے راجو بھی ریٹا کے گداج بدن کو بستر پر دبوچے لڑھكيا لگا کر گھسسے مار لیتا تھا. کبھی کبھی ریٹا راجو سے ڈاکٹر-ڈاکٹر، ٹكلگ-ٹكلگ اور تلاشی-تلاشی جیسے سےكسي کھیل کھیلتی تھی. ٹيكلگ کرتے کرتے راجو ریٹا کے چوتڑوں اور رانوں کی چکناہٹ اور گدراهٹ کا مزہ لینے سے نہیں چوكتا تھا. جب راجو کے ہاتھ ریٹا کی چوت کے پاس پہنچتے تو سرسراهٹ سے ریٹا کی لیچی سی لال چوت کے روگٹے کھڑے ہو جاتے اور وہ لسلسا اٹھتی.
پھر ایک دن ریٹا راجو کے کمرے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد سو-سو کرنے اٹےچڈ باتھ میں پیوست ہوئی. ریٹا اپنی سکرٹ اوپر اٹھا كچچھي کو سڈول چوتڑوں سے نیچے کھینچا اور انڈین سٹايل ٹايلٹ پر گھٹنے موڑ کر بیٹھتے ہی ریٹا کی چاند سی اجلی چوت اور گاںڈ گھوم کر سامنے آ کر لشكارے مارنے لگی. ایسا لگا جیسے چھوٹی سی مچھلی کے منہ کھول گللوري پان کھا رہی ہو.
پھر سناٹے میں ریٹا کی پھددي نے بڑی زور کی فچچ شی کی آواز سے پیشاب کا زبردست اور زوردار شرلا چھوڑا. انچدي ننھی سی نادان چوت کے رس بھرے ہونٹ آپس میں بالکل چپکی ہوئے تھے. چپکی پھاكو اور بے حد تنگ سوراخ کے سبب ریٹا کی چوت کا ششكارا بھی حد سے زیادہ اونچا اور سريلا تھا. کل کل کرتی پتلی موت کی دھار چكندر سی لال چوت کے منہ سے نکل کر ٹايلٹ میں دم توڑ رہی تھی. بغیر جھاٹو کی موتتي چوت بہت ہی پیاری اور منمہک لگ رہی تھی.
آخر چھبيلي ریٹا کی رسیلی چوت نے چھوٹے چھوٹے پانچ چھ جھجھاكو کے ساتھ موتنا بند کر، ٹپ ٹپ ہیرے سی جگمگاتی بوندیں ٹپکانے لگی. پیشاب سے گیلی چوت اب لش-لش کر شیشے سی چمکنے لگی. ایسا لگا کی کھلے ہوئے گلاب پر شبنم کی بوندیں!
ریٹا بھی جھک اپنی خوبصورت چوت کو نهارا اور ایک ٹھنڈی جھرجھري لے کر ریٹا نے اپنی پیشاب سے بھرا چوت کو دوبارہ گلابی رنگ پولكا بنديو والی كچچھي میں چھپا لیا اور سکرٹ نیچے گرا دی. موت سے ڈبڈباي ہوئی چوت نے كچچھي کو پھٹاك سے گیلا کر کے پاربھاسك بنا دیا.
جب ریٹا ٹايلٹ سے واپس باہر آئی تو راجو کو کمرے میں نہ پا کر ڈھوڈھتي ہوئی سوا والے کمرے میں جا کر دیکھا تو ٹھٹھك گئی. راجو ٹايلٹ کے دروازے میں اب بھی آنکھ لگائے ٹايلٹ کے اندر دیکھ رہا تھا اور جینس کے اوپر سے اپنے لنڈ کو زور زور سے رگڑ اور مسل رہا تھا.
یہ دیکھ کر ریٹا کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی- سالا! ماں کا لؤڑا! لڑکی چود! چوتييا میری چوت دیکھ رہا ہے؟ اور وہ بھی موتتے ہوئے؟
شرم اور غصے سے سرخ، پاؤں پٹكتي راجو کو بغیر بتائے گھر واپس آ گئی.
غصے میں روتے روتے جب ریٹا نے مونیکا کو یہ سب بتایا تو مونیکا کی باچھے کھل گئی. مونیکا نے ایک ہاتھ کی اگلي اور انگوٹھے سے موری بنا اور دوسرے ہاتھ کی انگلی موری کے اندر-باہر کرتی ہوئی بولی اے بھوسڑي کی! شرما نهي
موقع کا فائدہ اٹھا. لوہا گرم ہے، ہتھوڑا مار دے. آج کل تو بہنیں اپنے سگے بھائی کو بھی نہیں چھوڑتی اور سارے بھائی بهنچود ہوتے ہیں. پھر کبھی نہ کبھی تو چوت پھٹتی ہے.
مونیکا نے ریٹا کو راجو سے اپنی فددي مروانے کے لیے اکسا دیا.
اس دن مونیکا کچھ زیادہ ہی مست تھی. مونیکا نے ریٹا کو برہنہ کرکے اس کی چوت کو فٹٹے سے پیٹا تو ریٹا ٹھرك کے مزے اور عذاب سے رو ہی دی. ریٹا کے گورے چوتڑوں رانو اور چوت پر سرخ سرخ لکیریں پڑ گئی اور جب پھر مونیکا نے جلتی ہوئی موم بتی سے گرم گرم موم ریٹا کے چوتڑوں پر ٹپكايا تو ریٹا مزے سے بلبلا کر کسمسا اٹھی.
اب ٹھرك کے پاگل ریٹا کچھ بھی کروانے کے لیے راضی تھی. مونیکا نے ریٹا کی چوت میں انگلی کرتے کرتے ریٹا کے سخت نپل پر کپڑے خشک کرنے والی بالی چٹكيا لگا دی، تو ریٹا کی خوشی کے مارے سریلی كلكاريا نکل گئی.
ٹايلٹ کے واقعہ نے ریٹا کو اس کی ماں کے لؤڑے راجو کی بے ایمان نیت کا پتہ چل گیا تھا. اب راجو کی حرکت سوچ کر ریٹا کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے اور چوت میں چيٹيا سی داخلے لگی. وہ سمجھ گئی کہ راجو اصل میں مہا ٹھرکی اور نمبر ون چودو ہے. بلبل اپنی پھددي کا پٹاكا بجوا کر بھوسڑا بنوانے کو آتر ہو اٹھی. مونیکا نے بتایا تھا کہ لنڈ کی پٹائی ہی پھددي سے چوت، چوت سے بھوسڑي اور بھوسڑي سے بھوسڑا بنتا ہے.
اس سب کے بعد ریٹا راجو کو بھئیا تو کہتی تھی، پر دل ہی دل میں بهنچود کی نظر سے دیکھنے لگی تھی. کئی بار ریٹا نے راجو کو مذاق مذاق میں دوي-لاش باتیں اور الٹے سیدھے اشارے ریٹویٹ، پر راجو ریٹا کو معصوم اور اسکول کی بچی سوچ کر اور ڈر کے مارے ریٹا کی حرکتوں کو نظر-انداز کر دیتا تھا اور اوپر ہی اوپر سے ٹھرك مکمل کرتا رہا.
موقع پا کر ریٹا راجو سے غلط-غلط سوال پوچھتی تو راجو کے پسینے چھوٹ جاتے، جیسے-
لڑکے کھڑے ہوکر پشاب کیوں کرتے ہیں؟
کیا لڑکیاں لڑکوں سے جنسی زیادتی نہیں کر سکتی؟
لڑکے اپنے ددھو کیوں نہیں چھپاتے؟
سہاگرات میں لڑکا لڑکی کیا کرتے ہیں؟
بليو فلم کیا ہوتی ہے؟
سےكسي کا کیا مطلب ہے؟
کیا میں سےكسي ہوں؟
ریٹا کے الٹے سیدھے سوالوں پر راجو بگلے جھانکنے لگتا اور ریٹا کو ڈانٹ کر چپ کروا دیتا.

 


اس دن گھر پر ریٹا کے علاوہ کوئی نہیں تھا، ممی ڈیڈی شہر سے باہر گئے ہوئے تھے. جیسے تیسے ریٹا نے اپنی ممی کو پٹا کر راجو سے کار چلانا سیکھنا شروع کر دیا تھا.

ریٹا باتھ ٹب نہا کر پانی میں آگ لگانے میں مگن تھی. پاخانہ-مل کر نهاتي ریٹا کے دونوں باولے چچچے گلابی گببارو کی طرح پانی کے اوپر تیر رہے تھے. راجو کے بارے سوچتے ہی ٹھرك کے مارے ریٹا نے اپنی چوت میں کنگ سايج صابن کی ٹكيا گپك لی. نوجوان راجو ہیںڈسم اور اسمارٹ لڑکا تھا. راجو کا لمبا قد، چوڑا چکلا سینہ اور پٹھوں سے بھرپور بدن یاد کر ریٹا پانی میں پنيا گئی. تیر سی تیکھے شاور کی تیز دھار چوت پر پڑنے سے ریٹا کی چوت اور بھی گدگدا گئی. بدن میں کشیدگی و کساو بڑھنے سے جوانی کی دكھن اور ٹیس بھی بڑھ گئی.

آج تاجي تازہ نہائ ریٹا نے راجو بھئیا کو پٹانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی تھی. شرارتی ریٹا نے اپنی چار سال پرانی اسکول ڈریس کی کالی شارٹ سکرٹ اور سفید شرٹ پھنسا کر پیروں میں اونچی ایڑی کے سینڈل پہن لئے.

ریٹا نے اپنی مست جان لیوا شہوانی، شہوت انگیز جوانی کو شیشے میں نہارتے ہوئے پنجو کے بل اچك کر گوری-گوری باہیں اوپر اٹھا شیشے کو تڑکا دینے والی اںگڑائی. توڑی تو چٹاك چٹاك کی آواز سے ریٹا کی تنگ ٹےرالين کی شرٹ کے ٹچچ بٹن کھلتے چلے گئے.

افف! کیا نظارہ تھا! ریٹا کی جوان ٹھوس گولائیاں بغاوت پر اتر آئی اور دونوں شرارتی كوارے کبوتر شرٹ سے دائیں-بائیں باہر جھانک کر گٹر-گو گٹر-گو کرنے لگے. چچچو نے ریٹا کی شرٹ کو چؤڑا کر 'وی' گلے کو 'یو' بنا دیا تھا.

چوچو کے شيمل سربراہی ایسا لگتے تھے جیسے ماربل کے چبوترو پر كچنار کی کچی گلابی کلی چپکی ہو.

ٹھرکی ریٹا نے اپنے بغاوت پہ اتر آئے چوچو کو باہر کھینچ کر اسے بے رحمی سے مسلنے لگی. چوچے مستی میں چیں چیں کر چگھاڑ اٹھے.

ہیلو! ماں كتتا مجا آ رہا ہے! ریٹا نے اپنی گلابی-گلابی چھوٹی چھوٹی نیم سی نيموليو سے نپپلو کو اپنی تھوک سے سنی انگلی اور انگوٹھے میں گھمانے سے کمسن بدن جھنجھنا اٹھا اور چوت پنپنا اٹھی.

مونیکا نے بتایا تھا کہ چوت اور چچچو کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے.

ریٹا کی سےكسي سڈول کیبری ڈاسرو جیسی لمبی و ہموار ٹانگوں نے تو ہاے ہاے کر رکھی تھی. ہائی ہیل سے ریٹا کی گوری گداج چنار جاںگھیں اور سڈول پڈليا اور بھی ابھر آئی اور جیسے "نمشكار! آئیے اور چود ڈاليے!" کا دعوت دیتی لگتی تھی.

گدراهٹ سے مانسل گھٹنوں پر منشیات فورس پڑے ہوئے تھے، بے حد پتلا اور پچكي ہوئی کمر کے نیچے مست گول گول چوتڑ اور چوتڑوں میں دبی پھنسی کنواری گانڈ میں چيٹيا سی رینگ رہی تھی. بیچاری نام محض کی ننھی سکرٹ ریٹا کی اپھنتی و ابلتي شعلہ جوانی کو روکنے میں ناکام تھی.


آپ کی اسکول سکرٹ اوپر اٹھا کر سرخ سرخ نايلون کی كچچھي میں اپنے كسمساتے بلوغت کو نہارتے ہی ریٹا کی آنکھوں میں لال ڈورے كھچ گئے اور گال تمتما اٹھے. مکمل بدن پپی موٹی! توبہ توبہ! کیا حسن تھا، کیا شواب تھا اس لونڈیا کا، بالکل تازہ تازہ کھلی سوڈے کی بوتل کی طرح. اپنے آتش فشاں سے سلگتے اور پھٹ پڑنے کو تیار بلوغت کو دیکھتے ہوئے اپنے نچلے ہونٹ کے کونے کو دانتوں میں دبا کر خود کو آنکھ مار دی اور پھر اپنی ہی بے شرمی پر خود ہی شرم گئی.

لير سی نام-محض کسی كچچھي ریٹا کی روم-مبرا ملائی سی گوری گدراي پھددي اور گداج چوتڑوں میں دھسي ہوئی تھی اور چلتے وقت ریٹا کو بری طرح گدگدا دیتی تھی.

ایکدم شیشے سی ہموار اور نادان چوت کی گلابی پھاكے كچچھي سے باہر جھانک رہی تھی اور چوت ایک دم سے پچچ-پچچ گیلی تھی.

ٹھرك کے مارے ریٹا کی جوان فددي چھوٹی روٹی کی طرح پھول گئی، پنيياي ہوئی چوت کا چیرا جھلملا اٹھا اور ریٹا کا لشلش کرتا بدمعاش کشمش سا دانا ہؤلے ہؤلے اكڑتا چلا گیا. اب ریٹا کا بھگناسا کسی چھوٹے شرارتی بچے کی لللي کی طرح چوت کی بالکونی سے باہر جھانکنے لگا.

