مرتے دم تک۔ پانچویں قسط

مرتے دم تک

تحریر: ماہر جی

پانچویں قسط





صبا نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولااور ایک نظر ادھر ادھر ڈال کر باہر نکلی اور جیسے ہی اس نے میجر کا دروازہ بند کیا تو ۔۔۔مولوی منصور صاحب کے گھر کا دروازہ کھلا اور پینو باہر آگئی۔۔۔ صبا کا ہاتھ ابھی بھی میجر کے دروازے کی ناب پر ہی تھا۔۔۔ اس دن کے بر عکس آج پینو نے صبا کو میجر کے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔۔۔ اسی حالت میں جس حالت میں پینو میجر کے گھر سے نکلی تھی۔۔۔ بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ۔۔۔ لٹی ہوئی۔۔۔ چدی ہوئی۔۔۔ پینو کو

اپنے سامنے دیکھ کر صبا کے چہرے کا رنگ ہی اڑ گیا۔۔۔ وہ سمجھ گئی کہ آج اسکی چوری پکڑی گئی ہے۔۔۔ پینو بھی حیرت بھری آنکھوں سےصبا کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ صبا میجر کے گھرسے نکل رہی ہے۔۔۔ اور وہ بھی ایسے چوروں کی طرح سے۔۔ لیکن یہ چیز پینو پر بنا کچھ پوچھے اور صبا کے بتائے ہوئے ہی ظاہر ہو چکی ہوئی تھی کہ وہ میجر سے چدوا کر آرہی ہے۔۔۔ صبا اب پینو کو کیا کہتی کہ وہ اس میجر کے گھر کیا کرنے گئی تھی جس کے ساتھ اسکا اور اسکے شوہر کا بیر تھا دشمنی تھی۔۔۔ جسے دونوں ہی کھلم کھلا برا کہتے تھے ۔۔۔ لیکن کچھ تو کہنا ہی تھا ناں۔۔۔

صبا ؛ پینو ۔۔۔ وووہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ ووو ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ پینو مسکرائی اور اپنی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھتے ہوئے ۔۔۔ سسسس ہاہاہاہاہاہاہاہا اور ہاتھ کا اشارہ کیا کہ ٹھیک ہے ۔۔۔ چپ رہو ۔۔۔ اور اپنے فلیٹ میں جانے کا اشارہ کر دیا۔۔۔ صبا خاموش ہو گئی اور جلدی سے سر جھکا کر اپنے فلیٹ کے دروازے کی طرف بڑھی اور لاک کھول کر اندر چلی گئی۔۔۔ اور پینو بھی مسکراتی ہوئی سیڑھیاں اتر گئی۔۔۔ وہ سب کچھ سمجھ چکی تھی ۔۔۔ جو بھی اس دروازے کے پیچھے میجر کے فلیٹ میں ہوا تھا صبا کے ساتھ ۔۔۔صبا نے ایک نظر پینو پر ڈالی جیسے اسےشکریہ بول رہی ہو اور اپنے گھر کا لاک کھولنے لگی۔۔۔ پینو اسکے پاس سے مسکرا کر گزرتی ہوئی نیچے اتر گئی۔۔۔ گھر آکر صبا نے اپنی چابیوں کے گچھے کو زور سے ٹیبل پر پھینکا اور پھر صوفے پر بیٹھ کر اپنا چہرہ

ہاتھوں میں لے کر رونے لگی۔۔۔ کیا ہو رہا ہے یہ میرے ساتھ ۔۔۔ کیوں ہو رہا ہےایسا میرے ساتھ۔۔۔ آخر میں گئی ہی کیوں ےھی اسکے پاس۔۔۔ اچھی طرح تو پتا تھا مجھے کہ وہ کتنا کمینہ آدمی ہے۔۔۔ پتا نہیں کیوں کرتا ہے وہ ایسا ۔۔۔ دوسری بار ۔۔۔ دوسری بار۔۔۔ اسنے میرا ریپ کر دیا ہے۔۔۔ کیا اب بھی میں چپ رہوں۔۔۔؟

ہاں تو اور کیا میں بولونگی اپنے شوہر کو کہ اس نے دوسری بار ریپ کیا ہے۔۔۔ اورپہلی بار میں نے کیوں نہیں بتایا اسے۔۔۔ کیا جواب دونگی میں اشرف کو اس بات کا۔۔۔ نہیں میں کچھ نہیں کہہ سکتی اسے۔۔۔ کچھ نہیں بتا سکتی اسے۔۔۔ چپ رہنا ہوگا ۔۔۔ اپنا مقدر سمجھ کر۔۔۔ اور تو اور۔۔۔ آج تو اس کمینی پینو نے بھی دیکھ لیا ہے مجھے اسکے فلیٹ سے نکلتے ہوئے۔۔۔ کیسے چوروں کی طرح میں نکل رہی تھی اسکے گھر سے۔۔۔ جیسے میں خود اس سے مل کر آرہی ہوں کسی زبردستی اور زیادتی کے بغیر۔۔۔ وہ بھی تو میرے خلاف ہی گوہی دے گی ناں۔۔۔ پتا نہیں کیا سوچتی ہوگی وہ میرے بارے میں۔۔۔سوچنا کیا ہے سب کچھ تو سمجھ گئی ہوگی کہ کیا کروا کر آئی ہوں میں میجر کے گھر سے۔۔۔ کیسے اس کو یقین دلاؤں گی کہ سب کچھ میری مرضی کے خلاف ہوا ہے۔۔۔ کس کس کو انکار کروں گی۔۔۔ کس کس کو جواب دوں گی۔۔۔ کس کس کو وضاحت کروں گی۔۔۔ ایک ہی حل ہے اسکا ۔۔۔ خاموشی۔۔۔ اور ۔۔۔ سسکنا۔۔ اور ۔۔۔ سرنڈر ۔۔۔ مکمل سرنڈر۔۔۔ میجر کے آگے مکمل سرنڈر۔۔۔ اسکی خواہشات کے آگے ۔

اسکی ڈیمانڈز کے آگے۔۔۔ اسکی زیادتیوں کے آگے۔۔۔ اسکی زلت بھری گفتگو کے آگے۔۔۔ سرنڈر۔۔۔ مکمل سرنڈر۔۔۔ اسکی بھرپور مردانگی کے آگے۔۔۔ مکمل سرنڈر۔۔۔ اور کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں ہے ناں میرے پاس۔۔۔ اور کر بھی کیا سکتی ہوں۔۔۔ ہاں فلحال یہی ٹھیک ہے۔۔۔ اسکے دماغ نے بھی اسکے فیصلے کی توصیق کر دی۔۔۔ جب تک کوئی موقع نہیں مل جاتا اسکے چنگل سے نکلنے کا ۔۔۔ اس سے جان چھڑانے کا۔۔۔ تب تک یہی ٹھیک ہے۔۔۔ اور اس ساری بات کو اشرف سے بھی چھپانا ہے۔۔۔ بہت ضروری ہے یہ۔۔۔ ورنہ پتا نہیں کیا ہو جائے گا۔۔۔ لیکن جتنا ہو سکے گا مجھے اس سے دور رہنا ہو گا۔۔۔ اسے منہ نہیں لگانا۔۔۔ اس سے کوئی بھی بات نہیں کرنی آئندہ۔۔۔ بس کرنا مجھے یہی ہے کہ اسے غصہ نہیں دلانا۔۔ جیسے اس دن دلایا تھا۔۔۔ اور جیسے آج دلایا تھا سے غصہ۔۔۔ جس کے بعداسنے میرا ریپ کیا تھا۔۔۔ ہاں شاید دونوں بار یہی غلطی ہوئی تھی مجھ سے۔۔۔ ورنہ شاید بات اتنی نہ بڑھتی اور وہ سب کچھ نا ہوتا جو ہو گیا۔۔۔ اور وہ بھی دو بار۔۔۔ بس آئندہ اسکے سامنے نہیں آنااور ناہی اسے غصہ دلانا ہے۔۔۔ ایسے ہی اپنی عزت بچ سکتی ہے بس۔۔۔ یہی فائنل ڈسیژن تھا اسکے دل اور دماغ کا۔۔۔

