میں واپس آؤنگا. A new Story

 


میں واپس آؤنگا

میرا نام ندا ہے اور میں کشمیری ہوں. یہ بات

1991 کی ہے جس وقت میں 14 سال کی تھی شام کے وقت تمام سہیلیاں باہر گاؤں میں کھیلا کرتی تھی۔ ایسے ہی ایک دن میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ ہم گاؤں کے اس بڑے اور پرانے پیڑ کے نیچے جا پہنچے جس کے بارے میں گاؤں کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ آسیب زدہ ہے لیکن ہمیں پتہ نہ چلا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا اور ہلکہ ہلکہ اندھیرا چھانے لگا ایک لڑکی نے کہا کہ چلو چلیں لیکن میں کہا تھوڑا رک جاتے ہیں یہ کہنا تھا کہ نا جانے کہاں سے ایک خوبصورت نوجوان نمودار ہوا جسے پہلے کبھی ہم نے گاؤں میں نہیں دیکھا تھا اور کہنے لگا کہ آپ سب کو اب جانا چاہیے۔یہ جگہ صحیح نہیں ہے۔

ہم اس اجنبی کو دیکھ کر بہت ڈر گئے اور وہاں سے جانے کے لیے کھڑے ہوئے تو اس نے مجھے کہا کہ تم بہت خوبصورت ہو اتنی دیر تک باہر نہ رہا کرو اور ہم سب سہیلیاں وہاں سے بھاگ کر اپنے اپنے گھر آگئی۔

اگلے روزجب میں صبح اٹھی تو مجھے سخت بخار تھا میری ماں نے دیسی دوا کھلائی لیکن شام تک کوئی آرام نہیں آیا۔ جب ابو آئے تو وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ کوئی خاص بات نہیں اور دوا دے کر روانہ کر دیا لیکن میری طبیعت ٹھیک ہونے میں نہیں آرہی تھی۔دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدل گئے لیکن میری طبیعت نہ دوا سے نہ دم درود سے نہ دعا سے کسی بھی طرح ٹھیک نہ ہوئی۔

میرے والدین کی تشویش بڑھتی گئی کہ ایک دن میرے والد کو کسی نے کہا کہ آپ فلاں بابا کو دیکھائیں وہ جنات کا دم کرتے ہیں۔ میرے والد ماننے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن والدہ کی ضد پر بابا کو لے آئے۔

بابا نے دم شروع کیا اور کچھ دیر بعد مجھے وہ نوجوان نظر آیا جو پیڑ کے پاس نظر آیا تھا میں ڈر گئی لیکن بابا نے کہا کہ ڈرو مت یہ کسی کو کچھ بھی نہیں کہے گا۔

بابا اور اس کے درمیان مکالمہ کچھ یوں ہوا

بابا۔ کس نے بھیجا ہے تمہیں؟

جن۔ کسی نے نہیں

بابا۔ تو پھر تم یہاں کیا کر رہے ہو؟

جن۔ اس نے کہا کہ مجھے یہ لڑکی پسند ہے۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔

بابا۔ تمہیں پتہ ہے کہ یہ نا ممکن ہے۔

جن۔ میں ساری زندگی اس کے ساتھ انسان بن کر گزار دونگا۔

بابا۔ لیکن ہو تو تم جن ہی نہ

جن۔ مجھے یہ لڑکی چاہیے۔

بابا۔ میں تمہیں آخری بار کہتا ہوں کہ چلے جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔

جن۔ میں تم سے نہیں ڈرتا۔

بابا نے پھر سے دم شروع کر دیا اور جن تڑپنے لگا آخر ایک گھنٹے کی مسلسل کوشش کے بعد بابا نے اس جن کو قابو کر لیا اور ایک صراحی میں بند کر کے اوپر کپڑا ڈال دیا لیکن جاتے جاتے جن بار بار کہہ رہا تھا کہ "میں واپس آؤنگا"۔

بابا اور میرے والد صاحب جن کو لے کر چلے گئے اور دفنا دیا واپس آ کر والد نے کہا کہ بابا جی کہہ رہے تھے کہ میں کمزور بھی ہوں اور بوڑھا بھی میں زیادہ دیر اسے قابو نہیں کر سکتا اور یہ واپس ضرور آئے گا اس لئے جتنی جلدی ہو سکے اس بچی کی شادی کردو۔

کچھ دنوں میں میری صحت بہتر ہو گئ اور میں پھر سے پہلے جیسی ہو گئ۔

میرے گھر والوں نے میری شادی کا فیصلہ کرلیا اور کزن کے ساتھ میرے شادی 15 سال کی عمر میں ہی کردی گئی۔ چونکہ میری عمر بھی زیادہ نہ تھی اور میں خوبصورت بھی تھی تو میرے شوہر مجھ سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔

شادی کی پہلی رات جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ میرے قریب آئے اور سلام کیا میں نے جواب دیا اس کے بعد وہ میرے پاس بیٹھ گیا اور گھنگھٹ اٹھا کر میری تعریف کرنے لگا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھڑا کر دیا پھر دوسرا ہاتھ بھی پکڑ کر کچھ دیر باتیں کی اور پھر میرا گھنگھٹ اور ایک ایک کرکے تمام زیور اتار دئے۔

پھر وہ مجھے گلے لگانے لگا تو میں پیچے ہٹ گئی اس نے دوبارا میرا ہاتھ پکڑا اور کہا گھبراؤ نہیں یہ ہمارا حق ہے اور مجھے گلے لگا لیا کچھ دیر تو مجھے عجیب لگا لیکن پھر مجھے مزا آنے لگا اور میں اس کی بانہوں میں خود کو پر سکون محسوس کر رہی تھی۔

اور وہ ایسے ہی لپٹے ہوئے مجھ سے باتیں کرتے رہے اور میں بھی ان کو جواب دے رہی تھی پھر انہوں نے میرا چہرا اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور مجھے ماتھے پر چومنے کے بعد میری آنکھوں میں دیکھنے لگے۔ میں نے شرم سے نظریں جھکا لی پھر انہوں نے میرا گھنگھٹ اتارا تو میں نے منہ دوسری طرف کر لیا۔

انہوں نے پیچھے سے مجھے کاندھوں سے پکڑا اور اپنی ار کھینچ لیا اور میں سمٹ کر رہ گئی پھر انہوں نے میرے کان کے پاس چوما اور میرے زیور ایک ایک کرکے اتار دیئے۔پھر مجھے اپنے طرف گھمایا اور ایک ہاتھ سے چہرے کو اٹھا کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ ہلکے کپڑے پہن لو اس میں تنگ ہو رہی ہوگی۔

میں باتھ روم گئی اور چینج کر لیا۔جب واپس آئی تو انہوں نے پہلے ہی چینج کر لیا تھا۔

میرے ہاتھ سے کپڑے لے کر بیڈ پر رکھ لئے اور دوسرے ہاتھ سے مجھے کھینچ لیا اب ہم پھر سے گلے لگ گئے اور وہ مجھے بوسہ دینے لگے۔

کچھ دیر یونہی رہے اس کے بعد وہ ایک ایک کرکے میرے پورے چہرے کو چومنے لگے۔میں ناجانے کیوں اس کو روک بھی نہیں رہی تھی اور اس کا ساتھ بھی نہیں دے پا رہی تھی۔

انہوں نے اب میرے بالوں میں ہاتھ ڈال کر میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ لگا دیئے اور چوسنے لگے میرے بدن میں عجیب سی کیفیت پیدا ہو رہی تھی لیکن وہ لگاتار اپنے کام میں مصروف تھے اچانک اس نے میرا کرتا اتارنا چاہا تو میں پیچھے ہٹ گئی اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ گھبراؤ نہیں ہمارا رشتہ ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے۔

اس وقت میری آواز نہیں نکل سکتی تھی میں نے صرف لائٹ کی طرف اشارہ کیا۔تو وہ سمجھ گئے اور انہوں نے لائٹ بند کردی اور میرے ہونٹوں کو پھر سے چوسنے لگے ساتھ ہی میرے پستانوں کو بھی دبانے لگا مجھے یہ سب بہت عجیب لگ رہا تھا دل کر رہا تھا کہ ابھی یہاں سے بھاگ جاؤ پھر اس نے اپنا ایک ہاتھ میری کمر اور دوسرا کرتی کے اندر ڈال دیا اور ساتھ ہی ساتھ کسنگ بھی جاری تھی۔

کچھ دیر بعد اس نے اپنا کرتا اتار دیا اور میرا کرتا بھی اتارنے لگے میں نے بہت کوشش کی لیکن وہ بھی اپنے کام میں مصروف رہے

آخر کار میرا کرتا اتارنے کے بعد مجھے گلے لگا کر میرے بریزئیر کے ہک کھولنے لگ گئے اور مجھے گردن پر کس بھی کرتے رہے۔اس کے بعد انہوں نے مجھے اٹھا لیا اور بیڈ پر لٹا دیا۔

میرا دایاں ہاتھ اب بھی بریزئیر کے اوپر تھا خیر وہ مجھے آہستہ آہستہ چومنے لگے چہرے سے ہوتے ہوئے گردن اور پھر گردن کے نیچے تک آگئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر ہٹا دیا تو میں نے دوسرا ہاتھ رکھ دیا اب انہوں نے میرا دوسرا ہاتھ بھی ہٹا دیا میرے دونوں ہاتھ ان کے دونوں ہاتھوں میں تھے اور میں بلکل سیدھی لیٹی ہوئی تھی جب کہ وہ میرے اوپر تھے انہوں نے پھر سے چومنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ میرے سینے تک پہنچ گئے۔

جیسے ہی سینے پر پہنچے تو بریزئیر کو اپنے منہ سے پکڑ کر نیچے کر دیا میں نے بہت کوشش کی خود کو نہ بچا سکی اور انہوں نے میرے ننگے پستان پر کس کیا میں شرم سے پانی پانی ہو گئی۔

اس کے بعد انہوں نے میرے نپلز کو چومنا اور زبان سے سہلانا شروع کر دیا میں عجیب سی کیفیت میں تھی مجھے شرم بھی آرہی تھی اور مزا بھی آہستہ آہستہ میری شرم ختم ہو گئی اور میں دوسری دنیا میں پہنچ گئی۔ وہ کبھی میری ایک چھاتی پر منہ رکھتے کبھی دوسری پر۔ چوس چوس کر میرے نپلز مجھے مست کر دیا اور میری سنگم میں ہلچل ہونے لگی۔

میں نے ان سے کہا کہ مجھے باتھ روم جانا ہے تو انہوں نے کہا کہ صبر کرو جو تم سوچ رہی ہو یہ وہ نہیں ہے اور وہ کس کرتا ہوا میرے پیٹ پر اور پھر ناف اور پھر ناف کے نیچے تک پہنچ گئے۔

اب اس نے میرا ازاربند کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میں نے ہاتھ پکڑ لیا اور منع کرنے لگی۔ وہ توڑا پیچھے ہوئے اور اپنا آزاربند کھول کر شلوار اتار دی اسکا گھڑا دیکھ کر میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا اور وہ ایک ہاتھ سے میری سنگم سہلانے لگے میں نے روکنا چاہا تو میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھوڑے پر رکھ دیا میں نے جلدی ہاتھ پیچھے کر لیا۔

انہوں نے میرا ازاربند کھول کر شلوار کے اندر ہاتھ ڈال دیا اور سنگم پر رکھ دیا میرے جسم میں کرنٹ دوڑنے لگا اور وہ آہستہ آہستہ میری سنگم کو سہلانے اور دبانے لگے اب میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو روکنا نہیں چاہتی تھی اس نے بھی ساتھ ساتھ میری شلوار نکال دی اب میں اور وہ دونوں مکمل ننگے تھے اس نے میری سنگم کو چوما جس سے میں لرز گئی۔

وہ میری ٹانگیں کھول کر درمیان میں بیٹھ گیے اور اپنا گھوڑا میری سنگم پر گھمانے لگے جس سے میں مدہوشی کے عالم میں پہنچ گئی۔

اب وہ زور لگانے لگا لیکن اندر نہیں جا رہا تھا میں نے اس کو منع کیا کہ درد ہو رہا ہے اس نے ویزلین لگائی اور دوبارا کوشش کی میرے منع کرنے کے باوجود اس نے ٹوپا اندر داخل کر دیا اور میں بلک کر رہ گئی اس نے میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دبایا اور کچھ وقفے سے ایک جھٹکا مارا جس سے اس کا آدھا اندر داخل ہو گیا اور میری آنکھیں باہر آگئی۔

میں رونا چاہتی تھی لیکن اس نے کسنگ جاری رکھی اور جب دیکھا کہ میں نارمل ہوگئی ہوں تو اس نے پھر زور لگا دیا اور میری جان نکل گئی۔ بس پھر کچھ دیر بعد اس نے اپنا گھوڑا آگے پیچھے کرنا شروع کردیا اور مجھے بھی مزہ آنے لگا کافی دیر تک یہ کام جاری رہا اور پھر مجھے اپنے پیٹ میں فوارا جاری ہوگیا اور میں ہلکہ ہلکہ محسوس کرنے لگی اتنے میں ان کے گھوڑے نے بھی تہلکہ مچادیا اور میرے اندر ہی فارغ ہو گیا۔ اس رات تو ایک ہی بار کیا لیکن ایک ہفتے بعد تو ہم کپڑے پہننا بھی بھول گئے اور رات میں 3-4 بار سیکس کرنے لگے مگر میری قسمت کہ وہ ایک سال بعد برطانیہ چلے گئے اور میں اکیلی رہ گئی اپنے ساس سسر کے ساتھ۔

تقریباً 6 مہینے ہی گزرے تھے کہ ایک دن وہ سامان لے کر چلے آئے سب بہت خوش تھے لیکن میری خوشی کی تو انتہاء نہ تھی۔ اباجی نے پوچھا کہ تم تو 3 سالوں کے لئے گئے تو انہوں نے کہا کہ ہماری کمپنی نے یہاں ایک برانچ شروع کی ہے اور میرا ٹرانسفر بھی یہاں ہو گیا ہے۔

ب تو میں اور بھی زیادہ خوش تھی۔ وہ صبح ڈیوٹی پر جاتے اور شام کو آجاتے۔پہلے کی طرح پھر سے ہم نے 2-3 بار سیکس کرنا شروع کر دیا اور بہت خوشی سے زندگی بسر کرنے لگے۔

2 سال میں مجھے 2 بچے اور ہو گئے ہماری زندگی اور سیکس بہت مزے سے گزرنے لگا۔ 6 مہینے اور گزرے تو ایک دن میرے شوہر بیگ شیگ سامان شامان لے کر گھر آئے تو سب حیران ہو گئے کہ یہ سب کیا ہے اور کہاں سے سامان لائے ہوتو اس نے کہا کہ میں برطانیہ گیا تھا اور آج آیا ہوں اتنے میں دو بچے اس سے لپٹ کر بابا کہنے لگے اور ایک میری گود میں تھا یہ سب دیکھ کر شوہر نے کہا کہ یہ کیا ہے۔

میں نے کہا کہ آپ کے بچے ہیں اور کیا ہے تو اس نے کہا بد چلن کیا بکواس کر رہی ہو میرا تو صرف ایک ہی بچہ تھا یہ دو کہاں سے آئے۔

میں نے کہا ایسا نہ کہیں میں مر جاؤں گی۔ اماں ابا نے ایسے اپنے پاس بیٹھا کر سمجھایا کہ اس بیچارہ کا کوئی قصور نہیں ہے جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو وہ مجھے اپنے ساتھ رکھنے پر راضی تو ہو گیا لیکن ایک رات میرے ساتھ نہیں سویا۔

بس آج بھی میرے کانوں میں وہی آواز گونجتی رہتی ہے کہ "میں واپس آؤنگا"

 best hot urdu novels

hot and bold urdu novels online

hot and bold urdu novels pdf fb

bold and hot romantic urdu novel

hot and bold urdu novels list

hot urdu novel club

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

THANKS DEAR