انجانے میں ہی ریٹا کی پھول سی گوری گوری انگلیاں اپنے شیطان ننگي چوت سے الجھ گئی. غصے میں بپھري گیلی چوت پچچ پچچ کرکے پانی چھوڑنے لگی. دانے کو چھوتے ہی ریٹا کی چوت میں پھلجھڑيا سی چل پڑی اور گانڈ گدگدانے لگی. ریٹا اپنی ٹانگوں کو چوڑا ریٹویٹ، چوت کو گٹار جیسے بجانے لگی.

ریٹا نے اپنی مرمري ٹانگوں کو بھینچ کر چوت کو شات کرنے کی ناکام کوشش کی، پر اب پانی سر کے اوپر سے نکل چکا تھا. ریٹا اب بالکل ونیلا سفٹي سی پگھل چکی تھی اور اس کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی.

آخر طیش میں آکر ریٹا نے اپنی اسکول سکرٹ بالکل اوپر اٹھا كچچھي کو گھٹنوں تک کھینچ کر اپنی ننھی سی چوت میں اںگلی سرگرم دی. ریٹا نے انگلی 'پچك' کی گیلی آوازیں کرتی سوراخ مےجڑ تک اندر گھس گئی. ریٹا کی چوت کی دیواریں ریٹا کی انگلی پر بری طرح سے کس گئی اور انگلی کو چوسنے لگی.

ریٹا بدبدا اٹھي- آہ ممی! سی! سالی تو مجھے بہت ستاتی ہے! چوت کی پھاكے دائیں بائیں فیل گئی. اس حالت میں ریٹا کی نازک چوت کسی گدھے کے بچے کا لنڈ کا کچومر نکال کر اس کا گرور توڑ سکتی تھی. آج تو ریٹا کسی بھی پہلوان کے لؤڑے کو اپنی چوت کی نیبو نيچوڑني میں نچوڑ کر لؤڑے کو رسسا بنا سکتی تھی.

ہؤلے ہؤلے ریٹا انگلی سوراخ کے اندر-باہر کر پھچ فچ کی آواز سے اپنے آپ ہی اپنی چوت چودنے لگی. شاید چوت بھی 'ماں چود' اور 'بہن چود' کی گالیاں نکالنے لگی تھی.

مونیکا ٹھیک کہتی تھی 'اگر انگلی سے چوت مارنے میں يتتا مزا آتا ہے، تو سچی-مچی کا گرم اور موٹا لنڈ تو دن میں تارے دکھا دے گا.

یہ سوچ کر وہ زور زور سے اپنی چوت پھےٹنے لگی. چوت نے اب مست مورنی کی مافك اپنی ملائم پكھڑيا پھیلا دیں. لتف سے ریٹا کی چوت کے دونوں پتے كپكپا رہے تھے. پٹائی سے گوری چوت گلابی سے لال ہو چلی تھی.

ریٹا نے اپنی ٹھوس گولائیوں کو بے رحمی سے مسل اور رگڑ کر لال کر لیا. گیلی چوت کی پھچر-پچر، ریٹا کی مدھر يسس يسس سسکاریاں اور بهكي بهكي بے ترتیب سانس کمرے کے ماحول کو رنگین بنانے لگی. پیاسی ریٹا کا منشیات بلوغت، ہوس کے سمندر میں هچكولے کھانے لگا.

اتیجنا کے مارے ریٹا کی آنکھیں اوپر کو لڑھک گئی اور پیٹ اندر کو پچك گیا. بغاوت پر اتر اے چچچے اٹھك-اجلاس لگانے لگے. ہر ایک جھٹکے پر ریٹا چوچچے ایسے تھرتھراتے جیسے ان میں پارا بھرا ہو. اپنے ہی چچچو کو پھولتے پچكتے دیکھ کر ریٹا کی کام پيپاسا داوانل سی بھڑک اٹھی. ایک ہاتھ سے اپنا چچچے کو اوپر اٹھا اور منہ موڑنے کر ہوںٹوں میں لے کر چملا دیا.

بیچ بیچ میں رک رک کر ریٹا اپنی کیچڑ ہوئی چوت میں سے انگلیاں نکال کر چوت کا ہلکا نمکین پاين-ایپل جوس کسی گرسنہ بلی کی طرح چسڑ-چسڑ کی آواز سے چاٹ لیتی تھی. زکام لگنے کی وجہ ریٹا کی جگمگاتی چوت پانی چھوڑ کر، اپنی پڑوسن گانڈ کو تربتر کر رہی تھی. جب ریٹا انگلیاں اس کی ننھی چوت کے اندر جاتی تو چوت کی كساوٹ کی وجہ سے پانی کی پچکاریاں سی نکل پڑتی. واہ، کیا عذاب نظارہ تھا.

