محبت کے سات رنگ

 


محبت کے سات رنگ

تحریر: ماہر جی

واتسياين نے سچ ہی کہا ہے کہ مخلوق کے تخلیق دور سے ہی مرد عورت کے تعلق چلے آ رہے ہیں. اگر یہ تعلق نہیں ہوتے تو اتنا بڑا جہان کہیں نظر نہیں آتا اور یہ دنیا صرف پتھروں، پہاڑوں، جنگلوں اور مرستھلو سے اٹا پڑا ہوتا. اس دنیا کی پیدائش کام سے ہوئی ہے اور یہ اسی کے وشيبھوت ہے. نوعیت نے دنیا کا وجود جنم عمل طرف ہمیشہ برقرار رکھنے کے لئے "کام" کو جنم دیا ہے اور اس میں اتنا لطف بھرا ہوا ہے. عورت مرد کے ملن کے وقت حاصل ہونے والے لطف کو بار بار حاصل کرنے کی انسانی چاہ نے دنیا کو توسیع اور امرتا دی ہے. جس طرح بھوک پیاس اور ندرا تمام مخلوق کی لازمی ضروریات ہیں اسی طرح "کام" (جنسی) بھی ایک لازمی ضرورت ہے اس کا دمن هانپرد ہوتا ہے.

دراصل اس مقدس اور قدرتی فعل کا نام ہی غلط رکھا گیا ہے. اس کا نام تو جنسی یا چدائی کے مقام پر صرف 'محبت' ہی ہونا چاہئے. کائنات کے ذرہ ذرہ میں محبت سمايا ہوا ہے. چكور چندركا سے محبت کرتا ہے، مین پانی سے، آبشار دریا سے اور دریا سمندر سے آلںگن بددھ ہونے کو بھاگی جا رہی ہے. سمندر کی لہریں پورے چاند کے چندر کو چومنے کے لئے آسمان کو چھو لینا چاہتی ہے. ان کے پیچھے محبت کے سائرن طاقت ہے. ارجايے محبت کی لہروں سے ادوےلت ہوتی ہیں. عملی طور محبت ہی زندگی کا نچوڑ اور سكھمي دامپتي زندگی کی بنیاد ہے.

جب بھی كاماگو اور جنسی (لںڈ، چوت اور چدائی) کا نام زبان پر آتا ہے تو پتہ نہیں یہ نام نہاد سماج اور مذہب کے ٹھیکیدار کیوں اپنی ناک بھوهے سكوڑنے لگتے ہیں اور بیکار ہی ہنگامہ مچانے لگ جاتے ہیں. میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا انہوں نے کبھی سیکس نہیں کیا یا بچے پیدا نہیں ریٹویٹ؟ جنسی تو مخلوق محض کی لازمی ضروریات میں سے ایک ہے تو پھر اس کے نام اور قدرتی فعل سے اتنی چڑ کیوں؟

...... سیکس کی مقبول بھراتيو اور فرضی کو کھولتی کام گرو کی ایک کہانی ............................
کی ایک کہانی


کوئی جڑ ہو یا ذی تمام کسی نہ کسی طرح کام کے وشيبھوت ہیں. کیا آپ بتا سکتے ہے چكور چاند کی طرف کیوں دیکھتا رہتا ہے؟ ندیاں سمندر کی طرف کیوں بھاگی جا رہی ہیں؟ پپيها پی کہاں پی کہاں کی رٹ کیوں لگائے ہے؟ ابر پہاڑوں کی طرف کیوں بھاگے جا رہے ہیں؟ پروانے کیوں اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر شمع کی لو چومنے دوڑے چلے آتے ہیں؟ دراصل یہ ساری کائنات ہی کام (محبت) سے شرابور ہے. تبھی تو یہ دنیا یہ مخلوق اور زندگی سائیکل چل رہا ہے. شخص جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے زندگی میں کشیدگی اور مسائل زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں. اس کشیدگی کو دور کرنے کا نوعیت نے ایک انمول ملاقات کام (جنسی) کے طور پر انسان کو دی ہے. اگر سائنسی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو جنسی کے کمال پر اورگاسم ہونے پر پھےرومون نامی هارموس کا جسم میں آنے ہوتا ہے جس کی وجہ سے مکمل جسم ترگت ہو جاتا ہے اور شخص تناومكت اور مطمئن ہو جاتا ہے. پھر ایسے مقدس کرم یا اس کے نام کو گندا اور فحش کیوں کہا جائے؟ دراصل یہ تو مورھ اور گندے لوگوں کی گندی سوچ ہے.

یہ اس وقت کی بات ہے جب میں ادے پور میں دسویں میں پڑھتا تھا. ہمارے پڑوس میں ایک نئی آنٹی رہنے کے لئے آئی تھی. وہ آئی تو دہلی سے تھی پر سنا تھا کہ وہ پنجاب کے پٹیالہ شہر کی رہنے والی تھی. ان ماں باپ بہت سالوں پہلے کشمیر سے آکر پٹیالہ بس گئے تھے. نام شاید سشما گلچداني تھا پر اس کی دےهيشٹ (پھگر) کے حساب سے تو اسے گلبدن ہی کہنا ٹھیک ہو گا. اگر سچ کہوں تو میری پہلی جنس گرو تو یہ آنٹی گلبدن ہی تھی. اگرچہ ہماری چدائی بہت تھوڑے دنوں ہی چلی تھی پر اس نے 7 دنوں میں ہی مجھے سیکس کے سات سبق سکھا کر محبت چندر ماتھر سے "محبت گرو" ضرور بن دیا تھا. جس طرح کی ٹریننگ (تربیت) اس نے مجھے دی تھی مجھے نہیں لگتا کہ اس کے بعد اگر میں آگے کی معلومات کے لئے جنسی تعلقات میں پی ایچ ڈی بھی کر لوں تو مجھے مل پائے گی.

اس کی عمر کوئی 32-33 سال کی رہی ہوگی. لمبائی 5 '7 "پھگر 36-30-38 پوری پنجابی پٹٹھي لگتی تھی جیسے اس زمانے کی سسمتا سین ہو. گورا رنگ، بھرا ہوا بدن، موٹے موٹے نتمب اور گول گول مست چنچيا ثانیہ مرزا کی طرح. جیسے کوئی دو ٹینس کی گیندیں ہوں. جو گویا کہہ رہی ہوں کہ ہمیں آزاد کرو چوسو اور مسلو. سیاہ لمبے بالوں کی چوٹی تو اس کے نتمبوں کو چھوتی ایسے لگتی تھی جیسے کوئی ناگن لہرا کر چل رہی ہو. اس کے سر کے لمبے گھوبگھرالی بال دیکھ کر تو آپ اور میں انداز لگا سکتے ہیں کہ اس کی چوت پر کیسے گھنے اور گھوبگھرالی بالوں کا جھرمٹ ہو گا. چوڑيدار پاجامے اور کرتے میں تو اس کے نتمب عذاب ہی ڈھاتے تھے. جب کبھی وہ سليولےس بلاج کے ساتھ سفید ساڑی پہنتی تھی اس میں تو وہ بادشاہ دشيت کی شكنتلا ہی لگتی تھی . سرخ سرخ ہونٹ جیسے کسی کا خون پی کر آئی ہو. ستوا ناک، سراهيدار گردن اور موٹی موٹی بللوري آنکھیں تو کسی مرگنيني کا بھرم پیدا کر دے. جب وہ چلتی تو اس کے هلتے، بل کھاتے نتمب دیکھ کر اچھے اچچھو کے لںڈ اسےسلام بجانے لگتے وہ تو پوری گلبدن ہی تھی. وہ ایک اسکول میں ٹیچر تھی. ان کا اپنے شوہر سے کوئی 2 سال پہلے تنہائی ہو گیا تھا.

مارچ کا مہینہ تھا پر گلابی ٹھنڈ اب بھی بنی تھی. تھوڑے دنوں بعد میری دسویں کا امتحان ہونے والی تھی. میں اسکے پاس انگلش اور ریاضی کی ٹیوشن پڑھنے جاتا تھا. میرے لںڈ کا سائز اب تک 6 "کا ہو گیا تھا. تھوڑے تھوڑے بال اڈو اور لںڈ کے گرد آنے لگے تھے. ہلکی سی کالی دھاری ناک کے نیچے بننی شروع ہو گئی تھی. راہل بھی میرے ساتھ ٹیوشن پڑھتا تھا. وہ میری ہی عمر کا تھا پر دیکھنے میں مريل سا لگتا تھا. جب بھی وہ باتھ روم میں جاتا تو بہت دیر لگاتا. پہلے میں کچھ سمجھا نہیں پر بعد میں مجھے پتہ لگا کہ وہ باتھ روم میں جا کر آنٹی کی پینٹی اور برا کو سوگھتا تھا اور اسے ہاتھ میں لے کر مٹھ بھی مار دیتی تھی. اس کے بعد تو ہم دونوں ہی کھل گئے اور دونوں ہی ایک ساتھ شرط لگا کر مٹھ مارتے. یہ الگ بات تھی کہ وہ ہر بار مجھ سے پہلے جھڑ جاتا اور شرط جیت جاتا. کبھی کبھار ہم مسترام کی کہانیاں بھی پڑھ لیا کرتے تھے. چدائی کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا. ہم دونوں ہی ساتھ پڑھنے والی سمرن کو چودنا چاہتے تھے پر وو پٹٹھي تو ہمیں گھاس ہی نہیں ڈالتی تھی
جب کبھی ہم دونوں مٹھ مارتے تو کمرہ بند کر لیا کرتے تھے پر کبھی کبھی مجھے شک سا ہوتا کہ آنٹی ہم لوگوں کو ایسا کرتے کہیں دیکھ رہی ہے. وہ ہمیں پڑھاتے وقت گپپے بھی لگاتی اور کئی بار تو وہ چٹكلے سناتے وقت میری پیٹھ اور کبھی کبھی میری جاںگھوں پر صلواتیں بھی جمع دیتی تھی تو میں تو مست ہی ہو اٹھتا تھا. میری لللي بھی جھٹ سے کھڑی ہو کر بین بجانے لگتی تھی. اب تو اسے لللي نہیں لںڈ کہا جا سکتا تھا. 6 انچ لمبے اور 1.5 انچ موٹے ہتھیار کو لللي تو نہیں کہا جا سکتا.

گھر میں اکثر وہ یا تو جھيني نائیٹی یا پھر ٹائٹ سلےكس اور کھلا ٹاپ پہنتی تھی جس میں سے اسکے بوبس اؤر چوت کی درار صاف نظر آتی تھی. کئی بار تو اس کی چوت کے سامنے والا حصہ گیلا ہوا بھی نظر آ جاتا تھا. جب وہ گھر پر ہوتی تو شاید برا اور پینٹی نہیں پہنتی تھی. اس نتمب تو ایسے لگتے تھے جیسے کوئی دو چاند یا چھوٹے چھوٹے فٹ بال آپس میں جوڑ دیے ہوں. دونوں نتمبوں کے درمیان فرق تو جیسے دو چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے درمیان بہتی ندی کی وادی ہی ہو. ماںسل جاںگھیں کیلے کے تنے کی طرح. اروج تو موٹے موٹے جیسے كدھاري انار ہوں. دونوں اروجوں کے درمیان کی وادی تو جاهدو (مذہبی رہنما) کو بھی اپنی اپنی توبہ توڑنے پر مجبور کر دے
کبھی کبھی جب آنٹی میرے ہاتھوں سے کتاب لے کر اپنی گود میں رکھتی تو میرا ہاتھ بھی اس کے ساتھ آنٹی کی گود میں چلا جاتا تھا اور میرے ہاتھ ان کی جاںگھوں سے اور کبھی کبھار تو چوت کے پاس چھو جاتا تھا. آنٹی کوئی پرواہ نہیں کرتی تھی. مجھے اپنے ہاتھوں میں آنٹی کی چوت کی گرمی محسوس ہو جاتی تھی. آپ شاید یقین نہیں کریں گے آنٹی کی چوت سے بہت گرمی نکلتی تھی اور وہ گرمی مجھے کسی روم ہیٹر سے زیادہ محسوس ہوتی تھی. وہ جب کچھ لکھنے کے لئے جھکتی تو اسکے بوبس کو اےرولا اور مونگفلی کے دانے جتنے نپپلس تک دکھ جاتے تھے اور میرا پیارے لال (لںڈ) تو هلورے ہی مارنے لگ جاتا تھا.

اس دن راہل پڑھنے نہیں آیا تھا شاید بیمار تھا. آنٹی باتھ روم میں نہا رہی تھی. اندر سے ان کی سریلی آواز آ رہی تھی. لگتا تھا آنٹی آج بہت موڈ میں ہے. وہ کسی پرانی فلم کا گانا گنگنا رہی تھی:

تو چندہ میں چاندنی، تو ترور میں چھاؤں

تو بادل میں بجلی، تم پنچھی میں پات ...
میں تو ان کی میٹھی آواز میں راجستھانی وره گیت سن کر جیسے آئیے دنیا میں ہی کھو تھا. وہ نہا کر باہر آئی تو گیلے اور کھلے بال، بھیگے ہونٹ اور ٹائیٹ جین پینٹ اور کھلا ٹاپ پہنے کسی اپسرا سے کم تو نہیں لگ رہی تھی. بالوں سے ٹپكتي پانی کے قطرے تو کسی كهاسے بھری صبح میں گھاس پر پڑی شبنم کے قطرے کا دھوکہ دے رہی تھی. اچھا موقع دیکھ کر میں نے باتھ روم میں گھس گیا. میری نگاہ جیسے ہی اس جانی پہچانی کالی پینٹی پر پڑی میں نے اسے اٹھا کر دو تین بار سوںگھا. میرا سارا اعصاب نظام ایک منشیات مہک سے شرابور ہو گیا. پینٹی کے درمیان میں جہاں چوت کا سوراخ لگتا ہے وہاں پر کچھ لےسدار سا سفید چپچپا سا پانی لگا تھا. میں نے آج پہلی بار اسے چاٹ کر دیکھا تھا. واہ کیا عجیب ھٹی اور نمکین سا ذائقہ تھا. پیشاب، پسینے اور ناریل پانی جیسی خوشبو تو مجھے مست ہی کر گئی.

اب میں نے پاس میں پڑی نائیٹی اٹھائی اور اسے ہینگر پر لگا دیا اور پینٹی کو درمیان میں دو ہیئر کلپس کے سہارے اٹکا دیا. اب تو وہ نائیٹی اور پینٹی ایسے لگ رہی تھی جیسے سچ مچ آنٹی گلبدن ہی میرے سامنے کھڑی ہوں. اب میں نے اپنی پینٹ اور تنوں نیچے کر لی. میرا پیارے لال تو پہلے ہی اٹےنشن تھا. میں نے اس کی گردن پکڑی اور اوپر نیچے کرکے اسے دانا کھلانے لگا. میرے منہ سے سیتکار نکلنے لگی اور میں ببدانے لگا - آہ. ييي. يااا ... ... آہ ... میری آنٹی اوہ ... میری جان ... میری سمرن ہیلو ... میری آنٹی ...  ...

مجھے کوئی 7-8 منٹ تو ضرور لگے ہوں گے. پھر میرے لںڈ نے ویرے کی 5-6 پچکاریاں چھوڑ دی. ویرے کے چند قطرے آنٹی کی نائیٹی اور پینٹی پر بھی گر گئی تھی. میں اپنے ہاتھ اور لںڈ کو صاف کرکے جیسی ہی باہر آیا آنٹی باہر سوفی پر بیٹھی جیسے میرا انتظار ہی کر رہی تھی. انہوں نے مجھے اشارے سے اپنی طرف بلایا اور اپنے پاس بٹھا لیا.

"اچھا چدو ایک بات بتاو؟" آنٹی نے پوچھا. آپ بھی سوچ رہے ہوں گے چدو ... اوہ میرا پورا نام 'محبت چندر ماتھر' ہے نا. میں پرےمگر تو بعد میں بنا ہوں. مجھے گھر والے اور جاننے والے بچپن میں چدو ہی کہہ کر بلاتے تھے.

"جی آنٹی ...؟" میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا.

"یہ آنٹی کون ہے؟"

میں چوكا "وو ... وہ ... ا ... کوئی نہیں ...!"

"تو پھر باتھ روم میں تم یہ نام لے کر کیا بڑبڑا رہے تھے؟"

"وہ ... وہ ..." میں نے اپنی نظریں جھکا لی. میں تو ڈر کے مارے تھر تھر کانپنے لگا. میری چوری آج پکڑی گئی تھی.

"کیا راہل بھی ایسا کرتا ہے؟"

میں کیا بولتا؟ پر جب آنٹی نے دوبارہ پوچھا تو میں ہولے سے بولا "ہاں، کبھی کبھی!"

"دیکھو یہ سب چیزیں تمہارے صحت کے لئے ٹھیک نہیں ہے. ابھی تم بچے ہو."