صبا کچھ دیر کے بعد اٹھی اور اپنے باتھ روم میں گئی۔۔۔ اور اپنے کپڑے اتارنے لگی ۔۔۔ صبا نے سب سے پہلےاپنی شرت اتاری ۔۔۔ جیسے ہی شرت اپنے سر سے اوپر کی تو اسکی کھلی ہوئی

برائزر بھی اسکی شرٹ کے ساتھ ہی اوپر کو آگئی۔۔۔ اس نے برائزر بھی اتار دی اور آخر میں اپنا پجامہ اتار دیا۔۔۔ جیسے ہی اپنا پجامہ اتارا تو اسکی نظر اپنے پجامے کے اپنی چوت والے حصے پر پڑی۔۔۔ جہاں پر اسکی چوت میں سے نکلنے والی میجر کے لن کی منی چپکی ہوئی چمک رہی تھی۔۔ اسکی چوت میں جو منی میجر نے ڈالی تھی وہ اب بہہ کر باہر آچکی ہوئی تھی اور اسکے پجامے کو گیلا کر دیا تھا۔۔۔ صبا اسے دیکھتی رہی۔۔۔ کمینے نے سب کچھ میرے اندر ہی ڈال دیا ہے ۔۔۔ اگر کچھ ہو گیا تو۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟

یہی سوچتے ہوئے پتا نہیں کیسے اسکی انگلی اپنے پجامے کی اسی جگہ پر پہنچی اور اس نے اپنی انگلی میجر کی منی پر پھیرنی شروع کر دی۔۔۔ کتنی گاڑھی ہے یہ۔۔۔ اشرف کی تو تھوڑی پتلی لگتی ہے اس میں تو چپکاہٹ بھی زیادہ لگ رہی ہے۔۔۔ عجیب سی ہے۔۔۔ کیسی بو آرہی ہے اس میں سے ۔۔۔ یہی سوچتے ہوئے صبا نے اس پجامے کو تھوڑا اوپر اپنے ناک کے پاس کیا اور سونگھنے لگی۔۔۔ لیکن اسی سونگھنے کے چکر میں صبا کے ناک کی نوک اس منی سے لگ گئی ۔۔۔ اور وہ منی صبا کی ناک پر۔۔۔ چھی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی۔۔۔ چھی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ۔۔۔ چھی ی ی ی ی ی ی ی ی۔۔۔ کیا ہو گیا ہے یہ مجھے۔۔۔ بے خیالی میں صبا نے اپنے اسی ہاتھ سے اپنی ناک کو صاف کرنا چاہا جس سے وہ میجر کی منی کوچھو رہی تھی۔۔۔ تو اس سے کام الٹا اور خراب ہو گیا۔۔۔ ناک پر سے منی صاف ہونے کے بجائے اسکے ہاتھ پر لگی ہوئی منی اسکے

ہونٹوں پر بھی لگ گئی۔۔۔ ابھی صبا کوئی کپڑا یا ٹشو اٹھانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اسکا فون بج اٹھا صبا چونک پڑی اور اِدھر اُدھر اپنا سیل ڈھونڈنے لگی۔۔۔ پھر بیڈ کی سائیڈ پر پڑا ہوا اپنا موبائل اٹھایا اور دیکھا تو کوئی ان ناؤن نمبر تھا۔۔۔ صبا نے اسے اگنور کر دیا۔۔۔ فون بند ہو گیا ۔۔۔ لیکن فوراً ہی پھر سے بجنے لگا۔۔۔ صبا نے اس بار خود فون کاٹ دیا۔۔۔ کیونکہ اشرف نے اسے سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ وہ کوئی بھی ان ناؤن نمبر اٹینڈ نہیں کرے گی۔۔۔ یہ بات اشرف کو بہت بری لگتی تھی۔۔۔ اور اشرف کی سخت تبیعت کی وجہ سے وہ اس سے ڈرتی بھی بہت تھی۔ لیکن تیسری بار جب فون دوبارہ بجا تو وب ڈرتے ڈرتے صبا نے کال اٹینڈ کی اور دھیرے سے بولی ۔۔۔ ہیلو۔۔۔ دوسری طرف سے آواز آئی ۔۔۔ کون بول رہا ہے۔۔۔ صبا ہے نا تو ۔۔۔ بتا جلدی۔۔۔ صبا گھبرا گئی ۔۔۔ کون ہے یہ جو ایسے بات کر رہا ہے۔۔۔ اور میرا نام بھی جانتا ہے کون ہو سکتا ہے یہ جسے بات کرنے کی تمیز بھی نہیں ہے ۔۔۔ اسکے دماغ میں جھماکا ہوا ۔۔۔ کہیں یہ میجر تو نہیں۔۔۔

صبا ؛ آآآآآآآآآآآآآآآ پ پ پ پ پ پ پ پ پ پ پ پ پ پ ک ک ک ک ک ک ک ک وووووووو ن ن ن ن ن ن ن ن ب ب ب وووووول ل ل رہ ہ ہ ہ ہے ہیں ں ں ں میجر ؛ اری کتیا جو پوچھ رہا ہوں وہ بتا کہ تو صبا ہے نا۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟

صبا ؛ جی۔۔۔ جی ی ی ی ی ی ی ۔۔۔ میں صبا ہوں پر ررررر آآآپ پ پ ک ک ک کون؟

میجر تو جیسے پھٹ ہی پڑا ؛ اری کتیا۔۔۔ رنڈی کی اولاد ۔۔۔ مہا رنڈی۔۔۔ ابھی میرے سے اپنی چوت چدوا کر آئی ہے اور اب مجھے پہچان نہیں رہی ہے۔۔۔؟ابھی تیرے فلیٹ میں آکے تجھے اپنا لن نکال کے دکھاؤں تو پھر مجھے پہچانے گی کیا ۔۔۔ حرامزادی۔۔۔

صبا ڈر گئی ۔۔۔ ووووہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ وووووو ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔ سوووررری ی ی ی ۔۔۔ مجھے پتا نہیں چلا تھا۔۔۔ کہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔ آآآآآآآپ پ ہیں۔۔۔ میں ان ناؤن نمبر نہیں لیتی نا۔۔۔ تووووو اسی لیے۔۔۔

میجر ؛ اری کتیا کی اولاد ۔۔۔ یہ ان ناؤن نمبر تیرے باپ کا ہے۔۔۔ تیری چوت کے چودوو کا نمبر ہے۔۔۔ آئندہ کبھی ایسا ہوا نا تو پھر دیکھنا تیری چوت ہی نہیں تیری گانڈ بھی ماروں گا۔۔۔ سالی کمینی ۔۔۔ بہن کی لوڑی۔۔۔

خوف کے مارے صبا کا گلا اور ہونٹ خشک ہونے لگے۔۔۔ اس نے اپنی زبان اپنے ہونٹوں پر پھیری ان کو گیلا کرنے کیلئے تو ۔۔۔ وہاں پر لگی ہوئی میجر کی تھوڑی سی منی اسکی زبان کو لگ گئی اور زبان کے ساتھ اسکے منہ میں میجر کی منی کا ذائقہ چلا گیا۔۔۔ ساتھ ہی صبا کا عجیب سا منہ بن گیا۔۔۔ اس کیلئے تو یہ نئی چیز ہی تھی نا۔۔۔ کبھی بھی اس نے ایسی گندی حرکت اشرف کے ساتھ نہیں کی تھی۔۔۔ اس نے تو کبھی چھوا بھی نہیں تھا اشرف کی منی کو تو چکھنا اور ٹیسٹ کرنا تو بہت ہی دور کی بات تھی۔۔۔ کیونکہ اشرف بھی ان سب خرافات سے دور ہی رہتا تھا

اور وہ خود بھی ایسی باتوں کو اچھا نہیں سمجھتی تھی۔۔۔

میجر ؛ کہاں دفعہ ہو گئی ہے۔۔۔ بند کر دیا ہے کیا فون تو نے۔۔۔

صبا ؛ نہیں نہیں ں ں ں۔۔۔ آآآآآپ پپ نے کیوں کیا ہے۔۔۔ فون ن ن ن ن۔۔۔

میجر ؛ چیک کرنے کیلئے کیا تھا فون کہ تو نمبر ٹھیک دے کر بھی گئی کہ مجھے چوتیا بنا گئی ہے۔۔۔ قسم سے اگر غلط نمبر ہو تا نا تیرا دیا ہوا تو اس وقت تیری میں گانڈ مار رہا ہوتا حرام کی جنی۔۔۔ میجر کے منہ سے ایسی گندی باتیں اور گالیاں سن سن کر اسے عجیب سا لگ رہا تھا۔۔۔ عجیب سی حالت ہو رہی تھی۔۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔۔۔ کیا اسکا فون کاٹ دے۔۔۔ نہیں نہیں میجر کی کال وہ کاٹ نہیں سکتی تھی ۔۔۔ کیونکہ یہ اسکا واحد مطلب اسے دوبارہ سے اپنا ریپ کرنے کی دعوت دینا تھا۔۔۔ اس نے خاموشی ہی اختیار کرنا بہتر سمجھا اسکی گالیوں کے بارے میں اس نے ایک بار پھر میجر کو سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔

صبا ؛ میجر صاحب پلیزززززز آپ ایسی باتیں نا کیا کریں مجھ سے۔۔۔ اچھا نہیں لگتا اااااا ۔۔۔

میجر ؛ کیسی باتیں نا کیا کروں میں ۔۔۔؟کیا اچھا نہیں لگتا تجھے۔۔۔؟

صبا ؛ یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ جو آآآپ گالیاں دیتے ہیں۔۔۔ مجھے اور میرے شوہر کو ۔۔۔ ووووہ ہ ہ ہ ہ ۔

میجر ؛ اری کتیا تو مجھے بتائے گی کہ تجھے کیا اچھا لگتا ہے اور کیا برالگتا ہے۔۔۔ میں کوئی تیرا عاشق

ہوں کیا جو دھیان رکھوں کہ ملکۂ حسن صاحبہ کو کیا برا لگتا ہے اور کیا اچھا۔۔۔ سالی ۔۔۔ اس کمینے گانڈو کو بتایا کر کہ تجھے کیا اچھا لگتا ہے اور کیا برا۔۔۔ میں تو جو میرے دل میں آئے گا وہی تجھے بولوں گا اور وہی تیرے ساتھ کروں گا۔۔۔ آئی سمجھ۔۔۔

صبا چپ ہو گئی ۔۔۔

میجر ؛ کیا کر رہی تھی تو۔۔۔؟؟

صبا ؛ جی جی جی جی ی ی ی ی ۔۔۔ جی ی ی ی ی ی ی ۔۔۔ وووووہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ نہانے جا رہی ی ی تھی ی ی ی ی ی۔۔۔

میجر ؛ اچھا اااااااااا ۔۔۔ پھر تو ننگی ہی ہوگی اس وقت تو۔۔۔بول ل ل ل ۔۔۔

صبا پھر شرم سے چپ رہی۔۔۔

میجر ؛ منہ سے کچھ بھونکے گی یا میں آؤں خود سے دیکھنے کہ کیسے کھڑی ہے تو۔۔۔

صبا اسکے آنے کا سن کر ڈر گئی۔۔۔ نہیں نہیں ں ں ں ں آپ نہیں ں ں ں ں پلیز ززززز ادھر نہیں ں ں ں ں ں ں ں ۔۔۔

میجر ؛ تو پھر بتا جلدی ننگی کھڑی ہے کیا۔۔۔؟؟؟

صبا ؛ جی۔۔۔

میجر ؛ اری بہن کی لوڑی ۔۔۔ جی۔۔۔ کیا ہوتا ہے۔۔۔ سیدھی طرح بتا نا۔۔۔

صبا ؛ جی۔۔۔ جی میں نے کہا کہ اتارے ہوئے ہیں کپڑے میں نے۔۔۔ نہانے کیلئے۔۔۔

میجر ہنستے ہوئے ۔۔۔ سالی تو ہے تو پکی رنڈی۔۔۔ ہروقت تجھے بھی ننگی رہنے کا شوق ہے ۔۔۔ ابھی مجھ سے ننگی ہو کے چدوا کے گئی ہو اور پھر سے ننگی کھڑی ہے۔۔۔ سچ سچ بتا کہ تیرے کسی یار نے تو نہیں آنا تجھے چودنے جو ننگی ہو کے انتظار کر رہی ہے۔۔۔؟؟؟

صبا ؛ نہیں ں ں ں۔۔۔ نہیں ں ں ں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ میرا کوئی دوست نہیں ہے

میجر ؛ تو پھر کیا اپنی چوت میں انگلی کر رہی ہے۔۔۔ سالی۔۔۔ جیسے میرے سامنے کر رہی تھی کتیا کی طرح جھک کر۔۔۔

صبا اسکی باتوں سے گرم ہو رہی تھی۔۔۔ اسکی چوت میں بھی عجیب سی سر سراہٹ پیدا ہو رہی تھی۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں ں ں ں ایسا کچھ نہیں کر رہی۔۔۔

میجر ؛ جا دفعہ ہو نہا جا کے۔۔۔ اور آئندہ جب بھی کال کروں تو جواب ضرور دینا۔۔۔ سمجھی۔۔۔

صبا ؛ جی۔۔۔ جی۔۔۔ میجرصاحب۔۔۔

اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی میجر نے فون بند کر دیا تھا۔۔۔ صبا نے فون بند ہونے کے بعد اس نمبر کو غور سےدیکھنا شروع کر دیا۔۔۔ اور چند لمحوں میں ہی جیسے وہ نمبر اسکے دماغ میں جم گیا۔۔۔فیڈ ہو گیا۔۔۔ میجر کا نمبر اسکے دماغ کے ہر ہر کونے میں فٹ ہو گیا۔۔۔جیسے کچھ دیر پہلے میجر کا لن اسکی چوت میں فٹ ہو چکا ہوا تھا۔۔۔

صبا نہانے کیلئے چلی گئی اور جیسے ٹھنڈے پانی کی پھوار اسکے جسم پر پڑی اور ٹھنڈا پانی بہتا ہوا اسکی گانڈ پر گیا تو ایک بار پھر تڑپ کر پانی سے باہر آگئی۔۔۔ اپنی گانڈ کو شیشے میں دیکھنےلگی۔۔۔ بالکل سرخ ہو رہی تھی اسکی گانڈ۔۔۔ جگہ جگہ سرخ نشان پڑے ہوئے تھے گوری گوری گانڈ پر صبا اپنی گانڈ کواپنے ہاتھوں سے سہلاتے ہوئے سوچنے لگی۔۔۔اب اسے کیسے چھپاؤں گی میں اشرف سے۔۔۔ دیکھ لیا اس نے تو کیا بتاؤں گی اسے۔۔۔ چھپانا ہی پڑے گا۔۔۔ آج بھی اسے اپنے پاس نہیں آنے دونگی۔۔۔ چودنے نہیں دونگی۔۔۔ ویسے بھی مجھے کونسی پیاس ہےآج چدوانے کی۔۔۔ آج ریسٹ کرونگی۔۔۔ اس کمینے نے چودا بھی تو اتنی بری طرح سے ہے نا۔۔ درد کر دیا ہے چوت کے اندر۔۔۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے اندر سے چھل گئی ہو۔۔۔ پتا نہیں ابھی آگے آگے کیا کچھ سہنا پڑے گا مجھے۔۔۔ اور کتنا ذلیل کرے گا وہ کمینہ۔۔۔ کتا۔۔۔

پہلے واقعہ کی طرح ہی اب پھر کچھ دن بلکل خاموشی سے گزر گئے۔۔۔ میجر کی طرف سے کوئی بھی غلط بات نا ہوئی اسکے ساتھ۔۔۔ جب بھی اسکا فون بجتا اور خاص طور پر اشرف کی موجودگی

میں توصبا کا دل دھک سے رہ جاتا۔۔۔ ایک ہی ڈر ہوتا کہ کہیں میجر کی کال نا ہو۔۔۔ لیکن ان دس دنوں میں میجر نے نا سے گیٹ پر روکا ، نا اسے کال کی اور نا ہی کوئی میسج کیا ۔۔۔ صبا نے بھی کچھ سکون کا سانس لیا کہ شاید اسکی جان چھوٹ گئی ہے۔۔۔ یا شاید اس پر ترس آگیا ہے اسکی حالت پر۔۔۔ لیکن پھر ایک روز کچھ غلچ ہو گیا ۔۔۔ بالکل ہی انجانے میں۔۔۔ صبا نے چاہا بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہو ۔۔۔ لیکن پھر بھی بس اچانک ہی ہو گیا۔۔۔

بدھ کا دن تھااور اشرف نے اپنی فیکٹری سے چھٹی لی ہوئی تھی اور گھر پر ہی ریسٹ کر رہا تھا۔۔ دونوں نے بڑی دیر میں اٹھ کر ناشتہ کیا اورپھر گپ شپ کرنے لگے ، ٹی وی دیکھنے لگے۔۔۔ دوپہر کے کھانے کے بعد قریباً پانچ بجے اشرف کو فیکٹری سے کال آئی اور اسے انہوں نے کسی ایمرجینسی کام کیلئے فیکٹری میں آنے کو کہا۔۔۔ اشرف نے بتایا کہ اسکی تو آج کی چھٹی ہے۔۔۔ لیکن اسکے باس نے کہا کہ یار آج کا صرف دو تین گھنٹےکا ایمرجینسی کام نمٹا دو آکے تو کل کی دوبارہ تم کو پوری چھٹی دے دوں گا۔۔۔ اس بات سے اشرف خاموش ہو گیا۔۔۔ اور ویسے بھی تو باس کی بات ماننا ہی پڑتی اب بونس میں ایک چھٹی اور مل رہی تھی تو اس نے بولا، ٹھیک ہے سر تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔۔۔

یہ بات اس نے صبا کو بتائی تو وہ بھی اداس ہو گئی ۔۔۔ لیکن اشرف نے اسے بتایا کہ بس چھ سے آٹھ بجے تک کام ہے صرف وہ جلدی آجائے گا اور اگلے دن اسے گھمانے لے جانے کا وعدہ کر

لیاتو وہ خوش ہو گئی۔۔۔ اشرف تیار ہوااور جانے کیلئے نکلا قریباً ساڑھے پانچ بجے۔۔۔ صبا اپنے معمول کے مطابق اشرف کو فلیٹ کے دروازے پر چھوڑنے آئی۔۔۔ بازار سے کچھ راشن منگوانا تھا وہ اسی کا بتا رہی تھی اور اشرف صبا کی طرف منہ کر کے اسکی بات سنتا ہوا اور اسے جوب دیتا ہوا سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہا تھا کپ اچانک سے اسکی ٹکر ہو گئی۔۔۔

اندھا ہو گیا ہے کیا۔۔۔ دیکھ کے نہیں چلا جاتا تجھ سے۔۔۔ میجر کی غصے سے بھری آواز آئی۔۔۔ صبا بھی گھبرا گئی اس اچانک سے ہوئے حادثے کو دیکھ کر۔۔۔ اشرف کو پتا تھا کہ اسکا قصور ہے اسی لیے میجر کی بکواس سن کر بھی وہ اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے بولا۔۔۔ سوری۔۔۔ میجر ؛ تیری سوری کی چوت ماروں۔۔۔ بہن چود سیدھا دیکھ کے چل۔۔۔ جا ادھر رہا ہے اور دیکھ پیچھے اس گشتی کو رہا ہے۔۔۔ رات دل نہیں بھرا تو دوبارہ اندر لے جا یوں سرِ عام لیلٰی مجنوں کا تماشا تو نا لگا۔۔۔

میجر کی یہ بات سن کر تو اشرف کا خون ہی کھول اٹھا۔۔۔ اسے پتا تھا کہ وہ میجر کے مقابلے کا نہیں ہے لیکن پھر بھی اپنی غصے والی نیچر سے مجبور ہو کر اس نے میجر کا گریبان پکڑ لیا۔۔۔ اوریہی تھی غلطی جو اس سے ہو گئی۔۔۔ اور اسکا نتیجہ اگلے ہی لمحے اسے مل گیا جب میجر کا زور کا ایک گھونسہ اسکے منہ پر پڑا۔۔۔ نا اشرف کچھ سمجھ سکا اور نا ہی صبا کو بات کرنے اور بچ بچاؤ کرانے کا وقت ملا۔۔۔ اشرف کا نچلا ہونٹ پھٹ گیا اور ہونٹ سے خون جاری ہو گیا۔۔۔ اسکا ہاتھ بھی

میجر سے پیچھے ہٹ چکا تھا اور وہ اسکے اچانک کے مکے کی وجہ سے پیچھے کو لڑکھڑا بھی گیا تھا۔۔۔ اشرف دوبارہ سے آگے کو بڑھا تو صبا نے فوراً ہی اسےپکڑ لیا۔۔۔ اسے پتا تھا کہ اگر پھر اشرف آگے گیا تو دوبارہ سے میجر اشرف کا وہی حشر کرے گا۔۔۔

صبا ؛ نہیں اشرف نہیں۔۔۔ پلیز کچھ نہیں کرنا۔۔۔ اسکے منہ مت لگو۔۔۔ چلو اندر چلو۔۔۔ اشرف ؛ کمینے۔۔۔ حرامزادے دیکھ لونگا تجھے۔۔۔

میجر ؛ ابے جا بے جا ۔۔۔ تو کیا دیکھے گا مجھے۔۔۔ دیکھنا ہے تو ابھی آجا۔۔۔ پتا نہیں کیوں اپنی اس چکنی چمبیلی کے سامنے ہیرو بننے کی کوشش کرتا رہتا ہے تو۔۔۔

صبا ؛ اشرف اندر چلو۔۔۔

میجر ؛ ہاں ہاں لے جا اسے اندر ۔۔۔ اور نکال اسکی گرمی جو اسکےدماغ کو چڑھ رہی ہے۔۔۔ اشرف خود کو چھڑانے کیلئے زور لگاتے ہوئے ۔۔۔ کمینے۔۔۔ تیری تووووووووو۔۔۔

میجر ؛ چل چل بچے شاباش جا اندر جا۔۔ اپنی اس رانڈ سے مٹھ مروا جا کے اگر کھڑا ہوتا ہے تیرا تو صبا نے ایک نظر غصے سے میجر کی طرف دیکھا اور اشرف کو اندر لے کر اپنا دروازہ بند کر کے اشرف کو سیٹنگ روم میں لے آئی اور صوفے پر بٹھا دیا۔۔۔ اپنے دوپٹے سے اسکے نچلے ہونٹ سے نکلتا ہوا خون صاف کرنے لگی۔۔۔ پھرصبا نے اسے پانی لا کر دیا۔۔۔

صبا ؛ اشرف آپ فیکٹری فون کر دو کہ آپ نہیں آ سکتے۔۔۔

اشرف ؛ کچھ ٹھنڈا پڑتے ہوئے ۔۔۔ ارے نہیں یار ۔۔۔ کچھ نہیں ہوا ٹھیک ہوں میں ۔۔۔ تھوڑا سا کام ہے ابھی کر کے آتا ہوں۔۔۔

صبا فوراً ہی اٹھی اور جلدی سے اشرف کیلئے جوس کا ایک گلاس لے آئی اور اسے پینے کیلئے دیا۔۔ اشرف نے جوس پیا اور پھر اپنی فیکٹری کیلئے نکل گیا۔۔۔ اس بار بنا کچھ اور خرابی ہوئے۔۔۔ اشرف کے جانے کے بعد صبا گھر میں بہت ہی پریشان بیٹھی تھی۔۔۔ اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا کہ اگر کہیں اس وقت وہ کمینہ آدمی کچھ اور اسکے بارے میں بول دیتا تو۔۔۔؟ میری تو حالت خراب ہو رہی تھی۔۔۔ حالت تو اس نے اشرف کی بھی خراب کر دی تھی۔۔۔ کتنی زور کا مکا مارا تھا اس ذلیل نے اشرف کو۔۔۔ اور۔۔۔ اور اشرف کچھ بھی نہیں کر سکا۔۔۔ وہ بیچارا کرتا بھی کیا۔۔۔ کیسے اسکا مقابلہ کر سکتا تھا۔۔۔ اسکا جسم تو پتھر کی طرح سخت ہے۔۔۔ دیکھ تو چکی ہوں چھو کر۔۔۔ اتنی بار۔۔۔ شکر ہے کچھ زیادہ نہیں مارا اس نے اشرف کو۔۔۔ آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا اشرف کو گئے ہوئےاور وہ بیٹھی چائے پی رہی تھی اور اسی بات کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔ شاید منصور صاحب کی بیٹی آئی ہو۔۔۔ صبا نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے سوچا۔۔۔ دروازہ کھولا تو۔۔۔ سانس ہی حلق میں جیسے اٹک سا گیا ۔۔۔ وہی ہوا جسکا اسے شام سے ڈر لگا ہوا تھا۔۔۔ غصے سے لال ہو رہے چہرے۔۔۔

اورہاتھ میں اپنی سٹک پکڑے ہوئے۔۔۔ میجر کھڑا تھا۔۔۔ بنا کوئی بات کیےاور بنا کوئی اجازت لیے اس نے صبا کو ایک طرف دھکیلا اور اسکے فلیٹ میں گھس گیا۔۔۔

صبا ؛ ک ک۔۔۔ ک ک کک۔۔۔ ککدھر۔۔۔

صبا حیران پریشان کھڑی پیچھے سے اسے بس آہستہ سے کہہ سکی۔۔۔ لیکن میجر بنا کوئی بات سنے اسکے فلیٹ کے سیٹنگ روم میں جا چکا تھا۔۔۔ صبا نے ڈرتے ڈرتے باہر کوریڈور میں اِدھر اُدھر نظر ڈالی اور کسی کو نا پا کر سکون کی سانس لی۔۔۔ اور پھر خود کو میجر کی عدالت میں پیش کرنے کیلئے کانپتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ سیٹنگ روم کی طرف چل پڑی۔۔۔ تھری سیٹر صوفےپر میجر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ اپنے دونوں پیر اپنے بوٹ سمیت اس نے سامنے کی ٹیبل کے اوپر رکھے ہوئے تھے۔۔۔ اسکے بوٹوں سےمٹی اسکی ٹیبل پر گر رہی تھی۔۔۔ ایک ہاتھ میں پکڑی ہوئی اپنی سٹک دوسرے ہاتھ پر مار رہا تھا۔۔۔ اسکے چہرے سے اسکا غصہ صاف نظر آرہا تھا۔۔۔ صاف لگ رہا تھا کہ اسکا موڈ بہت زیادہ خراب ہے۔۔۔ کیا آج پھر۔۔۔ پھر آج مجھے سزا بھگتنا پڑے گی اس ظالم کو برداشت کرنا پڑے گا۔۔۔ صبا اپنے سیٹنگ روم میں آئی اورایک طرف پڑے ہوئے سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔

میجر ؛ تجھے کسی نے کہا ہے کہ بیٹھ۔۔۔ اور رنڈی ہو کے تو میرے برابرمیں بیٹھے گی۔۔۔؟

صبا کے جسم کو بجلی کا جیسے جھٹکا سا لگا اور اگلے ہی لمحے بنا میجر کے کہے ہی وہ فوراً سے کھڑی ہو گئی

وہ کھڑی ہو چکی تھی اور اب اسکے دماغ میں آرہا تھا کہ کیا میں اپنے ہی گھر میں اپنے ہی صوفے پر نہیں بیٹھ سکتی اور یہ کیسے اپنے پیر پھیلا کر بیٹھا ہے میرے سامنے۔۔۔ صبا کو غصہ تو آیا لیکن اسنے سوچ لیا کہ وہ میجر کو مزید غصہ دلائے بنا ہی معاملہ ٹھیک کرنے کی کوشش کرے گی اور اشرف کی طرف سے خود معافی مانگ لے گی۔۔۔

میجر ؛ لگتا ہے تم لوگوں کو عزت سے رہنا نہیں آتا۔۔۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی پنگا کیے رہتے ہو میرے ساتھ۔۔۔

صبا ؛ وہ ہ۔۔۔ وہ۔۔۔ میجر صاحب میں آپ سے معافی مانگتی ہوں۔۔۔ اشرف کی طرف سے۔ جو بھی ہوا وہ بس ایک حادثہ تھا۔۔۔ لیکن پھر بھی آپ ہمیں معاف کر دیں۔۔۔ پلیززززز۔۔

میجر ؛ نہیں۔۔۔ اب معافی کوئی نہیں۔۔۔ اب تو کچھ نہ کچھ بندوبست کرنا ہی پڑے گا تم لوگوں کا پتا نہیں وہ گانڈو خود کو سمجھتا کیا ہے۔۔۔ اپنی بیوی کو چودنے کیلئے اسکا لن اٹھتا نہیں ہے اور میرے ساتھ لڑنے کو شیر ہے۔۔۔ ابھی میں ایک فون کر دوں ناتو میرے بندے اسے راستے سے ہی غائب کر دیں گے ۔۔۔ پھر بیٹھی دیکھتی رہنا کہ کب آتا ہے واپس۔۔۔

صبا میجر کی یہ بات سن کر ڈر گئی۔۔۔ اگر سچ میں اسے کچھ ہو گیا تو وہ تو جیتے جی مر جائے گی۔۔۔ اور میجر جیسے ظالم اور بدمعاش ٹائپ کے بندے سے کچھ بھی امید رکھی جا سکتی ہے۔۔۔ وہ کچھ بھی نقصان پہنچا سکتا تھا اشرف کو۔۔۔

صبا تڑپی۔۔۔ نہیں نہیں میجر صاحب پلیز نہیں۔۔۔ معاف کر دیں ہمیں۔۔۔ کچھ ایسا نا کیجیے گا پلیززززززز ۔۔ آپ کہتے ہیں تو ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔۔ لیکن آپ اشرف کو کچھ نا کہنا

میجر ؛ نہیں بہت ہو گیا ہے برداشت۔۔۔ اسکا گلا کاٹنے کے بعد تجھے بھی میں کسی کوٹھے پر بیچ دونگا پھر ساری زندگی رنڈی کی طرح گزارنا۔۔۔

صبا کا دل ڈوبنے لگا۔۔۔ اسکے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہونے لگے۔۔۔ جیسے اسکے جسم سے جان ہی نکلنے والی ہو۔۔۔ میجر کے غصے کودیکھ کر اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ سیریس ہے۔۔۔ صبا بری طرح سے ڈر چکی تھی۔۔۔ وہ کسی بھی طرح سے میجر کو روکنا چاہتی تھی اپنے ارادے سے ۔۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھی اور اسکے سامنے نیچے زمین پر بیٹھ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ اسکے بوٹوں پر رکھ کر بولی۔۔۔

صبا ؛ میجر صاحب پلیز پلیز ہمیں معاف کر دیں۔۔۔ میں آپ کے پاؤں پڑتی ہوں۔۔۔ پلیز ہمیں معاف کر دیں۔۔۔ آئندہ کچھ بھی غلط نہیں ہو گا۔۔۔ کبھی بھی آپ کے سامنے نہیں آنے دونگی اشرف کو۔۔۔ پلیز آپ اسکی جان بخش دیں۔۔۔

صبا دونوں ہاتھوں سے میجر کے بوٹ پہنے ہوئے پیروں کو پکڑے ہوئے تھی اور معافی مانگ رہی تھی۔۔۔ اسکی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے تھے۔۔۔ جیسے جیسے وہ کمزور پڑ رہی تھی ۔۔۔ ویسے ویسے ہی میجر کا غصہ تیز ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ یا پھر جیسے جیسے میجر کا غصہ تیز ہوتا جا رہا تھا

ویسے ویسے ہی وہ کمزور پڑتی جا رہی تھی۔۔۔ میجر نے اپنا بوٹ صبا کے کنڈھے پر رکھا اور اسے اپنے پیر سے زور سے پیچھے دھکا دے دیا اور صبانیچے فرش پر پیچھے جا گری۔۔۔ اسنے اٹھنے کی کوشش نہیں کی ۔۔۔ وہیں پڑی سسکتی رہی۔۔۔ روتی رہی۔۔۔ میجر کھڑا ہو گیا اور اپنا موبائل نکال کر کوئی نمبر ملانے لگا۔۔۔

میجر ؛ بس ایک کال کرنے کی دیر ہے میری ۔۔۔ بس تھورا سا صبر کر لے ۔۔۔ پھر شام کو تجھے وہ ہیجڑا نہیں اس ہیجڑے کی لاش ملے گی۔۔۔

صبا نے جیسے ہی میجر کو نمبر ڈائل کرتے ہوئے دیکھا تو اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تو وہ اپنے بے جان ہوتے ہوئے جسم کو گھسیٹتی ہوئی میجر کی طرف بڑھی اور اسکے بوٹوں پراپنا سر رکھ دیا اور تڑپی۔۔۔

صبا ؛ میجر صاحب پلیز ایسا نا کریں۔۔۔ ہم تباہ ہو جائیں گے۔۔۔ پلیز ہمیں معاف کر دیں۔۔۔ میں آپ سے آخری بار معافی مانگتی ہوں۔۔۔ معاف کر دیں۔۔۔ پلیز صرف ایک موقع دے دیں۔۔۔ آئندہ کچھ بھی غلط نہیں ہو گا۔۔۔ پلیز ززززززززززز میجر صاحب۔۔۔

صبا اپنا ماتھا میجر کے بوٹوں پر رگڑ رہی تھی۔۔۔ اسکی آنکھوں سےآنسو نکل کرمیجر کے بوٹوں پر گر رہے تھے۔۔۔ میجر کے چہرے پر کافی دیر کے بعد اب تھوڑی مسکراہٹ آئی تھی لیکن وہ ابھی بہت ہی گندی۔۔۔ گھناؤنی ۔۔۔ اور حقارت سے بھری ہوئی۔۔۔

میجر ؛ کیسے تو اور تیرا شوہر مجھے ذلیل اور گھٹیا سمجھتے تھے نا اب دیکھ کیسے تو میرے بوٹوں پر جھکی ہوئی ہے۔۔۔ معافی مانگ رہی ہے۔۔۔ بول اب کون ذلیل ہے۔۔۔ میں یا تم لوگ۔۔۔؟؟ صبا روتی رہی ۔۔۔ اسکے پیروں کوپکڑے ہوئے۔۔۔

صبا ؛ آپ ۔۔۔ جو بھی سزا دیں گے مجھے منظور ہے۔۔۔ لیکن پلیز اشرف کو چھوڑ دیں۔۔۔

میجر اب تھوڑا ٹھنڈا ہوتے ہوئے ۔۔۔ چل اٹھ کر کھڑی ہو جا ۔۔۔

صبا جلدی سے کھڑی ہو گئی ۔۔۔

میجر ؛ اپنی یہ رونی صورت صاف کر جلدی۔۔۔ پھر کچھ سوچتا ہوں۔۔۔

صبا نے جلدی سے نیچے فرش پر پڑا ہوا اپنا دوپٹہ اٹھا یا اور اس سے اپنے آنسو اور آنکھیں صاف کرنے لگی۔۔۔ پھر میجر کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ جو دوبارہ صوفہ پر بیٹھ چکاتھا۔۔۔

میجر ؛ اتنی منتیں کر رہی ہے تو اس بار معاف کر رہا ہوں۔۔۔ لیکن تیرے اس شوہر کو ضرور سزا دونگا میں۔۔۔ یہیں پر آج ہی۔۔۔ اور اسے بھی معافی مانگنی پڑے گی ۔۔۔ اس کے آنے تک میں یہیں بیٹھا ہوں بس۔۔۔

صبا کے پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی۔۔۔ یہ بھی کچھ کم خطرناک بات نہیں تھی۔۔۔ اگر اشرف میجر کو اس کے پاس اپنے فلیٹ میں دیکھ لیتا تو ۔۔۔ تو کچھ بھی غلط ہو سکتا تھا۔۔۔

اور اشرف تو کسی بھی قیمت پر معافی نہیں مانگتااور اس کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ۔۔۔ اسکے شوہر کی اور پٹائی۔۔۔ آخر اشرف میں بھی اس سانڈ کی طرح طاقت کیوں نہیں ہے ۔۔۔ کیوں مردار سا ہے اسکا جسم۔۔۔ صبا کو پہلی بار اشرف پر غصہ آیا ۔۔۔ کس حد تک ذلیل ہوتی رہوں میں اس کو بچانے کیلئے۔۔۔ بہر حال اسے ذلیل تو ہونا ہی تھا۔۔۔ وہ بولی۔۔۔

صبا ؛ میجر صاحب پلیز ززز۔۔۔ میں آپ سے معافی مانگ لیتی ہوں ۔۔۔ جو بھی سزا دینی ہے آپ نے وہ آپ مجھے دے دیں۔۔۔ اشرف کو چھوڑ دیں۔۔۔ اسکی جگہ میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔۔۔

صبا یہ اشرف کی جگہ خود کو سزا دینے کی بات کر تو رہی تھی لیکن اسے اندر سے یہ بھی ڈر تھا کہ پتا نہیں اسکی سزا کیا ہو گی۔۔۔

میجر ؛ اگر تو خود ہی سزا بھگتنا چاہتی ہے تو سن۔۔۔ میری کچھ شرائط ہیں۔۔ جو تم کو ماننی پڑیں گی صبا چونک کر میجر کو دیکھنے لگی۔۔۔

میجر ؛ پہلی شرط یہ ہے کہ تو اپنی بالکنی کا دروزہ ہمیشہ ہی کھلا رکھے گی۔۔۔ چاہے دن ہو یا رات۔ چاہے اکیلی ہو یا اس گانڈو کے ساتھ۔۔۔

صبا نے خاموشی سے ہاں میں اپنا سر ہلا دیا۔۔۔

میجر ؛ دوسری شرط یہ ہے کہ تو اپنے فلیٹ کی ایک ایکسٹرا چابی مجھے دے گی تاکہ جب میرا دل کرے میں آسکوں اندر۔۔۔

صبا ھیران ہوئی کہ بالکنی کا گیٹ کھلا رکھوانے کے بعد اسے چابی کی کیا ضرورت تھی وہ تو بالکنی سے بھی جب دل کرتا آسکتا تھا اندر ۔۔۔ بات تو ٹھیک تھی صبا کی لیکن۔۔۔ صبا سے اس کے ہی فلیٹ کی ایکسٹرا چابی اسی کے ہاتھوں لینے کا مقصد اسکا مکمل سرنڈر تھا۔۔۔ خود کو مکمل طور پر اسکی غلامی میں دینا اور اس بات کو خود تسلیم کرنا تھا اور یہی اس کیلئے دماغی شکست تھی۔۔۔ صبا چپ رہی تو ۔۔۔

میجر ؛ جلدی بول۔۔۔ منظور ہے کے نہیں دوسری شرط۔۔۔

صبا نے کچھ دیر سوچا اور پھر ٹی وی ٹرالی کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ دراز کھولی اور اس میں سے ایک چابی لا کر اس نے میجر کے سامنے ر کھ دی۔۔۔ میجر مسکرانے لگا۔۔۔ صبا کی بے بسی پر۔۔۔ اس کے مکمل سرنڈر پر۔۔۔ اسکے مکمل طور پر خود کو اسکے سپرد کر دینے پر۔۔۔

میجر ؛ شاباش۔۔۔ تیسری اور آخری شرط۔۔۔ تجھے میں جو بھی حکم دونگا تو اسے مانے گی۔۔۔ بنا کوئی انکار کیے۔۔۔

صبا پھر سے چونک پڑی۔۔۔ اس آخری شرط میں تو اس چالاک میجر نے سب کچھ ہی شامل کر

لیا تھا بنا کسی بھی چیز کو اوپن کیے ہوئے۔۔۔ صبا اس بات پر احتجاج کرنا چاہتی تھی لیکن نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ اور کیا بھی نہیں۔۔۔ بس خاموشی سے اپنا سر ہاں میں ہلا دیا۔۔۔ کیونکہ فلحال وہ اس سے اپنی جان چھڑانا چاہتی تھی اور چاہتی تھی کہ وہ جلدی سے یہاں سے چلا جائے۔۔۔ سات بجنے والے تھے۔۔۔ آدھا پونا گھنٹہ ہو چکا تھا اسے آئے ہوئے اور اب اشرف کی واپسی میں بھی تھوڑا ہی ٹائم باقی تھا۔۔۔

میجر ؛ یہ ہوئی نا بات۔۔۔ اب یاد رکھنا کسی بھی شرط کی تم نے خلاف ورزی کی تو پہلے تو میں تمہاری زندگی خراب کرونگا ۔۔۔ تیری ساری ویڈیوز تیرے شوہر اور بلڈنگ میں سب کو دکھا کر اور پھر اس کے بعد تیرے شوہر کی زندگی بھی گئی۔۔۔ سمجھی۔۔۔؟؟؟

صبا نے خوفزدہ ہو کر اپنا سر ہلا دیا۔۔۔

میجر ؛ تو نے بولا ہے نا کہ تیرے شوہر کی جگہ بھی تجھے ہی سزا دوں۔۔۔ تو چل پھر جلدی سے اپنے کپڑے اتار دے۔۔۔

صبا چونک پڑی اور ایک نظر میجر کو دیکھ کر خاموشی سے نیچے دیکھنے لگی۔۔۔ وہ ایک بار پھر سے رونے والی ہو رہی تھی۔۔۔ اسے یقین نہیں تھا کہ ایک بار پھر سے اسے وہی کچھ کرنا پڑے گا اور اس بار خود کو نہیں اپنے شوہر کو بچانے کیلئے۔۔۔

میجر غصے سے بولا۔۔۔ چپ کیوں کھڑی ہے سالی۔۔۔ چل جلدی کر جو کہا ہے تجھے۔۔۔

صبا ڈرتے ہوئے بولی۔۔۔ پلیز میجر صاحب یہ مت کریں۔۔۔ پلیز دوبارہ سے نہیں۔۔۔

میجر ؛ ابھی ابھی تجھے سمجھایا تھا کہ مجھے کسی بات کا انکار نہیں کرنا اور تو ابھی سے بھول گئی ہے سب کچھ۔۔۔ اگر نہیں اتارتی تو ٹھیک ہے ۔۔۔ نا اتار۔۔۔ میں یہیں بیٹھا ہوں تیرے شوہر کے آنے تک۔۔۔ پھر اسی سے ہی سارا حساب پورا کرونگا۔۔۔ تیرے سامنے اور اس کے بعد تیرا حساب بھی اسی کے سامنے ہی برابر کرونگا۔۔۔ تھوڑی دیر ہے نہ بس اب تو آنے میں اس کو۔ صبا نے گھڑی کی طرف دیکھا تو وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور اسے اپنے شوہر کے آنے کا بھی ڈر تھا۔۔۔ اس جانور سے کسی رحم کی کوئی امید نہیں تھی اسے۔۔۔ وہ کچھ بھی کہہ سکتا تھا ۔۔۔ کچھ بھی کر سکتا تھا اور جو کچھ وہ کر سکتا تھا وہ صبا اچھے سے جانتی تھی۔۔۔ اس کی ٹانگیں کمزور پڑنے لگیں۔۔۔ ہاتھ کانپنے لگے۔۔۔ صبا نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا لیکن جیسے ہی میجر نے گھور کر اسے دیکھا تو اس کا منہ بند ہو گیا اور اس کے ہاتھ اپنی شلوار کی طرف بڑھ گئے۔۔۔ سب کچھ تو یہ کمینہ دیکھ چکا ہے اب اس سے چھپانے کا فائدہ۔۔۔ اور چھپاؤں بھی کیا۔۔۔ صبا نے کانپتے ہاتھوں سے اپنی شلوار نیچے کھینچ دی اور اپنے پیروں سے نکال دی۔۔۔ اسکی شرٹ اسکی رانوں تک لٹک رہی تھی اور اس سے نیچے اسکا جسم۔۔۔ گوری گوری ٹانگیں ننگی تھیں۔۔۔

میجر ؛ یہ ہوئی نا سمجھداری کی بات۔۔۔ چل اب اپنی شرت بھی اتار دے۔۔۔ شاباش۔۔۔

صبا نے اب بنا کچھ سوچے اپنی شرٹ کو پکڑا اور اسے اوپر کو اٹھانے لگی اور اگلے ہی لمحے صبا اپنے ہی فلیٹ کے سیٹنگ روم میں۔۔۔ میجر کے سامنے ننگی۔۔۔ صرف بلیک کلر کی برا میں کھڑی تھی۔۔۔ اپنے فلیٹ میں بھی کبھی اشرف نے اسے بیڈروم کے علاوہ کہیں بھی ننگا نہیں کیا تھا۔ اس طرح سیٹنگ روم میں کھلے میں ننگی ہونے پر ۔۔۔ صبا کو عجیب سا لگنے لگا۔۔۔ اس نئی چیز کی وجہ سے اس کے جسم میں کچھ سنسناہٹ سی ہونے لگی۔۔۔ آج تیسری بار میجر کے سامنے ننگی ہو رہی تھی۔۔۔ اس کے دماغ میں وہی فلم چل رہی تھی کہ ایک بار پھر سے میجر کا موٹا لن اسے چودے گا۔۔۔ بلیک برا اسکے گورے گورے جسم پر بہت ہی پیارا لگ رہا تھا۔۔۔ ہاف کپ برا تھی جس میں اسکے آدھے سے زیادہ ممے ننگے ہو رہے تھے اور بہت ہی خوبصورت لگ رہے تھے۔۔۔ صبا سمجھ چکی تھی کہ اب میجر دوبارہ سے اسے چودے گا۔۔۔ اسی طرح سے جیسے پہلے دوبار چود چکا ہے۔۔۔ اپنے موٹے لن کو اسکی تنگ اور ٹائٹ چوت میں ڈال کر۔۔۔ یہ خیال آتے ہی اسکی پھدی میں عجیب سی ہلچل ہونے لگی۔۔۔ گد گدی سی ہونے لگی اسکی پھدی میں اور اس بات کو صبا جانتے ہوئے بھی جھٹلانا چاہتی تھی۔۔۔

میجر ؛ چل ادھر میرے پاس آ کہ کتیا بن جا۔۔۔

صبا کمزور قدموں سے چلتے ہوئے میجر کی طرف بڑھی اور اسکے سامنے نیچے فرش پر اپنے گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل ہو کر کتیا کی پوزیشن میں آگئی۔۔۔ میجر کی طرف منہ کر کے۔۔۔

میجر ؛ سالی ۔۔۔ میرا لن چوسنا ہے کیا جو میری طرف منہ کر ک کھڑی ہو گئی ۔۔۔ کتیا۔۔۔ چل دوسری طرف منہ کر اور اپنی گانڈ میری طرف کر۔۔۔

صبا نے جلدی سے دوسری طرف منہ کیا اور میجر کی طرف اب اسکی گانڈ تھی۔۔۔ میجر کے سامنے اس سے دو یا تین فٹ کے فاصلے پر صبا اپنے ہی فلیٹ میں میجر کے سامنے ننگی حالت میں کتیا کی طرح جھکی ہوئی کھڑی تھی۔۔۔ میجر صبا کی گوری گوری ۔۔۔ ملائم۔۔۔ بنا کسی داغ اور نشان کےبالکل صاف گانڈ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اسکی گانڈ کے دونوں ابھار آپس میں ملے ہوئے تھے اس سے نیچے دراڑ میں جاتی ہوئی اسکی ٹائیٹ پھدی کے آپس میں بری طرح سے ملے ہوئے ہونٹ صاف نظر آرہے تھے۔۔۔ گانڈ سے اوپر اسکی خوبصورت پتلی کمر بھی بالکل ننگی اور چکنی تھی۔۔۔ اسکی کمر پر اسکی بلیک برا کے اسٹریپس بہت ہی سیکسی لگ رہے تھے۔۔۔ میجر نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی اپنی سٹک کے چمڑے کے فلائپر کو صبا کی گانڈ پر آہستہ آہستہ پھیرنا شروع کر دیا۔۔۔

واہ ۔۔۔ کیا مست گانڈ ہے تیری۔۔۔ کتنی ملائم ہے۔۔۔ سالی اپنے شوہر کو کہا کر نا کہ تیری گانڈ بھی مارا کرے۔۔۔

چمڑے کا چمکیلا ٹھنڈا ٹکڑا صبا کی گرم گرم گانڈ پر آہستہ آہستہ رینگ رہا تھا۔۔۔ چھو رہا تھا اور صبا کے پورے جسم میں عجیب سی حالت ہو رہی تھی۔۔۔ ایک گد گدی سی۔۔۔

ایک مستی کی لہر سی اسکی گانڈ سے اٹھ کر پورے جسم میں پھیل رہی تھی۔۔۔

 

جاری ہے۔۔۔۔

 

  

ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے

THANKS DEAR