"ہاے پتہ نہیں کب چدیگی یہ نگوڈي ماں کی لوڑي میری چوت!" بدبدا اٹھی ريٹا- کاش، آج کوئی مادرچود میری كمرتوڑ چدائی کر دے اور میری مخمل سی ریشمی گانڈ پھاڑ کر میری چكاچك جوانی کے کس بل نکال دے. کوئی متوالا اپنا مست پھنپھناتا ہوا لنڈ دونوں ٹٹٹو سمیت میری انچدي چوت میں پیل کر پھاڑ ڈالے اور بھوسڈا بنا دے. مجھے چوپايا بنا کر میری پوني ٹیل کو پکڑ کر سڑک چھاپ شہوانی، شہوت انگیز کتیا کی طرح سڑک کے چوراہے پر چود دے. میری نہ نہ کرنے کے باواجود بھی مجھے پکڑ کر پیٹ پیٹ کر بے رحمی سے گانڈ کے چیتھڑے اڑا دے اور چوت کی چندي چندي کر دے، میرا پور-پور کلک دے اور میرے نرم بدن کو روڈرولر کی طرح روند کر رکھ دے.
بڑی ادا سے ریٹا نے بہت لاهپرواهي سے اپنی سڈول پنڈلی کو سكوڑ کر ماسومييت سے پاؤں کے ناخنوں پر نےلپالش لگانے لگی. کالی سکرٹ شیشے سے گورے چکنے پٹوں سے سركتي چلی گئی اور ٹيوب لائٹ میں ریٹا کی لال پیںٹی کی اوٹ میں سے ریٹا کی بچی سی لرجاتي چوت كچچھي کے پیچھے سے راجو کو دیکھنے لگی. ریٹا کی ٹائیٹ پیںٹی چلنے کی وجہ سے اور ٹھرك کے جوس سے اکٹھی ہو کر چوت اور چوتڑوں میں گھس کر دبک سی گئی تھی. گلابی چوت کی اکڑتی مکھن سی اجلی پھاںکوں کا حسن دیکھ راجو کے لن نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا تھا. راجو کے پاس پڑی گدی سے لنڈ کو چھپا کر ہاتھ سے لنڈ کو رگڑ کر شانت کرنے لگا.
اوپر سے ریٹا نےلپالش کی ٹچگ کرتی ہوئی فحش گانا گانے لگی- ہیلو جاگی بدن میں شعلہ، سييا تونے یہ کیا کر ڈالا!
ریٹا کی چوت کا چیرا ایکدم چكدر سا سرخ اور جھلملا رہا تھا. شرم ریٹا اپنی پھددي کی پھاںکوں کو بھیںچنے کھولنے لگی تو ریٹا چوت کے اندر کی نرم و نازک پتیاں تیتلی کے پنکھوں سی بند اور کھلنے لگی. چوت ایسے لگ رہی تھی جیسے ننھی سی مچھلی جگالي کر رہی ہو. لال لال چوت راجو کو كچچھي کے پیچھے سے چھوٹی شرارتی لڑکی کی طرح لکا چھپی کا کھیل سا کھیل رہی تھی.
"بھئیا میری لال لال اچھی لگ رہی ہے نا؟" راجو کی آنکھوں کو اپنے ننگے شواب پر چپکی دیکھ ریٹا شرارت سے تھوڑا ٹھہر کر بولی، "نےلپالش!"
اور کھلکھلا کر ہنس دی.
راجو نے آج پہلی بار ریٹا کی چوت کو اتنے قریب سے دیکھا تو راجو کو جیسے لکوا ہی مار گیا. راجو هڑبڑا کر ریٹا کے پاؤں پر نظر ٹكاتا تھوک نگلتا بولا اوہ، جی ہاں! جی ہاں، اچھی ہے، لال لال وہ وہ! "
چھينال ریٹا راجو کی پتلی حالت دیکھ پھر کھلکھلا پڑی. تبھی نےلپالش لگانے کے بعد ریٹا نے اپنے پنجو کے بل اچك کر شاندار دل دہلا دینے والی اںگڑائی. توڑی. چٹاك چٹاك کی آواز سے ریٹا کی کسی شرٹ کے بٹن کھلتے چلے گئے. یہ دیکھ راجو کی آنکھیں لال ہو گئی اور لنڈ نے كچچھے میں دھمال مچا دی.
راجو کی حالت پر من من مسكوراتي ماسومييت سے بولی- بھئیا، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟
یہ کہہ کر ریٹا راجو کے ماتھے پر ہاتھ لگا کر بايا چچچا راجو کی چھاتی میں چبھوتي دھم سے راجو کی گود میں بیٹھ گئی. راجو کا گلاس جیسا لنڈ ریٹا کے چوتڑوں کے نیچے دبتا چلا گیا. ریٹا اپنے چوتڑوں کو دائیں بائیں ہلا کر راجو کے اكڑے لنڈ کو ٹھیک سے چوتڈوں کو بيچو بیچ رکھ کر راجو کے لنڈ کی سختی کا مزہ لینے لگی.
اب ریٹا راجو کے لنڈ کی گرمی سے اپنی گانڈ کو سیک کر دیوانی سی ہونے لگی. راجو کی حالت اب بد سے بدتر ہو گئی. راجو بات بنا کر سر کو پکڑ کر بولا "ہاں بچے، وو وو، بس یوں ہی تھوڑا تھوڑا سر میں درد ہے، چلو کار چلانے چلیں."
"ارے نہیں بھئیا آپ نے ابھی تک تو دیکھی کہ میری اب بالکل گیلی ہے،" حرامی ریٹا ہلکے سے آنکھ دبا مسکرا کر بولی.
"کیا؟" راجو تقریبا ہانپتا سا بولا.
"بھئیا، میری نےلپالش اور کیا! آپ نے کیا سمجھا؟" كميني ریٹا ترچھی نگاہوں کے تیر چلاتی بولی اور راجو کی حالت پر كھلكھلا کر ہنس پڑی. لؤڑے کے کشیدگی سے مجبور راجو نے کسمسا کر گودی میں بیٹھی ریٹا کے کھینچ کے خشک گھسسا مار دیا.
ریٹا اپنی نےلپالش کو خشک کرنے والی کے بہانے اپنی سےكسي گوری گداذ ٹانگوں کو ہلانے لگی. اس حرکت سے ریٹا کی رسبھري گانڈ راجو کے کیلے کو بری طرح سے گدگدانے لگی. لنڈ اب مکمل اکڑ چکا تھا اور پتھر سا سخت ہو کلچر متاثر اٹھا. حرامزادی ریٹا بھی لوڈياباذ لڑکے کے لؤڑے کی میٹھی میٹھی چبھن کا آسمانی خوشی لے رہی تھی.
ریٹا کو معلوم تھا کہ راجو اسے بچی سمجھتا ہے اور چودنے سے ڈرتا ہے. ریٹا بات آگے بڑھاتی راجو کے کانوں میں پھسپھسا کر بولی- اے بھئیا، جب تک میں گیلی ہوں، تب تک کچھ کھیلتے ہیں!
"کیا کھیلیں بیبی"؟ راجو جوان ریٹا کو باہوں میں بھيچتا سا ٹھرك میں كاپتا سا بولا.
"کوئی مذاق اور مست کھیل جو مجھے نا آتا ہو اور اچھا لگتا ہو!" ریٹا بھی اپنی شاندار پھولے ہوئے گببرو کو راجو کی چھاتی سے رگڑتي آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر بولی. اب ریٹا سرعام بےشمر ہو اپنے چوتڑ راجو کے کھڑے لنڈ پر آگے پیچھے گھسنے لگی.
"کون سا کھیل بچے؟" راجو ریٹا کی اسے باہوں میں اور زور سے بھيچتا البےلي ریٹا کی مخملی رانوں کو سہلاتا بولا.
ریٹا شرماتي سكچاتي بولی- بھئیا، کیا آپ بہت زیادہ گڈي گڈي باتیں کرنی آتی ہیں؟
"بے بی، میں سمجھا نہیں!" راجو انجان بنتا اور ریٹا کے چوتڑ مسلتا ہوا بولا.
ریٹا اور بھی شرماتي بولی- بھئیا، جیسا گڈي پكچرو میں ہوتا ہے، لاليپاپ لاليپاپ ٹائپ!
"کیا مطلب، تم نے بلیو پکچر دیکھی ہوئی ہے؟" راجو کے دماغ میں جیسے کسی نے هتھوڑا مار دیا ہو.
ریٹا اور بھی زور سے شرماتي سكچاتي بولی- "يےس بھئیا، اپنی سہیلی کے گھر پر، پر بھئیا آپ کسی کو بتانا نہیں پلیز.
ریٹا کی اپیل سن کر راجو کا ٹھرك کے مارے برا حال ہو گیا. چھچھوري ریٹا کے ارادے سے بے خبر راجو تو اوپر اوپر سے ہی ٹھرك مکمل کرنے کے چکر میں تھا بیبی، اگر کسی کو ہماری گڈي گیمز کے بارے پتہ لگ گیا تو؟
راجو ریٹا کے من کو ٹٹولتا بولا.
ریٹا راجو کے گال پر گال رگڑتي ہوئی پھسپھساتي اور شرماتي بولی- بھئیا، میں کسی کو نہیں بتاوگي اور ہم گھر پر بالکل اکیلے ہیں اور دروازے اور کھڑکیاں بھی تو بند ہیں اور بھئیا، ویسے بھی اب میں بچی تھوڑے ہی ہوں.
یہ سنتے ہی راجو کا لنڈ بری طرح سے پھڑپھڑا اٹھا.
ریٹا بڑے ہی بھولےپن سے بولی- پتہ ہے، اب ممی مجھے سکرٹ کے نیچے پیںٹی نہ پہننے پر ڈاٹتي ہے اور کہتی ہیں کہ اب میں بڑی ہو گئی ہوں. بھئیا کیا اب میں سچ مچ بڑی ہو گئی ہوں؟
"اچھا دیکھیں تو تم كتتي بڑی ہو گئی ہو؟" راجو نے ہاتھ ریٹا کی ریشمی رانوں کو سہلاتے سہلاتے اوپر سركانے لگا، لیکن حرامی ریٹا نے اپنی رانوں کو بھینچ کر ہاتھ کو منزل تک پہنچنے سے روک دیا. ریٹا کو راجو کو ستا کر خوب مجا آ رہا تھا پر ریٹا کی سانسیں بھی اب تیز ہو گئی تھی.
"کیوں کیا ہوا؟" راجو ہموار ریٹا کی سڈول رانوں کی گدراهٹ کا لطف لیتا ہوا بولا.
"بھئیا! کچھ کچھ ہوتا ہے!" هاپھتي ریٹا اپنی گوری باںہوں کا ہار راجو کے گلے میں ڈال کر مدبھری نگاہوں سے راجو کو تاكتي اور مدهوشي میں سرسراتي آواز میں بولی.
"دیکھیں کہاں ہوتی ہے یہ کچھ کچھ؟" راجو بولا. یہ کہانی آپ انترواسناكم پر پڑھ رہے ہیں.
"یہاں!" ریٹا اپنے اٹھتے-گرتے چچچو کی طرف اشارہ کر بری طرح شرما کر هاپھتي ہوئی جھٹکے سے راجو سے لپٹتي ہوئی بولی. اب ریٹا کا دل سینے کے اندر بری طرح دھک دھک کر کے دھڑک رہا تھا.
"ذرا دیکھیں تو!" یہ کہہ راجو نے ریٹا کی گلے سے باہر ابل پڑ رہے ممے کو پکڑ کر جوش میں آکر زور سے دبا کر ریٹا کی لاوارث جوانی کی سختی کا مزہ لینے لگا.
"اوي ما بھ-ای-یا آہ كتتتي زور سے دبایا ہے، آپ بڑے كھچرے ہو!" ریٹا کے ہونٹوں پر دبی دبی خوشی بھری چیخ سی اگل پڑی.
راجو ریٹا کے پیاسے مموں کو برابر مسلتا رہا اور پیاسی مستاي ہوئی ریٹا راجو کی آنکھوں میں آنکھوں ڈالے ہوںٹوں میں انگلی دبائے شرماتي سی چچچے كھچواتي اور دبواتي چلی گئی.
"سی چھوڑو دو بھئیا! اوچ میں تو آپ کی بہن جیسی ہوں، اوي کیا کرتے ہو بھئیا میں تو جاتی ہوں، ہای ممی اوہ ہیلو اپھ بہت مجا آ رہا ہے، دباييے سی اور زور سے آہ بھئیا مت کرو یہ سب آ اوہ اپھ! "اوپر اوپر سے ریٹا راجو کا ہلکا ہلکا مخالفت کر ہاتھ ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی. راجو کے لنڈ کے عشق میں باولی ہوئی ریٹا کی ہاں ہاں اور نہ نا نے راجو کو پاگل سا کر دیا تھا. ریٹا کے چھاتی اب پتھر سے سخت ہو کر اکڑ گئے تھے.
ریٹا نے آج پہلی بار کسی مرد کی گودی میں بیٹھ کر اپنے ممے دووايے تھے. اب ریٹا کا ٹھرك ساتویں آسمان پر تھا، منہ سرخ اور سر گھوم سا رہا تھا. راجو بھی اپنے سے کئی سال چھوٹی لوڈيا کو پاکر حال بے حال ہو اٹھا تھا.
"بے بی پہلے کبھی کسی سے ایسا کروایا ہے کیا؟" راجو نے ریٹا کے پتھر سے سخت نپل کو چٹکی میں مسئلہ تو ریٹا مزے سے دوہری ہو کر چهك کے راجو سے بری طرح سے لپٹتي اور لججاتي بولی- سی نہیں بھئیا پہلی بار کروا رہی ہوں یہ سب! ہیلو یہ آپ کیا کر رہے ہو؟
"مزا آ رہا ہے نا؟" راجو چوچو کو پيستا بولا.
"جی بھئیا، بہت اچھا لگ رہا ہے اور بہت مجا آ رہا ہے. کریے اور کرتے رہیے، میں کسی کو نہیں بتاوگي." ریٹا نیند میں پھسپھساتي سی بولی.
ریٹا نے مستی میں آ کر راجو کو اپنی سڈول ہموار ٹانگوں اور گوری گوری باہوں میں دبوچ لیا اور اپنے نرم حصوں زور كھروش سے راجو کے جسم سے رگڑنے لگی.
"ریٹا پلیز ایک بار اپنی چڑیا تو دکھا دو؟" راجو ریٹا کی سکرٹ میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا.
"ہا بھئیا! آپ تو بہت گڈے ہو؟" ریٹا منہ پر ہاتھ رکھ کر بولی، "ہیلو، بھلا میں آپ کو آپ کی کیوں دكھاو؟ یہاں کوئی نمايش لگی ہوئی ہے کیا؟"
"ارے، مجھے تو صرف یہ دیکھنا ہے کہ تم کتنی جوان ہو گئی ہو؟" راجو کے ہاتھ ریٹا سکرٹ کے نیچے گھس کر ريٹ کے ادھنگے ھٹی کریم سے ملائم چوتڑوں پر ڈھکن کی طرح چپک گئے.
ریٹا کی کمر سہلاتے سہلاتے راجو نے جھٹکے سے ریٹا کی كچچھي کو کیلے کے تنوں سی رانوں سے نیچے سرکا کر گھٹنوں تک کھینچ دی اور پھڑپھڑاتي ریٹا کو زبردستی سکرٹ کے نیچے سے پیدائشی ننگي کر دیا.
ریٹا شرم سے پانی پانی ہو گئی اور انمانے لہجے میں نہ-نكر کرتی بولی- پلیز بھئیا چھوڑیے، مجھے ننگي مت کرو نا! بہت شرم آئے گی!
"ريٹا
، صرف ایک بار دیکھ لینے دو آپ کی پلیج!" پگلايا سا راجو ریٹا کی سکرٹ میں ہاتھ ڈالتا کر فریاد سی کرتا بولا.
"اچھا، آپ جدد کرتے ہو تو میں آپ کو اپنی دکھا دیتی ہوں، پر کوئی زیادہ گڈي بات مت کرنا، اوکے"؟ ننھی ریٹا نے پلکوں کو پھڑپھڑاتے ہوئے بہت ہی بھولےپن سے کہا.
ریٹا نے گودی میں بیٹھے بیٹھے ہی بڑی ہی ماسومييت سے ایک ایک ٹانگ کو سكوڑ کر باری باری اپنی كچچھي میں سے نزاکت سے نکالا تو راجو کی پیاسی آنکھوں کو ریٹا کی دم ننگي چوت کی جھلكي دیکھنے کو ملی.
چوت کو اچھی طرح سے دیکھنے کے لیے راجو نے ریٹا کے گھٹنے کو پکڑ کر زبردستی ریٹا کی کندھوں سے لگا کر ككڑي سا بنا دیا تو ریٹا نے جھٹ سے اپنے چھوٹے چھوٹے پھول سے ہاتھوں کی كٹوريا بنا کر اپنی ٹانگوں کے درمیان چپکا کر ناچیز چوت کے چيرے اور بڈ کے گلابی سوراخ کو چھپاتی بولی- آہ! نو! بھئیا، بہت شرم آ رہی ہے.
پر راجو کے سر پر چوت کا بھوت سوار تھا دیکھو بیبی، اگر تم مجھے اپنی چڑیا دكھاوگي، تو میں تمہیں اپنا طوطا دكھاوگا.
ریٹا شک بھری نگاہوں سے راجو کو دیکھتی بولی سچی بھئیا؟
"سچی بیبی، تمہاری قسم! اور چاہے تم اس سے لليپوپ-لليپوپ بھی کھیل لینا اور میں کسی کو نہیں بتاوںگا." راجو ہانپتا سا ریٹا کے چچچے کو سہلاتا بولا.
لليپوپ سن کر سندري ریٹا کی آنکھوں میں چمک آ گئی اور اس نے نیچے سے ہاتھ ہٹا کر شرما کر اپنا منہ ہاتھوں میں چھپا لیا.
کیا ادا تھی لونڈیا کی، چوت بھی دکھا رہی تھی اور شرما بھی رہی تھی.


راجو کے سر پر چوت کا بھوت سوار تھا دیکھو بیبی، اگر تم مجھے اپنی چڑیا دكھاوگي، تو میں تمہیں اپنا طوطا دكھاوگا.
ریٹا شک بھری نگاہوں سے راجو کو دیکھتی بولی سچی بھئیا؟
"سچی بیبی، تمہاری قسم! اور چاہے تم اس سے لليپوپ-لليپوپ بھی کھیل لینا اور میں کسی کو نہیں بتاوںگا." راجو ہانپتا سا ریٹا کے چچچے کو سہلاتا بولا.
لليپوپ سن کر سندري ریٹا کی آنکھوں میں چمک آ گئی اور اس نے نیچے سے ہاتھ ہٹا کر شرما کر اپنا منہ ہاتھوں میں چھپا لیا.
کیا ادا تھی لونڈیا کی، چوت بھی دکھا رہی تھی اور شرما بھی رہی تھی.
راجو کھو سا فےلي ہوئی گوری چٹٹي ریٹا کی بلا سی خوبصورت لبالب رس سے بھری ننھی سی سڈول دعوت دیتی پھددي اور ربڑ بینڈ سی کسی گلابی گانڈ کا آنکھوں ہی آنکھوں میں چودنے لگا.
روموهين پھددي کے ركتم چيرے سے ریٹا کا كپكپاتا چھوٹا سا کاغذی بادام سا دانا راجو کو جیسے للکار دے رہا تھا. راجو کو لگا کہ وہ اب بغیر ہاتھ لگائے ہی جھڑ جائے گا. منظر دیکھ کر راجو کے بپھرے ہوا لنڈ نے پانی کے کئی ٹپكے چھوڑ ديے- اوہ ریٹا! یو آر سو بيوٹيفل!
جیسے ہی راجو کا ہاتھ شرارت کرنے کے لیے آگے آئے، ریٹا نے فوری پھددي اور گانڈ کو واپس اپنی ٹاںگو میں بھینچ لی اور بولی نو نو بھئیا! دس يذ ناٹ الاؤڈ. اب آپ اپنا طوطا دکھائیں، نہیں تو یہ گیم یہیں ختم!
ریٹا راجو کو پیار سے دھمکاتی ہوئی بولی.
"اوکے اوکے، تم خود ہی دیکھ لو اور جو جی میں آئے کر لو!" راجو نے بات بگڑنے کے خوف سے صبر سے کام لینا ٹھیک سمجھا.
"اوہ بھئیا آئی لو یو اینڈ یو آر سو كيوٹ!" ریٹا راجو کی بات سن کر خوشی کے مارے چلا سی پڑی اور راجو کی گال پہ پٹاك سے ایک چما ٹھوک دیا.
ریٹا گھٹنے موڑے راجو کے آگے قالین پر بیٹھ گئی اور چرر کی آواز سے حسین ریٹا نے کاںپتے نازک ہاتھوں سے راجو کی پیںٹ کی جپ کھینچ دی. راجو کا کچھا نیچے كھچتے ہی راجو کا آٹھ انچ لمبا لنڈ پھٹاك سے ریٹا کے منہ پر لگا تو ریٹا کی ڈر کے مارے چیخ نکل گئی- اويما! يتتا بڑا؟ ہیلو ربا میں مر جاؤں! "
کھلی ہوا میں آٹھ انچ لنڈ جھٹکوں کے ساتھ اوپر اٹھتا چلا گیا اور بری طرح سے لوہے سا ٹنا ٹن چھت کی طرف اکڑ گیا. موٹے لنڈ کا گیلی گیلی جامنی گلابی ٹوپی کے اوپر خوب بڑا سوراخ تھا. خون کی تیزی سے مضبوط لن کی نسے پھول گئی اور لن ہوا میں ہی جھٹکے کھانے لگا. لنڈ کے نیچے خوب بڑے بڑے ساولے سلونے ٹٹٹو کی ریشمی تھےليا.
ریٹا کے زندگی کا آج سب سے اہم دن تھا. انگوٹھے چوسنے کی عمر میں ریٹا کو شاندار اور جاندار لنڈ چوسنے کو مل گیا تھا. کھو سی ریٹا نے جھٹکے اکاؤنٹ لنڈ کو لپک کے اپنے چھوٹے چھوٹے مخملی ہاتھوں میں لے کر لؤڑے کی اوپری چمڑی کو نیچے سرکا دی، تو راجو کی سسکاری ہی نکل گئی. سخت اور سلگتے لؤڑے کے سپاڑے سے نکلی خوشبودار ہوا کا جھونکا ریٹا کے نتھنو میں گھس کر ریٹا کا دل باغ باغ کر گیا. ریٹا کے پھول سے نادان ہاتھوں کی گرمی اور نرمی پا کر راجو کو لنڈ نے كمپكپا کر غیر محفوظ کر تھوڑا سا پانی چھوڑ دیا.
مدهوشي میں راجو کی آنکھیں بند سی ہو گئی. ریٹا نے لن پر اپنی چھوٹی سی مٹھی کس کر اوپر نیچے کرنے لگی. اب ریٹا کی منزل قریب تھی، لنڈ کی خوبصورتی کے آگے اب ریٹا راجو کو بھول چکی تھی. ریٹا اپنے کےہونٹوں پر گرسنہ بلی کی طرح زبان پھیر رہی تھی اور ریٹا کی ہلکی بھوری آنکھوں میں بلا کی چمک تھی.
تبھی ریٹا نے اچانک جھٹکے سے راجو کے لنڈ کی ٹوپی پر اپنے لال لال رسیلے ہونٹ چسپاں دیئے اور راجو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چسڑ چسڑ کر لليپپ کی طرح چسسا مارنے لگی. ریٹا نے اپنا چھوٹا سا منہ مکمل کھول کر راجو کا لنڈ اپنے گلے تک اندر لے لیا تو راجو کے مزے کی حد نہ رہی اور راجو چیخ پڑا.

