میں غلط نہیں تھا مگر

 


میں غلط نہیں تھا مگر


اب  وہ بالکل ننگی ہو چکی تھی۔ اس کا پورا جسم میرے سامنے تھا۔میں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور اسکے پیٹ  کو چھونے لگا۔ اس کو اب مزہ آنے لگا تھا۔  وہ چاہتی تو ماچس لے کر واپس جا سکتی تھی۔ مجھے لگا وہ خود بھی یہی چاہتی ہے کہ میں اس کی جوان ٹانگوں کے درمیان ہا تھ لگاؤں اور  اس کو مسلوں۔ میں گم سم کھڑا تھا۔
میں ماچس مانگ رہی تھی آپ سے۔ آپ کن خیالوں میں کھو گئے؟‘ اس کی آواز مجھے حقیقی دنیا میں لے آئی۔ اس نے ہلکے گلابی رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور گلابی دوپٹہ اس کے گلے میں تھا۔ اس کی قمیض کا گلہ اتنا تھاکہ سینے کی گولائیاں بالکل نظر نہیں آ رہی تھی۔ میں نے اپنے دماغ میں ہی اس کو ننگا کیا تھا اور اس کے پیٹ کو چھو لیا تھا۔ یقینا اس کو لگا ہو گا کہ میں اس کو گندی نظر سے دیکھ رہا ہوں۔ کم از کم مجھے تو یوں ہی لگا کیونکہ اس نے فورا ً اپنے دوپٹے کو گلے پر پھیلا لیا۔
وہ، دراصل، میں سوچ رہا تھا....‘ میں نے رک رک کے کہا۔  ’کہ ماچس کدھر پڑی ہو گی؟
ماچس تو کچن میں ہی ہوتی ہے نا۔‘ وہ لوگ سامنے والے گھر میں آج ہی شفٹ ہوئے تھے۔ اس نے اپنا نام حنا بتایا تھا۔ ان کے ابا نہیں رہے تھے اور بس وہ  تین بہنیں اور ان کی امی ہی گھر کے کل افراد تھے۔
آپ اپنی امی سے کہہ دیں وہ دے دیں گی۔‘ حنا نے تجویز دی۔
میری امی تو فوت ہو چکی ہیں۔ بس  فاطمہ اور اماں بی بی گھر میں ہوتی ہیں۔‘ میں نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔ ’اور اس  وقت فاطمہ کے کالج میں جمناسٹک کا مقابلے میں شرکت کر رہی ہے  اور اماں بی بی بازار سے سودا سلف لینے گئی ہیں۔‘ یہ کہہ کر مجھے غلطی کا احساس ہوا کہ مجھے گھر میں اکیلا پا کر وہ تو فوراً واپس چلی جائے گی۔لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
اچھا میں سا تھ والے ہمسایوں سے لے لیتی ہوں‘ وہ یہ کہہ کر پلٹنے ہی والی تھی کہ میں نے آخری امید کے
طور پر کہا۔
آپ خود ماچس دیکھ لیں کچن میں۔‘ میں جانتا تھا کہ وہ یہ جاننے کے بعد کے میں گھر پر اکیلا ہوں اور للچائی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا،  وہ اندر نہیں آئے گی۔
نہیں میں سا تھ والو ں سے لے لوں گی، آپ کو زحمت دی میں نے‘۔ اس نے کہا۔
نہیں، نہیں اس میں زحمت کی کیا بات ہے۔ آئیے نا‘۔ میں دروازے سے پیچھے ہٹ گیا۔
وہ  سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کرے لیکن حیرت انگیز طور پر وہ گھر میں داخل ہو گئی۔ وہ ہو گی تو اٹھارہ بیس سال کی لیکن لگتی سولہ سال کی تھی۔اس کے کپڑے اس کی جسم پر بہت سج رہے تھے۔ اس نے دوپٹہ سر پر نہیں اوڑھا تھا بس گلے میں ہی لیا ہو ا تھا۔  میں نے اس کو گلے لگایا تو کتنا ہی مزہ آئے گا۔ اس کی چھاتیاں کتنی بڑی ہیں۔۔
کچن کدھر ہے؟‘ اس نے مجھ سے مڑ کر پوچھا اور میں ایکدم ٹھٹک کے رک گیا۔ میرا  دل دھڑ ک اٹھا  کہ جب وہ مڑی تو اس کی چھاتیوں کے ابھار تقریباً میرے سینے سے چھو ہی گئے۔
جی،  سامنے دائیں طرف۔‘ میں نے کہا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظراس کے سینے پر تھی۔  اس کو پھر احسا س ہواکہ میں اس کے ابھاروں کو دیکھ رہا ہوں اور اس نے دوبارہ دوپٹہ درست کیا۔ وہ آگے کو مڑی اور کچن کی طرف بڑھی۔
میں اس کے پیچھے ہی کچن میں پہنچ گیا اور میری نظریں اس کے چوتڑوں پر تھی۔ دل کرتا تھا کہ ان پر ہاتھ پھیروں مگر ہاتھ آگے نہ بڑھ سکے۔
ادھر کیبنٹ میں دیکھیں۔‘میں منمنایا۔اس کی بہادری دیکھ کر میں جہاں خوش تھا وہیں تھوڑا پریشان بھی تھا۔وہ میری گندی نظروں سے آگاہ تھی لیکن اس کے باوجود اندر آ گئی تھی۔ وہ بھی تو عمر کے اس حصے میں تھی جس میں سب کا دل ہی کچھ کرنے کو چاہتا ہے۔وہ بھی چاہتی تھی کہ میں اس کے سینے کو چھوؤں اوراس کی گولائیوں سے لطف اندوز ہوں۔  یا یہ میری ہی گندی سوچ تھی۔میں جانتا نہیں تھا مگر اس کا ایک ہی طریقہ تھا کہ میں اس کے سا تھ تھوڑا بے تکلف ہو جاتا۔
آپ کے کپڑے بہت اچھے  لگ رہے ہیں۔‘  مجھے لگا کہ شاید وہ برا منا جائے گی کہ میں اس کے ساتھ زیادہ ہی فری ہو رہا ہوں۔
واقعی۔ آپ کو اچھے لگے۔رابعہ کہہ رہی تھی کہ بالکل اچھے نہیں لگ رہے۔ میں اس کو بتاؤں گی۔ اوہ میں آپ کو بتانا بھول گئی کہ رابعہ میری چھوٹی بہن ہے اور سعدیہ میری بڑی بہن ہے۔ ہم جب انارکلی گئے تھے نا، تب ہی ہم نے لیے تھے یہ کپڑے۔۔۔‘مجھے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ لڑکیاں اپنے کپڑوں کے بارے میں اتنی جذباتی ہوتی ہیں۔ وہ بولتی جا رہی تھی اور میں سنتا جا  رہا تھا۔ میری نظریں کبھی اس کے سینے پر ٹھرتیں کبھی اس کے ہونٹو ں پر اور کبھی اس کے بالوں پر۔اس نے مجھے اپنے سارے کپڑوں کی تفصیل بتائی کہ کب لیے اور کب سلوائے اور کہاں سے۔مجھے اس کی ساری باتیں بہت اچھی لگ رہی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ وہ بولتی رہے اور میں اس کو دیکھتا رہوں۔
آپ مجھے اپنے سارے کپڑے پہن کر دکھائیے گا میں آپ کو بتاؤں گا کہ کون سے اچھے ہیں اور کون سے نہیں۔‘  میرا مقصد تھا کہ اس کے ساتھ میر ا تعلق بنا رہے اور وہ دوبارہ بھی آئے۔  وہ سمجھی کہ شاید میں اس کے کپڑوں میں دلچسپی لے رہا تھا۔ میری دلچسپی تو ان چیزوں میں تھی جو  ان  بدبخت کپڑوں نے چھپا رکھی تھی۔
آج نہیں پھر جب کسی دن امی گھر پر نہیں ہو ں گی تب میں آپ کو دکھاؤں گی کپڑے پہن کر۔‘ میرے تیر نشانے پر لگے تھے۔
اوہ میں تو بھول ہی گئی کہ میں تو ماچس لینے آئی تھی۔‘ اور پھر اس نے کیبنٹ سے ماچس لی اور چلی گئی۔
میں گم سم کھڑا اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ مجھے امید تھی کہ وہ دوبارہ آئے گی۔
کچھ دن پہلے تک میں بھی بالکل  عام لڑکا تھا۔ مجھے بھی صرف پڑھائی میں دلچسپی تھی  لیکن سٹور کو صاف کرتے ہوئے مجھے کچھ خط ملے۔ ان خطوں نے میری زندگی بدل دی۔ اگر اماں بی بی پڑھی لکھی ہوتی تو شاید وہ خط وہاں نہ پڑے ہوتے۔ ان خطوں کو پڑھنے کے بعد اب میں کوئی عام لڑکا نہیں تھا۔ میری بہن میری بہن نہیں تھی۔قانونی کاغذوں میں کچھ اور تھا اور اصل حقیقت کچھ اور تھی۔ میں مختصراً یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے ابا میرے اباہی تھے لیکن میری امی میر ی امی نہیں تھیں کیونکہ جب میرے ابا کراچی میں تھے تو ان کی ایک خاتون سے دوستی ہو گئی اور وہ خاتون میری ماں تھی۔میں اپنی اصل ماں کا نام تک نہ جانتا تھا۔ ان کا نام ان خطوں میں ہمیشہ انتہائی غلط الفاظ میں لیا گیا تھا۔  اس سارے چکر میں میری بہن پیدا ہوئی تو ابا نے اس کو اپنی بیٹی ماننے سا انکا ر کر دیا اور آخر میری بہن کی ماں، یعنی میر ی قانونی ماں نے بھی اعتراف کر لیا کہ اگر ابا دوستیاں کر سکتے تھے تو وہ بھی کہیں سے اپنی خواہشات کی تسکین کر سکتی تھی۔ اور اس ساری بحث کا نتیجہ بڑا بھیانک نکلاکہ ابا نے خود کشی کی دھمکی دی اور میر ی قانونی ماں نے اس کو رد کر دیا۔ خط تو اس کے آگے خاموش تھے مگر میرے دماغ نے حساب لگایا کہ ابا نے خود کشی کر لی اور پھر اس احساس جرم کی وجہ سے میری قانونی ماں نے بھی اپنی جان لے لی۔ میں نجانے کیسے اس گھر تک پہنچ گیا اور اماں بی بی، جو  یا تو ابا کی کوئی دور کی رشتہ دار تھیں یا  وفادار ملازمہ، انھوں نے ہمیں پالا تھا۔ ہمارا گھر کافی بڑا تھا اور اوپر کے پورشن سے کافی کرایہ آجاتا تھا۔ اماں بی بی کا بھی دنیا میں کو ئی اور نہیں تھا اور ہمارا بھی۔
میں بی اے سے انہی دنو ں فارغ ہوا تو بوریت سے بچنے کے لیے اماں بی بی کے کہنے پر گھر کی صفائی پر لگ گیا اور پھر مجھے وہ خط مل گئے۔ میں انتہائی دکھی ہو گیا۔ میری زندگی کی سار ی تصویر میرے سامنے دھندلی پڑنے لگی۔ سارا معاشرہ سارا علم اس نئی بات کے سامنے بکھر گیا۔ میں تو اپنے آپ کو کچھ اور ہی سمجھتا تھا۔ میں تو اپنے آپ کو یتیم سمجھتا تھا، مسکین سمجھتا تھا مگر میں تو کچھ اور ہی تھا۔ ایک ایسا لفظ جو کو ئی بھی اپنے بارے میں استعمال نہیں کرنا چاہتا۔میں یہ کیسے مان سکتا تھا کہ میں ایک ’حرامزادہ‘ تھا۔  شاید یہ خط غلط کہہ رہے تھے۔ میں عجیب شش وپنج میں پڑ گیا۔ اماں بی بی نے ہمیشہ کہا تھا کہ میں اپنے ہاتھو ں سے فاطمہ کی ڈولی رخصت کروں گا۔ لیکن اگر کسی کو پتہ لگ گیا کہ ہم کیا ہیں تو کیا ہو گا۔فاطمہ کو بھی بتانا ہو گا کہ ہم پیچھے سے کیا ہیں۔ کیا فاطمہ سمجھ پائے گی۔ اور پھر میں نے وہ سارے خط واپس اسی لوہے کے صندوق میں رکھ دیے اور چند دن بعد فاطمہ سے کہا کہ وہ سٹور صاف کر دے۔میں نے فیصلہ فاطمہ پر چھوڑ دیا کہ وہ ان خطوں کا کیا مطلب نکالتی ہے۔
اپنے بارے میں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں تو پریشانی کی حد کو پہنچ گیا۔  غالب نے کہا تھا
    ؎ مشکلیں پڑیں مجھ پہ اتنی کہ آساں ہوگئیں
اس کے مصداق میں بھی چند ہی دنوں میں دنیا کے سارے نئے مطالب سے آگاہ ہو گیا۔کیا تھا اتنی مشکلات سے بچنے کا طریقہ؟ کو ئی بھی نہیں۔ میری زندگی کی یہ چیزیں میرے پیدا ہونے سے پہلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ میں اپنی ماں کو جانتا بھی نہیں تھا۔ میں نے اپنے ہوش میں ان کو دیکھا بھی نہ تھا۔ وہ زندہ تھی یا مر چکی تھی، مجھے پتہ نہیں تھا۔ میں اپنے خول میں اس قدر بند ہو سکتا تھا کہ میں کسی سے کوئی تعلق ہی نہ رکھتا۔ کہتے ہیں کہ جوان لوگ اپنے مسائل کے انوکھے حل ڈھونڈ کر زندگی کی حرارت کو کم نہیں ہونے دیتے اور زیادہ عمر کے لوگ محض اس لیے زندگی کی حرارت کو کھو دیتے ہیں کہ وہ ماضی کی زندگی کے تجربات  میں ہی تمام مسائل کا حل ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ زندگی کی حرارت درحقیقت صرف تبھی قائم رہ سکتی ہے جب ہم کچھ ایسا کرنے پر تل جائیں کہ جو ہمارا دل چاہتا ہو۔ میں نے اپنے آپ کو تمام غلط سوچوں اور غلط کاموں سے بچا کر رکھا تھا۔ مگر اب کیا فائدہ؟ میرا  بر ا  ہونا پہلے سے ہی طے تھا۔ میری پیدائش سے بھی پہلے۔
مجھے یقین تھا کہ میں غلط نہیں ہوں اور نہ ہی فاطمہ۔ مگر ہماری باتوں پر کون یقین کرتا۔ یہ بہت آسان تھا کہ ہم وہ خط پھاڑ کر پھینک دیتے۔ لیکن ہم تو سچ جانتے تھے۔ ہم ہمیشہ اس شک کا شکار رہیں گے کہ کل کسی کو پتہ چل گیا تو۔یہ شک زیادہ تکلیف دہ تھا۔
میری اداسی بڑھتی گئی اور حد سے بڑھ گئی۔ اور پھر میرے ذہن میں آنے لگا کہ اگر میں زندگی سے بھر پور لطف اندوز ہو سکوں تو میری اس اداسی کا علاج ممکن ہے۔ میں تو پہلے ہی اس معاشرے کے تمام اصول وضوابط سے باہر ہوں۔ میں اس معاشرے کے ٹھیکیداروں کو جواب  نہیں دے سکتا تھا  اور میرے ماتھے پر یہ داغ ابدی تھا۔
فاطمہ مجھ سے بہادر نکلی۔ وہ  تین دن تک مجھے پریشان نظر آئی اور پھر میرے پاس آئی۔
بھا ئی، مجھ سے کون شادی کرے گا؟ کیا  فائدہ اس سب جھوٹ کا جو اماں بی بی نے ہم  دونوں کو بچپن سے سنا رکھا ہے؟‘یہ کہہ کر اس نے تمام خط میرے سامنے بستر پر پھینک دیے۔
میں کچھ نہ بولا۔ کچھ کہنے کو تھا بھی نہیں۔
وہ اٹھ کر چلی گئی۔مجھے لگا کہ  اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میرے ذہن نے ایک طرح کی بغاوت کر دی تھی۔ میں ہر اس چیز کو غلط کہنے لگا تھا جس کو میں پہلے ٹھیک سمجھتا تھا۔ مجھے یہی ایک بات سچ لگتی تھی کہ لوگ مجھے برا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ کو ئی جانتا بھی نہ تھا کہ میں کیوں پریشان تھا،  میں کیوں باغی ہوتا جا رہا تھا۔
یہ لڑکا تو ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے، اے فاطمہ تو ہی سمجھا اس کو۔‘ اماں بی بی نے فاطمہ کو کہا جب میں نے اماں بی بی کوچینل تبدیل کرنے سے انکار کیا  اور ٹی وی پر ایک مغربی فلم دیکھتا رہا جس میں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو ہونٹوں پر بوسہ دے رہے تھے۔  ان کا کہنا تھا کہ بہن کے سامنے یہ مت دیکھو، یہ بے حیائی ہے۔
پھر کیا ہوا اماں بی بی، لڑکا اور لڑکی آپس میں پیار ہی تو کر رہے ہیں، کسی کا قتل تو نہیں کر رہیا۔دیکھو عمران دیکھو۔‘ فاطمہ نے دکھی سے لہجے میں کہا۔
کس قدر بیہودہ باتیں کرنے لگی ہو فاطمہ۔  آج کل کی تو ساری نسل ہی خرابی کی طرف جا رہی ہے۔ کچھ کام کاج تو کرتے نہیں اور ٹی وی پر بے حیائی دیکھتے رہتے ہیں۔‘ یہ کہہ کر اماں بی بی وہاں سے اٹھ گئیں۔
میں نے کیا  غلط کہا۔بس ٹیوشن ہی پڑھا سکتے ہیں بھائی اس وقت۔ اور کوئی کام اتنی آسانی سے نہیں ملتا۔‘ فاطمہ نے اماں بی بی کو پورا جواب دیا۔
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اماں بی بی خود بھی تو منافقت کر رہی ہیں اور خود بھی سچ کو چھپا کر جھوٹ کو فروغ دے رہی ہیں۔  آخر کو ہر کوئی جھوٹا ہے، کو ئی زیا دہ اور کوئی کم۔
میرے خیالات فاطمہ کے بارے میں بھی کچھ عجیب سے ہو رہے تھے، اگر وہ میری بہن نہیں ہے تو وہ بھی ایک لڑکی ہی ہے مگر کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اچانک میر ی پوری دنیا الٹ دی گئی تھی۔ میں کیا کرتا۔اور پھر اگلے ہی دن حنا ماچس لینے آگئی۔
ویسے بھی میرے ذہن میں ہر وقت لڑکیاں ہی چھائی رہنے لگی تھی۔ میں کیا کر سکتا تھاا۔کہتے ہیں کہ خالی دماغ شیطان کر ڈیرہ  بن جاتا ہے۔ میرے پاس روپے پیسے تو تھے نہیں کہ کہیں باہر جاتا۔ میرے ذہن میں فاطمہ بار بار آجاتی تھی اور پھر مجھے یہ بھی لگا کہ فاطمہ بھی اسی طریقے سے سوچ رہی ہے جیسے میں سوچ رہا تھا۔ اس نے کل مجھے پہلی باربھائی کی بجائے عمران کہا تھا۔ میرا دل نہیں مانتا تھا کیونکہ میں نے ہمیشہ اس کو بھائی کی نظر سے دیکھا تھا۔ میرا دماغ روز بروز اس کو کسی لڑکی کی طرح دیکھنے لگا تھا۔ میں اس کے سینے کے ابھاروں کو دیکھتا تو مجھے عجیب سا مزہ آنے لگتا۔ کچن میں وہ کام کرتی تو میں اس کی کمر کو دیکھتا اور جب وہ میرے سامنے کھانا رکھنے کو جھکتی تو اس کی چھاتیوں کی ہلکی سی جھلک میرے لیے خوشگواری کا باعث ہونے لگی۔ فاطمہ نے بھی اس طریقے سے دوپٹہ لینا چھوڑ دیا تھا جیسے مشرقی لڑکیا ں بھائیوں کے سامنے لیتی ہیں۔
ایسے میں مجھے حنا بہت اچھی لگی۔ میں شاید اس کو پیار کرنے لگا تھا یا یہ صرف ایک ہوس تھی۔ مجھے لگا کہ فاطمہ کی بجائے حنا  میں دلچسپی لینا بہت بہتر ہے اور ہو سکتا ہے کہ فاطمہ مجھے بھائی کے علاوہ کسی اور روپ میں دیکھنا پسند نہ کرے۔ مجھے لگا کہ میں اپنی نظروں میں تو اچھا رہوں گا اگر میں نے فاطمہ کے علاوہ  کسی دوسری لڑکی میں دلچسپی لی۔  حنا معصوم تھی اور اسے کچھ پتہ نہیں تھاکہ میری دنیا الٹ چکی ہے اور میرے لیے اب اچھائی اور برائی کے تقاضے کچھ اور ہی ہیں۔
دنیا عجیب جگہ ہے۔ یہاں سب کچھ بدل جاتا ہے۔ کل تک جو میری بہن تھی آج وہ میرے لیے صرف ایک اور لڑکی تھی۔وہ لڑکی جو کل تک میر ے لیے تھی ہی نہیں آج میری جان تھی۔ اور میں جو کل تک ایک عام لڑکا تھا، آج حرامزادہ تھا۔ میں کل تک جو چیزیں سوچ بھی نہیں سکتا تھا آج وہ میرے شب وروز کو چلانے لگی تھی۔ننگی لڑکی کو دیکھنے کی خواہش اور اس کو کچھ کرنے کی خواہش ہر چیز پر چھا گئی تھی۔شاید  انفارمیشن ہی ہماری زندگیوں کے فیصلے کرتی ہے۔
دو تین دن گذر گئے۔ حنا نہیں آئی۔ میں ہر روز صبح سے شام تک اس کا انتظار کرتا۔ اس دوران میں نہ چاہتے ہوئے بھی فاطمہ نظر آتی تو اس کی چھاتیاں مجھے اپنی طرف کھینچتی اور میری نظر ان سے چپک جاتی۔ فاطمہ بھی پہلے کی طرح نہیں رہی تھی۔ شاید وہ بھی لڑکو ں کے بارے میں زیادہ سوچنے لگی تھی۔ وہ بھی ٹی وی پر مغربی پروگرام میرے ساتھ دیکھنے لگی تھی اور جب کو ئی لڑکا کسی لڑکی کو پکڑ لیتا تو بھی وہ بیٹھی دیکھتی رہتی جبکہ پہلے کبھی ایسے ہوتا تو وہ فوراً اٹھ جاتی تھی۔ اماں بی بی  بولتی رہتی تھی اور تب بھی وہ ان کی بات نہیں سنتی تھی۔ صبح جب میں واش روم میں جانے کے لیے اٹھا تو واش روم کا دروازہ پورا کھلا تھا  اور اندر فاطمہ نہا رہی تھی۔ میں ایک دم رک گیا، اس کی آنکھیں بند تھی اور وہ شاور کے بہتے پانی کا مزہ لے رہی تھی۔ وہ بچپن میں ڈر جایا کرتی تھی اس لیے کبھی اپنے کمرے کا یا واش روم کا دروازہ بند نہیں کرتی تھی لیکن اس طرح سے پورا کھلا بھی کبھی نہیں چھوڑتی تھی۔ اس کا پتلا جسم اور بڑی بڑی چھاتیاں  بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ دل بہت کیا کہ اس کو دیکھتا رہوں پر ایک ہی نظر کے بعد میں وہا ں سے ہٹ گیا اور باہر والے واش روم میں چلا گیا۔  یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ میری بہن ہے اور اگر اس کو دیکھا تو میرے اوپر کوئی برا اثر ہو جائے گا۔ دل تو چاہتا تھا مگر  ہمیشہ اس کو بہن کی نظر سے دیکھا تھا اب کیسے اسے اپنی محبوبہ بنا لیتا۔ واپس آکر لیٹا تو میرے خواب میں فاطمہ نہا رہی تھی اور میں اس کے ساتھ کپڑے اتار کر نہانے لگا۔  ’بھائی باہر نکلو، کوئی بہنو ں کے ساتھ بھی نہاتا ہے کبھی۔‘ اور میر ی آنکھ کھل گئی اور اتنا  خوبصورت خواب ختم ہو گیا۔ کا ش خواب میں یہ پتہ چل جاتا کہ یہ خواب ہے  تو میں اس کو کہتا ’مجھے اپنی چھاتیوں کو ہا تھ لگانے دو،  انہیں دبانے دو، یہ تو صرف خواب ہے، کسی کو پتہ نہیں چلے گا،کوئی کچھ نہیں کہے گا۔‘  لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ خواب میں خواب بھی حقیقت کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ میرا دل میرے خواب میں مجھے واش روم میں نہاتی ہوئی فاطمہ کے پاس لے گیا اورمیرا  دماغ زمانے کے رائج اصولوں کے مطابق مجھے  اس سہانے خواب سے باہر لے آیا۔لاکھ دل کرنے کے باوجود یوں لگتا تھا کہ وہ میر ی بہن ہے۔مجھے لگا کہ یہ دل اور دماغ کی جنگ تو میر ی جان لے کر ہی رہے گی۔
دوپہر کو جب فاطمہ کالج سے نہیں آئی تھی اور اماں بی بی حسب معمول قیلولہ کر رہی تھی، باہر کا دروازہ کھٹکا۔ میر ے دل نے کہا کہ یہ حنا ہے اور میں بھاگا بھاگا دروازہ کھولنے پہنچا۔ سامنے دیکھا تو ایک بھکاری بھیک مانگنے کھڑا تھا۔
معاف کرنا بابا۔‘میں کہہ کر واپس پلٹ  آیا۔ ابھی برآمدے میں ہی تھا کہ دروازہ پھر کھٹکا۔میں غصے میں پلٹا اور دروازہ کھول کر اس سے پہلے کہ گالیوں کا طوفان میرے منہ سے نکلتا، میں نے دیکھا کہ نیلے رنگ کے خوبصورت سے جوڑے میں ملبوس حنا باہر کھڑی تھی۔ دروازہ کھولتے ہی وہ  ایک قدم اندر آگئی۔
میں کپڑے لے آؤں، آپ کو دکھانے کے لیے۔‘اس نے بات کا سلسلہ یوں شروع کیا کہ جیسے اس دوران کئی دن نہیں بس چند منٹ گذرے تھے۔ وہ اس لہجے میں بات کر رہی تھی جیسے ہم پرانے دوست ہوں۔
نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔،مم  میر ا مطلب ہے کیو ں نہیں۔بس ایک مسئلہ ہے  اماں بی بی گھر پر ہیں، اگر ان کی آنکھ کھل گئی تو وہ برا مان جائیں گی، وہ لڑکے لڑکیوں کا ملنا ملانا پسند نہیں کرتی۔‘ میں نے مسئلہ بیان کر دیا۔میر ا ارادہ تھا کہ جب شام کو اماں بی بی کسی پڑوسن سے ملنے گئی ہوں گی تو حنا کو بلا لوں گا اور پھر جس قدر ہو سکا مزے کروں گا۔
ارے یہ تو کوئی مسئلہ نہیں، میرے گھر میں اس وقت کوئی نہیں۔ سارے بازار گئے ہیں، میں سر درد کا بہانا بنا کر رک گئی تھی، آپ میر ے گھر آ جائیں۔‘اس نے یہ کہہ کر میرا سارا مسئلہ حل کر دیا۔ مجھے اس میں اشارہ لگا کہ اس نے مجھ سے ملنے کے لئے  اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولا۔اس کا مجھے اکیلے میں اپنے گھر بلا لینے کا کیا مطلب تھا؟ کیا وہ بھی وہ سب کچھ ہی چاہتی تھی؟ میں اور وہ ایک ہی چیز چاہتے تھے؟ وہ معصوم تھی، بھولی تھی،کم عمر تھی مگر کیا وہ اتنی ہی بیوقوف تھی کہ ایک لڑکے کی اپنی چھاتیوں پر نظر کے مطلب کو نہ سمجھ سکے؟ میں نے یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کا مطلب کس نوعیت کا ہے، اچانک اپنا ہاتھ آگے کیا جیسے میں نے ایسا غیر شعوری طور پر کیا ہو۔
یہ بات۔۔‘میں نے ہا تھ آگے بڑھایا۔

فاطمہ مجھے پھر دبانے لگی۔ اب اس کے ہاتھ میرے جسم سے چھونے لگے تو زیادہ مزہ آنے لگا۔ وہ بڑی دیر دباتی رہی۔ پھر اس نے میری ٹانگیں دبای شروع کر دی۔ مجھے بہت مزہ آرہا تھا۔ میرا  عضو موٹا ہو چکا تھا۔ٹانگیں  پیچھے سے دبا تے ہوئے جب وہ میرے چوتڑوں کے پاس آتی تو مجھے گدگدی سی ہوتی اور مزہ بھی آتا۔ جب میں نے الٹا لیٹ کر دبوا لیا تو میں سیدھا ہو گیا۔
فاطمہ اب کھڑی ہو کر پیروں سے دبا دو۔‘میں نے کہا تو فاطمہ کھڑی ہو گئی۔ اس نے دیوار کا سہارا لیا اور  کھڑی ہو کر پیروں سے میری ٹانگوں کو دبانے لگی۔ جب وہ اوپر کی طرف آتی تو اس کے پیر میرے عضو تناسل سے چھو جاتے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ بس دبائے ہی جا رہی ہے اور اس بات کی اس کو پرواہ نہیں کہ اس کا پیر میرے کھڑے ہوئے کھمبے سے چھو رہا ہے۔
میں بیٹھ کر ہی دبا دیتی ہوں۔‘فاطمہ نے کہا اور بیٹھ کر پہلے میرے بازو دبائے۔ میں آنکھیں بند تھی او ر وہ میرے بائیں طرف بیٹھی ہوئی تھی۔ جب و ہ میرے دائیں بازو کو دبانے کے لیے آگے کو ہوئی تو اس کے بڑے بڑے ابھار میرے منہ کے بہت قریب آگئے۔ میں نے آنکھیں کھولی اور بہت کوشش کی کہ رک جاؤں مگر پھر بھی نہ رک سکا اور منہ تھوڑا سا اٹھا کہ ہلکے سے ہونٹ اس کے ابھاروں کو لگائے۔ مجھے شک تھا کہ اس کو کرنٹ لگے گا اور وہ پرے ہٹ جائے گی۔ لیکن اس نے کچھ بھی نہیں کہا۔ وہ میرے دائیں بازو کو دباتی رہی اور اس کے بڑے بڑے ابھار میرے منہ پر منڈلاتے رہے۔ کیا نظارہ تھا! جب وہ میرے بازو دبا چکی تو ٹانگیں دبانے لگی۔ ’اب تو اس کو مکمل اندازہ ہو جائے گا کہ میرا عضو کھڑا ہے اور پھر وہ کیا کرے گی؟‘ میرے ذہن میں سوال آیا۔ میں اس انتظار میں تھا کہ وہ کیا کرے گی، کیا ہاتھ لگائے گی یا مجھے شکایت کرے گی یا اماں بی بی کو بتائے گی۔ وہ آرام سے میرے ٹانگیں دباتی ہوئی اوپر آئی اور میرے عضو کے ارد گرد بھی اس نے دبایا اور اس ہاتھ بھی اس کو لگے لیکن وہ اپنی رفتار سے دباتی ہوئی پیروں کی طرف چلی گئی۔ جب وہ دوبارہ اوپر آئی تو اس بار اس نے زیا دہ سکون سے مجھے دبایا اوراس کے ہاتھ میرے عضو کو بھی چھو گئے اور مجھے بہت مزہ آیا۔ وہ اس ہی طرح دباتی رہی اور میں سو گیا۔ مجھے نہیں پتہ کہ وہ کب گئی لیکن اس رات میری آنکھ بھی نہیں کھلی۔
اگلی صبح اتوار تھی۔ میں نو بجے کے قریب اٹھا اور نہانے چلا گیا۔واش روم میں میرے ذہن میں ایک اور گیم آئی اور میں نے فاطمہ کو آواز دی۔ وہ کچن میں تھی  لیکن فوراً ہی آگئی۔وہ واش روم کے باہر کھڑی تھی اور دروازہ ہلکا سا کھلا تھا۔
جی، عمران‘ فاطمہ نے ہمیشہ کی طرح بڑے پیا ر سے پوچھا۔ اس نے وہ خط والے کے واقعہ کے بعد مجھے بھائی کہنا بالکل چھوڑ دیا تھا۔
فاطمہ مجھے کمر پر صابن تو مل دینا۔‘اکثر لوگوں کا ہاتھ پوری کمر پر نہیں پہنچتا اگرچہ کہ میرا پہنچ  جاتا تھا۔ میں نے بہانے کو معقول جان کر نیا پتہ پھینکا۔
جی، بس روٹی چولہے سے اتار کر آئی۔‘  فاطمہ میرے ساتھ کھیلنے لگی تھی۔ اب مجھے انتظار اس وقت کا تھا کہ جب و ہ بھی کچھ گیم میں حصہ ڈالے گی۔ وہ بس کھیل رہی تھی اور میری گیم کا لطف لے رہی تھی۔ اگر وہ خود کچھ نہ کرتی اور صرف کھیلتی ہی رہتی تو مجھے منظور تھا۔
وہ تھوڑی دیر بعد آئی اور دروازے پر دستک دے کر بولی۔
میں آجاؤں؟
ہاں۔
میں بالکل ننگا تھا اور میں نے دوسری طرف منہ کیا ہوا تھا۔اس نے پانی کا ڈبہ میرے جسم پر انڈیلا  اور میر جسم گیلا کیا۔ فاطمہ نے صابن اٹھایا اور میری کمر پر زور زور سے ملنے لگی۔ جب وہ کمر پر مل رہی تھی تو اس کے ساتھ واش روم میں ننگے ہونے کا احساس بڑا مزیدار تھا۔ میر ا عضو خاص ہوا میں لہرا رہا تھا۔
بس۔‘اس نے کمر پر لگا کر کہا۔
باقی جسم پر بھی لگا دو۔
جی اچھا۔
فاطمہ نے کہا اور بیٹھ کر میری ٹانگوں پر صابن لگانے لگی۔ اس نے میرے چوتڑوں پر بھی صابن لگایا اور زور زور سے ملا۔ وہ ایسے مل رہی تھی جیسے برتن چمکاتے ہیں۔ پھر وہ اٹھی اورمیرے سامنے آکرمیرے سینے پر صابن لگانے لگی۔ اس کی نظریں میرے جسم پر ہی رہیں اور اس نے ایک بار بھی میری آنکھو ں کی طرف نہیں دیکھا۔  اس کے اپنے کپڑے بھی گیلے ہو گئے تھے اور کئی جگہوں پر جسم سے چپک رہے تھے۔ میرے سینے اور پیٹ پر صابن لگا کر وہ نیچے بیٹھ گئی اور ٹانگوں پر صابن لگانے لگی۔ میر ا تنا ہوا  عضو اب جھٹکے لے رہا تھا اور جب وہ ٹانگوں پر زور سے صابن لگاتی تو وہ اور بھی زور سے ہلتا۔ وہ اس کے منہ کے بالکل سامنے تھا اور وہ یقینا اس کو دیکھ سکتی تھی لیکن وہ ایسے تھی جیسے اس کو نظر ہی نہ آرہا ہو یا جیسے وہ کسی بچے کو نہلا رہی ہو۔ میں نے سوچا کہ کیا وہ اس کو ہا تھ لگائے گی؟ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے اس پر صابن لگانا شروع کر دیا۔ اس نے صابن لگا کر زور زور سے اس کو ملا اور نیچے میرے گیندوں کو بھی صابن لگا کر خو ب ملا۔ پھر و ہ دوبارہ میرے عضو کو ملنے لگی۔ اس نے پورے جسم کو تو ملا ہی تھا لیکن اب جس جگہ کو وہ مل رہی تھی وہ مجھے سب سے اچھا لگ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے ملنا چھوڑ دیا۔ مجھے لگا کہ اب وہ اٹھ جائے گی لیکن اس نے دوبارہ صابن لیا اور پھر میرے عضو کو دونوں ہاتھوں سے ملنے لگی۔ اب میر ا سانس مشکل ہو گیا تھا لیکن وہ بڑے مزے سے میرے عضو کو ایک ہاتھ میں پکڑ کر ملتی اور پھر دوسرے ہاتھ میں لے لیتی اور ملتی۔اب اس کو مکمل پتہ تھا کہ ہم کیا گیم کھیل رہے ہیں۔ صابن کی بہت جھاگ بن رہی تھی لیکن اس نے پرواہ نہ کی۔ وہ دس منٹ تک میرے عضو کو ملتی رہی حتی کہ میرا سفید مادہ  باہر اچھل پڑا اور اس کے منہ پر گرا۔ اس نے اس کو  تھوڑا سا اور ملا اور پھر اٹھ کر اپنا منہ دھویا اور میرے اوپر پانی ڈال ڈال کر ملنے لگی۔ سارا صابن اتار کر اس نے تولیے سے میرے جسم صاف کیا۔ جانے سے پہلے اس نے میرے سینے پر ایک بوسہ دیا اور باہر چلی گئی۔ میں نے ناشتہ کیا اور ناول پڑھتے پڑھتے گہری نیند سو گیا اور پانچ گھنٹے سو یا رہا۔ فاطمہ تین بجے دوپہر کا کھانا لائی اور میں کھا کر پھر سو گیا۔
شام کے چھ بجے  تھے اور میں سویا ہوا تھا۔ جب مجے لگا کہ میرے ہونٹوں پر کسی نے بوسہ دیا ہے۔ میں نے سوچا کہ فاطمہ بڑی بہادر ہو گئی ہے۔ میں نے آنکھیں کھولی تو دیکھا کہ حنا آئی ہوئی ہے اور میرے اور جھکی ہوئی ہے۔
تم۔۔‘ میں حیران رہ گیا کہ وہ چھٹی کے دن کیا کر رہی ہے۔
میں نے امی کو کہا کہ امتحان قریب ہے،  سر نے بلایاہے اورانھوں نے کہا ٹھیک ہے۔‘حنا  بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ اس نے سیدھے بیٹھتے ہی آنکھیں بند کر لی۔میں نے فوراً اس کی زپ کھولی اور اس کی گوری کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ میں نے اس کے چولی کے ہک کھول دیے۔ پھر اس کی قمیض کے اوپر سے ہی میں نے اس کے سینے کے ابھاروں کو بوسے دئیے اور دانتوں سے اس کے کھڑے ہوئے  نپل کاٹے۔ یہ ایک نیا کام تھا اور اس کو بہت اچھا لگا اور اس نے آہ آہ کیا۔ میں بستر سے اٹھ گیا اور اس کے سامنے آگیا۔
کھڑی ہو جاؤ۔‘وہ ایسے کھڑی ہو گئی جیسے کو ئی معمو ل اپنے عامل کی بات پر عمل کرتا ہے۔
بازو اوپر کرو۔‘اس نے بازو  اوپر کر دیے۔ میں نے اس کی قمیض اوپر کر کے اتار دی۔ اب اس نے صرف چولی پہن رکھی تھی۔ میں نے چولی کے اوپر سے ہی اس کے نپل دانتوں سے بھنبھوڑے اور پہلے کھلی ہوئی چولی کو دانتوں میں دبا کر اس کو کمر سے اوپر ننگا کر دیا۔ اس کے پستانوں پر گلابی نپل کمال کے لگ رہے تھے۔میں نے اس کے ابھاروں کو دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور ان کو زور سے دبانے لگا، مسلنے لگا۔ مجھے بہت مزہ آرہا تھا۔ اسی وقت حنا نے شازیہ کی طرح میرا سر اپنے ہاتھوں میں لیا اور اپنے سینے کے قریب لائی اور نپل میر ے منہ میں ڈال دیا۔میں اس کے نپل چوسنے لگا مجھے بہت مزہ آرہا تھا۔ یو ں لگ

رہا تھا کہ نجانے کتنوں سالوں سے میں اس کے انتظار میں تھا۔
کچھ دیر بعد اس  نے میری قمیض اتار دی اور میرے پاجامے کو نیچے کر کے میرے عضو کو رہا کر دیا۔ اس نے دونو ں ہاتھو ں سے اس کو تھام لیا اور بڑے پیا ر سے اس پر ہا تھ پھیرنے لگی۔میں نے اس کے سینے کو اپنے سینے سے لگایا تو ایک ایسا سرور ملا جو کسی اور طریقے سے نہیں ملا تھا۔ اس کے ابھار میرے سینے کے ساتھ پچک گئے اور میں نے اس کو یو ں ہی تھامے رکھا۔ وہ میرے عضو کے سا تھ کھیل رہی تھی اور وہ مزید موٹا ہوتا جا رہا  تھا۔
اپنی شلوار اتار دو۔
آپ اتاریں نا۔‘ میرے معمول نے اپنے ہونے کا ثبوت دیا۔ میں نے جھٹ سے اس کی شلوار اتار دی۔وہ نیچے بیٹھی اور اس نے میرا پاجامہ بھی میری ٹانگوں سے علحدہ کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ اس نے آنکھیں کھولی اور میرے مردانہ پن کو دیکھا اور اس پر اپنی زبان لگائی۔ اس کی زبان میں ایک جادو تھا۔
اب اس سے رہا نہ گیا اور اس نے میرے عضو تناسل کو منہ میں لے لیا اور خو ب زور سے چوسا۔ وہ چوستی اور آہستہ سے کہتی، ’کتنا موٹا ہے یہ، کتنا لمبا ہے یہ، کتنا پیا را لن ہے آپ کا‘۔وہ تقریباً دس منٹ تک چوستی رہی۔
کھڑ ی ہو  جاؤ۔‘وہ کھڑی ہو گئی۔ میں نے اس کی پھدی پر ہا تھ پھیرا تو وہ پوری گیلی تھی۔
ادھر لیٹ جاؤ‘۔ اس نے لیٹ کر آنکھیں بند کر لی۔ اب میں نے اس کی پھدی کو زبان لگائی تو اس کا نمکین سا ذائقہ مجھے بڑا مزے دار لگا۔ اور پھر مجھے یا د نہیں کہ میں کتنی دیر اس کی پھدی کو چوستا رہا اور اپنی زبان کبھی اس کی پھدی میں گھساتا اور کبھی اس کے چوتڑ وں کے درمیان سوراخ میں۔حنا بار بار اپنی ٹانگوں کے درمیان میر ا سر پھنسا لیتی اور اسکی ٹانگوں کے پٹھے مجھے دباتے تو میں اور مزے سے اس کو چاٹتا۔میر ا عضو اب چاہتا تھا کہ وہ حنا کے اند ر گھس جائے اور اس کو خو ب مزہ کرے اور خود بھی خوب مزہ  کرے۔اس کی پھدی اب اتنی گیلی ہو چکی تھی کہ بہہ رہی تھی۔ میرے لعاب دہن اور اس کی اندام نہانی کے عرق نے گیلے پن کی انتہا کر دی تھی۔
اب کھڑی ہو جاؤ۔‘میں نے حکم دیا۔
وہ ننگی بستر سے اتر کر کھڑی ہو گئی۔ مجھے لگا کہ جسے وہ بہت گرم ہو چکی ہے  او رخوشی اور مزے سے ہلکی ہلکی لرزرہی ہے۔ وہ سوچ رہی تھی اب آگے کیا ہو گا۔ اس کے چہرے پر ایک بے انتہا سکون تھا۔ آج کسی نے نہیں آنا تھا۔ جو حنا کب سے سوچ رہی تھی اور جو میں ہر وقت  حنا کے ساتھ، شازیہ کے ساتھ اور فاطمہ کے ساتھ کرنا چاہتا تھا، آج ہونیوالا تھا۔
اپنا منہ بستر کی طرف کر لو۔‘میں نے تحکمانہ لہجہ جاری رکھا۔
اس نے ایسا ہی کیا۔
چلو اب آگے کی طرف جھکو اور ہا تھ بستر پر یوں رکھو کہ کمر سیدھی ہو۔‘وہ بالکل میر ے حکم پر چلنے لگی تھی۔
اب میں اس پھدی کو پیچھے سے دیکھ سکتا تھا۔ میں نے جھک کر اس کے گیلے پن کو چکھا اور زبان اس کی پھدی پر پھیرنے لگا۔  میر ا عضو تناسل، جس کو حنا  لن کہتی تھی، اب اس کی پھدی پر لگنے کو تیا ر تھا۔ حنا نے بڑی حسرت اور امید سے اپنے چوتڑوں کو ہلایا کہ جیسے کہہ رہی ہو، ظالم اب تو دے دے۔ جب سے حنا نے میرے عضو کو  لن کہا تھا، میرا بھی دل کرنے لگ گیا تھا کہ اس کو لن کہوں۔
میر ا لن اپنی پھدی میں لو گی؟‘میں نے پوچھا۔
اس نے ہاں میں سر ہلایا۔میں نے اپنا لن اس کی پھدی چھوا تو اس کو اچھا لگا۔
اندر ڈالوں؟‘میں نے ستانے والے انداز میں کہا۔
ہاں ہاں ڈال دو۔۔۔‘وہ منمنائی۔
پورا اندر ڈال دوں؟‘میں نے پھر مزہ لیا۔
 ’ہاں پورا اندر ڈال دو۔ پورے کا پورا۔۔۔‘ حنا ہنہنائی۔
میں نے آہستہ آہستہ اس کی تنگ پھدی میں اپنا لن ڈالنا شروع کر دیا۔ مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔ اس کو بھی مزہ آرہا تھا۔
کتنا موٹا ہے تمھارا عمران۔‘حنا کہہ رہی تھی اور میں ہل رہا تھا، جب دروازہ ہلا اور فاطمہ کھانے کا ٹرے اٹھائے اند ر داخل ہوئی۔ حنا کی آنکھیں بند تھی۔ میں بالکل ننگا تھا اور آج فاطمہ نے مجھے ننگا دیکھ ہی لیا ہوا تھا۔ اس نے ٹرے میز پر رکھی اور دروازہ  خاموشی سے بند کر دیا۔
میں ہل رہا تھا اور حنا بار بار میر ا نام لے کر کہتی، ’عمران تمھارا لن میری پھدی کو بہت مزہ دے رہا ہے۔ میں روز تمھارا لن لیا کروں گی۔ صبح کالج جانے سے پہلے، پھر کالج سے آکے  اور جب تم کہو گے میں اسی طرح جھک جایا کروں گی۔
فاطمہ اب ہمارے قریب آگئی تھی اور اس کی آنکھوں میں ایک حسرت تھی، ایک التجا تھی، ایک تمنا تھی اور ایک شرارت  بھی۔  میں چاہتے ہوئے بھی اس کو باہر نہیں بھیج سکتا تھا۔ حنا کو اس نے اس حالت میں دیکھ لیا تھا اور اس کے ہونٹوں سے میرے لن کی تعریف بھی سن لی تھی۔ یہ اچھا تھا کہ وہ واپس نہیں پلٹی تھی۔
وہ دیکھ رہی تھی  کہ کیسے میر ا لن جس کو اس نے آج صبح خوب ملا تھا، حنا کی پھدی میں جا رہا تھا۔ وہ پہلے تو دیکھتی رہی  پھر اس نے اپنی قمیض اتا ر دی۔ اس نے قریب پڑی ایک کرسی میرے قریب رکھی اور س پر چڑھ کر اپنی چھاتیا ں  میر ے قریب لے آئی۔ اس نے اپنی چولی بھی اتار دی۔ اب میر ے منہ میں اس کی پیارے پیارے بڑے بڑے چھاتی کے ابھاروں کے نپل تھے اور میں انہیں چو س رہا تھا۔ میں نیچے سے ہل رہا تھا اور حنا کہ آوازیں  آرہی تھی۔
عمران، مجھے اتنا زور سے تو نہ کروں کہ میں زخمی ہی ہو جاؤں‘۔
عمران زور سے، اور زور سے۔
عمران اب بس کر دو، بس کر دو۔
عمران بس نہ کرنا، ابھی بس نہ کرنا۔
کرسی پر چڑھ کر فاطمہ نے اپنی شلوار بھی اتار دی اور میر ا ہاتھ اس کی پھدی سے کھیلنے لگا۔ وہ پہلے سے ہی کافی گیلی تھی۔ مجھے لگا کہ اس نے جو مجھے واش روم میں ملا تھا،  و ہ وہی سوچ سوچ کر گیلی ہو رہی  ہو گی۔ فاطمہ کا جسم بہت لچکیلا تھا۔ اس نے میرے  منہ کو اپنی چھاتیوں میں خوب دبایا اور پھر حیرت انگیز طریقے سے میرے کندھوں پر اس طرح چڑھ گئی کہ اس کی پھدی میرے ہونٹوں اور زبان کو چھونے لگی۔ میں نے اس کی پھدی کے ہر حصے کو ہونٹوں سے چوسنا  شروع کر دیا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے میر ے سر کو مضبوطی سے اس طرح پکڑا ہوا تھا کہ اس کی چھاتیاں میرے سر سے چپکی ہوئی تھی۔ اگر اس کاوزن اتنا کم نہ ہوتا یا میری گردن اتنی مضبوط نہ ہوتی تو یہ پوزیشن نہ بن پاتی۔ فاطمہ کی جمناسٹک کا آج فائدہ نظر آیا۔ اب میرا لن بھی پھدی کے مزے لے رہا تھا اور میرے منہ میں بھی وہی مزہ تھا۔ مجھے لگا کہ یہ بہت اچھا ہے۔ حنا چلی بھی گئی تو یہ پھدی تو ہر وقت میں لے سکتا ہوں۔  یہ سوچ کر میں نے اور ہی مزے کے ساتھ اس کو چوسنا شروع کر دیا۔ فاطمہ بھی اب پوری طرح گیلی ہو گئی تھی  اور اس کی پھدی بھی میرا لن لینے کو ترسنے لگی تھی۔ فاطمہ میرے گلے سے نیچے اتری اور میر ے لن اور حنا کی پھدی کو زبان سے چھیڑنا شروع کر دیا۔
اس میرا لن  حنا کی پھدی سے نکال لیا اور اپنی منہ میں ڈال کر میر ی آنکھو ں میں یو ں دیکھا کہ جیسے کہہ رہی ہو کہ اب میری باری ہے۔
جب لن حنا کی پھدی میں سے نکلا تو اس نے آنکھیں کھولی۔ جب اس نے فاطمہ کو ننگے دیکھا تو سیدھی ہو کر اس کے قریب آئی اور اس کی چھاتیوں کو چوسنے لگی۔ فاطمہ نے میرا  لن اپنے منہ میں سے نکالا اور حنا کے منہ کو اپنی چھاتیوں سے اٹھا کر اس کے منہ میں  لن ڈالا کہ لو تم بھی چوس لو۔  فاطمہ اب بازو بستر پررکھ کر یوں کھڑی ہو گئی جیسے پہلے حنا کھڑی تھی۔
حنا نے میر ے لن کو زبان سے گیلا کیا۔ پھر اس نے فاطمہ کی پھدی پر زبان پھیری اورمیرا لن اس میں ڈال دیا۔ فاطمہ کی پھدی بھی بہت کسی ہوئی تھی اور تنگ تھی۔ اب میں فاطمہ کی پھدی میں لن کو ہلانے لگا اور حنانے میر ی کمر پر اپنی چھاتیوں کو لگانا شروع کر دیا۔ وہ میرے لن کے شروع کے حصے اور گیندوں کو چوسنے لگی۔ جب میں نے کافی دیر فاطمہ کو  چود  لیا تو حنا  اس کی برابر میں آکر اسی پوزیشن میں آگئی۔ میں نے لن نکال کر حنا کی پھدی میں ڈال دیا اور زور زور سے ہلنے لگا۔ اب فاطمہ بھی اپنے چوتڑوں کو ہلا رہی تھی کہ لن ادھر ڈالو۔ میں نے لن حنا سے نکال کر فاطمہ میں ڈال دیا۔میں اب زور زور سے ہل رہا تھا۔ اب حنا اپنے چوتڑے ہلانے لگی کہ لن ادھر دو۔ میں تھوڑی تھوڑی دیر دونوں کی پھد ی میں ڈالتا اور ہلتا۔ یہ سلسلہ کافی دیر چلتا رہا اور پہلے حنا کو مزہ آیا اور اس کو ایک کرنٹ سا لگا اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد فاطمہ بھی مزے سے آہیں بھرنے لگی۔
میں نے حنا کے منہ کو منتخب کیا اور اس میں اپنے لن کو ہلانے لگا حتی کہ مجھے بھی ایک جھٹکا سا لگا اور میرا سفید مادہ اس کے منہ پر چپک گیا۔
ہم تینوں فرس پر ہی لیٹ گئے۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ کھانا میز پر پڑا ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ میں اٹھا اور پاجامہ پہن کر واش روم چلا گیا۔ اماں بی بی عادت کے مطابق نو بجے سو جاتی تھی۔ میں نہانے لگا  اور ٹھنڈا پانی مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ میں نہاتا رہا اور ٹھنڈا ہوتا رہا۔ دونوں لڑکیاں اب باتیں کر رہی تھی۔ مجھے تجسس ہوا کہ وہ کیا باتیں کر رہی ہیں۔ان کی ساری باتوں کی آواز تو نہیں آرہی تھی  بس کچھ لفظ سمجھ آجاتے تھے۔
کتنا بڑا ہے نا
مجھے لگا اند ر سے پھٹ جاؤں گی
بڑا مزہ آیا
ہنسنے کی آواز۔
سرگوشی جو سمجھ نہ آئی۔
میں تو اب روز لیا کروں گی
ایک قہقہہ۔
میں پھر پانی جسم پر ڈالنے لگا۔
۔۔ خط  بدلنے  کا آئیڈیا۔۔۔
میں رک گیا۔
بھیا مجھے تو کبھی ہاتھ نہ لگاتے۔۔‘  فاطمہ کہہ رہی تھی۔
دیکھاپھر معصوم شکل کے فائدے۔۔‘حنا کہہ رہی تھی۔
مجھے لگا کہ میں واش روم میں گر جاؤں گا۔
میرے دماغ میں سب کچھ چکرانے لگا۔
وہ خط میرے دماغ میں گھوم گئے۔
میں تو حنا کو روز پڑھاتا تھا۔
وہ  خط پرانے زمانے کے نہیں تھے۔ وہ لکھائی حنا کی تھی۔
فاطمہ اور حنا ایک دوسرے کو کالج سے جانتی تھی۔
سب کچھ میری نظروں کے آگے گھوم گیا۔
حنا اس وقت جان بوجھ کر آئی تھی، ماچس لینا تو محض ایک بہانہ تھا۔
ٹیوشن کا خیال فاطمہ نے اماں بی بی کے ذہن میں اڈالا تھا۔
کیا باقی لڑکیاں بھی ان کی سہیلیاں تھی؟
۔
۔
 ’میں رات کو تین بجے کے قریب بھیا کا  لن چوستی اور تھوڑی دیر بعد بھیا آجاتے لیکن میں سوئی بنی رہتی۔
ایک قہقہہ۔
میں اتنا بیوقوف تھا۔ رات کو تین بجے میرا حرامی تن کیوں جاتا تھا؟ فاطمہ کا دروازہ کیوں کھلا ہوتا تھا؟ میں اسکی  شلوار تک اتار دیتا  اور اس کی نیند نہیں کھلتی تھی؟ وہ خراٹے سب جعلی تھے۔
ان لڑکیوں نے مجھے میری ہی نظر میں حرامزادہ بنا دیا تھا۔ میں جو کبھی یہ سب کچھ سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ میں وہ سب کچھ کر چکا تھا جو میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
۔
۔
سر زوہیب بھی تو چکرا گئے تھے نا۔۔
حنا  اور فاطمہ کا  ایک اور قہقہہ۔
۔
۔
میں پہلا نہیں تھا۔ وہ اور لوگوں کے ساتھ بھی یہ کر چکی تھیں۔
اوہ، میں واقعی اتنا بیوقوف تھا۔
وہ  کنواری نہیں تھیں، اگر ہوتیں تو ان کا خون تو نکلتا، کچھ درد  تو ہوتا لیکن وہ تو صرف مزے ہی لیتی رہی تھیں۔
میرے سر میں طوفان چلنے لگے۔
میں حرامزادہ نہیں تھا۔ کیا فاطمہ بھی نہیں تھی؟ کیا وہ میری بہن ہی تھی اور حنا کی بری صحبت نے اس کو بگاڑ دیا تھا؟  میں عا م زندگی میں سادہ ہی تھا لیکن اب میرا دل کر رہا تھا کہ ان لڑکیوں سے خوب بدلہ لوں۔ لیکن کیا بدلا لوں۔ جو میں ان کے ساتھ کر سکتا تھا وہ ہی تو ان کو سب سے زیا دہ پسند تھا۔
میرے ہا تھ پیر ٹھنڈے ہو گئے تھے اور مجھے کسی بھی طریقے سے اس کا بدلہ لینا تھا لیکن کیسے لیتا۔ میں غلط نہیں تھا مگر یہ کیا ہوا تھا میرے ساتھ؟

 

ایک تبصرہ شائع کریں

3 تبصرے

THANKS DEAR