میری معصوم کلی- ایک دلفریب داستاں

 

میری معصوم کلی

ناول۔ پارٹ ون

 

ہما اپنے شوہر کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ امریکہ سے آنے والے تھے۔ اس نے دونوں نھنی کلیوں کو تیار کر دیا تھا اس کی بیٹی گوری چٹی بلکل باربی ڈال تھی جبکہ دوسری بچی موٹے نقوش والی سانولی بچی تھی۔

ہما کی سوتیلی نند بچی کو جنم دیتے ہی چل بسی۔ وہ اس کی فرینڈ بھی رہ چکی تھی۔ بیوی کے مرتے ہی اس کے شوہر نے بچی اس کے حوالے کر دی۔ اس نے بھی شوہر کی بہن ہونے کے ناطے اور دوستی کا حق نبھانے کے لیے اس زمہ داری کو قبول کر لیا۔ حالانکہ اس نے دو بچیوں کی زمہ داری کو احسن طریقے سے نبھایا۔ شوہر نے کوئی خاص اعتراض نہ کیا کیونکہ بہن سوتیلی ہی سہی بہن تو تھی۔ شوہر کو بہن سے خاص لگاؤ نہ تھا مگر اسے پالنے پر اعتراض نہ کیا۔ وہ اپنے شہر میں اکیلی رہتی تھی۔ شوہر بھی باہر تھے۔ اب وہ پاکستان میں آ کر بزنس کرنا چاہتے تھے۔ شوہر کے آنے سے چند دن پہلے ہما کی بہن نے اسی شہر میں گھر بنا لیا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا۔ ساس سسر گاوں میں رہنا پسند کرتے تھے۔

ہما کی بہن نرگس اپنی بھانجی پر جان چھڑکتی۔ وہ ہما سے دو سال بڑی تھی مگر دبلی پتلی پتلے نقوش والی تھی۔ جبکہ ہما گوری چٹی اور قدرے موٹی تھی۔ اس کے شوہر نے ابھی تک بیٹی سے ملے نہ تھے مگر اپنی پری جیسی خوبصورت بیٹی سے ملنے کو بےقرار تھا۔ ڈھیروں تحائف اس کے لیے خریدے تھے۔

اج اس نے آنا تھا وہ بچیوں کو تیار کر کے اس کی پسندیدہ ڈشیں بنانے کے لیے نرگس کے ساتھ کچن میں مصروف تھی۔ نرگس اس کی ہیلپ کے لیے ا گی تھی۔ اس کا بیٹا ہما کی بیٹی سے دو سال بڑا تھا۔

بچوں کو کارٹون لگا کر دے کر ساتھ میں کھلونے دیکر کام والی ماسی کو ان کے پاس بٹھا دیا تھا۔ کیونکہ بچوں کی کھلونوں پر لڑائی ہو جاتی تھی۔ اور ہما یا نرگس کام کے دوران ا کر لڑائی نبٹھاتی تھی۔

نرگس بہن کو اکثر سناتی رہتی کہ آجکل اپنے بچے پالنا مشکل ہے اوپر سے تم اس مصیبت کو گھر لے آئ ہو۔ کیا ضرورت ہے۔ میں تو کہتی ہوں اسے اب بھی وقت ہے واپس اس کے باپ کو دے آو۔ خود شادی کر کے عیش کی زندگی بسر کر رہا ہو گا۔ نرگس کہتی اس کا پتا کرواو۔ ہما جواب دیتی کہ اس نے اس کے ساتھ بھاگ کر شادی کی تھی۔ اس لیے گھر والوں نے اس سے ناتہ توڑ لیا تھا۔ اس کے شوہر سے بھی ملنا گوارا نہ کیا۔

ہما نے بچی لیتے ہوئے اس سے کہا تھا کہ وہ اب دوبارہ اس سے رابطہ نہیں کرے گا۔ اس نے اپنے گھر والوں کو اس شادی کے بارے میں کچھ بتایا نہیں تھا۔ بیوی مر گئی اور اس نے چند ماہ بعد ہما سے فون پر بچی کا پوچھا تو ہما نے بہت افسوس سے بتایا کہ بچی کو نمونیہ ہو گیا تھا اور وہ جانبر نہ ہو سکی اور فوت ہو گئی۔ میں سوری آپ کی امانت کو سنبھال نہ سکی۔ آپ کو بدلے میں اپنی بچی دینے کو تیار ہوں۔ اس نے کہا نہیں۔ مجھے بچی کا افسوس تو ہے۔ اور آپ پر بھی بھروسہ ہے۔ مگر مجھے بچی کی طرف سے فکر لگی رہتی تھی۔اب کم از کم اس کی فکر سے آزاد ہو گیا ہوں وہ اللہُ تعالیٰ کے حکم سے ماں کے پاس چلی گئی ہے۔ آپ کے تعاون کا شکریہ۔

ہما نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اب آپ کو مجھ سے کھبی بھی رابطے کی ضرورت پڑے گی۔ پلیز آپ اب دوبارہ کال کھبی مت کیجئے گا۔ میں بچی کی فوتگی کی کال کرتی مگر مجھ سے آپ کا نمبر ڈلیٹ ہو گیا تھا۔ اچھا ہوا آپ نے خود کر لی ورنہ میں بہت ٹینشن میں تھی۔

اس نے بہت شکریہ ادا کیا اور دوبارہ کھبی کال نہ کرنے کا وعدہ کیا۔

ہما کے شوہر آے اور اپنی پری سے ملکر نحال ہو گے۔ بولے ہما تم نے مجھے اس پری کا تحفہ دے کر خوش کر دیا ہے۔ تمھیں پتہ ہے میں حسن پرست ہوں۔ بیٹا ہو یا بیٹی بس خوبصورت ہو۔ اگر میری اپنی بیٹی میری بہن کی بیٹی جیسی ہوتی تو میں دیکھتا بھی نہ۔ شکر ہے کہ یہ خوبصورت ہے۔ بلکہ پری ہے۔ یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ تو نے میرے دل کی مراد پوری کی۔

نرگس اکثر اسے پرائ بچی پا لنے پر طنز کا نشانہ بناتی رہتی۔ وہ اس بچی کو ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی۔ اور اپنی بھانجی پر جان وارتی۔

جب اچھے اسکول میں داخلے عروبہ اس کی بیٹی اور نتاشا اس کی نند کی بیٹی کو داخل کروانا تھا تو نرگس نے اس کے شوہر کے سامنے اتنے کچھ بولی کہ وہ بھی convince کر دیا کہ وہ بھی اسے اسکول داخل کروانے کے خلاف ہو گیا۔ اسے گھر کی نوکرانی بنا کر رکھو اور ہر کام سکھاو۔ یہ میری عروبہ کی خدمت کرے گی۔

نرگس کی شخصیت بہت رعب دار تھی۔ ہما کا شوہر اس کی بہت عزت کرتا۔ اس کو آپا پکارتا۔ نرگس کا شوہر اس کے لئے موم کا گڈا تھا جدھر موڑو مڑ جاتا۔ جبکہ ہما کا شوہر ضدی ہٹ دھرم اور رعب جمانے اور اپنی بات منوانے والا تھا۔ بیوی کو غصہ دیکھاتا مگر دوسروں کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ وہ نرگس اور ان کے شوہر کی بہت عزت کرتا اور پروٹو کول دیتا۔ جس کی وجہ سے ہما کے گھر پر اس کا پورا hold رہتا۔

ہما اپنے شوہر کی وجہ سے بہن کو کچھ کہہ نہ سکتی۔ کیونکہ وہ عروبہ کے لئے چیزیں لاتی اس پر جان چھڑکتی اس وجہ سے وہ ہما کے شوہر کی نظر میں عزت پاتی۔ کیونکہ عروبہ میں باپ کی جان تھی۔

نرگس کا بیٹا سعد بھی عروبہ کا خیال رکھتا۔ جس کی وجہ سے عروبہ کا باپ سعد سے پیار کرتا اور اس کے لیے بھی تحفے لاتا۔ وہ خوش ہوتا اور نرگس بھی خوش ہوتی۔

ہما سوچتی کہ اس نے اس کی بہتر تربیت اور پڑھانے لکھانے اور دوسروں کے عتاب سے بچانے کے لیے اس کے باپ سے جھوٹ بولا کہ وہ مر گئی ہے تاکہ وہ یکسوئی سے اس کی تربیت کر سکے۔ مگر یہاں تو اسے اسکول داخل کروانا دشوار تھا۔ وہ اس بن ماں کی بچی کو سینے سے لگا کر پیار کرتی۔ وہ بہت سمجھدار بچی تھی اور صبر والی بھی۔ ہما کا شوہر اسے غصے سے گھورتا اور ڈانٹتا رہتا۔ وہ کوئی شرارت نہ کرتی۔ نہ ہی عروبہ سے لڑتی یا کھلونے مانگتی۔ ہما اس کے لیے سستے کھلونے لا کر دیتی۔ شوہر کا حکم تھا کہ اس پر پیسے ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ خود پڑھی لکھی تھی مگر شوہر نے جاب کی اجازت نہ دی۔

ہما جب عروبہ کو پڑھانے بیٹھتی تو ساتھ نتاشا کو بھی پڑھاتی۔ اس طرح اس نے میٹرک کا اسے امتحان دلوا دیا وہ درمیانے نمبروں سے پاس ہوئی جبکہ عروبہ پڑھائی میں بہت لاہق تھی۔

ایف ایس سی کے بعد عروبہ نے مہنگے کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ میرٹ پر آئی تھی۔ نتاشا کو ہما نے آرٹس کی بکس لا دیں۔ وہ اس میں محنت کرنے لگی۔

ہما اور اس کا شوہر الاونج میں بیٹھے چاے پی رہے تھے کہ عروبہ کے کمرے سے بہت زور زور سے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ سب اس کے کمرے کی طرف بھاگے۔

ناول پارٹ 2۔

ہما اور اس کا شوہر عروبہ کے کمرے کی طرف دوڑے جہاں سے اس کے چلانے کی آوازیں ا رہی تھی۔ وہ باتھ روم میں تھی اور spider کی رٹ لگا کر چلا رہی تھی۔ نتاشا بھاگ کر چابی لے آی اور اندر جا کر اسے مارا اور تیزی سے باہر نکل آئی۔ ماں نے ڈانٹ کر کہا کہ تم بچی ہو کیا۔ اس کے تو دانت بھی نہیں ہوتے کاغذ جیسا تو وہ معصوم ہوتا ہے۔ شوہر اسے ڈانٹنے لگا کہ خبردار جو میری بیٹی کو کچھ کہا تو۔ میں دیکھ رہا ہوں آجکل تم اس پر کچھ زیادہ ہی سختی کرنے لگی ہو۔ اپنی لاڈلی نتاشا کو تو موم کچھ کہتی نہیں ہیں مجھے ہی ہر وقت ڈانٹتی رہتی ہیں عروبہ نے باپ کی شہہ ملتے ہی فوراً باپ سے شکایت لگائی۔ باپ نے بیوی کو گھورا۔

ہما شوہر کو چاے دینے گئی تو شوہر نے پھر سے اسے کہا کہ تم آجکل میری بیٹی کو زیادہ ڈانٹنے لگی ہو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا تم جانتی ہو کہ میں اس کے معاملے میں کتنا sensitive ہوں۔ بیوی تپ کر بولی ساری زندگی آپ نے اسے بے جا لاڈ دیکر بگاڑا ہے۔ اسے گھر داری نہیں آتی۔ بس سارا فارغ وقت وہ کانوں میں ہیڈ-فون لگا کر لیب ٹاپ پر لگی رہتی ہے۔ آپ اسے بگاڑ رہے ہیں۔ تو باپ نے بڑے وثوق سے کہا تم فکر نہ کرو اس کا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے میں نے بہانے سے اس سے کئی بار اس سے پوچھا اس کا لیب ٹاپ چیک کیا موبائل چیک کیا۔ مگر شکر ہے کچھ نہیں ملا۔ تو وہ طنزیہ مسکراتے ہوئے بولی ہو سکتا ہے جوانی میں جب آپ نے بھی اپنی گرل فرینڈ نہیں سب شادی شدہ تھیں زیادہ ان کے نام پلمبر، نائ، مستری، قاضی وغیرہ کے نام سے save کیے ہوں۔ وہ اپنی شرمندگی چھپاتے مسکراتے ہوئے بولا نہیں میں نے سب چیک کر لیے ہیں۔

ہما بولی ایک بار واش روم کا نل خراب ہو گیا اس دن آپ موبائل گھر بھول گئے تھے میں نے پلمبر کے نمبر پر فون کیا تو آگے سے عورت بولی میں چونک گئی۔ پھر میں نے اسے میسج کیا کہ میں بات نہیں کر سکتا ہم میسج پر بات کریں گے۔ میں اسے جانو لکھتی وہ اور جوش میں میری جان، ہنی اور کیا کچھ لکھتی رہی۔ پھر میں نے اس کے شوہر کا نمبر بہانے سے پوچھا کہ اس کا کونسا نیٹ ورک ہے وہ بولی u میں نے کہا اس کے آخر میں 236 آتا ہے کیا وہ بے دھیانی میں بولی نہیں یہ نہیں یہ آتا ہے اور پورا نمبر بول گئ۔ پھر میں نے اسے بتایا کہ میں کون ہوں اور اب میں یہ ساری میسجیز تمھارے شوہر کو فارورڈ کروں گی۔ وہ منتیں کرنے لگی۔ میں نے اسے دھمکی دی کہ اگر تم نے میرے شوہر کا پیچھا نہ چھوڑا تو اس نے بات بھی نہ پوری کی اور وعدہ کیا کہ وہ نہ تمھارے شوہر کو اس بارے میں بتاے گی اور نہ اب کھبی اس سے تعلق رکھے گی۔ میں نے اسے ڈانٹا کہ تم جیسی گھریلو آوارہ عورتوں کی وجہ سے کچھ مرد پہلے تو ایسی عورتوں سے دوستی رکھتے ہیں پھر شادی کے بعد اپنی شریف بیوی پر شک کرتے عمر گزار دیتے ہیں۔ اور اس معصوم عورت کی زندگی جہنم بنی رہتی ہے۔ تب سے میں سمجھ گئی کہ تم دل پھینک ہو۔ شوہر شرمندہ ہوتے ہوئے بولا تم نے مجھ سے بہت لڑائی بھی کی تھی۔ میں بھی ڈھیٹ بن گیا تھا اور تمھیں مرد کے پاس جو ہتھیار ہوتا ہے طلاق کی دھمکی دی اور اس کے بعد تم گھر سے نہ گی اور مجھے بھی عقل آ گی میں اندر سے ڈرتا تھا کہ تم مجھے چھوڑ نہ جاو۔ دراصل مرد کو باہر لفٹ ملے تو وہ پھر بیوی کو نہیں گردانتا۔ بظاہر مرد بیوی پر حاوی ہو ظاہر کرے کہ وہ اس سے ڈرتا نہیں ہے مگر بیوی آخر بیوی ہوتی ہے۔ وہ آخر میں واپس اسی کی طرف ہی آتا ہے۔ بیوی بھی گھر چھوڑ کر نہ جائے صبر سے کام لے اور پیار سے دبے لفظوں میں سمجھاتی رہے تو وہ اثر لیتا ہے۔ غصے اور زور زبردستی سے تو وہ ضدی ہو جاتا ہے۔

وہ بیوی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولا تمھارا شکریہ کہ تم نے مجھے سمجھا اور میری خامیوں کے باوجود میرا ساتھ نہ چھوڑا۔ مجھے پیاری سی پری جیسی بیٹی دی۔

نتاشا جو ہما سے چاے کا پوچھنے آ رہی تھی۔ کمرے میں سے باتوں کی آواز ا رہی تھی تو اس نے سن لیں۔ ہما کو شبہ ہوا وہ اسے چاے کا کہہ کر آی تھی وہ اٹھ کر کچن میں آئ تو وہ چاے بنا رہی تھی ہما نے کہا چاے بناتے دیکھا تو سمجھ گئی کہ پرانی چاے ٹھنڈی ہو چکی تھی ہما نے پوچھا کیا تم نے سب سن لیا تو اس نے سر جھکا لیا۔ ہما نے کہا ہوں۔ دیکھو بیٹا کچھ مرد ایسے ہوتے ہیں کچھ عورتیں بھی ایسی ہوتی ہیں۔ مگر پھر وقت کے ساتھ ساتھ سب کو عقل آ جاتی ہے۔ ان لوگوں کو زیادہ تر توجہ اور پیار کی کمی ہوتی ہے جو وہ دوسروں میں ڈھونڈتے ہیں۔ وقت کے ساتھ میچورٹی اے یا کوئی ٹھوکر لگے تو ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں انسان ہیں۔ غلطی ہو جاتی ہے۔ شوہر تو بلکل برداشت نہیں کرتا اور گھر اجاڑ دیتا ہے کچھ عورتیں بھی برداشت نہیں کرتی اور گھر اجاڑ کر مرد کو سزا دینے کی بجائے خود سزا میں پڑ جاتی ہیں۔ میں بھی غلطی کرتی چھوڑ کر جاتی تو آج اس گھر کی مالکہ نہ ہوتی۔ اور اپنی بچیوں کو کہاں چھوڑتی۔ نتاشا اس کے گلے لگ کر بولی آپ نے مجھے سگی ماں سے بڑھ کر پیار کیا ہے۔ اتنے میں عروبہ کچن میں آئی اور بولی یہ کیا تم میری موم کو اموشنل کرتی رہتی ہو۔ یہ صرف میری موم ہیں کہنے سے یا پیار کرنے سے تمھاری موم نہیں بن جاہیں گی۔ ماں نے کہا عروبہ ایسی باتیں نہیں کرتے۔ اسے نتاشا نے چاے پکڑائی۔ تو اس نے زور سے زمین پر پٹخ دی۔ اور اونچی آواز میں روتی ہوئی کمرے میں ناراض ہو کر چل دی۔ باپ شور سن کر بھاگ کر آیا کچن میں چاے گری اور ٹوٹا کپ دیکھا تو سمجھ گیا اور تیزی سے بیٹی کے کمرے کی طرف گیا تو وہ منہ ادھر کیے لیٹی رو رہی تھی۔ باپ نے جا کر اس کے کندھے کو ہلایا اور پکارا کیا ہوا میری معصوم کلی کو۔ وہ زاروقطار روتے ہوئے بولی۔ میں اس گھر میں فالتو ہوں صرف یہی موم کی سگی ہے ہر وقت اس پر پیار لٹاتی ہیں اور مجھے ڈانٹتی ہیں۔ شوہر نے بیوی پر غراتے ہوئے کہا کہ تم جانتی ہو کہ میں اس کے معاملے میں کتنا sensitive ہوں۔ اگر اس کی آنکھوں میں آنسو اہے تو جی چاہتا ہے ساری دنیا کو آگ لگا دوں۔ اور رلانے والے کو بھی۔ عروبہ اٹھ کر بیٹھی ٹکر ٹکر باپ کو زبان سے شعلہ برساتے دیکھ رہی تھی جبکہ نتاشا دروازے کی چوکھٹ سے سمٹی کھڑی سہم رہی تھی۔ ماں پریشان حال کھڑی تھی۔ شوہر بولا اے نادان عورت اپنی سگی اولاد کو کمپلیکس کا شکار کر کے پرائ اولاد کو پیار جتاتی ہو۔ تم اپنی دوستی نبھانے کے لئے ہم باپ بیٹی کو زہنی کرب میں مبتلا کرتی ہو۔ بیوی صفائی دیتے ہوئے بولی۔ بچپن میں میں نے بولا تھا کہ اگر آپ کو مسئلہ ہے تو اسے یتیم خانے چھوڑ آتے ہیں آپ ہی نہیں مانے تھے کہ نہیں میری بہن کی بیٹی ہے بےشک سوتیلی ہی سہی۔ وہ شرمندہ ہوتے ہوئے بولا مگر اب تو اس سے جان چھڑا لو اس کی شادی کر دو۔ عروبہ بولی کسی چوکیدار۔،ڈرائیور کا رشتہ جلدی سے ڈھونڈ کر ڈیڈ اسے اس گھر سے نکالیں۔ باپ نے بیٹی کو لاڈ پیار کیا اور اسے گاڑی نکال کر شاپنگ پر لے گیا۔

نرگس اور اس کا بیٹا سعد آے۔ سعد نے آہستہ سے نتاشا کے کان کے قریب جاکر پوچھا وہ گوری چڑیل کدھر ہے تو وہ جو اداس تھی ایک سعد ہی تھا جو اس سے ہنس بول لیتا تھا۔ اسے اداس دیکھ کر بولا آج پھر اس چڑیل نے کچھ ڈرامہ کیا ہے۔ سنڈے کو اس نے انکل کی شہ میں کچھ نہ کچھ create ضرور کرنا ہوتا ہے اس بہانے پروٹو کول بھی ملتا ہے اور شاپنگ بھی ہو جاتی ہے۔ چلو چھوڑو تم دل پے مت لیا کرو۔ جب تم دونوں اس گھر سے شادی ہو کر چلی جاو گی تو جان چھوٹ جائے گی اور ہاں چاے پلاو اور ہمیشہ کی طرح مزے دار پکوڑے بھی بنانا۔ وہ مسکراتی ہوئی کچن میں چل پڑی۔

ماں نے فون کر دیا کہ تمھارے خالہ آی ہیں۔ سب چاے پکوڑے کھا رہے تھے کہ عروبہ ڈھیر سارے شاپرز ہاتھ میں اٹھاے چہکتی مسکراتی داخل ہوئی۔

ناول پارٹ۔ 3

عروبہ جو نرگس کو بچپن میں نجو جی بلاتی تھی بڑے ہو کر آنی بلانے لگی۔ جبکہ نتاشا خالہ جی پکارتی۔

عروبہ ہاتھ میں ڈھیر سارے شاپنگ بیگ اٹھاے خوشی سے چلاتی ا کر نرگس کے گلے لگ کر مائی آنی کہتی پیار کیا۔ جواب میں اس نے بھی وارفتگی کا مظاہرہ کیا۔ اور عروبہ کا باپ جو چابی اٹھاے اندر داخل ہو رہا تھا دونوں خالہ بھانجی کو وارفتگی سے ملتے دیکھ کر مسکرانے لگا۔ سعد اٹھ کر عروبہ کے باپ سے ملا۔ اس نے گرمجوشی سے اس کی پیٹھ پر تھپکی دی۔

نرگس اپنے گاؤں سسرال اگر زیادہ دن کے لئے جاتی تو ہما سے اجازت لے کر نتاشا کو ادھر ہیلپ کے لیے ساتھ لے جاتی۔ ہما اس نظریے سے بھیج دیتی کہ چلو اس کا بھی چینج ہو جائے گا۔ اس نے دیکھا وہ گاوں جانے کے نام سے خوش ہوتی ہے۔ ہما کو یہ بھی خیال آتا کہ اس کی زندگی ویسے بھی اس کا شوہر اور بیٹی اجیرن رکھتے ہیں تو پھر بھیجنے میں کیا حرج ہے۔

نرگس گاوں لے جانے کے لیے اس کے چند نیو سوٹ سلوانے کا بولتی۔ اس طرح ہما کو اسے چند اچھے جوڑے سلوا کر دینے کا موقع ملتا۔ کیونکہ نرگس کا آرڈر ہوتا کہ میرے سسرال کا معاملہ ہے۔ وہ بچپن سے اسے وہاں لے کر جا رہی تھی۔ اور ادھر اس کے ساس سسر اس پر ترس کھاتے کیونکہ ہما نے اسے بچپن سے ہی ہر کام میں تاک کر دیا تھا۔ وہ وہاں جاتی تو اس کی ساس کو آرام ملتا خود نرگس کی بھی ہیلپ ہو جاتی۔

نرگس اور ہما دو بہنیں تھیں۔ نرگس دو سال بڑی تھی۔ وہ شروع سے ہی پتلی دبلی تھی۔ جبکہ اس کی بہن ہما ہما زرا اس سے موٹی تھی۔

نرگس کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق نہ تھا وہ گھر رہنا اور گھر کے کاموں میں دلچسپی لینا اسے پسند تھا۔ جبکہ ہما کو پڑھنے کا شوق تھا۔ وہ کالج جانے لگی جبکہ نرگس میٹرک بھی نہ کر سکی۔ تو والدین نے سوچا وقت پر اس کی شادی کر دی جائے جبکہ ہما نے صاف کہہ دیا کہ جب تک وہ تعلیم حاصل کر رہی ہے وہ شادی نہیں کرے گی۔

ہما کی ماں نے آس پڑوس میں کہنا شروع کر دیا کہ بیٹی کا رشتہ درکار ہے۔ یہ لوگ سفید پوش تھے۔ ہما کا والد سرکاری ملازم تھا۔ محلے میں رہتے تھے پانچ مرلے کا گھر تھا۔ ہما کے باپ کے آفس میں ہی سعد کا باپ ملازم تھا۔ اور کنوارہ تھا۔ ہما کے باپ کو سعد کے باپ میں گھن نظر آئے تو اس نے اس کے بارے میں معلومات حاصل کی۔ اسے پتا چلا کہ وہ قریبی گاؤں میں رہتا ہے۔ دو بہن بھائی ہیں۔ گاوں میں اپنا گھر زمینوں، جاہیدادوں کے مالک ہیں۔ نرگس کا باپ جو نرگس کی غصے والی عادت سے واقف تھا اور نرگس نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ لڑکے کو دیکھے بغیر شادی نہیں کرے گی۔ اور جو رشتے آ رہے تھے وہ مناسب نہ لگ رہے تھے۔

نرگس کے باپ نے سعد کے باپ سے راہ و رسم بڑھا لیے۔ وہ کسی دوست کے ساتھ رہتا تھا۔ اکثر اسے گھر سے کھانا لا لا کر دینے لگے عزر یہ پیش کیا کہ میرا کوئی بیٹا نہیں تم مجھے اپنے بیٹے جیسے دکھتے ہو۔ ہوٹل کا کھا کھا کر صہت خراب ہو گی اس لیے گھر کا لاتا ہوں۔ ایک دن بہانے سے گھر لے گئے۔ رضیہ کے کان میں ماں نے ڈال دیا تھا کہ تیرا باپ تیری اس سے شادی کروانا چاہتا ہے۔ رضیہ جو کچن کی کھڑکی سے اسے آتا دیکھ چکی تھی اور اسے پسند بھی ا گیا تھا۔ماں جو اسے دیکھتے دیکھ چکی تھی اس سے راے پوچھی تو اس نے شرما کر کہا ٹھیک ہے۔ماں ایکدم خوش ہو گئی اور فوراً شوہر کو خوش خبری سنائی۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک رشتہ پکا نہ ہو جائے ہما کو سامنے نہ کیا جائے۔ ہما کو بھی اعتراض نہ ہوا۔

جب ٹرے اٹھاے سر پر دوپٹہ لیے سادہ لباس میں ملبوس ماں کے پیچھے شرماتی ہوئی نرگس آئی تو سعد کے باپ کو پسند ا گئ۔

سعد کے باپ کو رضیہ کے گھر بہت پروٹوکول ملا۔ اس نے َسوچا والدین شادی جلد کروانا چاہتے ہیں اور اس کے سامنے نرگس کے باپ نے اپنی بیٹی کے لئے کوئی اچھا رشتہ بتانے کا کہا تھا۔ تو وہ گاوں گیا اور بتایا کہ اس کے آفس کے سینئر ہیں اور ساری بات بتائی کہ لڑکی سمپل سی ہے۔ گاوں کے ماحول میں امید ہے رچ بس جائے گی۔ گھر والے جا کر دیکھنے پر راضی ہو گئے۔ گھر سے والدین اور چھوٹی بہن آئی۔ رضیہ بہت خوش مزاجی سے انہیں ڈیل کرتی رہی۔ آج وہ انگوری ریشمی سوٹ میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔ ہما امتحان کی تیاری کے بہانے اندر بٹھا دیا گیا۔ ان کو ڈر تھا کہ وہ زیادہ پڑھی اور خوبصورت ہے تو رضیہ کو ریجیکٹ نہ کر دیں۔

رضیہ نے نند اور ساس کو متاثر کیا۔ ان لوگوں نے شرط رکھی کہ لڑکی شادی کے بعد گاوں میں رہے گی۔ والدین پریشان ہو گئے۔ جب رضیہ سے پوچھا گیا تو اس نے گاوں میں رہنا قبول کر لیا۔ والد نے کہا کہ پھر سوچ لو تو اس نے کہا سوچ لیا ہے رہ لوں گی۔ اس کی بہن کو رضیہ پسند آئی۔ وہ پہلے ہی انگوٹھی اور لے کر آئے تھے۔ کہ اگر بات بن گئ تو رشتہ پکا کر کے شادی کی ڈیٹ لے لیں گے۔

جب نرگس کے ساس سسر نے سنا کہ گاؤں میں رہنے کے لیے لڑکی تیار ہے تو وہ بہت خوش ہوے۔ اور واری صدقے جانے لگے۔ اور انگوٹھی پہنانے کی اجازت مانگی۔ پھر ہما کو بھی بلا لیا گیا۔ جو پہلے فقط سلام کر کے پڑھائی کا بہانہ بنا کر چلی گئی تھی۔ اس کو تیار ہونے سے منع کیا گیا تھا۔ ہما نے سنا کہ آپا کا رشتہ پکا ہو گیا ہے اور اب انگوٹھی پہنانے کی رسم ہونے لگی ہے تو وہ خوشی سے مسکراتی ہوئی بھاگی آئی۔

رضیہ کو سرخ دوپٹہ اوڑھا کر ساس نے انگوٹھی پہنا دی۔ ہما اور رضیہ کی نند نے موبائل پر مووی وغیرہ بنائی۔ سب نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ سعد کا باپ سامنے بیٹھا مسکراتے ہوئے خوشی سے شرماتا ہوا وارفتگی سے اسے دیکھتا رہا۔ بہن اسے چھیڑ رہی تھی۔

نرگس بیاہ کر گاوں چلی گئی اور وہاں جا کر اسے احساس ہوا کہ ایک تو اس کے ساس سسر گاوں کے تھے۔ صرف ایک پکا گزارے لاہق کمرہ آگے تھوڑا سا برامدہ تھا۔ واش روم کافی دور صحن کے کونے میں تھا۔

گاوں میں جانور وغیرہ موجود تھے اور مرغیاں، بکرے،گاے بھینسیں سب موجود تھے۔ وہ سلیقے والی تھی۔ شوہر ہر ویک اینڈ پر ا جاتا۔ وہ شکایتوں کا پلندہ کھول دیتی۔ وہ اس معاملے میں بےبسی ظاہر کرتا۔ تو وہ چڑ جاتی لڑتی۔ وہ لکڑیاں جلاتے تو اسے یہ سب کام نہیں کرنے آتے۔ جلد ہی نند کی شادی بھی ہو چکی تھی اور وہ بیاہ کر امریکہ چلی گئی۔ اس کے سسرال والے دور کے رشتے دار تھے پاکستان آے لڑکے نے کسی شادی پر دیکھا پسند کیا۔ رضیہ اس پر رشک کرتی کہ وہ گاوں کی میرے جتنی پڑھی اور اس کی قسمت میں امریکہ لکھی ہوئی تھی۔ وہ بھی اتنی پڑھی لکھی فیملی شوہر بھی پڑھا لکھا اور دولت مند بھی۔ وہ ٹھاٹھ سے پاکستان آتی۔ سارے رشتے دار اس سے ملنے پر فخر محسوس کرتے۔

رضیہ گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہ لگاتی۔ اپنے پورشن کو صاف رکھتی۔ گاوں میں رشتے داروں کے گھر قریب قریب ہوتے ہیں۔ ان کے بچے اگر کمرے میں آ کر چیزیں خراب کرتے تو وہ تنگ پڑتی۔ ساس سسر َسے بھی الجھتی۔ شروع شروع میں انہوں نے اس کو پروٹوکول دیا مگر جب اس نے شہر رہنے کی ضد کی تو وہ بھی کوشش میں لگ گئے کہ بیٹا چلا نہ جائے۔ انہوں نے اسے بیوی کے خلاف کرنا شروع کر دیا۔

ناول پارٹ 4۔

رضیہ کا بیٹا سعد پیدا ہوا۔ میکے میں ماں نے رکھا اور چھلے کے بعد اس کو بھیجا۔ اب تو بچے کا بھی مسئلہ تھا وہ اسے صاف ستھرا کر کے بھیجتی۔ واپس آتا تو اٹا ہوا ہوتا۔ میاں آتا تو وہ اس سے لڑتی۔ ادھر والدین اسے اس کی شکایت لگاتے۔ وہ اس سے تنگ پڑ گئے۔ ہما کے والد صلح جو تھے۔ وہ بیٹی کو سمجھاتے۔ داماد بھی تنگ پڑنے لگا۔ آخر ہما کے والد جو داماد کو بہت عزت دیتے تھے۔ وہ بھی ان کی عزت کرتا۔

ساس نے داماد کو سمجھانا شروع کیا کہ اگے بچے کے مستقبل کا مسئلہ ہے تو اس کو اچھے اسکول میں پڑھانے کے لیے تمہیں اسے ادھر شفٹ کرنا ہو گا۔ اس نے عزر پیش کیا کہ یہ اکیلی کیسے رہے گی۔ تو انہوں نے اسے اپنے پاس رہنے کی افر کر دی اور بچہ اسکول کے قابل ہوا تو وہ نرگس کے میکے شفٹ ہو گیا۔

نانا چونکہ ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ اور ہما نے پڑھائی کے بعد ٹیچنگ شروع کر دی تھی۔ داماد اسی شہر میں تھا اور روز آفس سے واپس آ جاتا تھا۔ اور لڑائی جھگڑے سے جان چھوٹ چکی تھی۔ سسرال میں سب عزت کرتے۔ ساس کھانا مزے کا بناتی تھی۔ وہ ہر ویک اینڈ پر گاوں جاتا اسے بھی لے کر جاتا۔ گاوں زیادہ دور نہ تھا اس لیے شام کو واپس آ جاتے۔ ساس سسر اب راضی ہو گئے تھے شکر کرتے تھے کہ وہ ادھر آتی ہے اور شوہر کو آنے دیتی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ شہر سے آئی ہے تو گاوں کے ماحول میں رچ بس جائے گی۔ کچھ بس جاتی ہیں کچھ ایڈجسٹ نہیں ہو پاتی۔ مگر سسرال والے امید لگا لیتے ہیں۔

رضیہ کو لکڑیاں جلانی نہ آتی تھی۔ ساس نے رضیہ سے جلانے والے آبلہ مانگا جس کو وہ گھوبر کے بسکٹ کہتی تھی۔ اس کا دل خراب ہوا اس نے شکل بنا کر دو تنکوں سے پکڑ کر پکڑایا تو خوب مزاق بنا۔ کچھ گاوں کی عورتیں اس کے سلیقے کی تعریف کرتیں۔ پانچ سال اس نے گزارے تھے مگر اپنے پورشن میں رہتی۔ کسی سے گھلتی ملتی نہ تھی۔ نہ کسی سے فالتو بات کرتی تھی۔ اپنا کچن الگ رکھا ہوا تھا اپنی سلامیوں کے پیسے سے اس نے کھڑے ہو کر پکا نے اور برتن دھونے والا سسٹم گزارے لائق کر لیا تھا۔ سلنڈر پر پکاتی۔ ناشتہ، انڈے بریڈ، نوڈلز انہی چیزوں کو شوق سے کھاتی۔ باتھ روم کے باہر تین جوتوں کے جوڑے اپنا، بچے اور شوہر کا رکھا ہوتا۔ تین صابن دانیاں اپنی، بچے اور شوہر کی رکھی ہوتی۔