میں اپنا سر جھکائے بیٹھا رہا. آنٹی نے کہنا چالو رکھا، "کسی موضوع کا مناسب اور کافی علم نہ ہونے پر اس موضوع میں غلط فہمیاں ہونا فطری ہیں. ہمارے معاشرے میں جنسی تعلیم کے گردش نہیں ہے اسے غلط سمجھا جاتا ہے اس لیے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے ذہن میں اٹھنے والی سوالات کا مناسب حل نہیں ہو پاتا جس سے وہ غلط فہمی کے شکار ہو جاتے ہیں اور کئی جنسی بیماریوں سے بھی شکار ہو جاتے ہیں. اب مشت زنی کے بارے میں ہی کتنی غلط فہمیاں ہیں کہ مشت زنی سے کمزوری، کمزوری، پرشتو هينتا اور نپنسكتا آ جاتی ہے. کچھ تو یہ بھی مانتے ہیں کہ ویرے کی ایک بوند خون کی 100 قطرے سے بنتی ہے. یہ غلط تاثر ہے. ویرے اور خون مکمل طور پر جسم کے دو مختلف مادہ ہیں جن آپس میں کوئی لینا دینا نہیں ہوتا. پر یہاں یہ دھیان دینے والی بات ہے کہ انتہائی تو ہر جگہ ہی ممنوع ہوتی ہے، زیادہ مشت زنی نہیں کرنا چاہئے "

"ساری ... آنٹی میں پھر ایسا نہیں کروں گا!" جیسے میری جان چھوٹی. اسے کیا پتا اب میں بچہ نہیں، مکمل جوان نہیں تو کم سے کم دو تین بار تو کسی کو بھی چودنے کے قابل تو ہو ہی گیا ہوں.

"ارے نہیں، جوان لڑکے اور لڑکیوں کا کبھی کبھار مٹھ مار لینا اچھا رہتا ہے. اگر مٹھ نہیں ماروگے تو رات کو ویرے اپنے آپ نکل جاتا ہے جسے سوپندوش کہتے ہیں. تمہیں بھی ہوتا ہے کیا؟"

"جی ہاں، کئی بار رات کو میری چڈی گیلی ہو جاتی ہے!" میں نے بتایا.

"اوہ ... آپ کو ایک کام کرنا! ایک گرام ملےٹھي کے پاؤڈر کو گائے کے دودھ میں ملا کر پی لیا کرو پھر زیادہ سوپندوش نہیں ہوگا!"

وہ اپنے ایک ہاتھ کو اپنی دونوں جاںگھوں کے بیچ رکھے ہوئے تھی اور وہاں بار بار دبا رہی تھی. پھر اپنی جاںگھوں کو بھيچتے ہوئے بولی، "میں جانتی ہوں تم اب جوان ہونے جا رہے ہو. سیکس کے بارے میں تمہاری تجسس کو میں اچھی طرح سمجھتی ہوں. تمہارے دل میں جنسی سے متعلق کئی سوالات ہوں گے؟ ہے نا؟"

میں چپ چاپ بیٹھا ان کی باتیں سنتا رہا. اس نے آگے کہنا جاری رکھا:

"ٹھیک ہے اس وقت اگر تمہیں صحیح سمت اور علم نہیں ملا تو تم غلط متعلقہ میں پڑ اپنی صحت اور تعلیم دونوں چوپٹ کر لوگے!" آنٹی نے ایک زور کا سانس چھوڑتے ہوئے کہا. وہ کچھ دیر رکی، پھر مجھ سے پوچھا "تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے؟"

ویسے تو میں سمرن کو بہت چاہتا تھا پر میں نے اس وقت کہا، "نہیں"

"اچھا چلو بتاو تمہیں کوئی لڑکی اچھی لگتی ہے؟" میں پھر خاموش لگا گیا.

آنٹی نے پھر پوچھا "سمرن کیسی ہے؟"

میں چونک گیا، میرے لئے اب الجھن کا وقت تھا. میری ہچکچاہٹ دیکھ کر آنٹی بولی، "دیکھو ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے. میں تو بس اس لیے پوچھ رہی ہوں کہ تمہیں ٹھیک سے سمجھا سکوں!"

"ہاں مجھے سمرن بہت اچھی لگتی ہے!"

"اوههو ..." آنٹی نے ایک لمبا سانس لیا اور پھر مسکراتے ہوئے بولی، "اچھا یہ بتاؤ کہ تمہیں سمرن کو دیکھ کر کیا محسوس ہوتا ہے؟"

"وہ ... وہ ... بس مجھے اچھی لگتی ہے؟" میرے منہ سے بس اتنا ہی نکلا. میرے من میں تو آیا کہ کہہ دوں مجھے اس نتمب اور چھاتی بہت اچھے لگتے ہیں، میں اسے باہوں میں لے کر چومنا اور چودنا چاہتا ہوں پر یہ کہنے کی میری ہمت کہاں تھی.

"صاف صاف کہو اسے دیکھ کر کیا ہوتا ہے؟ شرماو نہیں ..."

"وہ ... وہ .... مجھے اس نتمب اور چھاتی اچھے لگتے ہیں!"

"کیوں ایسا کیا ہے ان میں؟"

"وہ بہت بڑے بڑے اور گول گول ہیں نا؟"

"اوہ ... تو تمہیں بڑے بڑے نتمب اور اروج اچھے لگتے ہیں؟"

"ہوں ..."

"اور کیا ہوتا ہے ان کو دیکھ کر؟"

میرا دل تو کہہ رہا تھا کہہ دوں، 'اور میرا لںڈ کھڑا ہو جاتا ہے میں اسے چودنا چاہتا ہوں' پر میرے منہ سے بس اتنا ہی نکلا "میرا میرا ... وہ میرا مطلب ہے ... کہ ... میں انہیں ... چھونا چاہتا ہوں!"

"بس چھونا ہی چاہتے ہو یا ... کچھ اور بھی؟"

"جی ہاں چومنا بھی ... اور ... اور .."

"کیا سمرن سے کبھی اس بارے میں بات کی؟

"نہیں ... وہ تو مجھے گھاس ہی نہیں ڈالتی!"

آنٹی کی ہنسی نکل گئی. ماحول اب کچھ ہلکا اور خوشگوار ہو چلا تھا.

"اچھا تو تم اس کا گھاس کھانا چاہتے ہو؟ مطلب کی ... تم اسے ...؟"

آنٹی کے ہنسنے سے میری بھی جھجھک کھل گئی تھی اور میرے منہ سے پتہ نہیں کس طرح نکل گیا "جی ہاں میں اسے چود ... نا ..." پر میں درمیان میں ہی رک گیا.

"چپ بدمعاش شیطان کہیں کا؟" آنٹی نے میری ناک پکڑ کر دبا دی. میں تو مست ہی ہو گیا میں تو بلليو اچھلنے لگا.

"اچھا چلو یہ بتاؤ کہ تمہیں سیکس کے بارے میں کیا کیا معلوم ہے؟ ایک لڑکا یا مرد کسی لڑکی یا عورت کے ساتھ کیا کیا کرتا ہے ...؟" آنٹی نے پوچھا.

"اسے باہوں میں لیتا ہے اور چومتا ہے اور پھر ... چودتا ہے!" میں نے اس بار تھوڑی ہمت دکھائی.

"اوههو ... تم تو پورے گرو بن گئے ہو؟" آنٹی نے حیرت سے مجھے دیکھا.

"آپ ہی شاگرد ہوں نا؟" میں نے بھی مسكا لگا دیا.

"اچھا کیا تم پکے کام گرو بننا چاہو گے؟"

"يےس ... جی ہاں ..."

"ٹھیک ہے میں تمہیں پوری ٹریننگ دے کر پکا 'کام گرو' بنا دوں گی ... پر مجھے گرو دكشا دینی ہوگی ... کیا تم تیار ہو؟"

"ہاں" میں تو اس تجویز کو سن کر خوشی کے مارے جھوم ہی اٹھا.

"چلو آج سے تمہاری ٹریننگ شروع!"

"ٹھیک ہے!"

آنٹی کچھ دیر رکی پھر اس نے بتانا شروع کیا "دیکھو محبت یا چدائی کا پہلا سبق (متن) کہ ساری شرم چھوڑ کر اس کی زندگی کا اور جنسی کا پورا لطف لینا چاہئے. محبت میں جسم کا کوئی بھی عضو یا فعل کچھ بھی گندا، برا، پریشان کن نہیں ہوتا. یہ تو گندے لوگوں کی منفی سوچ ہے. اصل میں دیکھا جائے تو محبت جیسی قدرتی اور صدیوں سے چلی آ رہی اس فعل میں یقین، پسند، احترام، ایمانداری، سیکورٹی اور نزدیکی ہوتی ہے! "

آنٹی نے بتانا شروع کیا. میں تو چپ چاپ سنتا ہی رہا. وہ آگے بولی: جنسی کو چدائی جیسے گندے اور گھٹیا نام سے نہیں بلانا چاہیے. اسے تو بس محبت ہی کہنا چاہئے. اپنی گرل فرینڈ یا پریمی کے سامنے اگر محبت اعضاء کا نام لینے میں سنکوچ ہو تو ان کے لیے بڑے خوبصورت الفاظ ہیں جنہیں استعمال میں لایا جا سکتا ہے. جیسے لںڈ کے لئے عضو تناسل، مٹھو، پپو، كامدڈ، منموہن یا پھر پیارے لال، چوت کا یون، بھاگ، مدنمدر، منیا اور رانی. گاںڈ کے لئے گدا، ملکہ یا منیا کی سہیلی. چھاتی کو امرت کلش یا اروج اور چوتڑوں کے لئے نتمب کہنا خوبصورت لگتا ہے. جی ہاں چدائی کو تو بس محبت ملن، جنسی سنگم یا رت فعل ہی کہنا چاہئے. جب انہوں نے گدا میتھن کا نام گدھاپچيسي بتایا تو میری ہنسی نکل گئی.

هاتمتاي کی طرح جنسی (محبت) کے بھی سات سبق (متن) ہوتے ہیں جو کہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لئے تقریبا اسی طرح کی ہوتی ہیں. اب میں تمہیں محبت کے ساتوں سبق سلسلہ وار (بالترتیب) بتاگي. یہ اس طرح ہیں:

1. آلںگن 2. چمبن 3. اروجوں کو مسلنا اور چوسنا 4. خود رت (ہست مےتھن- مٹھ مارنا) 5. محبت اعضاء چوسنا 6. سمبھوگ (چدائی نہیں محبت ملن) 7. گدا میتھن (گاڈباذي)

میں تو منہ باے سنتا ہی رہ گیا. میں تو سوچتا تھا کہ بس چوت میں لںڈ ڈالو اور دھکے لگا کر پانی نکال دو. اوہ ... اصلی جنسی کے گر تو آنٹی نے ہی بتائی ہیں. آنٹی آگے بولی، "دیکھو، ایک ایک سبق غور سے سننا، تبھی تم پورے جنسی گرو ... نہیں ... محبت گرو بن پاؤگے"

"ٹھیک ہے میڈم!"

"پھر غلط؟ دیکھو محبت (جنسی) میں میڈم یا مسٹر نہیں ہوتا. محبت (چدائی) میں انترنگتا (قربت) بہت ضروری ہوتی ہے. اس کے پریمی یا محبوب کو محبت سے خطاب کرنا چاہئے. تم مجھے اپنی محبوباؤں اور گرل فرینڈ ہی سمجھو اور میں بھی ٹریننگ کے دوران تمہیں اپنا محبوب ہی سمجھوگي. "

"ٹھیک ہے گرو جی ... اوہ ... ڈار ... ڈارلنگ!"

"یہ ہوئی نا بات ... تم مجھے چاندنی بلا سکتے ہو. جی ہاں تو شروع کریں؟"

"ہاں"

1. آلںگن

آنٹی نے بتانا شروع کیا: آلںگن کا اپنا ہی خوشی اور لطف ہوتا ہے. جب رات کی تنہائی میں اپنے پریمی یا گرل فرینڈ کی یاد ستاتی ہے تو بربس تکیا باہوں میں بھر لینے کو جی چاہتا ہے. ایسا کرنے سے کتنی راحت اور سکون ملاتا ہے تم ابھی نہیں جان پاؤگے. اسی آلںگن کے لطف کی وجہ سے ہی تو پریمی اور گرل فرینڈ ایک دوسرے کی باہوں میں جینے مرنے کی وعدہ کھاتے ہیں. پہلی بار جب اپنی محبوب کو باہوں میں بھرنا ہو تو یہ مت سوچو کی بس اسے دھر دبوچنا ہے؟ نا ... کبھی نہیں ... کوئی زور زبردستی نہیں ... ہولے سے اسے اپنی باہوں میں بھرنا چاہئے تاکہ وہ اپنے باقی زندگی میں اس سے پہلے آلںگن کو اپنی یادوں میں سجو کر رکھے.

آنٹی نے اپنی باہیں میری طرف بڑھا دی. میں تو جیسے جادو سے بندھا ان کی باہوں میں سما گیا. اس کے بدن کی منشیات مہک سے میرا اعصاب-نظام جیسے شرابور ہو گیا. اگرچہ وہ ابھی ابھی نہا کر آئی تھی پر ان کے بدن کی مہک تو مجھے مدہوش ہی کر گئی. میں ان کی چھاتی سے چپک گیا. ان گداج اور موٹے موٹے اروج ٹھیک میرے منہ کے پاس تھے. ان دونوں اروج تو ایسے لگ رہے تھے جیسے کوئی دو کبوتر ہی ہوں. اور ان کی گھنڈيا تو ایسے تیکھی ہو گئی تھی گویا پنسل کی نوک ہوں. میرا دل تو کر رہا تھا کہ ان کو چوم لوں پر آنٹی کے بتائے بغیر ایسا کرنا ٹھیک نہیں تھا. ان کی كاكھ سے آتی تیکھی اور نشیلی خوشبو تو جیسے مجھے ہوش ہی کر دینے والی تھی. ان کی گرم سانسیں مجھے اپنے چہرے پر صاف محسوس ہو رہی تھی. ان کا ایک ہاتھ میری پیٹھ سہلا رہا تھا اور دوسرا ہاتھ سر کے بالوں پر.

میں نے بھی اپنا ایک ہاتھ ان کے نتمبوں پر پھرانا چالو کر دیا. موٹے موٹے دو فٹ بال جیسی نرم نازک کسے ہوئے نتمب گول مٹول. میں نے اپنے آپ کو اس کی گہری کھائی میں بھی اپنی اںگلیاں پھرانے سے نہیں روک پایا. میرا لںڈ تو تن کر پینٹ میں ادھم ہی مچانے لگا تھا. پتہ نہیں کتنی دیر ہم دونوں اسی طرح آنکھیں بند ریٹویٹ جیسے کسی جادو سے بندھے آپس میں باہوں میں جکڑے کھڑے رہے. میں اب تک اس مہم جوئی سے نا واقف ہی تھا. مجھے تو لگا میں تو خوابوں کی آئیے دنیا میں ہی پہنچ گیا ہوں. اس محبت آلںگن کی رس بھری احساس کو بیان کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے.

آنٹی نے اپنی آنکھوں کھولی اور میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور میری آنکھوں میں دیکھنے لگی. میں نے دیکھا ان کی آنکھوں میں لال ڈورے تیر لگے ہیں.

وو بولی، "دیکھو چدو آلںگن کا مطلب صرف ایک دوسرے کو باہوں میں بھرنا ہی نہیں ہوتا. یہ دو شريرو کا نہیں روح کے ملن کی طرح محسوس کرنا چاہئے. ایک مذاق بات سنو- جیسے گھوڑا، فوڑا اور لؤڑا سہلانے سے بڑھتے ہیں اسی طرح چھاتی، چوتڑ اور ضم دبانے سے بڑھتے ہیں. اس لئے اپنی ساتھی کے تمام اعضاء کو دبانا اور سہلانا چاہئے. جسم کے سارے اںگو کو محبت کرنا چاہئے. "

سمبھوگ کے دوران تو آلںگن اپنے آپ ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ بھی اگر اپنی محبوب کے گداذ بدن کو باہوں میں بھر لیا جائے تو اسیم آنند کی معرفت ہوتی ہے. اس وقت اپنے محبوب یا محبوبہ کا بوجھ پھولوں سے بھی ہلکا لگتا ہے.

تھوڑی دیر بعد وہ گھوم گئی اور میں نے پیچھے سے ان کو اپنی باہوں میں جکڑ لیا. آہ ان گداج نتمبوں کی کھائی میں میرا مٹھو تو ٹھوکریں ہی کھانے لگا تھا. میں نے ایک ہاتھ سے ان کے اروج پکڑ رکھے تھے اور دوسرا ہاتھ کبھی ان کے پیٹ، کبھی کمر اور کبھی ان کی جاںگھوں کے بیچ ٹھیک اس جگہ پھرا رہا تھا جہاں جنت غار بنی ہوتی ہے. انہوں نے اپنے ہاتھ اوپر کرکے میری گردن پر جیسے لپیٹ ہی لئے. ان بغلوں اور لمبے بالوں سے آتی میٹھی مہک نے تو مجھے مدہوش ہی کر دیا. پتہ نہیں ہم اسی طرح ایک دوسرے سے لپٹے کتنی دیر کھڑے رہے.

2. چمبن

مغربی ممالک اور ثقافت میں تو شادی کے بعد پہلا بوسہ کی خاص اہمیت ہے. بھارتی روایت میں بھی پیشانی اور گالوں کی محبت بھرا بوسہ لیا ہی جاتا ہے.