اس تابڑ توڑ چدائی سے ریٹا کا روم-روم باغ باغ ہو گیا اور اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلچھلا پڑے. ریٹا کتیا کی طرح راجو کے لنڈ کو اپنی ننھی سی گانڈ کو سكوڑ کر لنڈ کو نچوڑنے لگی. تھوڑی دیر بعد راجو نے پٹاك کی آواز سے اپنا لنڈ باہر کھیںچا تو گلابی گانڈ هچ هچ کر لؤڑے کو جھاگ والا پانی اگلنے لگی.
ہوس کا طوفان ختم ہونے پر راجو کے نیچے دبی ريٹ هاپھتي اور اپنی گانڈ سهلاتي بولی- آہ بھئیا، آپ تو بڑے ہی کسائ نکلے! اپھ سارا بدن توڑ مروڈ کے رکھ دیا! ہیلو کتنی جورو کے ماری ہے میری اپھ! "
راجو ریٹا کی گانڈ پر چٹاك سے چپت جماعت بولا بیبی، آپ بھی تو یہ اچھل اچھل کر میرے لنڈ کے پرخچے اڑنے پر تلی ہوئی تھی. چوسی اور چدی ہوئی ریٹا بری طرح شرما کر اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں ڈھاںپ کر راجو کی چھاتی میں چھپنے کی کوشش کرنے لگی.
ریٹا کو لطف تو بہت آیا پر پوری سنتشٹ نہیں ہوئی. بے چین ریٹا کو لگا کہ اگر اس نے آج چوت نہیں مرواي تو وہ پاگل ہو جائے گی. دوسری طرف سے ریٹا راجو کے موٹے اور لمبے لنڈ سے ڈر بھی رہی تھی. کھڑے لؤڑے کا سائز سوچ کر ریٹا کی چوت تھر-تھر کانپ اٹھتی تھی.
راجو سے الگ ہو کر ریٹا شیشے کے سامنے کھڑی ہو اپنی حالت سدھارنے لگی. ریٹا نے اپنے مسلي-مچڑي اور گیلی سکرٹ اور شرٹ اتار فےكي اور پیدائشی نںگی ہو گئی. اب ریٹا کے ج
سم پر ہائی ہیل اور جوےلري کے علاوہ پر ایک دھججي بھی نہیں تھی. راجو کو کھڑکی اور چدی ہوئی ریٹا اور بھی مست اور سےكسي لگنے لگی. ریٹا کے گورے گورے بدن پر راجو کے چمبنو کی مهرے، دانتوں کے نیلے نیلے كچوكے، ہاتھوں کے ٹھپپے، انگلیوں کی دھساوٹ، گھٹنوں اور كوهنيو پر قالین کی رگڑ کے لال نشان گیلی جاںگھیں بہت کے breathtaking لگ رہی تھی. بکھرے الجھے بال، آنکھوں کا پھیلا كاذل اور شررنگار، گیلی چوت، رستي گانڈ، چسے ہوئے چچچے اور سوجے ہونٹ تو دیکھتے ہی بنتے تھے.
راجو کا لنڈ دوبارہ چھت کی طرف تنا دیکھ ریٹا ڈر کر چیخ مار کے فرار لگی تو راجو نے ریٹا کو اٹھا کنگ سايذ بیڈ پر پٹک دیا اور ریٹا کی انگلیوں میں اںگلیاں سرگرم کر پھڑپھڑاتي ریٹا کو دبوچ کر چت کر لیا. راجو ریٹا کے گھٹنے موڑ کر ریٹا کو کندھوں سے ملا دیئے اور بولا جاتی کہاں ہے سالی! ماں کی لوڑي، ابھی تو تیری ماں کی چوت بھی مارنی ہے.
بیچاری تین پھولڈ ہوئی ریٹا کسی زخمی هري کی طرح چھٹپٹا کر رہ گئی- آہ نہیں چھوڑو مجھے! پلیز چھوڑو نا! میں مر جاؤں گی، آپ کا بہت بڑا ہے.
پر جب راجو نے اپنا لنڈ کا سلگتا سپارا ریٹا کی ننھی چوت کے چيرے پر آگے پیچھے پھسلايا تو ریٹا کا بدن ڈھیلا پڑ گیا اور نہ-نكر ہاں میں تبدیل ہو گئی. ریٹا مچلنے کے بہانے اپنی پھڑپھڑاتي چوت کو راجو کے لنڈ کو چوت میں گپكنے لگی تو راجو شرارت میں لنڈ کو پیچھے کھینچ کر ریٹا کو ستانے لگا تو ریٹا نے راجو کی گال پر زور سے چپےڑ لگا کر گندی گندی گالیاں بكنے لگی- بهنچود! ماں کے لؤڑے، اب ڈال اندر اور چود اپنی بہن کو! سالے مادرچود، چود نا.
راجو نے رجامد ریٹا کو جیسے ہی ڈھیلا چھوڑا تو ریٹا نے جھٹ سے راجو کا لنڈ پکڑ کر اپنے چوت کے منہ پر سٹا کے نیچے سے کھینچ کے دھکا جمع دیا. اوپر سے ریٹا نے اپنی ہائی ہیل راجو کے چوتڑوں میں چبھو کر راجو کو اپنی طرف دبا لیا. پلک جھپکتے ہی ہی راجو کا لنڈ کا الوبكھارے سا سپارا ریٹا کی ہموار چوت میں تھا. اوپر سے ریٹا راجو کے لنڈ کے سپاڑے کو چوت سے چٹکی کاٹنے لگی. ریشم سی ملائم چوت تندور سی گرم اور دهك رہی تھی اور پہلی چدائی کے پانی سے ابھی بھی پچچ پچچ گیلی تھی.
راجو کا لنڈ اب ریٹا کی چوت کی جھلی پر دباؤ ڈال رہا تھا پل بھر کے لیے دونوں ٹھہر سے گئے اور راجو نے ریٹا کی جھیل سی آنکھوں میں جھاكھ کر پوچھا- چودو؟
"چوديے نا!" چداس کی ٹھرك بھاو وبھور ہوئی ریٹا شہد سے میٹھے لہجے میں بولی.
عذاب کے ڈر سے آنکھیں بھینچ اور تھوک نگلتي ریٹا کی ٹانگوں نے گھڑی کے دس بج کر دس بجا دیے.
راجو نے ریٹا کی چیخ کو دبانے کے لیے ریٹا کے ہوںٹوں کو پھر اپنے ہوںٹوں میں دبا لیا اور چوسنے لگا. راجو نے كڑيل لنڈ کو باہر کھینچ کر واپس ریٹا کی چوت میں پورے سمتار سے واپس دھکیل دیا. لنڈ بادشاہ اپنے ٹٹٹو کی فوج سمیت، ریٹا رانی کی چوت کی سیل کو توڑتا اور دھججيا اڑاتا ہوا، چوت کی ملائم دیواروں کو بے رحمی سے رگڑتا ہوا اندر اور اندر اور اندر گھستا چلا گیا.
درد کی وجہ سے ریٹا بری طرح سے راجو کی مضبوط باہوں میں پھڑپھڑاي اور اس کی آنکھیں باہر ابل پڑی. راجو اب بھی بری طرح سے ریٹا کے ہوںٹوں کے چبايے اور چوسے جا رہا تھا اور ریٹا کی چیخیں گلے میں ہی گھٹ کر رہ گئی تھی اور وہ گھو گھو کی آوازیں نکالنے لگی.
ریٹا اپنی چھوٹی چھوٹی کھجوروں سے راجو کو اپنے اوپر سے آگے بڑھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی پر راجو نے لونڈیا کو اپنے شکنجے میں بری طرح سے جکڑ رکھا تھا. ریٹا کی چوت سے نکلتے پانی میں ہلکا سا خون بھی آنے لگا تھا. عذاب میں كرهاتي ریٹا کو مونیکا کی بات یاد آ گئی کہ چوت اور دودھ گرم ہو کر ہی پھٹتے ہیں اور دونوں کے پھٹنے کی آواز نہیں آتی، صرف پھٹ جاتے ہیں.
تقریبا دو منٹ تک راجو درد سے بلبلاتي اور كرهاتي ریٹا کو باہوں میں دبائے اسکی چوت کی كساوٹ، گرمی اور نرمي کا مجا لیتا یوں ہی پڑا رہا. جیسے ہی چوت اور لنڈ کی گرمی ایک ہوئی اور بے حال ہوئی ریٹا نے نڈھال سی ہو کر چوت ڈھیلی چھوڑی تو کسائ راجو نے ادھم ریٹا کو روئی پجنے والی مشین کی طرح پجنا شروع کر دیا. ریٹا کے اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رہ گئی. پہلے ایک منٹ تو ریٹا کو لگا وہ مر جائے گی، لیکن فورا ہی ریٹا کا درد کافور ہو گیا اور وہ الوکک سورگك سکھ میں بادبانی کرنے لگی.
چدتی چوت نے ٹھےر سارا پانی اگل دیا، تو لنڈ بغیر تکلیف اندر باہر گھچر پچر کی میٹھی میٹھی آواز کے ساتھ چوت میں اندر باہر سلائڈنگ لگا.
اب راجو نے چھمك چھللو کو چچچيو سے پکڑ کر ٹھپپے پہ ٹھپپے مارنے شروع ریٹویٹ تو ریٹا کی ٹھرك ساتویں آسمان پر اور مستی آخری سرے تک پہنچ گئی. اب تو شرم ریٹا اپنی چوت کو مکمل طور پر ڈھیلا چھوڑ کر گانڈ کو ایک ایک فٹ اوپر اچھال دےتيتب راجو طیش میں سمتار سے دھکا مار کر اس کی اچھال کو دگنے سمتار سے دبا دیتا، تو ریٹا گدگدے بیڈ میں دھنس سی جاتی. اسکے نتیجے کے طور لنڈ کا منہ عذاب سے بلبلاتي ریٹا کی بچہ دانی میں پھنس گیا.
راجو کا لنڈ جب جب ریٹا کی چوت میں اندر جاتا تو راجو کے لنڈ کی گراري پر چوت کی ملائم دیواروں کی رگڑ سے لنڈ مزے سے گدگدا اٹھتا اور راجو بکری سا منمنا اٹھتا. تب لنڈ ریٹا کے دانے کو رگڑتا ہآ ریٹا کی بچہ دانی سے ٹکرا کر ریٹا کو گدگدا جاتا تو حرامی ریٹا مزے سے دوہری ہو محبت میں اپنے چوچو کو راجو کے سینے سے رگڑ کر راجو کے منہ پر بوسہ جڑ دیتی. جب راجو لؤڑے کو باہر مدد دیتی تو ریٹا اپنی چوت کی پھاكو کو زور سے سكوڑ کر لؤڑے کو پکڑ سا لیتی.
ایک بار تو راجو کو لگا کہ ریٹا کی چوت اس کے لن کو کچومر سا بنا دے گی. ننھی ریٹا کے جوش كھروش کے سامنے راجو کے هولي لؤڑے کی ہوا سرک گئی.
چوت انتہائی کسی اور لؤڑا بہت موٹا ہونے کی وجہ سے ریٹا کی چوت سے پانی پھچچك پچچك کرکے پچچكاريو جیسے نکل رہا تھا. رسیلی چوت کے پانی سے جھاگ اور جھاگ سے بلبلے بن کے پھٹتے جا رہے تھے. لنڈ و چوت سے پچچ پچر پھچچ پھچچر کی گنڈي آوازیں، مستاي ہوئی ریٹا کی سریلی يس يس سسکاریاں اور كلكاريا، پلنگ کی چرمراهٹ راجو کے دل دہلا دینے والے ٹھپپو کی تھاپ کی آواز اور دونوں کی بهكي بهكي سانسوں نے ماحول کو اور بھی گرم اور رنگیلا بنا دیا.
ہوس کے انماد میں ریٹا آپے سے باہر ہو کر مدهوشي میں اناپ شناپ بكنے لگی- ہیلو لے لے میری چوت، يسس يسس چود سالے ماں کے لؤڑے، چود لڑکی چود چوتييا اور زور سے دھکے مار، اويييي ماں، يےسس پھاسٹر، ياه، هارڈر، آہ آہ پھاڑ دے میری گلابو کو سييييي، ڈونٹ سٹاپ رے، ہائے میں چد گئی رےےے، میری ممميييي ڈےڈييي جي بڑا مزا آ رہا ہے، چود بهنچود چود اپنی بہن کو، چود مادرچود آہ میرے چودو راجہ مسل دے میری جوانی کو، چٹنی بنا دے میری اےكلوتي چوت کی، يس ييس لے مار لے اپنی بہن کی چوت، بھوسڑي کے ہاے میرے بادشاہ چک دے پھٹے دےےے میری چوت لے واہ شاباش اور زور سے یو باسٹرڈ مدر پھكر.
"لے سنبھال اپنے باپ کے لؤڑے کو یہ لےےے اور لےےے هايےےے میری رانی اور زور سے کمر ہلا آہ، یہ لے بھوسڑي کی، آج چود دوں گا، تیری ایسی کی تیسی، تیرے جیسی کئی رڈيو کو میں نے چودا، سالی کتیا، تیری چوت پھاڑ کے تیرے گلے میں ڈال دوں گا، ماں کی لوڑي همپھ همپھ "کرتے راجو نے اپنے لنڈ سے ریٹا کی چوت میں آٹھ بنا کر چودنا شروع کیا، تو ریٹا کی خوشی کے مارے چیخیں ہی نکل گئی.
"ہاے رےےے میں تو گيييي!" یہ کہہ ریٹا راجو کو اپنی گوری گوری ٹانگوں اور باہوں میں دبوچ کر راجو سے بری طرح سے چپک گئی اور جنگلی بلی کی طرح راجو کے کندھے میں دانت گڑا دیئے اور گرسنہ چوت کی دیواروں کو لنڈ پر پورے جور سے کس ديچودو راجو ریٹا کی تگ چوت کے چوسسے کو شریک نہیں پایا اور وہ بھی ریٹا کے ساتھ جھڑنے لگا. دھماکے پہ دھماکہ اور پچكاريو پہ پچکاریاں! وقت رک سا گیا.
ریٹا خشک تنکے کی بھانت کاںپنے لگی. دونوں هاپھتے ہوئے ایک دوسرے میں سما جانے کی کوشش کر رہے تھے. ہاے ہاے کرتی ریٹا اپنی پیاسی چوت سے راجو کے لؤڑے کو پورا زور لگا لگا کر چوس رہی تھی. راجو کو لگا کہ جیسے ریٹا کی جاندار چوت اسکے لنڈ کو پی ہی جائے گی. راجو کا لؤڑا بھی کسی چوت کی رگڑائی سے سرخ اور پانی سا رہا تھا. دونوں کا بھنڈا کتے اور کتیا کی چدائی کے بعد کی طرح اب بھی بھڈا
ہوا تھا.
اصل میں ریٹا کی چدائی کم اور رگڑائی زیادہ ہوئی تھی. دھوم دھام سے چدی ہوئی خستہ حالت میں ریٹا کے بدن میں رہ رہ کر درد کی ٹيسنے اٹھ رہی تھی. مست لنڈ کی پٹائی سے چوت خوب سرخ اور سوج گئی تھی اور ٹاںگیں بری طرح کانپ رہی تھی. راجو نے ریٹا کی ہڈی پسلی ایک کر دی تھی اور اس کی جوانی کو چاروں کھانے چت کر دیا تھا. ریٹا گلی کے کونا پر چار کتوں سے چدی کتیا کی طرح کراہ رہی تھی.
پر اب ریٹا اپنی ٹھکائی سے پوری طرح مطمئن تھی. شدید تاریخی چدائی کے بعد ریٹا کی پیاسی جوانی تروتر ہو اٹھی اور وہ کلی پھول بن گئی. ریٹا کی بند چوت اب نئے نئے پھول کی طرح تھوڑا سا کھل کر چھوٹی بھوسڑي بن گئی، چوت کی بیرونی پھاكے کھل سی گئی تھیں اور درمیان میں سے گلابی پكھڑيا اب دکھائی دینے لگی تھی. ریٹا کا اب پھےورےٹ گیم سکیٹنگ سے چدائی ہو گیا.


ریٹا اپنی ٹھکائی سے پوری طرح مطمئن تھی. شدید تاریخی چدائی کے بعد ریٹا کی پیاسی جوانی تروتر ہو اٹھی اور وہ کلی پھول بن گئی. ریٹا کی بند چوت اب نئے نئے پھول کی طرح تھوڑا سا کھل کر چھوٹی بھوسڑي بن گئی، چوت کی بیرونی پھاكے کھل سی گئی تھیں اور درمیان میں سے گلابی پكھڑيا اب دکھائی دینے لگی تھی. ریٹا کا اب پھےورےٹ گیم سکیٹنگ سے چدائی ہو گیا.
اس طرح ریٹا اور راجو کو چودم چدائی کا سلسلہ جاری رہا اور ریٹا کو تو صحیح معنوں میں چدائی کی لت لگ گئی تھی. کئی کئی بار تو ریٹا صبح صبح اسکول کی بس چڑھنے سے پہلے لوگوں کی نظر بچا کر راجو کے کمرے میں گھس کر جدد کرکے کھڑے کھڑے ایک ٹاںگ اٹھا کر خاموشی چدوا لیتی تھی. شام کو سکیٹنگ کرنے کے بہانے راجو سے چدواتی رہتی تھی.
ریٹا نے اپنی کئی سلوارو کو نیچے سے ادھیڑ کے رکھ دیا. کئی بار تو ریٹا سب کے سامنے سب کی نظریں بچا کر راجو سے گھوڑا گھوڑے کھیل کھیل کر اپنی ادھڑي سلوار میں ہی راجو کا لنڈ اپنی چوت میں سرکا لیتی تھی.
کبھی کبھی سب گھر والوں اور راجو کے ساتھ ٹیلی ویژن پر پکچر دیکھتے تو ریٹا راجو کی گود میں ٹےڈيبير لے کر بیٹھ جاتی اور ٹےڈيبير کے نیچے ریٹا کے ہاتھ راجو کے لنڈ کو خوب سهلاتي اور راجو ریٹا کی چوت رگڑتا رہتا.
کئی بار تو ریٹا بیٹھے بیٹھے بغیر ہلے ہی راجو کے پپو کو اپنی چوت میں بھینچ بھینچ کر پپو کے پسینے نکال دیتی تھی.
کبھی کبھی مستی میں اکیلے میں ریٹا ننگي ہوکر راجو کو لنڈ پر بیٹھ سوئنگ لیتی تو کبھی راجو ریٹا کو اپنے کھڑے لنڈ سے خوب پیٹتا. کئی بار تو ریٹا لنڈ سے پٹتي پٹتي ہی جھڑ جاتی تھی. کبھی کبھی ریٹا لجيج گالیوں کے ساتھ راجو کے تھپڑ شپپڑ بھی ٹھوک دیتی تھی، تو راجو نے تشدد ریٹا کی گانڈ کو جھاڑو، بیت، چپل اور بیلٹ سے بھی خوب پیٹا اور جنگلی ریٹا کو بھی پیٹ کر چدنے میں خوب مزا آتا تھا. نہ جانے کتنی بار ریٹا نے راجو کو شاور کے نیچے اپنے موت سے غسل دیا اور کئی بار تو ریٹا دیوانے راجو کو اپنا پیشاب بھی پلا چکی تھی.
ریٹا ہر بار نئے نئے انداز اور آسن میں چدنا پسند کرتی تھی. راجو نے ریٹا کو الگ الگ جگہ پر دن رات خوب چودا ماراكچن میں مکھن لگا کر، ڈاينگ ٹیبل پر ٹمےٹو كےچپ لگا کر، گیراج میں گاڑی کے بونٹ پر یونان لگا کر، شاور کے نیچے اور ٹب باتھ میں تیل لگا کر، چھت پر رات کو چاندني کے نیچے تھوک لگا کر، لےدر کے سوفی پر جوتوں کی پالش لگا کر، گھاس پر جھاڑیوں کے پیچھے کریم سے اور نہ جانے کہاں کہاں بھوسڑي کی ریٹا چدتی رہتی تھی. ریٹا کی ہوس دن دوگنی اور رات چوگني ہوتی جا رہی تھی. مست ریٹا نے راجو کو لنڈ کو ایک ماہ میں ہی نچوڑ کر رکھ دیا. کبھی کبھی ریٹا راجو سے ضد کر کے پانچ پانچ بار چدوانے کے بعد بھی اور چدوانے کی ضد کرتی. اب راجو ریٹا سے اب كترانے لگا تھا. ریٹا کو اب سمجھ آیا کہ ہر ماہ متوالي مونیکا حالیہ عاشق سے چوت کیوں مروایا کرتی تھی. پھر راجو کے ڈیڈی کی منتقلی کسی اور شہر میں ہو گیا اور راجو وہاں سے دوسرے شہر میں چلا گیا.
تنہا ریٹا اپنی معصوم چوت کی ٹھرك مکمل کرنے کے لیے نہ جانے کیا کیا اپنی چوت اور گانڈ میں سٹكا چکی تھی - بینگن، کمل-ککڑی، ہیئر برش، ہیئر ڈرائر، سینڈل، کوکا-کولا کی بوتل، موم بتی، کیلے، گھييا، كھيرا، چھللي، توري، كچالو، ٹیلی ویژن ریموٹ، ٹےليفون کا ہینڈ سیٹ، فلورپٹ، پین اور پےسل.
یہ سب کرتے کرتے اور گدگدے بستر پر ننگی ہو لڑھكيا لگاتے لگاتے ریٹا کو اپنے اعضاء ہی چھبنے لگتے تھے. اوپر سے مونیکا کے دیے ہوئی بلیو موویز اور مست رام کے سےكسي ناول دیکھ اور پڑھ کر ریٹا کی چوت نے "چودا مرواو- چودا مرواو!" کی بغاوت کر دی.
پھر ایک دن اسکول بس خراب ہونے کی وجها سے ریٹا کے ڈیڈی نے اپنے حالیہ چپڑاسي کو سائیکل سے ریٹا کو اسکول چھوڑنے اور لانے کی ڈیوٹی لگا ديچپڑاسي نیا نیا گاؤں سے شہر آیا تھا، خوب جوان، هٹاكٹا اور خوب تندروست تھا. گوركھا ہونے سے اس کا رنگ بھی صاف و گورا تھا. اور سب اسے بہادر کے نام سے پکارتے تھے.
صبح صبح ممی نے بہادر کو ریٹا کے کمرے میں ریٹا کا اسکول بیگ تیار کرنے کے لئے بھیج دیا. جب بہادر اندر آیا تو تازی تازی نہائ ریٹا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اپنے بالوں کو سوار رہی تھی.

نویں کہانی

میں نے بی ایس سی پاس کر لی تھی، ایک دن ممی پاپا کی بات سن لی.
"يشو تو اب گریجویٹ ہو گئی ہے، اب اس کا بیاہ کر دینا چاہیے." پاپا نے ممی سے کہا.
"جی ہاں، ٹھیک ہے، بی ایڈ تو بعد میں بھی کر لے گی. آپ سنجیو کی بات کر رہے ہیں نا؟"
"جی ہاں وہی! خاصی رقم والی پارٹی ہے، ممبئی میں اچھا بزنس ہے. لڑکا بھی خوبصورت ہے دیکھا-نیزہ ہے."
میں نے بھی سنجیو کو دیکھا تھا وہ تو بالکل رنویر کپور کی طرح ہوشیار اور خوبصورت تھا. اس کے پاس تو کئی کاریں تھی. میرا من کھشی سے بھر گیا. بات چل نکلی تھی، خط و کتابت ہونے لگا تھا، سگائ کا وقت دیوالی کے بعد طے ہوا اور شادی گرمی کے دنوں میں طے ہوئی.
تمام کچھ اب تو یقینی ہی تھا، وقت قریب آتا جا رہا تھا. بارش رت بھی گزر چکی تھی ... نوراترے چل رہے تھے، میں تو بس سنجیو کے كھيالو میں کھوئی رہنے لگی تھی. کبھی کبھی رات کو مجھے اس سلونے جسم کا بھی خیال آ جاتا تھا. اسکا لنڈ کیسا ہوگا ... امیش کی طرح ...؟ اه نہیں ... اكت کی طرح ہوگا ... نہ نہ وو تو ٹھگنا ہے تو فر؟ میرا سنجیو تو لمبا ہے ... یعنی کچھ کچھ راہل جیسا ہوگا سنجیو ... اسکا لنڈ بھی راہل کی طرح موٹا اور بھاری ہوگا ...؟ کیسا لگے گا جب وہ میری فددي میں گھسےگا تو ...؟ مجھے پتہ ہے وہ تو راہل کے لنڈ کی طرح ہی مست ہو گا.
پھر رات کو جانے کب میں چدائی کے بارے میں سوچ سوچ کر جھڑ تک جاتی تھی. اف ... ستیاناس ہو اس جوانی کا .... ابھی تو دسہرہ آنے والا تھا پھر دیوالی ... کوشش کروں گی کہ منگنی کے وقت ایک بار تو اس سے چدوا ہی لوں ... پر دیوالی میں تو ابھی ایک مہینہ ہے ... دھتت ... سالا کیسے وقت کٹے گا.
انہی دنوں میرا چچےرا بھائی اشوک میرے گھر آیا ہوا تھا. عام قد کاٹھی کا دبلا پتلا سا ... پر چنچل مزاج کا تھا وہ. اس نے بس اسی سال کالج میں داخلہ لیا تھا.
میرا تو روز ہی سنجیو کے بارے میں سوچ سوچ کر برا حال ہو رہا تھا. اب تو مجھے لگنے لگا تھا کہ بس وہ ایک بار آ کر مجھے زور سے چود جائے. ایک اندےكھے لنڈ کی چاہ میں میری چوت بار بار ٹسے بہا رہی تھی.
مجھے شادی کے بارے میں کچھ خفیہ باتیں پتہ بھی کرنی تھی کہ کس طرح مرد کو خوش رکھا جاتا ہے، اسے اصل میں کیا کیا چاہیئے ہوتا ہے ... اور بھی نہ جانے کیا کیا دل میں تھا. چدائی کے بارے میں تو میں سب کچھ جانتی تھی، شاید اس میں کچھ بھی جاننا باقی نہیں تھا. فی الحال ابھی تو اشوک آنکھوں کے سامنے تھا. ابھی تو مجھے سنجیو جیسا تو اشوک ہی نظر آ رہا تھا .... اسی سے پوچھوگي ... وہ تو سب کو بتا ہی دے گا. پر میرے چھوٹے سے دل کو کون سمجھايے کہ اشوک تو خود ہی ایک مورھ لڑکا تھا ... جانے وہ کیا سمجھ بیٹھے.
میں نے اشوک کو جاتے دیکھ کر آواز دي- کہاں جا رہا ہے؟
"بس ہیکل تک ... اب آتا ہوں."
گھر کے سامنے ہی ہیکل تھا. وہ دس منٹ میں ہی آ گیا- ہاں، بول کیا بات ہے؟
"ارے یار، کچھ پرائیویٹ بات ہے، ادھر چل ...!"
میں اسے اپنے کمرے میں لے آئی اور اس سے دھیرے سے کہا یار اشوک، تجھے تو معلوم ہی ہے میری شادی ہونے والی ہے. "
"وہ تو سب کی ہوتی ہے، اس میں پریشان ہونے والی کون سی بات ہے؟"
"ارے شادی تو ٹھیک ہے ... مجھے تو کچھ پوچھنا ہے."
"اچھا تو پوچھ ... کیا پوچھنا ہے."
"مان لو اگر تیری شادی ہوتی تو تجھے تیری بیوی سے کیا امیدیں ہوتی؟"
"ارے يشودا ... میری بہن ... مت پوچھ ... صرف سب سے پہلے تو میں چاہوں گا کہ وہ مجھے خوب محبت کرے ...!"
"اچھا اور ...؟"
"پھر بس مستی سے چدوا لے! ارے ... ساری ..."
"ارے کچھ نہیں ... چلتا ہے. مروايےگا سالا ... آہستہ بول ..."
اس کے اس طرح 'چدوا لے' کہنے مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا.
"کیا ہوا ... اوہ ... میرا مطلب ہے سہاگرات سے تھا ..."
"نہیں وہ تو ٹھیک ہے ... پر پھر تم اس سے کیا توقع رکھو گے ...؟"
"يشو ... رات کو بتاوںگا ... پر ناراض مت ہونا!"
"سالا تم کو کیا بتائے گا، ٹھیک ہے شام کو ہی صحیح."
مجھے تو اس کی باتوں سے لگا کہ وہ مجھے فلرٹ کرنا چاہ رہا ہے. سالا کیسا بولا تھا مستی سے چدوا لے ... پھر مجھے اس کے لیے کچھ کشش سی محسوس ہونے لگی. شاید یہ سنجیو کے بارے میں مزید سوچنے کی وجہ تھی کہ میں انجانے میں ہی چداسي ہو رہی تھی. میں پھر سے آ کر بستر پر لیٹ گئی. میرے من میں پھر سے ایسا لگنے لگا کہ سنجیو گویا مجھے چود رہا ہو. میرا سیاہ ٹائیٹ پجاما گویا جسم میں چھبنے لگا تھا. میری چھوٹی چھوٹی سی چوچیاں سخت ہو گئی. نپل تو فول کر جیسے فٹ جائیں گے. اوهه ... میں نے جلدی سے اپنی ٹائیٹ پجميا اتار دی اور ایک ڈھیلا ڈھالا سا گھر کا پائجامہ پہن لیا. پر تن تو جیسے اکڑا جا رہا تھا. اسی وقت وہاں سے اشوک گزرا. نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اسے آواز دے کر اپنے کمرے میں بلا لیا، فورا دروازے کو بند کر دیا.
"وہ تو نے تو بتایا ہی نہیں کہ ...؟"
"چپ ... دیکھ بتاتا ہوں ... تو نے کبھی کسی لڑکے سے دوستی کی ہے؟"
"ارے نا بابا نا ... میں نے تو کسی لڑکے کے بارے میں سوچا تک نہیں!" جھوٹ بولنے میں تو میرا کیا جاتا. میں کیو بتاؤں کہ میں تو اسکول کے وقت سے ہی چداتي آ رہی ہوں.
"تبھی تو یہ اتاولاپن ہے ... تجھے تو مکمل ہی سمجھانا پڑے گا."
"تو سمجھا دے نا رے ... مجھے بھی کچھ تو پہلے ہی معلوم رہے گا."
"دیکھ، تو یہاں بستر پر بیٹھ جا ... جی ہاں ایسے ..."
اس کے بتانے پر میں بستر پر اپنے پاؤں کو سمیٹ کر بیٹھ گئی. اسنے پاس میں پڑی میری چنوں میرے سر پر یوں ڈال دی جیسے کہ پردہ ہو. مجھے تو یہ سب پتہ تھا ... پر اس کے ساتھ یہ سب کرنے میں کھیل جیسا لگ رہا تھا.
"اب مان لے کہ میں سنجیو ہوں ... دیکھ درمیان میں کوئی گڑبڑ مت کرنا ... مجھے سنجیو ہی سمجھنا."
"ارے ٹھیک ہے نا ... اب آگے تو بول."
اس نے آگے بڑھ کر آہستہ سے میرا پردہ اٹھایا اور میری ٹھڈڈي پکڑ کر میرا چہرہ اوپر اٹھایا. مجھے تو واقعی اب شرم آنے لگی تھی.
"بہت خوبصورت لگ رہی ہو."
میری آنکھیں خود بخود جھک گئی تھی، شرم سی بھی آنے لگی تھی، گویا سچ میں سنجیو ہی ہو.
"تمہارے گورے گورے گال، یہ خوبصورت آنکھوں، یہ گلابی ہونٹ ... چومنے کو دل کرتا ہے."
ارے باپ رے ... میری تو سانسیں اپنے آپ تیز ہونے لگی. چھوٹی چھوٹی چھتيا لمبی سانسوں کی وجہ اوپر نیچے ہونے لگی. اس کا چہرہ میرے قریب آ گیا. اس نے جان بوجھ کر میرے ہوںٹھو سے اپنے ہونٹ ٹکرا دیے. میری آنکھیں کسی دلہن کی طرح بند سی ہونے لگی.
اس نے تھوڑا سا انتظار کیا ... میرے مخالفت نہ کرنے پر اس نے میرے ہوںٹھ اپنے ہوںٹھوں پر دبا دیے. میرا مکھ اپنے آپ کھل گیا ... اس نے میرے نیچے کے ہونٹ اپنے ہونٹوں سے چوس لیے. میں نے بھی اس کی مدد کی. مجھے بھی لگ رہا تھا کہ اس وقت مجھے کوئی رگڑ کر ڈال دے! میرا سارا تن جھنجھنا رہا تھا، ایک انجانی کسک سے تڑپنے لگا تھا. میری چوچیاں تن کر سخت ہو گئی تھی.
اچانک اس کے ہاتھ میرے چھوٹے سے سخت مموں پر آ گئے. مجھے راحت سی لگی ... بس اب جور جور سے دبا دے میری تڑپتی ہوئی چوچیوں کو ...
اس نے مجھے آہستہ سے بستر پر لٹا دیا. وہ مجھ پر ترچھا لیٹ گیا. وہ مجھے بیتہاشا چومنے لگا. میں تو جیسے ہوا میں اڑنے لگی تھی. میرا تن چداسا ہوتا جا رہا تھا ... چوت کو لنڈ کھانے زور سے لگ رہی تھی. یہ بھول گئی تھی کہ یہ سب میرے ساتھ میرا چچےرا بھائی ہی کر رہا تھا. اس نے میری چھاتیاں جوں ہی دبائی، میرے تن میں چگاريا چھوٹنے لگی. چوت سمبھوگ کیلئے اپنے آپ ہی تیار ہو گئی تھی. اس میں سے محبت کی بوندیں رسنے لگی تھی. میں نے بھی انجانے میں اپنے ہاتھ اس کی کمر کے ارد گرد کس لیا تھا. میری ٹاںگیں چدنے کے لیے بربس ہی اٹھنے لگی تھی. ایک تیز میٹھی سی کھجلی چوت میں ہونے لگی تھی.
اچانک اشوک نے میرا ٹاپ اوپر سے کھینچ کر اتار دیا. میں اور بھی انمكت سی ہو اٹھی. میری سخت چوچیاں کھلی ہوا میں ننگی ہو گئی تھی.
تبھی اشوک نے بھی اپنی قمیض اتار دی، اس نے اپنی ٹاںگیں اٹھا کر میری کمر میں فسا دی ... پھر دھیرے سے سرک کر میرے اوپر آ گیا اور مجھے دبا لیا.
"افف ... یہ کیا ... اهههه ... اشوک ... افف !!"
"بس تمہیں سنجیو کے یہی کرنا ہے."
"اشوک ... اههه ... کتنا مزا آ رہا ہے ..."
"اب چدنے کی لگ رہی ہے نا ... چود دوں ...؟"
"تو کیا کہہ رہا ہے؟ بہت خراب ہے تو تو ...؟"
تب اس نے بیٹھ کر میری ٹاںگیں اونچی کرکے میرا ڈھیلا ڈھالا سا پائجامہ اتار دیا. میرا من کھل اٹھا ... سچ میں اب تو چدائی  لطف آ ہی جائے گا. مجھے اس نے اب پوری نںگی کر دیا تھا. اس نے بھی جلدی سے اپنی پتلون اتار دی اؤر میرے اوپر ننگا لیٹ گیا. ہاے رے ... دو ننگے جسم ... آپس میں مل گئے ...
گرم گرم جسم کا کتنا خوشگوار ٹچ لگ رہا تھا، اس کا بھاری لنڈ میری پنياي ہوئی چوت کو رگڑ رہا تھا، اس کا کھلا ہوا سپارا میری گیلی چوت کو رگڑا مار رہا تھا.
میری تو سانسیں سانسیں بہت تیز ہو اٹھی تھی. دھڑکن بھی تیزی لیے ہوئے تھی.
"اففف ... جانے دیر کیوں کر رہا ہے ..."

اس نے بیٹھ کر میری ٹاںگیں اونچی کرکے میرا ڈھیلا ڈھالا سا پائجامہ اتار دیا. میرا من کھل اٹھا ... سچ میں اب تو چدائی  لطف آ ہی جائے گا. مجھے اس نے اب پوری نںگی کر دیا تھا. اس نے بھی جلدی سے اپنی پتلون اتار دی اؤر میرے اوپر ننگا لیٹ گیا. ہاے رے ... دو ننگے جسم ... آپس میں مل گئے ...
گرم گرم جسم کا کتنا خوشگوار ٹچ لگ رہا تھا، اس کا بھاری لنڈ میری پنياي ہوئی چوت کو رگڑ رہا تھا، اس کا کھلا ہوا سپارا میری گیلی چوت کو رگڑا مار رہا تھا.
میری تو سانسیں سانسیں بہت تیز ہو اٹھی تھی. دھڑکن بھی تیزی لیے ہوئے تھی.
"اففف ... جانے دیر کیوں کر رہا ہے ..."
دونوں کے جسم چپک گئے تھے، ایک دوسرے کو دبا رہے تھے.
ہم دونوں ہی تیز ہوس کی معرفت میں ڈوبے جا رہے تھے. تبھی مجھے اس سپارے کا دباؤ اپنی چوت پر محسوس کیا. مارے گدگدی کے میں نے بھی اپنی چوت کا دباؤ اس کے لنڈ پر رکھ دیا. ایک تیز کساو کے ساتھ اسکا لنڈ میری چوت میں اترنے لگا. تبھی اس نے مجھے ایک زور سے شاٹ مارا اور بھچاك سے اسکا پورا لنڈ اندر اندر بیٹھ گیا. میرے مکھ سے ایک خوشی بھری چیکھ سی نکل گئی.
"ارے اشوک ... لگتا ہے میری جھلی فٹ گئی ...!"
میرا یہ ڈرامہ ہر ایک حالیہ لڑکے کے ساتھ ہوا کرتا تھا تاکہ اسے لگے کہ یہ تو فریش مال ہے. مارے خوشی کے میں نے اسے زور سے دبا لیا. وو بھی مجھے فریش لڑکی جان کر رک گیا ... پر مجھے تو زور سے لؤڑا لینے کی خواہش ہو رہی تھی. جوش میں میں نے اپنی چوت اچھال دی.
"آہستہ سے جان ... لگ جائے گی ..."
"اوہ، بہت درد ہو رہا ہے." کہہ کر میں نے پھر سے اپنی کمر چلا دی.
پھر تو اس کی رفتار بڑھنے لگی. دبلا پتلا لڑکا تھا سو کمر اس کی تیزی سے چل رہی تھی. میں بھی کس کس کر جواب دے رہی تھی.
تھپ-تھپ کی آوازیں تیز ہو گئی تھی. تیز بھچيڑو سے میں نہال ہونے لگی تھی. میں تو انتہائی حد کو لاگھنے ہی والی تھی ... پر اشوک کی ادا نے مجھے زور سے جھڑا دیا. اس نے میرے چوچك کو کھینچ کر مسل دیا. میری چوت میں ایک آگ سی اٹھی اور ... اور میں زور سے جھڑنے لگی.
اس نے بھی کسی فلمی سٹايل میں اپنا لنڈ چوت سے باہر نکالا اور تیزی سے مٹھٹھ مارتے ہوئے اپنا ویرے ہوا میں اچھال دیا. اس کی پچکاریاں دل کو موہ لینے والی تھی. ایک کے بعد ایک پچکاری! سست پڑتی گئی اور آخر میں بوند بوند کو نچوڑ کر اس نے اپنا پروگرام خوشحال کیا.
چودنے کے بعد پھر وہ اچھل کر کسی کھلاڑی کی طرح بستر کے نیچے کھڑا ہو گیا. میں نے بھی جلدی سے اپنے کپڑے کھینچ کر پہننے لگی.
"اب تمہیں سمجھ میں آ گیا کہ سنجیو کو کیا چاہیئے؟"
"اه، ابھی مکمل سمجھ میں نہیں آیا ..." میں نے اسے ٹیڑھی نظر سے دیکھ کر مسکرائی.
"اب کیا رہ گیا ہے ...؟"
"یہ تو سامنے جنت کا دروازہ کھلا پڑا تھا تو جھنڈے گاڑ دیے ... پاتال لوک میں جھنڈے گاڑو تو پتہ چلے کہ جناب کتنے پانی میں ہیں. '
"وہ کیا ہوتا ہے ...؟"
رات کو اسی کمرے میں آ جانا ... اور پاتال لوک میں جھنڈے گاڑ دینا. میری ترچھی نگاہ اسے گانڈ مارنے کا دعوت دے رہی تھی.
میں رات کو اشوک کا انتجار کرنے لگی. جب رات کے گیارہ بجنے لگے تو مجھے نیند سی آنے لگی. چوت کی کھجلی بھی تیز ہونے لگی تھی. میں چداسي بھی ہو چلی تھی. طرح طرح کے چدنے کے خیال آ رہے تھے. انہی مدھر خیالات میں نہ جانے کب میری آنکھ لگ گيسپنے میں بھی میں اشوک سے چد رہی تھی. تبھی جیسے میری آنکھ کھل گئی. اندھیرے میں مجھے لگا کہ اشوک آ گیا ہے.
"کتنی دیر کر دی؟"
"ش ... ش ش ... چپ رہو ...!" اس فسفسانے کی سی آواز آئی.
وہ چپ سے میرے بستر پر آ کر لیٹ گیا. اس نے اپنی پتلون اتار دی. میں تو پہلے ہی مختصر شمیج پہنے ہوئے تھی تو کمر سے اوپر اٹھا لی. میری خوبصورت گول گانڈ سے اسکا لنڈ سٹ سا گیا. میں نے تیل لگا کر پہلے ہی اسے ہموار کر دی تھی پر اسکا لنڈ تو آگے بڑھ گیا اور میری چوت کو ٹٹولنے لگا.
"ارے یہ کیا کر رہے ہو؟ بات تو پاتال لوک کی ہوئی تھی، جنت لوک کی نہیں."
"ش ... ش ش ...!" وہ مجھے چپ ہی کرتا رہا. میں نے بہت کوشش کی کہ اسے اپنی چوت سے دور رکھوں پر کیا کرتی اس کی طاقت کے آگے پھر میں نے اعتراف کر دیا اور اس کا سخت لؤڑا میری چوت میں گھستا چلا گیا.
اس بار کتنا بھاری لگ رہا تھا اسکا لنڈ، لگ رہا تھا کہ بہت جوش میں تھا. جانے اسکا لنڈ اتنا لمبا کیسے ہو گیا تھا کہ میری چوت کی گہرائی کو وہ آسانی سے ناپ رہا تھا. اسکے دھکے بھی چوت میں کسے کسے سے لگ رہے تھے.
"بہت مجا آ رہا ہے جانو ... ذرا تیزی سے چودو!"
"جی ہاں رانی ... تیری چوت تو کتنی کسی ہے ...!"
میرا دل دھک سے رہ گیا ... ہاے رے ...! یہ کیا ہو گیا ... یہ کون ہے ... کون چود رہا ہے مجھے ... کس کی آواز ہے یہ ...؟
"کون ہو تم ... اور تم یہاں کیسے آ گئے ...؟"
"میں سورج ... وہی اشوک کے بچپن کا دوست ... يشودا جی پلیج ... تمہیں چودنے کی میری دلی تمنا تھی."
"تو اشوک کہاں ہے؟"
اسکے لنڈ میں تو سویرے چودتے وقت چوٹ لگ گئی تھی. جب میں نے اپنے دل کی بات بتائی تو اس نے مجھے بھیج دیا.
"اوهه، تو تم ہو سورج ... سالا مجھے تو ڈرا ہی دیا تھا."
میں نے اب تسلی سے اپنی ٹاںگیں چدنے کے لیے فیلا دی. اب وو اور مستی سے گہرائی تک شاٹ لگانے لگا تھا. میری ایک ٹانگ اس نے تھام رکھی تھی. میری نرم چوت کو وہ کس کر پیل رہا تھا. میری چوت کو آخر ترپت مل ہی گئی اور میں جور سے جھڑ گئی.
'بس کرو اب سورج ... مجھے لگ رہی ہے ...! "
"پیچھے کی مار دوں ...؟"
"تو پہلے کیا کہہ رہی تھی میں ... تم تو سن ہی کہاں رہے تھے ..."
"پہلے يشودا جی ... آپ چود کر مزے تو لے لیتا پھر گانڈ کے مزے لیتا ..."
اس کا موٹا لنڈ میری گانڈ کے حلقے میں فںس سا گیا. بہت موٹا تھا ...
"ارے دھیرے سے ... بہت موٹا ہے یہ تو ...!"
"يشودا جی ... آپ تکلیف نہیں ہونے دوں گا ..."
اس نے اس بار ہلکا سا جور لگایا ... لنڈ دھیرے سے اندر سرک گیا.
"افف! سالا، کیا موسل جیسا ہے ...! ايييي ذرا آہستہ نا ... میری فٹ جائے گی."
اس نے پہلے تو باہر نکالا پھر واپس اندر کر دیا. افف، پہلے تو ایسی تکلیف کبھی نہیں ہوئی تھی. وہ اب اپنا لنڈ تھوڑا سا گھسا کر لیٹ گیا. مجھے اپنی گانڈ میں لنڈ بہت بھاری سا لگ رہا تھا ... کچھ کچھ فسا ہوا سا ... میں نے ہی دھیرے سے گانڈ کا دباؤ اس کے لنڈ پر ڈالا. اس نے بھی دباؤ محسوس کیا اور لنڈ کو اندر گھسیڑ دیا.
"او او ... بس بس ... یہ تو بہت موٹا ہے، اسے نکال ہی دو پلیج!"
پر ہوا الٹا ہی ... اس نے لنڈ کو اور اندر دبا ڈالا.
"ارے! ارے، کیا کر رہے ہو ...؟ بولا نا، بس کرو ...!"
"تیری تو بھےن کی بھوسڑي ... چپ سے پڑی رہ ..."
اس کی زبان سن کر میں تو جیسے سنن سی رہ گئی پر اس نے اپنے آپ پر قابو پایا اور بولا ارے، آرام سے گانڈ چودنے دے ... دیکھ تکلیف نہیں ہونے دوں گا ... اب روک مت مجھے.
اب وہ لنڈ کو دبا کر اندر شامل کرنے لگا. درد تو نہیں ہوا پر لنڈ فستے ہوئے اندر جا رہا تھا.
"لے مکمل بیٹھ گیا نا ... نہیں ہوئی نہ تکلیف؟"
'افف ... سچ کہتے ہو ... مزہ آ گیا ... اب چل چود میری گانڈ ...! "
اس نے میری کمر کو تھام کر لنڈ کو اهستے سے چلانا شروع کر دیا. آہستہ آہستہ گانڈ نے لنڈ کے سايج کے مطابق خود کو قائم کر لیا. اب سورج میری گانڈ آرام سے چود رہا تھا. اتنی دیر میں شاید میری چوت میں بھی گرمی آگئی تھی اور چوت پانی چھوڑنے لگی تھی. اب تو میرا پورا جسم تال میں آگے پیچھے ہو کر گانڈ کی چدائی میں مدد کر رہا تھا. سورج بھی میری کسی گانڈ کی مار کب تک جھےلتا. اسنے میری گانڈ میں ہی ويريپات کر دیا.
"میری چوت میں تو آگ لگ گئی ہے ... اب کیا کروں سورج؟ بجھا دو پلیج."
اس نے فورا میری چوت سے اپنا مکھ چپکا دیا اور میرے دانے کو چوس چوس کر مجھے جھڑا دیا. میں نے گہری سانس لی اور نڈھال سی پڑ گئی.
سورج اندھیروں میں ہی اٹھا اور اپنے کپڑے پہن کر چپکے سے باہر نکل گیا. میں لیٹی لیٹی سوچتی رہی کہ اشوک سے تو یہ سورج ہی زوردار ہے ... اس سے چدوا کر بہت مزا آیا. یہ سنجیو تو مجھے ہر جگہ چدوا کر ہی چھوڑیگا دیکھ. کیسی آگ لگا دی ہے دل میں اس نے ... ہاے کیسا ہے یہ ظالم. لگتا ہے سنجیو تو جب چودیگا تو تب دیکھا جائے گا ... دنیا تو مجھے پہلے ہی چود ڈالےگي.

دسویں کہانی

میرے ایک قریبی دوست کے گھر میں ایک پارٹی کا اہتمام تھا اور میں اس میں گیا تھا کیونکہ وہ میرا بہت قریبی دوست تھا تو مجھے کافی کاموں کی ذمہ داری دی گئی تھی. مہمانوں کو لانے کی، واپس چھوڑ کر آنے کی، پارٹی میں اس کا خیال رکھنے کی وغیرہ-وغیرہ.
سارے کام صحیح جا رہے تھے، پارٹی کافی اچھی چل رہی تھی، مہمان آ رہے تھے.
تبھی ایک خاتون مہمان آئی برکے میں اور وہ براہ راست خواتین کے کمرے کی طرف چلی گئی. یہ بات میں نے اپنے دوست کو بتا دی تو اس نے بتایا کہ وہ اس کی بھابھی کی کوئی دوست ہوگا.
بعد میں مجھے میرے دوست کی بھابھی کے ساتھ کوئی لڑکی برکے میں نہیں دکھائی دی تو میں نے ان کو بتا دیا کہ ایک لڑکی برکے میں آئی تھی اور براہ راست خواتین کے کمرے کی طرف چلی گئی تھی تو انہوں نے اپنے پاس ہی کھڑی ایک لڑکی کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وہ شاذيا تھی اور انہوں نے اس سے میری ملاقات کروائی. ہماری ہائے ہیلو ہوئی. پھر میں پارٹی کے باقی کاموں میں لگ گیا.
اب آہستہ آہستہ پارٹی ختم ہونے لگی، لوگ اپنے گھر جانے لگے تو بھابھی نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں شاذيا کو اس کے گھر پر چھوڑ آاوں کیونکہ میرا دوست کسی اور کو چھوڑنے کے لئے گیا ہوا ہے اور شاذيا کو گھر کے لئے تاخیر ہو رہی ہے.
میںنے کہا- ٹھیک ہے.
میں نے شاذيا کو اپنی موٹر سائیکل پر بٹھایا اور ہم چل دئے. راستے میں میں نے شاذيا سے تھوڑی بہت پھلرٹگ بھی کی کیونکہ وہ میری عادت ہے. پر یہ بھی سچ تھا کہ وہ واقعی میں کافی خوبصورت تھی، ایک دم دودھ جیسی سفید تھی، ہاتھ لگاؤ تو ڈر لگے کہ کہیں میلی نہ ہو جائے. ہونٹوں پر ہلکی گلابی رنگ کی لپسٹک، گالوں پر روذ. ہلکے گلابی رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا اور سوٹ پر غضب کی کڑھائی اور جسم کی بناوٹ بالکل سڈول، پھگر تھا ایکدم قاتلانہ 34-30-36!
قریب 15 منٹ کا سفر تھا تو راستے میں ہماری تھوڑی بہت بات ہی ہوئی، پھر شاذيا نے کہا کہ میں ان کو ایک گلی کے سامنے چھوڑ دوں، وہاں سے ان کا گھر قریب ہی ہے.
مجھے تھوڑا عجیب لگا کہ رات کا وقت ہے اور وہ اکیلی لڑکی کیسے جائے گی.
تو میںنے کہا- میں آپ کو گھر تک چھوڑ دیتا ہوں!

تو انہوں نے انکار کر دیا اور بولی گھر کے پاس ہی ہے.
تو میں نے ان سے کہا ایسا ہے تو آپ چلی جائیں پر میرا فون نمبر لے لیجیے اور گھر پہنچ کر ایک میسیپ کر ديجيےگا جس میں فکر ہو جاؤں.
تو انہوں نے میرا نمبر لے لیا. پھر وہ چلی گئی، میں وہیں کھڑا رہا اور تقریبا 10 منٹ کے بعد ان کا میسیپ آ گیا کہ وہ گھر پہچ گئی ہیں. پھر میں اپنے گھر چلا گیا.
اور اس کے بعد ہم دونوں کی میسیج کے ذریعے باتیں ہونے لگی. آہستہ آہستہ ہم دونوں کافی اچھے دوست بن گئے.
ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ ان کا کوئی بوائے فرینڈ ہے کیا؟ تو اس پر وہ مسکرا دی اور مجھ سے پوچھا کہ مجھے ان کی عمر کیا لگتی ہے؟
تو میں نے کہا کہ آپ شاید 23-24 کی ہو!
اس پر وہ ہنس کر بولی ارے میں 30 کی ہوں.
مجھے تو جیسے شاک لگ گیا، میں نے کہا ایسا ہو ہی نہیں سکتا!
تو وو بولی- ایسا ہی ہے.
مجھے یقین نہیں ہوا، تب انہوں نے بتایا اپنی زندگی کے بارے میں کہ ان کا نکاح 6 سال پہلے ہوا تھا اور نکاح کے 3 سال بعد ان کو پتہ لگا کہ ان کے شوہر کے کسی دوسری عورت سے تعلق ہیں تو اس کے بعد ان کا طلاق ہو گیا اور گزشتہ 2 سال سے وہ اپنے والدین کے گھر رہ رہی ہیں اور ٹیچر کی جاب کر رہی ہیں.
یہ سب سن کر مجھے بہت غصہ آیا تھا کہ کوئی کیسے اتنی خوبصورت بیوی کے ہوتے ہوئے بھی کسی اور عورت کے پاس جا سکتا ہے اور دکھ بھی ہوا شاذيا کی زندگی کے حالات کو دیکھ کر.
اس دن کے بعد سے میرے دل میں شاذيا کے لئے محبت اور ہمدردی دونوں بہت بڑھ گئے تھے. میری ہمیشہ یہی کوشش رہتی کہ جتنا ہو سکے میں شاذيا کو خوشی دے سکوں. کافی فرق تھی جیسے کہ ہماری عمر، ہمارا مذہب پر پھر بھی ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے تھے. یہ بات ہم نے ایک دوسرے سے جبا سے کہی نہیں تھی پر آنکھیں سب کہہ دیتی تھی.
ہم چھپ چھپ کر ایک دوسرے سے ملتے رہتے تھے کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے گھر والوں کو میرے بارے میں کچھ پتہ لگے.
اسی دوران میرا سالگرہ آیا. میں نے سارا دن شاذيا کے فون یا میسیج کا انتظار کیا پر اس کی کوئی کال یا میسیج نہیں آیا. مجھے بہت غصہ تھا اس کے اوپر. شام کو قریب 5 بجے اس نے کال کی اور سالگرہ مبارک کہا. میں نے اس سے کوئی خاص بات نہیں کی. وہ سمجھ گئی کہ میں اس سے کافی غصہ ہوں تو وو بولی- غصہ مت کرو اور میرے گھر آ جاؤ.

میںنے کہا- کیسے آاوں؟ تمہارے گھر والے ہوں گے.
تو اس نے بتایا کہ سارے گھر والے باہر گئے ہے اور کل آئیں گے.
تو میں نے اس سے پتہ سمجھا اور اس کے گھر پہنچ گیا. گھر پہنچتے ہی اس نے سب سے پہلے مجھے گلے لگ کر سالگرہ کی مبارک باد دی. یہ پہلی بار تھا جب میں نے اس کے جسم کی گرماهٹ کو محسوس کیا. گلے ملتے ہوئے اس کے نرم نرم چھاتی میرے جسم سے ٹكراے. وہ میرے لئے ایک یادگار لمحے بن گیا تھا اور شاید اب تک کا سب پیارا سالگرہ کا تحفہ.
پھر وہ میرے لئے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا کیک لائی اور ہم نے کیک کاٹا. میں نے اس سے کھلایا اور اس نے مجھے.
میں نے سوچ لیا تھا کہ آج اس سے بول ہی دوں گا کہ میں اس سے کتنا پیار کرتا ہوں.
پھر اس نے تھوڑا سا کیک میرے چہرے پر لگا دیا اور ہنسنے لگی. دل تو کیا کہ میں بھی اس کے چہرے پر کیک لگا دوں پر اس کا ہنستا ہوا چہرہ دیکھ کر نہیں لگایا. پھر میں باتھ روم میں چہرہ صاف کرنے گیا، واپس آکر دیکھا تو محترمہ اپنے کمرے میں رضائی ڈال کر لیٹی ہوئی تھی. پھر میری طرف دیکھ کر کہا یہیں آ جاؤ، تھوڑی دیر ٹی وی دیکھتے ہیں، پھر کھانا کھائیں گے.
میں نے پاس جا کر پوچھا میں کہاں بیٹھوں؟
کیونکہ صرف ایک بیڈ تھا، تو اس نے کہا یہیں آ جاؤ رضائی میں، باہر کافی ٹھنڈ ہے.
دسمبر کا مہینہ تھا، ٹھنڈ اپنے پورے شواب پر تھی. وہ ایک سنگل بیڈ تھا تو میں اس کے پاس ہی جا کر لیٹ گیا. پھر قریب 10 منٹ ہم ایسے ہی ٹی وی دیکھتے رہے. اس کے بعد میں نے اپنا ہاتھ رضائی کے اندر ہی اس کی کمر پر رکھ دیا تو اس نے میری طرف کروٹ لی. چونکہ میں اس کے قریب ہی لیٹا ہوا تھا تو اس کے کروٹ لیتے ہی اس کے بال جو کی کھلے ہوئے تھے اس وقت، میرے چہرے پر آ گئے اور ہم دونوں کے چہروں کے درمیان صرف 2 انچ کے فاصلے تھی. ہم دونوں کی آنکھیں ملی اور قریب 2-3 منٹ ہم ایک دوسرے کو ایسے ہی دیکھتے رہے اور پھر پتہ ہی لگا کب ہم ایک دوسرے سے لپٹ گئے. ہم دونوں کے جسم ایک دوسرے کے جسم سے رگڑے جا رہے تھے اور پھر ہم دونوں کے ہونٹ آپس میں ٹکرا گئے.
مجھے یاد ہی نہیں کہ جانے کتنی دیر ہم ایک دوسرے کو چومتے رہے، شاید 20 منٹ اور اس دوران ہماری زبان بھی ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ کر کھیل رہی تھی.
پھر میں اس کی گردن کو چومتا کبھی اس کے کان کے پیچھے کی طرف چومتا اور وہ بہت ہی زیادہ شہوانی، شہوت انگیز سسکاریاں لے رہی تھی اور درمیان درمیان میں بول رہی تھی 'نہیں نہیں! ہمیں یہ سب نہیں کرنا چاہئے!

پر اس کے لفظ اور اس کا جسم دونوں مختلف زبان بول رہے تھے، وہ مجھ لپٹی جا رہی تھی اور میں اس سے. پر وو پھر بھی بول رہی تھی کہ نہیں، یہ صحیح نہیں ہے.
میں اس کی گردن کو چومتے-چومتے اس کے گلے تک آ گیا اور سوٹ کے اوپر سے ہی اس کے چھاتی کو چومنے لگا.
جیسے ہی میں نے اپنے اپنا ایک ہاتھ اس کے چھاتی پر رکھ کر اس سے ہلکا سا دبایا، اس کے منہ سے سی ایئی ي اپھ مم اپھ کی آوازیں نکلنے لگی. پھر اس نے مجھے اپنی طرف کھینچا اور مجھے بیتہاشا چومنے لگی، میرے ہونٹوں کو اس نے اپنے ہونٹوں سے بھر لیا اور مجھے چومے جا رہی تھی.
پھر دھیرے دھیرے ہم دونوں کے سارے کپڑے اتر گئے. وہ صرف سیاہ رنگ کی برا پیںٹی میں تھی اور میں اپنے جوكي انڈرویر میں.
تب میں نے ٹیوب لائٹ کی روشنی میں اس کو اچھے سے دیکھا. دودھ سے بھی زیادہ گوری لڑکی کالی برا پیںٹی میں.
اس کی برا کا سائیز 34 ڈی تھا. ہم پھر ایک دوسرے سے لپٹ کر چوم رہے تھے اور چومتے-چومتے میں نے اس کی برا کی ایک سائیڈ کو نیچے کھسکا کر اس کے نپل کو ہاتھ سے ہلکا ص مسل دیا.
اس کی اپھپھ سی ای ایئی ييي ممم آ ااهه سسکاریاں شروع ہو گئی.
اس کا نپل بہت ہی ہلکا براؤن تھا. مجھے رہا نہیں گیا اور میں نے اس کے نپل کو منہ میں بھر لیا اور دبا دبا کر چسكنے لگا.
اس کی بہت ہی فحش اور پاگل کر دینے والی سيتكارے نکل رہی تھی. پھر ایک ایک کرکے میں نے اس کے دونوں نپل کو چوسا، مموں کو خوب دبایا اور اس کے سینوں کو چسكتا رہا.
ادھر میرا لںڈ نیچے کپڑے پھاڑ کر باہر آنے کو بیتاب ہو رہا تھا.
اب اس سے رہا نہیں گیا اور اس نے اپنا ہاتھ میرے اںڈرویر میں ڈال کر میرا لںڈ پکڑ لیا اور اس کو سہلانے اور آگے-پیچھے کرنے لگی.
آہستہ آہستہ میرا لنڈ اس کے منہ میں تھا اور وہ اس کو بہت ہی پیار سے چوسے جا رہی تھی اور مجھے پاگل کر رہی تھی.
اب میرے منہ سے اهههه اههه نکلنے لگی. پھر میں نے اس کی برا اتار پھینکی. ادھر اس نے میرا انڈرویر اتار دیا اور پھر سے میرے لںڈ کو مںہ میں بھر کر چوسنے لگی.
پھر وہ میرے اوپر آ گئی اور میرے نپل کو منہ میں لے کر زبان سے رگڑنے لگی. یہ میرے لئے نیا تھا، اس کے اس انداز نے مجھے پاگل کر دیا.
پھر میں نے اس کو روکا اور نیچے جا کر اسکی پیںٹی اتار دی. اسکی چوت پر ایک بھی بال نہیں تھا، ایک دم پھولی ہوئی سی چوت تھی اسکی. مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے اپنا منہ اس کی چوت پر رکھ دیا اور اس کی چوت کا چومنے اور چوسنے لگا.
اس کو مزا آنے لگا اؤر وو آہیں بھرنے لگی، اس کی آہیں سن کر میرا جوش بڑھنے لگا تو میں اس سے اور زور زور سے اس کی چوت کو چوسنے لگا اور میں نے اپنی جیبھ اسکی چوت میں ڈال دی تو اس کی حالت خراب ہونے لگی .. وو اپنی گاںڈ اٹھانے لگی اور میرا سر پکڑ کر اپنی چوت پر دبانے لگی. میں اسکی چوت چوستا رهاپھر ہم 69 کی حالت میں آ گئے، میں اس کی چوت چاٹ رہا تھا، چوس رہا تھا اور وہ میرا لںڈ.

تھوڑی دیر میں اس کی چوت نے اپنا کام-رس چھوڑ دیا اور اس نے زور زور سے چوستے ہوئے مٹھ مار کر میرا مال نکال دیا.
ہم پھر سے ایک دوسرے کو چومنے لگے اور پھر اس نے میرے لںڈ کو اپنے مںہ میں لیا اور چوسنے لگی.
میں نے اس کے گورے اور چکنے پیٹ کو چوم رہا تھا اور اس کی پھولی ہوئی چوت کو اپنی انگلی سے چود رہا تھا ..
10-12 منٹ چوسنے کے بعد میرا لںڈ پھر سے تیار ہو گیا، وو بولی- اب نہیں رہا جا رہا ہے، پلیز اپنا میری میں ڈال کر میری پیاس بجھا دومےنے اپنے لںڈ اسکی چوت کے منہ پر رکھا اور ہلکا سا اس پر رگڑنے کے بعد اسکی منیا میں دبا دیا ..
میرا ٹوپا اندر تھا اور پھر میں نے لنڈ کو باہر نکالا اور ایک جھٹکے میں پورا اس کی چوت میں ڈال دیا. شاذیہ کی ہلکی چیخ نکل گئی، میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے.
اب میرا لںڈ اؤر اسکی چوت آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ چدائی کا کھیل کھیل رہے تھے. اس کی چوت کسی ہوئی تھی کیونکہ اس نے کافی دنوں یا سالوں سے کسی کے ساتھ کچھ کیا نہیں تھا ..
تھوڑی سی پریشانی کے بعد لںڈ آرام سے جا رہا تھا اس کی چوت کے اندر ..
چوت ایک دم گیلی تھی، کافی مزا آ رہا تھا اور اس کے اوپر سے اسکی بے حد شہوانی، شہوت انگیز سسکاریاں ہاے ہاے سسس آا ممم اپھپھ اور زور سے چودو مجھے ممم آآ اہ آ، کافی دن ہو گئے چدے ہوئے! چودو چودو اور تیز هههه سييي ممم ممم. پورا کمرہ اس کی سسكاريو اور پٹ پٹ کی آوازوں سے بھرا ہوا تھا. قریب 10-12 منٹ کی زوردار چدائی کے بعد میرا نکلنے والا تھا. میں نے اس سے پوچھا کہاں نكالو؟
تو وو بولی- میں بھی جانے والی ہوں، تم میرے اندر ہی چھوڑ دو!
پھر تقریبا ایک ساتھ ہم دونوں کا نکل گیا! میں نے اپنا مال اس کی چوت میں ہی چھوڑ دیا اور اس کی چوت نے میری ایک ایک بوںد نگل لی.
ہم دونوں کافی تھک گئے اور اسی حالت میں سو گئے ..
اس پوری رات ہم نے تین بار ایک دوسرے کو پیار کیا اور انتہائی پر جا کر سکھلت ہوئے.
پھر صبح اس نے مجھے ایک پیارا سا بوسہ دے کر اٹھایا، ہم ایک بار اور محبت کا کھیل کھیلنا چاہتے تھے لیکن اس کے گھر والے کبھی بھی واپس آ سکتے تھے سو مجھے جانا پڑا پر وو پہلی اور شاید آخری بار ہم نے پیار کیا تھا ایک دوسرے کو کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہو سکتا اور اس نے اپنے کسی چچازاد سے نکاح کر لیا اور ملک چھوڑ کر چلی گئی.

 

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. جو لڑکیاں اور عورتیں سیکس کا فل مزہ رٸیل میں فون کال یا وڈیو کال اور میسج پر لینا چاہتی ہیں رابطہ کریں 03488084325

    جواب دیںحذف کریں

THANKS DEAR