گاوں والے حیران ہوتے اور اس کی کاپی بھی کرتے۔ وہ کہتی اس کے سسر ہر جگہ تھوک دیتے ہیں تو اس کا دل خراب ہوتا ہے۔ گاوں کی عورتیں جگہ جگہ بچوں کو پیشاب کروا دیتی تھیں۔ اس سے بھی رضیہ چڑتی تھی۔

گاوں میں رضیہ کی وجہ سے شرمندہ رہتے۔ اب وہ ہر ویک اینڈ پر کھبی جاتی کھبی نہ جاتی۔ میاں بھی شرمندہ ہوتا مگر وہ موڈی ہو گئ تھی بچے کو اکثر باپ کے ساتھ گاوں بھیج دیتی۔ اور ریلیکس ہو جاتی۔

والدین کی فوتگی کے بعد پانچ مرلے کا گھر سیل کر کے دونوں بہنوں نے حصے لے لیے۔ اس حصے سے گھر تو نہیں آ سکتا تھا۔ ہما کی بھی شادی ہو چکی تھی۔ رضیہ کراے کے گھر میں رہتی تھی بچے کو اچھے اسکول میں داخل کروایا تھا۔ جہاں سے بچے کا اسکول نزدیک پڑتا تھا۔ رضیہ نے استعمال کے لئے گاڑی لے لی اور فیملی کے ساتھ عمرہ کرنے چلی گئی۔ اس نے ہما کو بھی بہت ساتھ چلنے کو کہا مگر بچیوں کا مسئلہ تھا۔ عروبہ کو ادھر سنبھالنے کے لیے تیار تھی۔ اور نتاشا کو ساتھ لے جانے کے لیے تیار نہ تھی۔ کہتی اسے کسی پڑوس میں دے جاو۔ مگر ہما نہ مانی۔ وہ اسے کوستی چل پڑی۔

ہما کالج میں پڑھتی تھی تو اس کی دوستی شوہر کی سوتیلی بہن سے ہو گی۔ ہما ان کے گھر بھی کھبی جواہن سٹڈی کے لیے جاتی تھی وہاں اس کے بھائی کو ہما پسند آ گی۔ ان کے گھر میں ایک بوڑھا بیمار باپ اور ہما کی نند تھی۔ ہما کے سسر نے بیٹے کو شادی کرنے کا مشورہ دیا تاکہ بعد میں وہ بیٹی کی شادی کر کے سرخرو ہو سکے۔ تو اس نے شرماتے ہوئے ہما کا نام لیا۔ اس کی بہن خوش ہو گئی۔ نند نے ہما سے خوشی میں اسے فون کر کے راے پوچھی۔ ہما کی نظر میں اس کے بھائی کا سراپا آ گیا۔ جو پڑھا لکھا ہینڈسم نوجوان تھا۔ اس نے اپنے لیے اس کی آنکھوں میں پسندیدگی کی جھلک دیکھ لی تھی اس کو بھلا کیا اعتراض تھا۔ اس نے شرماتے ہوئے ہاں کہہ دی۔

 

ناول پارٹ 5

ہما بیاہ کر شوہر کے گھر ا گئ۔ نرگس کو ہما کی قسمت پر رشک آتا۔ جس کو اس سےزیادہ پڑھا لکھا امیر اور ہینڈسم نوجوان ملا تھا سسرال میں بھی کوئی جھنجھٹ نہ تھا۔ ایک نند تھی وہ بھی سہیلی۔ دوسرا اس کی قسمت شہر میں لکھی تھی۔ پھر اس کے ساس سسر گاوں کے انپڑھ تھے۔ اسے انہیں کسی سے ملواتے بھی شرم آتی تھی۔ مگر پھر بھی وہ بہن سے پیار کرتی تھی۔ ہما بھی اس کا بہت ادب کرتی۔ ہما کی شادی سے تھوڑا پہلے ہی نرگس شہر شفٹ ہونے میں کامیاب ہو گئی۔

ہما بیاہ کر دوسرے شہر ا گئ۔ بیمار سسر اور ایک نند تھی۔ ہما کا شوہر ساجد اپنی سوتیلی بہن سے نفرت کرتا۔ ساجد چھ برس کا تھا تو اس کی ماں کو اچانک سر میں درد اٹھا ہاسپٹل پہنچنے تک وہ فوت ہو گئی ۔ باپ نے رشتے داروں کے اصرار پر ان کی ہی کوششوں سے چالیسویں کے فوراً بعد دوسری شادی کر لی۔ ایک سال بعد ہی اس کی بہن پیدا ہو گئی۔ اور سوتیلی ماں ساجد کے ساتھ برا سلوک کرنے لگی۔ باپ بھی مجبور تھا ایک تو وہ بیٹی کا باپ بن گیا تھا دوسرے اس نے گھر کو اچھے طریقے سے سنبھال لیا تھا۔ تیسرے وہ شوہر سے پیار جتاتی۔ خود طلاق یافتہ تھی۔ اب اسے خدا نے بیٹی عطاء کر دی تھی وہ ساری توجہ اور پیار بیٹی پر لٹانے لگی۔ اب ساجد کی حیثیت گھر میں فالتو چیز جیسی ہو گئی تھی۔ اسے پڑھنے کا شوق تھا۔ اس نے پڑھائی کو اپنا مشن بنا لیا۔ جب اس کے ماں اور باپ دونوں اس کی بہن پر توجہ دیتے تو وہ احساس کمتری اور احساس محرومی کا شکار ہو جاتا۔ وہ دونوں کی لاڈلی تھی۔ جو فرمائش کرتی پوری کی جاتی۔ گھر میں خوشحالی تھی۔ ساجد کو خرچے کے لیے عزر پیش کرنے پڑتے تب جا کر سوتیلی ماں اسے دیتی۔ اس کے دل میں بہن کے لیے نفرت بڑھتی گئی۔

ساجد پڑھ لکھ کر جلد جاب پر لگ گیا۔ باپ نے پرائیوٹ کمپنی میں ملازمت کی اچھا کمایا۔ اب وہ بیمار رہنے لگا تھا ریٹائرمنٹ کے بعد اس کو جو پیسہ ملا اس نے دس مرلے کا گھر بنایا۔ ایریا بھی اچھا تھا۔ گاڑی بھی موجود تھی جو اب ساجد کی دسترس میں تھی۔ کیونکہ اس کی سوتیلی ماں سیڑھیوں سے اچانک پاوں پھسلنے سے مر گئی۔ اس کی بہن ماں کے مرنے پر تڑپ تڑپ کر روئی تو ساجد کے دل میں اس کے لئے تھوڑا بہت نرم جزبہ پیدا ہو گیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ بہن اور آزاد ہو گئی وہ ہٹ دھرم اور ضدی پہلے ہی تھی۔ اب اس نے ایک امیر لڑکے سے دوستی بھی کر لی۔ اور آزادانہ اس کے گھومنے پھرنے لگی۔ ساجد نے باپ کو اسے روکنے کو کہا خود بھی کچھ کہتا مگر وہ نہ سنتی۔ باپ نے اسے سمجھایا مگر اس نے کان نہ دھرے۔ باپ پچھتانے لگا۔ کہ اس کے بےجا لاڈ نے اس سرکش بنا دیا ہے۔ وہ تھی بھی بہت خوبصورت بلکل اپنی ماں کی طرح۔ جبکہ ساجد کا باپ سانولا تھا۔

ساجد نے بہن کو اس امیرزادے سے ملنے سے منع کیا تو اس نے کورٹ میرج کی دھمکی دے دی۔

ساجد اپنے آفس سے واپس آ رہا تھا کہ اسے بہن اس لڑکے کے ساتھ ہاتھ پکڑے کیفے سے باہر نکلتی نظر آئی۔ اس نے اتر کر اس لڑکے کو ڈانٹا اور اسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا۔ اس وقت ساجد کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہما بھی اس کو دبے الفاظ میں سمجھانے لگی مگر اس نے دوستی کا بھی پاس نہ رکھا اور صاف کہہ دیا کہ وہ اپنے پیار کو نہیں جھوڑ سکتی۔ اور بولی کہ ہو سکتا ہے تو اپنے شوہر کو سمجھاو کہ سیدھی طرح میری اس سے شادی کروا دے۔ میں اس کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گی۔ جو میرے باپ اور بھائی نے خاندان کا جو رشتہ میرے لیے پسند کیا ہے وہ مجھے قطعی قبول نہیں ہے۔ ان لوگوں کو جواب دے دیں ورنہ بعد میں شرمندہ ہونا پڑے گا۔ ہما نے شوہر کو ساری بات بتا دی مگر اس نے دھیان نہ دیا۔ ساجد نے اس کے باہر جانے اور فون رکھنے پر پابندی لگا دی۔ اس نے اسے کمرے میں بند کر دیا۔ اور اسے ڈانٹا کہ سدھر جاو ورنہ میں اور زیادہ سختی کروں گا۔ بوڑھا باپ بھی التجا کرتا کہ بیٹی سدھر جا اور بھائی کی بات مان لے ورنہ بعد میں پچھتاے گی۔ بند کمرے میں اسے کھڑکی سے ہما نے اسے اس کی پسند کے پیزا، برگر اور جوس پکڑاے اس نے جھٹ پکڑ کر مزے سے کھا لیے۔ پھر وہ باتھ روم چلی گئی۔ نہ وہ گھبرا رہی تھی نہ ہی اداس تھی۔ بلکہ نارمل تھی۔ سارا دن گزر گیا۔ ساجد بہت پریشان تھا آفس میں بھی صحیح طور پر کام نہ کر سکا۔ مگر گھر آنے کا دل بھی نہ کر رہا تھا۔ آخر مغرب ہو گئ۔ ہما اسے میسج کر کے سب بتا رہی تھی۔ ہما نے سسر کو زبردستی کھانا کھلایا اور ان کو بتایا کہ ان کی بیٹی نے سب کچھ کھا لیا ہے جو انہوں نے آرڈر کر کے منگوایا تھا انہوں نے خود آ کر دیکھا تو قدرے تسلی ہوئی۔ وہ الٹی لیٹی ہوئی تھی۔ باپ کو گردن اٹھا کر ایک نظر دیکھا اور پھر منہ دوسری طرف کر لیا۔ باپ کو قدرے تسلی مل گئی اور اس نے ہما کے بہت اصرار پر تھوڑا سا کھا لیا کیونکہ اس نے دوائی کھانی تھی۔ ہما کے سر میں درد تھا تو اس نے بسکٹ اور چاے پی کر پین کلر لے لی تھی۔ وہ سو بھی نہ سکتی تھی کیونکہ میاں کے آرڈر کے مطابق اس کی چوکیداری کرنی تھی۔

ساجد نے صبح کا کچھ نہیں کھایا تھا۔ ہما بار بار اسے میسج پر اصرار کر رہی تھی۔ اس نے اس کے اصرار پر ایک بار جوس پی لیا پھر اس کا سر دکھنے لگا تو اس نے چاے پی لی۔ اور پریشان حال گھر آ گیا۔ وہ بہن کو دیکھنے کھڑکی میں آیا تو بہن اسے دیکھ کر تیزی سے کھڑکی میں آئی اور ساجد سے بولی میں نے بہت سوچا تو مجھے یہی صحیح لگا کہ مجھے آپ لوگوں کی بات مان لینی چاہیے۔ ساجد حیران رہ گیا۔ اس نے کہا تم سچ کہہ رہی ہو۔ وہ بولی جس کی قسم مرضی لے لو۔ ہما بولی نہ نہ قسم نہ کھانا۔ پھر وہ خوشی سے بولی جب وہ کہہ رہی ہے تو سچ ہی ہو گا نا۔ اس نے ہما کو دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا۔ ہما نے دروازہ کھول کر اسے پیار کیا اس نے سوری بولا۔ باپ کے پاس گئی۔ باپ نے خوشی سے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اور کہا کہ رشتے والوں کو ہاں بول دیں تاکہ وہ آ کر رسم کر جاہیں۔ وہ بولی جب مرضی کریں۔ باپ کے اصرار پر بھائی نے اسی وقت فون کر دیا۔ اور اگلے دن ہی آنے کا بتانے لگے۔ ساجد بیوی کو ان کی خاطرمدارت کی ہدایات دینے لگا۔ ہما نے کہا آپ فکر نہ کریں میں فجر سے ہی تیاری شروع کر دوں گی۔ میں صبح سارے گھر کی اچھی سی صفائی کر لوں گی۔ وہ بولا مجھے بھی جلدی جگا دینا میں سامان لا دوں گا۔ نند بولی مجھے بھی جلدی اٹھا دینا میں بھی تمھاری ہیلپ کر دوں گی۔ وہ جوش سے بولی نہیں تم اپنے ٹاہم پر دوپہر کو اٹھنا میں کر لوں گی ویسے بھی ان لوگوں نے شام کو آنا ہے۔

ساجد اس کا باپ اور ہما ملکر لسٹ بنانے لگے۔ ہما نے کہا اب اس کا فون اسے دے دیں۔ وہ بولا ابھی نہیں۔ وہ اندر آ رہی تھی اس نے سن لیا اور ہما ڈارلنگ مجھے نہیں چاہیے اب فون۔ میں نے کسے کرنا ہے۔ جو بیسٹ فرینڈ تھی وہ بھابی بن کر گھر میں آ گئ ہے۔ باپ اور بھائی گھر میں ہیں پھر کسے کرنا ہے۔

ہما کا شوہر رات لیٹ ناہٹ تک اسے کمرے میں جاکر دیکھنے کی ہدایات کرتا رہا۔ مگر ہر بار وہ آنکھیں موندے ریلیکس سوئی ہوئی ہوتی۔ آخر گھر اچھی طرح لاک کر کے وہ لوگ سو گئے۔ رات تین بجے ہما واش روم کے لیے اٹھی تو ساجد نے بھی نیند بھری ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھ کر پریشانی سے پوچھا کہ کیا ہوا وہ بولی میں واش روم کے لیے اٹھی تھی سوچا دیکھ آوں وہ سو رہی ہے۔ وہ سن کر مطمئن ہو کر سو گیا۔

فجر کے الارم سے ہما کی آنکھ کھلی تو پہلے جا کر نند کو دیکھا وہ چادر اوڑھ کر سو رہی تھی وہ جوش اور خوشی سے کام نمٹانے لگی آج سسر بھی لیٹ اٹھے۔ اس نے شوہر کو سونے دیا کہ وہ جلدی تیار کر لے گی سب کچھ۔ نہ ہوا تو بازار سے لے آہیں گے۔ اس لئے شوہر لیٹ اٹھا تو اس نے کہا مجھے کیوں نہیں جایا۔ وہ بولی بازار سے آ جاے گا اور دیکھ کر آئی ہو۔ ہما وثوق سے بولی ہاں بابا سو رہی ہے۔ کتنی بار دیکھوں۔ اس نے جمائی لی تو ساجد نے کہا کہ تم بھی آرام کرو اس کی بھی آنکھیں بند ہونے لگی۔ تو اس نے کہا اچھا میں تھوڑی دیر آرام کر لیتی ہوں آپ کا ناشتہ بنا ہوا ہے وہ بولا میں لے لوں گا۔

ساجد چاے کا کپ پکڑے باپ کے پاس ا کر باتیں کرنے لگ گیا۔

پارٹ۔ 6

ساجد چاے پی چکا تو باپ نے کہا کہ ہما جاگی ہےکیا۔ وہ بولا کچن سے آوازیں تو آ رہی ہیں اس نے کچن میں جاکر ہما سے پوچھا ایسا ہے کہ تم گھر میں کچھ نہ بنانا میں باہر سے لے آوں گا۔ وہ بولی سونے سے طبیعت بہتر ہو گئی ہے۔ ویسے بھی وقت کم ہے اور وہ لوگ ا نہ جائیں۔

وہ بولا اس ملکہ عالیہ کو بھی جگاو اور ڈھنگ کا ڈریس پہنے اور ان لوگوں سے ڈھنگ سے بات چیت کرے اسے سمجھا دینا۔

جی اچھا آپ فکر نہ کریں دیکھا نہیں کتنی بدل گئی ہے۔

وہ جواب میں خاموش رہا۔

اتنے میں باہر ڈور بیل ہوئی۔ ساجد بولا کون ہو گا۔ ہما بولی کوئی مانگنے والا ہو گا کام والی ملازمہ بھی ہو سکتی ہے گاوں گئ تھی بول رہی تھی کہ چند دن تک آ جاے گی۔ دودھ والا بھی دودھ دے گیا ہے۔ پھر زور سے بیل بجی۔

ہما بولی یہ بچے ہوں گے چھت پر بال آئی ہو گی۔

ساجد بولا میں تیار ہونے جا رہا ہوں تم دروازہ کھولو۔

ہما بولی آپ کی چھٹی کا مجھے کیا فائدہ۔ دودھ چولہے پر چڑھا رکھا ہے میں نہیں جا سکتی پلیز۔

وہ دروازے کی طرف چل پڑا ڈور بیل پھر زور سے بجی۔

ساجد زرا تیز آواز میں بولا آ رہا ہوں زرا صبر۔دروازہ کھولا تو سامنے اس کی بہن کے رشتے والے کھڑے ہوئے تھے وہ انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے دیکھ کر بولے بای ہم سے صبر نہ ہوا ہم نے سوچا گھر کی بات ہے پہلے ہی چلے جاتے ہیں۔ وہ خوشی سے مسکراتے ہوئے لڈو اور مٹھائی کے ٹھوکروں سمیت اندر آ گئے۔

ساجد اپنے ناہٹ سوٹ پہنے شرمندہ سا ہو رہا تھا وہ بولے لگتا ہے۔ بہن کے شگن کے لیے آج چھٹی منا رہے ہو۔ وہ سر جھکا کر شرمیلی سے مسکرا کر انہیں اندر لے آیا۔

ہما کچن سے باہر نکلی اور حیرت سے انہیں مٹھائی، فروٹ کے ٹھوکروں سے لدھے پھندے دیکھ کر حیرت سے بڑے تپاک سے ملی۔ مہمان عورت نے پوچھا ہماری شہزادی کدھر ہے۔ ہما نے جلدی سے کہا جی وہ باتھ روم میں ہے آپ لوگ بیٹھیں میں اسے بلاتی ہوں۔ انہوں نے ڈرائنگ روم کی بجائے الاونج میں بیٹھنا پسند کیا۔ اور بےتکلف ہو کر ساجد سے باتیں کرنے لگے۔ ہما سسر کو بھی لے آئ۔

ساجد نے کھڑے ہو کر معزرت چاہی کہ میں زرا تیار ہو آوں تو مہمان عورت نے کہا کہ بیٹا گھر میں ہو ایزی رہو۔ ہم کون سا پراے ہیں۔ بیٹھو۔ ہم نے تو صبح ہونے کا انتظار بھی۔ مشکل سے کیا تمھارے انکل کہہ رہے تھے کہ میں نے انہیں شام کا بولا ہے مگر میں نے کہا کہ ہم کون سا پراے ہیں اپنا گھر ہے۔

ہما کے سسر نے کہا کہ جی بہت ا چھا کیا۔ آپ لوگوں کا اپنا گھر ہے۔ مگر آپ لوگوں نے اتنا تکلف کیوں کیا۔

عورت بولی تکلف کیسا یہ تو ہماری خوشی ہے۔ ہما معزرت کرتی جانے لگی تو مہمان مرد بولا کچھ بھی تکلف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ناشتہ کر کے آے ہیں اب ایک بار ہم شگن کی مٹھائی کھاہیں گے۔

مہمان عورت بولی بس جلدی سے ہماری بیٹی کو بلا لاو۔

ہما جلدی سے نند کے کمرے میں بھاگی۔

مہمان عورت بھی اٹھی اور بولی میں زرا واش روم سے ہو آوں۔ ساجد اٹھنے لگا تو وہ جلدی سے بولی بیٹھو بیٹھو میں ہما سے پوچھ لوں گی۔

ساجد کھویا کھویا مہمان مرد کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا ایک تو اسے اپنے ناہٹ ڈریس سے شرم آ رہی تھی۔ اوپر سے بہن کے رویے کی بھی فکر تھی۔

ہما کمرے میں پہنچی تو نند کے بیڈ کے پاس جا کر کھڑی ہوئی تو دیکھا پیچھے مہمان عورت بھی مسکراتی کھڑی تھی بولی واش روم جانا تھا۔ ہما بولی لگتا ہے تھک کر پھر سو گئ ہے صبح سے میرے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ عورت بولی اچھا جگاو ہم نے شگن بھی کرنا ہے۔ پھر آج ہی شادی کی تاریخ بھی فکس کرنی ہے۔

ہما نے اس کے منہ سے چادر ہٹائی تو نیچے تکیے پڑے تھے ہما کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ عورت بھی حیرت سے بولی یہ کیا ماجرا ہے۔ ہما جواب نہ دے سکی۔

ساجد کے باپ کا فون بجا اور اس نے جیب کمزور ہاتھوں سے نکالا۔ اور بیٹے سے بولا سپیکر آن کر دے۔ دیکھوں کس کا ہے۔ بیٹے نے باپ کے حکم کی تعمیل کی اور سپیکر آن کیا تو ہما کی نند بولی ڈیڈ میں نے آپ کو بھائی کو کتنا سمجھایا کہ جہاں میں چاہتی ہوں وہاں میری شادی کر دیں مگر آپ لوگوں نے میرے ساتھ پکی ضد لگائی مجھے سارا دن کمرے میں بند رکھا۔ اب میں گھر سے جا رہی ہوں اپنی پسند سے شادی کرنے۔ بھائی کے ہاتھ سے فون گر گیا۔ وہ عورت کمرے میں غصے سے آئی۔ ہما بھی پیچھے پیچھے آ گئ آگے فون پر سپیکر سے آواز آ رہی تھی۔

وہ عورت غصے سے چلائی توبہ توبہ کیسے دھوکے باز لوگ ہیں اپنی آوارہ لڑکی کو ہمارے سر منڈھ رہے تھے۔ یہ اپنے ہو کر ہمیں دھوکہ دے رہے تھے تو بندہ غیروں پر کیا بھروسہ کرے۔ یہ تو ہمارا بیٹا اس کی خوبصورتی پر فدا ہوا تھا پھر شوہر اور بیٹے کو سامان اٹھا کر چلنے کا بولا مرد بھی برا بھلا کہنے میں بیوی کا ساتھ دینے لگا۔ اور وہ طعنے دیتے بکتے جھکتے چلے گئے۔

ساجد کا شرمندگی اور غصے اور دکھ سے دماغ پھٹنے لگا تھا بیوی نے کندھے پر ہاتھ رکھ تسلی دی تو اس نے بےبسی سے اسے دیکھا۔ ہما کی نظر سسر پر پڑی تو وہ صوفے پر گرے ہوئے تھے۔

ہما نے چلا کر ساجد سے کہا ساجد ابا جی۔ اس نے باپ کو دیکھا تو تیزی سے اٹھا اور انہیں گود میں اٹھا کر بولا گاڑی کی چابی لاو۔

وہ بھاگ کر چابی لائ پچھلا دروازہ کھولا انہیں لٹایا۔ اتنے میں ہما اس کا پرس لے آئ۔

وہ دونوں جلدی سے گاڑی میں بیٹھے باہر نکلے تو چند محلے دار کھڑے ہوئے تھے اور پوچھنے لگے ابھی وہ لوگ بتا رہے تھے کہ آپ کی بہن کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ اور آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں ہما نے چلا کر کہا پلیز تنگ نہ کریں انکل کی طبیعت خراب ہو گئی ہے انہوں ہاسپٹل لے کر جارے ہیں۔ ایک بولا ظاہر ہے بیٹی جو ایسے کرتوت کرے تو باپ کی طبیعت تو خراب ہونی ہی تھی۔ وہ لوگ گیٹ بند کرنا بھی بھول گئے ہما نے دیکھا ایک محلے دار گیٹ بند کر رہا تھا۔

ساجد کے دوست کا کلینک تھا وہ اسی سے باپ کا علاج کرواتا تھا۔

ساجد تیز اور رف گاڑی چلا رہا تھا اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ گاڑی کو کسی گاڑی سے ٹکرا دے۔ ہما چلا رہی تھی۔ اس کا دماغ ماوءف ہو رہا تھا۔ ہما نے احساس دلایا کہ ابا جی بھی ساتھ ہیں۔ تو اسے ان کا احساس ہوا اور وہ محتاط ہو گیا۔ بڑی مشکل سے ہاسپٹل پہنچا تو ہما نے بھاگ کر اس کے دوست کے روم میں جا کر جلدی سے اسے ساری سسر کی طبیعت کا بتایا وہ چاے پی رہا تھا نرس پاس کھڑی تھی۔ اس نے کہا کہ بھابی آپ پریشان نہ ہوں چاے کا کپ رکھا اور نرس کو سٹریچر لانے کی ہدایت کرنے لگا۔

ہما باہر آئ تو ساجد بھی صوفے پر اوندھا گرا بےہوش پڑا تھا۔ ہما رونے لگی ڈاکٹر صاحب نے تسلی دی اور عملے کو بلایا۔

ایک طرف ساجد اور دوسری طرف سسر کا علاج جاری تھا۔ ہما نے چلتے وقت موبائل تو اٹھایا تھا مگر اب اس کے ہاتھ میں نہ تھا وہ تیزی سے گاڑی کی طرف بھاگی۔ گاڑی کا ایک دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اور گاڑی کی چابی لگی ہوئی تھی گارڈ ا گیا وہ جانتا تھا اس نے کہا کہ دروازہ کافی دیر سے کھلا ہوا تھا میں دیکھ رہا تھا بی بی جی آپ پریشان نہ ہوں۔ اس نے اگلی سیٹ پر دیکھا موبائل نیچے گرا ہوا تھا اس نے گارڈ کو نظرانداز کیا تو وہ چل پڑا پھر اس نے گاڑی کے پاس کھڑے ہو کر نرگس کو رو رو کر فون ملایا اور ساری کہانی جلدی سے سنا ڈالی۔ وہ اس وقت گاوں سے ابھی شفٹ نہ ہوئی تھی وہ اسے پیار سے تسلیاں دینے لگی۔ وہ بولی میری جان میں آ تو نہیں سکتی۔ مگر تمھارے بہنوئی کو ابھی فون کرتی ہوں وہ آ جاہیں گے۔ پھر وہ اس سے مسلسل فون پر رابطے میں رہی اور تسلیاں دیتی رہی

۔ اس کا شوہر بھی پہنچ چکا تھا۔ اور ہما کو کچھ آسرا مل گیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب نے ہما سے پوچھا بھابی کیا بات ہے آخر کیا ہوا ہے۔ وہ نظریں جھکائے بولی بھائی شوہر کی اجازت کے بغیر آپ کو نہیں بتا سکتی۔ کچھ گھریلو معاملہ ہے مگر اتنا بتا دوں کہ دونوں کو گہرا صدمہ پہنچا ہے جو ان دونوں کے لئے برداشت کرنا مشکل ہے۔ اور وہ جلدی اس شاک سے نہیں نکل سکتے۔ بحرحال میں اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گی۔ کہ جلد ان کو شاک سے نکال سکوں۔

ڈاکٹر صاحب نے ایک لمبا سانس کھینچا اور بولا مجھے بھی شک تھا کہ ان لوگوں کو کوئی گہرا صدمہ لگا ہے۔ بہرحال زندگی میں یہ باتیں لگی ہوئی ہیں۔ دکھ سکھ ملتے رہتے ہیں۔ آپ کو ان دونوں کو یہاں ایڈمٹ کرنا پڑے گا۔ میں ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا رہوں گا۔ پر آپ بھی تو حوصلے سے کام لیں ورنہ مجھے لگتا ہے آپ کو بھی ایڈمٹ ہونے کا شوق ہے۔ پلیز بھابی آپ ہمت سے کام لیں۔ اللہُ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔

اسے ڈاکٹر صاحب کی ہمت بندھانے سے قدرے ہمت ملی۔ نرگس بھی بار بار اسے سمجھا رہی تھی کہ خدانخواستہ کوئی مر تو نہیں گیا نا جو تم اتنی پریشان ہو کر اپنا سکون اپنی صحت خراب کر رہی ہو۔ خود بھی نارمل رہو اور ان کو بھی تسلی دو۔ پاگل لڑکی گھر بھی کھلا چھوڑ آئی ہو۔ کسی اعتبار والی پڑوسن کا فون نمبر ہے تو اسے فون کر دو تاکہ وہ خیال رکھے۔ سارے محلے کو پتا ہے کہ گھر کھلا ہوا ہے۔ ایک کسی کو زمہ داری دے دو۔ وہ بولی اچھا آپا ہے نمبر میں کرتی ہوں۔ مجھے تو فکر ہو رہی ے کہ میں محلے والوں کا فیس کیسے کروں گی۔ بہت بدنامی ہوئی ہے سارے محلے کو پتا چل چکا ہے۔کمبخت جاتے جاتے سارے محلے کو بتا گئ۔ اسے ادھر سے بہت جہیز ملنے کا لالچ تھا۔ وہ باتوں باتوں میں کہہ رہی تھی کہ لوگ بیٹی کے جہیز میں چھوٹی موٹی اور فضول چیزوں پر اتنا روپیہ برباد کرتے ہیں۔ فرنیچر، برتن کپڑا لتا۔ یہ سب چیزیں ہر گھر میں پہلے ہی موجود ہوتی ہیں۔ پھر اور گھر بھر دیتے ہیں بہتر ہے کہ کوئی ایک ہی بڑی چیز دے دیں جیسے، پلاٹ، گاڑی وغیرہ۔

نرگس بولی میں نے تو ساس سسر کو سب سچ بتا دیا ہے ویسے بھی ان کو بیٹا بتا دے گا۔ اور ان کو ایک دن پتا تو چل جائے گا۔ تم بھی فکر نہ کرو محلے والے باتیں بنائیں گے پھر خود ہی بھول جاہیں گے۔ میں ساس کو منانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ سسر کے ساتھ آ جاوں۔ کچھ نیم رضامند ہو گئ ہیں اور ان کو بھی منا رہی ہوں۔ تم فکر نہ کرو۔ میں خود تمہارے پاس آنے کے لئے تڑپ رہی ہوں میری جان۔

ناول پارٹ 7۔

نرگس کے سسر نے بہو کے ساتھ جانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ نرگس جلدی سے تیار ہونے چل پڑی۔

نرگس کو سامنے پا کر ہما گلے لگ کر رونے لگی تو بڑی مشکل سے اس نے اسے تسلی دے کر چپ کرایا۔ نرگس کے سسر نےشفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی۔ اسے ان کے آنے سے کافی ڈھارس بندی۔

ساجد کو ہوش آ چکا تھا ساتھ والے بیڈ پر باپ آنکھیں موندے پڑا تھا ڈاکٹر ابھی ابھی گیا تھا اور بتایا تھا کہ باپ کو شاک لگا ہے۔ بروقت پہنچ جانے سے اس کا علاج ہو گیا ان کے سامنے کوئی پریشانی والی بات نہ دھرائی جائے۔ یہ بات ڈاکٹر نے نرگس وغیرہ کے سامنے بولی تو نرگس نے سسر اور شوہر کو سرگوشی میں منع کر دیا۔

نرگس کے شوہر اور سسر کو دیکھ کر ان سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔ انہوں نے اس کا حال پوچھا تو وہ صرف ہونٹ ہلا کر رہ گیا۔ ڈاکٹر صاحب ساجد کے دوست تھے انہوں نے کہہ دیا کہ کسی کو رات کو ساتھ رہنے کی ضرورت نہیں میں نے عملے کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔

رات کافی ہو چکی تھی ساجد نے ہما سے کہا اب سب گھر جا کر آرام کرو۔ ہاسپٹل کی کینٹین سے سسر اور شوہر کو نرگس نے کھانا کھانے بھیج دیا تھا۔ اس نے اور ہما کو برگر اور جوس کھلا دیا تھا۔ نرگس نے کہا کہ چلو اب ہما گھر چل کر آرام کرو ورنہ ایک بیڈ تمھارا بھی لگانا پڑے گا۔ پھر اس نے سسر کو گاڑی میں لے جانے کا اشارہ کیا اور ہما دروازے کے باہر کھڑی تھی تو نرگس نے ساجد کو ڈانٹ پلانے والے انداز میں سمجھاتے ہوئے کہا کہ تم نے اپنی کیا حالت بنا لی ہے تمہیں کچھ ہو گیا تو ہما کا کیا ہو گا تمھارے بوڑھے باپ کا کیا ہو گا۔ کچھ ان کا ہی خیال کر لو۔ اس بے وقوف لڑکی کی بےوقوفی سے اپنی زندگی داو پر لگا دی ہے۔ کچھ ایسا نہیں ہوا ہے جس کا تم نے اتنا اثر لیا ہے۔ زیادہ قصور تمھارا ہے جہاں وہ کہتی نہیں مان رہی تھی تو اس کی شادی کر دیتے۔ اگر تم لوگ سمجھتے تھے کہ اس سے شادی کر کے اس کے ساتھ کچھ برا ہو جائے گا تو اس برے سے بہتر تھا وہ برا۔ اب بھی وہی ہوا۔ اب بھی وہی بھگتے گی۔ کم از کم اتنی بدنامی کا باعث تو نہ ہوتا۔ اب جلدی سے اٹھو اور اپنے آپ کو نارمل کرو اگر باپ کا خیال نہیں ہے تو پڑے رہو ادھر اور باپ کو آگے بھیجنے کی تیاری کرو۔ اگر انکی زندگی، صحت کا خیال ہے تو جلدی سے اپنے آپ کو نارمل کرو ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ تاکہ باپ بھی نارمل ہو جائے۔ تمھیں پتا بھی ہے ہما کی کیا حالت ہے۔ وہ کتنی پریشان ہے۔اب میں کل تمھیں چلتا پھرتا دیکھوں اور کل تم نے ساتھ گھر چلنا ہے اپنے ابو کے ساتھ اور وہاں ان کو خوش اور نارمل رکھنا ہے۔ اچھا اب میں چلتی ہوں۔ سب انتظار کر رہے ہیں۔

ساجد نے کمزور سی آواز میں آہستہ آہستہ بولتے ہوئے کہا کہ آپا آپ سب کا بہت شکریہ۔ اس مشکل وقت میں ساتھ دینے کا۔ میں آپ کی باتوں پر عمل کروں گا آپ سچ کہتی ہیں۔ مجھے اس کی پسند سے شادی کر دینی چاہیے تھی۔ ورنہ آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

نرگس نے بہن کو اس کے گھر کو سنبھالا۔ صبح سب کے لیے ناشتہ بنا کر کروایا۔ ہاسپٹل کے لیے سوپ بنایا اور چند دن وہاں رکنے کی اجازت چاہی۔ سسر واپس چلا گیا۔ نرگس کے شوہر نے دو چھٹیاں لے لیں۔