آنٹی بولی "دیکھو چدو ویسے تو اپنی گرل فرینڈ اور پریمی کو اوپر سے لے کر نیچے تک سارے اعضاء کا ہی بوسہ لیا جاتا ہے پر سب سے اہم ہوتا ہے ادھرو (ہونٹوں) کا بوسہ لیکن دھیان رکھو کہ تم نے برش ٹھیک سے کر لیا ہے اور کوئی کھشبودار چیز اپنے منہ میں رکھ لی ہے "

"چمبن محبت کا پیارا سهچر ہے. چمبن دل سپدن کا خاموش پیغام ہے اور محبت گجن کا لہراتا ہوا كمپن ہے، پرےماگن کا گرمی اور دو هرديو کے ملن کی چھاپ ہے. یہ تو نوجيون کا آغاز ہے. اپنے پریمی یا گرل فرینڈ کا پہلا بوسہ تو اپنے میموری مندر میں بت بنا کر رکھا جاتا ہے. "

اب آنٹی نے ہولے سے اپنے کاںپتے ہوئے ادھرو کو میرے ہونٹوں پر رکھ دیا. منٹ کی میٹھی اور ٹھنڈی خوشبو میرے اندر تک سما گئی. سنتری کی پھاںکوں اور گلاب کی پتیوں جیسے نرم نازک رسیلے ہوںٹھ میرے ہوںٹھوں سے ایسے چپک گئے جیسے کہ کوئی چمبك ہوں. پھر انہوں نے اپنی زبان میرے ہونٹوں پر پھراي. پتہ نہیں کتنی دیر میں تو جادو کا سا اپنے ہوش و هواس کھویے کھڑا رہا. میرا منہ اپنے آپ کھلتا گیا اور آنٹی کی زبان تو گویا اس کا انتظار ہی کر رہی تھی. انہوں نے گپپ سے اپنی لپلپاتي زبان میرے منہ میں ڈال دی. میں نے بھی مشري اور شہد کی ڈلي کی طرح ان کی زبان کو اپنے منہ میں بھر لیا اور کسی كلپھي کی طرح چوسنے لگا. پھر انہوں نے اپنی زبان باہر نکال لی اور میرا اوپر کا ہونٹ اپنے مںہ میں بھر لیا. ایسا کرنے سے ان کا نچلا ہونٹ میرے منہ میں سما گیا. جیسے کسی نے شہد کی كپپي ہی میرے منہ میں دے دی ہو. میں تو چٹخارے لے کر انہیں چوستا ہی چلا گیا. ایسا لگ رہا تھا جیسے ہمارا یہ چمبن کبھی ختم ہی نہیں ہو گا.

ایک دوسرے کی باہوں میں ہم ایسے لپیٹ تھے جیسے کوئی شہ ناگن آپس میں کئی بار ہوں. ان کی چونچيو کے چچوكو کی چبھن میری چھاتی پر محسوس کرکے میرا مہم جوئی تو جیسے ساتویں آسمان پر ہی تھا. پھر انہوں نے میرے گالوں، ناک، ٹھوڑی، پلکوں، گلے اور پیشانی پر چمبنو کی جیسے جھڑی ہی لگا دی. اب میری باری تھی میں بھلا پیچھے کیوں رہتا میں بھی ان کے ہونٹ، گال، پیشانی، تھوڑی، ناک، کان کی لوب، پلکوں اور گلے کو چومتا چلا گیا. ان گلابی گال تو جیسے روئی کے پھوهے تھے. سب سے نازک تو ان کے ہونٹ تھے بالکل سرخ سرخ. میں تو اتنا اتیجت ہو گیا تھا کہ مجھے تو لگنے لگا تھا میں نے پینٹ میں ہی جھڑ جاؤں گا.
اچانک فون-بیل بجی تو ہم دونوں ہی چونک گئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں الگ ہونا پڑا. اپنے بھیگے ہونٹوں کو لئے آنٹی مین-گیٹ کی طرف چلی گئی.

آہ ... آج 14 سال کے بعد بھی مجھے اس کا جادو رابطے اور پہلی چمبن جب یاد آتا ہے میں تو مہم جوئی سے بھر اٹھتا ہوں.

.

3. اروجوں کو مسلنا اور چوسنا

شام کے کوئی چار بجے ہوں گے. آج میں نے سفید پینٹ اور مکمل بازو والی ٹی شرٹ پہنی تھی. آنٹی نے بھی کالی جین پینٹ اور کھلا ٹاپ پہنا تھا. آج تیسرا سبق تھا. آج تو بس امرت كلشو کا مزا لوٹنا تھا. اوہ ... جیسے دو كدھاري انار کسی نے ٹاپ کے اندر چھپا دئے ہوں آگے سے ایک دم نوک دار. میں تو دوڑ کر آنٹی کو باہوں میں ہی بھرنے لگا تھا کہ آنٹی بولی، "اوہ .. چدو .... جلدی نہیں! دھیان رکھو یہ پریمی-گرل فرینڈ کا ملن ہے نہ کہ شوہر بیوی کا. اتنی بے صبری (اترتا) ٹھیک نہیں. پہلے یہ دیکھو کوئی اور تو نہیں ہے آس پاس؟ "

"اوہ ... ساری .... غلطی ہو گئی" میرا جوش کچھ ٹھنڈا پڑ گیا. میں تو رات بھر ٹھیک سے سو بھی نہیں پایا تھا. ساری رات آنٹی کے كھيالو میں ہی گزر گئی تھی کہ کس طرح کل ... اسے باہوں میں بھر کر پیار کروں گا اور اس کے امرت كلشو کو چوسوگا.

"چلو بیڈروم میں چلتے ہیں!"

ہم بیڈروم میں آ گئے. اب آنٹی نے مجھے باہوں میں بھر لیا اور ایک چمبن میرے ہونٹوں پر لے لیا. میں بھی کہاں عیوکی والا تھا میں نے بھی کس کر ان کے ہونٹ چوم لیے.

"اوههو ... ایک دن کی ٹریننگ میں ہی تم تو بوسہ لینا سیکھ گئے ہو!" آنٹی ہنس پڑی. جیسے کوئی جلترگ چھڑی ہو یا ویتا کے تار جھنجھناے ہوں. ہنستے ہوئے ان کے دانت تو چدراول کا دھوکہ ہی دے رہے تھے. ان گالوں پر پڑنے والے گڑھے تو جیسے کسی کو قتل ہی کر دیں.

ہم دونوں پلنگ پر بیٹھ گئے. آنٹی نے کہا "تمہیں بتا دو- کنواری لڑکیوں کے اروج ہوتے ہیں اور جب بچہ ہونے کے بعد ان میں دودھ بھر جاتا ہے تو یہ امرت-کلش (بوبس یا چھاتی) بن جاتے ہیں. دونوں کو چوسنے کا اپنا ہی انداز اور مزہ ہوتا ہے . سمبھوگ سے پہلے لڑکی کے سینوں کو ضرور چوسنا چاہئے. ستنوں کو چوسنے سے ان کے کینسر کا امکان ختم ہو جاتی ہے. آج کا سبق ہے اروجوں یا چنچیوں کو کیسے چوسا جاتا ہے! "

قدرت نے ستندھاري مخلوق کے لئے ایک ماں کو کتنا انمول تحفہ ان امرت-كلشو کے طور پر دیا ہے. تم شاید نہیں جانتے کہ کسی خوبصورت عورت یا لڑکی کی سب سے بڑی دولت اس کے اعلی درجے اور ابھرے اروج ہی ہوتے ہیں.

کام متاثر مرد کی سب پہلی نظر انہی پر پڑتی ہے اور وہ انہیں دبانا اور چوسنا چاہتا ہے. یہ سب قدرتی ہوتا ہے کیونکہ اس زمین پر آنے کے بعد اس نے سب سے پہلا کھانا انہی امرت كلسو سے پایا تھا. اوچیتن دماغ میں یہی بات دبی رہتی ہے اسی لئے وہ ان کی طرف للچاتا ہے.

"خوبصورت، سڈول اور مکمل تیار سینوں کے سوندرياكرش میں اہم شراکت ہے. یہ خوشگوار احساس کے پیچھے اپنے محبوب کے دل میں محبت کی جیوتی جلائے رکھنے اور ہمیشہ اس کی محبوب بنی رہنے کی نرم تمنا بھی چھپی رہتی ہے. اگرچہ مانسل، جدید اور تصدیق اروج بہترین صحت و بلوغت مکمل آویز کی علامت ہیں اور سب کا من للچاتے ہیں پر جہاں تک ان سنویدنشیلتا کا سوال ہے چھاتی چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے سے کوئی فرق نہیں ہوتا. البتہ چھوٹے چھاتی زیادہ حساس ہوتے ہیں.

کچھ خواتین اپنی دےهيشٹ کے تئیں زیادہ فکر مند (بیدار) ہوتی ہیں اور چھوٹے سینوں کو بڑا کروانے کے لیے پلاسٹک سرجری کروا لیتی ہیں بعد میں انہیں کئی بیماریوں اور ضمنی اثرات سے گزرنا پڑ سکتا ہے. اروجوں کو خوبصورت اور سڈول بنانے کے لئے اوںٹنی کے دودھ اور ناریل کے تیل کا لیپ کرنا چاہئے.

ایرانی اور افغانی عورتیں تو اپنی جلد کو خوبصورت بنانے کے لئے اوںٹنی یا گدھي کے دودھ سے نہایا کرتی تھی. پتہ نہیں کہاں تک سچ ہے کچھ عورتیں تو سنتری کے چھلکے، گلاب اور چمےلي کے پھول سکھا کر پیس لیتی ہیں اور پھر اس میں اپنے شوہر کے ویرے یا شہد ملا کر چہرے پر لگاتی ہیں جس سے ان کا رنگ نكھرتا ہے اور کیل، جھايا اور مهاسے ٹھیک ہو جاتے ہیں! "

آنٹی نے آگے بتایا، "سب سے پہلے آہستہ آہستہ اپنی گرل فرینڈ کو بلاج یا ٹاپ اترا جاتا ہے پھر برا. کوئی جلدی نہیں آرام سے ان کو پیار سے پہلے نهارو پھر ہولے سے چھو. پہلے ان گھڈيو کو پھر اےرولا کو، پھر پورے اروج کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر آہستہ آہستہ سہلاؤ اور مسلو مگر پیار سے کچھ لڑکیوں کا بائیں اروج دائیں اروج سے تھوڑا بڑا ہو سکتا ہے. اس میں گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہوتی. دراصل بائیں طرف ہمارا دل ہوتا ہے اس لئے اس اروج کی طرف ركتسچار زیادہ ہوتا ہے.

یہی حال لڑکوں کا بھی ہوتا ہے. کئی لڑکوں کا ایک انڈكوش بڑا اور دوسرا چھوٹا ہوتا ہے. گپتاگو کے آس پاس اور اروجوں کی جلد بہت نازک ہوتی ہے ذرا سی غلطی سے ان میں درد اور گرہ پڑ سکتی ہے اس لئے انہیں زور سے نہیں دبانا چاہیے. محبت سے ان پر پہلے اپنی زبان پھراو، چچك کو ہولے سے منہ میں لے کر زبان سے سہلاؤ اور پھر چوسو. "

میں نے دھڑكتے دل سے ان کا ٹاپ اتار دیا. انہوں نے برا تو پہنی ہی نہیں تھی. دو پرندے جیسے آزاد ہو کر باہر نکل آئے. ٹاپ اتارتے وقت میں نے دیکھا تھا ان کی كاكھ میں چھوٹے چھوٹے ریشم سے بال ہیں. اس میں سے آتی میٹھی نمکین اور تیکھی بو سے میں تو مست ہی ہو گیا.

میرا مٹھو تو هلورے ہی لینے لگا. مجھے لگا کشیدگی کی وجہ جیسے میرا سپاڑا پھٹ ہی جائے گا. میں تو سوچ رہا تھا کہ ایک بار چود ہی ڈالو یہ محبت کے سبق تو بعد میں پڑھ لوں گا پر آنٹی کی مرضی کے بغیر یہ کہاں ممکن تھا.

آنٹی پلنگ پر چت لیٹ گئی اور میں گھٹنوں کے بل ان کے پاس بیٹھ گیا. اب میں نے آہستہ سے ان کے ایک اروج کو چھو لیا. وہ سہر اٹھی اور ان کی سانس تیز ہونے لگی. ہونٹ کانپنے لگے. میرا بھی برا حال تھا. میں تو مہم جوئی سے لبالب بھرا تھا. میں نے دیکھا اےرولا کوئی ایک انچ سے بڑا تو نہیں تھا. گہرے گلابی رنگ کا. نپل تو چنے کے دانے جتنے جیسے کوئی چھوٹا سا سرخ مونگفلی کا دانا ہو. ہلکی نیلی نسے گلابی رنگ کے اروجوں پر ایسے لگ رہی تھی جیسے کوئی نیلے رنگ کے بال ہوں. میں اپنے آپ کو کس طرح روک پتہ. میں نے ہولے سے اس کے دانے کو چٹکی میں لے کر دھیرے سے مسئلہ اور پھر اپنے تھرتھراتے ہونٹوں ان پر رکھ دئے. آنٹی کے جسم نے ایک جھٹکا سا کھایا. میں نے تو گپپ سے ان کا پورا اروج ہی منہ میں لے لیا اور چوسنے لگا. آہ ... کیا رس بھرے اروج تھے. آنٹی کی تو سسکاریاں ہی کمرے میں سنائی دی لگی.

"اههه چدو اور زور سے چوسو اور زور سے .... آہ ... سارا دودھ پی جاؤ میرے محبت دیوانے .... آہ آج دو سال کے بعد کسی نے .... آہ ... اويي ... ماا ......" پتہ نہیں آنٹی کیا کیا بولے جا رہی تھی . میں تو مست ہوا جور جور سے ان امرت كلسو کو چوسے ہی جا رہا تھا. میں اپنی جیبھ کو ان کی نپل اور اےرولا کے اوپر گول گول گھماتے ہوئے کلاس کرنے لگا. بیچ بیچ میں ان کے نپل کو بھی دانتوں سے دبا دیتا تو آنٹی کی سیتکار اور تیز ہو جاتی. انہوں نے میرے سر کے بالوں کو کس کر پکڑ لیا اور اپنی چھاتی کی طرف دبا دیا. ان کی آہ ... انه ... چالو تھی. میں نے اب دوسرے اروج کو مںہ میں بھر لیا. آنٹی کی آنکھیں بند تھی.

میں نے دوسرے ہاتھ سے ان کا پہلے والا اروج اپنی مٹھی میں لے لیا اور اسے مسلنے لگا. مجھے لگا کہ جیسے وہ بالکل سخت ہو گیا ہے. اس کے چچوك تو چمن کے انگور (پتلا اور لمبا) بن گئے ہیں ایک دم تیکھے، جیسے ابھی ان میں سے دودھ ہی نکل پڑے گا. میرے تھوک سے ان کی دونوں چوچیاں گیلی ہو گئی تھی. میرا لںڈ تو پری کم چھوڑ چھوڑ کر پاگل ہی ہوا جا رہا تھا. میرا اندازہ ہے کہ آنٹی کی چوت نے بھی اب تو پانی چھوڑ چھوڑ کر نہر ہی بنا دی ہوگی پر اسے چھونے یا دیکھنے کا ابھی وقت نہیں آیا تھا. آنٹی نے اپنے جاںگھیں کس کر بند کر رکھی تھی. جین پینٹ میں پھسي چوت والی جگہ پھولی سی لگ رہی تھی اور کچھ گیلی بھی. جیسے ہی میں نے ان کے چچوك کو دانتوں سے دبایا تو انہوں نے ایک كلكاري ماری اور ایک طرف لڑھک گئی. مجھے لگا کی وہ جھڑ (سکھلت) گئی ہے.

4. اتمرت (مشت زنی-مٹھ مارنا)

کسی نے سچ ہی کہا ہے "جنسی ایک برج گیم کی طرح ہے؛ اگر آپ کے پاس ایک اچھا ساتھی نہیں ہے تو کم سے کم آپ کا ہاتھ تو بہتر ہونا چاہئے!"
4. اتمرت (مشت زنی-مٹھ مارنا)

کسی نے سچ ہی کہا ہے "جنسی ایک برج گیم کی طرح ہے؛ اگر آپ کے پاس ایک اچھا ساتھی نہیں ہے تو کم سے کم آپ کا ہاتھ تو بہتر ہونا چاہئے!"

سیکس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 95٪ صحت مند مرد اور 50٪ عورتیں مٹھ ضرور مارتے ہیں. جب کوئی ساتھی نہیں ملتا تو اس کو تصور میں رکھ کر! بس یہی تو ایک طریقہ یا آلہ ہے آپ کی اتمرت اور کام اطلاقات (بھوک) کو مٹانے کا. اور میں اور آنٹی بھی تو اسی دنیا کے مخلوق تھے، مٹھ مارنے کی ٹریننگ تو سب سے زیادہ ضروری تھی. آنٹی نے بتایا تھا کہ جو لوگ کشور حالت میں ہی مشت زنی شروع کر دیتے ہیں وہ بڑی عمر تک سمبھوگ کام کے قابل بنے رہتے ہیں. انہیں بڑھاپا بھی تاخیر سے آتا ہے اور چہرے پر جھرریاں بھی کم پڑتی ہیں. کئی بار لڑکے آپس میں مل کر مٹھ مارتے ہیں ویسے ہی لڑکیاں بھی آپس میں ایک دوسرے کی شرمگاہ کو سہلا دیتی ہیں اور کئی بار تو اس میں انگلی بھی کرتی ہیں. مجھے بڑی حیرانی ہوئی. انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کئی بار تو پریمی-گرل فرینڈ (میاں بیوی بھی) آپس میں ایک دوسرے کی مٹھ مارتے ہیں. میرے قارئین اور پاٹھكاو کو تو ضرور تجربہ رہا ہوگا؟ ایک دوسرے کی مٹھ مارنے کا اپنا ہی لطف اور خوشی ہوتی ہے. کئی بار تو ایسا مجبوری میں کیا جاتا ہے. کئی بار جب نئے وواهتا بیوی کی حیض چل رہی ہو اور وہ گاںڈ مروانے سے گریز کرے تو بس یہی ایک طریقہ رہ جاتا ہے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کا.

خیر! اب چوتھے سبق کی تیاری تھی. آنٹی نے بتایا تھا کہ اگر اکیلے میں مٹھ مارنی ہو تو ہمیشہ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر مارنی چاہئے اور اگر کوئی ساتھی کے ساتھ کرنا ہو تو پلنگ پر کرنا اچھا رہتا ہے. اب آنٹی نے میری پینٹ اتار دی. آنٹی کے سامنے مجھے ننگا ہونے میں شرم آ رہی تھی. میرا 6 انچ لمبا لںڈ تو 120 ڈگری پر پیٹ سے چسپاں کو تیار تھا. اسے دیکھتے ہی آنٹی بولی، "واہ .... تمہارا مٹھو تو بہت بڑا ہو گیا ہے؟"

"پر مجھے تو لگتا ہے میرا چھوٹا ہے. میں نے تو سنا ہے کہ یہ 8-9 انچ کا ہوتا ہے؟"

"ارے نہیں بددھو عام طور پر ہمارے ملک میں اس کی لمبائی 5-6 انچ ہی ہوتی ہے. فالتو کتابیں پڑھ کر تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے. ایک بات تمہیں سچ بتا رہی هو- یہ صرف برم ہی ہوتا ہے کہ بہت بڑے جنس سے عورت کو زیادہ مزہ آئے گا. اندام نہانی کے اندر صرف 3 انچ تک ہی حساس جگہ ہوتی ہے جس میں عورت اتیجنا محسوس کرتی ہے. عورت کی اطمینان کے لئے جنس کی لمبائی اور موٹائی کوئی زیادہ معنی نہیں رکھتی. سوچو جس یون میں سے ایک بچہ نکل سکتا ہے اسے کسی موٹے یا پتلی جنس سے کیا فرق پڑے گا. جنس کتنا بھی موٹا کیوں نا ہو یون اس حساب سے اپنے آپ کو پھیلا کر جنس کو ایڈجسٹ کر لیتی ہے. تم نے دیکھا ہوگا گدھے کا لںڈ کتنا بڑا ہوتا ہے لیکن گدھي اسے بھی بغیر کسی رکاوٹ کے لے پورا اندر لے لیتی ہے. "

پھر بھی ایک بات بتاو- اگر مجھے اپنا جنس اور بڑا اور موٹا کرنا ہو تو میں کیا کروں؟ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اپنے جنس پر رات کو شہد لگا کر رکھا جائے تو وہ کچھ دنوں میں لمبا اور سیدھا بھی ہو جاتا ہے. میرا جنس تھوڑا سا ٹےڑھا بھی تو ہے؟ "

"دیکھو قدرت نے سارے اعضاء ایک صحیح تناسب میں بنائے ہیں. جیسے ہر آدمی کا قد (لمبائی) اپنی ایک بازو کی کل لمبائی سے ڈھائی گنا بڑا ہوتا ہے. ہمارے ناک کی لمبائی ہمارے ہاتھ کے انگوٹھے جتنی بڑی ہوتی ہے. آدمی اور جنس کی لمبائی ویسے تو موروثی ہوتی ہے پر لمبائی بڑھانے کے لئے رسی کودنا اور ہاتھوں کے سہارے لٹكانا مدد کر سکتا ہے. جنس کی لمبائی بڑھانے کے لئے آپ کو ایک کام کر سکتے هو- ناریل کے تیل میں چوقبصور رس مل کر مساج کرنے سے جنس تصدیق ہو جاتا ہے. اور یہ شہد والی بات تو متک ہے. یہ ٹیڑھی جنس والی بات تم جیسے نوعمروں کی ہی نہیں، ہر عمر میں پائی جانے والی بھرانت ہے. جنس ٹےڑھا ہونا کوئی بیماری نہیں ہے. قدرتی طور پر جنس تھوڑے سے ٹیڑھی ہو سکتے ہیں اور اس کا جھکاؤ اوپر نیچے دائیں یا بائیں جانب بھی ہو سکتا ہے. سمبھوگ میں ان باتوں کا کوئی فرق نہیں پڑتا. اوہ ... تم بھی کن فضول باتوں میں پھنس گئے؟ "

اور پھر آنٹی نے بھی اپنی جین اتار دی. اب تو وہ نیلے رنگ کی ایک جھيني سی پیںٹی میں تھی. اوہ ... ڈبل روٹی کی طرح ایک دم پھولی ہوئی آگے سے بالکل گیلی تھی. پتلی سی پیںٹی کے دونوں جانب کالی کالی جھانٹوں بھی نظر آ رہی تھی. گوری گوری موٹی تصدیق جاںگھیں کیلے کے درخت کی طرح. جیسے کھجوراہوں کے مندروں میں بنی مورتی ہو کوئی. میں تو ہکا بکا اس حسن کی ملکہ کو دیکھتا ہی رہ گیا. میرا تو دل کرنے لگا تھا کہ ایک چمبن پیںٹی کے اوپر سے ہی لے لوں پر آنٹی نے کہہ رکھا تھا کہ ہر سبق سلسلہ وار (ترتیب) ہونے چاہئیں کوئی جلدی نہیں، اپنے آپ پر ضبط رکھنے سیکھو. میں مرتا کیا کرتا اپنے ہونٹوں پر زبان پھےرتا ہی رہ گیا.

آنٹی نے بڑی ادا سے اپنے دونوں ہاتھ اپنی کمر پر رکھے اور اپنی پیںٹی کو نیچے كھسكانے لگی.

گہری ناف کے نیچے کا حصہ کچھ ابھرا ہوا تھا. پہلے سیاہ سیاہ جھانٹوں نظر آئے اور پھر جنت کے اس دروازے کا وہ پہلا نظارہ. مجھے تو لگا جیسے میرا دل حلق کے راستے باہر ہی آئے گا. میں تو ان کی چوت کو دیکھتا ہی رہ گیا. سیاہ گھوبگھرالی جھانٹوں کے جھرمٹ کے درمیان موٹے موٹے بیرونی ہونٹوں والی چوت روشن ہو گئی. ان پھاںکوں کا رنگ گلابی تو نہیں کہا جا سکتا پر سیاہ بھی نہیں تھا. كتتھي رنگ جیسے گہرے رنگ کی مہندی لگا رکھی ہو. چوت کے اندر والے ہونٹ تو ایسے لگ رہے تھے جیسے کسی چڑیا کی چونچ ہو. جیسے کسی نے گلاب کی موٹی موٹی پنکھڑیوں کو آپس میں جوڑ دیا ہو. دونوں پھاںکوں میں سونے کی چھوٹی چھوٹی مکئی. چوت کا چیرا کوئی 4 انچ کا تو ضرور ہو گا. مجھے آنٹی کی چوت کی درار میں ڈھیر سارا چپچپا رس دکھائی دے رہا تھا جس کے نیچے والے سوراخ تک رس رہا تھا. انہوں نے پیںٹی نکال کر میری طرف بڑھا دی. پہلے تو میں کچھ سمجھا نہیں پھر میں نے ہنستے ہوئے ان کی پیںٹی کو اپنی ناک کے پاس لے جا کر سوںگھا. میرے نتھنو میں ایک جانی پہچانی منشیات مہک بھر گئی. نوجوان عورت کی چوت سے بڑی منشیات خوشبو نکلتی ہے. میں نے کہیں پڑھا تھا کہ حیض آنے سے کچھ دن پہلے اور حیض کے کچھ دنوں بعد تک عورت کے پورے بدن سے بہت ہی منشیات مہک آتی ہے جو مرد کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے. اگرچہ یہ چوت کنواری نہیں تھی پر اب بھی اس کی خوشبو کسی انچدي لونڈیا یا کنواری چوت سے قطعی کم نہیں تھی.

ہم دونوں پلنگ پر بیٹھ گئے. اب آنٹی نے میرے لںڈ کی طرف ہاتھ بڑھایا. میرے شیر نے انہیں سلامی دی. آنٹی تو اسے دیکھ کر مست ہی ہو گئی. میرا لںڈ اب سیاہ نہیں پڑا تھا. آپ تو جانتے ہیں کہ لںڈ اؤر چوت کا رنگ مسلسل چدائی کے بعد ہی سیاہ پڑتا ہے. انہوں نے پلنگ کے پاس رکھے سٹول پر پڑی ایک شیشی اٹھائی اور اسے کھول کر اس میں سے ایک لوشن سا نکالا اؤر میرے لںڈ پر لگا دیا. مجھے ٹھنڈا سا احساس ہوا. آنٹی نے بتایا کہ کبھی بھی مٹھ مارتے وقت کریم نہیں لگانی چاہیے. تھوک یا تیل ہی لگانا چاہیے یا پھر کوئی پتلا لوشن. میرے کچھ سمجھ میں نہیں آیا پر آنٹی تو پوری گرو تھی اور میری ٹریننگ چل رہی تھی مجھے تو ان کا کہنا ماننا ہی تھا. انہوں نے کچھ لوشن اپنی چوت کی پھاںکوں پر بھی لگایا اور انگلی بھر کر اندر بھی لگا لیا. ایک ہاتھ کی دونوں اگليو سے انہوں نے اپنی چوت کی پھاںکوں کو چوڑا کیا. تیتلی کے پنکھوں کی طرح دونوں پكھڑيا کھل گئی. اندر سے ایک دم سرخ کام رس سے شرابور چوت ایسے لگ رہی تھی جیسے کوئی چھوٹی سی بيا (ایک چڑیا) نے اپنے ننھے پنکھوں کھول دئے ہوں. مٹر کے دانے جتنی سرخ رنگ کی مدنم کے ایک انچ نیچے پیشاب ڈال ٹوتھپك جتنا بڑا. اس کے ٹھیک نیچے جنت کا دروازہ تو ایسے لگ رہا تھا جیسے کس کر بند کر دیا ہو کام رس میں بھیگا ہوا. جب انہوں نے اپنی جاںگھیں تھوڑی سی پھیلائی تو ان کی گاںڈ کا بادامی رنگ کا چھید بھی نظر آنے لگا وہ تو کوئی چووني کے سکے سے زیادہ بڑا كتتي نہیں تھا. وہ سوراخ بھی کھل اور بند ہو رہا تھا. انہوں نے کچھ لوشن اپنی گاںڈ کے چھید پر بھی لگایا. جب انہوں نے تھوڑا سا لوشن میری بھی گاںڈ پر لگایا تو میں تو اچھل ہی پڑا.

آنٹی نے بعد میں وضاحت کی تھی کہ مٹھ مارتے وقت گاںڈ کی اہم کردار ہوتا ہے جو بہت سے لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوتی. اب میرے حیران ہونے کی باری تھی. انہوں نے بتایا کہ چوت میں اگل کرتے وقت اور لںڈ کی مٹھ مارتے وقت اگر ایک اںگلی پر کریم یا تیل لگا کر گاںڈ میں بھی ڈالی جائے تو مٹھ مارنے کا مزہ دگنا ہو جاتا ہے. میں نے تو یہ پہلی بار سنا تھا.

پہلے میری باری تھی. انہوں نے مجھے چت لیٹا دیا اور اپنا ایک پاؤں اوپر کی طرف موڑنے کو کہا. پھر انہوں نے میرے لںڈ کو اپنے نازک ہاتھوں میں لے لیا. میرا جی کر رہا تھا کہ آنٹی اسے ایک بار منہ میں لے لے تو میں مبارک ہو جاؤں. پر آنٹی تو اس وقت اپنی ہی دھن میں تھی. انہوں نے میرے لںڈ کے سپاڑے کی ٹوپی نیچے کی اور پیار سے ننگے سپاڑے کو سہلایا. انہوں نے بے قابو ہوتے لںڈ کی گردن پکڑی اور اوپر نیچے کرنا شروع کر دیا. وو میرے پیرو کے درمیان اپنے گھٹنے موڑ کر بیٹھی تھی. دوسرے ہاتھ کی انگشت شہادت فنگر پر تھوڑا سا لوشن لگا کر دھیرے سے میری گاںڈ کے چھید پر لگا دی. پہلے اپنی انگلی اس چھید پر گھماي پھر دو تین بار تھوڑا سا اندر کی طرف پش کیا. میں نے گاںڈ سکوڑ لی. آنٹی نے بتایا کہ گاںڈ کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دو تمہیں بالکل درد نہیں ہوگا. اور پھر تو جیسے کمال ہی ہو گیا. 3-4 ہلکے پش کے بعد تو جیسے میری گاںڈ رواں ہو گئی. ان کی پوری کی پوری اںگلی میری گاںڈ کے اندر بغیر کسی رکاوٹ اور درد کے چلی گئی. میں تو انوکھے مہم جوئی سے جیسے بھر اٹھا. دوسرے ہاتھ کی نازک اگليو سے میرے لںڈ کی چمڑی کو اوپر نیچے کرتی جا رہی تھی. میں تو بس آنکھیں بند ریٹویٹ کسی جنت جیسے لطف شرابور ہوا سیتکار پر سیتکار ریٹویٹ جا رہا تھا. سچ پوچھو تو مجھے لںڈ کی بجائے گاںڈ میں زیادہ مزا آ رہا تھا. اس منفرد لطف سے میں اب تک نا واقف تھا. آنٹی نے اپنا ہاتھ روک لیا.

"اوہ ... آنٹی اب انتظار مت جور جور سے کرو ... جلدی ... هيي .... اوہ ..."

"کیوں ... مزہ آیا؟" آنٹی نے پوچھا. ان کی آنکھوں میں بھی منفرد چمک تھی.

"جی ہاں ... بہت مزا آ رہا ہے پلیج رکو مت!"

آنٹی پھر شروع ہو گئی. کوئی 5-6 منٹ تو ضرور لگے ہوں گے پر وقت کی کسے پرواہ تھی. مجھے لگا کہ اب میرا پانی نکلنے والا ہے. آنٹی نے ایک ہاتھ سے میرے دونوں خصیوں زور سے پکڑ لئے. مجھے تو لگا جیسے کسی نے پانی کی دھار ایک دم سے روک ہی دی ہے. اوہ ... کمال ہی تھا. میرا انزال پھر 2-3 منٹ کے لئے جیسے رک گیا. آنٹی کا ہاتھ تیز تیز چلنے لگا اور جیسے ہی انہوں نے میرے انڈکوش چھوڑے میرے لںڈ نے پچکاری چھوڑ دی. پہلی پچکاری اتنی زور سے نکلی تھی کہ سیڑھی آنٹی میں منہ پر پڑی. انہوں نے اپنی زبان سے اسے چاٹ لیا. اور پھر دن-دن کرتا میرا تو جیسے لاوا ہی بہہ نکلا. میرے پیٹ اور جاںگھوں کو تر کرتا چلا گیا. اس لطف کو بیان الفاظ میں نہیں کیا جا سکتا صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے.

اور اب آنٹی کی مٹھ مارنے کی باری تھی. آنٹی نے بتایا کہ چوت کی مٹھ مارتے وقت ہاتھوں کے ناخن کٹے ہونے چاہئیں اور ہاتھ صابن اور ڈٹول پانی سے دھلے. میں نے باتھ روم میں جا کر اچھے سے صفائی کی. ناخن تو کل ہی کاٹے تھے. جب میں واپس آیا تو آنٹی پلنگ پر اكڈو بیٹھی تھی. مجھے بڑی حیرانی ہوئی. میرا تو اندازہ تھا کہ وہ چت لیٹی ہوئی اپنی چوت میں اںگلی ڈالے میرا انتظار کر رہی ہوگی.

مجھے دیکھ کر آنٹی بولی، "اپنے ایک ہاتھ میں تھوڑا سا لوشن لگا کر میری منیا کو پیار سے سہلاؤ!"

میں نے ایک ہاتھ کی انگلیوں پر ڈھیر سارا لوشن لگا لیا اور اكڈو بیٹھی آنٹی کی چوت پر پیار سے پھرانے لگا. جیسے کوئی شہد کی کٹوری میں میری اںگلیاں دھنس گئی ہوں. چوت ایک دم پنياي ہوئی تھی. ریشمی، نرم، گھوبگھرالی، گھنے جھانٹوں سے اچچھادت چوت ایسے لگ رہی تھی جیسے کوئی تازہ کھلا گلاب کا پھول دوب کے لائن کے درمیان پڑا ہو. میں نے اوپر سے نیچے اور پھر نیچے سے اوپر انگلی پھراي. کسی چوت کو چھونے کا میرا یہ پہلا موقع تھا. سچ پوچھو تو میں نے اپنی زندگی میں آج پہلی بار کے اتنی نزدیک سے کسی ننگی چوت کا دیدار اور رابطے کی تھی. مجھے حیرانی ہو رہی تھی کہ آنٹی نے اپنی جھاٹے کیوں نہیں کاٹی؟ ہو سکتا ہے اس کا بھی کوئی وجہ رہا ہوگا.

میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا. میرا لںڈ پھر كنمنانے لگا تھا. میرا جی کیا ایک چمبن اس پیاری سی چوت پر لے ہی لوں. میں جیسے ہی نیچے جھکا آنٹی بولی "خبردار اب چما نہیں!"

مجھے بڑی حیرانی ہوئی. میں نے سیکسی کہانیوں میں پڑھا تھا کہ عورتیں اپنی چوت کا چما دے کر تو نہال ہی ہو جاتی ہے پر آنٹی تو اس کے الٹ جا رہی ہے. خیر کوئی بات نہیں جیسا آنٹی چاہیں گی ویسا ہی کرنے کی مجبوری ہے. میں نے اس کی مدنم (بھگناسا) کو جب چھوا تو آنٹی کو ایک جھٹکا سا لگا اور ان کے منہ سے سیتکار سی نکل گئی. مجھے کچھ عجیب سا لگ رہا تھا. میں مکمل طور پر ان کی چوت کو نہیں دیکھ پا رہا تھا. آنٹی اب چت لیٹ گئی اور انہوں نے ایک گھٹنے تھوڑا موڑ کر اوپر اٹھا لیا. میں ان دونوں جاںگھوں کے بیچ آ گیا اور ان کا ایک پاؤں اپنے کندھوں پر رکھ لیا. انہوں نے ایک تکیا اپنے نتمبوں کے نیچے لگا لیا تھا. جی ہاں اب ٹھیک تھا.

میں نے پہلے ان کی چوت کو اوپر سے سہلایا اور پھر آہستہ آہستہ ان کی پنکھڑیوں کے وسیع کیا. کام رس سے شرابور ركتم پھاكے پھول کر موٹی موٹی ہو گئی تھی. میں نے دھیرے سے ایک انگلی ان کی چوت کے چھید میں ڈال دی. آنٹی تھوڑا سا چهكي. فنگر پر لوشن لگا ہونے اور چوت گیلی ہونے کی وجہ اندر چلی گئی. آنٹی کی ایک میٹھی سیتکار نکل گئی اور میں مہم جوئی سے بھر اٹھا.

میں نے آہستہ آہستہ اںگلی اندر باہر کرنا شروع کر دی. آنٹی اوي ... یا .... ہیلو ... ایئی ... کرنے لگی. ان کی چوت سے چکنائی سی نکل کر گاںڈ کے بھورے چھید کو بھی تر کرتی جا رہی تھی. مجھے لگا آنٹی کو ضرور گاںڈ پر یہ مرکب لگنے سے گدگدی ہو رہی ہوگی. میںنے دھیرے سے اپنی اںگلی چوت سے باہر نکالی اور جیسے ہی ان کی گاںڈ کے چھید پر پھراي تو آنٹی نے اپنا پاؤں میرے کندھے سے نیچے کر لیا اور زور سے چيكھي، "اوہ ... چدو! یہ فنگر وہاں نہیں! رکو، مجھے پوچھے بغیر کوئی حرکت مت کرو! "بڑی حیرانی کی بات تھی کہ آنٹی نے تو خود بتایا تھا کہ مٹھ مارتے وقت ایک انگلی گاںڈ میں بھی ڈالنی چاہئے اب منع کیوں کر رہی ہیں؟

"اپنا دوسرا ہاتھ استعمال کرو اور دیکھو اس انگلی میں لوشن نہیں اپنا تھوک لگاؤ. تھوک لگانے سے اپنا پن اور محبت بڑھتی ہے."

اب میرے سمجھ میں آ گیا. میں نے اپنے دوسرے ہاتھ کی انگشت شہادت فنگر پر ڈھیر سارا تھوک لگایا. ان کی گاںڈ پر تو پہلے ہی لوشن لگا تھا. ہلکے ہلکے 3-4 پش ریٹویٹ تو میری انگلی آنٹی کی نرم گاںڈ میں چلی گئی. وہ کیا كھردري سلوٹے تھی. میری انگلی جاتے ہی فیل کر نرم ملائم ہو گئی بالکل رواں. آہستہ آہستہ آپ کی انگلی ان کی گاںڈ میں اندر باہر کرنے لگا. ایک انوکھا لطف مل رہا تھا مجھے بھی اور آنٹی کو بھی. وہ تو اب كلكاريا ہی مارنے لگی تھی. اس چکر میں میں تو ان کی چوت کو بھول ہی گیا تھا. آنٹی نے جب یاد دلایا تو مجھے یاد آیا. اب تو میری ہاتھوں کی دونوں اںگلیاں آرام سے ان دونوں چھےدو میں اندر باہر ہو رہی تھی. بیچ بیچ میں میں ان کی مدنم کے دانے کو بھی اپنی چمٹی میں پکڑ کر بھینچ اور مسل رہا تھا. آنٹی کا جسم ایک بار تھوڑا سا اکڑا اور انہوں نے ایک كلكاري ماری. مجھے لگا کہ ان کی چوت اور زیادہ گیلی ہو گئی ہے. اب میں نے دو اںگلیاں ان کی چوت میں ڈال دی. میری دونوں اںگلیاں گیلی ہو گئی تھی. میرا جی تو کر رہا تھا کہ میں اپنی انگلی چاٹ کر دیکھوں کہ اس کا ذائقہ کیسا ہے پر مجبوری تھی. بغیر آنٹی کی اجازت کے یہ نہیں ہو سکتا تھا. آنٹی کی آنکھیں بند تھی. میں نے چپکے سے ایک اںگلی اپنے منہ میں ڈال لی. اوہ ... ھٹی میٹھا اور نمکین سا ذائقہ تو تقریبا ویسا ہی تھا جو میں نے 2-3 دن پہلے ان کی پیںٹی سے چکھا تھا
میں نے اکثر جنسی کہانیوں میں پڑھا تھا کہ عورتوں کی چوت سے بھی کافی پانی نکلتا ہے. پر آنٹی کی چوت تو بس گیلی سی ہوگئی تھی کوئی پانی-وانی نہیں نکلا تھا. آنٹی نے مجھے بعد میں سمجھایا تھا کہ عورت جب اتیجیت ہوتی ہیں تو اندام نہانی کے راستے میں تھوڑی چکناہٹ سی آ جاتی ہے. اور جب انزال پر پہنچتی ہیں تو انہیں صرف مکمل ترپت کی معرفت ہوتی ہے. مردوں کی طرح نہ تو جننانگوں میں کوئی سنکچن ہوتا ہے اور نہ کوئی ویرے جیسا مادہ نکلتا ہے.

آنٹی نے مجھے بعد میں بتایا کہ کئی بار کروٹ کے بل لیٹ کر (69 پوزیشن) میں بھی ایک دوسرے کی مٹھ ماری جا سکتی ہے. اس میں دونوں کو ہی بڑا لطف ملتا ہے.

چوتھا سبق مکمل ہو گیا تھا. میں نے اور آنٹی نے اپنے اعضاء ڈٹول اور صابن سے دھو کر کپڑے پہن لئے. جی ہاں ہم دونوں نے ہی ایک دوسرے کے اعضاء کو صاف کیا تھا. آنٹی نے مجھے شہد ملا گرم دودھ پلایا اور خود بھی پیا. انہوں نے بتایا تھا کہ ایسا کرنے سے کھوئی طاقت آدھے گھنٹے میں واپس مل جاتی ہے. اگلا سبق دوسرے دن تھا. شام کے 7 بج رہے تھے میں گھر آ گیا.

5. محبت اعضاء کو چومنا اور چوسنا

آنٹی نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ محبت (جنسی) میں کچھ بھی گندا نہیں ہوتا. انسانی جسم کے تمام اعضاء جب الہی نے ہی بنائے ہیں تو ان کوئی گندا کیسے ہو سکتا ہے. میرے پیارے قارئین اور پاٹھكاو، اب منیا اور مٹھو (لںڈ اؤر چوت) کی چساي کا سبق سیکھنا تھا. میری بہت سی پاٹھكاے تو شاید ناک-بھوه سکوڑ رہی ہوں گی. شٹ ... شٹ ... گندے بچے .... پر میرا دعوی ہے کہ اس سبق کو میرے ساتھ پڑھ لینے کے بعد آپ ضرور اسے آزمانا چاہیں گی.

ہر بچے کی ایک پیمجات عادت ہوتی ہے جو چیز اسے اچھی اور پیاری لگتی ہے اسے منہ میں لے لیتا ہے. پھر ان کے کام اعضاء کو منہ میں لینا کون سی بڑی بات ہے. یہ تو قدرتی فعل ہے. آنٹی نے تو بتایا تھا کہ ویرے پینے سے آنکھوں کی جیوتی بڑھتی ہے. اس کا ایک واضح ثبوت تو یہی ہے کہ اپنے کسی طوائف (گكا) کو شیشے لگائے نہیں دیکھا ہوگا. صحیفوں میں تو اسے امرت تلي کہا گیا ہے. سائنسی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو ویرے اور كامرس میں کئی دھاتے اور وٹامن ہوتے ہیں تو پھر ایسی چیز کو بھلا بیکار کیوں جانے دیں. اگر شروع شروع میں لںڈ چوسنے میں تھوڑی گلان سی محسوس ہو یا اچھا نہ لگے تو لںڈ اؤر چوت پر پر شہد یا آئس کریم لگا کر چوسنا چاہئے. ایسا کرنے سے ان کا رنگ بھی سیاہ نہیں پڑتا. اروجوں پر شہد لگا کر چوسنے سے ان کے سائز سڈول بنتا ہے. یہ ایسا ہی ہے جیسے گاںڈ مروانے سے نتمب چوڑے اور سڈول بنتے ہیں.

زیادہ تر خواتین مکھ میتھن پسند کرتی ہیں. ان میں جننانگوں بھی شامل ہیں پر عورت قابل رسائی شرم کی وجہ وہ پہل نہیں کرتی. وہ اس کرتے کو بہت ہی انترگ اور رشتہ دار نظریہ سے دیکھتی ہیں. اس لئے مکمل محبت کے دوران اس کا بہت اہمیت ہے. پریمی کو یہ جاننے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ اس کی گرل فرینڈ کو کون سا عضو چسوانے میں مزید لطف ملتا ہے.

آنٹی نے بتایا تھا کہ گپتاگو کی چساي کرتے وقت ان کی صفائی اور سوچھتا کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے. جھانٹوں اچھی طرح کٹے ہوں اور ڈٹول اور صابن سے انہیں اچھی طرح دھو لیا گیا ہو. میرے تو خیر رويے ہی تھے میں نے پہلی بار اپنے جھانٹوں طریقے سے کاٹے تھے. آج ہمیں نائیٹ شفٹ میں کام کرنا تھا. گھر پر بتا دیا تھا کہ میں 3-4 دن رات میں آنٹی کے پاس ہی پڑھائی کروں گا. امتحان سر پر ہے اور سبق (متن) بہت مشکل ہیں. گھر والے بیچارے میری اس تعلیم کے بارے میں کیا جانتے تھے؟

رات کے کوئی 10 بجے ہوں گے. میں اور آنٹی دونوں ننگ دھڈگ پلنگ پر لیٹے تھے. ہم نے اپنے گپتاگو کو اچھے سے دھو لیا تھا. اور ہلکا سا سرسوں کا تیل بھی لگا لیا تھا. میرے سپاڑے پر آنٹی نے شہد لگا دیا تھا اور اپنی چوت پر تھوڑی سی آئس کریم. ویسے مجھے آئس کریم کی کوئی ضرورت نہیں تھی. آپ سمجھ ہی رہے ہوں گے. آنٹی کی چوت کا جلوہ تو آج دیکھنے لائق تھا. بالکل کلین شیو. جو چوت کل تک کالی سی لگ رہی تھی آج تو چار چاند لگ رہی تھی. بالکل گوری چٹٹي گلابی. ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے موٹے حروف میں انگریزی کا ڈبلیو (w) لکھ دیا ہو. اس کے ہونٹ ضرور تھوڑے شيامل رنگ کے لگ رہے تھے پر اس جنت کے دروازے کے رنگ سے مجھے کیا لینا دینا تھا. ذائقہ تو ایک جیسا ہی ملے گا پھر رنگ سیاہ ہو یا گورا کیا فرق پڑتا ہے.

آنٹی نے بتایا جنس یا اندام نہانی کو چوسنے کے کئی آسن اور طریقے ہوتے ہیں پر اگر جنس اور اندام نہانی دونوں کی ایک ساتھ چساي کرنی ہو تو 69 کی پوجشن ہی ٹھیک رہتی ہے. یہ 69 پوجشن بھی دو طرح کی ہوتی ہے. ایک تو آمنے سامنے کروٹ کے بل لیٹ کر اور دوسری پریمی نیچے اور گرل فرینڈ اس کے منہ پر اپنی یون لگا کر اپنا منہ اس کے پاؤں کی طرف جنس کے ٹھیک سامنے کر لیتی ہے. اس پوزیشن میں دونوں کو دگنا مزہ آتا ہے. ارے بھائی فرینڈ کی ملکہ (گاںڈ) بھی تو ٹھیک اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتی ہے نا؟ اس کے کھلتے بند ہوتے سوراخ کا منظر تو جانمارو ہوتا ہی ہے کبھی کبھار اس میں بھی اگر فنگر کر دی جائے تو مزہ دگنا کیا تگنا ہو جاتا ہے.

آئیے اب چوت کا پہلا بوسہ لیتے ہیں. آنٹی نے مجھے چت لیٹ جانے کو کہا. آنٹی نے بڑی ادا سے اپنے دونوں گھٹنے میرے سر کے دونوں طرف کر دیے اور اپنا منہ میرے لںڈ کے ٹھیک اوپر کر لیا. میں نے ان کی موٹی موٹی سگےمرمر جیسی کسی ہوئی جاںگھوں کو کس کر پکڑ لیا. چوت کوئی 2 "ہی تو دور رہ گئی تھی میرے ہوںٹھوں سے. آنٹی نے بتایا تھا کہ کوئی جلدی نہیں، میں نے ہولے سے اپنی جیبھ کی نوک اس کی پھاںکوں پر رکھ دی. آنٹی کی تو ایک سیتکار کیا ہلکی چیخ ہی نکل گئی. کسی مرد کی زبان کا دو سال کے بعد ان کی چوت پر یہ پہلا ٹچ تھا. میں نے نیچے سے اوپر اپنی زبان پھراي گاںڈ کے سنہری سوراخ تک اور پھر اوپر سے نیچے تک.

میرا مٹھو تو کسی چابی والے کھلونے کی طرح اچھل رہا تھا. اس نے تو پری کم کے ٹپكے چھوڑنے شروع کر دیئے تھے. آنٹی نے پہلے میرے لںڈ کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور پھر ادا سے اپنے سر کے بالوں کو ایک جھٹکا دیا. بال ایک طرف ہو گئے تو انہوں نے سپاڑے پر آئے پری کم پر اپنی زبان ٹكاي. شہد اور کم دونوں کو انہوں نے چاٹ لیا. پھر اپنی زبان سپاڑے پر پھراي. ٹھیک میرے والے انداز میں لںڈ کے اوپر سے نیچے تک. پھر جب انہوں نے میرے انڈكوشو کو چہٹا تو میں نے بھی ان کی گاںڈ کے سنہری سوراخ پر اپنی زبان کی نوک لگا دی. گاںڈ کا چھید تو کبھی کھل رہا تھا کبھی بند ہو رہا تھا. وہ تو جیسے مجھے للچا ہی رہا تھا. میں نے تھوک سے اسے تر کر دیا تھا. میں نے اپنی ایک اںگلی اس میں ڈالنے کی کوشش کی پر وہ مجھے تکلیف لگا تو میں نے اپنے انگوٹھے پر تھوک لگا کر گچچ سے آنٹی کی گاںڈ کے چھید میں ڈال دیا.

اوي ماں ... .. کہتے ہوئے آنٹی نے میرے دونوں انڈكوشو کو اپنے مںہ میں بھر لیا. تھے بھی کتنے بڑے جیسے دو لچچيا ہوں. ايلا ... .. اس حتمی لطف کو تو میں مرتے دم تک نہیں بھول پاؤں گا. پھر انہوں نے ان گولیوں کو منہ کے اندر ہی گول گول گھمانا شروع کر دیا. میرے لںڈ کا برا حال تھا. بے چارہ مرغے کی گردن کی طرح آنٹی کے بلی جیسے پنجوں میں دبا تھا. اب آنٹی نے اس کا سپاڑا اپنے ہوںٹھوں میں لیکر زور دیا. ایک بار دانت گڑائے جیسے مجھے اشارہ کر رہی ہو کہ تم بھی ایسا ہی کرو.

میں بھلا کیوں چوكتا. میں نے ان کی دونوں پھاںکوں کو (چھوٹی چھوٹی سونے کی بالیاں سمیت) گپپ سے اپنے منہ میں بھر کر ایک زور کی چسكي لگائی. آنٹی تو ایسے زور لگا رہی تھی جیسے پوری چوت ہی میرے منہ میں گھسا دینا چاہتی ہو. آنٹی کا سارا جسم ہی مہم جوئی سے کانپنے لگا تھا. میں نے ہولے سے جب اپنے دانت ان کی پھاںکوں میں گڑائے تو ان کی ایک كلكاري ہی نکل گئی اور اس کے ساتھ ہی ان کی چوت سے نمکین اور لجلجا سا رس میرے منہ میں بھر گیا. آئس کریم میں ملا ان کا ھٹی، میٹھا اور كسےلا سا كامرس میں تو چاٹتا ہی چلا گیا. آہ .. کیا منشیات بو اور ذائقہ تھا میں تو نہال ہی ہو گیا.

آنٹی نے میرے لںڈ کو مںہ میں بھر لیا اور لولیپوپ کی طرح چوسنے لگی. میں نے اپنی جیبھ سے ان کی چوت کی پھاںکوں کو چوڑا کیا اور ان کی مدنم کو ٹٹولا. جیسے کوئی موٹا سا انار یا کشمش کا پھولا ہوا سا دانا ہو. میں نے اس پر پہلے تو زبان پھراي بعد میں اسے دانتوں سے دبا دیا. آنٹی کی حالت تو پہلے ہی خراب تھی. انہوں نے کہا "اوہ چدو .... جور سے چوسو ... اوہ ... میں تو گئی. اويي ... ماں ...............

اور اس کے ساتھ ہی ان کی چوت پھر گیلی ہو گئی. میری تو جیسے لاٹری ہی لگ گئی. اس امرت کو بھلا میں بیکار کیسے جانے دیتا. میں تو چٹخارے لیتا ہوا اسے چاٹتا ہی چلا گیا. آنٹی دھمم سے ایک طرف لڑھک گئی. ان کی آنکھیں بند تھی اور سانس جور جور سے چل رہی تھی. میں ہکا بکا انہیں دیکھتا ہی رہ گیا. پتہ نہیں یہ کیا ہو گیا.

کوئی 3-4 منٹ کے بعد آنٹی نے آنکھیں کھولی اور مجھے سے لپٹ گئی. میرے ہونٹوں پر تڑاتڑ 4-5 چمبن لے لیے "اوہ میرے چدو! میرے محبت! میرے بادشاہ! تم نے تو کمال ہی کر دیا. آج میں تو ترپت ہی ہو گئی. انه ... پچ ..." ایک اور چما لے کر وہ پھر میرے منہ کے اوپر اپنی چوت لگا کر بیٹھ گئی. انہوں نے اپنی چوت کی دونوں پھاںکوں پر لگی سونے کی بالیاں کو دونوں ہاتھوں سے چوڑا کیا اور اپنی چوت میرے ہونٹوں پر رکھ دی. میں تو اس نئے منفرد تجربے سے جیسے نہال ہی ہو گیا. چوت کے اندر سے آتی پسینے، پیشاب اور جوانی کی خوشبو سے میں تو شرابور ہی ہو گیا. میں نے اپنی جیبھ کو نکیلا کیا اور گچچ سے انکی چوت کے چھید میں ڈال دیا اور اندر باہر کرنے لگا. آنٹی تو سیتکار پر سیتکار ریٹویٹ جا رہی تھی اور اپنے نتمب اچھال اچھال کر زور زور سے بڑبڑا رہی تھی، "ہائی ... جانو ایسے ہی چوسو ... یا .... اوہ .... اور زور سے اور زور سے ..."

کوئی 4-5 منٹ تک میں تو مزے لے لے کر ان کی چوت کو چوستا ہی رہا. بیچ بیچ میں ان کے نتمبوں کو سہلاتا کبھی ان کی گاںڈ کے چھید پر فنگر پھراتا. اب آنٹی کتنا ٹھہرتی. ایک بار پھر ان کو انزال ہوا اور پھر وہ ایک طرف لڑھک گئی.

تھوڑی دیر وہ آنکھیں بند ریٹویٹ لیٹی رہی اور پھر میرے پیرو کے درمیان میں آ گئی. پہلے تو میں کچھ سمجھا نہیں بعد میں مجھے ہوش آیا کہ اب آنٹی نئی ادا سے میرا لںڈ چوسےگي. میں چت لیٹا تھا. آنٹی کے کھلے بال میرے پیٹ اور جاںگھوں پر گدگدی کر رہے تھے. پر آنٹی ان سب باتوں سے بے پرواہ میرے لںڈ کو گپپ سے پورا اندر لے کر چوسنے لگی. میں نے سنا تھا کہ زیادہ تر عورتیں لںڈ کو مکمل اپنے منہ میں نہیں لیتی پر آنٹی تو اسے جڑ تک اندر لے رہی تھی. پتہ نہیں اس نے کہاں سے اس کا عمل کیا تھا. کبھی وو میرے لںڈ کو مکمل باہر نکال دیتی اور اس پر زبان پھراتي کبھی مکمل منہ میں لے لیتی. کبھی وہ سپاڑے کو دانتوں سے دباتي اور پھر اسے چوسنے لگتی. کبھی میرے لںڈ کو اپنے مںہ سے باہر نکال کر میرے انڈكوشو کو اپنے منہ میں لے لیتی اور انہیں چوم لیتی اور پھر دونوں اڈو کو پورا منہ میں لے کر چوسنے لگتی. ساتھ میں میرے لںڈ پر ہاتھ اوپر نیچے پھراتي. میرے لطف کا پاراوار ہی نہیں تھا.

پتہ نہیں اس چوسا چساي میں کتنا وقت گزر گیا. حال میں لگی گھڑی نے جب 11 بار ٹنن ٹنن کیا تب ہمیں غور آیا کہ ہمیں مکمل ایک گھنٹہ ہو گیا ہے. میں بھلا کتنی دیر ٹھہرتا. میں نے آنٹی کو کہا کہ میں اب جانے والا ہوں تو وہ ایک طرف ہٹ گئی. میں نے کچھ سمجھا نہیں. مجھے لگا وہ میرا جوس پو چاہتی. پر میرا اندازہ غلط تھا. وہ جھٹ سے چت لیٹ گئی اؤر میرے لںڈ کو اپنے منہ کی طرف کھینچنے لگی. میں اكڈو ہوکر ان کے منہ کے اوپر آ گیا. میرے نتمب اب ان کی چھاتی پر تھے اور ان نازک اروجوں کو دبا رہے تھے. میں نے آنٹی کے بالوں کو پکڑ لیا اور اور اس کے سر کو دباتے ہوئے اپنا لںڈ اسکے مںہ میں ٹھےلنے کی کوشش کرنے لگا. میرا لںڈ اس کے گلے تک جا پہنچ تھا. آنٹی کو شاید سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی مگر پھر بھی اس نے میرے لںڈ کو اپنے مںہ میں ایڈجسٹ کر کر لیا اور خوب زور زور سے میرے آدھے سے زیادہ لنڈ کو اپنے منہ میں بھر کر میرے انڈكوشو کی گولیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے چوسنے لگی . وہ کبھی انہیں سهلاتي اور کبھی زور سے بھینچ دیتی. میری سیتکار نکلنے لگی تھی. "اوي ... میری جا ... آ ... نہ ... میری چاندني .... يي .... اور زور سے چوسو اور زور سے اوي ... ... یا آ ......" اور اسے ساتھ ہی میرے مٹھو نے بھی پچھلے ایک گھنٹے سے ابلتے لاوے کو آنٹی کے منہ میں ڈالنا شروع کر دیا. آنٹی نے میرے اڈو کو چھوڑ کر میرے نتمب ایسے بھینچ لئے کہ اگر میں ذرا سا بھی ادھر ادھر ہلا تو کہیں ایک دو بوند نیچے نہ گر جائیں. آنٹی تو پوری گرو تھی. پورا کا پورا جوس گٹاگٹ پی گئی.

پھر لائٹ بند کرکے ایک دوسرے کو باہوں میں جکڑ کر ہم دونوں سو گئے. پتہ نہیں چلا کب نیند کے آغوش میں چلے گئے.

7. گدا-میتھن (گاڈباذي)

میں نے اپنے ساتھ پڑھنے والے لڑکوں سے سنا بھی تھا اور مسترام کی کہانیوں میں بھی گاڈباجي کے بارے میں پڑھا تھا. پر مجھے یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ ایسا لفظی میں ہوتا ہو گا. آنٹی نے جب ساتویں سبق کے بارے میں بتایا کہ یہ گدا-میتھن کے بارے میں ہو گا تو مجھے بڑی حیرانی ہوئی لیکن بعد میں تو میں اس خیال سے رومانچت ہی ہو اٹھا کہ مجھے وہ اس کا مزا بھی دیں گی.

آنٹی نے بتایا کہ زیادہ تر عورتیں اس فعل بڑی غیر اخلاقی، كشٹكارك اور گندا سمجھتی ہیں. لیکن اگر صحیح طریقے سے مقعد-میتھن کیا جائے تو یہ بہت انددايك ہوتا ہے. ایک سروے کے مطابق مغربی ممالک میں 70٪ اور ہمارے یہاں 15٪ لوگوں نے کبھی نہ کبھی گدا-میتھن لطف ضرور لیا ہے. مرد اور عورت کے درمیان مقعد-میتھن طرف لطف کی وصولی عام واقعہ ہے. انگلینڈ جیسے کئی ممالک میں تو اسے قانونی منظوری بھی ہے. پر ابھی ہمارے ملک میں اس کے فی نظریہ اتنا کھلا نہیں ہے. لوگ ابھی بھی اسے گندا سمجھتے ہیں. پر آج کل کے نوجوان فحش فلموں میں یہ سب دیکھ کر اس کے تئیں اپنی طرف متوجہ ہو رہے ہیں.

اندام نہانی کے آس پاس بہت سی حساس نسے ہوتی ہے اور کچھ گدا کے اندر بھی ہوتی ہیں. اس لئے گدا-میتھن میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی مزا آتا ہے. اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اتنے لوگ سملگي ہوتے ہیں اور خوشی خوشی گاںڈ مرواتے ہیں. خواتین کو بھی اس میں بڑا مزا آتا ہے. کچھ شوق کے لئے مرواتي ہیں اور کچھ تجربہ کے لئے. آج کل کی جدید عورتیں کچھ نیا کرنا چاہتی ہیں اس لئے ان میں لںڈ چوسنے اور گاںڈ مروانے کی للك کچھ زیادہ ہوتی ہے. اگر وہ بہت جدید اور چلبلي ہے تو یقینا اسے اس میں بڑا مزا آئے گا. ویسے وقت کے ساتھ اندام نہانی میں ڈھيلاپن آ جاتا ہے اور لںڈ کے گھرشن سے زیادہ مزہ نہیں آتا. پر گاںڈ مہارانی کو تو کتنا بھی بجا لیا جائے وہ کافی وقت تک کسی ہوئی رہتی ہے اور اس کی لججت برقرار رہتی ہے کیونکہ اس میں لچک نہیں ہوتا. اس لئے گدا-میتھن میں مزید لطف کا احساس ہوتا ہے.

ایک اور وجہ ہے. ایک ہی طرح کا جنسی کرتے ہوئے شوہر بیوی دونوں ہی اکتا جاتے ہیں اور کوئی نئی فعل کرنا چاہتے ہیں. مقعد-میتھن سے زیادہ حوصلہ افزائی کرنے والی کوئی دوسری فعل ہو ہی نہیں سکتی. پر اسے باقاعدہ طور پر نہ کرکے کسی خاص موقع کے لئے رکھنا چاہئے جیسے کہ ہولی، دیوالی، نوورش، سالگرہ، شادی کی سالگرہ یا وہ دن جب آپ دونوں سب سے پہلے ملے تھے. اپنے شوہر کو محکوم رکھنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے. کئی بار بیویاں اپنے شوہر کو گدا-میتھن کے لئے انکار کر دیتی ہیں تو وہ اسے دوسری جگہ تلاش کرنے لگ جاتا ہے. اپنے شوہر کو بھٹکنے سے بچانے اور اس کا مکمل محبت حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھی گاںڈ مروا لینے میں کوئی برائی نہیں ہوتی.

محبت آشرم والے گرجي کہتے ہیں کہ عورت کو بھگوان نے تین سوراخ دیئے ہیں اور تینوں کا ہی لطف لینا چاہئے. اس زمین پر صرف انسانی ہی ایسا مخلوق ہے جو گدا-میتھن کر سکتا ہے. زندگی میں زیادہ نہیں تو ایک دو بار تو اس کا تجربہ کرنا ہی چاہئے. سکھی دامپتي کی بنیاد ہی جنسی ہوتا ہے پر اپنی محبت کو مستحکم رکھنے کے لئے گدا-میتھن بھی کبھی کبھار کر لینا چاہئے. اس سے مرد کو لگتا ہے کہ اس نے اپنی پريتما کو مکمل طور پر پا لیا ہے اور عورت کو لگتا ہے کہ اس نے اپنے محبوب کو مکمل اعتراف کر دیا ہے.

خیر میں نے 4 دنوں کے خشک سالی کے بعد آج رات کو ٹھیک 9.00 بجے آنٹی کے گھر پہنچ گیا. مجھے اس دن والی بات یاد تھی اس لئے آج میں نے صبح ایک مار مٹھ مار لی تھی. میں نے پتلون اور شرٹ ڈال رکھی تھی پر اندر چڈی جان کر ہی نہیں پہنی تھی. آنٹی نے پتلا پجاما اور ٹاپ پہن رکھا تھا. اس کے نتمبوں پر کسا پجاما اس کی چوت اور نتمبوں کو جغرافیہ صاف نظر آ رہا تھا لگتا تھا اس نے بھی برا اور پیںٹی نہیں پہنی ہے.

میں نے دوڑ کر اسے باہوں میں بھر لیا اور اسے چومنے لگا تو آنٹی بولی، "اوہ ... چدو پھر جلدی؟"

"میری چاندنی میں نے یہ 4 دن کیسے بتايے ہیں میں ہی جانتا ہوں!" میں نے اس کے نتمبوں پر اپنے ہاتھ سہلاتے ہوئے زور سے دبا دیا.

"اوههو؟" اس نے میری ناک پکڑتے ہوئے کہا.

ایک دوسرے کی باہوں میں جکڑے ہم دونوں بیڈروم میں آ گئے. پلنگ پر آج سفید چادر بچھی تھی. سائیڈ ٹیبل پر وےسلين، بوروپلس کریم، ناریل اور سرسوں کے تیل کی 2-3 شيشيا، ایک كوهےنور نرودھ (کنڈوم) کا پیکٹ، دھلے ہوئے 3-4 رومال اور بادام-كےشر ملا گرم دودھ کا تھرموس رکھا تھا. مجھے اس بات کی بڑی حیرانی تھی کہ ایک ربڑ کی لںڈ جیسی چیز بھی ٹیبل پر پڑی ہے. پتہ نہیں آنٹی نے اسے کیوں رکھا تھا. اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتا، آنٹی بولی، "جی ہاں تو آج کا سبق شروع. آج کا سبق ہے گدھاپچيسي اسے بیک ڈور انٹری بھی کہتے ہیں اور جنت کا دوسرا دروازہ بھی. تمہیں حیرانی ہو رہی ہوگی نا؟"

میں جانتا تو تھا پر میں نے نہ تو ہاں کہا اور نہ ہی نا کہا. بس اسے دیکھتا ہی رہ گیا. میں تو بس کسی طرح یہ چاہ رہا تھا کہ آنٹی کو الٹا کر کے صرف اپنے لںڈ کو ان کی کسی ہوئی گلابی گاںڈ میں ڈال دوں.

"دیکھو چدو عمومی لڑکیاں پہلی بار گاںڈ مروانے سے بہت ڈرتی اور بدكتي ہیں. پتہ نہیں کیوں؟ پر یہ تو بڑا ہی فائدہ مند ہوتا ہے. اس میں نہ تو کوئی حاملہ کا خطرہ ہوتا ہے اور نہ ہی شادی سے پہلے اپنے كوماري کو کھونے کا ڈر. شادی شدہ عورتوں کے لئے خاندانی منصوبہ بندی کا بہترین طریقہ ہے. کنواری لڑکیوں کے لئے یہ حمل سے بچنے کا ایک قابل اعتماد اور لطف دايك طریقہ ہے. حیض کے دوران اپنے پریمی کو مطمئن کرنے کا اس سے بہتر طریقہ تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا . سوچو اپنے پریمی کو کتنا اچھا لگتا ہے جب وہ پہلی بار اپنی گرل فرینڈ کی انچدي اور کوری گاںڈ میں اپنا لںڈ رکھتا ہے. "

میرا پیارے لال تو یہ سنتے ہی 120 ڈگری پر کھڑا ہو گیا تھا اور پتلون میں ادھم مچانے لگا تھا. میں پلنگ کی ٹیک لگا کر بیٹھا تھا اور آنٹی میری گود میں لیٹی سی تھی. میں نے ایک ہاتھ سے اس کے اروجوں کو سہلا رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی چوت کے اوپر ہاتھ پھرا رہا تھا تاكي وہ جلدی سے گرم ہو جائے اور میں جنت کے اس دوسرے دروازے کا مزا لوٹ سکوں.

آنٹی نے کہنا جاری رکھا، "کہنے میں بہت آسان لگتا ہے پر اصل میں گاںڈ مارنا اور مروانا اتنا آسان نہیں ہوتا. کئی بار بلیو فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ 8-9 انچ لمبا اور 2-3 انچ موٹا لںڈ ایک ہی جھٹکے میں لڑکی کی گاںڈ میں داخل کر جاتا ہے اور دونوں کو ہی بہت مزا لیتے دکھائی یا جاتا ہے. پر اصل میں ان کے پیچھے کیمرے کی ٹیکنالوجی اور پھلماكن ہوتا ہے. اصل زندگی میں گاںڈ مارنا اتنا آسان نہیں ہوتا اس کے لئے پوری تیاری کرنی پڑتی ہے اور بہت سی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے. "

مجھے بڑی حیرانی ہو رہی تھی بھلا گاںڈ مارنے میں کیا دھیان رکھنا ہے. گھوڑی بناؤ اور پیچھے سے ٹھوک دو؟ پر میں نے پوچھا "کن باتوں کا؟"

"سب سے ضروری بات ہوتی ہے لڑکی کو اس کے لئے راضی کرنا؟"

"اوہ ..."

"ہاں سب سے مشکل کام یہی ہوتا ہے.

"ہاں سب سے مشکل کام یہی ہوتا ہے. اس لیے سب سے پہلے اسے اس کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا ضروری ہوتا ہے. بھگوان یا قدرت نے گاںڈ کو سمبھوگ کے لئے نہیں پیدا کیا ہے. اس کی بناوٹ چوت سے الگ ہوتی ہے. اس میں آدمی کا لںڈ اس کی مرضی کے بغیر داخل نہیں کر سکتا. اس کے اندر بنی عضلات اور چھلا وہ اپنی مرضی سے ڈھیلا اور کس سکتی ہیں. زیادہ تر لڑکیاں اور عورتیں اسے گندا اور كشٹكارك سمجھتی ہیں. اس لئے انہیں یقین دلانا ضروری ہوتا ہے کہ محبت میں کچھ بھی گندا اور برا نہیں ہوتا. اس کا موڈ بنانے کے لئے کوئی بلیو فلم بھی دیکھی جا سکتی ہے. اسے گدا-میتھن کو لے کر اپنی فنتاسیوں کے بارے میں بھی بتا. اس سے کہو کہ اس کے سارے اعضاء بہت خوبصورت ہیں اور نتمب تو بس قیامت ہی ہیں. اس کی مٹكتي گاںڈ کے تو تم دیوانہ ہی ہو. اگر ایک بار وہ اس کا مزا لے لینے دے گی تو تم زندگی بھر اس کے غلام بن جاؤ گے. اسے بھی گاںڈ مروانے میں بڑا مزہ آئے گا اور یہ درد، سنسنی خیز، متحرک اور تصور سے کامل شدت کا احساس دے گا. اور اگر ذرا بھی تکلیف ہوئی اور اچھا نہیں لگا تو تم اس سے آگے کچھ نہیں کروگے.

ایک بات خاص طور پر یاد رکھنی چاہئے کہ اس کے لئے کبھی بھی زور زبردستی نہیں کرنی چايے. کم سے کم اپنی نو وواهتا بیوی سے تو کبھی نہیں. کم سے کم ایک سال بعد ہی اس کے لئے کہنا چاہیئے. "

"ہوں ...."

"اس کے ذہنی طور پر تیار ہونے کے بعد بھی کوئی جلد بازی نہیں. اسے جسمانی طور پر بھی تو تیار کرنا ہوتا ہے نا. اچھا تو یہ رہتا ہے کہ اسے اتنا پیار کرو کہ وہ خود ہی تمہارا لںڈ پکڑ کر اپنی گاںڈ میں ڈالنے کو آتر ہو جائے. گدا-میتھن سے سابق ایک بار یون سمبھوگ کر لیا جائے اچھا رہتا ہے. اس سے وہ مکمل طور پر اتیجیت ہو جاتی ہے. زیادہ تر خواتین تب اتیجنا محسوس کرتی ہیں جب مرد کا جنس ان کی اندام نہانی میں رگڑ کر رہا ہوتا ہے. اس دوران اگر اسکی گاںڈ کے چھید کو پیار سے سہلایا جائے تو اسکی گاںڈ کی نسے بھی ڈھیلی ہونے لگیں گی اور چھلا بھی کھلنے بند ہونے لگے گا. ساتھ ساتھ اس کے دوسرے کام حصوں پر سہلاؤ، چومو اور چاٹو! "

"اور جب لڑکی اس کے لئے تیار ہو جائے تو سب سے پہلے اپنے سارے اعضاء کی ٹھیک سے صفائی کر لینی چاہئے. مرد کو اپنا لںڈ صابن اور ڈٹول سے دھو لینا چاهے اور تھوڑی سی خوشبودار کریم لگا لینی چاہیے. منہ اور دانتوں کی صفائی بھی ضروری ہے. ناخن اور جنن اعضاء کے بال کٹے ہوں. لڑکیوں کو بھی اپنی یون، گدا نتمب، اروجوں اور اپنے منہ کو صاف کر لینا چاہئے. گدا کی صفائی خاص طور پر کرنی چاہئے کیوں کہ اس کے اندر بہت سے بےكٹيريا ہوتے ہیں جو کئی بیماریاں پھیلا سکتے ہیں. روزانہ فعل سے نپٹ کر ایک اںگلی میں سرسوں کا تیل لگا کر اندر ڈال کر صاف کر لینی چاہئے. گدا-میتھن رات کو ہی کرنا چاہئے. اور جس رات گدا-میتھن کرنا ہو دن میں 3-4 بار مقعد کے اندر کوئی اےٹيسےپھٹك کریم لگا لینی چاہیے. کوئی خوشبودار تیل یا کریم اپنے گپتاگو اور جسم پر لگا لینی چاہیے. پاس میں خوشبودار تیل، کریم، چھوٹے تولیے اور مصنوعی جنس (ربڑ) رکھ لینا چاہئے. "

"اوہ ..." میرے منہ سے تو بس اتنا ہی نکلا.

"چلو اب شروع کریں؟"

"اوہ ... جی ہاں ..."

میں نے نیچے ہو کر اس کے ہونٹ چوم لیے. اس نے بھی مجھے باہوں میں کس کر پکڑ لیا. اور بستر پر لڑھک گئے. آنٹی چت لیٹ گئی. میرا ایک پاؤں اسکی جاںگھوں کے بیچ تھا تقریبا نصف جسم اس کے اوپر تھا. اس کی باہوں کے گھیرے نے مجھے جکڑ رکھا تھا. میں نے اس کے گالوں پر ہونٹوں پر گلے اور پیشانی پر چمبنو کی جھڑی لگا دی. ساتھ ساتھ کبھی اس کے اروج مسلتا کبھی اپنا ہاتھ پجامے کے اوپر سے ہی اسکی منیا کو سہلا اؤر دبا دیتا. اسکی منیا تو پہلے ہی گیلی ہو رہی تھی.

اب ہم نے اپنے کپڑے اتار دئے اور پھر ایک دوسرے کو باہوں میں بھر لیا. میں اسکے اوپر لیٹا تھا. پہلے میں نے اس کے اروجوں کو چوسا اور پھر اس کے پیٹ ناف، پیڈو کو چومتے چاٹتے ہوئے نیچے تک آ گیا. ایک میٹھی اور منشیات خوشبو میرے نتھنو میں بھر گئی. میں نے گپپ سے اسکی منیا کو مںہ میں بھر لیا. آنٹی نے اپنے پیر چوڑے کر دیا. موٹی موٹی پھاكے تو آج پھول کر گلابی سی ہو رہی تھی. مدنم تو كسمس کے پھولے دانے جیسی ہو رہی تھی. میں اپنی جیبھ سے اسے چبھلانے لگا. اس کی تو سیتکار ہی نکل گئی. کبھی اس کی تیتلی جیسی پتلی پتلی داخلی پھاكے چوستا کبھی اس دانے کو دانتوں سے دباتا. ساتھ ساتھ اس کے اروجوں کو بھی دبا اور سہلا دیتا.

آنٹی نے اپنے گھٹنے موڑ کر اوپر اٹھا لئے. میں نے ایک تکیا اس کے نتمبوں کے نیچے لگا دیا. آنٹی نے اپنی جاںگھیں تھوڑی سی چوڑی کر دی. اب تو اس کی چوت اور گانڈ دونوں کے سوراخ میری آنکھوں کے سامنے تھے. گاںڈ کا بادامی رنگ کا چھوٹا سا سوراخ تو کبھی کھلتا کبھی بند ہوتا ایسے لگ رہا تھا جیسے ممبئی کی میرین ڈرائیو پر کوئی نيون سائن رات کی روشنی میں چمک رہا ہو. میں نے ایک چمبن اس پر لے لیا اور جیسے ہی اس پر اپنی زبان پھراي تو آنٹی کی تو كلكاري ہی نکل گئی. اس کی چوت تو پہلے ہی گیلی ہوئی تھی. پھر میں نے سٹول پر پڑی وےسلين کی ڈببي اٹھائی اور اپنی انگلی پر کریم لگائی اور اںگلی کے پور پر تھوڑی سی کریم لگا کر اس کے کھلتے بند ہوتے گاںڈ کے چھید پر لگا دی. دو تین بار ہلکا سا دباؤ بنایا تو مجھے لگا آنٹی نے باہر کی طرف زور لگایا ہے. اسکی گاںڈ کا چھید تو ایسے کھلنے لگا جیسے کوئی کمسن کچی كل کھل رہی ہو. میرا ایک فی اسکی گاںڈ کے چھید میں چلا گیا. آہ ... کتنا کساو تھا. اتنا کساو محسوس کر کے میں تو مہم جوئی سے بھر اٹھا. بعد میں مجھے لگا کہ جب فنگر میں ہی اتنا کساو محسوس ہو رہا ہے تو پھر بھلا میرا اتنا موٹا لںڈ اس چھوٹے سے سوراخ میں کیسے جا پائے گا؟

میں نے آنٹی سے پوچھا "چاندنی، ایک بات پوچھو؟"

"آہ ... ہوں.؟"

"کیا تم نے پہلے بھی کبھی گاںڈ مرواي ہے؟"

"تم کیوں پوچھ رہے ہو؟"

"ویسے ہی؟"

"میں جانتی ہوں تم شاید یہ سوچ رہے ہو کہ اتنا موٹا لںڈ اس چھوٹے سے سوراخ میں کیسے جائے گا؟"

"ہوں ...؟"

"تم گاںڈ رانی کی عما نہیں جانتے، حالانکہ اس میں چوت کی طرح کوئی چکنائی نہیں ہوتی پر اگر اسے ڈھیلا چھوڑ دیا جائے اور اندر ٹھیک سے کریم لگا کر تر کر لیا جائے تو اسے موٹا لںڈ اندر لینے میں بھی کوئی دقت نہیں ہوگی. پر تم جلد بازی کروگے تو سب گڑ گوبر ہو جائے گا! "

"کیا مطلب؟"
میرے شوہر نے ایک دو بار میری گاںڈ مارنے کی کوشش کی تھی پر وہ اناڑی تھا. نہ تو مجھے تیار کیا اور نہ اپنے آپ کو. جیسے ہی اس نے اپنا لںڈ میرے نتمبوں کے درمیان ڈالا انتہائی اشتعال میں اس کی پچکاری پھوٹ گئی اور وہ کچھ نہیں کر پایا؟ پر تم فکر مت کرو میں جیسے سمجھاؤں ویسے کرتے جاؤ. سب سے پہلے اسے کریم لگا کر پہلے رواں کرو "
"اوکے ..."

اب میں نے بوروپلس کی ٹیوب کا ڈھکن کھول کر اس کی نوک کو گاںڈ کے چھید پر لگا دیا. ٹیوب کا منہ تھوڑا سا گاںڈ کے چھید میں چلا گیا. اب میں نے اسے زور سے پچكا دیا. تقریبا ٹیوب کی آدھی کریم اسکی گاںڈ کے اندر چلی گئی. آنٹی تھوڑا سا كسمساي. لگتا تھا اسے گدگدی اور تھوڑی سی ٹھنڈی محسوس ہوئی ہوگی. میں نے اپنی انگلی آہستہ آہستہ اندر کھسکا دی. اب تو میری انگلی پوری کی پوری اندر باہر ہونے لگی. آہ ... میری انگلی کے ساتھ اس کا چھلا بھی اندر باہر ہونے لگا. اب مجھے لگنے لگا تھا کی سوراخ کچھ نرم پڑ گیا ہے اور چھلا بھی ڈھیلا ہو گیا ہے. میں نے پھر سے اس کی چوت کو چوسنا چالو کر دیا. آنٹی کے کہے مطابق میں نے یہ توجہ ضرور رکھا تھا کہ گاںڈ والی انگلی غلطی سے اس کی چوت کے چھید میں نہ ڈالو.

آنٹی کی میٹھی سیتکار نکلنے لگی تھی. آنٹی نے اب کہا "اس کے پیارے لال کو بھی اٹھاو نا؟"

"ہاں وہ تو کب کا تیار ہے جی!" میں نے اپنے لںڈ کو ہاتھ میں لے کر ہلا دیا.

"ارے بددھو میں ٹیبل پر پڑے پیارے لال کی بات کر رہی ہوں!"

"اوہ ..."

اب مجھے اس کے پیارے لال کی افادیت سمجھ آئی تھی. میں نے اسے جلدی سے اٹھایا اور اس پر وےسلين اور کریم لگا کر دھیرے سے اسکے چھید پر لگایا. آہستہ آہستہ اسے اندر سركايا. آنٹی نے بتایا تھا کہ دھکا نہیں لگانا بس تھوڑا سا دباؤ بنانا ہے. تھوڑی دیر بعد وہ اپنے آپ اندر سرکنا شروع ہو جائے گا.

آہستہ آہستہ اس کی گاںڈ کا چھید چوڑا ہونے لگا اور پیارے لال جی اندر جانے لگے. گاںڈ کا چھید تو کھلتا ہی چلا گیا اور پیارے لال 3 انچ تک اندر چلا گیا. آنٹی نے بتایا تھا کہ اگر ایک بار سپاڑا اندر چلا گیا تو بس پھر سمجھو قلعہ فتح ہو گیا ہے. میں 2-3 منٹ رک گیا. آنٹی آنکھیں بند کئے بغیر کوئی حرکت ریٹویٹ چپ لیٹی رہی. اب میں نے آہستہ سے پیارے لال کو پہلے تو تھوڑا سا باہر نکلا اور پھر اندر کر دیا. اب تو وہ آرام سے اندر باہر ہونے لگا تھا. میں نے اسے تھوڑا سا اور اندر ڈالا. اس بار وہ 5-6 انچ اندر چلا گیا. میرا لںڈ بھی تو تقریبا اتنا ہی بڑا تھا. اب تو پیارے لال جی مہاراج آرام سے اندر باہر ہونے لگے تھے.

3-4 منٹ ایسا کرنے کے بعد مجھے لگا کہ اب تو اس کا چھید بالکل رواں ہو گیا ہے. میرا لںڈ تو پری کم چھوڑ چھوڑ کر پاگل ہی ہو رہا تھا. وو تو جھٹکے پر جھٹکے مار رہا تھا. میں نے ایک بار پھر سے اسکی منیا کو چوم لیا. تھوڑی دیر اسکی منیا اور مدنم ہو چوسا اور زور دیا. اسکی منیا تو كامرس سے بھرا بھری تھی جیسے. آنٹی نے اپنے پاؤں اب نیچے کر کے پھیلا دیے اور مجھے اوپر کھینچ لیا. میں نے اس کے ہونٹوں کو چوم لیا.

"اوہ ... میرے چدو ... آج تو تم نے مجھے مست ہی کر دیا!" آنٹی اٹھ کھڑی ہوئی. "کیا اب تم اس لطف کو جھیلنے کے لئے تیار ہو؟"

"میں تو کب سے انتظار کر رہا ہوں؟"

"اوههو ... کیا بات ہے؟ هايي ... میں مر جاواں بسکٹ کھا کے؟" آنٹی کبھی کبھی پنجابی بھی بول لیتی تھی.

"دیکھو چدو عام سمبھوگ تو کسی بھی پوزیشن میں کیا جا سکتا ہے پر مقعد-میتھن 3-4 اسنو میں ہی کیا جاتا ہے. میں تمہیں سمجھاتي ہوں. ویسے تمہیں کون سا آسن پسند ہے؟"

"وہ ... وہ ... مجھے تو ڈوگی والا یا گھوڑی والا ہی پتہ ہے یا پھر پیٹ کے بل لیٹا کر ...؟"

"ارے نہیں ... چلو میں سمجھاتي ہوں!" بتانا شروع کیا.

پہلی بار میں نے کبھی بھی گھوڑی یا ڈوگی والی کرنسی میں گدا-میتھن نہیں کرنا چاہئے. پہلی بار صحیح آسن کا الیکشن بہت معنی رکھتا ہے. تھوڑی سی اساودھاني یا غلطی سے سارا مزا کرکرا ہو سکتا ہے اور دونوں کو ہی مزے کے مقام پر تکلیفیں ہوتا ہے.

دیکھو سب سے بہترین تو ایک آسن تو ہے جس میں لڑکی پیٹ کے بل لیٹ جاتی ہے اور پیٹ کے نیچے دو تکیے لگا کر اپنے نتمب اوپر اٹھا دیتی ہے. مرد اسکی جاںگھوں کے درمیان ایک تکیے پر اپنے نتمب رکھ کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنا جنس اس کی مقعد میں رکھتا ہے. اس میں لڑکی اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے نتمب چوڑے کر لیتی ہے جس سے اس کے مرد ساتھی کو مدد مل جاتی ہے اور وہ ایک ہاتھ سے اس کی کمر یا نتمب پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے اپنا جنس اس کی مقعد میں آرام سے ڈال سکتا ہے. لڑکی پر اس کا بوجھ بھی نہیں پڑتا.

ایک اور آسن ہے جس لڑکی پیٹ کے بل ادھلےٹي سی رہتی ہے. ایک گھٹنے اور ران موڑ کر اوپر کر لیتی ہے. مرد اس کی ایک ران پر بیٹھ کر اپنا جنس اس کی مقعد میں ڈال سکتا ہے. اس آسن کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس میں دونوں ہی جلدی نہیں تھکتے اور دھکے لگانے میں بھی آسانی ہوتی ہے. جب جنس گدا ساتھ ساتھ ایڈجسٹ ہو جائے تو اپنی مرضی سے جنس کو اندر باہر کیا جا سکتا ہے. گاںڈ کے اندر داخل کرتے لںڈ کو دیکھنا اور اس حلقے کا لال اور گلابی رنگ دیکھ کر تو آدمی مست ہی ہو جاتا ہے. وہ اس کے چھاتی بھی دبا سکتا ہے اور نتمبوں پر ہاتھ بھی پھرا سکتا ہے. سب سے بڑی بات ہے اس کی چوت میں بھی ساتھ ساتھ فنگر جا سکتی ہے. اس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ دھکا مارتے یا دباؤ بناتے وقت لڑکی آگے نہیں سرک سکتی اس لئے لںڈ ڈالنے میں آسانی ہوتی ہے.

ایک اور آسن ہے جسے عام طور پر تمام لڑکیاں پسند کرتی ہے. وہ ہے مرد ساتھی نیچے پیٹھ کے بل لیٹ جاتا ہے اور لڑکی اپنے دونوں پیر اس کے کولہوں کے دونوں جانب کرکے اكڈو بیٹھ جاتی ہے. اس کا جنس پکڑ کر اپنی گدا بجتی پر لگا کر دھیرے دھیرے نیچے ہوتی ہے. لڑکی اپنا منہ پیروں کی طرف بھی کر سکتی ہے. اس آسن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ساری کمانڈ لڑکی کے ہاتھ میں ہوتی ہے. وہ جب چاہے جتنا چاہے اندر لے سکتی ہے. کچھ خواتین کو یہ آسن بہت پسند آتا ہے. یہ آسن مردوں کو بھی اچھا لگتا ہے کیونکہ اس دوران وہ اپنے جنس کو گدا کے اندر جاتے دیکھ سکتے ہیں. پر کچھ خواتین شرم کے مارے اسے نہیں کرنا چاہتی.

اس کے علاوہ اور بھی آسن ہیں جیسے گود میں بیٹھ کر یا سوفی یا پلنگ پر پیر نیچے لٹکا کر لڑکی کو اپنی گود میں بیٹھا کر مقعد-میتھن کیا جا سکتا ہے. پسند اور سہولت کے حساب سے کسی بھی آسن کا استعمال کیا جا سکتا ہے.

"اوہ ... تو ہم کون سا آسن کریں گے؟"

"میں تمہیں تمام اسنو کی ٹریننگ دوںگی پر فی الحال تو کروٹ والا ہی ٹھیک رہے گا"

"ٹھیک ہے." میں نے کہا.

مجھے اب یاد آیا میرا پیارے لال تو سست پڑ رہا ہے. اوہ ... بڑی مشکل تھی. آنٹی کی تقریر کے چکر میں تو ساری گڑبڑ ہی ہو گئی. آنٹی دھیمے دھیمے مسکرا رہی تھی. اس نے کہا، "میں جانتی ہوں سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے. پر تم فکر کیوں کرتے ہو؟ میرے پاس اس کا علاج ہے."

اب وو تھوڑی سی اٹھی اور میرے الساے سے لںڈ کو ہاتھ میں پکڑ لیا وہ بولیں، "اسے ٹھیک سے صاف کیا ہے نا؟"

"جی ہاں"

اب اس نے میرا لںڈ گپپ سے اپنے منہ میں بھر لیا اور چوسنے لگی. منہ کی گرمی اور لججت سے وہ پھر سے اکڑنے لگا. کوئی 2-3 منٹ میں ہی وو تو پھر سے لوہے کی روڈ ہی بن گیا تھا.

اس نے پاس رکھے تولیے سے اسے پوچھا اور پھر پاس رکھے نرودھ کی طرف اشارہ کیا. مجھے حیرانی ہو رہی تھی. آنٹی نے بتایا کہ مقعد-میتھن کرتے وقت ہمیشہ نرودھ (کنڈوم) کا استعمال کرنا چاہیے. اس سے انفیکشن نہیں ہوتا اور ایڈز جیسی بیماریوں سے بھی بچا جا سکتا ہے.

اب میں نے اپنے لںڈ پر نرودھ چڑھا لیا اور اس پر ناریل کا تیل لگا لیا. آنٹی کروٹ کے بل ہو گئی اور اپنا بائیں گھٹنے موڑ کر نیچے ایک تکیا رکھ لیا. اب اس کے موٹے موٹے گداج نتمبوں کے درمیان اسکی گاںڈ اؤر چوت دونوں میری آنکھیں کے سامنے تھی. میں نے اپنا سر نیچے جھکا کر ایک گہرا چمبن پہلے تو چوت پر لیا اور پھر اسکی گاںڈ کے چھید پر. اب میں نے پھر سے بوروپلس کے کریم کی ٹیوب میں باقی بچی کریم اسکی گاںڈ میں ڈال دی. آنٹی نے اپنے بائیں ہاتھ سے اپنے ایک نتمب کو پکڑ کر اوپر کی اور کر لیا. اب تو گاںڈ کا چھید پورا کا پورا نظر آنے لگا. اس حلقے کا رنگ سرخ سرخ سا ہو گیا تھا. اب ایک بار پیارے لال کی مدد کی ضرورت تھی. میں نے اس پر بھی ناریل کا تیل لگایا اور پھر سے اسکی گاںڈ میں ڈال کر 5-6 بار اندر باہر کیا. اس بار تو آنٹی کو ذرا بھی درد نہیں ہوا. وہ تو بس اپنے اروجوں کو مسل رہی تھی. میں اسکی دائیں جاںگھ پر بیٹھ گیا اور اپنے لںڈ کے آگے تھوڑی سی کریم لگا کر اسے آنٹی کی گاںڈ کے چھید پر ٹکا دیا.

میرا دل محرک اور مہم جوئی کے مارے دھڑک رہا تھا. لںڈ شیف تو جھٹکے ہی کھانے لگے تھے. اسے تو جیسے صبر ہی نہیں ہو رہا تھا. میں نے اپنے لںڈ کو اسکے چھید پر 4-5 بار گھسا اؤر رگڑا، پھر اس کی کمر پکڑی اور اپنے لںڈ پر دباؤ بنایا. آنٹی تھوڑا سا آگے ہونے کی کوشش کرنے لگی پر میں اس کی جاںگھ پر بیٹھا تھا اس لیے وہ آگے نہیں سرک سکتی تھی. میں نے دباؤ بنایا تو میرا لںڈ تھوڑا سا جھکنا کی طرح مڑنے لگا. مجھے لگا یہ اندر نہیں جا پائے گا ضرور پھسل جائے گا. اتنے میں مجھے لگا آنٹی نے باہر کی طرف زور لگایا ہے. پھر تو جیسے کمال ہی ہو گیا. مکمل سپاڑا اندر ہو گیا. میں رک گیا. آنٹی کا جسم تھوڑا سا اکڑ گیا. شاید اسے درد محسوس ہو رہا تھا. میں نے اس کے نتمب سہلانے شروع کر دئے. پیار سے انہیں تھپتھپانے لگا. گاںڈ کا چھلا تو اتنا بڑا ہو گیا تھا جیسے کسی چھوٹی بچی کی کلائی میں پہنی ہوئی کوئی سرخ رنگ کی چوڑی ہو. اس کی چوت بھی کام رس سے گیلی تھی. میں نے اپنے بائیں ہاتھ کی اگليو سے اس کی پھاںکوں کو سہلانا شروع کر دیا.

2-3 منٹ ایسے ہی رہنے کے بعد میں نے تھوڑا سا دباؤ اور بنایا تو لںڈ دھیرے دھیرے آگے سركانا شروع ہو گیا. اب تو قلعہ فتح ہو ہی چکا تھا اور اب تو بس لطف ہی لطف تھا. میںنے اپنا لںڈ تھوڑا سا باہر نکالا اور پھر اندر سرکا دیا. آنٹی تو بس كسمساتي سی رہ گئی. میرے لئے تو یہ کسی جنت کے لطف سے کم نہیں تھا. ایک نتات کوری اور کسی ہوئی گاںڈ میں میرا لںڈ پورا کا پورا اندر گھسا ہوا تھا. میں نے ایک تھپكي اس نتمبوں پر لگائیں تو آنٹی کی ایک میٹھی سیتکار نکل گئی.

"چدو اب دھیرے دھیرے اندر باہر کرو!" آنٹی نے آنکھیں بند کئے ہوئے ہی کہا. اب تک لںڈ اچھی طرح گاںڈ کے اندر ایڈجسٹ ہو چکا تھا. بے روک ٹوک اندر باہر ہونے لگا تھا. بجتی کا کساو تو ایسا تھا جیسے کسی نے میرا لںڈ پتلی سی نلی میں پھنسا دیا ہو.

"چاندنی تمہیں درد تو نہیں ہو رہا؟"

"ارے باولے، تمہارے محبت کے آگے یہ درد بھلا کیا معنی رکھتا ہے. میری طرف سے یہ تو نذرانا ہی تمہیں تم بتاو تمہیں کیسا لگ رہا ہے؟"

"میں تو اس وقت جنت میں ہی ہوں جیسے تم نے مجھے انمول ملاقات دی ہے. بہت مزا آ رہا ہے." اور میں نے زور سے ایک دھکا لگا دیا.

"اويي ... ماا ... تھوڑا آہستہ ..."

"چاندنی میں نے کہانیوں میں پڑھا ہے کہ بہت عورتیں گاںڈ مرواتے وقت کہتی ہیں کہ اور تیزی سے کرو ... پھاڑ دو میری گاںڈ ... آہ ... بڑا مزا آ رہا ہے؟"

"سب بکواس ہے ... عام اور پر عورتیں کبھی بھی سختی اور بے حیائی پسند نہیں

"سب بکواس ہے ... عام اور پر عورتیں کبھی بھی سختی اور بے حیائی پسند نہیں کرتی. وہ تو یہی چاہتی ہیں کہ ان کا عاشق انہیں مردتا اور مہذب طریقے سے رابطے کرے اور جسمانی تعلق بنائے. یہ تو ان بے وقوف مصنفین کی نري تصور محض ہوتی ہے جنہوں نے نہ تو کبھی گاںڈ ماری ہوتی ہے اور نہ ہی مرواي ہوتی ہے. اصل میں ایسا کچھ نہیں ہوتا. جب سپاڑا اندر جاتا ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے سینکڑوں چینٹی نے ایک ساتھ کاٹ لیا ہو. اس کے بعد تو بس بجتی کا کساو اور تھوڑا سا میٹھا درد ہی محسوس ہوتا ہے. اپنے پریمی کی اطمینان کے آگے کئی بار گرل فرینڈ بس آنکھیں بند ریٹویٹ اپنے درد کو کم کرنے کے لئے میٹھی سیتکار کرنے لگتی ہے. اسے اس بات کا فخر ہوتا ہے کہ وہ اپنے پریمی کو جنت کا لطف دے رہی ہے اور اسے تسکین کر رہی ہے! "

آنٹی کی اس صاف گو پر میں تو فدا ہی ہو گیا. میں تو اسے چوم ہی لینا چاہتا تھا پر اس پوزیشن میں چوما چاٹی تو ممکن نہیں تھی. میں نے اس کی چوت کی پھاںکوں اور دانے کو جور جور سے مسلنا شروع کر دیا. آنٹی کی چوت اؤر گاںڈ دونوں سكوچن کرنے لگی تھی. مجھے لگا کہ اس نے میرا لںڈ اندر سے بھیںچ لیا ہے. آہ ... یہ لطف کو الفاظ میں تو بیان کیا ہی نہیں جا سکتا.

لںڈ اندر ڈالے مجھے کوئی 10-12 منٹ تو ضرور ہو گئے تھے. عام طور پر اتنی دیر میں انزال ہو جاتا ہے پر میں نے آج دن میں مٹھ مار لی تھی اس لیے میں ابھی نہیں جھڑا تھا. لںڈ اب آرام سے اندر باہر ہونے لگا تھا.

آنٹی بھی آرام سے تھی. وو بولی، "میں اپنا پاؤں سیدھا کر رہی ہوں تم میرے اوپر ہو جانا پر توجہ رکھنا کہ تمہارا پیارے لال باہر نہیں نکلے. ایک بار اگر یہ باہر نکل گیا تو دوبارہ اندر ڈالنے میں دقت آئے گی اور ہو سکتا ہے دوسرے پرياش میں اندر ڈالنے سے پہلے ہی جھڑ جائیں؟ "

"اوکے ..."

اب آنٹی نے اپنا پاؤں نیچے کر لیا اور اپنے نتمب اوپر اٹھا دیے. تکیا اس کے پیٹ کے نیچے آ گیا تھا. میں ٹھیک اس کے اوپر آ گیا اور میں نے اپنے ہاتھ نیچے کر کے اس کے اروج پکڑ لئے. اس نے اپنی مںڈی موڑ کر میری طرف گھما دی تو میں نے اسے کس کر چوم لیا. میں نے اپنی رانیں اس چوڑے نتمبوں کے دونوں جانب کس لیں. جیسے ہی آنٹی اپنے نتمبوں کو تھوڑا سا اوپر اٹھایا تو میں ایک دھکا لگا دیا.

آنٹی کی میٹھی سیتکار سن کر مجھے لگ رہا تھا کہ اب اسے مزہ بھلے نہیں آ رہا ہو پر درد تو بالکل نہیں ہو رہا ہو گا. مجھے لگا جیسے میرا لںڈ اور بھی زور سے آنٹی کی گاںڈ نے کس لیا ہے. میں تو چاہتا تھا کہ اسی طرح میں اپنا لںڈ ساری رات اسکی گاںڈ میں ڈالے بس اس گداج بدن پر لیٹا ہی رہوں. پر آخر جسم کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں. مجھے لگ رہا تھا کہ میرا لںڈ تھوڑا سا پھولنے اور پچكنے لگا ہے اور کسی بھی وقت پچکاری نکل سکتی ہے. آنٹی نے اپنے نتمب اوپر اٹھا دیے. میں نے ایک ہاتھ سے اس کی چوت کو ٹٹولا اور اپنے بائیں ہاتھ کی اںگلی چوت میں اتار دی. آنٹی کی تو مہم جوئی اور اتیجنا میں چیںکھ ہی نکل گئی. اور اس کے ساتھ ہی میری بھی پچکاری نکلنے لگی.

"آہ ... يااا ... ..." ہم دونوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا. دو جسم اےكاكار ہو گئے. اس لطف کے آگے دوسرا کوئی سکھ یا مزا تو كلپناتيت ہی ہو سکتا ہے. پتہ نہیں کتنی دیر ہم اسی طرح لپیٹ پڑے رہے.

میرا پیارے لال پاس ہوکر باہر نکل آیا تھا. ہم دونوں ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور میں نے آنٹی کو گود میں اٹھا لیا اور باتھ روم میں صفائی کر کے واپس آ گئے. میں نے آنٹی کو باہوں میں بھر کر چوم لیا اور اس کا شکریہ ادا کیا. اس کے چہرے کی رنگت اور خوشی تو جیسے بتا رہی تھی کہ مجھے اپنا سب کچھ سوپ کر مجھے مکمل طور پر مطمئن کر کتنا گروت محسوس کر رہی ہے. مجھے پکا محبت گرو بنانے کا اطمینان اس کی آنکھوں میں صاف جھلک رہا تھا.

اس رات ہم نے ایک بار پھر پیار سے چدائی کا لطف لیا اور سوتے سوتے ایک بار گدھاپچيسي کا دوبارہ مزا لیا. اور یہ سلسلہ تو پھر اگلے 8-10 دنوں تک چلا. رات کو پڑھائی کرنے کے بعد ہم دونوں ساتھ ساتھ سوتے کبھی میں آنٹی کے اوپر اور کبھی آنٹی میرے اوپر .........

میری پیاری پاٹھكاو! آپ ضرور سوچ رہی ہوں واہ ... محبت چندر ماتھر محبت گرو بن کر تمہارے تو پھر مزے ہی مزے رہے ہوں گے؟

نہیں میری پیاری پاٹھكاو! جس دن میری امتحان ختم ہوئی اسی دن مجھے آنٹی نے بتایا کہ وہ واپس پٹیالہ جا رہی ہے. اس نے جان بوجھ کر مجھے پہلے نہیں بتایا تھا تاکہ میری پڑھائی میں کسی طرح کا خلل (وگھن) نہ پڑے. میرے تو جیسے پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی. میں نے تو سوچ تھا کہ اب چھٹیوں میں آنٹی سے پورے 84 آسن سيكھوگا پر میرے سپنوں کا محل تو جیسے کسی نے مکمل ہونے سے پہلے توڑ دیا تھا.

جس دن وہ جانے والی تھی میں نے انہیں بہت روکا. میں تو اپنی تعلیم ختم ہونے کے اپرانت اس سے شادی بھی کرنے کو تیار تھا. پر آنٹی نے انکار کر دیا تھا پتہ نہیں کیوں. انہوں نے مجھے باہوں میں بھر کر پتہ نہیں کتنی دیر چوما تھا. اور كاپتي آواز میں کہا تھا، "محبت، میرے جانے کے بعد میری یاد میں رونا نہیں ... اچھے بچے روتے نہیں ہیں. میں تو بس بجھتی شمع ہوں. تمہارے سامنے تو مکمل زندگی پڑا ہے. تم اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ کرنا. جس دن تم پڑھ لکھ کر کسی قابل بن جاؤ گے ہو سکتا ہے میں دیکھنے کے لئے نہ رہوں پر میرے دل کو تو اس بات کا سکون رہے گا ہی کہ میرا ایک شاگرد ان کی زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ہے! "

میں نے چھلكتي آنکھوں سے انہیں رخصت کر دیا. میں نے بعد میں انہیں ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی پر ان سے پھر کبھی ملاقات نہیں ہو سکی. آج ان کی عمر ضرور 45-46 کی ہو گئی ہوگی پر میں تو آج بھی اپنا سب کچھ چھوڑ کر ان کی باہوں میں سما جانے کو تیار ہوں. آنٹی تم کہاں ہو اپنے اس چدو کے پاس آ جاؤ نا. میں دل تو آج 14 سالوں کے بعد بھی تمہارے نام ہی دھڑک رہا ہے اور ان حسیں لمحوں کے جادو رابطے اور مہم جوئی کو یاد کر کے پهرو آنکھیں بند ریٹویٹ میں گنگناتا رہتا ہوں:

تم مجھے بھول بھی جاؤ تو یہ حق ہے تم کو

میری بات طرف ہے، میں نے تو محبت کی ہے.
ختم شد

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے