دل سے نکلی ادا تحریر: ماہر جی

 




دل سے نکلی ادا

ماہر جی


 رضی سولہ سال کا نوجوان اور ہینڈسم لڑکا تھا     وہ اپنی فیملی میں بہت ہے شریف اور سلجھا ہوا لڑکا مشہور تھا     پڑھائی میں بھی اپنی عمر کے سارے کزن سے تیز تھا     اسکی ان عادتوں کو دیکھ کر سارے رشتہ دار ہی اس سے بہت متاثر تھے     خاندان میں سب کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی کی شادی  رضی سے ہی ہو     مگر  رضی کی امی کو کوئی جلدی نہیں تھی     وہ چاہتی تھیں کہ پہلے  رضی کی بڑی بہن کی شادی ہو اس کے بعد ہی اس کا رشتہ کہیں ہوگا اور ابھی شادی کو تو  دیر تھی     
 رضی کی امی کا نام  سویرا بیگم تھا     وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ بہت ہنسی خوشی رہ رہی تھیں     ان کی بڑی بیٹی عاشی ' جس کی عمر بیس سال تھی ' بی اے کرنے کے بعد گھر میں ہی رہتی تھی اور گھر کے کام کرتی تھی     جبکہ  رضی ایف اے کرنے کے بعد ابھی اپنی چھٹیاں انجوائے کر رہا تھا      رضی کے والد لال خان جنہیں سب لوگ خان صاحب بلاتے تھے دبئی میں کام کیا کرتے تھے      رضی کے ابو کا لکڑی کا کاروبار تھا اور  رضی کے خالو کلیم انہی کی کمپنی میں نوکری کرتے تھے     جبکہ  رضی کی خالہ شیریں انہی کی گلی میں ان کے گھر کے سامنے والے گھر میں اپنی دو بارہ سالہ جڑواں بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھیں جنہیں فیملی میں سب لوگ پیار سے رِدا اور مدیحہ بلاتے ہیں    
مہی اور مدیحہ بہت ہی شرارتی اور سب کی لاڈلی تھیں     وہ روزانہ سکول سے سیدھا  رضی کے گھر جاتیں اور ماریہ باجی سے ٹیوشن لیتی تھیں     کبھی کبھی ماریہ خود ہی خالہ کے گھر جاکر انہیں ٹیوشن دے کر آتی تھی     خالہ شیریں کی خواہش تھی کہ  رضی کی امی  رضی کا رشتہ ان کی دو جڑواں بیٹیوں میں سے کسی ایک بیٹی کے ساتھ کر دیں     کیونکہ ایک تو  رضی بہت شریف اور سلجھا ہوا لڑکا تھا جبکہ دوسری طرف  رضی کے ابو بھی کمدیحہ امیر تھے     مگر  رضی کی امی ہر وقت اپنی بڑی بیٹی عاشی کے رشتے کے بارے میں پریشان رہتی تھیں     
عاشی بے حد خوبصورت اور ذرا شوخ مزاج کی لڑکی تھی     وہ ہر ایک کے ساتھ گھل مل کر رہتی اور ہر وقت خوش رہتی تھی     بس اس کے دل میں ایک ہی غم تھا وہ یہ تھا کہ ان بیس سالوں میں اسے آج تک کسی مرد کا ساتھ نصیب نہیں ہوا تھا     جس دن سے وہ جوان ہوئی تھی اس دن سے وہ اپنی شادی کی خواب دیکھ رہی تھی     مگر ابھی تک اسے کوئی امید کی کرن نظر نہیں آئی تھی     سارا دن گھر کے کام کاج کرنے اور شام کو رِدا اور مدیحہ کو پڑھانے کے بعد رات کو جب بہت تھک ہار کر سوتی تو اسے اپنے ساتھ کسی کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی تھی     مگر وہ اپنے آپ کو اس بات پر تسلی دے لیتی کہ آخر اس کی امی اس کی خالہ بھی تو اکیلی ہی رہتی ہیں     مگر اس تنہائی میں اس کے موبائل نے اس کا بہت ساتھ دیا تھا      رضی سولہ سال کی عمر میں بھی اپنی امی کے ساتھ ہی سوتا تھا جبکہ ماریہ کے پاس اس کا اپنا الگ كمره تھا     وہ روز رات کو کوئی پورن ویڈیو دیکھتی اور اپنی پھدی کو سہلا لیتی     وہ ابھی تک کنواری تھی اس لئے وہ اپنی پھدی کے اوپر سے ہی خود کو سکون پہنچاتی تھی     
 لال خان اور کلیم کو دبئی گئے ہوئے پندرہ سے بیس سال ہونے کو تھے اور وہ ان پندرہ سے بیس سالوں میں ہرسال مشکل سے ایک دو بار ہی آ پاتے تھے     باقی کا سارا سال  رضی کی امی اور خالہ اکیلے ہی رہتی تھیں     اس دن  رضی ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھا جب اس کی امی ٹی وی لاؤنج میں آئیں اور اس کو ایک شاپر دے کر خالا کے پاس بھیجا     دبئی سے کچھ دن پہلے کچھ سامان آیا تھا جو  رضی کے ابو اور اس کے خالو نے بھیجا تھا      رضی کی امی نے اپنا سامان رکھ کر باقی سامان  رضی کے ہاتھ اپنی بہن کے گھر بھجوا دیا      رضی نے اپنے گھرسے نکل کر سامنے خالہ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے جیسے یہ دروازے پر ہاتھ رکھا تو دروازہ خود بخود  ہی کھل گیا     انکا محلہ کمدیحہ محفوظ علاقے میں تھا اس لئے دن کے وقت کوئی اتنا ٹینشن نہیں لیتا تھا      رضی نے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور گنگناتا ہوا گھر کے اندر داخل ہوا     رِدا اور مدیحہ اس وقت سکول گئی ہوئی تھیں اس لیے گھر میں کمدیحہ سناٹا تھا      رضی اپنی خالہ کو ڈھونڈتا ہوا کچن میں گیا مگر وہاں کوئی نہیں تھا     وہاں سے نکل کر اس نے نے خالہ کو اونچی آواز دی مگر کوئی جواب نا آیا      رضی کو لگا کہ کہیں اس کی خالہ کو نیند ہی نا آ گئی ہو وہ سیدھا خالہ کے کمرے کی طرف چل پڑا     مگر جیسے ہی وہ خالہ کے کمرے کے دروازے پر پہنچا تو اس کے قدموں میں جیسے بیڑیاں پڑ گئیں    
 
 
اس کے لئے یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا اور نا ہے اسکی سمجھ میں کچھ آ رہا تھا     اس کی پیاری خالہ اسکے سامنے                                       


 رضی کوئی بچہ نا تھا کہ اسے کسی بات کا علم نا ہو     اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بہت سی پورن موویز دیکھ رکھی تھیں     وہ جانتا تھا اسکی خالہ کیا کر رہی ہیں مگر اسکے لئے یہ بات ہضم کرنا مشکل تھا     انسان اچھی طرح جانتا ہے کہ اپنے جسم کے سکون کا کام ہر گھر میں ہر کوئی کرتا ہے مگر اپنے گھر کا سوچ کر کبھی انسان کے لئے تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ اسکے گھر کے لوگ بھی ایسے کام کرتے ہیں      رضی کے لئے بھی یہ کچھ ایسا ہے تھا    
 
 
وہ دروازے پہ کھڑا منہ کھولے حیرت سے اندر دیکھ رہا تھا جہاں اس کے سامنے بیڈ پر اس کی خالہ ننگی لیٹی ہوئی تھیں     خالہ شیریں نے ہینڈزفری لگا رکھے تھے اور ہاتھ میں موبائل پکڑے کچھ دیکھ رہی تھیں     شاید اس وجہ سے انہوں نے  رضی کی آواز نہ سنی تھی     خالہ نے اپنی ٹانگیں کھول کر اوپر اٹھائی ہوئی تھیں اور ان کے ایک ہاتھ میں موبائل جبکہ دوسرے ہاتھ کی تین انگلیاں ان کی پھدی کے اندر تیزی سے حرکت کر رہی تھیں     خالہ نے اپنی نظریں موبائل کی سکرین پر جما رکھی تھیں جبکہ ان کا ہاتھ بہت تیزی سے حرکت کر رہا تھا     پچ ... پچ ... کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی     خالہ کے چہرے پر سکون اور مزے کے ملے جلے تاثرات  رضی کو واضح طور پر نظر آ رہے تھے     اسکے پورے جسم نے ایک جھرجھری سی لی اور اسے اپنی ٹراوُزر ذرا تنگ ہوتی ہوئی محسوس ہوئی     اس نے جیسے ہی اپنی ٹراوزر ٹھیک کرنے کے لئے نیچے ہاتھ لگایا تو اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا    
 
 
 رضی کا لن اپنی خالہ کو ننگا دیکھ کر ٹائٹ ہو چکا تھا     پہلی بار اس نے کسی عورت کو حقیقت میں ننگا دیکھا تھا     اس نے پھر سے اپنا دھیان خالہ کی طرف کر دیا     تبھی ایک دم خالہ کی چیخ کی آواز  رضی کے کانوں میں پڑی     جسے سن کر ایک پل کیلئے  رضی بھی ڈر گیا     شیریں خالہ نے  رضی کو دروازے میں کھڑا ہوا دیکھ لیا تھا     اور انہوں نے چیخ مار کر اپنے جسم کو چادر سے چھپا لیا تھا     ڈر کے مارے  رضی کی دھڑکن بھی ایک سیکنڈ کے لئے جیسے رک سی گئی     مگر اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے ہٹ پاتا یا واپس باہر کی طرف بھاگتا اندر سے خالہ کی گرج دار آواز آئی        "  رضی       رضی     اندر آوُ     "
 
 
 رضی خالہ کی آواز میں شدید غصے کو محسوس کر سکتا تھا     اس کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا اس لیے وہ چپ چاپ خالہ کے کمرے میں داخل ہوا اور سر جھکا کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا     غصے کے مارے شیریں خالا کا پورا چہرہ لال ہو چکا تھا     اور ان کی آنکھوں سے جیسے آگ برس رہی ہو     انہوں نے بیڈ کی سفید چادر سے اپنے آپ کو ڈھانپ رکھا تھا اور ایک ہاتھ سے اس چادر کو اپنے سینے پر رکھے اپنی چھاتی کو چھپایا ہوا تھا      رضی کو خالہ کے ننگے کندھے نظر آ رہے تھے     خالہ نے اپنے بالوں کا جوڑا بنا رکھا تھا جس سے ان کی سفید اور لمبی گردن کے ساتھ ساتھ گورے اور ننگے کندھے بھی  رضی کو نظر آ رہے تھے     مگر اس وقت  رضی کو صرف اپنے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار نظر آرہی تھی     خالہ نے شدید غصے بھری آواز میں پوچھا     
 
خالہ : " یہ کیا گھٹیا حرکت ہے     شرم نہیں آتی کسی کے روم میں ایسے نہیں جھانکتے     اور بے شرموں کی طرح نا جانے کب سے کھڑے ہو
ۓ تھے     بتاؤ     ہے کوئی جواب تمھارے پاس     میں ابھی تمہاری امی کو فون کرتی ہوں اور بتاتی ہوں تم نے جو گھٹیا حرکت کی ہے     "
 
امی کے نام کی دھمکی سن کر ایک دم سے  رضی کے رونگٹے کھڑے ہوگئے     اسے لگا جیسے اس کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار ایک دم اس کے سر پر آ گری ہو     اس کی ہمت نے ایک دم جواب دے دیا اور وہ ایک دم بلک بلک کر رونے لگا اور ہاتھ جوڑ کر بولا    
 
 رضی : " خالہ پلیز     امی کو کچھ نا بتائیے گا     وہ مجھے جان سے مار دین گی     میں تو بس آپ کو یہ شاپر دینے آیا تھا آپ کے گھر کا دروازہ کھولا تو میں خودی اندر آگیا مجھے کیا پتا آپ یہاں یہ سب کچھ کر رہی ہوں گی     پلیز خالہ مجھے معاف کر دیں     میں جانتا ہوں میں نے بہت ہی گھٹیا حرکت کی ہے لیکن جب میں نے آپ کو دیکھا تو پتا نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں وہاں سے ہل ہی نہیں پایا     میں اپنے ہوش میں ہی نہیں تھا میں بس آپ کو دیکھے جا رہا تھا     سوری خالہ مجھے معاف کر دیں     آپ اتنی پیاری لگیں مجھے میں خود کو دیکھنے سے روک ہی نہیں پایا     معاف کر دیں خالہ دوبارہ ایسا نہیں ہوگا     "
 
 رضی کا رو رو کر برا حال تھا     جبکہ شیریں خالہ کے چہرے پر  رضی بات سن کر ایک مسکراہٹ آئی     نہ جانے کتنے عرصے بعد کسی کہ منہ سے اپنے لیے تعریف سننا اچھا لگا تھا     اور اوپر سے  رضی بلا کا معصوم لگ رہا تھا     شیریں نے فوراً ہی مسکراہٹ چھپائی اور بڑے سپاٹ لہجے میں  رضی سے کہا    
 
خالہ : " چلو آج تو میں تمہیں معاف کر رہی ہوں لیکن خبردار اگر ایسی حرکت دوبارہ کبھی کی تو     اور پریشان نہ ہو میں یہ بات کسی کو نہیں بتاؤں گی اور تم نے بھی یہ بات دوبارہ کبھی کسی کے سامنے نہیں دوہرانی     اب تم جاؤ اور یہ شاپر وہاں صوفے پہ رکھتے جاوُ     "
 
 رضی ایک دم سے کھل اٹھا     اور فوراً بولا    
 
 رضی : " خالہ آپ بہت اچھی ہیں     میں وعدہ کرتا ہوں آگے سے احتیاط سے کام لوں گا     آپ بس کسی کو کچھ نہ بتائے گا     میں آپ کے سارے کام کر دوں گا جو بھی آپ کہیں گی بس آپ امی کو شکایت نہ لگائے گا     "
 
خالہ : " اچھا اچھا اب زیادہ مکھن لگانے کی ضرورت نہیں ہے     بولا نا کسی کو نہیں بتاؤں گی تم اب یہاں سے جاوُ     باقی اس بارے میں بعد میں بات کریں گے     "
 
 رضی جلدی سے بیڈ سے اٹھا اور شاپر کو صوفے پر رکھتے ہی باہر کی طرف چل پڑا     جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچا اسے پیچھے سے خالہ نے آواز دی      رضی جیسے ہی پیچھے مڑا اسے ایک بار پھر شدید جھٹکا لگا     کیونکہ خالہ نے جس ہاتھ سے چادر کو پکڑ کر اپنی چھاتی کو چھپا رکھا تھا وہ ہاتھ انہوں نے نیچے کر کہ اپنی گود میں رکھا ہوا تھا     اور چادر بھی گر کر انکی گود میں پڑی تھی جس سے خالہ کا جسم آگے سے مکمل طور پر ننگا تھا      رضی کو لگا جیسے اس کی قسمت ایک دم اس پر مہربان ہو گئی ہو     خالہ کے ممے بڑے سائز کے سفید اور گول تھے اور انکے ہلکے براؤن رنگ کے نیپلز غضب ڈھا رہے تھے      رضی کی جیسے ساری دنیا ایک دم تھم سی گئی     خالہ جان بوجھ کر اسے دعوت نظارہ دے دہی تھیں     اس کا دل چاہا کہ وقت یہیں تھم جائے اور وہ خالہ کے ممے دیکھتا ہی رہے     شیریں کو اپنے بھانجے کا اس طرح ترسی ہوئی نظر سے دیکھنا اچھا لگ رہا تھا     اسے اپنا آپ خوبصورت لگنے لگا     اور  رضی کی ٹراوُزر میں بنا تنبو نما ابھار اسے اپنی تعریف لگا     اس ابھار سے شیریں کو اچھی طرح آئیڈیا ہو چکا تھا کہ  رضی بھی اپنے باپ پر گیا ہے     اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس کی بڑی بہن کتنی تعریفیں کرتی تھی اپنے شوہر خان صاحب کے لن کے سائز کے بارے میں     اور اسے حیرت تھی کہ سولہ سال کی عمر میں ہی  رضی کا لن اسکے شوہر کلیم کے برابر تھا    
 
 
شیریں چاہتی تھی کہ اسکا بھانجا اسی ستائشی نظروں سے اسے دیکھتا رہے اور سرہاتا رہے     مگر وہ اتنا جلدی رشتوں کی حد کو پھلانگنا نہیں چاہتی تھی      رضی خیالوں کی دنیا میں کھویا شاید اپنی خالہ کے ممے چوسنے کا خواب دیکھ رہا تھا تبھی وہ خالہ کی آواز سے چونکا    
 
خالہ : " بس کر دو اب بھانجے صاحب     اور جاتے ہوے دروازہ بند کرتے جانا     " خالہ کے چہرے پر ایک شرارت بھری مسکراہٹ تھی    
 
 رضی ایک دم شرمندہ سا ہوا اور واپس دروازے کی طرف مڑا     اس نے دروازہ بند کرتے ہوے مڑ کر اپنی خالہ کو دیکھا تو وہ بھی اس دیکھ رہی تھیں اور ان دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں      رضی جاتے ہوے ایک آخری دیدار کی خاطر دروازہ آہستہ آہستہ بند کر رہا تھا     جبکہ اسکی خالہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوے بیڈ پر لیٹ چکی تھی اور انکا ایک ہاتھ پھر سے انکی ٹانگوں کے درمیان حرکت کر رہا تھا      رضی نے ایک نظر بھر کر خالہ کو دیکھا اور انکے مموں کی دل ہی دل میں تعریف کرتے ہوے درواز بند کر دیا    
 
 
وہاں سے نکل کر جب وہ بیرونی دروازے تک پہنچا تو اسے احساس ہوا کہ اسکے ٹراوُزر میں اسکا کھڑا ہوا لن تنبو بنا چکا ہے     وہ ڈرتے ڈرتے خالہ کے گھر سے نکلا تو اسکی خوش قسمتی تھی کہ گلی میں دور دور تک کوئی نہیں تھا      رضی جلدی سے بھاگ کر اپنے گھر میں داخل ہوگیا     اسکی امی کچن میں کام کر رہی تھیں      رضی ان سے نظریں بچا کر سیدھا امی کے کمرے میں باتھ روم میں گھس گیا      رضی کیوں کہ اسی کمرے میں سوتا تھا اس لئے اسکے لئے آسانی ہو گئی کہ امی کا کمرہ گھر کہ شروع میں ہی تھا     جلدی سے باتھ روم میں جاتے ہی  رضی نے اپنے کپڑے اتار دئیے     اور اپنے لن کو سہلانے لگا     اسکی آنکھوں کے سامنے خالہ کی پھدی میں جاتی انگلیاں اور انکے بڑے ممے گھوم رہے تھے اور اسکے ہاتھ کی رفتار مزید تیز ہو گئی     اسکا دماغ کام کرنے سے قاصر تھا بس ہوس سوار تھی     اپنے لن کی مٹھ مارتے ہوے اسے سامنے کھونٹی پر امی کا   برا نظر آیا     ہوس اس قدر سوار تھی کہ  رضی نے وہ برا کھینچا اور چومنے اور سونگھنے لگا     اسے امی کی ایک مانوس خوشبو آنے لگی     اور اسکے ہاتھ کی رفتار مزید تیز ہوگئی     کچھ ہی دیر میں امی کی خوشبو اور خالہ کے ننگے جسم کر خیال نے  رضی کو فارغ ہونے پر مجبور کر دیا اور جھٹکے کھاتے ہوے وہ زندگی میں پہلی بار اتنی شدت سے فارغ ہوا تھا    
 
 
 رضی باہر ٹی وی لاؤنج میں آیا جہاں عاشی رِدا اور مدیحہ کو ٹیوشن پڑھا رہی تھی     وہاں اسکی نظر صوفے پر بیٹھی اسکی امی پر پڑی      سویرا بیگم کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں      رضی اٹھ کر انکے ساتھ صوفے پر جا بیٹھا اور بڑے فکر مندی کے انداز میں انکی پریشانی کی وجہ پوچھی      سویرا بیگم نے ایک نظر اپنے بیٹے پر ڈالی اور جلدی سے نظر چرا کر " کچھ نہیں " کہتے ہوے کچن میں چلی گئیں      رضی اپنی مستی میں مست خیالوں میں کھو گیا اور  سویرا بیگم کچن میں کھڑی اپنے جذبات کی تشریح کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی     اس وقت اسکے دل میں غصے اور شرمندگی کے جذبات گردش کر رہے تھے     غصہ اس بات کا کہ ابھی ابھی اس نے اپنے بیٹے کو اپنی ماں کے بریزر کے ساتھ مٹھ مارتے دیکھا تھا     اور شرمندگی اس بات کی تھی کہ  سویرا نے جب اپنے بیٹے کو اپنے بریزر کے ساتھ مٹھ مارتے دیکھا تو اسے روکنے کے بجائے وہ اسے دیکھتی ہی رہی     وہ ایک پل کے لئے اسکے بیٹے سے ایک مرد بن گیا جو اسکے نام کی مٹھ مار رہا تھا      سویرا کو یہ اچھا لگا تھا اور اسی بات کی شرمندگی اسے کھائے جا رہی تھی    
 

سارا دن ایک عجیب کشمکش میں گزارنے کے بعد بھی  سویرا یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر اسے اپنے بیٹے کو اپنی ماں کے برا کو چومتے اور سونگھتے ہوے مٹھ مارتے دیکھ کر اچھا کیوں لگا تھا     وہ کبھی خود کو کوسنے لگتی تو کبھی وہ منظر اسکی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگتا     ایک طرف بیٹے کی اس حرکت پر مصنوئی غصہ اور دوسری طرف اپنے بیٹے کی محبت کی شدت     وہ پریشان تھی کہ آخر کس جذبے کو چھپائے    
 
 
اسی بےچینی کے عالَم میں سارا دن گزارنے کے بعد رات کو جب  سویرا بیڈ پر آ کر لیٹی تو وہاں پہلے سے لیٹے اپنے بیٹے  رضی کو زیرو بلب کی مدھم روشنی میں دیکھنے لگی     وہ نیند میں بہت پر سکون اور معصوم لگ رہا تھا      سویرا نے ایک پل کے لئے سوچا کہ اپنی ماں کی نیند اور ہوش اڑانے کے بعد خود مزے سے سو رہا ہے     اسکو دیکھتے ہوئے نا جانے کیوں  سویرا کو اس پر پیار آنے لگا اور وہ دل ہی دل میں سوچنے لگی    
 
 
 سویرا : "          آخر ایسا کیا دیکھا اس نے مجھ میں          چالیس سال کی عورت میں ایسی کیا دلچسبی ہو سکتی ہے           اسکے باپ نے تو کبھی نظر بھر کر نہیں دیکھا مجھے           لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس طرح چاہا جانا اتنا حسین احساس ہو سکتا ہے           کیا میں اتنی اچھی لگتی ہوں اسکو            کہ یہ میرا برا چومتے ہوے مجھے یاد کر کہ اپنے لن کو           اپنے خوبصورت لن کو            اتنا موٹا اور پیارا لن          مجھے تو کبھی احساس ہے نہیں ہوا کہ میرا بیٹا اتنا بڑا ہو گیا ہے           نا جانے کیا سوچ رہا تھا          اور کیا تصور کر رہا تھا           مجھے چومنے کا تصور            مجھے چھونے کا تصور           میری برا کے ساتھ کھیل رہا تھا ضرور میرے مموں کو چوسنے کا تصور کر رہا ہوگا            شیطان کہیں کا           "
 
 
 سویرا کی بے چینی اب ایک انوکھی خوشی میں بدل چکی تھی     وہ اپنے بیٹے کو اپنے ممے چوستے ہوے تصور کرنے لگی      سویرا  رضی پر جھکی اور اسکا گال چوم لیا      رضی گہری نیند میں تھا      سویرا نے جیسے ہے اپنے جوان بیٹے کو چوما تو ایک عجیب اور میٹھی سنسناہٹ اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں محسوس ہوئی     وہ پیچھے ہٹتے ہوے ایک بار رکی اور پھر سے بہت آرام سے اور پیار سے اپنے بیٹے کو چوم لیا      سویرا کو بہت پیار آ رہا تھا     اور ایک مرد کا ساتھ اسے اچھا لگ رہا تھا     اپنے بیٹے کو چومتے ہوے  سویرا کے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو چکی تھی      سویرا کچھ سوچے بغیر اپنے ہاتھ کو اپنی شلوار کے اوپر سے اپنی پھدی پر رگڑنے لگی     ایک میٹھا احساس اسے چاروں طرف سے جکڑ رہا تھا     اسکی پھدی پہلے سے ہی کمدیحہ گیلی ہو چکی تھی    
 
 
 سویرا آنکھیں بند کر کے بیڈ پر لیٹ چکی تھی     وہ اپنی آنکھیں بند کے اپنے بیٹے کو مٹھ مارتے ہوے دیکھ سکتی تھی      سویرا کا ہاتھ اسکے مموں کو دبانے لگا اور دوسرا ہاتھ اسکے قمیض کے دامن کو ہٹا کر اسکی شلوار کے اندر اسکی پینٹی میں گھس چکا تھا      سویرا نے اپنی انگلیوں کو اپنی پھدی پر رگڑتے ہوے دو انگلیاں اندر گھسا دیں     ایک ' پچ ' کی آواز کے ساتھ دو انگلیاں اسکی گیلی پھدی میں گھس چکی تھیں     ایک مزے کی شدید لہر اسے بہا لے جا رہی تھی      سویرا بغیر کسی خوف اور شرمندگی کے اپنے بیٹے کے لن کا تصور کرتے ہوے اپنی پھدی میں انگلیاں اندر باہر کر رہی تھی     اپنے ممے دباتے ہوے  سویرا کی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹے کا جھٹکے کھاتا ہوا جوان لن لہرانے لگا      سویرا کی آنکھیں بند اور منہ کھل چکا تھا     اسے اپنا سارا خون ٹانگوں کی طرف جاتا محسوس ہوا     اسکی انگلیوں کی رفتار اور کمرے میں گونجتی پچ پچ کی آواز شدت اختیار کر چکی تھی     آخری بار یہ احساس اسے کب ہوا شاید اسے یاد بھی نہیں تھا اور نا ہی وہ یاد کرنا چاہتی تھی    
 
 
ایک منٹ سے بھی کم وقت میں وہ فارغ ہونے لگی تھی      سویرا نے جھٹکے کھاتے ہوے آنکھیں کھول کر اپنے بیٹے کو سوتے ہوے دیکھا     اور اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوے وہ فارغ ہونے لگی       سویرا کا پوراجسم جھٹکے کھاتا ہوا اچھل رہا تھا     اسکی ساری پینٹی گیلی ہو چکی تھی     اور وہ فارغ گئی    
 
 
 سویرا نے اپنی گیلی انگلیوں کو دیکھا تو اسکے ذہن میں شرارت سوجھی     اس نے جھک کر ان گیلی انگلیوں کو اپنے بیٹے کے ہونٹوں پر پھیرا      رضی نیند میں ہی اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہوا کروٹ بدل کر سوگیا      سویرا کی ایک دم ہنسی نکل گئی کہ ابھی ابھی اسکے بیٹے نے اپنی ماں کی پھدی کو ٹیسٹ کیا     وہ ابھی تک مکمل ہوش میں نا تھی     وہ اپنے بیڈ سے اٹھی اور باتھ روم میں چلی گئی     وہاں  سویرا نے خود کو صاف کیا اور کچھ سوچتے ہوے اس نے اپنی گیلی پینٹی کھونٹی پر ہی لٹکا دی اور باہر آ کر سو گئی    
 
 
صبح  رضی کو ناشتے کے لئے اٹھا کر خود کچن میں چلی گئی      سویرا کو کچن میں کام کرتے ہوے رات کا منظر یاد آیا تو اسے شرمندگی کا ایک ایسا جھٹکا لگا کہ اسے خود سے ہی گھن آنے لگی     اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور مرد کا سوچے گی     اور وہ مرد کوئی اور نہیں اسکا سگا بیٹا تھا     رات کو شاید وہ مکمل ہوش میں نا تھی مگر اب ہوش آیا تو پچھتاوا اسکی سانس روکنے لگا     ایک دم اسے اپنی پینٹی کا خیال آیا     وہ بھاگی بھاگی اپنے کمرے کی طرف گئی تو  رضی نہا کر باہر نکل آیا تھا      سویرا نے اسے کچن میں بھیج کر باتھ روم کی طرف رخ کیا     باتھ روم میں جاتے ہی اسے ایک بار پھر اسے شرمندگی نے گھیر لیا     کیونکہ اسکی پینٹی ایک کھونٹی سے دوسری کھونٹی پر شفٹ ہو چکی تھی    


ایک دن غصے اور شرمندگی میں گزارنے کے بعد اب اگلا دن  سویرا کو صرف اور صرف شرمندگی میں گزارنا تھا     یہ دوسرا دن تھا کہ  سویرا کا نا تو کسی کام میں دل لگتا اور نا ہی وہ  رضی سے نظریں ملا پاتی تھی     یہ بے چینی اس کھائے جا رہی تھی     رات میں تو اسے بہت مزہ آیا تھا مگر دن کی شرمندگی کمدیحہ تکلیف دہ تھی     اسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے لن کو یاد کر کہ اسکے ساتھ لیٹے ہوے اپنی پھدی کا پانی نکال چکی تھی     دن میں کبھی اسے شرمندگی گھیر لیتی تو کبھی اسے  رضی کا تگڑا لن یاد آ جاتا     اس کے لئے مشکل ہو رہا تھا ان خیالات کو اپنے ذہن سے نکالنا    
 
 
تبھی ایک دم اسکا فون بج اٹھا      سویرا اپنے ہوش میں واپس آئی اور فون اٹھایا     فون کے دوسری طرف اسکی بہن شیریں تھی     شیریں ہمیشہ سے اسکی بہن سے زیادہ اسکی دوست رہی تھی      سویرا کا بہت دل کیا کہ وو اپنی بہن کو سب کچھ بتا دے     مگر شرم کے مارے کچھ نا بول پائی     اسے لگا وو خود ہی سب ٹھیک کر لے گی     رسمی حال احوال کے بعد شیریں نے سودا سلف لانے کے لئے   رضی کو اپنے گھر بھیجنے کا کہا      رضی کا نام سن کر  سویرا کا دل ایک بار زور سے دھڑکا تھا     بہت عجیب کیفیت تھی     ایک بیٹے کی وجہ سے ماں کی ایسی حالت      سویرا نے خود پر قابو کرتے ہوے  رضی کو آواز دی      رضی اپنے کمرے سے باہر آیا تو  سویرا نے اسے اپنی خالہ کے گھر جانے کا کہا     خالہ کا نام سن کر  رضی کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا     مگر  سویرا یہ دیکھ نا پائی کیونکہ وہ خود اپنے بیٹے سے نظریں چرا رہی تھی    
 
 
بھاری قدموں کے ساتھ چلتا ہوا  رضی خالہ کے گھر پہنچا     وہ آگے آنے والے وقت سے ڈر رہا تھا     خالہ کے گھر پہنچا تو خالہ ٹی  وی لاؤنج میں بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی تھی      رضی خالہ کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا     اسکی خالہ نے کالے رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا اور ہمیشہ کی طرح کھلے گلے میں سے انکے ادھ ننگے ممے دعوت نظارہ دے رہے تھے      رضی خالہ کی خوبصورتی میں ہی کھو گیا     شیریں نے اسے اپنے مموں کو تاڑتے ہوے دیکھ لیا تھا اور اسے یہ بہت اچھا لگا     اس نے جان بوجھ کر ایک لمبا سانس لیا جس سے اسکے ممے مزید اوپر کو اٹھتے گئے     وہ اپنے بھانجے کی کھلتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر مسکرانے لگی     شیریں نے اسے اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا    
 
 
شیریں نے پیار سے اپنے بھانجے کی طرف دیکھا اور بولی    
 
خالہ : "  رضی     کل جو کچھ ہوا میں معمدیحہ مانگتی ہوں     غلطی صرف تمہاری نہیں میری بھی تھی     مجھے وہ سب کچھ کرتے ہوے دروازہ بند کرنا چاہیے تھا     اور میں کچھ زیادہ ہی غصہ ہو گئی تم پر     تم اپنی خالہ سے ناراض تو نہیں ہو نا     "
 
 رضی کو تو لگا تھا آج اسکی شامت آنی ہے     مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی تھی    
 
 رضی : " خالہ آپ کیوں معمدیحہ مانگ رہی ہیں     آپ کا گھر ہے آپ جو مرضی کریں    مجھے آپ کی پرائیویسی کا خیال کرنا چاہیے تھا     مجھے تو آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے آپ نے اس بات کو راز رکھا اور امی کو نہیں بتایا     "
 
خالہ : " کیا بتاتی کہ                   اچھا خیر یہ بتاؤ اپنا وعدہ تو یاد ہے نا     "
 
 رضی : " کونسا وعدہ ؟؟؟ "
 
خالہ : " تم نے ہی تو کہا تھا اگر میں یہ بات تمہاری امی کو نا بتاؤں تو تم میرے سارے کام کرو گے     بس سمجھو کام پر گیا ہے تم سے     "
 
 رضی : " ہاں جی بلکل یاد ہے اپنا وعدہ     آپ حکم کریں     "
 
خالہ : " پہلے وعدہ کرو میں جو کہوں گی کرو گے     منع نہیں کرو گے     اور نا کبھی کسی کو کچھ بتاؤ گے     "
 
 رضی : " یہ بھی کوئی کہنے والی بات ہے     میرا وعدہ ہوگیا آپ جو کہیں گی کروں گا     منع نہیں کروں گا اور نا کسی کو کچھ بتاؤں گا     "
 
خالہ : " شاباش بیٹا     چلو آ جاؤ     "
 
 
شیریں نے اپنے بھانجے کا ہاتھ پکڑا اور اسے صوفے سے اٹھا کر اپنے کمرے میں لے گئی      رضی کو تجسس ہو رہا تھا کہ آخر ایسا کون سا کام ہے جو کسی کو بتانا نہیں     ایسا ایک ہی کام اسکے ذہن میں آ رہا تھا مگر وہ تو ممکن نہیں تھا خالہ کے ساتھ      رضی چپ چاپ خالہ کے پیچھے چلتا ہوا انکی گول مٹکتی گانڈ کو دیکھ رہا تھا     خالہ نے ایک بار مڑ کر دیکھا تو اپنے بھانجے کو اپنی خالہ کی گانڈ  کو تاڑتے دیکھ کر اچھا لگا اور وہ مسکرا کر  رضی کو اپنے کمرے میں لے آئی    
 
 
 رضی کو بیڈ پر بیٹھا کر شیریں اسکے سامنے کھڑی ہو گئی      رضی کی نظریں اپنی خالہ کے جسم کو ماپ رہی تھیں     شیریں کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی     اس نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے قمیض کا دامن پکڑا اور اوپر کی طرف کھینچنا شروع کر دیا    
 
 

.
.
.
شیریں نے اپنے قمیض کا دامن پکڑ کر قمیض اتار دیا      رضی اپنی خالہ کو سرخ رنگ کے برا میں دیکھ کر مچلنے لگا     وہ برا بڑی مشکل سے اسکی خالہ کے مموں کو سنبھالے ہوے تھا      رضی کا لن اسکی پنٹ میں اکڑ کر سخت ہو چکا تھا     شیریں کو اپنے بھانجے کا اکڑا ہوا لن اپنی تعریف لگا اور وہ مسکرا کر اپنا برا کا ہک کھولنے لگی      رضی کے لئے یہ سب ایک خواب جیسا تھا     اسکے لئے یقین کرنا مشکل تھا کہ اسکی خالہ اسکے سامنے اپنا قمیض اتار چکی تھی اور اب اپنا برا کھولنے لگی تھی    
 
 
جیسے ہی شیریں نے اپنا برا کھولا  رضی کا لن ایک دم اکڑ کر سخت ہوگیا     اتنا خوبصورت ممے  رضی نے کبھی نہیں دیکھے تھے     شیریں کے ممے بڑے اور سفید تھے     ان پر ہلکے براؤن رنگ کے نپلز غضب ڈھا رہے تھے     انکے مموں سے بلکل نہیں لگتا تھا کہ وہ دو بچوں کی ماں ہیں     ابھی بھی اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھا ہوا تھا اور ویسے ہی سر اٹھا کے کھڑے تھے جیسے کسی جوان لڑکی کے ممے ہوں     خالہ کا جسم بہت خوبصورت حد تک بھرا بھرا تھا     انکا رنگ بہت سفید تھا اور انکی نرم اور خوبصورت کمر      اف       رضی کبھی خالہ کے چہرے کی طرف دیکھتا تو کبھی انکے مموں اور انکی ننگی کمر کو دیکھنے لگتا      رضی کے لئیے کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوگیا تھا     اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ ایک دم جھپٹ پڑے اور اپنی خالہ کے مموں کو چوسنے لگے     اس کی خالہ اس کی سامنے ننگی کھڑی تھی مگر ابھی تو اس کا ڈر نکلا نہیں تھا     شیریں اپنے بھانجے کی آنکھوں میں شہوت ' محبت اور حیرت کے جذبات دیکھ سکتی تھی     اور اپنے بھانجے کی پینٹ میں بنا ہوا تنبو اسکی پھدی میں ہلچل مچا رہا تھا    
 
 
کچھ دیر اپنے ممے اپنے بھانجے کے سامنے ہلانے کے بعد شیریں بولی    
 
شیریں : " بیٹا جو لوگ دیکھتے رہتے ہیں نا وہ بس دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں     کامیاب تو وہ ہوتا ہے جو سوچتا نہیں کر گزرتا ہے     "
 
 
 رضی خالہ کی بات سمجھ گیا     آخر اسکی خالہ اپنا قمیض اتارے اسکے سامنے ننگی کھڑی تھی اب اس سے زیادہ کیا دعوت دے      رضی نے کانپتے ہاتھوں سے اپنی خالہ کی کمر کو پکڑا اور دونوں ہاتھوں سے خالہ کی کمر کو پکڑ کر انکو اپنے پاس کیا     خالہ کے ممے  رضی کے چہرہ کے سامنے لہرا رہے تھے      رضی نے بہت پیار سے خالہ کے نپل پر پیار کیا     شیریں کی سانسیں تیز ہونے لگیں تھیں     جس سختی سے  رضی نے اسکی کمر کو پکڑ رکھا تھا وہ شیریں کو بہت گرم کر رہی تھی     اور جیسے ہی  رضی نے شیریں کے مموں پر زبان پھیری اور اسکے نپل کو منہ میں لے کر چوسا تو شیریں کی پھدی میں آگ بھڑک اٹھی جسے بجھانے کے لئے ایک سیلاب اسکی پھدی سے بہنے لگا    
 
 
شیریں بہت پیار سے اپنے بھانجے کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی اور اسکے سر کو اپنے مموں پر مزید دبانے لگی      رضی جس شدت سے اسکے ممے چوس رہا وہ شیریں کو شہوت کے جذبات میں بہا لے جا رہاتھا     دوسری طرف  رضی جسے ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی بار ممے دیکھنا ' انھیں چھونا اور چوسنا نصیب ہوا تھا مدہوشی کی سی حالت میں تھا      رضی اپنے ہاتھوں کو خالہ کی کمر پر پھیرتے ہوے انکی شلوار کے اندر لےگیا اور انکے چوتر پکڑ لئے     شیریں نے اپنی گانڈ پر اپنے بھانجے کے ہاتھوں کو محسوس کیا تو تڑپ اٹھی     اس نے  رضی کے سر کو پکڑ کر اپنے مموں پر دبا دیا اور اپنے جسم کو مزید اسکے قریب کر لیا     شیریں کی گانڈ بہت بڑی اور موٹی اور نرم تھی      رضی باری باری اپنی خالہ کے دونوں ممے چوس رہا تھا     وہ خالہ کے نپل کو منہ میں لیتا اور بچوں کی طرح چوسنے لگتا     کبھی زبان نکال کر چاٹنے لگتا     شیریں کی شلوار میں مانو جیسے سیلاب آ چکا ہوں     اس کے لیے اب برداشت کرنا ناممکن ہوچکا تھا    
 
 
شیریں نے  رضی کے ایک ہاتھ کو اپنی گانڈ سے اٹھایا اور آگے سے لا کر اپنی شلوار کے اندر گھسا کر پھدی پر رکھ دیا      رضی نے جیسے ہی خالہ کی پھدی کو چھوا  تو اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا     خالہ کی پھدی بہت گیلی ہو چکی تھی      رضی نے اپنی خالہ کی پھدی پر ہاتھ رکھ کر مسلا اور ایک نظر اپنی خالہ پر ڈالی تو خالہ کی آنکھوں میں شہوت ابل رہی تھی اور انکے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی      رضی نے اپنا ہاتھ خالہ کی شلوار سے باہر نکالا تو شیریں کے چہرے پر بے چینی امڈ آئی     مگر  رضی نے فوراً خالہ کی شلوار کو پکڑا اور اتارنے لگا     شلوار اترتے ہی خالہ کی پھدی  رضی کے سامنے آ گئی     خالہ کی پھدی مکمل گیلی ہو چکی تھی     شیریں نے اپنی پھدی  اور جسم کے بال اچھی طرح صاف کر رکھے تھے    
 
 
 رضی نے اپنی خالہ کی شلوار اتار کر سائیڈ پر کی اور بیڈ سے اتر کر نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا     شیریں کی سانسیں بہت تیز ہو چکی تھیں اور شہوت کے مارے اسکا پورا جسم تپ رہا تھا     شیریں اپنے بھانجے کو اپنی ٹانگوں کے درمیان بیٹھے دیکھ کر اسکے چھونے کا انتظار کر رہی تھی    
 
 رضی نے اپنی خالہ کی پھدی کے ہونٹوں کو تھوڑا سا کھولا اور اپنا چہرہ پاس کر کے اپنی زبان خالہ کی پھدی کے دانے پر پھیری تو شیریں تڑپ اٹھی     شیریں کے جسم نے جھٹکا کھایا اور اس نے  رضی کا سر پکڑ کر اپنی پھدی پر دبانا شروع کر دیا      رضی نے اپنی خالہ کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا     شیریں مزے کی انتہا گہرائیوں میں ڈوبی اپنی کمر کو ہلا ہلا کر اپنے بھانجے کے چہرے پر اپنی پھدی رگڑ رہی تھی    
.
کچھ ہی دیر میں شیریں کو لگا وہ فارغ ہونے والی ہے تو اس نے جلدی سے  رضی کا چہرہ اپنی پھدی سے ہٹایا اور اسے اوپر اٹھا کر بیڈ پر لٹا دیا      رضی کے بیڈ پر لیٹتے ہی شیریں اس پر جھپٹ پڑی اور اس کی پینٹ کو اتارنے لگی     شیریں بہت تیز تیز ہاتھ چلا رہی تھی جس سے اس کی شہوت صاف ظاہر ہو رہی تھی      رضی نے بھی جلدی سے اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر شرٹ اتار کر سائیڈ کردی جب کہ شیریں اس کی پینٹ کو اتار کر اس کے اوپر بیٹھ چکی تھی     دونوں مکمل طور پر ننگے ہو چکے تھے جب کہ شیریں  رضی کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ہلاتے ہوئے اسے اپنی پھدی پر سیٹ کر رہی تھی     شیریں کے لیے اب داشت کرنا ناممکن ہوچکا تھا اب وہ مزید کوئی انتظار کیے  رضی سے چدوانا چاہتی تھی    
 
 
شیریں نے  رضی کے لن کی ٹوپی اپنی پھدی کے اوپر رکھی اور آہستہ آہستہ اس پر بیٹھتی گئی     مزے کی ایک شدید لہر ان دونوں کی جسم میں دوڑ گئی اور ان دونوں کے منہ سے ایک ہی وقت میں " آ آ آ آ ہ ہ ہ " کی آواز نکلی     شیریں ویسے ہی فارغ ہونے کے قریب تھی جبکہ  رضی پہلی بار اپنا لن کسی کی پھدی میں ڈالے فارغ ہونے کے لئے تیار تھا     شیریں اوپر نیچے اٹھ کر اپنے بھانجے پر جھٹکے مار رہی تھی     جبکہ اپنے اوپر جھٹکے کھاتی خالہ  رضی کو بہت خوبصورت لگ رہی تھی     شیریں خالہ اپنے بھانجے کا لن اپنی پھدی میں لیے جھٹکے کھا رہی تھی جبکہ اس کے ممے اچھل اچھل کر گر رہے تھے      رضی کے لیے یہ منظر بے حد خوبصورت تھا     تبھی ایک دم  رضی کو اپنا لن خالہ کی پھدی میں جکڑتا ہوا محسوس ہوا اور شیریں کے جھٹکوں کی رفتار بھی شدید تیز ہوگی      رضی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے خالہ کے مموں کو پکڑ لیا اور نیچے سے خود بھی جھٹکے مارتے ہوئے خالا کا ساتھ دینے لگا    
 
 
کچھ ہی لمحوں میں شیریں اور  رضی دونوں فارغ ہونے لگے      رضی اپنی ساری منی خالہ کے اندر نکالتا گیا جبکہ شیریں اپنے بھانجے کے لن پر فارغ ہوتے ہوے اسے کے اوپر لیٹتی گئی     شیریں کو تو یاد بھی نہیں تھا کہ آخری بار اسے اس قدر مزہ کب آیا تھا کیونکہ  رضی کا لن اپنے خالو سے کہیں زیادہ بڑا تھا     لیکن ایک بات تو طے تھی کہ شیریں نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ آج جو کچھ بھی ہوا ہے یہ آخری بار نہیں تھا     یہ مزہ اس قدر شدید تھا کہ شیریں کو لت لگ چکی تھی     جبکہ دوسری طرف  رضی نے پہلی بار کسی عورت کو چھوا تھا یا اس کے ساتھ سیکس کیا تھا     وہ عورت بھی اس قدر خوبصورت ' حسین اور سیکسی جسم کی مالک اور اس کی اپنی سگی خالہ تھیں    
 
 
شیریں نے  رضی کا لن اپنی پھدی سے نکالا اور کپڑے سے اچھی طرح صاف کرنے کے بعد  رضی کے ساتھ بیڈ پر لیٹ کر اسے گلے سے لگا لیا      رضی نے اپنی خالہ کے گلے لگتے ہی ان کے ممے کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کردیا جب کہ شیریں بہت پیار سے اپنے بھانجے کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی    
 
 
 
 
خالہ شیریں نے  رضی کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا  
 
شیریں : "  رضی بیٹا تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہاری خالہ اتنی ہی کوئی چالو عورت ہے کہ کسی کے ساتھ بھی سو جائے گی     یہ زندگی میں پہلی بار ہوا ہے کہ میں تمہارے خالو کے علاوہ کسی کے ساتھ سیکس کیا ہے     یہ تو بس اکیلے رہ کر میں اب تھک چکی ہوں اور اوپر سے تم ہو ہی اتنے پیارے کہ مجھ سے رہا ہی نہیں گیا     اتنے عرصے سے تمہارے خالو گھر نہیں آئے تو تم خود ہی سوچو آخر میں جاؤں تو جاؤں کہاں جب جسم کی بھوک اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے تو     بس تم یہ بات کبھی کسی کو بھی نہ بتانا یہ ہم دونوں کا راز ہی رہے گا     اور بدلے میں تم جب چاہوں اپنی خالہ سے پیار کر سکتے ہو     تمہیں بھی بہت مزہ ملے گا اور میرے بھی جسم کی پیاس بجھتی رہے گی     "
 
 
 رضی نے اپنی خالہ کے ممے چوستے ہوئے ایک بار سر اٹھایا اور بولا  
 
 رضی : " آپ پریشان نہ ہوں خالہ میں یہ بات کسی کو بھی نہیں بتاؤں گا     اور اب تو میں روز ہی آپ کے گھر آؤں گا اور جی بھر کر ہم دونوں چدائی کریں گے     میرا تو دل ہی نہیں بھر رہا آپ کے ممے چوسنے سے     اوپر سے آپ ہیں ہی اتنا خوبصورت اور سیکسی میں تو روز ہی پہنچ جاؤں گا آپ کی پھدی مارنے کے لیے     "
 
 رضی یہ بات سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑا جبکہ خالہ بھی اس کی بات سن کر ایک قہقہ لگا کر بولیں    
 
شیریں : " تم بھی کسی سے کم نہیں ہو میری جان     آج تم نے خالہ کی پھدی جس طرح سے ماری ہے میرا بس چلے تو میں تمہیں اپنے بستر سے نکلنے ہی نہ دوں     بس تو یہ سمجھو تمہیں خالہ کی طرف سے مکمل چھوٹ ہے تمہارا جب دل کرے تو تم آکر خالہ کو چود سکتے ہو     تمہاری خالہ کی پھدی کو ہر وقت اب تمہارا ہی انتظار رہے گا     "
 
 
خالہ کے منہ سے پھدی کی بات سن کر  رضی نے خالہ کی پھدی پر ہاتھ رکھ کر دبایا اور ان کے ممے کو چوم کر بولا  
 
 رضی : " خالہ اگر آپ برا نہ مانیں تو آپ سے ایک بات پوچھوں     "
 
شیریں : " میری جان اب تمہیں کسی بھی بات کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے جو دل میں آتا ہے پوچھ لو     "
 
 
 رضی خالہ کی پھدی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا    
 
 رضی : " آپ نے کہا نہ کہ خالو اتنے عرصے سے گھر نہیں آئے تو آپ کے جسم کی پیاس اس قدر بڑھ گئی ہے کہ آپ سے برداشت کرنا ناممکن ہو گیا تھا     تو آپ اپنی پیاس بجھانے کے لیے کیا کرتی تھیں     اور میرے ابو بھی تو اتنے عرصے سے نہیں آئے تو کیا امی کی بھی پیاس اس قدر شدید ہو گی اور وہ کیا کرتی ہوں گی ؟؟؟ "
 
 
اپنی پھدی پر اپنے بھانجے کا ہاتھا پھرتے ہوئے محسوس کرکے شیریں بالکل مدہوش ہونے لگی تھی     شیریں نے  رضی کو گلے سے لگایا اور اپنی مدہوش ہوتی آواز میں بولی  
 
شیریں : " اب تو تمہارا لن نصیب ہوگیا خالہ کو     اب تو میں سوچنا بھی نہیں چاہتی کہ اتنا عرصہ میں نے کتنا مشکل میں گزارا     ویسے پہلے جب بھی دل کرتا تھا تو اپنی انگلیوں سے ہی گزارا چلانا پڑتا تھا یا پھر کبھی کبھی کسی کھیرے کی سبزی سے     اور جہاں تک رہی تمہاری امی کی بات تو آخر وہ بھی انسان ہی ہیں ان کا بھی دل کرتا ہوگا     اور جہاں تک مجھے یاد ہے تو تمہاری امی کے جسم کی بھوک بھی کچھ زیادہ ہی رہی ہے     میں تو یہ حیران ہوں کہ وہ کیسے برداشت کرتی ہوں گی     ظاہر ہے وہ بھی انگلیوں پہ ہی گزارا کرتی ہوگی     اور تم تو سوتے بھی اپنی امی کے ساتھ ہو وہ بچاری تو تمہارے سونے کا انتظار کرتی رہتی ہوگی     ویسے ایک بات بتاؤں تم جو میرے جسم پر فدا ہو چکے ہو تو اگر اپنی امی کو دیکھ لو نہ تو تم تو پاگل ہی ہو جاؤ     وہ تو میرے سے بھی کئی گناہ زیادہ سیکسی جسم کی مالک ہیں     "
 
 
جیسے ہی  رضی نے اپنی امی کے سیکسی جسم کے بارے میں سنا تو اس کے لن نے ایک جھٹکا کھایا جسے شیریں خالا نے محسوس کرلیا     کیونکہ شیریں خود اب پھر سے گرم ہونے لگی تھی تو وہ چاہتی تھی کہ  رضی بھی اس کی طرح گرم ہو اور ایک بار پھر اپنی خالہ کی پھدی مارے     شیریں نے جلدی سے اپنے بھانجے کے لن کو پکڑ لیا اور اس کے سر کو پکڑ کر اپنا مما اس کے منہ میں دے کر بولی  
 
 
شیریں : " ایک بات بتاؤ اگر تمہیں اپنی امی کو چھونے کا موقع ملے تو چھووُ گے ؟؟؟ اگر ان کے موٹے اور نرم ہونٹوں کو چوسنے کا چومنے کا موقع ملے تو چوموگے ؟؟؟ اور اگر تمہیں اپنے امی کے ممے چوسنے کاموقع ملے جو کہ میرے سے کہیں پڑے اور کمدیحہ خوبصورت ہیں تو چوسو گے ؟؟؟ اور اگر تمہیں موقع ملے اپنی امی کی پھدی میں لن ڈال کر انہیں چودنے کا تو چودو گے ؟؟؟ "
 
 
 رضی نے خالہ کی کسی بات کا جواب نہیں دیا     وہ خاموشی سے خالہ کے ممے چوستا رہا اور اس کا لن اکڑ کر ایک دم پتھر کی طرح سخت ہو گیا     جبکہ اس کی خالہ کی پھدی کے اوپر چلنے والا اس کا ہاتھ مزید تیزی سے حرکت کرنے لگا     اپنی امی کے بارے میں اتنی سیکسی باتیں سن کر  رضی فل گرم ہو چکا تھا    
 
 
شیریں نے جلدی سے  رضی کے لن کو چھوڑا اور اس کا سر اپنے مموں سے اوپر اٹھا کر اسے سائیڈ پر کیا      رضی نے سوالیہ نظروں سے خالہ کی طرف دیکھا     شیریں نے بغیر کچھ بولے اپنی ٹانگیں اوپر اٹھائیں اور گھٹنوں سے پکڑ لیا      رضی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آگئی وہ سمجھتے ہوئے فوراً خالہ کی ٹانگوں کی طرف لپکا     اپنی خالا کی ٹانگوں کے درمیان میں بیٹھتے ہی  رضی نے اپنا لن خالہ کی پھدی کے اوپر رگڑنا شروع کر دیا     شیریں کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں اور وہ اب پہلے سے بھی کہیں زیادہ گرم ہو چکی تھی     اس نے اپنی ٹوپی خالہ کی پھدی کے ہونٹوں کے اوپر سیٹ کی اور ایک ہی جھٹکے میں پورا کا پورا لن خالہ کی پھدی کے اندر گھسا کر ان کے اوپر چڑھ گیا     شیریں کے لیے یہ جھٹکا اتنا شدید تھا کہ اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور اس نے اپنی ٹانگیں چھوڑ کر  رضی کو اپنی باہوں میں جکڑ لیا      رضی کے نظروں کے سامنے صرف اور صرف اس کی امی کا خیال دوڑ رہا تھا جوکہ  رضی کو شدید گرم کر رہا تھا      رضی کے جھٹکوں کی رفتار بہت ہی تیز اور شدید تھی     شیریں مزے کی نئی گہرائیوں کو پہنچ رہی تھی    
 
 
 رضی نے اپنی خالہ کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے     یہ پہلی بار تھا کہ وہ دونوں اپنے ہونٹوں پر ایک دوسرے کو کس کر رہے تھے     شیریں کو یہ بہت اچھا لگا اور وہ بھی بھوکی بچی کی طرح اپنے بھانجے کے ہونٹوں کو چوسنے لگی    
 
 رضی اپنی خالہ کو جھٹکے مارتے ہوئے اس کی پھدی کے اندر ہی فارغ ہونے کے قریب تھا     جبکہ شیریں بھی اپنے پیروں کی مڑتی ہوئی انگلیوں کے ساتھ ساتھ فارغ ہونے لگی تھی      رضی کو اپنے لن کے اوپر خالہ کی پھدی کا پانی محسوس ہونے لگا اور اس کے ساتھ ہی  رضی کے لن نے بھی خالہ کی پھدی کے اندر اپنی منی کا فوارہ چھوڑ دیا    
 
 
 
 
 
 
 
 
خالہ کے گھر سے اپنے گھر کی طرف جاتے ہوئے  رضی کے ذہن میں صرف امی کا ہی خیال چھایا ہوا تھا     جب سے اس نے اپنی امی کے سیکسی جسم کے بارے میں خالہ سے تعریف سنی تھی اس کے دل کے اندر شدید خواہش تھی اب اپنی امی کو ننگا دیکھنے کی      رضی گھر میں داخل ہوتے ہی ٹی-وی لاؤنج میں پہنچا جہاں اسکی امی بیٹھی کسی سوچوں میں گم تھی      سویرا کے اندر ابھی تک کشمکش چل رہی تھی      رضی نے اپنی امی کو دیکھا تو اب اسکی نظر بدل چکی تھی     وہ کپڑوں کے اوپر سے ہی امی کے جسم کے خدوخال کا اندازہ لگانے لگا      سویرا نے  رضی کو دیکھا تو تھوڑا شرمانے لگی مگر اس کے ساتھ ہی اسے  رضی بھی تھوڑا بدلہ بدلہ سا لگا    
 
آخر بدلہ ہوا کیوں نا لگتا     آج وہ بچپنے سے جوانی تک کا سفر اپنی خالہ کی پھدی پر سوار ہو کر طے کر آیا تھا    
 
 
 سویرا نے اپنے بیٹے کی آنکھوں میں ایک عجیب کشش دیکھی جو آج سے پہلے صرف  سویرا کی آنکھوں میں تھی اپنے بیٹے کے لئے وہ بھی جب سے اس نے  رضی کو مٹھ مارتے دیکھا تھا     جس طرح  رضی نے گھر آتے ہی اپنی ماں کو دیکھا تو  سویرا کو لگا جیسے وہ اپنے بیٹے کی طرف کھچی جا رہی ہو      سویرا نے بڑی مشکل سے اپنے اوپر قابو کیا اور نظریں جھکا لیں     جبکہ  رضی اپنی ماں کے جسم کا جائزہ لینے میں مصروف تھا    
 
 
 سویرا ہمیشہ تنگ اور کھلے گلے کے کپڑے پہنتی تھی     مگر گھر میں ہوتے ہوے اس نے کبھی دوپٹہ لینا بھی ضروری نہیں سمجھا     اور نا ہی کبھی  رضی نے غور کیا تھا     مگر اب پہلی بار  رضی نے غور سے دیکھا تو اسے واقعی اپنی ماں بہت سیکسی لگی     شیریں خالہ نے اسے معصوم بچے سے حرامی لڑکا بنا دیا تھا    
 
 
 سویرا نے محسوس کیا کہ  رضی ابھی تک ایک ہی جگہ پر کھڑا ہے     اس نے سر اوپر اٹھایا اور بولی  
 
 سویرا : " کیا ہوا بیٹا     کچھ چاہیے     "
 
 رضی کے ذہن میں تو مانو جیسے لسٹ بننے لگی ان سب چیزوں کی جو اسے اپنی ماں سے چاہیے تھیں     مگر ابھی سہی وقت نہیں تھا اظہار کا تو  رضی نے صرف نفی میں سر ہلایا    
 
 سویرا نے جیسے ہی  رضی کی طرف دیکھا تو اسے احساس ہوگیا کہ وہ اسکے چہرے کی طرف نہیں بلکہ کہیں نیچے دیکھ رہا ہے     تبھی  سویرا کو احساس ہوا کہ بیٹھنے سے اسکا قمیض آگے کھنچ گیا تھا جس سے اسکے ممے کمدیحہ حد تک ننگے تھے      سویرا نے اپنے بیٹے کو پہلی بار اپنی طرف ایسی گندی نظر سے دیکھتے ہوے دیکھا تو ایک لمحے کے لئے اسکا دل زور سے دھڑکا تھا      سویرا نے سوچا کہ اگر اب اس نے اپنا قمیض ٹھیک کیا تو اسکا بیٹا شرمندہ نا ہو جائے      سویرا کو اپنے جسم میں ایک سنسناہٹ سی محسوس ہوئی اور اسے اپنے نپلز سخت ہوتے ہوے محسوس ہوے     ہر عورت اچھی طرح بتا سکتی ہے کہ سامنے والے مرد کی آنکھیں اسکے جسم کے کس حصے پر ٹکی ہیں     مگر مردوں کو لگتا ہے کہ شاید وہ بہت چالاک ہیں    
 
 
 سویرا نے ایک بار پھر  رضی کو آواز دی تو  رضی اپنے ہوش میں واپس آیا     اور سیدھا کمرے میں گھس گیا      سویرا نے  رضی کے جاتے ہی اپنے گلے کی طرف دیکھا تو اسے حیرت کا جھٹکا لگا کیوں کہ اسکا قمیض واقعی کچھ زیادہ ہی نیچے کو کھنچا ہوا تھا جس سے اسکے ممے کمدیحہ حد تک ننگے تھے     مگر ایک بات کا یقین  سویرا کو ہوگیا تھا کہ اسکا بیٹا اب بچہ نہیں رہا اور وہ بھی اپنی ماں کو اسے نظر سے دیکھتا ہے جس نظر سے اسکی ماں اسے دیکھتی ہے    
 
 
 سویرا نے اپنا قمیض سیٹ کیا اور نیچے شلوار کی طرف دیکھا تو اسے چھوٹا سا گیلا نشان نظر آیا      رضی کی ایک نظر نے ہی اسکا یہ حال کر دیا تھا     اس قدر شہوت اس نے کبھی محسوس نہیں کی تھی      سویرا نے اپنی شلوار کے اوپر سے اپنی پھدی کو ہاتھ لگایا تو سرور کی ایک لہر اسکے جسم میں دوڑ گئی      سویرا کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور اسکا ہاتھ تیزی سے اسکی پھدی پر حرکت کرنے لگا     مگر ایک دم اسے خیال آیا کہ وہ اس وقت ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی ہے جہاں کوئی بھی کسی وقت بھی آسکتا ہے      سویرا نے ایک دم اپنی آنکھیں کھولیں اور فوراً اپنی پھدی سے ہاتھ ہٹا لیا     وہ جلدی سے صوفے سے اٹھی اور سیدھا اپنے کمرے میں جا کر دروازہ کھول کر اندر دیکھا      رضی کمرے میں نہیں تھا مگر اندر باتھ روم سے شاور چلنے کی آواز آرہی تھی      رضی ہمیشہ لمبا وقت لیتا تھا نہانے میں اس لیے اس کے جلدی باہر آنے کی امید نہیں تھی      سویرا نے آرام سے دروازہ بند کیا اور اپنی بیٹی کے کمرے کی طرف چل پڑی     
 
 
 سویرا یہ تسلی کرنا چاہتی تھی کہ وہ ٹی وی لاؤنج میں اگر کچھ کرے تو اس کے بچے باہر نہیں آئیں گے      سویرا نے آہستہ سے اپنی بیٹی کے کمرے کا دروازہ کھولا     جیسے ہی دروازہ کھلا تو  سویرا کو ایک شدید جھٹکا لگا    
 
 
 
دروازہ کھولتے ہی  سویرا کی نظر سامنے بیڈ پر پڑی جہاں اس کی بیٹی ننگی لیٹی ہوئی تھی     ماریہ کے ایک ہاتھ میں موبائل تھا جبکہ اس کا دوسرا ہاتھ بہت تیزی سے اس کی پھدی کے اوپر حرکت کر رہا تھا     عاشی کو انسیسٹ پورن بہت پسند تھا     وہ ہر وقت ماں بیٹا ' بہن بھائی ' باپ بیٹی اور کبھی کبھی ماں بیٹی کی چدائی والی ویڈیوز دیکھتی رہتی تھی    
 
 
 سویرا جب ابتدائی جھٹکے سے کچھ سنبھلی تو اسے خیال آیا کہ آخر اس کی بیٹی کی بھی کچھ خواہشات ہیں     اس کے جسم کی بھی ضروریات ہیں جنہیں پورا کرنے والا کوئی نہیں     جس طرح وہ خود اپنے ہاتھ سے اپنی پھدی سہلا لیتی ہے اس طرح اس کی بیٹی بھی اپنی پھدی سہلانے میں مصروف ہے      سویرا نے نظر بھر کر اپنی بیٹی کے جسم کو دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ اس کی بیٹی اب جوان ہو چکی تھی     اور اپنے جسمانی خدوخال کے معاملے میں وہ بالکل اپنی ماں پر گئی تھی     اسی کی طرح بڑے اور موٹے ممے ' بھرا بھرا اور گورا جسم ' موٹی رانیں اور پتلی کمر ' باہر کو نکلی ہوئی گانڈ اور گلابی پھدی     اپنی بیٹی کی خوبصورتی دیکھ کر ایک بات کا تو اطمینان  سویرا کو ہوگیا تھا کہ اس کی بیٹی کی شادی جہاں بھی ہوگی وہ اپنے بندے کو صحیح اپنا دیوانہ بنا کر رکھے گی      سویرا نے خاموشی کے ساتھ دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑی    
 
 
 سویرا کمرے میں داخل ہوئی تو  رضی پہلے سے ہی بیڈ پر لیٹ چکا تھا      سویرا نے ایک نظر اپنے بیٹے پر ڈالی اور فوراً باتھ روم میں گھس گئی     جو کچھ  سویرا نے ٹی-وی لاؤنج میں شروع کیا تھا اسے ختم کرنے کا یہ اچھا موقع تھا      سویرا نے باتھ روم میں گھستے ہی دروازہ بند کیا مگر جلدی میں وہ کنڈی لگانا بھول گئی     اس نے جلدی سے اپنے کپڑے اتارے اور فوراً اس کا ہاتھ اپنی پھدی پر حرکت کرنے لگا     اس وقت  سویرا کے دماغ میں صرف اپنے بیٹے کا موٹا اور تگڑا لن چھایا ہوا تھا      سویرا نے اپنی آنکھیں بند کیں اور اپنی دو انگلیوں کو جیسے ہی اپنی پھدی میں ڈالا تو اس کے منہ سے ایک سسکاری نکلی اور اس کے ساتھ اس کے منہ سے اپنے بیٹے کا نام بھی نکلا " آ آ آ ہ ہ ہ      رضی     "    
 
 
 
باہر بیڈ پر لیٹے ہوئے  رضی کے ذہن میں خالہ کی باتیں چل رہی تھیں     جتنی تعریفیں شیریں خالہ نے  سویرا کے جسم کی تھیں اس وقت سے  رضی کے دماغ میں صرف ایک ہی خواہش ابھر رہی تھی     اور وہ تھی اپنی ماں کو ننگا دیکھنے کی      رضی کو لگتا تھا کہ اس کی خالا دنیا کی سب سے خوبصورت جسم کی مالک ہے مگر جب سے اس کی خالہ نے اس کی ماں کے جسم کا ذکر کیا تھا اب  رضی کی بے چینی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی    
 
 
 رضی آہستہ سے اپنے بیڈ سے نیچے اترا اور باتھ روم کی طرف چل پڑا     اس کا جسم جیسے خود بخود حرکت کر رہا ہو      رضی کے دل میں صرف ایک خواہش تھی کہ کاش اس وقت باتھ روم کی کنڈی کھلی ہوئی ہو     اور وہ جی بھر کر اپنے ماں کے ننگے جسم کا دیدار کر سکے      رضی آہستہ آہستہ چلتا ہوا باتھ روم تک پہنچا اور بہت ہی احتیاط اور آرام کے ساتھ اس نے جیسے ہی باتھ روم کے دروازے کو کھولا تو وہ کھلتا ہی چلا گیا      رضی نے دروازے کو اتنا ہی کھولا جتنا اس کے اندر جھانکنے کے لیے کمدیحہ تھا     جیسے ہی  رضی نے اپنے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اور تیز ہوتی دھڑکن کے ساتھ اندر جھانک کر دیکھا تو مانو جیسے اس کی ہزاروں خواہشیں ایک ہی لمحے میں پوری ہو گئی ہوں     سامنے اس کی ماں نہ صرف ننگی کھڑی تھی بلکہ اپنی پھدی میں انگلی ڈالے بہت مزے کے ساتھ اپنے بیٹے کو یاد کرتے ہوئے اپنی پھدی کا پانی نکالنے کی کوشش کر رہی تھی     بس صرف اس بات کا دکھ تھا کہ اس وقت دروازے کی طرف اس کی ماں نے بھی اپنی پیٹھ کر رکھی تھی      رضی کو اپنی ماں کے ممے اور پھدی دیکھنا نصیب نہ ہوئی لیکن اپنی ماں کی گوری کمر اور موٹی اور باہر کو نکلی ہوئی گوری گانڈ دیکھ کر اس کے پورے جسم میں مزے کی ایک ایسی شدید لہر دوڑنے لگی کہ اس کے لئے کھڑا ہونا بھی مشکل ہو رہا تھا    
 
 
 سویرا اپنے بیٹے کے لن کو یاد کرتے ہوئے بڑی تیزی کے ساتھ اپنی انگلیاں پھدی کے اندر باہر کر رہی تھی     جبکہ  رضی اپنی ماں کو جھٹکے کھاتا دیکھ کر اچھی طرح سے اندازہ لگا سکتا تھا کہ اس وقت اس کی ماں اپنی پھدی میں انگلی اندر باہر کر رہی ہے      رضی تو اپنے ماں پر پیار ' ترس اور شہوت ایک ساتھ آ رہی تھی     اس کا دل کیا کہ وہ ابھی دروازہ کھولے اور فوراً اندر گھس کر اپنا لن نکال کر ماں کی پھدی میں ڈال کر اسے ایسے چودے کہ اپنی کی ماں کی پیاس ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بجھ جائے     مگر  رضی نے بڑی مشکل سے اپنے اوپر قابو کیا    
 
 
 سویرا کے جسم نے جھٹکے کھانا شروع کر دیے تھے جسے دیکھ کر  رضی سمجھ گیا تھا کہ اس کی ماں فارغ ہونے لگی ہے     اس نہیں سوچا کہ اسے اب یہاں سے ہٹ جانا چاہئیے کیونکہ اس کی ماں فارغ ہوتے ہی اگر پیچھے مڑی تو اسے دیکھ لے گی      رضی آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا مگر اس سے پہلے کے وہ باہر نکلتا  سویرا نے فارغ ہوتے ہوے آنکھیں کھولیں تو سامنے بیسن پر لگے شیشے میں اس نے اپنے بیٹے کو پیچھے ہٹتے ہوے دیکھ لیا تھا     
 
 
وہ جانتی تھی کہ یہ غلطی نہیں تھی کیونکہ وہ جانتا تھا اس وقت اسکی ماں باتھ روم میں موجود ہے     مگر جیسے ہی  سویرا کو احساس ہوا کہ ابھی ابھی اسکا بیٹا اپنی ماں کو ننگا دیکھ چکا تھا جب اسکی ماں اسی کو یاد کرتے ہوے اپنی پھدی مار رہی تھی تو اسکو بجائے غصہ آنے کے یہ اچھا لگا اور اسکا ہاتھ مزید تیزی سے حرکت کرنے لگا      سویرا پوری شدت کے ساتھ جھٹکے کھاتے ہوے فارغ ہونے لگی     جبکہ باہر  رضی اپنی ماں کو پیچھے سے ننگا دیکھ کر ہی مدہوش تھا    
 
 
 سویرا نہا کر باہر نکلی تو سامنے  رضی بیڈ پر آنکھیں موندے لیٹا تھا      سویرا کو اب مکمل یقین ہو چکا تھا کہ یہ شہوت زدہ فیلنگز دو طرفہ تھیں     اب اس نے اپنے آپ میں فیصلہ کر لیا کہ وہ مزید اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بول سکتی اور نا ہی زیادہ برداشت کر سکے گی     اب اسے کسی بھی طرح اپنے بیٹے کا لن اپنی پھدی میں لے کر اس سے چدوانا تھا     مگر کیسے یہ فیصلہ اس نے صبح پر چھوڑ دیا    
 
صبح کی پہلی کرن جیسے ہی کھڑکی سے اندر داخل ہوئی تو  سویرا کی آنکھ کھل گئی     اس کے سامنے ایک دم رات کا منظر گھومنے لگا جہاں اس نے اپنے آپ سے ایک فیصلہ کیا تھا     وہ فیصلہ جس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کے جسم کی بھوک کا حل اسے ملنے والا تھا     اس نے فیصلہ کر لیا تھا اپنے بیٹے سے چدوانے کا     اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ جیسے کیسے کرکے بھی اپنے بیٹے کو مادرچود بنا کر چھوڑے گی     چاہے وہ اس کا بیٹا تھا لیکن تھا تو آخر مرد ہی     وہ اپنے ذہن میں خیالی پلاؤ پکانے لگی کہ ایک بار اس کا بیٹا جب اسے چودنا شروع کرے گا تو ہر وقت اپنے بیٹے کے لن کی سواری کرتی رہے گی    
 
 
 سویرا نے اپنا ہونٹ دانتوں کے بیچ میں دبایا اور مڑ کر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا جو کہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا      سویرا نے اپنے بیٹے کی نیند کا فائدہ اٹھا کر ایک بار اسے کس کر گلے لگایا اور اپنا پورا کا پورا جسم کے جسم ساتھ لگا کر اس کے گال کو چوم لیا      سویرا کا بس چلتا تو اسی وقت وہ اپنے بیٹے کے کپڑے اتار کر اس کا لن نکال کر منہ میں لے لیتی     اور اس نئی صبح کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ چدائی کا ایک نیا منظر شروع کر دیتی     لیکن  سویرا نے کوئی جلد بازی نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور صبر سے کام لیتے ہوئے اپنے بیٹے کو اپنے جال میں پھسانے کا فیصلہ کیا     اس کے لئے سب سے پہلے اسے کیا کرنا تھا وہ اچھی طرح جانتی تھی    
 
 
 سویرا بیڈ سے اٹھی اور سیدھا اپنی الماری کھول کر اندر ایک سفید رنگ کا سوٹ ڈھونڈنے لگی     یہ وہ سوٹ تھا جو  سویرا نے اپنی زندگی میں صرف ایک دن ایک گھنٹے کے لئے ہی پہنا تھا     کیونکہ جب اس نے پہ پہلی بار یہ سوٹ پہنا تو اس کے شوہر نے اسے فورا نے تبدیل کرنے کا کہا کیونکہ وہ سوٹ کچھ زیادہ ہی باریک اور بہت ہی ٹائٹ تھا     اور اوپر سے اس کا گلا درزی نے شائد کچھ زیادہ ہی کھلا چھوڑ دیا تھا     جیسے ہی لال خان نے اپنی بیوی کو وہ سوٹ پہنے ہوئے دیکھا تو فورا ہی اسے باہر نکلنے سے منع کیا تھا     اور اس نے وجہ یہ بتائی کہ اس گھر میں ایک جوان بیٹی ہے اگر وہ اپنی ماں کی دیکھا دیکھی اس طرح کے کپڑے پہننے لگی تو لوگ باتیں کریں گے     اور اس کے ساتھ ساتھ ایک جوان بیٹا بھی ہے گھر میں جب وہ اپنی ماں کو اس طرح کے سیکسی لباس میں دیکھے گا تو اس پر کیا گزرے گی     مگر اب لال خان اس گھر میں نہیں تھا     اب تھی تو صرف اور صرف ایک ماں کی اپنے بیٹے کیلئے شہوت      سویرا نے الماری سے وہ سوٹ نکالا اور مڑ کر ایک بار  رضی کو دیکھ کر سوچا کہ آج تو اس کے مزے لگنے والے ہیں    
 
 
 سویرا نے باتھ روم میں جا کر نہا کر گیلے جسم کے اوپر ہی باریک سفید قمیض پہن لیا     اور اس کے نیچے ٹائٹ سفید پاجاما     اف     گیلا جسم ہونے کی وجہ سے اس کا باریک سفید قمیض اس کے جسم کے ساتھ چپک گیا تھا اور اس طرح نظر آرہا تھا جیسے وہ ننگی ہو      سویرا نے جان بوجھ کر برا اور پینٹی نہیں پہنی تھی اور نہ ہی اس نے دوپٹہ لینا ضروری سمجھا     اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر اس نے فیصلہ کرلیا ہے تو وہ پیچھے نہیں ہٹے گی اب وہ اپنے بیٹے سے چدوا کر ہی رہے گی    
 
 
 سویرا باتھروم سے باہر نکلی اور سیدھا بیڈ کے پاس جا کر اپنے بیٹے کے اوپر جھک گئی     جھک کر اس نے ایک بار اپنے سینے کی طرف دیکھا جہاں اس کے ممے آدھے ننگے ہوکر لٹک رہے تھے      سویرا نے ہاتھ بڑھا کر اپنے مموں کو تھوڑا سا مزید اپنی قمیص سے باہر کی طرف نکالا اور مسکراتے ہوئے اپنے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ہلانے لگی    
 
 
جیسے ہی  رضی نے آنکھیں کھولیں اور اس نے اپنے سامنے اپنی ماں کو جھکے ہوئے اور اپنی ماں کے آدھے سے زیادہ ننگے ممے اپنے چہرے کے سامنے لٹکتے ہوئے دیکھے تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں     یہ پہلی بار تھا کہ  رضی اپنی ماں کے اتنے زیادہ ننگے ممے دیکھ رہا تھا     بس اس کی ماں کے نپلز ہی تھے جوکہ نظر نہیں آرہے تھے      رضی کے اٹھنے کے ساتھ ساتھ اس کے لن نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا      سویرا اپنے بیٹے کی آنکھوں میں محبت اور شہوت دیکھ سکتی تھی     جس قدر شہوت سے اس کا بیٹا اپنی ماں کے ممے دیکھ رہا تھا  سویرا کے جسم میں ایک سرور آنے لگا      سویرا اپنے گیلے بالوں کو کان کے پیچھے پھنساتے ہوئے مسکرا کر اپنے بیٹے کو اٹھنے کا کہ کر کچن کی طرف چل پڑی     کمرے سے نکلتے ہوئے اس نے ایک بار مڑ کر دیکھا تو اس کے بیٹے کی شلوار میں بنا ہوا تمبو اسے اپنے پلان کی پہلی سیڑھی کی کامیابی لگا      سویرا کیچن میں جاکر اپنے بیٹے کی پسند کا ناشتہ بنانے لگی جبکہ دوسری طرف  رضی کا اپنی ماں کے ممے دیکھنے کے بعد برا حال تھا     اس نے جتنا اپنی ماں کا جسم دیکھا تھا اسے ایک بات کر یقین ہو گیا تھا کہ اس کی خالہ نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا اس کی ماں واقعی میں دنیا کی سب سے سیکسی اور خوبصورت ترین عورت تھی    
 
 
 رضی جلدی سے اٹھا اور نہا کر باہر آگیا     اس نے اپنی ماں کو دیکھ کر ایک بار سوچا کہ آج اس کی ماں نے جس طرح کا سوٹ پہنا تھا آج کا دن بہت خوبصورت گزرنے والا تھا      رضی ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ کر ناشتے کا انتظار کرنے لگا تبھی کمرے سے اس کی بہن باہر نکلی     عاشی ہمیشہ ہی اپنے اردگرد کے حالات سے لاپرواہ رہتی تھی     اور آج لاپرواہی میں اس نے بھی کمدیحہ کھلے گلے کا سوٹ پہنا تھا اور دوپٹہ بھی نہیں لیا تھا     اس سے پہلے اس نے کبھی اپنی ماں اور بہن کو گندی نظر سے نہیں دیکھا تھا مگر اب جب اس کی نظر اپنی گھر کی عورتوں کے لئے گندی ہوچکی تھی تو آپ اسے اپنے گھر کی دونوں عورتیں جس میں سے ایک اس کی ماں جبکہ دوسری اس کی بہن تھی بہت سیکسی لگنے لگی تھیں    
 
 
ماریہ کمرے سے نکل کر سیدھا ٹی وی لاؤنج کی طرف آئی اور  رضی کے سامنے پڑی ہوئی ٹیبل پر جھک کر ٹی وی کا ریموٹ ڈھونڈنے لگی     جیسے ہی عاشی ٹیبل پر جھکی تو اسکے ممے اسکی ماں کی طرح لٹک کر اس کے بھائی کو دیدار کی دعوت دینے لگے      رضی کے پورے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے     اس نے آج سے پہلے اپنی بہن کو کبھی اسے نظر سے نہیں دیکھا تھا مگر آج جب دیکھا تو اسے یقین ہوگیا کہ اس کی بہن کو جسمانی خوبصورتی اپنی ماں سے وراثت میں ملی تھی    
 
 
عاشی ریموٹ اٹھا کر اوپر کو اٹھی تو اس نے  رضی کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ لیا     اس نے فورا اپنی چھاتی کی طرف دیکھا جہاں اس کے ممے کمدیحہ حد تک ننگے تھے     وہ اچھی طرح سمجھ گئی اس کا بھائی کیا دیکھ رہا تھا     اسے یہ بہت عجیب لگا تھا کیونکہ آج سے پہلے اس کے چھوٹے بھائی نے کبھی اسے اس نظر سے نہیں دیکھا تھا     مگر اسے غصہ آنے کے بجائے یہ اچھا لگا تھا کہ کسی لڑکے نے اسے اس نظر سے دیکھا تھا     عاشی مسکراتے ہوئے سیدھا ہوئی اور ٹی وی کی طرف مڑ کر ٹی وی کے چینل تبدیل کرنے لگی     اس کے دماغ میں ابھی تک اپنے بھائی کی وہ نظر گھوم رہی تھی     اور پچھلی رات جب اس کی ماں نے اسے اپنی پھدی کو سہلاتے ہوئے دیکھا تھا تو اس وقت بھی وہ بہن بھائی کی چدائی والی ویڈیوز دیکھ رہی تھی     عاشی نے سوچا کی ایک بار تو پھر بھی غلطی سے دیکھا جا سکتا ہے وہ کنفرم کرنا چاہتی کہ اس کا بھائی واقعی اس کے بارے میں ایسا سوچتا ہے اور ایسی نظر سے دیکھتا ہے     عاشی ایک بار پھر پیچھے کو مڑی اور ریموٹ رکھنے کے بہانے  ایک بار پھر ٹیبل پر جھک گئی     اب کی بار اسکا دھیان اپنے بھائی کی نظروں پر تھا     جیسے ہی وہ جھکی تو  رضی کی نظریں سیدھا اپنی بہن کے مموں پر جڑ گئیں     عاشی کو اب یقین ہو گیا تھا     کے اس کے بھائی کو اس کے ممے پسند آگئے ہیں    
 
 
عاشی اپنے چھوٹے بھائی کو تنگ کرنے کے لئے اپنے ممے ہلانے لگی جسے دیکھ کر  رضی مزید مدہوش ہونے لگا     عاشی نے مسکرا کر اسی طرح جھکے ہوئے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ممے چھپائے      رضی نے جیسے ہی اپنی بہن کو اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنے ممے چھپاتے ہوئے دیکھا تو اس نے نظریں اٹھا کر اپنی بہن کی آنکھوں میں دیکھا جو مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہی تھی      رضی نے جیسے ہی اوپر دیکھا تو عاشی مسکرا کر بولی  
 
عاشی : " چھوٹے کچھ زیادہ بڑے نہیں ہو گئے تم     مانا کہ میں خوبصورت ہوں مگر اتنا بھی نا گھورو کہ نظر لگ جائے     اور اگر امی کو پتہ چل گیا تو تمہاری خیر نہیں     اس لئے دھیان سے     "
 
یہ که کر عاشی نے اپنے سینے سے ہاتھ ہٹا لیا اور ایک بار پھر اپنے چھوٹے کو اپنے ممموں کا دیدار کروا کر کچن کی طرف چل پڑی جہاں ایک اور سرپرائز اسکا انتظار کر رہا تھا    
 
 

ماریہ جیسے ہی کچن میں داخل ہوئی تو اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیونکہ اس کے سامنے اس کی ماں نے جس طرح کا لباس پہنا ہوا وہ یقینا جسم کو چھپانے کے لئے نہیں بلکہ دعوت نظارہ دینے کے لئے تھا      سویرا کا سفید رنگ کا لباس بہت ہی باریک تھا اور اس قدر ٹائٹ تھا اس کے جسم کے ساتھ چپکا ہوا تھا     اور گلا اتنا کھلا تھا کہ اوپر سے وہ مموں کی لکیر کمدیحہ حد تک نظر آ رہی تھی     ماریہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کا چھوٹا بھائی اب بڑا ہو گیا تھا اور اب وہ کس نظر سے اپنے گھر کی عورتوں کو دیکھتا تھا     اور  سویرا تو پھر ماں تھی ماریہ کو پورا یقین تھا کہ اس کی ماں کو اچھی طرح یہ بات معلوم ہے کہ اس کے بیٹے کی نظر کیسی ہے آخر کار ماؤں کو اپنے بچوں کی حرکت کا علم ہوتا ہے     مگر پھر بھی اسے اپنی ماں کا اس طرح کا لباس پہننا بہت عجیب لگا     ایک لمحے کے لیے اس نے سوچا کہ کہیں اس کی ماں نے جان بوجھ کے لباس نہ پہنا ہو اپنے بیٹے کو اپنا جسم دکھانے کے لئے جیسے کہ ابھی کچھ دیر پہلے وہ خود کر رہی تھی اس لیے وہ سمجھتی تھی     مگر اگلے ہی لمحے اس نے اپنے دماغ سے اس خیال کو جھٹک دیا کہ نہیں ایک ماں اپنے بیٹے کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہے     مگر ایک بات تو ماریہ کو سو فیصد یقین کے ساتھ پتا تھی کہ آج کا دن  رضی کے لئے بہت حسین گزرنے والا ہے    
 
 
ماریہ کچن میں جاکر اپنی ماں کے ساتھ ناشتہ بنانے میں ان کی مدد کرنے لگی     مگر اس کے ذہن میں مسلسل اپنے چھوٹے بھائی کی وہ نظر سے گھوم رہی تھی     اسے ایک دم صبح سے اپنا آپ خوبصورت لگنے لگا تھا     پہلی بار کسی لڑکے نے اس نظر سے اسے دیکھا تھا     وہ اسکا بھائی تھا مگر اسے ویسے بھی انسیسٹ کا شوق تھا     ناشتہ بنانے ک بعد جب باہر برتن رکھنے کی باری آئی تو ماریہ جان کر  رضی کے سامنے جھکتی اور اسے اپنے گورے اور موٹے نرم ملائم ممے دکھاتی     اسے بہت مزہ آ رہا تھا اس طرح اپنے بھائی کو چھیڑنا     اور اپنے آپ کو یہی تسلی دے رہی تھی کہ معمولی شرارت ہی تو ہے کونسا کوئی غلط کام کر رہی ہے     مگر دوسری طرف  رضی کا برا حال تھا     کیوں کہ کچھ دیر ماریہ کے بعد اب اس کی ماں بھی سامان رکھنے کے ساتھ ساتھ اس سامنے جھک رہی تھی اور اپنی ماں اور اپنی بہن کے خوبصورت ممے دیکھ کر  رضی کا برا حال تھا    
 
 
وہ تینوں کھانے کی ٹیبل پر ناشتہ کرنے کے لئے بیٹھ گئے     عاشی کن اکھیوں سے اپنے بھائی کو دیکھ رہی تھی جو کہ کبھی اپنی ماں کے مموں کی طرف دیکھتا تو کبھی اپنی بہن کی طرف     ناشتہ کرنے کے بعد  سویرا اٹھی اور برتن سمیٹنے لگی جبکہ  رضی کی نظریں اپنی ماں کے کھلے گلے میں سے جھانکتے ہوے مموں پر تھی     ماریہ نے سری صورت حال کو جانچنا شروع کر دیا     اسکا چھوٹا بھائی اپنی ماں کو شہوت کی نظر سے دیکھ رہا تھا جبکہ اسکی ماں جھک کر اپنے بیٹھے کو نظارے کروا رہی تھی     ماریہ کا شک یقین میں بدل گیا جب سامان اٹھاتے ہوے اسکی ماں نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور اسے اپنے مموں کی طرف شہوت کی نظر سے دیکھتے ہوے پایا مگر اپنا جسم چھپانے یا اپنے بیٹے کو سمجھانے کے بجائے ماریہ کو اپنی ماں کے چہرے پر ایک اطمینان بھری مسکراہٹ نظر آئی    
 
 
انسیسٹ کی دیوانی ماریہ کو یہ بات تھوڑی عجیب لگی مگر اسکے ساتھ ساتھ ماں بیٹے کی مشترکہ شہوت اسے گرم کرنے لگی     ماریہ اور  رضی بہن بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے دوست بھی تھے     ماریہ نے یہ سب دیکھ کر فیصلہ کر لیا کہ وہ ضرور اپنے بھائی سے اس بارے میں بات کرے گی     جبکہ  رضی کی صبح سے ہی حالت نازک تھی     اس سے مزید برداشت نہیں ہو رہا تھا     وہ سیدھا اپنے کمرے کی طرف گیا اور باتھ روم میں جا کر اپنی ماں اور اپنی بہن کے نام کی مٹھ لگانے لگا     ابھی صرف صبح بھی مشکل سے گزری تھی اور  رضی مٹھ لگا چکا تھا     اب آگے سارا دن گزرنا تھا     دوسری طرف  سویرا کو اپنا پلان کامیاب ہوتا نظر آ رہا تھا     جس نظر سے اسکا بیٹا اسکو دیکھ رہا تھا اور جتنی تیزی سے وہ اٹھ کر کمرے میں گیا      سویرا کو یقین تھا کہ وہ بہت جلد اپنے بیٹے سے چدوانے میں کامیاب ہو جائے گی     اور ابھی سے ہی  سویرا اپنے بیٹے کے بڑے اور موٹے لن کا سوچ سوچ کر گرم ہو رہی تھی    
 
 
 رضی اپنی ماں اور آپی کے نام کی مٹھ لگانے کے بعد کمرے میں ہی بیٹھا رہا     باہر جو نظارے تھے  رضی نہیں چاہتا تھا کے اسکا لن پھر سے مٹھ کے لئے بے تاب ہو     اس لئے اس نے امی کے موبائل پے گیم لگا لی اور ٹائم پاس کرنے لگا     ماریہ بے چین تھی کہ آخر کس طرح وہ اپنے بھائی سے بات کرے     کچھ دیر بعد ماریہ اپنی ماں کے کمرے میں جانے لگی تو اسے سامنے بیڈ پر  رضی موبائل پر گیم کھیلتے ہوے نظر آیا     اسکے ذہن میں ایک دم ایک آئیڈیا آیا     وہ سیدھا اپنے کمرے میں گئی اور اپنے موبائل سے اپنی ماں کے نمبر پر واٹس ایپ مسج کیا    
 
 
ماریہ : "  رضی     "
 
 رضی تھوڑا حیران ہوا کہ آخر اسکی آپی اسکو میسج پہ کیوں بات کر رہی ہے     مگر اس نے رپلائے کیا    
 
 رضی : " جی آپی     "
 
ماریہ : "  رضی مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے     "
 
 رضی : " جی آپی بتائیں     "
 
ماریہ : " دیکھو ہم دونوں دوست ہیں نا     اس لئے میری بات کا برا نا منانا     اور وعدہ کرو سچ سچ بتاؤ گے     "
 
 رضی کی گانڈ پھٹنے لگی     اسے ڈر تھا کہ کہیں اسکی آپی اسکی گندی نظر سے ناراض نا ہو گئی ہوں     اور اگر امی کو بتا دیا تو     ؟؟؟ مگر اس نے ڈرتے ڈرتے جواب لکھا    
 
 رضی : " جی جی آپی     پوچھیں جو پوچھنا ہے     "
 
 رضی اگلے میسج کا انتظار کر رہا تھا     اسکے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو رہی تھی     اور اسکا دڑ سہی ثابت ہوا    
 
ماریہ : " دیکھو میں کچھ دنوں سے دیکھ رہی ہوں کہ تم بری نظر سے مجھے اور امی کو دیکھتے ہو     جب بھی ہم کوئی چیز اٹھانے یا رکھنے کے لئے جھکیں تم ہمارے قمیض کے اندر جھانکتے ہو     دیکھو میں سمجھ سکتی ہوں تم بڑے ہو رہے ہو     بہت سے سوال اور خواہشیں ہوں گی دل میں     مگر امی کو پتا چلا کہ انکا بیٹا انھیں گندی نظر سے دیکھتا ہے تو انھیں کتنا دکھ ہوگا تم نے سوچا ہے     "
 
 رضی اتنا لمبا میسج پڑھ کر ڈرنے لگا مگر ایک دم اسکے ذہن میں ایک سوال آیا اور اسنے ڈرتے ڈرتے میسج لکھنا شروع کیا    
.
.
 رضی : " آپی مجھے معاف کر دیں     میرا اپنے اپر قابو نہیں تھا     اور اوپر سے آپ دونوں ہیں ہی اتنی خوبصورت کہ مجھ سے رہا نہیں گیا     آپ نے کہا سچ بولنا تو میں نے بول دیا     مگر مجھے بھی آپ سے سوال پوچھنا ہے     "
 
ماریہ " پوچھو     "
 
 رضی : " آپ نے کہا امی کو پتا چلا تو انھیں برا لگے گا مگر آپ نے اپنے بارے میں نہیں بتایا    ؟؟؟ "
 
ماریہ میسج پڑھ کر مسکرائی اور سوچا بچہ کمدیحہ تیز ہے     اس نے سہی دکھتی رگ پے ہاتھ رکھا ہے     ماریہ نے بھی سچ بولنے کا فیصلہ کیا مگر وہ بات گھما پھرا کے نہیں کرنا چاہتی تھی     اس نے اپنی ماں کی نظروں میں دیکھ لیا تھا کہ انھیں کیا چاہیے کیوں کہ وہ خود بھی ایک عورت ذات تھی اور سمجھ سکتی تھی اپنی ماں کی شہوت کو     اور اس بات نے اسے مزید گرم کر دیا تھا     اسے اور دیکھنا تھا     یہ بات تو طے تھی کہ ان دونوں کے دماغ پے شہوت سوار تھی     بس ماریہ کو جلتی پہ تیل ڈالنا تھا     اور بیٹھ کر ہاتھ سیکنے تھے    
 
ماریہ : " دیکھو میں تو تمہاری دوست ہوں نا     اس لئے ہمیں ایک دوسرے سے کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے     تمہیں امی اچھی لگتی ہیں نا     سچ سچ بتانا     "
 
 رضی : " ہاں اچھی ہیں امی تو اچھی لگیں گی نا     "
 
 رضی بات کو گھومانا چاہتا تھا     مگر ماریہ بھی سب سمجھتی تھی    
 
ماریہ : " میرا مطلب دوسری نظر سے بھی اچھی لگتی ہیں نا    ؟؟؟ "
 
 رضی : " دوسری نظر سے مطلب    ؟؟؟ "
 
 رضی اچھی طرح جانتا تھا اسکی بہن کیا پوچھ رہی ہے     مگر اس میں ہمت نہیں تھی سچ بولنے کی اس لئے وہ معصوم بننے کی اداکاری کرنے لگا     جبکہ دوسری طرح ماریہ تنگ آ گئی اسکی ڈرامہ بازی سے اور کھل کر بولنے کا فیصلہ کیا    
 
ماریہ : " زیادہ معصوم نا بنو     میں جانتی ہوں تم اتنے بھی بچھے نہیں ہو     اگر سمجھ نہیں آ رہی تو صاف لفظوں میں پوچھتی ہوں     تمہیں امی سیکسی لگتی ہیں نا     ؟؟؟ "
 
 رضی کو یقین نہیں آ رہا تھا اسکی بہن اس سے اتنا کھل کے بات کر سکتی ہے     وہ ڈر رہا تھا مگر پھر اس نے سوچا اگر اسکی بہن کو کوئی شرم نہیں آ رہی تو وہ بھی کھل کر بات کرے گا    
 
 رضی : " آپی آپ اور امی دونوں دنیا کی سب سے خوبصورت اور سیکسی لڑکیاں ہو     "
 
ماریہ : " زیادہ مکھن نا لگاؤ میں نے صرف امی کا پوچھا تھا     اور ویسے لگتی واقعی امی لڑکی ہی ہیں     "
 
 رضی : " آپ بھی کم نہیں ہیں کسی سے     "
 
ماریہ : " اچھا یہ بتاؤ اگر موقع ملے تو کیا کرو گے امی کے ساتھ     ؟؟؟ "
 
 رضی : " جو دل میں آے گا     "
 
ماریہ : " اور اگر میں تمہاری مدد کروں تو     ؟؟؟ "
 
 رضی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اسکی بہن اسکو مدد کرنے کی آفر کر رہی تھی وہ بھی ماں بیٹے کو پاس لانے کے لئے     مگر وہ انکار نہیں کر سکتا تھا کیوں کہ صوبہ سے وہ جس نظر سے دیکھ رہا تھا اب اس سے صبر کرنا مشکل لگ رہا تھا    
 
 رضی : " آپی اگر میرا یہ کام کر دیں تو جو کہیں گی آپ کے لئے کروں گا     پلیز پلیز پلیز آپی     "
 
ماریہ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی     جبکہ اپنی بہن کی مدد سے اپنی ماں کو چودنے کا سوچ کر  رضی کا لن اکڑ چکا تھا     ماریہ نے کوئی جواب دینے کے بجاے موبائل رکھا اور اپنی ماں کے کمرے کی طرف چل پڑی     اس نے ایک نظر کچن کی طرف ڈالی جہاں اسکی ماں کپڑے دھونے میں مصروف تھی اور سیدھا امی کے کمرے میں گھس گئی جہاں اسکا چھوٹا بھائی اپنا لن اکڑائے جواب کا انتظار کر رہا تھا    
 
 
 رضی نے اپنی بہن کو کمرے میں آتا دیکھا تو پھر سے ڈر گیا     میسج پہ بات کرنا اور بات تھی مگر حقیقت میں اسے پسینے آنے لگے     ماریہ سیدھا آ کر اسکے ساتھ بیڈ پہ بیٹھ گئی اور بولی    
 
 
ماریہ : " اپنا وعدہ یاد رکھنا     وقت آنے پر میں جو چاہوں تمہیں کرنا پڑے گا     اچھا دکھاؤ پہلے سب کچھ تیار تو ہے نا     "
 
 
یہ کہہ کر ماریہ نے  رضی کے اوپر سے ایک جھٹکے سے چادر ہٹائی اور نیچے سے اسکا لن اکڑ کر سامنے آ گیا      رضی کو اندازہ ہی نہیں ہوا تھا کہ کب وہ میسج کرتے کرتے اپنے لن کو نکال کر ہلانے لگا تھا     ماریہ کے سامنے جیسے ہی اپنے چھوٹے بھائی کا لن آیا اسکی حیرت سے بولتی بند ہو گئی     اسے لگا جیسے وہ پورن فلم دیکھ رہی ہو      رضی کا سخت اکڑا ہوا لن اسکے سامنے لہرا رہا تھا     اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا     بہت مشکل سے اس نے اپنی زبان ہلانا شروع کی اور بولی    
 
 
ماریہ : " مجھے نہیں پتا تھا تم نے یہ باہر نکالا ہوا ہو گا     وہ      ام      میں     میں کہہ رہی تھی کہ دیکھوں صرف کہ تم بال صاف کرتے ہو کہ نہیں     تم     آ آ     تم نے صاف کے ہوے     گڈ     اچھا اسکو اندر کرو اور میرے ساتھ آؤ کچن میں     "
 
 
 رضی کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اسکی بہن کو اسکا لن پسند آگیا تھا     مگر اس نے کچھ بولنے کے بجاے چپ چاپ لن اندر کیا اور اسکے پیچھے پیچھے چل پڑا     کچن میں انکی ماں برتن دھونے کے بعد کمدیحہ تھکی ہوئی لگ رہی تھی اور کچن کی صفائی کرنے میں مصروف تھی     ماریہ نے  رضی کو ایک طرف کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود اپنی ماں کے پاس جا کر بولی    
 
 
ماریہ : " امی آپ صبح سے کام کر رہی ہیں کمدیحہ تھک گئی ہوں گی     چھوڑیں مجھے دیں صفائی میں کر دیتی ہوں آپ یہاں بیٹھیں     "
 
یہ کہہ کر ماریہ نے اپنی ماں کو کرسی پر بٹھایا اور  رضی سے بولی    
 
ماریہ : " کام چور سارا دن بیٹھے رہتے ہو دیکھو تو امی کام کرکے تھک گئی ہوں گی چلو ادھر آو امی کے کندھے دبا دو     "
 
 سویرا : " ارے بھائی خیریت تو ہے آج بڑی خدمت ہو رہی ہے ماں کی     "
 
ماریہ : " ارے امی آپ ہمارے کام کرتی ہیں تو ہم نے سوچا کیوں نہ آپ کو بھی تھوڑا سا آرام دیں     آپ کی خوشی اور آپ کے سکون سے بڑھ کر ہمارے لئے کچھ بھی نہیں ہے     "
 

 
 رضی چلتا ہوا اپنی ماں کے پیچھے پہنچ چکا تھا     اس نے جیسے ہی اپنی ماں کے کندھوں پر ہاتھ رکھا تو  سویرا کے جسم نے ایک جھرجھری سی لی اور اس نے ایک دم سے آنکھیں بند کیں اور کرسی کے ساتھ ٹیک لگا لی     جیسے ہی  سویرا نے کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی تو اس کے ممے مزید اوپر کو اٹھ گئے      رضی نے اپنی ماں کے اوپر کھڑے ہوے جب اسکے گلے میں جھانکا تو اسکے لن نے ایک جھٹکا کھایا     اسکی ماں کے ممے آدھے سے زیادہ ننگے اسکے سامنے تھے     جبکہ دوسری طرف اسکی ماں کمدیحہ دنوں سے اپنے بیٹے کے لن کے لئے بے تاب تھی     جیسے ہی  رضی کے ہاتھوں نے  سویرا کو چھوا تو  سویرا کی آنکھوں کے سامنے اسکے بیٹے کا موٹا اور تگڑا لن لہرانے لگا      سویرا اپنی آنکھیں بند کر کے خود پر قابو کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اسکی بے چینی نمایاں تھی     ماریہ اپنی ماں کے ابھرتے جذبات کو محسوس کر سکتی تھی      سویرا اپنا نچلا ہونٹ بار بار کاٹ رہی تھی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپس میں مسلتے ہوے خود پر قابو کرنے کی نا کام کوشش میں مصروف تھی    
 
 
ماریہ ماں بیٹے کی ایک دوسرے کے لئے شہوت دیکھ کر گرم ہونے لگی     اس نے بات مزید آگے بڑھانے کا سوچا اور  رضی کو ہاتھ مزید نیچے کی طرف لے جانے کا اشارہ کیا      رضی جو خود بڑی مشکل سے خود پر قابو کے ہوئے تھا اپنی بہن کی طرف سے اشارہ ملتے ہی اپنی ماں کے کندھے کا مساج کرتے ہوے ہاتھ نیچے کی طرف کرتا گیا یہاں تک کہ اسکے ہاتھ اپنی ماں کے مموں کے اوپری حصے کو چھونے لگے    
 
 
.
 رضی کی انگلیوں نے جیسے ہی اپنی امی کے مموں کے اوپری حصے کو چھوا تو اس کا لن اس کی ٹراوزر میں ایک دم اکڑ کر سخت ہونے لگا     وہ ڈرتے ڈرتے ہی صرف اوپری حصے تک ہی ہاتھ لے جاتا اور چھو کر واپس کندھوں کی طرف آ جاتا      سویرا جو کمدیحہ دنوں سے اپنے بیٹے کی شہوت میں گرفتار تھی اپنے بیٹے کے اس طرح چھونے سے ایک بار پھر شدید گرم ہونے لگی     اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے سے مسل کر اپنے اوپر قابو کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی      رضی کے ہاتھ جیسے ہی اپنی ماں کے کندھوں سے ہوتے ہوئے اس کے گلے کی طرف آتے اور اس کے ممے کے اوپری حصے کو چھوتے تو  سویرا کے جسم کو ایک ہلکا سا جھٹکا لگتا ہے اور مزے کی شدید لہر اور شہوت اس کے جسم میں دوڑ جاتی      سویرا کو اپنے بیٹے کا اس طرح چھونا اس قدر سرور مزہ دے رہا تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ اس کی پھدی ہلکی ہلکی گیلی ہونے لگی ہے     جبکہ کچن میں عاشی صفائی کرتے ہوئے بار بار مڑ کر اپنے بھائی اور اپنی ماں کی شہوت کو ابلتے ہوئے دیکھ سکتی تھی    
 
 
ماریہ کو پورا یقین تھا کہ اس کی ماں کی کچن میں اس کی موجودگی کی وجہ سے اپنے اوپر قابو کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اگر وہ اس وقت موجود نہ ہو تو اس کی ماں کیا کرے گی     عاشی نے اپنے بھائی کو اشارے میں اپنا پلان سمجھایا اور اونچی آواز میں بولی    
 
ماریہ : " امی میں ذرا چھت سے کپڑے اتار کر آتی ہوں ہوا چل رہی ہے کہیں اڑ ہی نہ جائیں     کچن کی صفائی میں بعد میں کر دوں گی     "
 
 سویرا جو اپنے بیٹے کے چھونے سے اس وقت مکمل طور پر شہوت میں ڈوبی ہوئی تھی کچھ بھی نہ بھول پائی بس اپنا سر اثبات میں ہلا کر اجازت دی     عاشی کیچن سے نکلتے ہوئے ایک بار پھر  رضی کو کوئی اشارہ کر کے چھت پر جانے کے بجائے گھر کی پچھلی سائیڈ سے گھوم کر کچن کی اس کھڑکی کے پاس آ گئی جو کہ چولہے کے پاس تھی اور ہمیشہ کھلی ہی رہتی تھی      سویرا کا چہرہ کچن کے دروازے کی طرف تھا جبکہ چولہا اور کھڑکی اس کی دائیں طرف تھی     عاشی جیسے ہی کھڑکی پر آئی تو  رضی نے مڑ کر اسے دیکھا اور عاشی نے اسے ایک بار پھر اشارہ کیا      رضی اپنی بہن کا اشارہ سمجھ گیا تھا اور وہ اشارہ تھا ایک قدم آگے بڑھنے کا    
 
 
 رضی اب کی بار کندھوں کو دباتے ہوئے جب گلے کی طرف آیا تو صرف اوپری حصے کو چھونے کے بجائے ہاتھ مزید نیچے لے گیا اور تقریبا اوپر سے آدھے ممے تک اپنی انگلیاں پھیر کر واپس کندھے کی طرف آ گیا     جبکہ دوسری طرف  سویرا جو اب سمجھ رہی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کچن میں اکیلی ہے اپنے اوپر زبردستی قابو کرنے کی کوشش ترک کر چکی تھی     جیسے ہی اس نے اپنے بیٹے کے ہاتھوں کو اپنے مموں کے اوپر محسوس کیا اس کی شہوت نے ایک اس قدر شدید کروٹ لی کہ اس کا اپنے اوپر کنٹرول نہ رہا اور اس کے ہاتھ آہستہ آہستہ اس کے پیٹ سے ہوتے ہوئے اس کی ٹانگوں کے درمیان جانے لگے      رضی اس کے پیچھے کھڑا تھا اس لیے  سویرا کو لگا کے وہ ضرور اس کے ہاتھوں سے اوجھل ہے اس لیے اس نے اپنا ایک ہاتھ اپنی گود میں ہی رکھا جبکہ دوسرا ہاتھ اپنی ٹانگوں کے درمیان میں لے جا کر جیسے ہی اپنی پھدی پر رکھا تو اس کی شلوار شدید گیلی ہو چکی تھی اور اس کے جسم نے ایک جھرجھری سی لی جسے اس کے بیٹے نے بھی محسوس کر لیا      رضی ایک لمحے کو آگے کی طرف جھک کر اپنے ماں کے مموں کا نظارہ کرنے لگا جب اسے احساس ہوا کہ اس کی ماں کا ایک ہاتھ اپنی ٹانگوں کے درمیان میں حرکت کر رہا ہے    
 
 
 رضی نے حیرت سے مڑ کر کھڑکی کی طرف اپنی بہن کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ کر مسکرا رہی تھی کیونکہ وہ بھی دیکھ چکی تھی کہ اس کی ماں کی شہوت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اس کا اپنے اوپر کنٹرول نہیں رہا اور وہ اپنے بیٹے سے اپنے کندھے دباتے ہوئے اپنی پھدی رگڑ رہی ہے     ماریہ یہ سب کچھ دیکھ کر خود بھی اس قدر گرم ہو گئی کہ اس کا ہاتھ بھی اس کی پھدی پر جاکر حرکت کرنے لگا     عاشی نے اپنے چھوٹے بھائی کو ایک بار پھر سے اشارہ کیا اور یہ اشارہ ایک بار پھر ایک قدم آگے بڑھنے کا تھا      رضی جو کہ اس وقت مکمل طور پر اپنی ماں کی شہوت میں گرفتار تھا اب اس کے دل سے ہر طرح کا خوف نکل چکا تھا کہ وہ جانتا تھا کہ اس کی ماں بھی اس وقت شہوت میں ڈوبی ہے     اس نے اپنی بہن کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا    
 
 
 سویرا شہوت میں ڈوب کر مکمل طور پر اپنا کنٹرول کھو چکی تھی اور بہت تیزی سے اپنی ٹانگوں کے درمیان میں اپنے ہاتھ کو ہلا رہی تھی      سویرا اس قدر گرم ہو چکی تھی کہ اس کا دل کر رہا تھا کہ ابھی اس کا بیٹا اس کے قمیض کے اندر ہاتھ گھسائے اور اس کے مموں کو پکڑ کر رگڑ کر رکھ دے      رضی بھی اب رکنے والا نہیں تھا اس نے بھی فیصلہ کرلیا تھا کہ اور کچھ نہیں تو آج تو وہ اپنی ماں کے مموں کو چھو کر ہی رہے گا     اب کی بار  رضی کندھوں کو دباتے ہوئے جب نیچے کی طرف آیا تو اس نے نہ رکنے کا فیصلہ کیا اور اپنے ہاتھ نیچے لے جاتے ہوئے اپنی ماں کے مموں پر رگڑتے ہوئے اس کی قمیض کے اندر گھسا دئیے    
 
 
 رضی نے آہستہ آہستہ اپنے ماں کی قمیض کے اندر اپنے دونوں ہاتھ گھسائے اور بہت آرام سے اور پیار سے اپنی ماں کے مموں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر ہلکا سا دبا دیا      سویرا کے ممے کمدیحہ بڑے تھے جوکہ  رضی کے ہاتھوں میں آنے سے قاصر تھے مگر پھر بھی جس طرح اس کے ہاتھوں میں اپنی ماں کے ممے آئے اس نے پیار سے دبانا اور اپنی ماں کے نپلز کو اپنی انگلیوں کے درمیان میں مسلنا شروع کردیا      سویرا جو مکمل طور پر اپنی شہوت میں ڈوبی اپنے پھدی کو رگڑ رہی تھی اسے لگا جیسے اس کے دل کی خواہش پوری ہو گئی ہو اور بالآخر اس کا بیٹا اس کے مموں تک پہنچ ہی گیا    
 
 
اپنے بیٹے کے ہاتھوں کو اپنے مموں پر محسوس کرتے ہی  سویرا کی شہوت اس قدر بڑھ گئی کہ اس کا ہاتھ فل تیز رفتار کے ساتھ اس کی پھدی کو رگڑنے لگا اور اس کے جسم نے ہلکے ہلکے جھٹکے کھانا شروع کر دیے      سویرا جو کل رات کو پلان بنا رہی تھی کہ کس طرح اپنے بیٹے کو پٹا کر اس سے چدوائے صبح کو اس کا بیٹا اس کے مموں کو رگڑ رہا تھا اور وہ اپنے بیٹے سے اپنے ممے مسلواتے ہوئے پھدی کو رگڑ رہی تھی     اسے لگا جیسے اسے کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور اس کی قسمت اس کی خواہش کے مطابق چمک اٹھی ہے    
 
 
 سویرا اپنا آپ مکمل طور پر اپنے بیٹے کو سونپ چکی تھی     اور اس کے پیچھے کھڑا  رضی اپنی ماں کے مموں کو مکمل آزادی کے ساتھ مزے سے رگڑ رہا تھا     جب کہ کھڑکی کے باہر کھڑی عاشی اپنے ماں اور اپنے بھائی کی شہوت بھری داستان اپنی آنکھوں کے سامنے رقم ہوتے دیکھ کر اپنی پھدی کو رگڑ کر خود بھی اپنی گرمی کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی     اپنی ماں کے ممے رگڑتے ہوئے  رضی نیچے جھکا اور اپنے ہونٹ اپنی ماں کی گردن پر پیوست کر دئیے اور چومنے لگا     جیسے ہی  سویرا نے اپنی گردن پر اپنے بیٹے کے ہونٹ محسوس کیے تو وہ ایک دم جیسے پگھلنے ہی لگی     کیونکہ گردن پر چومنا ہمیشہ سے ہی اس کی کمزوری رہی تھی      رضی اپنی ماں کے ممے دباتے ہوئے اس کی گردن کو فل محبت اور شہوت کے ساتھ چوم رہا تھا جب کہ  سویرا فل مستی میں اپنی پھدی کر رگڑتے ہوئے فارغ ہونے لگی تھی     جب کہ کھڑکی کے باہر کھڑی عاشی اپنی پھدی کو تیزی کے ساتھ رگڑتے ہوئے پہلے ہی فارغ ہو رہی تھی      سویرا جیسے ہی فارغ ہونے کے قریب ہوئی اس کے جسم نے اس قدر شدید جھٹکے کھانے شروع کر دیے کہ  رضی سمجھ گیا کہ اس کی ماں فارغ ہونے کے قریب ہے      سویرا شہوت میں ڈوبی اپنا ایک ہاتھ اوپر لاکر  رضی کے سر کو دبانے لگی      رضی سمجھ گیا اور اس نے اپنی ماں کی گردن چومنے کی رفتار مزید تیز اور شدید کردی جبکہ بہت تیزی کے ساتھ وہ اپنی ماں کے ممے بھی دبانے لگا      سویرا مزے کی انتہا گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی فارغ ہو رہی تھی اور اسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی اس قدر شدت کے ساتھ فارغ نہیں ہوئی    
 
 
 
 سویرا کی سانس پھول چکی تھی اور اس کے دل کی دھڑکن شدید تیز تھی      سویرا نے بہت پیار سے اپنے ہاتھوں سے  رضی کے ہاتھ پکڑ کر اپنے قمیض سے نکالے اور اٹھ کر اس کے سامنے کھڑی ہو گئی      رضی کرسی کے پیچھے کھڑا تھا اس لیے اس کی ٹراوزر میں بنا ہوا تمبو اس کی ماں کو نظر نہ آیا     مگر اس کے چہرے پر ایک سکون اور اطمینان تھا اور وہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی اور بولی    
 
 
 سویرا : " تم تو بہت اچھے کندھے دباتے ہو بیٹا اگر مجھے پتا ہوتا تو میں پہلے بھی تم سے دبوا لیتی روز کام کرکے اتنا تھک جاتی ہوں     اچھا اگر عاشی آئے تو اسے کہنا کہ کچن کی باقی کی صفائی بھی مکمل کر دے میں ذرا نہا کر آتی ہوں     "
 
 
 رضی حیران تھا کہ اس کی ماں اس طرح ردعمل دے رہی ہے جیسے ابھی ابھی کچھ ہوا ہی نہیں     جبکہ حقیقت تو یہ تھی کہ ابھی کچھ دیر پہلے ایک لڑکا اپنی ماں کے ممے دبا تے ہوئے مزے لے رہا تھا جبکہ ایک ماں اپنے بیٹے کے ہاتھوں میں اپنے ممے دے کر اپنی پھدی کو رگڑ کر اپنی پھدی کا پانی نکال رہی تھی جبکہ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے باہر کھڑی ایک لڑکی اپنی ماں اور اپنے بھائی کی شہوت میں گرفتار ہو کر اپنی پھدی کا پانی نکال چکی تھی      سویرا اسی طرح مسکراتے ہوئے کچن سے نکل گئی اور سیدھا اپنے کمرے میں جاکر نہانے کے لیے واش روم میں گھس گئی    
 
 
عاشی اپنی ماں کو جاتا دیکھ کر سیدھا بھاگ کر کچن میں داخل ہوئی اور اپنے بھائی کو آ کر گلے سے لگا لیا     اور اس کا گال چوم کر بولی    
 
 
ماریہ : " کیا بات ہے میرے پیارے بھائی کی آج تو تم نے مزا ہی کرا دیا     پتہ ہے تم دونوں کو دیکھتے ہوئے میں خود بھی اس قدر گرم ہو گئی تھی کہ میں بھی فارغ ہو کر آئی ہوں     اور میں نے تمہیں کہا تھا نہ میں تمہاری مدد کروں گی اور دیکھو کچھ ہی دیر میں میں نے تمہیں امی کے مموں تک پہنچا دیا ہے تم بھی کیا یاد کروگے اپنی بہن کے احسان     "
 
 
 رضی : " کس بات کا احسان یار تم نے تو مجھے مزید مشکل میں ڈال دیا ہے     تم اور امی تو اپنے ہاتھوں کو رگڑ کر فارغ ہو چکے ہو میرا تو تمہیں احساس ہی نہیں     دیکھو تو کیا حالت ہو رکھی ہے میری اب مجھے بتاؤ میں کہاں جاؤں     "
 
 
عاشی نے حیرت سے اپنی نظریں جھکا کر اپنے بھائی کے ٹروزر کی طرف دیکھا تو اسے حیرت ہوئی کیونکہ اس کے بھائی کا لن صبح کی نسبت مزید بڑا اور سخت اکڑا ہوا لگ رہا تھا     ماریہ کو اپنے بھائی پر ترس آنے لگا مگر اس نے کچھ بولنے کے بجائے اپنے بھائی کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور کچن سے باہر نکل گئی     باہر ٹی وی لاؤنج میں جا کر اس نے  رضی کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود اپنی ماں کے کمرے کا جائزہ لینے لگی     جب اسے اس بات کا یقین ہو گیا کہ اس کی ماں نہانے میں مصروف ہے اور جلدی باہر نہیں نکلے گی تو وہ تسلی سے آ کر اپنے بھائی کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں صوفے پر بیٹھ گئی     ماریہ کو ہمیشہ سے ہی کسی مرد کا لن اپنے ہاتھ میں لینے کی شدید خواہش تھی اور اس سے بھی بڑی خواہش یہ تھی کہ اگر وہ لن اس کے بھائی یا اس کے باپ کا ہوتا     کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہی انسیسٹ کی شوقین تھی اور آج اس کا یہ شوق کچھ حد تک پورا ہونے لگا تھا    
 
 
عاشی نے صوفے پر بیٹھتے ہیں اپنے بھائی کا ٹروزر نیچے کھینچا اور اس کا لن ایک دم جھٹکا کھا کر باہر نکل کر لہرانے لگا      رضی اپنی بہن کے سامنے بے حد شرمانے لگا     عاشی نے اس کی اس شرم کو محسوس کر لیا     وہ خود بھی محسوس کرنا چاہتی تھی کہ کیسا لگتا ہے جب ایک عورت کے ممے کوئی مرد دباتا ہے تو     اس لئے عاشی نے اپنی قمیض کا دامن آگے سے اوپر اٹھایا اور  رضی کا ہاتھ پکڑ کے اپنی قمیض کے نیچے سے اندر گھسا دیا     اس سمجھ گیا کہ اسے کیا کرنا ہے اور وہ اپنا ہاتھ اوپر لے جا کر سیدھا اپنی بہن کے ممے کو پکڑ کر دبانے لگا     ماریہ کے ممے اس کی ماں کی نسبت کمدیحہ چھوٹے تھے مگر پھر بھی اتنے بڑے تھے کہ  رضی کے ہاتھ میں آتے ہی  رضی کے جسم میں مزے کی شدید لہر دوڑنے لگی اور وہ بہت محبت کے ساتھ اپنی بہن کے ممے کو دبانے لگا    
 

 
عاشی کو بہت مزہ آنے لگا اور وہ مزے میں اپنے بھائی کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اس کی مٹھ لگانے لگی     عاشی گھر کے کام بہت کم ہی کرتی تھی اس وجہ سے اس کے ہاتھ بہت نرم اور ملائم تھے اور  رضی کو اپنے لن کے اوپر اپنی بہن کے ہاتھ اس قدر مزہ دے رہے تھے کہ وہ کچھ ہی دیر میں فارغ ہونے لگا      رضی کے لن سے نکلتی ہوئی منی کو دیکھ کر عاشی بہت حیران ہو رہی تھی     جبکہ  رضی اپنی بہن کے ممے کو دباتے ہوئے اپنی منی کا ایک ایک قطرہ اپنی بہن کے ہاتھوں میں ہی نکالے جا رہا تھا    
 
 
جیسے ہی  رضی فارغ ہوا تو عاشی نے ٹیبل سے ٹشو کر ساری منی اپنے ہاتھوں سے اور اپنے چھوٹے بھائی کے لن سے صاف کردی      رضی شدید سرور کے عالم میں اپنی بہن کو دیکھتے ہوئے بولا    
 
 
 رضی : " آپی آج تو مزہ ہی آگیا     تھینک یو     "
 
 
ماریہ اپنے بھائی کی یہ بات سن کر مسکرانے لگی اور اسے اپنے چھوٹے بھائی کی معصومیت پر بہت پیار آنے لگا     اس نے مسکرا کر اپنے بھائی کے گال کو چوما اور آنکھ مارتے ہوئے بولی    
 
 
ماریہ : " ابھی تو صرف شروعات ہے میری جان آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا     "
 
 
 رضی ایک ہی دن میں اپنی ماں کے اور اپنی بڑی بہن کے مموں کو رگڑ چکا تھا     اور اس کی بڑی بہن نے اس کے لن کی مٹھ بھی لگائی تھی     اسے لگا کہ اگر ابھی یہ سب کچھ رک بھی جائے تب بھی وہ اسی مزے میں پوری زندگی گزار سکتا ہے مگر عاشی کی بات سن کر اس کی خوشی دوبالا ہوگئی کیونکہ اسے اب یقین ہو گیا تھا کہ اس کی بہن اب اس کی زندگی کو خوبصورت بنا کر ہی دم لے گی     وہ اپنے ذہن میں یہ سوچنے لگا کے سب سے پہلے وہ کسے چودنے میں کامیاب ہوگا اپنی بڑی بہن کو یا اپنی ماں کو ؟؟؟
 
 رضی کا آج کا دن بہت خوبصورت جا رہا تھا     ایک ہی دن میں اس نے اپنی ماں اور اپنی بہن کے مموں کو چھو لیا تھا     اب اسے اپنے راستے میں کوئی رکاوٹ نظر نا آ رہی تھی      رضی ٹی وی لاؤنج سے اٹھا اور کمرے میں آ گیا جہاں اسکی ماں ابھی ابھی نہا کر نکلی تھی اور تولیے سے بال سکھانے میں مصروف تھی      رضی کو کمرے میں آتا دیکھ کر  سویرا کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آ گئی      رضی واش روم میں جاتے ہوے اپنی ماں کے پاس رکا اور اس کے پاس ہو کر پیار سے اسکا گال چوم لیا جبکہ  رضی نے اپنا ہاتھ اپنی ماں کی کمر کے گرد پھیر کر ہٹا لیا      سویرا نے پیار سے  رضی کو دیکھا اور مسکرا دی      رضی سیدھا واشروم میں گھس گیا اور نہانے لگا    
 
 
سارا دن  سویرا کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی     جبکہ ماریہ اپنی ماں کی خوشی کی وجہ جانتی تھی مگر خاموشی سے بس مزہ لینے میں مصروف تھی     شام کو کھانا کھانے کے بعد  رضی اور اسکی بڑی بہن ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھے جبکہ  سویرا گھر کے کام کر رہی تھی     ماریہ نے سرگوشی کرتے ہوے اپنے بھائی سے کہا    
 
ماریہ : " آج امی بہت خوش لگ رہی ہیں     انھیں کوئی مرد جو مل گیا ہے اپنی پیاس بجھانے کے لئے     آج رات کو بہت اچھا موقع ہے     جلتی پر تیل ڈال دو     زیادہ انتظار کیا تو امی ٹھنڈی پر جائیں گی پھر لگاتے رہنے مٹھ     آج رات جتنا آگے جا سکتے ہو لازمی جانا     "
 
 
 رضی اپنی بہن کی باتیں سن کر گرم ہونے لگا     اب وہ خود بے صبری سے رات کا انتظار کرنے لگا     اسے ڈر بھی بہت لگ رہا تھا مگر اسکی شہوت اس قدر بڑھ چکی تھی کہ اس نے آج رات اپنی ماں کو ننگا کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا     جبکہ دوسری طرف  سویرا کی بے چینی بھی بڑھ چکی تھی     وہ خود اس انتظار میں تھی کہ کب رات ہو اور وہ اپنے بیٹھے کے ساتھ سو سکے     وہ جانتی تھی کہ اس سے ہمت نہیں ہوگی خود سے کچھ کرنے کی     مگر اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنا آپ اپنے بیٹے کو سونپ دے گی اور وہ جو کرنا چاہے وہ نہیں روکے گی    
 
 
جیسے تیسے کر کے رات آئی اور دونوں ماں بیٹے کے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو چکی تھی      سویرا نے اپنی سرخ رنگ کی نائیٹی نکالی اور نہا کر اور ہلکا سا میک اپ کر تیار ہو کر بیڈ پر سونے کے لئے آئی جہاں  رضی پہلے ہی لیٹا ہوا تھا      رضی نے اپنی ماں کو دیکھا تو وہ اسے بہت خوبصورت لگی     ان دونوں کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ تھی مگر کوئی کچھ نہیں بول رہا تھا      رضی بھی اٹھ کر باتھروم میں نہا کر آیا     بیڈ پر اسکی ماں آنکھیں بند کیا سونے کی اداکاری کر رہی تھی مگر آج نیند کہاں آنی تھی     شہوت کی آگ جو ماں بیٹے کے اندر لگی تھی وہ بجھنے تک سونا نا ممکن تھا      رضی نے نظر بھر کر اپنی ماں کو دیکھا اور بلب بند کر کے بیڈ پر آ کر لیٹ گیا      سویرا نے شرم کے مارے  رضی کی طرف اپنی پیٹھ کر رکھی تھی     جبکہ  رضی ڈر کے مارے ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا     آخر جو مرضی ہو وہ تھی تو اسکی ماں     وہ کوئی جلد بازی نہیں کرنا چاہتا تھا اور ذہنی طور پر تیار تھا کہ اگر اسکی ماں نے اسے رکنے کا کہا تو وہ اپنی ماں کی بات نہیں ٹالے گا     جبکہ دوسری طرف  سویرا شہوت میں ڈوبی اپنے بیٹے کے چھونے کا انتظار کر رہی تھی    
 
 
 رضی آہستہ سے اپنی ماں کے پاس ہوا اور اپنا ہاتھ اسکی کمر کے گرد گھما کر اسکی پیٹ پر رکھ دیا      سویرا کا جسم بھرا بھرا اور نرم تھا مگر باہر نکلا ہوا بلکل نا تھا      رضی نے جیسے ہی اپنی ماں کے پیٹ پر ہاتھ رکھا تو  سویرا کو ایک جھٹکا لگا اور اس نے اپنا نچلا ہونٹ دانت میں دبا کر اپنے آپ پر قابو کیا      رضی کچھ دیر تک اپنی ماں کے پیٹ پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرتا رہا جس سے  سویرا کے جسم میں اور اسکی ٹانگوں کے بیچ آگ لگ جل رہی تھی      رضی نے آہستہ سے اپنی ماں کے قریب ہو کر اسکی گردن کو چوما جو وہ جان چکا تھا کہ اسکی ماں کی کمزوری ہے اور بار بار چومتے ہوے اس نے اپنا جسم اپنی ماں کے جسم کے ساتھ جوڑ لیا      رضی کا لن اکڑ کر سخت ہو چکا تھا جو کہ سیدھا اسکی ماں کی گانڈ کی لکیر میں گھسنے لگا      سویرا اپنے بیٹے کا لن اپنی گانڈ کی لکیر میں محسوس کر کے مزید تڑپنے لگی مگر اس میں ہمت ہی نہیں جمع ہو رہی تھی کہ وہ کھل کر اپنے بیٹے کو اپنے جذبات دکھا سکے    
 
 
 رضی جانتا تھا اسکی ماں جاگ رہی ہے مگر پھر بھی اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ کھل کر اپنی ماں کو چود سکے     اس لئے وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا      رضی نے اپنی ماں کی گردن چومتے ہوے اپنا ہاتھ اسکے پیٹ سے مموں پر لے گیا اور اسکے ایک ممے پر ہاتھ رکھ دیا      رضی نے اپنے ہاتھ کو حرکت نا دی اور اپنی ماں کے رد عمل کا انتظار کیا     جب  سویرا نے اسے نا روکا تو  رضی کی ہمت بڑھی اور اس نے اپنی ماں نائیٹی کے اوپر سے آہستہ آہستہ اپنی ماں کے ممے کو دبانا شروع کر دیا جبکہ اسکا لن کپڑوں کے اوپر سے ہی اسکی ماں کی گانڈ میں رگڑ کھا رہا تھا      سویرا اب نشے میں ڈوب چکی تھی     اسکے بیٹے کے ہونٹ اسکی گردن پر حرکت کر رہے تھے جبکہ اپنے ممے پر اپنے بیٹے کا ہاتھ اور اپنی گانڈ کی لکیر میں اسکا لن محسوس کر کے  سویرا کی شہوت عروج پر تھی اور اسکی پھدی گیلی ہونا شروع ہو چکی تھی     نا جانے کتنے عرصے بعد کسی مرد نے اسے چھوا تھا وہ بھی اس قدر محبت اور شدت کے ساتھ کہ  سویرا چدوانے کے لئے بے تاب ہونے لگی    
 
 
 سویرا اپنی پوری زندگی اپنے شوہر کے علاوہ کبھی کسی اور مرد کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی     مگر اسکا شوہر ہر سال کچھ دن کے لئے ہی گھر آتا اور ان کچھ دنوں کی چدائی سے ہی اسے پورا سال گزارنا ہوتا تھا     مگر اس بار دوسرا سال چل رہا تھا اسکا شوہر گھر نا آیا تھا     سال میں صرف چند دن کی چدائی سے اسکا کبھی دل نہیں بھرا تھا     مگر جب سے اس نے اپنے بیٹے کا لن دیکھا اسکے لئے برداشت کرنا مشکل ہوگیا     اور اپنے سگے بیٹے کی طرف کشش کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسکے شوہر نے کبھی محبت کا اظہار نا کیا تھا اور نا ہی کبھی اسے محبت ہوئی تھی     بس گزارا چل رہا تھا جیسے کہ ہمارے ملک کے بیشتر گھروں میں چلتا ہے     مگر جس قدر محبت اسے اپنے بیٹے کی آنکھوں میں اپنے لئے نظر آئی اس کے اندر ایک ایسا احساس پیدا ہوا جو کبھی اس نے سوچا بھی نا تھا      سویرا کو اپنے بیٹے سے محبت ہو گئی تھی     وہ محبت جو ایک معشوقہ اپنے عاشق سے کرتی ہے     اور اکثر ہی جس چیز کو معاشرے میں بہت غلط سمجھا جاتا ہے اسی سے بغاوت کرنے میں لذت بھی زیادہ آتی ہے      سویرا اچھی طرح جانتی تھی کہ اسکی گردن چومتا ' اسکے مموں کے ساتھ کھیلتا اور اسکی اسکی گانڈ میں لن پھیرتا ہوا مرد اور کوئی نہیں بلکہ اسکا سگا بیٹا تھا     مگر نا جانے کیوں جیسے ہی یہ خیال اسکے ذہن میں آتا کہ وہ ایک ماں ہو کر اپنے بیٹے سے چدوانے کے لئے بے تاب ہو رہی ہے اسکی شہوت مزید بڑھ جاتی اور اسکے لئے صبر کرنا ناممکن ہوتا جا رہا تھا    
 
 
 رضی اپنی ماں کے مموں کے ساتھ کھیلتا ہوا اپنا ہاتھ نیچے کی طرف لایا اور اپنی ماں کی نائیٹی پکڑ کر اوپر کھینچنا چاہا مگر ناکام رہا     تبھی  سویرا نے اپنا جسم تھوڑا سا اوپر اٹھایا اور  رضی سمجھ گیا اسے کیا کرنا ہے     اس نے نائیٹی کو پکڑا اور اوپر کھینچ کر اتار دیا ...  سویرا نے برا نہیں پہنا تھا اور اب وہ اوپر سے بلکل ننگی ہو چکی تھی      رضی نے اپنی ماں کی نائٹی اتاری اور جیسے ہی دوبارہ مموں پر ہاتھ رکھا تو اسکا ہاتھ اپنی ماں کے ننگے مموں پر لگا     تبرا اے جسم نے بھی جھرجھری سی لی     اسکا مما اسکے بیٹے کے ہاتھ میں تھا جسے وہ بہت پیار سے اپنے ہاتھ میں پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا    
 
 
 سویرا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا     اب اس کے لئے برداشت کرنا ناممکن تھا     اس نے سوچا جس رفتار سے میرا بیٹا جا رہا ہے یہ تو اپنی ماں کو تڑپا تڑپا کے مار دے گا      سویرا نے کروٹ لی اور سیدھا لیٹ گئی      رضی نے اپنی ماں کے ایک ممے کو ہاتھ میں لیا اور دوسرے ممے کو منہ میں لینے کے لئے آگے بڑھا      سویرا کے ذہن میں ایک دم خیال آیا کہ آخری بار اسکے مموں پر اگر کسی کا منہ لگا تھا تو وہ  رضی ہی تھا جب وہ اسکو دودھ پلاتی تھی     کیوں کہ اسکے شوہر نے کبھی اسکے ممے نہیں چوسے تھے صرف ہاتھ سے ہی دباتے تھے      سویرا کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اور  رضی اپنی ماں کا مما منہ میں لے کر بہت پیار سے اسکا نپل چوس رہا تھا      سویرا نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کے جس بچے کو وہ اپنا دودھ پلا رہی ہے یہی ایک دن بڑا ہو کر اسکے ممے چوس رہا ہوگا اور وہ اسی کا لن اپنی پھدی میں لینے کے لئے ترسے گی    
 
 
 سویرا نے حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا بازو گھما کر اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لیا      رضی اپنی ماں کے گلے لگاتے ہی مزید شدت کے ساتھ اپنی ماں کا مما چوسنے لگا      سویرا نے اپنے بیٹے کو گلے لگا کر اسکا دوسرا ہاتھ اپنے ممے سے اٹھایا اور سیدھا نیچے لے جا کر اپنی نائیٹی کی ٹراؤزر کے اندر گھسا کر اپنی پھدی پر رکھ کر دبا دیا اور امید کرنے لگی کہ شاید اسکے بیٹے کو علم ہو کہ اسے کرنا کیا ہے      رضی جو کے اپنی خالہ کو چودنے کے بعد کمدیحہ کچھ سیکھ چکا تھا سمجھ گیا اسے کیا کرنا ہے     اسے اپنی ماں کی پھدی بہت گیلی لگی اور اسے احساس ہوا کہ اسکی ماں بھی اتنا ہی تڑپ رہی ہے جتنا کہ وہ    
 
 
 رضی اپنی ماں کے ممے چوستے ہوے اسکی پھدی رگڑ رہا تھا اور  سویرا اپنے بیٹے کو گلے لگائے مستی میں تڑپ رہی تھی     تبھی  سویرا کو اپنے بیٹے کے لن کا خیال آیا     وہ لن جسکو دیکھ کر ہی وہ اپنے بیٹے کی شہوت میں گرفتار ہوئی تھی     اور جب سے دیکھا تھا وہ اسے ہاتھ میں لینا چاہتی تھی اور مانپنا چاہتی تھی      سویرا نے کروٹ لے کر  رضی کی طرف منہ کیا اور  نے اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جا کر اپنے بیٹے کی ٹراؤزر میں گھسایا اور اسکا لن پکڑ لیا     اس سے پہلے تک  سویرا نے صرف اپنے خاوند کا لن ہی چھوا تھا مگر اسکے بیٹے کا لن اسکے باپ سے کمدیحہ بڑا اور موٹا لگ رہا تھا     شاید اسکی وجہ یہ تھی کہ عمر کی وجہ سے اسکے خاوند کے لن میں وہ سختی نہیں رہی تھی      سویرا اپنے بیٹے کا لن ہاتھ میں لے کر مست ہو چکی تھی اور اسکی پھدی پہلے سے زیادہ گیلی ہونے لگی جسے  رضی نے بھی محسوس کر لیا      رضی نے اپنی ماں کا مما منہ سے نکالا اور اٹھ کر اسکی ٹانگوں کے پاس بیٹھ کر اپنی ماں کا ٹراؤزر کھینچا      سویرا نے اپنی گانڈ اٹھا کر ساتھ دیا اور  رضی اپنی ماں کو مکمل طور پر ننگا کر چکا تھا      رضی سیدھا ٹانگوں کے درمیان بیٹھا اور اپنی ماں کی ٹانگیں اوپر اٹھا دیں      سویرا اپنے بیٹے کے لئے ٹانگیں اٹھا چکی تھی اور اب وہ اسکے اگلے قدم کا انتظار کر رہی تھی     تبھی اسے اپنی پھدی پر اپنے بیٹے کی زبان محسوس ہوئی جو بہت شدت سے اپنی ماں کی پھدی چاٹنے لگا    
 
 
اس سے پہلے تک  سویرا نے صرف سنا تھا کہ کچھ میاں  بیوی منہ کا استعمال کرتے ہیں مگر اس نے کبھی اپنے خاوند کا لن منہ میں لیا نہ ہی اسکے خاوند نے کبھی اسکی پھدی چاٹی تھی     پہلی بار کوئی اسکی پھدی چاٹ رہا تھا اور  سویرا نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ اس قدر مزہ بھی آ سکتا ہے      رضی نے اپنی ماں کی فدی چاٹتے ہوے اسکی پھدی میں انگلی بھی ڈال دی      سویرا اب مکمل طور پر شہوت سے تڑپ رہی تھی اور اگلے کچھ منٹوں میں ہی اسکا پورا جسم کانپنے لگا اور  سویرا فارغ ہو چکی تھی     اتنا مزہ اسے زندگی میں کبھی نہیں آیا تھا اور نا ہی کبھی وہ اتنا شدت سے فارغ ہوئی تھی      رضی نے اپنی انگلی باہر نکال کر اپنی انگلی چاٹ کر اپنی ماں کی پھدی کا رس چکھا      سویرا نے  رضی کا سر پکڑا اور اپنے اوپر کھینچ لیا اور اسکا چہرہ اپنے چہرے کے پاس لا کر اپنے ہونٹ  رضی کے ہونٹوں سے ملا دئے     یہ پہلی بار تھا کہ ان دونوں کے ہونٹ آپس میں ملے     یا یہ کہا جائے کہ دوسری بار     کیوں کہ پہلی بار  رضی کے ہونٹ اسکی ماں کی پھدی کے ہونٹوں سے مل چکے تھے     وہ دونوں شدت کے ساتھ ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چومنے لگے     کچھ ہی لمحوں بعد  سویرا نے  رضی کو اپنے اوپر سے ہٹایا اور ایک دم بیڈ سے نیچے اتری     جبکہ  رضی جسکا لن اکڑ کر پھٹنے والا ہو رہا تھا بے چین ہوگیا    
 
 

مگر  سویرا بیڈ سے اتر کر لائٹ آن کر چکی تھی اور اب پورے کمرے میں روشنی تھی جہاں بیڈ پر  رضی اپنی ٹراؤزر میں تنبو بنائے لیٹا تھا اور اسکی ماں اسکے سامنے مکمل ننگی تھی     وہ دونوں پہلی بار ایک ساتھ ایک دوسرے کو مکمل ننگا دیکھ رہے تھے     وہ دونوں ہی ایک دم شرما کر مسکرانے لگے      رضی کی دل کی ساری خواہشیں پوری ہو رہی تھیں     اسکی ماں ننگی ہو کر چلتی ہوئی اسکی طرف آ رہی تھی      رضی کو یقین ہوگیا کہ اسکی ماں کے سامنے واقعی ساری خوبصورتی ہی قربان ہونے کو تیار تھی      سویرا کے جسم پر بالوں کا نام و نشان نا تھا     اور اسکا جسم بہت ہی خوبصورت ' سیکسی اور گورا تھا      سویرا چلتی ہوئی بیڈ کے پاس آئی اور  رضی کے ٹراؤزر کو پکڑ کر اتر دیا     اسکی نظروں کے سامنے اسکے بیٹے کا لن لہرانے لگا      سویرا سے رہا نا گیا اور اس نے  رضی کے لن کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا      رضی کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اسکی ماں اسکا لن چوس رہی ہے      رضی نے اپنی شرٹ اتار دی اور مکمل ننگا ہوگیا    
 
 
کچھ دیر  رضی کے لن کو چوپا لگانے کے بعد  سویرا نے اچھی طرح تھوک سے گیلا کر دیا      سویرا اوپر اٹھی اور  رضی کے اوپر آ گئی      رضی اپنی ماں کے ممے اتنا قریب سے دیکھ کر پاگل ہونے لگا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی ماں کے مموں کو پکڑ لیا     جبکہ  سویرا اپنے بیٹے کے لن کو پکڑ کر اسکے لن کی ٹوپی اپنی پھدی پر رگڑ رہی تھی      سویرا نے اپنے بیٹے کے لن کو اپنی پھدی پر سیٹ کیا اور آہستہ سے بیٹھتی چلی گئی      سویرا اپنے بیٹے کا لن اپنی پھدی میں لے چکی تھی     وہ دونوں اس لائن کو پھلانگ چکے تھے جہاں سے واپسی نا ممکن تھی    
 
 
 رضی کا لن اسکی ماں کی پھدی میں مکمل طور پر غائب ہو چکا تھا     اور دونوں ماں بیٹا مزے کی گہرائیوں میں اتر چکے تھے      سویرا اوپر کو اٹھی اور ایک بار پھر اپنے بیٹے کے لن پر بیٹھتی گئی     جتنا اس نے سوچا تھا اس کہیں زیادہ مزہ آ رہا تھا     آہستہ آہستہ  سویرا اپنی رفتار بڑھاتی گئی اور ماں بیٹے کی چدائی کی ابتدا ہو چکی تھی    
 
 
دونوں نے ابھی تک ایک دوسرے سے ایک لفظ تک نا بولا تھا     مگر وہ ایک دوسرے کے جذبات سے آشنا تھے      سویرا اوپر نیچے ہو کر  رضی کا لن اندر باہر کر رہی تھی جبکہ  رضی بھی ہر جھٹکے کے ساتھ اپنی ماں کو نیچے سے جھٹکا مارتا جس سے  سویرا کے منہ سے سسکاری نکل جاتی     کمرے میں تھپ تھپ کی آواز تھی یا پھر  سویرا کی سسکاریاں     کچھ دیر کی چدائی کے بعد  سویرا رکی اور بولی    
 
 
 سویرا : " بیٹا ! اوپر آؤ     "
 
 
یہ پہلی بات تھی جو آج کی رات اس کمرے میں کی گئی تھی      سویرا نے اوپر اٹھ کر اپنے بیٹے کا لن اپنی پھدی سے نکالا اور اسکے ساتھ لیٹ کر اپنی ٹانگیں اٹھا لیں      رضی اٹھ کر اپنی ماں کی ٹانگوں کے درمیان آیا اور اپنا لن ایک ہی جھٹکے میں اپنی ماں کی پھدی میں گھسا دیا      سویرا کے منہ سے سسکاری نکلی اور اسکے ساتھ ہی ایک بار پھر انکی چدائی شروع ہو گئی     ہر جھٹکے کے ساتھ  سویرا کے ممے اچھلتے اور پھر اپنی جگہ پر آ جاتے    
 
 
کچھ ہی دیر میں  سویرا کا جسم ایک بار پھر کانپنے لگا اور اس نے خاموشی توڑی    
 
 
 سویرا : " آہ      آہ     آہ     بیٹا اور تیز     اور تیز     آہ     آہ     رکنا مت     رکنا مت     آہ     آہ     اور تیز     اور تیز     آہ     آ آ آ ہ ہ ہ     آ آ آ آ آ آ ہ ہ ہ ہ ہ ہ     "
 
 
اور اسکے ساتھ ہی  سویرا ایک بار پھر فارغ ہو چکی تھی     اسکی پھدی سے پانی نکل کر باہر آ رہا تھا      رضی کا جسم بھی جھٹکے کھانے لگا اور اس نی اپنا لن باہر نکالا اور اپنی منی اپنی ماں کے پیٹ پر نکالنا شروع کر دی    
 
 
 
کتنا ہی حسین منظر تھا کہ  رضی سامنے اس کی ماں اپنے سیکسی جسم کے ساتھ ننگی لیٹی ہوئی تھی اور اس کے پیٹ پر اپنے بیٹے کی منی صاف نظر آ رہے تھی      رضی نے ایک بار نظر بھر کر اپنی ماں کو دیکھا تو اسے بہت پیار آنے لگا      رضی سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنا لن ایک بار پھر اپنی ماں کی پھدی کے اندر ایک ہی جھٹکے سے ڈالا اور اس کے اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹ چومنے لگا      سویرا جو کہ برسوں بعد اس زبردست چدائی سے بہت مست اور سکون میں تھی شدت کے ساتھ اپنے بیٹے کے ہونٹوں کو چومنے لگی اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا      رضی کچھ دیر اپنی ماں کے ہونٹ چومنے کے بعد اوپر اٹھا اور اس کے مموں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بولا    
 
 
 رضی : " امی کیسا لگا آپ کو ؟؟؟ مزا آیا ؟؟؟ آپ سوچ بھی نہیں سکتی کہ مجھے کتنی محبت ہے آپ سے اور میں کتنا تڑپتا رہا ہوں آپ کو چھونے کے لئے آپ سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے     اس لئے آج میں بہت خوش ہوں کہ مجھے آخر کار آپ مل ہی گئیں     میں جانتا ہوں آپ میری ماں ہے اور میں آپ کا بیٹا ہوں لیکن مجھے کسی قسم کی کوئی شرم نہ ہی کسی چیز کی کوئی پرواہ ہے مجھے جو چاہیے تھا وہ مجھے مل گیا ہے     اور امی اگر آپ نے مجھے اپنا لیں تو یقین مانئے میں آپ کو خوش کر دوں گا اور آپ کی ہر ضرورت پورا کروں گا اور آپ کو اتنا پیار دوں گا کہ آپ کی زندگی میں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دوں گا     "
 
 
 سویرا کو اپنے بیٹے پر بہت پیار آنے لگا اس نے  رضی کا چہرہ پکڑ کر ایک بار بہت پیار سے اس کے ہونٹ چومے اور بولی    
 
 
 سویرا : " بیٹا تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ میں اپنی پوری زندگی کس قدر نہ خوش رہی ہوں     اور اس بات کا احساس مجھے بھی کچھ دن پہلے ہی ہوا     مجھے کبھی کسی مرد کا پیار نہیں ملا اور نہ ہی مجھے کبھی کسی سے پیار ہوا ہے تمہارے ابو کے ساتھ بھی صرف ایک رشتہ ہے جس میں ہمیشہ نبھاتی آئی ہوں     مگر میری زندگی میں ہمیشہ پیار کی محبت کی کمی رہی ہے     مگر کچھ دن پہلے جب میں نے تمہیں میرے برا کو چومتے ہوئے مٹھ مارتے ہوئے دیکھا تھا تو نہ جانے مجھے ایسا کیا ہوا کہ میں تمہارے لن کو ہاتھ میں پکڑنے اور اندر لینے کے لئے بے تاب ہو گی     اور سچ یہی ہے کہ مجھے بھی کسی چیز کی کوئی شرم حیا پروا نہیں ہے میں جانتی ہوں میں تمہاری ماں ہوں اور میں ایک ماں ہوتے ہوئے میں اپنے بیٹے سے چدوا رہی ہوں     سننے میں چاہے یہ بات جتنی مرضی غلط لگے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے اس قدر مزہ آیا کہ اب مجھے صرف اور صرف تمہاری محبت چاہیے تم ہی ہو جو میری زندگی بھر کی ساری کمیوں کو پورا کر سکتے ہو     "
 
 
 رضی اپنی ماں کی باتیں سن کر خوش تو ہوا مگر ابھی ابھی اس کے اوپر جو انکشاف ہوا تھا وہ اس کے لئے بہت حیران کن تھا     اس کی ماں نے اسے اس کی برا کو چومتے اور سونگھتے ہوئے مٹھ مارتے ہوئے دیکھ لیا تھا      رضی اپنی ماں کے ممے کے اوپر جھکا اور اس کے ممے کے نپل کو منہ میں لے کر تھوڑا سا چوسا اور اوپر دیکھ کر اپنی ماں سے بولا    
 
 
 رضی : " امی آپ سوچ بھی نہیں سکتی کہ آپ کس قدر خوبصورت اور سیکسی ہیں میں نے آج تک آپ جیسی خوبصورت اور سیکسی عورت نہیں دیکھی اور آپ کا جسم اس قدر مزے دار ہے کہ دل چاہتا ہے آپ کو اسی طرح ننگا لٹا کر آپ کا جسم چومتا رہوں     اور آپ پریشان نہ ہوں میں آپ کی زندگی کی ساری کمی پوری کر دوں گا     بار بار کروں گا اور اتنا زوردار کروں گا کہ آپ اپنے بیٹے پر فخر محسوس کریں گے     "
 
 
 سویرا : " بس ہمیں یہ خیال کرنا ہوگا کہ تمہاری بہن کو اس بات کی کوئی بھنک نہ لگے     کیا گزرے گی اس پر جب اسے پتہ چلے گا کہ اس کی ماں اور اس کا بھائی یہ سب کچھ کرتے ہیں     اس لیے ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا     "
 
 
 رضی نے صرف ہاں میں سر ہلایا اور اپنی ماں کو ایک بار پھر چوم لیا     وہ دونوں باری باری بیڈ سے اٹھے اور باتھ روم جاکر اپنے آپ کو صاف کیا اور واپس آکر پھر سے لیٹ گئے     سونے سے پہلے نہ جانے کتنی دیر تک دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے کو گلے لگائے ایک دوسرے کے ہونٹ چومتے رہے    
 
 
 
صبح  رضی کی آنکھ کھلی تو اس کی بڑی بہن اسے اٹھانے کے لیے اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی      رضی نے آنکھیں کھولتے ہی اپنی بہن کو دیکھا تو مسکرا دیا اور اپنا ایک ہاتھ اپنی بہن کی ران پر پھیرنے لگا     ماریہ رات سے بے چین تھی یہ جاننے کے لیے کہ اس کی ماں اور اس کے بھائی کے درمیان میں آخر رات کو ہوا کیا تھا      رضی کے پوچھنے پر عاشی نے اسے بتایا کہ اس کی امی صبح صبح ہی خالہ کے گھر چلی گئی ہے کسی کام سے اور وہ کچھ دیر سے ہی آئیں گی اس لیے وہ دونوں گھر میں اکیلے ہیں تو وہ کھل کر بتا سکتا ہے      رضی اپنی بہن کی ران پر ہاتھ پھیرتا رہا اور اسے رات کی ساری کی ساری کہانی ایک ایک تفصیل کے ساتھ بتا دی     انسیسٹ کی دیوانی ماریہ نے جب یہ سنا کے حقیقی زندگی میں اسی کے گھر کے اندر ہی ماں بیٹے نے رات کو جم کر چدائی کی تو وہ فل گرم ہو گئی      رضی نے اپنی بڑی بہن کی تیز ہوتی سانسیں اور گرم جسم کو محسوس کر لیا تو وہ سمجھ گیا کہ اس کی بہن اس کی رات کی کہانی سن کر گرم ہو گئی ہے    
 
 
 رضی نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا ہاتھ اپنی بہن کی ران پر پھیرتے ہوئے آہستہ آہستہ اوپر کی طرف لے گیا اور اس کی پھدی پر جیسے ہی ہاتھ رکھا تو عاشی کے منہ سے سسکاری نکل گئی     ماریہ بہت ہی شہوت میں مبتلا ہوچکی تھی جبکہ اس کی پھدی بہت گیلی ہو چکی تھی     اس نے سوچا شاید اس کی بہن اسے ایسا سب کچھ کرنے سے روک دے مگر جب اسے اپنی بہن کی آنکھوں میں مستی اور شہوت نظر آئی تو وہ سمجھ گیا کہ اس کی بہن کی طرف سے اجازت مل چکی ہے      رضی اٹھ کر بیٹھا اور سیدھا اپنے بہن کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ لگا کر اس کے ہونٹ چومنے لگا جبکہ ایک ہاتھ سے اس کی پھدی کو مسلسل رگڑ رہا تھا     شہوت کے مارے ماریہ کے منہ سے سسکاریاں اور آہیں نکل رہی تھی       رضی نے ایک دم سے اپنے ہاتھوں سے ماریہ کے قمیض کو پکڑا اور اوپر کی طرف کھینچ کر اتار دیا     جیسے ہی اس کی بڑی بہن کی خوبصورت اور بڑے ممے اس کے سامنے آئے تو وہ پاگلوں کی طرح اس کے مموں پر جھپٹ پڑا اور اس کے ممے چوسنے لگا     ماریہ جو کہ انسیسٹ کے پیچھے دیوانی تھی آج جب اپنے ہی سگے بھائی سے اپنی پھدی رگڑواتے ہوئے اور اپنے ممے چومتے ہوئے دیکھ رہی تھی تو بہت ہی مست ہونے لگی اس کے لیے اب برداشت کرنا نا ممکن تھا اسے لگا جیسے اس کا خواب پورا ہو رہا ہے      رضی کو جب اپنی بڑی بہن کی شلوار فل گیلی ہوتی محسوس ہوئی تو اس نے اپنی بہن کو بیڈ پر لٹایا اور اس کی ٹانگوں کی طرف جا کے اس کی شلوار کو پکڑ کر کھینچ کر اتار دیا     ماریہ کے جسم پر بالوں کا نام و نشان نہ تھا  رضی سمجھ گیا کہ اس کی بہن تیار ہو کر ہی اس کے پاس آئی تھی     جیسے ہی عاشی ننگی ہوئی تو اس نے فورا اپنا ایک ہاتھ اپنی پھدی کے اوپر رکھ کر اپنی پھدی کو چھپانے کی کوشش کی اور بولی    
 
 
ماریہ : " بھائی دل تو بہت کر رہا ہے کہ میں امی کی طرح آپ سے یہی سیکس کروں مگر میں شادی سے پہلے اپنا کنواراپن کھونا نہیں چاہتی     تم ایسے اوپر سے ہی کر لو پلیز     "
 
 رضی : " آپ پریشان نہ ہوں آپی مجھے بھی آپ سے کوئی زبردستی نہیں کرنی میں تو بس آپ کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں اور آپ کو سکون پہنچانا چاہتا ہوں     آخر آپ نے مجھے امی کو چودنے میں اتنی مدد کی تو میں آپ کے لئے اتنا تو کرہی سکتا ہوں     "
 
 
یہ کہہ کر اس نے اپنی بہن کے ہاتھ ہٹایا اور اس کی ٹانگوں کو اوپر کی طرف کھڑا کر اس کی پھدی کے اوپر جھک گیا     عاشی نے صرف پورن فلموں میں ہی دیکھا تھا ایک بھائی کا اپنی بہن کی پھدی کو چاٹنا اب جب حقیقت میں یہ ہونے لگا تھا تو اسکی پھدی اس سے بھی زیادہ گیلی ہونے لگی      رضی کو اپنی بڑی بہن کی کنواری خوبصورت اور گلابی پھدی بہت ہی مزیدار لگی اور اس نے اپنی بہن کی پھدی چاٹنی شروع کردی     جیسے ہی  رضی کی زبان اپنی بہن کی پھدی پر پھری تو عاشی مزے سے تڑپنے لگی اور اس کا جسم کانپنے لگا      رضی بہت شدت کے ساتھ اپنی بہن کی پھدی چاٹ رہا تھا جبکہ عاشی اپنے مموں کو دباتے ہوئے فارغ ہونے کے قریب تھی    
 
ماریہ : " آہ     آہ     آہ     بھائی     آہ     آہ     آ آ آ آ ہ ہ ہ ہ     "
 
عاشی اپنے چھوٹے بھائی کے منہ پر ہی فارغ ہو گئی  رضی نے اچھی طرح سے اپنی بہن کا سارا رس چوس کر چاٹ کر صاف کیا اور اس کے ساتھ لیٹ کر اس کے مموں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بولا    
 
 
 رضی : " بس اب آپ خوش ہو جائیں گے جب تک آپ کی شادی نہیں ہوجاتی رات میں امی کے ساتھ اور دن میں چھپ کر آپ کے ساتھ ضرور ٹائم گزاروں گا     اور اسی طرح روز اپنی بہن کو بہت مزے دوں گا     "
 
 
ماریہ : " مزہ آگیا یار تم سوچ بھی نہیں سکتے میں نے کتنا مشکل سے اپنے اوپر قابو کیا ہے میرا تو دل کر رہا تھا کہ ابھی تمہارے کپڑے اتارو اور تم سے چدوا کر اپنا کنواراپن ختم کروں     پلیز مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر کبھی میں اپنے اوپر کنٹرول کھو بھی دو تو تم مجھے سمجھاؤ گے اور مجھے میرا کنوارہ پن ختم کرنے نہیں دوگے     اور ایک بار بس میری شادی ہو جائے اور میں سہاگ رات منا لو تو میرا وعدہ ہوگیا کہ ولیمے والے دن ہی میں تم سے چدواؤں گی     "
 
 
دونوں بہن بھائی کچھ دیر تک ہونٹ چومتے رہے     کچھ دیر کے بعد عاشی اٹھی اور کپڑے پہن کر باہر چلی گئی جبکہ  رضی نہا کر ٹی وی لاؤنج میں آ کر ناشتے کا انتظار کرنے لگا     تبھی اس کی ماں گھر میں داخل ہوئی اور اس نے آتے ہی ان دونوں کو ایک بریکنگ نیوز سنائی    
 
 
اور وہ نیوز یہ تھی کہ ابھی ان کے ابو کا فون آیا تھا جنھوں نے بتایا کہ دبئی میں ان کے ساتھ ایک پاکستانی فیملی بھی کام کرتی ہے جن کا ایک بیٹا ہے اور وہ ماریہ کے رشتے کے لئے پاکستان آنا چاہتے ہیں     اور بات یہ طے ہوئی تھی کہ  رضی کے ابو اور اس کے خالو بھی بہت جلد پاکستان آئیں گے اور عاشی کا رشتہ طے کرنے کے بعد اس کی شادی کرا کر ہی جائیں گے     جب کہ لڑکا شادی کرنے کے بعد دبئی واپس چلا جائے گا اور وہاں پر اپنا الگ گھر سیٹ کرنے کے بعد کچھ عرصے تک عاشی کو بھی دبئی بلا لے گا      رضی کو یہ ساری خبر سن کر کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی کیونکہ اس کے ابو نہ جانے کتنے عرصے کے لیے پاکستان آ رہے تھے اور اس کے خالو بھی اس کا مطلب ہے کہ نہ تو اسے اپنی امی کو چودنے کا موقع ملنا تھا اور نہ ہی خالہ کو      سویرا اپنے بیٹے کی پریشانی کو سمجھ گئی اور کچھ دیر کے بعد اسے اکیلا پا کر اسے سرگوشی سے بولا    
 
 
 سویرا : " تم اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہو تمہارے ابو کونسا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آرہے ہیں اور ویسے بھی ہمارے پاس ایک ہفتہ تو ہے نہ مزے کرنے کا     اور تمہاری بہن کی شادی ہو جائے گی تو تمہارے ابو بھی واپس چلے جائیں گے اور پھر تو صرف اس گھر میں ہم دونوں اکیلے ہی ہوں گے     پھر دیکھنا تمہاری ماں کتنے مزے کراتی ہے تمہارے     پھر تو تم جب چاہے جہاں چاہے جس وقت چاہے اپنی ماں کو پورے گھر میں کسی بھی جگہ چود سکتے ہو     "
 
 
اپنی ماں کی باتیں سن کر اس کی پریشانی کچھ کم ہوئی اور اس کے دل میں کچھ ڈھارس بندھی     اور اس کے ساتھ ہی اسے اپنے بہن کا کیا ہوا وعدہ یاد آیا کہ شادی کے بعد وہ ولیمے والے دن ہی اس کے ساتھ سیکس کرے گی      رضی کو لگا کے وہ اپنی بہن کو چودنے کے انتظار میں خوشی وقت گزار لے گا    
 
 
 رضی کے والد اور اس کے خالو نے ایک ہفتے بعد پاکستان آ جانا تھا     اور  رضی نے اس ایک ہفتے کو مکمل طور پر استعمال کرنے کا اور اس سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا     اس دوران وہ روزانہ رات کو اپنی ماں کو جم کر چودتا اور دن میں اسے جب بھی موقع ملتا تو اپنی ماں سے نظریں بچا کر وہ اپنی بڑی بہن سے بھی مزے لیتا تھا     جبکہ اس دوران دو بار وہ اپنی خالہ کے گھر جاکر اسے چودکر آیا     جتنا  رضی نے اس ایک ہفتے کے دوران اپنی ماں اور اپنی خالہ کو چودہ اتنا شاہد اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی اتنا چدائی کرنے کا موقع ملے گا      سویرا جانتی تھی کہ اس کا بیٹا بہت بے چین ہے اس لیے اس نے اپنے بیٹے کو روکنے کی بجائے پورا ہفتہ اس کا بھرپور ساتھ دیا اور اپنے بیٹے سے جم کر چدوایا    
 
 
اتوار کی دوپہر کو اس کی کے ابو اور اس کے خالو نے پاکستان پہنچنا تھا     جبکہ اس سے ایک رات پہلے  رضی نے اپنی ماں کو ایک ہی رات میں تین بار چودا     جبکہ دوسری طرف طاھرہ جو کہ زندگی بھر کسی کے پیار کے لیے اور اپنے جسم کی بھوک کے ہاتھوں تڑپتی اور ترستی رہی تھی اب بے حد سکون میں تھی     اس کا بیٹا روزانہ رات کو ہی اسے چودنے کے لئے تیار ہوتا اور  سویرا کو اس قدر سکون ملتا اپنے بیٹے سے چدوا کر کی وہ بیان ہی نہیں کرسکتی تھی     جب کہ اس سے زیادہ بے چین اس کی ماں رہتی تھی کہ کب رات ہو اور اس کی پھدی کو اس کے بیٹے کا لن نصیب ہو    
 
 
اگلے دن صبح ناشتے میں  سویرا نے اپنے بچوں کو بولا کے اب انہیں پہلے کی طرح ایک ہی کمرے میں رہنا پڑے گا کیونکہ اب اس کے ابو آرہے تھے تو  رضی کو واپس اپنی بہن کے کمرے میں شفٹ ہونا پڑنا تھا     یہ سن کر عاشی اور  رضی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور عاشی نے اپنے چھوٹے بھائی کو آنکھ ماری     یہ سن کر  رضی کی کچھ ڈھارس بندھی کہ چلو اور کوئی نہیں تو اپنی بہن کے جسم کے ساتھ کھیل کر ہی مزے لے لے گا    
 
 
دوپہر کو وہ سب لوگ ایئرپورٹ گئے اور اپنے ابو کو اور خالو کو لے کر گھر آئے     رات کو  رضی کی امی نے اپنی بہن کی فیملی کے لئے اور اپنی فیملی کے لئے رات کا کھانا بنایا اور ان سب کو دعوت دی    رات کا کھانا کھانے کے بعد کمدیحہ دیر تک وہ سب باتیں کرتے رہے اور  رضی کی خالہ اپنے گھر چلی گئی جب یہ لوگ بھی سونے کے لئے اپنے اپنے کمروں میں چل دئے     لال خان جو کہ تقریبا دو سال بعد پاکستان آیا تھا اپنی بیوی کے ساتھ اکیلے وقت گزارنے کے لیے بے تاب تھا     اس لیے جیسے ہی وہ اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تو اس نے  سویرا کو بیڈ پر لٹایا اور اس کے اوپر چڑھ کر اسے چومنے لگا      سویرا کو اب اپنے خاوند میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ ایک بار جب اس کی پھدی کو اس کی بیٹے کا لن لگ چکا تھا تو اب اسے اپنے ہی بیٹے سے چدوانے کی لت لگ گئی تھی    
 
 
 سویرا ایک روبوٹ کی طرح چپ چاپ لیٹی رہی اور اپنے شوہر کا کچھ حد تک ساتھ دیتی رہی جبکہ لال خان بڑی بے چینی کے ساتھ اپنی بیوی کو چودنے لگا     جیسے ہی  سویرا کے خاوند نے اسے چودنا شروع کیا تو  سویرا کو احساس ہوا کہ اب اسے وہ مزہ اس کے شوہر سے کبھی نہیں مل سکتا جو اسے اس کے بیٹے سے ملتا ہے     کیوں کہ اس کے شوہر کے لن میں نہ تو وہ سختی تھی اور نہ ہی اس کے چودنے میں وہ شدت      سویرا نے چپ چاپ اپنی آنکھیں بند کیں اور اپنے ہی بیٹے کے ساتھ گزرے ہوئے پچھلے کئی دنوں کے بارے میں سوچنے لگی     اپنے بیٹے کے ساتھ کی گئی چدائیوں کے بارے میں سوچتے ہوئے  سویرا کی پھدی گیلی ہونے لگی مگر اس سے پہلے کہ اسے مزہ آتا لال خان اس کی پھدی کے اندر اپنی منی نکال کر فارغ ہو چکا تھا      سویرا ایک بات جان چکی تھی کہ اب اگلے کئی دن اس کے لیے بہت مشکل ہے جب تک کہ اس کا شوہر چلا نہیں جاتا اور وہ دوبارہ اپنے بیٹے کے ساتھ سیکس نہیں کرتی     پچھلے کئی دن سے اس کے بیٹے نے جس طرح جم کر اسے چودہ تھا اب اس کے لیے اپنے شوہر کے ساتھ رات گزارنا بہت مشکل لگ رہا تھا    
 
 
جبکہ دوسری طرف ماریہ کے کمرے میں دونوں بہن بھائی ننگے لیٹے ہوئے ایک دوسرے کو چومنے میں مصروف تھے      رضی کو ہمیشہ سے ہی ممے چوسنے کا بہت شوق تھا اس لیے وہ کمدیحہ دیر تک اپنی بہن کے ممے چوستا رہتا کیونکہ اس کے ساتھ سیکس تو ابھی ہو نہیں سکتا تھا     بنا کسی فکر کے دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کے جسم کے ساتھ کھیل رہے تھے      رضی اپنی بہن کے ممے چوسنے کے ساتھ ساتھ ایک ہاتھ کے ساتھ اس کی جسم کے ساتھ کھیل رہا تھا     جبکہ عاشی اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ ننگی لیٹی ہوئی شدید گرم ہو چکی تھی     تبھی اچانک ان کے کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا     مگر وہ دونوں ایک دوسرے میں اتنے مگن ہو چکے تھے کہ انہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ ان کی ماں دروازے میں کھڑی انہیں دیکھ رہی تھی     یہ پہلی رات تھی کہ  رضی اور عاشی اکٹھے سوئے ہوئے تھے اس لیے  سویرا کمرے سے نکل کر ایک بار چیک کرنے کے لئے آئی تھیں کہ انھیں کوئی مسئلہ نہ ہو     اور اس کے ساتھ ساتھ  سویرا کے دل میں تھوڑی سی امید یہ بھی تھی کہ اگر عاشی سو گئی ہوئی اور  رضی جاگا ہوا تو ہو سکتا ہے کہ آج کی رات جو اس کی بھوک ادھوری رہ گئی ہے اسے مٹانے میں اس کا بیٹا اس کی مدد کر سکے     مگر یہاں تو منظر ہی کچھ اور تھا      سویرا کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بیٹی اور اپنے بیٹے کو ننگا ایک دوسرے کے جسم کے ساتھ کھیلتا ہوا دیکھے گی     اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ خود اس وقت کیا کرے     اگر وہ کچھ بولتی تو آواز سن کر اسکے بچوں کا باپ باہر آ سکتا تھا لیکن وہ بولتی بھی تو آخر کس منہ سے     اسی منہ میں تو وہ اپنے بیٹے کا لن لیتی رہی ہے      سویرا نے اس وقت اپنے بچوں کو اکیلا چھوڑ کر سونے کا اور  رضی سے صبح اکیلے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا    
 
 
دوسری طرف اس سب سے بے خبر دونو بہن بھائی ایک دوسرے کو چومنے میں مصروف تھے     کمدیحہ دیر اسی طرح ایک دوسرے کو چومنے کے بعد  رضی اپنی بہن کی ٹانگوں کے درمیان میں گیا اور اس کی پھدی چاٹنے لگا     ماریہ مزے سے تڑپنے لگی اور اپنے بھائی کے سر کو پکڑ کر مزید اپنی پھدی پر دبانے لگی     کچھ ہی دیر میں عاشی اپنے چھوٹے بھائی کے منہ پر ہی فارغ ہونے لگی اور اس کا پورا جسم کانپنے لگا     اسے اس بات کی بے حد خوشی تھی کہ اب اس کے اگلے کی دن اسی طرح مزے میں گزرنے والے ہیں جب تک کہ اس کی شادی نہیں ہو جاتی وہ بہت خوش تھی     ماریہ فارغ ہونے کے بعد اپنے بھائی کے لن کی چوپے لگانے لگی اور اسے بھی فارغ کیا     وہ دونوں رات دیر تک ایک دوسرے کے جسم کے ساتھ کھیلتے رہے اور نہ جانے کب انہیں اسی طرح نیند آگئی    
 
 
صبح  رضی اٹھا تو ماریہ پہلے ہی اٹھ چکی تھی اور کمرے میں موجود نا تھی      رضی بھی نہا کر باہر نکل آیا     پورا گھر خالی خالی لگا بس کچن سے آوازیں آتی ہوئی محسوس ہوئی تو  رضی اسی طرف چل پڑا     کچن کے پاس پہنچا تو ماریہ باہر نکلی اور اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرا کر آنکھ ماری      رضی نے پاس سے گزرتے ہوے اپنی بہن کو پکڑ کر گلے سے لگا لیا اور ایک ہاتھ سے اسکی کمر کو پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اسکی گانڈ کو سہلانے لگا     ماریہ ایک دم خود کو چھڑانے لگی اور بولی    
 
 
ماریہ : " پاگل ہو گئے ہو     کچھ تو خیال کرو کچن میں امی ہیں اور کمرے میں ابو     دونو میں سے کسی نے بھی دیکھ لیا تو قیامت آ جائے گی     چلو ہٹو     "
 
 
 رضی جانتا تھا اسکی بہن کا ڈرنا جائز تھا مگر اسکا غصہ بلکل مصنوئی تھا     اسے بھی اچھا لگا تھا اس طرح اپنے بھائی کی باہوں میں مچلنا      رضی مسکراتا ہوا کچن میں داخل ہوا جہاں سامنے اسکی ماں ناشتہ بنانے میں مصروف تھی      رضی کو لگا جیسے ایک ہی رات میں برسوں کی دوری آ گئی ہو     اپنی ماں کی موٹی گانڈ کو دیکھ کر اسکا لن سر اٹھانے لگا اور وہ چلتا ہوا اپنی ماں کے پاس آیا      رضی نے اپنی ماں کو پیچھے سے کس کر گلے لگایا      رضی نے اپنا لن اپنی ماں کی گانڈ کی لکیر میں گھسایا اور اپنے دونو ہاتھوں سے اپنی ماں کے ممے پکڑ کر دبانے لگا      سویرا کو اپنے بیٹے کا یہ اچانک حملہ اچھا لگا مگر پکڑے جانے کے ڈر سے اس نے بھی ماریہ کی طرح مصنوئی غصے کے ساتھ  رضی کو روک دیا    
 
 
 رضی نے اپنی ماں کو چھوڑا اور مسکراتا ہوا اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور بولا    
 
 
 رضی : " ہاں تو پھر کیسی گزری میری امی جان کی رات     "
 
 سویرا : " بہت ہی بری     مگر تمہاری تو بہت حسین گزری     "
 
ایک لمحے کے لیے  رضی کا دل زور سے دھڑکا     پھر وہ معصوم بننے کی اداکاری کرتے ہوئے بولا    
 
 رضی : " میں کچھ سمجھا نہیں     "
 
 سویرا : " اب اتنی بھی معصوم بننے کی اداکاری مت کرو     تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے کہ رات کو تم اپنے کمرے کی کنڈی لگانا بھول گئے تھے اور رات کو میں جب تم دونوں کے کمرے میں آئی تو میں نے تو دونوں کو دیکھ لیا تھا وہ سب کچھ کرتے ہوئے     چلو تمہاری تو سمجھ آتی ہے تم ہر وقت ہی تیار ہوتے ہو مگر مجھے حیرت تو تمہاری بہن پر ہو رہی ہے کہ کچھ ہی دنوں کے بعد اس کی شادی ہے مگر اس سے اتنا بھی انتظار نہیں ہوا اور اپنے ہی چھوٹے بھائی کے ساتھ                      "
 
 
ساری بات کھل کر سامنے آچکی تھی مگر  رضی کو اب کسی بات کا ڈر نہیں تھا کیونکہ آخر اس کی ماں کس منہ سے ناراض ہوتی اس سے     وہ خود نہ جانے کتنی بار اپنے ہی بیٹے سے چدوا چکی تھی      رضی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا    
 
 
 رضی : " امی جان آپ تو جيلس ہوتے ہوئے اور بھی زیادہ سیکسی لگ رہی ہیں     اب آپ تو وہاں ابو کے ساتھ لگی ہوئی تھی میں بیچارہ کہا جاتا اور جہاں تک بات رہی عاشی کی تو آخر وہ بھی جوان ہے اس کا بھی دل کرتا ہے یہ سب کچھ کرنے کو تو میں تو بس اسی کا ساتھ دے رہا تھا وہ ساتھ کے ساتھ اپنا بھی من بہلا رہا تھا     اور باقی آپ پریشان نہ ہو ہم نے سیکس نہیں کیا اور نہ ہی کرنا ہے کیوں کہ ماریہ ابھی کنواری ہے اور اس کا کنواراپن صرف اس کے شوہر کے لئے ہے     اور جب ماریہ کی شادی ہو گئی اور ابو دبئی چلے گئے تو پھر ہم دونو ماں بیٹا جی بھر کر سیکس کریں گے     "
 
 
 سویرا نے کچھ بولے بغیر ایک بار اپنے بیٹے کو مڑ کر دیکھا اور پھر سے کام میں مصروف ہو گئی    
 
 
 رضی : " آپ پریشان نہ ہوں امی آپ ہی میری پہلی اور آخری محبت ہیں باقی سب تو آنی جانی ہیں     اور آگے سے میں اور عاشی احتیاط سے کام لیں گے اور جب تک اس کی شادی نہیں ہوجاتی آپ پریشان نہ ہوں ہم سیکس نہیں کریں گے     "
 
 
 سویرا : " کیا مطلب جب تک اس کی شادی نہیں ہوجاتی شادی کے بعد کیا کرو گے ؟؟؟ "
 
 
 رضی : " یار آپ بس یہ سمجھ لیں کہ آپ کی طرح میں ماریہ سے بھی بہت پیار کرتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ جتنا پیار میں اپنی ماں کو دیتا ہوں اتنا پیار اپنی بہن کو بھی دے سکوں     اور عاشی نے بھی میرے سے وعدہ کیا ہے کہ شادی کے بعد ولیمہ والے دن ہی میرے ساتھ سیکس کرے گی     میں ویسے اس بارے میں آپ سے بات کرنے ہی والا تھا کہ مجھے آپ کی مدد چاہیے     "
 
 
 سویرا : " شاباش بیٹا صدقے جان تمہاری سوچ کے     تو تم کہہ رہے ہو کہ میں اپنے بیٹے کی مدد کرو اپنی بیٹی کو چودنے میں     "
 
 
 رضی : " جب آپ ماں ہو کر اپنے بیٹے سے چدوانے کے لیے ہر وقت تیار ہوتی ہیں تو کیا آپ اپنے اس بیٹے کی خواہش بھی پوری نہیں کر سکتی ہیں     "
 
 
 سویرا : " ٹھیک ہے سوچوں گی     "
 
 
 رضی نے پیار سے اپنی ماں کی گانڈ پر ہاتھ پھیرا اور تھینک یو بول کر باہر نکل گیا    
 
 
اگلے کئی دن اسی طرح خاموشی سے گزر گئے ایک طرف  سویرا اپنے شوہر سے چدواتی رہتی اور دوسری طرف دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے مزے لیتے رہتے کبھی ہاتھ سے تو کبھی منہ سے دوسرے کو فارغ کرتے اور اسی طرح سو جاتے     آخر کار ماریہ کی شادی کا دن آ ہی گیا     شادی والے دن  رضی کے ابو ماریہ کو لے کر بیوٹی پارلر کی طرف چلے گئے اور اسے بیوٹی پارلر چھوڑ کر خود شادی ہال کی طرف نکل گئے      رضی رات کو دیر سے سویا تھا اس لیے وہ ابھی تک لیٹا ہوا تھا     صبح اس کی آنکھ کھلی تو بہت ہی حسین منظر اس کے سامنے تھا     اس کی ماں مکمل طور پر ننگی اس کے ساتھ لیٹے اس کے لن کو ہاتھ سے سہلا رہی تھی    
 
 

 رضی نے آنکھ کھولتے  ہی سیدھا اپنی ماں کے ممے کو منہ میں لیا اور چوسنے لگا      سویرا نے اپنے بیٹے کو ممے چوستے دیکھ کر پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور بولی    
 
 
 سویرا : " اٹھ گیا میرا بیٹا     اتنے دن سے میں بے چین ہوں تمہارے ساتھ سونے کے لئے تم سوچ بھی نہیں سکتے     تمہارے ابو تو ہمیشہ ہی مجھ سے پہلے فارغ ہوجاتے ہیں اور مجھے ادھورا چھوڑ کر سو جاتے ہیں     تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ دن میں نے کیسے گزارے ہیں     اب تمہاری ماں سے اور برداشت نہیں ہوتا بیٹا     تم نے کہا تھا نہ کہ تمھیں میری مدد چاہیے ماریہ کے ساتھ سیکس کرنے میں     تو ٹھیک ہے میں تمھاری مدد کروں گی تمہاری بڑی بہن کو چودنے میں لیکن اس سے پہلے میری شرط ہے     کہ ابھی اور اسی وقت تم اپنی ماں کوچود کر اس کے سارے ارمان نکال دو اور اس کی ساری پیاس بجھا دو     کیونکہ اب میرے لئے برداشت کرنا نا ممکن ہے اب جب تک میں تم سے چدوا نہیں لیتی مجھے لگ رہا ہے جیسے مجھے سانس بھی نہ آئے     چلو اٹھو بیٹا اور آج جی بھر کر چودو اپنے ماں کو     "
 
 
اپنی ماں کے منہ سے یہ سب باتیں سن کر  رضی کا لن ایک دم اکڑ چکا تھا     اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ واقعی اس کی ماں اس وقت بہت ہی شہوت میں ڈوبی ہوئی ہے      رضی نے مزید انتظار کیے بغیر ایک دم سے اٹھ کر اپنی ماں کو نیچے لٹایا اور اس کے اوپر چڑھ کر اس کے ہونٹ چومنا شروع کر دیا ہے     جبکہ نیچے سے  رضی کا لن اپنی ماں کی پھدی کے اوپر رگڑ کھا رہا تھا      رضی نے اپنی ماں کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے مزید انہیں انتظار نہ کروانے کا فیصلہ کیا اور اٹھ کر ان کی ٹانگوں کے درمیان میں آ گیا     طاہر نے بھی جلدی سے اپنی ٹانگیں اٹھا کر اپنی پھدی اپنے بیٹے کو پیش کر دی      رضی نے اپنا لن اپنی ماں کی پھدی کے اوپر سیٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں پورا کا پورا اندر گھسا دیا      سویرا کے چہرے پر اطمینان اور سکون کی ایک لہر دوڑ گئی    
 
 
 رضی نے اپنے جھٹکوں کی رفتار تیز کر دی اور جم کر اپنی ماں کو چودنے لگا      سویرا نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ جس بیٹے کو اس نے پیدا کیا ' اپنا دودھ پلایا ' چلنا پھرنا اور بولنا سکھایا وہی بڑا ہو کر اسکے مشکل وقت میں اسکا ساتھ دے گا اور اسکو چود کر اسکے جسم کی بھوک مٹائے گا      سویرا کو اپنے بیٹے پر بہت پیار آ رہا تھا اور اسکو اس بات کی خوشی تھی کہ اب اسکو اسکا جیوں ساتھی یا سیکس پارٹنر مل گیا تھا     اب جب چاہے وہ اپنے بیٹے سے ' جو کہ اس سے بہت محبت کرتا تھا ' چدوا سکتی ہے اور اب اسکی زندگی میں کوئی کمی نہیں ہو گی     یہ سوچتے ہوے ہی  سویرا کو لگا اسکی ٹانگیں کانپنے لگی تھیں اور وہ فارغ ہونے کے قریب تھی     تب اسکے منہ سے صرف اتنا نکل سکا " بیٹا اور زور سے          "
 
 
 رضی اپنی ماں کا حکم سنتے ہی مزید شدت کے ساتھ اسے چودنے لگا اور کچھ ہی دیر میں  سویرا کانپتے ہوے فارغ ہونے لگی      رضی کے لن نے بھی ہار مان لی اپنی ماں کی پھدی میں اپنا سارا پانی نکالنے لگا      رضی ہانپتا ہوں اپنی ماں کے اوپر لیٹ گیا اور بولا    
 
 
 رضی : " نا جانے کتنے بیٹے ہیں جو اپنی ماں کو ایک بار چودنے کے لئے مر مٹنے کو تیار ہو جائیں     مگر میرے جیسا خوش قسمت کوئی نہیں ہوگا     امی کاش میں آپ کو اپنے بچے کی ماں بنا سکتا تو سوچیں کتنا مزہ آتا     "

 
 سویرا اپنے بیٹے کی اس معصوم خواہش پر مسکرا دی اور اسے گلے سے لگا کر اس کے ہونٹ چومنا شروع کر دیے     جبکہ نیچے سے اسکی پھدی سے اسکا اپنا اور اسکے بیٹے کا ملا جلا پانی نکل رہا تھا    
 
 


آخری قسط
 
 
جیسے کیسے کر کے آخر کار وہ دن آ ہی گیا جس کا
 رضی کو کمدیحہ دنوں سے انتظار تھا     اور وہ تھا عاشی کی شادی کا دن    
 
 
شادی کے دن سارا دن کاموں میں سارے گھر والے اس قدر مصروف رہے کہ کسی کو ایک دوسرے کے خبر گیری کا بھی وقت نہیں ملا     رخصتی کے وقت  رضی نے اپنی بہن کو رخصت کرتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کی " آج تو جیجا جی کے مزے لگنے والے ہیں     اتنی پیاری لگ رہی ہو     "  رضی نے اپنی بہن کا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے اس کی تعریف کی تھی مگر ماریہ نے اسے اپنی طرف تھوڑا سا کھینچا اور اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے جواب دیا " کل صبح ولیمہ کے لئے تم نے مجھے پالر تیار ہونے کے لیے لے کے جانا ہے اور کل تمہارے بھی مزے کرا دوں گی     "
 
 
 رضی جو کہ سارا دن شادی کی مصروفیات میں گزرنے کے بعد بھول چکا تھا کہ اس کی بہن نے بھی اسے کچھ وعدہ کیا تھا جیسے ہی عاشی نے یاد دلایا تو اس کا لن اس کی شلوار میں اکڑنے لگا جسے اس نے بڑی مشکل سے چھپایا     اس نے بڑی خوشی خوشی اپنی بہن کو روانہ کیا اس امید کے ساتھ کہ بالآخر کل کے دن اسے اپنی بہن کو چودنے کا موقع ملنے ہی والا تھا     رات میں شادی کی ساری مصروفیات سے فارغ ہو کر جب اس رات کو اپنی ماں کے ساتھ اکیلے میں کچھ وقت ملا تو اس نے اپنی ماں سے اگلے دن مدد کرنے کا وعدہ یاد کرایا      سویرا نے بھی مسکرا کر جواب دیا  
 
 سویرا : " بیٹا پریشان نہ ہو کل تمہاری بہن کو چودنے میں تمھاری مدد کروں گی     تم بھی کیا یاد کروگے کتنی زبردست ماں ملی ہے تمہیں     تمہارا جب دل کرے تم اپنی ماں کوچود کر مزے لے سکتے ہو اور اب یہ تمہاری ماں تمہیں تمہاری بہن کو چودنے کی مدد کرے گی     "
 
 رضی : " بس کیا بتاؤں کہ میں کتنا خوش نصیب ہوں جو مجھے آپ جیسی سیکسی ماں ملی     ایک بار ماریہ کو چودنے میں میری مدد کر دیں پھر دیکھیں میں کتنا آپ کو مزے کراتا ہوں     "
 
 
دونوں ماں بیٹا نہ جانے کتنی دیر اس طرح باتیں کرتے رہے آخر جب رات کمدیحہ ہونے لگی تو دونوں اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے چلے گئے     کمدیحہ دنوں کے بعد آج پہلی بار تھا کہ  رضی اپنے کمرے میں اکیلا سویا تھا اور آج اسے مزے لینے کے لیے نہ تو اپنی ماں کا اور نہ ہی اپنی بہن کا جسم درکار تھا      رضی بس صبح کو اپنی بہن کو چودنے اور اس کے بعد عمر بھر اپنی ماں اور بہن دونوں کو چودنے کے سپنے دیکھتے ہوئے سو گیا    
 
 
اگلے دن صبح صبح  رضی کی آنکھ کھلی تو اس کی ماں اس کے بستر کے پاس بیٹھی اسے اٹھا رہی تھی      رضی کی آنکھ کھلی تو اپنی ماں کو گیلے بالوں کے ساتھ دیکھ کر اسے مستی چڑھنے لگی     اس نے اپنی ماں کی ران پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور اس کا لن بھی اچھلنے لگا      سویرا نے اپنے بیٹے کی اکڑتے ہوئے لن کی طرف دیکھ کر شرماتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولی  
 
 سویرا : " بیٹا بچا کے رکھو آج تم نے اپنی بہن کو چودنا ہے     اب جلدی سے اٹھو ناشتہ کرو اور ہم نے تمہاری بہن کے گھر جانا ہے     تمہاری بہن کے سسرال والوں کو بتایا ہے کہ تم اور میں عاشی کو پارلر لے کر جائیں گے     مگر ہم اسے وہاں سے لے کر واپس آ کر گھر میں آجائیں گے اور پارلر والی کو بھی میں نے دو گھنٹے بعد ہی گھر پے آنے کا کہا ہے     تم دونوں کے پاس دو گھنٹے کا وقت ہو گا جو کرنا ہے کر لینا اس کے بعد پالروالی آئے گی تو ماریہ کو تیار کرا کر ہم یہیں سے ولیمے پر لے کر جائیں گے     تمہارے ابو تو صبح صبح ہی ناشتہ کرکے ولیمے کی طرف نکل گئے ہیں     اب تم بھی اٹھو اور جلدی سے ناشتہ کرو ورنہ لیٹ ہو جائیں گے     "
 
 
اپنی ماں کا یہ سارا پلان سن کر اس کو بھی اپنی ماں پر پیار آنے لگا مگر اب زیادہ سوچنے کا وقت نہیں تھا اس نے جلدی سے اٹھ کر نہا کر فریش ہوا اور ناشتہ کرنے بیٹھ گیا     ناشتہ کرنے کے بعد دونوں ماں بیٹا عاشی کے سسرال کی طرف نکل گئے     وہاں سب لوگوں نے ان دونوں کا بڑا پرجوش استقبال کیا     جب کہ ماریہ کچھ مرجھائی لگ رہی تھی     کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد  سویرا نے ماریہ کی سسرال سے اجازت لی اور وہ دونوں عاشی کو لے کر گھر کی طرف نکل پڑے     گھر پہنچ کر  سویرا نے  رضی کے ذمہ لگایا کہ وہ اپنی بہن سے پوچھے کہ آخر اس کی پریشانی کی وجہ کیا ہے    
 
 
 رضی نے اپنی بہن کو اکیلے میں لے جا کر اسے وجہ پوچھی تو عاشی غصے میں آکر اپنے نئے شوہر کو کوسنے لگی     اس نے بڑی مشکل سے اسے غصے پر قابو دلایا اور اس سے غصے کی وجہ پوچھی     عاشی اپنے شوہر کو کو اک بار پھر کوستے ہوے بولی کمینہ اک منٹ سے پہلے فارغ ہوگیا اور میں ویسے لیٹی رہی ساری رات    
 رضی اپنی بہن کی بات سن کر ہنسنے لگا اور اسے تسلی دی کہ وقت کے ساتھ اسکی ٹائمنگ بڑھ جائے گی     پہلی بار میں ہر لڑکا جلدی فارغ ہو جاتا ہے     پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہو جائے گا     ماریہ کو اپنے بھائی کی بات سن کر کچھ تسلی ہوئی     لیکن پھر اس نے اپنی ماں کی طرف اشارہ کرکے  رضی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا      رضی سمجھ گیا کہ عاشی اپنی ماں کی موجودگی کے بارے میں پوچھ رہی ہے      رضی نے عاشی کو ساری کہانی بتا دی کہ کس طرح اس کی ماں نے ان دونو کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا تھا    
 
 
عاشی کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا     اسکی ماں اپنے بیٹے کی مدد کر رہی تھی اپنی سگی بہن کو چودنے میں     ایک لمحے کیلئے عاشی کو تو اس بات پر شرم آنے لگی مگر جتنا وہ اس بارے میں سوچتی گئی مزید گرم ہوتی گئی کہ ایک ماں اپنے بیٹے کی اور بیٹی کی مدد کر رہی ہے ایک دوسرے کو چودنے میں     اور یہ کہ جب دونوں بہن بھائی اندر ایک دوسرے کو چودنے میں مصروف ہوں گے تو باہر بیٹھی ان کی ماں کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ اندر کیا ہو رہا ہے     عاشی اس بارے میں بہت حیران تھی کہ آخر اس کے بھائی نے اپنی ماں کو منا کیسے لیا اس کی مدد کرنے میں     اور اس سوال کے جواب میں  رضی نے صرف اتنا کہا  
 
 
 رضی : " بس میری پیاری بہن یہ سمجھ لو کہ امی کی پھدی کو جو ان کے بیٹے کے لن کا سواد لگ چکا ہے وہ اسے کھونا نہیں چاہتیں     اور اسے خوش کرنے کے لیے وہ اپنی بیٹی کو بھی اس کے نیچے لٹانے پر راضی ہو گئیں     "
 
 
عاشی : " یار میرا بہت دل کر رہا ہے کہ میں تمہیں امی کو چودتے ہوئے دیکھوں     لیکن وہ پھر کبھی ابھی تو مجھے بس یہ دیکھنا ہے کہ ایسا کیا جادو ہے تم میں کہ تم نے اپنی ماں کو ہی رکھیل بننے پر مجبور کر دیا ہے     "
 
 
دونوں بہن بھائی اب کمرے میں اکیلے تھے جب کہ انکی ماں صوفے پہ بیٹھی ٹی وی دیکھنے لگی     دونوں بہن بھائی نے جلدی سے اپنے کپڑے اتارے     پہلے بھی کئی بار وہ اک دوسرے کو ننگا دیکھ چکے تھے مگر یہ پہلی بار تھا کہ وہ ایک دوسرے کی شہوت میں اس قدر گرفتار تھے کہ وہ اب اپنے اوپر سب کنٹرول چھوڑ چکے تھے     کپڑے اتارتے ہیں وہ دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے چمٹ گئے اور ایک دوسرے کے ہونٹ چومنا شروع کر دیا      رضی نے پیار سے اپنی بہن کو اپنی باہوں میں اٹھایا اسے بیڈ پر لٹا کر اس کی ٹانگوں کی طرف اسے کا جسم چومتے ہوئے جانے لگا     ماریہ کی سانسیں بہت تیز چل رہی تھی اور بالآخر اسے اپنا خواب پورا ہوتا ہوا نظر آرہا تھا     اور وہ خواب تھا اپنے بھائی کا لن پھدی لینے کا      رضی اپنی بہن کی پھدی چاٹنے میں مصروف تھا جب کہ عاشی مزے سے سسکاریاں بھر رہی تھی     کچھ ہی دیر میں عاشی کی برداشت جواب دے گئی اور اس نے اپنے بھائی کا سر پکڑ کر اوپر اٹھایا اور بہت پیار سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی    
 
 
عاشی : " بس اب اور انتظار نہیں ہوتا بھائی     جلدی سے اپنی بہن کا خواب پورا کر دو اور جو چیز تمہاری ہے اسے اپنا لو     "
 
 
 رضی کو اپنی بہن پر بہت پیارا آنے لگا اور اس نے اپنی بہن کو مزید نہ ہی انتظار کرواتے ہوئے اس کے اوپر چڑھا عاشی نے جلدی سے اپنی ٹانگیں اٹھا لیں اور  رضی نے اپنا لن اپنی بہن کی پھدی پر سیٹ کیا اور آہستہ آہستہ سے اندر ڈالتا گیا     عاشی اب کنواری تو نہ تھی لیکن یہ اس کی دوسری چدائی تھی اور دوسری چدائی اس کی بھائی کے تگڑے لن سے ہو رہی تھی تو اسے ہلکی تکلیف ہونے لگی مگر اس کے ساتھ ساتھ اس قدر شدید مزہ بھی آرہا تھا کہ کوئی تکلیف اب محسوس ہی نہیں ہو رہی تھی     ماریہ کو یہ خیال بہت گرم کر رہا تھا کہ اس کا بھائی اس کی پھدی میں اپنا لن ڈال کر اسے چودنے میں مصروف ہے جب کہ اس کی ماں باہر بیٹھ کر اپنے بچوں کی چدائی پر پہرا دے رہی ہے    
 
 
جبکہ دوسری طرف  رضی جس کو صرف اپنی خالا اور ماں کی شادی شدہ آنٹیوں والی پھدی ملی تھی پہلی بار اتنی ٹائٹ پھدی کو چود کر اسے بے انتہا مزہ آنے لگا      رضی کو محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کی بہن کی پھدی اس کے لن کو اندر کھینچ رہی ہے      رضی آہستہ آہستہ اپنی رفتار بڑھاتا گیا جب کہ دوسری طرف ماریہ کی آہوں اور سسکیوں کی آواز پورے کمرے میں گھونج رہی تھی     اپنی بہن کو چودتے ہوئے  رضی کی نظر دروازے پر پڑی تو دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا اور دروازے کے دوسری طرف اس نے اپنی ماں کو کھڑے ہوئے دیکھا    
 
 
 سویرا نے اپنے بیٹے کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے پا کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا     وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی اس وقت جیسے شدید مزے میں تھی وہ اس کو ڈسٹرب کرتی     اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے پا کر  رضی کی چودنے میں مزید شدت آ گئی جبکہ عاشی کی آوازیں اونچی ہو چکی تھیں      رضی نے دیکھا کہ اس کی ماں کا ایک ہاتھ اس کی شلوار میں بہت تیزی سے حرکت کر رہا ہے     جس کا مطلب یہ تھا کہ  سویرا اپنے بچوں کی چدائی دیکھ کر فل گرم ہو چکی تھی     جبکہ ادھر مار یا فارغ ہونے کے قریب تھی     عاشی کی آہیں اب چیخوں میں بدل رہی تھی جبکہ وہ مزے کی انتہا گہرائیوں میں پہنچ چکی تھی     عاشی فارغ ہونے لگی تو اس نے اپنی دونوں ٹانگوں سے اپنے بھائی کو اپنے اوپر کھینچ کر دبا لیا جبکہ اس کا جسم اس قدر شدت کے ساتھ کانپنےاور اچھلنے لگا کے  رضی بھی حیران ہو گیا     سہاگ رات کو جو اس کی بھوک ادھوری رہ گئی تھی وہ اس کے بھائی نے پوری کر دی تھی    
 
 
، رضی کچھ لمحے کے لیے رکا رہا مگر عاشی میں اب اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ مزید اپنے بھائی کا لن لے سکتی     عاشی نے  رضی کو اپنے اوپر سے ہٹایا اور اسے معذرت بھری نگاہ سے دیکھنے لگی      رضی اپنی بہن کے جذبات کو سمجھ گیا اور اسے تسلی دینے لگا اور بولا  
 
 
 رضی : " کوئی بات نہیں میری خیر ہے میں بس چاہتا ہوں کہ میری بہن خوش رہے     "
 
 رضی نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں اس کی ماں موجود نہ تھی      رضی ماریہ سے بولا  
 
 رضی : " تم مجھے امی کو چودتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی نہ تمہیں وہ بھی دکھا دیتا ہوں آج     "
 
 
 رضی ننگا ہی بیڈ سے نیچے اترا اور کمرے کا دروازہ کھول کر ٹی وی لاؤنج میں چلا گیا جہاں اس کی ماں پھر سے ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھی     اپنے بیٹے کو اپنی طرف ننگا آتے ہوئے دیکھ کر  سویرا تھوڑی گھبرا گئی     وہ جانتی تھی کی اب اس گھر میں کوئی بھی راز راز نہ تھا مگر پھر بھی اپنی بیٹی کی موجودگی میں یہ سب کچھ کرتے ہوئے اسے بہت شرم آ رہی تھی      رضی نے بغیر کچھ بولے جاتے ہی اپنی ماں کا دوپٹہ اتار دیا اور جلدی سے اس کے کپڑے اتارنے لگا گیا      سویرا جانتی تھی کہ یہ سب کچھ غلط ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی موجودگی میں یہ سب کچھ کرے مگر اس کا جسم اپنے بیٹے کو روکنے میں اس کا ساتھ بلکل نہ دے رہا تھا      رضی اپنی ماں کو ننگا کر کے صوفے پر لٹا چکا تھا اور اس کی ٹانگوں کے درمیان میں آکر جیسے ہی اپنا لن اپنی ماں کی پھدی میں گھسایا تو پچک کی آواز کے ساتھ پورا لن اندر چلا گیا      رضی نے جھٹکے مارنے شروع  کر دئیے جبکہ طاہر مزے سے اپنی آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھی     کچھ دیر کے بعد عاشی بھی کمرے سے ننگی باہر نکلی ہوئی اس نے صوفے پر اپنی مارں اور بھائی کو چودتے ہوئے دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا اور وہ صوفے کے پاس آکر اپنی ماں کے ساتھ نیچے فرش پر بیٹھ گئی     اسے اپنی ماں بہت خوبصورت لگ رہی تھی اور ہر جھٹکے کے ساتھ اس کے ممے اوپر کو اچھلتے تھے    
 
 
عاشی سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنی ماں کے ممے کو پکڑ کر چوسنا شروع کر دیا      سویرا نے ایک دم سے اپنی آنکھیں کھولیں تو اپنی بیٹی کو اپنے ممے چوستے دیکھ کر اسے مزید شہوت چڑھنے لگی      سویرا اپنی بیٹی کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی     کچھ ہی دیر میں دونوں ماں بیٹا فارغ ہونے لگے تو  رضی نے جھٹکوں کی رفتار تیز کر دی جبکہ  سویرا اپنی بیٹی کے سر کو اپنے ممے پر دبانے لگی     عاشی شدت کے ساتھ ممے چوسنے لگی جبکہ  سویرا فارغ ہونے لگی تو اسکا جسم جھٹکے کھانے لگا اور  رضی نے بھی اپنی منی کا فوارہ اپنی ماں کی پھدی کے اندر ہی نکال دیا      رضی نے اپنا لن باہر نکالا تو عاشی اپنی ماں کی پھدی کی طرف لپکی جہاں اسکی ماں کی پھدی سے ملا جلا رس نکل رہا تھا     عاشی نے اپنی ماں کی طرف دیکھا تو  سویرا شرمانے لگی اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی     یوں تو تینوں ماں بیٹا اور بیٹی شرم اور حیا کی تمام حدیں پار کر چکے تھے مگر پھر بھی کچھ جھجک تھی جو ابھی باقی تھی    
 
 
ان تینوں نے کپڑے پہن لیے اور چپ چاپ ٹی وی لاونج میں بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے جیسے ابھی کچھ دیر پہلے کچھ ہوا ہی نہیں تھا     مگر حقیقت تو یہ تھی کہ انسیسٹ سی بھر پور چدائیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو چکا تھا جو کہ ساری زندگی ایک بہن کو بھائی کے نیچے ایک ماں کو اپنے بیٹے کے ساتھ اور ایک خالہ کو اپنے بھانجے سے چدوانے والا تھا     گھر کا بھیدی گھر کی ہر پھدی میں لن گھسا چکا تھا اور اس طرح ایک اور ماں ' بہن اور ایک خالہ جسم کی بھوک سے تنگ آکر انسیسٹ کی شوقین انگنت فیملیوں میں اپنا نام شامل کر چکی تھیں    
 
 ختم شُد


ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. Asslam o Alaikum
    Sir kindly mujhy Sapnon ke sodagar r Shahzoor sexy novel pdf mein share kr dein. ap ki mehrbani ho gi. mera whatsapp +923041946839.

    جواب دیںحذف کریں

THANKS DEAR