ساجد اور اس کا باپ گھر آ گئے۔ محلے والوں کو نرگس نے ان لوگوں سے سختی سے ملنے سے روکے رکھا کہ ڈاکٹر صاحب نے ملنے جلنے والوں سے منع کر رکھا ہے۔ اگر کوئی ہما کی نند کے ٹاپک پر بات کرتا تو اس کی طبیعت صاف کر دیتی کہتی۔ دو بندے اس وجہ سے مرتے مرتے بچے ہیں اور آپ لوگ زخموں پر نمک چھڑک کر پوچھتے ہیں اب طبیعت کیسی ہے۔ اس نے اتنی سختی کی کہ پھر کسی کو کم از کم سامنے بولنے کی جرات نہ ہوئی۔

ہما اور ساجد اس کے شکر گزار تھے کہ اس نے سب کے منہ بند کر دیئے۔ ساجد نے ان دونوں کا بہت شکریہ ادا کیا۔ چند دن تک ساجد سنبھل گیا اور آفس جانے لگا۔ ساتھ ہی وہ گھر بیچ کر دوسری جگہ شفٹ ہو گیا وہاں بنا بنایا گھر خرید لیا۔ باپ بھی اب سنبھل چکا تھا کچھ ہما کی بے لوث خدمت اور نرگس کے سمجھانے بجھانے پر وہ ریلیکس ہو گیا تھا کیونکہ ہما نے جھوٹ بول دیا تھا کہ وہ بہت خوش ہے۔ آپ سے بات نہیں کرتی کہ شرمندہ ہے۔ وہ اس کے سامنے نرگس سے بات کرتی ایسے ظاہر کرتی جیسے وہ اپنی نند سے بات کر رہی ہے۔

اگر کوئی رشتہ دار بھی آتا تو ہما نرگس کی پڑھائی پٹی کے مطابق ان کی خبر لے لیتی کہ بمشکل ان کو موت کے منہ سے بچایا ہے آپ انہیں مارنا چاہتے ہیں۔

ساجد نے رشتہ داروں سے ملنا جلنا کافی حد تک کم کر دیا تھا۔ کچھ کو تو اس کے نیو گھر کا ایڈریس بھی معلوم نہ تھا۔

زندگی معمول پر آ چکی تھی۔ ساجد کو آفس کی طرف سے ایک سال کے لئے بیرون ملک جانا پڑا۔ ساجد کے پیچھے ہی اس کی بیٹی اور بھانجی نے جنم لیا دونوں میں دو ماہ کا فرق تھا۔

اس دوران نرگس آ نہ سکی۔ ہما نارمل ڈلیوری کی وجہ سے جلد اٹھنے کے قابل ہو گئ۔ سسر بیٹی کی موت سے ادھ منہ ہو چکا تھا۔ ساجد تک خبر پہنچ چکی تھی مگر اس نے اس وقت بچی کو گود لینے پر کوئی احتراز نہ کیا۔ اس نے دونوں کی فوٹو اس کو بھیج دی۔ وہ اپنی خوبصورت بیٹی کو پا کر بہت خوش تھا اور اس سے ملنے کے لیے تڑپ رہا تھا۔

نرگس کے سسر کی ان دنوں طبیعت سخت خراب تھی جس کی وجہ سے وہ بہن کی طرف نہ جا سکی۔ سسر کے بعد ساس کی طبیعت خراب ہو گئی۔ جوں ہی وہ ٹھیک ہوے چاروں عمرے پر چلے گئے۔ عمرے سے واپسی پر اس کی نند عمرے پر آ گئ اور اسے بہن سے ملے چار ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ پھر اس نے کوشش کر کے اسی کے شہر رہاہش اختیار کر لی۔ وہ اپنی خوبصورت بھانجی سے ملنے کو بےچین تھی۔ فوٹو دیکھ کر فدا تھی۔

ہما کے لیے دو بچیوں کو پالنا کافی مشکل تھا مگر اس نے اللہُ تعالیٰ سے مدد مانگی تھی اور اسے دن رات کے لیے ملازمہ دستیاب رہی۔

سسر بھی بچیوں کو دیکھ کر خوش بھی ہوتے اور بہو کے بھی شکرگزار تھے۔ وہ روتے کے آخری وقت بیٹی کا دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔ بیٹا بھی آنے والا تھا۔ ہما اکیلی تھی آس پڑوس اچھے تھے اس کا ساتھ دیتے۔ جس سے اس کا مشکل وقت آسانی میں بدل گیا۔

اب نرگس قریب بیس منٹ کی ڈرائیو پر شفٹ ہو گئی تھی۔ اور آتی جاتی رہتی۔ بھانجی پر جان چھڑکتی مگر نند کی بیٹی کو کوستی رہتی۔

ساجد پاکستان آ چکا تھا۔ اس کے آنے کے ایک ماہ بعد اس کا باپ چل بسا۔

ساجد نے آ کر بھانجی کو اس کے باپ کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ مگر ہما نے اسے سچ بتا دیا کہ اس نے اپنی اور نند کے ساتھ شادی کو والدین سے چھپائے رکھا اور اب بیوی مر گئی ہے تو وہ بچی کو نہیں پال سکتا اسے پالنے کی رکوسٹ کی۔

بچی کی بہتری کے لئے اس نے باقی باتیں شوہر سے چھپا لیں کہ اس نے جھوٹ بولا کہ بچی مر گی ہے۔ اور اب وہ چلا گیا ہے اور اسے اس کا اب کوئی علم نہیں۔ یہ بات سچ تھی کہ ہما کو اس کا کچھ علم نہ تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے نہ ہی دوبارہ اس نے کھبی رابطہ کیا تھا۔

ساجد جب بھانجی کو دیکھتا تو اسے کے زخم ہرے ہو جاتے۔ وہ اسے گھر سے نکالنے کا ضرور کہتا مگر یہ بات وہ دل سے نہ چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ہما اسے کھبی نہ چھوڑے گی۔ ایک دن کی اس نے پالی تھی۔ اپنی بیٹی اور اس میں فرق نہ رکھتی تھی۔ وہ اس کے خلوص پر حیران ہوتا۔ دل سے اس کا قائل بھی ہوتا مگر اپنی اکڑ والی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے اس بچی کی بابت کوستا رہتا۔ جو بیوی کو غلام دیکھنا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی پر چلانا چاہتے ہیں۔ ہما نے اس کی ہر بات مانی تھی سوائے اس بچی کے۔ جس کی وجہ سے ساجد چڑچڑا رہتا اسے یہ بات ہضم نہ ہوتی کہ کیسے اس کی بیوی اتنا بڑا فیصلہ اس کی غیر موجودگی میں اکیلی کر سکتی ہے۔ جب باپ زندہ تھا تب وہ اسے لینے پر کچھ نہ بولا تھا جب ہما فیصلہ کر چکی تب آ کر باپ کے مرنے کے بعد اسے اعتراض یاد آیا۔ اس کی اناء کو ٹھیس لگی تھی۔ ہما اس سے دبی رہتی اس کی ہر بات مانتی مگر بچی کو پالنا نہ چھوڑ سکتی تھی۔ ساجد کچھ بہن کے دیے زخم اور کچھ ہما کی اس معاملے میں نافرمانی برداشت نہ تھی جس کی تسکین وہ اسے طعنے دے کر پوری کرتا۔

ناول پارٹ۔ 8

ہما کو ایک دن نند کا میسج آیا کہ پلیز فری ہو کر کال کرنا تمہیں اپنی دوستی کا واسطہ۔ ہما نے اسے میسج کیا میں خود تمہارے لیے پریشان تھی۔ میں نیو سم نیو چھوٹا Nokia موبائل لوں گی اور چھپا کر جب بھی موقع ملے تم سے بات کیا کروں گی۔

اس نے جب اس سے بات چیت کی تو کافی پریشان رہی۔ میاں اس کا باہر جانے والا تھا اس لیے وہ اس سے زیادہ بات نہ کر سکتی تھی۔ جب میاں پردیس چلا گیا تو اسے گھر کے باہر کے کام بھی خود ہی انجام دینے پڑتے۔ اب وہ نند سے بات کرتی۔ اس کے لیے پریشان رہتی۔ شکر کرتی کہ اس ایریا کے پڑوسی اچھے اور ساتھ دینے والے تھے۔ ساتھ جڑا گھر اس کے لیے نعمت سے کم نہ تھا بوڑھے میاں بیوی اور ان کی بہو بیٹا رہتے تھے۔ ان کے تھوڑے بڑے دو بچے تھے ایک بیٹا ایک بیٹی۔ بیٹا بارہ سال کا اور بیٹی دس سال کی۔ شروع میں ہما نے ان کا بہت ساتھ دیا جب بہو باپ کے مرنے پر چالیس دن ادھر ہی رہی۔ اتفاق سے بچوں کی گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ ہما نے اس کے ساس سسر کی پوری زمہ داری سنبھال لی۔ ناشتے سے لیکر رات کے کھانے تک۔ اپنی نگرانی میں ان کی ماسی سے صفائی کرواتی کپڑے ان کے اپنی آٹومیٹک مشین میں دھوتی۔ غرض جی جان سے خدمت کرتی۔ ان سے کھانے پینے کا خرچہ بھی نہ لیا۔ تب سے اس فیملی نے ہما کا جی جان سے ساتھ دیا۔

ہما کی نند نے اپنے بوائے فرینڈ سے بات کرنے کے لیے ایک سمارٹ فون میں اس کا نمبر save کیا اور ایک Nokia چھوٹے موبائل میں جسے وہ چھپا کر رکھتی۔ اسے ڈر تھا کہ باپ اور بھائی اس کا خاندان میں رشتہ کرنا چاہتے ہیں وہ لوگ اسے سخت ناپسند تھے لڑکے کی ماں اسے لالچی اور چڑیل لگتی۔ اور لڑکا اس کے آہیڈیل کے بلکل برعکس اسے بونگا لگتا جو جاہلانہ طریقے سے اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا۔ خاندان کے ہر فنکشن میں اس کے گرد منڈلاتا رہتا۔ رشتے دار لڑکیاں طنزیہ مسکراتیں۔ اسے اس کا مجنون قرار دیتیں۔ اسے سخت الجھن ہوتی۔ اس کی ماں بھی اس پر واری صدقے جاتی۔ کئی بار تو اس نے مشہور کر دیا تھا کہ اس نے اس کا رشتہ کر لیا ہے۔ وہ یہ سن کر کھول کر رہ جاتی۔ اس نے ان لوگوں کو کھبی لفٹ نہ کرائی۔ وہ لڑکا ایف ایس سی تھا اور کسی پرائیویٹ فرم میں ملازم تھا۔ جبکہ وہ انجینئر تھی۔ اسے حیرت ہوتی کہ گھر والے بھی ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ جاتے۔ وہ اس رشتے سے مسلسل انکار کرتی مگر وہ دھیان ہی نہ دیتے۔ اس نے کئی بار انتہائی قدم اٹھانے کی بھی دھمکی دی مگر وہ لوگ ٹس سے مس نہ ہوے۔ اس کی پڑھائی ختم ہونے کے بعد کا بہانہ بنا کر ٹالتے رہے۔ ان لوگوں نے بھی پیچھا نہ چھوڑا مسلسل اصرار کرتے رہے۔

ہما کی نند بہت خوب صورت اور اکڑوں تھی۔ فیشن کی دلدادہ بھی تھی۔ پہلے تو والدین نے کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ بھائی اس وقت کسی گنتی میں ہی نہ تھا۔ جب تک سوتیلی ماں زندہ تھی۔ حالانکہ ساجد برسرروزگار تھا باپ بھی ریٹائرڈ ہو چکا تھا۔ بہن تو اسے لفٹ ہی نہ کراتی تھی۔

ماں کی وفات کے بعد بھائی سربراہ بن گیا تو بہن بھی اس کے آگے اب زیادہ نہ بول سکتی تھی کیونکہ ماں کے مرنے کے بعد باپ کی توجہ کا مرکز اب بیٹا بن گیا تھا اور باپ اب اسے بھائی کی فرمانبرداری کرنے اور فضول خرچی پر باز پرس کرنے لگا تھا۔ بھائی بھی اب اس پر روک ٹوک کرنے لگا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ چڑچڑی ہو گئ تھی۔ وہ لاہف کو ہر لمحہ انجوائے کر کے گزارنا چاہتی تھی۔ اس لیے وہ ہر وقت انجوائے کرنے کے لیے کبھی شاپنگ کے لیے نکل جاتی کھبی قریبی پارک چلی جاتی۔ اسے اس بات کی قطعی فکر نہ ہوتی کہ کوئی کیا کر رہا ہے اور کوئی کیا کہے گا۔ گھر ہوتی تو اونچی آواز میں میوزک سنتی۔ کھبی ڈانس کرتی۔

ناول پارٹ۔ 9

ہما کی نند کو ڈر تھا کہ گھر والے اس کی شادی خاندان میں کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ان لوگوں کو ایک لمحہ بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی تھی جس کے ساتھ وہ زہنی طور پر مطمئن رہتی تھی اور خوش بھی۔ وہ گھر والوں کے آگے رو پیٹ چکی تھی مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا تھا۔ اب وہ کوئی انتہائی قدم اٹھا کر اس مسئلے کا حل چاہتی تھی۔

اس کا بوائے فرینڈ مالدار اور خاندانی تھا وہ شاپنگ مال میں چیزیں دیکھ رہی تھی جب دونوں کا سامنا ہوا۔ اسے یہ لڑکا اپنے سپنوں کے مطابق لگا۔ وہ اس کے بارے میں جاننا چاہتی تھی اس نے اس کے سامنے اپنا شاپر بھولنے کی اداکاری کرتے ہوئے اپنا شاپر ادھر ہی چھوڑ دیا اور آگے بڑھ گئی۔ اسے امید تھی کہ وہ پیچھے آئے گا کیونکہ وہ اس کی آنکھوں میں اپنے لیے پسندیدگی کی چمک دیکھ چکی تھی۔ وہ اس کی امید کے مطابق پیچھے اسے مس مس کہتا آ رہا تھا اور وہ آگے بڑھتی جا رہی تھی وہ اس رش والی جگہ سے نکل کر کیفے کی طرف بڑھتی گی ایک ٹیبل پر جا کر بیٹھ گئی۔ وہ بھی ہانپتا ہوا اس کی سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ کر بولا آپ نے بہت دوڑ لگوائی ہے وہ مسکرائی تو لڑکے کو بھی حوصلہ افزائی ملی۔ وہ بھی جواب میں مسکرا دیا۔ اس طرح دونوں کی دوستی کی ابتداء ہوئی۔ اس لڑکے نے بتایا کہ اس کے گھر والے بھی اس کی شادی خاندان میں کروانا چاہتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی نسل میں کسی غیر خاندان کا خون شامل نہیں کریں گے۔ اب وہ دونوں پریشان تھے تو لڑکے نے گھر والوں کو کہا کہ وہ اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتا ہے تو باپ نے اس کی توقع کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر اس نے ان کی بات نہ مانی تو وہ خود کو بھی گولی مار دیں گے اور تمھیں بھی گولی مار کر اپنی نسل ختم کر دیں گے۔ اور اس نے بھی شرط رکھ دی کہ وہ خاندان میں جس سے بھی کہے گا وہ اس سے کرواہیں گے باپ نے شرط مان لی۔ اس نے بھی غصے اور انتقام میں ان کے رشتے داروں میں جو سب سے پینڈو لوگ تھے اور ان کی بیٹی مڈل پاس تھی اس سے شادی کرنے کی شرط رکھ لی ورنہ کھبی شادی نہ کرنے کی دھمکی دے دی۔ وہ مجبور ہو گئے اور اس کی شرط مان لی۔ اور لڑکی والوں سے رشتہ پکا کر دیا۔ اور اس کی شادی کی تیاریاں زور وشور سے شروع کر دیں۔

ادھر ہما کی نند کو اس بارے میں اس نے کچھ نہ بتایا وہ اس سے پیار کرتا تھا پیسے والا تھا اسے الگ رکھ کر اس سے بھی خفیہ شادی قائم کرنا چاہتا تھا۔ اس نے ہما کی نند کے کہنے پر اس کے بھائی کو فون کیا اور سب سچ بتا دیا اور اپنی مجبوری ظاہر کر دی۔ جواب میں اس کے بھائی نے اس کی خوب بےعزتی کی کہ تم امیرزادہ ساری زندگی میری بہن کو رکھیل بنا کر رکھنا چاہتے ہو۔ ایسا تم نے سوچا بھی کیسے ہم خاندانی لوگ اس بات کے لیے مان جائیں گے۔ اور آہندہ میری بہن سے ملنے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔ اس نے بہن کو بھی سختی سے ڈانٹ کر منع کر دیا۔

بہن اس دن ماں کو یاد کر کے بہت روئی۔ ہما اسے تسلیاں دیتی رہی۔ وہ روتے ہوئے بولی آج میری ماما زندہ ہوتی تو وہ ضرور میری خواہش اور خوشی کا خیال رکھتی۔ آج ان کی لاڈلی کی کوئی بات نہیں مان رہا۔ وہ روتے ہوئے بولی ماما پلیز مجھے اپنے پاس بلا لیں۔ میں اب آپ کے بغیر نہیں رہنا چاہتی۔ آپ کے سوا اب مجھ سے پیار کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ رو رو کر اللہ تعالیٰ سے اپنی موت کی دعائیں مانگنے لگی۔ ہما اسے منع کرتی ایسے موت کی دعا کھبی نہیں مانگتے کھبی منظوری کا ٹائم بھی ہو سکتا ہے ہو سکتا ہے یہ وقت عارضی ہو اور کوئی بڑی خوشی تمہیں ملے اور اسے پانے کے لئے وقت نہ ہو۔

 

ناول پارٹ 10۔

ہما نے سسر کو نند کے فون کا بتا دیا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اندر سے اس کی خیریت دریافت کرنے کے لیے بےچین ہو گا۔ اور اس سے ملنے کی اجازت مانگی وہ چپ ہو گیا تو ہما نے بھی سوال دوبارہ نہ دہرایا کہ ہاں کرنے میں ان کی اناء آڑے آئے گی۔

ہما نے پڑوسی ملک صاحب کی بیوی کو جو اس کی ماں جیسی اچھی اور ہمدرد عورت تھی نند کا واقعہ سب بتا دیا اس نے اسے تسلی دی کہ جو جوانی کے جوش میں ہونا تھا ہو گیا تم جا کر اس کی خبرگیری کرو آخر ہے تو نند نا۔ جو ایسے بھگا کر لے کر جاتے ہیں وہ اکثر قابل اعتبار نہیں ہوتے۔ کچھ تو جعلی نکاح پڑھوا کر بےوقوف بناتے ہیں۔ عزت خراب کرتے ہیں۔ یا بیچ دیتے ہیں۔ تم فوراً اس کا پتا کرو۔ انہوں نے اس کے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور خود ساتھ چل پڑی۔ ہما نے نند کو اپنے آنے کی اطلاع کر دی وہ بہت خوش ہوئی۔ اور اس کا انتظار کرنے لگی۔

ہما مسز ملک کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے فلیٹ پر پہنچی تو دنگ رہ گئی۔ لگثری فرنیشڈ فلیٹ تھا۔

ہما کی نند روتے ہوئے ہما کے گلے لگ کر رونے لگی۔ ہما نے اسے پیار کیا۔ مسز ملک نے بھی پیار کر کے اسے تسلی دی۔ ہما کی نند نے کافی اہتمام کیا ہوا تھا۔ ملازم سرو کرنے لگے۔

ہما اس کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر خوش اور حیران ہوئی۔

ہما کی نند اپنی داستان ہما کو سنانے لگی۔ اس نے بتایا کہ اس کے پاس چھوٹا موبائل فون تھا جو اس نے ساہلنٹ کر کے پاس رکھا ہوا تھا۔ اس نے اپنے بوائے فرینڈ کو واش روم میں جاکر ساری بات بتا دی تو اس نے کہا کہ ہمیشہ کے لیے جدا ہونے سے بہتر ہے کہ ہم کورٹ میرج کر لیں بعد میں سب کو منا لیں گے۔ اسی نے بتایا کہ تم ایسے بن جانا جیسے تمہیں سمجھ آ چکی ہے کہ گھر والے درست کہتے ہیں اور ان کی بات ماننے میں ہی اس کی بھلائی ہے۔ جب ان کو اعتبار ا جاے گا اور وہ سو جائیں گے تو تم صبح فجر کی نماز کے تھوڑا بعد داو لگا کر خالی ہاتھ ہی چادر اوڑھ کر آ جانا میں گھر کے قریب ہی چھپ کر کھڑا ہوں گا اور تمھارا انتظار کروں گا۔ اس نے ایسا ہی کیا ہما نے فجر کی نماز کے بعد آ کر اسے دیکھا اور مطمئین ہو کر کمرے میں چلی گئی۔ اس وقت وہ داو لگا کر آہستہ سے گیٹ کھول کر باہر آ گئ وہ قریب ہی انتظار میں کھڑا تھا اور اسے لیکر گاڑی میں بٹھا کر اپنے ہوٹل لے گیا جو اس نے پہلے ہی بک کروایا ہوا تھا۔ عدالت کھلتے ہی دونوں نے کورٹ میرج کر لی۔ اس نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ نکاح ان کو گواہ بنا کر شادی کی۔ دوستوں کو رات ہوٹل میں ڈنر پر انواہیٹ کر دیا۔ اسے ڈھیر ساری شاپنگ کرائی۔ دونوں بہت خوش تھے۔

شام کو تیار ہو کر دوستوں کی موجودگی میں کیک کاٹا۔ دوستوں میں چند ایک کی فیملیز بھی تھیں۔ شاندار ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ وہ اپنی قسمت پر رشک کر رہی تھی وقفے وقفے سے اسے باپ اور بھائی کا بھی خیال آتا تھا۔ پھر جلد ہی اس نے اسے فرنیشڈ فلیٹ رینٹ پر لے دیا۔ ملازم خدمات کے لئے رکھ دیے۔ پھر وہ لوگ شمالی علاقہ جات ہنی مون پر گئے۔ واپس آ کر اس نے بھائی کو سوری کا میسج کیا۔ شوہر کی تعریف کی اور ساری بات لکھی۔ جواب میں اس نے فون کیا وہ خوش ہو گئی اس نے سپیکر آن کر دیا تاکہ اس کا شوہر جو اس کے پاس بیٹھا تھا وہ بھی سن لے۔ جب فون یس کیا تو بھائی نے خوب برا بھلا کہا اور کہا کہ وہ اس کے لیے مر چکی ہے۔ اور دوبارہ کھبی رابطہ کیا تو اچھا نہیں ہو گا۔ وہ شوہر کے سامنے شرمندہ تھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ اسے تسلی دینے لگا کہ وہ اس کا ساتھ کھبی نہیں چھوڑے گا۔

ہما مطمئین ہو کر آئی۔ سسر کو سب بتایا وہ بھی خوش ہوا۔ سسر نے بیٹے کو بتایا کہ ہما اس کی اجازت سے اسے ملنے گئی تھی اور وہ اسے اس سے ملنے سے نہ روکے گا۔ اور ہما کو بھی کچھ نہ کہے گا۔ وہ باپ کے بڑھاپے کا خیال کرتے ہوئے بولا ٹھیک ہے مگر میرے سامنے وہ کھبی نہ آے ورنہ میں لحاظ نہ کروں گا نہ ہی اسے گھر بلائیں گے۔ خود جانا ہے تو چلے جاہیں۔ باپ نے کہا کہ ٹھیک ہے میں اسے کھبی گھر نہیں بلاوں گا مگر ہما کو کھبی کبھار اس کی خبرگیری کے لیے بھیجتا رہوں گا جواب میں وہ چپ ہو گیا۔

ہما نے ساری بات نند کو بتائی تو وہ رونے لگی کہ شادی کے بعد اسے بھائی جیسی نعمت کا احساس ہوا ہے۔ بھائی تو بہنوں کے رکھوالے ہوتے ہیں۔ ان کا بھلا ہی سوچتے ہیں۔ اس کی نند کہتی کہ اس کی ایک دوست کی کزن بھی اس کی طرح کسی کے ساتھ بھاگی تو وہ اسے کسی دوست کے مکان میں لے گیا دونوں نے اس کی عزت کو تار تار کیا اور پھر اسے کسی کے آگے بیچ دیا وہ اسے لے کر جا رہا تھا کہ وہ موقع پا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ گھر پہنچی تو باپ بھائی نے قبول نہ کیا آخر ماں کے دہائی دینے پر ڈرائیور جسے لالچ دیکر نکاح پر راضی کیا گیا اور اس کا نکاح ڈرائیور سے کروا کر سرونٹ کوارٹر میں شفٹ کر دیا گیا۔ بھابھیاں اسے ملازمہ کی طرح ٹریٹ کرتی ہیں۔ بس ماں ہی اس سے چوری چھپے ہمدردی کرتی ہے کہ بہوؤں کو بھی ناراض نہیں کر سکتی۔ باپ مر گیا بھائی اپنی بیویوں کے کہنے پر اسے کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ بھابھیاں ہر وقت اسے طعنے بھی دیتی رہتی ہیں۔ وہ اپنے ہی گھر میں نوکر کی حیثیت سے رہتی ہے۔ نیو لوگوں کو بھابھیاں اسے ملازمہ ہی بتاتی ہیں۔ رشتےدار بھی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ اب وہ کہتی ہے کہ کاش کوئی لڑکی کسی کے ساتھ کھبی نہ بھاگے معاشرہ اسے اس غلطی کی کھبی معافی نہیں دیتا۔ وہ غربت میں پل رہی ہے۔ اس کے بچے معمولی اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں۔ ماں بھی مر چکی ہے۔ اب وہ اسی حال میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ کہہ کہاں جاے ادھر کم از کم محفوظ تو ہے نا۔ ورنہ باہر تو بھیڑیے بیٹھے ہیں۔ بھائی اسے کوستے ہیں کہ ماں کی وجہ سے اسے پناہ دی ہے ورنہ ہم ہر وقت رشتےداروں کے طعنے سننے پر مجبور ہیں۔ وہ ہزار بار معافیاں بھی مانگ چکی ہے مگر اس کا داغ دھل نہیں پا رہا۔ اس کا شوہر بھی اسے طعنے دیتا ہے اور مزاق اڑاتا ہےکہ میں غریب نہ ہوتا تو تجھ جیسی گندگی کو کھبی قبول نہ کرتا۔ نہ تو مجھ جیسے سے کھبی خواب میں بھی شادی کرنے کا سوچتی۔ نہ وہ اسے اس گھر سے اسے دور لے کر جاتاہے۔ کہتا ہے۔ نام کا ہی سہی ہوں تو اس گھر کا داماد۔ وہ اپنے بچوں کے لیے اب سب سہنے اور جینے پر مجبور ہے۔ اس کے برعکس ہما کی نند کہتی ہے کہ میں ان کم از کم ان لڑکیوں کی بنسبت لکی ہوں۔ کہ میرے شوہر نے مجھے عزت سے رکھا ہے۔ میری محبت کا دم بھرتا ہے۔

ہما نے شوہر سے پوچھا کہ تم اگر پہلے ہی اسے عزت سے رشتہ دے دیتے تو سب ٹھیک ہوتا۔ حالانکہ اس نے فون کر کے تم سے رشتے کی بات کی تھی۔ تو وہ بولا میں جان بوجھ کر اسے ہمیشہ کے لیے دوزخ میں کیسے ڈال دیتا۔ اس امیرزادے نے صاف کہا تھا کہ وہ اس سے شادی ہمیشہ خفیہ رکھے گا کیونکہ گھر والے اس کی شادی خاندان سے باہر نہیں کرنا چاہتے کہ نسل خراب ہوتی ہے۔ اور وہ خاندان میں شادی کرے گا اور اسے بھی ملتا جلتا رہے گا اور کوئی کمی نہ ہونے دے گا۔ اب بتاو بھلا میں اس کی بات کیسے مانتا۔ اب اس نے خاندان میں بھی شادی کر لی ہے۔

ناول پارٹ 11

ہما کی نند ہما کے جانے کے بعد اداس ہو گئی۔ اسے باپ کی یاد ا گئ اس نے باپ سے فون پر معافی مانگ لی۔ اس نے گھر آنے کی اجازت مانگی تو اس کے باپ نے کہا کہ وہ ہمیشہ تمھاری اور تمہاری ماں کی باتیں مانتا رہا اور بیٹے کی طرف توجہ نہ دی اب میں اس کے خلاف جا کر نہیں مل سکتا۔ میں تم سے اب کھبی نہیں ملوں گا نہ ہی مجھے اب فون کرنا۔ میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔ بس ہما کبھی کبھی تم سے مل لیا کرے گی۔ یہ بھی تمہارے بھائی کی مہربانی ہے جو تمہاری ماں کی زیادتیوں کے باوجود ہما کو تم سے ملنے بھیج دیا۔ وہ تمھارا دل سے بھلا چاہتا تھا۔ تم سے پیار بھی کرتا تھا۔ تمھارے اس اقدام کے بعد اب وہ تم سے نفرت کرے تو حق بجانب ہے۔ اب تم اپنی دنیا میں خوش رہو۔ توبہ تاہف کرو اپنی ماں کی مغفرت کی دعا کرو۔ میری آنکھوں پر اس بری عورت کی محبت کی پٹی بندی تھی جو ایسی سیاست کرتی تھی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اب مجھے اس کی ساری باتیں سمجھ میں آ رہی ہیں۔ میں اپنے رب تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس کے کیے کی سزا میری بچی کو نہ ملے۔ میں نے اسے معاف کیا رب بھی اسے معاف کرے

۔ آمین ثم آمین جھٹ ہما کی نند نے جواب دیا اور روتے ہوئے کہا کہ مجھے بھائی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا اب شادی کے بعد احساس ہوا ہے کہ میں خود ماں بننے والی ہوں۔ اور میرا بچہ ننھیال، ددھیال کے پیار اور توجہ کے بغیر پلے گا۔ بیٹیاں والدین کے گھر سے ان کی دعاؤں کے ساے میں رخصت ہو کر اپنا مقام پاتی ہیں۔ مجھے اب کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ شوہر کا پیار بھی حاصل ہے مگر اس کا پیار پانے کے لئے مجھے اپنوں کے پیار کی قربانی دینی پڑی ہے۔ شادی کے بعد عورت کو خاندان کی ضرورت ہوتی ہے یوں لاوارثوں کی طرح سنہری پنجرے میں قیدی جیسی زندگی لگتی ہے۔ اب تو نہ گھومنے پھرنے کا اور نہ ہی شاپنگ کرنے کا دل کرتا ہے۔ بس آپ میرے لیے دعا کریں کہ اللہُ تعالیٰ میری ماں کی مغفرت فرمائے اور مجھے بھی معاف کر دے۔

باپ نے ڈھیروں دعائیں دیں اور دونوں نے روتے ہوئے فون بند کر دیا۔

ہما کی نند بیٹھی شوہر کا انتظار کر رہی تھی وہ آیا تو اس نے آتے ہی پوچھا ڈاکٹر کے کلینک گئ تھی چیک اپ کروانے وہ ہنسنے لگی آپ میری اتنی فکر نہ کیا کریں آپ ہیں نہ میرے پاس۔ وہ نظریں چراتے ہوئے بولا یہی تو فکر ہے کہ میں کچھ ٹائم کے لیے میں جا رہا ہوں۔

کککیا مطلب اس نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔ تو اس نے کہا کہ وہ اس سے آج کچھ نہیں چھپائے گا۔ اس نے بتایا کہ جب اس نے اسے پہلی بار دیکھا تو فیصلہ کر لیا کہ وہ اس سے ہی شادی کرے گا اس نے والدین سے بات کی تو انہوں نے انتہائی ایکشن لیا اور اسے خاندان میں لڑکی پسند کرنے کا اور اس کی جلد شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے بہت احتجاج کیا مگر باپ نے اپنے ساتھ مجھے بھی گولی مارنے اور ماں کو بھی مارنے کی دھمکی دے دی۔ میں نے بھی ضد میں سب سے کم پڑھی اور گاوں کی لڑکی کا انتخاب کیا۔ گھر والے سٹپٹاے مگر باپ نے فیصلہ دے دیا اور آناً فاناً میری دھوم دھام سے شادی کر دی۔

کککیا مطلب وہ ہزیانی ہو کر چیخی تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔ شادی شدہ ہو کر مجھ سے کنوارے بن کر ملتے رہے۔ ڈیڈھ سال سے مجھے مسلسل پیار کا چکر چلاتے رہے اب تک تو کوئی بچہ بھی ہو چکا ہو گا۔

وہ سر جھکا کر بولا ایک بیٹا بھی ہے۔ کیا کیا یعنی میں ایک شادی شدہ اور ایک بیٹے کے باپ کی دوسری بیوی ہوں۔مجھے میں کیا کمی تھی میں خوبصورت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی مجھے تو کوئی کنوارہ آرام سے مل سکتا تھا۔ میں تو کسی شادی شدہ مرد سے دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ کسی عورت کا گھر اجاڑنا اس کے شوہر کو اپنا بنا کر اس کے حق پر ڈاکہ ڈالنا۔ مجھے کسی دوسرے کے شوہر کو اپنا بنانا کھبی گوارا نہ تھا تم اگر ایک بار بھی بتاتے تو میں تمہیں چھوڑ دیتی۔ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔ وہ اسے مارنے پیٹنے لگی اپنے بال نوچنے لگی اور روتے ہوئے بولی اگر مجھے کچھ ہو گیا تو کیا میرا بچہ بھی میرے بھائی کی طرح مظلومیت میں پلے گا اس کی سوتیلی ماں اس پر ظلم کرے گی اس کے اپنے بچے راج کریں گے۔ وہ اسے سنبھالنے لگا اور بولا تمہیں کچھ نہیں ہو گا میں نے تمہیں اس لیے نہیں بتایا تھا کہ میں تم سے پیار کرتا تھا اور تمہیں کھونے سے ڈرتا تھا۔ اس لیے نہ بتایا تمھارا مزاج سمجھتا تھا کہ تم شراکت برداشت نہیں کرو گی۔

وہ چلا کر بولی تمہیں مجھ سے کوئی پیار ویار نہیں ہے بس تم صرف میری خوبصورتی کے پیچھے مرتے ہو۔ اگر اتنا ہی سچا پیار ہے تو میں بھی تمھاری بیوی ہوں۔ میرا اور میرے بچے کا بھی تم پر اتنا ہی حق ہے۔ میں اپنا حق لے کر رہوں گی۔ اگر میرے گھر والوں کو پتا ہوتا تو وہ کھبی تمہیں رشتہ نہ دیتے۔ ہم خاندانی لوگ ہیں۔

وہ بولا میں نے تمہیں دھوکہ نہیں دیا۔ میں نے تمھارے بھائی کو یہ بتایا تھا کہ میں خاندان میں شادی کروں گا کیونکہ میرے والدین نہیں مان رہے ہیں اور میں تم سے پیار کرتا ہوں اور ہمیشہ اس شادی کو نبھاوں گا مگر خفیہ رکھوں گا اور کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دوں گا مگر وہ اس بات پر نہ مانا اور بے عزت کر کے فون بند کر دیا۔

وہ بولی میرا بھائی میرا بھلا چاہتا تھا نا۔ اس کے دل میں بھائی کے لیے بے پناہ پیار بھر آیا۔

وہ روتے ہوئے بولی کہ تم نے سوچا ہو گا کہ میں اس خوبصورت لڑکی کو ایک ساہیڈ پر رکھیل بنا کر رکھوں گا جو پوری طرح میرے دامن الفت میں گرفتار ہے۔ اس کے پچھلے بھی اس سے ناراض ہیں۔ اس کو پابند کرنے کے لیے نکاح کا ایک کاغذ دے کر زندگی کی آسائشیں دے کر بہلا لوں گا تو یہ تمہاری بھول ہے۔ میں اپنا اور بچے کا حق نہیں چھوڑوں گی۔ تمھارے گھر والوں کو سب بتا دوں گی۔ میں بچے کا جاہیداد میں سے حصہ بھی لوں گی۔میں چپ نہیں بیٹھوں گی۔ تم اپنے پلان میں فیل ہو گئے ہو بس بچہ ہو جائے پھر دیکھنا میں کیا کیا کرتی ہوں۔

ناول۔ پارٹ 12

ہما کی نند اپنے شوہر سے کسی طور سنبھل نہیں رہی تھی۔ وہ اسے بولی میرے بھائی نے ٹھیک کیا تھا جو تمہیں جواب دے دیا تھا کاش بھائی یہ بات مجھے بٹھا کر سمجھا دیتا پھر خود ہی بولی پر میں اس سے فالتو بات کہاں کرتی تھی کاش میری ماں اپنے سوتیلے کو قبول کر لیتی تو اج وہ اس کا بھی بڑھاپے کا سہارا بنتا۔ وہ اس کی اہمیت میرے دل میں ڈالتی تو میں شاید اس طرح برباد نہ ہوتی۔ شاید یہ مکافات عمل ہے۔ میری ماں کی روح بھی تڑپ رہی ہو گی۔ بیٹی کی بربادی پر۔ اس نے شوہر کو وارننگ دی کہ بس بہت رو لیا اب میں سسک سسک کر زندگی نہیں گزار سکتی۔ میں اس وقت کا انتظار کروں گی کہ بچہ اس دنیا میں آ جاے۔ پھر میں چیخ چیخ کر ساری دنیا کو بتاوں گی کہ میں تمھاری بیوی ہوں۔ پھر میں دیکھتی ہوں تم مجھے سسرال والوں سے ملنے سے کیسے روک سکتے ہو۔ تمہیں خوشخبری سنا دوں کہ تمھاری بھی بیٹی پیدا ہونے والی ہے تم نے کسی کی بیٹی کے ساتھ کیا اب اپنی بیٹی کے مستقبل کا بھی سوچ لینا۔ اسے بھی دولت کے بل بوتے پر نکاح کی آڑ میں رکھیل بنا کر بھیجنا ہے۔ اس کے شوہر نے اسے تڑاخ سے ایک تھپڑ مار دیا۔ وہ روتے چلاتے بےہوش ہو گئ۔ وہ گھبرا گیا فوراً ایمبولینس منگوائی ہما کو فون کیا۔

ہما نے سسر کو بتایا اور جلدی سے آٹو میں اکیلی چل پڑی۔ اب وہ باہر کے کام کاج چیک اپ کے لیے ہاسپٹل اکیلی جانے لگی تھی۔ وہ جوں ہی ہاسپٹل پہنچی تو نند کا شوہر ایمبولینس کے پاس کھڑا تھا اور آنکھوں میں آنسو تھے وہ پاس پہنچی تو وہ گھبرا کر بولا۔ بہن آپ کی نند اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ میں اس کی ڈیڈ باڈی آبائی گاؤں لے کر جا رہا ہوں۔ ادھر کے گورکن سے بات ہو چکی ہے۔ پلیز بچی کو اپنے ساتھ لے جاہیں۔ وہ سن کر چکرا گئ پاس دیوار سے سہارا لے لیا۔ پاس کھڑی عورتوں نے اسے پانی پلایا اور اسے تسلی دی وہ رو رہی تھی اس نے پڑوسیوں کو فون کیا کہ میرے سسر کو طریقے سے زرا بتا دیں پھر اس نے نرگس کو فون کیا اس نے بہت تسلی دی۔ وہ کسی وجہ سے آنے سے قاصر تھی۔ ہما نے جا کر بچی کو اپنی تحویل میں لیا۔ اور شوہر کو فون کیا تو وہ کافی حیران و پریشان ہوا۔ بچی کا سن کر کچھ نہ بولا۔

وہ خود بھی پریگننٹ تھی لاسٹ ماہ چل رہا تھا کہ اوپر سے اسے نند کی بیٹی کو سنبھالنا پڑا۔ گھر آئی تو پڑوسیوں نے بہت ساتھ دیا۔

پھر اس نے نند کے شوہر کو کہہ دیا کہ بچی مر گئی ہے۔ تاکہ بچی رلنے سے بچ سکے۔ کیونکہ نند اس کی دوست بھی تھی۔

شوہر نے اس کو بچی پالنے پر ہلکہ پھلکہ احتجاج کیا مگر سسر کے حکم پر چپ ہو گیا۔ وہ ملک سے باہر تھا۔ پھر ایک ڈیڑھ ماہ بعد ہی اپنی بیٹی کی پیدائش کی اطلاع ملی وہ خوشی سے دیوانہ ہو گیا اور اپنی بات پر زور دے کر بولا میری بچی خوبصورت ہے نا۔ تم جانتی ہو مجھے بدصورت بچے نہیں اچھے لگتے اسی وقت ہما نے بچی بدلنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ اس کی اپنی بچی سانولی تھی جبکہ نند کی بچی بہت خوب صورت تھی۔ اس نے اس راز میں سسر اور پڑوسن اماں کو بھی شامل کر لیا۔ اپنی بہن کو شامل نہ کیا کہ وہ ایسا کرنے نہ دیتی۔ مگر ہما مجبور تھی۔ ساری پریگنینسی میں شوہر نے جان کھائی تھی کہ بچہ لڑکا ہو یا لڑکی خوبصورت ہو ورنہ اسے دوسری شادی کرنی پڑے گی۔

نرگس کو بھی اس نے نند کی بیٹی کو اپنی بیٹی بتایا۔ وہ بھی ان کے جوان ہونے تک عروبہ کو ہی اپنی بھانجی سمجھتی رہی۔

ناول پارٹ 13۔

ہما کے لیے دو بچیوں کو پالنا مشکل عمل تھا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ تیری رضا کے لیے اس بچی کو پال رہی ہوں۔ بچی کے بارے میں جھوٹ بھی مجبور ہو کر بول رہی ہوں تاکہ میرا شوہر خوبصورت بچی پا کر خوش ہو جائے اور میرا گھر بچا رہے۔ اور دوسرے یہ معصوم کلی میرے شوہر کے برے برتاؤ سے بچی رہے گی۔ جب موقع ملے تو سچائی بتا دوں گی۔ وہ دونوں کے ساتھ برابر امتیازی سلوک روا رکھنے لگی۔ پڑوسن خالہ اس کے حسن سلوک کو دیکھ کر متاثر ہوتی۔ سسر اٹھتے بیٹھتے دعائیں دیتے وہ بیٹے کو جانتے تھے وہ بھی بہو کے فیصلے سے متفق ہو گئے۔

وہ بیٹی کے غم سے نڈھال تھے پھر پوتی اور نواسی سے دل بہلانے لگتے۔ وہ بیٹی کو یاد کر کے روتے۔ انہیں آخری دیدار بھی بیٹی کا نصیب نہ ہوا۔ وہ بہت بیمار اور کمزور رہنے لگے تھے۔ بیٹے کے پاکستان آتے ہی جلد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

ساجد عروبہ کو دیکھ دیکھ کر جیتا تھا۔ اس نے دن رات کے لیے ملازمہ رکھ لی تھی۔ اگر دونوں بچیاں اکھٹی روتی تو ساجد چیختا تو وہ پہلے اسے بہلاتی اور نتاشا کو ملازمہ کے حوالے کر دیتی۔ ساجد اپنی عروبہ کے خوب ناز نخرے اٹھاتا اس کی ہر خواہش پوری کرتا۔ اس کو کوئی کام نہ کرنے دیتا۔ ہما سمجھاتی کل کلاں اس کی شادی ہونی ہے اس کو کام کاج سیکھنے دیں اگلے گھر جا کر کیا کرے گی۔ وہ تڑخ کر جواب دیتا میں اس کی شادی ایسے لوگوں میں کروں گا جو اس کو شہزادی بنا کر رکھیں گے اور کام کاج نہیں کرنے دیں گے۔ وہ پوچھتی کھبی ایسا سسرال دیکھا ہے تو وہ کہتا پھر میں اس کی شادی ہی نہیں کروں گا۔ وہ آہ بھر کر کر یہ کہتی اٹھ جاتی کہ آپ سے کون بحث کرے۔

سعد کا آفس ہما کے گھر کے نزدیک ترین تھا تو ساجد اور ہما کا اسے سختی سے آرڈر تھا کہ وہ لنچ بریک میں ادھر آ کر کھانا کھاے گا۔ پھر ہما نے اسے ریکویسٹ کی تھی کہ وہ آفس سے واپسی پر نتاشا کی پڑھائی میں مدد کر دیا کرے۔ نرگس مروت میں مان گئی ایک تو اس کے بیٹے کو گھر کا کھانا نصیب ہو رہا تھا دوسرے وہ جانتی تھی کہ ہما کو نتاشا کی پڑھائی کی بہت فکر رہتی ہے وہ اسے ایم بی اے کروا رہی تھی پرائیوٹ طور پر۔

نتاشا کے لیے سعد کی کمپنی نعمت تھی۔ ایک ماں کے بعد وہی اس کو عزت سے مخاطب ہو کر حال بھی پوچھتا۔ تو وہ سارے وقت میں اس کے آنے کا انتظار کرتی رہتی۔ وہ جانتی تھی کہ سعد اور عروبہ کے بارے میں سنتی آئی تھی کہ نرگس خالہ اسے بچپن سے اپنی بہو بنانے کے بارے میں بولتی رہتی تھی۔ اور کسی کو بھی اس رشتے پر اعتراض نہ تھا۔ سعد ہر وقت مزاق اڑاتا نہ جانے میری ماں کو اس بھوتنی میں کیا نظر آتا ہے۔ مجھے تو یہ پوری چڑیل لگتی ہے سب مسکراتے۔ خالہ پیار سے ڈانٹ دیتی کہ خبردار جو میری لاڈلی بھانجی کے بارے میں کچھ بولا تو لاکھوں میں ایک ہے۔ دنیا میں اس جیسی خوبصورت کوئی نہیں۔ عروبہ مسکرا کر آنی کہہ کر نرگس کے گلے لگ جاتی اور عروبہ اسے انگوٹھا دیکھاتی وہ جواب میں مسکرا کر سر جھکا لیتا۔

عروبہ سعد سے فالتو بات کھبی نہ کرتی نہ اسے لفٹ دیتی۔ بلکہ ہر وقت کانوں میں ہیڈ-فون لگاے اسی میں مگن رہتی۔ نتاشا سعد کی خدمتگار بنی رہتی۔

سعد اپنی فرمائشیں کرتا۔ نتاشا آج چاے کے ساتھ پکوڑے تو بنا لو وہ مسکراتی ہوئی چل پڑتی۔ پکوڑے بنا کر عروبہ کے آگے رکھ دیتی کبھی کیچپ دینا بھول جاتی تو وہ اسے ڈانٹ کر بلاتی سعد اسے سرزش کرتا تو وہ اسے جتا کر کہتی یہ میرے ڈیڈ کا گھر ہے۔ یہ اس گھر کی ملازمہ ٹائپ رشتہ دار ہے۔ اس لیے میں اسے ہر وقت اس کی اوقات یاد دلاتی رہتی ہوں۔ نرگس پرجوش طریقے سے اس کی بات کی تاہید کرتی۔ سعد افسوس کرتا رہ جاتا۔ نتاشا کی آنکھوں میں آئی نمی کو محسوس کرتا اور اس کی دلجوئی میں لگ جاتا۔ اس سے ہنسی مزاق کی باتیں کرتا تو وہ جلد سب کچھ بھول جاتی۔ جب سے وہ بڑی ہو رہی تھی ہما اب کافی حد تک اس کے فیور میں شوہر کو سنا جاتی۔ عروبہ کو بھی سمجھانے لگ جاتی مگر وہ باپ کی شہ پر اثر نہ لیتی۔

عروبہ سعد کے آنے یا نہ آنے پر کسی کوئی تاثر نہ دیتی۔ وہ نتاشا کو پڑھاتا اس سے فری ہوتا،اس سے ہنسی مزاق کرتا حتکہ اس کی تعریفیں بھی کرتا رہتا مگر عروبہ پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ سعد ہر وقت اس پر طنز کرتا رہتا کھبی وہ جواب دیتی کھبی جواب دینا بھی ضروری نہ سمجھتی۔

عید وغیرہ کے موقع پر وہ پارلر سے تیار ہو کر آتی ہر کوئی تعریف کرتا مگر سعد دیکھتے ہی کہتا بھوتنی ا گئ۔ وہ کھبی چڑتی کھبی دھیان نہ دیتی۔ جبکہ وہ نتاشا کی بہت تعریف کرتا کھبی اس کے کھانے کی، کھبی اس کو جو اسٹور نما کمرہ ملا تھا اس کی صفائی ستھرائی اور سلیقے کی۔ جبکہ وہ عروبہ کے کمرے کی خوب برائی کرتا۔ وہ کھبی ان کے کمروں میں گیا نہیں تھا مگر دروازے دونوں کے کمروں کے کھلے رہتے تھے اور عروبہ اس لیے نہ بند کرتی تھی کہ اس نے کمرے میں بیٹھ کر نتاشا کو چارجر پکڑانے اور چارجر لگانے تک کے لیے بھی آوازیں دیتی رہتی تھی۔ سعد نتاشا سے کہتا تم کیوں اس کا ہر حکم ملازموں کی طرح مانتی ہو۔ تمھارے یہ نانا کا بھی گھر ہے ماموں کا بھی گھر ہے تمھارا بھی اس گھر پر حق ہے۔ تو وہ جواب میں کہتی ایک ماں کے علاوہ کوئی میرے ساتھ رشتہ نہیں جوڑتا۔ تو وہ دکھ محسوس کرتے ہوئے لاجواب ہو جاتا۔

ساجد نے بیوی سے کہا کہ عروبہ جوان ہو گئ ہے اور پڑھائی سے بھی فارغ ہے آپا سے کہو کہ آ کر شادی کی تاریخ طے کریں۔

ہما نے نرگس کو فون کر کے ساجد کا پیغام دیا تو اس نے جو جواب دیا وہ ہما کے لیے شاک سے کم نہ تھا۔

ناول پارٹ 14۔

ہما نرگس کی بات سن کر پریشان ہو گئی اور ڈر بھی گئ کہ اس کا شوہر اس فیصلے کو سنے گا تو قیامت لا دے گا۔ اس نے کہا آپا آپ خود آ کر ساجد سے بات کریں مجھے تو ڈر لگتا ہے اس سے۔ نرگس نے حوصلہ دیا اور کہا کہ تم بات تو کرو پھر میں خود ا کر اس سے بات کر لوں گی۔

ہما کھوئی کھوئی اور پریشان تھی اس نے ٹھیک سے کھانا بھی نہیں کھایا اور شوہر کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ نتاشا نے پوچھا ماما آپ پریشان لگ رہی ہیں مگر وہ اسے پیار کر کے ٹال گئ کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔

شوہر آیا کھانا کھا چکا تو ہما نے بات کرنی شروع کی۔ اس نے شوہر کو بتایا کہ اس نے آپا کو شادی کی بابت فون کیا تھا وہ بولا گڈ پھر کب آ رہی ہیں وہ شادی کی تاریخ لینے۔ وہ کچھ پریشان سی ہاتھوں کو مروڑتے ہوئے بولی کہ آپا کا گاوں والا گھر مکمل ہو چکا ہے۔ اور ان کے شوہر اب ریٹائرڈ ہیں اور اب وہ گاوں والے گھر میں شفٹ ہونا چاہتے ہیں سنا ہے کافی بڑا اور جدید طرز کا گھر بنایا ہے۔ ساجد کچھ سوچتے ہوئے بولا کہ وہ تو گاوں شفٹ ہو جاہیں گے تو عروبہ اور سعد اکیلے کیسے رہیں گے۔ آپا ساتھ ہوتی تو مجھے فکر لاحق نہ تھی مگر عروبہ کو تو گھر داری آتی ہی نہیں ہے اور سعد کے افس جانے کے بعد وہ اکیلی کیسے گھر کو مینج کرے گی۔

ہما نے جھجکتے ہوئے کہا کہ سعد بھی ساتھ گاوں شفٹ ہو رہا ہے۔ ساجد نے کہا کہ وہ وہاں سے آفس کیسے جاے گا تو ہما نے آہستہ سے جواب دیا کہ وہ شادی کر کے دو سال کے لئے باہر ملک جا رہا ہے آفس کی طرف سے اور فیملی کو کم از کم دو سال تک نہیں لے جا سکتا ہے۔

ساجد چلا کر بولا مگر میری بیٹی گاوں میں نہیں رہ سکتی وہ بھی شوہر کے بغیر۔ (عروبہ لاونج میں لیب ٹاپ لے کر بھٹی سب سن رہی تھی ساتھ ہی نتاشا کھڑی اس کے موبائل کا چارجر لگا رہی تھی دونوں تک آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔)

ہما نے کہا کہ اسی لیے آپا کی ساس، سسر اور شوہر نے نتاشا چونکہ گاوں رہ لیتی تھی اس لیے انہوں نے نتاشا کو بہو بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ساجد گلا پھاڑ کر چیخا وہ کیسے یہ فیصلہ کر سکتے ہیں۔ آپا سے کہو وہ بولیں تو ہما بولی کہ اس نے بہت کہا مگر وہ لوگ اسے عاق کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

ساجد غصے سے بولا سعد کیا کہتا ہے۔ تو ہما بولی سعد نے کہا کہ جیسے سب کی مرضی اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔

عروبہ نے اتنا سنا کہ سعد نے بھی نتاشا کو اس پر فوقیت دے دی ہے تو وہ لیب ٹاپ پٹخ کر چلاتی ہوئی باپ کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کہ وہ اپنی انسلٹ برداشت نہیں کر سکتی۔ ہمارے ہی ٹکڑوں پر پلنے والی کو آنی اور سعد بیاہ کر لے جاہیں میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی۔ وہ روتی چلاتی رہی نتاشا کو کوستی رہی۔ وہ نتاشا کو مارنے دوڑی تو ہما نے نتاشا سے چیخ کر کہا کہ وہ اپنے کمرے میں جا کر لاک لگا لے۔

عروبہ اس کے بند دروازے پر کھڑے ہو کر پیٹتی رہی چلاتی رہی کہ میں تمہیں جان سے مار دوں گی۔ ساجد نے بیٹی کو پیار سے یقین دلایا کہ تم فکر نہ کرو میں اس کی شادی سعد سے کھبی نہیں ہونے دوں گا۔ وہ روتے ہوئے بولی ڈیڈ میں سعد کے بغیر مر جاوں گی میں اسے کسی اور کا ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔

ساجد نے بیٹی کی حالت دیکھی اور بیوی کو وارننگ دے دی کہ جیسے بھی ہو اس کی شادی سعد سے کرواو ورنہ میں تمہیں طلاق دے دوں گا اور تم دونوں کو گھر سے نکال دوں گا۔

ہما نتاشا کو کھٹکھٹا کر اس کے کمرے میں آئی۔ نتاشا رو رہی تھی اس نے اسے گلے لگا کر پیار کیا۔ نتاشا آج ماں کے سامنے دل کھول رہی تھی کہ ماں میں شروع سے ہی بدقسمت ہوں نا۔ ساری زندگی میں نے سعد کو عروبہ کی امانت سمجھا مگر اب سعد سمیت ان لوگوں نے میرا انتخاب کر کے مجھے حیران کردیا کہ میں بھی کھبی اتنی خوش قسمت ہو سکتی ہوں کہ اتنا پڑھا لکھا، ہینڈسم اور باشعور لڑکا عروبہ جیسی حسین ترین لڑکی کو چھوڑ کر مجھ جیسی سانولی اور معمولی شکل و صورت کی لڑکی کے لئے اوکے کر دے۔ جو ساری زندگی کا بندھن ہے اور وہ نبھانا بھی جانتا ہے۔ ماں نے کہا کہ میری بیٹی تو بہت حسین ہے۔ تجھ میں کوئی کمی نہیں ہے۔ سعد کا خیال دل میں نہ لانا عروبہ اسے کھبی تمھارا نہیں ہونے دے گی۔ تمھیں اس سے بھی کئ گنا اچھا مل جائے گا انشاءاللہ۔

عروبہ جو کان لگا کر ان کی باتیں سن رہی تھی چلا کر بولی تم کسی خوش فہمی میں مبتلا مت رہنا میں نے آنی اور سعد کو کلائی کاٹ کر مرنے اور ان کے زمے لگنے کی دھمکی دے کر بلایا ہے۔ سعد آے زرا میں اس کی طبیعت صاف کرتی ہوں۔ اس نے جرآت کیسے کی تمھارا نام لینے کی۔

ہما نے نرگس کو رو رو کر ساری بات بتا دی کہ اب تم ہی اس کا گھر بچا سکتی ہو۔ ساجد واقعی جو کہہ رہا ہے وہ کر گزرے گا۔ اس نے اسے تسلی دی اور کہا کہ میں پوری کوشش کروں گی کہ ساس اور سسر اس کے لیے مان جائیں۔ وہ بھی ان کے آگے مجبور ہے۔ ادھر شوہر نے بھی دھمکی دی کہ میرے والدین کی بات نہ مانی تو میں تمھیں چھوڑ کر گاؤں چلا جاوں گا۔

نرگس نے بتایا کہ بیٹا بھی باپ اور دادا دادی کی طرف داری کر رہا ہے۔ بیٹا کہتا ہے کہ دادا دادی کی ڈیمانڈ جاہز ہے۔ جس طرح آپ کا اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے کا دل کرتا ہے اس طرح ان کا بھی کرتا ہے۔ اتنے سال وہ آپ کی خوشی کے لیے بیٹے سے دور رہے۔ اب وہ عمر کے آخری حصے میں ہیں تو میں ان کی خواہش رد نہیں کر سکتا وہ جس بھی لڑکی سے شادی کا بولیں گے میں کر لوں گا۔

نرگس روتے ہوئے بولی شوہر شاید مان جاتا مگر اسے بھی بیٹے کی شہ مل گئی ہے اور سب ڈٹ کر ایک ہو گیے ہیں اور میں اکیلی رہ گئی ہوں اب میرے شوہر بھی ساتھ آ رہے ہیں ساجد سے فاہنل بات کرنے۔ ساس سسر کو منانے کی کوشش کی ہے تو ان کی ایک ہی ڈیمانڈ ہے کہ سعد کی بیوی دوسال تو لازماً گاوں میں رہے گی جب دو سال بعد سعد آے گا تو تب دیکھا جائے گا۔

ہما سے عروبہ کی حالت بھی برداشت نہیں ہو رپی تھی اس نے ایک دن کا اسے پالا تھا وہ اسے پیار کرنے جاتی تو وہ اسے ڈانٹ کر پیچھے کر دیتی۔

سب اب نرگس کا انتظار کر رہے تھے

ناول پارٹ 15

سب نرگس کا انتظار کر رہے تھے کہ اس نے بیل کی۔ ہما نے جا کر دروازہ کھولا۔ نتاشا جا کر جوس لے آئی۔ وہ لوگ جوس پینے لگے۔ اتنے میں عروبہ ڈرائنگ روم میں آئی اور بغیر سلام دعا کیے نرگس سے لڑنے لگی کہ آنی آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہیں ایک نوکرانی ٹائپ رشتہ دار کو آپ مجھ پر کیسے فوقیت دے سکتی ہیں۔ اور پھر وہ سعد کے سامنے کھڑی ہو کر بولی تمھاری مت ماری گئی ہے یا تمہاری آنکھوں کو کچھ ہو گیا ہے جو تم نے اس بدشکل کالی کلوٹی کے لیے ہاں کر دی۔ وہ چلا کر بولی بتاو کیا وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت اور پڑھی لکھی ہے اس لاوارث لڑکی کو کیسے اپنے گھر میں لانے کا سوچ سکتے ہو۔ پھر وہ نرگس کی طرف مڑی اور وارننگ دینے والے انداز میں بولی یاد رکھنا میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی۔

ہما نے شوہر کی طرف دیکھا تو اس کی پیشانی پر پسینہ نظر آیا اور آنکھوں میں شرمندگی۔ اس نے ہما کو اشارہ کیا کہ اسے یہاں سے لے جاو۔ بڑی مشکل سے ہما اسے پکڑ کر کمرے میں لے گئی۔

ساجد نے دیکھا سعد کے باپ کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے جبکہ نرگس کے چہرے پر شرمندگی۔ سعد کو غصہ ا رہا تھا۔

پہلی بار ساجد کو بیٹی پر غصہ آیا اور وہ اسے سمجھانے معزرت کرتا ہوا اس کے پیچھے گیا۔ اسے سمجھاتے ہوئے بولا یہ کیا بدتمیزی ہے۔ اس دن کے لیے تمہیں اتنے لاڈ پیار سے پالا تھا تم نے آج میرا سر ان لوگوں کے آگے شرم سے جھکا دیا اس کی آنکھوں میں نمی تھی اسی ڈر سے لوگ بیٹیوں کی پیدائش سے ڈرتے ہیں کہ وہ پرایا دھن ہوتی ہیں اور انہیں گھر سے وداعِ کرنا ہی پڑتا ہے چاہے کتنی ہی لاڈلی ہوں یا دولت کے انبار ہوں۔

عروبہ نے باپ کی طرف دیکھا اور تڑپ گی۔ باپ نے کہا دیکھو نتاشا کوئی غیر نہیں میری بھانجی ہے۔ مجھے تمہارا اس طرح اسے ڈلیل کرنا برا لگا۔ عروبہ نے غصے سے کہا ڈیڈ وہ آپ کی بھانجی ہے بیٹی نہیں۔ بیٹی اور بھانجی میں بہت فرق ہوتا ہے وہ کبھی بیٹی کی جگہ نہیں لے سکتی۔

میں آپ کی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں دیکھ سکتی۔ آپ کے دل میں اس کے لئے پیار کیسے امڈ آیا۔

وہ بولا جب لوگوں نے احساس دلایا کہ میں غلط تھا۔ میں نے تمھاری تربیت خود کرنا چاہی اور تمہیں ضدی اور خودسر بنا دیا جبکہ ہما نے نتاشا کی تربیت کی تو اس کی کم صورت کے باوجود اسے لوگ عزت سے اپنانے کے لیے تیار ہیں اور تم اس سے زیادہ خوبصورت ہونے کے باوجود ٹھکرائی گئ ہو۔

اگر اپنی کھوئی ہوئی عزت واپس لانا چاہتی ہو تو ان لوگوں سے جا کر سوری بولو۔ صرف سوری بولو اور وعدہ بھی کرو کہ تم ان کی خواہشات پر پوری اترو گی جو کافی مشکل عمل ہے۔ اس کے لے تمہیں ٹوٹل چینج ہونا پڑے گا۔ سعد کے بغیر گاوں میں رہنا پڑے گا ان کے ماحول کو اپنانا پڑے گا گھر کے سارے کام کرنے پڑیں گے سب کی خدمت کرنی پڑے گی شلوار قمیض پہننی پڑے گی اور سر پر دوپٹہ لینا پڑے گا۔ سب کا ہر حکم ہر وقت بجا لانا پڑے گا۔ اپنی زات کی نفی کر کے گاؤں کے ماحول کے مطابق رہنا پڑے گا اور میں جانتا ہوں تمہارے لیے یہ سب کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے اس سب کے لیے بڑا دل بڑا حوصلہ اور صبر چاہیے۔ اور نتاشا اس پر پوری اترتی ہے۔ تمھاری خالہ عقلمند عورت ہے وہ جانتی ہے کہ شادی بیاہ کوئی گڈی گڈے کا کھیل نہیں۔ بہو پوری نسل کی بنیاد ہوتی ہے۔ جو نسلوں کی تربیت کرتی ہے۔ میرا بھی اگر کوئی بیٹا ہوتا تو میں نتاشا کو چنتا۔ ہما نے اپنے جیسی تربیت اس کی کی ہے۔ کاش میں نے تمہیں بھی اس کی تحویل میں دے دیا ہوتا تو آج میرا سر یوں شرم سے نہ جھکتا۔

شادی کوئی شاپنگ، سیر سپاٹے اور ہنی مون کا نام نہیں ہے ایک زمہ داری کا نام ہے۔ جو ایک عورت پر پورے گھر کی آ جاتی ہے۔ جیسے ہما نبھا رہی ہے اور نتاشا کو بھی تیار کیا ہے۔ سسرال ہر عورت کے لئے ایک چیلنج ہوتی ہے۔ اپنا تن من مارنا پڑتا ہے اپنی پسند ناپسند کو بھول کر دوسروں کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ تب جا کر عورت اس گھر میں جگہ بنا پاتی ہے۔ کاش ہم لوگ اپنی بیٹیوں کو سسرال کی امانت سمجھ کر بے جا لاڈ پیار کی بجائے انہیں صبروتحمل برداشت کرنا سیکھاہیں۔ اسے ایسے رکھیں جیسے ہم رحم دل اور اچھے مالک ہیں اور اپنے ملازموں پر محربان ہیں اور بیٹی ایک خدمت گار ملازمہ ہے۔ جس کے گھر کے سارے کام کاج کے علاوہ گھر والوں کو خوش بھی رکھنا ہے تاکہ اسے محنت کی عادت پڑ جائے سب کی خوشی کا خیال ہو مالک جو بھی کھانے کو دے وہی صبر وشکر کر کے کھاے جو پہننے کو دے وہ پہنے۔ جب اس کا موڈ ہو شاپنگ کراے باہر لے کر جاے۔ پیٹ بھر کر کھانا دے اور تن پر اپنی پسند کا لباس۔ مگر میں جانتا ہوں ہر والدین کے لیے اپنی پیاری بیٹیوں کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ جتنا سکھ وآرم دے سکتے ہیں دیں جتنی اس کی خواہشات پوری کر سکتے ہیں کریں نہ جانے اگلے گھر اسے یہ سب ملے نہ ملے۔ والدین سب سے بڑی غلطی یہ کرتے ہیں کہ انہیں شہزادی سمجھنے لگتے ہیں اس کے دل ودماغ میں بھی یہی ہوتا ہے کہ یہ گھر اس کا ہے اور وہ اس گھر کی شہزادی ہے۔

میں نے ہما کو کھبی اس گھر کی شہزادی نہ بننے دیا بیٹی کو بنایا۔ خود کو سیاہ وسفید کا مالک سمجھا مگر اسے کوئی اختیار نہ دیا۔ یہی رویہ میں اپنی بیٹی کے لئے کھبی نہیں سوچوں گا کہ اس کا شوہر اس کو کسی فیصلے کا اختیار نہ دے۔

ہر جاہز خواہش بیٹی کی بھی پوری کرنی چاہیے اور بیوی کی بھی۔ ناجائز نہیں ماننی چاہیے بیٹی اسراف سے بچنا سکھانا چاہیے۔ جو بھی شخص اپنی ضرورت سے زیادہ مال و اسباب جمع کرے گا قیامت والے دن اسے یہ سب سر پر اٹھا کر کھڑا ہونا پڑے گا چاہے وہ دولت ہو ہا زمین و جاہیداد۔

عروبہ باپ کی باتوں پر حیران ہو رہی تھی۔ ساجد نے کہا کہ ہر بیٹی کی شادی لازمی کرنی پڑتی ہے اسے ایک مضبوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لئے اسے خود بھی مضبوط بننا پڑتا ہے تب پراے لوگ اسے دل وجان سے قبول کرتے ہیں۔ ان کے دل میں جگہ بنانے کے لیے ایک طرح سے پل صراط پر سے گزرنے جیسا ہے کہ اگر ہم نے قناعت، صبر، اور خدا کے بنائے ہوئے قانون پر چلیں گے اس دنیا میں رہتے ہوئے بہت کچھ سہنا پڑتا ہے مردوں کو نوکری کرتے ہوئے اپنے اردگرد کے لوگوں کے رویوں کو سہنا پڑتا ہے اپنے بیوی بچوں کو پالنے کے لیے۔ اور گھر میں عورت کو سہنا پڑتا ہے اس گھر میں ہمیشہ کی جگہ بنانے کے لیے۔ بہت سی ایسی مثالیں ہیں کہ والدین نے اپنی بیٹیوں کو نازونعم سے پالا اور وہ آگے کی سختی برداشت نہ کر سکیں تو ان کی زندگی برباد ہو کر رہ گئی۔ شوہر کو بھی وقت گزرنے کے ساتھ بیوی کی قدر آ جاتی ہے جیسے اب میرا اور اس گھر کا گزارہ ایک منٹ کے لیے بھی ہما کے بغیر نہیں ہے۔

ہما نے اس گھر کے لیے بہت کچھ سہا ہے۔ اور مرد بھی اپنی اناء اور حاکمانہ زہن کے پیش نظر بیوی کو لونڈی اور خود کو حاکم سمجھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو مرد ایسا نہیں سوچتا بیوی کو اپنی زندگی کا ساتھی اور برابری کا درجہ دیتا ہے اس سے ہر کام میں صلاح مشورہ لیتا ہے وہ بہت پرسکون ماحول گھر والوں کو مہیا کرتا ہے۔ بچے بھی سلجھے ماحول میں پلنے کی وجہ سے کامیاب رہتے ہیں۔ کسی ایک کی عقلمندی سے بھی گھر جنت بن سکتا ہے اگر دوسرا بےوقوف ہو چاہے مرد ہو یا عورت۔ مگر ہمارے معاشرے میں عورت کو زیادہ سہنا پڑتا ہے پورے گھر کے مزاج کو سہنا پڑتا ہے۔ جبکہ مرد کو صرف بیوی کو سہنا پڑتا ہے عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے جو پیار کی زبان سمجھتی ہے اگر مرد دو میٹھے بول عورت کو بول دے دوسروں کے رویے کی خود معافی مانگتا اور تسلی اور حوصلہ دیتا رہے تو عورت کو بھی زہنی سکون رہتا ہے کہ وہ جس کے لیے وہ یہ سب سہہ رہی ہے اس کو احساس ہے اور وہ اس کے ساتھ ہے۔ پھر ساجد کو خیال آیا کہ بات لمبی ہو گئ ہے اس نے کہا کہ اگر یہ سب کر سکتی ہو سب سہہ سکتی ہو اپنے آپ کو چینج کر سکتی ہو تو میں بھی ان کو سوری کے ساتھ منت کرنے کو بھی تیار ہوں مگر مجھے لگتا ہے کہ تمھارے بس کا یہ جھنجھٹ نہیں ہے۔

ناول پارٹ۔ 16

ہما شرمندہ بیٹھی ان لوگوں سے عروبہ کے رویے کی معزرت کر رہی تھی جبکہ نرگس بھی شرمندہ بیٹھی شوہر کی باتیں سن رہی تھی۔

وہ ہما سے بولا بہن جی آپ کو معزرت کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں کیا آپ کو جانتا نہیں ہوں۔ آپ نے تو نیک نیتی سے سسرال کی بچی کو اپنی بچی کی طرح پالا گھر بیٹھ کر ہی اس کے ایم بی اے کروا دیا اور کتنی دقتوں سے اسے تعلیم دلائی۔ اگر کسی اور کی بچی ہمیں ایسا سناتی تو ہم دو منٹ بھی یہاں نہ رکتے۔

اتنے میں ساجد اندر داخل ہوا اور اس نے ہاتھ جوڑ کر ان سے معافی مانگی تو سعد اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ہاتھ پکڑ کر بولا پلیز انکل۔ بس نادان ہے۔ نرگس کا شوہر بھی اٹھ کر اس کا کندھا تھپتھپا کر بولا کوئی بات نہیں اپنی بچی ہے۔ اسی وجہ سے ہم یہاں رکے ہوئے ہیں۔ آپ پلیز بیٹھیں وہ لوگ بیٹھ گئے ساجد کی آنکھوں میں آنسو تھے دروازے میں کھڑی عروبہ یہ سب دیکھ رہی تھی بھاگ کر ساجد کے پاس آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر روتی ہوئی بولی سوری ڈیڈ آپ کو میری وجہ سے شرمندہ ہونا پڑا میں آپ کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی۔ میں سب سے َسوری کہتی ہوں۔ سب حیران رہ گئے۔ سعد کی آنکھوں میں خوشی کی چمک ابھر آئی۔ اس کے باپ نے بیٹے کو دیکھا جو بڑی محبت پاش نظروں سے عروبہ کو دیکھ رہا تھا پھر بیوی کو دیکھا وہ بہت خوش لگ رہی تھی۔ اس نے ساجد اور ہما کو دیکھا جو بےبس اور مظلوم نظر آ رہے تھے۔

عروبہ نرگس کے پاس آئی اور اس کے گلے میں باہیں ڈال کر بولی سوری آنی میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ نرگس نے شوہر کو دیکھا اور آرام سے اس کے بازو پیچھے کیے۔ اور آہستہ سے بولی انکل سے مانگو وہ زور سے بولی میں نے آتے ہی سب سے مانگ لی تھی نا۔ اس نے باپ کو دیکھا جو غصے سے اسے دیکھ رہا تھا پھر سعد کو دیکھا جو سپاٹ سا اسے دیکھ رہا تھا۔ ہما اٹھی اور بڑے پیار سے اسے بولی اپنی غلطی مان لینا بڑائی ہے بیٹا۔

ہما نے سعد کے باپ کے پاس جا کر کہا سوری انکل وہ کھڑا ہوا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا اوکے بیٹا۔ ماں نے سعد کی طرف اشارہ کیا تو وہ اسکے سامنے کھڑے دانت پسیج کر کر بولی سوری۔ سعد کے ساتھ سب مسکرانے لگے۔

نرگس کا شوہر بولا بیٹا آپ ہمارے سامنے بڑی ہوی ہو ہمیں تمہیں بہو بنانے میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر مسئلہ ہمارے والدین کی خوشی کا ہے ہم خود بوڑھے ہو چکے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ بیٹا ہمارے پاس رہے اسی طرح ہمارے والدین کی بھی خواہش ہوتی ہے۔ چلو نوکری اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ہمیں گاوں سے نکلنا پڑا اگر ہم وہیں رہتے اور بچے کو تعلیم کے لئے اکیلے شہر یا ہاسٹل ڈال دیتے تو وہ بھی درست نہیں تھا میری نوکری شہر میں تھی پھر میری بیوی بھی بچے کے لیے ضروری تھی اور مجھے بھی اس کی ضرورت تھی آخر یہ میرے لیے آئی تھی شہر کی تھی۔ اب والدین کو ہماری خدمت کی ضرورت ہے اور بچے کو دو سال بعد اجازت دیں گے کہ جدھر اس کا مستقبل سنورتا ہے بیوی کو لے کر چلا جاے۔ میں تو اب جب تک والدین زندہ ہیں ان کے ساتھ رہوں گا بیوی کو دو سال کے بعد اجازت ہو گی چاہے گاوں رہے یا بیٹے کے ساتھ رہے یا دونوں جگہ آتی جاتی رہے۔

نرگس کا شوہر معزرت کرتے ہوئے بولا کہ ہمیں بیٹے کے لیے نتاشا جیسی عادتوں والی سیدھی سادی گھریلو لڑکی چاہیے جس سے میری والدین راضی رہیں اور وہ اس ماحول میں رچ بس جائے ان کی خدمت کرے وہاں کے رسم ورواج کی پاسداری کرے۔ صرف دو سال کی ڈیمانڈ ہے۔ میری بیوی نے پانچ سال وہاں گزارے پھر میں نے سوچا اب بچے کے مستقبل کا سوال ہے۔ مگر میں نجو جی کو اس شرط پر لایا تھا کہ وہ گاوں میں ہر عید گزارے گی۔ وہ اس نے نبھایا ویسے کم جاتی لیکن عید پر لازمی جاتی ہے۔ اب بتائیں کیا میں نے غلط سوچا ہے نتاشا بھی کوئی پرائئ نہیں آپ کی بھانجی ہے آپ کا خون ہے۔ یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ اس بن ماں کی بچی کو سگی بیٹی اور اپنی بیٹی میں کوئی فرق نہ رکھنے والی ماں ملی۔ ویسے بھی وہ آپ کی ہی زمہ داری ہے آپ نے ہی اس کی شادی کرنی ہے۔ کیونکہ عروبہ نہ ہی گاوں رہ سکتی ہے نہ وہاں جیسی زندگی گزار سکتی ہے۔

عروبہ نے کہا کہ انکل میں اپنی آنی اور سعد کی محبت کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔ دو سال کی بات ہے نا گزار لوں گی۔ نرگس بولی وہ یہاں سے بلکل مختلف لاہف ہے۔ چند دن کا جوش ہو گا پھر مجھے بھی زلیل کرواو گی۔ دو سال کیا تم وہاں دو دن بھی نہیں گزار سکتی۔ وہ بولی میں چیلنج کرتی ہوں کہ میں گزار کر دیکھا دوں گی۔ تم گھبرا جاو گی وہ بولی آنی آپ ساتھ جو ہوں گی۔

نرگس کے شوہر نے بیٹے کو دیکھا۔

ناول پارٹ۔ 17۔

سعد کی طرف باپ نے دیکھا اور پوچھا کہ بتاو بیٹا تم کیا کہتے ہو نتاشا سے شادی کرو گے یا عروبہ سے۔ عروبہ نے اسے کچھ غصے اور کچھ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو تو وہ اسے ترچھی نظر سے دیکھ کر مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا اس بھوتنی کو ہی آزما لیتے ہیں۔ وہ تیزی سے اٹھی اور غصے سے اٹھی کشن اٹھایا اور بولی بھوتنی کسے بولا ہے خود ہو گے جن بھوت۔ باپ نے ایکدم ڈانٹا اور کہا کہ شوہر کی گاوں میں بہت عزت کی جاتی ہے۔ تم نے وعدہ کیا ہے کہ اپنے آپ کو چینج کرو گی۔

وہ وثوق سے بولی تو بدلوں گی نا۔ نرگس بولی تمھارے انکل کو کیسے یقین آئے گا تو عروبہ اکتا کر بولی پھر کیسے یقین دلاوں۔ نرگس نے کہا کہ چلو جا کر نتاشا کی شلوار قمیض پہنو دوپٹہ سر پر لو اور چاے اور پکوڑے بنا کر لاو۔ وہ چلا کر بولی کیا میں نتاشا کے کپڑے پہنوں۔

باپ نے کہا کیا ہوا تمھاری بہن ہے۔ وہ بولی ڈیڈ میں اکلوتی ہوں میری کوئی بہن نہیں۔

نرگس نے کہا کہ تم سے نہیں ہو سکتا رہنے دو۔ یہ مجھے شوہر کے سامنے ابھی سے شرمندہ کروا رہی ہے۔ میرا خیال ہے نتاشا کو ہی۔ ابھی وہ اتنا ہی بولی تھی کہ عروبہ جلدی سے بولی اچھا آنی میں کرتی ہوں۔وہ تیزی سے کچن میں چلی گئی۔

ہما نے کہا کہ بیٹا نتاشا سے سیکھ لو تو وہ جھٹ سے بولی نو تھینکس میں نیٹ پر سے ریکھ لوں گی۔

ماں نے کہا کہ بیٹا ہر چیز نٹ سے نہیں سیکھی جا سکتی۔ مگر وہ نہ مانی۔

نرگس نے ہما اور نتاشا کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ نتاشا خاموش اور اداس بیٹھی ہوئی تھی۔ ہما نے نتاشا کو دیکھ کر کہا نتاشا تمھاری طبیعت خراب ہے جا کر لیٹ جاو وہ تیزی سے اٹھ کر چلی گئی۔

نرگس نے پوچھا عروبہ کیا کر رہی ہے ہما نے بتایا نٹ پر دیکھ کر پکوڑے بنا رہی ہے۔

عروبہ کو بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔کوئئ چیز آسانی سے نہ مل رہی تھی۔ ماں کو بھی نہیں بلا سکتی تھی کہ وہ لوگ سمجھتے کہ ماں نے بناے ہیں۔ نتاشا سے وہ پوچھنا نہیں چاہتی تھی۔ بڑی مشکل سے چیزیں پوری کیں۔ اور جلدی جلدی بنانے لگی۔

ساجد کو بیٹی کی فکر ہو رہی تھی اس نے ہما سے کہا کہ وہ تیل گرم ہوتا ہے جلا نہ لے تو نرگس بولی بچی نہیں ہے کر لے گی۔ ہما کو بھی اندر سے فکر ستا رہی تھی مگر مجبور تھی۔

نتاشا لیٹی چھت کو گھور رہی تھی آنسوؤں کا سلسلہ روانی سے جاری تھا۔ اپنی قسمت پر غور کر رہی تھی کہ کیا قسمت تھی اس کی۔ وہ سوچنے لگی اس نے تو کھبی کسی کا برا نہیں چاہا تھا برا چاہنے والوں کی بھی دل سے خدمت کی تھی پھر جب اس نے سنا کہ عروبہ کی جگہ اسے قبول کیا گیا ہے تو اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ کتنے خواب اس کی آنکھوں میں سج گئے۔ مگر تعبیر کتنی بھیانک نکلی۔ اس کو ہما ہمیشہ سمجھاتی کہ کھبی خواب نہ دیکھنا کیونکہ خواب انسان اپنی مرضی سے دیکھتا ہے اور تعبیر رب العزت کی مرضی سے ہوتی ہے جو ہمارے حق میں بہتر ہوتی ہے بس انسان اس کی رضا میں خوش رہے َاور رب العزت پر بھروسہ رکھے کہ جو بھی ہوا وہ اس کے بھلے کے لیے ہوا۔ تو اس صبر کا اس کو ایسا اجر ملتا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے پر شرط یہ ہے کہ رب العزت کے ہر فیصلے کو خوشی سے قبول کرے اور اس کے فیصلے پر شاکر رہے۔اس نے رو کر اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے پیارے رب میں جانتی ہوں کہ تو نے جو میرے ساتھ کیا وہ میرے بھلے کے لیے کیا تیری منطق میں نہیں سمجھ سکتی۔ تو مجھے اس فیصلے کو قبول کرنے کا حوصلہ عطا فرما اور مجھے پرسکون زندگی عطا فرما اب مجھ میں اور سہنے کی سکت نہیں ہے۔ میں تیرے ہر حکم پر راضی اور خوش ہوں۔ مجھے معاف فرما۔ اور کروٹ لے کر آنکھیں موند کر لیٹ گئ۔

سب ڈراہنگ روم میں عروبہ کے چاے پکوڑوں کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ ٹرالی سجاے اندر آئی۔ ابھی تک اس نے ہاف بازو ٹی شرٹ اور چست ٹراوزر پہنا ہوا تھا۔

نرگس نے ٹوکا تم نے ابھی تک کپڑے چینج نہیں کیے کم از کم دوپٹہ ہی لے لیتی۔

وہ بولی آنی میں نے ابھی نہا کر چینج کرنے ہیں میں نے سوچا چاے ٹھنڈی ہو جائے گی اور پکوڑے بھی۔ بس میں ابھی آئی۔ وہ یہ کہہ کر تیزی سے نکل گئی۔

ساجد نے پہلی بار اس کے اس چست لباس کو دیکھ کر شرمساری محسوس کی۔ ورنہ تو وہ خود اسے ساتھ لے جا کر ایسے لباس لے کر دیتا تھا۔

ہما اٹھی اور چاے اور پکوڑے سرو کرنے لگی۔ چاے ٹھیک تھی مگر پکوڑے کچھ عجیب ٹیسٹ کے تھے۔ کھانے میں ٹیسٹی تھے۔

نرگس نے پوچھا یہ کس چیز کے بنے ہوئے ہیں۔

اتنے میں عروبہ شلوار قمیض میں ملبوس آ گئی۔

آتے ہی لاڈ سے لمبا سا کر کے بولی آنئ میں کیسی لگ رہی ہوں اس نے سر ہلایا اور کہا کہ سر پر دوپٹہ لو تو وہ سر پر دوپٹہ لے کر بیٹھ گئی۔ سعد بہت خوش دکھائی دے رہا تھا بڑے زوق وشوق سے پکوڑے کھا رہا تھا۔

عروبہ سب کو پکوڑے کھاتے بس دیکھ رہی تھی۔

وہ پوچھنے لگی کہ کیسے بنے ہیں۔

نرگس بولی لگتا ہے یہ بیسن کے نہیں ہیں۔ عروبہ جلدی سے بولی آنئ سچی بیسن کے ہیں۔

ہما نے نظریں جھکاے بتایا کہ لگتا ہے اس نے بیسن کی جگہ مکئ کا آٹا ڈال دیا ہے۔ سب ہنسنے لگے۔ عروبہ شرمندگی سے بولی سوری۔

نرگس کے شوہر نے کہا کہ پہلی بار ہے کوئی بات نہیں بہرحال کوشش اچھی ہے شاباش۔

نرگس نے حکم دیا کہ اب یہ برتن لے جاو۔ وہ خاموشی سے برتن سمیٹنے لگی سعد دیکھ کر مسکرا رہا تھا دوپٹہ اس سے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ سعد کو غصے سے آنکھیں دیکھانے لگی۔ اس نے اٹھ کر ساتھ برتن سمیٹنے میں مدد کی۔

نرگس کچن میں آئی اور عروبہ سے بولی یہ چاے بنانے میں پورا کچن بھر دیا ہے اسے سارا سمیٹو۔ پیچھے باپ آ گیا اس نے کہا آپا میری بیٹی نے ہم سب کو چیلنج کیا ہے دیکھنا یہ اب کھبی ہارے گی نہیں اور اب نتاشا سے بھی اچھی بن کر دیکھاے گی

نرگس بولی امید تو نہیں ہے آج بھی اس نے پکوڑے کس چیز کے بنا دیے۔ ابھی ہمارے نکلنے کی دیر ہے اس نے واپس اپنی ڈگر پر آ جانا ہے۔ نہ کوئی کام کاج سیکھنا ہے۔ بہتر ہے کہ آپ لوگ اب نتاشا کے سارے کام اسے سکھاو اسے گھر کے سارے کام آہیں گے تب ہی میری ساس اسے قبول کرے گی رشتہ اگر ہو بھی جائے تب بھی آخری دن تک مجھے اپنی نند سے خطرہ رہے گا۔ اس نے صاف کہا ہے کہ بھائی کے لیے شہر کی لاے تھے تو وہ رچ بس نہ سکی اور بھائی بھی چلا گیا اب گاوں کی یا ایسی لڑکی ہو جو ادھر رچ بس جائے۔ گھر میں ننف کی چلتی ہے۔ اس نے نتاشا کا انتخاب کیا ہے کہ وہ اس گھر کے لیے مناسب ہے۔ میں اس کے آگے مجبور ہو گئی ہوں۔ سعد بھی ان سب کے ساتھ متفق ہے۔ اب اگر اس نے نتاشا جیسا بننا ہے تو تب ہی ادھر اس کی جگ بن سکتی ہے۔ اب ایک منٹ ضائع کیے بغیر اس کی ٹریننگ شروع کر دیں جب تک میری نند آتی ہے فاہنل فیصلہ وہی کرے گی۔ شکر ہے میرے شوہر نیم رضامند ہو گئے ہیں ورنہ مجھے کوئی امید نہ تھی۔

ساجد نے یقین دلایا کہ ایسا ہی ہو گا۔ نرگس نے کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو مجھے مجبور ہو کر نتاشا کو ہی بہو بنانا پڑے گا کیونکہ اسے نتاشا بہت پسند ہے۔ اب جب تک وہ امریکہ سے آتی ہے آپ لوگ اسے تیار کر لیں ورنہ نتاشا تو ہے ہی۔ عروبہ کو نتاشا کے نام سے آگ لگ گئی اس نے بھی دل میں فیصلہ کر لیا کہ وہ ہار نہیں مانے گی اور نتاشا کو جیتنے نہیں دے گی۔

نرگس کے جانے کے بعد ساجد نے کہا کہ چلو بازار تمھارے لیے شلوار قمیض والے سوٹ خریدنے ہیں اب پرانے ڈریس کو بھول جاو۔ پہلی بار عروبہ کو اس شاپنگ کی خوشی نہ ہوئی۔ اس کے دل میں ڈر بیٹھ گیا کہ یہ نہ ہو کہ نرگس کی نند اسے ریجیکٹ کر کے نتاشا کو قبول کر لے۔ اس نے دل میں عزم کر لیا کہ وہ نتاشا کو جیتنے نہیں دے گی۔

ساجد اسے لیکر بازار چل پڑا اور ساتھ والی پڑوسن خالہ آ گئ۔ وہ ہما سے پوچھنے لگی کہ کیا بات ہے تو ہما نے ساری بات خالہ پڑوسن کو بتا دی کہ وہ لوگ نتاشا کو بہو بنانا چاہتے تھے اور عروبہ نے ان کو سنا دیں۔

خالہ پڑوسن بولی تو کتنی بےوقوف ہے جب تیری اپنی بیٹی کی قسمت کھل رہی ہے تو تو اب بھی بےبسی دیکھا رہی ہے۔ تو نے بہت قربانیاں دے لیں۔ ہما نے روتے ہوئے کہا کہ وہ کیا کرے پھر وہ پچھلی باتیں دہرا کر رونے لگی کہ وہ اپنا گھر بچانے کے لیے عروبہ کو اپنی بیٹی بتانا پڑا۔ شوہر نے صاف کہہ دیا تھا کہ لڑکا ہو یا لڑکی بس بچہ خوبصورت ہو ورنہ وہ اور شادی کر لے گا۔ اس جنونی انسان سے مجھے ڈر ہی لگتا تھا جس نے شادی کے بعد بھی چکر چلاے رکھے تھے۔ مجھے اس بےبس بوڑھے سسر پر ترس آتا جس کی جوان بیٹی فوت ہو گئی اور وہ اس کا منہ بھی نہ دیکھ سکا۔ پھر وہ میرا بہت احسان مند تھا کہ میں اس کی نواسی کو پالوں اور اسے اپنی بیٹی بتاوں۔ اس نے کہا کہ وہ حسن پرست ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ وہ کچھ کر گزرے پھر وہ بہن سے نفرت کرتا ہے تو اگر بچی بدل دی تو اسے بہن کی بیٹی سے بھی پیار ہو جائے گا جب جوان ہو گی تو سچ بتا دینا اس وقت تک اسے بہن کی بیٹی سے لگاو ہو چکا ہو گا جو ویسے کھبی ممکن نہیں۔ پھر جب اپنی بیٹی کا پتا لگے گا تو اس وقت تک وہ سمجھدار ہو جائے گا اور خون جوش مارے گا تو وہ اپنی بیٹی کو بھی اپنا لے گا۔

خالہ پڑوسن بولی کہ اب وقت آ چکا ہے بتانے کا ورنہ وہ جاہیداد عروبہ کے نام لگوا دے گا وہ جو کہتا ہے کہ وہ عروبہ کی شادی دھوم دھام سے کرے گا وہ سب کچھ اس پر لٹا دے گا۔ تیری بیٹی سانولی ہے لوگ گورے رنگ پر مرتے ہیں۔ تیری بیٹی کی قسمت کھل رہی ہے تو خود کلہاڑی نہ مار اس کی قسمت پر۔ یہ نہ ہو وہ شادی سے پہلے جاہیداد بھی اس کے نام لگوا دے۔

ناول پارٹ 18۔

خالہ پڑوسن نے کہا کہ تو اب بیٹی کو بھی بتا دے سچائی۔ ہما روتے ہوئے بولی میرا حوصلہ نہیں پڑتا کہ سچائی بتا سکوں کس منہ سے یہ ساری باتیں بتاوں کہ تیرا باپ خوبصورت اولاد چاہتا تھا ورنہ وہ خوبصورت اولاد کو پانے کے لئے دوسری شادی کر لیتا وہ میرے بارے کیا سوچے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ میری بیٹی صبر والی ہے۔وہ تو ہر جگہ ایڈجسٹ ہو سکتی ہے۔ مگر عروبہ کی عادتیں میری بہن اور سعد ہی سمجھتے ہیں اور وہ اس کو ان عادتوں سمیت قبول کر رہے ہیں تو میں شکر کرتی ہوں کہ اس کا گھر بس رہا ہے وہ بھی ہماری ہی زمہ داری ہے جب تک عروبہ کی شادی نہ ہو جائے وہ اچھی طرح وہاں رچ بس نہ جائے میں اس راز کو راز رکھوں گی۔ ابھی تو میری بہن بھانجی کی محبت میں اس کی بگڑی عادتوں سمیت قبول کر رہی ہے اگر اسے بتا دیا تو وہ اسے کھبی قبول نہیں کرے گی اور اپنی بھانجی کو ہی فوقیت دے گی۔ دوسری طرف عروبہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے گی کہ ہم اس کے والدین نہیں ہیں اور وہ سعد کو بھی کسی اور کا نہیں ہونے دے گی اور یہ نہ ہو کہ وہ اس صدمے سے اپنے آپ کو کچھ کر نہ بیٹھے۔ پھر کیا کروں گی۔ اگر شوہر کو بتایا کہ میں نے جھوٹ بولا تھا تو وہ اس بات پر بھی ناراض ہو سکتا ہے کہ جھوٹ کیوں بولا۔ میں تو ہر طرف سے پھنس چکی ہوں اپنی بیٹی کے لیے دل دکھتا ہے کہ میں نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس کو اب کس منہ سے اپنی مجبوری بتاوں کہ زیادہ سسر نے اس اقدام پر فورس کیا تھا شاید انہیں اپنی پوتی سے زیادہ نواسی کا مفاد عزیز تھا وہ اپنے بیٹے کو ڈانٹ کر سمجھا بھی سکتے تھے کہ خوبصورت اور بدصورت ہونا اپنے بس میں نہیں۔ یہ اوپر والے کی مرضی ہے۔ اس وقت تو وہ باپ کی سنتا بھی تھا مگر اس معاملے میں نہ ہی انہوں نے بیٹے کو سمجھانا ضروری سمجھا بلکہ میں نے جزبات میں آ کر یہ بول دیا کہ ساجد بھانجی سے نفرت کرے گا تو کیوں نا بچی بدل دیں تاکہ اسے اس سے ییار ہو جائے تو بعد میں بتا دیں گے تو انہیں یہ آہیڈیا بہت پسند آیا اور اس پر قاہم رہنے کے لئے مجبور کرتے رہے۔ جب نتاشا کے ساتھ ساجد نے زیادتی کی تو تب بھی انہوں نے بتانے نہ دیا بلکہ وعدہ لیا کہ جب تک عروبہ جوان نہ ہو جائے تم نے چاہے کچھ بھی ہو نہیں بتانا دیکھنا تمھاری اس نیکیوں کے سلسلے میں تمہیں اوپر والا کتنا اجر دے گا اب بس اپنی بیٹی کے لئے اپنے رب سے ہی امید ہے اسی پر بھروسہ ہے۔

اتنے میں نتاشا روتی ہوئی آئی اور ہما کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی بس روتی جا رہی تھی منہ سے کچھ نہ بول رہی تھی۔

پڑوسن خالہ کچن سے جا کر پانی لے آئی۔ بڑی مشکل سے دونوں نے اسے دلاسے دیے اور پانی پلایا تو وہ کچھ بولنے کے قابل ہوئی۔ اس نے بتایا کہ اس نے سب سن لیا ہے تو دونوں حیران اس کو پھر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔ہما نے روتے ہوئے جھٹکے سے اسے گلے لگایا اور معافیاں مانگنے لگی وہ اسے ایسے چمٹا چمٹا کر چوم رہی تھی جیسے پہلی بار مل رہی ہو۔ کافی دیر ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے کے بعد ہما نے ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگی تو نتاشا نے اس کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا کہ ماما آپ بہت نیک اور بھولی عورت ہیں جو دوسروں کی خوشی میں اپنی خوشی تلاش کرتی ہیں۔ اور دنیا کے دکھ سہتی ہیں میں آپ سے گلہ نہیں کرتی۔ اس وقت آپ کو جو ٹھیک لگا وہ کیا اب مجھے والدین مل گئے ہیں وہ بھی اصلی۔ مجھے دنیا بھر کی دولت مل گئی ہے۔ بےشک پاپا عروبہ کے نام ساری جاہیداد لگا دیں مجھے کچھ نہیں چاہیے اور نہ ہی آپ کو ساری زندگی اس راز سے پردہ ہٹانے کی ضرورت ہے۔ عروبہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے گی۔ اور آپ نے اسے ایک دن کا پالا ہے اور مجھ میں اور اس میں آپ نے کھبی فرق نہیں رکھا۔ میں پہلے اسے اپنے محسنوں کی بیٹی سمجھ کر پیار کرتی تھی اور اس کی باتوں کا زیادہ برا نہیں مناتی تھی بس وقتی ہرٹ ہر کر جلد بھول جاتی تھی اب مجھے اس پر ترس آ رہا ہے اور پاپا بھی اس سے بہت پیار کرتے ہیں وہ بھی زہنی ازیت میں مبتلا ہو جاہیں گے سب ڈسٹرب ہو جائیں گے سب کا زہنی سکون تباہ ہو جائے گا اب مجھے تو سہنے کی عادت تھی مگر اب تو میں بالکل بھی برا نہیں مناوں گی اب ہم دونوں تنہائی میں ماں بیٹی کے رشتے کو انجوائے کریں گے۔ میں صرف اپنی خوشی کے لیے سب کی خوشیوں کو گہن نہیں لگا سکتی۔ مجھے جاہیداد نہیں چاہیے۔ اسی طرح چلنے دیں جس طرح سے پہلے چل رہا تھا۔ مجھے اب بس دلی سکون مل گیا ہے کہ میں لاوارث نہیں ہوں والدین کا سایہ میرے سر پر موجود ہے۔ جو کچھ بھی ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر میں ان حالات سے نہ گزرتی تو شاید کندن نہ بنتی۔ مجھے آپ کی تربیت پر فخر ہے۔ عروبہ میری بہن ہے میں اس کی خوشیاں برباد کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ آپ اب پرسکون زندگی گزاریں۔ چلیں میں اچھی سی چائے بناتی ہوں اور مل کر پیتے ہیں رونے سے آپ کا سر بھی دکھ رہا ہو گا۔

پڑوسی خالہ نے اسے گلے لگا کر مبارک باد دی اور اپنے آنچل سے آنسو صاف کیے۔ وہ اجازت لے کر چل دی کہ بہت دیر ہو گئی ہے۔

نتاشا چاے بنانے چلی گئی تو ہما اپنے آپ کو ہلکا پھلکہ محسوس کر رہی تھی۔ اسے اپنی بیٹی پر فخر محسوس ہونے لگا۔ اتنے میں سعد کا فون آگیا اس نے کہا کہ خالہ جانی میں نے نتاشا سے معافی مانگنی ہے آپ فون ریکارڈنگ پر لگا کر اسے سنا دیجئے گا میرا اس سے بات کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔

ہما نے کہا اچھا۔ پھر اس نے سب سے پہلے نتاشا سے معافی مانگی۔ اس نے بتایا کہ وہ عروبہ کو بچپن سے پیار کرتا آیا ہے وہ اس سے گریزاں رہتی تو اسکے پیار کو اور ہوا ملتی۔ اس نے نتاشا کو ہمیشہ دل سے بہن تصور کیا تھا مگر والد صاحب اور دادا دادی نے صاف حکم دے دیا کہ وہ نتاشا کو بہو بنانا چاہتے ہیں تو ماں نے عروبہ کا بولا مگر دادا دادی نہ مانے تو پاپا نے ماں کو بلیک میل کیا کہ اگر ان کی بات نہ مانی تو مجھے نہ صرف جاہیداد سے عاق کر دیں گے بلکہ ماما کو بھی گاوں نہیں آنے دیں گے اور خود اکیلے گاوں میں چلے جائیں گے۔ ماں نے مجبور ہو کر مجھے منانا شروع کیا تو میں نے وقتی طور پر جان چھڑوانے کے لیے ہاں بول دی کہ خالہ کے گھر جا کر سب مل کر پاپا کو سمجھائیں گے اور بات بن جائے گی۔ مجھے نتاشا کو آنے سے پہلے سچائی بتا دینی چاہیے تھی مگر یہ میری غلطی ہے۔ نہ جانے نتاشا میرے بارے میں کیا سوچتی ہو گی میں اس سے معافی مانگتا ہوں۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ میرے والدین دادا دادی کے اس فیصلے پر اتنے سیریس ہو جائیں گے وہ تو عروبہ نے ہمت دکھائی۔ مجھے عروبہ کے لباس رہن سہن اور اس کی عادات سے کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر دو سال کے لئے اسے تھوڑا سمجھا دیں کہ میں بعد میں اسے یا تو ساتھ باہر لے جاوں گا یا شہر لے آوں گا پھر اس پر کوئی پابندی نہیں ہو گی جیسے مرضی کرے۔

میں نتاشا کے لیے بھی اچھے رشتے کے لے کوشاں رہوں گا مجھے اللہُ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ آپ کی نیکیوں کے بدلے اس کے نصیب اچھے کرے گا انشاءاللہ۔

ناول پارٹ۔ 19۔

ہما نے نتاشا کو سعد کے فون کا بتایا اور ریکارڈنگ سنا دی اس نے ایک سرد آہ بھری اور ماں سے کہا ماما میں نے کھبی سعد کے خواب نہ دیکھے تھے میں جانتی تھی خالہ ہر وقت عروبہ کو بہو بنانے کا بولتی ہیں اور سعد بھی عروبہ کو دلچسپی سے دیکھتا ہے اور میری طرف احترام سے دیکھتا ہے بس وہ مجھے عزت دیتا تھا اور میں اس کی کمپنی کو غنیمت سمجھتی تھی کہ کوئی تو ہے جو میری فیور لیتا ہے۔ پھر جب سنا کہ خالہ اور سعد سمیت سب نے میرے ساتھ رشتہ جوڑنے کی خواہش ظاہر کی ہے تو میں دنگ رہ گئی اور خواب آنکھوں میں سجا لیے اور جب خواب ٹوٹے تو دکھی ہو گئی۔ سعد سے ویسے ہی بچپن کی نسبت سے لگاو ہے۔ میں جانتی ہوں اس کا کوئی قصور نہیں۔ نہ ہی اس نے مجھے کوئی خواب دیکھاے۔ اب تو اس نے کلیر بھی کر دیا۔ میں جانتی ہوں جو بھی ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے سعد اور خالہ اگر میرا رشتہ نہ مانگتے تو عروبہ کھبی سدھرنے کا نام نہ لیتی اور آگے اس کے لیے مسائل برپا ہو جاتے۔ اب کمازکم یہ مسئلہ حل ہو رہا ہے وہ اب جزبے َاور میری ضد میں سب سیکھے گی۔ میں اس کے لیے بہت خوش ہوں۔

ہما نے اسے گلے لگا کر پیار کیا۔ اور بولی صبر والی ماں کی صبر والی بیٹی۔

نتاشا بولی ماما کھبی کھبی میرے دل میں خواہش جاگتی کہ کاش آپ میری ماں ہوتی اور پاپا بھی میرے پاپا ہوتے۔ یہ گھر میرا اصل میکہ ہوتا اور میں بڑے مان سے ایسے آتی جیسے بیٹیاں اپنے والدین کے گھر آتی ہیں۔ اور واقعی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے میں نے یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ بقول آپ کی نصیحت اوپر والا جس حال میں بھی رکھے اس کی رضا پر راضی رہو تو وہ بہت نوازتا ہے۔ انسان تکلیف پر شکوے شکایت کرنے کی بجائے اس کا شکر بجا لاے تو اس کی سوچ سے بھی بڑھکر اسے ملتا ہے۔ جیسے مجھے ملا مجھے لگتا ہے کہ ہفت اقلیم کی دولت مجھے مل گئ ہو۔ میں نے نماز کے بعد اپنے رب العزت کے حضور شکرانے کے نفل ادا کیے ہیں۔

آج میں سکون کی نیند سو سکوں گی اور اپنے سکون کے لئے عروبہ کا سکون برباد نہیں کروں گی کھبی اسے اپنے والدین کا طعنہ نہیں دوں گی نہ ہی اس پر احسان جتاوں گی کہ میں نہیں تم میرے والدین کے ٹکڑوں پر پلی ہو۔ میں یہ ناشکری کھبی نہیں کروں گی۔ کھبی لب نہ کھولوں گی کبھی اس گھر پر والدین پر حق نہیں جتاوں گی۔ میری خوشی کے لئے یہی احساس ہی کافی ہے کہ میں لاوارث نہیں ہوں بلکہ میرے والدین حیات ہیں۔ مجھے اب پاپا کو دیکھ کر خوشی ہوگی کہ وہ میرے پاپا ہیں بےشک وہ مجھ سے پیار نہ کریں۔ یہ احساس ہی کافی ہے کہ وہ عروبہ کے نہیں میرے پاپا ہیں سگے بلکل سگے۔

اتنے میں عروبہ اندر آئی اور نتاشا کو ماں کے ساتھ چائے پیتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی میں تو سمجھی تم ابھی تک روتی سوگ منا رہی ہو گی اپنے ٹھکرائے جانے کا مگر تم تو خلاف توقع مسکرا رہی ہو۔ اتنے میں ساجد گاڑی کی چابی اٹھاے ہاتھ میں کچھ شاپرز لیے اندر آیا تو نتاشا نے اپنے باپ کو فدا نظروں سے دیکھا وہ اس کے اس طرح دیکھنے پر تھوڑا حیران ہوا ورنہ وہ تو اس کی طرف دیکھتی نہ تھی۔

ساجد نے ہما کو شاپر پکڑاے اور بولا یہ تم دونوں کے کچھ سوٹ ہیں عروبہ کے رشتے کے لیے شاید گاوں جانا پڑے۔ وہ خوش ہو کر نتاشا سے بولی نتاشا یہ دیکھو تمھارے پاپا تمھارے لئے کپڑے لاے ہیں وہ خوشی سے آ کر کپڑے دیکھنے لگی تو عروبہ اکر بولی اس کے نہیں میرے پاپا۔ پھر وہ نتاشا سے بولی چاے پلاو توبہ تھک گئی ہوں۔

ہما نے کہا تم خود بناو نا نتاشا بولی ماما میں بنا دیتی ہوں۔ ہما نے کہا کہ تم نے ٹاسک لیا ہے کام کی پریکٹس کیسے ہو گی۔

عروبہ کانوں میں ہیڈ-فون لگا کر صوفے پر آرام سے بیٹھ کر ٹانگیں میز پر رکھ کر فون پر لگ گئی اور ہما سے بولی موم میں نے صرف کام سیکھنا ہے نہ کہ منٹ منٹ بعد چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے اٹھتی رہوں۔ دیکھا نہیں آپ نے میں نے پہلی بار میں ہی بغیر کسی مدد کے چاے اور پکوڑے بنا ہی لیے تھے نا۔

ساجد بھی آ کر صوفے پر بیٹھ گیا اور نتاشا دو کپ چائے کے لے آئی ایک کپ عروبہ کے پاس رکھا اور ایک کپ ساجد کو پکڑاتے بولی پاپا آپ کی چاے۔ عروبہ بولی کم از کم میرے سامنے تو یہ فیک لفظ نہ بولا کرو میرے پاپا۔ یہ تمھارے نہیں میرے پاپا ہیں تمھارے تو بدقسمتی سے ماموں ہیں وہ سوتیلے جو تمھاری ماں سے نفرت کرتے تھے۔ وہ جواب میں ہلکی سی مسکرائی اور چل دی۔ عروبہ نے دیکھا پہلے کی طرح اس کی باتوں سے نہ اس کے چہرے پر دکھ کے ساے لہراے اور نہ اس نے بےبسی سے اس کی طرف دیکھا بلکہ مسکراہٹ دباتی چل دی آج اس کی چال میں بھی ایک اعتماد تھا عروبہ آہستہ سے بولی ڈیڈ یہ بھی ڈھیٹ ہو گی ہے۔

ساجد نے کہا کہ عروبہ جان اب آپ نے نتاشا کو جلی کٹی نہیں سنانی ہیں اب یہ عادت چھوڑنی پڑے گی مبادا اب آپ کے سسرال والے آیا کریں گے تو بےاختیار کچھ منہ سے نکل گیا تو امپریشن اچھا نہیں پڑے گا۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ لوگ میری شہزادی کا رتی بھر بھی مقابلہ کر کے اس کی تعریف کریں اور میری شہزادی کے لیے دل میں بدگمان ہوں۔ آپ کو کم از کم اب نتاشا کی طرح بننا ہے اس کو کاپی کرنا ہے آخر پہلے ان لوگوں نے اس کے رویے سے ہی اسے بہو کا مقام دینے کا ارادہ کیا تھا اب آپ اسے یہ جلی کٹی نہیں بولو گی۔ عروبہ لاڈ سے بولی ڈیڈ فیکٹ از فیکٹ آپ لوگ میرے پیرنٹس ہیں۔ ساجد اسے سمجھاتے ہوئے بولا مائی پرنسس وہ لوگ اسے تمھاری بہن اور ہما کی بیٹی مانتے ہیں کیونکہ ہما نے ایک دن کا اسے ماں بن کر پالا ہے تو ظاہر ہے سب ہمیں ہی اس کے پیرنٹس سمجھیں گے نا۔ آپ چاہتی ہو کہ آپ کی چھوٹی سی غلطی سے فیڈ ہو کر وہ لوگ واپس نتاشا کا سوچیں ابھی اس کا رشتہ بھی تو نہیں ہوا نا

عروبہ بولی ڈیڈ اب میں اس کی طرف سے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی اب آپ اس کے لیے جلدی سے کوئی رشتہ ڈھونڈیں اس کے لیول کا جو آپ کو آسانی سے مل جائے گا۔ اور ہاں کوئی غریب لاوارث گھر داماد ڈھونڈ لیں تاکہ موم کو پرمننٹ ہیلپ ملتی رہے ورنہ موم اکیلی سارے کام کیسے کریں گی۔ اور اس کا شوہر گھر کے باہر کے کام بھی کر دیا کرے گا۔

وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا میرے آفس کے کلرک اپنے بھتیجے کے رشتے کا زکر کر رہے تھے جس کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور انہوں نے اسے پالا تھا۔ میں کل ہی آفس جا کر بات کرتا ہوں۔

ہما اور نتاشا بےبسی سے ان دونوں کی گفتگو سن رہی تھیں۔

ہما نے کہا کہ مجھے اپنا لالچ نہیں ہے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے اچھے رشتے اتنی جلدی نہیں ملتے مگر وہ قاہل نہ ہوا اور بولا میں جلد از جلد اس کا رشتہ طے کرنا چاہتا ہوں تاکہ میری بیٹی کو کوئی خطرہ نہ رہے۔

عروبہ کے بار بار یاد کروانے پر اس نے اپنے کلرک سے پوچھا اسے اپنی بھانجی کے لیے گھر داماد کا رشتہ چاہیے بھانجی کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور اسے بھی ایسا رشتہ چاہیے جس کے والدین حیات نہ ہوں اور وہ اسے گھر داماد بنا کر رکھ سکے۔ کلرک نے معزرت کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو اس کا رشتہ ہو چکا ہے دوسرے وہ گھر داماد بننے کو تیار نہیں تھا اسے پہلے بھی افر ملی تھی مگر وہ نہ مانا وہ ہمیں چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اتنے میں عروبہ کا پھر فون آ گیا جو اسی مقصد کے لیے بار بار فون کر رہی تھی کہ آفس کا ایک اور بزرگ ورکر اندر داخل ہوا جو ہاتھ میں فائلیں اٹھاے اندر آ رہا تھا اس نے ان کی گفتگو سن لی اور بولا سر میرا بھتیجا ہے جس کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور وہ گھر داماد بن کر رہ لے گا۔

ساجد نے خوش ہوکر پوچھا پڑھا کتنا ہے۔ دراصل مجھے کمازکم بی اے پاس چاہیے تو وہ جھٹ خوشی سے بولا سر وہ بی اے پاس ہے میں نے تو اس کی نوکری کی درخواست بھی ادھر دی ہے اس کی۔

ساجد نے کہا کہ ٹھیک ہے کل اسے مجھ سے ملواو۔

وہ خوشی سے بولا جی ضرور۔

ساجد گھر آیا تو عروبہ نے پھر جلدی ڈالی کہ جلدی سے اس کا رشتہ پکا کر دیں۔

ہما نے احتجاج کیا تو نتاشا نے کہا کہ ماما پلیز پاپا کو کرنے دیں جو بھی کرتے ہیں جس سے بھی کرتے ہیں مجھے تو بس یہ خوشی ہے کہ میرا باپ میرا رشتہ طے کر رہا ہے۔

ہما نے کہا کہ میری جان وہ باپ بن کر نہیں کر رہا بلکہ عروبہ کے جلدی ڈالنے پر بس فارمیلٹی کر رہے ہیں۔ مگر نتاشا نے کسی بھی قسم کا احتجاج کرنے سے ماں کو سختی سے روک دیا۔

اب کل ساجد نے اس لڑکے سے ملنا تھا اور عروبہ بےچین ہو رہی تھی کہ بس جلدی سے رشتہ ہو جائے۔

ناول۔ پارٹ 20۔

ساجد آفس میں لڑکے سے ملا اور مطمئن ہو گیا اسے لڑکا دبا دبا سا اور بی اے پڑھا ہوا مناسب لگا۔ اس کا چچا بھی ٹھیک تھا آفس میں اس سے کھبی کوئی شکایت نہیں ملی تھی۔ اس نے بتایا کہ بچپن میں اس کے بھتیجے کی ماں اس کی پیدائش کے دوران فوت ہو گئی تھی اس نے بیٹے کی طرح اسے پالا اپنا نام دیا کیونکہ باپ اس کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے فوت ہو چکا تھا۔ بڑا ہونے پر کسی رشتے دار نے اسے بتا دیا تو مجبوراً اسے بھی بتانا پڑا۔ اب اس نے اسے گھر داماد رہنے کا پوچھا تو وہ راضی ہے۔ ہم لوگ صرف شادی تک اس کا ساتھ دیں گے پھر اس کی زندگی میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔ بیٹے کو ملنے کے لیے کھبی کبھار اسے گھر بلا لیا کریں گے خود نہیں آہیں گے۔

ساجد چاہتا بھی یہی تھا کہ لڑکے کے گھر والے اس کی زندگی میں دخل اندازی نہ کریں اور اس سے دور رہیں انہوں نے خود ہی اس بات کا تزکرہ کر کے اسے مطمئن کر دیا۔ اسی لمحے اس کو بہن کی یاد ا گئ جس نے اسے پسند سے شادی کر کے زمانے بھر میں رسوا کروایا تھا جس کی وجہ سے اسے وہ گھر سیل کر کے شہر بھی چھوڑنا پڑا تھا تو اس کے دل میں بھانجی کے لیے بھی نفرت عود کر آئی اس نے سوچا کہ جلد از جلد اس کی شادی کر دے کہیں ماں کی طرح یہ بھی نہ باغی ہو جائے۔

وہ لڑکا اپنے چچا اور چچی کے ساتھ آیا اور چچی نے رسم ادا کی بولی انگوٹھی کا ساہز پتا نہیں تھا اس لیے نہیں لاے اور مٹھائی کھلا کر اور سرخ دوپٹہ اوڑھا کر رسم ادا کر دی اس سارے معاملے میں ہما بت بنی ربوٹ کی طرح رہی کیونکہ نتاشا نے ماں کو سمجھا دیا تھا کہ وہ ان کو منع نہ کرے آخر وہ بھی سوچ سمجھ کر فیصلہ کر رہے ہوں گے اور وہ ان کے ہر فیصلے پر راضی ہے۔

عروبہ بہت خوش تھی وہ سامنے نہیں لائی گئی تھی کہ کوئی گڑ بڑ نہ ہو جائے وہ زیادہ خوبصورت ہے تو اس کو سامنے نہ لایا جائے۔

ہما ساجد سے کھنچی کھنچی رہنے لگی فالتو بات نہ کرتی۔ جبکہ عروبہ بہت خوش تھی۔ ساجد نے عروبہ کی شادی پہلے کرنے کا فیصلہ کیا پھر اس نے عروبہ پر زرا سختی شروع کر دی اس کو گھرداری سیکھنے کا حکم دے دیا عزر یہ پیش کیا کہ اگر اس نے سستی دکھائی اور سسرال کی ڈیمانڈ پر پوری نہ اتری تو وہ نتاشا جیسی ان کو بہت مل جائیں گی تم سیریس ہو جاو اور ماں اور نتاشا کی مدد سے ہر کام میں اس قدر مہارت حاصل کر لو کہ وہ لوگ نتاشا کو بھول کر تمھارے گن گانے لگیں ہر کام کو شوق اور لگن سے دل لگا کر سیکھو۔

عروبہ نے جوش دیکھانا شروع کر دیا اب وہ نٹ پر سے نیو ڈشز دیکھ کر بنانے لگی کھبی ٹھیک بنتی کھبی خراب ہو جاتی اب وہ ہما سے سیکھنے لگی کھبی نتاشا کی مجبوراً مدد لے لیتی سیکھنے میں۔

نرگس آتی اور اس کا حوصلہ بڑھاتی۔ سعد اس کے کام کی تعریف کرتا۔ باپ مزید کوشش کرنے کی ہدایت کرتا۔ کھبی وہ تنگ پڑ جاتی تو باپ اسے ڈرا دیتا کہ ابھی بھی تم سب کچھ کھو سکتی ہو تو وہ ڈر جاتی اسے نتاشا کو سعد کے ساتھ سوچ کر جھرجھری آ جاتی۔ اب سعد نتاشا سے بات نہ کرتا کیونکہ عروبہ نے دونوں کو سختی سے منع کر دیا تھا۔ البتہ سعد نے نتاشا کے رشتے پر اچھا خاصہ احتجاج کیا تھا مگر ساجد ٹس سے مس نہ ہوا اس رشتے کو لے کر وہ سینسٹیو ہو گیا تھا کہتا وہ اس کا بھلا سوچ کر اسے گھر داماد بنا رہا ہے۔

نرگس نے ہما کو سمجھایا کہ نتاشا کے لیے یہ رشتہ بہت مناسب ہے تمہیں بھی تسلی رہے گی جب وہ ساتھ رہے گی اور گھر کے کاموں میں بھی مدد ملتی رہے گی اور تنہائی کا احساس بھی نہیں ہو گا تو وہ خاموش ہو گئ۔

نتاشا اب خوش رہنے لگی تھی وہ خوش تھی کہ شادی کے بعد بھی وہ والدین کے ساتھ رہے گی۔

ہما نے دیکھا نتاشا خوش ہے تو وہ بھی قدرے مطمئن ہو گئی۔نتاشا کے سسرال والے اکثر آنے لگے وہ ان کی بہت او بھگت کرتی۔ اس کی ایک جوان کزن ماں کے ساتھ آتی اسے بھابی بلا کر چھیڑتی نتاشا اسے پیار سے ٹوکتی ابھی بھابی بنی نہیں ہوں ابھی ایسے نہ کہا کرو۔وہ تو بھائی کا فون نمبر بھی دینے پر مجبور کرتی مگر نتاشا نے کہا مجھے شادی سے پہلے ایسی باتیں پسند نہیں۔ وہ بتاتی بھائی اس کے لیے پاگل ہے مگر نتاشا اس کی باتوں میں دلچسپی نہ لیتی۔

عروبہ تنگ پڑنے لگی۔ اس نے باپ سے شکوہ کیا کہ یہ کیا صرف لڑکا چاہیے تھا ہمیں ادھر اس کا سارا خاندان ا جاتا ہے۔ میری پرائیویسی ڈسٹرب ہوتی ہے۔ وہ بھی اندر سے پریشان ہو گیا۔

جب نرگس کو یقین ہو گیا کہ عروبہ کافی حد تک گھر کا کام کاج بھی سیکھ چکی ہے اور اسے اب شلوار قمیض کی بھی پہننے کی عادت ہو گئی ہے تو اس نے ساس سسر کو لانے اور رشتہ پکا کرنے کا ارادہ کر لیا۔ اس کی نند نے جان کھائی ہوئی تھی کہ جلدی کرو۔ وہ شکر کر رہی تھی کہ نتاشا کی جگہ اس کی نند کو عروبہ کی تصویر پسند آئی تھی مگر ساس ابھی تک نتاشا کے حق میں بول رہی تھی۔ جس بات کی فکر نرگس کو بہت تھی اسی ڈر سے عروبہ ہر طرح سے نتاشا کی طرح بننا چاہتی تھی باپ کا بھی حکم تھا کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے اس کی ساس بمشکل مانی ہے۔ تم نتاشا کو observe کیا کرو اور اسے کاپی کیا کرو۔ یہ نہ ہو کہ نرگس کی ساس پھر مکر جائے تو میں کچھ بھی نہیں کر سکوں گا اور تمہاری آنی بھی مجبور ہیں۔ بس دو سال کسی طرح ان کی مرضی سے گزار لو پھر مجھے سعد نے پرامس کیا ہے کہ وہ تمہیں اپنے ساتھ باہر لے جائے گا۔

عروبہ کے لیے یہ سب مشکل امر تھا مگر جب نتاشا کو سعد کے ساتھ سوچتی تو رونگھٹے کھڑے ہو جاتے اور وہ جوش میں لگ جاتی اور چوری چوری نتاشا کو نوٹ کرتی۔ وہ سوچتی دوسروں کو خوش کرنا کتنا کٹھن کام ہے اور نتاشا ہر وقت لگی رہتی تھی پھر بھی وہ اس سے خوش نہیں ہوتی تھی اس کے دل میں نتاشا کے لیے ہمدردی کے جزبات ابھرنے لگے مگر اپنی اناء میں وہ ظاہر نہ کرتی۔

دروازے پر بیل بجی نتاشا واش روم میں تھی ہما کچن میں۔ عروبہ دروازہ کھولنے گئی تو سامنے نتاشا کے ہونے والے ساس سسر، نند اور لڑکا دروازے پر کھڑے تھے۔

عروبہ کا پارہ ہائی ہو گیا نند بڑی شوخی سے بولی سلام باجی۔ عروبہ نے کہا باجی کسے بولا خود کو چھوٹی سمجھتی ہو۔ وہ ہکلا کر بولی وہ ہم آج شادی کی ڈیٹ لینے آئے تھے۔ عروبہ نے کہا کہ اس وقت گھر میں کوئی نہیں ہے۔ نند شوخی سے بولی نتاشا بھابی ہیں۔ عروبہ نے کہا کہ کیوں اس سے ڈیٹ لینی ہے۔ ڈیٹ کے لیے میرے ڈید کو فون کیا تھا۔ ہم نے صرف لڑکے سے رشتہ رکھنا ہے گھر والوں سے نہیں۔ پہلے تو آپ لوگوں نے بڑے وعدے کیے تھے کہ ہم صرف شادی تک ساتھ آہیں گے ڈسٹرب نہیں کریں گے ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تو آپ لوگ وعدہ بھول گئے روز ڈسٹرب کرنے آ جاتے ہیں اب آپ لوگ جب ہم بلائیں تب ہی تشریف لاہیے گا۔

نند بولی آپ ہمارے توہین کر رہی ہیں تو وہ تڑخ کر بولی میں نے گالیاں دی ہیں کیا تو رشتہ توڑ دو اور چلے جاو۔ ویسے بھی مجھے تم لوگوں سے الجھن ہوتی ہے۔ ماں نے ایکدم بیٹی کو ڈانٹا اور میاں بیوی دونوں معزرت کرنے لگے بیٹی کو ڈانٹ کر بولی معافی مانگو بہن سے۔ عروبہ اکتا کر بولی پلز میں اکلوتی ہوں میری کوئی بہن وین نہیں ہے۔ اور معافی مت مانگیں بس چلے جاہیں۔

دونوں میاں بیوی خوشامدی لہجے میں بولے اب ہم اپ لوگوں کے بلانے پر ہی تشریف لاہیں گے بس آپ ہم سے ناراض مت ہونا۔ اچھا ہم چلتے ہیں عروبہ نے سر ہلا دیا اور دروازہ بند کر کے مڑی تو ہما خوش کھڑی تھی۔ نتاشا نے پوچھا کون تھا عروبہ جوش سے بولی تمھارے سسرالیے۔ میں نے ان کی طبیعت صاف کر کے بھیج دیا ہے۔ نتاشا حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ پھر ماں کو دیکھا جو بہت خوش نظر آ رہی تھی وہ جانتی تھی کہ ماں اس رشتے سے خوش نہیں ہے۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ خوبصورت نہیں ہے اور ماں اس کے رشتے کے لیے پریشان رہتی ہے پہلے بھی عروبہ کو پسند کر جاتے اور اسے ٹھکرا جاتے۔ اب یہ واحد ایسا رشتہ تھا جن لوگوں نے نہ صرف عروبہ کی موجودگی کے باوجود اسے پسند کیا لڑکے کو بھی اعتراض نہ تھا اور سب سے بڑی خوشی کی بات یہ تھی کہ وہ ہمیشہ والدین کے ساتھ رہے گی ان کی خدمت کرے گی۔

اس نے فکرمندی سے کہا کہ وہ لوگ ناراض تو نہیں ہو گئے تو عروبہ بولی فکر نہ کرو ناراض نہیں ہوں گے کافی خوشامدی لوگ ہیں۔ ساجد جو الاونج میں کھڑا سب سن رہا تھا۔ وہ بھی ان لوگوں کے روز آنے سے تنگ پڑا تھا پھر دفتر میں بھی ان لوگوں نے نشر کر دیا تھا تو ساجد شرمندہ ہوتا تھا۔ وہ ان لوگوں کو مروت میں کچھ کہہ بھی نہیں پا رہا تھا مگر آج عروبہ نے ہمت دیکھای تھی۔

نرگس نے فون کیا کہ کل سنڈے ہے اور اس کے ساس سسر رشتہ پکا کرنے آ رہے ہیں تو عروبہ سے کہنا سر سے دوپٹہ نہ اتارے ان سے ادب سے پیش آے۔ اور بہت سی ہدایات اس نے عروبہ کو بھی دیں۔

ناول پارٹ 21

گھر میں نرگس لوگوں کی آمد کی تیاریاں زور و شور سے ہو رہی تھی۔ ساجد نے عروبہ کو سمجھا سمجھا کر اس کی جان کھا لی تھی کہ یہ تمہارے پاس پہلا اور آخری موقع ہے ان لوگوں کو امپریس کرنے کا۔ سعد اور تمھاری آنی بھی ان کے آگے مجبور ہیں کوئی زرا سی بھی بھول چوک نہ کرنا۔ نرگس آپا کی ساس ابھی پوری طرح مانی نہیں ہے۔ تم نے اب اسے ماننے پر مجبور کرنا ہے اپنے behavior سے۔

ہما نے اس کا شلوار قمیض استری کر کے اس کے کمرے میں رکھ دیا تھا اور ہما اسے تیار ہونے کا بول رہی تھی۔ مگر وہ جوش میں ہاف بازو ٹی شرٹ اور گھٹنوں سے زرا نیچے ٹراوزر پہنے پانی کا پاہپ ہاتھ میں لے باہر گیراج دھو رہی تھی۔ ہما کچن میں تھی اور نتاشا واش روم میں تھی۔ ساجد بازار سے دہی لینے گیا ہوا تھا۔

ہما کچن سے عروبہ پر چلا رہی تھی کہ جاو جا کر لباس بدلو وہ لوگ آ نہ جاہیں۔

عروبہ نے اونچی آواز میں جواب دیا کہ موم آنی جو صبح سے فون پر پل پل بتا رہی ہیں وہ کہہ رہی تھی کہ نکلتے وقت فون کر دوں گی۔ ادھر وہ فون کریں گی ادھر میں واش روم گھس جاوں گی۔ ان کے آنے تک میں بلکل ریڈی ہو جاوں گی آپ فکر نہ کریں۔

ہما نے فکرمندی سے کہا کہ کافی دیر ہو چکی ہے اب تو ان لوگوں کو نکلنا چاہیے۔ تم زرا آنی کو فون کرو وہ بولی بس تھوڑا سا رہ گیا ہے ابھی کرتی ہوں۔

اتنے میں ڈور بیل بجی تو ہما نے آواز لگائی کہ عروبہ دروازہ کھولو تمھارے پاپا آے ہوں گے۔

اس نے جوں ہی دروازہ کھولا سامنے نرگس ساس کو تھامے اندر داخل ہوئی۔

عروبہ نے دیکھا تو حواس باختہ ہو گئی اور گھبرا کر پاہپ کا رخ ان کی جانب کر دیا وہ بھیگنے لگیں سعد نے چیخ کر اس کے ہاتھ سے پاہپ لیا اور اسے چلا کر بولا یہ کیا کر رہی ہو ساجد بھی پہنچ چکا تھا اور عروبہ کا یہ منظر دیکھ چکا تھا شور سے ہما بھی آ چکی تھی اور عروبہ کی حرکت پر سخت شرمندہ اور خجل تھی عروبہ پاہپ پھینک کر بھاگ چکی تھی۔ ہما نے اپنے حواس قابو میں کیے اور آگے بڑھ کر انہیں سلام کے بعد معزرت کی اور نرگس کی ساس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے آئی۔ نرگس اور اس کی ساس کے کپڑے جوتے بری طرح بھیگ چکے تھے ہما نے جلدی سے اپنے کپڑے نکال کر ان کو چینج کرواے اپنے جوتے ان کو دیے ام کے جوتے سوکھنے ٹیڑھے کر کے رکھے پھر نرگس کو بھی اپنے کپڑے جوتے دیے۔ اتفاق سے دونوں نیو سوٹ تھے جو ساجد ہما اور نتاشا کے گاؤں جانے کے لیے لایا تھا جوتے البتہ پرانے تھے۔

ہما نے ان کو تکیہ پیچھے رکھ کر بیڈ پر آرام سے بٹھایا۔ نرگس بھی ساس سسر سے سخت شرمندہ ہو رہی تھی ان سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی وہ بھی کپڑے بدل کر ساس کے پاس بیٹھ گئی شرم سے اس کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔

ہما معزرت کرنے لگی ساس جواب میں کچھ نہ بولی منہ ادھر کر لیا۔ ہما چاے کا بتا کر اٹھ گئی۔

نرگس کی ساس نے نرگس کی کلاس لینی شروع کر دی۔ یہی کڑی تھی جس کا تو بتا رہی تھی یہ پاکستانی انگریزنی۔ توبہ توبہ نہ شرم نہ حیا۔ کیسے بےشرم کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ نرگس نے صفائی دی کہ وہ صرف کام کرنے کے لیے ایسے کپڑے پہنتی ہے۔

ساس نے پھنکارا دفع ایسے کپڑوں پر۔ کیسے پاہپ سیدھا ہمارے اوپر چھوڑ دیا توبہ اس نے تو پورا نہلا ہی دیا مجھے تو سردی لگ رہی ہے۔ نرگس نے کھیس ڈھونڈ کر ان پر ڈال دیا اور لٹا دیا۔

اتنے میں سعد کمرے میں داخل ہوا تو دادی اس پر چلانے لگی بےغیرت یہ کڑی چنی ہے تم ماں بیٹے نے انگریزنی۔ اس نے تو مجھے سارا گیلا ہی کر دیا ہے۔ مجھے ٹھنڈ لگوا دی ہے۔ سعد دادی کی ٹانگیں دبانے لگا تو سب مرد بھی اسی کمرے میں آ گئے سعد ڈائننگ روم سے کرسیاں لے آیا۔

سب وہاں بیٹھ گئے۔

عروبہ چاے کی ٹرالی لیے شلوار قمیض میں ملبوس سر پر دوپٹہ لیے اندر داخل ہوئی اور سلام کیا۔ نرگس کے سسر نے مسکرا کر اٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعاء دی۔ سعد کے باپ نے بھی وعلیکم السلام کہا پھر وہ نرگس کی ساس کے پاس جا کر کھڑی ہوئی اور سلام کیا مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ ہما پیچھے کھڑی سب کے تاثرات نوٹ کر رہی تھی۔ ہما نے کہا عروبہ سب کو چاے بنا کر دو وہ بڑے اعتماد سے سب کو چاے بنا کر دیتی رہی۔ اور چیزیں پیش کرتی رہی دوپٹہ بار بار پھسل رہا تھا سعد اس کی ساتھ مدد کر رہا تھا۔ دادی نوٹ کر رہی تھی۔ وہ مسلسل عروبہ کے منہ کو تکتی جارہی تھی۔ ہما سب کے آگے بچھی جا رہی تھی۔ ساجد نرگس کے ساس سسر کو بہت پروٹوکول دے رہا تھا۔ عروبہ چاے سرو کر کے کمرے سے باہر چلی گئی تھی جبکہ ہما اور ساجد ان کے آگے بچھے جا رہے تھے۔ دادی موڈ بنا کر چاے پیتی رہی۔ چاے ختم ہوئی تو ہما اور ساجد بہانے سے باہر نکل گئے۔ عروبہ کمرے میں بیٹھی رو رہی تھی جبکہ نتاشا فاصلے پر کھڑی اسے تسلی دے رہی تھی کہ رو مت اللہُ تعالیٰ سے مدد مانگو وہی بات بنانے والا ہے وہ دل میں نتاشا کی تسلی بھرے الفاظ سے سکون محسوس کر رہی تھی اور اس کے بتانے پر دل میں رب العزت سے خوب دعائیں مانگ رہی تھی۔ دل میں ڈر بھی رہی تھی نتاشا کی موجودگی اسے ڈھارس بندھا رہی تھی وہ خاموشی سے اس کی باتوں کے دوران روتے روتے اسے ایک نظر دیکھ لیتی تھی اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ اس کے کندھے پر سر رکھ دے مگر اناء آڑے آ رہی تھی وہ دل میں مصمم ارادہ کر چکی تھی کہ وہ اب نتاشا بن کر رہے گی بس اس کی دادی کا دل پسیج جائے۔

سعد دادی کے قریب بیٹھا اور شرارت سے پوچھنے لگا کہ کیسی لگی پاکستانی انگریزنی۔ وہ جھٹ اس کی کمر پر دو کس کس کے تھپڑ مارتے ہوئے بولی اے کڑی تجھے پسند ہے جو گاوں میں نہیں رہ سکتی۔ ماں پیو اچھے ہیں بس اک اے کڑی نہیں جچی۔

سعد نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ دادو وہ گاوں رہ لے گی اس نے خود کہا ہے بےشک بلا کر پوچھ لیں۔

سسر نے بیوی سے کہا کہ پلیے لوکی شہرن کڑی ہے پھر ہمارے پوتے کو پسند ہے پڑھی لکھی ہے۔ پوتا بھی پڑھا لکھا ہے اب اس کے لیے شہری کڑی ہی لانی ہے نا۔ اس کے ساتھ گاوں کی کڑی تو نہیں لگانی نا۔ نرگس کے شوہر نے بھی باپ کی باتوں میں ہاں میں ہاں ملای مگر ساس حجت پیش کرتی رہی۔

ناول پارٹ 22۔

سعد نے دادی سے کہا کہ اس کی خوشی عروبہ سے ہے۔ باقی اب آپ کی مرضی۔ بیٹے کی خوشی کا سوچ کر باپ پگھل گیا اور دادا نے بھی ہاں میں ہاں ملائ کہ ہمیں بچے کی خوشی دیکھنی ہے۔

اب ہما سخت پریشان تھی عروبہ رو رہی تھی ساجد اس کے رونے سے تڑپ رہا تھا اچانک اس کی طبیعت خراب ہو گئی نتاشا پاس تھی اس کی حالت دیکھ کر تڑپ کر اسے تھاما اور چلا چلا کر پاپا کرنے لگی ساجد اسے اپنے لیے اتنا مضطرب اور تڑپتا دیکھ کر حیران رہ گیا سب جمع ہو گئے۔ عروبہ بھی پریشانی سے ڈیڈ ڈیڈ کرتی آگے بڑھی۔ سعد جلدی سے ہاسپٹل لے گیا۔ سب ساتھ چلے گئے صرف نرگس اور اس کی ساس گھر پر رہی۔

ڈاکٹر نے چیک کیا اور کہا کہ minor سا دل کا اٹیک ہوا ہے انہوں نے کوئی stress سے دور رکھیں ورنہ ان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

ساجد ہوش میں آ چکا تھا باہر سے اسے سب کی آوازیں آ رہی تھیں۔ سب سے زیادہ نتاشا کی آواز میں تڑپ تھی جو سعد سے بار بار پوچھ رہی تھی سعد میرے پاپا کیسے ہیں ڈاکٹر نے کیا کہا ہے۔

ڈاکٹر نے جب ملنے کی اجازت دی تو سب سے پہلے تیزی سے نتاشا بھاگتی اندر پہنچی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر روتے ہوئے بولی پاپا کیسے ہیں آپ۔ اس نے گردن ہلا دی پھر وہ ڈاکٹر کے گرد ہو گئ ڈاکٹر صاحب میرے پاپا ٹھیک ہو جائیں گے نا۔ اس نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور ساجد سے بولا بای آپ کی بیٹی تو بہت پریشان ہے آپ خود انہیں تسلی دیں کہ آپ ٹھیک ہیں اور باہر نکل گیا۔ ہما جو بے آواز رو رہی تھی اٹھی اور نتاشا کو گلے لگا کر تسلی دیتے ہوئے بولی فکر نہ کرو صبر کرو ڈاکٹر نے انہیں سٹریس سے منع کیا ہے تمہارے اس طرح پریشان ہونے سے انہیں سٹریس ملے گا تو وہ فوراً چپ ہو گئ۔

نتاشا اتنے پراعتماد طریقے سے رو رو کر ساجد سے بات کر رہی تھی کہ عروبہ بھی حیران تھی کہ وہ اس کے ڈیڈ سے اتنا پیار کرتی ہے۔

نرگس کا سسر بھی نتاشا کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھ کر تسلی دے رہا تھا اور ساجد حیرانگی کے ساتھ دل میں شرمندگی محسوس کر رہا تھا کہ وہ اسے باپ کا درجہ دیتی ہے اور اس نے اسے کھبی بیٹی کا درجہ نہیں دیا۔

عروبہ بھی باپ کے پاس آئی اور ہاتھ پکڑ کر پیار جتانے لگی مگر ساجد کو اس کے پیار میں وہ گرم جوشی اور تڑپ نہ نظر آئی جو نتاشا میں تھی۔ وہ سوچنے لگا جس بیٹی کی محبت میں اتنا سٹریس لیا کہ ہاسپٹل پہنچ گیا وہ نارمل انداز میں سب کو کہہ رہی ہے فکر کی کوئی بات نہیں۔ ابھی تھوڑی دیر تک ہم ڈیڈ کو گھر لے جاہیں گے۔ اور نتاشا انتہائی پریشان لگ رہی ہے۔

ساجد کو گھر لے آے تو نتاشا کھبی سوپ بنا کر زبردستی پلا رہی ہے اور کھبی دلیا بنا کر لا رہی ہے۔

ساجد کے گھر آنے کے کچھ دیر بعد نرگس لوگ بغیر ہاں یا نہ کیے چلے گئے۔

ساجد چند دن تک ٹھیک ہو گیا اب اس کا رویہ نتاشا سے بہتر ہونے لگا جب وہ زبردستی اسے کچھ کھلاتی تو پیار سے احتجاج کرتے ہوئے کہتا بس بیٹا۔ اب وہ اسے کبھی کبھار بیٹا پکارنے لگا۔ عروبہ اگر اسے کچھ سناتی تو وہ عروبہ کو ٹوک دیتا عزر یہ دیتا کہ اب یہ عادت تمہیں چھوڑنی پڑے گی سعد کے گاؤں والے سنیں گے تو نہ جانے کیا ہو۔ تو اس نے کافی حد تک اسے تنگ کرنا چھوڑ دیا تھا اسے تو اب بس ایک ہی ٹاپک ملا تھا ہاے کیا ہو گا سعد کی دادی مانے گی یا نہیں۔ باپ نے صاف کہہ دیا کہ اب کوئی غلطی کی گنجائش نہیں ہے تمہیں عروبہ کو فالو کرنا پڑے گا تب ہی تم منزل کو پا سکو گی۔ تو اس نے اب نتاشا سے روٹی پکانا سیکھنا شروع کر دیا۔

ساجد سعد سے اکثر فون پر پوچھتا کہ دادی مانی تو وہ کہتا ابھی نہیں لیکن آپ فکر نہ کریں میں کوشش کر رہا ہوں امید ہے کہ انشاء اللہ مان جاہیں گی۔

نتاشا جو پہلے عروبہ سے دبی دبی رہتی تھی اب اس میں کمی آ چکی تھی عروبہ حیران تھی کہ نتاشا کو اب ڈیڈ کچھ اہمیت بھی دینے لگے ہیں مجھے بھی اسے اب کچھ نہیں کہنے دیتے نہ خود کچھ کہتے ہیں اس کے باوجود نتاشا نہ تو غرور میں آئی ہے نہ ہی اس نے اسے سکھانے میں کوئی احسان جتایا ہے۔ نہ ہی اسے کھبی پرانے برے روپے کے باعث کھبی کچھ جتلانا ہے۔ بلکہ اسے ہر چیز دل سے سکھاتی ہے۔ اور اسے لگتا اب وہ پہلے سے زیادہ اس سے پیار کرتی ہے۔

ہما نے ساجد سے کہا کہ گراسری لانی ہے تو ہمیشہ ہما، نتاشا اور ساجد جاتے۔ عروبہ کو اس طرح کی شاپنگ کرنے کے لیے جانے کا کوئی شوق نہ تھا وہ گھر پر رہی اور آجکل وہ گھر کے کاموں میں دلچسپی لے رہی تھی۔ باپ نے کہا تھا کہ جلد از جلد سارے کام سیکھ لو تاکہ کھبی تمھارے اوپر ایسا موقع آئے تو کامیابی ملے ادھر سے نرگس نے بھی اس کی جان کھائی ہوئی تھی کہ جلد سارے کاموں میں پرفیکٹ ہو جاو تاکہ اگر ایسا کوئی موقع آئے تو کوئی شرمندگی نہ ہو صرف دو سال کے لیے محنت کر لو پھر سعد تمہیں باہر ساتھ لے جاے گا اسے فیملی ویزہ مل جائے گا۔

عروبہ مستقبل کے خواب بننے لگی کہ وہ سعد کے ساتھ ملک سے باہر جاے گی ابھی تک وہ جہاز میں بھی نہ بیٹھی تھی اسے ملک سے باہر جانے کا اور جہاز میں سفر کرنے کا بہت شوق تھا اس کا اظہار وہ ساجد سے کئی بار کر چکی تھی اور اس نے پرامس کیا تھا کہ وہ اسے ملک کے کسی شہر کے سفر میں جہاز پر لے کر جاے گا مگر اسے ابھی تک دفتری معاملات سے فرصت نہ ملی تھی۔ نتاشا اسے دل سے کام سکھاتی تھی اور کافی کام وہ سیکھ چکی تھی زہین تھی بہت جلدی سیکھ لیتی تھی پھر نئ نئ ڈشز نٹ سے بھی سیکھ رہی تھی اپنے مطلب کے لیے اب نتاشا سے فالتو بات تو نہ کرتی تھی مگر طنز کرنے کافی کم کر دیے تھے اب اگر اپنی عادت کے مطابق اگر کر بھی جاتی تو نتاشا کاچہرہ اب پرسکون ہی رہتا اور وہ پہلے کی طرح دکھی صورت نہ بناتی۔ عروبہ اس کے confidence پر حیران تھی۔

آج وہ اپنے ڈیڈ کو خوش کرنے کے لیے کریلے گوشت پکا کر چولہا بند کر کے جلدی جلدی آٹا گوندھ رہی تھی کہ وہ لوگ آنے والے تھے اور ساجد کو گھر کی روٹی پسند تھی۔ ہاتھ آٹے سے بھرے ہوئے تھے کہ باہر ڈور بیل بجی وہ بمشکل دوپٹہ کر کے غصے سے گئ کہ آج ان بچوں کو سیدھا کرتی ہوں جو بال کے لیے ٹاہم بے ٹاہم بیل کرتے رہتے ہیں دروازہ کھولا تو سامنے نرگس اپنی ساس کو تھامے کھڑی تھی اور باقی سب پیچھے تھے وہ گھبرا سی گئی جلدی سے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور بولی دراصل میں آٹا گوندھ رہی تھی۔ وہ لوگ اندر آ گئے اور اس نے سعد سے کہا پلیز تم انہیں بٹھاو میں آتی ہوں۔ جلدی سے آٹا فاہنل کیا اس کے کام کرنے کی سپیڈ بھی کافی تیز تھی۔ آج اس نے ڈیڈ کے لیے کھیر بھی بنائی تھی۔ جلدی سے ڈیڈ کو فون پر بتایا اس نے جوس پلانے کا کہا وہ ان کے لیے جوس ڈال کر سلیقے سے دوپٹہ لیے اندر گئی۔ اور سب کو جوس پیش کیے۔ دادی نے اسے بڑے غور سے دیکھا وہ دل میں سوچنے لگی کہ کسی کو جیتنے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس پینڈو سی بڑھیا کو کتنا پروٹوکول دینا پڑ رہا ہے۔ اس نے سوچا بس زرا شادی ہو جانے دو پھر گاوں میں میں کیسے ان پیڈووں کو پوچھوں گی اپنی مرضی کروں گی۔

ناول پارٹ 23۔

عروبہ آج بہت ایکٹو ہو رہی تھی۔ نرگس نے کہا کہ کہ اماں جی کے لئے کچھ کھانے کو لےآو انہیں دوا دینی ہے کوئی بریڈ پیس ہی لے آو۔ عروبہ نے کہا روٹی پکا دوں وہ بولی تم نہیں پکا سکو گی۔ عروبہ نے ماہنڈ کرتے ہوئے بولا آنی مجھے آتی ہے پکانی وہ بھی گول والی۔ سب ہنسنے لگے۔ نرگس بولی ان کی اسپیشل ہوتی ہے۔ پیڑے کے پیچ میں آہل یا گھی تھوڑا بہت ڈالتی ہوں تاکہ نرم رہے اور اوپر سے سوکھی ہوتی ہے۔

عروبہ اچھا کہہ کر چل دی۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹرے میں سلاد اور دہی اور کریلے کا سالن ڈونگے میں ڈال کر ساتھ پلیٹ، جگ اور گلاس لے کر آئی۔

عروبہ کے سسر نے کہا واہ بای واہ کیا بات ہے۔ عروبہ خوش ہو گئی بولی دادا جی آپ کے لیے بھی لاوں وہ بولے ہمارا پسندیدہ سالن سامنے ہو تو کون کافر انکار کرے گا وہ خوشی سے پوچھنے لگی کیا آپ کو بھی پسند ہیں کریلے گوشت۔ وہ بولا بہت۔

اماں کو نرگس نوالے کھلا رہی تھی اماں بولی مزےدار بنے ہیں۔ عروبہ خوش ہو گئی۔ نرگس نے بھی خوش ہو کر عروبہ کو دیکھا۔

عروبہ نے کہا میں ابھی سب کے لیے پکا کر لاتی ہوں آج دادی اماں جیسی اسپیشل روٹیاں سب کے لیے پکا کر لاتی ہوں۔ عروبہ کا سسر بولا ہاں جلدی سے لے آؤ۔

وہ تیزی سے پکانے لگی سعد کچن میں آ گیا اور بولا کچھ ہیلپ کرو وہ جو تھکی ہوئی تھی بولی تم کھڑے ہو کر تماشا دیکھو وہ مسکرا کر ہاتھ کے اشارے سے دھیما بولنے کا کہنے لگا۔ عروبہ نے غصے سے بیلن دیکھایا تو وہ مسکرانے لگا۔

ساجد لوگ جب واپس آئے تو دیکھا سب کھانا کھا رہے تھے اور ان سے ملے تو وہ لوگ کھانے کی بہت تعریف کر رہے تھے۔ اماں جی نے بھی تعریف کی تو ہما اور ساجد کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا۔ وہ بہت خوش ہوے۔ نرگس کے شوہر نے معزرت کرتے ہوئے کہا کہ اتنا لزیز سالن دیکھ کر رہا نہ گیا اور آپ کا انتظار نہ کیا۔

وہ بولا مجھ سے بھی صبر نہیں ہو رہا میں بھی ہاتھ دھو کر آ جاتا ہوں۔

عروبہ نے خوشی سے کہا ڈیڈ میں نے آپ کے لئے اسپیشل پکاے تھے اور کھیر بھی بنائی ہے۔ وہ سن کر خوش ہو گیا۔ نرگس کا سسر بولا واہ بای ہمیں بھی ملے گی کھیر۔

عروبہ بولی جی جی کافی ساری پکائی ہے میں نے سوچا تھا پڑوس میں بھی بھیج دوں گی۔

نرگس کا شوہر مسکراتے ہوئے بولا بیٹا پہلے ان پڑوسیوں کو دو اگر بچی تو ان کو دینا۔

سعد نے شرارت میں کہا ہو سکتا ہے ساری ہی پڑوسیوں کو بھیجنی پڑے۔ عروبہ نے گھورا سب مسکرانے لگے۔

سب کھیر کی بھی تعریف کر رہے تھے۔ ہما اور ساجد سن کر دل میں خوش ہو کر پھولے نہیں سما رہا تھا۔ نتاشا برتن سمیٹنے لگی۔

سعد کے والد نے کہا شاباش بیٹا کھانے کا لطف آ گیا اتنا زیادہ کھا لیا ہے کہ اس کو ہضم کرنے کے لیے گرین ٹی کی ضرورت ہے۔ وہ کچن کی طرف چل دی۔

گرین ٹی پیتے ہوئے سعد کے دادا نے کہا شاباش چاے بھی مزے کی ہے عروبہ نے آہستہ سے کہا کہ میں نے نہیں بنائی میں تھک گئی تھی نتاشا سے کہا تھا اس نے بنائی ہے۔

نرگس کے سسر نے کہا شاباش بڑی صاف گو بچی ہے۔

عروبہ اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی کھانا بھی کھانے کا اس کا موڈ نہ تھا پریشان تھی کہ دادی کیا فیصلہ دیتی ہے۔

تھوڑی دیر بعد ہما خوشی سے اندر آئی اور عروبہ کو مبارک باد دیتے ہوئے گلے لگایا کہ وہ لوگ مان گئے ہیں اور رسم کے لیے بلا رہے ہیں۔ نتاشا نے بھی بھرپور انداز میں مبارک باد دی تو ہما نے کہا کہ وہ سب اسے تمھاری بہن مانتے ہیں اور ساجد کو دوسری بیٹی۔ اب کم از کم دو سال اسے بہن مانو اور اب پلیز شادی تک کوئی غلطی نہ کرنا اور اسے بہن سمجھنا چلو نتاشا سے گلے مل کر ابتدا کرو وہ ہلکی سی اگے ہوئی تو نتاشا نے بھرپور گرمجوشی سے اسے گلے لگا کر پیار کیا اور دعائیں دیں۔ عروبہ اس کے پرخلوص رویے پر حیران ہوئی اور اندر سے خوش ہو گئی وہ سمجھتی تھی کہ وہ تو اس کے اتنے شاندار پڑھے لکھے ہینڈسم لڑکے کے رشتے سے جیلس ہوتی ہو گی مگر وہاں تو ان چیزوں کا شاہبہ تک نہ تھا۔ اس نے سوچا یہ اپنے اس معمولی پڑھے لکھے اور ان متوسط طبقے کے لوگوں کے رشتے سے ہی بہت خوش ہے۔ اس کی سوچ ہی محدود ہے اس بونگے سے لڑکے سے یہ بہت خوش ہے۔ پر اسے جلانے کا مزہ تھا ڈیڈ نے اگر اس کا رشتہ پہلے نہ طے کیا ہوتا تو آج وہ اس کو خوب جلاتی مگر گھر داماد والا آہیڈیا اس نے ہی تو ڈیڈ کو دیا تھا تاکہ جب وہ شان سے میکے شوہر کے ساتھ آے تو اسے خدمت کے لیے نتاشا موجودہ ہو۔

ساجد جو بلانے آیا تھا اس نے نتاشا کا خلوص دیکھا اور اس کے دعائیں دینے پر کافی حیران ہوا۔ نرگس کے سسرال والے اسے دو بیٹیاں بتا کر شرمندہ کرتے تھے کہ اس کی دو بیٹیاں ہیں۔ وہ دل میں سوچتا تھا کہ اس نے تو اسے کھبی بیٹی مانا ہی نہ تھا جبکہ نتاشا نے اب ثابت کیا تھا کہ وہ اسے باپ سمجھتی ہے۔ عروبہ کے مستقبل کا اس نے ہمیشہ اچھا سوچا اس کو اعلیٰ تعلیم دلائی اس کے لیے پڑھا لکھا اچھے عہدے دار سعد کا رشتہ پانے کی سر توڑ کوشش کی۔ جبکہ نتاشا کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں روڑے اٹکائے اس کی تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا ضروری نہ سمجھا اور اس کا رشتہ بھی اپنے مفاد کو دیکھتے ہوئے ڈھونڈا نہ کہ اس کی خوشی اور بہتر مستقبل کے لئے۔ اس کے ظمیر نے ملامت کی۔ کھبی انسان کا ظمیر ضرور جاگتا ہے جو اسکو ملامت کرتا ہے اور خوش قسمت لوگ سدھر جاتے ہیں اور اپنی سابقہ غلطیوں کی تلافی کرتے ہیں اور بدقسمت لوگ اس آواز کو دبا کر اپنی پرانی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں۔ ساجد کے دل میں احساس شرمندگی جاگنے لگا اس نے سوچا اس کی نانی اور ماں نے اس کے ساتھ برا کیا مگر اس نے تو کچھ نہیں کیا تھا پھر وہ ان کی زیادتیوں کی سزا اسے کیوں دیتا رہا اس کو ہما نے بارہا احساس دلانے کی کوشش کی کہ اس میں اس بچی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ حالانکہ بچی اس کی بہن کی تھی اس نے تو سسر کی التجا کی لاج رکھی اور اس میں اور بیٹی میں فرق نہ رکھا۔ اور وہ جوش انتقام میں اپنے باپ کے اس سے رشتے کو بھی بھول گیا۔ دراصل ہمارے معاشرے میں زیادہ تر مرد حاکمانہ مزاج رکھتے ہیں اور ان کو حاکم بنانے میں زیادہ تر ان وفاشعار اور نیک عورتوں کا زیادہ ہاتھ ہوتا ہے جو بچپن سے دیکھتی سنتی آتی ہیں کہ مرد گھر کا سربراہ ہے اور یہ حقیقت بھی ہے مگر وہ ہر وقت اس کی خدمت میں لگی رہتی ہیں اور اپنی بہو بیٹیوں کو بھی باور کراتی رہتی ہیں کہ باہر سے مرد کے آتے ہی اس کو کھانا پانی ملے ملنا بھی چاہیے مگر مرد بھی اتنے قصور وار نہیں کہ ان کو بھی بچپن سے یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ انکے باپ دادا وغیرہ ہی ہر فیصلے کرتے ہیں اور عورتوں پر حکم چلاتے ہیں ان کو اہمیت نہیں دیتے نہ ان سے کسی معاملے میں راے لیتے ہیں اور بعض اوقات ان سے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں دل شکنی ہوتی ہے مگر چونکہ معاشرہ ایسا بنا ہے کہ انہیں احساس ہی نہیں ہوتا۔ جیسے اگر وہ دیر سے گھر آئے بیوی بچوں کو سلاتے خود بھی سو گئ تو وہ خود سے کھانا نہیں ڈالتے ماں بہو کو آواز دیتی ہے یا بیٹی کو کہ بھائی آ گیا ہے کھانا ڈال کر دو تو وہ کھٹکے سے اٹھتی ہے نیند بھری آنکھوں سے دیکھتی ہے اور گرتی پڑتی کھانا ڈالنے چل پڑتی ہے۔ کچھ مرد جو سمجھتے ہیں کہ ہم عورتوں کو برابر سمجھتے ہیں وہ ان کو مردوں جیسی ناجائز آزادی دے دیتے ہیں تو پھر وہ ماڈرن بن کر پھرتی ہیں اور مردوں کو خاطر میں نہیں لاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ آگے سہہ نہیں پاتیں مرد کی حاکمیت کو اور زندگی برباد کر لیتی ہیں۔ بس عورت کو صرف بچوں اور دنیا کے سامنے صرف عزت سے رکھا جائے جو کام حکم دے کر کرایا جاتا ہے اسے پیار وعزت سے بھی پکار کر لیا جا سکتا ہے اور اہم معاملے میں عورت سے بھی راے لے کر اگر اختلاف رائے ہو تو اس پر غور کر کے سوچا بھی جاسکتا ہے اور ہو سکتا ہے عورت کی راے بہتر ہو اگر بہتر نہ لگے تو اسے پیار ودلیل سے سمجھایا جائے تو پیار کی زبان ہر کوئی سمجھتا ہے تو بچے بھی باغی نہیں ہوتے۔ جہاں عورت کی عزت ہو۔ کیونکہ بچے زیادہ تر ماں کے انڈر رہتے ہیں اور اس کا ڈر دل میں موجود ہو گا تو وہ غلط کاموں سے بچے رہیں گے اور ان کا مستقبل سنور جائے گا۔ ہر چیز میں میانہ روی ہونی چاہیے اگر مرد نے آزادی دی تو عورت اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھاے اور بلا ضرورت گھر سے نہ نکلے اور اس کا احترام کرے اور بچوں کو بھی سکھاے۔ اور بےپردہ نہ نکلے۔ ورنہ ایسی عورتوں پر شرفا کی نظر بھی اٹھ جاتی ہے۔ ساجد نے سوچا کہ اب وہ نتاشا پر کوئی زیادتی نہیں کرے گا۔ وہ بلانے آیا تو عروبہ خوشی سے باپ سے لپیٹ گئ۔

ناول پارٹ 24

عروبہ کو سرخ دوپٹہ نرگس نے اوڑھایا۔ سعد کی پھوپھو بھی ان لاہن ان ہو گئ سعد نے ایل سی ڈی پر لاہیو کر دیا۔ نتاشا نے جا کر پڑوسی خالہ اور ان کی فیملی کو بھی انواہیٹ کر دیا۔ خوب رونق لگ گئی۔ نتاشا نے ڈیک بھی آن کر دیا۔ سعد کی پھوپھو کی ساری فیملی بہت غور سے اور دلچسپی سے سارا منظر دیکھ رہی تھی۔

نتاشا کو خالہ پڑوسن کی بہو نے زبردستی کوئی براہیٹ سوٹ پہننے پر مجبور کیا اور زبردستی اس کا میک اپ بھی کروایا عروبہ خود ہی تیار ہوئی تھی اور اپنا میک اپ بھی خود ہی کیا تھا اور کافی خوبصورت لگ رہی تھی سعد اسے پرشوق نظروں سے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اس کا باپ اور دادا بیٹے کو خوش دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔

نتاشا تیار ہو کر آئی تو بہت پرکشش لگ رہی تھی سب نے تعریف کی۔ ہما نے نظروں سے بلائیں لیں۔

نتاشا اور پڑوسن خالہ کی بہو مووی بنا رہی تھی۔ نرگس نے انگوٹھی نکالی تو نتاشا نے کہا خالہ جانی سعد کو دیں وہ پہناے نرگس کے شوہر نے کہا کہ ہاں بیٹا کیوں نہیں اور سعد جلدی سے اٹھا اور جاکر عروبہ کے پاس بیٹھ گیا۔ سعد کے تینوں کزنز اسے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے۔ اور دونوں کی تعریف کر رہے تھے۔ دونوں بہت پیارے لگ رہے تھے سعد آج کریم کلر کے شلوار قمیض ڈریس میں آیا تھا۔ نرگس عروبہ پر واری جا رہی تھی جبکہ داری سپاٹ چہرے لیے بیٹھی تھی۔ سعد کی پھوپھی عروبہ کی بہت تعریف کر رہی تھی۔ انگوٹھی کی رسم ادا کی گئی سعد نے عروبہ کو انگوٹھی پہنائی۔ تالیوں میں رسم ادا کی گئی۔ سعد کے کزنز امریکہ سے لاہیو دیکھ کر شوروغل مچا رہے تھے۔ وہ بھابھی بولنے لگے تو ماں نے ٹوک دیا کہ ابھی شادی نہیں ہوئی اس لیے اسے آپی بلاو۔وہ تالیاں بجا بجا کر آپی اپی کرنے لگے۔

سعد نے انگوٹھی پہنائی تو سب نے تالیاں بجاہیں اور زور و شور سے مبارک باد دی۔ دادی خاموشی سے بیٹھی تماشا دیکھتی رہی۔ پھر سب نے ان دونوں کو اور آپس میں ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔

سعد کی پھوپھو نے ہما اور نرگس کو مبارکباد دی تو ہما نے بہت اخلاق سے اسے بات چیت کی اور پاکستان آنے اور اپنے گھر آنے کی دعوت دی وہ بہت خوش ہوئی اور آنے کا وعدہ کیا۔ پھر سب بچوں نے بڑے خلوص سے بات کی اس کے بعد اس نے کہا آپ دونوں کی میں اپنے شوہر سے بات کرواتی ہوں بچوں نے بتایا کہ ڈیڈ کال پر بات کر رہے ہیں۔ سب بچوں نے نتاشا سے بھی بات کی۔ اور نتاشا ان سے خلوص سے بات چیت کرتی رہی۔ ان کو اپنے گھر پر آنے کی دعوت دیتی رہی ان لوگوں نے وعدہ کر لیا۔ سب سے چھوٹا نتاشا سے گاؤں میں جب آتا تو کھانے کی تعریف بھی کرتا اور بات چیت بھی کرتا تھا اس نے گلہ کیا کہ آپی پہلے کبھی آپ نے ہمیں اپنے گھر پر انواہیٹ نہیں کیا تھا وہ جواب میں مسکرا کر چپ ہو گئ کیا بتاتی اس وقت وہ دبی دبی سی رہتی تھی اب بڑے اعتماد اور مان سے سب کو بلا رہی تھی۔ ساجد یہ سن کر شرمندہ ہو رہا تھا کہ اس نے تو اسے کھبی یہ گھر اپنا سمجھنے ہی نہ دیا تھا اس نے دیکھا آج وہ بہت پرکشش لگ رہی تھی اس نے سوچا اگر وہ اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے دیتا تو وہ بھی کسی اچھے خاندان میں جا سکتی تھی اس کو کوئی بھی خاندان پسند کر لیتا وہ اتنی بھی بری نہ تھی۔ اس میں جو اعتماد اسے نظر آیا اس نے سوچا شاید اس کے رشتہ ہونے کی وجہ سے ہے۔

ہما اور ساجد بہت خوش تھے۔ ساجد نے نرگس کی نند اور بچوں سے بات چیت کی انہیں گھر آنے کی دعوت دی وہ بہت خوش ہوے۔ چھوٹے نے گلہ کیا انکل نتاشا آپی نے پہلے کھبی اپنے گھر انواہیٹ نہیں کیا تھا اب بڑے زور وشور سے کر رہی ہیں تو ساجد سن کر دل میں شرمندہ سا ہو گیا۔ اس کے شوہر سے بات چیت کی تو ان کی بزنس پر باتیں ہونے لگیں اور ان کا بزنس پر کسی ڈیل پر اتفاق رائے ہوگیا اور اسے مشترکہ طور پر کرنے پر ڈیل ہو گئ۔ اس نے ہما سے بات کرانا چاہی تو وہ بار بار مصروفیت کا بہانہ کر دیتی مگر ساجد زبردستی اسے بلا لایا اور ڈانٹ کر بولا کام بعد میں کر لینا پہلے بات کرو تو وہ مجبوراً سامنے بیٹھ گئی تو سامنے اس کی عروبہ کا باپ بیٹھا تھا اور مسکرا رہا تھا وہ مسکرایا اور بڑے ادب سے سلام کر کے بولا کیسی ہیں باجی آپ؟ اس نے اپنے اوپر قابو پایا اور بڑے اعتماد سے بات کی پاس اس کی بیوی مسکرا کر دیکھ رہی تھی ہما کو ساجد نے گھر انواہیٹ کرنے کا اشارہ کیا تو اس نے اسے کہا بھائی صاحب آپ اپنی فیملی سمیت ادھر بھی آہیے گا تو وہ خوشی سے بولا کیوں نہیں ہماری امانت بیٹی جو آپ کے گھر میں ہے اسے لینے تو آنا ہی ہے۔ اس نے مختصر بات کی اور معزرت کرتی مصروفیت کا بہانہ بنا کر اٹھ گئی اور کمرے میں چلی گئی ماتھے پر پسینہ آ گیا تھا نتاشا اس کو پریشان دیکھ کر قریب آئی تو نتاشا نے پوچھا ماما کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی۔ اس نے قابو پاتے ہوئے کہا کچھ نہیں بس عروبہ کی جدائی کا سوچ کر دل بھر آیا تھا تو وہ تسلیاں دینے لگی نرگس بھی آ گئ اور وہ بھی اسے تسلی دینے لگی کہ اپنی خالہ کے گھر جا رہی ہے فکر نہ کرو میں تو پہلے ہی بھانجی پر فدا تھی اب تو اکلوتے بیٹے کی بیوی بننے والی ہے۔ ہما نے جزباتی ہو کر پوچھا کہ اسے پیار سے رکھو گی نا چاہے کچھ بھی ہو۔ نرگس حیران ہوتے ہوئے اسے گلے لگا کر بولی پاگل کیسی باتیں کرتی ہو میری بھانجی ہے وہ۔ ہما رونے لگی تو نرگس اسے گلے لگا کر تسلی دیتے ہوئے بولی پاگل ہے تو وہ اتنی خوش ہے دیکھو کیسے سب سے گھل مل کر باتیں کر رہی ہے سعد کے کزنوں سے۔ وہ بھی اس کے دوست بن گئے ہیں۔ میں گاوں میں اس کے ساتھ ہوں گی نا۔ نتاشا بھی اسے تسلی دینے لگی کہ جب نرگس خالہ ہیں تو پھر کیا فکر۔

ناول پارٹ۔ 25۔

سب کے جانے کے بعد عروبہ بولی موم میں تھک گئی ہوں سونے جا رہی ہوں۔

نتاشا برتن دھونے بیٹھ گئی۔ ہما نے کہا بھی مگر وہ نہ مانی۔ ساجد سوچنے لگا کہ شاید نتاشا کا یہاں رہنا قدرت کی طرف سے اس گھر کے لیے انعام تھا۔ یہ ہما کو کتنے سکھ دیتی ہے۔ اور اس نے کاش عروبہ کی پرورش ہما کو کرنے دیتا تو آج اس کے رشتے کے لیے ان لوگوں کے آگے نہ زلیل ہونا پڑتا۔ کاش میں نے اس کو نتاشا کے ساتھ پیار کا رشتہ استوار کیا ہوتا تو دنیا کے سامنے بھی عزت رہ جاتی۔ نتاشا تو اس کا بہن کی طرح ساتھ دیتی ہے۔ دونوں اگر اکھٹی ایک جیسی زندگی گزارتیں تو میری بیٹی کو بہن مل جاتی اور وہ خوش رہتی۔ اس نے تو بیٹی کے زہن کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب تو وہ کسی کو منہ نہیں لگاتی۔ قسمت اسے اتنا ہی گاؤں میں ان لوگوں کے ساتھ رہنے پر مجبور کر رہی ہے۔ اسے فکر تھی کہ شادی کے بعد وہ زیادہ عرصہ ادھر نہ رہ سکے گی پھر کیا ہو گا اسے ابھی سے نتاشا کو خود بھی اہمیت دینی پڑے گی اور اس کو بھی اس کے رشتے کا احساس دلانا پڑے گا وہ سوچ کر رہ گیا۔

اگلے ہفتے نکاح کا فون آ گیا اور ساتھ ہی جلد شادی کا حکم بھی آ گیا۔

نکاح سادگی سے گھر میں ہی ہونا قرار پایا۔

ہما کو اب اکثر پریشانی رہنے لگی کہ اسنے سعد کے پھوپھا کو پہچان لیا تھا اور اب یقیناً وہ جان گیا ہو گا کہ میری ایک ہی بیٹی ہے اور دوسری اس کی ہے اب وہ کیا کرے گی اگر سچ سامنے آ گیا تو وہ سب کو کیا بتاے گی شوہر کو کیسے مطمئن کرے گی اسے سب سے زیادہ فکر ساجد کی تھی۔اسے نیند نہیں آ رہی تھی ساجد سو چکا تھا عروبہ بھی سو چکی تھی۔ وہ اٹھی اور کچن میں پانی پینے آئی تو نتاشا کچن میں چائے بنا رہی تھی بولی کھانا کھانے کا دل نہیں کر رہا تھا چاے کے ساتھ کچھ سنیک بنانے لگی ہوں آپ کے لیے بھی بنا دیتی ہوں آپ نے کھانا کم کھایا تھا ہما سامنے اسٹول پر بیٹھ گئی۔ نتاشا اب بلاجھجک ہر چیز کھاتی پیتی اور رہتی تھی اس کی اس تبدیلی پر عروبہ نے پہلے پہل نشتر چلاے جب اس نے دھیان نہیں دیا تو عروبہ بھی یہ سوچ کر چپ ہو گی کہ شاید بچپن سے بےعزتی کھا کھا کر اب یہ ڈھیٹ ہو گئی ہے۔ باپ نے عروبہ کو سمجھایا کہ تم بھی اب ایسی باتیں بند کر دو مبادا تمہارے سسرال والے نہ سن لیں۔

ہما اور نتاشا چاے وغیرہ لے کر سٹور نما نتاشا کے کمرے میں آ گئیں تو ہما نے کمرے کو دیکھ کر کہا ہاے میری شہزادی باپ کی اتنی بڑی کوٹھی کی مالک ہوتے ہوئے اس سٹور میں تجھے رہنا پڑتا ہے۔ نتاشا بولی ماما آپ کیوں ایسا سوچتی ہیں۔ اپ کی نیکیوں کا صلہ آپ کی بیٹی کو ملا ہے کہ مجھے ایسا رشتہ ملا ہے کہ میں ساری زندگی آپ کی نظروں کے سامنے رہوں گی۔

ہما بولی میں اس رشتے پر بلکل بھی خوش نہیں ہوں میرا جی چاہتا ہے کہ میں اج اس رشتے کو توڑ دوں مجھے تجھے پاس رکھ کر ایسا رشتہ جوڑنے کا لالچ نہیں ہے۔ اچھا رشتہ ہو چاہے سات سمندر پار ہو پھر بھی میں خوش ہوں۔ ماما آپ میرا آہیڈیل ہیں جو اپنی بیٹی سے زیادہ نند کی بیٹی کو اہمیت دی اور اب اسے مجھے امید ہے کہ پاپا سارے جہان کی دولت اس کے جہیز میں دیں گے تو آپ اف نہیں کریں گی۔ پھر نتاشا پچھلی باتیں دھرانے لگی کہ کیسے اسے پہلی بار پتا چلا تھا اور اس کے کیا تاثرات تھے۔ ہما اسے گلے لگا کر پیار کرنے لگی۔

ساجد کی پیاس سے آنکھ کھل گئی تو اس نے دیکھا ہما بیڈ پر موجود نہیں ہے وہ باہر نکلا تو اسے کچن سے ان دونوں کی آوازیں آنے لگیں تو وہ سن کر دنگ رہ گیا کہ نتاشا اس کی بیٹی ہے۔ پھر وہ دبے پاؤں کمرے میں آ گیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے اوٹ سے دیکھا وہ دونوں نتاشا کے کمرے میں داخل ہو رہی ہیں تو وہ دبے پاؤں باہر کھڑا ہو کر سننے لگا تو نتاشا پچھلی باتیں دہرا رہی تھی تو اس پر ساری حقیقت آشکار ہو گئ۔ اسے بہت افسوس ہوا کہ اس جیسے حاکمانہ مزاج کے مرد بیوی کو اتنا ڈرا دبا کر رکھتے ہیں کہ وہ ان کے ڈر سے بعض اوقات اتنے غلط فیصلے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کی اپنی بیٹی اسی کی وجہ سے کہ ایک اسے خوبصورت اولاد چاہیے تھی اس وقت واقعی اس کا دماغ خراب رہتا تھا کہ وہ دھمکی کے ساتھ کچھ کر بیٹھتا یا اسے اپنی بیٹی دنیا میں سب سے حسین لگتی جیسی اسے اب لگ رہی تھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ جاکر اسے سینے سے لگا کر دھاڑیں مار مار کر روے۔ اس نے زور زور سے ہما کو آوازیں دیں تو ہما اور نتاشا دوڑتی آ گی گھبراتے ہوئے بولی کیا ہوا اس نے کہا کہ میرا دل گھبرا رہا ہے نتاشا بھاگ کر پانی لے آئی۔ وہ غٹا غٹ بہت سا پانی پی گیا نتاشا اس کی پاوں کی تلیاں ملنے لگی اسے سکون ملنے لگا وہ بہتر محسوس کرنے لگا۔ اس نے لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔ دو مہربان ہستیاں اس کے ساتھ تھیں جنہیں سب سے زیادہ اس نے دکھ پہنچاے تھے وہ پچھتانے لگا۔ اس نے اپنے رب سے توبہ استغفار کی۔ اور سکون سے سو گیا تب نتاشا اپنے کمرے میں ا گئ۔

جس دن نکاح تھا اس نے سادگی کو ترجیح دی اور سعد سے پوچھا کہ میں نتاشا کا بھی ایک کروڑ لکھواوں گا اور عروبہ کا بھی فارمیلٹی کے لیے۔ سعد نے کہا کہ میں نے بسانے کے لیے لے کر جانا ہے بےشک دو کروڑ لکھوا دیں تو نکاح کے وقت نرگس نے احتجاج کیا کہ گھر کی بات ہے مگر سعد اور نرگس کا سسر نہ مانا مجبوراً نرگس کو چپ ہونا پڑا۔ مگر اس کا منہ بن گیا۔

لاہیو وڈیو میں اس کی نند نے بھی لکھوانے پر اوکے کیا۔ ساجد پر ہما اور نتاشا کی باتوں سے حقیقت کھل چکی تھی کہ عروبہ سعد کے پھوپھا کی بیٹی ہے۔ ہما نتاشا سے مشورہ مانگ رہی تھی تو اس نے جواب میں کہا تھا کہ جب تک کوئی اور اوپن نہیں کرتا آپ چپ رہیں۔ جب اوپن ہو گا دیکھا جائے گا۔ اب اسے دشمن کی بیٹی پر روپیہ خرچ کرنا محال لگ رہا تھا۔ اسے نتاشا سے انسیت کم نہ ہو سکی تھی۔ اس نے سعد سے پوچھا جہیز میں کیا لینا ہے تو اس نے کہا کہ گاوں میں سب کمرے ابھی میں نے جدید فرنیچر سے آراستہ کیے ہیں پھر برتن، فرنیچر کچھ بھی دینے کی ضرورت نہیں۔ ساجد نے کہا کہ نقد رقم دے دوں تو سعد بولا انکل میں جہیز کے سخت خلاف ہوں اور نقد رقم بھی جہیز کی ایک صورت ہے اس کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ساجد نے کہا کہ دنیا کیا کہے گی تو سعد نے کہا کہ ہم پڑھے لکھے دنیا کے ڈر سے اس رسم کو نہیں توڑیں گے تو معاشرہ کیسے سدھرے گا۔ امیر لڑکیوں کے جہیز کے ٹھاٹ باٹھ دیکھ کر احساس محرومی کا شکار ہو جاتی ہیں شاید اسی لئے امیروں کو ان کی بدعاہیں اور آہیں لگتی ہیں جو ان کو بڑی بیماریوں پر دولت خرچ کرنی پڑتی ہیں وہی تھوڑا اپنے بچوں کا صدقہ نکال کر کم رقم سے ہی کسی غریب کی شادی یا کسی اور مسلے میں مدد کر دی جائے تو یہ ان کے اپنے بچوں کی بلاوں کو بھی ٹالتا ہے۔ ان کے بچوں کے بھلے کا سبب بنتا ہے۔ مگر کوئی سمجھے تو تب نہ۔ اگر ایک سو کے اوپر ایک روپیہ الگ کر کے خیرات نکالی جائے تو میرا خیال ہے صدقہ، خیرت، و زکوٰۃ سب کور ہو جائے گا انسان کتنی شاپنگ کرتا ہے کتنی نئ چیزیں سالوں پڑی رہتی ہیں۔ سال بعد ان کی زکوۃ بن جاتی ہے مگر ان چیزوں کی طرف کسی کا دھیان بھی نہیں جاتا۔

ساجد سعد کی باتوں سے امپریس ہوا۔

ناول پارٹ۔ 26۔ 

ساجد اب نتاشا کو دیکھتا تو بچے اختیار اسے اس پر پیار ا جاتا۔ اسے اب وہ عروبہ سے بھی زیادہ پیاری نظر آتی۔ ابھی اس بات کو اوپن نہیں کر سکتا تھا جب تک عروبہ کی شادی نہ ہو جاتی۔ وہ جانتا تھا کہ نرگس بہن سے بہت پیار کرتی ہے اسی وجہ سے اس نے عروبہ جیسی پھوڑ لڑکی کو اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے قبول کیا۔ جس طرح وہ خود سلیقہ مند ہے ایسی لڑکی کا وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ اب عروبہ بھی اس کی زمہ داری تھی۔ اسے وہ جلد رخصت کرنا چاہتا تھا تاکہ پھر وہ بیٹی کے رشتے کو اوپن کر سکے۔ ہما سے اس کے باپ کا اتا پتا پوچھ کر اس کی امانت اس کے حوالے کرے گا۔ اب وہ نتاشا کے رشتے پر بھی پریشان تھا اب اسے نتاشا کا رشتہ بھی معیار کا نہ لگ رہا تھا اس نے تو چھان بین بھی نہ کی تھی۔

ہما اور نتاشا کے ساتھ اب ساجد کا رویہ بہت اچھا ہو گیا تھا سب یہی سمجھتے تھے کہ عروبہ کے سسرال کی وجہ سے اس نے یہ رویہ اپنایا ہے۔ گھر کا ماحول پرسکون ہو گیا تھا عروبہ اگر کھبی نتاشا کو کچھ کہتی تو ساجد سختی سے ٹوک دیتا۔ اب وہ ساجد کے سامنے کچھ کہنے سے احتیاط برتنے لگی تھی۔

ہما خوش تھی اور وہ عروبہ کی شادی کی تیاریاں زور و شور سے کر رہی تھی۔ اچانک نرگس اور سعد آ گئے۔ نرگس نے لکھوانے پر منہ بنایا ہوا تھا سعد نے سمجھا بجھا کر ماں کو منا کر لایا۔ ہما نرگس کو دیکھ کر کھل گئی وہ بھی منہ بناے بناے بہن کو دیکھ کر پگھل گئی اور گلے ملی۔ نتاشا نے سلام کیا اس نے منہ ہلا کر جواب دیا۔

سعد نے صاف بتا دیا کہ اسے دو یا تین جوڑوں سے زیادہ نہیں چاہیے ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے اور داماد سے لیتے ہوئے ان کو غیرت آے گی جتنا بھی ہو پیسہ اپنے بڑھاپے کے لیے سنبھال کر رکھیں۔ ان کو جب بھی بیٹے کی ضرورت ہو گی وہ ان کا سہارا بنے گا۔

ساجد دل میں پچھتانے لگا کہ اتنا اچھا لڑکا اور اتنے اچھے خیالات والا کاش اس کی بیٹی کے نصیب میں ہوتا۔

عروبہ نرگس سے پہلے کی طرح گلے میں بازو ڈال کر فری ہو رہی تھی کہ نرگس نے ٹوک دیا کہ اب بڑی ہو جاو اب یہ بچگانہ حرکتیں چھوڑ دو۔ نتاشا کی طرح بنو۔ ورنہ نتاشا تمھاری بہن تو نہیں ہے نا تو میری ساس کہہ رہی تھی اگر عروبہ نہ چل سکی تو نتاشا کو بھی بیاہ کر لے اوں گی۔ اگر تم نے اپنے آپ کو نہ بدلا تو سعد بھی دادی کے آگے نہیں بولتا دادی اسی شرط پر مانی تھی کہ وہ نہ چل سکی تو وہ اس کی نتاشا یا نتاشا جیسی دوسری لے آہیں گی۔ تم دو بیویوں کے خرچے آسانی سے اٹھا سکتے ہو اور سعد کو اپنی قسم دی تھی کہ نسل خراب نہیں کرنی ایسی لڑکی کے ساتھ۔ سب سن کر دنگ رہ گئے۔

عروبہ نے چلا کر سعد سے کہا کہ کیا یہ سچ ہے تو وہ صاف گوئی سے بولا ہاں سچ ہے اگر تم نہ بدلی تو میں دادی کی قسم کو نبھانے پر مجبور ہو جاوں گا بس تم دادی اور سب کو خوش کر دو۔ شادی کو سیریس لو۔

اس نے چیخ چیخ کر رونا اور سعد کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا تو سعد نے اسے آرام سے سمجھایا کہ میرے دادی اد اسٹیج پر ہیں کہ وہ میری خوشی دیکھ کر مرنا چاہتی ہیں اور اگر اس طرح کا رویہ برقرار رکھا تو میں دادی کی خوشی پوری کرنے کے لیے پہلے کسی اور سے شادی کر لوں گا شکر ہے آج وہ ساتھ نہیں ہیں ورنہ وہ مجھے ابھی ساتھ لے جا کر کسی نتاشا جیسی گھریلو لڑکی سے نکاح کروا دیتی۔ عروبہ نے کہا کہ دیکھا ڈیڈ اس نے ہم سب کو دھوکہ دیا ہے اس بات کو سب سے چھپا کر۔

سعد نے گرج کر کہا کہ میں نے کسی کو دھوکہ نہیں دیا پوچھ لو اپنے والدین سے۔ ان کو سب بتایا تھا۔

نرگس نے تپ کر کہا کہ اس وقت ساجد منتیں ترلے کر رہا تھا کہ ایک موقع دے دو میں اسے سدھار لوں گا۔ وہ کچھ اور بھڑاس نکالتی سعد نے ماں کو ٹوک دیا۔

دراصل ساجد نے جو ایک نکاح کے وقت طلاق کی صورت میں ایک کروڑ لکھوایا تھا تو نرگس کو ساس سسر نے بہت طعنے دیے تھے کہ وہ خاک اپنے ہوے کہ ان کو اعتبار ہی نہیں ہے ایک تو اپنی نکمی لڑکی کو منتیں کر کے ہمارے سر مونڈھا اوپر سے اسے بسانے کا پکا کام کر دیا۔ ساس تو ہر وقت جان کھاتی رہتی اوپر سے نند نے بھی سنا دی۔ پھر جہیز بھی بیٹا لینے نہیں دے رہا۔ اس لیے اب وہ نتاشا کا رشتہ کر کے پچھتا رہی تھی۔

ساجد نے پہلی بار عروبہ کو سنا دیں کہ اس نے اسے ابھی سے سب کے سامنے زلیل کروانا شروع کر دیا ہے وہ تڑخ کر بولی ڈیڈ آپ مجھے سب کے سامنے زلیل کر رہے ہیں آپ نے مجھے دھوکہ دیا۔ ہما نے اسے ڈانٹا کہ باپ سے تمیز سے بات کرو تو اس نے ہما سے بھی بدتمیزی شروع کر دی کہ آپ بھی دھوکے باز ہیں۔ میں شادی کے بعد آپ لوگوں کی شکل تک نہیں دیکھوں گی۔ سعد پلیز مجھے یہاں سے لے چلو۔

ساجد نے اندر جا کر نکاح نامہ لے کر آیا اور سعد سے بولا اصل چیز نکاح ہوتی ہے میں نے وہ فرض پورا کر دیا ہے میں اسے اسی وقت اس گھر سے رخصت کرتا ہوں اور اس سے ہمیشہ کا ناتہ توڑتا ہوں۔ سب ہکا بکا رہ گئے۔

ہما نے روتے ہوئے کہا کہ بیٹیاں ایسے تھوڑی رخصت کی جاتی ہیں۔ سعد نے کہا کہ چلو عروبہ اور اس گھر سے سوئی بھی مت اٹھانا میں سب لے دوں گا۔ وہ اتراتے ہوئے بولی ٹھیک ہے چلو میں ان سب سے سخت ناراض ہوں۔

نتاشا اگے بڑھی اور عروبہ سے لپٹنے لگی تو اس نے اسے زور سے دھکہ دے دیا وہ دور جا گری اور دیوار کا کونا لگا اور اس کے سر سے خون نکل آیا۔ سعد آگے بڑھا تو اتنے میں ہما اسے اٹھا کر اس کے سر پر دوپٹہ رکھ چکی تھی۔

ساجد نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ خدا کے لیے اسے یہاں سے لے جاو اور جو اس سے ناتہ رکھے گا سامنے یا خفیہ میں اس سے بھی ناطہ توڑ لوں گا۔ سعد نے عروبہ کا بازو پکڑا اور کہا چلو۔ وہ چل پڑی۔

نرگس نے حواس باختہ کہا کہ تمھاری دادی اسے گھسنے دے گی وہ بولا اپ چلیں تو سہی۔ نرگس سر تھامے باہر نکل گئی۔

ساجد نتاشا کو ہاسپٹل لے کر گیا اور واپس آ کر اسے روتے ہوئے گلے لگا کر سچائی بتانے لگا کہ اس نے ان دونوں کی گفتگو سن لی تھی۔ دونوں حیران ہونے لگیں۔ نتاشا بھی تڑپ تڑپ کر باپ کے گلے لگ کر روئی۔ ساجد بھی پھوٹ پھوٹ کر رویا اور ان دونوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگا۔

ساجد پیار سے اسے دوائی کھلاتا اور چند دنوں میں اس کے زخم مندمل ہو گیے۔ ساجد اسے بازار لے کر گیا اس کے لاکھ منع کرنے کے باوجود اسے اموشنل کر کے دونوں ماں بیٹیوں کو خوب شاپنگ کروائی۔

سارے گھر کو نتاشا کی پسند سے کلر کروایا اور اسے اپنا کمرہ دیا اور خود عروبہ والا روم لیا تاکہ نتاشا کو محسوس نہ ہو۔ سارا فرنیچر نتاشا کی پسند سے نیا لیا۔ گھر کی لک ہی بدل دی۔ نیے کرٹن ڈرائنگ روم کی سجاوٹ سب نتاشا سے پسن کروایا۔ خالہ پڑوسن نے کہا کہ وہ نتاشا کے لیے بہت خوش ہے پر اس کے رشتے سے خوش نہیں جواب میں ساجد کچھ نہ بولا۔

ایک دن ساجد گھر آیا تو بہت پریشان تھا ہما نے پوچھا کیا بات ہے نتاشا پانی کا گلاس لے آئئ۔

ساجد نے سر پکڑ کر بتایا کہ نتاشا کے رشتے والے فراڈی نکلے لالچ میں اپنے سگے بیٹے کو پرایا بتایا اس نے سن لیا تھا کہ مجھے گھر داماد چاہیے تو اس نے سوچا کہ ایک بار شادی ہو جائے پھر دیکھا جائے گا مجھے اتفاق سے پتا چل گیا۔ نتاشا کے ہاتھ سے پانی کا گلاس چھوٹ گیا اور وہ روتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔ ہما اور ساجد اسے سمجھانے گئی تو وہ بولی ایک آس لگی تھی ماں باپ کے ساتھ ہمیشہ رہنے کی وہ بھی ٹوٹ گئی۔ اب آپ لوگ مجھے کسی اور سے بیاہ دیں گے اور مجھے آپ لوگوں سے دور جانا پڑے گا۔ دونوں اس کی معصومانہ بات پر مسکرانے لگے۔ اور وعدہ کیا کہ وہ اسے اپنے سے جدا نہیں کریں گے۔ وہ خوش ہو گئ۔

ساجد نے سوچا جب سے عروبہ گئ ہے زندگی کتنی پرسکون ہو گئ ہے گھر کا ماحول کتنا پرلطف ہو گیا ہے۔ سب اکٹھے کھاتے پیتے شام کو واک پر جاتے۔ رات کو مارکیٹ سے اہسکریم کھانے جاتے۔ کھبی باہر گھومنے پھرنے چلے جاتے۔ ایک بار بھی ساجد نے عروبہ کا نام نہ لیا نہ ہی ہما اور نتاشا نے اس کی ناراضگی کے سبب کھبی اس کے سامنے زکر نہ کیا۔

آج بھی ہما عروبہ کو یاد کر کے آبدیدہ ہو رہی تھی اور نتاشا اسے تسلی دیتے ہوئے خود بھی رو رہی تھی ماں نے دلار سے کہا کہ تجھے تو وہ تنگ کرتی تھی پھر تو اسے یاد کر کے کیوں روتی ہے تو وہ بولی نتاشا میری بہن ہے۔ وہ سمجھے نہ سمجھے مگر آپ کی تربیت نے مجھے رشتوں کا مان سکھایا ہے جو میں نبھاتی رہوں گی۔

اچانک سعد اس کا باپ، دادا اور نرگس ا گئے۔ ساجد نے ان کو عزت سے بٹھایا اور ہما کو چاے بنانے کا کہا۔ نرگس نتاشا کو لپٹا لپٹا کر والہانہ پیار کرنے لگی اور میری بھانجی میری بھانجی کہہ کر اسے چومنے لگی۔ پھر ہما سے لڑنے لگی کہ تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا اپنی نند کی اسی جیسی بدتمیز بیٹی کو میرے ہیرے جیسے لال کے ساتھ پھنسا دیا کاش مجھے نکاح سے ایک منٹ پہلے بھی پتا چلتا تو میں کھبی نکاح نہ ہونے دیتی۔ شور سن کر سعد ا گیا اور ماں سے بولا ماما وہ میری قسمت میں لکھی نہ ہوتی تو میرا اس سے کھبی نکاح نہ ہوتا بس اب صبر شکر کر کے بیٹے کی شادی کی خوشی مناہیں۔ اور ہاں نتاشا تمہیں بھی والدین مبارک ہوں اور ہنس کر ماں کی طرف اشارہ کر کے بولا اور خالہ بھی۔

ساجد بڑی مشکل سے سعد کی شادی پر جانے پر راضی ہوا۔ ہما رو رہی تھی آخر نرگس کو ترس آ گیا۔ ہما نے معافی مانگی تو نرگس نے گلے لگا لیا۔

ساجد نے آنے کا وعدہ کر لیا۔

ہما اور نتاشا شوق و دلچسپی سے عروبہ کا حال احوال پوچھ رہی تھی۔ ان کے جانے کے بعد ساجد نے اجازت دے دی کہ شادی پر جانے کے لئے شاپنگ مال چلیں۔

سعد جب عروبہ کو ساتھ گاوں لے کر گیا تو دادی نے اس طرح آنے پر کافی احتجاج کیا کہ گاوں بھر میں ہماری عزت ہے۔ اور ہم گاوں والوں کو کیا کہیں گے کہ کیوں ادھر آئی ہے۔ بڑی مشکل سے دادی کو کول کیا گیا کہ اس مسئلے کا کوئی حل سوچتے ہیں۔ عروبہ جو خوشی خوشی ادھر آئی تھی تو اس کو سمجھ ا گئ کہ شادی کو نبھانے کے لیے سب کچھ سہنا پڑے گا ورنہ دادی سعد کی کسی گھریلو لڑکی سے شادی کر وا دے گی۔ وہ اس کمزور سی بوڑھی انپڑھ عورت کی value دیکھ کر حیران رہ گئی سب اس کی مانتے تھے اس کو ایک پیر کا درجہ دیتے تھے۔ نرگس بھی اس کی خوشامد اور خدمت میں لگی رہتی تھی۔ سعد نے تو آتے ساتھ ہی اسے وارننگ دے دی تھی کہ اس گھر میں سب کو خوش رکھنا ہے ورنہ مجھے ان کی خوشی پوری کرنے کے لیے وعدہ پورا کرنا پڑے گا اب تم پر ہے کل تک مجھے بتا دینا ورنہ مجھ سے کوئی امید نہ رکھنا۔ اگر میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو تب بھی بتا دو۔ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔ نرگس خالہ بھی ساس کے پاس بیٹھی اس کے آنے کی صفائیاں دے رہی تھی۔

گاوں کا گھر بڑا سا اور درمیانے درجے کے فرنیچر سے آراستہ تھا۔ اٹیچ باتھ اور بڑا سا کچن تھا کافی کمرے تھے۔ نرگس کی نند باہر سے آ گئ اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ۔ اس نے جو بات عروبہ کے بارے میں سب کو بتائ وہ سب کے لیے کافی حیران کن تھی اور عروبہ کے لیے کسی بم سے کم نہ تھی۔ کہ وہ نرگس کی نند کی سوتیلی بیٹی تھی اس کے شوہر نے شادی کے بعد بیوی کو عروبہ کی ماں کے ساتھ شادی اور بچی کا بتایا تھا اس کی اور بچی کی وفات کا بھی بتا دیا تھا۔ وہ اس وقت ایک گاوں کی مڈل پاس دبی ہوئی لڑکی تھی پہلے دن ہی اس کے شوہر نے اس کو عروبہ کی ماں کا بتا دیا تھا کہ وہ اس کو پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کر چکا ہے۔ حالانکہ اس نے ابھی اس سے شادی کی نہیں تھی مگر اس لیے بولا کہ اگر وہ یہ کہتا کہ وہ اس سے ابھی شادی کرے گا تو وہ کوئی رکاوٹ نہ ڈال دے۔ اس کے شوہر نے اس سے کہا کہ وہ والدین کی پسند ہے اسے ماڈرن لڑکیاں پسند ہیں۔ اگر اس نے والدین کو خوش رکھا تو وہ بھی اسے خوش رکھے گا اور ویسے اس کے تمام حقوق پورے کرتا رہے گا۔ تب سے اس کی اس پینڈو بیوی نے اپنے آپ کو ماڈرن لڑکی میں ڈھال لیا ڈرائیونگ سیکھ لی۔ انگلش لینگویج کا کورس کر لیا اور ساس سسر سے آگے پڑھنے کی خواہش ظاہر کر دی اور اب ایم اے کر چکی تھی۔ اس کے تین بیٹے پیدا ہوئے تو ساس سسر کی وہ منظور نظر بن گئ۔ وہ لوگ آزاد خیال تھے اور اسے کسی بات سے نہ روکتے تھے بلکہ خوش ہوتے تھے کہ اس نے ترقی کی اور اب وہ اسے ہر کسی سے فخر سے ملاتے تھے۔ اس نے شوہر سے کہا کہ اگر اس کی بیٹی زندہ رہتی تو وہ اسے پالتی۔ اب اس کے شوہر نے ہما کو پہچان لیا اور عروبہ کے طورواطوار ماں جیسے تھے پھر اس نے سنا کہ اس کی ایک بیٹی ہے اور دوسری نند کی ہے جس کے والدین فوت ہو چکے ہیں تو اسے یقین ہو گیا کہ وہ اسی کی بیٹی ہے۔اس نے بلا خوف بیوی کو سب بتا دیا کہ نہ جانے ہما نے اس کے ساتھ جھوٹ کیوں بولا تھا مگر اب وہ اپنی بیٹی کو اپنا نام دے گا۔ بیوی پہلے حیران ہوئی پھر دوراندیشی اور سمجھداری سے کام لیتے ہوئے شوہر کا ساتھ دینے لگی۔

اب پاکستان ا کر عروبہ کو اس کے والد نے سچائی بتا دی۔ اس کے بھائی بہن کو پا کر نہال ہو گئے۔ ایک عروبہ سے بڑا تھا اور دو چھوٹے تھے۔ وہ چھوٹے تو آپی آپی پکارتے نہ تھکتے جبکہ بڑا اسے شفقت سے پیش آتا۔

اب اس کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھی۔ عروبہ کے باپ نے اس کی شادی کی زمہ داری لے لی تھی۔ گاوں میں ہی شادی ہونا قرار پائی ولیمہ صرف دو دن کے گیپ سے شہر کے مہنگے ہوٹل میں ہونا قرار پایا۔

ساجد اور اس کی فیملی کے لیے الگ کمرے میں انتظام کیا گیا۔ نتاشا ہر کام میں نرگس کا ہاتھ بٹاتی رہی۔ عروبہ قسمت کے اس کھیل پر حیران اور دکھی تھی۔ پرانے رشتے دور جا چکے تھے اور نیے رشتے بن چکے تھے وہ کم عرصے میں ہی دب سی گئی تھی اب اس کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا سوتیلی ماں بظاہر تو اچھی تھی مگر عروبہ اس کے آگے دب سی گئی تھی۔ اس نے سوچا نتاشا کو بھی اس نے دبایا ہوا تھا اب شاید اسی کی بدعاہیں لگی تھی۔ اب اس کو اپنی زیادتیوں کا احساس ہو رہا تھا کیونکہ نتاشا کا رشتہ نرگس کی نند نے کر لیا تھا اور اس کی شادی دھوم دھام سے ہوئی تھی اس کی سوتیلی ماں نے بیٹے کی شادی میں خوب ارمان نکالے تھے وہ گلہ بھی نہ کر سکی تھی اس کی جرات ہی نہ تھی۔ نتاشا بیاہ کر امریکہ چلی گئ تھی اور بہت خوش تھی اس کی امد پر گاوں میں خوب تیاریاں کی جاتی تھی اور عروبہ کو ان کی خاطرداری میں سارا دن کچن میں گزارنا پڑتا تھا۔ اس کا سگا باپ بھی بس اس کا رشتہ اوپن کر کے بیگانہ ہو گیا تھا کھبی کبھار فون کر دیتا یا کچھ رقم اسے دے جاتا اس نے شادی کے بعد بیٹے کو جنم دیا تھا مگر وہ ہر وقت نرگس کی تحویل میں رہتا۔ اسے بیٹے کے لیے بھی ترسنا پڑتا۔ سعد شادی کے ہفتے بعد ہی چلا گیا تھا اور سال بعد ایک ماہ کی چھٹی آیا مگر اسے ساتھ نہ لے کر جا سکتا تھا۔ نرگس اور دادی کے طعنے سن سن کر وہ سوچتی کسی پر طنز کرنا دوسرے کو چھری مارنے کے برابر ہے اس نے نتاشا پر طنز کے تیر چلاے تھے کیا اسے بھی اتنی تکلیف سہنی پڑتی ہو گی۔

اس کا غرور چکنا چور ہو چکا تھا۔ اگرچہ دادی فوت ہو چکی تھی مگر نرگس نے اس کی جگہ سنبھال لی تھی وہ اس سے سارے گھر کے کام کرواتی۔ اب وہ پکی دیہاتن لگنے لگی تھی۔ سر پر ہر وقت دوپٹہ، کپڑے سادے اور سستے سعد تو اسے پھنسا کر چلا گیا تھا سال بعد ایک ماہ کی چھٹی آتا تو وہ سب کے ملنے ملانے اور اپنی ماں کے پاس بیٹھنے میں ہی گزر جاتا۔ دو سال بعد وہ فیملی کو بلا سکتا تھا مگر نرگس پوتے کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی اس لیے سعد نے عروبہ سے کہا کہ بچے کو دادی کے پاس چھوڑ کر جا سکتی ہو تو چلو۔ مگر اس بھری دنیا میں اب ایک بچہ ہی اسے اپنا لگتا تھا۔

نتاشا نے بچے کو جنم دیا تو اس کا خوب جشن منایا گیا اور پاکستان آ کر اس کا شاندار عقیقہ کیا گیا بڑی شہر کی مارکی میں اس کی سالگرہ کی گئی۔ جبکہ عروبہ کے بچے کا عقیقہ گاوں میں کیا گیا۔

عروبہ ملک سے باہر جانے کا شوق رکھتی تھی مگر ملک کیا وہ تو گاوں سے شہر بھی اپنی مرضی سے نہ جا سکتی تھی۔ اس کو ڈرائیونگ آتی تھی مگر وہ کہاں جاتی۔

نتاشا نے بھی پاکستان میں ہی باپ سے ڈراہیونگ سیکھ لی تھی اس کا شوہر اس پر جان دیتا۔ وہ پاکستان آتی تو ساس اسے اکیلے شوہر کے ساتھ جب چاہے جدھر چاہے جانے دیتی۔ وہ میکے بھی چلی جاتی۔ ملکوں ملکوں سیر کرتی اور عروبہ اس کے قیمتی لباس اس کے بچے کے قیمتی لباس اس کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر اہ بھر کر رہ جاتی۔

نتاشا میں غرور نام کو نہ تھا گاوں والوں سے بھی بہت بااخلاق طریقے سے ملتی۔ سب اس کی تعریف کرتے۔ نتاشا عروبہ کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی پسند کا میک اپ اس کے بچے کے لیے بھی ڈھیروں گفٹ لاتی۔ نرگس عروبہ کی موجودگی میں اس پر واری صدقے جاتی۔ جبکہ عروبہ کو طنز کا نشانہ بناتی رہتی۔ اس کو کہیں جانے نہ دیتی کوئی شاپنگ نہ کرنے دیتی غرض بہت کنجوسی کرتی۔ عروبہ ساجد پر حیران ہوتی کہ کہاں وہ ہما سے سیدھے منہ بات نہ کرتا تھا اب جب سے اس نے ہما سے بدتمیزی کی تھی اس نے اسے گھر سے ہی نکال دیا تھا اور بڑی مشکل سے ہما کے سمجھانے پر اس سے راضی تو ہو چکا تھا مگر اب فالتو لفٹ نہ کراتا تھا۔ بس ایک ہما ہی تھی جو اس کو ماں کی طرح چاہتی تھی۔ روز فون کرتی تو عروبہ اس کے فون سے جی اٹھتی۔ ہما اسے نرگس سے بمشکل اسے گھر لانے کی اجازت مانگتی مگر وہ ساتھ ضرور آتی اور دو دن رہ کر چلی جاتی وہ عروبہ پر پوری نظر رکھتی۔ سعد سے بات کرتے وقت بھی سامنے بیٹھ کر اسے دیکھتی رہتی تو عروبہ کی جرات نہ ہوتی کہ وہ نرگس کی شکایت لگا سکے۔ عروبہ ہما کے گھر کو دیکھتی تو سوچتی اسے اب سٹور میں سونا پڑتا ہے جہاں نتاشا سوتی تھی اور نتاشا اور اس کا شوہر کمرے میں سوتے عزت سے رہتے اور نرگس ان کی خدمت پر اسے لگاے رکھتی۔ نرگس نتاشا کو بیٹی کہتی۔ جبکہ عروبہ کو لگتا نتاشا نہیں اس کی نند آ گئ ہے۔

وقت کا پہیہ کیسے گھومتا ہے۔ عروبہ کو غرور کی سزا مل چکی تھی اور نتاشا کو صبر کا پھل۔ اب اسے اپنی زیادتیوں کا احساس ہونے لگا تھا اور اس نے اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی شروع کر دی تھی بےشک وہ بڑا غفور روحیم ہے۔ سچے دل سے توبہ کرو پھر اس پر قاہم رہو تو وہ ضرور سنتا ہے۔ اب تو عروبہ نے نماز وغیرہ کی پابندی بھی شروع کر دی تھی۔

ہما نرگس کو عروبہ کی فیور میں سمجھاتی کہ وہ اس پر اتنی سختی نہ کرے اسے شہر شفٹ ہونے دے تو وہ تڑخ کر بولتی ارے گاوں کی فریش ہوا میں رہ کر میری صحت اچھی ہو گئی ہے اور میرا پوتا بھی تازی ہوا میں سانس لیتا ہے۔ تازہ خوراک کھاتا ہے شہر کی مصنوعی زندگی مصنوعی خوراکیں اور مصنوعی لوگ جو کسی کی خیر خبر ہی نہیں رکھتے پاس پڑوس کی خبر نہیں کوئی زندہ ہے مر گیا ہے۔ گاوں میں سب الگ الگ رہنے کے باوجود ایک دوسرے کی خبر رکھتے ہیں ہمدردی کرتے ہیں ایک کا مہمان سب کا مہمان ہوتا ہے۔ میں تو اس زندگی میں بہت خوش ہوں۔

سعد کو کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا کہ اس کی ماں عروبہ پر زیادتی کرتی ہے مگر وہ اسی کے فاہدے کے لیے اسے کندن بنانا چاہتا تھا اس کا باہر سے کنٹریکٹ ختم ہو چکا تھا اب وہ پاکستان مستقل آ رہا تھا آج اس نے آنا تھا تو اسے ماں کے مرنے کی اطلاع ملی۔ جسے دل کا اٹیک ہوا تھا وہ پہلی فلاہیٹ میں آ پہنچا۔ سب آ چکے تھے ہما کا برا حال تھا۔ عروبہ بھی رو رہی تھی اس کے بیٹے پر جان چھڑکنے والی جا چکی تھی۔

نرگس کے چالیسویں کے بعد سب مہمان رخصت ہو گئے۔ اب عروبہ کو نرگس کی قدر آئی اس نے کیسے سارے گھر کے نظام کو سنبھالا ہوا تھا اسے بچے کی طرف سے بےفکری تھی۔

اس نے سعد سے کہا کہ جب تک بچہ اسکول جانے کے قابل نہ ہو وہ بچے کو گاوں کی تازہ ہوا میں رکھے گی اس کادل اب ان معصوم ہمدرد لوگوں میں لگ چکا تھا جہاں اسے عزت و پیار ملا تھا۔

سعد نے دیکھا اب وہ نتاشا کو اپنی بہن بتاتی ہے۔ اور اس کے آنے پر خوش ہوتی ہے اور اب اسے دل سے پیار کرتی ہے۔

نتاشا کے سمجھانے پر اس کے سسرال والوں نے پاکستان شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا ان کے بچے پاکستان میں ا کر بہت خوش رہتے تھے۔

نتاشا نے کہا کہ اپنا ملک اپنا ہوتا ہے جہاں ہم آزاد ہیں۔ یہ ملک بہت سے لوگوں کی قربانیوں سے ملا ہے۔ پھر ہم اپنے ملک میں رہنے پر فخر کرنے کی بجائے دوسروں کے ملک میں رہنے پر کیوں فخر کریں۔ ہمارا ملک بہت خوب صورت ہے ہم اگر اس کی طرف دھیان نہیں دیں گے اور اپنی زندگی جیں گے تو یہ ملک ترقی کیسے کرے گا اور جو ہم باہر ملک رہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں تو ہم نے کھبی سوچا کہ ہم پاکستان کی فلاح وبہبود کے لیے کیا کرتے ہیں۔ کتنے لوگ غربت وافلاس کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جتنے کا ہم لوگ ایک پیزا، برگر کھاتے ہیں اتنے پیسوں میں ایک پورا غریب گھرانہ کھانا کھا سکتا ہے اپنے اس پیزے اور برگر کو قربان کر کے ہم کسی غریب کی فیملی کو ایک وقت کا کھانا کھلا کر جنت کما سکتے ہیں اور اپنے اوپر آئی بلاوں کو ٹال سکتے ہیں اپنے بچوں کا صدقہ نکال کر ان کے سر سے بلاوں کو ٹال سکتے ہیں۔

نتاشا نے کہا کہ میرے والدین کا کوئی بیٹا نہیں اور میں بیٹی ہونے کے سبب ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی نہ وہ رہ سکتے ہیں حالانکہ ایسا ناممکن نہیں ہے مگر ہمارے معاشرے کا دستور ہے کہ صرف بیٹا ہی والدین کا سہارا بن سکتا ہے وہی بوڑھے والدین کو رکھ سکتا ہے بیٹی نہیں۔ وہ لوگ بھی جانتے ہیں جو اس گھر سے بیٹی کو بیاہتے ہیں کہ ہم ان کے بڑھاپے کا سہارا لے کر جا رہے ہیں تو یہ بوڑھے ہو کر کیا کریں گے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیتا نہ کوئی کسی کی زمہ داری کو اٹھاتا ہے حتی کہ بیٹی بھی سسرال اور معاشرے کے ڈر اور دستور کے مطابق کچھ نہیں بولتی یا ڈیمانڈ کرتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ یہ ناممکن ہے۔ مگر میں آواز اٹھاوں گی۔ شکرالحمدوللہ کہ میرے والدین معاشی طور پر کسی پر بوجھ نہیں بنیں گے۔ ایسے کیا ہو سکتا ہے کہ ہم ان کے قریب گھر بنا لیں یا ان کو بھی اپنے قریب گھر بنانے پر مجبور کریں تاکہ وقت بے وقت ان کی خبرگیری کر سکوں۔ یہ تجویز سب کو بہت پسند آئی۔

نتاشا کا سسر ہما اور ساجد کے پاس گیا اور نتاشا کی تجویز پیش کی اور ہاتھ جوڑ کر اس کی بہن کو بھگانے کی معافی مانگی تو ساجد نے کہا کہ کہ اگر میرے دل میں کچھ ہوتا تو میں نتاشا کا رشتہ کیوں دیتا۔ عروبہ کے باپ نے کہا کہ میں ہما بہن کا خاص طور پر شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری بیٹی کا جھوٹ بول کر اسے پالنے سے میری شادی شدہ زندگی کو بےسکون ہونے اور اجڑنے سے بچایا اس کو نازو نعم سے پالا اس کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ طے یہ پایا کہ کسی اچھی سوسائٹی میں قریب قریب پلاٹ لے کر گھر تعمیر کیے جائیں جب تک گھر بنتا ہے نتاشا اور اس کا شوہر ساجد کے گھر رہیں گے اور ہم لوگ گاوں کی زندگی کو اتنا وقت انجوائے کریں گے۔ سعد نے کہا کہ وہ بھی ان لوگوں کے ساتھ گھر بناناچاہتا ہے۔ اور گاوں میں َایک اسکول اور ایک کلینک کھولنا چاہتا ہے تاکہ گاوں کے لوگوں کے لئے بھی کچج کر سکوں۔ نتاشا کے سسر نے کہا کہ اس کار خیر میں میں بھی حصہ ڈالوں گا۔ ساجد نے بھی آفر کردی۔

اس طرح سب اکٹھے بھی ہو گئے اور قریب رہنے سے ساجد اور ہما کا بیٹا نہ ہونے کا مسلہ بھی حل ہو گیا۔

THE END

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے